ارسطو (عظیم مفکر، عظیم فلسفی)

 بعض ہندو مورخین کے مطابق دنیا کے دو عظیم فاتح و فرماں روا سکندر اعظم اور چندر گپت موریہ کے دو عظیم اتالیق ارسطو اور کوتلیہ چانکیہ کا دور اتالیقی, دور حکومت اور دور تصانیف مشترک اور یکساں ہیں۔ مقدونیہ میں سکندر اعظم اور ٹیکسلا میں چندر گپت موریہ نے ایک ہی زمانہ میں دنیا کے عظیم دانش ور اور ماہرینِ علوم سیاسیات بالترتیب ارسطو اور کو تلیہ چانکیہ سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ جس کے باعث دنیا کے یہ دونوں عظیم فاتحین تاریخ کا نمایاں باب بنے۔


ارسطو کے مختصر حالات زندگی

قدیم یونانی فلسفی ، سائنس دان اور ہر عہد کا عظیم مفکر ارسطو جس کا اصل نام ارسطاطالیس تھا, یونان کے ایک چھوٹے سے قصبے سٹاگرہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے 384 سال قبل پیدا ہوا۔

سٹاگرہ ایتھنز سے دو سومیل دور شمال میں تھریس کے قریب ایک بندرگاہ تھی۔ ارسطو یونانی تاریخ کے اس پر آشوب دور میں پیدا ہوا جب اپنے دور کے عظیم شخص اور ہر دور کے عظیم فلسفی سقراط کو زہر پیئے پندرہ سال اور آسمانِ فلسفہ کے درخشندہ ستارے افلاطون کو درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیے دو سال گزر چکے تھے۔

ارسطو کے والد کا نام نکومیکس تھا۔ وہ سکندر اعظم کے دادا امینٹاس کا دوست اور ذاتی معالج تھا۔ امینٹاس اس وقت مقدونیہ پر حکمرانی کر رہا تھا۔ اس کی والدہ کا نام فالیس تھا، جو یونان کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ ارسطو ابھی لڑکپن کی عمر میں تھا کہ اس کا باپ فوت ہو گیا۔ اس کے بعد وہ اپنے ایک بزرگ پروکی نکس کی سرپرستی میں سترہ سال کی عمر تک سٹاگرہ میں مقیم رہا۔

ارسطو نے طب کی فضا میں پرورش پائی اور اسی ماحول نے اسے حیاتیات اور سائنس کی طرف راغب کیا۔ اس نے طبابت اور جراحی کی ابتدائی تعلیم اپنے باپ سے حاصل کی تھی۔ جب وہ سترہ سال کا ہوا تو اس کے سرپرست پروکی نکس نے اسے اعلا تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایتھنز بھیج دیا۔ اس وقت ایتھنز میں افلاطون کی اکیڈمی کا بڑا چرچا تھا۔

ارسطو، افلاطون کی شاگردی میں

ارسطو 368 ق م میں افلاطون کی اکیڈیمی میں داخل ہوا۔ اس وقت افلاطون کی عمر 61 سال تھی۔ وہ اخلاقیات، علمیات، طبیعیات اور سیاسیات پر مشتمل نظام فکر اور مثالی مملکت کے قیام کے لیے کوشاں تھا۔

ارسطو اپنی ذہانت و بلاغت اور قابلیت کی بنا پر اپنے استاد کے انتہائی قریب ہو گیا۔ ارسطو کے مطابق افلاطون واحد شخص تھا جس نے اپنی علمی زندگی اور تحریری قوت استدلال سے نیکی کو منبع و مسرت و شادمانی قرار دیا۔

افلاطون بھی سمجھ چکا تھا کہ اس کا شاگر د ذہنی عظمت کا مالک اور عقلِ مجسم کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اسے اپنے تمام شاگردوں پر ترجیح دیتا تھا۔ حالانکہ ان میں ہیرا کلائڈز افلیوس، ہیٹسوس اور مینڈیموس جیسے نامور لوگ شامل تھے۔ جنہوں نے فیثا غورث کے نظریات کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی۔

ہیرا کلائڈز نے 339 ق م

ہیرا کلائڈز نے 339 ق م میں ایک الگ مدرسہ قائم کیا۔ اس نے ان نظریات کا پر چار کیا کہ ”الہی عقل نے کائنات کو نہایت چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنایا ہے۔ زمین اپنے گرد گھومتی ہے اور روح ایتھری مادے سے بنی ہے۔”

جبکہ ہیٹسوسں کے مابعد الطبیعیاتی اور ریاضیاتی نظریات ارسطو کے خیالات میں ہمیشہ محفوظ رہے۔ ارسطو نے اکیڈیمی میں علم حاصل کرنے کے شوق کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ وہ رات گئے تک چراغ کی روشنی میں مطالعہ کرنے والا طالب علم تھا۔ اس نے تھوڑے ہی عرصے میں فلسفہ پر عبور حاصل کر لیا اور کثیر سرمایہ خرچ کر کے بے شمار قلمی نسخے خریدے۔

اس نے اپنے گھر کو کتب خانہ میں تبدیل کر کے کتابوں کی ترتیب کی بنیاد رکھی۔ اس کے پاس کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ اسی بنا پر افلاطون اس کے گھر کو دارالقاری کہا کرتا تھا۔ ارسطو افلاطون کی اکیڈمی سے بیس سال تک منسلک رہا۔ اس دوران اس نے افلاطون سے حیاتیات، سیاسیات اخلاقیات اور الہیات کا علم حاصل کیا۔

علم فلسفہ میں غیر معمولی مہارت

وہ افلاطون کی زندگی ہی میں علم فلسفہ میں غیر معمولی مہارت کے باعث پورے یونان میں مشہور ہو چکا تھا۔ افلاطون اسے ”عاقل” کے نام سے پکار تا تھا۔ ارسطو کی افلاطون کے ساتھ بیسں سالہ رفاقت نے ارسطو کے فلسفہ پر گہرا اثر ڈالا۔ میکلمن  کے مطابق۔ "ارسطو کی افلاطون کے ساتھ رفاقت ایک ایسا امر ہے۔ جس نے ارسطو کے فلسفہ کو خاص شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

فاسٹر کے مطابق۔ "ارسطو سب سے زیادہ افلاطونیت کا پیروکار ہے۔ جس قدر ارسطو افلاطون سے متاثر ہوا تھا۔ اس طرح کوئی بھی دوسرا عظیم فلسفی کسی دوسرے کے خیالات سے متاثر نہیں ہو سکا۔

پروفیسر مائن کے مطابق۔ "ارسطو کے سیاسی فلسفہ کے نظریات کی بنیاد افلاطون کے ساتھ اس کی بیس (20) سالہ رفاقت پر منحصرہے۔

افلاطون کے آخری ایام

افلاطون کی زندگی کے آخری ایام میں اکیڈیمی کی سربراہی کے لیے جھگڑا پیدا ہوا۔ ارسطو کی خواہش تھی کہ وہ اپنے استاد کے بعد اس اکیڈمی کا سربراہ بنے۔ اپنے استاد کے کام کو آگے بڑھاۓ۔ لیکن 347 ق م میں افلاطون کی موت کے بعد افلاطون کی خواہش اور وصیت کے مطابق اس کا بھتیجا سپیسی پس  جو ریاضیاتی اعداد کا قائل اور اکائی کو تکوینی عقل اور خیر مطلق سے الگ تصور کرتا تھا اکیڈمی کا سربراہ بنا۔ اس پر ارسطو دل برداشتہ ہو کر ایشیائے کوچک کی طرف چلا گیا۔

ارسطو کے دوستوں میں اٹارنس کا حکمران ہرمیاز بھی شامل تھا۔ لہذا وہ اپنے ایک اوردوست اکینو کرٹیز جو بعد میں 313 ق م تک افلاطون کی اکیڈمی کا سربراہ رہا اور اکائی اور دیوتا زیوس کو ایک سمجھتا تھا، کے همراه 347 ق م میں اٹارنس پہنچا اور ہرمیاز کے دربار سے منسلک ہوا۔

اس نے اٹارنس میں ہرمیاز کی بھتیجی پیتھیس  سے شادی کی اور بڑی خوشگوار ازدواجی زندگی گزاری۔ ارسطو نے اپنی زندگی کے آخری دور میں دوسری شادی بھی کی تھی۔ دوسری بیوی کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام دادا کے نام پر نیکو میکس رکھا گیا۔

ارسطو، سکندرِ اعظم کا اتالیق

تین سال بعد جب ہرمیاز سے سلطنت چھن گئی تو ارسطو مینلین چلا گیا۔ پھر ایتھنز واپس آیا اور وہاں ایسو کرائیسں کی مخالفت میں خطابت کا مدرسہ کھولا۔ 342 ق م میں مقدونیہ کے حکمران فلیفوس نے اسے اس کی قابلیت اور خاندانی دیرینہ مراسم کی بنا پر مٹی لین سے طلب کر کے اپنے بیٹے سکندراعظم کا اتالیق مقرر کیا۔

اس وقت سکند را عظم کی عمر تیرہ سال اور ارسطو کی عمر 38 سال تھی۔ ارسطو مقدونیہ میں سکندر اعظم کا پانچ سال تک اتالیق رہا۔ سکندر اعظم نے اس کی شاگردی میں علوم و فنون میں دسترس حاصل کی۔ اس دوران فیلفیوسں نے ارسطو کو فلسفیانہ اور سائنسی تعلیم کے لیے بہترین سہولیات فراہم

کیں۔

ٹپومارک کے مطابق۔ سکندر اعظم ارسطو کو اپنے باپ جیسا احترام دیتے ہوۓ کہا کرتا تھا۔ "باپ نے مجھے زندگی دی اور استاد نے مجھے جینے کا فن بتا یا۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر اقتدار میں وسعت کی بجاۓ میرے علم میں وسعت پیدا ہوتی۔ میں نیکی کو پہچان سکتا۔ 338 ق م میں سکندر اعظم کے باپ فیلفوس نے کیرونیا کے مقام پر ایتھنز والوں کو شکست دے کر یونان کو متحد کرنے کی کوشش کی لیکن اس فتح کے فورا بعد ہی اسے ہلاک کر دیا گیا۔

اس طرح سکندر اعظم فلسفہ کو خیر باد کہہ کر تخت سلطنت پر متمکن ہوا۔ یہ ارسطو کی تعلیم و تربیت کا ہی اثر تھا کہ سکندر اعظم مقدونیہ کی ایک چھوٹی سی بستی سے نکل کر دنیا کے ایک بڑے حصے کا فاتح بنا۔ ارسطو نے سکندراعظم کی راہنمائی کے لیے تین چھوٹے چھوٹے مقالے

On Coloseis of Kingship

 کے عنوان سے تحریر کئے اور ان کا انتساب سکندر اعظم کے نام پر کیا۔

ارسطو اور کوتلیہ چانکیہ

 سکندر نے اگر دنیا کو فتح کیا تو ارسطو نے تسخیر کائنات کا کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ دونوں استاد شاگرد اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب و کامران رہے۔ بعض ہندو مورخین کے مطابق دنیا کے دو عظیم فاتح و فرماں روا سکندر اعظم اور چندر گپت موریہ کے دو عظیم اتالیق ارسطو اور کوتلیہ چانکیہ کا دور اتالیقی، دور حکومت اور دور تصانیف مشترک اور یکساں ہیں۔

مقدونیہ میں سکند راعظم اور ٹیکسلا میں چندر گپت موریہ نے ایک ہی زمانہ میں دنیا کے عظیم دانش ور اور ماہرین علوم سیاسیات بالترتیب ارسطو اور کو تلیہ چانکیہ سے تعلیم و تربیت حاصل کی جس کے باعث دنیا کے یہ دونوں عظیم فاتحین تاریخ کا نمایاں باب بنے۔

ہندو مورخین کے نزدیک ”ارتھ شاستر” کے مصنف کو تلیہ چانکیہ اور ارسطو کے نظریات مشترک ہیں۔ اور ارسطو کے یہ نظریات کہ، مستحکم جاسوسی نظام قائم کیا جاۓ جس میں عورتیں بالخصوص جاسوس ہوں۔ ملک کے باغیوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد اور مفاہمت کا جذبہ بھر پور طور پر قائم ہو۔ ریاست میں بھائی چارہ کی فضا قائم ہو۔ طاقت یا خوف کے ذریعے حکومت قائم نہ کی جاۓ اور حق شہریت میں فرق روا رکھا جاۓ۔” چانکیہ کے نظریات سے متشابہہ ہیں۔

اسکندر اعظم 336 ق م

 اسکندر اعظم 336 ق م میں یونان کا بادشاہ بنا۔ اپنی عالمی فتوحات کے بعد 323 ق م میں وفات پا گیا۔ جبکہ چندر گپت موریہ چانکیہ سے آٹھ سال تک میٹھی سیاست کے گر سیکھنے کے بعد حکمران بنا۔ ایک مستند روایت کے مطابق 298 ق م میں تخت چھوڑ کر جینی مذہب کا بھکشو بن کر دکن چلا گیا۔

ارسطو کی اتالیقی کا دور چھ سال ہے جبکہ کو تلیہ چانکیہ کا دور اتالیق 28 سال ہے۔ ارسطو نے 322 ق م میں وفات پائی۔ یہی سال پاٹلی پتر میں چندر گپت موریہ کے شہنشاہی قائم ہونے کا ہے۔

سکندر اعظم کے فوجی مہمات میں مصروف ہونے پر ارسطو نے 334 ق م میں ایک استاد کامل کی حیثیت سے لائیسم کے مقام پر افلاطون اکیڈمی کی طرز پر ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ بعد میں ارسطو کے چل پھر کر پڑھانے کی وجہ سے یہ کتبہ مشاہین کے نام سے مشہور ہوا۔

اس مدرسہ میں طلباء کی تعداد اس قدر تھی کہ مدرسہ کے انتظام و انصرام کے لیے پیچیدہ اور مشکل قواعد و ضوابط بنانے پڑے۔ ہر دس روز بعد ایک نئے طالب علم کو مدرسے کی کاروائی کی نگرانی پر مامور کیا جاتا تھا۔ اتنے سخت قواعد و ضوابط کے باوجود طلباء استاد کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے تھے۔ اور ورزشی میدان میں ٹہلتے ٹہلتے علم حاصل کرتے تھے۔

دنیا کی تاریخ کا پہلا چڑیا گھر

اس مدرسہ میں ریاضیات فلسفہ سیاسیات اور فکر آرائی کے علاوہ علم الحیات اور علوم طبعی بھی پڑھاۓ جاتے تھے۔ لیکن طلباء کا زیادہ تر رجحان علم الحیات اور علوم طبعی کی طرف تھا۔ ارسطو نے ایشیا کے ہر خطہ سے حیوانات اور نباتات کے نمونے حاصل کیے۔ اور دنیا کی تاریخ میں پہلا عظیم الشان چڑیا گھر قائم کیا۔ اس چڑیا گھر کے قیام کے لیے پلینی اور ایتھیوس کے مطابق سکندر اعظم اور مملکت نے اسے وسائل فراہم کیے تھے۔ 

ارسطو بارہ سال تک اس ادارہ کا سربراہ رہا۔ اس دوران اس نے بہت سے تحقیقی اور تخلیقی کاموں کی مختلف شاخوں کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ اس علم کثیر کو حتمی شکل میں مرتب بھی کیا۔ ارسطو نے سائنس کی ترقی کے لیے جو مواد مہیا کیا وہ بلاشبہ انسانی ذہن کا حیرت انگیز کارنامہ ہے۔

اس نے اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے دور کے سائنسی اور فلسفیانہ نظریات کی تصحیح کی۔ اس نے منطق مابعد الطبیعیات ، اخلاقیات، سیاسیات، فنون لطیفہ ، فلکیات اور جانوروں کی زندگی پر مقالات تحریر کیے۔

ارسطو کا فلسفہ و تعلیمات

وہ حیوانیات اور منطق کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ منطق میں اس نے استقراری اور استخراجی دونوں اصولوں کو اپنایا۔ اس نے ادب میں ہومر اور ہیزی روڈ کے نظریات و خیالات سے استفادہ حاصل کرتے ہوۓ کہا کہ ”اگر ہم حسن و خوبصورتی کے متمنی ہیں تو ہمیں ادب اور فنون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ہم مادی اور ٹھوس حقائق کے متمنی ہیں تو پھر ہمیں سائنس اور عقلی استدلال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔”۔

ارسطو نے بعض تصورات میں اپنے استاد افلاطون سے اختلاف کیا ہے۔ لیکن وہ اپنے آپ کو افلاطون کے مکتبہ فکر کا رکن سمجھتا تھا۔ اسی باعث بحیثیت مجموعی ان دونوں کے فلسفے میں اختلاف کی نسبت انفاق زیادہ پایا جاتا ہے۔

فلسفے کو حکمت میں محدود کرنے اور اخلاقی فعلیت کو متمیز کرنے کے باوجود ان دونوں میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ارسطو بھی افلاطون کی طرح اشیاء کے جواہر اور غیر متغیر وجود کے علم، جس میں کلیت اور لزوم موجود ہو حاصل کرنے پر زور دیتے ہوۓ کہتا ہے کہ ”اشیاء کا اصل جوہر ان صورتوں پر مشتمل ہے جو ہمارے تصورات کا موضوع ہیں۔”۔

ارسطو نے سقراط اور افلاطون کے علم تصورات کو استقرا اور منطقی استدلال دونوں لحاظ سے معراج کمال تک پہنچایا۔ اس کی تحریروں میں اگر چہ افلاطون کا حسابی فن لطیف شامل نہیں ہے لیکن اس کا بیان جلد دلنشین ہو جاتا ہے۔ ارسطو نے اپنی تحریروں میں جو فلسفیانہ اصطلحات استعمال کی ہیں وہ لاجواب ہیں۔

ارسطو کا اخلاقی اور سائنسی نظام

ارسطو کا پیش کردہ اخلاقی اور سائنسی نظام افلاطون کے نظام سے ملتا جلتا ہے۔ اس کی تمام تحریروں پر افلاطون کا انداز چھایا ہوا ہے۔ اس کی تحریروں میں افلاطون سے اختلاف اور اتفاق دونوں موجود ہیں۔ لیکن اختلاف سطحی ہیں جبکہ نظریات میں ہم آہنگی گہری بنیادوں پر ہے۔

افلاطون خیال یا تصور کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے جبکہ ارسطو حواس خمسہ سے محسوس ہونے والے جہاں کو اصل حقائق کا جہاں کہتا ہے۔ افلاطون نے اپنے فلسفے میں متھ کا سہارا لیا ہے۔ جبکہ ارسطو نے سائنسی موضوعات کے بیان میں متھ اور شاعرانہ تساہل نگاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ارسطو افلاطون کی آخری تصنیف

”The Laws“ 

سے نہ صرف متاثر تھا بلکہ اس نے جو ایک حقیقی اور قابل عمل مملکت کا ڈھانچہ متعین کیا ہے وہ کم و بیش انہیں اصولوں پر مبنی ہے جو افلاطون نے 

The Laws 

میں اپنی عملی مملکت کے استحکام کے لیے پیش کئے تھے۔

ارسطو اور افلاطون کا نظریہ تخلیقِ کائنات اور انسان

افلاطون کے خیال میں۔ تخلیق کائنات کا مبداء واحد کوئی نہ کوئی نفس، روح خدا یا مطلق وجود ہے۔ یہ مظہری دنیا اصل اور حقیقی نہیں ہے بلکہ یہ ہر ہرلمحہ تغیر و تبدل کے عمل سے گزرتی ہے۔ یہاں عروج و زوال اور موت و زیست کا لامتناعی سلسلہ جاری و ساری ہے۔ یہ کائنات عمومی طور پر اپنے اصل کی نقل ہے۔ سب مظاہرات فطرت کا عین مطلق، عالم بالا یا عالم مقام میں موجود ہے جو غیر متبدل اور غیر فانی ہے۔

جبکہ ارسطو کے خیال میں مادہ ہی بنیادی طور پر اپنی اصل میں حقیقت اولی ہے۔ اور یہ مادی دنیا ہی اپنی جگہ حقیقی اور ابدی ہے۔ یہ اپنی اصل میں کوئی نقل نہیں بلکہ اپنی وجودی ہیت میں اصل ہے۔

مظاہرات کائنات محض افراد کے ذہن میں موجود تصورات کا عکس ہی نہیں بلکہ انسانی ذہن کے تصوراتی مشاہدے سے ہٹ کر بھی یہ اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ان کو حواس خمسہ کے ذریعے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ارسطو افلاطون کے فلسفہ روحانیت کو رد کرتے ہوۓ کہتا ہے کہ

انسان ایک حیاتیاتی وجود ہے جو نہایت ہی اعلی قسم کے اعصابی نظام اور ایک معاشرتی مزاج کا حامل ہے۔ ذہن یا روح درِ اصل عضویہ کا ایک اعلا اور پیچیدہ فعل کا نام ہے۔ محض خیالات کی بنیاد پر کائنات کے مادی وجود اور خود انسان کے حیاتیاتی وجود کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ تاوقتیکہ ان عناصر کی حقیقت کا اپنے حواس اور معروضی مشاہدے کی بنیاد پر یقین نہ کر لیا جاۓ۔

بلاشبہ عقل کسی حد تک کائنات اور مظاہرات کی حقیقت تک انسان کی راہنمائی کرتی ہے۔ لیکن مکمل طور پر حقیقت تک رسائی کے لیے عقل پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر انسان عقل کے ساتھ ساتھ اپنے حواس اور مشاہدے کو بھی بروے کار لاۓ تو حقیقت آشکار ہو سکتی ہے۔

معاشرتی نظام، مملکت اور خاندان

افلاطون نے اپنے تصور اشتمالیت میں معاشرے میں عدم استحکام، انتشار اور اخلاقی برائیاں ختم کرنے کے لیے نجی ملکیت اور خاندان جیسی رکاوٹیں دور کرنے کا تصور پیش کیا۔ اس کا مقصد عمومی معاشرہ کی اصلاح تھا۔ ارسطو اس تصور اشتمالیت پر تنقید کرتے ہوۓ کہتا ہے۔ ”چونکہ اس تصور کے مقاصد اور ذرائع کے درمیان ہم آہنگی نہیں پائی جاتی اس لیے یہ قابل اطلاق نہیں ہے۔”۔

اس کے نزدیک اس تصور اثمالیت کے مقاصد اخلاقی ہیں۔ جبکہ ان کے حصوں کے لیے اخلاقی ذرائع کی بجاۓ مادی ذرائع استعمال کیے گئے ہیں۔ جس کے باعث اس تصور میں منطقی تضادات پیدا ہوۓ اور مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ناکامی ہوئی۔

ارسطو کے نزدیک بھی ملکیت اور خاندان کو حکمران اور فوجی طبقے کے لیے ممنوع قرار دینے کا طرز عمل مملکت میں اتحاد کی بجاۓ نفاق اور انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔ ارسطو کے خیال میں تصور اشتمالیت کے نفاذ سے معاشرے میں بیک وقت دوطبقے معرض وجود میں آئیں گے۔ ان میں سے ایک طبقہ مادی وسائل پر قابض جبکہ دوسرا طبقہ دولت و خاندان سے محروم ہو گا۔ اسی محرومی سے بالآخر معاشرہ طبقاتی تصادم کے باعث انتشار و بد نظمی کا شکار ہو گا۔

معاشی طبقے کی مرضی کی پالیسیاں بننے سے مملکت کے تمام امور میں معاشی طبقے کا عملی عمل دخل ہو گا۔ اس طرح ہر طبقہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر متعینہ فرائض سرانجام نہیں دے سکے گا۔

ارسطو کے نزدیک تصور اشتمالیت

ارسطو کے نزدیک تصور اشتمالیت میں حکمرانوں کے لیے خاندان اور نجی ملکیت ممنوع قرار دے کر مجرد زندگی گزارنے کا درس دیا گیا ہے۔ اس سے وہ انسانی جذبات و احساسات سے عاری ہوں گے۔ اس حالت میں ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ وہ عمومی طور پر معاشرے کی اصلاح کریں۔ اور دیگر طبقات کی مرضی کی پالیسیاں وضع کریں۔

اس کے خیال میں حکمرانوں اور فوجیوں کو صرف عقل کے بل بوتے پر زیادہ بہتر کام کرنے کی توقع خلاف فطرت ہے۔ اگر انسان عقل اور جذبے کے ساتھ ساتھ دیگر احساسات کو بھی بروئے کار لا کر معاشرے میں تعامل کرے تو زیادہ کامیاب رہ سکتا ہے۔

اس کے خیال میں مملکت اور خاندان دونوں ادارے اپنے مقاصد، دائرہ کار، وسعت اور فرائض کے اعتبار سے بالکل جدا جدا ہیں۔ خاندان اپنی ہیئت کے اعتبار سے ایک منفرد ادارہ ہے۔ جس کی خصوصیات اور جملہ تشکیلی عناصر کو مملکت کی جانب تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

افلاطون کا تصورِ اشتراکِ ازواج

مزید خاندان کی شفقت و محبت کو پھیلا کر مملکت کے دائرہ کار تک بسیط کر دینا اور اس میں خاندان کی سی خصوصیات پیدا کرنا اور خاندانی ماحول و کیفیت پیدا کرنا بالکل ناممکن ہے۔ اس لیے مملکت کو خاندان سے تشبیہ دینا افلاطون کی بہت بڑی غلطی تھی۔

اس کے مطابق افلاطون نے اپنے اس تصور میں مرد اور عورت کے باہمی ملاپ کے حیاتیاتی تصور کو محو کر دیا ہے۔ اشتراکِ ازواج کے تصور میں اخلاقی ضابطوں اور اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا ہے۔

ارسطو افلاطون کے تصورِ اشتراکِ ازواج پر تنقید کرتے ہوۓ کہتا ہے۔ اگر مملکت کو اشتراک ازواج کی بنیاد پر ایک خاندان تسلیم کر لیا جائے تو اس میں بہت ساری اخلاقی برائیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس بات کی تمیز کرنا مشکل ہو جاۓ گا کہ کون کس کا باپ اور کون کس کا بیٹا ہے۔

اس طرح معاشرتی رشتوں اور قدروں کی اہمیت ختم ہو کر رہ جاۓ گی۔ اولاد کی پیدائش اور ان کی تربیت کا کام عورتیں پورے معاشرے کے لیے انجام دینے سے گریز کریں گی۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے