افلاطون (ایک عظیم دماغ)

افلاطون آسمان فلسفہ کا درخشندہ ستارہ ہے۔ اس کے بارے میں ایمرسن نے بجا طور پر کہا تھاکہ "افلاطون فلسفہ ہے اور فلسفہ افلاطون ہے۔” یہ عظیم فلسفی اور نثرنگار 427 ق م کے لگ بھگ یونان کے مشہور شہر ایتھنز کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوا۔


افلاطون کے حالاتِ زندگی

افلاطون کے باپ کا نام ارسٹون تھا۔ وہ ایتھنز کے ایک قدیم اور ممتاز خانوادے کا فرد تھا۔ جبکہ والدہ کا نام پیراکشن تھا۔ اس کا تعلق بھی ایتھنز کے ایک نامی گرامی خاندان سے تھا۔

حسب نسب اور جاہ و دولت کی وجہ سے افلاطون کا نام اسکے دادا کے نام پر ارستاکلیس یا ارسٹوکلیز رکھا گیا۔ لیکن بچپن سے ہی اچھی صحت اور چوڑے چکلے جسم کے باعث ایک استاد نے اسکا نام پراٹون رکھ دیا۔ جو بعد میں معرب ہو کر پہلے فلاطون اور پھر افلاطون ہو گیا۔

افلاطون کے دو بڑے بھائی تھے جنکے نام گلاکون اور ایڈی متنتاس تھے۔ گلاکون ایک ڈرامہ نویس تھا اور سوفسطائی خیالات کا حامی تھا۔ اسکا نظریہ تھا کہ”فطری طور پر بے انصافی کرنا’ بےانصافی برداشت کرنے سے بہتر ہے۔ لیکن جب انسان دونوں قسم کے تجربات سے گزرتا ہے تو وہ باہمی معاہدے پر رضامند نظر آتا ہے۔ اور قانون کا احترام کرنے کا رجحان اپنا لیتا ہے۔

یہ طاقتورکی قوت یا بہتری کا مظاہرہ نہیں بلکہ کمزوروں کی مجبوری کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ سوفسطائی فطرت کو قانون کا متضاد تصور کرتے تھے اور نظریہ انفرادیت پر مکمل طور پر قائم تھے۔ افلاطون سوفسطائی مفکر گورجیاس کے نظریات کو انفرادیت کی انتہا اور گلوکن کے نظریات کو معتدل سمجھتا تھا۔

افلاطون کا بچپن

افلاطون ابھی چند سال کا ہی تھا جب اسکا باپ فوت ہو گیا۔ اسکی ماں نے ایک مشہور سیاسی رہنما پیری کلیس کے ایک جگری دوست سے دوسری شادی کرلی۔ اس طرح افلاطون کا بچپن ایک بڑے سیاسی گھرانے میں گزرا۔

افلاطون کے بچپن کا زمانہ ایتھنز شہر کے پر آشوب دور میں گزرا۔ ایتھنز اس دور میں جنگ کی تباہ کاریوں کا پوری طرح شکار ہو چکا تھا۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔ راکھ اور ملبے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ افلاطون کے لڑکپن اور جوانی کا سب سے اہم واقعہ پیلو پونے سوسی جنگ تھی۔

جس میں اس نے سپارٹا کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ وہ گھڑ سوار فوج میں شامل تھا۔ جنگ میں ایتھنز کو شکست ہوئی اور اسکی عظمت خاک میں مل گئی۔ اسی جنگ کے دوران ایتھنز میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ جس کے باعث اس وقت کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور اسکی جگہ جمہوریت نے لے لی۔

ایتھنز پر ایک طرف خارجی جنگیں اپنا اثر دکھا رہی تھیں اور دوسری طرف داخلی مفاسد سر اٹھائے ہوئے تھے۔ جمہوریت کے باعث اشراف و امراً بے بس تھے۔ جنگ کے تھوڑے عرصے بعد ہی امر ا کی حکومت قائم ہونے پر ایتھنز کی فضا ایک بار پھر خون کے دھبوں سے داغدار ہو گئی۔

یہ حکومت تیس امرا پر مشتمل تھی جس میں افلاطون کے بہت سے رشتہ دار شامل تھے۔ سپارٹا کی ایما پر برسر اقتدار آنے والے اس ٹولے میں اسکے ماموں کریٹیاس اور اسکے تایا کارمیڈس کی اندھیر نگری تھی۔ آخر میں جمہوریت کے دعوے داروں کے سقراط کے ساتھ بہیمانہ سلوک نے افلاطون کو سیاست سے متنفر کر دیا۔ اور وہ عملی سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کنارہ کش ہو گیا۔

کریٹی لس – افلاطون کا پہلا استاد

افلاطون کے پہلے استاد کا نام کریٹی لس تھا جس نے افلاطون کو ہراقلیتوس کے نظریات کا علم دیا۔ افلاطون نے مروجہ تعلیم کے مطابق فن موسیقی سیکھا۔ اور مذہبی اور اخلاقی اصولوں پر مبنی ہومر کی نظموں کو حفظ کیا۔

اس وقت یونان میں غیر ملکی، سوفسطائی امرا کے ذہنوں پر حکومت کر رہے تھے۔ وہ ہر مضمون پر درس دینے کے عوض بے انتہا دولت کما رہے تھے۔ انکے اخلاقیات کے درس میں یہ بات خاص طور پر شامل تھی کہ ریاست حکمرانوں کی خواہشات کی غلام ہے۔ لہذا افلاطون نے سوفسطائیوں کے نظریات سے مکمل واقفیت حاصل کی اور فیثا غورث کی تصانیف پر بھی غور کیا۔

یہی وجہ ہے کہ افلاطون کی کتاب الجمہوریہ میں پیش کیا گیا فلسفہ فیثا غورث کے فلسفے سے ملتا جلتا ہے۔ افلاطون فیثاغورث کی تھیوری آف لمٹ سے کافی متاثر تھا۔ اسی باعث اس نے فیثاغورث کے اس فلسفہ کو کہ انسانی معاشرہ دانائی، دنیاوی عزت اور دھن دولت کے تین حصوں میں منقسم ہے، اپناتے ہوئے انسانی روح کو دانائی،جذبہ اور جسمانی بھوک میں تقسیم کیا۔

افلاطون اور سقراط

اسی دوران افلاطون اپنے ماموں کریٹیاس اور تایا کارمیڈس کے ذریعے سقراط تک پہنچا۔ اسکی شاگردی میں مختلف علوم و فنون کا مطالعہ کیا۔

سقراط سے افلاطون کا تعلق بیس برس کی عمر میں شروع ہوا اور آٹھ سال کے گہرے دوستانہ ارتباط میں اس نے تمام دیگر تلامذہ کے مقابلے میں عمدگی سے استاد کی تعلیم کی اصل روح کو اخذ کیا۔ افلاطون کے مزاج کی تشکیل میں دراصل سقراط کی تعلیمات کا بڑا عمل دخل ہے۔

افلاطون سقراط کو استاد بھی سمجھتا تھا اور دوست بھی۔ کہا جاتا ہے کہ افلاطون نے جوانی میں چند ایک المیہ ڈرامے بھی لکھے تھے۔ لیکن سقراط کے زیر اثر آنے کے بعد انہیں ضائع کر دیا۔

سقراط کی موت کے اسباب سیاسی تھے۔ اس لئے اسکے شاگردوں کو ایتھنز سے ہجرت کرنی پڑی۔ افلاطون بھی ان شاگردوں کے ساتھ مگارا چلا گیا۔ اور مگارا کے ایک مقام یوکلیڈ میں رہ کراس نے پارمینڈیز کے فلسفے کاتفصیلی مطالعہ کیا۔

مگارا میں کچھ عرصہ قیام کے بعد وہ قیروان اور مصر چلا گیا۔ وہاں سے فلسفے اور ریاضی کا علم حاصل کر کے واپس ایتھنز آ گیا۔ پھر جنوبی اٹلی اور سسلی گیا۔ وہاں کے سیاسی و معاشرتی نظاموں کا تجزیہ کیا۔ اٹلی میں اسکی ملاقات فیثا غورثیوں سے ہوئی اور وہ فیثا غورثی فلسفے سے روشناس ہوا۔

ٹازن ٹم کی فیثا غورثی نو آبادی کے لوگوں سے ربط و ضبط کے باعث وہ ریاضی میں اقلیدس کے قاعدوں کے طریقوں کا قائل ہوا۔ وہ فیثاغورث کے اعدادوشمار کے فلسفہ سے اسقدر متاثر تھا کہ ایک بازنطینی کے مطابق علم ہندسہ سے ناواقف شخص کو افلاطون کی اکادمی میں داخلہ نہیں ملتا تھا۔

افلاطون سسلی کی غلام منڈی میں

افلاطون جب سسلی پہنچا تو اس وقت وہاں ڈیونی سیوس کی حکومت تھی۔ وہ ایک مطلق العنان حکمران تھا اس نے کارتھچ اور یونانی ریاستوں سے اچھے تعلقات استوار کررکھے تھے۔ اسکے دربار میں علم دوستی اور فن پروری عروج پر تھی۔ طبقہ اشراف جس میں اسکا بہنوئی ویون بھی شامل تھا کا کافی اثرورسوخ موجود تھا۔

ویون فیثا غورثی جماعت سے تعلق رکھتا تھا۔ اسی واسطہ  سے افلاطون کو ڈیونی سیوس کے دربار میں رسائی حاصل ہوئی۔ افلاطون نے ابتدا میں تو بادشاہ پر اپنے خیالات کا بہت اچھا اثر ڈالا۔ لیکن پھر محلاتی سازشوں اور اشراف پارٹی کی مخالفت کے باعث بادشاہ کا زیر عتاب ٹھہرا۔ اور اسے شہر بدر کر کے یونان جانے والے جہاز پر چڑھا دیا گیا۔

اسی جہاز سے سپارٹا کا سفیر بھی واپس جا رہا تھا۔ ان دنوں سپارٹا اور ایتھنز میں دوبارہ جنگ چھڑ چکی تھی۔ سپارٹا کے سفیر کو درپردہ ہدایت کی گئی کہ وہ افلاطون کو کسی طرح ٹھکانے لگا دے۔ سفیر نے راستے میں اسے آئی گینا کے جزیرے پر اتار کر غلاموں کی منڈی میں پہنچا دیا۔

ان دنوں آئی گینا کی حکومت جنگ میں سپارٹا کی حامی تھی۔ اور یہ قرارداد منظور کر چکی تھی کہ اگر جزیرے پر کوئی ایتھنز کا باسی نظر آئے تو اسکی گردن اڑا دی جائے۔

اس سے پہلے کہ افلاطون پر کوئی مصیبت نازل ہوتی’ ایک قیروانی فلسفی انیسی اس، جو سیری نیک سکول کا بانی تھا اور افلاطون کو اسکے نظریات کے حوالے سے جانتا تھا کی علم دوستی کام آئی اوراس نے اس قیمتی غلام کو خرید کر آزاد کر دیا۔ اسطرح وہ سسلی کی غلاموں کی منڈی سے رہا ہو کر واپس ایتھنز آ گیا۔

ایتھنز میں تعلیم و تدریس کا آغاز

ایتھنز پہنچ کر افلاطون نے جمنازیم کو ایک مدرسے کی شکل دے کر باقاعدہ تعلیم و تدریس کا آغاز کیا۔ بعد ازاں افلاطو ن نے اس مدرسے کو اکیڈمی کی شکل دیتے ہوئے ایک باغ مین منتقل کر لیا۔ اس اکیڈمی میں ریاضی، قانون اور سیاسی نظریات کی تعلیم دی جاتی تھی۔

تعلیم کا کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا تھا بلکہ عطیات کے ذریعےاکیڈمی کی ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا۔ اس اکیڈمی میں باقاعدہ خطبات کے ذریعے تعلیم دی جاتی تھی۔ اس اکیڈمی کے ارکان ہر ماہ مل کر کھانا کھاتے تھے۔

368ق م میں سسلی کے بادشاہ ڈیونی سی اوس کا انتقال ہو گیا۔ تخت پر اسکا بیٹا ڈیونی سی اوس دوم بیٹھا۔ ویون نے افلاطون کو اس نئے بادشاہ کی تربیت کے لئے بلایا۔ اگرچہ افلاطون اس پر راضی نہ تھا لیکن ویون کے اصرار پر وہ سسلی پہنچا۔ بدقسمتی سے ڈیونی سی اوس دوم اپنے مزاج میں انانیت اور حسد کے باعث ویون کی وفاداری کو شک کی نظر سے دیکھنے لگا۔ اس نے افلاطون کی نیت پر بھی شک کیا لہذا افلاطون واپس ایتھنز چلا آیا۔

361 ق م میں ڈیونی سی اوس دوم کے اس وعدہ پر کہ وہ ویون کے بارے میں افلاطون کی خواہشات کا احترام کرے گا۔ افلاطون ایک بار پھر سسلی گیا۔  لیکن بادشاہ نہ تو اپنے عہد پر قائم رہا اور نہ ہی تعلیم میں کوئی دلچسپی لی۔ لہذا افلاطون اس بار بھی ناکام لوٹا۔

چند سال بعد ویون نے ڈیونی سی اوس دوم پر حملہ کر کے اسے تخت سے محروم کر دیا۔ لیکن یہ کامیابی عارضی ثابت ہوئی۔ صرف تین برس بعد ویون کو قتل کر دیا گیا۔ لہذا اس طرح افلاطون کی یہ امید کہ تجرعلمی کے ذریعے سورا کوسے کے شہریار کو مثالی فلسفی حکومت بنایا جا سکتا ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔

افلاطون کی تحریروں میں سقراط کا رنگ

افلاطون سقراط کے سیاسی فلسفے سے بےحد متاثر تھا۔ اس نے سقراط کے بےشمار خیالات و اعتقادات کو اپنی کتب میں اپنے حوالے سے پیش کیا۔ اس نے اپنی جملہ کتب مکالمات کی صورت میں تحریر کیں جو سقراط ہی کا طریقہ کار تھا۔

اس نے سقراط ہی کی طرح تشبیہہ اور مشابہت کو اپنی تحریروں میں اپنانے کے علاوہ اپنے تصوارات کی بنیاد سقراط کے نظریہ علم، نظریہ حقیقت اور نیکی کے علم پر رکھی۔

افلاطون نے سقراط کے اس نظریہ علم کو کہہر آدمی کا فرض ہے کہ وہ سچا اور حقیقی علم تلاش کرے جو انسان کی اپنی ذات میں پنہاں ہے۔اپناتے ہوئے تخصیص فرائض کا فلسفہ پیش کیا۔ سقراط ہی کے اس نظریہ سے کہ ” اشیاء کی حقیقت تصور اشیاء میں مضمر ہے اور خارجی صورت عارضی ہے۔” سے متاثر ہوکر تصوریت کی اصطلاح استعمال کی۔

سیبائن کہتا ہے کہ افلاطون کے سامنے "الجمہوریہ” کی بنیادی شکل میں اسکے استاد سقراط کا یہ تصور کہ” نیکی علم ہے۔” موجود رہا۔ فاسٹر کے مطابق افلاطون نے جو کچھ سقراط سے حاصل کیا وہی اسکے سیاسی فلسفہ پر چھایا ہوا ہے۔

سقراط کے خیال کے مطابق حکومت صرف عالموں کا حق ہے۔ اسی تصور کی بنیاد پر افلاطون نے عالموں کی حکمرانی کا فلسفہ پیش کیا۔ اور یہی فلسفہ اسکی مثالی ریاست اور فلسفی حکمرانوں کے پس پردہ کارفرما ہے۔ بلاشبہ سقراط نے دنیا کے اس سب سے بڑے مصنف میں ایک شان اصلاح، شان تدبر اور اس مفکر اعظم میں شان پیغمبری پیدا کی۔

جمہوریت پسندوں کے ہاتھوں سقراط کی موت

افلاطون کے زمانے میں ایتھنز کی حکومت اپنے زوال کی منازل طے کر رہی تھی۔ شہری ریاستیں بہت چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور ہر شہری ریاست مختلف الخیال طبقات میں بٹ چکی تھی۔ ایک طبقہ شہری ریاست پر حکومت کرنے والوں کا تھا جبکہ دوسرا رعایا کا۔

حکمران جابر تھے اور رعایا مجبور و محکوم۔ حکمران اخلاقی ضوابط سے بے نیاز ہو کراپنے مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔ جبکہ لوگ کمزور سے کمزور تر اور غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے تھے۔ اس طرح ہر شہری ریاست میں حکمرانوں اور رعایا کے درمیان بیگانگی اور نفرت کی خلیج روز بروز وسیع ہو رہی تھی۔

ان حالات میں جمہوریت پسندوں کے ہاتھوں سقراط کی موت کے بعد افلاطون جمہوریت پسندوں کا دشمن ہو گیا۔ اس نے دولت مندوں کے ذریعے ایتھنز کو سیاسی زوال سے بچانے کے لئے سیاسی مفکر کی حیثیت اختیار کی۔

افلاطون نے اپنی قائم کردہ اکیڈمی میں ریاضی، سائنسی علوم اور فلسفہ و منطق پر جو لیکچر دئیے تھے وہ زمانے کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اس نے اپنے آخری ایام میں صرف مابعد الطبیعات پر تنقیدی مقالات تحریر کئے۔

افلاطون کے جمہوری نظام پر خیالات

اس نے اپنے ہمہ گیر فلسفیانہ نظام کی تشکیل کے لئے قدما کے خیالات و نظریات سے استفادہ حاصل کیا۔ اسی لئے اسکی فکر پر خاندانی ماحول کے علاوہ فیثا غورث، سقراط اور سوفسطائیوں کے افکار کی جھلک نمایاں ہے۔ ایک متمول اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے کی بناء پر وہ اعلا مرتبہ کے حامل لوگوں کوحکومت کرنے کا حقدار اور جمہوریت کو بدترین طرز حکومت قرار دیتا تھا۔

افلاطون کہا کرتا تھا کہ” جمہوریت محض دھوکا اور فریب ہے۔ عام لوگوں کی رائے کو حقیقت یا علم کا درجہ دینا جہالت ہے۔ کیونکہ رائے تعصب اور تنگ نظری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جمہوریت مستقل کشمکش اور فتنہ و فساد ہے۔” افلاطون مضبوط، مستحکم اور پائیدار حکومت کا قائل تھا۔ جسکی اس دور میں ایتھنز کو ضرورت تھی۔

وہ مملکت کے زوال کی وجہ نام و نمود اور شان و شوکت کی خواہش کو قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ” اس سے حکمران غافل ہو جاتے ہیں۔ اور خوشآمدیوں میں گھر کر اپنے اعلٰی مقاصد بھول جاتے ہیں۔ جس سے عام شہری خوف و ہراس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مملکت چندسری ہو کر رہ جاتی ہے اور جمہوریت کے لئے حلات سازگار ہو جاتے ہیں۔

جمہوریت سے گروہ بندی اور پھر سیاسی جماعتیں جنم لیتی ہیں۔ چالباز اور مکار ان پارٹیوں کے لیڈر اور ان میں سے مطلق العنان یا جابر حکمران بنتے ہیں۔ جن کے دل عقل کی روشنی اور اخلاق کی رہبری سے محروم ہوتے ہیں۔”

ریاست کی ذمہ داریاں

افلاطون نے سوفسطائیوں کے اس نظریہ کہ” ریاست حکمران طبقہ کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہوتی ہے۔” کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ رعایا کی بھلائی ہی حکمرانوں کی بھلائی ہے۔ ریاست اچھائی کے فروغ اور بہتر عوامی زندگی کے لئےتشکیل دی جاتی ہے۔” افلاطون انفرادیت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ تصوریت پسند بھی تھا۔

انفرادیت پسند ہونے کی وجہ سے وہ تسلیم کرتا تھا کہ” انسان نے ریاست اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے تشکیل دی ہے۔ ریاست فرد کی طرح ایک عنصریتی فرد ہے۔ اور یہ ریاست کا فرض ہے کہ افراد کو انکی صلاحیتوں کے مطابق جسمانی اور روحانی نشوونما کے لئے بہترین مواقع فراہم کرے۔”۔

جبکہ بحیثیت تصوریت پسند اسکا کہنا ہے کہ” کوئی ریاست اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک حکومت ایسے اشخاص کے پاس نہ ہو جو یہ جانتے ہوں کہ ریاست کی بہتری کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہے۔”۔ اس کے نزدیک حکومت صرف عالموں کا حق ہے۔ اور تعلیم ہی وہ بہترین ذریعہ ہے جس سے نیک اور بہترین انسان پیدا ہو سکتے ہیں۔

افلاطون کے نزدیک صرف مخصوص لوگ اعلیٰ صفات کے مالک ہوتے ہیں۔ اس لئے ان اعلیٰ صفات کے حامل لوگوں کو معاشرے میں اعلیٰ اور کم صفات کے حامل لوگوں کو کم مقام حاصل ہونا چاہئے۔ افلاطون کے معاشرے میں تین طبقاتی تقسیم اور اس تقسیم کی انسانی ذہن سے مطابقت کا تصور دراصل فیثاغورث کے انسانی روح کے تین حصوں کے تصور سے متشابہہ ہے۔

حکمران طبقے کی درجہ بندی

فیثا غورث کے ہاں مادی فوائد، جاہ و حشمت اور عقل و دانش کے حامل تینوں گروہوں کو افلاطون نے معاشی، فوجی اور فلسفی حکمران کے تین طبقوں میں تقسیم کرتے ہوئے درجہ بندی کی ہے جو فیثا غورث کے ہاں موجود نہیں ہے۔

اسکے خیال میں فطری اعتبار سے علم ریاضی کے ذریعے کسی بھی چیز کی حقیقت کو جانا جا سکتا ہے۔ جبکہ عملی اعتبار سے میدان جنگ میں فوجیوں کو بہتر طور پر منظم اور مخالفین پر عددی اعتبار سے فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔

اس کے خیال میں ریاضی ہی کی مدد سے انسان عام محسوسات سے بلند ہو کر خالص خیالات کی دنیا میں داخل ہو سکتا ہے۔ اس کے نزدیک ایک ریاست اپنے ترکیبی عناصر میں اگر علم ہندسہ کے مطابق صحیح طور پر تقسیم ہو تو وہ کائنات کی مانند ہے۔ جو موسموں،مہینوں،سالوں اور دن رات کے چکر میں تقسیم ہے۔ اور یہی ہندسے کائنات کی حرکت کا احاطہ کرتے ہیں۔

سقراط سے قبل ڈیلفی کے اخلاقی ضابطے کا پرچار تھا۔ جو دراصل مروجہ غیرانسانی اور غیر ہمدردانہ قوانین اور رسم و رواج کے خلاف ایک معتدل اجتہاد تھا۔ اس اخلاقی ضابطے کا بنیادی نظریہ کسی چیز کی زیادتی نہیں بلکہ ہر چیز ایک حد کے اندر’ تھا۔

تھیوری آف آئیڈیاز

ڈیلفی کی اس اخلاقی تعلیم کے ذریعے نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی، انصاف اور بے انصافی کی وضاحت کی گئی۔ تاکہ سماجی انصاف کا ایک حتمی اور آفاقی تصور قائم ہو سکے۔ اسی اخلاقی تعلیم کو اگے بڑھاتے ہوئے پہلے سقراط نے تھیوری آف نالج اور پھر افلاطون نے تھیوری آف آئیڈیاز پیش کی۔

تھیوری آف آئیڈیاز میں افلاطون نے اپنے استاد کے نظریات کو اپنے قالب میں ڈھالتے ہوئے حقیقی سماجی انصاف کے اصول پر مبنی ایک حتمی اور آفاقی تصور پیش کیا۔

افلاطون کے ان تصورات پر اس کے استاد سقراط کی گہری چھاپ ہے۔ نیک زندگی کا حصول، اخلاقیات اور علم کی بالادستی کا تصور، نظریہ عدل، مکالماتی طریقہ ، مطالعہ، جمہوری طرز حکومت سے نفرت، قانون اور فلسفی حکمرانوں کی تابعداری کے تصورات دراصل سقراط کے ہیں۔ جنہیں افلاطون نے اپنے تصورات میں شامل کیا ہے۔

سقراط کے نیک زندگی کے تصور کو افلاطون "الجمہوریہ” میں پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ” مثالی مملکت کا مقصد اور نصب العین نیک زندگی کا حصول ہے۔” اخلاقیات کی بالادستی کے سقراطی تصور کو افلاطون اس طرح بیان کرتا ہے کہ معاشرے کا تصور اخلاقی بنیادوں پراستوار ہونا چاہئیے۔

نیکی ایک علم ہے

سقراط کے مکالماتی طریقہ، جس کے ذریعے سقراط کے تمام تر تصورات کوفروغ حصل ہوا کو افلاطون نے تقریباً اپنی تمام تصانیف میں شامل کیا ہے۔” نیکی ایک علم ہے۔” کا تصور تاریخ میں سب سے پہلے سقراط نے پیش کیا۔ جسے یونان میں بڑی پذیرائی ملی۔ اور افلاطون بھی اس تصور سے متاثر ہوا۔

ایتھنز کی جمہوری حکومت نے چونکہ سقراط کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا تھا۔ اس لئے افلاطون نے اپنے نظریات میں جمہوریت کو بدترین اور اشرافی طرز حکومت کو بہترین طرز حکومت قرار دیا۔ سقراط نے موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی قانون سے روگردانی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس سے افلاطون بے حد متاثر ہوا۔ افلاطون سوفسطائی مکتبہ فکر سے بھی متاثر ہوا لیکن منفی انداز میں۔

اس نے سوفسطائی افکار پر زبردست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ” مملکت محور کل ہے۔ مملکت فرد کی فردیت کی ضامن ہے۔ مملکت ہی وہ اعلیٰ و برتر ادارہ ہے جسکی تکمیل کے لئے دیگر تمام ادارے اور افراد اپنا سب کچھ قربان کر سکتے ہیں۔ فرد مملکت کا ایک ادنیٰ جزو ہے۔ اور جزو ہونے کے ناطے اسکا صرف اتنا کام ہے کہ وہ ایک کل کی تکمیل کے لئے دیگر اجزا کے ساتھ مل کر سرگرم رہے۔”

تمام قدیم مورخین افلاطون کی سیرت کو قابل احترام قرار دیتے ہیں۔ اسکی تصانیف بھی اسکی اعلا سیرت کی شہادت دیتی ہیں۔

وہ نہائیت اعلیٰ درجے کی عقل کا مالک تھا۔ جسکی تمام قوتوں میں توازن قائم ہو کر اخلاقی جمال پیدا ہو گیا تھا۔ اسکی تصانیف اسکی پاکیزہ سیرت کا آئینہ ہیں۔ اسکا دور تصانیف سقراط کی وفات سے فوراً بعد شروع ہوا اور آخری دم تک جاری رہا۔ وہ پچاس برس سے زیادہ عرصہ تک اپنی تصانیف کی تکمیل میں مصروف رہا۔ 

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے