پاکستان اور ہندوستان میں یوں تو متعدد زبانیں ملیں گی مثلاً پنجاب میں پنجابی، سرحد میں پشتو، سندھ میں سندھی، بنگال میں بنگالی، مہاراشٹر میں مرہٹی، مدراس میں تامل اور تلنگی، ملیبار میں ملیالم، غرض ہر صوبے اور ہر خطے کی اپنی اپنی الگ بولی ہے، لیکن اردو واحد ایسی زبان ہے جو پشاور سے لے کر راس کماری تک بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
دنیا کی دوسری زبانیں
دنیا کی دوسری زبانیں سنسکرت،عربی،فارسی اور لاطینی بہت پرانی ہیں۔ ہزاروں سال ہوئے، لوگ ان میں کتابیں لکھ رہے ہیں۔ اردو زبان عمر میں سب سے چھوٹی ہے لیکن جو لطف اس میں ہے وہ عجیب ہے۔ اس انوکھے پن کی وجہ یہ ہے کہ کئی اچھی اچھی بولیاں اس میں آ کر مل گئ ہیں۔
ہے زباں ایک، بےشمار مزے
اسکی ہر بات میں ہزار مزے۔۔۔
اردو زبان کی کہانی
اردو زبان کی کہانی یہ ہے کہ جب آریا وسط ایشیاء کے میدانوں سے اُتر کر پنجاب کے راستے ہندوستان میں آئے تو انھوں نے یہاں کے قدیم باشندوں کوجنوبی ہندوستان کی طرف دھکیل دیا اور خود پنجاب اور گنگا کے کنارے آباد ہو گئے۔ اس زمانے میں آریا ہندوؤں کی زبان سنسکرت تھی، لیکن کچھ تو ان لوگوں کے نڑھنی، پھلنے اور کچھ آب و ہوا کے اثر سےسنسکرت بگڑ کر کچھ کی کچھ ہو گئی۔
اس غلط ملط بولی کا نام پراکرت رکھا گیا۔ ڈیڑھ ہزار سال تک لوگ پراکرت بولتے رہے۔ جب راجہ بکرماجیت گدی پر بیٹھا تو اس نے سنسکرت کو جو دیوتاؤں کی زبان سمجھی جاتی تھی، پھر زندہ کرنا چاہا۔ راجہ کی مرضی پا کر بڑے بڑے پنڈت سنسکرت میں کتابیں لکھنے لگے۔ کچھ ہی عرصے میں سنسکرت پھر سے ہندوستان کی علمی و ادبی زبان بن گئی۔
اردو زبان میں دیگر زبانوں کا حصہ
دربار کے امیر و وزراء اور پڑھے لکھے آدمی تو سنسکرت بولنے لگے مگر عوام اب بھی پراکرت بولتے رہے۔ آخر بدلتے بدلتے پراکرت برج بھاشا میں تبدیل ہو گئی۔ چنانچہ مسلمانوں کے ہندوستان میں وارد ہونے سے پہلے سارے شمالی ہند میں برج بھاشا بولی جاتی تھی۔ برج بھاشا کے دوہے اس وقت بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ بتایا جاتا ہے کے برج بھاشا بہت ہی شیریں زبان تھی۔
اسی اثناء میں مسلمان ہندوستان میں قدم جمانے لگے۔ پہلے پٹھانوں اور پھر مغلوں کی بادشاہت قائم رہی۔ ان لوگوں کی زبان فارسی تھی اور فارسی میں عربی اور ترک زبان کی بہت سی خوبصرت تراکیب شامل تھیں۔ جس طرح آج کل انگریزی زبان کےبہت سے الفاظ اردو سے بغلگیر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح فارسی اور عربی کے بےشمار الفاظ برج بھاشا میں ملنے لگے۔
مغلوں کے عہد میں یورپ کی بعض قومیں ہندوستان میں آئیں، اس لئے کچھ پرتگالی اور کچھ فرانسیسی الفاظ بھی برج بھاشا میں آ گئے۔ اس طرح ہوتے ہوتے شاہجہان کے زمانے میں برج بھاشا کی صورت ایسی بدل گئی کہ اسکو پہچاننا مشکل تھا۔
اردو لشکری زبان تھی
اس زبان کو ہندو مسلمان سب سمجھ سکتے تھے۔ کیونکہ اس میں ہندی بھاشا اور فارسی کے الفاظ ملے ہوئے تھے۔ چوں کہ مغلوں کے لشکروں میں ہندو مسلمان سب ملازم تھے۔ اس لئے یہ زبان چھاؤنیوں میں پھیل گئی۔ سب سپاہی ایک دوسرے کا مطلب اسی بولی سے سمجھ لیتے تھے۔ اس طرح اس بولی کا نام "اردو” پڑ گیا۔ ترکی زبان میں اردو لشکر کو کہتے ہیں گویا اردو لشکری زبان تھی۔
اس کے بعد تو اردو ایسی پھیلی اور پھولی کے تمام ہندوستان کو اپنا لیا اور اب تو یہ حال ہے کہ بڑی بڑی زبانوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر ، اس میں کتابیں لکھ کر اور شعر کہہ کہہ کر اسکا درجہ بہت بلند کر دیا ہے۔ اب چاروں طرفط اسکی دھوم مچی ہوئی ہے۔
اردو زبان پراکرت کی بیٹی ہے
زمانے کا انقلاب اسی کا نام ہے کہ وہ بولی جو لشکر میں اجڈ اور گنوار بولا کرتے تھے اور جسکو سن کر پڑھے لکھے انسان ہنسا کرتے تھے۔ آج اسکی وہ عزت ہے کہ جو اسے نہ سیکھے ، وہ پڑھا لکھا نہیں سمجھا جاتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ہر قوم کی عزت اسکی زبان سے ہوتی ہے۔ مثلاً انگریزی کو ہی لیجئے، اگر اس میں علمی کتابوں کا اس قدر وسیع ذخیرہ نہ ہوتا تو کون جانتا کہ انگریز قوم اس قدر شائستہ اور بلندپایہ ہے۔
وہ لوگ جنھوں نے اردو میں دوسری زبانوں کی کتابوں کے ترجمے کئے ہیں۔ وہ مصنف جنھوں نے بےبدل اور روح افزاء نظمیں لکھی ہیں،واقعی اردو زبان کے محسن ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اردو پراکرت کی بیٹی ہے، برج بھاشا اور فارسی کے میل جول سے بنی ہے۔ اس میں جو سنسکرت اور پراکرت کے الفاظ ہیں۔وہ کثرت استعمال سے گھس گھس کر نرم و ملائم ہو گئے ہیں۔ انکی کرختگی جاتی رہی ہےاور کٹھالی میں ڈھل کر کندن بن گئی ہے۔ تلفظ اور لہجے کی دقت زائل ہو گئی۔ الفاظ بولنا اب آسان ہو گیا۔
اردو زبان میں ہندی اور فارسی کی آمیزش
اردو زبان اس لئے بھی عمومی پسندیدگی کا باعث بنی کہ ہندی اور فارسی کی آمیزش نے اس میں ایک خاص حسن اور انوکھی دلکشی پیدا کر دی ہے۔ ہندی الفاظ کی بدولت یہ دلنشیں ہے تو فارسی کے بل بوتے پر پُرشکوہ ہے۔
قدیم زبانوں میں یہ بڑی دقت تھی کہ ایک لفظ کو ذرا سے فرق اور پھیر سے مختلف صورتوں میں لے آتے تھے۔ لیکن اردو زبان میں دوسرے الفاظ کی مدد اور شمولیت سے یہ دقت جاتی رہی۔ مرکب صورتیں پیدا ہو گئیں۔ فارسی اور انگریزی الفاظ کی طرح طرح کے خُوش نما رنگوں کی پچی کاری نے اردو عمارت کی دیواروں کو جگمگا دیا ہے۔ ان الفاظ کے ملاپ سے نہ صرف لغت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ خیالات میں بھی وسعت پیدا ہو گئی ہے۔
اردو اس زمانے کی یادگار ہے جب مسلمان فاتح ہندوستان میں داخل ہوئے۔ اہل ہند سے انکا میل جول روز بروز بڑھتا گیا۔ اس وقت ملکی زبان میں خفیف سا تغیر پیدا ہوا جس نے آخرکار ایک نئی صورت اختیار کر لی۔ جسکا وہاں رہنے والوں کے سان و گمان میں بھی نہیں تھا۔ مسلمان فارسی بولتے آئے تھے اور ایک مدت تک انکی زبان فارسی ہی رہی۔ دربارودفاتر میں بھی اسکا سکہ جاری تھا۔ ہندوؤں نے بھی اسے شوق سے سیکھا۔ اس زمانے میں فارسی لکھنا پڑھنا تہذیب میں داخل تھا۔
اردو زبان اور عربی
فارسی کے علاوہ عربی مسلمانوں کی مذہبی اور علمی زبان تھی۔ دستار فضیلت کا ملنا عربی زبان کی تحصیل کے بغیر ناممکن تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کے علوم و فنون،تحقیق اور تجربات کا خزانہ اسی زبان میں مدفون ہے۔ ادھر ملک میں جو زبان( قدیم ہندی یا پراکرت) رائج تھی اسے بھی مسلمانوں نے سیکھا۔ عوام وہی زبان بولتے تھے۔چنانچہ اس زبان میں بڑے بڑے شاعر ہوئے۔ مسلمان شاہی درباریوں، علماء اور شعراء نے بھی یہ زبان سیکھی۔ اس میں تصنیف و تالیف بھی کی۔ ( جو زیادہ تر منظوم تھی) غرض ہندوستانیوں کے میل جول سے ایک نئی زبان وجود میں آئی جسے بعد میں اردو کے نام سے موسوم کیا گیا۔
اس زبان کو ابتدا مین خاصی حد تک نظرانداز کیا گیا۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ یہ زبان نستعلیق لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی لیکن رفتہ رفتہ اسکے قدم جمتے گئے اور مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں اس نوزائیدہ زبان کو کچھ نامی شعراء و ادباء نے اپنے سایہً عاطفت میں لیا اور پال پوس کر بڑا کیا۔ بہت کہنہ مشق انداز میں اسکی تراش خراش کر کے اسکو بہترین صورت دی۔
سلطنت مغلیہ کے زوال پر سمندر کے راستے ایک نئی قوم ہندوستان پر مسلط ہوئی، جو ہندوؤں مسلمانوں سے بالکل غیرتھی۔ اس قوم نے اسکی انگلی پکڑی، اور دربار سرکار میں اسکی رسائی ہو گئی۔ رفتہ رفتہ دفاتر سے فارسی کو نکال باہر کیا اور خود اسکی کرسی پر جلوہ گر ہوئی۔
آخر ہندوستان کی قدیم راجدھانی اسکا جنم بھوم اور دوآبہ اسکاوطن ہوا۔ اب دور دور پھیل چلی اور ہندوستان کے اس سرے سے اس سرے تک چلے جائیے، ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بلکہ اب تو ہنداستان سے باہر تک جا پُہنچی ہے۔
اردو ہندی نژاد ہے
اردو ہندی نژاد ہے اور قدیم ہندی ےا پراکرت کی آخری اور سب سے شائستہ صورت ہے۔ برج بھاشا اور فارسی، سنسکرت اور پراکرت کے وہ الفاظ جو اصل میں خاصے سخت تھے وہ چھٹ چھٹا کر صاف،واضح اور سادہ ہو گئے۔ زبان میں لوچ اور گھلاوٹ و ملاحت پیدا ہو گئی۔
ہندی بنیاد کی وجہ سے اسکے تمام حروف فاعلی،مفعولی،اضافت،نسبت اور ربط وغیرہ ہندی ہیں۔ ضمیریں سب کی سب وہی ہیں، لیکن عربی اور فارسی الفاظ کے اضافے نے مختلف صورتوں میں اس خوبی میں اضافہ کیا ہے۔ ہندی الفاظ میں دل نشینی کا ایک خاص عنصر ہے۔ عربی و فارسی زبانوں میں شان وشوکت۔ان دونوں عناصر نے مل کر اسکا حسن دوبالا کر دیا ہے۔
اردو زبان کی ارتقائی صلاحیت
یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ زبانیں اپنی اندرونی قوت سے نشو وارتقاء کے مراحل طے کرتی۔ دوسری زبانوں کی مدد سے آگے بڑھتی اور سوسائٹی کے سماجی اور سیاسی انقلابات سے ہروان چڑھتی ہیں۔ اردو اس ضمن میں دوسری معاصر زبانوں کے مقابلے میں اپنی صغرسنی کے باوجود ارتقاء پذیری کی بےپناہ صلاحیتوں کی مالک ہے۔ لسانی اعتبار سے اسکی لغت متحرک، روزمرہ زندہ، الفاظ بیدار اور قوائد قریب الفہم ہیں۔
ادبی اعتبار سے نظم و نثر کی رنگا رنگ اصناف اس بات کی غماز ہیں کہ وہ بڑی سے بڑی زبان کے ساتھ آنکھ ملا کے چل سکتی ہے۔ نظریاتی نقطہً نظر سے دیکھا جائے تو اردو ادب کا معتدبہ حصہ دینی ادب پر مشتمل ہے۔ وہ اسلامی ادب کی اس حد تک امین ہے کہ اردوخواں عربی زبان پر ماہرانہ دسترس نہ رکھنے کے باوجود بھی قرآن، حدیث،فقہ اور دوسرے اسلامی علوم پر اپنی دقیع معلومات پر اپنی رائے زنی کرسکتا ہے۔
بلاشبہ اردو ہمارے رگ و ریشہ میں میں صلح خون کی طرح سرائیت کئے ہوئے ہے۔ یہ ہمارے اسلاف کے شاندار کارناموں کی نشانی ہے۔ ہمارے جذبات کے ابلاغ کا موًثر ترین ذریعہ، رابطے کا بہترین وسیلہ، قائد کی لسانی بصیرت کا نچوڑ، ہماری تہذیبی روایات کا مظہر اور پاکستان کے عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ چند مغرب پرستوں کو چھوڑ کر اردو زبان سے لگاؤ اور محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ زبان ہمارا فخر ہے اور اسکی حفاظت و ترسیل پر بہت خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
بہترین انفارمیشن❤️❤️