اردو میں انگریزی الفاظ کا استعمال

اردو میں دوسری زبانوں کا حصہ

اردو ایک ایسی کشادہ دل زبان ہے جس کی فطرت اور جس کا مزاج اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ کہ اس کی تشکیل میں مختلف زبانوں کا حصہ ہے۔ اس میں ہمیشہ مختلف زبانوں کے الفاظ داخل ہوتے رہے ہیں۔ اور ان الفاظ نے وقت کے ساتھ ساتھ اس زبان میں اپنی ایک مستقل جگہ بنا لی ہے۔ دوسری زبانوں کے الفاظ کی یہ آمیزش اس میں اس حد تک ہوئی ہے کہ اگر ایسے تمام الفاظ کو اس میں سے نکال دیا جائے تو باقی شاید کچھ نہ رہے۔

گو اس زبان کی بنیاد اور اس کے حروف و افعال تو ہندی الاصل ہیں۔ لیکن اس نے فارسی زبان کے عظیم الشان رواجوں کے زیر اثر ترقی کر کے اپنے مخصوص مزاج اور رنگ و آہنگ کی تشکیل کی ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی ایک فطری زبان ہے کہ اس نے زبان کے ارتقائی اور تاریخی تقاضوں کو بھی کما حقہ پورا کیا ہے۔

یعنی گزشتہ کئی صدیوں میں اس نے ان تمام اثرات کو جو برِ عظیم پاک و ہند میں رونما ہوتے رہے ہیں۔ کو قبول کیا ہے۔ اور ان کے زیر اثر اپنا رنگ و آہنگ کچھ اس طرح تبدیل کیا ہے کہ ہندی اور بھاشا کا اثر اس میں کم نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے۔ کہ اپنے ارتقائی مراحل میں اس نے فارسی ، عربی ، ترکی ، انگریزی اور بعض یورپی زبانوں کے بے شمار الفاظ کو اپنے اندر شامل کیا۔ اور ان کی مخصوص صورتوں کو اپنے مخصوص آہنگ میں اس طرح ڈھال لیا کہ ان میں سے اکثر اب اجنبی اور نامانوس اور دوسری زبانوں کے الفاظ محسوس نہیں ہوتے۔

اردو میں فارسی، عربی اور انگریزی

اردو زبان میں دو سرے الفاظ کی آمیزش کے پس منظر میں وہ طویل ارتقائی اور تاریخی عمل کار فرما ہے۔ جس میں سے خود بر عظیم پاک و ہند اور اس زبان کے بولنے والوں کو گزرنا پڑا ہے۔ مسلمانوں کے زیر اثر خصوصا فارسی اور عربی نے اس کی تشکیل اور توسیع میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ اور اسی طرح ایک طویل عرصہ سے انگریزوں اور انگریزی زبان کے زیر اثر رہنے کی بنا پر اس نے انگریزی زبان سے بھی واضح اثرات قبول کیے ہیں۔

اثر اندازی کا یہ عمل جہاں فطری لحاظ سے ہوتا رہا وہاں اس کے لیے کچھ ارادی اور غیر فطری کوششیں بھی کی گئیں۔ اس سلسلے میں سرسید احمد خاں اور ان کے بعض رفقاء نے انگریزی الفاظ کو جس طریقہ سے مصلحتاً استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ وہ زبان کے مزاج کے اعتبار سے غیر فطری تھا۔ اس لیے انھیں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ کیونکہ ان الفاظ کے یا تو متبادل اردو الفاظ موجود تھے۔ یا وہ الفاظ اردو کے صوتی آہنگ سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ جب کہ اس دور میں انگریزی زبان کے بعض الفاظ اردو میں اس طرح رائج ہوۓ کہ اب وہ اردو ہی کے الفاظ معلوم ہوتے ہیں۔

مغربیت کی شدید بھر مار

وہ الفاظ جو معنی اور صوتی آہنگ کے لحاظ سے قبولیت عام حاصل کر لیں۔ زبان کا ایک مستقل حصہ بن جاتے ہیں۔ اور ان کی اجنبیت کا تاثر خود بخود زائل ہو جاتا ہے۔ یہ فطری عمل آج بھی جاری ہے۔ لیکن کچھ عرصہ سے ہماری تہذیب و معاشرت میں مغربیت کی شدید بھر مار کے ساتھ ساتھ اس عمل میں بڑی ناگوار حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس عمل نے جو اب سراسر غیر فطری حدود اختیار کر رہا ہے۔ اردو کے خد و خال ہی بدل کر رکھ دیے ہیں۔

اگر زبان میں اخذ و قبول کا رجحان فطری اصول کے تحت انجام پاۓ تو زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہی رجحان غیر فطری اصول اختیار کر لے تو اس سے نہ صرف زبان بگڑ جاتی ہے۔ بلکہ اس کا فطری حسن ، مزاج اور تشخص متاثر ہوتے ہیں۔

اردو کے ساتھ آج کل یہ ہو رہا ہے۔ معاشرے پر اس تہذیب کا غلبہ ہے جس کو انگریزی زبان سے خاص نسبت حاصل ہے۔ یہی زبان ہمارے معاشرے میں بلند سماجی مرتبہ کا تعین کرتی ہے۔ سرکاری اور دفتری زبان بھی یہی ہے۔ تعلیم میں بھی اس کی بالا دستی قائم ہے اور ہمارے سارے ماحول پر بھی اس کی جلوہ نمائی ہے۔

اس صورت حال میں ہم ہر لمحہ انگریزی زبان اور اس کے الفاظ کے زیر اثر رہتے ہیں۔ اس کا کوئی لفظ استعمال کیے بغیر نہ گفتگو میں ہمارا کوئی جملہ مکمل ہوتا ہے۔ نہ ہم کوئی عبارت لکھ سکتے ہیں۔
یہ المیہ تقریبا سب ہی کے ساتھ پیش آتا ہے۔

زبان اور تہذیبی تشخص

ہر لفظ کا اپنا ایک تہذیبی پس منظر ہوتا ہے۔ جب ہم کوئی لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کے ذریعہ ہم ایک تہذیب کو بھی پیش کرتے ہیں۔ اس طرح انگریزی الفاظ کے استعمال سے ہمارا تہذیبی تشخص بھی متاثر ہو رہا ہے۔ اگر انگریزی زبان کی اثر اندازی اور ہماری غلامانہ ذہنیت کا یہ رویہ بر قرار رہا۔ تو اندیشہ ہے کہ انگریزی الفاظ کو اس طرح استعمال کرنے کی روش سے اردو اپنے تمام فطری محاسن سے عاری ہو جاۓ گی۔ اور اس کے ساتھ پاکستان اور مسلمانوں کا جو تشخص وابستہ ہے۔ وہ معدوم ہو جائے گا۔

آج ہماری زبان میں جس طرح انگریزی زبان کے الفاظ داخل ہو رہے ہیں۔ اور ہم انھیں بے محابہ گفتگو اور تحریر میں استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا احساس کمتری ہے۔ یہی احساس کمتری ہمیں نقالی (فیشن ) پر آمادہ کرتا ہے۔ جس کی ابتدا سہل پسندی سے ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ہمیں کسی انگریزی لفظ کے ہم پلہ اور متبادل اردو کا کوئی لفظ تلاش کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اور بحالت مجبوری مکمل بلاغ کے لیے ہم انگریزی لفظ ہی استعمل کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم چاہیں تو جملے کی ساخت اور ترتیب میں تبدیلی پیدا کر کے دو سری طرح مفہوم ادا کر سکتے ہیں۔

انگریزی لفظ کا متبادل اردو لفظ

یہ کہنا کہ کسی انگریزی لفظ کا کوئی اردو متبادل لفظ دستیاب نہیں ہے۔ سرا سر کم علمی پر مبنی ہے۔ جس انگریزی لفظ کو ہم مکمل ابلاغ کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اسے ضروری اور مناسب در اصل ہمارے ہی استعمال نے بنایا ہے۔ اسے بار بار استعمال کر کے ہم اس کے ساتھ ایک خاص قسم کی ذہنی اور جذباتی وابستگی پیدا کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اس کی جگہ اگر اردو کا کوئی عین متبادل لفظ بھی ملتا ہے۔ تو انگریزی لفظ سے سابقہ ذہنی وابستگی وہاں آڑے آتی ہے۔ اس کا صرف یہی علاج ہو سکتا ہے کہ ہم انگریزی لفظ کا متبادل اردو لفظ استعمال کرنا شروع کر دیں تو وہ بھی ایک دن مکمل ابلاغ کا حامل بن جاۓ گا۔

انگریزی الفاظ کے بلا روک ٹوک استعمال سے اردو کے لیے جو نازک او ر نا گوار صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ اس کا تدارک ذرا بھی مشکل نہیں۔ ہم اگر یہ طے کرلیں کہ کوئی ایسا انگریزی لفظ جس کا متبال اردو لفظ موجود ہے استعمال نہیں کریں گے۔ چاہے اس کے لیے ہمیں اپنا جملہ ہی تبدیل کرنا پڑے۔ یا اردو لفظ وضع کرنا پڑے۔ کیونکہ ہم بعض اوقات غیر ارادی طور پر بھی انگریزی الفاظ استعمال کر جاتے ہیں۔

ہم انگریزی الفاظ سے پاک اردو ہی استعمال کریں گے تو یہ ایک ایسا کام ہے جو انفرادی سطح پر بڑی آسانی کے ساتھ انجام پاسکتا ہے۔ اس کے لیے کسی تحریک، تنظیم اور سہارے یا عرصے اور مدت کی مطلق ضرورت نہیں۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے