تخلیق زدہ (مکمل مزاحیہ ناول)

 اس لیے ہمارے جناتی سماج کے سرداروں اور مذہبی امیروں نے ایک طویل غور و فکر اور – مشاورت کے بعد بہت سے نوجوانوں کو چند مخصوص قواعد و ضوابط کا پابند ٹھہرا کر انسانوں سے علوم فنون سیکھنے کی غرض سے انسانی آبادیوں میں بھیج دیا۔ ان میں سے کچھ تو  انسانوں کی جادو نگری ہی میں مست ہو رہے اور جو واپس لوٹے ان کی طرز زندگی میں بھی ایک واضح اور بہتر بدلاؤ دیکھنے میں آیا۔ بس پھر یہ آنا جانا بڑھتا ہی چلا گیا۔ ضروریات میں سہولتوں کے خواہاں جنات کے بہت سے خاندان وادی قاف کے جنگلوں سے نکل نکل کر مختلف انسانی بستیوں میں آباد ہوتے چلے گئے۔

ضروریات زندگی کے حصول کی خاطر انہوں نے مختلف مزدوریاں ملازمتیں اور کاروبار اپنا لیے۔ جنات انسانی آبادیوں کی طرف ایسے ہی کشش محسوس کرتے تھے جیسے تم لوگ یورپ اور امریکہ کے لیے محسوس کرتے ہو۔ وادی قاف بحیرہ کیپسین اور بحر ِاسود کے درمیان واقع ہے۔ دیگر ہم نسلوں کی طرح ابا اور چاچا حضور بھی کئی سال پہلے وادی سے ہجرت فرما کر پہلے کابل اور کابل سے پھر یہاں ٹو بہ ٹیک سنگھ میں آبسے تھے۔ قرآن کریم کی تعلیم ہم نے کابل کے مولوی ثناء اللہ خان یوسف زئی سے حاصل کی اور اردو ادب میں ماسٹرز یہاں آکر مکمل کیا۔

یہیں ہمارے ایک اور بھائی کی پیدائش ہوئی۔ سلیم کے مزید دو بڑے بھائی اور خود سلیم بھی یہیں پیدا ہوئی۔ ہمارے والدین نے بچپن ہی میں ہماری منگنی کر دی تھی اور ہوش سنبھالتے ہی ہم ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہو گئے۔ سلیم نے ہماری خاطر ہی اردو ادب میں دلچسپی لینا شروع کی تھی۔ ہم اسے منشی پریم چند، سجاد حیدر اور غلام عباس کے افسانے اور آغا حشر کے ڈرامے تحفوں میں دیا کرتے تھے ۔ آج وہ اردو ادب کے آخری سال میں ہے۔ طے یہ پایا تھا کہ سلیم کا ماسٹرز مکمل ہوتے ہی ہمارا نکاح پڑھوا دیا جائے گا اور ہم ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ہو جائیں گے۔

کتنے منصوبے تھے ہمارے، کتنے خواب سجا رکھے تھے ہم نے مگر اب تمہارے لدھڑ نامے نے سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری تو گویا دنیا ہی اجڑ کر رہ گئی ہے۔ زندگی ہمارے لیے ایک کرب مسلسل، ایک مستقل عذاب بن گئی ہے۔”

 یک به یک ہی لدھڑانتہائی شکستہ اور آزرده خاطر نظر آنے لگا۔ ہم بغور اس کا جائزہ لیتے ہوئے گہری توجہ سے اس کا یہ افسانوی بیان سن رہے تھے۔ اس کے لب ولہجے اور چہرے کے تاثرات میں ضرور کچھ ایسا تھا جس نے ہمیں کسی بھی قسم کے تبصرے اور طنز سے باز رکھا۔ ہم بس پر خیال سنجیدگی سے اسے تکے گئے۔ وہ چند لمحے سر جھکائے اداس و ملول بیٹھا رہا پھر ہماری طرف دیکھتے ہوئے لجاجت سے بولا۔” بلند بخت! بس اب تم ہی ہماری بگڑی بنا سکتے ہو۔ صرف تم ہی سلیم کی بدگمانی دور کر سکتے ہو۔”

"کیا سلیم میری بات پر یقین کرے گی۔؟”

"تم لدھڑ نامہ کے مصنف ہو۔ سلیم صرف ایک تمہاری ہی بات پر تو یقین کر سکتی ہے۔“

"مگر مجھے یہ سب انتہائی عجیب اور نا مناسب لگتا ہے۔ لدھڑ نامہ والا فیاض لدھڑ …جن،  وہ سب اور وہ تمام واقعات تو قطعی  فرضی تھے۔ پھر اب تم سچ مچ کے فیاض لدھڑ… ایک جن… اگر میں کسی کو جا کر یہ یقین دلانے کی کوشش کروں کہ میری کہانی والا جن فیاض لدھڑ ایک فرضی کردار تھا  جب کہ حقیقی فیاض لدھڑ جن تم ہو اور میرے والے لدھڑ کی نسبت تم ایک شریف مہذب اور با کردار جن ہو۔ تو کیا تمہیں نہیں لگتا کہ یہ خاصا مضحکہ خیز ہو گا؟”

” نہیں، ہمیں ایسا نہیں لگتا۔ بے شک وہ سب فرضی تھا لیکن اتفاق سے ہمارے لیے وہ طوقِ گلو ثابت ہوا۔ تمہیں یہ سب اس لیے عجیب اور نا مناسب محسوس ہو رہا ہے کہ جنات کے متعلق تمہارے خیالات ماورائی نوعیت کے ہیں۔ تمہاری معلومات ایسے تصورات پر بنیاد کرتی ہیں جنہوں نے مفروضوں سے جنم لیا۔

دراصل آج سے بہت  پہلے ہی نا کافی معلومات کی بنا پر انسان نے قوم جنات کے متعلق نہایت عجیب و غریب حیران کن اور اثر انگیز مفروضے اور تصورات گھڑ لیے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے اور پھیلتے گئے۔ جنات کا ہوا میں اڑنا ،اچانک ظاہر اور غائب ہو جانا۔ کسی بھی انسان کے بدن میں حلول کر جانا اور جس روپ یا شکل میں مرضی ہو ظاہر ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب قصے کہانیوں کی حد تک تو ٹھیک ہے ،حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں۔

"کمال بات کر رہے ہو تم! ایسے تو بے شمار واقعات ملتے ہیں۔”

” ہاں بازار میں کتابوں کی صورت بکتے ہیں۔ یا پھر ایک مخصوص طرح کی نفسیات رکھنے والے لوگ ایسے واقعات کو اپنے تجربے یا مشاہدے کا حصہ قرار دے کر اپنے غیر معمولی اور برتر ہونے کی فطری خواہش کو تسکین پہنچاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔”

” لیکن ان حقائق کے متعلق تو بے شمار مستند حوالے موجود ہیں۔”

” چند ضعیف حوالوں کے علاوہ کہیں کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہر کسی کے نزدیک حقیقت پڑھی ،سنی یا سوچی ہوئی نہیں بلکہ دیکھی اور محسوس کی ہوئی ہونی چاہیے۔ کیا تمہارا کبھی کسی جن سے واسطہ پڑا ہے۔ خود تم نے کبھی کہیں کوئی جن دیکھا ہے؟” بات کرتے کرتے لدھڑ نے اچانک ہم سے براہ راست پوچھ لیا۔

"میرا… جن… ”  میرے مزید کچھ کہنے کا انتظار کیے بغیر لدھڑ بول پڑا۔ ہمیں معلوم ہے کہ تم ہنوز ہمارے متعلق شکوک وشبہات کا شکار ہو۔ کوئی بات نہیں۔ تمہاری طرح اور بھی بے شمار لوگ ہیں جن کا اپنی روز مرہ کی زندگی میں جنات سے واسطہ پڑتا ہے۔ جنات کے ساتھ لین دین بھی ہوتا ہے لیکن چونکہ ان کے حواس اور اذہان مفروضاتی تصورات کی دھند میں ملفوف ہوتے ہیں۔ سو وہ جان ہی نہیں پاتے۔

انہیں یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ یہ شخص جو ابھی گیا ہے یہ جن بھی ہو سکتا ہے بلکہ یہ خیال ہی سب کو انتہائی مضحکہ خیز اور احمقانہ لگتا ہے کہ جن سبزی کی دکان سے آلو خریدتا ہے۔ دن بھر رکشہ چلاتا ہے۔ راج مستری کے ساتھ مزدوری کرتا ہے۔ کسی بینک میں مینجر کی پوسٹ پر کام کرتا ہے، کہیں گوشت یا ٹینٹ سروس کی دکان کھولے بیٹھا ہے۔ یہ سب مضحکہ خیز ہی تو ہے لیکن حقیقت میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آخر جنات کو بھی تو زندگی کرنی ہے نا۔”

"زندگی کرنے کے لیے انہیں یہ سب کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے ؟انہیں کیا کمی… وہ تو اپنی جناتی طاقت سے کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔”

 ” جناتی طاقت …”لدھڑ گویا خود پر ہنس تھا۔ "اپنی محنت سے کما کھا کر دنیا میں عزت سے جیتے رہنے کے لیے ساری جناتی طاقت استعمال کرنی پڑتی ہے۔ ویسے بھی آس پڑوس کے گھروں سے چیزیں چھپر کر لینا اب کوئی آسان یا معمولی کام تو رہا نہیں۔ تمہارے محکمہ پولیس کی تحمل مزاجی کے باعث جنات جاتی تو کب کی ایسی حرکتوں سے توبہ تائب ہو چکی ہے۔”

گو کہ ہمیں لدھڑ سے شدید اختلاف محسوس ہو رہا تھا لیکن ہم کوئی اختلاف یا اعتراض اٹھا کر ایک لایعنی بحث کو طول نہیں دینا چاہتے تھے۔ ویسے بھی ہمیں اس بات سے کوئی خاص غرض نہیں تھی کہ جنات کیسے ہوتے ہیں اور کیسے نہیں، نہ ہی ہمارے نزدیک یہ سب جاننا سمجھنا کوئی اتنا ضروری تھا۔ ہماری دل چپسی تو محض ان چار انگوٹھیوں کی حد تک تھی جو اس وقت ہماری انگلیوں میں تھیں۔

” کیا مجھے یہ ساری تفصیل سلیم کو بتانا ہوگی۔”

"ارے نہیں بالکل نہیں۔ یہ سب تو ہم نے صرف تمہیں جنات کے متعلق ایک درست اور حقیقت کے مطابق تصور دینے کے خیال سے کہہ سنایا ہے۔ سلیم کو تم نے کیا بتاتا اور سجھاتا ہے اس بارے میں تو ہم پہلے ہی بات کر چکے ہیں۔ اب سوال صرف یہ باقی ہے کہ "کب؟” اور اس کا جواب تو ہم بھی جاننا چاہتے ہیں۔”

"سلیم کے معمولات کیا ہیں؟ میرا مطلب ہے کالچ کے علاوہ کہیں آنا جانا۔؟”

ہمیں اب گھات کا موقع تلاشنا تھا۔

"بالکل نہیں وہ ایک مکمل مشرقی جن زادی ہے۔” "

کا لج اکیلی جاتی ہے یا ساتھ کوئی ہوتا ہے۔”

بڑا بھائی موٹر سائیکل پر چھوڑ نے جاتا ہے۔ البتہ واپسی پر بھائی ساتھ نہیں ہوتا۔”

"زبر دست یعنی کالج سے واپسی گھر تک اکیلی جاتی ہے۔ تو راستے میں مناسب موقع دیکھ کر چلتے چلتے ہی ساری بات بتائی جا سکتی ہے۔” مناسب موقع تو دیکھا جاسکتا ہےمگر اسے اکیلا دیکھنا تھوڑا مشکل ہے۔”

"وہ کیوں؟”

بھئی کالج سے صرف ایک اسے ہی تو چھٹی نہیں ہوتی نا! علاقے کی اور بھی بہت سی دوشیزائیں ہوتی ہیں۔ آگے پیچھے چار چھ کی کئی ٹولیاں ہوتی ہیں۔”

"پھر تو رستے میں کچھ کہنے کا سوچنا ہی فضول ہے۔ میں ایسے مواقعوں پر گلے پڑ جانے والی رنگین و سنگین عزت افزائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تم کسی اور موقع کی نشاندہی کرو۔ ” ہم نے پہلو بدلتے ہوئے لدھڑ کو مخاطب کیا۔

"۔”پھر تم کالج کے اندر جا کر رابطے کی کوشش کر سکتے ہو۔”

ہم نے گھور کر دیکھا، لدھڑ پوری طرح سنجیدہ تھا۔

"نہیں، تم اس کی کسی ایسی سھیلی یارشتے دار کا بتاؤ جس کے گھر اس کا آنا جانا ہو۔”

"کالج کے علاوہ تو وہ کہیں بھی نہیں آتی جاتی۔”

"شہر محلے یا آس پڑوس میں کہیں کوئی ایک گھر تو ایسا ہوگا۔”

نہیں ہے۔” لدھڑ نے قطعیت سے جواب دیا تو ہم فکر مندی سے اپنا نچلا ہونٹ چیا کر رہ گئے۔ یہ صورت حال تو خاصی الجھن اور پریشانی والی تھی۔ باہر کہیں کسی جگہ اس سے مذاکرات کے قطعی کوئی امکانات نہیں تھے اور گھر کے دروازے تک جانا اپنے جسم و جاں کو گوشت کے بھاؤ بانٹ دینے کے مترادف تھا۔ اگر ہمیں ایک طرف جان کا نقصان دکھائی دیتا تھا تو دوسری طرف تیرہ لاکھ کا خسارہ بھی نظر آتا تھا۔ اور ہم ان میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے۔ ان دونوں خساروں سے بچاؤ کا صرف ایک ہی حل تھا اور وہ تھا کسی معقول و مناسب صورت حال میں سلیم تک رسائی اور استغاثے کی کارروائی ….!

ہمارے اور لدھڑ کے درمیان دیر تک تبادلہ خیال جاری رہا۔ مختلف منصوبے اور معاملے کے مختلف پہلو زیر بحث آتے رہے آخر کار ہم اسی نتیجے پر پہنچے کہ بیچ رستے کی ذلالت کے خطرے سے محفوظ رہنا ہے تو پھر ہمیں یا تو کالج کے اندر جانا ہوگا یا پھر سلیم کے گھر میں گھسنا پڑے گا۔

گھر ؟ جہاں پھمن پہلوان روز بھینسیں اور بکرے ذبح کرتا تھا… اور کالج ؟ کالج کی چند لڑکیوں کی موجودگی میں سلیم سے بات کر لینے کی ہمت تو ہم میں تھی نہیں۔ جہاں سے کسی بھی طرف فرار ہو جانا بھی آسان ہوتا ہے۔ پھر کالج کے اندر جاتا تو ایسے ہی تھا جیسے بندہ خود بھڑوں کے چھتے میں سر گھسیڑ دے کہ لو… ڈنک مارو… ڈس لو مجھے… اور اس طرح کی حرکت پر بات بگڑنے کی صورت میں کالج انتظامیہ ہمیں حوالہ پولیس کرنے کا حق بھی استعمال کر سکتی تھی۔

گھوم گھما کر بات پھر تیرہ لاکھ کے خسارے پر آ رکی تو ہم جھنجلا اٹھے۔ آخر ایک طویل بحث و تکرار کے بعد ہم ایک منصوبے کے تحت چوری چھپے سلیم کے گھر میں داخل ہونے کے سنگین فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ہمارے اس فیصلے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہم غیر شعوری طور پر پھمن اور لدھڑ کو چاچا بھتیجا تصور کرنے لگے تھے۔

منصوبے کے مطابق ہم دونوں کو نصف شب کے بعد سلیم کے دو منزلہ مکان میں داخل ہونا تھا۔ سلیم کے بھائی نیچے والے کمروں میں سوتے تھے اور پہلوان جی اپنی اہلیہ کے ہمراہ اوپری منزل کے ایک کمرے میں۔ ان کے اور سلیم کے کمرے کے درمیان والا کمرہ اسٹور کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ جس کے ساتھ ہی سیڑھیاں تھیں۔

ہم دونوں سیڑھیاں چڑھتے ہی سیدھا سلیم کے کمرے میں جاتے۔ ہماری ایسی آمد یقینا اس کے لیے حیرت اور ناگواری کا باعث تو بنتی لیکن لدھڑ کی وجہ سے یقینا وہ حواس باختہ ہو کر واویلا مچانے کی ضرورت محسوس نہ کرتی۔ سلیم کو اپنا چہرہ دکھا کر لدھڑ کمرے سے نکل کر اسٹور روم والے کمرے کے دروازے کے قریب ہمارا نتظار کرتا۔

ہم اپنا تعارف پیش کرنے کے بعد ساری رام کہانی سلیم کے گوش گزار کرتے۔ اسے بتاتے کہ لدھڑ ہمیں کب کیسے اور کیوں ملا اور یہ کہ لدھڑ صاحب واقعی آپ سے سچی اور خالص روحانی محبت کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں اپنی اور لدھڑ کی طرف سے سلیم کے حضور معافی کی درخواست پیش کرتے ہوئے رخصت لینا تھی۔ پھر جس خاموشی سے ہم مکان میں داخل ہوئے ہوتے اسی خاموشی سے واپس ہو لیتے اور چاروں انگوٹھیاں ہماری ہو جاتیں۔

یعنی اتنے سے کام کے بدلے ہم تیرہ لاکھ کما لیتے اور بالفرض محال اگر سلیم کا رویہ ہماری توقع کے خلاف ہوتا یا ہم گھر کے کسی اور فرد کی نظروں میں آ جاتے، بات بگڑ جاتی تو بھی لدھڑ کی وجہ سے کوئی زیادہ سنگین نوبت نہ آتی اور گھر کی بات کو گھر کے اندر ہی رفع دفع کر دینے کی کوشش کی جاتی۔ اس صورت میں بھی ہم چاروں انگوٹھیوں کے حق دار ٹھہرتے ۔ مزید کچھ دیر کی سوچ بچار کے بعد ہم نے آج رات ہی اپنے منصوبے کو عملی شکل دینے کی ٹھان لی۔

اس کے بعد لدھڑ رات کا وعدہ کر کے روانہ ہو گیا اور ہم رنگ برنگی سوچیں سوچنے لگے۔ شکوک و شبہات اور اندیشوں واہموں کی دھند میں سے جھانکتا ہوا تابناک مستقبل ہمیں للچاتا رہا۔ ہماری ہمت بندھاتا رہا اور ہم جلد از جلد دھند کی اس چادر کے پار نکل جانے کے اضطراب میں گھرے رہے۔

رات قریباً ایک بجے جب بیرونی دروازے پر مدھم سی دستک ہوئی اس وقت ہم چولہے پر چائے کی دیگچی چڑھائے بیٹھے تھے۔ توقع کے عین مطابق آنے والا لدھڑ ہی تھا۔ وہ اپنے مخصوص حلیے میں ایک کھٹارا سی سائیکل سنبھالے کھڑا معمول سے کچھ زیادہ ہی مضحکہ خیز کھائی دے رہا تھا مگر ہم نے کوئی تبصرہ کیے بغیر خاموشی کے ساتھ اسے اندر بلالیا۔ چائے تقریباً تیار ہی تھی۔ ہم نے دو کپوں میں انڈیلی اور ایک کپ لدھڑ کو تھما دیا۔

” یہ سائیکل کس لیے؟ پہلوان کا گھر زیادہ فاصلے پر تو نہیں ہے۔”

"یہ وہاں تک جانے کی بجائے گڑ بڑ کی صورت میں فورا نکل بھاگنے کے لیے زیادہ ضروری تھی۔ایسے مواقعوں پر اپنی سواری نہایت کارآمد ثابت ہوا کرتی ہے۔” لدھڑ نے تدبر کا اظہار کیا۔”

"یہ چلتی بھی ہے؟” سائیکل کی حالت ہمارے لیے تشویش کا باعث تھی۔

"چلتی… ارے بھاگتی ہے میاں! بلکہ یوں کہو کہ اڑتی ہے۔ ہوا سے ہمکلام ہوتی ہے۔ ایک بار جب آگے بڑھا دی جائے تو پھر جلدی سے رکنے کا نام بھی نہیں لیتی اور غلطی سے کہیں رک نہ جائے اس احتیاط کے پیش نظر ہم پہلے ہی اس کے دونوں بریک نکال کر پھینک چکے ہیں۔”

"یعنی اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی لولا لنگڑا بنانے کا بندو بست کر کے آئے ہو۔”

"ایک تو تم ہمیشہ منفی پہلو پر پہلے سوچتے ہو۔ بھئی بریک نہیں تو کیا ہوا ہینڈل تو ہے نا اور ماشاء اللہ دونوں آنکھیں بھی سلامت و صحت مند ہیں تمہاری، پھر گھبراتے

کیوں ہو۔”

”میری آنکھیں۔ یعنی تمہارا مطلب ہے کہ سائیکل مجھے چلانا ہوگی۔؟”

"…چلانے کو تو ہم بھی چلالیں گے لیکن ہماری ڈرائیو پر شاید تمہیں اطمینان نہ ہو اس لیے "

میرے خیال میں تو اسے یہیں کھڑا رہنے دیں تو بہتر ہوگا۔” ہم نے اپنا خیال ظاہر کیا مگر وہ بھی لدھڑ تھا۔ اس نے سائیکل کے فوائد پر مِلّی قسم کی تقریر شروع کردی اور ہم بس خاموشی سے سنتے گئے۔ ہمیں اندازہ ہو چکا تھا کر وہ ہر صورت سائیکل ساتھ ہی لے کر چلے گا۔

چائے نوشِ جان کر چکنے کے بعد ہمارے درمیان ایک بار پھر منصوبے کی جزیات پر تبادلہ خیال ہوا اور ہم نے لدھڑ پر کھلے لفظوں واضح کیا کہ سلیم راضی ہو یا نا ہو اس منصوبے کے بعد چاروں انگوٹھیاں ہماری ملکیت ہوں گی اور یہ کہ اس کے بعد تم ہمیں مزید کوئی جھنجھٹ نمٹانے پر مجبور نہیں کرو گے۔

اس کے بعد ہم لوگ خدا کا نام لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ رات کے دو بجے کا عمل تھا۔ ہم نے بیرونی دروازے پر تالا ڈالا اور سائیکل ڈرائیونگ کی ذمہ داری لدھڑ کے سر ڈال کر خود اس کے پیچھے سائیکل پر تشریف فرما ہو گئے تا کہ اگر کہیں کسی قسم کے تصادم کی صورت حال بنے بھی تو بر وقت اچھل کر اُتر سکیں۔ اپنا آپ بچا سکیں۔

گلی سے نکلتے ہی لدھڑ نے سائیکل کا رخ اسٹیشن کی طرف جانے والے راستے پر موڑا تو ہم بے اختیار بول پڑے۔

"ہمیں تو ہاؤسنگ کالونی جانا تھا۔”

"جانا تھا نہیں، جانا ہے۔”

"تو پھر ادھر کدھر؟ بس اسٹینڈ کی طرف سے چلو نا۔ جلدی پہنچ جائیں گے۔”

ادھر سے گئے تو ہمیں شبستان ہوٹل کے سامنے سے گزرنا ہو گا جو مناسب نہیں سو ہم اوپر سے ہو کر کالونی پہنچیں گے۔”

"مناسب کیوں نہیں، تم نے کیا ان کا قرض دینا ہے؟”

شب کے اس پہر اگر ہوٹل کے کسی فرد کی نظر ہم پر پڑ گئی تو قبلہ والدِ بزرگوار کے ہاتھوں ہماری شامت آ جائے گی۔”

"یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی ۔”

"در اصل وہ ہوٹل ہمارا ہی ہے۔ لہذا اگر کسی ملازم نے بھی ہمیں دیکھ لیا تو خبر والدِ بزرگوار تک پہنچ جائے گی کہ آپ کے برخوردار رات آخر پہر گشت فرماتے دیکھے گئے ہیں۔ اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہمارے والد گرامی کس مزاج کے جن واقع ہوئے ہیں۔ بس یوں سمجھ لو کہ ہماری سلامی خطرے میں پڑ جائے گی۔ لہذا اسٹیشن کی طرف ہی سے کالونی میں داخل ہونا مناسب رہے گا۔ تم بے فکر ہو کر بیٹھو اور خود کو کالونی پہنچا سمجھو۔” لدھڑ وضاحت پیش کرتے ہوئے کسی پروفیشنل سائیکلسٹ کی طرح سامنے کی سمت جھکتا چلا گیا اور سائیکل جیسے لمحہ با لمحہ سڑک سے بلند ہوتی ہوئی ہوا سے کلام کرنے لگی۔

"یہ کیا کر رہے ہو تم۔؟ ” ہمیں اپنی آواز میں خفیف سی لرزش محسوس ہوئی تھی۔

” سائیکل چلا رہے ہیں۔”

"آہستہ، آہستہ… رفتار کم کرو۔” ہم نے ایک ہاتھ سے گدی اور دوسرے سے لدھڑ کی سلکی شیروانی پکڑ لی۔ "میں کہہ رہا ہوں رفتار کم کرو، اس کے تو بریک بھی نہیں ہیں۔ کیوں اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی اپاہج کر دینے پر تلے ہو۔”

"بے فکر ہو کر ہماری ڈرائیونگ کا لطف اٹھاؤ۔” لدھڑ کے لہجے میں بے پروائی تھی اور ہمارا حلق تھا کہ خشک ہوا جا رہا تھا۔ گو کہ رستہ صاف تھا۔ سڑک خالی تھی۔ اکا دکا اسٹریٹ لائٹس اور چاند کی روشنی میں دور تک واضح دکھائی دے رہا تھا۔ کوئی رکاوٹ کوئی ذی نفس موجود نہ تھا۔ پھر بھی بن بریک سائیکل کی ایسی جمبو جیٹ رفتار کسی طور بھی مناسب نہ تھی۔ لدھڑ کی ایک ذرا غلطی ہمیں کسی نا قابل تلافی نقصان سے دو چار کر سکتی تھی۔ ہمیشہ کے لیے اپاہج پن کا باعث بن سکتی تھی۔

"پاگل مت بنو۔ رفتار کم کرو یا پھر مجھے اتار دو۔” ہم نے اپنی لرزیدہ آواز میں کہا لیکن اس کم بخت نے جیسے سنا ہی نہیں۔ "دیکھو میں چھلانگ لگادوں گا۔ ہم نے گویا دھمکی دی تو اس کے حلق سے اچھلنے والا بھیانک قہقہ ہمارے کانوں سے رگڑ کھاتا ہو گزر گیا۔ اتنی تیز رفتاری سے دوڑتی سائیکل سے چھلانگ لگانے کی دھمکی پر اسے قہقہہ لگانا بھی چاہیے تھا۔

ایک بار تو ہمارے جی میں آئی کہ اس کمینے کی کمر پر دوہتڑ رسید کریں اور دو چار گھونسے پسلیوں میں ٹھونک دیں۔ مگر ہماری ایسی کوئی حرکت یقینی طور پر ہم دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتی سو ہم بس دانت کچکچا کر رہ گئے۔

سائیکل تھی کہ بندوق سے نکلی ہوئی گولی کی طرح آگے بڑھتی گئی۔ ایک کے بعد ایک موڑ سڑک سے گلی، گلی سے سٹرک، آخر کار ہاؤسنگ کالونی کی جامع مسجد والی مرکزی سڑک پر پہنچتے ہی لدھڑ سیدھا ہو بیٹھا۔ اس نے پیڈلنگ بھی روک دی۔ سائیکل اب خود کار انداز میں آگے کی طرف دوڑی جا رہی تھی۔ ہمارے کشیدہ اعصاب قدرے ڈھیلے پڑ گئے۔ اور سانس میں بھی قدرے سہولت در آئی۔

سائیکل اپنے ہی زور میں آگے بڑھتی گئی۔ اندازہ تھا کہ وہ رکتے رکتے بھی مسجد سے کافی آگے جا نکلے گی مگر لدھڑ نے مسجد کے قریب پہنچتے ہی دونوں پاؤں نیچے سڑک پر جما دیے۔ سڑک پر اس کے جوتوں کے گھسنے کی آواز نے رات کے سکوت کو کچھ دیر کے لیے زخمی تو کیا لیکن سائیکل بالکل مسجد کے قریب جا رکی۔ پھمن پہلوان والی گلی یہاں سے محض چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ ہماری دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔

رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔ چاروں طرف اندھیرا اور خاموشی تھی۔ بس کہیں کہیں روشنی کے آثار تھے اور ہمیں اس وقت چوروں کی طرح پھمن پہلوان کے گھر گھسنا تھا۔ گو کہ ایسا کرتے ہوئے ہمارے دیکھے جانے کے امکان بالکل بھی نہیں تھے، پھر بھی ہمیں محسوس ہورہا تھا کہ کہیں نہ کہیں ضرور کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ہم دیکھ لیے جائیں گے۔

"اب اترو بھی۔” لدھڑ کی آواز نے ہمیں چونکایا تو ہم سائیکل سے اتر کھڑے ہوئے۔

"آو۔” لدھڑ نے مختصراً کہا اور آہستہ سے گلی کی جانب بڑھ گیا۔

کیا وہ سب سو رہے ہوں گے۔؟”“

"نہیں، ہمارے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔ خدا کے بندے ظاہر ہے، رات کے اس پہر ہر کوئی خواب خرگوش میں مدہوش ہوتا ہے۔ انہوں نے تو صبح جلدی اٹھنا ہوتا ہے سو وہ رات کو سو بھی جلدی جاتے ہیں۔” لدھڑ کی وضاحت پر ہم ہونٹ بھینچ کر رہ گئے۔ لیکن تشفی نہیں ہوئی۔

گلی بالکل سنسان پڑی تھی۔ فضا پر ایک عجیب سا سکوت طاری تھا۔ یوں جیسے ان گھروں میں کوئی ذی روح باقی نہ رہا ہو۔ سب مر چکے ہوں۔ جیسے جیسے ہم پہلوان کے گھر کے قریب ہوتے جا رہے تھے۔ ہماری گھبراہٹ میں اضافہ ہوا جا رہا تھا۔

” لدھڑ بھائی! کوئی مسئلہ نہ بن جائے۔” ہماری آواز میں لرزش تھی۔”

” ارے میاں! گھبراتے کیوں ہو؟ ہم ہیں ناں تمہارے ساتھ۔ مسئلے کو ہم دیکھ لیں گے۔ تم بس سلیم کا سوچو۔ باقی ساری ذمہ داری ہماری ہے۔”

"میں نے پہلے کبھی کسی کی دیوار نہیں پھاندی۔ اس لیے تھوڑی سی گھبراہٹ تو ہو گی ہی۔”

"یعنی دوسرے لفظوں میں تم ہمیں عادی دیوار پھاندو کہہ رہے ہو۔” لدھڑ نے بدمزگی سے سرگوشی کی۔ تمہارا تو گھر والا معاملہ ہی ہوا ناں اور پھر تم تو عاشقِ صادق بھی ہو مگر میں اس معاملے میں اناڑی ہوں۔ مجھے عشق و عاشقی کا کوئی تجربہ نہیں۔”

"یہی مکان ہے۔” لدھڑ پھمن پہلوان کے مکان کے دروازے پر رکتے ہوئے بولا۔

"لدھڑ بھائی! ایک بار پھر سوچ لو۔”

"کتنا سوچو گے میاں! اب تو منزل پر پہنچ چکے۔” لدھڑ نے سائیکل آہستہ سے دیوار کے بالکل ساتھ کھڑی کردی۔

"ہماری شادمانی اور تمہاری خوش زمانی دیوار کے اس طرف ہے بلند بخت! خدا کا نام لے کر چڑھ جاؤ۔ ایک بار سلیم کو حقیقتِ حال سے آگاہ کر دو اس کے بعد خوشحالی کی زندگی گزارو۔” ہم نے لاشعوری طور پر ادھر ادھر دیکھا۔ خاموشی، سناٹا اور کہیں کچھ نہ تھا۔

ٹھیک ہے۔ تم بھی ساتھ ہونا۔؟””

"ارے ہاں بھئی! تم چڑھو دیوار پر، ہم بھی ساتھ ہی ہیں۔”

ہم نے دل ہی دل میں خدا کو یاد کیا۔ اپنی نیت اور مقصد کی سچائی و صفائی کا اظہار فرمایا اور لدھڑ کی مدد سے سائیکل پر پاؤں دھرتے ہوئے دیوار کے اوپر جا پہنچے۔ یہ آٹھ دس مرلے کا ایک صاف ستھرا مکان تھا۔ سامنے برآمدے میں ایک کم پاور کا بلب روشن تھا جس کی مدھم روشنی میں صحن دھندلا ہی سہی مگر دکھائی دے رہا تھا۔ سامنے ہی چار پانچ کمرے ایک قطار میں بنے دکھائی دے رہے تھے اور تین کمرے اوپر تھے۔

دائیں طرف کونے میں ایک گائے بندھی ہوئی تھی جس کی یقینا صبح شامت آنے والی تھی۔ بیرونی دروازے کے ساتھ دکھائی دینے والا کمرہ یقینا بیٹھک رہی ہو گی۔ اور دروازے کے اس طرف دیوار کے ساتھ ساتھ ایک کیاری میں مختلف پودے دکھائی دے رہے تھے جو دیوار کے آخری کونے تک ایک قطار کی صورت موجود تھے۔ ہم دیوار پر اکڑوں بیٹھے تھے۔ ایک نظر اندر کا جائزہ لینے کے بعد ہم لدھڑ کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ سائیکل پر چڑھ آیا تھا ہم نے اسے دیوار پر چڑھنے میں ہاتھ کا سہارا دیا۔ دل کو قدرے ڈھارس ہوئی کہ وہ اپنے کہے کے مطابق ہمارے ساتھ ہی ہے۔

"وہ برآمدے کے ساتھ سے سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں، اور یہ ادھر بائیں طرف والا کمرہ سلیم کا ہے۔” لدھڑ نے سر گوشی کرتے ہوئے ہمیں اشارے سے سیٹرھیاں اور سلیم کا کمرہ دکھایا جس کی کھڑکی میں سے ہلکی نیلی روشنی جھلک رہی تھی جو یقین زیرو پاور کے بلب کی تھی۔

"ٹھیک ہے اُترا جائے پھر۔”

"ہاں، احتیاط سے۔” لدھڑ نے آہستہ سے ہمارا کندھا تھپتھپایا اور ہم دیوار سے اندرونی جانب لٹک گئے۔ ہمارے دونوں ہاتھ دیوار کے کنارے پر تھے اور خود ہم نیچے لٹکے ہوئے تھے اس کے باوجود ہمارے پاؤں زمین نہیں چھو رہے تھے۔ ہم نے ایک نظر لدھڑ پر ڈالی اور ہاتھ چھوڑ دیئے۔ نیچے کیاری تھی۔ کوئی آواز تو نہیں ابھری البتہ کل شام شاید پودوں کو پانی دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ہمارے پاؤں ٹخنوں تک کیاری کی کیچڑ نما مٹی میں دھنس گئے۔ کچھ کیچڑ بوٹوں کے اندر بھی گھس گیا۔

جی میں تو آئی کہ بوٹ اتار کر لدھڑ کے منہ پر کھینچ ماریں مگر صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر ہم وہیں دبک کر بیٹھ رہے۔ آئندہ لمحے ہماری پیروی کرتے ہوئے لدھڑ بھی ہمارے پہلو میں آ بیٹھا۔

"لعنت ہو۔”

"کس پر۔؟” لدھڑ کی بڑبڑاہٹ پر ہم متفسر ہوئے۔

"جس کسی نے بھی پودوں کو غسل دیا ہے۔” اس نے مینڈک کی طرح منہ پھلایا۔

"ہو سکتا ہے، سلیم صاحبہ نے دیا ہو۔” یقیناً ہماری قیاس آرائی اسے انتہائی نا گوار گزری تھی۔ مگر اس نے کچھ کہا نہیں، بس ہمیں گھور کر رہ گیا۔

کچھ دیر تو ہم دونوں وہیں دبکے رہے پھر اٹھ کر دبے قدموں سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئے۔ پورے گھر پر ہو کا عالم طاری تھا۔ ہم ابھی صحن کے وسط میں پہنچے تھے کہ ایک طرف بندھی گائے اپنی بھیانک آواز میں یوں ڈکرائی کہ ہمارا تو کلیجہ ہی کانپ اٹھا۔ قریب تھا کہ ہم پلٹ کر بھاگ کھڑے ہوتے لدھڑ نے ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھا اور تیز سرگوشی میں بولا۔

"آگے بڑھو۔” ہمارے قدم خود کار سے انداز میں آگے کی سمت اٹھ گئے۔ ابھی ہم مزید چند قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ اچانک کسی کتے کی بھیانک آواز ہمیں دہلا گئی۔ ابھی ہم ٹھیک سے سمت کا تعین بھی نہیں کر پائے تھے کہ کتے کی پہلے سے بھی زیادہ بھیانک اور دلدوز آواز ہمیں لرز گئی۔

بس پھر جو ہوا آناً فاناً ہو گزرا۔ اچانک کسی طرف سے ایک ساتھ دو کتے نمودار ہوئے تھے۔ یعنی یک نہ شد دو شد۔ کتوں کی جسامت اور جبڑے دیکھتے ہی ہماری تو روح فنا ہوگئی۔ کتے کیا تھے بچھڑے تھے۔ یعنی اچھے خاصے جسیم و حجیم اور خوفناک تھے۔ ہم نے بوکھلاہٹ میں لدھڑ کی طرف دیکھا لیکن وہ تو اپنی جگہ سے یوں غائب تھا جیسے کبھی رہا ہی نہ ہو۔

کتے ہولناک انداز میں غراتے بھونکتے ہماری طرف لپکے تو ہمارے حواس بالکل ہی مختل ہو گئے۔ اندازہ ہے کہ ہم بیرونی دروازے کی سمت ہی دوڑے تھے اور اسی دوران ہمیں ایک طرف بندھی گائے کی پیٹھ پر سے دیوار پر چڑھتے ہوئے ذلیل لدھڑ کی ایک جھلک بھی دکھائی پڑی تھی۔ غالبا اس نے چیختے ہوئے کچھ کہا بھی تھا لیکن ہماری سماعت میں صرف کتوں کی گرج دار آوازیں دندنا رہی تھیں یا پھر اپنی ہی دہشت زدہ بے معنی چیخ و پکار۔ شاید کتے تھوڑی سی ڈھیل دیتے تو ہم نکل بھاگنے میں کامیاب ہو ہی جاتے مگر وہ تو کُتے تھے۔

ہم دروازے کے قریب پہنچے ہی تھے کہ دونوں نے ایک ساتھ ہمیں آ لیا۔ ایک نے ہماری دائیں پنڈلی کو احترام بخشا تو دوسرا چھلانگ مار کر سیدھا ہمارے کندھوں پر سوار ہوا۔ پنڈلی کی اذیت ناک گرفت اور اس دھچکے سے لڑکھڑا کر ہم منہ کے بل گرے اور ہمارے کندھوں پر سواری کا شوقین ایک دھماکے کی آواز سے بیرونی دروازے سے جا ٹکرایا۔

کتوں کی "بھاؤں بھاؤں” اور ہماری "بھاں بھاں” سے پورا ماحول لرز اٹھا تھا۔ دونوں کتے عفریتوں کی طرح ہم پر چھاگئے تھے اور ہم جی جان سے اپنا بچاؤ کرنے کے لیے زمین پر تڑپ رہے تھے۔ ہاتھ پاؤں چلا رہے تھے۔ ادھر سے ادھر پلٹنیاں کھا رہے تھے۔ ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ ہمارا آخری وقت آچکا ہے اور آئندہ کچھ ہی دیر میں ہم پھمن پہلوان کے ان گوشت خور پہلوان کتوں کے معدوں میں پہنچ چکے ہوں گے۔

شاید ہمارا یہ اندیشہ درست ثابت ہو ہی جاتا کہ اچانک پھمن کے پانچوں پہلوان سپوت’ کتوں کو آوازیں دیتے جھڑکتے موقع پر پہنچ آئے۔ انہوں نے جیسے تیسے کتوں کو قابو کر کے ایک طرف باندھا اور پھر ہماری طرف متوجہ ہو گئے۔ ہمیں اٹھا کر برآمدے میں لے جایا گیا۔ پانی پیش کیا گیا۔ اتنے میں پھمن جی بھی نیچے پہنچ آئے تھے۔ گو کہ ہمارا وجود جگہ جگہ سے ادھڑ چکا تھا لیکن مقام شکر تھا کہ بر وقت وہ پانچ فرشتے پہنچ آئے تھے اور ہماری جان بچ گئی تھی۔ وجود کے تمام اعضا بھی ثابت سلامت تھے۔ پانی پینے کے بعد ہمارے حواس مزید کچھ ٹھکانے پر آئے تو ہمارا انٹرویو شروع ہو گیا۔

کون ہو؟ کہاں سے آ ئے ہو؟ کیسے آئے؟ اور کیوں آئے ہو؟ ان سب کے مہربان اور ہمدردانہ رویے سے ہماری آنکھیں بھر آئیں اور ہم نے بھرائی ہوئی آواز میں تمام حقیقتِ حال پوری دیانت داری اور حرف بہ حرف سچائی کے ساتھ ان کے گوش گزار کر دی۔

اب خدا معلوم کہ انہیں اس داستان کا کونسا حصہ ناگوار گزرا کہ وہ ایک ساتھ بپھر کر ہم پر ٹوٹ پڑے۔ گھونسے، ٹھڈے، تھپڑ، کمینوں نے یہ بھی خیال نہیں کیا کہ کونسا حصہ پہلے سے زخمی ہے۔ کس مقام کو نشانہ بنانا چاہیے اور کس کو نہیں۔ ہم چیختے رہے، چلاتے رہے لیکن وہ تو جیسے بہرے ہو چکے تھے۔ کتوں والی تمام وحشت ناکی جیسے ان میں اتر آئی تھی۔ ہمارا دل ڈوبنے لگا آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا تو ہمیں پھر سے پانی پیش کیا گیا۔ کچھ پانی ہمارے سر پر انڈیلا گیا۔ حواس قدرے بہتر ہوئے تو پھر سے انٹرویو۔

"”ہاں بھئی جنّ کے رشتے دار! کون ہو، کہاں سے اور کیوں آئے ہو؟ سب کچھ سچ سچ بتا دو” ہمیں خیال گزرا کہ شاید ذہنی و جسمانی ابتری کے باعث ہم کچھ غلط بیان دے چکے ہیں سو اس بار ہم نے اچھی طرح لدھڑ کی آمد اور اب تک کے تمام واقعات کو یاد کرتے ہوئے پھر سے تمام حقیقت پوری ایمانداری سے بیان کرنا شروع کر دی مگر ان کم بختوں نے اس بار ہماری پوری کہانی سنی بھی نہیں اور پھر سے شروع ہو گئے۔

اس روز ہمیں لفظ قصائی کی حقیقی معرفت سے آگاہی ہوئی۔ اور ہم لفظوں کے معنوی اثرات کے بھی خلوصِ دل سے قائل ہو گئے۔

دن چڑھے تک انٹرویو کا یہ ستم انگیز سلسلہ جاری رہا۔ ہم پر بار بار غشی کے دورے پڑتے رہے۔ ہر بار ہمیں کچھ پانی پلایا جاتا، کچھ ہمارے سر پر انڈیلا جاتا اور پھر سے وہی سوالات دہرائے جاتے اور جواب مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ کمینے پھر سے ہم پر ٹوٹ پڑتے۔

خدا معلوم پھر کس مہربان نے تھانے اطلاع دی۔ پولیس والے کس طرح وہاں پہنچنے۔ بہر حال پولیس کے آنے پر ہی ہماری جان بخشی ہوئی تھی۔ وگرنہ تو وہ قصائی خاندان ہمارے قیمے سے روزی کمانے کا پروگرام ترتیب دیئے بیٹھا تھا۔

ہمیں اپنی اس وقت کی شکستہ حالت کا کچھ ٹھیک سے انداز نہیں۔ شاید پولیس والوں کے خیال میں ہم کوئی تسلی بخش حال میں نہیں تھے جو وہ ہمیں تھانے لے جانے سے پہلے ہسپتال لے گئے تھے۔ تین چار گھنٹے ہسپتال میں رکھنے کے بعد انہوں نے ہمیں لے جا کر حوالات میں ڈال دیا۔ ویسے تو پولیس تھانے کے نام سے ہماری ہمیشہ ہی سے جان جاتی تھی لیکن اس وقت ہم نے حوالات میں خود کو خاصا مطمئن اور محفوظ جانا۔ کم از کم یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب ہماری زندگی محفوظ ہے۔ کیونکہ یہاں قصائی خاندان بشمول کتوں کے ہم پر حملہ آور نہیں ہو سکتا تھا۔

قلب و ذہن اور جسم و جاں کی زبوں حالی کا جو عالم تھا۔ اسے مناسب الفاظ میں بیان کرنا تو ممکن ہی نہیں۔ گزشتہ چند گھنٹوں میں ہم پر جو قیامت گزری تھی اس کے گزر چکنے کے باوجود ہمارے اندر کہیں بے چینی کا احساس ہمک رہا تھا۔ شاید ہم اس سب کو قبول نہیں کر پارہے تھے۔

آخر کو ہماری آنکھ لگ گئی۔ خدا معلوم نیند ہی تھی یا کہ نقاہت کے باعث بے ہوشی۔ بہر حال ہم ایک سکون بخش غفلت میں کہیں گم ہو گئے تھے۔ ہمارے آئندہ تین چار روز نہایت پر سکون انداز میں گزرے۔ کھانا پانی وقت پر ملتا رہا۔ دو بار ہمیں ہسپتال لے جا کر تازه مرہم پٹی بھی کرائی گئی کچھ ادویات ہمیں حوالات ہی میں مہیا کردی گئی تھیں۔ اس خصوصی دیکھ بھال کے طفیل تین چار روز میں ہی ہماری توانائیاں بحال ہو آئیں۔ پولیس والوں کے اس مہربان رویے نے ہماری ان کے متعلق رائے ہی بدل ڈالی تھی۔ ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارے ملک کے عوام بے جا طور پر پولیس کو برا گردانتے ہیں۔ نا پسند کرتے ہیں، حالانکہ پولیس والے خاصے معقول انسان ہوتے ہیں۔

صبح ہم نے یہ اندازہ قائم کیا تھا اورشام کو ہمارا یہ اندازہ غلط ثابت ہو گیا۔ اس روز دن میں پھمن پہلوان اپنے پانچوں بلڈاگ سپوتوں کے ہمراہ تھانے آیا تھا۔ گھنٹہ بھر ایس ایچ او کے دفتر میں وہ لوگ نجانے کیا کھچڑی پکا کر رخصت ہو گئے اور شام کے وقت ہمیں تھانے کے صحن میں نکال لیا گیا۔ سامنے ہی ایس ایچ او صاحب بذاتِ خود کرسی بچھا کر بیٹھ گئے اور پانچ چھ جوان ہمارے ارد گرد کھڑے ہوگئے۔

صورت حال کی غیر معمولی نوعیت کا اندازہ تو ہمیں فوراً ہی ہو گیا تھا مگر نوعیت کی شدت ہم پر کچھ دیر بعد آشکار ہوئی۔ ہم سے جتنے سوال کیے گئے ہم نے ان کے بالکل سچ اور ٹھیک ٹھیک جوابات دیئے اور اس سچ کے انعام میں ہمیں وہیں ننگے فرش پر لٹا لیا گیا۔ اس کے بعد… الحفیظ الامان!

ہم نے بہت واویلا کیا بہت واسطے دیئے کہ آپ لوگ جو سننا پسند کریں ہم وہی عرض کیے دیتے ہیں لیکن انہوں نے ہماری ایک نہ سنی۔ گویا وہ صرف ہمیں اپنی حد درجہ نا معقولیت کا یقین دلانے پر آمادہ تھے۔ سو ہمارے لاکھ شور و غل کے باوجود کم بختوں نے ہماری اچھی خاصی تشریف شریف کی ڈبل روٹی بنا کر رکھ دی اور ہم آئندہ تین روز اٹھتے بیٹھتے اپنے منہ سے خارج ہونے والی ہائے ہائے کی آوازوں سے محظوظ ہوتے رہے۔

اسی دوران ہم پر یہ بھی آشکار ہوا کہ ہماری ہیرے کی چاروں انگوٹھیاں بھی غائب ہیں۔ دل ڈوب ہی تو گیا تھا۔ اب تک جو بھی گزری تھی اس میں یہ چار انگوٹھیاں ہی تو تھیں جو کسی قدر حو صلے اور اطمینان کا باعث تھیں کہ چلو جو عذاب گزرا سو گزرا صلے اور ازالے کے طور پر لاکھوں مالیت کی یہ چار انگوٹھیاں تو ہمارے پاس ہیں نا، مگر اپ وہ بھی نہیں رہی تھیں۔ گزشتہ دنوں ہماری حالت بھی ایسی دگر گوں رہی تھی کہ ہمیں کچھ اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ انگوٹھیاں کب کہاں اور کس نے ہماری انگلیوں سے اتاریں۔

نجانے یہ اوچھی اور کمینی حرکت پہلوان کے سپوتوں نے سر انجام دی تھی یا ہمیں وہاں سے لے کر آنے والے نا معقول پولیس ملازمین نے۔ ہم نے جاننے کی کوشش کی تو ایک پولیس ملازم سے استفسار کے جواب میں ہمارے دائیں کان کے اندر کہیں گھنٹہ بھر سیٹیاں سی بجتی رہی تھیں۔

لدھڑ کا خیال آیا تو ہمارے تن بدن میں آگ کے بھانجھر جل اٹھے۔ اس سارے معاملے کا اصل ذمہ دار تو وہی کمپینہ تھا نا۔ ساری ذمہ داری اپنے سر لینے کا دعوے دار، مسئلے کی صورت میں سارا معاملہ سنبھالنے اور بگاڑ کو اپنے سر اٹھانے کا وعدہ کر کے مشکل وقت میں ہمیں مصیبت میں اکیلا چھوڑ کر خود گائے پر چڑھ کر کیسے فرار ہو گیا تھا۔

دھو کے باز، جھوٹا، مکار اور ذلیل لدھڑ، پہلے ہمیں کتوں نے جھنجھوڑا پھر پھمن اور اس کے پہلوان مسٹنڈوں نے۔ اب یہاں پولیس والوں نے ہماری ایسی تیسی کر کے رکھ چھوڑی تھی اور اس خبیث کو اتنی توفیق نہیں ہوئی تھی کہ ہماری خبر گیری کو آ جاتا۔ چلو خود نہ سہی کسی اور ہی کو بھیج دیتا مگر نہیں۔ اس ذلیل نے تو پلٹ کر دیکھا تک نہیں تھا اور یہاں کوئی ہماری سننے ماننے کو تیار نہیں تھا۔

ہم نے قسمیں اٹھا اٹھا کر قصائیوں اور پولیس والوں کو یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ اصل مجرم وہ جہنمی لدھڑ ہے۔ مگر کسی کو ہماری بات پر یقین ہی نہیں تھا۔ کوئی سننے ماننے کو تیار ہی نہیں تھا!

ہم حوالات کے ایک کونے میں بیٹھے اپنی بد بختیوں پر کڑھنے کے ساتھ ساتھ لدھڑ اور اس کے خاندان کو کوس رہے تھے کہ حوالات کے دروازے پر نجیب احمد نجمی کی صورت دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت سے اچھل کر کھڑے ہو گئے۔

"نجمی! تم یہاں، کیسے؟ تمہیں کس نے بتایا۔؟” ہمیں واقعی اس کی اچانک آمد پر حیرت بھی تھی اور حیرت سے زیادہ خوشی بھی۔ آخر وہ ہمارا پرانا اور خیر خواہ دوست تھا۔

"گھر گیا تھا، تمہارے پڑوسی چاچا نذیر نے بتایا کہ پولیس تمہارے گھر کی تلاشی لینے آئی تھی اور پولیس والوں ہی سے انہیں معلوم ہوا کہ تم تھانے میں ہو۔ یہاں آ کر مجھے تفصیل معلوم ہوئی ہے… کیوں کیا تم نے ایسا؟ اگر کوئی ضرورت تھی تو مجھ سے کہتے۔ چوری کرنے کا تم نے سوچا بھی کیسے۔؟” نجمی انتہائی متاسفانہ دکھائی دے رہا تھا۔

"چوری؟”

"اور نہیں تو کیا۔ فتح یار عرف پھمن پہلوان نے تمہارے خلاف چوری کی ایف آئی آر درج کروائی ہے اور ایس ایچ او صاحب نے بتایا ہے کہ تمہیں پہلوان کے گھر ہی سے گرفتار کیا گیا ہے۔ تم چوری کی نیت سے ان کے گھر میں گھسے تھے مگر موقع ہی پر پکڑے گئے۔””

"یہ جھوٹ ہے۔ سراسر جھوٹ۔”

"یعنی تم رات کے آخری پہر پہلوان کے گھر نہیں گئے؟”

"گیا تھا۔ مگر چوری کی نیت سے نہیں بلکہ پہلوان کی بیٹی سلیم کی یہ غلط فہمی دور کرنے کی غرض سے کہ میں نے اپنی کہانی "لدھڑ نامہ” میں جس فیاض لدھڑ کا ذکر کیا ہے وہ ایک فرضی کردار ہے۔ محض میرے ذہن کی اختراع اور میری کہانی والے فیاض لدھڑ کا اس کے والے فیاض لدھڑ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں اور نہ ہی لدھڑ نامہ لکھنے سے پہلے تک میں حقیقی فیاض لدھڑ سے واقف تھا۔”

"”فیاض لدھڑ!” نجمی نے یوں کہا جیسے لدھڑ اس کے حلق میں پھنستا پھنستا رہ گیا ہو۔ "یہ موصوف کون ہیں۔؟”

"سلیم کا منگیتر ہے۔ وہی کم ذات تو مجھے پہلوان کے گھر لے کر گیا تھا۔ پھر جب کتے سامنے آئے تو پہلوان کے گھر میں بندھی گائے پر چڑھ کر فرار ہو گیا۔”

"گائے پر چڑھ کر فرار ہو گیا… کیا ہانک رہے ہو۔؟”

"میرا مطلب ہے دیوار اونچی تھی۔ لہذا وہ پہلے گائے پر سوار ہوا پھر دیوار پر اور یوں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور مجھے کتوں نے دبوچ لیا۔ اسی شور شرابے میں پہلوان اور اس کے بیٹے جاگ گئے اور میں ان کے ہتھے چڑھ گیا۔”

"تو تم نے اس کا بتایا نہیں۔؟

کس کا؟””

"وہی… لدھڑ کا۔ لدھڑ سے متعلق نہیں بتایا ان لوگوں کو۔؟”

"بتایا تھا… انکو بھی اور یہاں پولیس والوں کو بھی۔ مگر کوئی سنتا مانتا ہی نہیں۔”

"تمہیں کس نے بتایا تھا کہ وہ سلیم کا منگیتر ہے؟” نجمی نے پر سوچ سے انداز میں پوچھا۔

"۔خود لدھڑ نے”

"اور اس طرح پہلوان کے گھر میں گھسنے کا مشورہ بھی اسی کا ہو گا۔؟”

"یہ فیصلہ ہم نے باہمی مشاورت کے بعد کیا تھا۔”

"کمال ہے یار! مجھے تم سے ایسی بے وقوفی کی توقع تو ہرگز نہیں تھی۔ ایک شخص تم سے آ کر کہتا ہے کہ میں فلاں لڑکی کا منگیتر ہوں اور تم رات کے آخر پہر اس لڑکی کے گھر میں گھس کر اسے یہ بتاؤ کہ تمہاری کہانی میں وہ… وہ، کیا تھا۔؟“

"میری کہانی والا فیاض لدھڑ ایک فرضی کردار تھا اور لدھڑ نامہ میں اس کردار کے شخص کے کردار کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا وہ محض میری ذہنی پیداوار تھی۔ حقیقی فیاض لدھڑ کا کردار اس سب سے مستنی ہے۔ بلکہ اس سے پہلے تک تو مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ حقیقت میں بھی کوئی فیاض لدھڑ ہے… بس اتفاقیہ طور پر یہ مطابقت ہوگئی ہے۔ میں سلیم کو یہی بتانے پہلوان کے گھر گیا تھا۔”

"اگر ایسی کسی مطابقت کا اتفاق ہو بھی گیا تھا تو وہ دونوں منگیتر آپس میں خود ہی کلیئر کر لیتے۔ تمہیں درمیان میں سر پھنسانے کی کیا ضرورت تھی اور وہ بھی یوں ایسے احمقانہ طریقے سے۔”

"لدھڑ نے کلیئر کرنے کی کوشش کی تھی مگر سلیم اس کی بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھی۔دراصل اسے یہ معلوم تھا کہ میں اور لدھڑ آپس میں دوست ہیں۔ اس لیے میں نے لدھڑ کے جس واہیات سے کردار کی عکاسی کی ہے وہی سچ ہے اور لدھڑ حقیقت میں اسی کردار اور اسی پروانہ صفت مزاج کا مالک ہے۔ لہذا وہ لدھڑ سے بری طرح بدظن ہو گئی تھی اور اس کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ لہذا چار و ناچار لدھڑ نہایت دل گرفتگی کے عالم میں میرے پاس چلا آیا۔”

"اگر تم لدھڑ کو پہلے سے جانتے ہی نہیں تھے تو سلیم تم دونوں کو دوست کیوں سمجھنے لگی تھی۔؟” نجمی نے دونوں ہاتھ اپنے کولہوں پر ٹکاتے ہوئے ہمیں گھورا۔

"”اصل میں یہ جھوٹ اس سے لدھڑ ہی نے بول رکھا تھا۔”

"اور یقیناً یہ سب کچھ تم سے لدھڑ نے کہا ہو گا۔؟”

"ہاں بالکل!”

"اور تم خدائی فوجدار بن کر بغیر سوچے سمجھے فورا اس کے ہمراہ چل پڑے۔”

"نہیں، فوراً تو نہیں۔ کئی دن بعد میں نے یہ قدم اٹھایا تھا اور کافی زیادہ سوچ بچار بھی کی تھی۔ سلیم کو اتنی سی معلومات پہنچانے کے بدلے تیرہ لاکھ کے لگ بھگ فائدہ ہونے کا یقین ہو جانے کے بعد میں نے یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔”

"تیرہ لاکھ!” نجمی واضح طور پر چونک پڑا تھا۔ "وہ کس طرح؟”

"لدھڑ نے ہیرے کی چار انگوٹھیاں دی تھیں۔ جن میں سے صرف ایک کی قیمت کم و بیش سوا تین لاکھ کے قریب قریب تھی۔ میں نے با قاعدہ مارکیٹ سے ریٹ لگوایا تھا۔ مگر افسوس کہ وہ چاروں میرے پاس نہیں رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ پولیس والوں نے ہی میری انگلیوں سے اتار کر غائب کی ہیں۔”

نجمی کچھ دیر اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ "اب وہ کہاں ہے؟” "کون، لدھڑ ؟”

"ہاں وہی۔۔۔ "

"مجھے کیا معلوم۔”

"اس نے یہاں تم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔؟“

"نہیں۔”

"اس نے تمہیں پہلوان کے گھر میں گھسنے کے معاوضے کے طور پر ہیرے کی چار انگوٹھیاں دی تھیں۔؟“ نجمی نے گو یا تصدیق چاہی تھی۔ گھر میں گھسنے کے عوض نہیں، سلیم تک وضاحت پہنچانے کی خدمات کے بدلے میں انعام یا معاوضے کے طور پر کہہ لو۔”

"کیا وہ پاگل تھا۔”

"ہاں، شاید، سلیم کی محبت میں کچھ کچھ پاگل تو لگتا تھا۔”

"اس سے بڑے پاگل اور احمق تم ہو جو اس کی اس کہانی میں آ کر پہلوان کے گھر جا گھسے۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سارے ڈرامے کے پسِ پردہ اس کا کوئی اور مقصد بھی ہوسکتا ہے۔ شکر کرو کہ تم کسی بڑی مصیبت میں نہیں پھنس گئے اور آج یہاں زندہ سلامت بھی کھڑے ہو۔” نجمی کی جھنجلاہٹ اور برہمی دیکھتے ہوئے ہم ہونقوں کی طرح بس آنکھیں پٹپٹا کر رہ گئے۔

ہمیں کسی حد تک اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اس معاملے کو کچھ زیادہ ہی پیچیدہ اور سنگین رنگ میں دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور لدھڑ کو بھی ضرورت سے زیادہ ہی توپ چیز تصور کر رہا ہے۔ کچھ دیر تک وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہا پھر سنجیدہ لہجے میں بولا۔ بہر حال تم اب فکر نہ کرو۔ پہلے میں تمہاری گلو خلاصی کے لیے کچھ کرتا ہوں اس کے بعد پھر لدھڑ صاحب کو بھی دیکھ لیں گے۔”

اس نے حوصلے تسلی کے چند جملے مزید کہے اور روانہ ہو گیا۔ اس کے جانے سے پہلے ہم نے انگوٹھیوں کی بابت بھی اسے یاددہانی کرا دی تھی کہ کسی نہ کسی طرح چاروں انگوٹھیاں بھی برآمد کروائے۔ نجمی سے ملاقات اور حال احوال کے بعد ہم خاصا اطمینان محسوس کرنے لگے تھے۔ یہ تو اندازہ نہیں کہ تھانے سے رخصت ہونے کے بعد اس نے ہمارے سلسلے میں کیا کیا اور کیا نہیں بہر حال ہمیں دوسرے روز ہی تھانے سے جیل منتقل کر دیا گیا۔ جہاں ہم نے پندرہ روز لدھڑ کو بد دعائیں دیتے ہوئے گزارے اور سولہویں روز ہماری آزادی کا پروانہ آ گیا۔

جیل سے باہر نکلے تو توقع کے عین مطابق نجمی کو ہم نے اپنا منتظر پایا۔ اس کی مہربانی سے ہماری ضمانت ہوگئی تھی وگرنہ ہمارے تو پیچھے آنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔

ہماری ضمانت تو اس نے دے دی تھی مگر باوجود کوشش کے وہ انگوٹھیوں کے سلسلے میں کچھ نہیں کر پایا تھا۔ اس کی بتائی ہوئی تفصیل کے مطابق ہم یہ تک ثابت نہیں کر سکتے تھے کہ ہمارے پاس کوئی ایک بھی انگوٹھی موجود رہی تھی۔ ہم بس دل تھام کر رہ گئے تھے کہ اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔

نجمی ہمیں وہاں سے اٹھا کر گلستان ہوٹل لے آیا۔ کڑاہی گوشت کا آرڈر دے کر ہم لوگ دوسری منزل پر ایک پرائیویٹ کیبن میں آبیٹھے۔ اب بتاؤ کہ تمہارے لدھڑ صاحب سے کہاں اور کیسے ملاقات ہوسکتی ہے۔؟”

"اپنے ماں باپ کا ہوگا وہ نامعقول، میرا کیوں ؟ نجمی کا جملہ ہمیں واقعی ناگوار گزرا تھا۔”

چلو یونہی سہی۔ ملے گا کہاں وہ؟””

اس کے ماں باپ ہی کو پتا ہوگا۔””

اور ان سے کہاں ملا جا سکتا ہے؟””

یہ ان کے اس نالائق برخوردار کو پتا ہوگا؟””

"تمہیں بھی کچھ پتا ہے یا نہیں۔” نجمی جھنجلا سا گیا۔

"ان میں سے کون کہاں پایا جاسکتا ہے۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں۔”

"یعنی لدھڑ کے حوالے سے تمہارے پاس کوئی اتا پتا نہیں ہے۔؟”

"بالکل، میں یہی کہنا چاہ رہا تھا۔”

"گھامڑ انسان! تمہاری ابھی صرف ضمانت ہوئی ہے۔ مکمل گلو خلاصی کے امکان تبھی ممکن ہو سکتے ہیں جب ہمیں اس سارے مسئلے کے اصل کردار کا کوئی اتا پتا، کوئی سراغ مل جائے گا۔ اور اس سارے ڈرامے کے پیچھے اس کا اصل مقصد کیا تھا یہ بھی تبھی معلوم ہو سکے گا۔”

"مقصد تو وہی تھا جو میں تمہیں بتا چکا ہوں۔ وہ واقعی سلیم کی محبت میں پاگل ہے۔ رہی بات اتے پتے اور سراغ کی تو وہ ہمیں پھمن پہلوان ہی سے معلوم ہو سکتا۔ "

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے