نثر کے ارتقا میں ”خطوط غالب” کا جائزہ لیتے ہوئے غالب بہ طور شاعر مشکل ہی سے سامنے رہتا ہے۔
شاعری اور نثر کا ارتقاء
اردو ادب کی تاریخ نویسی کا اسلوب اور انحصار ہمارے ہاں اب تک بڑی حد تک ایک مخصوص ڈھب پر رہا ہے۔ زبان و ادب کے ارتقا کی کیفیت اور نوعیت، ان کے اسلوب نثر اور شاعری اور اصناف کا مطالعہ بالعموم الگ الگ یا متوازی سمتوں میں کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یوں لگتا ہے گویا شاعری اور نثر اور ان کی مختلف اصناف کا ارتقا ایک ہی زمان و مکان اور ماحول میں نہیں، بلکہ علیحدہ علیحدہ ماحول میں ہوتا رہا ہے۔
مثلا” شاعری کے ارتقا میں جب ہم انشا کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو یہ مشکل ہی سے ذہن میں رہتا ہے کہ یہ ”رانی کیتکی کی کہانی” کا خالق بھی ہے۔ یا نثر کے ارتقا میں ”خطوط غالب” کا جائزہ لیتے ہوئے غالب بہ طور شاعر مشکل ہی سے سامنے رہتا ہے۔
اور تو اور یہ بھی ذہن میں نہیں رہتا کہ میر اور میر امن ایک ہی عہد کی شخصیات ہیں یا لکھنو میں جس وقت آصف الدولہ کا دربار شاعروں اور فن کاروں سے بارونق تھا۔ دکن میں ارسطو جاہ کی سرپرستی ایسے ہی بڑے شاعروں کو اپنے گرد اکٹھا کیے ہوۓ تھی۔ اصناف کا علیحدہ علیحدہ جائزہ بھی ہمارے ذہن کو متوازی سمتوں ہی میں لیے چلتا ہے۔ ہم کسی ایک عہد کی بھی کوئی ایک مکمل تصویر اس کی کل تخلیقات کی روشنی میں نہیں بنا سکتے۔ اور اس عہد کے سارے رجحانات کو ایک ساتھ لے کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
معروف علماء کی تصانیف
یہ ہی صورت اردو زبان اور بالخصوص نثر میں علمی ، مذہبی اور تاریخی تصانیف اور ان کے مصنفین کے ساتھ بھی روا رکھی گئی ہے۔ اٹھارھویں صدی تک تو جو بھی نثری نمونہ دستیاب ہوا ہے ۔ اسے بہ طور تبرک تاریخ ادب کے جائزے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ لیکن بعد میں ایسی تصانیف اور ان کے مصنفین سے صرف نظر کر لیا گیا۔ یا زیادہ سے زیادہ کسی شہرت و حیثیت کی بنیاد پر چند معروف علماء کی تصانیف اس ذیل میں شمار کر لی گئیں۔
مثلا” شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین، شاہ اسماعیل شہید اور مولانا خرم علی بلہوری کے نام تو مختلف اسباب کی بنا پر تاریخ ادب میں نظر آتے ہیں۔ لیکن ہر عہد میں اس قسم کے علمی ، مذہبی اور تاریخی ادب کی تلاش و تحقیق اور ان کے اسلوب و صیات کا مطالعہ ہمارے ادبی مورخوں اور محققوں کی خاطر خواہ توجہ حاصل نہ کر سکا۔ بعض ضخیم ادبی تاریخوں میں چند سرسری اشارے تو ملتے ہیں۔ لیکن کوئی مخصوص اور مبسوط کوشش اس ضمن میں نہیں کی گئی ۔ اگر چہ حال میں اردو نثر کے ارتقا، اصناف، اسالیب اور دبستانوں کے تعلق سے کئی مستقل تحقیقی مطالعے سامنے آئے ہیں۔ مگر ان میں بھی بالعموم مذکورہ ڈگر ہی پر چلنے کا رجحان نظر آتا ہے۔
اردو نثر کے ارتقاء میں علماء کی کاوشیں
اس خلا کو کم از کم شمالی ہند کی حد تک اور آغاز سے ۱۸۵۷ء تک ، ڈاکٹر محمد ایوب قادری نے اپنی زیر نظر تصنیف سے پر کیا ہے ۔ اپنے موضوع پر یہ اولین تصنیف ہے جو اردو نثر کے ارتقا میں علماء کی کاوشوں اور ان کی تصانیف کے تحقیقی اور تنقیدی مطالعے پر مشتمل ہے۔ اس ضخیم تصنیف کو آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ہر باب علماء کی ان وابستگیوں کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے۔ جس سے ان کا مجموعی رویہ اور رجحان بھی سامنے آتا ہے۔ اور اس کے پس منظر میں ان کی تصانیف کی غرض و غایت نوعیت اور کیفیت بھی معلوم ہوتی ہے۔ پھر فاضل مصنف نے ہر تصنیف کے موضوع اور مندرجات کے علاوہ اس کے اسلوب، زبان و بیان اور صرفی و نحوی خصوصیات کا جائزہ لیا ہے۔اور نمونتہ” ہر ایک کے ضروری اقتباسات بھی درج کیے ہیں۔
اکیاسی علما کی ایک سو باون تصانیف
اس طرح زبان و ادب کے ارتقا میں شمالی ہند (بشمول بہار و بنگال) میں ۱۸۵۷ء تک اردو زبان اور اسالیب کی سمت و رفتار اور نوعیت و کیفیت کے تعین میں علماء کی ان تصانیف کو بھی اب تاریخ زبان و ادب کے مباحث میں ناگزیر حیثیت حاصل رہے گی۔ اور یوں اس سے متعدد خلا پر ہو سکیں گے۔ مجموعی طور پر اکیاسی علما کی ایک سو باون تصانیف اور ان کے مصنفین اس مقالے کا موضوع ہیں۔ جبکہ ان تصانیف میں سے تیئیس غیر مطبوعہ ہیں۔ اور اس لحاظ سے یہ فاضل مصنف کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ کہ ان غیر مطبوعہ تصانیف میں سے بیشتر تاریخ زبان و ادب میں دریافت و انکشاف کے ذیل میں آتی ہیں۔
تاریخ ادب کا دامن جہاں اب ان تصانیف کے ذکر و حوالے سے ثروت ہو رہا ہے۔ وہیں ان کے مصنفین کی ایک بڑی تعداد بھی تاریخ ادب میں جگہ پا رہی ہے۔ جن کے احوال و آثار ادب کے عام ماخذ میں بالعموم ناپید رہے ہیں۔ لیکن ان کے لیے اب اس تصنیف کو ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل رہے گی۔
یہ تصنیف جو فاضل مصنف کے انتقال (نومبر ۱۹۸۳ء) کے بعد منظر عام پر آئی ہے۔
دراصل ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے۔ جس پر جامعہ کراچی نے ۱۹۷۸ء میں انھیں ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی ہے۔ اس صورت حال میں کہ جامعات میں اب بہت کم ہی تحقیقی مقالات اعلی معیار کے حامل نظر آتے ہیں۔ اس مثالی اور منفرد مقالے کی اشاعت سے فی الحقیقت جامعہ کراچی کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا۔ اسے جامعہ میں پیش کردہ مسودے کے مطابق ہی شائع کر دیا گیا ہے۔ جبکہ فاضل مصنف اگر زندہ رہتے تو ضرور اس پر نظر ثانی کرتے۔ اور بہ غرض اشاعت اس کی نوک پلک بھی درست کرتے۔ مصنف کا ایک مختصر پیش لفظ اس میں شامل ہے۔ جو اب اشاعت کے بعد تشنہ محسوس ہوتا ہے۔
ابتدائی چاروں ابواب مختلف تحریکی اور شخصی نسبتوں اور وابستگیوں کے حامل علماء کے حوالے سے رقم کیے گئے ہیں۔
جیسے باب اول: صاحبزادگان شاہ ولی اللہ اور ان کے ہم عصر علماء ۔ باب دوم اور سوم: سید احمد شہید کی تحریک کے علماء۔ باب چہارم: شاه محمد اسحاق دہلوی کے رفقاء و تلامذہ۔ ان ابواب میں شامل بعض علماء کا تعلق ان کے وابستگان سے واضح نہیں ہوتا۔ نہ ابواب کے آغاز میں ان علما کے باہمی ربط پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نہ درمیان میں روابط کی نوعیت سامنے آتی ہے۔ ایک عام قاری کو کتاب پڑھتے ہوۓ شاید یہ نہ معلوم ہو سکے کہ باب چہارم کے عنوان میں مذکورہ شاہ محمد اسحاق دہلوی کون تھے۔؟
اس کتاب کو ادارہ ثقافت اسلامیہ نے نہایت اہتمام اور خوب صورتی کے ساتھ شائع کیا ہے۔ لیکن یہ محل نظر ہے کہ اس میں جہاں مصلحت بینی کے کمزور تقاضے کے تحت بعض فقہی مسلک کے حامل افراد کی دل شکنی کے خیال خام سے اس تصنیف میں شامل چند اقتباسات حذف کر دیے گئے ہیں۔ وہیں بعض نہایت ضروری علمی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ مثلا” اس میں اشاریے کا اہتمام نہیں کیا گیا جو اس قسم کی علمی کتابوں کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ آج کی بڑھتی ہوئی علمی ضرورتوں کے پیش نظر اور وقت ضرورت قارئین و محققین کو ان کے وقت کے ضیاع سے بچانے کے لیے ہر ناشر کے لیے یہ لازمی ہونا چاہیے کہ وہ اپنی ہر کتاب میں اشاریہ ضرور شامل کرے۔
تجارتی اداروں کو تو شاید اس کا پابند نہ کیا جا سکے ۔ گو ان پر اس کی اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
لیکن سرکاری اداروں کو تو ضرور پابند کیا جانا چاہیے۔ بعض ادارے ، مثلا” ” مجلس ترقی ادب ” (لاہور) اور ” مرکزی اردو بورڈ ” (لاہور) اس کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ لیکن ادارہ ثقافت اسلامیہ اپنی اہم مطبوعات ” فقہاۓ ہند“ اور ”سلسلہ کوثر ” کی حد تک بھی اس کا التزام نہ کر سکا۔! کم از کم اس کتاب میں فہرست مضامین کو فہرست مندرجات کی شکل دے کر ہر مصنف کے نام کے ساتھ اس کی تصنیف یا تصانیف اور متعلقہ ذیلی عنوانات کا اندراج کیا جا سکتا تھا۔ تا کہ اگر قاری کو کسی کتاب کی تلاش ہو تو اسے پوری کتاب پر نظر ڈالنی نہ پڑے۔
ان پہلوؤں سے قطع نظر کہ جو اس تصنیف کی علمی و تحقیقی قدر و قیمت میں کسی طرح کمی کا سبب نہ ہوں گے۔ یہ ایک اعلی درجے کا تحقیقی کارنامہ ہے۔ جو اگر ایک طرف اردو زبان و ادب کی تاریخ کے ایک بڑے خلا کو پر کرتا ہے۔ تو دوسری طرف اردو زبان کی ترقی میں علماء کی شعوری یا غیر شعوری خدمات کو بر عظیم کی علمی و تہذیبی تاریخ کی ایک حقیقت کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ اس تصنیف کو حالیہ چند برسوں کے ایک مثالی تحقیقی کارنامے سے تعبیر کرنا چاہیے۔