بگ بینگ اور ابتدائی کائنات

 مختلف عمروں، فاصلوں اور حجم کے بے شمار ستارے مشاہدے کی غرض سے موجود ہیں۔ جبکہ کائنات اور آغاز کائنات یعنی بگ بینگ ایک ہی ہے اور اس کا بھی براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔


فلکیات قدیم ترین سائنس ہے

فطری سائنسوں کے ارتقاء کا مطالعہ کرتے ہوۓ جب ہم فلکیات اور طبیعیات کی ہم زیستی  کو دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ علم کی ایک علیحدہ اورمتشخص شاخ ہے۔ لیکن ایک میدان میں ہونے والی ترقی نے قدم قدم پر دوسرے کے ارتقاء کو متاثر کیا ہے۔

فلکیات قدیم ترین سائنس ہے۔ یقیناً اس کا آغاز لاکھوں سال پہلے ہوا ہو گا۔ جب پہلے انسان نے تارے بھرے آسمان کو با نظر استعجاب دیکھا تھا۔ لیکن آج فلکیات کے ہر مشاہدے کو فلکی طبیعیات کے ماہرین کی معاونت حاصل ہے۔ یہ مشاہدے میں آنے والے خصائص کی تعبیر اور تشریح کے لئے مفصل ریاضیاتی خاکے تیار کرتے ہیں۔

طبیعیات نسبتانی سائنس ہے۔ اس کا تعلق مادے، مکان اور وقت کے قوانین سے ہے۔ یہاں زمین پر دریافت ہونے والے قوانین کا اطلاق دور دراز کے ستاروں اور کہکشاؤں پر بھی ہوتا ہے۔ ماضی اور مستقبل دونوں میں ان کا اطلاق ہونا تسلیم کیا جاتا ہے۔ زمین پر دریافت کئے گئے قوانین کی زمانی اور مکانی دوری اور نزدیکی ہر جگہ قابل اطلاق خیال کی جاتی ہے۔

جب تک کوئی مشاہدہ ان سے سے متصادم نہیں ہوتا ان قوانین کی عالمگیریت مسلمہ خیال کی جاتی ہے۔ اسی عالمگیریت کے باعث فلکیات یعنی اجرام فلکی کی سائنس بھی ان اصولوں سے استفادہ کرتی ہے۔ نیوٹن کے وقت سے کم از کم اصولی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ کائنات کے تمام تر اجسام کی حرکت کو چند بنیادی قوانین کی مدد سے بیان کیا جا سکتا ہے۔

بنیادی اصول

اگر ہمیں کسی طبیعی نظام کی پوزیشن اور مومینٹم جیسی ابتدائی حالتیں دی گئی ہوں تو قوانین حرکت زماں میں کسی بھی دیئے گئے لمحے پر اس نظام کی حالت کو بیان کر سکتے ہیں۔ اسی لئے ہم پوری انسانی دنیا کو دو بڑے اجزاء میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا جزو ابتدائی حالتوں کا ہے اور دوسرا جزو سادہ عالمگیر قوانین کا ہے۔

قوانین کا ابتدائی حالتوں پر اطلاق کرتے ہوۓ ہم ماضی اور مستقبل پر بات کر سکتے ہیں۔ اس اصول سے زیادہ بنیادی شائد سائنس کے پاس کوئی اور اصول نہیں ہے۔ نہ ہی کسی اور کا اطلاق اتنے وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔

قوانینِ حرکت اور تجاذب

نیوٹن اور اس کے پیشروؤں نے قوانین حرکت اور تجاذب کا اطلاق چاند ، سیاروں اور دم دار سیاروں کی حرکات پر کامیابی سے کیا۔ ان کامیابیوں سے سائنس دانوں کو اعتماد ملا کہ ان عالمگیر قوانین کے اطلاق میں بڑھتےہوئے ریاضیاتی طریقوں کو زیادہ اعتماد کے ساتھ کونیاتی تحقیق میں استعمال کیا جاۓ۔ 1846ء میں یہ اعتماد دوچند ہو گیا۔ کیونکہ ریاضیاتی طریقوں سے ایک نئے سیارے کے موجود ہونے کی پیش گوئی کر دی گئی تھی۔

یہ پیش گوئی سیارے یورینس کے مدار کی بے قاعدگی کے ریاضیاتی مطالعے کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ یہ نیا سیارہ متوقع جگہ پر مشاہدے میں آ گیا اور اس کا نام نیپچون رکھا گیا۔ طبیعی قوانین کی عالمگیریت اور کائناتی مادی وحدت کی ایک اور خوبصورت مثال 1872ء میں سامنے آئی۔ اس وقت ولیم بگنز  اور ہنری ڈریپر  کی مشترکہ کوششوں سے ثابت ہوا کہ ستاروی ہائیڈ روجن بھی وہی ہے جو ادھر ہماری زمین پر پائی جاتی ہے۔

ولیم ہگنز نے مرئی ستاروی فیت نگاری

ویژول سٹیلر سپیکٹروسکوپی (Visual Stellar Spectroscopy)

 کا آغاز کیا تھا۔ ولیم ڈرپر نے جو دراصل ایک معالج تھا، مدھم ستاروں کی تصویر کشی کا ایک نیا طریقہ وضع کیا تھا۔ ان دونوں کی کوششوں سے فلکی طبیعیات کے نقش و نگار ابھر کر سامنے آۓ۔ طبیعیات اور فلکیات کی ہم زیستی کا آغاز نہایت کامیابی سے نیوٹن کے وقت سے ہی ہو گیا تھا۔ لیکن 1927ء میں کوانٹم طبیعیات کے آغاز کے ساتھ بیسویں صدی میں یہ اپنے عروج پر پہنچ گیا۔

کوانٹم طبیعیات

کلاسیکی یا نیوٹنی طبیعیات کے مقابلے میں کوانٹم طبیعیات اپنے مضمرات میں زیادہ جامع اور متنوع مشاہدات کے ساتھ زیادہ لطیف طور پر ہم آہنگ تھی۔ طبیعیات دانوں نے اسے کیمیا نیوکلیائی طبیعیات مادے کی ٹھوس حالت اور تحت نیوکلیائی ذرات

سب نیوکلیر پارٹیکلز (Sub-Nuclear Particles)

 کے مطالعہ میں یکساں کامیابی سے استعمال کیا۔ چندر شیکھر نے کوانٹم میکانیات کے اصول استعمال کرتے ہوئے سائرس کے ساتھی کے عجیب خصائص دریافت کئے۔ یوں شدید ٹھوس مادے کی نظری تحقیقات کا آغاز ہوا اور سفید بونا کی اصطلاح فلکیات میں شامل ہوئی۔

طبیعیات اور فلکیات کا رشتہ

بینز بیٹھے جیسے سائنس دانوں نے ستاروں کے مرکز میں نیوکلیائی آتش گیری کے مطالعہ کا آغاز کیا جس نے نیوٹران ستاروں اور بلیک ہول کی پیش گوئی میں مدد کی۔ اس طرح کے مادہ کے وجود اور اس کی خصوصیات کے مطالعہ میں بنیادی ذرات 

پارٹیکلز فنڈامینٹل(Particles Fundamental) 

پر ہونے والی تحقیق نے معاونت کی۔ بہت چھوٹے اور بہت بڑے کا تعلق صرف فلکیات تک محدود نہیں ہے۔ کیمیا میں عناصر کے مرکب بنانے کی خصوصیات ویلنس الیکٹران کے خصائص پر منحصر ہے۔ جس کا مطالعہ طبیعیات کی حد میں آتا ہے۔ حدود طبعیات اور فلکیات کا یہ باہمی رشتہ بیسویں صدی میں ایک اور حوالے سے بھی زیادہ گہرا اور مضبوط ہو گیا ہے۔

اس صدی کے پہلے نصف تک فلکیات اپنے مشاہدات کی نظری توجیہہ، تعبیر اور پیش گوئی کے لئے طبیعیات پر انحصار کر رہی تھی۔ ماہرین طبیعیات نے طاقتور بنیادی ذرات کے متعلق بہت سے نظریات وضع کئے تھے جن کی تصدیق وہ اپنے ذراتی اسراع گروں 

پارٹیکل ایکسیلیریٹورز(Particle Accelerators)

 پر کر چکے تھے۔ بنیادی ذرات پر اپنے اس علم کو وہ ستاروی مظاہر کی تعبیر اور فلکی مظاہر کے خاکوں کی تشکیل میں استعمال کرتے رہے تھے۔ ان خاکوں میں سے ستاروں کے مرکز کا خاکہ کافی کامیاب رہا تھا۔ اب ماہرین طبیعیات اپنی تحقیق میں اسی ذراتی توانائیوں کی قلمرو میں داخل ہوئے۔ یہ اتنی اونچی تھیں کہ ان کی آزمائش زمین پر موجود سہولتوں کی مدد سے  نہیں کی جا سکتی۔ ابھی تک ہمارے ذراتی اسراع گروں 

پارٹیکل ایکسیلیریٹورز (Particle Accelerators)

 میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ستاروں کے مرکزوں میں موجود ذرات سے توانا زرات پیدا کرے جنہیں باہم ٹکرا کر ہم اپنے جدید نظریات کی آزمائش کر سکیں۔ اپنے نظریات کی تصدیق کے لئے اب ذراتی طبیعیات کے ماہرین کو بھی فلکیاتی مشاہدات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

اب ان کی آزمائشی آماجگاہ تجربہ گاہوں تک محدود نہیں رہی۔ پوری کائنات ان کے احاطہ دلچسپی میں شامل ہے۔ طبیعیات اور فلکیات کے باہمی ربط کی ضرورت سب سے ڈرامائی انداز میں بگ بینگ نظریہ کی صورت سامنے آتی ہے۔ کائنات کی ابتداء کے اس نظریہ کے مطابق اگر ہم زمان میں پیچھے کی طرف جائیں تو کائنات کا درجہ حرارت بڑھتا چلا جاتا ہے۔

زیادہ امکان میں ہے کہ ایک حد پر جا کر یہ درجہ حرارت لامحدود ہو جائے گا۔ درجہ حرارت دراصل ذرات کی حرکی توانائی کی پیمائش ہے۔ بگ بینگ کی صورت میں یہ ذرات کوانٹم ہوں گے۔ طبیعیات کے وہ قوانین کون سے ہیں جو ان بے انتہا توانائی کے حامل ذرات کے باہمی تعامل کو بیان کرتے ہیں۔

اس سوال کا حتمی جواب دینا مشکل ہے۔ لیکن جب طبیعیات دان اپنے اسراع گروں میں ذرات کو بہت زیادہ توانائی دے کر باہم ٹکراتے ہیں تو وہ دراصل ان ہی سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصے کے لئے ذرات کو وہی توانائی دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو انہیں آغاز کائنات کے چند لمحے بعد تک حاصل رہی تھی۔

کائنات کی تجرباتی تخلیق

ہمارے طاقتور ترین اسراع گر ایسی کائنات تجرباتی طور پر تخلیق کرنے میں کامیاب رہے جس کی عمر ایک سیکنڈ کا ایک بلین واں حصہ تھی۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے اسراع گروں میں بنیادی ذرات کو اتنی توانائی دے چکے ہیں جتنی ان کے پاس اس وقت تھی جب کائنات کی عمر 10.9 سیکنڈ تھی۔

اس سے زیادہ پیچھے جانا یعنی کہ اس سے زیادہ طاقتور ذرات پیدا کرنا مشکل ہے۔ چنانچہ طبیعیات دان اپنی توجہ زیادہ طاقتور اسراع گر تعمیر کرنے کی بجاۓ بگ بینگ جیسے اسراع گروں پر مرکوز کر رہے ہیں۔ اس طرح سائنسی کائنات ان کی تفتیش اور تحقیق کا مرکز بن جاتی ہے۔

جدید سائنس کی معراج یہ ہے کہ ایسے قوانین دریافت کئے جائیں جو مختصر ترین، یعنی کوانٹم اور جسیم ترین، یعنی کائنات کے باہمی تعلق کو بیان کر سکے۔ ان قوانین کو اتنا عالمگیر ہونا چاہئے کہ یہ فوٹون اور کہکشاں پر یکساں صحت اور وثوق کے ساتھ اطلاق پاسکیں۔

کوانٹم طبیعیات اور کونیات کے ماہرین اپنے کام کے آغاز میں اسراع گروں میں اونچی توانائی کے حامل ذرات پر کئے گئے تجربات کے مشاہدات کی تشریح کے لئے اضافی کوانٹم فیلڈ نظریات 

ریلیٹیوسٹک قوانٹم فیلڈ تھیوری (Relativistic Quantum Field Theories)

  کو استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح حاصل ہونے والے حلوں سے خاکے  تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ ان خاکوں کو آغاز کائنات میں موجود بہت زیادہ توانائی کے حامل کوانٹم ذرات کے رویے کی توضیح کے لئے برتا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان ہی خاکوں سے کائنات کی بعض اہم خصوصیات کا استخراج کرتے ہیں۔ جیسے کائنات کا محض مادے پر نہ کہ مادے اور ضد مادے کی برابر مقداروں پر مشتمل ہونا۔ یا پھر بگ بینگ کے ابتدائی گولے کے چھوٹے چھوٹے غیر متجانس تغیرات، جنہوں نے کہکشاؤں کو جنم دیا۔

آغاز کائنات کے ریاضیاتی خاکے

آغاز کائنات کے ریاضیاتی خاکے بنانے کا عمل بہت حد تک نیوکلیائی طبیعیات کی مدد سے ستاروں کی اندرونی ساخت متعین کرنے سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ دونوں کام طرز کار میں ایک سے ہیں۔ ان کے آزمائشی طریقے بھی بالواسطہ مشاہدہ کے ہیں۔ نہ کوئی ستارے کے اندرون کا براہ راست مشاہدہ کر سکتا ہے اور نہ ہی اس اولین آگ کے گولے میں جا سکتا ہے جسے بگ بینگ کہتے ہیں۔ لیکن یہ مشابہت بس یہیں تک کی ہے۔

مشاہداتی مواقع اور تنوع کے حوالے سے دیکھا جاۓ تو ستاروں کی اندرونی ساخت کے خاکوں کی مشاہداتی تصدیق یا تردید کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ مختلف عمروں، فاصلوں اور حجم کے بے شمار ستارے مشاہدے کی غرض سے موجود ہیں۔ جبکہ کائنات اور آغاز کائنات یعنی بگ بینگ ایک ہی ہے اور اس کا بھی براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔

بگ بینگ کی قابل مشاہدہ باقیات

ہمارے پاس اس وقوعہ کی صرف باقیات موجود ہیں۔ ستارے کہکشائیں اور ان کی ترتیب و تقسیم، پس منظری شعائیں اور عناصر کی نسبتی مقدار وغیرہ ہمارے لئے بالواسطہ قابل مشاہدہ باقیات کی مثالیں ہیں۔

ان دونوں تحقیقات میں ایک اور فرق بھی ہے۔ ستاروں کے مرکزوں پر لاگو کرنے کے لئے کوانٹم میکانیات کے قوانین نہ صرف وضع کئے گئے بلکہ ان کی آزمائش بھی زمینی تجربہ گاہوں میں کر لی گئی۔ لیکن بگ بینگ پر جن قوانین کو قابل اطلاق خیال کیا جاتا ہے، ان کی آزمائش کی تجربہ گاہ زمین پر عملی اور اصولی ہر دو اعتبار سے ناممکن ہے۔

فلکی طبیعیات دانوں کی تحقیقات کو ایک مفروضے نے خاصی سہولت دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بگ بینگ جیسی شدید صورت حال میں کوانٹم ذرات کے تعاملات باہم متشاکل

(Symmetric)

تھے۔ یعنی ان کے رویئے اتنے پیچیدہ نہیں تھے۔ نہ ہی ان کی ایک دوسرے پر لگائی جانے والی قوتوں کو بیان کرنے کے لئے متعدد اور مختلف مساواتیں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان حالات میں مختلف قوتیں باہم متحد ہو کر ایک وحدت کی طرف مائل ہو جاتی ہیں۔

ان مفروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ماہرین نے نہایت اعتماد کے ساتھ تخلیق کائنات کے اولین مراحل کی منظر کشی کی۔ پس منظری شعاعوں کی دریافت اور اس خاکے کی بنیاد پر کیمیائی عناصر کی نسبتی مقادیر

پروپروشنل کوانٹیٹیز (Proportional Quantities)

  کی کامیاب پیش گوئیاں اس کی کامیابی کی دلیل ہیں۔

کائنات نے ایک ذرے (ایٹم) سے جنم لیا

آغاز کائنات کے متعلق پہلا جدید نظریہ جارج ٹیمر نے پیش کیا۔ اس نے قرار دیا کہ کائنات کا آغاز ایک بدائی ایٹم

پرائمول ایٹم (Primeval Atom)

 کے ٹوٹنے سے ہوا۔ اس کے ٹکڑوں میں پھٹنے سے ہمارے زیر مشاہدہ آج کی کائنات وجود میں آئی۔ لیکن اس نظریے کی ہماری جدوجہد اور جانی پہچانی شکل جارج گیمو اور اس کے دو طالب علموں رالف الفر اور رابرٹ ہرمن کے کام کی مرہون منت ہے۔ ان دونوں نے 1948ء میں بگ بینگ کے سے حالات میں بننے والے عناصر کی نسبتی مقدار کی ریاضیاتی پیائش کی۔ یوں کونیات مفروضہ جاتی حدود سے نکل کر مشاہداتی سائنس کی حدود میں داخل ہوئی۔

الفر اور ہرمین نے حساب لگایا کہ بگ بینگ کے وقت خارج ہونے والی شعاعی توانائی کا درجہ حرارت مطلق صفر سے پانچ درجہ اوپر یعنی پانچ درجہ کیلون ہونا  چاہئے۔ اٹھارہ برس کے بعد پینزی ایز اور ولسن نے ان شعاعوں کو نہ صرف شناخت کر لیا بلکہ ان کا درجہ حرارت بھی معلوم کر لیا۔ یہ درجہ حرارت 2.7 درجہ کیلون تھا۔ اس مظہر نے طبیعیات دانوں کو اس نظریے کی حقانیت کا قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے