حجاب دزدیدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتی ہوئی پیچھے ہٹ کر واپس پلنگ پر بیٹھ گئی۔ وہ بدمعاش دروازے میں کھڑا بغور اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا۔
قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
مرشد
شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
قسط نمبر: 07
چوہدری فرزند تھا تواس کے کلیجے کی آگ ابھی تک ایک ذرا بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی۔ اس کے ہرکارے مسلسل اسرار شاہ کی تلاش میں تھے مگر وہ تو گدھے کے سینگوں کی مثال ہو گیا تھا۔ حجاب تھی تو اسے خود چوہدری فرزند کے باپ نے کہیں غائب کر رکھا تھا۔ چوہدری فرزند بار بار اس سے پوچھ چکا تھا کہ ”کُڑی“ کدھر ہے؟ مگر اکبر علی نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا۔ بلکہ اسے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ”جب تک تفتیش والا معاملہ اچھی طرح ٹھنڈا نہیں ہوجاتا۔ اس کڑی کودماغ سے نکال دے… اس سور کے پتر نے یہ جو تفتیشی افسر یہاں بھیجا ہے۔ اصغر علی اعوان۔ یہ کوئی کتے کی پونچھ ہے۔ احتیاط کر لی جائے تو اچھا ہے۔ کج دن صبر کر، ابھی بھول جا اس کڑی کو۔ وہ بالکل محفوظ جگہ پر ہے۔“
ایک ہفتہ ہو چکا تھا مگر چوہدری فرزند اس” محفوظ جگہ“ کے بارے میں نہیں جان سکا تھا کہ وہ کہاں واقع ہے … وہ ان بندوں سے بھی پوچھ چکا تھا جواس روز اکبر علی کے ساتھ تھے ،جب وہ حجاب کو کسی نامعلوم جگہ پر لے کر گیا تھا۔ مگر یہ بھی بے فائدہ رہا تھا۔
””حکم داد!”
حکم چوہدری صیب!“ چوہدری فرزند کی آواز پر حکم داد نے مستعدی سے جواب دیا۔ وہ اس وقت حویلی کے مردان خانے میں بیٹھے تھے۔ چوہدری فرزند دھوتی اور بنیان پہنے ایک صوفے پر چوڑا ہو کر بیٹھا تھا۔ لالا اور گاما نیچے بیٹھے اس کی پنڈلیوں کی مالش کر رہے تھے جبکہ حکم داد اور سانگھا تھوڑے فاصلے پر موڑھوں پر بیٹھے تھے۔
”ابا اس دن، جب اس کڑی کو وہاں سے لے کر نکلا تھا تو یہ انورا بھی اس کے ساتھ ہی تھانا؟“
”جی چوہدری صیب!“
”۔ہوں… میں نے تین چار بار کہا ہے اس سے کہ بتادے اس شاہنی کو ابا کہاں چھوڑ کے آیا ہے۔ جانتا ہے، مگر بتانے کو تیار نہیں ہے کھوتے کا پتر!“
”جی… آپ پوچھنا چاہو گے تو بتا تو دے گا ہی۔“
”کل وزیر آباد جا رہا ہے … نو بجے نکلے گا ادھر سے۔“ چوہدری نے گمبھیر لہجے میں کہا تو ان چاروں نے ایک دوسرے کی صورت دیکھی۔ جس طرح وہ چاروں چوہدری فرزند کے ذاتی محافظ ‘ ذاتی خدمت گار تھے، اسی طرح انورا بڑے چوہدری صاحب کا ذاتی محافظ تھا۔ اس پر ہاتھ ڈالنے کاسیدھا سیدھا مطلب تھا بڑے چوہدری صاحب کے ساتھ دشمنی…!
”اس سے شاہنی کا پتا نکلوانا ہے بس… اس کے بعد بے شک وہ خود ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہو جائے … نہ اس کا پتہ چلے گا نہ بات کھلے گی۔“ چوہدری فرزند نے ایک نظر ان کی صورتوں پر ڈالی۔ ”مشکل تو نہیں ہو گی؟“
”بالکل بھی نئیں جی! آرام سے ہو جائے گا سب۔“
اسی وقت ایک ستون کے ساتھ سٹینڈ پر رکھے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ فون سانگھے نے اٹھ کر ریسو کیا پھر ماﺅتھ پیس پر ہاتھ رکھتے ہوئے چوہدری فرزند سے مخاطب ہوا۔
”سائیں! ڈسکہ سے نذیرے کا پھون ہے۔ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے۔“
چوہدری کے اشارے پر سانگھا فون سیٹ اٹھا کر اس کے قریب آیا اور ریسیور اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
”ہاں نذیرے! کیابات ہے؟“
”چوہدری صاحب !مرید شاہ کے گھر دو عورتیں آئی ہیں ٹیکسی پر اور… نمبر پلیٹ لہور کی ہے۔“
”لہور سے … وہاں ان کا کون سگا ہے۔“ چوہدری فرزند نے تعجب سے کہا۔
”یہ تو پتا نہیں جی!“
اچھا… جب یہ واپس جائیں تو ایک بندہ ٹور ان کے پیچھے۔ صرف دیکھو کہ لاہور میں کہاں واپس جاتی ہیں یہ۔“
”ٹھیک ہے جی!“
چوہدری نے پر سوچ انداز میں ریسیور واپس رکھا تو سانگھا پیچھے ہٹ گیا۔ ڈسکہ میں شاہوں کے دو گھر تھے۔ ایک صلاح الدین کے سالے مرید حسین کا اور دوسرا اس کی سالی کا… دونوں گھروں پر چوہدریوں کے نگران مقرر تھے کہ ہوسکتا ہے اسرار کی کوئی خبر مل سکے۔ اسرار کی تو ابھی کہیں سے کوئی خبر نہیں ملی تھی۔ ہاں یہ ایک نئی خبر ضرور مل گئی تھی… دوگھریہ تھے اورایک گھر صلاح الدین کی بہن کا تھا مگر وہ گھر بلوچستان میں تھا۔ ان کے علاوہ تو شاہوں کا اور کہیں کوئی نہ تھا۔ پھر بھلا لاہور سے یہ کون عورتیں نکل کے آ گئی تھیں۔ چوہدری فرزند تھوڑی دیر سوچتا رہا مگر کچھ اندازہ نہیں لگاسکا۔ البتہ یہ احساس اسے ضرور ہوا تھا کہ ان عورتوں کی آمد کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہو گی۔
”اچھا ہماری بات ہو رہی تھی ۔وہ… انورے والی۔“
”جی“
”راہوالی یا پھر دھونکل کے آس پاس پہنچ کر ہاتھ ڈالنا… دونوں جگہ ڈیرے مل جائیں گے۔“
”راہوالی ٹھیک رہے گا جی!“ حکم داد نے باقی ساتھیوں کی طرف دیکھا تو سبھی نے اثبات میں سرہلائے۔
”وہاں اپنے ملک الطاف کاڈیرہ ہے، اسی کواستعمال کرنا۔“ اچانک چوہدری گامے سے مخاطب ہوا۔ ”او گامے!“
”جی چوہدری صاب!“
”تیرا ایک بیلی ہوا کرتا تھا… اجوگھوڑا؟ کدھر ہے وہ آج کل؟“ چوہدری نے ٹانگ اٹھا کر گامے کے کندھے پر رکھ دی۔
لہور میں ہوتا ہے جی! گڑھی شاہو کے آسے پاسے۔“
کیا کرتا ہے ادھر؟”
بس جی! ادھر اس کا اچھا ٹہکا بنا ہوا ہے۔ مزے سے گزار رہا ہے۔“
”بس ٹھیک ہے ، بہت ہو گیا کپڑا لگا دو۔“ چوہدری نے ٹانگیں سمیٹتے ہوئے کہا تو لالے اور گامے نے کندھوں سے صافیاں اتار کرچوہدری کی بالوں بھری پنڈلیوں پر چپڑا ہوا تیل صاف کرنا شروع کر دیا۔چوہدری نہانے کی نیت سے اٹھ کراندر آیاہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور حکم داد کی صورت دکھائی دی۔
”چوہدری صیب! ایک گڑبڑ ہوگئی ہے۔“
”کیا ہوا؟“
”گاﺅں میں دو اجنبی لوگوں کا اپنے بندوں سے جھگڑا ہوا ہے اور وہ اپنے بندوں سے ان کے پستول اور گاڑی چھین کر فرار ہوگئے ہیں۔“
”دواجنبی … اپنے بندے کون تھے ؟“چوہدری متعجب ہوا۔
”وہ جی ! گلو‘ صدیق اور مناتھے۔ باہر… دالان میں آئے کھڑے ہیں۔“ چوہدری اسی حلیے میں واپس دالان میں آگیا۔ وہ تینوں مجرموں کی طرح سرجھکائے کھڑے تھے۔
تینوں کا حلیہ ابتر تھا۔ کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ چہروں پر چوٹوں کے نیل اور گومڑ تھے۔ ان کی حالت زار سے واضح تھا کہ بنانے والوں نے خوب اچھے سے درگت بنائی ہے۔
”کیوں اوئے کتے کے پترو! کیا تماشا ہے یہ! کن ماں کے یاروں سے لتر کھا کے آئے ہو؟کون تھے وہ؟“
”وہ کوئی اجنبی لوگ تھے جی… کہیں باہر کے تھے ۔پہلے کبھی نئیں دیکھاانہیں“
چوہدری نے ایک موٹی تگڑی گالی اگلی او ر ان کی طرف ایک گلدان کھینچ مارا جو جا کر درمیان والے شخص کے گھٹنے پر لگا‘اور وہ بلبلا کر رہ گیا۔
”تم تین تھے … وہ دو تھے‘ پھر بھی جوتے کھا کے آ گئے… اسلحہ بھی دے آئے۔ گاڑی بھی تحفے میں دے آئے اپنے بہنویوں کو… کتے کے تخمو…“
”ہم تو انہیں پکڑ کر حویلی لارہے تھے چوہدری صاب! انہوں نے اچانک حملہ کر دیا اور ہمیں سنبھلنے ہی نئیں دیا۔ سب سے پہلے انہوں نے ہاتھ ہی ہمارے پستولوں پر ڈالے تھے۔”
”کہاں سے پکڑ کر لا رہے تھے ؟“
”بورے کی دکان سے۔ وہ یہاں لوگوں سے پوچھتے پھررہے تھے کہ کج دن پہلے یہاں کے چوہدریوں کا جھگڑا ہوا ہے، اس جھگڑے کے متعلق بتاﺅ۔ ہم وہاں سگریٹ لینے کے لیے رکے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں یہ پوچھتے پھررہے ہیں تو کہنے لگے کہ ہم اخبار والے ہیں‘ مگر ان کی توشکلوں پرلکھاتھا جی کہ یہ چٹے ان پڑھ ہیں۔ ہم نے انہیں جیپ میں بٹھا لیا کہ چلو تم لوگوں کو چوہدری صاب سے ملا دیتے ہیں ،جو ملوم کرنا ہے ان سے ہی کر لو ، تو انہوں نے… رستے میں حملہ کر دیا ہم لوگوں پر۔”
”کس طرف گئے ہیں‘ کتنی دیر ہوئی ہے ؟“ چوہدری تیز لہجے میں پوچھتا ہوا ٹیلی فون کی طرف بڑھاتھا۔
”گوجرانوالہ کی طرف جی! گھنٹہ پہلے کی بات ہوگی۔“
”گھنٹہ پہلے !“ چوہدری ٹھٹک کر رک گیا۔
”یعنی انہیں یہاں سے نکلے گھنٹہ ہوچکاہے تو… توتم گھنٹے سے کہاں تھے ؟“
”وہ جی! ہمارے پستول چھین کرانہوں نے ہمیں جیپ میں ساتھ ہی بٹھالیاتھااور… اورہم لوگوں کو گوجرانوالہ تک ساتھ ہی لے گئے۔ وہاں جاکر اتاراہمیں۔ ہماری جیبوں سے پیسے بھی نکال لیے … ایک …!“
چوہدری فرزند نے اچانک آگے بڑھ کربولنے والے کے سینے پر لات ماری اوروہ بے چارہ چیختا ہوا ستون سے ٹکرایا اور ڈھیر ہو گیا۔ اتنے میں چوہدری نے قریب ہی تپائی پر دھرا جگ اٹھا لیا تھا۔
چچ چوہدری صاب! معاف کر دیں۔“
”چچ… غلطی ہو گئی۔“ باقی دونوں نے بچنے کی کوشش تو کی پھر بھی سٹیل کا جگ ایک کے سر میں لگا اور وہ دھاڑ مار کر ایک طرف لڑھک گیا۔
”حرام خور! حرامی کتے … خصی سانڈ… ہٹاﺅ ان کو میرے سامنے سے اور ابھی سے ان تینوں کی ڈیوٹی بھانے میں لگا دو اور کسی کام کے نئیں ہیں یہ بھڑوے!“چوہدری فرزند نے شدید غصے اور حقارت سے کہا پھر پلٹ کر دوبارہ کمرے میں آیا اور غسل خانے میں گھس گیا۔
اس کا دماغ اچھی خاصی الجھن کا شکار ہو گیا تھا۔ اس کے ذہن میں ایک تکون نمودار ہو آئی تھی… دو عورتیں … لاہور… دو اجنبی آدمی…
وہ نہا کر نکلا ہی تھا کہ نزیرے کی کال آ گئی۔
”ہاں نذیرے! بول۔“
”چوہدری صاحب! میں گوجرانوالہ سے بول رہا ہوں جی! وہ ٹیکسی والی عورتوں کے پیچھے میں خود ہی نکل آیا تھا مگر… یہاں گوجرانوالہ میں آ کر وہ ٹیکسی اچانک ہی گم ہو گئی ہے۔“
”کیسے گم ہو گئی؟“
”کچھ سمجھ نہیں آئی۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی کوٹھی وغیرہ کے اندر چلی گئی ہے۔“ چوہدری نے ایک ذرا توقف سے کام لیا پھر دوبارہ بولا۔
"تُو اس وقت کس جگہ پر کھڑا ہے۔“
"اسپتال کے سامنے ایک پی سی او پر۔“
”تو وہیں رک، گاما اور سانگھا تیرے پاس آ رہے ہیں۔“ چوہدری نے ریسیور رکھ دیا اور پھر گامے اور سانگھے کو معاملہ سمجھا کر گوجرانوالہ نذیرے کی طرف روانہ کر دیا۔ ابھی تک تو وہ صرف دو افراد کو تلاش کروا رہا تھا۔ لیکن اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اسے کچھ اجنبی دشمنوں کی پہچان کی ضرورت بھی آ پڑی ہے۔ اس کے اندر کوئی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ شاہوں والے پھڈے کے حوالے سے کچھ ایسے لوگ بھی حرکت میں آ چکے ہیں جو مکمل طور پر اجنبی ہیں اور جن کے متعلق فی الوقت کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
چوہدری کو اب شدت سے گامے کی طرف سے رابطے کا انتظار تھا۔ خلاف توقع گامے کی کال بہت دیر سے آئی۔ اس وقت رات کے نو بج رہے تھے۔ اس نے اور سانگھے نے ٹیکسی ڈرائیور کو ڈھونڈ کر قابو کر لیا تھا۔
”چوہدری صاب! ڈرائیور کے بقول ان دو عورتوں میں سے ایک تو یہاں … ہیرا منڈی کا کھسرا تھا اور دوسری یہاں کی ایک طوائف تھی۔“رابطہ ہوتے ہی گامے نے اپنی کار گزاری کی رپورٹ دی ۔
"یہ لوگ مرید شاہ کے گھر کیا کرنے گئے تھے … کیوں گئے تھے؟“ چوہدری کے لہجے میں سوال سے زیادہ حیرت اور الجھن تھی۔”
”یہ بات ڈرائیور تو نئیں جانتا جی!“
ایک ہیرا منڈی کا کھسرا اور دوسری ایک طوائف… گاﺅں میں دو اجنبی آدمیوں کی آمد اور فرار… کچھ تو تھا! کوئی نہ کوئی گڑبڑ تو شروع ہو چکی تھی۔ کچھ غیر متعلقہ اور اجنبی لوگ اس معاملے میں دلچسپی لے رہے تھے۔ وہ کون لوگ تھے‘ اور انہیں اس گزرے ہوئے وقوعے میں کیا دلچسپی تھی۔ یہ جلد از جلد جاننا بہت ضروری تھا۔
”ابھی ہماری لیے کیا حکم ہے جی!“ ریسیور سے گامے کی آواز ابھری ۔
”تم ایسا کرو، اس کھسرے کو اٹھاﺅ اور ملتان روڈ والی کوٹھی پر لے جاﺅ۔ میں بھی آرہا ہوں اور ہاں… کوئی شور شرابہ یا ہنگامہ نئیں چاہیے۔“
”ٹھیک ہے جی!“
چوہدری نے ریسیور رکھ دیا… زیادہ سوچ بچار کا وہ قائل نہیں تھا۔‘ لہٰذا کچھ ہی دیر بعد وہ، لال دین عرف لالا اور حکم داد کے ساتھ اپنی پراڈو میں بیٹھا تھا اور پراڈو لاہور کی طرف روانہ تھی۔
چوہدری کے کوٹھی تک پہنچنے سے پہلے ہی گاما اور سانگھا‘ خالہ اقبال کو کوٹھی پر لا چکے تھے اور اس کی خاصی چھترول بھی کر چکے تھے۔ گاما چوہدری کو کوٹھی کے گیٹ پر ملا۔
”چوہدری صاب! اصل بات تو یہ بھی نئیں جانتا جی!“ اس نے چوہدری کے ساتھ اندرونی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ حکم داد اور لالا بھی ان کے پیچھے پیچھے تھے۔
”تو کون جانتا ہے۔ ؟“
”اس کے بقول کام اس طواف کو تھا۔ یہ تو صرف اس کے ساتھ گیا تھا۔“
وہ ادھیڑ عمر بھدے وجود والا ہیجڑا لاﺅنج ہی میں موجود تھا۔ وہ نیچے فرش پر بیٹھا خوف زدہ نظروں سے سانگھا کی طرف دیکھ رہا تھا اور سانگھا پانی کی ٹیوب کا ایک موٹا ٹکڑا ہاتھ میں لیے اس ہیجڑے کے سامنے کھڑا تھا۔
”کیوں بھئی! کیسی طبیعت ہے تیری ؟“چوہدری فرزند اس کے بالکل سامنے جا کھڑا ہوا۔
”جناب عالی! میں نے کچھ نہیں کیا۔میں۔ میں تو کچھ جانتی بھی نہیں۔“
”یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو کچھ بھی نہ جانتا ہو؟“
"میری بات کا یقین کریں۔ آپ کے بندوں نے مار مار کے میر اسامان سجا دیا ہے۔ میں جھوٹ نہیں بول رہی سرکار!“ اس نے کپکپاتے ہوئے دونوں ہاتھ چوہدری کے سامنے جوڑ دیئے۔ اس کی آنکھوں سے باقاعدہ آنسو بہہ رہے تھے۔
”تو اس طوائف کے ساتھ ہی مرید شاہ کے گھر گیا تھا۔ پھر تجھے کیسے معلوم نئیں ہے کہ وہ وہاں کیا کرنے گئی تھی؟“
”وہ سادات لوگ تھے جناب! مجھے تو انہوں نے جاتے ہی بیٹھک میں بٹھا دیا تھا۔ اندر آپا اکیلی ہی گئی تھی۔ رب سوہنے کی قسم مجھے نہیں پتا وہ اندر کیا کرکے آئی ہے۔“ خالہ اقبال کا خون خشک ہوا پڑا تھا۔ وہ خوفزدہ نظروں سے ان کی شکلیں دیکھ رہا تھا۔
”اور وہ دو بندے، جو نندی پور پہنچے تھے۔ وہ…“
”کون جی … کون دو بندے؟ ہم… ہم لوگ تو نندی پور نہیں، ڈسکہ گئے تھے جناب۔“ خالہ اقبال کو کچھ مزید پریشانی نے آ لیا۔ شاید کوئی مزید نا معلوم جرم سر پڑنے والا تھا۔
”ہم لوگ نندی پور نہیں گئے۔ صرف ڈسکہ گئے تھے مگر آپا نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا تھا کہ وہاں کیا کرنا ہے۔ کیا کام ہے ؟“ وہ دوبارہ ہاتھ جوڑتے ہوئے جیسے گھگھیایا تھا۔
"تُو ساتھ گیا ہی کیوں۔؟“
”وہ تو آپا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تو اس نے مجھے ساتھ چلنے کا کہا کہ چلو آسرا رہے گا۔… ہم توسیدھے سیدھے روزی روٹی کرنے والے لوگ ہیں جی! ہم مرن جوگے کوئی ایسا ویسا کام نہیں کرتے ہیں۔ میں نے بھی کچھ نہیں کیا… مجھے کچھ پتا نہیں ہے میں نے… میں نے یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے پوچھا بھی تھا مگر آپا نے کہا کہ صرف کسی سے ملنا ہے بس… اور کچھ بھی نہیں بتایا مجھے۔“
وہ سسک اٹھا۔
”تیری اس آپا کا نام کیا ہے۔ کہاں ملے گی۔ ؟“
”حسن آرا جناب! نزہت بیگم کے کوٹھے پر۔ پوری ہیرا منڈی جانتی ہے دونوں کو۔“
”حسن آرا اور نزہت بیگم۔“چوہدری نے زیر لب دہرایا۔ دونوں نام سنے سنے سے محسوس ہو رہے تھے۔
اسے خود کبھی ہیرا منڈی آنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اسے جب بھی ضرورت پڑتی تھی۔ ضرورت کا سامان یہاں سے اس کے پاس پہنچ جایا کرتا تھا… وہ چند لمحے کھڑا سوچتا رہا پھر لالے سے مخاطب ہوا۔
"لالے!“
”جی…“
”گاڑی نکالو۔“ لالا فوراً باہر نکل گیا۔ چوہدری خالہ اقبال کی طرف دیکھتے ہوئے سانگھے سے مخاطب ہوا۔
”سانگھا! اسے آج رات یہیں آرام کرنے دو۔ صبح چھوڑ دینا… فی الحال سب میرے ساتھ آﺅ۔“ وہ پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔باقی سب نے
بھی اس کی تقلید کی۔ پھر جب دروازہ لاک ہو گیا تو خالہ اقبال نے ایک گہری اطمینان کی سانس لی اور فرش سے اٹھ کر مطمئن سے انداز میں ایک صوفے پر پھیل گیا۔
چوہدری اپنے چاروں کارندوں کے ساتھ دوبارہ پراڈو میں جا بیٹھا تھا۔
مرید حسین پر اصغر علی اعوان کی نظر بھی ہوسکتی تھی اور اسے چھیڑنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ایسے میں اب واحد صورت یہی بچ جاتی تھی کہ براہ راست اس طوائف، حسن آرا ہی سے معلوم کر لیا جائے کہ وہ یہاں سے اٹھ کر ڈسکہ میں مرید حسین کے گھر تک گئی تو کیوں؟ چوہدری فرزند کا دل کہہ رہا تھا کہ اس حسن آرا سے نندی پور والے اجنبی بندوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ معلوم ہو سکتا ہے ۔ حسن آرا سے ایک ملاقات تو ضروری ہو گئی تھی … اور جب ضروری ہو ہی گئی تھی تو پھر دیر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
رات کے تقریباً ساڑھے گیارہ بج رہے تھے اور چوہدری فرزند کی پراڈو بازار حسن کی طرف دوڑی جا رہی تھی۔۔
٭ ٭ ٭
اچھی خاصی سوچ بچار کرنے کے بعد حسن آرا نے یہی بہتر خیال کیا کہ نندی پور کسی دو سرے کو بھیجنے کی بجائے وہ خود جائے۔
کسی دوسرے کو بھیجنے کے ساتھ یہ اندیشہ رہتا کہ کہیں جانے والا کوئی ایسی غلطی یا کوتاہی نہ کر بیٹھے کہ جس کے باعث کوئی مصیبت کھڑی ہو جائے۔ خود اس میں سکت نہ تھی۔ شازیہ سندس یا آس پڑوس میں سے کسی کو نندی پور ساتھ لے جانے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ پھر حجاب کی فکر بھی تھی۔ اس فکر کا حل اس نے یوں نکالا کہ مرشد کے لیے اچھو کے پاس پیغام چھوڑ دیا۔
معلوم تھا کہ مرشد کے ساتھ یہ پیغام یہاں والوں کو بھی مل جائے گا اور اس کے بعد کوئی حجاب کو پریشان نہیں کرے گا۔ مرشد کے حوالے سے اس نے حجاب کو سمجھا دیا تھا کہ وہ خبر گیری کو آئے گا۔ پریشان نہیں ہونا۔ بس یہ ہے کہ اسے اپنے متعلق زیادہ تفصیل مت بتانا اور… اور اپنے سید ہونے کے حوالے سے مرشد تو کیا، کسی سے بھی ذکر نہیں کرنا۔
حجاب کو تبھی اندازہ ہو گیا تھا کہ خالہ خود نندی پور جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس نے پوچھا بھی مگر حسن آرا نے کچھ واضح نہیں کیا۔
”مجھے ایک مزار پر منت ماننے جانا ہے ۔آپ کے گاﺅں بھی ایک بندہ جائے گا۔“ خاصے غور و خوض کے بعد حسن آرا نے خالہ اقبال کو ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر اذانوں کے بعد وہ رازدارانہ انداز میں جا کر اس سے بات بھی کر آئی۔
مختصراً اسے معاملہ بھی بتایا اور یہ بھی بتا دیا کہ دراصل وہ لڑکی سید زادی ہے۔
حسن آرا کو خالہ اقبال پر ایسا ہی بھروسہ تھا۔ خالہ اقبال بھی اس رازداری پر فوراً ہی آمادہ ہو گیا۔ دن چڑھتے ہی وہ ایک ٹیکسی میں روانہ ہوئے تھے۔ ،مگر وہ نندی پور کے لیے نہیں … ڈسکہ کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ حجاب نے نندی پور میں اپنے گھر کے بارے میں بتایا تھا اور ڈسکہ میں موجود اپنے ماموں اور خالہ کے گھر کے متعلق بھی بتایا تھا اور حسن آرا نے یہی بہتر سمجھا تھا کہ نندی پور کی بجائے ڈسکہ جایا جائے۔ حجاب کے ماموں سید مرید حسین کے گھر… یقینی بات تھی کہ وہیں سے نندی پور والے وقوعے کی تفصیل بھی مل جاتی۔ تازہ صورت حال بھی معلوم ہو جاتی اور خود حجاب کے ماموں اور خالہ کے ہاں کے حالات و واقعات بھی سامنے آ جاتے۔
حسن آرا کا ارادہ تھا کہ باری باری حجاب بی بی کے ماموں اور خالہ دونوں کے گھر جائے گی مگر اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ جس وقت وہ مرید شاہ صاحب کے گھر پہنچی۔ حجاب کی خالہ پہلے ہی سے وہاں موجود تھی۔ وہ ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ دونوں صحنوں کے درمیان بس ایک دیوار تھی۔
وہ لوگ تو حجاب کو بھی مردہ تصور کیے بیٹھے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ منظر عام پر تین افراد کی لاشیں آئی ہیں۔ جب کہ باقی تین افراد‘ یعنی حجاب ‘اسرار اور ان کی ماں کوچوہدریوں نے اب تک قتل کر کے کہیں دفن کر دیا ہو گا۔ اسی لیے وہ حجاب کے زندہ ہونے کے انکشاف پر ششدر رہ گئے تھے۔ خالہ اقبال بیٹھک میں بیٹھا تھا۔ جب کہ حسن آرا اندر ایک کمرے میں۔ اس کے علاوہ کمرے میں صرف حجاب کے ماموں، ممانی اور خالہ موجود تھیں۔
حسن آرا نے حجاب پر گزری ساری مصیبت ان کے گوش گزار کر دی اور اپنے متعلق بھی سب کچھ صاف صاف بتا دیا لیکن اس سب کے بعد ان لوگوں کا رد عمل حسن آرا کی توقعات کے برعکس تھا۔… حجاب کو آسرا یا تحفظ دینا تو الگ رہا۔ وہ چوہدریوں سے کچھ اس درجہ خوف زدہ تھے کہ پس پردہ بھی حجاب کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے پر تیار نہیں تھے۔ البتہ انہوں نے ایک فون نمبر لکھ کر حسن آرا کو دیا تھا۔
”یہ حجاب کی پھوپھی زہرہ کا فون نمبر ہے… بلوچستان میں رہتی ہے۔ اسے اطلاع دو۔ اسی کے بیٹے سے حجاب کی بچپن سے نسبت بھی طے ہے… وہ لوگ اثر و رسوخ والے ہیں۔ وہ حجاب کو تحفظ دے سکتے ہیں۔ بس اتنا کرنا کہ کسی کوٹھے یا بازار حسن کا تذکرہ مت کرنا۔ وہ… وہ حجاب کا سسرال ہے۔ ہونے والا سسرال۔ ہمیں تو پہلے ہی پولیس والوں نے ذلیل کر رکھا ہے۔
چوہدریوں کی نمک حلالی کے چکر میں۔
حسن آرا کواندازہ ہو گیا تھا کہ یہ لوگ حجاب کے لیے فکر مندی تو رکھتے ہیں مگر اس فکرمندی سے زیادہ ان کے دلوں میں چوہدریوں کی دہشت بیٹھی ہوئی ہے۔ وہ بوجھل اور دکھے ہوئے دل کے ساتھ وہاں سے واپس لوٹی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ یہ سب حجاب کو کیسے بتائے گی… اس کے گھر پر ٹوٹنے والی قیامت… اس کے باپ بھائیوں کے ساتھ ہونے والی درندگی … ان کی دردناک موت… وہ یہ سب کیسے بیان کرے گی اور… اور یہ سب حجاب بی بی کیسے برداشت کرے گی… کیسے سہن کر پائے گی وہ یہ سب۔!
ابھی کل شام ہی کی تو بات تھی۔ وہ کیسے مان اور اعتماد کے ساتھ کہتی رہی تھی کہ بس ایک بار… کسی طرح ایک بار میرے کسی بھائی یا بابا سائیں تک میری یہاں موجودگی کی اطلاع پہنچادی جائے۔“ اسے جیسے پختہ یقین تھا کہ یہ اطلاع پاتے ہی اس کے بابا سائیں اور بھائی فوراً سے پیشتر آ کر اسے یہاں سے لے جائیں گے… اسے معلوم نہیں تھا کہ ان مشفق اور مہربان ہستیوں میں سے کوئی بھی اس کی مدد‘ اس کی داد رسی کرنے کے لیے باقی نہیں بچا۔…
وقت کے یزیدوں نے ان سبھی کو سفاکی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
حسن آرا نے مرید شاہ کے گھر سے نکلتے ہی سب سے پہلے ایک پی سی او سے حجاب کی پھوپھی کے فون نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ اب یہی ایک آخری امید تھی۔ مگر بار بار کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہوپایا۔ ڈسکہ سے واپسی کے وقت حسن آرا کی طبیعت گڑبڑانے لگی اور گوجرانوالہ پہنچ کر اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے۔ لہٰذا خالہ اقبال وہیں اسے اسپتال لے گیا۔ جہاں اسے ڈرپ لگی رہی۔ ڈھائی تین گھنٹے اسپتال گزارنے کے بعد وہ دوبارہ لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ لاہور پہنچنے کے بعد حسن آرا نے پھر سے حجاب کی پھوپھی سے رابطے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ مغرب سے کچھ پہلے کا وقت تھا جب وہ لوگ واپس پہنچ گئے ۔خالہ اقبال اپنے گھر چلا گیا اور حسن آرا زینے طے کرتی اپنے گھر… نزہت بیگم کے کوٹھے پر پہنچ آئی۔
صدر دالان میں نزہت بیگم اور عشرت جہاں کے ساتھ ہاشو بھی موجود تھا۔ وہ غالبا!ً حجاب کی وجہ سے وہاں موجود تھے کہ کہیں وہ فرار نہ ہو جائے۔ … حسن آرا خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی اور وہ تینوں خاموشی سے اسے گھورتے رہے۔
کمرے میں حجاب بی بی اکیلی نہیں تھی۔ شازیہ بھی وہاں موجود تھی اور وہ دونوں پلنگ پر آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔
٭ ٭ ٭
بہروپ (مکمل ناول)
ایک ایسے کمینہ خصلت انسان کی کہانی جو محلے بھر کی عزتوں کے لیے ایک مستقل خطرہ تھا۔
تقریباً سارا دن گزر چکا تھا اور سکون و عافیت ہی سے گزرا تھا۔
سارے دن میں ایک بار شازیہ آئی تھی‘ ناشتہ لے کر‘ خود اس نے بھی حجاب کے ساتھ ہی ناشتہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ تین بار مرشد ہو کر گیا تھا۔
صبح کے وقت وہ چند سرسری سی باتیں کر کے لوٹ گیا تھا۔ البتہ اسی دوران حجاب پہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ خالہ حسن آرا کابیٹا ہے۔ اس کوسچ میں حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ دوبارہ وہ دوپہر کے قریب آیا۔ حسن آرا کے متعلق اس کے کریدنے والے انداز سے حجاب کو محسوس ہوا کہ اس کے شبہے کے مطابق خالہ کسی مزار پر نہیں بلکہ اس کے گاﺅں نندی پور کی طرف گئی ہے۔ تبھی سے اس کے اندر عجیب وسوسے اور اندیشے کلبلانے لگے تھے۔ ایک عجیب سا دھڑکا لگ گیا تھا اسے۔
تیسری بار مرشد عصر کی اذان سے کچھ پہلے آیا تھا۔ اس بار اس کے تیور اور تاثرات کچھ الگ ہی تھے۔ پہلے بھی حجاب نے محسوس کیا تھا کہ وہ اسے گھورتا رہا تھا مگر اس بار تو اس کی بے باکی ہی کچھ اور تھی … وہ اسٹول رکھ کر بالکل اس کے سامنے بیٹھ کر اسے تکتا رہا تھا۔
حجاب کو یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ نشے کی حالت میں ہے۔
شازیہ کی زبانی وہ مرشد کے متعلق جو کچھ سن چکی تھی اس کے مطابق مرشد کا شمار لاہور کے چند نامی گرامی بدمعاشوں میں ہوتا تھا اور وہ انتہائی من موجی اور خطرناک شخص تھا۔ اس کے بعد یہاں پر حسن آرا کی اہمیت اور اثر و رسوخ کی وجہ تو وہ سمجھ گئی تھی۔ کسی حد تک اسے اطمینان بھی ہوا تھا کہ خالہ کی ہمدردیاں میرے ساتھ ہیں اور خالہ کو ایک مضبوط سہارا بھی حاصل ہے مگر مرشد کے اس بار کے انداز اور باتیں اسے خاصا پریشان کر گئی تھیں۔
عصر کی نماز پڑھ چکنے کے کچھ دیر بعد وہ اسی طرح کے پریشان کن خیالات میں الجھی بیٹھی تھی کہ دروازے سے شازیہ اندر داخل ہوئی۔
اس کے ہاتھوں میں ایک طشت تھا۔
”میں نے پلاﺅ بنایا ہے،خود۔ تیرے ساتھ ہی بیٹھ کر کھاﺅں گی۔ توچکھ کے بتا میرے ہاتھ کاذائقہ کیسا ہے۔ چل سیدھی ہو جا۔“
طشت اس نے پلنگ پر لا رکھا اور خود بھی حجاب کے سامنے ہی بیٹھ گئی۔ اس کا پہناوا وہی تھا۔ کھلے گریبان کی تنگ کرتی اور دوپٹہ… دوپٹہ تو شاید وہ اوڑھتی ہی نہیں تھی۔
”یہ لے پکڑ…“ اس نے پلیٹ بھر کر حجاب کو تھمائی اور ایک کٹوری اس کی طرف کھسکائی۔”رائتہ اپنی مرضی سے ڈال لے۔ میں پانی لے کر آتی ہوں۔“ وہ پلنگ سے اچھل کر اتری اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ حجاب نے چاول چکھے۔ ان کی ظاہری شکل تو کچھ خاص نہیں تھی البتہ ذائقے میں کوئی کمی نہیں تھی۔
”کچھ دیر پہلے وہ مچھل پھر آیا ہوا تھا۔ کیا کہہ رہاتھا؟“ شازیہ کچھ ہی دیر بعد اسٹیل کا جگ اٹھائے واپس آگئی تھی۔ جگ اس نے پلنگ کے ساتھ دھری تپائی پر رکھا اور حجاب کے سامنے بیٹھ گئی۔
”وہ… وہ خالہ کے متعلق پوچھ رہا تھا کہ وہ کدھر گئی ہیں۔“ حجاب سمجھ گئی تھی کہ مچھل سے شازیہ کی مراد مرشد ہے۔… وہ تو حجاب سے اس کے اپنے متعلق پوچھتا رہا تھا کہ اس میں ایسا کیا خاص اور اضافی ہے جو دوسری لڑکیوں میں نہیں ہوتا۔ مگر یہ بات شازیہ کو بتانے میں اسے شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔
”صبح آیا تھا۔ پھر دوپہر میں بھی آیا‘ یہ بات تب نہیں پوچھی اس نے …اور اچھو بھی تو جا کے خالہ کا پیغام دے کے آیا تھا صبح۔“ وہ پلیٹ میں چاول نکال کر ان پر رائتہ ڈال رہی تھی۔
”پہلے بھی پوچھ کر گیا تھا لیکن شاید اسے یقین نہیں آیا کہ خالہ کسی مزار پر گئی ہیں۔ “
”بس کھوپڑی ہی الٹی ہے اس بندے کی تو… دوبارہ آئے تو زیادہ بات چیت مت کرنا… بہت خراب بندہ ہے یہ مرشد۔ ایک نمبر کا بددماغ، اجڈ اور وحشی۔“
”جی بہتر۔“
"صرف ایک اس کی ماں اور دوسری میں ہوں‘ جن کا کچھ لحاظ کر جاتا ہے ورنہ تو… پوچھ مت۔”
”یہ ایسا کیوں ہے ؟“
”لے… تو اور کیسا ہونا چاہیے تھا اسے۔ ؟ کوٹھے پر پیدا ہونے والا ایک طوائف زادہ لفنگا بدمعاش نہیں بنے گا تو اور کیا ولی اللہ بنے گا۔“
”کیا یہ سگا بیٹا ہے خالہ کا؟“
”ہاں! ایک دم سگے والا۔ اسی کوٹھے پر پیدا ہوا تھا۔ اوپر والی منزل پر۔…سب سے اوپر والا کمرہ پہلے خالہ کے پاس ہوتا تھا۔ یہاں اس کمرے میں تو وہ تین چار سال پہلے شفٹ ہوئی ہے۔ پہلے اوپر ہی رہتی تھی۔“
”لیکن خالہ تو بالکل الگ مزاج کی ہیں۔ ایک ذرا بھی نہیں لگتا کہ یہ ان کا بیٹا ہو گا۔“ باتوں کے ساتھ ساتھ ہی وہ دونوں کھانا بھی کھا رہی تھیں۔
بس خالہ کے ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار ہی نے مزاج خراب کیے تھے اس کے۔ پھر گلی محلے کے تلنگے دوستوں کی صحبت نے چار چاند لگا دیئے اور رہی سہی کسر رستم لہوری نے پوری کر دی۔“
”رستم لہوری… یہ کون ہے ؟“
”مرشد کا گرو گھنٹال … اس کا سر پرست… خالہ یہاں سب کی مخالفت مول لے کر اسے پڑھا رہی تھی۔ ان دنوں یہ نویں کلاس میں پڑھ رہا تھا جب رستم لہوری سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی۔ اس نے مرشد کی پڑھائی ختم کروا کر اسے ڈنڈے سوٹے اور کلہاڑیاں چاقو چلانے کی تربیت دینا شروع کر دی… ہاتھ پاﺅں اور بندوقیں چلانا سکھایا۔ بدمعاشی کے اصول اور گر سمجھائے…وہ خود تو لاہور کاسکہ بند بدمعاش تھا ہی‘ اسے بھی بالکل اپنے جیسا بنادیا اس نے… آج کل وہ پراپرٹی کا کاروبار کر رہا ہے۔ پنجاب لینڈ مافیا کے چند بڑے ناموں میں سے ایک نام اس کا بھی ہے۔ وہی اس مرشد کی پشت پناہی کرتا ہے۔“
حجاب خاموشی سے سرجھکائے چاولوں کے ساتھ مصروف رہی تو شازیہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
”کیا سوچنے لگی؟“
”اس دنیا میں برے لوگ زیادہ ہیں۔“ حجاب نے نوالہ منہ میں ڈالا اور اس کی طرف دیکھا۔
”تو برے لوگوں پر دھیان دینے کی بندے کو ضرورت ہی کیا ہے۔“
”بات ضرورت کی نہیں ہے۔ آپ دھیان دو نہ دو… برے لوگ خود اگر آپ پر دھیان دینے لگ جائیں تو؟“
شازیہ نے فوراً حجاب کی طر ف دیکھا… وہ بول رہی تھی۔
”اب میں یہاں بیٹھی ہوں تو اس میں میر ا کیا قصور… میں نے تو کسی پر دھیان نہیں دیا… میں نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔“
”پھر تیرے بھائیوں نے بگاڑا ہو گا۔ ان کے حصے کی سزا تیرے نصیب میں بھی آگئی۔“ حجاب خاموش رہی۔ آنکھوں کے سامنے یک دم بھائیوں کی وجیہ صورتیں آ ٹھہریں… بابا سائیں اور ماں جی کے چہرے بھی ساتھ ہی تھے۔ وہ پلنگ پر بیٹھے بیٹھے اپنے گاﺅں‘ اپنے گھر جا پہنچی … اپنے بھائیوں اور ماں باپ کے درمیان۔
”ہاتھ کیوں روک لیا؟ ٹھیک نہیں پکے چاول؟“
”چاول تو اچھے بنے ہیں‘ بس مجھے بھوک ہی اتنی تھی۔“
”تھوڑے سے تو اور لے۔“
"نہیں بس… اور نہیں کھا سکوں گی۔“ کچھ دیر تک دونوں خاموش رہیں پھر شازیہ ہی بولی۔
”تو اپنے سوچنے سمجھنے کے انداز کو بدلنے کی کوشش کر… یہ اچھائی برائی اور گناہ ثواب کے فلسفے میں پڑ کر انسان کے ہاتھ اذیت‘ اور دکھ کے سوا کچھ نہیں آتا۔… انسان کو اپنے معیارات اپنے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بنانے چاہیے۔ تیرے بھلے کے لیے ایسا کہہ رہی ہوں… اور تو جتنی جلدی یہ بات جان سمجھ لے، تیرے لیے اتنا ہی اچھا رہے گا۔“
”کیسے… کیسے بدل لوں اور… کیا اچھا رہے گا؟“
”تو جن باتوں یا کاموں کو آج تک برا اور گناہ سمجھتی رہی ہے۔ ان کے متعلق اپنے خیالات بدل لے۔ انہیں اچھا نہیں سمجھ سکتی تو برا سمجھنا بھی چھوڑ دے… آگے آنے والی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔ سکون سے گزرے گی۔“ شازیہ نے کھانے سے ہاتھ روک کر برتن سمیٹتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
”نہیں… یہ کیسے ہو سکتا ہے … یہ تو جانتے بوجھتے ہوئے خود کو دھوکا دینے ،فریب دینے والی بات ہو گی… سچ کو جھوٹ کہنے سے حقیقت تو نہیں بدل جاتی… سچ تو پھر بھی سچ ہی رہتا ہے۔“شازیہ نے ایک ترچھی سی نظر حجاب کی متعجب صورت پر ڈالی اور طشت اٹھا کر جگ کے ساتھ تپائی پر ٹکا دیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مضمحل سی مسکراہٹ تھی۔
”تیرا جسم ہی جوان ہوا ہے۔ دماغ سے تو اب بھی پونیوں والی بچی ہی ہے۔ کتنی بھولی اور معصوم ہے۔“
شازیہ یک ٹک اسے دیکھنے لگی۔
حالات‘ ماحول اور مقام کے ساتھ یہ سچ اور سچائیاں بدل بھی جاتی ہیں … دس دن پہلے تیرا سچ کچھ اور تھا مگر آج کچھ اور ہے ۔تجھے پتا ہے نا، تُو کہاں بیٹھی ہے اس وقت۔؟ یہ گناہوں کی بستی ہے۔ اس بستی سے باہر کے سچ یہال فضول بکواس مانے جاتے ہیں اور یہاں کے سچ… یہاں کی سچائیاں باہر والوں کے لیے قابل قبول نہیں … قابل برداشت نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تو اس بستی سے، اس بستی کاحصہ بن چکی ہے۔ … اب تجھے یہیں جینا مرنا ہے۔ بہتر ہے کہ جتنی زندگی ہے اسے جی لیا جائے۔… ہر پل جینے مرنے سے کہیں اچھا ہو گا کہ تو یہاں جینے کے انداز اور آداب سیکھ سمجھ لے۔… جینے کا ہنر سیکھ لے۔ …جو سچ تجھے درپیش ہے اس سے دوستانہ انداز میں سمجھوتا کر… اسے قبول کرنے کی کوشش کر۔“
”نہیں… یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔… میں یہاں جینے سے مر جانا پسند کروں گی۔“ حجاب نے سر کو نفی میں جنبش دیتے ہوئے اٹل لہجے میں کہا تو شازیہ فوراً بولی۔
”کیوں… کیوں مرجانا پسند کرے گی تو؟ زندگی اتنی فضول چیز لگتی ہے تجھے ؟“
”گناہ اور ذلت کی زندگی فضول چیز ہی ہوتی ہے۔“
”تو یہاں جینے میں تجھے گناہ، ذلت کی کیا بات نظر آتی ہے ؟“
”یہاں… یہاں مجھے گھنگرو پہن کر ناچنے پر مجبور کر رہے تھے وہ لوگ۔“
”تو… گھنگرو پہننا یا ناچنا گناہ کیسے ہو گیا؟“
”مردوں کی محفل میں لڑکیوں عورتوں کا گھنگھرو باندھ کر ناچنا گانا گناہ اور ذلت نہیں تو اور کیا ہے۔؟ میں جانتی ہوں کوٹھوں طوائفوں کے متعلق۔ یہاں مجرے ہوتے ہیں۔ شرابیں اور جوئے چلتے ہیں۔ جسم فروشی ہوتی ہے۔ یہ سب گناہ و ذلت کے معاملے ہی تو ہیں اور… اور ابھی آپ نے خود بھی تو اس علاقے کو گناہوں کی بستی کہا تھا۔”
”وہ تو میں نے مہذب جانوروں کے حساب سے کہا تھا۔ ورنہ تجھے جو گناہ و ذلت کے معاملے نظر آرہے ہیں وہ تو فن ہے۔ اور محفل کو مجرے یا ناچ گانے کی محفل کہنے کی بجائے رقص و موسیقی کی محفل کہو۔ یہ فن اور فن کاروں کی محفل ہوتی ہے۔ اس میں صاحبِ ذوق قدر دان اور فن کے مداح لوگ شامل ہوتے ہیں۔… وہ ہمارے مہمان ہوتے ہیں اور مہمانوں کی دل بستگی اور خاطر تواضح تو اخلاقیات کا حصہ ہے۔ ،اور ذلت تو صرف مجبوری اور بے بسی کی وجہ سے محسوس ہوتی ہے انسان کو۔…“
یہی رقص اگر انسان اپنی مرضی… اپنی خوشی سے کرے… شوق سے کرے تو یہ اس کے لیے راحت اور سرخوشی کا باعث بن جاتا ہے۔”
یہ سب لفظوں کا ہیر پھیر ہے اوراس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“حجاب کے چہرے پر ناپسندیدگی کا تاثر ابھر آیا۔
”تسلیم کر لینے تک ہیر پھیر لگتا ہے ۔تسلیم کر لینے کے بعد فرق بھی خود بخود مٹ جاتا ہے۔ناچ گانے سے لے کر جسم فروشی تک‘ سب خدمت خلق کے زمرے میں آتا ہے۔ یہاں طوائفیں بازار لگائے بیٹھی ہیں تو مخلوق کی خدمت خاطر کی نیت سے۔ … یہ مخلوق کی خواہشات کا احترام کرتی ہیں۔ مخلوق کی خوشی اور سکون کی خاطر اپنی ہڈیاں گھلاتی ہیں… مخلوق کی مشکل میں اسے مشکل سے چھٹکارا پانے میں اس کی امداد کرتی ہیں۔ یہاں جو سوالی جس نیت اور ارادے سے آتا ہے اس کی جھولی میں وہی کچھ ڈال دیا جاتا ہے۔ بوجھل اعصاب اور ذہنی دباﺅ کے ساتھ آنے والے یہاں سے پرسکون اور ہلکے پھلکے ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔”
”آپ ایسی باتوں سے مجھے قائل نہیں کر سکیں گی… مجھے نہیں معلوم آپ سب ایسی زندگی کیسے گزار رہے ہیں۔ کیسے یہ سب کر کے بھی اتنا مطمئن ہیں۔ مجھ میں تو اتنا حوصلہ نہیں۔‘ میں… میں تو طوائف بن کرجینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔“
” آہستہ آہستہ سمجھ جائے گی تو… طوائف کے متعلق لوگوں کے تصورات درست نہیں بس۔ ورنہ تو ہر سماج طوائفوں کا احسان مند ہوتا ہے۔ تیرے معاشرے کی نسلیں طوائفوں کی احسان مند ہیں… لیکن ابھی تجھے یہ بات سمجھ نہیں آئے گی… ہاں دوچار سال بعد خودبخود ہی سمجھ جائے گی۔”
”جواز تو ہر بندہ رکھتا ہے… کیا یہی وہ سچ ہیں جو گھڑ لیے جاتے ہیں۔“
”یہ وہ سچ ہیں جو دریافت کیے جاسکتے ہیں… دوسری صورت یہ تجربے کے بعد آہستہ آہستہ خود ہی آشکار ہو جاتے ہیں۔“
”میرا تو اس ماحول کے خیال سے دم گھٹتا ہے۔اپنے آپ سے بھی گھن سی محسوس ہونے لگتی ہے۔“ حجاب کے چہرے اور لہجے سے ناگواری اور کراہت مترشح تھی۔ شازیہ تفہیمی انداز میں سر کوہلاتے ہوئے گویا ہوئی۔
”ہاں…ٹھیک کہہ رہی ہے تو… یہ جگہ ہی ا یسی ہے … غلاظتوں اور کراہتوں کا ڈھیر۔“
حجاب نے شازیہ کی طرف دیکھا… اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ اتر آئی تھی۔
”یہاں ہر گھر ہی ایسا ہے۔… پورا محلہ ہی ایسا ہے۔‘ لیکن اگر یہ ایک محلہ صاف ہو گیا نا تو پورا شہر گندا ہو جائے گا اور اردگرد کے قصبے اور دیہات بھی۔ خیر…تو چھوڑ اس بات کو… میں سمجھ گئی ہوں کہ تیری سمجھ میں نہیں آئے گی … میں چائے لے کر آتی ہوں۔ ابھی کل کادن اور تو خالہ کی مہمان ہے۔“
”کیا یہ لوگ خالہ کی بات نہیں مانیں گے ؟“
شازیہ پلنگ سے سرکنے لگی تھی کہ حجاب کے سوال پر اس کی طرف متوجہ ہو گئی۔ ”کونسی بات؟“
اگر خالہ انہیں کہیں کہ مجھے یہاں سے جانے دیں تو کیا یہ مجھے جانے دیں گے یا نہیں۔ ؟“ اس کے لہجے میں عجیب امید و بیم کاتاثر تھا۔””
’تو تو بالکل پاگل ہے … ایسا کیسے ہو سکتا ہے بھلا؟“
حجاب کچھ بولنا چاہتی تھی کہ کمرے کے دروازے پر آہٹ ہوئی اور حسن آرا اندر داخل ہو آئی۔ شازیہ اور حجاب دونوں اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
”ارے خالہ! آ گئیں آپ‘ آئیں… ادھر آ جائیں۔“
حسن آرا کے چہرے سے تھکان اور نقاہت ٹپک رہی تھی مگر ہونٹوں پر فوراً ایک نرم سی مسکراہٹ اتر آئی۔
”کیسی ہو شازیہ؟“
”بالکل ٹھیک۔ آپ سنائیں طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی ؟“
”ہاں‘ ٹھیک ہی ہے۔ بس ذرا تھک گئی ہوں۔“ حسن آرا آ گے بڑھ کر پلنگ کے ساتھ نیچے ہی بیٹھ گئی۔ کمر اس نے پلنگ کے ساتھ ٹکالی تھی۔
”ارے … آپ نیچے کیوں بیٹھ گئیں۔“ شازیہ نے فوراً کہا۔
”بس یہاں ذرا سکون ہے۔ آپ کیسی ہیں حجاب !کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی نا۔“
”نہیں خالہ! آپ ادھر اوپر آ جائیے نا۔“ حجاب نے گردن جھکاتے ہوئے گھٹے گھٹے شرمندہ سے لہجے میں کہا… اسے حسن آرا کے نیچے بیٹھنے کی وجہ معلوم تھی۔
”نہیں… یہاں ذرا آرام مل رہا ہے۔“
”خالہ! میں نے پلاﺅ بنایا ہے۔ لاﺅں آپ کے لیے۔“
”نہیں بیٹا! کھانے کو جی نہیں چاہ رہا۔“
”چائے لاﺅں ؟“
”ہاں… چائے پی لوں گی۔“
”میں چائے لینے ہی جا رہی تھی۔ ابھی لے کر آتی ہوں۔“
شازیہ نے تپائی پر دھرا طشت اٹھایا اور جلدی سے باہر نکل گئی۔ حجاب نے آگے ہو کر تپائی سے جگ گلاس اٹھایا اور حسن آرا کو پانی ڈال کر دیا۔ جو اس نے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیا۔… ایک گولی کھا کر پانی پینے کے بعد اس نے اٹھ کر چادر اتار کر چارپائیوں کے اسٹینڈ پر رکھی اور ایک دوپٹہ سنبھالتی دوبارہ اسی جگہ بیٹھ گئی۔ وہ بظاہر نارمل دکھائی دے رہی تھی مگر اس کے ذہن و دل میں ایک کشمکش چل رہی تھی… دل پر ایک بوجھ سا تھا۔
حجاب اپنی جگہ مضطرب تھی۔ وہ یہ جاننے کے لیے بے قرار تھی کہ خالہ کہاں سے آرہی ہے۔ اگر وہ سچ میں نندی پور گئی تھی تو کیا کر کے آئی ہے۔ کیا خبر لائی ہے اور… اگر وہ کسی دربار مزار سے آئی ہے تو نندی پور اس نے کس کو بھیجا تھا… اور جانے والا اس وقت کہاں ہے … واپس آ چکا ہے یا ابھی اس کا انتظار کرنا ہو گا!
”مرشد آیا تھا؟“
”جی! تین بار… اسے شاید یقین نہیں تھا کہ آپ کسی مزار پر گئی ہیں۔“
”ہوں…“ حسن آرا نے ہنکارا سا بھرا۔
”آپ نے اسے بتایا تو نہیں کہ آپ سید گھرانے سے ہیں؟“
”نہیں… اور آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں تھا کہ وہ آپ کا بیٹا ہے۔“
حسن آرا نے یوں چونک کر اس کی طرف دیکھا جیسے اس بات کا اسے ابھی خیال آیا ہو۔ پھرنظریں چراتے ہوئے بولی۔
”ہاں جی! یہ میں نے نہیں بتایا تھا۔“
پھر اس نے تپائی کھینچ کر پلنگ کے سرہاندی کی طرف کر دی اور خود اٹھ کھڑی ہوئی۔ درمیان والی چارپائی سے ایک توشک نکال کرپلنگ کے برابر بچھائی ‘تکیہ اٹھایا اور توشک پر نیم دراز ہو گئی۔ تھکاوٹ کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگی تھی۔
”خالہ! میرے گھر کوئی گیا تھا؟“
حجاب نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ حسن آرا کے اندر کااضطراب بڑھ گیا… حجاب جاننے کے لیے بے قرار تھی اور حسن آرا کے پاس جو خبریں تھیں وہ انتہائی دل دوز اور تکلیف دہ تھیں… جھوٹ وہ بول نہیں سکتی تھی اور سچ کلیجہ چیردینے والا تھا۔ اس نے ایک نظر حجاب کی طرف دیکھا پھر رخ بدلتے ہوئے بولی۔
”وہاں کے حالات… توقع سے زیادہ خراب ہیں۔“
حسن آرا کے لبوں سے ایک جملہ کیا آزاد ہوا…حجاب کے رگ و پے میں بے قراری کی لہریں دوڑ گئیں… یعنی… یعنی خبر آ گئی تھی… کوئی اس کے گاﺅں سے… اس کے گھر سے ہو آیا تھا… شاید…شاید خود خالہ ہی۔ وہ بے اختیار پلنگ سے اتر کر خالہ کے سامنے توشک پر آ بیٹھی۔
”کون… کون گیا تھا وہاں؟“اس نے جذباتی انداز میں دونوں ہاتھ حسن آرا کے گھٹنے پر رکھ دیئے۔ حسن آرا نے فوراً اس کے دونوں ہاتھ تھام کر گھٹنوں سے اٹھا لیے۔
”آپ اپنی جگہ بیٹھیں آرام سے۔ میں بتاتی ہوں سب کچھ… تھوڑا تحمل رکھیے۔ “حسن آرا نے بولنے کے لیے منہ کھولا تھا مگر بولی نہیں۔ کمرے کے دروازے سے اچانک مرشد اندر داخل ہوا تھا۔ یقینا اسے بھی اماں کی واپسی کی خبر مل چکی تھی۔ حسن آرا نے آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے اسے سمجھایا کہ تھوڑا صبر رکھے ۔مرشد کی وجہ سے خود اسے بھی چپ لگ گئی تھی۔ وہ اجڈ انسان اچانک ہی تو منہ اٹھا کر اندر گھس آیا تھا۔
حجاب دزدیدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتی ہوئی پیچھے ہٹ کر واپس پلنگ پر بیٹھ گئی۔ وہ بدمعاش دروازے میں کھڑا بغور اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا۔ شاید وہ اس کی طبیعت کے متعلق اندازہ کرنا چاہ رہا تھا۔
قسط کا بقیہ حصہ نیچے، صفحہ نمبر 2 پر ملاحظہ کریں۔