پاکستان میں لکھا جانے والا افسانہ اپنے مخصوص کلچر، نظریہ حیات ‘ طرز فکر اور اپنے ماحول کے رویوں سے وجود میں آنے والے کرداروں کے اعتبار سے بھارتی افسانے سے کہیں نہ کہیں مختلف ضرور ہے۔
ادیب اور تخلیقی مواد
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی فن یا ادب اپنے ماحول سے بے نیاز رہ کر تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ فن کار یا ادیب اپنی تخلیق کا کل مواد اپنے گرد و پیش سے حاصل کرتا ہے۔ اور جس معاشرے میں وہ زندگی بسر کرتا ہے، اس کے بالعموم تمام عناصر اس کی شخصیت میں محفوظ رہتے ہیں۔
اس بات کو یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ انسانی ذہن اور تجربہ پچھلی نسلوں کے تجربات ، احساسات اور مزاجی کیفیات کو بھی اپنے شعور میں محفوظ رکھتا ہے۔ جب ذہن یا جذبے میں کوئی تحرک پیدا ہوتا ہے تو صدیوں سے جمع ہونے والے احساسات و تجربات اظہار کی سطح پر نمودار ہو جاتے ہیں اور انسانی ذہن اور تجربے کو بہت سے زاویے مہیا کر دیتے ہیں۔
گویا اپنی تمام تر فکری و ذہنی بے نیازی کے باوجود فن کار یا ادیب ان تجربوں سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔ جن کا مشاہدہ اس نے گرد و پیش میں پھیلی ہوئی زندگی سے کیا ہے۔ یا جو اس کے مزاج میں شامل رہے ہیں۔
ایک حساس اور صاحبِ بصیرت فرد ہونے کی حیثیت سے اسے اس کے گرد رونما ہونے والے واقعات و حوادث، سیاسی ، تہذیبی اور معاشی عوامل اپنے اپنے زور و اثر کی حد تک اپنی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح وہ اس ماحول یا اس کی ارضیت کو ، جو اس کے وجود میں رچ بس جاتی ہے….. اپنی شخصیت سے جدا نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس کے رگ و پے سے منسلک ماحول اس کی تخلیق میں بھی سرایت کر جاتا ہے۔
ادیب کی فکر اور تخلیق پر ماحول کا اثر
ادیب اپنے ماحول میں اپنے جذبات و احساسات کے ساتھ اس طرح پیوست رہتا ہے کہ جہاں وہ اپنے باطن کا اظہار کرتا ہے۔ وہیں وہ اپنے ماحول کو بھی اپنے محسوسات کا روپ دے کر پیش کرتا ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس کا ماحول یا اس کے حوادث و واقعات کہیں راست واضح اور قابل فہم صورت میں سامنے آئیں اور کہیں تجرید یا علامت کے پردے میں چھپ کر اپنی جھلک دکھا دیں۔
پھر یہ موجودہ ذرائع ابلاغ میں ادیب کے ماحول کی وسعت ہی ہے کہ وہ اپنے ملک کے ہر گوشے اور خطے بلکہ بیرون ملک دنیا کے دور افتاده و دور دراز علاقوں کے حوادث کی باز گشت بھی اپنے وجود میں محسوس کرتا رہتا ہے۔ اور انھیں اپنی فکر اور تخلیقات کا موضوع بناتا ہے۔
ہم اپنے ملک کے تناظر میں بھی یہ بات بڑے اعتماد اور اصرار کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے۔ اس میں نہ صرف یہاں کی مٹی کی خوشبو بسی ہوئی ہے بلکہ اس ملک کے تمام معاشرتی و سیاسی نشیب و فراز ، المیے و طربیے اور اہم اہم حادثات و سانحات کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہیں۔ مگر کہیں واضح اور کہیں علامت اور استعارے کا لبادہ اوڑھے ہوۓ۔
ادب میں پاکستانیت
ایک عرصہ قبل ادب میں پاکستانیت کے مسئلے نے بہت سے ذہنوں کو سوچنے پر آمادہ کیے رکھا تھا۔ جو کچھ اس مسئلے پر کہا گیا اس کا لب لباب یہ تھا کہ ہمارا ادب ہماری روحانی قدروں اور امنگوں کا ترجمان ہو۔ اس میں ہمارے نظریہ حیات کی روح موجود ہو اور وہ ان مقاصد کی ترغیب دے ، جو اس ملک کے قیام کے وقت پیش نظر تھے، اور جو اس ملک سے محبت کے جذبات پیدا کرے۔
یا مختصر لفظوں میں پاکستانیت کے عام معنی میں ہو سکتا ہے کہ ادب میں وہ قومی روح منعکس کی جاۓ جو نظریہ پاکستان میں موجود ہے۔ اس کے بر عکس یہ تعریف بھی کی گئی کہ پاکستانیت ارضی رشتوں سے اس طرح منسلک رہے کہ اس کے سلسلے موہن جو دڑو اور گندھارا تک پہنچیں اور مذکورہ تہذیبوں کے نام نہاد کلچر کو بھی اپنا کلچر قرار دیا جائے!
ان تعریفوں سے قطع نظر کہ جن کا یہاں میں نے احاطہ بھی نہیں کیا۔ پاکستانیت محض ایک سیاسی جغرافیائی اصطلاح نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تہذیبی نظریاتی معنی بھی رکھتی ہے ، جن کا تعلق ہماری مسلم قومیت اور نظریہ پاکستان سے بھی ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے ادب میں پاکستانیت سے وہ مفہوم وابستہ نہیں کیا جا سکتا جو اس کی محض ارضیت پر زور دیتا ہے۔
یہاں یہ مراد نہیں کہ پاکستانی ادیب ارضی وابستگی کے منکر رہیں۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ ارضیت میں وہ سپردگی جو ارض کی پرستش کے ذیل میں آتی ہے۔ پاکستانیت کے مفہوم میں شامل نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اگر ارضیت سے مراد ملک کا ارضی و جغرافیائی ماحول ، رسم و مناظر ،باشندے ، رسم و رواج اور تہذیب و معاشرت وغیرہ ہیں تو یہ پاکستانیت کے اہم عناصر ہیں اور اس طور پر اس سے متلازم بھی۔
افسانہ اور پاکستانیت
یہ تمام عناصر ادب کی دیگر اصناف کے مقابلے میں افسانہ اور ناول میں کہیں زیادہ مجتمع دیکھے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص افسانہ جس میں موضوعات کا تنوع زیادہ ہوتا ہے۔ اور اس اعتبار سے اس میں پیش کیے جانے والے اجزا اور عناصر کو اگر یکجا کیا جاۓ تو ایک برا "کل” ہمارے سامنے متشکل ہوتا ہے۔ جو ادیب اور افسانہ نگار کے اس احساس اور مشاہدے کا مظہر ہے۔ جس کے توسط سے، ماحول سے اس کی نسبت و تعلق کی نوعیت اجاگر ہوتی ہے۔
پاکستانیت کے حوالے سے بھی ہمارا افسانہ دیگر اصناف، یہاں تک کہ ناول کے مقابلے میں بھی زیادہ باثروت ہے۔ سماجی حقیقت نگاری کی جو مکمل اور واضح تصویر ہمیں افسانہ میں نظر آتی ہے وہ دو سری تمام اصناف کے مقابلے میں مثالی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کا ہندوستانی افسانہ اپنے عصری مسائل، اظہار حقائق اور ہندوستانیت کے عناصر کو پیش کرنے میں بھی اسی طرح مثال رہا۔
تقسیمِ ہند فسادات اور افسانہ نگار
پاکستان میں لکھے جانے والے افسانہ کو ورثہ میں یہ ہی صفات ملیں لیکن اب موضوعات ، ماحول اور کردار اس کے اپنے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ بھارت میں لکھے جانے والے افسانہ کے ارضی و جغرافیائی ماحول میں متعدد مماثلتیں مل جائیں۔ اور ایسے ماحول کے نتیجے میں ابھرنے والے کردار بھی قدرے یکساں نظر آئیں۔ لیکن پاکستان میں لکھا جانے والا افسانہ اپنے مخصوص کلچر، نظریہ حیات ‘ طرز فکر اور اپنے ماحول کے رویوں سے وجود میں آنے والے کرداروں کے اعتبار سے بھارتی افسانے سے کہیں نہ کہیں مختلف ضرور ہے۔
مثلا فسادات کو دوسری ہجرت ، انتظار حسین ہی کہہ سکتے تھے۔ بھارت کے کسی افسانہ نگار نے شاید فسادات کو اس نقطہ نظر سے نہ دیکھا ہو۔
کرشن چندر اور رامانند ساگر وغیرہ سے قطع نظر کہ جنھوں نے فسادات کے موضوع پر اپنے افسانوں سے ذہنوں کو متوازن کرنے کی غیر فطری کوشش کی۔ یا خواجہ احمد عباس ، احمد ندیم قاسمی جو ایسے افسانہ نگاروں کی نمائندگی کرتے رہے جنھوں نے حالات کی تبدیلیوں کو یکساں ماحول کے مشترک کرداروں کے حوالے سے دیکھا۔ یا منٹو جلیس، قدرت اللہ شہاب جن کی فسادات کے موضوع پر لکھی گئی تحریروں میں فسادات، تقسیم ہند کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کی کامیابی کا ایک شاخسانہ محسوس ہوتے ہیں.
تقسیمِ ہند کے بعد کی دو جنگیں اور افسانہ
فسادات سے قبل آزادی کی جدوجہد مختلف موضوعات اور کردار اور نقاط نظر کے ساتھ اردو افسانوں میں نظر آتی ہے اور تقسیم ہند کے بعد بھی اس کے اثرات اردو افسانوں میں عمد ماضی کی یاد اور اس کے زیر اثر وجود میں آنے والے احساسات سے بنتی بگڑتی زندگی کے متعدد روپ بھی افسانہ میں جھلکتے ہیں۔ لیکن عنایت اللہ کے افسانہ ”ایک پیاز دو روٹیاں“ کے حمید کا المیہ شاید بھارت میں تخلیق نہ ہو سکتا۔
یا بعد میں ۱۹۷۱ء کے المیہ مشرقی پاکستان کے نتیجے میں قیصر قصری کے افسانہ ” تھو تھو” کے کردار تھو تھو کی تخلیق کے لیے بھارت یا وہاں کا انھی دنوں کا ماحول کبھی ساز گار نہ ہو سکتا تھا۔ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں پر افسانے بھارت میں بھی لکھے گئے لیکن اول تو یہ جنگیں بھارت میں وہ موثر فضا پیدا نہ کر سکیں جو عمدہ یا بڑے ادب کی تخلیق کے لیے ضروری تھی۔
انتظار حسین اور احمد ندیم قاسمی
یہ دونوں جنگیں نظریاتی لحاظ سے اور ذہنی و قلبی کرب و احساس کے نکتہ نظر سے پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے بڑی اہمیت رکھتی تھیں۔ کیونکہ ان کے پس پشت دو قومی نظریہ کار فرما تھا۔ جب کہ بھارت کے لیے یہ جنگیں محض سیاسی اہمیت کی حامل تھیں۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ نے جہاں پاکستانیوں کو اس جوش و خروش سے ہمکنار کر دیا تھا، جس کی تصویر انتظار حسین کے افسانہ "سیکنڈ راؤنڈ” میں نظر آتی ہے۔ وہیں احمد ندیم قاسمی کے افسانہ ” کپاس کا پھول“ کی مائی تاجو کے احساسات کا وہ کفن بھی نظر آتا ہے۔ جس پر ہندو جارحیت کے نتیجے میں راحتاں کے جسم کا کرب بھی ہے۔ جو اس کفن پر منتقل ہوتا رہا۔
یہ کرب ۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستانیوں کے جذبہ و احساس کو کہیں زیادہ متاثر کرنے کا باعث ہوا اور اسی اعتبار سے اس المیہ پر لکھے جانے والے افسانے اپنے احساس و تاثر کے لحاظ سے زیادہ گہرے اور پاکستانیت سے اپنے رشتے کے حوالے سے زیادہ قریب بھی ہیں۔ ان میں پایا جانے والا درد و احساس پوری قوم کے درد و احساس کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے۔
ان جنگوں کے بعد لکھے جانے والے افسانوں کا ایک نمایاں رجحان حب الوطنی کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان جنگوں نے افسانہ نگاروں کو ایک ایسے نئے قومی شعور سے آشنا کیا جس سے افسانوں میں ملک و وطن کو در پیش متنوع قومی و معاشرتی مسائل ایک اہم موضوع کی صورت اختیار کر گئے۔
اجتماعی شناخت کا رجحان
ان جنگوں کے نتیجے میں جو فوری اور شدید احساس انسان کی مسرتوں کے چھن جانے ، گھر معاشرہ اور ملک سے بچھڑ جانے اور انسانی رشتوں کے بے حقیقت ہو جانے کا تھا۔
اپنی اجتماعی شناخت کا رجحان بھی افسانوں میں نظر آنے لگا اور متعدد افسانوں میں ایسے کردار جنم لینے لگے جو اپنے علیحدہ قومی تشخص اور منفرد تہذہبی کردار کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ پھر انھی پر آشوب ادوار میں کرداروں کی وہ متضاد نوعیتیں بھی افسانوں میں بالعموم نظر آتی ہیں جو سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے باعث بدلتے بنتے معاشرے میں تعمیر و تخریب کی متنوع صورتیں پیش کرتے ہیں۔
انتظار حسین کے افسانہ ”شہادت “ کا وہ، انور عنایت اللہ کے ”صلہ شہید ” کا میں، نثار زبیری کے ”اذ آن“ کا رازی ، اگر ایک طرف مثبت قومی کردار کے مظہر ہیں تو دوسری طرف اختر جمال کے ”ایک پاکستانی لڑکا” کا استاد، مسعود مفتی کے ”اپنے” کا پٹواری، اسی پاکستان میں رہنے جینے والے کردار ہیں۔ جو اپنے اپنے طبقے کی خیر و شر کے حوالے سے نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ ایک مستحسن صورت حال تھی جو پاکستانی افسانوں میں عام نظر آتی ہے۔ ورنہ ۱۹۶۵ء کی جنگ سے قبل، جس نے ہمارے قومی جذبات کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ افسانہ نگاروں سے یہ توقع ہی کی جاتی تھی کہ وہ اپنے افسانوں میں ایسے مثبت موضوعات اور کردار پیش کریں۔ جو ہمارے تصور حیات سے مطابقت رکھتے ہوں۔
لیکن تحریک آزادی اور فسادات کے دوران لکھے جانے والے محض چند افسانوں سے قطع نظر بیشتر افسانے منفی رجحانات پر مشتمل ہوتے تھے اور جو بسا اوقات جنسی تلذذ و قنوطیت، شکست خوردگی اور بے مقصدیت جیسے غیر صحت مند رجحانات پیدا کرتے رہے۔
مشرقی پاکستان کے سقوط کا المیہ
فسادات اور ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے سقوط کا المیہ ہمارے لیے اتنا بڑا حادثہ تھا کہ اس کا ہمارے ادب میں عکس ریز ہونا ناگزیر تھا۔ اس کا ثبوت ۱۹۶۵ء کی جنگ اور ۱۹۷۱ء کے المیہ کے حوالے سے لکھے جانے والے افسانوں کی تعداد اور معیار سے بھی ملتا ہے۔
اس المیہ کے نتیجے میں افسانہ نگاروں نے انفرادی اور اجتماعی تجربوں کو اپنے مخصوص سیاسی معاشی اور تہذیبی پس منظر میں رکھ کر نئے نئے زاویوں سے اور کچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کے افسانے ملک میں رونما ہونے والے واقعات ، اجتماعی جبر سے انفرادی رویوں میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں ، مصائب و مشکلات میں انسانی امید و بیم کی کیفیات اور نفرت کے ماحول میں پیدا ہونے والے انسانوں کی بربریت کے اظہار سے پر ہیں۔
یہ افسانے تاریخ تو نہیں لیکن تاریخی سچائیوں اور تاریخی عمل سے جنم لینے والے واقعات اور کردار کے رد عمل کے مظہر ہیں۔ مگر ان واقعات اور کرداروں کے جمالیاتی پہلوؤں اور فنی اظہار نے ان کو تاریخ کا حصہ بنا دینے کے بجائے ادب کے ذیل میں شامل کیا ہے۔
المیہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں لکھے جانے والے افسانے یوں نشان عبرت بھی ہیں کہ جب انسان پر سے تہذیب کا لبادہ اترتا ہے تو کس طرح اس کے اندر چھپی ہوئی وحشتیں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ مگر ساتھ ہی یہ افسانے ہمیں یہ احساس بھی دلاتے ہیں کہ ہم اپنی داخلی قوت کو مجتمع کریں۔ دشمن کے پھیلاۓ ہوۓ جال سے ہوشیار رہیں اور بے مقصدیت انتشار اور بد گمانی سے بچ کر انسانی رشتوں کو مضبوط کریں۔
وطن کا قرض
” وطن کا قرض“ ایسے ہی نمائندہ افسانوں پر مشتمل ہے جو بنیادی طور پر اپنے موضوعات اپنے مسائل اور کرداروں کے توسط سے پاکستان کی تہذیب و معاشرت ، سیاسی نشیب و فراز المیوں اور امنگوں اور اس کے ارضی و سماوی ماحول کو پیش کرنے میں اپنا حق ادا کرتے ہیں۔
ان افسانوں میں ہماری قومی زندگی اپنے مخصوص مزاج اور ماحول کی مناسبت سے اپنی تمام کمزوریوں اور خوبیوں کے ساتھ متنوع صورتوں میں جلوہ گر ہے اور یہ افسانے کم و بیش ان محرکات و عوامل کا احاطہ بھی کرتے ہیں جن سے ہماری قومی اور تہذیبی زندگی متاثر ہوتی رہی ہے۔
ان افسانوں میں ہمیں اپنے متنوع قومی کردار کی جھلک بھی نظر آتی ہے اور ارضی رشتوں کی اہمیت اور نوعیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ہم اس میں اپنے عہد ماضی کے ہیجانات بھی دیکھ سکتے ہیں اور یہ اپنے عہد کا آئینہ بھی ہے جس میں مستقبل کے امکانات بھی جھلکتے ہیں۔ ان افسانوں کا مجموعی ماحول تحریک پاکستان سے لے کر ۱۹۷۱ء میں تقسیم پاکستان اور اس کے بعد تک پھیلا ہوا ہے۔
۱۹۷۱ء کے المیہ نے جس کرب و احساس سے پاکستانی قوم اور معاشرے کو آشنا کیا اور اس سانحے کے جو اثرات ہماری نظریاتی سیاسی اور معاشرتی زندگی پر مرقسم ہوئے. یہ اس مجموعے میں شامل متعدد افسانوں کا موضوع ہیں۔
اس سانحے کے بعد بھی ہماری قومی اور سیاسی زندگی نسبتاً ہمارے قریبی ماضی سے آج تک متعدد عصبیتوں، علاقائی، لسانی اور صوبائی مسائل اور منافرتوں کا شکار ہوتی آئی ہے۔
اور ان دنوں ہمارے معاشرے کا حساس طبقہ اس صورت حال میں جس انتہائی کرب اور یاس کی کیفیتوں سے گزر رہا ہے اس نے ہمارے ادیبوں کے قلب و ذہن کو یوں لگتا ہے ابھی ماؤف کر رکھا ہے۔ چند افسانے ان تازہ مسائل کے نتیجے میں تخلیق بھی ہوۓ ہیں۔ لیکن ابھی غالبا” کوئی بڑا افسانہ تخلیق نہیں ہو سکا۔ سکوت کی یہ کیفیت دریا نہیں ہو سکتی ، یقیناً وطن کا یہ قرض بھی جلد ادا ہو گا۔