تخلیق زدہ (مکمل مزاحیہ ناول)

لفظوں کے کھلاڑی ایک قلم کار کا احوال، وہ اپنے ہی الفاظ کے گورکھ دھندے میں پھنس گیا تھا۔

خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ کیسی شدت کی منحوس گھڑی تھی جب ہم نے نجیب احمد نجمی کی باتوں میں آ کر ناول نگار بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ آغاز بھی اسی روز کر دیا تھا۔

ہمارے وہ خیر خواہ جو ہر ملاقات پر زمانے کی اونچ نیچ اور زندگی کے نشیب و فراز پر ہمیں لیکچر پلانا اپنے اپنے مسلک کا بنیادی رکن سمجھتے تھے۔ اس روز نجانے کہاں جا مرے تھے کہ کسی اُلو کے پٹھے نے آ کر ہمیں نہیں سمجھایا کہ بھائی یہ کام نہیں کرنا۔ اس میں یہ نقصان ہے۔  وہ مصیبت ہے، فلاں قباحت ہے ، فلاں مسئلہ ہے۔ اس دھندے سے توبہ کر لو یہ تمہارے کرنے کا کام ہے ہی نہیں۔ مگر کوئی بیچارہ آتا بھی کیسے جب ہماری اپنی تقدیر ہی کھوٹی تھی۔

ابا میاں اکثر ہم سے کہا کرتے تھے "برخوردار! جب انسان کا برا وقت شروع ہوتا ہے تو بھلائی کے فرشتے بھی اس سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں۔ ہمارا تو خیال ہے کہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا تھا۔ اچھائی کے فرشتے کبھی ہماری صحبت سے فیض یاب ہوئے ہی نہیں تھے۔ بہر حال مٹی ڈالیں اس قصے پر۔ ہم بات کر رہے تھے اس منحوس گھڑی کی۔  ایسا کرتے ہیں کہ اس منحوس گھڑی کے ذکر سے پہلے۔ ہم آپ لوگوں کو تھوڑ اسا اپنے متعلق بتائے دیتے ہیں۔

 حالات حاضرہ میں تو مابدولت اس دنیا میں تنہا ہیں۔ مگر کسی زمانے میں ایک عدد بڑی بہن بھی تھی اور ابا حضور بھی تھے۔ ابا حضور ہی سے سنا تھا کہ ہماری ایک عدد اماں حضوراں بھی ہوا کرتی تھیں۔  مطلب یہ کہ ہم اس مظلوم عورت کے دیدار سے محروم ہی رہے۔ اماں حضوراں کے لیے مظلوم کی اصطلاح ہم اس لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کہ وہ بیچاری ہمارے اثرات سے لاعلم تھیں اور اسی لا علمی میں ان سے ہمیں جنم دینے کی غلطی سرزد ہوگئی۔ نتیجتاً وہ اس جہان فانی کو چھوڑ کر کسی اور جہان کے سیر سپاٹے پر روانہ ہو گئیں۔

ابا حضور بھی عقل کے پورے تھے۔ کہ صورت حال کی سنگینی اور معاملے کی نزاکت کو سمجھ نہ سکے اور بڑے فخر سے ہماری ذات پر بلند بخت” کے نام کی مہر لگا دی۔ حالانکہ اس بھلے مانس کو ہمارا نام بلند بخت نہیں۔ بلکہ بلند بد بخت رکھنا چاہیے تھا۔  ہم نے تھوڑا ہوش سنبھالا تو بہن سے انسیت ہوگئی۔ ہمیں اس سے انسیت کیا ہوئی اسے ایک رات سرسام ہو گیا۔ صبح ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو وہ حضرت آدمی  بولا۔ "اسے واپس لے جاؤ ۔ تم لوگوں نے بہت دیر کر دی ہے۔”

 ابا حضور ایک عرصہ ہماری شخصی برکات سے محروم رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اول اول تو کافی عرصہ ہمارا مدرسے میں گزرا۔ اور یہ کافی عرصہ امن و سکون سے گزرا۔ وجہ شاید یہ رہی ہو کہ نہ ہم نے کسی سے کچھ لام قاف کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی کسی دوسرے کو توفیق ہوئی۔ اور آخر کار مدرسے کے مولوی صاحب کو ہمارے مزاج کی یہ بے نیازی متاثر کر گئی۔

ہم کو ان کے شاگرد خاص ہونے کا اعزاز مل گیا ۔   چالیس سال عمر ہونے کے باوجود ابھی تک ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ مگر ہمارے سائے تلے آتے ہی ان کی زندگی میں رنگ اتر آئے۔ انہیں ہمسایوں کی بیوہ پسند آ گئی۔ اور بیوہ کو مولوی صاحب کی سیاہ گھنگھور داڑھی میں ساون کی گھٹاؤں کی تمام سحر خیزیاں نغمہ طراز ہوتی دکھائی دینے لگیں۔  یہ الگ بات کہ وہ گھٹائیں آرٹی فیشل تھیں ۔ یعنی خضابِ گرو گووِند کی احسان مند۔

 دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کرلیا البتہ بیوہ کے مسٹنڈے بھائیوں کی آنکھیں شاید ککروں کی زد میں تھیں۔ جو انہیں وہ طلسماتی گھٹائیں دکھائی نہیں دیں اور انہوں نے سختی سے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کر دیا۔  نتیجہ یہ رہا کہ مولوی صاحب اپنی بیوہ،  ہمارا مطلب ہے اس بیوہ خاتون کو لے کر ایسے رفو چکر ہوئے کہ مدرسے پر تالے پڑ گئے۔ اور ہمیں ابا حضور نے ایک دوسرے شہر اسکول میں دھکیل دیا۔

 اسکول کے بعد ایک کالج کا ہوسٹل بھی ہم سے فیض یاب ہوا۔ اور آخر کار کئی سال ابا سے دوری کے بعد ہم اردو لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کے بعد دوبارہ ان کے قدموں میں حاضر ہو گئے۔ یہ الگ بات کہ ابا جی اپنے قدم قبر میں لٹکائے بیٹھے تھے۔ سو ہماری واپسی کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی ابا حضور بھی روانہ ہو گئے۔ اور ہمارے لیے ایک دو کمروں کا مکان، کچھ نادر و نایاب قسم کا فرنیچر، ایک بھینس ، دو بکریاں چند مرغیاں اور کچھ بطخیں بطور وراثت چھوڑ گئے ۔

 شروع شروع میں ہم نے بہت کچھ کرنے کا سوچا۔ مگر جلد ہی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ہمیں خدا نے محض بیٹھ کر راج کرنے کی غرض سے پیدا کیا ہے۔ سو ہم تمام فکر وتردد کو جھٹک کر گھر بیٹھ گئے۔

بھینس اور بکریوں کا دودھ اور مرغیوں، بطخوں کے انڈے کافی ہو جاتے تھے۔ ضرورت سے اضافی جو ہوتا وہ بیچ دیتے۔ ان کے راشن پانی کا انتظام قدرتی طور پر ہو جاتا ۔آخر خدا کی زمین بڑی زرخیز ہے۔  بقاء کا مسئلہ پالنے والے نے بڑی فراخدلی سے سلجھا دیا تھا۔ البتہ لایعنی فراغت سے کبھی کبھی شدید اکتاہٹ ہونے لگتی تھی۔ مزید اکتاہٹ تب ہوتی جب ارد گرد والے خدائی فوجدار بن کر ہمارا احتساب کرنے چلے آتے ۔ زمانہ یوں ہے۔ زندگی کو اس ڈھب سے نہیں گزارتے۔ معاشرہ یہ کرتا ہے ۔ انسانیت وہ کہتی ہے۔ خدا یہ کہتا ہے۔ کمال ہو گیا… بھئی بندہ خدا! تم اپنی جیسے مرضی گزارو،  مجھے اپنی گزارنے دو۔ مگر ڈھیٹ تھے سب ،سو ہم ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے۔

کچھ ایسے ہی بے ترتیبی کے دن تھے جب ایک روز وہ اُلو کا چرخہ نجمی آٹپکا۔  ہمارا کالج فیلو تھا۔ جرنلزم میں ماسٹرز کرنے کے بعد اس نے ایک کثیر الاشاعت اخبار کے دفتر میں ملازمت کرلی تھی۔ ہمارے پاس بھی اس روز وہ ایک پرکشش جاب کی آفر لے کر آیا تھا۔ مگر ہم نے نہایت اطمینان سے معذرت کر لی۔ کیونکہ ملازمت کرنے میں ہمارے لیے بہت سی قباحتیں تھیں۔

آخر کافی دیر کی بحث و تکرار کے بعد اس نے ہمیں افسانہ نگاری کی دعوت دے ڈالی۔ ایک دو فکشن میگزین اور ڈائجسٹ کے مالک اس کے جاننے والے تھے۔ جن سے وہ ہمارا رابطہ کرا سکتا تھا۔ ہمیں فراغت کا ایک بہترین مصرف ملتا تھا، ہماری تعلیمی قابلیت زنگ آلود ہونے سے محفوظ ہوتی تھی۔ فیلڈ بھی ہماری پسند کی تھی۔ اور پھر رائلٹی کے طور پر کچھ نہ کچھ انکم کا انتظام بھی ہوتا تھا۔

اس نے کچھ ایسے نکات ہمارے سامنے رکھ دئیے کہ اس کی یہ پیشکش ہم نے فورا ًقبول کر لی۔ اور وہ بے غیرت انسان ہمارے ہاتھ میں قلم تھما کر چلتا بنا۔ کاش اس وقت ہمیں کسی طرح معلوم ہو جاتا کہ وہ ہمارے ہاتھ میں قلم نہیں ایسا کلہاڑا تھما کر جا رہا ہے۔ جو ہمارے اپنے ہی پیروں میں لگے گا تو ہم اس کمینے کا ٹینٹوا  دبا دیتے۔

 اس زلیل کے چلے جانے کے بعد ہم بہت دیر تک مختلف آئڈیاز پر سوچتے رہے۔ کہ آغاز کس آئڈیے سے کیا جائے؟ آخر کار کئی گھنٹے کی سوچ بچار کے بعد ہم نے ایک شارٹ فکشن اسٹوری کا تانہ بانہ ترتیب دے لیا۔ یہ ایک جن زادے کی آپ بیتی تھی جو انسانی شکل وصورت میں آکر اپنی یادداشت کھو بیٹھتا ہے۔ اسٹوری کا خاکہ ترتیب دے کر ہم نے اپنے نام کے متعلق سوچا، بلند بخت….. جب کسی اینگل سے بھی ہمیں اس نام میں ایک ادیب نظر نہیں آیا تو ہم نے اچھی طرح سوچ سمجھ کر آفاق بزمی کے نام سے قلمی سفر شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور اسی رات خدا کا نام لے کر اپنی پہلی تخلیق کا آغاز بھی کر دیا ۔

 آئندہ ماہ ہماری پہلی اسٹوری شائع ہوئی۔ رائلٹی کے ساتھ ہی مدیر کی طرف سے پسندیدگی کا خط بھی موصول ہوا۔ اس تعریفی خط نے ہمارے حو صلے اور ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز لگادی۔ اور ہم نے با قاعدہ نثر نگاری کا تہیہ کر لیا۔ ہمارے اس تخلیقی آغاز کے ساتھ ہی ہماری تباہی کا آغاز بھی ہو گیا۔

جس روز آفاق بزمی صاحب کو مدیر کا خط موصول ہوا یہ اس سے اگلے روز کا واقعہ ہے۔  معمول کے مطابق ہم چھنو دھنو (ہماری دو بکریاں) اور رجو (بھینس) کے ہمراہ برگد والے جوہڑ کی طرف چہل قدمی کرنے کی غرض سے نکلے ہوئے تھے۔ دراصل اس روزانہ کی واک سے ہماری سہیلیوں کی طبیعت بھی ٹھیک رہتی تھی۔ اور وہ اپنی اپنی پسند کی خوراک بھی خود ہی ڈھونڈ لیتی تھیں۔

 واپسی پر ہم نے انہیں صحن کے مخصوص حصوں میں باندھا اور خود اپنے کمرے میں آگئے ۔ مسہری کے قریب پہنچتے ہی ہم ٹھٹھک کر رک گئے ۔ وجہ وہ سفید لفافہ تھا جو ہمارے تکیے پر استراحت فرمائے ہوئے تھا۔ اس پر سبز رنگ سے موٹا موٹا "منتظر کرم آفاق بزمی” لکھا ہوا ہمیں واضح دکھائی دے رہا تھا۔ ایک لحظہ میں ہمارے مغز ناتواں نے سینکڑوں نکات کی تفتیش و تحقیق کرتے ہوئے یہ رپورٹ بھی پیش کردی کہ کچھ دیر قبل ہماری عدم موجودگی میں کسی انسان شریر کی کوئی اولاد بد اختر یہ کاروائی فرما کر یہاں سے فرار ہوئی ہے۔

ہم نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے آگے بڑھ کر وہ لفافہ اٹھایا اور مسہری پر نیم دراز ہوتے ہوئے اسے کھول لیا۔ لفافے سے برآمد ہونے والا سفید ملائم کاغذ تقریباً ڈھائی فیٹ لمبا تھا لیکن اس پر درج تحریر صرف ڈھائی جملوں پر مشتمل تھی۔

 دو ڈھائی جملے پڑھنے کے بعد ہم نے کچھ دیر فیاض لدھڑ کے متعلق سوچا۔ مگر فیاض نام کا کوئی مہربان ہمارے جان کاروں میں نہیں پایا جاتا تھا اور پھر لدھڑ….  بڑا عجیب تخلص تھا۔ ہماری معلومات کے مطابق تو لدھڑ ایک بھدی سمندری مخلوق کا نام تھا۔ ان حضرت نے جانے کیا سوچ کر اپنا نام فیاض لدھڑ رکھا ہوگا اور پھر ان کا طریقہ واردات…. بہرحال ہم نے زیادہ سر نہیں کھپایا۔ با صلاحیت لوگوں کے بڑے بڑے جنونی مداح بھی ہوا کرتے ہیں۔ اور ابھی تو ابتدا تھی، آگے ناجانے کتنے سر پھرے ہمارے مداح بننے والے تھے۔

ہم نے یہ سوچ کر اپنے کرلاتے ذہن سے فیاض لدھڑ کو جھٹک دیا۔ ویسے بھی ہمارا ذہن فوری طور پر اہرامیات میں الجھ گیا تھا۔ کیونکہ ایک طویل عرصہ ہم خود ذہنی طور پر اہراموں کے سحر میں جکڑے رہے تھے۔ اور ان کی تعمیر کے اسرار سمجھنے کے لیے نجانے ہم نے کہاں کہاں سوچوں کو بھٹکایا تھا۔ اور ان کی ترکیب تعمیر کے متعلق کئی ایک مدلل نظریات بھی قائم کیے تھے۔

اب لدھڑ صاحب نے ہمیں دوسری کہانی کا آئیڈیا دے دیا تھا۔ آینده ماه ہماری دوسری کہانی "اسرارِ ہرم“ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ جس میں ہم نے اپنے اس نظریے کو تفصیلا پیش کیا کہ اہراموں کی تعمیر میں انسانوں کا نہیں بلکہ جنات کا عمل دخل ہے۔ جناتی فن تعمیر کے حوالے سے ہم نے مسجد اقصیٰ کا ٹچ بھی دیا۔ کہ حضرت سلمان نے کس طرح جنات سے وہ مسجد تعمیر کرائی تھی ۔

گزشتہ بار کی طرح اس دفعہ بھی ہمیں میگزین کی اعزازی کاپی اور رائلٹی موصول ہوئی۔ اور اس سے اگلے روز جب ہم واک سے واپس آئے تو تکیے پر ایک لفافہ  ہمارا منتظر تھا۔ اس بار لفافے اور کاغذ کا رنگ زرد تھا اور عبارت کچھ اس طرح تھی۔

اس گستاخانہ انداز تخاطب پر ہمارے پیٹ میں کافی مروڑ اٹھے مگر ماسوائے ضبط کے کوئی چارہ نہ تھا۔ لدھڑ صاحب کے متعلق خاصی قیاس آرائیوں کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہو نہ ہو یہ اس خبیث نجمی کی شرارت ہے۔ صرف وہی جانتا ہے کہ ہم نثر نگاری کا آغاز کر چکے ہیں۔ ہمارے معمولات سے بھی وہ بخوبی واقف ہے سو جب ہم واک کے لیے نکلتے ہیں وہ کمینہ دیوار پھاند کر لفافہ یہاں رکھ جاتا ہے۔ ہم نے بیٹھے بیٹھے اسے کئی ایک زنانہ القابات سے نوازا اور خط پھاڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔

 ہماری تیسری کہانی کا موضوع ایک ایسا  "دہرا قتل” تھا۔ جس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ کیونکہ قاتل کوئی انسان نہیں بلکہ ایک جن ہوتا ہے۔ توقع کے عین مطابق مخصوص دن، مخصوص وقت اور مخصوص مقام پر ہم نے لفافہ موجود پایا۔ اس بار کاغذ سرخ تھا اور تو اور اس دفعہ لفافے کے اوپر ہمارا اصل نام درج تھا۔ بلند بخت ” ہم نے کاغذ نکالا اور پڑھنے لگے۔

 مضمون میں بھی اس بار ہمیں باقاعدہ نام سے مخاطب کیا گیا تھا۔

"تیرے لدھڑ خانے کی ایسی کی تیسی” مضمون پڑھتے ہی ہمارے تو تن بدن میں آگ نہیں لگ گئی۔ ہم نے جوتا اتارا اور اس کاغذ کے ٹکڑے کو ہی لدھڑ تصور کر لیا۔

جو منہ میں آیا کہتے گئے۔ کاغذ پھٹ گیا، سانس پھول گئی مگر ہمارا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ آخر ہم نے لدھڑ کا وہ زخم زخم لاشہ اٹھایا اور لے جا کر گوبر میں دفن کر دیا۔ تب کہیں جا کر قدرے سکون ہوا۔

 دو روز تک ذہن اس قدر پراگندہ رہا کہ کچھ سوجھا ہی نہیں۔ آخر تیسرے روز ہم نے چوتھی کہانی کا آغاز کر دیا۔ اس میں ہم نے ایک آسیب زدہ عمارت کو موضوع بنایا۔ اس عمارت میں جنات کا ایک پورا خاندان آباد ہوتا ہے۔ وہ خاندان کسی انسانی خاندان یا انسان کو اس عمارت میں دو چار دن سے زیادہ ٹھہرنے نہیں دیتا۔ کہانی شائع ہونا تھی سو ہو گئی۔ البتہ اس دفعہ ہم نے پختہ ارادہ کر رکھا تھا کہ اس بار نجمی کو رنگے ہاتھوں پکڑیں گے۔ اور وہ خاطر تواضع کریں گے کہ وہ جہنمی ہمیشہ یاد رکھے گا۔  سو مخصوص اوقات میں ہم نے گھر کے باہر تالا ڈالا اور خود گھر کے اندر ہی دبک رہے۔

وقت گزرتا گیا مگر اس روز نجمی نہیں پہنچا۔ انتظار کی شدت نے ہمیں اتنا مضطرب کیا کہ ہمارے معدے میں اینٹھن ہونے لگی لہذا فیصلہ کیا کہ چائے کا اہتمام کر لیا جائے۔ چائے تیار کرنے کا تمام سامان کمرے میں ہی موجود تھا۔ البتہ دودھ کا بندو بست کرنا تھا۔ اور یہ کوئی پریشانی والی بات نہ تھی ۔ گھر کی کھیتی والا معاملہ تھا۔ سامنے ہی صحن میں بکریاں بندھی ہوئی تھیں۔ ہم نے دیگچی اٹھائی اور دودھ  دوہنے باہر نکل آئے۔

دودھ دوہنے کے دوران ہمارا ذہن نجمی کے متعلق سوچتا رہا۔ ممکن ہے کسی ضروری کام میں پھنس گیا ہو ، بھول گیا ہو۔ اس مذاق سے اس کا دل بھر گیا ہو۔ یا اسے کسی طرح معلوم ہو گیا ہو کہ آج ہم گھر میں اس کی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو اس بات کا ہمیں یقین ہو گیا کہ آج نجمی نہیں آئے گا۔ زیادہ سے زیادہ پانچ یا سات منٹ صرف ہوئے ہوں گے ہم دودھ کی دیگچی اٹھائے کمرے میں واپس آگئے۔

اس روز ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ ایک "کرنٹ” ایسا بھی ہوتا ہے۔ جو بجلی کے تار سے تو نہیں لگتا لیکن ہوتا بہت جان لیوا ہے۔ وہ کرنٹ آنکھوں کے رستے ہمارے وجود میں اترا اور ہمارے تن من کو جھنجوڑ گیا۔ دیگچی نے ہمارے ہاتھوں سے چھلانگ لگائی اور دائیں پیر کے انگوٹھے پر سجدہ ریز ہوگئی۔

بلبلا ہی تو اٹھے تھے ہم…..  مگر ہماری آنکھیں تکیے پر پڑے زرد لفافے سے چمٹی رہیں۔ ذہن نے ایک لمحے میں حتمی رپورٹ پیش کر دی۔ پانچ منٹ قبل یہاں کسی لفافے کا نام ونشان نہیں تھا۔  میں کمرے کے سامنے ہی بیٹھا دودھ دوہ رہا تھا۔ کمرے میں تو کیا پورے گھر میں باہر سے کوئی پرندہ تک نہیں آیا پھر یہ لفافہ ؟

“ یہ ما فوق الانسان کا رروائی ہے۔” دماغ میں ایک ساتھ کئی الارم چیخ اٹھے ۔ ہم نے لاشعوری طور پر پورے کمرے میں نظر دوڑائی۔ اور آگے بڑھ کر حیرت و بے یقینی سے وہ لفافہ اٹھا لیا۔ وہی زرد رنگ لفافہ اور زرد رنگ کاغذ البتہ اس بار تحریر گہرے سرخ رنگ کی تھی۔

 مضمون پڑھتے ہی ہمارے کلیجے میں آتشیں بھانپڑ جل اٹھے۔  "موا کمینہ جہنمی لدھڑ، ذرا میرے سامنے تو آ… تیرے ہاتھوں پہ فالج گرے۔  تجھے دو دو منہ والے کیڑے پڑیں۔  ذلیل وخوار ہو کر تو مرے، تیرے ہوتے سوتے مریں۔ ” ہم نے چیخ چیخ کر اسے گالیاں دینا شروع کر دیں۔ کافی دیر تک یونہی بے نتیجہ چیختے رہے۔ چلاتے رہے اور جب تھک گئے تو مسہری پر لم لیٹ ہو کر لفافے کے متعلق سنجیدگی سے سوچنے لگے۔

گو کہ ہم لفافے کی اس انہونے انداز میں موجودگی کے متعلق کوئی بھی عقلی جواز تلاش نہ کر پائے۔ اس کے باوجود اس واقعے کوکسی غیر انسانی مخلوق سے منسوب کرنے کو ہرگز تیار نہیں تھے۔ حالانکہ ہمارا لاشعور اپنا پورا زور لگائے ہوئے تھا کہ ہم شعوری طور پر اسے جناتی کارروائی تسلیم کرلیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم جنات کے وجود پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ذرا ذرا سی  بات ان سے نتھی کرنا شروع کر دیں۔ اور پھر جنات کیا اتنے ہی فارغ البال ہیں کہ اس طرح کی گھٹیا اور فضول حرکتیں کرتے پھریں۔ انہیں کوئی اور کام نہیں ہوتا کیا؟

 ہم سوچتے رہے، الجھتے رہے مگر کسی خاطر خواہ نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ وقت گزرتا گیا مگر یہ واقعہ ہمارے لیے ایک معمہ بن کر رہ گیا۔ اور ہم نے "لدھڑ نامہ” لکھ ڈالا۔ اس کہانی میں ہم نے ایک ایسی دوشیزہ کو مرکزی کردار بنایا جس پر ایک لچر قسم کا جن عاشق ہو جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ تھی کہ اس بار کہانی میں جن کا کردار ہم نے شعوری طور پر ڈالا تھا۔ اور اس کا نام بھی مکمل سوچ بچار کے بعد ” فیاض لدھڑ” رکھا۔ اور پھر ایک صاحبِ کرامت بزرگ کے ہاتھوں لدھڑ کی وہ مٹی پلید کروائی کہ بس۔ اپنے اندر کا سارا غبار نکال ڈالا تھا ہم نے۔

 جس روز ہمیں میگزین کی کاپی موصول ہوئی۔ ہم نے کتنی بار اپنی وہ کہانی پڑھی۔ ہر بار لدھڑ کی ذلالت و خواری والے پیراگراف پڑھتے ہوئے ہمیں تازہ قلبی تسکین کا احساس ہوتا رہا۔

یہ اسی روز شام کا واقع ہے۔ طبیعت نہایت بشاش تھی ۔ارضِ تخیل ان چند ماہ میں اچھی خاصی زرخیز ہو چکی تھی۔ لہذا ہم کمرے میں اپنی تین پائے والی رائٹنگ ٹیبل پر کاغذات کا پلندہ پھیلائے، چھٹی کہانی کا تانا بانا ترتیب دینے میں محو تھے۔ کہ ہمیں بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ زنجیر تو ہم عموماً چڑھاتے ہی نہیں تھے ۔ آنے جانے والے ارد گرد کے مفتی و محتسب قسم کے چند مخصوص افراد ہوتے تھے۔ جو کچھ دیر ہمیں دانش و حکمت کے جام پلانے کے بعد دال فے عین ہو جایا کرتے تھے۔ سو اس روز بھی ہم نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ البتہ یہ ارادہ کرلیا کہ کوئی بھی ہو آج عدم کا یہ شعر سنا کر چلتا کریں گے

کیونکہ آج ہم اپنے مزاج کی حلاوت میں کسی قسم کے پند و نصائح کی کڑواہٹ برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ ہم نے بن بلائے مہمان کو نظر انداز کرنے کی غرض سے قلم اٹھایا اور ٹیبل پر جھک کر بلا مقصد کاغذ پر یونہی بے معنی جملے لکھنا شروع کر دیے۔ آنے والا کمرے کے دروازے پر پہنچ آیا مگر ہم نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

اس کو شاید ہماری یہ شانِ بے نیازی کچھ زیادہ ہی گراں گزری جو اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب ٹائپ کی چیز ہمارے سامنے ٹیبل پر کھینچ ماری۔ اس بد تہذ یبانہ حرکت پر ہماری کھوپڑی میں کوڈیالا ناگ پھنکار اٹھا۔ ارادہ تو تھا کہ سارا لحاظ بالائے طاق رکھ کر آنے والے کی شان میں رنگین قسم کی قصیدہ گوئی شروع کر دیں۔ مگر جب ہماری نظر اس مہمان پر پڑی تو خود بخود ہماری زبان کو بریک لگ گئے ۔

وہ صورت، وہ وجود تو ہمارے لیے قطعی نا آشنا تھا۔ اوپر سے موصوف کا حلیہ بھی ایسا کلاسیکل ٹائپ کا تھا کہ فوری طور پر ہمارے تاثرات میں تبدیلی واقع ہوئی۔ ہمارے غصے اور ناگواری کی جگہ حیرت و استعجاب نے لے لی۔ پیروں میں مغل شاہی کھسہ، چوڑی دار سفید پاجامہ، کشتی نما سفید ٹوپی، ٹھوڑی پر پہاڑی بکرے جیسی نوک دار خشخشی داڑھی۔ ہونٹوں پر پان کی سرخی۔ دائیں ہاتھ کی چاروں انگلیوں میں چاندی کی انگوٹھیاں۔ آنکھیں قدرتی طور پر اتنی سیاہ تھیں کہ ان میں سرمہ یا کاجل کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

عمر کے لحاظ سے حضرت چالیس پینتالیس کے پیٹے میں رہے ہوں گے۔ البتہ صحت کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ مناسب الفاظ میں وضاحت مشکل ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ قادر مطلق نے اپنی قدرت سے وہ پاجامہ اور شیروانی اس بانس پر چڑھا دیئے تھے۔ اس پر چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا قد اعلا حضرت کو مزید بانس ثابت کرنے میں معاون محسوس ہوتا تھا۔

اس بے نظیر نظارے نے ہمارے داخلی موسم میں تغییرو تبدل کے ہزار ہا طوفان بیدار کر دیے۔ ہمیں یوں لگا جیسے ہم ایک ڈیڑھ صدی پہلے کے کسی لکھنوی بالا خانے میں پہنچ گئے ہوں۔ قریب تھا کہ ہمارے پہلو میں کوئی منی بائی یا حجاب بائی غزل سرا بھی ہو جاتی کہ ان کی نوکیلی اور تیز آواز نے فضا میں تیرتا ہوا سارا طلسم چھلنی کر کے رکھ دیا۔ ِ”یہ کیا بیہودگی ہے؟”

 حضرت کے اشارے پر ہم نے ٹیبل کی جانب دیکھا۔ وہ کتاب ٹائپ کی چیز جو انہوں نے پھینکی تھی،  وہ اسی ماہ کا میگزین تھا۔ جس میں ہمارا لدھڑ نامہ شائع ہو ا تھا۔ ہم نے ان کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک شعر ان کے منہ پر دے مارا۔

"اس بکواس کا کیا مطلب ہوا؟” وہ بزرگ دونوں ہاتھ کولہوں پر ٹکا کر نتھنے پھیلاتے ہوئے بولے۔

"اس بے حجابانہ آمد اور بے باکانہ حرکت کے بعد بھی آپ ہم سے مطلب طلب فرما ر ہے ہیں۔ کیا آپ کو تمیز و تہذیب سے اتنی بھی آشنائی نہیں کہ کسی کے دولت خانے پر کس طرح حاضر ہوا کرتے ہیں؟”

” اچھا تو اب ہمیں تمیز و تہذیب کا درس بھی تم… یعنی تم دو گے؟”

"اگر آپ کی عمر اور صحت کا خیال نہیں ہوتا تو اب تک دو چار درس تو ہم آپ کی گدی شریف پر نقش فرما چکے ہوتے ۔“

"حصارِ ادب میں رہو نا ہنجار!  تم جانتے نہیں ہم کون ہیں۔”

 "بانکے میاں! حلیے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آثار قدیمہ والوں نے آپ کو ڈیڑھ صدی قبل کے کسی لکھنوی بالا خانے کے کھنڈرات سے دریافت کیا ہے۔ اب یہ آپ بتا دیں کہ آپ اس بالا خانے کی کسی بائی کے عاشقِ  صادق ہیں۔ یا بزنس ایجنٹ ؟” ہماری قیاس آرائی پر بانکے میاں کے وجودِ برائے نام میں دوڑتا چلو بھر لہو ان کےچہرے میں سمٹ آیا اور وہ ایک قدم کمرے کے اندر آ کرحلق کے بل چیخ اٹھے۔

 "اپنی زبانِ نامناسب کولگام دو برخوردار! کہیں ایسانہ ہو کہ ہمارا پاپوش تمہارے سرِ ناپاک کی زینت ہو جائے۔“ بے اختیار ہم نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے کیونکہ محسوس یہی ہوا تھا کہ سماعت کے پردوں میں سوراخ ہو جا ئیں گئے ۔ کمرے میں چھت کے قریب چاروں دیواروں پر بنے شیڈز پر جو گلاس پلیٹیں قطار در قطار سجائی گئی تھیں۔ ایک دفعہ تو وہ بھی کپکپا کر رہ گئی تھیں۔ اس چنگھاڑ کی بازگشت نے دم تو ڑا تو بالکل بلا ارادہ ہی زبان سے ایک شعر پھسل پڑا۔

"بند کرو یہ زاژ خائی۔ ”  گلاس پھر تھرا اٹھے۔

” بانکے میاں! آہستہ” ہم نے کانوں سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔ "ذرا آہستہ۔ کیوں ہمارے کانوں میں سوراخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں آپ "

” ہمارا نام بانکے میاں نہیں ہے۔”

"توکلن میاں ہوگا ۔”

"دریدہ دہن تم! ” بزرگ مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے۔

"ٹھیک ہے پھر بنے میاں ہو گا۔ ؟” بزرگ تلملا اٹھے انہوں نے اضطراری انداز میں ادھر ادھر دیکھا اور دروازے کے ساتھ پڑی اینٹ اٹھالی۔ ہم بوکھلا کر چپل سمیت مسہری پر سوار ہو گئے۔ اس نا گہانی صورت حال میں اور تو کچھ سوجھا نہیں۔ ہم نے تکیا اٹھا کر ڈھال کی صورت سامنے کر لیا۔

"ارے حضرت، قبلہ! دیکھیے ہم… ہماری بات تو سنیے۔  اب… اب ہمیں کیا خبر کہ آپ کا اسم ِمبارک کیا ہے۔”  ہماری گھبراہٹ حقیقی تھی۔ اور کیسے نہیں ہوتی۔  وہ کارٹون ڈھائی کلو کی اینٹ اٹھائے کھڑا تھا۔ ڈھائی کلو …. جو آئن اسٹائن کی مساوات E-mc2 کے مطابق ستاون ہزار ملین کلوواٹ کی طاقت تھی۔  اب اگر وہ ہماری کھوپڑی کی مزاج پرسی کر جاتی تو آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارا کیا حال بلکہ حالت ہوتی۔

"اب اپنے دہن سے کوئی رقیق جملہ آزاد کرو تو "

"قبلہ ! آپ تو جذباتی ہی ہو گئے ۔ میں تو یونہی ذرا حسنِ ظرافت کا مظاہرہ کر رہا تھا۔“ اس کارٹون کے تاثرات نرم پڑتے دیکھ کر ہماری جان میں کچھ جان آئی۔ "حضرت! آپ کھڑے کیوں ہیں؟ ادھر  آ کر بیٹھے نا۔”  ہم نے ٹیبل کے اس طرف دیوار کے ساتھ بچھی دوسری مسہری کی طرف اشارہ کیا۔

"ہوں … اب تمہارے مزاج شریف مقامِ  درست پرتشریف فرما ہوئے ہیں۔” وہ آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولا اور آگے بڑھ کر دوسری مسہری پر بیٹھ گیا۔ خبیث نے اینٹ بھی اپنے ساتھ ہی مسہری پر بٹھا لی تھی۔

"میاں! اب ہمارے گوش گزار کرو کہ یہ کیا بیہودگی ہے۔” اس نے ٹیبل پر پڑے میگزین کی طرف اشارہ کیا۔

"حضرت اسے میگزین کہتے ہیں۔” ہم نے سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔

"یہ ہم بھی جانتے ہیں۔” وہ ناگواری سے بولا۔

"پھر مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟”

"اس کے اندر کیا لکھا ہے؟”

 ” بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔”

” جاہل ! کوڑھ مغز انسان ! تم نے کیا لکھا ہے۔“

"لدھڑ نامہ۔” اس کارٹون کی آنکھوں میں لاوا ابلتا دیکھ کر ہم نے فوراً وضاحت کی۔ "مم۔۔۔۔میرا مطلب ہے کہانی لکھی ہے۔”

 ” کیوں لکھی ہے؟”

"کمال ہے بھئی! میری مرضی کا معاملہ ہے یہ۔  میں کچھ بھی کروں، کچھ بھی لکھوں آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے یوں باز پرس کرنے والے۔ "

"یہ صرف تمہاری مرضی کا معاملہ نہیں ہے۔” وہ آنکھیں نکال کر بولا ۔ "دوسروں کی عزت وقار کا معاملہ بھی ہے یہ… کسی معصوم کے کنول رنگ نوخیز جذبوں کا جنازہ ہو کرہ جائے۔ گلِ احساس پورے بانکپن تک کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جائے تو معاملہ فقط تمہاری ذات شریف تک نہیں رہ جاتا۔ اس میں کچھ مزید زندگیوں اور مرضیوں کا سوال بھی آجاتا ہے۔ سمجھے تم! "

"قبلہ!  میں واقعی نہیں سمجھ سکا۔ بھلا میرے افسانہ یا کہانی تحریر کرنے سے کسی کی فصل کیوں مرجھانے لگی۔ کیوں اس کا جنازہ ہونے لگا ؟“

"کوئی ایک نہیں، ہماری جذباتی دنیا میں آج ایک ساتھ کئی جنازے اٹھے ہیں۔ تمہاری وجہ سے آج ہماری عزت کی درگت ہوئی ہے ۔ ہمارے وقار کا اقبال تہہ خاک ہو کر رہ گیا۔ تمہاری اور تمہاری ان خرافات کی وجہ سے جنہیں تم کہانیاں سمجھ کر تحریر کرتے ہو۔”

"میرا خیال ہے کہ حضور کوضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ یقینا آپ کے ساتھ یہ سب آپ کی اپنی ہی کسی حرکت کے سبب پیش آیا ہوگا ۔”

” ہماری حرکت،، وہ جیسے پھٹ پڑا۔ "یہ بے ہودہ کہانیاں کیا ہماری حرکت ہیں۔ جنات پر یہ گھٹیا قسم کی داستان طرازیاں کیا ہم فرمارہے ہیں… اور یہ تمہاری تازہ ترین کمینگی۔” اس نے ہمارے سامنے ٹیبل پر پڑے میگزین کی طرف اشارہ کیا۔ "کیا  یہ بھی ہماری حرکت ہے۔”

تازه ترین کمینگی۔ والی بات پر ہم بس تلملا کر رہ گئےتھے۔” ٹھیک ہے یہ میری حرکت ہے۔  آپ کو اس سے کیا؟ آپ کیوں خوامخواہ میں انگارے چباتے پھر رہے ہیں۔” ہم نے اپنے لہجے کی سختی کو دبانے کی ناکام سعی کرتے ہوئے کہا۔

"انتہائی ڈھیٹ اور واہیات قسم کے انسان ہو تم۔ دوسروں پر کیچڑ اچھالتے، انہیں بدنام کرنے پر ایک ذرا بھی احساس ندامت نہیں تمہیں۔”

 ” کمال ہے! میں نے آپ کی شان میں ایسی کیا گستاخی کر دی جو آپ اس قدر تکلیف میں مبتلا ہیں کہ کچھ بھی کہے جارہے ہیں۔”

"لدھڑ نامے کے نام سے پورا گستاخیانہ لکھنے کے بعدبھی تم یہ پوچھ رہے ہو کہ تم نے کیا گستاخی کی ہے! یعنی، یعنی کہ تمہاری اس معصومیت پر آفرین ہے۔” اس نےدانت کچکچائے۔ ہمارے ذہن میں ایک جھما کا سا ہوا ۔ عزت کی درگت۔ بے ہودہ کہانیاں، جنات پر بہتان، لدھڑ نامہ، گستاخیانہ۔ ہر کہانی پر ملنے والا دھمکی آمیز خط، اور… اور اب اس عجیب و غریب چیز کی یوں آمد…  اس نے کس طرح آتے ہی ہمارے لدھڑ نامے والے میگزین کی کاپی پھینک کر ماری تھی؟ تو…… تو گویا وہ…… ایک انکشاف انگیز خیال جیسے ہمیں ساری حقیقت حال سے آگاہ کر گیا۔

"آپ نے ابھی تک اپنے تعارف سے نہیں نوازا ۔ کم از کم اپنے اسم ِمبارک سے تو آگاہ فرما دیجیے۔” گویا ہم نے اس سے اپنے اندازے کی تصدیق چاہی تھی۔

"ہمارا نام تعارف تو تمہیں پہلے سے حاصل ہے۔ جبھی تو اتنی تفصیل اور یقین سے ہمارے متعلق تم نے قلمی موشگافیاں فرمائی ہیں؟”

” یعنی ، یعنی آپ……”

” ہاں!ہم ہی ہیں تمہارے ابا حضور… فیاض لدھڑ” اس نے زہر خند سے کہا تو ہمارے دماغ میں ایک ساتھ کئی قمقمے جگمگا اٹھے۔ فیاض لدھڑ کے تمام خطوط ہماری نگاہوں کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ تمام الفاظ اور تمام بے ہودہ القابات جن سے ہمیں نوازا گیا تھا، اچانک ہی نغمہ سرا ہو گئے۔ یکا یک ہمارے وجود میں دوڑتے ہوئے خون میں جیسے سونامی کے آثار بیدار ہونے لگے تھے۔

ہم نے از سر نو اس کارٹون کا بغور جائزہ لیا۔ یہ یقین تو ہمیں پہلے ہی سے تھا کہ اس واہیات مذاق کے پیچھے ضرور کوئی گھٹیا قسم کا انسان چھپا ہوا ہے۔ اب اس نمونے کو بغور دیکھتے ہوئے ہمیں یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ یہ شخص گھٹیا مزاج کے ساتھ ساتھ دماغ بھی مجنونانہ رکھتا ہے۔  ہمارے دل و دماغ میں شدت سے اس کی مزاج پرسی کی خواہش ابھری۔ نزدیک تھا کہ ہم جھپٹ کر اس کی مہین سی گردن دبوچ ہی لیتے کہ یکبارگی ہماری نظر اس کےدائیں طرف مسہری پر تشریف فرما اس اینٹ پر جا پڑی جس پر کہ وہ کمینہ ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔

"محترم ! چند لمحات کے ادھار پر آپ یہ مقدس اینٹ مجھے مرحمت فرما ئیں گے ۔” ہم نے اپنے خون میں اٹھتے ابال پر قابو پاتے ہوئے لجاجت سےکام لیا۔

"کس لیے ؟” اس نے آنکھیں نکالیں۔

"یہ آپ کے مبارک ہاتھوں کے لمس سے فیض یاب ہوئی ہے۔ میں اس مقدس اینٹ کو بوسہ دینے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔“

"بکومت۔ ہمیں تمہاری غلیظ کھوپڑی میں رقص فرما شیطانی خیالات کی بخوبی خبر ہے۔ تمہارے تخریب کارانہ عزائم کو ہم خوب سمجھ رہے ہیں۔”

” لیکن حضور! میرے دل میں اچانک ہی یہ آرزو شدت سے مچل اٹھی ہے کہ میں آپ کے ذخیرہ سمجھ دانی میں کچھ مزید اضافے کی کوشش کروں۔ آپ کے خطوط نے کب سے میرے اندر آپ سے ملاقات کی آتش ِشوق کو بھڑ کا رکھا ہے۔ میں آپ کی زیارت کے لیے کیسی شدت سے بے قرار رہا ہوں۔ آپ اس کا تصور بھی نہیں فرما سکتے۔ نہ ہی ایسے پر تکلف ماحول میں بیٹھ کر محض زبان سے ان تمام بے قراریوں کا کامل اور موزوں اظہار کر پانا میں اپنے لیے ممکن سمجھتا ہوں۔“

"شکر کرو کہ تم یہ سب محسوس کرنے کے لیے ابھی تک زندہ سلامت ہو۔  ہمارا بس چلتا تو اب تک تمہیں جہنم واصل کر چکے ہوتے۔  بار بار خط کے ذریعے تمہیں سمجھایا، منع کیا، مگر مجال ہے جو رتی برابر بھی حیا آئی ہو تمہیں۔ بھئی حد ہوتی ہے ڈھٹائی اور جہالت کی بھی۔ آخر کیا سوچ کر تم یہ سب بکواس سپرد قرطاس کرتے آرہے ہو۔ اور تو اور سیدھا ہم ہی کو نشانہ بنالیا۔   ہماری کردار کشی کے شوق میں لدھڑ نامہ لکھ ڈالا… تم ہمارے یا ہمارے ہم جنسوں کے متعلق جانتے ہی کیا ہو جو یوں ہم لوگوں کو ذلیل ورسوا کرنے پر کمربستہ ہوئے کھڑے ہو۔”

یقینا وہ جوکر ہمیں اپنے متعلق خاندان جنات میں سے ہونے کا یقین دلانے کی احمقانہ کوشش کر رہا تھا۔ اور ہم اینٹ شریف جی کی وجہ سے اپنی جگہ تشریف جمائے اسے اور اس کی بکواس کو برداشت کرتے رہنے پر مجبور ہوئے بیٹھے تھے۔

"آپ کی باتوں سے تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ خاصے خوددار اور غیور قسم کے جن زاد ہیں۔ لیکن آپ کے عمل سے اس بات کی نفی ظاہر ہوتی ہے۔ آپ جن ہو کر ایک معمولی انسان سے خوفزدہ ہیں۔ اس کے مقابل اپنے تحفظ کی غرض سے ایک اینٹ پر بھروسہ فرما ر ہے ہیں۔ اس طرح آپ از خود اپنی برادری کے جاہ و چشم اور ان کے قوت واختیار کی توہین فرما رہے ہیں۔ در حقیقت آپ جیسے کمزور ، کم ہمت اور بزدل جن ہی قوم ِجنات کی ذلالت و رسوائی کے ذمہ دار ہیں۔”

"اپنی زبانِ ملعون کو لگام میں رکھو۔ ہمیں انسانوں کے درمیان آتے ہوئے یہ حلف اٹھانا پڑتا ہے کہ ہم اپنی جناتی طاقت سے کسی انسان کو جانی نقصان نہیں پہنچا ئیں گئے۔ وگرنہ تو اب تک ہم تمہاری گردن مروڑ چکے ہوتے ۔ ہماری اس قسم کو ہماری مجبوری خیال مت کرو۔”

 ہم فورا تن کر سیدھے ہو بیٹھے۔ "یعنی آپ ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتے۔” ہمارا ارادہ اس پر جھپٹنے کا تھا۔ لیکن اس کمینے نے شاید ہماری نیت بھانپ لی۔ جو فوراً اینٹ ہاتھ میں اٹھائی لی تھی۔

"صرف اپنی جناتی طاقت سے نہیں البتہ اس اینٹ سے ہم ضرور تمہاری مزاج پرسی کر سکتے ہیں مردود۔ ” ہمارے اعصاب فورا ہی ڈھیلے پڑگئے۔ اس کی آنکھوں میں رقصاں مجنونانہ چمک اس بات کی غماز تھی کہ وہ اپنے کہے پر عمل بھی کر سکتا ہے۔

"دیکھیے، آپ مسلسل نا مناسب الفاظ کے استعمال سے میری عزت نفس مجروح فرمار ہے ہیں۔ جو کسی طور بھی ایک شریف جن زاد کو بالکل بھی زیب نہیں دیتا۔”

” اپنی عزت نفس کا تو بہت پاس ہے تمہیں اور دوسروں کی جیسے کوئی عزت ہی نہیں ۔ وہ تو پیدا ہی بے عزت ہوتے ہیں۔  ہے نا۔”

"میں نے ایسا کب عرض کیا ؟”

"گزشتہ اتنے ماہ سے اور کیا کر رہے ہو تم… قوم جنات کی مٹی پلید کر کے رکھ چھوڑی ہے تم نے۔ کبھی ان کو غلام مزدور بنا دیتے ہو۔ کبھی قبضہ گروپ کا اعزاز بخش کر خود ہی انہیں کسی عمارت میں ٹھونس دیتے ہو۔ کبھی کسی جن کی یادداشت گم ہو جاتی ہے۔ اور وہ انسانی معاشرے میں انتہائی فضول اور لچر قسم کی حرکتیں کرنے میں مگن ہو جاتا ہے۔ کبھی قاتل تو کبھی عاشق۔ چلو اگر عاشق ہو تو برداشت ہو بھی جائے۔ تم نے تو عاشق کے نام پر ایک جاہل گنوار اور بے حیا قسم کا غنڈہ بنا کر پیش کیا ہے فیاض لدھڑ کو۔”

اس کی سیاہ آنکھیں یکایک ہی ایک تپش سی دینے لگی تھیں۔ ” تمہاری اس واہیات تحریر کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عشق و عاشقی کی ذرہ بھی تمیز نہیں ہے تمہیں۔ اور تم ہو کہ داستانیں لکھنے لگے؟ اور یہ بھلا کوئی بات ہوئی کہ جن جب اور جس کے وجود میں چاہے حلول فرما جاتا ہے… کوئی وبائی مرض سمجھ کر رکھا ہے یا جراثیم… کوئی حد ہوتی ہے بہتان اٹھانے کی بھی۔ تم نے تو لگتا ہے جنات کو ایک بالکل ہی جاہل بے کار اور فارغ  قسم کی مخلوق تصور کر رکھا ہے۔  جسے انسانوں سے پنگے بازی کے سوا اور کوئی کام کاج ہی نہیں ہے۔

تمہاری کہانیوں میں جنات، جنات کم اور بندر زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔  یا پھر تہذیب و تمدن سے قطعی نا آشنا  وحشی قبائل سے تعلق رکھنے والے انسان ۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہم لوگ تم انسانوں جیسے نہیں ہیں۔ اور ہم نے اگر بذریعہ خط سمجھانے کی کوشش کی تو تم نے ہمی پر قلمی حملہ کر دیا۔ ذرا بھی شرم دامن گیر نہیں ہوئی وہ سب لکھتے ہوئے… اپنے اندر کی ساری کمینگی اور گھٹیا پن لدھڑنامے میں تم نے ہم سے منسوب کر ڈالا۔ کچھ اندازہ بھی ہے تمہیں کہ تمہاری اس بے ہودہ حرکت کی وجہ سے ہمارے کندھوں پر غم و اندوہ کا کیسا کوہ گراں آن پڑا ہے۔؟”

” چلیں اگر سوئے اتفاق کچھ آن بھی پڑا ہے تو سنبھال رکھیے… نہیں سنبھالنا چاہتے تو اپنے ناتواں کندھوں سے اتارپھینکیے۔ اتنا سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟” ہماری شان بے نیازی لدھڑ کو متاثر نہ کرسکی۔

” تم ایسا بک سکتے ہو۔ تم پر تو نہیں گزر رہی نا۔ ہم سے پوچھو۔  دنیا تو ہماری اجڑی ہے۔ جذبے تو ہمارے شہید ہوئے ہیں اور …. اور ہم یہ فیصلہ کر کے آئے ہیں کہ اس کا ازالہ بھی اب تمہی کرو گے۔ تمہاری وجہ سے ہمارا سارا معاملہ بگڑا ہے سو اب تم ہی اس بگاڑ کو سدھارو گے۔“

"کیا مطلب؟ کیسا بگاڑ ؟”

"تمہارے لدھڑ نامے کی وجہ سے ہماری زندگی،ہماری منگیتر سلیم ہم سے خفا ہوگئی ہے۔ تم نے اس کی نظروں میں ہمارا کردار مشکوک بنایا ہے۔ اس لیے اب تم ہی اس کی غلط فہمی دور کرو گے۔”

"محترم!  یہ سلیم صنف کرخت میں سے ہے یا صنف نازک میں سے؟“

” کمینے شخص! ہم نے فرمایا ہے کہ ہماری منگیتر ہے۔” اس نے نتھنے پھیلاتے ہوئے اینٹ اٹھا کر اپنے دائیں گھٹنے پر بٹھالی۔ "ہماری طرح اسے بھی مطالعے سے گہرا لگاؤ ہے۔ عموماً ہم کتب ورسائل کا آپس میں تبادلہ بھی کرتے ہیں۔ اسے تمہارا انداز تحریر پسند آیا تو اس نے تمہاری تحریر کو خاصا سراہا۔ ہماری سیاہ بختی کہ ہم اس سے کہہ بیٹھے کہ تم ہمارے دوست ہو۔ اس پر وہ ایک خوش گوار حیرت کا شکار ہوئی تھی۔ لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم تمہیں سمجھا دیں کہ جنات کے متعلق مت لکھو۔ کیونکہ تمہاری معلومات ناقص ہیں اور ہم نے تمہیں خط لکھ ڈالا مگر تم … تم تو کوئی مہان خبیث انسان ثابت ہوئے ۔ "

 اس نئے القاب پر ہمارے دماغ میں پھر سے مروڑ اٹھا تھا۔ لیکن ہم اینٹ کود یکھتے ہوئے ضبط کر گئے۔ وہ بک رہا تھا۔ "تم نے لدھڑنامے میں جس طرح ہماری شخصیت کو مسخ کر کے پیش کیا ہے۔ جس طرح ہماری کردار کشی کی ہے۔ اس سے سلیم ہماری جانب سے بدظن ہوگئی ہے۔ اسے شبہ ہوگیا ہے کہ ہم ایک بدکردار جن ہیں۔

ہم قومی نسلی اور اخلاقی اقدار سے بے بہرہ ہو چکے ہیں۔ جبھی ہمارے دوست نے یہ سب لکھا ہے۔ جب ہم نے اسے اپنے نجیب الطرفین اور صاحب کردار ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کی تو اس نے ہمارے رخسار پرطمانچہ رسید کر دیا۔ اور ہمیں سخت لہجے میں تنبیہ کیا کہ اگر آئندہ ہم نے اس سے ملنے کی کوشش کی تو وہ پوری جناتی جماعت اور امیر جماعت کو بتادے گی کہ ہم نے ایک انسان پر اپنی جناتی حیثیت ظاہر فرمادی ہے۔ جس کی ہم لوگوں کوسختی سے ممانعت ہوتی ہے۔

اس کی اس دھمکی سے ہم گھبرا گئے۔ متوقع سزا کے خوف سے نہیں۔ بلکہ اس خیال سے کہ ایسی صورت میں سلیم ہم سے ہمیشہ کےلئے چھن جاتی۔… دراصل ہمارے ہاں قومی اقدار اور قوانین کا بہت احترام فرمایا جاتا ہے۔ ہم سب کی نظروں میں نا قابل اعتبار اور غدار کی سی حیثیت اختیار کر جاتے۔ یہ سب تو چلو پھر بھی گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن سلیم کی ناراضی… اس کی جدائی ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ اس کے ہجراں میں تو ہم پاگل ہو جائیں گئے۔ مرجائیں گے ہم۔”

 لدھڑ جیسے بول نہیں بلکہ کراہ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر غم و یاس کے گہرے سائے اتر آئے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی بھی پل وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے گا۔ "یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ اس لیے اب تم ہی جاکر اس کی یہ غلط فہمی دور کرو گے۔ تم ہی اسے یقین دلاؤ گے کہ ہمارے کردار میں کوئی کمزوری، کوئی خرابی نہیں۔ اور ہم صرف اس کے خواب دیکھتے ہیں۔ ہماری دھڑکنیں اسی کے نام کی تسبیح کرتی ہیں اور وہی ہماری پہلی اور آخری محبت ہے۔”

لدھڑ کے لہجے میں گھلی بے قراریوں کو محسوس کرتے ہوئے ایک ذرا تو ہمارا دل بھی پسیجا تھا۔ مگر اس کی داخلی وخارجی حالت کی نسبت ہمیں اس کی بیان کردہ کہانی میں زیادہ دلچسپی محسوس ہوئی تھی۔ اس کا کرب و اضطراب اپنی جگہ لیکن ایک مصنف ہونے کی حیثیت سے ہماری نظر میں لدھڑ کی پریشانی یا مسئلے کے حل کی بجائے اس کی یہ غم ناک داستان ِعشق، زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ ایک ذراسی رنگ آمیزی سے اس کہانی کو مزید اثر انگیز بنایا جاسکتا تھا۔ ایک جناتی داستان عشق۔ یہ اچھوتا آئیڈیا،ہمارے قلمی سفر میں یقینا ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا تھا۔ ایک شاہکار تخلیق کی بنیاد بن سکتا تھا۔

"سمجھ شریف میں کچھ آیا یا نہیں۔” لدھڑ کے مخاطب کرنے پر ہمارے خیالات کا تانا بانا بکھر گیا۔ وہ مغموم نظروں سے ہم ہی کو گھور رہا تھا۔

"جی بالکل! میں صورت حال کی تمام نزاکتوں اور پےچیدگیوں کو بخوبی سمجھ رہا ہوں اور یہ طمانچے والا سین تو بہت ہی دل دوز اور جذبات انگیز ثابت ہوگا۔”

” کیا! تم …تم پھر کسی شیطانی کا سوچ رہے ہو۔؟”

”نہیں حضور ! شیطانی نہیں, مہربانی کہیے۔ آپ نے مجھے ایک اور دلچسپ کہانی سے نوازنے کی مہربانی فرمائی ہے۔ تو میں اس کہانی میں مزید اثر انگیزی پیدا کر کے آپ کی مہربانی کا جواب مہربانی ہی سے دوں گا۔“

”یعنی تم پھر سے کہانی لکھنے کا سوچ رہے ہو؟”

” ظاہر ہے, آپ خود ہی تو فرمارہے ہیں کہ میں سلیم صاحب… مم… میرا مطلب ہے آپ کی منگیتر سلیم کی غلط فہمی دور کروں۔ اسے آپ کے خلوص و محبت اور آپ کے بلند کردار ہونے کا یقین دلاؤں تو اس کے لیے ایک نئی کہانی تو مجھے لکھنی ہی ہوگی ۔ "

"خبردار! جو اب تم نے ایسی کسی منحوس جسارت کا خیال بھی کیا تو۔ پہلے ہی تمہاری خرافات کی بدولت ہماری دنیا اجڑ کر رہ گئی ہے اب مزید کیا گل کھلانا چاہتے ہو ۔“

”بالکل ہی بے فکر ہو جائیں جناب! اپنے اب تک کےتخلیقی تسلسل اور روائت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس بار میں آپ کی داستانِ عشق میں جذ بہ و احساس اور اخلاص ووفا کی رنگ آمیزی میں وہ سماں باندھوں گا کہ آپ کی سلیم بے خود ہو کر آپ تک کھنچی چلی آئے گی۔ کہانی نہیں ، سمجھیں کہ تعویز محبت لکھوں گا اس بار۔ سبھی ازالے ایک ساتھ ہو جائیں گے۔ اور دیکھ لیجے گا آپ دعائیں دیتے پھرو گے مجھے۔“

” بکو مت ” لدھڑ مطمئن ہونے کی بجائے الٹا بھڑک اٹھا۔ ”داستانِ عشق لکھو گے تم۔ جانتے ہیں ہم…  تمہارے عشق اور تمہارے تعویز محبت کے باعث تو آج یہ سب ہمیں برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ غنڈہ گردی کو تم عشق لکھتے ہو اور غنڈے بدمعاش کو عاشق۔ اب اگر تم نے ایسا کچھ رقم کرنے کی کوشش کی تو ہم تمہارے یہ نجس ہاتھ کچل ڈالیں گے۔“ لدھڑ نے غصے سے دانت کچکچائے تو اس کی نوکیلی داڑھی جیسے خوفزدہ ہو کر لرزنے لگی۔

”میں آپ کے جذبوں کو تحریر کروں گا۔ حقیقت کو لکھوں گا تو سلیم صاحبہ اصل صورت حال جان پائیں گی۔ اگر میں لکھوں گا ہی نہیں تو ان کی غلط فہمی بھلا کیسے دور ہوگی۔ کیسے حقیقت جان پائیں گی وہ ؟”

”اس کے لیے تم سلیم سے بالمشافہ ملاقات کرو گے۔ اس کے رو برو اپنی کمینگی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اس حقیقت سے آگاہ کرو گے کہ تمہارے لدھرنامے والے فیاض لدھڑ سے ہمارا قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اور یہ یقین دہانی بھی کہ ہم اس کے سوا کسی کا تصور بھی نہیں کر سکتے، کسی اور ماہ جبیں کو سوچ بھی نہیں سکتے ہم۔ "

”یہ کام تو کہانی کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے بلکہ کہانی کے ذریعے زیادہ وضاحت کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ پھر بھلا سلیم صاحبہ کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے۔“ ہمارے تمام جواز صرف اپنی نئی کہانی کے حق میں تھے۔

”ہمیں تمہاری نثری وضاحت در کار نہیں ہے۔ تم خود چل کر سلیم کے پاس جاؤ گے۔“

"کیا مطلب… کہاں؟”

”وہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتی ہے۔ سو کالج آتے جاتے وقت تم اس سے مل کر ساری حقیقت بتا سکتے“

”واہ ! یہ بھی خوب کہی آپ نے۔“ ہمارا لہجہ آپ ہی آپ زہر خند ہو گیا ؟  ” اچھا حل سوچا ہے آپ نے۔ اپنا اُلو سیدھا کرنے کے چکر میں آپ میری عافیت کو داؤ پر لگانا چاہتے ہیں۔ مجھے بیچ رستے سینڈل کھانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ سمجھے آپ۔”

”تو پھر کسی وقت اسے گھر جا کرمل لو۔ ہاؤسنگ کالونی والی جامع مسجد کی عقبی گلی میں تیسرا  مکان ہے۔“

 اس نئے مشورے پر ہمارے کان ذرا تن کر کھڑے ہو گئے۔ ہم بتاتے چلیں کہ ہمارا دولت خانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ایک نواحی آبادی میں واقع تھا۔ اور ہاؤسنگ کالونی کی جس گلی اور جس مکان کا لدھڑ ذکر کر رہا تھا۔ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نامی گرامی قصاب فتح یار عرف پھمن پہلوان کا گھر تھا۔ یعنی عاقبت نا اندیش لدھڑ ، پھمن پہلوان کی دختر کے عشق میں مبتلا تھا۔ اور یقیناً اپنی زندگی محفوظ رکھنے کی غرض سے ہمیں قربانی کا بکرا بناتے ہوئے پھمن کے ہاتھوں ہماری گردن مروانے کا سازشی منصوبہ بنا کر آیا تھا۔

” کہیں آپ پھمن پہلوان کے گھر کا ذکر تو نہیں فرمار ہے؟“ ہم نے تصدیق چاہی۔

”ارے! تم جانتے ہو انہیں؟ وہی تو ہمارے متوقع خسر صاحب ہیں۔ سلیم ان ہی کی دخترِ نیک اختر ہے۔“ لدھڑ کی باچھیں پھیل گئیں۔

"جی ہاں ! تھوڑا بہت جانتا ہوں۔ آپ ہی کے ہم عمر ہوں گے۔“ ہمارے طنز کی چبھن لدھڑ کے چہرے پر نمودارہوئی۔

”اب ایسا بھی نہیں ہے۔ وہ تو ہم بچپن ہی سے بیماریوں کے زیر سایہ رہے ہیں۔ نمونیا، ٹائیفائڈ، نزلہ وزکام اور دو چار بار ہیضہ بھی لاحق ہوا ہے۔ بس اسی لیے ذرا اپنی عمر سے زیادہ معتبر دکھائی پڑتے ہیں۔ وگرنہ تو سلیم سے بس دو چار برس ہی زیادہ بڑے ہوں گے۔ خیر چھوڑو یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ تم یہ بیان کرو کہ سلیم سے کالج کے راستے میں ملاقات کرو گے یا اس کے گھر جا کر ملنا چاہو گے؟”

”یہ بھی میرا مسئلہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو میں خود ذبح ہونے پہلوان کے گھر جا پہنچوں ۔ سکون آپ کی ہڈی کو نہیں ہے اور قیمہ میرا بنوانا چاہتے ہیں۔ مجھ سے بالکل بھی یہ توقع مت رکھیے گا۔ کہ میں آپ کے مجنونانہ جذبات کی زکواۃ میں اپنی جان کا نذرانہ دوں گا۔“ میرے دوٹوک انداز پر کچھ دیر کے لیے تو لدھڑکو بالکل ہی چپ لگ گئی۔ پھر وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔

"اپنے فیصلے پر اچھی طرح نظر ثانی کر لو ۔”

"اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔”

"مشکل میں پڑ جاؤ گے۔”

 "کیا میں اسے دھمکی سمجھوں؟”

"دھمکیاں تو بزدل دیا کرتے ہیں۔ ہم تو تمہیں حقیقت سے آگاہ کر رہے ہیں۔”

"بہتر ہوگا کہ آپ اپنی بہادری کا مظاہرہ اپنے خسر صاحب کے حضور جا کر کریں۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ سلیم کی نظروں میں بھی آپ کی کچھ عزت بحال ہو جائے ۔ ویسے بھی آپ کے خسر آپ پر تو چھرا ،بگدا اٹھائیں گے نہیں۔ کیونکہ آپ کے وجود سے انہیں چھیچھڑا جات کے علاوہ کوئی بوٹی شوٹی تو ملنے کی نہیں۔”

”خبیث انسان۔ !“ لدھڑ کو شائد زیادہ ہی بے عزتی محسوس ہوئی تھی۔ وہ اینٹ سنبھالتا ہوا دھاڑا تو ہم بری طرح بوکھلا گئے ۔ ہمارا گھٹنا ٹیبل سے ٹکرایا تو وہ ایک طرف الٹ گئی۔ لدھڑ اینٹ ہاتھ میں تولتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھ رہا تھا ۔ ہماری تین پائے کی ٹیبل الٹی تواس کی چوتھی ٹانگ کی جگہ رکھی اینٹیں ہمارے سامنے ظاہر ہو آئیں ۔ اضطراری انداز میں ہم نے جھپٹ کر ایک اینٹ اٹھائی اور اچھل کر مسہری پر کھڑے ہو گئے۔ صورت حال یکا یک ہی خاصی سنگین نوعیت اختیار کر گئی تھی۔ ہمارے ہاتھ میں اینٹ آتے ہی لدھڑ بھی جیسے قدرے محتاط ہو گیا۔ وگرنہ تو شاید وہ ہمیں نشانہ بھی بنا چکا ہوتا ۔


اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے