قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا
مرشد
شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
Murshid Urdu Novel |
یہ ایک قطار میں پہلو بہ پہلو کھڑے چار مکان تھے جنہیں اینٹ گارے کی مدد سے تعمیر کیا گیا تھا۔ وہ سب ہی سجے کے پیچھے پیچھے پہلے مکان میں داخل ہو گئے ۔ چھوٹا سا صحن تھا، صحن سے آگے مختصر برآمدہ.. دو چھوٹے چھوٹے کمرے اور بس..
تین چار دبلے پتلے نوعمر لڑکے صحن میں موجود تھے ۔ ان کے اردگرد گھاس پھونس اور باریک ٹہنیوں کی ڈھیریاں پڑی تھیں۔ ایک لمبوترے چہرے والا نوجوان، برچھی نما ہتھیار پکڑے ٹہنیاں چھیل رہا تھا اور تین لڑکے ان ٹہنیوں کی مدد سے گول ٹوکریاں ب�±ن رہے تھے۔ ایک طرف کونے میں تیار شدہ ٹوکریوں کی دو دھاکیں موجود تھیں۔ ان سب کے اچانک اندر داخل ہو آنے پر وہ چاروں لڑکے ٹھٹھک کر حیران و پریشان چہروں کے ساتھ ان کی طرف دیکھنے لگے۔
” ابا کدھر ہے تیرا ؟ ” سجا برچھی بردار سے مخاطب ہوا تھا۔
” ابا…. ابا تو شہر گیا ہوا ہے۔” اس نے سب ہی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
” اور ہاشم؟ ”
” ہاشم چاچا اپنے مکان پر ہے۔”
” چل پھر جا کر بتا اسے میرا اور فورا سے پہلے دو کَسّیاں بھی نکال کر دے۔”
” ٹھیک ہے۔ ” اس نے ہاتھ میں موجود ٹہنی نیچے پھینکی اور وہاں موجود ایک لڑکے سے مخاطب ہوا۔
” وزیرے ! کسیاں نکال کے دے لالے کو۔” وزیرا فوراً اٹھ کر سامنے موجود کمرے کی طرف بڑھ گیا اور وہ برچھی بردار جلدی سے باہر نکل گیا۔ سجا مرشد کی طرف پلٹا۔
” تم لوگ بی بی کے ساتھ اس مکان میں ٹھہرو، یہ محفوظ رہے گا۔ باقی سارا معاملہ ہم لوگ سنبھال لیں گے۔” مرشد خاموشی سے مکان کا جائزہ لیتا رہا۔ حجاب اس کے بالکل عقب میں موجود تھی۔ سامنے برآمدے میں بان کی ایک بے ڈھنگی سی چارپائی کے ساتھ ایک کھٹارا سی سائیکل کھڑی تھی۔ کچھ فاصلے پر ٹوکریوں کے ڈھیر کے پاس دو کلہاڑیاں بھی پڑی تھیں، ایک طرف اینٹوں کا عارضی چولہا بنا ہوا تھا جس پر ایک کالی سیاہ دیگچی دھری تھی۔
مصری وہیں رکنے کی بجائے آگے بڑھ کر ایک کمرے میں داخل ہوا تو اس کا جمورا تاجل بھی ہچکچاتا ہوا اس کے پیچھے ہی چلا گیا۔ وزیرا اندر سے دو کسیاں اٹھا لایا، سجا اپنے ساتھیوں کو ہدایات دے رہا تھا ۔ اس کے دو ساتھی کسیاں سنبھالتے ہوئے فورا ہی مکان سے باہر نکل گئے ۔ مرشد کا اندازہ تھا کہ وہ مورچہ بندی کی نیت سے بند میں گڑھے کھودیں گے۔
آگے والے کسی مکان سے ایک کرخت سی نسوانی آواز آ رہی تھی۔ کوئی عورت کسی بچے کے لَتّے لے رہی تھی اور اس کے ننھیال ددھیال کے معلوم و
نامعلوم بزرگوں کی شان میں کچھ عجیب ناقابلِ فہم سے قصےدے پڑھ رہی تھی۔ اپنے باقی تین ساتھیوں کے ساتھ سجا باہر کو پلٹا تو بشارت اور جعفر بھی اس کے پیچھے ہی صحن سے باہر نکل گئے۔ مرشد اور حجاب کے علاوہ وہاں صرف خنجر اور ٹیپو باقی بچے۔
مرشد حجاب کو ساتھ آنے کا کہتے ہوئے سامنے موجود کمروں کی طرف بڑھ گیا۔ ایک کمرے میں مصری اور تاجل گھسے تھے۔ مرشد نے دوسرے کمرے کا جائزہ لیا۔ دروازے تو صحن کے ساتھ ساتھ کمروں کے بھی نہ تھے، فرش بھی کچا اور غیر ہموار تھا۔ کمرے کی عقبی دیوار میں تین بائی چار فٹ کا ایک کھڑکی نما خلا موجود تھا جس سے عقبی طرف تھوڑے فاصلے پر موجو دریا کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس خلا کی بدولت کمرے میں ہوا کا فراواں گزر تھا۔بادل مزید گہرے ہو آئے تھے۔ لگتا تھا اب بس کسی بھی لمحے بارش شروع ہو جائے گی۔
کھڑکی نما خلا کے آگے ایک چارپائی بچی تھی اور برابر والی دیوار کے ساتھ دو چارپائیوں کے اَن ب�±نے فریم کھڑے تھے ،جن کے پایوں پر مچھلی پکڑنے والا جال لٹک رہا تھا ۔ ساتھ دیوار کی اینٹوں کی درزوں میں کھونٹیوں کے طور پر تین چار لکڑیاں ٹھونک کر ان پر میلے کچیلے مردانہ کپڑے لٹکائے گئے تھے۔ تازہ ہوا کی آمدورفت کے باوجود کمرے میں سیلن زدہ سی بو موجود تھی۔ واضح اندازہ ہوتا تھا کہ اس مکان میں کوئی فیملی نہیں رہتی بلکہ اسے محض کارخانے کے طور پر کچھ چھڑے استعمال کرتے ہیں ۔
” میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ مجھ اکیلی کو گاڑی پر بٹھا دیں، میں خود ہی پھپھو کے گھر پہنچ جاتی ۔” حجاب کی آواز پر مرشد نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا ۔ وہ نقاب چہرے سے سرکاتے ہوئے ایک چارپائی پر بیٹھ رہی تھی۔
” یہ تو میری ذمہ داری ہے سرکار! میں خود آپ کو وہاں تک پہنچا کے آو�¿ں گا۔ ”
” ہم لوگوں کو ایک ساتھ نہیں جانے دیں گے یہ لوگ…کسی صورت بھی نہیں۔ ”
” ہم ہر صورت جائینگے، کوئی نہیں روک سکے گا ہمیں۔” مرشد کے زیرِ لب ایک بے ساختہ مسکراہٹ آ بیٹھی۔
” روکا جا چکا ہے …. دونوں طرف سے گھیرے جا چکے ہیں ہم… اتنی پولیس، اتنے لوگ ہیں اور ابھی مزید پتا نہیں کتنے آ ملیں گے ان کے ساتھ۔ کیسے نکل پائیں گے ہم یہاں سے ؟ "حجاب کے اندر کی فکر و پریشانی اس کے لہجے میں بول رہی تھی۔ مرشد کی نظریں ایک بار پھر کھڑکی نما خلا سے باہر دریا کی طرف سرک گئیں ۔
” آپ کے گاو�¿ں کے ساتھ سے ایک نہر گزرتی ہے۔ ” مرشد نے کہا۔
” ہاں جی! گزرتی ہے ۔”
” آپ کبھی نہر میں نہائی ہیں؟ ” حجاب نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں ذرا گردن موڑ کر دیکھا ۔ وہ دریا کی سمت دیکھ رہا تھا جس کا پاٹ کم از کم بھی دو ڈھائی کلومیٹر چوڑا تھا ۔ دریا کے وسط میں جھاڑیوں سے اٹے ایک دو جزیرے بھی دکھائے رہے تھے ۔
” کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ ہم تیر کر دریا پار کریں گے ؟ ” وہ جیسے مرشد کے ذہن میں کروٹیں بدلتے خیالات جان گئی تھی۔ سوال کے بعد فوراً ہی مزید بولی.. ” میں نہر وغیرہ میں کبھی نہیں نہائی ۔ مجھے بالکل بھی تیرنا نہیں آتا ۔”
” یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہوتا۔ "
” نہیں !! مشکل ہو یا آسان.. یہ میرے بَس کا کام ہے ہی نہیں۔ میں ایسا نہیں کر سکوں گی ۔”
” آپ تو سوچنے سے بھی پہلے شکست تسلیم کئے بیٹھی ہیں۔ ایک ذرا حوصلہ کر کے تسلی اور سنجیدگی سے سوچیں تو سہی۔ "مرشد کے ان الفاظ سے حجاب
کے دماغ کو جھٹکا سا لگا ۔ اسے ایک جھماکے سے یاد آیا کہ اس طرح کے الفاظ وہ پہلے بھی ایک بار اس سے کہہ چکا ہے۔ شیخوپورہ کے قریب دھوپ سڑی نامی بستی میں ،پینو کے گھر سے نکلنے کے بعد وہ ایک بہت بڑے کارخانے میں جا چھپے تھے اور اس کارخانے کی چھت سے عقبی طرف موجود قبرستان کی دیوار پر اترنے سے پہلے…. بس اس وقت مرشد کا انداز آج سے بالکل مختلف تھا ۔
حجاب کے تصور میں وہ گھور سیاہ رات بیدار ہو آئی۔ مرشد اسے نیچے اترنے کا طریقہ بتا رہا تھا اور اسے لگ رہا تھا جیسے وہ اسے سرکس کے کسی کرتب کے متعلق بتا رہا ہو۔ وہ شدید پریشانی اور گھبراہٹ سے بولی تھی۔
” یہ تو بہت مشکل کام ہے۔ میں گر جاو�¿ں گی۔ ”
جواباً مرشد بولا تھا۔ ” شاباشے! اوئے مرشد اتنا مرا ہوا نہیں کہ تیرا پھول جتنا وزن نہ سنبھال سکے ۔”
” نن.. نہیں… یہ میں نہیں کر سکتی.. مجھ سے نہیں ہو گا یہ۔ ”
” فٹے منہ” مرشد نے بدمزگی سے برا سا منہ بنایا تھا۔ ” ت�±و تو سوچنے سے بھی پہلے شکست تسلیم کئے کھڑی ہے۔ ایک ذرا حوصلہ کر کے تسلی اور سنجیدگی سے سوچ تو سہی… ڈنگر نہ ہو تو ! ”
دیوار پر اترنے کے لمحات بڑے سنسنی خیز رہے تھے۔ دو چار لمحات کیلئے وہ ایک دوسرے کے اس قدر قریب ہو گئے تھے کہ دونوں نے ایک دوسرے کی سانسوں کی خوشبو تک محسوس کی تھی۔ اس کے بعد ایسا بھی ہوا تھا کہ وہ دونوں کیچڑ سے لَت پَت ایک شکستہ قبر میں ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر نیم دراز پڑے رہے تھے۔ اب اچانک مرشد کے منہ سے ویسے ہی الفاظ سنتے ہی حجاب نے بے اختیارانہ ایک جھٹکے سے اس کی طرف دیکھا ۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں، ا�±س رات کے حشر ساماں لمحات یکایک مرشد کے ذہن میں بھی چمک اٹھے ۔ رگ و پے میں دوڑتے لہو میںایک بھونچال نے کروٹ بدلی، خود حجاب کا دل اس شدت سے دھڑکا کہ اس کا رواں رواں جھنجھنا کر رہ گیا ۔ اس نے بے ساختہ نظریں چرائیں تو مرشدگڑبڑا کر خلا سے پار دریا کی طرف دیکھنے لگا ۔
چند لمحوں کیلئے ان دونوں کی گفتگو کے بیچ ایک دھڑکتی ہوئی خاموشی حائل رہی پھر مرشد نے ہی بولنے میں پہل کی۔
” آپ پریشان نہ ہوں میں یہاں سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی حل نکال لوں گا۔ آپ بالکل بے فکر ہو کر بیٹھیں بلکہ آرام سے لیٹ جائیں کمر سیدھی کر لیں۔ میں ذرا باہر کے حالات کا جائزہ لیتا ہوں۔” اتنا کہہ کر وہ بہ عجلت پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گیا اور حجاب اسی طرح نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔ وہ مرشد کی اس عجلت کی وجہ اچھی طرح جانتی تھی لیکن فی الوقت مرشد کی بجائے اس کا سارا دھیان، ساری توجہ اپنے اندر کی اتھل پتھل پر لگی ہوئی تھی۔ آج اس کا دل عجیب انداز میں دھڑکا تھا پہلی بار ایک انوکھی طرز کی گھبراہٹ سی محسوس ہوئی تھی لہو میں ایک گدگداہٹ انگیز سنسنی آ گھلی تھی۔ دھڑکنیں ابھی تک بے ترتیب تھیں، یہ کیا تھا ؟ کیوں تھا ؟
وہ حیران پریشان بیٹھی اپنے اندر کی اس عجیب حالت کو جاننے سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی اور لاشعوری طور پر سمجھنے سے ڈر بھی رہی تھی… احتراز برت رہی تھی… اس نے ذہن کو جھٹکا اور شعوری طور پر اپنی آگے کی زندگی کے متعلق سوچنا شروع کر دیا۔وہ سفر میں تھی اور مرشد کا ساتھ بس اس سفر کی حد تک ہی تھا ۔ اس کے بعد زندگی یکسر تبدیل ہو جانی تھی… باقی ساری زندگی… آخری سانس تک اس نے پھپھو کے گھر میں ہی گزارنی تھی… مرشد سے تو دوبارہ کبھی سامنا تک نہیں ہونا تھا…مرشد… جس نے اس کی خاطر اپنا سب کچھ داو�¿ پر لگا دیا تھا… اپنا جینا مرنا تک وقف کر رکھا تھا.. اس کی شاید پھر کبھی خیر خبر تک نہیں ملنی تھی اسے…
اس خیال کے ساتھ ہی دل میں ایک افسوس ناک سا دکھ، کسی نیزے کی طرح اترتا محسوس ہوا۔ وہ بے دھیانی میں پھر اسی کے متعلق سوچے جا رہی تھی!!
مرشد ٹیپو اور خنجر کو وہیں رکنے کا کہہ کر خود باہر نکل کر بند کے اوپر جا پہنچا۔ اس کے اندازے کے عین مطابق بند کے اوپر کنارے کے قریب دو گڑھے کھودے جا رہے تھے اردگرد ہنگامی نوعیت کی نقل و حمل جاری تھی۔سجے کے پانچ ساتھیوں اور بشارت و جعفر کے علاوہ بھی دس بارہ افراد مصروفِ عمل تھے۔ دو افراد گڑھے کھودنے میںجت چکے تھے ۔ ان کے قریب ہی بند کے اوپر دو چارپائیاں رکھی تھیں۔ بشارت اور جعفر ان چارپائیوں پر پلاسٹک شیٹس باندھ رہے تھے، یقیناً گڑھے کھودنے کے بعد یہ چارپائیاں ان کے اوپر رکھی جانی تھیں تاکہ انھیں بارش سے محفوظ رکھا جا سکے ۔دو تین کالے کلوٹے مریل سے بندے انٹیں لا لا کر وہاں ڈھیر کر رہے تھے اور ایک بندہ ان اینٹوں کو گڑھوں کے آگے ایک مخصوص ترتیب سے رکھنے میں مصروف تھا۔
مرشد نے دیکھا کے چوتھے مکان کی چھت پر بھی تین افراد موجود تھے ۔اس مکان کے صحن سے انٹیں اچھالی جا رہی تھیں جو اوپر والے بندے پکڑ پکڑ کر منڈیر پر دھاک لگائے جا رہے تھے۔ سب اپنی اپنی جگہ مستعدی سے مصروف کار تھے اور ظاہر ہے یہ سب سجے کی ایما پر مورچہ بندی کی تیاریاں کی جارہی تھیں ۔مرشد نے نظروں کا زاویہ بدل کر دیکھا ،بند تقریباً ڈیڑھ دو فرلانگ آگے جا کر ختم ہو جاتا تھا۔ جس جگہ وہ سب موجود تھے وہاں سے تقریباً ایک ڈیڑھ کلو میٹر آگے وہ تینوں گاڑیاں اب رخ بدل کر دریا کی طرف بڑھ رہی تھیں۔صاف ظاہر تھا کہ وہ ان لوگوں کا راستہ مسدود کرنے کی نیت سے ہی اس طرف آئے تھے!
عقبی طرف دو ڈھائی فرلانگ پیچھے بند کے دونوں طرف موجود مکانوں کی چھتوں پر سجے کے ساتھی پوزیشنیں سنبھالے موجود تھے اور ان سے کافی آگے بند پر پولیس کی گاڑیاں بھی موجود تھیں جو فاصلے کی بدولت بالکل کھلونوں کی طرح دکھائی دے رہی تھیں۔مرشد کو اردگرد کا جائزہ لیتے دیکھ کر جعفر مسکراتا ہوا اس کے قریب چلا آیا۔
"مرشد استاد! کیسا لگ رہا ہے یہاں کا ماحول؟”
"بڑا ودیا ! “ اس نے ایک نظر بادلوں سے بھرے آسمان کی طرف دیکھا۔”اگر بارش شروع ہوگئی تو اور بھی رومانوی ہو جائے گا۔“
جعفر نے بھی اس کی تقلید میں ایک نظر اوپر کی طرف دیکھا ،سارا آسمان بادلوں سے ڈھک چکا تھا۔ہوا میں ٹھنڈک اور پانی کی مہک بھی آگھلی تھی۔
"برسے بغیر تو نہیں گزریں گے یہ…. اور انکا برسنا ہمارے حق میں ہی جائے گا۔ یہ سب حرامی آگے تو ویسے بھی نہیں آسکتے ،بارش کی وجہ سے انھیں گاڑیوں میں دبک کر بیٹھنا پڑے گا۔ “
"سجا کدھر ہے؟”
"وہ ا�±دھر…. ا�±س مکان میں۔. جعفر نے چوتھے مکان کی طرف اشارہ کیا۔ ”ان مکانوں میں تین فیملیاں رہتی ہیں۔ وہ مکان خالی کرالیا ہے سجے نے۔ فیملیاں درمیان کے دونوں مکانوں میں اکٹھی کردی گئی ہیں۔ یہ سائیڈوں کے دونوں مکان اب ہم لوگوں کے استعمال میں رہویں گے۔“
"سجے کا ان سب لوگوں سے کیا واسطہ ہے؟”
"دہشت اور عزت کا….. زیادہ تر لوگ اسکی عزت قدر کریں ہیں اور باقی دہشت زدہ رہویں ہیں۔“
” وجہ..؟”
"وجہ تو وہی روایتی سی ہے استاد !کمزور اور طاقتور کی ازلی دشمنی، حاکم اور محکوم کی وہی پرانی کہانی…. یہاں سے کچھ میل کے فاصلے پر بیٹ ہی کا ایک علاقہ ہے۔ ٹھٹھہ قریشی…. تین سال پہلے تک سجا وہیں امن سکون کی گزارے تھا۔ اس وقت سجا، سجا نہیں سجاد احمد بلوچ تھا۔گھر میں بوڑھا باپ تھا، ایک نوجوان بھائی تھا ،خوبصورت بیوی اور دو بچے تھے۔
بھائی کا مقامی زمیندار کے بیٹے سے کھیل ہی کھیل میں جھگڑا ہوا،بات بڑھی اور مار کٹائی تک پہنچ گئی۔ لوگوں نے معاملہ رفع دفع کروا دیا لیکن زمیندار کے بیٹوں نے دلوں میں زہر پال لیا۔ایک روز انہوں نے گروپ کی صورت اسے گھیر کر اتنا مارا کہ بے چارے کو کئی دن اسپتال میں گزارنے پڑے۔ پنچایت بیٹھی اور فیصلہ ہوا کے سجے کو علاقہ اور گھربار چھوڑ کر یہاں سے جانا پڑے گا ۔سجے نے فیصلہ ما ننے سے انکار کر دیا۔ چھوٹی سی کھیتی تھی، اسے زمیندار نے آگ لگوادی۔اردگرد کے کچھ با اثر لوگوں نے پھر بیچ بچاو�¿ کرا دیا۔سجے کو علاقے سے نکالا تو نہیں گیا البتہ اس کا حقہ پانی بند کر دیا گیا۔ڈھائی تین ماہ بعد زمیندار زادوں نے پھر چھوٹے بھائی سے مارپیٹ کی ،اس لڑائی میں زمیندار کے ایک بیٹے کے دانت ٹوٹے اور دوسرے کا سر پھٹ گیا۔سجے کا بھائی خود زخمی حالت میں گھر پہنچا ۔سجا گھر پر نہیں تھا۔ زمیندار کے بندوں نے گھر پر دھاوا بولا، اس کے بوڑھے باپ کو بری طرح مارا پیٹا اور بیوی سے بھی خاصی بدتمیزی کی اور چھوٹے بھائی کو گھر سے گھسیٹ کر لے گئے جس کا پھر آج تک پتہ نہیں چلا ۔باپ بھی دو دن اسپتال رہ کر اللہ کو پیارا ہو گیا۔
سجے نے زمینداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی تو الٹا اسے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ سجے کی بیوی اور سسر نے بڑی بھاگ دوڑ کی مگر لاحاصل سجے کو تھانے سے جیل بھیج دیا گیا اور بغیر کسی جرم کے سجا چودہ مہینے جیل میں بیٹھا رہاچودہ ماہ بعد جب رہا ہو کر آیا تو ایک اور ہولناک خبر اسکی منتظر تھی…. سجے کی بیوی جو جوان بھی تھی اور رج کے سوہنی بھی…. وہ پولیس والوں کی بھینٹ چڑھ چکی تھی ۔پولیس کے چار ملازموں نے اس کے گھر گھس کر ساری رات اس کے ساتھ زیادتی کری اگلے روز گھر سے سجے کے بڑے بیٹے اور بیوی کی لاشیں ملی ،چھوٹا بیٹا بچ گیا تھا، اسے اب سجے کے ساس سسر پال رہے ہیں ۔تم نے دیکھا ہی ہووے گا اسے…. پچھلے مکان میں مائی اور بابے کے پاس جو ڈھائی تین سال کا بچہ تھا۔ وہی…. اور وہ دونوں بزرگ سجے کے ساس سسر ہیں۔ “
مرشد نے بے اختیار گردن گھما کر عقبی طرف دو ڈھائی فرلانگ کے فاصلے پر اس مکان کی طرف دیکھا، جہاں سے نکل کر وہ لوگ یہاں تک پہنچے تھے اور اب سے تقریباً تین گھنٹے پہلے جسکی چھت پر مرشد کی سجے سے ملاقات ہوئی تھی…. اسے اب جعفر کی زبانی معلوم ہو رہا تھا کہ اس چار دیواری میں اس نے جس بوڑھے اور بوڑھی کو دیکھا تھا وہ دونوں بد نصیب ،مظلوم اشتہاری سجے کے ساس سسر ہیں…. جعفر مزید بتا رہا تھا۔
” بس پھر…. اس سب کے بعد وہی کچھ ہوا جو ہونا چاہیے تھا….سجا تین ماہ کے لیے کہیں غائب ہو گیا کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ تین ماہ اس نے کہاں گزارے۔ تین ماہ بعد جب وہ منظر عام پر آیا تو سب سے پہلے اس نے تین پولیس والوں کو چھلنی کرا اور اسی رات زمیندار کے دو پتروں کو بھی مار ڈالا۔ ان دونوں کو مارنے کے بعد سجے نے ان کی لاشیں ایک درخت کے ساتھ لٹکا دیں…. بس وہ دن اور آج کا دن سجے کے سر پر کئی قتل ،کئی ڈکیتیاں اور کئی پولیس مقابلے پڑ چکے ہیں مگر اس شیر کے بچے کو کوئی پرواہ نہیں علاقے کے لوگوں کے علاوہ پولیس والوں پر بھی بڑی دہشت ہے اس کی۔ “
"یہ حرامی پولسیے خود ہی ڈکیت اور اشتہاری پیدا کرتے ہیں۔ اگر یہ محکمہ تیس فیصد جرائم کی روک تھام کرتا ہے تو ستر فیصد جرائم کی پشت پناہی اور پرورش بھی یہ لوگ خود کرتے ہیں ۔صرف انھی کا کیا ذکر…. ہمارا پورا نظام ہی سڑا ہوا ہے ورنہ جرائم کی اتنی شرح ہی کیوں ہووے…. بس خدا ہی
حافظ ہے اس ملک کا جس کے سر یہ باقی ہے، قائم ہے۔“
خیر…. تو یہ بتا کہ اگر ہم لوگ یہاں سے نکلنے کی کوشش کریں تو کیا طریقہ اختیارکرنا چاہئے؟” مرشد نے بدمزگی سے کہتے ہوئے سوال کیا۔
"فوری طور پر تو کوئی طریقہ بھی نہیں کرا جاسکتا استاد !”
"زیادہ وقت یہاں ٹک کر بیٹھا بھی نہیں جاسکتا اور نہ ایسا ممکن ہوسکے گا ۔ اچھی خاصی نفری ہے اور یقینی طور پر شام تک مزید گھیرا تنگ ہو جائے گا۔“
مرشد نے نظریں گھما کر دیکھا، تینوں گاڑیاں دریا کے قریب پہنچ کر رک چکیں تھیں۔ اس طرح کے حالات کا سجے کو بہت تجربہ ہے۔ اس کا انداز اور بے فکری بتاوے ہے کہ اس کے پاس یہاں سے بچ نکلنے کا کوئی منصوبہ ہے۔“
"اس کا ہمیں بھی پتاہونا چاہیے کیونکہ کہ بات بالکل صاف ہے ۔ہم یہاںپولیس مقابلے کی صورت میں ایک آدھ اور زیادہ سے زیادہ دو تین دن ہی نکال پائیں گے ،اس کے بعد…. شاید کوئی زندہ ہی نہ بچے اور مجھے ابھی ہر صورت زندہ رہنا ہے۔ کم از کم تب تک، جب تک میں حجاب سرکار کو ان کی منزل تک، ا�±ن کے اپنوں تک نہیں پہنچا دیتا۔”
"سجا، ہاشم کے ساتھ میٹنگ کر رہا ہے ،شاید اسی حوالے سے کوئی بات چیت ہو رہی ہو ان میں۔ "
"تو سجے سے پوچھ کر دیکھ لے ورنہ پھر میرے ذہن میں ایک راستہ ہے۔ "
"کون سا راستہ؟” مرشد کی بات پر جعفر نے کسی قدر چونک کر پوچھا۔
"بتا دوں گا، پہلے تو سجے سے بات کر لے۔“ مرشد رخ بدل کر دریا کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کا دھیان بار بار دریا ہی کی طرف جاتا تھا ۔ذہن کہتا تھا آگے بڑھنا ہے اور موجودہ صورتحال میں آگے بڑھنے کے لئے دریا پار کرنا ناگزیر محسوس ہوتا تھا۔ اس حوالے سے اگر کوئی الجھن تھی تو وہ حجاب کے حوالے سے تھی کہ وہ کیسے دریا پار کرے گی…. ا�±سے کیسے دریا پار کروایا جائے؟
"ٹھیک ہے…. میں سجے سے بات کرتا ہوں۔“جعفر نے کہا اور اس مکان کی طرف بڑھ گیا جس کی چھت پر تین افراد اینٹوں کی دھاک جما رہے تھے ۔ا�±سی وقت ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی۔ مرشد بند سے اترتا ہوا واپس مکان میں داخل ہو گیا۔ ا�±س نے ابھی صحن میں پاو�¿ں رکھا ہی تھا کہ اندر کمرے سے بلند ہونے والی ایک لرزیدہ چیخ نے اسے ب�±ری طرح چونکا دیا۔سامنے برآمدے میں پڑی چارپائی پر بیٹھے خنجر اور ٹیپو بھی ہڑبڑا اٹھے تھے ۔صحن سے ٹوکریاں اور ٹہنیوں کے گٹھے سمیٹ کر برآمدے میں ڈالنے والے نو عمر لڑکے نے بھی گھبرا کر کمرے کی طرف دیکھا۔لرزیدہ چیخ کی یہ آواز تاجل کی تھی۔ اگلے ہی پل وہ کمرے سے برآمد ہوا اور آندھی کی رفتار سے دوڑتا ہوا مرشد کے برابر سے گزر کر باہر نکل گیا ۔ا�±س کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ مرشد ابھی اس پر حیران تھا کہ بوڑھا مصری بھی اسے للکارتا ہوا اس کے پیچھے دوڑا۔
"ارو رک حرام کھور! مائیں بتاتا ہوں تیرو کو…. جنور کے بچو(بچے)۔” وہ بھی گالیاں بکتا ہوا تیر کی رفتار سے باہر نکل گیا۔اس کے دوڑنے کی رفتار مرشد اور خنجر کو ایک بار پھر حیران کر گئی۔ اس مریل بوڑھے کے دوڑنے میں حیرت انگیز طور پر نوجوانوں کی سی تیزی اور پھرتی تھی۔ ا�±سے پہلی نظر دیکھ کر کوئی بھی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ اس مریل مدقوق ڈیڑھ پسلی بڈھے میں اتنی جان اور ایسی پھرتی ہوگی!
چند لمحوں کے لیے ٹیپو اپنی جگہ ہکا بکا سا کھڑا رہا پھر باہر سے بشارت کی مصری کو پکارتی ہوئی آواز سن کر حرکت میں آیا اور تقریباً دوڑنے والے انداز میں مصری اور تاجل کے پیچھے ہی باہر نکل گیا ۔مرشد برآمدے میں خنجر کے پاس پہنچ گیا۔
"کیا ہوا ہے انھیں؟”
"خدا ہی جانے کیا دورا پڑا ہے۔.” مرشد کے سوال پر خنجر کندھے اچکاتے ہوئے بولا ۔”دونوں اسی وقت سے اندر گھسے بیٹھے تھے ،اب اچانک یہ ڈرامہ سامنے آیا ہے۔“ کمرے کے دروازے پر حجاب کی پریشان صورت دکھائی دی۔
"کون چیخا تھا یہ! کیا بات ہے؟.”
” کچھ نہیں سرکار! وہ…. مصری اور ا�±س کا جمورا تاجل ایسے ہی بس آپس میں شغل کر رہے ہیں۔ پریشانی والی کوئی بات نہیں۔.” مرشد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے تسلی دی۔
” یہ کس طرح کا شغل ہے؟ میرا تو کلیجہ کانپ کر رہ گیا۔.”
"آپ نے دیکھا ہی ہے مصری کو…. تھوڑا سنکی سا ہے۔.”
خنجر نے فوراً لقمہ دیا ۔ ”تھوڑا… تھوڑا نہیں، اچھا خاصا سنکی ہے۔ بالکل مینٹل مخلوق ہے۔ یوں بھوکے ناگ کی طرح اس کے پیچھے گیا ہے جیسے اس بچے کی جان لے کر ہی دم لے گا اب۔“ مرشد اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے حجاب سے مخاطب ہوا۔
"آپ بے فکر ہو کر بیٹھیں سرکار! ہم لوگ یہیں موجود ہیں۔” حجاب پیچھے ہٹ گئی تو مرشد خنجر کے ساتھ چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ "تیرے ساتھ کیا مسئلہ ہے، تو کیوں اتنا چڑا بیٹھا ہے؟”
"سیدھی بات ہے جگر! یہ مصری مجھے زہر سے بھی ب�±ری لگ رہی ہے۔ اس پاگل بوڑھے میں کوئی بدروح گھسی ہوئی ہے یا شاید یہ خود ہی کوئی بد روح ہے۔ واپس آتا ہے تو اس کی آنکھیں دیکھنا بالکل غیر انسانی آنکھیں ہیں اس کی!”
” تو اکھ مٹکا نہ کر اس کے ساتھ ،بدروح ہے یا بھوت…. تجھے کیا لینا دینا؟”
"مجھے کیا پڑی ہے اکھ مٹکے کی۔” خنجر نے انتہائی برا سا منہ بنایا۔ ” ا�±س کو کوئی تکلیف ہے ۔جب بھی میری طرف دیکھتا ہے تو سور کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے گالیاں دیتا رہتا ہے۔“ اس کے انداز پر مرشد کو ہنسی آگئی
” ا�±سے پھر تجھ سے محبت ہوگئی ہے۔“
"میں لعنت بھیجتا ہوں ا�±س پر بھی ا�±سکی محبت پر بھی ۔” خنجر کے حلق میں گویا کسی نے سیال کونین انڈیل دی تھی۔
” حیا کر کچھ ،تیرے دادا کی عمر کا ہے۔“
"ان کے دادا سے بھی جیادہ ہی ہوگا جی!.” نوعمر لڑکا ٹہنیوں شاخوں کا آخری گٹھا چارپائی کے قریب ڈالتے ہوئے دانت نکال کر بولا۔
” میرا دادا بتایا کرتا تھا کہ اس بابے مصری کو وہ نوجوانی سے دیکھتا آ رہا ہے۔ یہ تب بھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔“ ا�±س نے باری باری مرشد اور خنجر دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے ا�±ن کی معلومات میں اضافہ کیا۔
"تیرا دادا کہاں رہتا تھا؟ ” مرشد نے سوال کیا۔
یہیں پہلے ہمارے بجرگ (بزرگ) لوگ یہاں جھونپڑوں میں رہا کرتے تھے۔ یہ مکان تو کچھ سال پہلے بنائے ہم نے۔“
” تو کیا یہ مصری تم لوگوں کے ساتھ ہی رہاکرتا تھا؟”
"نہیں جی! یہ تو یونہی دریا کے ساتھ ساتھ آوارا پھرتا رہتا تھا۔ سانپ سپولے اور رنگ برنگی جڑی بوٹیاں اکٹھی کرتا رہتا ہے۔ بیٹ کی ساری بستیوں قبیلوں والے جانتے ہیںاسے۔“
"بیٹ کیا؟”
” بیٹ… بیٹ دریائی علاقے کو کہتے ہیں جی ! دریا کے کنارے کے ساتھ ساتھ جتنے گاو�¿ں ،علاقے، بستیاں، جمینں (زمینیں) ہوتی ہیں، وہ بیٹ کا علاقہ کہلاتی ہیں۔ ہر سال چھے مہینے کے بعد یہیں آس پاس کے علاقوں میںکھوار (خوار) ہوتا پھرتا نجر آجاتا ہے…. میں بھی اپنے بچپن سے اسے ایسے کا ایسا ہی دیکھ رہا ہوں، کوئی پھرق نہیں آیا اس میں۔“
” تمہارے باپ نے بھی اسے ایسے کا ایسا ہی دیکھا ہوگا؟ ” خنجر نے اچانک سوال کیا
ہاں جی ! ابا بتا تا ہے….”
"تمہارے دادا نے بھی اسے ایسے کا ایسا ہی دیکھا ہوگا؟”
ہاں جی! دادا کہا کرتا تھا….”
"ہم سمجھ گئے۔ تمہارا یہ بابا مصری پیدا بھی ایسے کا ایسا ہی ہوا ہوگا !”خنجر نے کٹیلے لہجے میں کہا تو لڑکے نے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کردی۔
"وہ تو پتا نہیں جی! لیکن سنا ہے کہ اسکی عمر بہت جیادہ ہے ۔کوئی دوسو سال کے قریب۔”
خنجر نے مرشد کی طرف دیکھا۔
” س�±ن لو جگر ! میں نے کچھ غلط نہیں کہا تم سے یہ زہریلی مصری انسان نہیں ،کوئی بدروح ہے ۔کوئی آوارا اور بے چین بدروح۔ "
اس سے پہلے کے مرشد کوئی جواب دیتا، حجاب والے کمرے سے کچھ آوازیں سنائی دیں تو مرشد ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا، کچھ گڑ بڑ تھی۔
حرامی کتڑو…. کھنجیر کھور” مصری کی دانت کچکاتی آواز تھی۔ تاجل کی گھٹی گھٹی چیخ اور ساتھ ہی دھڑام کی آواز سنائی دی ۔مرشد اندرونی طرف کو لپکا اسی لمحے حجاب گھبرا کر باہر نکل رہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے ٹکرا گئے ۔مرشد نے لاشعوری طور پر حجاب کو تھاما تھا۔ وہ پ�±رگداز مرمریں وجود مرشد کے چوڑے اور مضبوط سینے سے ٹکرایا، لمحہ بھر کو مرشد کے بازوو�¿ں نے ا�±سے اپنے حصار میں لیا ،ایک تیز برقی رو تھی جو مرشد کے روئیں روئیں کو جھنجھوڑ گئی۔ ا�±س نے تڑپ کر سنبھالا لیا اور یوں ایک جھٹکے کےساتھ ایک طرف ہٹاجیسے انجانے میں بجلی کی ننگی تاروں کے ساتھ لپٹ گیا ہو۔ یہ لمحے بھر کا حادثاتی قرب…. یہ اتفاقیہ لمس ا�±سکے وجود کی پورپور کو دھڑکا گیا تھا۔ خود حجاب پوری طرح گڑبڑا گئی تھی ۔اس ایک لمحے نے دھڑکنوں کا ا�±تار چڑھاو�¿ تلیٹ کر مارا تھا۔ دونوں کے دل و دماغ اپنی جگہ فضائیں تک دھڑک ا�±ٹھی تھیں…. بادل شدت سے گڑگڑائے تھے۔
مرشد نے دیکھا کے کمرے کی عقبی دیوار میں موجود خلا کے سامنے دھری چارپائی کی پائنتی کی طرف زمین پر تاجل گرا پڑا تھا اور بوڑھا مصری ا�±سکی پیٹھ پر سوار تھا۔ یقیناً چند لمحے پہلے ہی تاجل نے ا�±س خلا سے اندر کودنے کی کوشش کی تھی اور ا�±سی پل مصری نے ا�±سے دبوچ لیا تھا۔ خلا کے ا�±س پار مرشد کو ٹیپو کی شکل دکھائی دی۔ وہ بھی اندر کودنے والا تھا۔ ا�±سکے عقب میں بشارت بھی موجود تھا۔
"اب بول حرامی گدھویا ! کیا…. کیا سمجھو ہو میرو کو؟” مصری دانت کچکاتے ہوئے غرایا ۔اس نے ایک بازو تاجل کی گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے ا�±س کے بال دبوچے جھنجھوڑ رہا تھا۔ تاجل کے حلق سے گھٹی گھٹی آوازیں خارج ہو رہی تھیں۔ مرشد اسکی داد رسی کے لیے فوراً آگے بڑھا۔ ٹیپو بھی اندر کود آیا تھا۔ دونوں نے ا�±سے تاجل سے الگ کرنا چاہا مگر مصری کسی جونک کی طرح تاجل کی پشت کے ساتھ چمٹ گیا تھا۔
گگ گلتی لگ گﺅ ددا ! مم…. ماپھ کردیو۔“ تاجل کے حلق سے بہ مشکل نکلا۔
"مصری چھوڑ دے اسے۔”
"پاگل مت بنو۔“
"ناہی چھوڑوں گا آج!”
"دماغ پھر گیا ہے کیا تمہارا؟”
"انسان بنو۔”
بشارت بھی اس خلا سے کود کر اندر پہنچ آیا۔مرشد نے دیکھا کہ مصری کسی صورت تاجل کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں تو ا�±س نے بہ زورِبازو مصری کی گرفت ختم کی اور اسے کھینچ کر تاجل سے علیحدہ کیا ۔مصری اور تاجل ،دونوں کے سیاہ جھلسے چہرے تمتما رہے تھے۔ تاجل کے گلے کی رگیں بھی پھولی ہوئی تھیں اور آنکھیں خون کے دباو�¿ سے سرخ ہو رہی تھیں۔ مصری کی گرفت سے نجات ملتے ہی وہ سہمے ہوئے انداز میں بشارت اور ٹیپو کے عقب میں سمٹ گیا۔
” مصری…. ہوش کر…. کس پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے تجھے!” بشارت نے انتہائی غصیلے لہجے میں ا�±سے ڈپٹا تو وہ جو مرشد کی گرفت سے نکل کر پھر سے تاجل پر جھپٹنے کے لئے پھڑپھڑا رہا تھا ،فوراً ہی قدرے پ�±رسکون ہو گیا۔
"کیا تماشا لگا رکھا ہے یہ سب…. کھوپڑی میں بھیجے نام کی چیز ہے یہ نہیں؟ کیا ہوگیا ہے تجھے۔” بشارت کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ پڑ گیا تھا۔ مصری کا سارا جنون جیسے یکایک ا�±ڑن چھو ہو گیا۔ ا�±س نے بہ آہستگی مرشد سے اپنے بازو چھڑائے، ایک قہرناک نگاہ تاجل کی طرف دیکھا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا جہاں خنجر کھڑا یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ حجاب باہر برآمدے میں جا کھڑی ہوئی تھی۔دروازے کے قریب ٹھٹک کر رکتے ہوئے مصری نے یوں پلٹ کر دیکھا جیسے کچھ یاد آگیا ہو۔ اس کا مرکزِنگاہ بشارت ہی کا چہرہ تھا، باقی سبھی کے سمیت بشارت بھی اسکو دیکھ رہا تھا۔ مرشد کے زہن میں کچھ دیر پہلے کہے ہوئے خنجر کے الفاظ گونج ا�±ٹھے۔
واپس آتا ہے تو اس کی آنکھیں دیکھنا…. بالکل غیر انسانی آنکھیں ہیں اسکی!” اِن لمحوں مصری کی طرف دیکھتے ہوئے مرشد کو خنجر کے الفاظ حرف بہ حرف درست معلوم ہوئے ۔مصری کی آنکھوں میں کوئی ایسی بات تھی ضرور…. ایک غیر معمولی تاثر اور غیر معمولی چمک تھی اس کی آنکھوں میں۔ وہ آنکھیں اتنی زندہ اور جاندار تھیں کی سامنے والے کو اپنے اندر تک جھانکتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں !
وہ چند لمحے یک ٹک بشارت کی طرف گھورتا رہا پھر نگاہوں کا زاویہ بدلتے ہوئے مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے یک دم انتہائی ت�±رش لہجے میں بولا۔
” جیسو یہ جنور چیخ رہو ہو اس سے لگوہو کہ پاگل کتو (کتے) نواسو کاٹو ہو” اشارہ بشارت کی طرف تھا۔ ”اس
جنور(زنور یعنی سور ) کو بتائی دیو کہ جرا میرو کو ملک منصب تک پہنچ لینو دیو جوتوں سے کھوپڑ گنجا کروائی دیو ںگا اس کا۔” وہ واپس پلٹا، خنجر پر نظر پڑتے ہی پھر ٹھٹکا اور دوبارہ گردن موڑکر مرشد سے مخاطب ہوا ۔”اور اِس بینگن مونہے کو بھی بتائی دیو۔” اتنا کہ کر وہ فوراً باہر نکل گیا۔ بشارت اور خنجر دونوں ہی اپنی اپنی جگہ تلملا کر رہ گئے تھے۔ خنجر نے تو باقاعدہ دانت کچکا کر پہلے مصری کی طرف دیکھا اور پھر مرشد کی طرف ۔مرشد بس مسکرا دیا تھا۔ ٹیپو بشارت سے مخاطب ہوا۔
"بشارت بھائی ! یہ بابا تو دماغ کی طرف سے بالکل ہی کھسکا ہوا ہے!”
” برداشت کرنا پڑے گا…. مجبوری ہے۔” بشارت نے خفت اور ناگواری سے کہا ۔مرشد تاجل کی طرف متوجہ ہوا۔
”کیا کیا تھا تو نے؟” تاجل نے پریشانی سے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا پھر فوراً نفی میں سر ہلایا ۔مرشد ا�±سے بازو سے پکڑکر باہر برآمدے
میں لے آیا۔ بشارت اور ٹیپو بھی ا�±ن کے پیچھے ہی باہر نکل آئے تھے۔ ان کے باہر آتے ہی حجاب دوبارہ کمرے میں چلی گئی ۔کام کرنے والا لڑکا دوسرے کمرے سے فوراً ایک اور چارپائی لے آیا۔
"وہ بابا کدھرہے؟” بشارت نے اس لڑکے سے پوچھا تھا۔ وہ زبان سے تو کچھ نہیں بولا البتہ اشارے سے ا�±س نے بتایا کہ بابا مصری دوسرے کمرے میں جا گھسا ہے۔
”اب بتا کیا گلتی لگی تھی تجھے؟ “مرشد نے تاجل سے پوچھا۔ ا�±س نے سراسیمہ نظروں سے دوسرے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا اور بہت دھیمے سے بولا۔
"کچھ نہیں سائیں! مجھے دم لگانے کی عادت ہے تو …. دوچار بار ددا سے کہہ بیٹھا کہ دوائی کا کچھ انتجام کروادے۔ ددا جیادہ ہی غصہ کر گیا۔”
"بس یہی بات تھی یا ….”مرشد سمجھ گیا تھا کہ دم لگانے اور دوائی سے تاجل کی کیا مراد ہے۔وہ یقیناً چرس پینے کا عادی تھا۔ اس کی اندر کو دھنسی زرد آنکھیں، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ، سوکھے سڑے پچکے ہوئے گال اور بے رونق چہرہ اس بات کی واضح نشانیاں تھیں۔
"یہی بات تھی جی !”
"اتنی سی بات پر اتنا بڑا ہنگامہ ؟” ٹیپو نے قدرے تعجب اور بدمزگی سے کہا۔
"ددا کا موڈ ویسے ہی کھراب ہے۔ آجاد منشن اور من موجی روح ہے نہ ددا کیاب دو تین دن سے یہ سب جو چل ریا ہے، مجاج جیادہ ہی چڑچڑا ہو ریا ہے اس کا۔ "تاجل وہیں برآمدے کے ستون کے ساتھ پیروں کے بل بیٹھ گیا۔ آپ سردار سائیں لوگ ہیں۔ آپ ہی دوچار دم لگوا دیں۔ ” اس نے باری باری ان سب کی طرف ترسی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ "
"ہم میں سے کسی کو یہ بیماری نہیں ہے۔ سادہ سگرٹ پینا ہے تو بتا ؟” خنجر نے جیب سے ایمبیسی کی ڈبیا نکالی۔
"چلیں یہی پلوادیں۔”
"میں ایک آدھ دانہ لا دیتا ہوں دوائی کا۔”نو عمر لڑکے نے کہا اور فوراً بیرونی طرف کو بڑھ گیا۔ بوندا باندی اسی طرح جاری تھی۔ بارش نے ابھی شدت اختیار نہیں کی تھی البتہ ہوا کے جھونکوں میں خنکی گھل آئی تھی۔گرمی کا احساس یکسر ختم ہوچکا تھا۔ بادلوں کی گھن گرج وقفے وقفے سے جاری تھی۔ کبھی یہ گڑگڑاہٹ بالکل سروں پر سنائی دیتی اور کبھی دور چلی جاتی۔ گویا بادل اپنے پر جلال لہجے میں اردگرد کے علاقوں اور بستیوں کو موسم کے کڑے تیوروں کے حوالے سے تنبیہ کرتے پھر رہے تھے۔خنجر نے ایک سگرٹ تاجل کو تھمایا اور دوسرا خود سلگاتے ہوئے بولا۔
"یہ جعفر اور سجا کدھر غائب ہو گئے ہیں۔ کیا ہو رہا ہے باہر ؟”
"مورچہ بندی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جعفر کو میں نے کہا ہے کہ سجے سے پوچھ لے اگر اس کے ذہن میں ہمارے ادھر سے نکلنے کا منصوبہ ہے تو ٹھیک …. ورنہ پھر ہم لوگ اپنے طور پر کوشش کریں گے۔”مرشد نے سرسری سے انداز میں کہا۔ اس کا دھیان اندر کمرے میں بیٹھی حجاب کی طرف تھا …. دل میں کچھ دیر پہلے والا لمحہ دھڑک رہا تھا۔
"تمہارے ذہن میں ہے کوئی منصوبہ ؟”خنجر نے دھواں اگلتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
"منصوبہ تو نہیں رستہ ہے۔ سجے کی سن لیں پھر منصوبہ بھی سوچتے ہیں۔”
"یہاں سے نکل جانا اب آسان نہیں ہوگا۔”بشارت کے بولنے پر وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ اور ٹیپو دوسری چارپائی پر بیٹھ گئے تھے۔
ٹیپو اپنی پگڑی باندھ رہا تھا جو مصری کے ساتھ زور آزمائی کے دوران کھل گئی تھی۔ مرشد کے کچھ کہنے بولنے سے پہلے خنجر بول پڑا۔
"یار ! یہ تم لوگوں کے کپڑوں اور پگڑیوں کی کیا کہانی ہے ؟” وہ بغور ٹیپو کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"کیا مطلب ؟ ” بشارت نے پوچھا۔
"مطلب تم سب کالی قمیضیں اور کالیاں پگڑیاں ہی کیوں باندھتے ہو ؟ کوئی اور رنگ کیوں نہیں استعمال کرتے ؟ اس سب کی کوئی خاص وجہ ہے کیا ؟ "
"ہاں…. اس کی ہے ایک وجہ۔” بشارت کا دماغ اچانک ہی جیسے کہیں بہت دور جاپہنچا۔ "ہماری پوری بستی ہی نے کالا رنگ خود پر لازم کر رکھا ہے۔ کالی قمیضیں…. پگڑیاں….دوپٹے …. ہمارے گھروں کے نوجوان اور بچے تک یہی رنگ پہنتے اوڑھتے ہیں !”اس کی اس بات کے ساتھ ساتھ اس کا لب و لہجہ بھی عجیب تھا۔ مرشد نے نظروں کا زاویہ بدل کر اس کی طرف دیکھا۔ اس معاملے کے پیچھے ضرور کوئی بہت ہی خاص وجہ موجود تھی۔
خنجر نے تعجب سے پوچھا۔
"یہ تو کمال بات ہے پھر …. ایسا کیوں بھلا؟”
"کالا رنگ سوگ کی علامت ہے نا ! دکھ اور افسوس کا رنگ ہے یہ ….ہمارے ملک …. ملک منصب نے پچھلے بارہ تیرہ سال سے اس رنگ کے علاو�¿ہ اور کوئی رنگ نہیں پہنا۔ اس کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر پوری بستی نے اس رنگ کو اپنا لیا ہے …. پوری بستی کا پہناوہ ایسا ہی ہے !”
شاید وہ کچھ مزید بولتا مگر اسی وقت ٹیپو نے غیر محسوس انداز میں اسے کہنی سے ٹہوکا مارا تو جیسے وہ اچانک ماضی سے حال میں واپس پہنچ آیا۔
"تو کس بات کا سوگ منا رہے ہو تم سب لوگ؟ملک منصب کے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے ؟”خنجر نے مزید سوال اٹھایا۔
"بس ہوا تھا کچھ…. اگر یہاں سے نکلنا نصیب ہوا تو ہم سب ملک کی حویلی میں جائیں گے۔ تب آپ لوگوں کو معلوم ہوجائے گا۔”
"جو بات تب معلوم ہونی ہے وہ ابھی بتا دو گے تو کون سی آفت آ جائے گی ؟”
"آپ پر آئے نہ آئے ہم پر ضرور آفت آ سکتی ہے۔ چھوڑیں اس بات کو….آپ بتائیں…. یہاں سے بچ نکلنے کا کیا رستہ ہے آپ لوگوں کے ذہن میں ؟”بشارت کے سنجیدہ اور قطعی انداز پر ناچاہتے ہوئے بھی خنجر کو چپ لگ گئی۔بشارت کی اس بات چیت سے خود مرشد کے دماغ میں ایک تجسس بے دار ہو آیا تھا۔ذہن میں شدت سے یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آخر ایسی بھی کیا بات ہے کہ جس کے باعث کوئی پوری کی پوری بستی…. حتی کہ اس بستی کے مردوزن کے علاوہ بچے تک سیاہ رنگ کے استعمال کو لازم ٹھہرا چکے ہوں ؟
خنجر کی طرح وہ بھی اس کی وجہ جاننا چاہتا تھا مگر بشارت کے انداز نے سمجھا دیا تھا کہ وہ اس حوالے سے مزید ایک لفظ بھی اپنی زبان سے ادا نہیں کرے گا !اس کے سوال کے جواب میں خنجر نے الٹا اس سے سوال کیا۔
” تم لوگ یہاں کے مقامی بندے ہو۔ تم ہی بتاو�¿ اس صورتِ حال میں یہاں سے کیسے نکلا جاسکتا ہے ؟”اسی لمحے بیرونی دروازے سے وہی نوعمر لڑکا اندر داخل ہوا جو تاجل کے لئے دوائی کا دانا لینے گیا تھا۔ اس کے آتے ہی تاجل کا چہرہ کھل اٹھا۔ لڑکے نے بکری کی مینگنی سی تاجل کو تھمائی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے بے ساختہ لڑکے کی شان میں دو چار تعریفی کلمات بھی ادا کئے اور خنجر کے دیئے ہوئے سگرٹ سے تمباکو ہتھیلی پر نکالنے لگا۔مرشد نے لڑکے کو مخاطب کیا۔
"تیرا نام کیا ہے ؟”
"مجید "
"تو مجید کاکا ! جاکر دیکھو …. سجے کے پاس جعفر نامی بندہ ہوگا۔ اسے بلا لاو�¿۔”مجید نامی وہ لڑکا "اچھا” کہہ کر فوراً ہی واپس چلا گیا۔
بشارت بولا "یہاں دریا کے بیچ میں کچھ جزیرے ہیں۔ ان پر چھوٹی چھوٹی بستیاں بھی آباد ہیں۔ وہ لوگ کشتیاں استعمال کرتے ہیں۔ دریا کی دونوں طرف آتے جاتے ہیں لیکن اس موسم میں کوئی امید نہیں اور ویسے بھی پولیس والے ہماری طرف فوری طور پر پیش قدمی کریں یا نہ کریں ….
دریا پر ان کی پوری نظر ہوگی۔ خشکی پر دو طرف تو پہلے ہی نفری موجود ہے۔ درمیان سے تیسرے رخ بھی ہم نے نکلنے کی کوشش کی تو زیادہ دور نہیں جاسکیں گے۔ ویسے بھی تیسرے رخ ، یعنی یہاں سے سامنے بند پار کا رستہ تو واپس ملتان کی طرف ہی جانا ہے۔ ایسے میں بھلا کیا بتایا جائے ؟
میرے ذہن میں تو صرف یہی آس امید ہے کہ شاید ملک منصب یا ارباب صاحب ہمارے لیے کچھ کریں۔”
"اس وقت کسی آس امید میں بیٹھ کر وقت ضائع کرنا نری حماقت ہوگی۔”
"تو پھر آپ ہی بتائیں کیا کرنا ہے ؟”وہ چاروں آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے۔تاجل نے سگرٹ تیار کرنے کے بعد سلگایا تو برآمدے کی خوش گوار اور خنک فضا میں چرس کی ناگوار بو بھی آ گھلی۔تاجل کے چہرے پر سکون و اطمینان پھیل چکا تھا۔ اس نے دو تین کش ہی لگائے ہوں گے کہ کونے والے کمرے سے مصری برآمد ہوا۔اس نے سیدھے تاجل ہی پر نظر ڈالی تھی۔ تاجل فوراً سنبھل کر بیٹھ گیا۔ مصری ان میں سے کسی پر بھی دھیان دئیے بغیر آگے بڑھا اور برآمدے کی بغلی دیوار کے ساتھ پڑی ٹہنیوں کی ڈھیری پر آبیٹھا۔ تاجل نے جھجکتے ہوئے سگرٹ اس کی طرف بڑھایا تو مصری نے بلا تکلف سگرٹ اس کے ہاتھ سے پکڑ لیا۔
”اب ای کدھر سو نکلی، کتڑیا!“ مصری تلخی سے بولا۔
” ای توای تو ابھی اس لڑکے مجیدے نے لا کر دی ہئے۔“
"اور ہےو؟” مصری نے پوچھا تھا۔
"ہاں ! ایک اور ہے۔”
"بنا پھر ” مصری نے حکم صادر کیا اور طویل کش لیا۔ تاجل خنجر کی طرف متوجہ ہوا۔
"سائیں ! ایک سگروٹ اور ملے گا ؟”
خنجر نے خاموشی سے ڈبیا سے ایک سگرٹ اور اسے تھما دیا۔مصری پر کسی نے بھی خصوصی طور پر کوئی توجہ نہیں دی تھی کہ مبادہ وہ سنکی روح پھر نہ بگڑ کھڑی ہو۔ یقیناً چرس کی بو ہی تھی جسے اس کی تیز ناک محسوس کرتے ہوئے اسے کمرے سے باہر نکال لائی تھی۔
تاجل سگرٹ ملتے ہی کھسک کر مصری کے قریب جا بیٹھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ دونوں آپس میں یوں شیرو شکر ہو بیٹھے جیسے عاشق و معشوق ہوں !
بیرونی دروازے پر سجے کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی بارش نے اچانک زور پکڑ لیا۔سجے کے ساتھ جعفر کے علاو�¿ہ دو نوجوان اور بھی تھے جنہوں نے کھانے پینے کے برتن اٹھا رکھے تھے۔ وہ چاروں دوڑنے کے سے انداز میںبرآمدے تک پہنچے۔ بادلوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ بجلی کی پر ہول کڑک بھی شامل ہو آئی تھی۔بارش یوں تابڑتوڑ انداز میں برسنا شروع ہو گئی جیسے آسمانوں سے کوئی آب شار گرنے لگی ہو۔ دن دیہاڑے ماحول کو ایک ملگجی سی تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
"لوجی ! خدا کی رحمت بھی ہمارے حق میں اتر آئی ہے …. مزے ہوگئے یہ تو ۔” سجے نے برستی بارش کی طرف دیکھتے ہوئے خوش دلی سے کہا پھر ساتھ آئے لڑکوں سے مخاطب ہوا۔
"چلو اوئے ! رکھو برتن ادھر۔” وہ بشارت اور ٹیپو کے ساتھ چارپائی پر چڑھ بیٹھا اور جعفر چنگیر لے کر مرشد اور خنجر کے ساتھ آبیٹھا۔گرم گرم روٹیوں کے ساتھ دیسی مرغی کا شوربے والا سالن اور اچار کا کٹورا تھا۔جست کی گھڑونچی میں پانی اور جست ہی کے گلاس اور کٹوریاں تھیں۔ برتنوں کی حالت کوئی زیادہ اچھی نہ تھیں مگر روٹی اور سالن کی اشتہا انگیز خوشبو بتا رہی تھی کہ سالن مزے کا ہوگا۔
"ہم لوگاں کو ادھر ہی دئی دیو۔” مصری کی نرم اور ملائم آواز پر مرشد نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اور تاجل ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر بیٹھے چرسیلے سگرٹ کے کش لگا رہے تھے۔ دونوں پوری طرح مطمئن اور پر سکون دکھائی دے رہے تھے۔مرشد نے ایک کٹوری میں سالن نکالا۔ ایک چھبی میں روٹیاں رکھیں اور اٹھ کر اندر کمرے میں چلا گیا۔
حجاب چارپائی پر خاموش بیٹھی عقبی خلا سے باہر جھانک رہی تھی۔ ادھر کا منظر انتہائی خوبصورت نظارہ پیش کر رہا تھا۔گھاس ، جھاڑیاں ، خودرو پودے ، درخت اور دریا …. ہر چیز بارش کی زد میں تھی۔حد نظر تک، زمین سے فضا کی بلندیوں تک بارش نے ہر چیز کو جیسے آپس میں مربوط کر دیا تھا۔ بارش کی تیز بوچھاڑوں نے سارے دریا میں ایک ارتعاش سا بر پا کر رکھا تھا۔اندر آتے ہوا کے جھونکوں میں پانی کی مخصوص بے مثال مہک اور جاں فزا خنکی رچی ہوئی تھی اور فضا میں طوفانی بارش کا مخصوص سازو آہنگ رقص انداز تھا۔
"سرکار ! کھانا کھا لیجئے۔”مرشد کی آواز پر حجاب کا ارتکاز نہ ٹوٹا۔ پتا نہیں اس سحر انگیز منظر نے اسے ذہنی طور پر کہاں پہنچا رکھا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک پر سوچ اداس سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے رخ پھیرتے ہوئے ایک نظر مرشد کی طرف دیکھا اور دوبارہ دریا کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔”
"جتنی ہے اتنا کھا لیجئے۔”
"بالکل بھی نہیں ہے۔”
"پھر بھی …. کچھ تھوڑا سا کھا لیں۔”
وہ خاموش رہی۔ مرشد بھی کٹوری اور چھبی اٹھائے خاموش کھڑا رہا۔ اس کی نظریں حجاب کے چادر میں لپیٹے چہرے پر تھیں۔ چہرے کے دائیں رخ کا معمولی سا حصہ ہی دکھائی دے رہا تھا۔ تقریباً اسی طرح جیسے اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا ….اماں کے کمرے میں…. جائے نماز پر بیٹھے ہوئے۔ وہ منظر اپنی تمام تر جزیات سمیت آج بھی اس کے دل و دماغ پر ویسے کا ویسا نقش تھا۔ اس وقت حجاب نے اس کی اماں کا جامنی دوپٹہ چہرے اور سر کے گرد لپیٹ رکھا تھا اور دوپٹے کے ہالے میں جھلک دکھلاتا وہ آدھا چہرہ جیسے آدھے سچ کی صورت کمرے میں روشن تھا وہی سنجیدہ سی سادگی اس وقت بھی اس کے چہرے پر موجود تھی جو اس کے خال و خد کا خاصہ تھی ۔ اس کے سامنے گویا کوئی جیتا جاگتا وجود نہیں بلکہ ایک خیالی تصویر رکھی تھی …. مشرق کی افسانوی تہذیب کی عکاس، ایک معصوم صورت با حیا لڑکی کی تصویر۔
پھر ایک اور منظر تھا …. اسی آدھے رخ کا…اس کے رخسار پر ایک آنسو ڈھلک رہا تھا۔اس وقت کھڑکی کے باہر چمکتی دھوپ یک بارگی جیسے اس آنسو سے منعکس ہونے لگی تھی اور رخسار سے تھوڑی کی طرف پھسلتا ہوا وہ ننھا سا آنسو، ایک پل کے لیے کسی آب دار موتی کی طرح چمک کر معدوم ہوگیا تھا۔ عجیب نظر خیز نظارہ تھا وہ ….مرشد اس روز کی طرح ان لمحوں میں بھی مسحور سا کھڑا بے اختیار …. بے ساختہ…اس آدھے رخ کو دیکھتا گیا۔ رگ و پے میں وہی شناسا اور خوش گوار سنسناہٹ بے دار ہو آئی تھی۔ دل و دماغ میں شدت سے وہی انہونی خواہش جاگ اٹھی کہ کاش کائنات کی نبضیں یہیں تھم جائیں اور یہ منظر ہمیشہ کے لیے اسی جگہ ، اسی طرح محفوظ ہو جائے۔ کاش…. کاش یہ لمحے ابدی ہو جائیں…. کاش !
حجاب کو اس کی نظروں کے ساتھ ساتھ جیسے اس کے جزبات و احساسات کا بھی احساس ہوگیا۔ اس نے رخ بدل کر دیکھا تو مرشد کی نظریں خود بخود جھک گئیں لیکن اس کے سینے میں مچلتے جذبوں کی بے پناہ شدت اس کے چہرے پر رقم تھی۔ وہ شدت واضح اور صاف دکھائی دے رہی تھی۔ حجاب چند لمحے اس کی طرف دیکھتی رہی پھر اس کے لبوں کو جنبشِ ہوئی۔
"اچھا !لائیں ادھر…. تھوڑا سا کھا لیتی ہوں۔”مرشد نے فوراً آگے بڑھ کر برتن اس کے سامنے چارپائی پر رکھ دئیے۔
"میں آپ کے لیے پانی لاتا ہوں۔” اس نے خوش دلی سے کہا اور فوراً باہر نکل گیا۔چند لمحوں بعد ہی وہ پانی کا گلاس لیے حاظر تھا۔ گلاس حجاب کو تھما کر وہ واپس باہر خنجر اور جعفر کے ساتھ چارپائی پر آبیٹھا۔ کھانا واقعی مزیدار تھا۔کھانے کے ساتھ ساتھ وہ لوگ حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔
ایسے غضب ناک موسم میں پولیس کی طرف سے پیش قدمی کی قطعی کوئی توقع نہیں رہی تھی۔ اس کے باوجود سجے کے دو ساتھی گردوپیش پر نظر رکھنے کی نیت سے چوتھے مکان کی چھت پر بنائے گئے عارضی مورچے میں جابیٹھے تھے۔ اس کے ساتھ ہی سب کے سب اس بات پر بھی منتفق تھے کہ رات کے اندھیرے میں لازمی پولیس والے شب خون مارنے کی کوشش کریں گے۔
مرشد ہی کی طرح سجے کا بھی یہی خیال تھا کہ یہاں سے نکلنے کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ رات کے وقت کسی طرح دریا پار کرنے کی کوشش کی جائے لیکن سوال پھر وہی پیدا ہوتا تھا کہ کیسے….خصوصاً حجاب کے حوالے سے ان میں سے کسی کے ذہن میں ایسا حل نہیں تھا جس پر عمل کرتے ہوئے حجاب کو دریا پار کرایا جاسکتا….وہ سب اسی حوالے سے صلاح مشورہ کر رہے تھے جب اچانک مصری بول پڑا۔
"یہ سجا !بڑا کھو چرو ہے …. اسے سارا پتو ہیو کہ دریا کیسے پار ہو سکو ہیو….بس ایسو ہی تم سب لوگاں کو پریشان کیو جا رہو ہیو۔”سبھی نے بے ساختہ اس کی طرف دیکھا۔ وہ سجے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ سب کی نظریں خود بخود سجے کے چہرے پر آٹکیں تو وہ مصری سے مخاطب ہوا۔
"کیا مطلب ہے تمہارا ….جو کہنا ہے کھل کر کہو ؟”
"یہاں پہنچت ہی تم منگو سو اس کوو ابا کا پوچھ رہو تھیو ؟”
"لیکن وہ یہاں نہیں ہے اور ایسے میں اس کی واپسی کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔”
"تو کیا ہو واو …. یہ سبھو موریائی ہیں،سبھو لہراں پر پلو ہیں ہاشم کیو ساتھ کیا کھچڑی پکا تو رہو ہیو۔ وہ اور یہسبھو دریا کو جانتو ہیں …سمجھو ہیں۔”مصری نے لاپرواہی سے کہا۔ سجے کو چپ لگ گئی۔ وہ بس گہری نظروں سے مصری کی طرف دیکھے گیا۔مرشد سجے سے مخاطب ہوا۔
"کچھ ہمیں بھی بتا سمجھا دو…. یہ موریائی کا کیا مطلب ہے ؟”سجے نے ایک گہری سانس لی۔ "موریائی یعنی موریا …. یہاں یہ جتنے گھر آباد ہیں یہ موریا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور خود کو” مور“ کہلواتے ہیں۔ اسی حوالے سے بات کر رہا ہے یہ بابا۔”
"موریا خاندان ! ” مرشد نے کسی قدر تعجب سے دوہرایا۔ ” یہ تو ہندوستان میں ہوتے ہیں اور غالباً چندرگیت موریا کی اولادیں تھیں جو موریا کہلاتی تھیں !”
"بالکل ٹھیک جگہ پہنچے ہو۔” سجا مرشد کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔
"یہ لوگ اسی کی نسل سے ہیں، یعنی اشوک اعظم اور چندر گپت موریا کی نسل میں سے۔”
"انہیں تو پھر ہندوستان میں ہونا چاہیےیہاں کیا کر رہے ہیں یہ لوگ۔” خنجر بھی متعجب ہوا۔
"یہ خطہ بھی تو ہندوستان ہی کا حصہ تھا، ویسے بھی تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ موریا سلطنت صرف ہندوستان تک محدود نہیں تھی بلکہ کم و بیش پچاس
لاکھ مربع کلومیٹر تک پھیلی ہوئی تھی ہندوستان ،یعنی موجودہ پاکستان کے علاوہ افغانستان ، بنگلادیش ، بھوٹان ، ایران اور نیپال بھی اسی سلطنت کا حصہ تھے۔ اشوک اعظم کا دادا ،یعنی چندر گپت موریا وہ شخص تھا جس نے 320 یا 322 قبل مسیح میں یونانی بالادستی کے خلاف بغاوت کی اور تاریخ ہند کی سب سے بڑی اور پہلی سلطنت ،موریا کی بنیاد رکھی اس سے پہلے وہ یہیں پنجاب اور سرحد کے غیر مطمئن قبائل کا رہنما بنا تھا اور اس کے بعد اس نے اپنے وزیر چانکیا یا کوٹلیا کی مدد سے محض ایک سال کے اندر اندر یونانی حکومت کا اثرو نفوذ مٹا کر شاہی خاندان کی بنیاد ڈال دی تھی۔
جس طرح بہادر شاہ ظفر کی اولادیں آج مختلف جگہوں پر خوار ہوتی پھرتی ہیں، اس طرح ہمارے یہاں جنوبی پنجاب میں دریائے چناب اور سندھ کی پٹی کے ساتھ ساتھ یہ موریائی آباد ہیں۔ اب تو ان لوگوں میں مکانات وغیرہ بنا کر رہنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے ورنہ پہلے تو یہ لوگ جھونپڑوں میں رہتے تھے یا پھر نسل در نسل دریا میں، کشتیوں کے اندر ہی زندگیاں گزارتے تھے۔ان کا بنیادی روزگار مچھلیاں پکڑنا تھا یا پھر دریا کے درمیانی جزیروں پر اگنے والے خودرو پودے کاٹ کر ان سے ٹوکرے وغیرہ بنا کر بیچنا۔ یہ تم لوگوں کے سامنے ہی ہے۔”
سجے نے ٹوکروں اور ٹہنیوں کی طرف اشارہ کیا۔ "اب تو یہ لوگ اس کے علاوہ مرغیاں ، بکریاں اور دودھ وغیرہ بیچنے کی طرف بھی آگئے ہیں ورنہ دس بیس سال پہلے تک بس مچھلیاں اور یہ ٹوکرے شوکرے ہی ان کا واحد ذریعہ معاش تھا۔”وہ لوگ کھانا کھا چکے تھے۔ ایک طرف بیٹھے لڑکوں نے برتن سمیٹنا شروع کیے تو مرشد اٹھ کر اندر حجاب کے پاس پہنچ گیا۔ اس کے قریب چارپائی پر برتن ویسے ہی رکھے تھے۔اس نے بہ مشکل چند ہی نوالے لیے ہوں گے۔
"آپ نے تو ٹھیک سے کھایا ہی نہیں۔”
"میں نے بتایا تھا آپ کو کہ مجھے بھوک نہیں ہے۔” مرشد کی بات کے جواب میں اس نے کہا۔
کچھ اور چاہیے آپ کو ؟”پتا نہیں یہ سوال کرتے ہوئے مرشد نے ہچکچاہٹ سی کیوںمحسوس کی!
"نہیں کچھ نہیں چاہیے۔ آپ یہ برتن لے جائیں۔ "
مرشد کو اس کا انداز اور لب و لہجہ عجیب لگا۔ بہرحال اس نے یہی خیال کیا کہ شاید اس موسم اور بارش وغیرہ کی وجہ سے اسے اپنا گھر بار اور باپ بھائی یاد آرہے ہوں گے سو اس نے مزید کوئی بات کہہ پوچھ کر اسے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا اور برتن اٹھا کر خاموشی سے باہر نکل آیا۔ خنجر اور سجے کے درمیان بات ہو رہی تھی۔ سجا بول رہا تھا۔
"یہ لوگ دریا سے بڑی اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ پانی کا بہاو�¿ اور تیور دیکھ کر تہہ اور گہرائی تک کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ منگو کا ابا منشا تو پرانا شناور ہے۔ یہاں دریا کا سب سے زیادہ رمز شناس اسی کو سمجھا مانا جاتا ہے لیکن اس کی واپسی کی اب کوئی امید نہیں۔”
مصری بولا۔ "ہاشم سوبات کر …. وہ بھی دریائی جنور ہیو۔ تمار مقشد پورو ہو جائیوگا۔”اس کا موڈ مزاج حیرت انگیز طور پر نارمل دکھائی دے رہا تھا۔
شاید یہ "دوائی کے دم ” لگانے کا کمال تھا۔مرشد برتن ایک لڑکے کو تھما کر خنجر کے برابر بیٹھتے ہوئے بولا۔
"زیادہ سے زیادہ کتنی گہرائی ہوگی دریا کی؟”
"اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔بہرحال …. دیکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے۔”اس نے ایک نظر مصری کی طرف دیکھا۔
"میرا خیال ہے کہ شام تک کوئی نہ کوئی حل سوجھ ہی جائے گا۔”کچھ دیر بعد بارش کا زور ٹوٹا تو سجا بشارت اور جعفر کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا۔
مصری اور تاجل ایک بار پھر دوسرے کمرے میں جاگھسے اور برآمدے میں مرشد کے ساتھ صرف خنجر اور ٹیپو بیٹھے رہ گئے۔تقریباً ایک گھنٹے بعد جعفر
نے آکر اطلاع دی کہ سامنے کے رخ دو تین جیپیں مزید پہنچ آئی ہیں۔ بارش وقفے وقفے سے جاری رہی ،کبھی شدت اختیار کر جاتی اور کبھی ہلکی بوندا باندی میں بدل جاتی۔ عصر کے بعد انہوں نے دوبارہ کھانا کھایا۔ اس بار حجاب نے بھی کھانے سے احتراز نہیں کیا۔
تقریباً مغرب کے قریب کا وقت تھا۔ گہرے بادلوں کے باعث ابھی سے تاریکی محسوس ہونے لگی تھی۔ مرشد لالٹین جلا کر اندر کمرے میں رکھنے گیا تھا کہ باہر صحن سے کچھ مدھم آوازیں سنائی دیں۔ لالٹین ایک دیوار کے ساتھ لٹکا کر وہ باہر آیا تو اسے سجا دکھائی دیا۔ اس کے ساتھ ایک پنتالیس ،پچاس سالہ دیہاتی سا شخص تھا جس کے ہاتھ میں قد آدم کے برابر کی ایک لاٹھی تھی۔ بارش رکی ہوئی تھی اور وہ دونوں صحن میں کھڑے دھیمی آوازوں میں کچھ بات چیت کر رہے تھے۔ برآمدے کی بغلی دیوار کے ساتھ بھی ایک لالٹین لٹک رہی تھی۔ برآمدے میں صرف خنجر موجود تھا۔
"ڈو بندے اوتے چار ایتھاں ہن۔ نال ہک تریمت وی ہے۔” ( دو بندے وہ اور چار یہاں ہیں۔ ساتھ ایک عورت بھی ہے ) سجے کی آواز تھی۔ وہ سرائیکی میں بات کر رہا تھا۔
"نال کوئی سمان شمان ہئے ؟” (ساتھ کوئی سامان وغیرہ ہے ؟)
"کو ” (نہیں )
وہ دونوں چند لمحے آپس میں مصروف گفتگو رہے پھر سجا تھوڑی دیر تک وہیں آنے کا کہہ کر اس شخص کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا۔ اس کی واپسی تقریباً آدھے پونے گھنٹے بعد ہوئی۔ تب تک گھپ اندھیرا ہو چکا تھا۔بشارت اور جعفر بھی اس کے ساتھ تھے۔سجا آتے ہی مرشد سے مخاطب ہوا۔
"مرشد استاد ! ذہن بنا رکھو…. امید ہے کہ تم لوگوں کے روانہ ہونے کا انتظام ہو جائے گا۔ "
"کیسا انتظام؟” مرشد نے چونک کر پوچھا۔
"دریا پار پہنچنے کا…. منشے کو روانہ کر آیا ہوں۔ اگر کوئی گڑبڑ نہ ہوئی تو ڈیڑھ دو گھنٹے بعد تم لوگ ادھر سے روانہ ہو جاو�¿ گے۔”
انتظام کیا، کیا ہے۔ ہمارے ساتھ سرکار بھی ہیں۔ وہ کس طرح دریا پار پہنچنے گی ؟”
"کشتی ہوگی لیکن وہ یہاں کنارے تک نہیں آئے گی۔ تم لوگوں کو دریا میں جاکر کشتی تک پہنچنا ہوگا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں…. میں نے منشے کو سارا کچھ سمجھا دیا ہے۔ تم لوگ بس تیاری رکھو۔” اس نے بہ عجلت یہ چند باتیں کی اور کچھ دیر تک پھر آنے کا کہتا ہوا واپس چلا گیا۔
"پھر چلا گیا ہے یہ ! ” خنجر نے قدرے تعجب سے کہا۔”
"ڈھنگ سے کچھ بتایا بھی نہیں،کس چکر میں پڑا ہوا ہے ؟”
جواب میں بشارت بولا۔ "اردگرد کی صورت حال کچھ مزید سنگین ہوچکی ہے۔چار پانچ گاڑیاں مزید آگئی ہیں۔ اس طرف….سامنے بند پر بھی دو تین جیپیں پہنچ آئی ہیں۔ لگتا ہے کسی بھی وقت کچھ ہو جائے گا۔”
جعفر نے بات مزید آگے بڑھائی۔
"سجے کے ساتھی مورچوں میں پوزیشنیں سنبھال چکے ہیں۔ سجا آپ سب کے حوالے سے فکرمند ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ پولیس مقابلہ شروع ہونے یا مقابلے میں کوئی نقصان ہونے سے پہلے پہلے آپ سب کو یہاں سے نکال دے۔ اس سلسلے میں منشار نامی بندے کو اس نے دریا کے بیچ میں موجود ایک جزیرہ بستی کی طرف بھیجا ہے۔ وہاں کچھ لوگوں سے سجے کی بہت اچھی شناسائی ہے۔ وہاں سے کشتی کا انتظام کیا جائے گا اور پھر منشا واپس آئے گا۔”
"اس کا تو سنا تھا کہ یہاں ہے ہی نہیں ،پھر اب اچانک کدھر سے آگیا۔ ؟” یہ سوال خنجر نے کیا تھا۔
"ہاں! یہ صبح سویرے مظفرگڑھ چلا گیا تھا۔ابھی کچھ ہی دیر پہلے پہنچا تھا۔ اب سجے نے اسے پھر بھیج دیا ہے۔ "
مرشد سوچ میں پڑ گیا، صورت حال واضح تھی۔ سجا ان لوگوں کو یہاں سے نکال رہا تھا اور خود اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ مل کر پولیس مقابلہ کرنے کا ارادہ کئے ہوئے تھا۔یہاں اس کے ساتھ پانچ بندے تھے اور دو فرلانگ پیچھے موجود مکانوں میں بھی غالباً اس کے اتنے ہی ساتھی مورچے سنبھالے بیٹھے تھے جبکہ دشمن کم از کم ان سے آٹھ دس گنا زیادہ تعداد میں تھے اور متوقع طور پر ان کی تعداد بڑھ بھی سکتی تھی۔ اسلحے کی بھی انہیں کوئی کمی نہ تھی یعنی یہ مقابلہ سراسر خود کشی کے مترادف تھاسجا کچھ دیر بعد آنے کا کہہ کر گیا تھا لیکن اس کی واپسی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ہوئی۔لاٹھی برادر منشا بھی اس کے ساتھ تھا۔اس کے کپڑے پوری طرح بھیگے ہوئے تھے۔
"مبارک ہو۔ کام بن گیا ہے، اب تم سب فٹافٹ ادھر سے نکل لو بس۔ ” سجے نے آتے ہی دبے دبے جوش سے کہا۔ وہ خاصا خوش دکھائی دے رہا تھا۔
"اور تم ! تمہارے کیا ارادے ہیں ؟” مرشد اس سے مخاطب ہوا۔
"میں تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ادھر ہی رکوں گا اور ان (موٹی اور گندی گالی ) کی لاشیں گراو�¿ں گا۔”
"تم دونوں بھی ہمارے ساتھ ہی چلو ،ہم سب اکھٹے نکلتے ہیں۔”
"نہیں استاد ! فی الوقت صرف تم لوگ جاو�¿۔ہم ایک دو روز یہاں شکار کھیلیں گے اس کے بعد نکلنے کا سوچیں گے۔”وہ سب ہی برآمدے میں کھڑے تھے۔لالٹین کی روشنی میں ایک دوسرے کی شکلیں واضح طور پر دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ صرف اتنا تھا کہ ایک دوسرے کی شناخت ہو رہی تھی۔ مصری اور تاجل بھی کمرے سے نکل آئے تھے۔
"میں تمہارے حوصلے اور بہادری کی قدر کرتا ہوں سجے !” مرشد نے سنجیدگی سے کہا۔ لیکن دشمن بڑی تعداد میں ہے۔ اس شکار کے چکر میں تم سب خود شکار ہو جاو�¿ گے لہذا میری مانو اور ہمارے ساتھ ہی چلو۔”
"اگر ہم ایک ساتھ نکلے اور ان کتوں کو اس بات کا ذرا بھی شبہ ہوگیا تو یہ ہم سب کو دریا ہی میں بھون ماریں گے۔ سب کی لاشیں تیرتی پھریں گی۔ اس لیے تم لوگ نکلو، ہم تم لوگوں کو کور دیں گے۔ تمہارے نکل جانے کو یقینی بنائےںگے ۔ پار کا سارا علاقہ جعفر کا دیکھا بھالا ہے۔ جدھر جانا چاہو گے یہ تمہاری رہنمائی کرے گا۔”
جعفر فوراً بولا۔ "نہیں سجے استاد ! میں تمہارے ساتھ یہیں رک رہا ہوں۔”
"بکواس نہ کر ،تو مرشد استاد ! کے ساتھ جا رہا ہے اور بس…. اب وقت ضائع نہیں کرو اور نکلو۔”
جعفر نے مزید کچھ کہنا چاہا مگر سجے نے اسے ڈپٹ کر چپ کروا دیا۔ مرشد پھر سجے سے مخاطب ہوا۔
"سجے ! تم خود کشی کا پروگرام بنائے بیٹھے ہو۔ ان پانچ ساتھیوں کے ساتھ کب تک اتنی نفری کا مقابلہ کرو گے ؟” اس کی بات کے جواب میں سجے نے ایک بھرپور اور جان دار قہقہہ لگایااور پھر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے انتہائی ٹھوس لہجے میں بولا۔
"مرشد استاد ! تم ابھی سجے کو ٹھیک سے جانتے نہیں نا اس لیے ایسا کہہ سکتے ہو تم !” وہ پھر ہنسا ۔”تمہیں لگ رہا ہے کہ میرے ساتھ یہاں پانچ بندے ہیں اور بس….ایسا نہیں ہے میری جان ! کچھ فرشتے ابھی پردے میں ہیں۔ ضرورت پڑنے پر وہ بھی ظاہر ہو آئیں گے …. ان حرامی کتوں
کو ان کی نانیاں نہ یاد دلا دیں تو میرا نام بھی سجا بلوچ نہیں۔” اس نے مرشد کو جھپا ڈال لیا۔ "بس اب اور کچھ مت کہنا پوچھنا….تم اپنے مشن کو پورا کرو، میں اپنی نبیڑتا ہوں۔ کسی اچھے برے وقت میں پھر دوبارہ ملیں گے اور …. استاد رستم لہوری سے جب بھی ملاقات ہو میری طرف سے سلیوٹ مار کر سلام کہنا۔”
مرشد کے بعد جعفر بھی جھپا ڈال کر ملا۔سجا سب سے چند رسمی کلمات اور منشا نامی بندے کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے ”رب راکھا “کہہ کر چلا گیا اور وہ سب روانہ ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ مرشد نے اندر جاکر حجاب کو موجودہ پروگرام کے متعلق آگاہ کیا اور پھر وہ سب ہی خدا کا نام لے کر منشا کے پیچھے پیچھے بیرونی طرف کو بڑھ گئے۔سب سے آگے طویل لاٹھی سنبھالے خود منشا تھا۔ اس کے پیچھے مصری اور تاجل، پھر بشارت اور ٹیپو ان دونوں کے پیچھے خنجر اور جعفر اور آخر میں مرشد اور حجاب۔
مکان سے باہر نکلتے ہی منشا واپس اس طرف کو چل پڑا جدھر سے صبح وہ سب اس طرف کو آئے تھے۔بارش رکی ہوئی تھی لیکن بہت ہلکی اور باریک سی پھوار کا احساس پھر بھی ہو رہا تھا۔ سارا ماحول ایک گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گم تھا کچھ دکھائی دے رہا تھا نہ سجھائی۔ اوپر سے دن بھر بارش نے زمین کا حشر نشر کر رکھا تھا۔ کیچڑ کے علاوہ جگہ جگہ پانی کے چھوٹے بڑے تالاب بنے ہوئے تھے۔ محض چند قدم کے بعد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ یہ ایک دشوار ترین سفر ہے۔جوتے اور پاو�¿ں بری طرح کیچڑ سے لتھڑ گئے تھے۔پاو�¿ں پھسل پھسل جا رہے تھے۔ دس بیس گز کا فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ ایک جگہ تاجل پھسل کر دھڑام سے گرا اور مصری کے ہنسنے کی آواز سنائی دی۔ ساتھ ہی اس نے تاجل کو دو چار صلواتیں بھی سنائیں۔
ایک جگہ حجاب نے گرنے سے بچنے کے لیے پہلے مرشد کا کندھا تھاما اور چند قدم مزید چلنے کے بعد خود بہ خود اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیا۔ مرشد کے روئیں روئیں میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ان سب نے پھسلتے سنبھلتے بچتے بچاتے تقریباً نصف فرلانگ کا فاصلہ طے کیا اور اس کے بعد منشا نے رخ دریا کی سمت کر لیا۔وہ لوگ بھی اس کی پیروی میں دریا کی طرف بڑھنے لگے۔ تقریباً دس منٹ رینگ رینگ کر چلنے کے بعد منشا ایک جگہ رک گیا۔ اس کے رکنے کا پتا اس کے بولنے کی وجہ سے چلا تھا وگرنہ دکھائی تو کچھ بھی نہیں دے رہا تھا!
ان سب کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ تاریکی کے کسی اندھے سمندر میں قدم قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ منشا نے ایک ذرا رک کر ان سب کو بتایا کہ وہ دریا کے بالکل کنارے پہنچ آئے ہیں اور اب پانی میں سے گزرنا ہے لہذا وہ لوگ مزید احتیاط سے قدم اٹھائیں اور عین اس کے پیچھے پیچھے چلیں۔
"پیچھے پیچھے کیسے چلیں گے۔ دکھائی تو کچھ دے نہیں رہا۔” یہ خنجر تھا۔ جواب میں منشا کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔
”اکھوںکا کام کانوں شے لینا باو�¿ جی! قدم شنبھل کر اور دھیان شے اٹھانا۔ دریا کا کج اعتبار نئیں ہوتا۔ایک قدم پر دو پھٹ (فٹ) پانی ہے، اگلے قدم پر دش پھٹ۔ اپنے کا پھاصلہ کم کرو لوو….بلکہ اگے پیچھے اک دوشرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ لوو۔”
"سجے نے تو کہا تھا کہ کشتی کا انتظام ہے۔کدھر ہے کشتی۔” بشارت نے سوال اٹھایا۔
"کشتی یہاں تک نہ آشکے تھی۔ اگے دریا میں کھڑی ہے۔ وہاں تک ہمیں ایشے ہی جانا پڑے گا۔”
"اور اگر کوئی ڈوب ڈبا گیا تو ؟”
"ارے نئیں باو�¿ جی! میں جو ہوں…. میرے کو اتھلے پانیوں کا شارا انداجا ہے۔میں پانی میں آواج پیدا کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں، آپ لوگ بش میرے پیچھے پیچھے آتے جانا اور ایک دوشرے کے کندھے پہ ہاتھ رکھ لوو…. مشری بابا ! تم میرے کندھے پر ہاتھ رکھ لوو۔” آخری جملہ منشے نے مصری سے کہا تو اس کی کاٹ دار آواز سنائی دی۔
"مائیں تم لوگاں کی طرح اندھو ناہیں ہوںنجر آوو ہو میرو کو تو اگو چل مر۔”
مرشد کے ذہن میں فوراً اس کی آنکھیں چمک کر رہ گئیں۔ انتہائی جان دار ، روشن اور پراسرار آنکھیں…. جہاں گاڑھے اندھیرے کے باعث وہ سب خود کو اندھا محسوس کر رہے تھے…. ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا ،وہاں مصری اگر کہہ رہا تھا کہ اسے نظر آرہا ہے تو پھر ضرور اسے کسی نہ کسی حد تک دکھائی دے رہا ہوگا۔کم از کم اس کی سانپ جیسی آنکھوں کا خیال آجانے کے باعث ان سب ہی کو اس کے کہے پر کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔
"او ہاں…. ماپھی چاہتا ہوں۔ میں بھول کر ایشا بول گیا…. بش پھر آجاو�¿ میرے پیچھے پیچھے۔ کندھوں پر ہاتھ رکھ لوو۔”اس کی آواز دریا کی طرف پلٹ گئی۔
"مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔” حجاب آہستہ سے منمنائی تھی۔
"ڈرنے کی کوئی بات نہیں سرکار! ہم سب لوگ آپ کے آگے آگے چلیں گے۔”
"دریا میں بہت بڑی بڑی مچھلیاں اور کچھوے ہوتے ہیں اور…. اور سانپ بھی تو ہوں گے”اضطراری طور پر مرشد کے ہاتھ پر اس کی گرفت سخت ہو چکی تھی۔ مرشد کا دوسرا ہاتھ سامنے سے خنجر نے تھام لیا۔
"یہ سب چیزیں تو انسانوں سے دور بھاگتی ہیں۔ ویسے بھی بارش کے ماحول میں ایسی ساری مخلوق اپنی اپنی کمین گاہوں میں دبک کر بیٹھ جاتی ہے۔ آپ بالکل بے فکر ہو کر آئیں۔” اس کا مقصد صرف حجاب کا حوصلہ بندھانا تھا۔ ایک کے بعد سب نے قدم آگے بڑھا دیے۔ سب ہی نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیے تھے سوائے مصری کے…. تاجل بالکل اس کے عقب میں تھا اور مصری مسلسل اس کو کسی نہ کسی بہانے جھاڑ پلاتا جا رہا تھا۔
"کتڑے ! پھاصلہ رکھ کے آ۔”
"مائیں تیرویہ پنجو (پنجے) توڑ کو پھینک دیوں گا۔”
"حرام کھور! تیری کتڑیانہ حرکتوں کی وجہ سے ہی مائیں تیروکو ادھر پھینک گیو تھاتو اپنو ساتھ ان جنوروں کو بھی لو کر آمریومیروسر۔”
"اس عجاب سے جان چھوٹ جایوو پھر تیرو اچھو سے چربی گھلاو�¿ں گا مائیں….گدھویا…. کنیریا…. کتریا !”
پانی خاصا ٹھنڈا تھا۔ گہرائی صرف گھٹنے گھٹنے تھی۔ تقریباً بیس گز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد آگے پھر وہ خشک قطے پر پہنچ گئے۔مرشد نے پلٹ کر دیکھا۔ پہلے بند پر موجود ایک دو پولیس جیپوں کی لائٹیں روشن تھیں، اب وہ بجھ چکی تھیں۔ گھور تاریکی کے سوا کچھ نہیں تھا۔فضا ایک گہرے سکوت اور سکون سے بھری ہوئی تھی لیکن مرشد کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس سکوت کے پس پردہ ایک بھیانک طوفان چھپا بیٹھا ہے۔ یہ سکون کسی بھی وقت ہول ناک دھماکوں سے کرچی کرچی ہوسکتا تھا۔اسی لمحے مصری کی دھیمی اور تیز آواز ان سبھی کو بری طرح چونکا گئی۔
” ارو مرگیو…. او سجے لوگاں تو سمجھو مرگیو…. ان پہ حملہ ہونو لگو ہے۔ نکلو ادھر سو”
مرشد نے پہلے مصری کی سمت دیکھا مگر کچھ نظر نہیں آیا ،پھر ایک جھٹکے سے رخ بدل کر ان مکانوں کی طرف دیکھا، جہاں سجا اور اس کے ساتھی موجود تھے مگر….خاک دکھائی دینا تھا….گھپ اندھیرے کے سوا کچھ تھا ہی نہیں!
"ارو چلو ادھر سو ” مصری کی سنسنی خیز آواز پھر ابھری۔
” کیا بات ہے مصری! کیوں تڑپ رہا ہے؟” یہ بشارت تھا۔
"او لوگاں آگو بڑھ رہوہیو۔”
"کون لوگاں؟ کدھر؟”
"پانچ جنو ہیں مگر یہ پ�±لس والو ناہی، کوئی اور لوگاں ہائیںآگر انہوں نو ہمارو طرپھ گولیاں چلا دیو تو سبھو مارو جاویں گو۔ چلو ادھر سو۔ ” مصری کی آواز میں خفیف سی لرزش تھی۔ ساتھ ہی شائد وہ پلٹ کر آگے کی طرف چل پڑا تھا۔ مرشد سمیت اِن سبھی نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر سبھی کو مکمل طور پر ناکامی ہوئی۔
"لگتا ہے اِس زہریلی مصری کا دماغ چل گیا ہے۔” مرشد کے برابر کھڑا خنجر بڑبڑایا تھا۔ چند قدم آگے سے فوراً ہی مصری کی زہر خند آواز ابھری۔
"تیری جبان مائیں جرور کیڑو پڑیں گیو بینگن مونہے!”
"یہ بڈھی بدروح میرے ہاتھوں سے ضائع ہو جائے گی۔” خنجر نے دانت کچکائے۔
"میرا خیال ہے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے.” بشارت نے فوراً کہا۔ ا�±س کی آواز میں محسوس کی جانے والی سنسناہٹ تھی۔
"ٹھیک ہے چلو۔ ” مرشد نے مختصراً کہا۔ سب کے سب فوراً حرکت میں آگئے۔ فضا میں ا�±ترتی پھوار پھر سے بوندا باندی میں تبدیل ہوگئی ۔منشا کی ہدایت کے مطابق وہ سب قدرے دائیں طرف کو آگے بڑھ رہے تھے۔ پاو�¿ں ریتلی کیچڑ میں دھنس رہے تھے۔ فضا میں گھاس ،کائی اور گندے پانی کی ب�±و کے ساتھ ساتھ بارش کی مہک بھی گ�±ھلی ہوئی تھی۔ تقریباً ایک فرلانگ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ دوبارہ پانی تک پہنچ گئے۔ یہاں ایک کشتی کے ساتھ دو بندے بھی موجود تھے کشتی چندفٹ آگے پانی میں کھڑی تھی۔عقب میں ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر اچانک ہونے والی فائرنگ کی آواز نے ان سب کو ب�±ری طرح چونکا دیا۔ پہلے ایک برسٹ چلا پھر ایک ساتھ چار پانچ رائفلیں گونج ا�±ٹھیں لیکن چند ایک برسٹ چلنے کے بعد اچانک ہی خاموشی چھا گئی۔
"دو حملہ آور ماروگئیو۔ ” مصری کی سنسنی خیز آواز سنائی دی ساتھ ہی وہ پانی میں چھپاک چھپاک کرتا کشتی کی طرف لپک گیا۔ "آجاو�¿ ۔آجاو�¿ ،چلو ادھر سو .” مصری کی حیرت انگیز سماعت سے مرشد اور خنجر پہلے ہی واقف تھے ،اِس وقت ا�±سکی بصری صلاحیت بھی ا�±نھیں ششدر کر گئی تھی۔
"بابو جی! ہم لوگوں کو پھوراً ادھر سے نکل جانا چاہیے۔” منشا کی پریشان آواز پر وہ لوگ حرکت میں آئے اور کشتی کی طرف بڑھ گئے۔ سب سے پہلے مرشد نے حجاب کو کشتی میں سوار کیا اور پھر باری باری باقی سب بھی سوار ہوگئے۔ منشا بھی کشتی میں چڑھ بیٹھا تھا ۔کشتی بان کشتی کو حرکت میں لے آیا..
وہ ایک عام سی کشتی تھی جس میں مچھلیوں کی ب�±و پھیلی ہوئی تھی۔ کشتی کے اندر تھوڑا سا پانی بھی بھرا ہوا تھا۔بارش کی بوندا باندی میں کچھ تیزی آگئی تھی۔ بادل بھی پھر سے گڑگڑانے لگے تھے۔ مقامِ شکر تھا کہ بادلوں میں بجلی نہیں چمک رہی تھی ورنہ وہ لوگ آسانی سے دیکھ لئے جاتے۔ حالات و واقعات سے صاف ظاہر تھا کہ دشمن ا�±ن کے اس فرار سے مکمل طور پر لا علم ہے۔
منشا کشتی بانوں سے بات چیت کر رہا تھا۔ باقی سب اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھے تھے۔ شاید سب ہی کے زہن ایک ہی نکتے پر مصروفِ عمل تھے۔ سجّے لوگوں کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوچکا تھا۔ اس رات کی تاریکی میں دریا کے بند کے ساتھ ساتھ ایک خون ریز معرکہ شروع ہونے جا رہا تھا۔ سجّے نے کمال حکمتِ عملی اور فراخ دلی سے بروقت ا�±ن لوگوں کو اس گھیرے سے نکال دیا تھا۔ اب خود ا�±سکا اپنا انجام نجانے کیا ہونا تھا؟
ا�±نھیں دریا میں سفر اختیار کئے بہ مشکل پانچ منٹ ہوئے ہوں گے کہ بند کی طرف سے ایک بار پھر فائرنگ کی آواز بلند ہوئی لیکن اس بار فائرنگ سجّے لوگوں والے مکانوں کی طرف نہیں بلکہ دو فرلانگ پیچھے ا�±س کے ساس سسر والے مکانوں کی طرف ہوئی تھی، جہاں پولیس نفری کی بھاری تعداد موجود تھی۔ فوراً ہی یہ فائرنگ دو طرفہ رنگ اختیار کر گئی اور چند ہی لمحوں بعد سجّے لوگوں والے مکانوں کی طرف سے بھی رائفلیں گونج ا�±ٹھیں۔ دونوں
مقامات پر دو طرفہ فائرنگ شروع ہوچکی تھی ۔تاریکی میں مدھم روشن لکیریں سی چھوٹ رہی تھیں۔سبھی اپنی اپنی جگہ ہونٹ بھینچے خاموش بیٹھے رہے ،شاید کسی کا بھی بولنے کودل نہیں چاہ رہا تھا یا پھر کسی کے پاس کہنے کو کوئی معقول بات تھی ہی نہیں
یہ سفر تقریباً بیس پچیس منٹ جاری رہا اور پھر کشتی کنارے پر جا لگی۔ یہاں بھی کشتی سے ا�±ترنے کے بعد منشے نے ا�±نکی پیدل رہنمائی کی ۔ایک فرلانگ ریتلی کیچڑمیں چلنے کے بعد پھر دریا کی ایک آبی شاخ تھی، یہاں پانی ا�±ن لوگوں کی کمرکمر تک گہرا تھا۔ چند گز کا یہ آبی حصہ طے کرنے کے بعد وہ گھاس اور سرکنڈوں سے اٹے دریا کے کنارے تک پہنچ آئے، یہاں سے منشا ا�±ن سے اجازت لے کر خدا حافظ کہتا ہوا واپس پلٹ گیا ،بقول اسکے ا�±سے کشتی والوں کے ساتھ دریائی جزیرے کی کسی بستی میں جا کر ٹھہرنا تھا۔ منشا واپس چلا گیا اور وہ سب لوگ خدا کا نام لے کر آگے بڑھ گئے۔
"مرشد استاد! یہاں سے بائیں ہاتھ کچھ فاصلے پر ایک ریسٹ ہاوس کی ویران عمارت ہے۔ بارش تیز ہوتی جاوے ہے ،کیوں نہ فی الحال اس عمارت میں پناہ لے لیویں؟”مرشد کی سماعت سے جعفر کی آواز ٹکرائی لیکن اسکے بولنے سے پہلے ہی بشارت بول پڑا "نہیں ،ہمیں ”بستی شاہ پور“ پہنچنا ہے اس لیے میرے پیچھے آئیں۔“
"شاہ پور تو یہاں سے ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔بارش تیز ہوتی جاوے ہے۔ کچھ دیر ریسٹ ہاو�¿س میں ٹھر جاتے ہیں، بارش رکنے پر ادھر سے نکل لیویں گے۔”
"بستی پہنچ کر ہم لوگ مکمل طور پر محفوظ ہوجائیں گے.. ہر خطرے سے….”
"خطرے سے تو نکل ہی آئے، اب فوری طور پر اس بارش سے محفوظ ہوا جائے ورنہ یہ رائفلیں شائفلیں بھی بیکار ہو جاویں گی۔”
مرشد بولا۔ "بشارت! ہم لوگ ریسٹ ہاو�¿س کی طرف جا رہے ہیں، تم لوگ بستی کی طرف جانا چاہتے ہو تو چلے جاو�¿۔ ہم پھر بعد میں آجائیں گے.. چلو جعفر !کس طرف کو چلنا ہے؟”
جعفر کی ہدایت کے مطابق وہ لوگ ر�±خ بدلتے ہوئے بائیں ہاتھ آگے بڑھنے لگے اور چارو نا چار بشارت نے بھی ا�±ن کی تقلید کی ۔اس کے ذہن میں اپنی بستی، اپنے لوگ، ملک منصب اور ارباب قیصرانی تھا جبکہ مرشد کے ذہن میں صرف اور صرف اپنا ہاتھ تھامے چلتی ہوئی حجاب تھی۔ اسکی آسانی اورَ سہولت کا خیال تھا۔ سب ہی اندھیرے میں سنبھل سنبھل کر قدم ا�±ٹھاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد سرکنڈوں کی بہتات ختم ہو گئی البتہ گھاس اب بھی کثرت سے موجود تھی۔کم و بیش نصف فرلانگ فاصلہ وہ طے کر آئے تھے جب تاجل کی آواز نے انھیں کسی قدر چونکا دیا ۔اس نے پہلے دو دفعہ مصری کو ددا، ددا کہ کر مخاطب کیا پھر قدرے ا�±نچی آواز میں بولا..
"ددّا کدھر ہے…. ددّا.. ددّا نہیں ہے۔ ددّا ہمارے ساتھ نہیں ہے کیا؟”
"مصری….مصری….!”
"مصری! کدھر ہو تم؟”
"مصری! کہاں ہے تو….؟”باری باری بشارت اور ٹیپو نے بھی ا�±سے پکارا مگر جواب ندارد… سب ٹھٹھک کر ر�±ک گئے۔ مصری کو پکارا گیا ,آوازیں دی گئیں مگر وہ تو انکے اردگرد کہیں تھا ہی نہیں!
"وہ کہیں پیچھے رہ گیا ہے یا پھر شاید اکیلا ہی شاہ پور کی طرف نکل گیا ہے۔” جعفر نے اظہارِ خیال کیا تو خنجرنے ایک گہری پ�±ر سکون سانس لی..
"یہ تو پھر اچھا ہی ہو گیا…. سر دردی سے جان چھوٹی۔”
بشارت جھنجھلائے ہوئے انداز میں بولا۔ "کیا عذاب ہے یہ…. اب کیا کریں؟”
"واپس چلیں اب؟” ٹیپو کی بیزار سی آواز سنائی دی تو تاجل تائید بھرے انداز میں بولا۔ "ددّا میڑے اگے اگے چل رہا تھا. ہوسکتا ہے وہ اگے ریسٹ ہو�¿س کی طرپھ ہی چلا گیا ہو۔”
"ناک میں دم کر دیا ہے اس ذلیل انسان نے۔” بشارت پر شدید جھنجلا ہٹ سوار ہو گئی تھی۔
"اب آگے بڑھنا ہے یا واپس چلنا ہے؟” یہ ٹیپو تھا۔
”میرا کھیال ہے کہ ہم لوگ اگے ہی چلتے ہیں۔ شاید ددّا ریسٹ ہو�¿س ہی جا پہنچا ہو۔”
"چلو آگے بڑھو ریسٹ ہاو�¿س میں ہی دیکھتے ہیں ا�±س منحوس کو نہیں تو پھر واپس آتے ہیں۔” بشارت نے کہا اور وہ سب پھر آگے کی طرف چل پڑے۔مصری کسی چھلاوے کی طرح غائب ہوا تھا , اندھیرا بھی اتنا تھا کہ کسی کو اندازہ تک نہ ہو سکا کہ وہ کب اور کس جگہ ا�±ن سب سے الگ ہوا تھا۔
جلد ہی وہ ریسٹ ہاو�¿س کی اس عمارت کے قریب پہنچ گئے جس کے متعلق جعفر نے کہا تھا کہ وہ ویران ہے لیکن یہاں پہنچ کر ا�±نھیں اندازہ ہوا کہ یہ عمارت مکمل طور پر ویران نہیں ہے ۔کوئی نہ کوئی ضرور یہاں موجود تھااور اس کا ثبوت تھا اندر برامدے میں جلتا ہوا زرد مدقوق بلب!
دریا پار مسلسل جاری فائرنگ کی مدھم آوازیں بدستور سنائی دے رہی تھیں۔ وہ عمارت کی بغلی طرف موجود تھے۔ یہاں دیوار کے ساتھ برگد کا ایک تناور درخت تھا ۔اس کے ساتھ ہی دیوار میں سریوں کی مدد سے بنا لوہے کا ایک گیٹ تھا جو آدھا بند اور آدھا کھلا ہوا تھا۔ اس گیٹ سے عمارت کا کچھ اندرونی حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ کچھ حصہ صحن کا اور تھوڑا سا برآمدے کا، جہاں بلب روشن تھا۔ دیواروں پر پیلا رنگ پھرا ہوا تھا۔
” تو نے تو کہا تھا کہ یہ ویران عمارت ہے؟” مرشد آگے بڑھتا ہوا جعفر سے مخاطب ہوا ۔
"ویران ہی سمجھو زیادہ سے زیادہ کوئی ایک آدھ نشئی سا چوکیدار ہو گا۔ ویسے مجھے کبھی کوئی چوکیدار نظر آیا نہیں یہاں۔”
عمارت سطح زمین سے چند ف�±ٹ ا�±نچائی پر واقع تھی۔ صحن میں داخل ہونے کے لئے چار کشادہ سنگی زینے تھے۔ وہ سب آگے پیچھے زینے چڑھتے ہوئے صحن میں پہنچ گئے۔ پوری عمارت پر یوں ھو کا عالم طاری تھا جیسے کسی ذی روح کا ادھر سے گزر تک نہ ہوا ہو لیکن ایسا صرف محسوس ہو رہا تھا ورنہ کم از کم ایک ذی روح تو وہاں موجود تھا ہی… شاید وہ چوکیدار ہی تھا۔ برآمدے کے بالکل وسط میں ایک ک�±رسی دھری تھی اور وہ ٹانگیں برآمدے کے فرش پر پھیلائے بڑے نوابی انداز میں ک�±رسی کی پشت پر سر ٹکائے بیٹھا تھا۔ اس کا رخ بھی ا�±نھی کی طرف تھا۔ پہلی نظر میں مرشد کو یہی گمان ہوا کہ شاید وہ سو رہا ہے مگر ایساتھا نہیں۔
مرشد سیدھا اسی کی طرف بڑھا لیکن ابھی ا�±س سے چار قدم ادھر ہی تھا کہ ب�±ری طرح ٹھٹک کر رک گیا۔ برآمدے میں لگے بلب کی روشنی گو کہ ناکافی تھی پھر بھی اتنی ضرور تھی کہ وہ چھے قدم کے فاصلے سے اس شخص کی صورت کو بخوبی پہچان گیاتھا اور اسے پہچانتے ہی مرشد کا رواں رواں سنسنا اٹھا تھا رگ و پے میں ایک برقی رو سی دوڑ گئی تھی اور اس کے ذہن میں ایک ساتھ شدید خطرے کے کئی الارم چیخ اٹھے تھے۔ اس کے کندھے پر موجود رائفل لمحہ بھر میں اس کے ہاتھوں میں آگئی اور ا�±س کا رخ کرسی پر بیٹھے شخص کی طرف ہو گیا تھا لیکن رائفل کی لبلبی پر انگلی ہونے کے باوجود اس نے گولی نہیں چلائی تھی۔ اس شخص کے ہونٹوں پر ایک شریر سی شیطانی مسکراہٹ تھی اور اسکی تیز چھبتی ہوئی نظریں مرشد کے چہرے پر جمی تھیں۔ اس کا سکون و اطمینان اس بات کا گواہ تھا کہ یہاں اردگرد اس کے کئی دیگر ساتھی بھی موجود ہیں اور وہ سب یقینی طور پر گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ یہاں کی صورتحال پر مکمل طور پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
مرشد نے عقابی نظروں سے ادھر ا�±دھر دیکھا بھی لیکن اسے نہ تو کچھ دیکھائی دیا اور نہ ہی کوئی آہٹ سنائی دی۔چند قدم پیچھے اس کے ساتھی بھی ٹھٹھک کر رک گئے تھے۔ کرسی پر بیٹھے شخص کی صورت تو ا�±ن میں سے واضح طور پر کسی کو دکھائی نہیں دے رہی تھی البتہ مرشد کے ردعمل پر چونکتے ہوئے انہوں نے بھی رائفلیں ہاتھوں میں کر لی تھیں۔ کوشش کے باوجود انھیں بھی اپنے اردگرد اور کوئی دیکھائی نہیں دیا۔ خنجر اور جعفر فوراً ہی مرشد کے برابر پہنچ آئے ۔تبھی کرسی پر بیٹھے شخص کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔
"بڑا انتظار کروایا تو نے مرشدے! بڑا انتظار کروایا اور آتے ہی رائفل تان لی …. یہ پھر یاری تو نہ ہوئی نا!”
وہی منحوس صورت اور وہی کمینگی سے بھرپور لب و لہجہ… کسی شک و شہبے کی گنجائش ہی نہیں تھی …. وہ ملنگی ہی تھا ….اس کے یاروں کا قاتل, رانا سرفراز کے پالتو کتوں میں سے ایک …..جن کی پشت پناہی ڈپٹی اعوان جیسا دوغلا اور عیار پولیس آفیسر کرتا تھا۔ مرشد کے سینے میں لاوہ سا دہک اٹھا۔ . وہ بولا تو اس کے سینے میں بھڑک اٹھنے والی نفرت کی آگ کی ساری حدت اس کے لہجے میں موجود تھی۔
” تیرے باقی حرامی ساتھی کدھر ہیں؟”
"سب کے سب ادھر ہی ہیں ایک ایک کے ساتھ تسلی سے مذاکرات کر لینا۔ پہلے یہ رائفلیں نیچے کر لو تم لوگ اور دماغ کو ذرا ٹھنڈا کرو تم میں سے کسی نے بال برابر بھی غلطی کی تو سب کے سب مارے جاو�¿ گے اور سب سے پہلے تمہاری سرکار جی کا نمبر لگے گا۔“
"یہی اطلاع میری طرف سے تیرے لیے ہے۔ اپنے باقی حرامیوں سے کہہ کہ فوراً سب کے سب سامنے آ جائیں ورنہ اگر میری انگلی نے ذرا بھی حرکت کی تو تیرے سینے میں درجن بھر سوراخ ہو جائیں گے۔”
"اس کا مطلب تو یہ ہوا کے مرشد کی نظر میں میری… اور اپنی سرکار کی زندگی ایک برابر ہے۔” ملنگی کی مسکراہٹ میں کمینگی کا تاثر کچھ مزید بڑھ گیا..
"تم سب اس وقت آٹھ رائفلوں کی زد میں کھڑے ہو اور ان میں سے چار کا نشانہ تیری سرکار کی کھوپڑی پر ہے۔ اس کی زندگی کا رسک لینے کا حوصلہ ہے تیرے کلیجے میں ہے تو اپنی انگلی کو زحمت دے کر تماشہ دیکھ لے۔”
وہ لمحات انتہا درجہ سنگین تھے۔ مرشد کے برابر کھڑے جعفر اور خنجر کی رائفلوں کا رخ بھی ملنگی ہی کی طرف تھا اور وہ مرشد کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے اسی طرح پرسکون بیٹھا تھا۔ فضا میں شدید تناو�¿ تھا۔ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہوسکتا تھا۔
"میری بات کا یقین نہیں آیا تجھے؟” ملنگی کے لہجے میں یکایک ایک سرد سفاکی اتر آئی۔ مرشد اس لہجے سے واقف تھا ۔تھانہ ٹبی میں یہ لہجہ وہ سن چکا تھا۔ملنگی قدرے بلند آواز سے بولا..
"مرشد جی کو نمونہ دکھاو�¿ بھئی!”
اس کا جملہ مکمل ہوا ہی تھا کہ اوپر چھت سے ایک چھوٹا برسٹ فائر ہوا , حجاب کی چیخ پر مرشد نے تڑپ کر اپنے عقب میں دیکھا , حجاب تو کانوں پر ہاتھ رکھے صحیح سلامت کھڑی تھی البتہ… اس کے برابر کھڑا بشارت ا�±چھل کر پیچھے کی طرف گرا تھا۔گولیاں اس کے سر میں لگی تھی اور سر کا آدھا حصہ پھیتی پھیتی کر گئی تھیں اس کا وجود ب�±ری طرح پھڑپھڑانے لگا تھا۔اس سے دو قدم کے فاصلے پر کھڑا ٹیپو سکتہ زدہ سی حالت میں اسے پھڑکتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
"ملنگی….” مرشد غراتے ہوئے ایک جھٹکے سے اس کی طرف پلٹا تو وہ فوراً بولا۔
"نا، نا سرکار زندہ سلامت کھڑی ہیں۔” اس نے مرشد کے عقب میں حجاب کی طرف اشارہ کیا۔
” تیری چلائی ہوئی گولی مجھے نہیں ،سرکار کو لگے گی وہ بھی سر میں۔ جوش سے نہیں، ہوش سے کام لے مرشدے! رائفل نیچے کر لے۔“
مرشد کے جبڑے بری طرح بھینچے ہوئے تھے۔آنکھوں میں انگارے دہک رہے تھے۔ ایک لمحے کو یہی لگا کہ وہ ٹریگر دبا دے گا لیکن آنکھوں کے سامنے حجاب کی صورت آٹھہری , دل و دماغ میں ا�±بھرنے والی وحشت اور غصے کو برداشت کرنے کی کوشش میں اس کے پورے وجود پر ایک لرزش سی ا�±تر آئی تھی۔
"اس وقت تیری سرکار کی اور میری زندگی ایک ہی ہے۔ رائفل ہٹا لے۔.” ملنگی نے پھر اپنی بات دھرائی..
"مرشد استاد! ہمیں اس کی بات نہیں ماننی چاہیے۔ دونوں صورت مرنا ہی ہے ،کیوں نہ پھر اسکی زندگی کا گھونٹ بھر لیویں۔.” جعفر نے زہر خند لہجے میں کہا ۔اس کی جذباتی حالت بھی مرشد سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ ٹبی تھانے والے سارے لمحات اس کے ذہن میں بھی تازہ ہو آئے تھے۔ ملنگی نے بغور اسکی طرف دیکھا۔
"لگتا ہے اس بار تو نے خود کشی کا ارادہ کر رکھا ہے.. بےوقوفو! میری جان کے بدلے تم سب ابھی یہیں کھڑے کھڑے مارے جاو�¿ گے اور میری مان لینے کی صورت میں کم از کم فوری موت سے محفوظ ہو جاو�¿ گے شاید تمہیں کوئی کارنامہ دکھانے کا موقع بھی مل جائے.. کیا کہتے ہو؟” وہ پھر مرشد کی طرف متوجہ ہوا۔ مرشد کا دماغ جیسے آندھیوں کی زد میں آیا ہوا تھا۔ وہ انجانے میں انتہائی سنگین اور جان لیوا صورتحال میں آپھنسے تھے۔ ملنگی کی سرد مزاجی اور سفاکی سے وہ پوری طرح واقف تھا ۔ ہتھیار ڈال کر خود کو اس کے اور اس کے ساتھیوں کے رحم و کرم کے حوالے کردینے کا انجام وہ جانتا تھا ۔ اس کی کمینگی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی.. اسے اندازہ تھا کہ ہتھیار ڈالنے کی صورت میں اس کے اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ بد سے بدترین سلوک کیا جاسکتا ہے۔ شاید وہ انجام اور نتیجے سے لاپرواہ ہو کر ملنگی پر فائر کر دیتا یا اس پر جھپٹ پڑتا لیکن حجاب کی فکر اس کی بے باکی اور آتش مزاجی کے لیے ایک نادیدہ پھندہ بن گئی تھی۔ وہ کسی صورت اور کسی قیمت بھی اس کے حوالے سے کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا۔ یہ اس کے اختیار کی بات تھی ہی نہیں اور ملنگی کے کہے کا ثبوت بشارت کی لاش کی صورت میں ریسٹ ہاو�¿س کے گیلے فرش پر پڑا تھا۔
ابھی بیس پچیس منٹ پہلے وہ ان سب کو اپنی بستی کی طرف چلنے کا کہہ رہا تھا لیکن پھر ان کے فیصلے پر خاموشی سے ان کے ساتھ یہاں چلا آیا تھا۔ کسے معلوم تھا کہ یہاں موت کا فرشتہ اسکی تاک میں بیٹھا تھا ۔
"ہتھیار ڈال رہے ہو یا میں اس چھوری کی کھوپڑی اڑا دوں؟.”اس غضب ناک پکار پر مرشد نے گردن قدرے موڑ کر دیکھا۔ وہ ملنگی کا جوڑی دار فوجی تھا وہ ٹیپو اور تاجل کے عقب میں گیٹ کے پاس کھڑا تھا ۔ ہاتھوں میں رائفل تھی اور اس نے بڑے ماہرانہ انداز میں حجاب کے سر کا نشانہ لے رکھا تھا۔
مرشد نے نظروں کا زاویہ بدل کر حجاب کی طرف دیکھا ،وہ بے حد سراسیمہ دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی ڈری گھبرائی نظریں کبھی فوجی کی طرف سرک رہی تھیں اور کبھی مرشد کی طرف۔ ملنگی کے بعد اب فوجی کو بھی وہ پہچان چکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ دونوں کتنے خطرناک اور ظالم لوگ ہیں۔چند لمحے کے لیے وہاں گہری خاموشی چھا گئی۔ فضا میں اعصاب چٹخا دینے والا تناو�¿ پھیلا رہا پھر اچانک مرشد نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے رائفل جھکا لی ساتھ ہی..وہ قدرے بلند آواز میں بولا۔
"ٹھیک ہے ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ سرکار کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے ۔“اس نے گردن موڑ کر حجاب کی طرف دیکھا۔
” سرکار آپ ادھر آجائیں…..”
"استاد ہتھیار ڈالنا ٹھیک نہیں…..”
"جگر! یہ لوگ بھروسے لائق نہیں۔” جعفر اور خنجر ایک ساتھ بولے تھے۔ حجاب لرزتے قدموں سے مرشد کے قریب چلی آئی۔ مرشد رائفل پھینکتے ہوئے بولا..
"یہ لوگ ہماری لاعلمی میں ہم سب کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا تو پھر ہم انکی بات مان لیتے ہیں۔ رائفلیں ڈال دو..”
ایک تذبذب کے عالم میں ان دونوں نے بھی رائفلیں فرش پر پھینک دیں ۔ ٹیپو پہلے ہی اپنی رائفل پھینک چکا تھا..
"جھولے لال، دے خوشیاں غم ٹال….“ ان کے رائفلیں پھینکتے ہی ملنگی دونوں بازو فضا میں بلند کرتے ہوئے ا�±ٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے اطمینان اور خوشی میں جیسے یکایک ہی کئی گنا اضافہ ہو آیا تھا۔ فوجی نے اپنی جگہ سے حرکت کرتے ہوئے ٹیپو کی کمر میں لات رسید کی اور وہ لڑکھڑاتا ہوا منہ کے بل آگے آگرا ۔ تاجل خود ہی دہشت زدہ انداز میں ہڑبڑا کر ان کے قریب چلا آیا تھا۔
اسی لمحے دھپ دھپ کی آواز سے دو رائفل بردار برامدے کی چھت سے صحن میں کودے۔ مرشد نے دیکھا کہ صحن کے دوسرے کونے کی طرف ایک ادھ گری دیوار کی اوٹ میں سے بھی ایک رائفل بردار نمودار ہو رہا تھا اور ایک رائفل بردار برامدے کے آخری کونے میں موجود ستون کے عقب سے ظاہر ہوا تھا۔
"تو بڑا سمجھدار بندہ ہے مرشدے! بالکل ٹھیک کہا ہے تو نے دشمن کو اچانک اور آسان موت مار دینا ہم لوگوں کو پسند نہیں۔ اس طرح تو دشمنی کا مزہ نہیں آتا نا!.” ملنگی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا پھر وہ نیچے پڑی جعفر اور خنجر کی رائفلوں کو پاو�¿ں سے ایک طرف کھسکاتے ہوئے مزید بولا۔
” اور ت�±و تو یہ بات اچھی طرح جانتا ہے…. اپنی ڈیرے والی ملاقات بھولی کہاں ہوگی تجھے۔.”
مرشد کو سب یاد تھا۔ ایک ایک لمحہ اس کے دل و دماغ پر نقش تھا۔ مراد اور شبیرے کے قتل کے بعد وہ لوگ ا�±سے اٹھا کر نندی پور اور ڈسکہ کے درمیان کسی جگہ پر لے گئے تھے، جہاں اس کے گلے میں کتے کا پٹہ ڈال کر باقاعدہ کتوں کے ساتھ باندھ کر بٹھائے رکھا گیا تھا اور بعد میں ا�±سے مادر زاد برہنہ حالت میں چھت کے ساتھ ا�±لٹا لٹکا کر اس پر تشدد کیا گیا تھا۔ اس کے زخموں پر نمک مرچ مسلا جاتا رہا تھا اور پھر کسی اجنبی عورت نے پر اسرار طریقے سے اس کی مدد کی تھی۔ ایک لوڈڈ پسٹل کے ساتھ ساتھ ہتھکڑی کی چابی بھی اس تک پہنچائی تھی، جس میں بیک وقت اسکا ایک ہاتھ اور ایک پاو�¿ں جکڑا ہوا تھا ۔ اگر اس ہتھکڑی سے اسے نجات نہ ملی ہوتی تو یقینی طور پر اگلے روز وہ وہاں سے فرار ہونے کی بجائے چوہدری فرزند کے ڈشکروں کے ذریعے چوہدری فرزند تک پہنچایا جاتا اور چوہدری اسے تڑپا تڑپا کر قتل کر چکا ہوتا۔
مرشد کو اس نامعلوم اور مہربان خاتون کا خط بھی یاد آیا جس میں ا�±س نے یہ انکشاف کیا تھا کہ حجاب کی والدہ زندہ اور محفوظ ہیں۔ یہ خبر وہ ابھی تک حجاب کو نہیں بتا سکا تھا۔ اب خیال آنے پر اس نے ایک نظر حجاب کی طرف دیکھا وہ بالکل اس کے برابر کھڑی تھی۔ کسی ڈری سہمی ہوئی معصوم سی بچی کی طرح وہ ملنگی ہی کی طرف دیکھ رہی تھی..
” چلو سب !ادھر ایک طرف آجاو�¿۔.” ملنگی نے مرشد والی رائفل کو ٹھوکر مارتے ہوئے ان سب کو مخاطب کر کے بائیں طرف کو اشارہ کیا ۔ مرشد اور اس کے درمیان صرف تین ف�±ٹ کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ مرشد کے ایک قدم نے پورا کر دیا…. ایک برق سی لہرائی تھی…. مرشد کے انداز میں زخمی چیتے سی لپک تھی۔ محض پلک جھپکنے کی دیر میں ملنگی کی گردن مرشد کے بائیں بازو کی لپیٹ میں آئی, کسی کو اندازہ تک نا ہوسکا کہ کب مرشد نے ڈب میں سے پسٹل نکالا تھا۔ اس کا پسٹل والا ہاتھ ملنگی کی بغل میں سے نکلا, ایک دھماکہ ہوا، ساتھ ہی پسٹل کی دھواں اگلتی گرم نال ملنگی کے کان کے عقب
میں کھوپڑی کے ساتھ آچپکی ۔اس کارروائی کے دوران مرشد تڑپ کر پیچھے بھی ہٹا تھا۔ پیچھے ہٹتے ہوئے اس نے اپنے بائیں کندھے کی مدد سے حجاب کو برآمدے کی طرف دھکیلا تھا۔
جعفر تڑپ کر رائفلوں کی طرف جھپٹا اور جنجر اپنی ڈب سے پسٹل نکالتے ہوئے فوراً برآمدے کے ستون کی ا�±وٹ میں ہوگیا ۔مرشد کے کندھے کے دھکے سے حجاب ستون کی بغل میں پہنچ گئی تھی اور مرشد کی مضبوط اور کشادہ پشت کسی دیوار کی طرح اس کے گداز سینے سے آچپکی تھی۔ ایک طرح سے وہ ستون اور مرشد کے درمیان چھپ کر رہ گئی تھی جبکہ خود مرشد نے ملنگی کو ڈھال کی صورت میں اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ پسٹل کے دھماکے کے ساتھ ہی فوجی کی طرف سے برسٹ فائر ہوا تھا جو ایک ستون سے معمولی سا پلستر ادھیڑنے کے سوا کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا۔یہ برسٹ بھی اس نے ارادتاً فائر نہیں کیا تھا بلکہ بس ہو گیا تھا دراصل مرشد نے جو فائر کیا تھا اسکا نشانہ فوجی ہی تھا۔گولی سیدھی اس کے حلق میں جا کر لگی تھی اور لڑکھڑا کر عقب میں گرتے ہوئے اس سے رائفل کی لبلبی دب گئی تھی اور اب وہ بشارت کے مردہ وجود کے قریب پڑا خود بھی جان کنی کے عالم میں تڑپ رہا تھا ۔اس کے حلق سے خارج ہونے والی بھیانک خرخراہٹ کی آوازوں نے ملنگی کے ساتھ ساتھ ان کے باقی ساتھیوں پر بھی سکتے کی سی کیفیت طاری کر دی تھی۔ یہ ساری کارروائی کچھ ایسی برق رفتاری سے وقوع پذیر ہوئی تھی کہ وہ سب ایک شاک کی حالت میں اپنی اپنی جگہ کھڑے رہ گئے تھے۔ انہیں جیسے اس ساری کایا پلٹ پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔
مرشد لوگوں کے ہتھیار ڈال دینے پر وہ تو اس زعم میں تھے کہ ا�±نہوں نے میدان مار لیا ہے۔ ا�±ن میں سے کسی کے وہم و گمان تک میں یہ بات نہ تھی کہ مرشد نے رائفل پھینکنے سے پہلے ہی اپنی اس کارروائی کا منصوبہ ذہن میں ترتیب دے لیا تھا۔ ا�±سے کسی کی طرف سے فوری اور شدید طور پر خطرناک ردعمل کی توقع تھی تو وہ ملنگی کے بعد فوجی ہی تھا سو اس نے ملنگی پر جھپٹتے ہی فوجی پر فائر جھونک مارا تھا۔ ان دونوں درندوں کے بعد اس کے باقی ساتھی اس کے تجربے اور تجزیے کے مطابق عام مجرم ہی تھے۔ اسے یقین تھا کہ ملنگی کو گرفت میں آتا اور فوجی کو گولی کا نشانہ بنتے دیکھ کر وہ سبھی شش و پنج کا شکار ہو کر فوری طور پر کوئی بھی فیصلہ کر پائیں گے نہ عمل اور بالکل ایسا ہی ہوا تھا۔ سب ہی ہکے بکے رائفلیں پکڑے اپنی اپنی جگہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے تھے۔
ملنگی کے تیل چپڑے بالوں میں سے تیل کے ساتھ ساتھ جھلستے ہوئے بالوں کی سڑاند بھی مرشد کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ وہ خوں خوار لہجے میں ایک گندی گالی دیتے ہوئے للکار کر بولا.. "خبردار اوئے…. اگر کسی نے زرا بھی حرکت کی تو تمہارے اس ناجائز باپ کی کھوپڑی میں گولی ماردوں گا میں.. خبردار!” پھر ا�±س نے ملنگی کا دایاں کان اپنے دانتوں میں دبوچا اور انتہائی سفاک لہجے میں بولا..
"ملنگن! میری جان… اپنی بہن کے ان یاروں سے بول کہ سب کے سب ہتھیار نیچے پھینک دیں ورنہ تو سمجھ مارا گیا.. چل شاباش بول۔”
ملنگی خاموش اور ساکت رہا۔ ا�±س کی نظریں فوجی کے تشنج زدہ وجود پر ٹکی تھیں جو اب محض لمحوں کا مہمان تھا۔ بوندا باندی اسی طرح جاری تھی۔ مرشد اپنی گرفت مزید سخت کرتے ہوئے پھر سے غرایا..
"سانپ کیوں سونگھ گیا تجھے ….آرڈر لگا اپنے کتوں کو ورنہ اس حرامی فوجی کی طرح تجھے بھی ٹھنڈا کر کے پھینک دو گا میں۔“
اس بار ملنگی کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی، نظریں بدستور فوجی پر جمی رہیں..
"بھونکنا بند کر مرشدے! اور گولی چلا تیرا یہ پستول ملنگی کے سر پر ہے کسی زنانی کے نہیں… چلا گولی!“ اس کے لب ولہجے میں کسی فکر و پریشانی یا خوف و گھبراہٹ کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ الٹا اس کے لہجے میں ایک تپش ،ایک چیلنج کا تاثر تھا۔اسی دوران ملنگی کے دو ساتھی کھسک کر سامنے کے
دروازے سے باہر نکل گئے تھے جب کہ دو رائفلیں سونتے مرشد اور ملنگی کے سامنے کے ر�±خ موجود تھے۔
وہ پوری طرح چوکس لیکن کسی قدر پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ جعفر اور خنجر دو الگ ستونوں کی اوٹ لے چکے تھے۔ ا�±ن کے سامنے صرف مرشد تھالیکن اس پر چلائی ہوئی ان کی گولی پہلے ملنگی کو لگتی پھر مرشد کو کوئی نقصان پہنچاتی۔ مرشد نے ملنگی کو دبوچ ہی اس انداز میں رکھا تھا۔
"ہتھیار پھینک دو اوئے! ورنہ تمہارے ساتھ تمہارا باپ ملنگی بھی مارا جائے گا۔”یہ وارننگ دینے والا جعفر تھا۔ مرشد نے دیکھا کہ ا�±س کے ہاتھ میں رائفل موجود تھی ۔ملنگی کے دونوں ساتھی بری طرح تذبذب کا شکار تھے۔ مرشد کو اپنے عقب میں خنجر کی دھیمی آواز سنائی دی۔
” دو حرامی باہر نکل گئے ہیں۔.”
ٹھیک اسی وقت فضا رائفل کی بھیانک تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی۔ یہ برسٹ جعفر نے فائر کیا تھا۔ دونوں رائفل بردار اپنے تمام تر تذبذب کے ساتھ ا�±چھل کر گرے اور تڑپنے لگے۔ اسی دوران بلکل اچانک ہی ملنگی نے ایک ہاتھ سے اپنے سر کے ساتھ چپکی پسٹل کی نال دبوچ کر جھٹکے سے پستول چھیننے کی کوشش کی اور دوسرے ہاتھ سے مرشد کے سر کے بال دبوچ کر زور کا جھٹکا دیا۔ مرشد نے ٹریگر دبایا ،دھماکہ ہوا ،حجاب کے حلق سے بے ساختہ چیخ نکلی لیکن گولی اوپر کہیں تاریک فضا کی طرف نکل گئی۔
مرشد نے ملنگی کی گردن پر بازو کا شکنجہ مزید سخت کرتے ہوئے عقب سے اسکی گردن میں پوری قوت سے دانت پیوست کر دئے۔ ملنگی کے حلق سے دردناک کراہ خارج ہوئی جسے اس نے ہونٹوں میں ہی بھینچ لیا۔ مرشد کو احساس ہوا کہ ملنگی کے لمبے تڑنگے وجود میں کسی خونخوار جنگلی چیتے جیسی طاقت ہے۔ زور آزمائی کے نتیجے میں دونوں لڑکھڑا کر برآمدے میں گرے۔ گرتے ہوئے مرشد نے دیکھا کہ خنجر پسٹل سنبھالے سامنے کہ ر�±خ موجود اس گیٹ کی طرف دوڑا تھا، جہاں سے چند لمحے پہلے ملنگی کے دو ساتھی باہر نکلے تھے۔ نیچے گرتے ہی مرشد نے ملنگی کے نچلے دھڑ کو ٹانگوں کی قینچی میں جکڑا اور ملنگی کی گردن کے گرد کسے بازو کو قدرے موڑتے ہوئے یوں کس لیا کہ ملنگی نے فوراً ہی مزاحمت ترک کردی۔ اسے باخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ اب اگر اسنے مزید تڑپنے پھڑکنے کے لیے زور مارا تو گردن کی ہڈی تڑخ جائے گی۔جعفر مرشد کی مدد کو آگے بڑھا تو مرشد نے فوراً اسے ٹوک دیا۔”نہیں جعفر ! تو باہر کی خبر لے۔ اس کے ساتھ صرف میں ہی پیار کروں گا.” جعفر فوراً بیرونی طرف کو دوڑگیا۔ حجاب بدستور اسی جگہ ساکت کھڑی تھی۔ ٹیپو اور تاجل مرشد کی نظروں سے اوجھل تھے۔
"ہاں ملنگن! اب بول ،کیا کہتی ہے تو… تجھے بھی فوجی کے پیچھے روانہ کر دوں؟” مرشد نے زہریلے لہجے میں کہا.. ایک زرا توقف کے بعد وہ پھر بولا۔
” نہیں…. تجھے آسان موت مار کر میرا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہو گا۔تیری میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی پھر بھی تو نے میرے دو جگری یاروں کو قتل کیا.. …مجھے زلیل کیا , تماشا بنایا میرا ….تجھے آسان موت نہیں مرنا چاہیے۔ تیری موت تیرے شایانِ شان ہونی چاہیے۔ ہے نا ؟” ملنگی کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکلی۔ مرشد کے بازو کا شکنجہ اس کی گردن کے گرد یوں فٹ تھا کہ وہ سانس بھی مشکل سے لے پا رہا تھا۔ خون کے دباو�¿ نے اس کے سانولے رنگ کو تانبے کی طرح تپا رکھا تھا اور اسکی آنکھیں حلقوں سے ابلی پڑ رہی تھیں۔ وہ عیار تھا , مکار تھا اور انتہا درجہ سفاک طبعیت کا مالک تھا لیکن اس وقت اسکی ساری عیاری مکاری اپنی تمام تر سفاکی سمیت مرشد کے پہلوانی داو�¿ میں پھنس کر بے بس ہوچکی تھی۔
مرشد نے ہاتھ میں موجود پسٹل ایک طرف فرش پر ڈالا اور اس ہاتھ کی انگلیاں ملنگی کی شہ رگ پر جما دیں۔ لالا رستم کا سکھایا ہوا مخصوص گ�±ر "ساہ شکنجی” استعمال کرنے کے محض چند لمحے بعد ہی ملنگی کے وجود نے پہلے چند جھٹکے لئے پھر اس کا سارا تناو�¿ جاتا رہا۔ ہاتھ پاو�¿ں ڈھیلے پڑ گئے، جسم گویا یکایک
بے جان ہو گیا۔لگتا یوں ہی تھا کہ اسکی روح اس کے جسم کا ساتھ چھوڑ گئی ہے لیکن مرشد جانتا تھا کہ وہ کچھ وقت کی بے ہوشی کا شکار ہوا ہے۔
اسی وقت بیرونی طرف ایک ساتھ ہی پسٹل اور رائفل کے فائر کی آواز سنائی دی اور اگلے ہی پل عمارت کے عقبی طرف سے بھی رائفل کی تڑتڑاہٹ بلند ہوئی ،مرشد چونکا تھا ملنگی کی گردن سے گرفت وہ ختم کر چکا تھا۔ دھیان پوری طرح فائرنگ کی آوازوں کی طرف چلا گیا تھا ۔ اچانک اسے شدید غلطی اور گڑبڑ کا احساس ہوا اور اسی پل ملنگی کی کہنی کسی ہتھوڑے کی طرح اس کی کنپٹی پر لگی ایک لمحے کو حواس مختل ہوئے اور ملنگی زخمی جانور کی طرح تڑپ کر اس سے دور ہو گیا۔ مرشد نے سنبھلنے اور ا�±ٹھنے میں کمال پھرتی کا مظاہرہ کیا تھا پھر بھی صورتحال ایک بار پھر یکسر تبدیل ہوچکی تھی۔
فرش پر پڑا مرشد کا پسٹل اب ملنگی کے ہاتھوں میں تھااور وہ سامنے چار قدم کے فاصلے پر کھڑا انتہائی قہرناک نظروں سے مرشد کو گھور رہا تھا۔ ظاہر ہے ا�±س کے ہاتھ میں موجود پسٹل کا رخ بھی مرشد ہی کی طرف تھا۔ وہ اپنی عیاری اور مکاری سے پانسہ پلٹ چکا تھا۔خنجر اور جعفر اسکے سامنے ہی باہر نکلے تھے تاکہ ملنگی کے باقی ساتھیوں کو دیکھ سکیں۔ ٹیپو بھی اسے اردگرد کہیں دکھائی نہیں دیا البتہ تاجل اور حجاب اس کے بائیں ہاتھ موجود تھے۔
حجاب محض دو قدم کے فاصلے پر اسی جگہ ستون سے لگی کھڑی تھی۔
” ملنگی کو تو نے کچھ زیادہ ہی ہلکا لے لیا تیرے جیسے پتا نئیں کتنے پھنے خان ملنگی اپنے م�±وت میں بہا چکا ہے۔.” اس نے نفرت اور حقارت سے ایک طرف تھوکا۔
"اب بول…. پہلے تجھے پھڑکاو�¿ں یا تیری اس چھمک چھلو کو؟” وہ حجاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پھنکارا پھر مرشد کے انداز میں بولا..
” نہیں تجھے آسان موت مارکر میرے کلیجے میں ٹھنڈ نہیں پڑے گی تونے فوجی کو قتل کیا ہے۔ اس کی موت کے بدلے تجھے اپنے سارے عزیزوں پیاروں کی لاشیں دیکھنا ہوں گی۔ اس کے بعد تجھے تیرے شایانِ شان موت ماروں گا میں۔”
” مردوں والی بات کر ملنگی! مجھ پر گولی چلا۔” مرشد نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر کہا۔ چند لمحے دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے خاموش کھڑے رہے پھر ملنگی کی آنکھوں میں ایک عجیب سی سفاک مسکراہٹ چمکی ،مرشد جیسے ایک پل کے ہزارویں حصے میں اس کی نیت جان گیا۔ ایک یخ سرد لہر سی مرشد کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسرائی، ملنگی نے ایک نظر حجاب کی دہشت زدہ زرد صورت پر ڈالی اسی لمحے سامنے کے رخ سے خنجر صحن میں داخل ہوا اور برآمدے میں دکھائی دینے والے منظر پر نظر پڑتے ہی ٹھٹک گیا۔ ملنگی بھی چونکا تھا۔ مرشد فوراً تڑپ کر حجاب کے سامنے آتے ہوئے بلند آواز میں بولا۔
” نہیں ملنگی! ہجڑوں والا کام نہ کر۔“ ملنگی اتنے میں ٹریگر دبا چکا تھا دوسری طرف خنجر نے ملنگی کی طرف برسٹ فائر کیا مگر ملنگی فائر کرتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑ کر برآمدے کے کونے میں جا گرا تھا۔ پسٹل کے دھماکے کی آواز رائفل کی تڑ تڑاہٹ میں دب کر رہ گئی۔ مرشد کو اپنی بائیں طرف پسلیوں کے نیچے ایک ایسی جھٹکے دار اور زور کی ضرب محسوس ہوئی کہ وہ بے اختیار لڑکھڑا کر عقب میں حجاب سے ٹکرایا جو دہشت کے مارے بے ساختہ چیخی تھی۔ مرشد نے فوراً سنبھالا لیا اور اسے اپنے بازوو�¿ں میں سنبھالتے ہوئے پھرتی سے گھوم کر ستون کی دوسری سمت اوٹ میں ہوگیا۔
"سرکار آپ…. آپ ٹھیک تو ہیں؟“ اس نے ازحد پریشانی اور بے قراری کے ساتھ اسے سر تا پا دیکھتے ہوئے پوچھا اور فوراً لاشعوری طور پر ہاتھ سے بائیں پہلو کو دبا لیا۔
"جج، جی! میں…. میں ٹھیک ہوں۔.” وہ پھنسی پھنسی آواز میں بولی۔ خنجر نے برآمدے کی طرف دوڑ کر آتے ہوئے ملنگی کو للکار کر کچھ کہا اور ساتھ ہی ایک چھوٹا برسٹ پھر فائر کیا۔ ملنگی برآمدے کے آخری کونے میں تھا ۔وہ وہاں سے بغلی طرف دیوار میں موجود گیٹ کی طرف دوڑا جو محض چند قدم
کے فاصلے پر تھا۔ خنجر نے ایک بار پھر اس پر فائر کیا مگر ملنگی اس سے پہلے ہی ایک طویل زقند بھرتے ہوئے گیٹ سے باہر تاریکی میں جا گرا تھا۔. خنجر بھی اس کے پیچھے دوڑا مگر مرشد نے فوراً آواز دے کر روک لیا۔
"نہیں خنجر !رک جا۔.” اسے اندیشہ محسوس ہوا تھا کہ خنجر ملنگی کی مکاری کا نشانہ بن جائے گا۔
اپنے بائیں پہلو پر جمائے ہوئے ہاتھ اور ہاتھ کی انگلیوں کی درزوں میں سرسرانے والی ایک گرم چپچپاہٹ کو محسوس کرتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا تو چونک پڑا اس کا ہاتھ خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ ہاتھ ہی کیا سیاہ قمیض کا دامن بھی تر ہو رہا تھا اور ایک گرم گرم سرسراہٹ اس کے بائیں پہلو سے نیچے ران کی طرف پھسل رہی تھی۔ ملنگی کی چلائی ہوئی گولی کام دکھا گئی تھی۔ گولی اس کے کولہے کی ہڈی سے ایک ڈیڑھ انچ اوپر لگی تھی اور گوشت پھاڑتی ہوئی نکل گئی تھی۔ اس نے ایک بار پھر بے قرار نظروں سے حجاب کے وجود کا جائزہ لیا…
"سرکار! آپ کو تو کوئی چوٹ نہیں آئی؟”لفظ خود بخود زبان سے پھسلے تھے ۔ اسے جیسے یہ پریشانی تھی کے کہیں میرے وجود کو چھید کر گزرنے والی گولی نے سرکار کو بھی زخمی نا کر دیا ہو لیکن ایسا نہیں ہوا تھا ۔ حجاب بالکل ٹھیک تھی۔ مرشد کا سوال جیسے اس نے سنا ہی نہیں تھا۔ اسکی پھٹی پھٹی آنکھیں مرشد کے بائیں پہلو اور ہاتھ پر جمی ہوئی تھیں اور چہرے پر ایک خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔
"جگر! کیا ہوا تمھیں؟” خنجر نے اس کے قریب پہنچ کر پریشانی سے پوچھا۔ خون وہ بھی دیکھ چکا تھا۔
"گولی لگ گئی ہے لیکن بچت ہوگئی۔” مرشدنے مسکرا کر کہا۔اسی لمحے زخم سے پہلی شدید ٹیس ا�±ٹھی تھی یوں جیسے کسی نے زخم میں دہکتا ہوا انگارہ ڈال دیا ہو۔ مرشد کی بات سن کر حجاب کی رنگت کچھ مزید زرد پڑ گئی۔ اس کے ہونٹ کپکپائے اور وہ لرزیدہ سی آواز میں بولی۔
” انہیں… انہیں فوراً ہسپتال لے کر چلیں۔اسے اپنی ہی آواز اجنبی محسوس ہوئی۔ اسی لمحے ادھ گری دیوار والے حصے سے جعفر اور ٹیپو صحن میں داخل ہوئے اور لپک کر ان کے قریب پہنچ گئے..
"دو بندے مارے گئے ہیں اور ایک دو جیپ میں فرار ہوگئے ہیں ۔ایک جیپ ابھی کھڑی ہے اور دریا کی طرف سے کافی سارے لوگ اس طرف آرہے ہیں۔ میرے خیال سے وہ پولیس والے ہیں۔ کیا ہوا… یہ خون کیسا ہے؟” جعفر نے تیز لہجے میں باہر کی صورتحال بتاتے بتاتے اچانک پوچھا.. مرشد کی سفید دھوتی بھی اب خون آلود ہونے لگی تھی۔
"جگر کو گولی لگ گئی ہے۔ ہمیں فوری طور پر ادھر سے نکلنا ہوگا۔..”
"اوہ….“
مرشد بولا۔ "ملنگی بچ نکلا ہے ۔دوسری جیپ قابو کرو کہیں وہ ملنگی نہ لے بھاگے۔” ٹیپو نے فوراً سر سے پگڑی اتار کر مرشد کی طرف بڑھائی..
” اسے زخم پر کس کر لپیٹ لیں.. میں جیپ دیکھتا ہوں ،آپ لوگ آجائیں۔.” وہ فوراً ہی پلٹ کر دوڑا۔
” تو بھی جا ساتھ ،کہیں یہ ملنگی کا شکار نہ ہو جائے.. آئیں سرکار !چلیں۔” مرشد نے پہلے جعفر اور پھر حجاب کو مخاطب کرکے کہا اور خود ٹیپو کی پگڑی کمر کے گرد لپیٹنے لگا.. اچھی طرح لپیٹنے کے بعد اس نے زخم کے اوپر دو گرہیں لگائیں اور اس طرف کو چل پڑا جدھر ٹیپو کے پیچھے پیچھے جعفر گیا تھا ۔خنجر نے ا�±سے سہارہ دینے کی کوشش کی تو مرشد نے ا�±سے ٹوک دیا۔
"ابھی نہیں…. ابھی اپنی یہ خدمات بچا کر رکھ۔ ابھی مرشد کی سانسیں چل رہی ہیں۔.”
تاجل ان کے پیچھے پیچھے تھا۔ وہ چاروں سامنے کے ر�±خ سے باہر نکلے تو ان کے کانوں میں جیپ کے انجن کی آواز پڑی۔ ٹیپو اور جعفر جیپ کو عقبی
طرف سے سامنے کے ر�±خ لے آئے تھے۔ جیپ کی لائٹس آف تھیں۔ عقبی طرف کچھ فاصلے سے انسانی آوازوں کا مدھم شور اسی طرف کو بڑھتا چلا آتا سنائی دے رہا تھا۔ پولیس والے خاصے قریب پہنچ آئے تھے۔
” جلدی بیٹھو سب!.” جعفر نے تیز لہجے میں کہا ۔ڈرائیونگ سیٹ پر ٹیپو تھا۔ جعفر خود اس کے برابر بیٹھ گیا۔ جبکہ مرشد, حجاب ,خنجر اور تاجل عقبی حصے میں سوار ہو گئے۔ ٹیپو نے ہیڈ لائٹس آن کی اور جیپ حرکت میں آگئی۔ ٹیپو کے علاوہ خود جعفر بھی اس علاقے کا رہنے والا تھا۔ وہ دونوں یہاں کے راستوں کے متعلق بہتر جانتے سمجھتے تھے۔ خنجر سامنے کی طرف جھا نکتے ہوئے جعفر اور ٹیپو سے مخاطب ہوا۔
” یہاں سے جانا کس طرف ہے؟”
” مرشد کو گولی لگی ہے۔ خون تیزی سے بہہ رہا ہے۔ ہم سیدھے ملک منصب کی حویلی کی طرف جائیں گے۔ وہاں پہنچ گئے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔.” ٹیپو نے جواب دیا۔ مرشد سختی سے ہونٹ بھینچے بیٹھا تھا۔ تکلیف آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ سے سیٹ کو تھام رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے ذخمی پہلو کو دبوچ رکھا تھا۔ زخم کی جگہ سے ٹیپو کی پگڑی بھی خون میں تر ہو آئی تھی اور وہاں سے بہنے والا خون اس کی دھوتی اور ٹانگ کو تر کرتا ہوا اسکے جوتے کو بھگونے لگا تھا۔کسی اور کو تو درست اندازہ نہیں تھا مگر وہ خود جانتا تھا کی گولی کا یہ زخم جان لیوا نہ سہی ،پھر بھی اتنی سنگین نوعیت کا تو ضرور تھا کہ اسے فوری طور پر مناسب ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی بہ صورت دیگر یہی زخم اور خون کا مسلسل اخراج انتہائی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ اس کی جان کے لالے پڑ سکتے تھے اور جان جا بھی سکتی تھی….
کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد انہیں اس بات کی تسلی ہوگئی کہ وہ تعاقب کیے جانے سے محفوظ ہیں۔ خنجر نے عقبی حصے کی لائٹس آن کرالی۔ وہ خود تو ڈرائیور بیک سیٹ پر تھا البتہ حجاب اور مرشد عقبی حصے میں آمنے سامنے کی سیٹوں پر بیٹھے تھے اور سیٹ کے آخری کونے پر تاجل سہما سمیٹا سا بیٹھا تھا۔ عقبی حصے میں روشنی ہوتے ہی حجاب کی نظر مرشد پر پڑی اور اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیامرشد کی دھوتی خون میں لت پت تھی۔ اس کا بایاں پاو�¿ں جوتے سمیت خون سے رنگین ہو رہا تھا اور وہاں سے وہ خون جیپ کے فرش پر پھیلتا ہوا۔ حجاب کے پیروں میں بچھا جارہا تھا…. اس کی جوتی کو بوسہ دے رہا تھا۔مرشد اپنے پہلو سے اٹھتی درد کی لہروں کو برداشت کرتا ہوا سر جھکائے بیٹھا تھا۔ روشنی ہوتے ہی اس کی آنکھوں نے یہ منظر دیکھا۔ رگ و پے میں عجیب طمانیت بھری لہر سی دوڑ گئی۔ اس نے سر اٹھا کر حجاب کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ اسی کی طرف متوجہ تھی۔ چہرے پر شدید گھبراہٹ اور پریشانی ، آنکھوں میں ہراس زدہ ان گنت اندیشے اور فکر مندی۔ مرشد کے چہرے کا پسینہ اور زرد پڑتی رنگت اس کے چہرے پر زلزلے کے تاثرات لے آئی۔ اس کے ہونٹ بے ساختہ کپکپائے اور مرشد کی سماعت سے اس کی لرزیدہ اور روہانسی آواز ٹکرائی۔
"مم ، مرشد جی! آپ…. آپ کا تو بہت خون بہہ رہا ہے۔” وہ اپنی جگہ شاید بے چینی سے سے کسمسا کر رہ گئی تھی۔ مرشد کے ہونٹوں پر مضمل سی مسکراہٹ طلوع ہوئی۔ حجاب کا "مرشد جی ” اس کی کمزور پڑتی سماعت میں کسی ٹانک کی طرح اترا تھا….
"بے فکر رہیں سرکار! مرشد جی بڑی ڈھیٹ ہڈی کے مالک ہیں…. اتنی جلدی کچھ نہیں ہوتا انہیں۔” اس نے محسوس کیا کہ بولنے میں اسے خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔پورے جسم میں چونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں۔ حجاب کی آنکھیں جھلملا اٹھیں۔ وہ صبح سے دانستہ مرشد کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی آرہی تھی۔ دانستہ بات چیت سے احتراز برت رہی تھی، محض اس لیے کہ اس کے حوالے سے دھڑکنوں میں پیدا ہونے والی بے ربطگی اور جذباتی ہلچل سے اسے ایک گھبراہٹ آمیز انجانا سا خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ مرشد کے لیے وہ اپنے دل و دماغ میں جس قدر اپنائیت محسوس کرنے لگی تھی اس کی بدولت اس کے سینے میں ایک عجیب بے نام سا ڈر آبیٹھا تھا۔
خنجر سیٹ پھلانگتا ہوا فوراً عقبی حصے میں آگیا ۔ مرشد کے زرد پڑتے چہرے اور خون کے اخراج کا اندازہ کرتے ہوئے اس کے چہرے پر گہری تشویش کے تاثرات کھنڈ گئے۔
"مرشد جگر! تم سیٹ پر نیم دراز ہو جاو�¿…..”اس نے مرشد کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے لٹانے کی کوشش کی۔
"نہیں خنجر ! لیٹنے سے کام…. بڑھ جائے گا۔”مرشد نے سر نفی ہلاتے ہوئے نقاہت زدہ لہجے میں کہا۔
"خنجر بھائی !ان کا کچھ کریں۔ بہت خون ضائع ہوچکا۔ انہیں جلد از جلد کسی ہسپتال تک پہنچائیں۔” حجاب نے بھیگی ہوئی آواز میں خنجر کو مخاطب کیا۔ اس کے لہجے میں اپنے لیے گہری فکرمندی اور پریشانی محسوس کرتے ہوئے مرشد نے ایک الوہی سی راحت اپنے خون میں گھلتی ہوئی محسوس کی۔ نڈھال ہوتی دھڑکنوں میں ایک نئی توانائی نے انگڑائی لی تھی۔ اس نے پھر سے نظریں اٹھا کر حجاب کی من موہنی صورت کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور بلا شک و شبہہ یہ آنسو ، یہ انمول موتی بہ طور خاص اس کے لیے ،ان روشن آنکھوں کی پلکوں سے ٹوٹ رہے تھے یہ خیال ، یہ احساس کتنا جاں فزا ،کتنا متبرک تھا ، یہ کوئی مرشد کے درون باطن جھانک کر دیکھتااس کے دل ، اس کی دھڑکنوں سے پوچھتا۔
ان لمحوں اس کی نظریں حجاب کے چہرے پر اتریں تو اس کی آنکھوں، اس کے رخساروں پر جم کر رہ گئیں۔ ہوش حواس خود فراموشی کی سحر خیزی میں کھوگئے۔ درد اور تکلیف کا احساس یکایک ہی ہیچ اور بے معنی سا ہو کر رہ گیا تھا!
جیپ کی رفتار آہستہ ہوئی تو خنجر پلٹ کر سامنے کے رخ متوجہ ہوا۔
"مرشد کی حالت سنگین ہے۔ رفتار تیز رکھو۔”اس نے ٹیپو اور جعفر سے کہا تھا،لیکن فوراً ہی اسے رفتار کم کیے جانے کی وجہ سمجھ آگئی۔ اس نیم پختہ سڑک پر دور…. سامنے کچھ روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ تین چار گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ کچھ لوگ موجود تھے۔
"سامنے شاید ناکا لگا ہوا ہے۔” ٹیپو نے پر تشویش لہجے میں کہا تو جعفر بولا۔
"یہ سامنے کچا راستہ ہے۔ ادھر موڑ لو جیپ۔”
"لیکن یہ راستہ بستی کی طرف نہیں جاتا۔”
"جو بھی ہے، فی لحال ہم کسی کے ساتھ الجھنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں ہیں۔”ٹیپو نے ہونٹ بھینچتے ہوئے جعفر کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جیپ بائیں ہاتھ کچے رستے پر اتار دی۔ خنجر دوبارہ پیچھے ہٹ کر مرشد کے برابر بیٹھ گیا۔ مرشد حجاب سے مخاطب ہوا۔
” آپ روئیں نہیں سرکار! اگر…. مجھے کچھ ہو بھی گیا نا! تو میرے یہ یار میری زبان کی لاج رکھیں گے۔ یہ…. یہ آپ کو آپ کی منزل تک پہنچائیں گے۔” مرشد کے لہجے میں گھلی شرارت کو حجاب محسوس نہیں کر پائی۔یہ الفاظ اس کی سماعت پر تو کسی تازیانے کی طرح پڑے تھے۔ اس نے دکھ بھری نظروں سے مرشد کی طرف دیکھا جس کے ہونٹوں پر ایک تھکی ٹوٹی مدھم سی مسکراہٹ تھی۔
"آپ کو کیا لگتا ہے، میں اس لیے رو رہی ہوں؟”اس کی آواز میں ایک گہرا کرب تھاشکایت تھی ، بے بسی اور بے چارگی تھی۔
"تو پھر اور کس وجہ سے رو رہی ہیں؟”مرشد نے جیسے تعجب کا اظہار کیا ۔ حجاب چند لمحے دکھ بھری شکایتی نظروں سے اس کی طرف دیکھے گئی پھر اس کے نتھنے پھڑپھڑائے، آنکھوں سے شفاف پانی کی لکیریں اس کے ملائم رخساروں پر بہہ نکلیں اور اس نے گردن جھکالی۔مرشد کی پر شوق نظروں میں جھانکنے کی سکت اس کے نازک دل میں نہیں تھی اس کی آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتے محبت کے سمندر کے سامنے ٹھہرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی مرشد اب، جب جب اس کی طرف دیکھتا تھا ،اس کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہونے لگتی تھیںاس کی موٹی موٹی آنکھوں میں صدیوں کی پیاس
ہلکورے لیتی دکھائی دیتی تھی اور ایک عجیب نامانوس سی بے قراری حجاب کے اپنے قلب و جاں میں بے دار ہونے لگتی تھی۔یہ بے قراری اور دھڑکنوں میں در آنے والی عجیب اور پراسرار ہلچل اسے پریشان کر دیتی تھی ڈرا دیتی تھی!
گاڑی نے اچانک کسی گڑھے پر بری طرح ہچکولا کھایا،مرشد کے پہلو میں درد کی ایک شدید لہر اٹھی اور وہ اپنے پہلو کو دباتے ہوئے بے اختیار سامنے کی طرف جھکتا چلا گیا۔ خنجر نے فوراً اسے سنبھالنے کی کوشش کی لیکن مرشد سیٹ سے پھسل کر نیچے جیپ کے آہنی فرش پر بیٹھ گیا، جہاں پہلے ہی اس کا خون پھیلا ہوا تھا۔حجاب نے پاو�¿ں سمیٹتے ہوئے دہشت زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
وہ اپنا سر جھٹک رہا تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اس کی حالت خاصی پتلی ہے۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کے ہاتھ پیر اور کنپٹیاں سرد پڑتی جا رہی ہیں۔ جیپ بھی بیچ راستے رک چکی تھی۔ خنجر آگے کی طرف جھانکتے ہوئے مضطرب لہجے میں بولا۔
"کیوں روک دی ہے جیپ ؟”
جعفر اور ٹیپو کسی بات پر آپس میں بحث کر رہے تھے۔ جعفر نے کچھ کہا تھا جس پر عمل کرنے میں ٹیپو پس و پیش کا شکار تھا۔
"مرشد کی طبیعت تیزی سے بگڑتی جارہی ہے۔ جلدی چلو مرو۔ بہتر ہوگا کہ کسی پرائیویٹ کلینک کا رخ کر لو یا پھر ہسپتال کا۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔” خنجر نے تیز لہجے میں کہا۔ شدید اضطراب اور پریشانی کی زیادتی کے باعث اسے اپنی آواز اجنبی محسوس ہوئی۔اگلے چند ہی لمحے بعد جیپ ایک بار پھر حرکت میں آئی اور کسی نامعلوم سمت میں دوڑ پڑی۔ بارش نے ایک بار پھر شدت اختیار کر لی تھی۔
"خنجر” مرشد کی درد میں ڈوبی گھٹی گھٹی سی آواز خنجر کی سماعت سے ٹکرائی تو وہ تڑپ کر پلٹا۔مرشد ٹانگیں پسارے عقب میں سیٹ سے پشت ٹکائے بالکل نڈھال سا بیٹھا تھا۔خنجر فوراً اس کے برابر بیٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
"بول جگر! کیا بات ہے ؟”
"تیرے جگر کا دل بہت گھبرا رہا ہے یار! لگتا ہے…. لگتا ہے کہ زیادہ وقت نہیں ہے اب میرے…. پاس۔.”
"حوصلے سے کام لو جگر! جلد ہی کسی ہسپتال تک پہنچ جائیں گے ہم! بس کچھ دیر برداشت سے کام لو۔”
"نہیں….“ مرشد نے مدہوشانہ انداز میں سر کو شدت سے نفی میں جھٹکا۔ "ہسپتال نہیں…. سرکار نظروں میں آجائیں گی….ہسپتال نہیں جانا۔ بہت….. بہت سے اور دشمنوں کے ساتھ، ساتھ سرکار کو پولیس …. پولیس والوں سے بھی بچانا ہے۔ تو….جانتا ہے اچھی طرح۔”
حجاب نے چادر ہونٹوں پر رکھ کر اپنی سسکی کو روکا۔مرشد کو اپنی جان سے بھی زیادہ اس کی فکر تھی۔
"تم بالکل بے فکر رہو۔ ہم لوگ ہیں نا!”
"بس…. ہسپتال نہیں۔”
"ٹھیک ہے۔ٹھیک ہے، تم زیادہ بولو نہیں۔”مرشد کی تھوڑی جھک کر سینے سے جالگی۔اس نے نیچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبا رکھا تھا۔ پسینے میں تر چہرے پر شدید تکلیف کے آثار رقم تھے۔جیپ اب کسی پختہ سڑک پر آچکی تھی اور تیزی سے آگے کی طرف دوڑ رہی تھی۔ چند لمحوں بعد مرشد نے پھر دھیرے سے سر اٹھایا اور بہ دقت تھوک نگلتے ہوئے خشک پڑے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔
"پانی…. پانی تو نہیں ہوگا…. جیپ میں۔”
"میں دیکھتا ہوں۔” خنجر فوراً اٹھ کر سامنے کی طرف متوجہ ہوا۔ مرشد نے حجاب کی طرف دیکھا۔ مسکرانے کی ناکام کوشش کی اور ہاتھ کے اشارےسے جیسے اسے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے۔ یہ مختصر جملہ وہ زبان سے بولا بھی تھا لیکن آواز ٹھیک سے حجاب کی سماعت تک نہیں پہنچی پھر بھی وہ سمجھ گئی تھی کہ اس نے کیا کہا ہے۔اس نے دیکھا ،مرشد کی آنکھوں کی بے باک چمک ماند پڑچکی ہے۔ شاید وہ پلکیں اٹھانے میں بھی دقت محسوس کر رہا تھا اور اسے ٹھیک سے سانس لینے میں بھی مشکل پیش آرہی تھی۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد منہ کھولتا تھا اور کھینچ کھینچ کر سانس لینے لگتا تھا۔اس کی ہر پل دگرگوں ہوتی حالت دیکھ دیکھ کر حجاب کا دل ہول رہا تھا۔سینے کے اندر ایک اودھم مچا ہوا تھا اور روئیں روئیں پر ایک اضطراب طاری تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر روئے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر خود جا بیٹھے اور گاڑی کو اڑاتے ہوئے فوراً سے پیش تر کسی ہسپتال میں جا پہنچائے اور ہسپتال کے سارے عمل کو مرشد کے علاج پر لگا دے لیکن….اس کے بس میں کچھ بھی نہیں تھا !
وہ خود پر جبر کرتے ہوئے. ہزار ضبط کئے اپنی جگہ بیٹھی خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے حسن آرا کا شفیق چہرہ لہرا جاتا تھا۔ اس پر خلوص اور مہربان عورت کو معلوم نہیں تھا کہ اس کا لخت جگر اس وقت اپنے ہی خون میں لت پت پڑا ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زندگی سے دور اور موت کی سرحدوں کے قریب تر ہوا جا رہا ہے اور یہ سب حجاب ہی کی وجہ سے ہوا تھا ملنگی نے اسی پر گولی چلائی تھی جو مرشد نے اپنے وجود پر لے لی تھی۔ گولی لگنے کے بعد بھی وہ اسی کے لیے متفکر تھا۔ اس نے بے تاب نظروں سے سرتاپا اس کے وجود کا جائزہ لیا تھا اور بے قراری سے پوچھا بھی تھا۔
"سرکار! آپ…. آپ ٹھیک تو ہیں؟ "
کیسی دل کو جھنجوڑ کر رکھ دینے والی پریشانی اور فکرمندی تھی اس کے لہجے میں کیسی وارفتگی اور عقیدت ہوتی تھی اس کی آنکھوں میں اس کے دیکھنے کے انداز میں جیسے وہ کسی عام سی لڑکی کو نہیں ،بلکہ اس دنیا کی سب سے زیادہ قیمتی انمول اور مقدس ہستی کو دیکھ رہا ہواور اسے دیکھتے دیکھتے اس پر صدقے واری ہو جانا چاہتا ہو…. قربان ہو جانا چاہتا ہو اور اب…. گویا وہ عملاً اس پر اپنی زندگی وار چکا تھا…. خود کو قربان کر بیٹھا تھااس کے حصے کی موت کو اس نے خود آگے بڑھ کر اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔
٭ ٭ ٭