”ہم تمہارا غلیظ بھیجا نکال دیں گے ۔“ اس نے دانت کچکچاتے ہوئے اپنے اینٹ والے ہاتھ کو حرکت دی تو ہمارا اینٹ والا ہاتھ از خود سر سے بھی بلند ہو گیا۔
”میں بھی لحاظ نہیں کروں گا۔ یہ اینٹ سیدھی سر میں آئے گی۔” وہ اپنی جگہ اینٹ اٹھائے کھڑا تھا۔ اور ہم مسہری پر چوکس کھڑے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے نشانے پر تھے اور درمیان میں صرف چند فٹ کا فاصلہ تھا۔ کسی کا نشانہ خطا ہونے کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا۔
ہم پوری طرح چوکنے تھے کہ وہ پہل کرے تو ہم بھی اس کا کھوپڑ کھول دیں۔ اسے بھی شاید یہ احساس ہو گیا تھا کہ اگر اس نے پہل کی تو خود بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
”بہت پچھتاؤ گے۔ تم جانتے نہیں ہو ہمیں۔” وہ قہربار نظروں سے ہمیں گھورتے ہوئے خونخوار لہجے میں بولا ۔
”بہت اچھی طرح جان چکا ہوں۔ اتنا بھی گھامڑ نہیں ہوں میں۔ ایک تو تمہارا عشق ہی انتہائی نا مناسب ہے او پر سے احمقانہ ڈرامہ رچانے چلے آئے۔ تم نے کیا سوچا تھا کہ میں تمہارے اس جناتی ڈرامے پر یقین کرتے ہوئے تمہیں جن تسلیم کر لوں گا۔ تم سے خوفزدہ ہو کر تمہارے اوٹ پٹانگ مشوروں پر عمل کرتا چلا جاؤں گا۔ اور سلیم سے تمہاری لائن سیٹ کروادوں گا۔ تم نے مجھے سمجھا کیا ہے؟ میں تمہاری عمر کا لحاظ کرتے ہوئے تمہاری عزت کرتا آرہا ہوں اور تم پتا نہیں کیا سمجھ رہے ہو۔“
دراصل اینٹ ہاتھ میں آتے ہی ہمارے حوصلوں کا وقار بیدار ہو آیا تھا۔
”لائن۔” لدھڑ نے بدمزگی سے دہرایا۔ ”یہ نا مناسب اصطلاح تم جیسا پست ذہن مصنف ہی استعمال کر سکتا ہے۔” ”بس بس رہنے دو بڑے میاں! اپنا مناسبیات کا فلسفہ اپنے پاس ہی رکھو اور اس کہانی میں پھانسنے کے لیے کسی اور احمق کو تلاش کرو جا کر۔ "
”بڑے میاں کسے کہہ رہے ہو؟“ لدھڑ نے آنکھیں نکالیں۔
”تم کو کہ رہا ہوں اور کون ہے یہاں۔“
”دریدہ دہن تم…“ لدھڑ تلملا کر رہ گیا۔ یقینا ہمارے ہاتھ میں دبی اینٹ اس کی لگام بن گئی تھی۔
”بس اب مزید توہین برداشت نہیں کروں گا میں۔ بہت سن چکا اور بہت عزت کر چکا تمہاری۔ اللہ تو بہ کرنے کی عمر ہے تمہاری۔ اور تم ہو کہ ایک لڑکی کے عشق کی آبیاری فرماتے پھر رہے ہو۔ اور لڑکی بھی ایسی جو تمہاری بیٹی کی عمر کی ہوگی۔ افسوس اور شرم کا مقام ہے…“ ہمارے لہجے کا دکھ اور تاسف حقیقی تھا۔ اس کا مسئلہ اورمقصد چونکہ اب پوری طرح ہم جان چکے تھے۔ اس کی عمر اور صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سمجھ لینا بھی کوئی مشکل امر نہیں تھا کہ اس نے ہمیں اپنے متعلق ایک جن ہونے کا یقین دلانے کی کوششیں کیوں کی ہوں گی۔
یقیناً وہ سلیم سے اظہار عشق کی صورت میں سلیم کے متوقع شدید ردعمل سے خائف تھا۔ اور ایسا کچھ بھی کرنے سے پہلے ہمیں اپنے نمائندے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سلیم کا عندیہ جان لینا چاہتا تھا۔ یا یوں کہہ لیں کہ سنگینی کو جانچ لینا چاہتا تھا ۔ وہ تو جاننا اور جانچنا چاہتا تھا، ہم تو پہلے سے جانتے تھے۔ خوشی کمہار والا واقعہ تو ہماری آنکھوں دیکھی بات تھی۔
گوشت اور ہڈی کے تناسب پر خوشی کمہار نے بحث و تکرار کرنے کی جسارت کی تھی ۔ پھمن پہلوان نے گائے کا پایہ اٹھا کر خوشی کے سر پر دے مارا اور خوشی صاحب دانت نکالتے ہوئے وہیں ڈھیر ہو گئے تھے۔
پھر ہاسپٹل پہنچ کر ہی ہوش آیا تھا جناب کو ۔ ایسے میں بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم لدھڑ سے کوئی ہمدردی پالتے۔
وه بداندیش اپنی جگہ کھڑا قہر بار نگاہوں سے ہمیں گھور رہا تھا۔ یوں جیسے ہمیں کچا ہی چبا جائے گا۔ ہم بھی پوری طرح مستعد تھے۔ کہ اگر وہ کوئی سنگین حرکت کرنے کی کوشش کرے تو موقع پر ہی اسے ڈھیر کر سکیں۔ مگر وہ کچھ دیر تک ہمیں گھورتے رہنے کے بعد اچانک حرکت میں آیا اور تیز تیز قدم اٹھا تا کمرے سے باہر نکل گیا۔ ہمارے رویے سے یقینا وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کا حربہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہمارے تیور دیکھتے ہوئے اس نے یہ اندازہ بھی بخوبی لگالیا ہوگا کہ اس کی مزید کوئی بے وقوفی اس کے اپنے ہی حق میں نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ سو اس نے خاموشی سے رفو چکر ہونا ہی بہتر خیال کیا ہوگا۔
ہم نے اطمینان کی سانس لی اور اینٹ پھینک دی۔ ابھی ہم بیٹھ نہیں پائے تھے کہ یکا یک ہمیں ایک شدید گڑبڑ کا احساس ہوا۔ ہم چونک پڑے۔ اچانک دروازے پر لدھڑ کی منحوس صورت نمودار ہوئی۔ پھر اس سے پہلے کہ ہم سنبھلتے یا اپنے دفاع میں کچھ کرتے اس ذلیل نے ہاتھ میں پکڑی اینٹ ہم پر کھینچ ماری۔ ہم نے برق رفتاری سے اچھل کر بیچنے کی کوشش کی لیکن اس کمینے کا نشانہ بڑا غضب کا تھا۔ ایک ساتھ دو دھماکے ہوئے۔ پہلا دھما کا ہمارے بائیں گھٹنے اور اینٹ کے باہمی وصال کا تھا۔ اور دوسرا مسہری کی کمر ٹوٹنے کا۔
ہماری درد بھری کراہ ان دھماکوں سے الجھے کر رہ گئی۔ ڈگمگا کر جو گرے تو اپنی ہی پھینکی اینٹ پر… ایک لمحے کو تو یوں محسوس ہوا کہ ریڑھ کی ہڈی کا نچلا مہرہ اپنی جگہ سے اچھل کر حلق میں پھنسا ہے۔ سائیں سائیں کے شور میں ہم نے لدھڑ کے بیرونی جانب دوڑتے قدموں کی آواز سنی تو بے ساختہ ایک انتہائی موٹی اور برہنہ گالی کو فوراً اس کتے کے تعاقب میں روانہ کیا۔ کیونکہ وجودی طور پر ہم خود ایسا کرنے سے قاصر تھے۔ ہمارا گھٹنا ٹیاؤں ٹیاؤں اور ریڑھ کی ہڈی کا نچلا مہرہ چیاؤں چیاؤں کر رہا تھا۔ اس ٹیاؤں چیاؤں کو ضبط کرنے میں ہماری کتنی ہی دفعہ ہائے ہائے ہوئی ۔ آخر کار ہم نے خود کو سنبھال لیا۔
وہ ہمیں چوٹ دے کر فرار ہو چکا تھا اور چوٹ کے ساتھ ساتھ مسہری کا نقصان بھی کروا گیا تھا۔ ہم اندر ہی اندر اس کی مکاری پرکھولتے رہے اور دل ہی دل میں اسے گالیاں بکتے رہے۔ ان لمحات میں ہم نے ارادہ کر لیا تھا کہ بہت جلد سود سمیت حساب برابر کریں گے۔ اس جہنمی کی دونوں ٹانگیں تو ڑ کر اسے ہمیشہ کے لیے اپاہج بنا دیں گئے۔ تا کہ اس کے خاندان میں سے دوبارہ کوئی اور لدھڑ جن بننے کی خواہش تک نہ کر سکے۔
یہ فیصلہ کر لینے کے بعد ہمیں خاصی تقویت کا احساس ہوا۔ درد میں بھی کافی حد تک کمی واقع ہوئی۔ پھر بھی وقفے وقفے سے بلند ہونے والی ٹیاؤں چیاؤں کی لہریں ہمارے دماغ میں ٹیسیں جگاتی رہیں۔ رات تک ہمارا گھٹنا حاملہ عورت کے پیٹ کی طرح پھول چکا تھا۔ اور کمر گویا پتھر کی سل بن کر رہ گئی تھی۔ سونے سے پہلے ہم نے ہلدی اور روئی گرما کر متاثرہ مقامات پر باندھ لی تھی۔ ساری رات ہم دردوکرب سے کراہتے رہے۔ اور لدھڑ سمیت اس کے پورے خاندان کی زندگی سے متعلق نا قابل اشاعت قیاس آرائیاں فرماتے رہے۔
دن بھر بستر میں گھسے رہنا تو ہمارا معمول تھا۔ لیکن اس روز بستر پر لیٹے رہنے میں بڑا عمل دخل ہماری تکلیفوں کا بھی تھا۔ لیکن کب تک… زندگی کی ضرورتیں اور جسمانی حاجتیں تو جوں کی توں برقرار تھیں۔ سو بادل نخواستہ ہم اپنی مضمحل جسمانی قوت مجتمع کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ جیسے تیسے صبح کی ابتدائی اور ناگزیر ضرورتوں سے فارغ ہو کر ہم نے دڑبوں کے دروازے کھولے تو ہمیں ایک غیر معمولی پن کا شدت سے احساس ہوا۔
خلاف معمول تمام نفوس کی موجودگی کے باوجود آج صحن کی فضا میں ایک کثیف ساسناٹا پھیلا ہوا تھا۔ چھنو دھنو اور رجو اپنی اپنی جگہ گم سم کھڑی تھیں۔ بطخوں کے نغمے جیسے ان کے گلوں میں منجمد تھے۔ ہماری پیاری مرغیاں بھی اپنی قوت گویائی سے گویا محروم ہو چکی تھیں ۔
ہمارے دروازہ کھولتے ہی وہ ایک قطار میں باہر نکلیں۔ بنا صحن کے وسط میں کھڑی ہوکر گردنیں اٹھا اٹھا کر ادھر ادھر دیکھنے لگیں۔ ان کے منہ سے عجیب سہمی سہمی سی ٹک ٹک کی آوازیں خارج ہو رہی تھیں۔ دوسری طرف سے بطخوں کا گروپ بھی باہر نکل آیا لیکن ان کا رویہ بھی ہمیں مشکوک ہی دکھائی دے رہا تھا۔ مرغیوں، بطخوں کا مشاہدہ فرماتے فرماتے ہم چونک پڑے بطخیں تو دس کی دس ہمارے روبرو تھیں البتہ بارہ مرغیوں میں سے دو اس وقت کم تھیں۔ بے اختیار ہم نے جالی میں سے دڑبے کے اندر جھانکا تو دل پر جیسے گھونسہ سا پڑا۔
مرغیاں تو ڈربے میں نہیں تھیں البتہ مرغیوں کی باقیات وہاں ضرور موجود تھیں ۔ بکھرے ہوئے پر اور کچھ خون آلود ہڈیاں گواہی دے رہی تھیں کہ رات ان پر کوئی قیامت گزرگئی ہے۔ یقینا موت کے منہ میں جانے سے پیشتر وہ بہت تڑپی اور پھڑ پھڑائی ہوں گی۔ رہ رہ کر انہوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارا بھی ہوگا لیکن افسوس کہ ہم ان کی صدائیں نہ سن سکے۔گو کہ رات بھر ٹھیک سے سو نہیں پائے تھے مگر شاید جسمانی تکلیفوں نے حواس کو اس حد تک نڈھال کر رکھا تھا کہ ٹھیک سے اپنے گرد و پیش کی کچھ خبر ہی نہ رہی تھیں۔
ان کی اس بے کسی کی موت پر ہماری آنکھیں بھر آئی تھیں۔ کچھ دیر تک ہم ان کے احترام میں مغموم خاموشی اختیار کیے کھڑے رہے۔ پھر بغور دڑبے کا جائزہ لینے لگے کہ موت نے کدھر سے نقب لگائی ہوگی۔ ڈربے کے بائیں طرف کونے میں ہمیں وہ سوراخ بھی نظر آ گیا جہاں سے اچھا خاصا سانپ یا نیولہ وغیرہ با آسانی دڑبے میں داخل ہوسکتا تھا۔
ہم نے گھٹنے اور کمر سے اٹھتی ٹیسوں کے ساتھ بدقت تمام اس سوراخ میں مٹی بھر کر اسے اچھی طرح کوٹ کوٹ کر بند کر دیا۔ اپنی دانست میں تو ہم باقی مرغیوں کو آئندہ کے لیے خطرے سے محفوظ کر چکے تھے مگر یہ ہماری خام خیالی ثابت ہوئی۔ یہ دو مرغیاں تو گویا تباہی کے ایک تسلسل کا آغاز تھیں ان دومرغیوں کی موت کے ساتھ ہی جیسے ہمارے ماہ و انجم گردش میں آگئے اور ہماری بدقسمتی کا ستارہ پوری تابناکیوں کے ساتھ جگمگا اٹھا۔
وہ دن اور رات تو آرام سے گزرگئی کمر کا درد بہت حد تک کم ہو گیا تھا البتہ گھٹنا شاید براہ راست نشانہ بننے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی برہم تھا۔ صبح ہوئی تو جو سوراخ ہم کل اچھی طرح بند کر چکے تھے اسے پھر سے کھلا ہوا پایا اور دڑبے میں ایک مرغی کی باقیات گویا گزر چکنے والے حادثے پر نوحہ کناں تھی۔ بطخوں والے حصے کا دروازہ کھولا تو باہر آتے ہی خدا جانے کیوں ایک کمبخت بطخ نے ہماری پنڈلی پر کاٹ لیا۔ اسے دھمکانے کے لیے جو ٹانگ جھٹکی تو گھٹنا ٹیاؤں ٹیاؤں پکار اٹھا۔
یہ تھا اس روز ہماری صبح کا آغاز۔ ناشتے کی غرض سے دودھ دوہنے چھنو کے پاس گئے تو اس حرافہ نے بالکل اچانک ہی ہماری پسلیوں میں اپنے سینگ گھسیڑ ڈالے۔ ضرب ایسی شدید تھی کہ کچھ پل کے لیے تو ہماری سانس ہی رک گئی۔ ابھی یہ مقام شکر تھا کہ ہم بروقت مخالف سمت کولڑھک کر اس سے دور ہو گئے اور اس کے سینگوں نے ہماری پسلیوں میں شگاف نہیں بنا ڈالے وگرنہ اس نے تو اپنی طرف سے ہمیں قتل کرنے کی پوری کوشش کر ڈالی تھی۔
یہ دیکھ کر ہمیں مزید حیرانی ہوئی کہ چھنو اور دھنو دونوں ہی کی آنکھوں میں ہمارے لیے نفرت ہی نفرت تھی اور تو اور رجو کی آنکھوں میں بھی ویسی ہی آگ دہک رہی تھی۔ ہمارا چوبیس گھنٹوں کا ساتھ تھا۔ ہم ایک ساتھ ایک کنبے کی طرح جیتے آئے تھے۔ وہ ہماری دوست ، ہماری سہیلیاں تھیں۔ ہم ایک دوسرے کے موڈ مزاج سے بخوبی آشنائی رکھتے تھے سو ان تینوں کے جارحانہ تیور ہمارے لیے کسی اچنبھے سے کم نہیں تھے۔
وہ تینوں وحشت ناک انداز میں ہمیں گھورتی رہیں اور ہم حیران و پریشان ان کی صورتیں تکتے رہے۔ مگر یہ نہیں سمجھ پائے کہ ان کے مزاجوں کی اس عجیب وغریب تبدیلی کی اصل وجہ کیا ہے!
ناشتے کے لیے انڈہ بناتے ہوئے ہاتھ جلا تو دوپہر میں اکلوتا سیلنگ فین دھواں دے گیا۔ سلامت حالت کی اکلوتی مسہری پر قیلولہ فرمارہے تھے کہ اچانک اس کے ایک طرف کے دونوں پائے یکبارگی داغِ مفارقت دے گئے اور ہم لڑھک کر فرش پر آ رہے۔ ہمارا مجروح سراپا جگہ جگہ سے بلبلا ہی تو اٹھا تھا۔ دونوں پایوں کی جگہ اینٹیں ترتیب دے کر ہم دوبارہ مسہری پر لیٹ کر کراہتے رہے اورموجودہ صورت حال پر جھنجلاتے کڑھتے رہے۔
دوسرے روز پھر دو مرغیاں اپنے درد ناک انجام کو پہنچ گئیں ۔ سوراخ پھر کھلا ہوا تھا۔ حالانکہ کل ہم نے اس جگہ پتھر کوٹے تھے۔ چھنو دھنو اور رجو بدستور بدمزاجی کا مظاہرہ کر رہی تھیں ۔ ہم نے ان کو بہتیرہ سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کی خفگی اور رنجش کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ لحاظ مروت کی اہمیت پر نور افشانی بھی فرمائی لیکن وہ اپنی موجودہ روش ترک کرنے پر آمادہ نہ ہو ئیں۔
آئندہ روز مرغیوں کی تعداد میں تو کوئی کمی واقع نہیں ہوئی البتہ تین بطخیں دڑبے کے اندر پر اسرار طور پر مردہ حالت میں پائی گئیں اور پھر چند ہی روز میں صورت حال یہ ہوگئی کہ آٹھ بطخیں اور گیارہ مرغیاں یکے بعد دیگرے اس جہان فانی سے کوچ فرما گئیں اور ہم بس دیکھتے ہی رہ گئے۔
انیسں نفوس کی یوں موت ویرانی آنگن کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت کے لیے بھی کسی کمر توڑ جھٹکے سے کم نہیں تھی۔ ایک اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ دم توڑ چکا تھا اور اس تسلسل کے مدنظر ہمیں لاشعوری طور پر یہ یقین بھی ہو چکا تھا کہ بچ رہنے والی ایک مرغی اور دو بطخیں بھی اب مہمان ہی ہیں۔
ان کے بعد بھی اگر موت کی یہ مستقل مزاجی برقرار رہتی تو چھنو دھنو اور رجو کے بعد یقینی طور پر ہماری ہی باری آنی تھی اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو بھی ہمارا روڈ پر آجانا تو یقینی تھا۔ روزگار ملنا تو تقریباً ناممکن ہی تھا سو ضروریات زندگی کی خاطر یا تو ہمیں بھکاری بننا تھا یا پھر چور، ہم اپنے بھیانک مستقبل کے اس تصور ہی سےجھر جھری لے کر رہ گئے۔
پورے شباب پر آئی ہوئی صبح کا وقت تھا۔ ہم کمرے میں اکلوتی مسہری پر لیٹے میگزین کی ورق گردانی کر رہے تھے۔ پسلیوں اور گھٹنے کے درد میں بہت حد تک افاقہ ہو چکا تھا اور ہمارا ارادہ تھا کہ کوئی نئی کہانی شروع کی جائے۔ ویسے بھی آمدنی کا ایک معقول ذریعہ ختم ہو جانے کے بعد ہمیں شدت سے احساس ہوا تھا کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ لکھنا چاہیے تا کہ مرغیوں اور بطخوں والے نقصان کا ازالہ اس ذریعے سے ہوتا رہے۔
دروازے میں سے اچھل کر کمرے کے اندر آ جانے والی چیز نے ہمیں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھنے پرمجبور کر دیا ۔آئندہ پل ہم اس چیز کو ذلیل لدھڑ کے طور پر شناخت کر چکے تھے۔ وہی مخصوص حلیہ، مغل شاہی کھسہ، سفید سلک کی شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ، دائیں ہاتھ میں اینٹ، سفید ٹوپی اور اس دفعہ اس کے ہونٹوں پر سرخی کے ساتھ ساتھ منہ میں پان بھی تھا۔
یکایک ہمارے تن بدن میں نفرت اور غصے کی آگ دہک اٹھی۔ ہم نے تیزی سے اٹھنا چاہا تو لدھڑ کی مکروہ آواز نے ہمیں ٹھٹکا دیا۔
”خبر دار! اگر اپنی جگہ سے ذرا بھی جنبش کی تو آج اینٹ سیدھے سر کا پتہ پوچھے گی۔“ ہم نے شعلہ بار نظروں سے اسے گھورا۔ وہ اینٹ والا ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے چوکنے انداز میں کھڑا ہمیں تک رہا تھا۔ ہماری تین پسیلیوں اور ایک گھنٹے میں ابھی تک تکلیف باقی تھی لیکن وہ ایسی نہ تھی کہ لدھڑ کی درگت بنانے میں ہمارے لیے پریشانی کا باعث بنتی۔ پریشانی کا باعث تو وہ اینٹ بن گئی تھی جو لدھڑ نے ہاتھ میں اٹھا رکھی تھی۔
ہمارا درمیانی فاصلہ اور ہماری نشست بھی لدھڑ کے لیے فائدہ مند تھی۔ جتنی دیر میں ہم مسہری سے اٹھتے وہ کمینہ اتنی دیر میں ہمیں اینٹ سے نشانہ بنا سکتا تھا اور اس خبیث کی نشانہ باز صلاحیت سے تو ہم واقف ہی تھے۔ ہم نیم کا گھونٹ بھر کر اپنی جگہ تشریف فرما رہ گئے۔
”کہو میاں! کیسے مزاج ہیں؟” اس کے ہونٹوں پر استہزائیہ تبسم تھا ہمارا خون کھول کر رہ گیا۔
”معلوم ہوتا ہے کہ خاصے خفا ہو ہم سے۔ غالباََ اس روز ضرب کچھ زیادہ ہی شدید رہی۔ ہے نا؟
” کیوں آئے ہو؟“ ہمارے حلق سے جیسے غراہٹ خارج ہوئی تھی۔
” تمہاری خبر گیری اور تمہاری مرغیوں، بطخوں کی تعزیت فرمانے۔ مجموعی طور پر انیس عالم عدم کو روانہ ہو چکی ہیں نا ۔ "
اس کی بات سن کر ہم قدرے چونک پڑے۔ اسے تو با قاعدہ تعداد بھی معلوم تھی, مگر کیسے ؟
"سیدھی طرح بکو کیوں آئے ہو؟” شاید اسے ہمارا انداز تخاطب ناگوار گزرا تھا۔ چند لمحے تو وہ گہری نظروں سے ہمیں گھورتا رہا پھر سر جھٹکتے ہوئے بولا۔
"بلند بخت تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ تم قصور وار ہو۔ پہلے ہماری معصوم محبت تمہاری قلمی نحوست کا شکار ہوئی۔ تمہاری نثر نگاری ہمارے جذبوں کی شہادت کا باعث بنی۔ پھر اس روز ہم نے پوری دیانت داری سے تمام حقیقت تمہارے گوش گزار کی تو ہماری جذباتی صداقتوں کا احترام فرمانے کے بجائے تم نے الٹا ہماری اور ہماری محبت کی تذلیل شروع کردی۔ ایسے میں پھر ہمارا غصہ تو حق بجانب ٹھرتا ہےنا۔ گھٹنے اور پسلیوں کی تکلیف، ہاتھ کا جلنا، دودھ سے محرومی، گیارہ مرغیاں اور آٹھ بطخیں، اگر تم نے ہماری بات مان لی ہوتی تو تمہیں یہ تکلیفیں اور نقصان تو نا اٹھانا پڑتا۔“
ہم چپ چاپ اسے گھورے گئے ۔ ہمارے لیے یہ بات خاصی حیران کن تھی کہ اسے یہ سب کس طرح معلوم ہوا؟
”اب بھی وقت ہے۔“ لدھڑ بک رہا تھا۔ ”ہماری بات مان لو اور جا کر سلیم کو حقیقت حال بتاؤ۔ اسے ہماری محبت کے تقدس اور ہمارے جذبوں کی صداقت کا یقین دلاؤ۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تم مزید نقصانات سے محفوظ رہوگے۔”
”یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہمارا اب تک جو بھی نقصان ہوا ہے وہ تمہارا کیا دھرا ہے۔”
”تو اس سب کی کوئی اور عقلی توجیہ ہے تمہارے پاس؟ ” وہ بھونڈے انداز میں ہنسا۔ “اگر مزید بربادی سے بچنا چاہتے ہو تو ہماری بات مان لو بلند بخت!“
” اور اگر میں نہ مانوں تو ” ہم نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ سنجیدگی سے بولا۔
” کل صبح تمہاری دونوں بطخیں اور بچ رہنے والی مرغی بھی ختم ، پھر چھنو اور دھنو اور اس کے بعد رجو بھی تمہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائے گی ۔ کیا تم ایسا پسند کرو گے؟“
” ہاں ! تمہارے اس مذموم مقصد میں استعمال ہونے کی بجائے میں یہی پسند کروں گا کہ ان بے زبانوں کے بعد تم میری بھی جان لے لو۔”
”اچھی طرح سوچ لو ابھی وقت تمہارے ہاتھ میں ہے ۔“
”لکھ کر دوں کیا ۔“ ہمارا لہجہ زہر خند تھا۔
”ٹھیک ہے. ہم جانتے ہیں کتے کی دم اتنی جلدی سیدھی نہیں ہوا کرتی ۔“ اس ذلیل نے تبصرہ فرمایا اور جس طرح اچھل کر کمرے کے اندر آیا تھا اسی طرح کمرے سے نکلا اور پھر اس کے بیرونی دروازے کی طرف دوڑتے قدموں کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔
ہم غصے سے پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔ دیر تک اسے گالیاں بکتے رہے اور آپ ہی آپ جھنجلاتے رہے۔ کھولتے رہے، پھر بھی ہم پوری طرح "کتے کی دم” ہضم نہیں کر پائے تھے۔ ہاں البتہ ہمارا غصہ ضرور کم پڑ گیا تھا۔ دماغی حالت معمول پر آتے ہی ایک ساتھ کئی سوال دماغ میں آ موجود ہوئے ۔ گزشتہ چند دنوں میں ہمیں جو کچھ بھی پیش آیا تھا اس کی خبر لدھڑ کو کیسے ہو گئی۔؟
ان دنوں تو گھر میں کوئی آیا بھی نہیں تھا۔ جو کچھ بھی ہوتا رہا تھا وہ دیکھنے بھگتنے والی ایک صرف ہماری ذات تھی پھر وہ بالکل ٹھیک ٹھیک لدھڑ کمینہ کیسے جانتا تھا ؟ اور وہ خطوط… ہر دفعہ پر اسرار طور پر نیا خط کیسے ہمارے تکیے پر آموجود ہوتا تھا؟ بذات خود لدھڑ کی آمد بھی تو ایک اسرار ہی تھا آخر اسے ہمارا اتا پتا کیسے اور کہاں سے مل گیا تھا؟
ہم سوچتے گئے اور الجھتے گئے مگر ہمارا ذہن ان سوالوں کے جواب تلاشنے یا جواز تراشنے میں ناکام رہا۔ شاید اسی وجہ سے ہمارا چھٹا الارم واویلا مچانے لگا تھا کہ ہو نہ ہو کچھ نہ کچھ گڑ بڑ تو ہے۔
ہماری سوچوں کا تسلسل اس وقت ٹوٹا جب صحن میں ہماری بقید حیات جوان مرغی کے نعرے بلند ہونے لگے۔ کامرانی کے نشے میں سرشار ان نعروں سے ہم بخوبی واقف تھے۔
ایسے نعرے سن کر اکثر ہم خلوص دل سے مرغیوں کی عظمت کا اعتراف کیا کرتے تھے کہ وہ انڈہ دینے جیسی غیر معمولی اور حیران کن صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں۔
ہم اٹھ کر صحن میں چلے آئے ۔ وہ تنہا صحن کے وسط میں کھڑی گردن گھما گھما کر ڈربے کی طرف دیکھتی اور یوں پکارنے لگتی گویا انڈے میں چھپے اپنے لخت جگر،نور نظر کو آوازیں دے کر اپنے پاس چلے آنے کا کہہ رہی ہو۔
چند دن پہلے تک صحن میں مرغیوں کی کیسی ہلچل، کیسی رونق تھی۔ پورے صحن میں ادھر سے ادھر چہل قدمی فرماتی رہتی تھیں اور دن میں کئی کئی بار کمرے میں آکر ہماری مزاج پرسی بھی کیا کرتی تھیں مگر اب… اب صرف ایک مرغی تھی۔ دونوں بطخیں ایک طرف کونے میں اداس و ملول سی کھڑی تھیں۔ دھنو اور رجو کے تیور بدستور جارحانہ تھے۔ تینوں کی آنکھوں میں ہمیں نفرت اور وحشت ہلکورے لیتی محسوس ہوئی۔
معلوم نہیں یہ لدھڑ کی تازہ ترین بکواسیات کا اثر تھا یا کیا کہ آج پہلی بار ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے چھنو دھنو اور رجو، تینوں آسیب زدہ ہوں۔ ان کے مزاجوں کی غیر معمولی تبدیلی اور تیور گویا اس بات کے غماز تھے کہ وہ کسی ماورائی طاقت کے زیر اثر ہیں۔ اس خیال کے ساتھ ہی ہماری ریڑھ کی ہڈی میں جیسے برف کا کیچوا رینگ گیا۔ ہم نے بے اختیار ایک جھر جھری لی اور سر جھٹکتے ہوئے دڑبے کی طرف بڑھ گئے۔
دڑبےمیں جھانکنے کے بعد ہم نے ہاتھ لمبا کر کے دڑبے میں سے انڈہ اٹھانا چاہا تو یکبارگی جیسے ہمارے طبق روشن ہو گئے۔ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے ہم نے انڈہ نہیں بلکہ کوئی سلگتا ،دہکتا انگارہ ہاتھ میں اٹھا لیا ہو۔ اس کی حدت اتنی زیادہ تھی کہ بے اختیار ہمارے منہ سے سسکاری سی نکل گئی۔ انڈہ خود بخود ہاتھ سے چھوٹ گیا اور ہم نے تڑپ کر ہاتھ واپس کھینچ لیا۔ پہلے تو ہم نے پریشانی سے اپنے ہاتھ کا جائزہ لیا۔ بچت ہوگئی تھی۔ پھر بے یقینی سے انڈے کو دیکھا اور اس کے بعد حیرت سے صحن کے وسط میں کھڑی مرغی کی طرف دیکھا جو تفاخرانہ انداز میں گردن اکڑائے قہقہے لگا رہی تھی۔!
ہم اس بے حیا کے حوصلوں پر دنگ ہی تو رہ گئے تھے…. چند لمحوں کی حیرت و بے یقینی کے بعد ہم نے ایک بار پھر ڈرتے ڈرتے محتاط سے انداز میں انڈے کو چھوا تو چونک پڑے۔ وہ تو بالکل عام سی حالت میں تھا ۔ ہم نے جلدی سے اسے اٹھا کر دیکھا ، کچھ بھی خاص نہیں تھا۔ نہ کوئی تپش نہ حرارت تو… تو پھر چند لمحے پہلے کیا ہوا تھا؟
یا حیرت ! یہ سب کیا ہے؟ کیا ہمارا دماغی توازن گڑ بڑاتا جارہا ہے یا یہ لدھڑ سے تازہ ترین ملاقات کے اثرات ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم لاشعوری طور پر اسے واقعی میں ایک جن تسلیم کرنے لگے ہیں؟
باوجود کوشش کے ہم اپنے اس سوال کا کوئی بھی مناسب اور واضح جواب کھوجنے میں ناکام رہے۔ باقی کا دن معمول کے مطابق گزرا البتہ اس روز آنے والی رات کو ہم صبح تک دڑبے کے پہرے دار بنے رہے۔ وہ جہنمی لدھڑ ہمیں صاف الفاظ میں بطخوں اور مرغی کے قتل کی دھمکی دے کر گیا تھا سو ہم بھی پوری تیاری کے ساتھ منتظر رہے کہ اگر وہ بھولے سے آ بھی جائے تو اگلا پچھلا تمام حساب سود سمیت بے باک کر دیا جائے مگر ہم منتظر ہی رہے۔
وہ نہیں آیا۔ ساری رات سکون سے گزری کہیں کوئی آہٹ کوئی سرسراہٹ تک نہیں ہوئی اور صبح صادق کی سفیدی نمودار ہونے لگی۔ ہم خاصے مطمئن اور خوش تھے لیکن پھر جس وقت ہم دڑبے کا دروازے کھول رہے تھے اس وقت ہم پر یہ افسوس ناک انکشاف ہوا کہ ہماری شب بیداری اکارت گئی ہے۔ ہماری ساری تیاریاں دھری کی دھری رہ گئی تھیں۔ مرغی اور دونوں بطخیں رات کسی لمحے اس خاموشی سے دم توڑ گئی تھیں کہ کسی کو بھی خبر نہ ہوسکی کہ وہ کب اور کیسے زندگی کی قید سے آزاد ہوئیں۔
یکا یک ہی ہماری طبیعت کچھ مضمحل سی ہوگئی۔ دل ودماغ پر حزن و ملال کی سی کیفیت اتر آئی۔ ساری رات ہم پوری طرح چوکس اور ہوشیار رہے تھے۔ ایک ذرا بھی غفلت کو ہم نے اپنے پاس نہیں پھٹکنے دیا تھا۔ اس کے باوجود گویا موت ان کے اپنے ہی جسموں میں چھپی بیٹھی تھی۔ ہم نے بوجھل دل کے ساتھ ان کی لاشوں کو ٹھکانے لگایا اور اپنے کمرے میں آ گئے۔
ناشتے کے طور پر ہم نے رات کے بچے ہوئے کھانے سے چند لقمے زہر مار کیے اور مسہری پر دراز ہو گئے۔ رہ رہ کر ہمارے خیالات کا رخ لدھڑ کی طرف چلا جاتا اور ہم کسمسا کر رہ جاتے۔ ہم اس کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنے کے معاملے میں خود کو شدید مشکل کا شکار پارہے تھے۔ بار بار ہماری آنکھوں کے سامنے بھائیں بھائیں کرتے ویران ڈربے کا منظر ابھر آتا۔ کبھی چھنو دھنو کی اکڑی ہوئی لاشیں دکھائی دیتیں تو کبھی زمین پر تڑپتی پھڑکتی رجو ہمارے دل کو دہلانے لگتی۔
ایسے ہی خیالات میں غلطاں و پیچاں کب ہماری آنکھوں میں نیند اتر آئی کچھ پتہ نہیں چلا اور ہم نیند کی غفلت انگیز کیفیت میں کھو گئے۔ دوبارہ ہماری آنکھ کسی کے بار بار پکارنے پرکھلی تھی اور جب ہماری آنکھ کھلی تو ہم نے لدھڑ کو دروازے کے قریب کھڑے دیکھا۔
”ارے بس میاں! اب اٹھ بھی جاؤ۔” وہ ہاتھ میں پکڑی اینٹ کو جھلا رہا تھا۔ ہماری بچی کھچی نیند اور سستی فوراً اڑن چھو ہو گئی۔
”تم…..”
”اب اٹھ بھی بیٹھو تا کہ چار باتیں ہو جائیں۔“
” اب کس لیے آئے ہو؟”
” وہی… تمہاری خبر گیری اور آخری بطخوں اور مرغی کی تعزیت فرما نے“ اس کا جگالی کرتا منہ دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ وہ پان سے شغل فرما رہا ہے۔
ہمارا ذہن بیدار ہوتے ہی جمناسٹک میں مصروف ہو چکا تھا۔ ہم نے بغور ایک نئے انداز میں لدھڑ کا سر تا پا جائزہ لیا اور پھر سے شدید تذبذب کا شکار ہو گئے۔ اس کی شخصیت کسی طرف سے بھی ایک جن کے معیار پر پوری نہیں اترتی تھی۔ اسے ایک جن تسلیم کرنا ہمیں خاصا مضحکہ خیز خیال محسوس ہور ہا تھا۔ دوسری طرف چند ہی دن میں یکے بعد دیگرے بارہ مرغیوں اور دس بطخوں کی پر اسرار موت کے ساتھ ساتھ چند دیگر خیالات بھی ہمیں کچوکے دیئے جارہے تھے۔ ”خاصے رنجیدہ خاطر دکھائی دے رہے ہو۔ ہم تمہارا دکھ سمجھ سکتے ہیں لیکن کیا کیا جاسکتا ہے یہ سب تو ہونا تھا. ہم نے تمہیں پہلے ہی خبر دار کر دیا تھا۔“ لدھڑ ہم سے مخاطب تھا۔
”تم انتہائی جھوٹے اور مکار شخص ہو ۔“ ہماری بات سن
کر لدھڑ کے تاثرات بدل گئے۔
”بھلا اس کا کیا مطلب ہوا۔”
”مطلب یہ کہ کیا تمہارے پاس اپنی شناخت اپنی پہچان کروانے والی کوئی چیز ہے یا نہیں ۔”
”ہمارا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اگر تم کہو تو
ہم وزٹنگ کارڈ بھی بنوائے لیتے ہیں۔“
"میرا اشارہ تمہاری جناتی حیثیت کی طرف ہے۔ تم مسلسل ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے آرہے ہو کہ تم کوئی انسان نہیں بلکہ ایک جن ہو۔ اب بھی یہ رعب جمانے کی کوشش کر رہے ہو کہ پہلے والی مرغیوں اور بطخوں کی موت کے بعد رات بھی تم نے دونوں بطخوں اور مرغی کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ جب کہ یہ جھوٹ ہے میں خود ساری رات دڑبے کے قریب ہی موجود رہا ہوں اورحقیقت تو یہ ہے کہ ان تینوں کے تحفظ کی فکر سے زیادہ میں تمہاری آمد کا منتظر تھا۔ اور اگر تم رات آگئے ہوتے تو میں تمہاری طبیعت صاف کر دیتا۔ مگر تم ۔۔۔۔” ہم نے اس کے ہاتھ میں دبی اینٹ کو گھورا۔ ”تم تو ہوہی بزدل "
”تم ساری رات دڑبے کے قریب دبکے رہے نہ کوئی آیا نہ گیا نہ کوئی شور نہ آہٹ ۔ اس کے باوجود دونوں بطخیں اور مرغی اس جہان فانی سے کوچ فرما گئیں پھر بھی تم ہماری حیثیت اور صلاحیتوں کے متعلق شبہات کا شکار ہو۔ چلو تم یہ یقین کر لو کہ ہم تمہاری ہی طرح کے ایک انسان ہیں تو ؟ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مسئلہ تو پھر بھی وہی ہے۔ ہماری محبت ہماری زندگی سلیم ہم سے خفا ہے اور اس کی غلط فہمی تمہی کو دور کرنی ہے۔“
”کیوں؟ میں کیوں ایسا کروں’ مجھے کیا مصیبت پڑی ہے۔ میرا تم سے، تمہاری سلیم سے یا تم دونوں کی محبت سے کیا لینا دینا۔ میرا کیا تعلق واسطہ؟“
” گھامڑ انسان! تمہارا کیا تعلق واسطہ ہے یہ سمجھ پانے پر تم آمادہ ہی کب ہو اور تمہیں اس سب سے اپنا کوئی تعلق واسطہ محسوس ہوتا ہے یا نہیں، ہمیں اس سے بالکل بھی سروکار نہیں۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ تمہیں سلیم سے مل کر اپنی لدھڑ نامے والی کمینگی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اس بات کا یقین دلانا ہے کہ ہمارا تمہارے والے فیاض لدھڑ کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں اور ہم صرف اور صرف اس سے محبت فرماتے ہیں۔”
” اور اگر میں اب بھی نہ مانوں تو ؟“ اس نے صحن کی طرف پیک کی پچکاری چھوڑی۔ تو پھر اپنی چھنو دھنو اور رجو کو آج کی مہمان سمجھو۔ ان کے بعد تم بھی جلد ہی سڑک پر آ جاؤ گے۔ لیکن ہم تب بھی تمہاری زیارت کا شرف حاصل کرتے رہیں گے ۔” لدھڑ نے طنزیہ لہجے میں کہا اور ہم اس کے پر یقین انداز پر پھر سے الجھن کا شکار ہو گئے۔ ”تمہاری یہ ہٹ دھرمی تمہیں لے ڈوبے گی۔ کہیں کے نہیں رہو گے تم ، بہتر ہے کہ ہماری بات مان لو ۔” ہمیں خاموش اور الجھن زدہ دیکھ کر وہ تیز لہجے میں مزید بولا۔ ”دیکھو بلند بخت! تمہیں نقصان پہنچا کر ہمیں بھی کوئی خوشی نہیں ہوئی لیکن کیا کریں ہم بھی اس دل نا مراد کی
شوریدہ سری کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ شاید تمہیں آج تک
کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی جو تم ہماری اذیتوں کو سمجھ ہی نہیں پارہے۔ ہماری جذباتی بربادی کا تمہیں اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا ۔ تم کسی بھی طرح ایک بار سلیم کو ہماری محبت کی صداقت کا یقین دلا دو ہم زندگی بھر تمہارے ممنون و احسان مند رہیں گے ۔ ہم تمہارے سارے نقصان کی تلافی فرما دیں گے۔ ہم تمہارے سارے درد دور فرما دیں گے۔ بس ایک بار تم سلیم کی غلط فہمی دور فرما دو ۔” لدھڑ کی بے قراریاں ہمیں چونکا گئیں۔
” کیا مطلب؟ میرے نقصان کی تلافی کس طرح کرو گے؟” ”تمہاری چند مرغیوں اور بطخوں کا نقصان ہوا ہے. ہم تمہیں پورا پولٹری فارم کھلوا دیں گے ۔ پنکھے کے بدلے اے سی لگوادیں گئے۔ ان بوسیدہ مسہریوں کی جگہ وکٹورین بیڈ لگوا دیں گئے۔ اس گھر کی جگہ ایک عالی شان بنگلہ بنوا دیں گے اور یہ جو تم لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے ہو اس حوالے سے ہم تمہیں تمہارا ذاتی پریس لگوادیں گے۔ تم خود اپنے ڈائجسٹ اور میگزین چھاپنا۔ ” لدھڑ نے چند ہی جملوں میں ہماری زندگی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ کھلی آنکھوں ہمارے سامنے ایک حسین خواب آ ٹھہرا تھا۔
”بولو کیا کہتے ہو؟“ وہ پر امید نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔
”میں ان سبز باغات کو حقیقت کیسے مان لوں؟ “ اس کی ان باتوں پر یقین کر لینے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں تھی سو ہم نے فوراً اظہار بھی کر دیا۔
” ہم سمجھ گئے ۔” اس نے تیز لہجے میں کہا اور دائیں ہاتھ میں موجود چار انگوٹھیوں میں سے ایک انگوٹھی اتار کر ہماری طرف اچھال دی۔
”یہ لاہوتی الماس ہے۔ یہ باقی تین بھی ہم تمہیں نذر کر دیں گے اور ان کے علاوہ بھی وقتا فوقتا تمہارے کام آتے رہیں گے ۔“ ہم نے بغور چاندی کی اس انگوٹھی کا معائنہ کیا جس میں جڑا نگینہ اپنے ہیرا ہونے کا احساس دلار ہا تھا لیکن ہمیں کچھ خاص پہچان نہ تھی اور اس کارٹون کے پاس ایسی چار چار انگوٹھیوں کا ہونا ہمیں اس ہیرے کی اصلیت سے متعلق شکوک وشبہات کا شکار کر رہا تھا۔
”معلوم ہوتا ہے کہ تم نے ہمارے متعلق کچھ زیادہ ہی بدگمانیاں پال رکھی ہیں۔“ اس نے جیسے ہمارے خیالات پڑھ لیے تھے۔ ” تم چاہو تو کسی جوہری کو دکھا کر اپنی تسلی کر سکتے ہو ۔”
”ہاں وہ تو کرنی پڑے گی۔”
” اور اگراس الماس کے اصلی ہونے کی تصدیق ہوگئی
تو؟“
ہم نے پر سوچ نظروں سے لدھڑ کو دیکھا۔ یہ تو واقعی بڑا اہم سوال تھا۔
”تو پھر تم سلیم کی غلط فہمی دور فرماؤ گے۔ بدلے میں ہم یہ تینوں الماس بھی تمہیں تحفے کے طور پر دے دیں گے۔ ان میں سے مزید ایک تو ہم تمہیں اسی وقت نذر کر دیں کے جب تم سلیم سے ملنے کی غرض سے رخصت ہونے لگو گے۔ باقی دو تمہاری کامیابی کے موقع پر۔“ وہ گویا ہم سے معاہدہ باندھ رہا تھا۔
” کیا سلیم صاحبہ مجھے اتنا موقع دیں گی کہ میں انہیں پوری بات بتا سکوں !“ ہم نے ہچکچاتے ہوئے متوقع مہم کے سب سے نازک مرحلے کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے پوچھ لیا۔ لدھڑ تو جیسے ہمیں رستے پر آتا دیکھ کر کھل اٹھا تھا۔
”ہاں بالکل ! ہم تمہارے ساتھ چلیں گے لیکن ایک بار تمہارے ہمراہ اسے اپنی صورت دکھانے کے بعد ہم واپس چلے آئیں گے پھر جب تم اس کے قریب جاؤ گے تو ہماری نسبت کی وجہ سے وہ تم سے گھبرائے گی نہیں اور تمہیں بھی اپنی بات سنا دینے کی سہولت مل جائے گی۔ کہو کیا کہتے ہو؟“ "
”کہنا کیا ہے فی الحال تو میں اس ہیرے کی اصلیت معلوم کروں گا۔ اس کے بعد پھر کچھ سوچوں گا ۔“
”بالکل سوچو! اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔ دشمنی اور نفرت سے سوائے تباہی و بربادی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہمارے بیچ تو یوں بھی ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے جس کی بنا پر ہم ایک دوسرے سے دشمنی نبھاتے پھریں۔ وہ تو بس ایک اتفاقیہ معاملے کی وجہ سے صورت حال ذرا کشیدگی اختیار فرما گئی تھی۔ اب یقینی طور پر ہمیں ایک دوسرے کی دوستی قبول کر لینی چاہیے۔ تم چھنو دھنو اور رجو کی ہمراہی میں خوشی خوشی گزاره فرماؤ علاوہ ازیں تم ہمارے کام آؤ ہم تمہارے کام آتے ہیں اور یقین مانو کہ ہم دونوں ہی کی بہتری اسی میں ہے۔ تم بھی شاد ہم بھی شاد۔“
لدھڑ نے صحن کی طرف پچکاری پھینکی اور ہاتھ سے ہونٹ ساف کرتے ہوئے ہماری طرف دیکھنے لگا۔
”ٹھیک ہے پھر، میں سوچوں گا۔“ ہم نے شان ہے نیازی کا مظاہرہ کیا دراصل ہم مزید کسی بد مزگی کے بغیر فی الوقت لدھڑ سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ گزشتہ دنوں کے تمام واقعات اور لدھڑ کی پھر سے موجودگی سے ہمیں اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ کارٹون اتنی آسانی سے ٹلنے والی چیز نہیں اور پھر اس کی موجودہ پیشکش بھی کچھ کم کشش انگیز نہیں تھی۔
چار چار ہیروں کی انگوٹھیاں… چونکہ اس کی باتیں اور شخصیت ہمارے لیے بدستور الجھن کا باعث تھی۔ اس لیے فی الحال ہم ہیرے کی اصلیت معلوم کر لینے سے پہلے کوئی بھی سخت یا انتہائی فیصلہ لینے سے گریز کرنا چاہتے تھے۔ شاید لدھڑ نے بھی یہی مناسب خیال کیا کہ فی الوقت ہمیں اکیلا چھوڑ دیا جائے۔ وہ کل آنے کا کہہ کر روانہ ہوا تو اس کے کچھ ہی دیر بعد ہم بھی نکل کھڑے ہوئے۔
ہیرے کی اصلیت معلوم کرنے کے لیے ہم بری طرح بے چین ہو رہے تھے۔ اندازہ تو یہی تھا کہ سچا ہیرا ہے مگر لدھڑ کی وجہ سے دل ڈوب ڈوب جاتا تھا۔ مغرب میں ابھی خاصا وقت باقی تھا۔ ہم نے شہر پہنچ کر چند ایک سناروں اور جوہریوں سے رابطہ کیا تو ہیرے کے اصل ہونے کی تصدیق ہوگئی۔ تین مختلف جگہوں سے ہم نے اس کی قیمت لگوائی جب تینوں جگہوں سے ہمیں سوا ہے تین لاکھ کے قریب قریب ریٹ ملا تو ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے ہمارا سارے کا سارا مقدر جی جان سے دھڑک اٹھا ہو۔
کم از کم ہماری نظر میں سوا تین لاکھ کی رقم کوئی معمولی رقم نہیں تھی اور وہ بھی ایک ہیرے کی… لدھڑ کے پاس ایسی ہی تین انگوٹھیاں مزید تھیں جو وہ ایک واہیات سے کام کے بدلے ہمیں دینے کو تیار تھا۔ یعنی مجموعی طور پر تیرہ لاکھ روپے کی خطیر رقم ہماری ہو سکتی تھی۔ تیرہ لاکھ…… پہلی بار ہمیں لگا کہ لدھڑ واقعی میں جن ہو بھی سکتا ہے، وگرنہ اس جیسی شخصیت کے پاس ہیرے کی چار انگوٹھیوں کی بھلا کیا تک؟
اچانک ہی ہمارے پھیپھڑے گھبراہٹ کا شکار ہونے لگے اور دھڑکنیں بھی بد تمیزی پر اتر آئیں۔ مغرب کے قریب ہم دھڑکتے دل اور پھولی سانسوں کے ساتھ گھر واپس پہنچے۔ لکھ پتی ہونے کا تصور ہمیں ورغلا چکا تھا اور ہم جلد از جلد باقی انگوٹھیاں بھی حاصل کر لینا چاہتے تھے۔ تا کہ ان کو بیچ کر ایک بہتر معیار زندگی ترتیب دیا جا سکے۔ ہم فیصلہ کر چکے تھے کہ ہم لدھڑ کی خواہش پوری کرتے ہوئے سلیم سے ضرور ملاقات کریں گے۔ گو کہ کام کچھ بے ہودہ اور کچھ تھوڑا سا سنگین بھی تھا۔ لیکن تیرہ لاکھ کے فائدے کے لیے تو یہ کام انتہائی معمولی نوعیت کا تھا۔ ایک دن تھوڑے سے وقت کے لیے معمولی سی سردردی اور تیرہ لاکھ کا فائدہ …..!
ہم اپنے اس فیصلے پر پوری طرح مطمئن تھے یہ فیصلہ کرتے وقت ہم نے اب تک ہو چکنے والی اور آئندہ متوقع اموات کے متعلق بھی سوچا تھا۔ چھنو دھنو اور رجو کی زندگیاں ہمیں بہت عزیز تھیں۔ ویسے بھی یقین و بے یقینی کی تصدیق کے چکر میں نقصانات کے تجربات سمیٹتے رہنا ہمیں کچھ مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ اور پھر ہمیں یہ اندازہ بھی ہو چکا تھا کہ لدھڑ کی دشمنی ہمارے لیے نقصان دہ ہو یا نہ ہو اس کی دوستی ہمارے لیے یقینا فائدہ مند رہے گی۔
دوسرے دن لدھڑ صبح ہی صبح آن ٹپکا، لیکن اس بار اس کے آنے کا طریقہ ذرا مختلف تھا۔ بیرونی دروازے پر ہونے والی دستک کی آواز سن کر جب ہم نے جا کر باہر جھانکا تو گلی میں چند قدم کے فاصلے پر اسے نہایت شریفانہ انداز میں کھڑے پایا۔
کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟“ وہ ہم پر نظر پڑتے ہی بولا تھا۔
"اس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟”
"بس رات ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تم ہمارے کام آؤ یا نہیں، ہم اب تمہیں مجبور نہیں کریں گے۔ کیا اب تم ہمیں اندر آنے کی اجازت مرحمت فرماؤ گے؟”
"ہاں آؤ! مجھے تمہارا انتظار تھا آج۔” ہم نے کہا تو وہ محتاط سے انداز میں آگے بڑھ آیا۔ شاید اسے اندیشہ تھا کہ کہیں ہم اس کی مہین سی گردن نہ دبوچ لیں۔
ہم دونوں صحن سے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اچانک رجو ( بھینس) کی مانوس آواز ہمارے کانوں میں شہد سا گھول گئی۔ چھنو دھنو کو اگر ہم اپنی چھوٹی بہنوں کا درجہ دیتے تھے تو رجو کو اپنی بڑی بہن تصور کرتے تھے۔ وہ ہمیں پیار سے” بختے” کہہ کر پکارا کرتی تھی۔ اور آج کئی روز بعد اس نے ہمیں آواز دی تھی۔ ہم نے چونک کر اس کی سمت دیکھا۔ وہ اپنی کٹور ا سی آنکھوں میں ممتا کے جذبات سمیٹے ہمیں تک رہی تھی اور تو اور چھنو اور دھنو کے چہروں کی پتھریلی سنجیدگی کی جگہ بھی جیسے ان کی حقیقی معصومیت لوٹ آئی تھی اور وہ دونوں بھی آنکھوں میں انسیت سمیٹے ہم ہی کو دیکھ رہی تھیں۔
ہم نے ایک نظر لدھڑ کی طرف دیکھا۔ وہ ہونقوں کی طرح کھڑا آنکھیں پٹپٹا رہا تھا۔ چھنو دھنو اور رجو کا اپنے حواسوں میں لوٹ آنا ہمارے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھا۔ ہم بے اختیار ہو کر ان کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ باری باری ہم چاروں آپس میں ہم آغوش ہوئے۔ معذرت کے ساتھ چاروں نہیں تینوں۔ رجو سے بس گلے گیر ہو کر رہ گئے تھے۔ اس جذباتیت میں کچھ دیر کے لیے تو ہم لدھڑ کو بھی بھول گئے تھے۔
پھر جب ذرا ہمارے جذبوں کی طغیانی تھمی تو ہم نے ان کو چارہ وغیرہ ڈالا اور لدھڑ کو لے کر کمرے میں چلے آئے۔ ہو سکتا ہے الماسی انگوٹھیوں کا کمال ہو یا یہ اس کے رویے کی تبدیلی کا اثر رہا ہو۔ بہر حال آج وہ ایک خاصا معزز و معقول شخص دکھائی دے رہا تھا۔
"لگتا ہے رات بھر تمہیں نیند نہیں آئی ۔” ہم نے اس کے صبح ہی صبح ٹپک پڑنے کے حوالے سے قیاس آرائی فرمائی۔
” بس اب کیا بتائیں۔ نیند کے ساتھ تو ہماری کتنے دن سے چپقلش چل رہی ہے۔ اب اس کے مہرباں ہونے کے کچھ امکان روشن ہوتے محسوس ہوئے ہیں تو ضبط کرنا دشوار ہو کر رہ گیا ہے۔ تم نے بھی تو اب تک ہیرے کی اصلیت کے متعلق اپنی تسلی فرما لی ہوگی۔؟ "
"ہاں وہ تو میں کر چکا ۔” آج پہلی دفعہ ہم ایک ساتھ ایک ہی مسہری پر بیٹھے تھے۔ "اب تم بھی ہماری تسلی کراؤ۔”
” جو بھی کہنا چاہتے ہو کھل کر کہو، کیسی تسلی چاہتے ہو۔؟
"یہی کہ ہمارے ساتھ کوئی دغا نہیں ہوگا۔ مطلب پورا ہو جانے کے بعد تم اپنے وعدے اور زبان سے پھرو گے نہیں۔ یہ باقی کی تین انگوٹھیاں بھی ہمارے حوالے کر دو گے۔”
"لا حول ولا قوۃ…. کیا تم ہمیں دھوکے باز خیال کرتے ہو۔ ہمیں جھوٹا اور فریبی تصور کر رہے ہو۔ بھئی حد ہوتی ہے۔ تم تو انتہائی بدگمان انسان واقع ہوئے ہو۔“
ہماری بات سے شاید لدھڑ کی غیرت مضروب ہوئی تھی۔ اس نے فورا ہاتھ سے تینوں انگوٹھیاں اتار کر ہماری گود میں ڈال دیں۔ "یہ لو۔ یہ سب ابھی سے تمہارے حوالے اور بتاؤ اور کیا چاہتے ہو؟“
ہم نے انگوٹھیاں ہاتھ میں لیتے ہوئے حیران نظروں سے لدھڑ کی طرف دیکھا۔” کمال ہے ! ابھی میں نے تمہارا کام کرنے کی حامی تو نہیں بھری۔
” کوئی بات نہیں، ہمارا اندازہ ہے کہ تم ہمارے کام آؤ گے۔”
"اور اگر میں انکار کر دوں تو ؟“
"پھر یقینا تم یہ انگوٹھیاں بھی اپنے پاس رکھنا گوارا نہیں کرو گے۔”
” یک بہ یک اتنا اعتماد…. فرض کرو کہ میں یہ انگوٹھیاں اب تمہیں واپس نہیں کرتا اور تمہارے کام آنے سے بھی انکاری ہو جاتا ہوں تو تم کیا کر لو گے میرا ؟”
"کیا کر لیں گے ہم!”
"ہاں”
لدھڑ کی آنکھوں میں فورا معنی خیزی کی چمک اور ہونٹوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ ابھر آئی۔ پھر وہ ہماری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ہنسنے لگا۔ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ ہمارا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہا ہو۔ دانت تو ایسے نکال رہے ہو جیسے میں نے تمہیں کوئی لطیفہ سنایا ہے۔” ہم نے فورا اپنی ناگواری کا اظہار بھی کر دیا۔
"اور نہیں تو کیا۔ تم نے بات ہی ایسی کہہ دی ہے ….. تو یعنی تمہیں ابھی تک یہ اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں؟” اس کے اس انداز پر ہمیں مزید سبکی کا احساس ہوا۔
ہم نے محسوس کیا کہ وہ ہنسی ہنسی میں اپنے حلق سے بطخوں اور مرغیوں کی آوازیں نکال رہا ہے۔
” دیکھو میں صرف انگوٹھیوں کی وجہ سے تمہارے کام آنے کے لیے تیار ہوا ہوں لہذا کسی اور خوش فہمی میں مت رہنا تم۔”
” ہمیں معلوم ہے، جانتے ہیں ہم "
” تو پھر اپنے ان گندے دانتوں کی نمائش بند کرو۔ ایسے میرا جی الٹ رہا ہے۔ "یقینا یہ ہمارے لفظوں اور لہجے کی اثر انگیزی تھی کہ لدھڑ کی ہنسی کو یک بہ یک بریک لگ گئے اور اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی کھنڈ گئی۔ ہم نے تینوں انگوٹھیاں اپنی انگلیوں میں پھنسائیں اور لدھڑ کی طرف دیکھا۔ وہ عجیب پتھریلے انداز میں یک ٹک سامنے والی دیوار کو تک رہا تھا۔ ایک نظر میں تو یہی ندازہ ہوتا تھا کہ اس کی روح اس کے نازک وجود کا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔ چند لمحے اسے دیکھتے رہنے کے بعد ہم نے خود ہی اسے مخاطب کیا۔
"کیا تم دونوں کا کوئی راز دار بھی ہے؟“
” راز دار "لدھڑ بڑ بڑایا۔
"ہاں…. جو تمہارے اور سلیم کے تعلق کے بارے میں جانتا ہو”
"ہم نے کتنی دفعہ تمہارے گوش گزار کی ہے کہ وہ ہماری منگیتر ہے۔” لدھڑ نے گلہ کرتی نظروں سے ہماری طرف دیکھا۔ اور ایسا ہمارے بزرگوں کی مرضی سے ہوا ہے۔ ہم دونوں کے خاندان اور برادری کے بہت سے لوگ یہ بات جانتے ہیں۔”
” کیا تم لوگوں کا آپس میں کوئی اور رشتہ بھی بنتا ہے۔؟”
"ہاں…سلیم ہماری سگی عم زاد ہے۔”
"پھر تو وہ بھی جن زادی ہوئی ۔” ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا تولدھڑ نے انتہائی غلط نظروں سے ہماری طرف دیکھا لیکن کوئی غلط بات کہنے سے گریز کرتے ہوئے بولا۔ "آج سے کئی برس قبل ابا اور چچا حضور نے ایک ساتھ انسانی آبادیوں کی طرف آنے کا قصد فر مایا تھا۔ ہم اس وقت بہت چھوٹے تھے پھر بھی ہمیں اپنے آبائی دیار کی بہت سی باتیں یاد ہیں۔ وہاں دور دور تک جنات کی چھوٹی چھوٹی آبادیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ انسان وہاں نہیں پائے جاتے تھے۔”
"یہ آپ کس خطہ سر زمین کا ذکر فرما رہے ہیں؟ "ہم نے چبھتے ہوئے لہجے میں ٹوکا۔
"کیا تم نے اپنی دادی یا نانی جان سے کبھی کوہ قاف کی کوئی کہانی نہیں سماعت فرمائی۔” لدھڑ نے حیرت و بے یقینی سے ہماری طرف دیکھا۔
” یعنی آپ کوہ قاف کے ایک جناتی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔” ہمارے لہجے کے شدید طنز کا بھی لدھٹر پر ایک ذرا اثر نہیں ہوا۔ اس کے چہرے پر ایک الوہی سی مسرت اور چمک پھیلی ہوئی تھی۔ جیسے اپنے دیس اپنی مٹی کا ذکر اور تصور اس کے لیے نہایت سکون و اطمینان کا باعث ہو۔ وہ یوں خلا میں تک رہا تھا جیسے کوہ قاف تک دیکھ رہا ہو۔ ہم متذبذب سے ہو کر بغور اس کے تاثرات کا جائزہ لینے لگے۔
وہ بول رہا تھا۔ "حرفِ قاف کی صورت میں پھیلے ہوئے اس پہاڑی سلسلے کے دامن میں گھنے جنگلات کی بہتات ہے۔ ہماری قوم آغازِ دنیا کے وقت سے ان جنگلات کے دشوار گزار خطوں میں آباد ہے۔ قدرتی حسن و خوبصورتی اور رنگ ونور کے روح پرور مناظر کے بیچوں بیچ فطرت کے انتہائی قریب ۔وہاں انسانوں کی مداخلت نہیں۔ جنات کے اپنے رسم و رواج اور اخلاق و اقدار کے اپنے ضابطے ہیں۔ شاذ ہی وہاں کبھی کسی انسان کو پایا گیا۔ وہ بھی بس کچھ وقت کے لیے کیونکہ وہاں زندگی خوبصورت سہی لیکن انتہائی دشوار ہے۔
ابا حضور بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ زمانوں پہلے جب انسان پہلی دفعہ ان خطوں میں پہنچا تو اسے دیکھ کر اس وقت کے تمام جنات دنگ رہ گئے تھے۔ تب پہلی دفعہ جنات کو معلوم ہوا کہ ہماری اس دنیا کے علاوہ یہاں سے بہت دورکہیں ایک اور دنیا بھی ہے جس میں انسان نامی ایک ایسی مخلوق رہتی ہے جس کا رہن سہن خاصا عجیب و غریب ہے۔
پھر گزرتے زمانوں کے ساتھ یہ واقفیت بڑھتی چلی گئی۔ مختلف قبیلوں کے مہم جویانہ طبیعت رکھنے والے چند جوانوں نے انسان کی اس دنیا اور اس دنیا تک جانے والے راستوں کو دریافت کرنے کا منصوبہ سوچا اور یوں پہلی دفعہ سات سردار قبیلوں کے سات جوان وادی کے دشوار گزار خطوں کو عبور کرتے ہوئے۔ نا معلوم سمتوں کی طرف ایک عہد انگیز سفر پر روانہ ہو گئے۔
کچھ عرصے بعد وہ اپنے مقصد میں کامیاب و کامران لوٹے تو اپنے ساتھ انسانوں کے استعمال اور ضرورت کی بہت سی حیرت انگیز اور عجیب و غریب اشیاء بھی لے کر آئے ۔ انسانی آبادیوں میں جنات کی آمد و رفت کا آغاز ہوا تو جلد ہی قوم جنات کو اندازہ ہو گیا کہ انسان نامی یہ مخلوق نہایت فتنہ انگیز ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کی مالک ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خطر ناک ہے۔ توقع کی جارہی تھی کہ مستقبل میں کبھی نہ کبھی یہ مخلوق وجود جنات کے لیے بھی خطرے کا باعث بن جائے گی۔ اس خطرے کا سد باب انتہائی ضروری تھا۔
جاری ہے۔ مزید پڑھنے کے لیے نیچے صفحہ نمبر تین پر کلک کیجیے۔