تخلیق زدہ (مکمل مزاحیہ ناول)

"کیوں؟ اس کی کیا رشتے داری ہے اس سے۔؟

"بتایا تو تھا کہ وہ سلیم کا منگیتر ہے۔ پہلوان کا ہونے والا داماد اور میں تمہیں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ وہ پہلوان کا بھتیجا بھی ہے۔ اس کے سگے بھائی کا بیٹا ہے وہ۔ لہذا پہلوان سے زیادہ بہتر اس کے متعلق اور کون جانتا ہوگا۔” نجمی کو خشمگیں نظروں سے اپنی جانب گھورتا دیکھ کر ہم نے پوچھ لیا۔ "ایسے کیا گھور رہے ہو؟ کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔”

"میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اٹھ کر کسی دیوار میں سر دے ماروں۔”

"تو دل کی مان لو، جبر کوئی اچھی چیز تو نہیں۔”

"ساتھ میں تمہارا سر بھی توڑنا چاہتا ہوں۔”

"دوسروں پر جبر کرتا تو اور بھی کمپنے پن کی بات ہوئی۔”

"یار! بات تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔ تم جھوٹے نہیں ہو مگر وہ لدھڑ تو جھوٹا ہو سکتا ہے نا! اگر وہ سچ میں سلیم کا منگیتر یا پہلوان کا بھتیجا ہوتا تو نوبت یہاں تک آتی ہی نہیں۔ تم نے جب سچ سچ سب کچھ ان لوگوں کو بتا دیا تھا تو پھر ان لوگوں نے تمہاری باتوں پر یقین کیوں نہیں کیا۔؟ اگر لدھڑ سچ میں ان کا کوئی رشتہ دار ہوتا تو وہ اس سارے معاملے کو اس طرح اچھالنے کے بجائے کسی اور طرح حل کرتے۔ خود سوچو ذرا… تھوڑا غور کرو کہ اگر لدھڑ، پہلوان کا بھتیجا ہے… اس کا ہونے والا داماد ہے تو پھر بھلا وہ سرے سے ہی انجان کیوں بن گئے۔؟”

ہاں میں اتنے دن یہی سب سوچتا رہا ہوں۔ لدھڑ سے کافی دن تک میری چپقلش جاری رہی تھی۔ میں نے اسے بہت قریب اور توجہ سے دیکھا سنا ہے۔ اس لیے یہ بات تو میں پورے یقین اور ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہہ وہ جھوٹا نہیں تھا اور اگر اس نے مجھ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا، اس کی ہر بات سچ تھی تو پھر یقینی طور پر قصائی خاندان کا لدھڑ کے وجود سے یوں انجان بن جانا محض ایک ڈھکوسلے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

اور ایسا انہوں نے اس لیے کیا ہوگا کہ لدھڑ سے ان کا شناسائی ظاہر کرنا لدھڑ کے حرف بہ حرف سچے ہونے کی گواہی بن جاتا اور ایسی صورت میں اس خاندان کی حقیقی اصلیت کا راز فاش ہو کر رہ جاتا جو کہ انہیں قطعی گوارا نہیں ہو گا۔” ہم نے پوری سنجیدگی سے اپنا تجزیہ نجمی کے گوش گزار کر دیا۔

"”کیسی اصلیت؟ اور کیسا راز۔ ؟” اسی وقت ویٹر آ پہنچا سو ہم نے کچھ کہنے سے گریز برتا ویٹر آرڈر سرو کر کے لوٹ گیا تو ہم کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ "تم کسی راز کی بات کر رہے تھے؟” نجمی پھر متفسرہوا۔

ہاں لدھڑ خاندان اور قصائی خاندان کی اصلیت ہمارے معاشرے میں ایک راز ہے جو فی الوقت صرف مجھ پر آشکار ہوا ہے اور وہ بھی لدھڑ کی وجہ سے ۔”

صاف صاف کہو۔””

"در اصل یہ لوگ ہم میں سے نہیں ہیں۔ یہ دونوں بھائی یعنی لدھڑ کا باپ اورپھمن پہلوان یہاں آباد ہونے سے پہلے یہ کابل میں رہائش پذیر تھے۔ ” ہمارے لہجے کا تذبذب محسوس کرتے ہوئے نجمی نے بغور ہمیں دیکھا۔

” "کیا یہی وہ راز ہے؟”

"اصل میں تو یہ لوگ کابلی بھی نہیں ہیں۔ کابل یہ بس کچھ عرصہ ہی رہے ہیں…. اس سے پہلے یہ وادی کوہ قاف کے پہاڑی جنگلات میں رہتے تھے۔”

"تو؟” نجمی نے لقمہ چباتے چباتے بھنویں اچکا کر تیکھی نظروں سے ہمیں گھورا۔

"تو یہی کہ یہ ہم انسانوں میں سے نہیں ہیں۔”

"ہم انسانوں میں سے نہیں ہیں یا سرے سے انسان ہی نہیں ہیں۔؟” نجمی کے چبھتے ہوئے لہجے پر ہم کسمسا کر رہ گئے۔

"یقین کرنا تھوڑا مشکل ہے مگر ہمارا خیال تو یہی ہے کہ یہ لوگ واقعی انسانی برادری سے تعلق نہیں رکھتے۔” چند لمحے کی خاموشی اور ٹھہراؤ کے بعد نجمی دوبارہ کھانے کی جانب متوجہ ہو گیا۔

"میں نے تمہاری کسی نئی کہانی کے متعلق نہیں، بلکہ لدھڑ کے متعلق پوچھا تھا۔” اس کا لہجہ گہری سنجیدگی لیے ہوئے تھا۔

"میں بھی تمہیں کسی کہانی کے نہیں بلکہ لدھڑ اور اس کے خاندان کی اصلیت کے متعلق بتارہا ہوں۔”

"یعنی تم یہ کہنا چاہ ر ہے ہو کہ لدھڑ اور پھمن پہلوان کو ہ قاف کے جنات میں سے ہیں۔” میں یہی کہہ رہا ہوں۔””

نجمی نوالہ لیتے لیتے رک گیا۔ اس کی بے یقین نظریں یقینا ہمارے چہرے پر یہ تلاشنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ کہیں ہم سنجیدگی سے اسے بے وقوف تو نہیں بنا رہے۔ کوئی مذاق تو نہیں کر رہے۔

ہم سمجھ رہے تھے۔ اس کی ذہنی حالت کا ہمیں اندازہ تھا جو ہم نے کہا تھا اسے کوئی بھی آسانی سے ہضم نہیں کر سکتا تھا۔ خود ہم ابھی تک رہ رہ کر الجھن اور بے یقینی کا شکار ہو جاتے تھے لیکن پھر گزشتہ دنوں کی بہت سی ایسی باتیں، چھوٹے چھوٹے ایسے واقعات ہمیں یاد آ جاتے جن کی کوئی بھی عقلی توجیہ کرنے سے ہمارا ذہن قاصر رہتا تو ہم یہ مان لینے پر ہی اطمینان محسوس کرتے کہ ہو نا ہو لدھڑ کچھ نہ کچھ جناتی تو تھا۔

"کھانا کھا لو پھر ڈاکٹر داور کی طرف چلتے ہیں۔” کافی دیر کی خاموشی کے بعد نجمی نے گھمبیر لہجے میں کہا تھا۔

” کیوں ؟”

””تمہارے مینٹلی چیک اپ کے لیے۔ یقینی طور پر تمہارا دماغی توازن کچھ متاثر ہے۔ "

"میرا دماغی توازن بالکل درست ہے اور مجھے اس کا پورا ادراک ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں کسی کی بات تمہاری سمجھ میں نہ آئے، اتنی عجیب لگے کہ تمہیں اس پر یقین نہ آ سکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس پر فوراً جہالت یا پاگل پن کا فتویٰ لگادیا جائے۔

تم نے آج تک جنات کے متعلق صرف پڑھا یا سنا ہوگا مگر میں مشاہدہ اور تجربہ رکھتا ہوں اور اس بنا پر میں پورے اعتماد سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ دوسرے لوگوں کی طرح تمہاری معلومات بھی ناقص ہیں۔ جنات سے متعلق تمہارے جو خیالات اور تصورات ہیں انہوں نے ایسے مفروضات سے جنم لیا ہے جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں۔ اس لیے تمہیں لگتا ہے کہ میرا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔” ہمیں لدھڑ کے دلائل یاد آگئے تھے۔

"یعنی تمہارے تجربے اور مشاہدے کی رو سے انسان اور جنات میں کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ دونوں ایک سے ہیں۔”

"ہاں، تقریباً… خصوصاً جب یہ لوگ انسانی معاشرے میں رہ رہے ہوں، تب انہیں انسانوں سے علیحدہ شناخت کرنا صرف صاحبِ نظر ہستیوں ہی کا کمال ہو سکتا ہے۔ ہم جیسے کور چشم انسانوں کا نہیں۔ کیونکہ ہمارے درمیان رہتے ہوئے انہیں اپنی جناتی طاقتوں کو استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی انسان پر اپنی اصلیت ظاہر کرنے کی۔

خلاف ورزی کرنے والے کو غدار اور باغی تصور کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے عالمی جن برادری سے علیحدہ کر دینا سب سے معمولی سزا کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے بعد بھی اس پر نظر رکھی جاتی ہے کہ کہیں وہ برادری کے مفادات کے لیے نقصان اور بدنامی کا باعث نہ بنے۔ ایسی صورت میں مجرم کو موت یا تا زندگی کے لیے زنداں کی سزا دے دی جاتی ہے۔” شاید ہم نجمی کو قائل کرنا چاہتے تھے اور وہ تھا کہ ہمیں عجیب شکوک و شبہات بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

کھانا ہم کھا چکے تھے۔ اسی دوران ویٹر آ کر برتن سمیٹ کر لے گیا تھا اور نجمی نے اسے چائے کا بھی کہہ دیا تھا۔

لدھڑ کے ساتھ تمہارا کتنے دن واسطہ رہا ہے؟””

"کافی دن وہ آتا جاتا رہا۔ ہمارے درمیان بحث مباحثہ بھی ہوا اور خاصی تلخی بھی۔ پہلے پہل تو ہمیں بھی وہ ایک جن کے طور پر ہضم نہیں ہو سکا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ہمیں یقین کرنا پڑا کہ بظاہر ایک عام اور احمق سا انسان نظر آنے کے باوجود اس میں کچھ نہ کچھ غیر معمولی ضرور ہے۔”

مثلا کیا۔؟””

ہم نے نجمی کو پوری توجہ اور سنجیدگی سے اپنی طرف دیکھتے پایا تو شروع سے آخر تک تمام واقعات پوری تفصیل اور جزئیات سمیت اس کے گوش گزار کردئیے۔ پہلے خط سے لدھڑ کی آمد تک۔ اختلاف، تلخی’ مرغیوں بطخوں کی پر اسرار موت، اپنے نقصانات اور لدھڑ کا پل پل کے متعلق باخبر ہونا۔ چھنو دھنو اور رجو کے پر اسرار تیور، لدھڑ کی انگوٹھیوں والی پیشکش ہمارا باہمی اتفاق اور پھر پہلوان کے گھر میں داخلے تک کی تمام تفصیل۔

اس دوران ویٹر چائے سرو کر گیا تھا اور نجمی چائے کی چسکیاں بھرتے ہوئے مکمل توجہ اور سنجیدگی سے ہماری یہ داستان سنتا رہا تھا۔ تمام واقعات سننے کے بعد بھی اس پر وہی سنجیدگی طاری رہی۔ اس نے کوئی اختلاف کیا نہ اتفاق۔ بس سرسری سے انداز میں صرف اتنا کہا کہ "ٹھیک ہے دیکھتے ہیں۔ تمہیں لدھڑ کے متعلق کوئی جانکاری ملے تو فوراً مجھے اطلاع کرنا۔ اس کے بعد اس نے بل ادا کیا اور ہمیں بائیک پر بٹھا کر ہمارے دولت خانے والی گلی کے سامنے لا اتارا۔ جانے سے پہلے اس نے جیب سے چاہیاں نکال کر ہمیں تھما دیں۔

"دونوں کمروں کو میں نے تالا لگادیا تھا۔ بیرونی دروازے کی چابی چاچا نذیر کے پاس ہے۔ جانوروں کے چارے وغیرہ کی ذمہ داری انہوں نے قبول کر لی تھی اس لیے۔ میں پھر کسی وقت چکر لگاؤں گا۔” اس کے بعد وہ روانہ ہو گیا اور ہم اپنے گھر کی طرف بڑھ گئے۔ بیرونی دروازہ ہمیں کھلا ملا اور چاچا نزیر کو ہم نے رجو کا دودھ دوہنے میں مصروف پایا۔ ہمارے صحن میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے رجو کی نظر ہم پر پڑی اور وہ وفورِ مسرت سے چہک اٹھی۔

"بختے، میرے بچے…” مارے خوشی کے جو اس نے اپنی دُم گھمائی تو چاچا نذیر اپنی کنپٹی پر ہاتھ رکھتا ہوا ایک طرف ہٹ گیا۔ چھنو اور دھنو بھی بے قرار ہو آئی تھیں۔ اپنی تینوں سہیلیوں کی دیکھ ریکھ کے سلسلے میں ہم نے چاچا کا شکر یہ ادا کیا تو وہ پہلوان کیس کے متعلق ہمیں ٹٹولنے کی کوشش میں لگ گیا۔ مگر ہم نے سیدھا موڈ نہیں دیا اور دودھ والا برتن تھما کر اسے چلتا کر دیا۔

بیرونی دروازے کی زنجیر چڑھانے کے بعد ہم اپنی سہیلیوں کی طرف لوٹ آئے۔ دیر تک ہم چاروں آپس میں حال احوال کرتے رہے۔ گپیں ہانکتے رہے۔ ہمیں یوں محسوس ہور ہا تھا جیسے ہم کئی سال بعد اپنے گھر، اپنے غم خواروں کے درمیان لوٹ کر آئے ہوں۔

کمروں کے تالے کھولنے کے بعد ہم نے جھاڑ پونچھ کی۔ اپنی رائٹنگ ٹیبل سجائی اور رات دیر تک مسہری پر لیٹے مختلف النوع سوچوں اور خیالوں سے الجھتے رہے۔ پھر نجانے رات کے کس پہر ہمیں نیند نے آ لیا۔ دوسرے روز سہ پہر کے وقت نجمی آ کر ہمیں اپنے ساتھ ایک تصویری نمائش میں لے گیا۔ پہلے تو ہم نے یہی خیال کیا تھا کہ ایسا اس نے صرف تفریح کی غرض سے کیا ہے لیکن جب وہاں اتفاقیہ طور پر ڈاکٹر داور سے ملاقات ہوئی اور ڈاکٹر صاحب نے بھی دیرینہ دوستوں کے سے انداز میں ہمارے ساتھ گپ شپ شروع کی تو تب ہمیں نجمی کی کمینگی کا اندازہ ہوا۔

ڈاکٹر صاحب ہمارے ماضی اور حال کے متعلق دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری مصروفیات اور ہمارے خیالات کے متعلق سوالات کرتے رہے۔ ہماری پسند نا پسند، گزشتہ زندگی کے تجربات اور آئندہ کے پروگرام۔ ہم بھی مجبوراً خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ البتہ واپسی پر نجمی کو ہم نے خوب اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ ہم کتنے خوش اخلاق واقع ہوئے ہیں۔

اس روز ہم نے غصے میں فیصلہ کر لیا تھا کہ آئندہ کبھی نجمی کی شکل تک نہیں دیکھیں گے۔ اور نجمی سے بھی ہم نے کہہ دیا تھا کہ وہ ہم پر مزید کوئی احسان کرنے کی کوشش نہیں کرے۔ لیکن اسی رات ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ دوسرے روز ہم از خود نجمی کے پاس اس کے آفس جا پہنچے۔

ہوا یوں کہ نمائش سے واپس گھر ہم مغرب سے کچھ پہلے ہی پہنچے تھے۔ نجمی ہمیں گلی کے سامنے اتارتے ہی روانہ ہو گیا تھا۔ ہم نے گھر آ کر چائے بنائی اور کپ اٹھا کر باہر صحن میں اپنی سہیلیوں کے پاس آ کر ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اپنے عقب میں کسی کی موجودگی محسوس کرتے ہوئے جب ہم نے پلٹ کر دیکھا تو چونک پڑے۔ ایک ہی لمحے میں ہماری گزشتہ دنوں کی تمام اذیتیں یکبارگی جیسے تازہ ہو آئیں۔

"تم…” بے اختیار ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ لدھڑ ستے ہوئے چہرے کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا تھا۔

اس کی شیروانی آج سلوٹوں سے پر تھی۔ سر سے ٹوپی غائب تھی۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے کئی دن سے اس نے منہ بھی نہ دھویا ہو۔

"اب کس لیے آئے ہو؟” ہم نے اپنے لہجے کے غصیلے تاثر پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی تھی۔”

"ہم تم سے نہایت شرمندہ ہیں بلند بخت۔” اس نے گویا ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی تھی۔ تکلیفوں کے ساتھ ساتھ جیسے ہمارے اندر گزرے دنوں کی ساری ذلت کا احساس بھی ایک دم جاگ تھا۔

"کوئی ضرورت نہیں شرمندہ ہونے کی۔ شرمندہ تو مجھے ہونا چاہیے جو میں تمہاری باتوں میں آ کر پہلوان کے گھر میں جا گھسا۔ جھوٹے، مکار۔”

"نہیں بلند بخت! ایسا مت کہو۔ ہم جھوٹے نہیں ہیں۔ ہم نے کوئی جھوٹ نہیں بولا تم سے۔” اس کے جواب پر ہمارا پارہ اور چڑھ گیا اور ہم نے چائے کا کپ زمین پر دے مارا۔

"تم نے جھوٹ نہیں بولا۔… گڑ بڑ کی صورت میں ساری ذمہ داری کس نے قبول کی تھی۔؟ ہمارے سر تو صرف سلیم تک وضاحت پہنچانا تھا۔ بگاڑ تو تم نے سنبھالنا تھا۔ تمہارے چچا کا گھر تھا۔ مسئلے کی صورت میں گھر کا معاملہ گھر میں ہی حل ہونا تھا نا۔… اور مصیبت کے وقت ہمیں موت کے منہ میں اکیلا چھوڑ کر خود کتنی آسانی سے فرار ہو گئے تھے۔

پلٹ کر دیکھا تک نہیں… تمہارے چچیروں نے کُتے سے بدتر حالت بنادی تھی ہماری۔ ہم نے قسمیں اٹھا اٹھا کر انہیں بتایا کہ تمہارا چاچا زاد، تایا زاد لے کر آیا ہے ہمیں۔ مگر کون تایا اور کہاں کا تایا زاد، اور تم کہتے ہو کہ تم نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ تھانے کی مہمان نوازی اور چھترول کے بعد پندرہ دن ہم جیل میں بھی گزار آئے ہیں۔ یہ سب تمہارے سچ ہی کی بدولت تو ہوا ہے کمینے کہیں کیے۔

” تمہاری خفگی اور آزردگی حق بجانب ہے۔ مگر بخدا! ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ چچا حضور نے گھر میں کتے بھی رکھ لیے ہیں وگرنہ ہم قطعی تمہیں لے کر یوں گھر میں داخل نہ ہوئے ہوتے۔ کیونکہ کتوں سے ہمیں بے انتہا خوف آتا ہے۔ یہ کم بخت جب کسی کو کاٹنے کا ارادہ کرتے ہیں تو کچھ بھی سنتے مانتے نہیں ہیں۔ اور اکثر اوقات تو یہ بھی دیکھنے سننے میں آیا ہے کہ کتے کا شکار بننے والا خود بھی تھوڑا کتا کتا سا ہو جاتا ہے۔ بس اسی باعث ہم نے اس وقت

فرار ہونے میں ہی عافیت جانی تھی۔”

"بند کرو اپنی یہ بکواس اور سچ بتاؤ کہ تمہاری اصلیت کیا ہے؟ تمہارا اصل مقصد کیا تھا؟ کیوں کیا تم نے ایسا۔ ؟”

"ہماری اصلیت اور مقصد تم جانتے ہو۔ وہی سچ ہے جو ہم نے پہلے تمہیں بتایا تھا۔ سلیم اور بس سلیم۔… ہماری محبت، ہماری زندگی۔ ہمارا سکھ سکون اور ہماری ہر خوشی، ہماری چاہت اطاعت، وہ راحتِ جاں، وہ دل رہا، وہ زہرہ جمال، پری پیکر، غنچہ دہن، شیریں سخن۔” لدھڑ کی آنکھیں خوابناک ہوتی چلی گئیں۔ چہرہ جیسے جگمگا اٹھا۔ لہجے میں شیرینی سی گھل آئی تھی۔ نجانے اس کی یہ تکرار کتنی طوالت اختیار کرتی کہ ہم نے جھنجلائے ہوئے انداز میں اسے جھڑک دیا۔

چپ… چپ کرو بے شرم، بے حیا! کسی کی بہن بیٹی کا یوں تذکرہ کرتے ہوئے تمہیں غیرت نہیں آتی۔

"وہ ہماری محبت بھی ہے۔” تو پھر اپنی محبت اور محبت کے باپ بھائیوں کے سامنے جا کر یہ قصیدے پڑھو۔ میرا دماغ کیوں چاٹ رہے ہو؟”

"یہ اب ممکن نہیں رہا۔ سب کچھ ختم ہو چکا بلند بخت! سب کچھ۔” لدھڑ نے درد و غم سے چور لہجے میں کہا۔ گزشتہ بیس بائیس دن تم نے بہت عذاب ناک حالت میں گزارے ہوں گے لیکن تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ یہ روز و شب خود ہمارے لیے کتنے تباہ کن رہے ہیں۔ کرب و اذیب کے کتنے طوفان ہمارا پوچھ گزرے ہیں۔

اس رات اگر ہم خاموشی اور راز داری سے سلیم تیک رسائی حاصل کر لیتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ خدا ان کتوں کو غارت کرے جنہوں نے سارا معاملہ ہی بگاڑ کر رکھ ڈالا۔ بات قبلہ والدِ بزرگوار کے ساتھ ساتھ برداری کے اور بھی بہت سے افراد کے علم میں آگئی تھی۔ جرگے اور پہنچائیں بیٹھ گئیں۔ چچا حضور نے رشتہ توڑ دیا اور ہمیں جناتی قانون کے مطابق غدار قرار دے کر عالمی جناتی برادری سے علیحدہ کر دیا گیا۔

ہمارے پاس اب سر چھپانے کا ٹھکانہ تک نہیں ہے لیکن اس سے بھی بڑی اذیت کی بات یہ ہے کہ کل سلیم کا نکاح ہے اور نکاح سے بھی بڑھ کر کرب و دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے متعلق سلیم کی بدگمانی اب بھی جوں کی توں برقرار ہے۔ وہ اب بھی ہمیں فریبی اور بد کردار تصور کرتی ہے۔” لدھڑ کے تازہ حالات و واقعات سے آگاہی پاتے ہی ہم نے ایک گونا گوں قلبی تسکین محسوس کی کہ چلو اگر ہم رسوا ہوئے ہیں تو کچھ ذلالت اس کا بھی مقدر ہوئی۔

"قسمت یا نصیب، تمہارے مقدر میں یہی لکھا ہوگا۔ صبر کرو صبر!”

"نہیں بلند بخت! ہمارے مقدر کو دوش نہ دو۔ مقدر کو کوشش سے سنوارا جاسکتا ہے سلیم اگر ہماری زندگی کا حصہ نہیں بھی بن سکتی تو کم از کم کوشش کر کے اس کی غلط فہمی تو دور کی جاسکتی ہے نا۔ اس کا دل تو صاف کیا جا سکتا ہے نا۔!”

"تمہارا جو دل کرتا ہے کرتے پھرو۔ میری جان چھوڑو۔” ہم نے دونوں ہاتھ جوڑ کر بے زاری سے کہا اور پلٹ کر کمرے کی جانب بڑھ گئے۔

"بلند بخت ! ہم بہت امید لے کر تمہارے پاس آئے ہیں۔” ہماری کمر پر جیسے اس نے کوڑا رسید کر دیا تھا۔ ہم نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا۔

کیا… کیا بکا ہے تم نے؟””

"دیکھو بلند بخت! ہمیں اندازہ ہے کہ تم نے پہلے ہی بڑی مصیبت کاٹی ہے۔ لیکن تم یہ بھی تو دیکھو کہ خود ہم کس حال کو پہنچ آئے ہیں۔ ہم تو بالکل ہی تباہ برباد ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہمارا تو کچھ بھی نہیں بچا۔ ہماری محبت، ہماری سلیم بھی ہماری نہیں رہی۔ پھر بھی ہم کسی نہ کسی طرح جی لیں گے لیکن اگر وہ ہمارے خالص اور پاکیزہ جذبوں کو محض ایک فریب سمجھتی رہے۔ ہمیں دغا باز اور بد کردار سمجھ کر ہم سے نفرت کرتی رہے تو یہ ہم کیسے برداشت کر پائیں گے۔ ایسی صورت میں کیسے جی پائیں گے ہم۔ نہیں بلند بخت! نہیں۔

یہ ہم سے برداشت نہ ہوگا۔ یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ سلیم کی یہ بد گمانی اور نفرت ہماری جان لے لے گی۔ ہم جی نہیں پائیں گے بلند بخت! نہیں جی پائیں گے ہم۔” لدھڑ کی آواز رندھ گئی تھی۔

"نہیں جی سکتے تو جا کر چلتن کے نیچے سر دے دو۔ میں کیا کر سکتا ہوں۔”

"تم بہت کچھ کر سکتے ہو۔ بلکہ صرف ایک تم ہی تو کر سکتے ہو بلند بخت! ہماری آئندہ زندگی کی راہ کے خار تم ہی تو کم کر سکتے ہو۔ سلیم کی غلط فہمی بس تم…” اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ہمارا ضبط جواب دے گیا۔

"بند کرو اپنی یہ بکواس اور دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ بھاڑ میں گئے تم اور تمہاری سلیم۔ مجھے… سلیم کے بھاڑ میں جانے سے شاید اس عاشقِ صادق کا ضبط پھٹ پڑا تھا۔

"بس۔” اس کی تیز اور نوکیلی چنگھاڑ سے ہمارا سماعت خانہ جھنجھنا اٹھا۔ "خبر دار اگر اب تم نے اپنی زبانِ ناپاک سے سلیم کی شان میں ایک لفظ کی بھی گستاخی کی تو ہم تمہاری زبان کو تمہارے حلق سے جڑ سمیت اکھاڑ لیں گے۔”

اس کے اس گستاخانہ طرز تخاطب پر ہماری کنپٹیاں سلگ اٹھیں۔ اس بار ہم اسے اینٹ اٹھانے کی مہلت نہیں دینا چاہتے تھے لہذا فورا لپک کر اس کے مقابل جا کھڑے ہوئے۔

"لو نکالو میری زبان۔”

"تم ہمیں کچھ بھی کہہ لو ہم برداشت کریں گے۔ مگر سلیم کے خلاف ایک لفظ نہیں سنیں گے۔ ” لدھڑ نے نتھنے پھلاتے ہوئے غراہت آمیز لہجے میں کہا۔

"تم چلتے بنو یہاں سے۔ چلو نکلو۔“ ہم نے اسے ہلکا سادھکا دیا تو وہ دو قدم پیچھے کو لڑکھڑا گیا۔

"بلند بخت! یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔“

"نہیں ہے تو نہ سہی۔ تم نکلو شاباش۔ ہم نے اسے دو قدم مزیدار لڑکھڑا دیا۔

تم ٹھیک نہیں کر رہے۔”

تم نکلو بھی۔ بڑے دیکھے ہیں تم جسے نواب میں نے۔“

"پچھتاؤ گے۔”

"دیکھا جائے گا۔ تم چلتے پھرتے نظر آؤ ورنہ پچھتانے کے قابل بھی نہیں رہو گے۔ چلو نکلو ہاہر۔”

ہم نے اسے دھکے مار مار کر گھر سے باہر نکال دیا اور دروازے کی زنجیر چڑھادی۔ آج اس کمینے کو یوں نکال باہر کرنے پر ہمیں ایک کمال طمانیت کا احساس ہورہا تھا۔ اندر کمرے میں جا کر ہم نے دو گلاس دودھ کے پیے اور ذہن بٹانے کی غرض سے ایک پرانا میگزین اٹھا کر مسہری پر نیم دراز ہو گئے۔ ایک مکمل ناول پڑھ لینے کے بعد ذہن کی تخلیقی حسیات کافی حد تک بیدار ہو آئی تھیں۔

کچھ دیر کی سوچ و بچار کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنی اور لدھڑ کی اس حقیقی داستان میں کچھ رنگ آمیزی کرتے ہوئے آئندہ ماہ کے میگزین کے لیے ایک کہانی لکھ مارتے ہیں۔ مزید کچھ دیر کے غور خوض کے بعد ہم نے کاغذ قلم سنبھالا اور اپنی نئی تخلیق کے متعلق کچھ خاص خاص نکات ترتیب دینے میں مصروف ہو گئے۔ پھر تقریبا ایک یون گھنٹے کی مغز ماری کے بعد ہم ایک زبردست شہکار قسم کی کہانی کا تانا بانا ترتیب دے چکے تھے۔ ہماری مصنفانہ حس ہمیں بتا رہی تھی کہ یہ کہانی ہماری بہترین تحریروں میں سے ایک ہوگی۔

ہم نے پروگرام بنایا کہ رشید خان کے ڈھابے سے کھانا پیک کروا لاتے ہیں اور چائے کا تھرموس بھی بھر لیتے ہیں اس کے بعد صبح تک بیٹھ کر لکھتے رہیں گے۔ وقت دیکھا تو ساڑھے نو بج رہے تھے۔ ڈھابہ زیادہ دور نہیں تھا اور عام طور پر رات بارہ بجے تک کھلا رہتا تھا۔ ہم نے بیرونی دروازے والا تالا اٹھایا۔ صحن والا بلب پہلے ہی سے جل رہا تھا سو ہم پاؤں میں چپل پھنسا کر باہر نکل آئے۔ طائرِ تخیل کی پھڑ پھڑاہٹوں نے ہمیں خاصا بے چین کر دیا تھا۔

اس لیے ہم جلد از جلد شب بیداری کا انتظام کر لینے کے بعد کہانی کا آغاز کر دینا چاہتے تھے۔ اچانک ہماری چھٹی حس نے ہمیں چونکا دیا۔ تیزی سے بیرونی دروازے کی طرف برھتے ہمارے قدم ایک پریشان کن احساس کے تحت جیسے زمین سے چپک کر رہ گئے تھے۔ ہم نے تیزی سے پلٹ کر صحن کے دوسرے کونے کی طرف دیکھا تو ہمارا دماغ بھک سے رہ گیا۔ پورا صحن خالی اور ویران پڑا تھا۔ چھٹو دھنو اور رجو اپنی اپنی جگہ سے یوں غائب تھیں جیسے کبھی رہی ہی نہ ہوں۔

ہم نے بیرونی دروازے کی طرف دیکھا تو اس کی بدستور زنجیر چڑھی ہوئی نظر آئی۔ ہم اپنی جگہ ناچ کر ہی تو رہ گئے تھے۔ صحن کی کچی زمین بالکل ہموار تھی۔ کھونٹے جوں کے توں موجود تھے مگر وہ تینوں اپنی زنجیروں سمیت غائب تھیں۔ ہم نے پریشانی کے عالم میں خالی الذہن کی سی کیفیت میں دوسرے کمرے کے اندر جھانک کر دیکھا۔ صحن کا ایک بار پھر جائزہ لیا۔ سب کچھ ویسے کا ویسا تھا مگر وہ تینوں یوں غائب تھیں جیسے اپنی جگہ کھڑی کھڑی ہوا میں تحلیل ہو گئی ہوں۔ زمین میں جذب ہو گئی ہوں یا پھر آسمان کی طرف کہیں پرواز کر گئی ہوں۔

ہم ان کے کھونٹوں کے پاس ششدر سے کھڑے بے چینی سے باری باری تینوں کھونٹوں کو ہونقوں کی طرح تک رہے تھے۔ ہماری عقل دانی تھی کہ بس سن ہو کر رہ گئی تھی۔ اتنے میں لدھڑ کی منحوس آواز سن کر ہم محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً اچھل پڑے۔

"بھول جاؤ انہیں۔ وہ نہیں ملنے کی اب۔” کمرے کی پیشانی پر لگے بلب کی روشنی صحن کی بائیں دیوار کے آخری سرے تک پہنچتے پہنچتے بہت مدھم پڑ جاتی تھی۔ اس ملگھجے اندھیرے میں ہم نے لدھڑ کو دیوار کے آخری سرے پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔

"ہم جانتے ہیں کہ نقصان اٹھائے بغیر کوئی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ لہذا اس دفعہ اپنی چھنو دھنو اور ر جو جی کے اغوا کے نقصان سے سبق سیکھو۔” لدھڑ صحن میں ٹانگیں لٹکائے دیوار پر بیٹھا کمال اطمینان سے ہمیں نصیحت کر رہا تھا۔ ہمارا خون کھول اٹھا۔ "دیکھو لدھڑ آج سے پہلے تک جو کچھ ہوا وہ ہو گزرا۔ اب کوئی نیا تماشا نہیں چاہیے مجھے۔ چھنو دھنو اور رجو مجھے کس درجہ عزیز ہیں۔ اس کا تمہیں اندازہ نہیں۔ لہذا بہتر ہوگا کہ تم انہیں واپس کر دو ۔” ہم بات کرتے کرتے اس کے قریب جا کھڑے ہوئے۔

"تمہیں بھی اندازہ نہیں ہے کہ سلیم ہمیں کس درجہ عزیز ہے۔ سلیم کی رائے ہمارے نزدیک کیا اہمیت رکھتی ہے۔ اس وقت ہمارے متعلق اس کی جو رائے ہے۔ وہ انتہائی نا مناسب اور تکلیف دہ ہے اور اس کی یہ رائے تب تک تبدیل نہیں ہو گی جب تک اس کی غلط فہمی دور نہیں ہو جاتی۔ تم اس کی غلط فہمی دور کر دو۔ هم چھنو دھنو اور رجو جی تمہیں واپس کر دیں گے۔”

لدھڑ کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

"کہاں ہیں وہ تینوں؟” ہم نے اس کی بکواس کو نظر انداز کر دیا۔

"انہیں تو ہم وادیِ کوہ قاف کے سبزہ زاروں میں چھوڑ آئے ہیں۔ وہ جگہ تینوں ہی کو بہت پسند آئی ہے۔” ہمیں اس خبیث کی ہٹ دھرمی کا بخوبی اندازہ تھا۔ سمجھ رہے تھے کہ فی الوقت وہ سلیم کے علاوہ اور کوئی سیدھی بات نہیں کرے گا۔ سیدھا جواب جاننے کے لیے پہلے اسے سیدھا کرنا ضروری تھا۔

ہم نے حساب لگایا کہ اگر ہم دو قدم مزید دیوار کے قریب ہو کر ہاتھ بڑھائیں تو اسے ٹخنوں سے پکڑ کر صحن میں گھسیٹ سکتے ہیں۔ اور پھر ہم نے ایسا ہی کیا۔ ہم نے بھوکے چیتے کی طرح جھپٹ کر اس کے دونوں ٹخنے دبوچے اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی سنبھلنے کا موقع دیے بغیر ایک جھٹکے سے نیچے کھینچ لیا۔

وہ "ارے ارے” کہتا ہوا دھپ کی آواز سے ہمارے سامنے آ گرا۔ اس کی گھٹی گھٹی درد ناک کراہ سے ہم نے اندازہ لگایا کہ جناب کو خاصی شدید چوٹ آئی ہے۔ مگر ہم نے پرواہ کیے بغیر اس کے دائیں کندھے پر پاؤں رکھ دیا۔ "لدھڑ! سچ سچ بتا دو کہ چھنو وغیرہ کہاں ہیں وگرنہ آج تمہاری ہڈی پسلی توڑ کر رکھ دوں گا میں۔”

"ارے تمہارا بیڑہ غرق ہو۔ پہلے دیکھ تو لو کہ ہماری کوئی ہڈی یا پسلی سلامت بچی بھی ہے کہ نہیں۔” لدھڑ نے اپنے درد بھرے لہجے میں ہمہیں گویا ایک معقول مشورے سے نوازا تھا۔ "فضول بکواس نہیں۔! صرف سوال کا جواب دو۔ کہاں ہیں وہ تینوں۔؟” ہم نے پاؤں کا دباؤ کچھ اور بڑھا دیا۔

"بتاتے ہیں۔ خدا قسم بتاتے ہیں۔ تم پاؤں ہٹاؤ۔ ہمیں ذرا سانس تو لینے دو۔ ہماری شاید کمر کی ہڈی دغا دے گئی ہے۔ اوئے میرے خدا!” ہم نے اس کے کندھے سے پاؤس ہٹایا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کھڑا کر لیا۔ کھڑے ہوتے ہوئے وہ ایک ذرا ڈگمگایا پھر سنبھل کر کھڑا ہو گیا۔

"ہاں اب بولو؟” ہم نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے غرا کر پوچھا۔ جواب دینے کی بجائے اس کمینے نے بالکل ہی غیر متوقع طور پر ہمارے منہ پر ٹکر مار دی اور ہم لڑکھڑا کر پیچھے ہٹ گئے۔ دماغ جھنجھنا کر رہ گیا تھا اور ہماری آنکھوں میں نیلی پیلی پھلجھڑیاں سی گھس آئی تھیں۔ ابھی ہم سنبل بھی نہ پائے تھے کہ ہمارے سینے پر ایک زور دار ضرب پڑی۔ شاید اس نے لات ماری تھی۔ ہمارے قدم اکھڑ گئے اور ہم کمر کے بل جاگرے۔ سانس جیسے اس ضرب سے پھیپھڑوں کے اندر ہی کہیں چپک کر رہ گئی تھی۔

ہاں اب بولو۔ سلیم کے پاس چلتے ہو یا مزید تواضع پسند کرو گے۔؟” لدھڑ اپنے دونوں ہاتھ کولہوں پر ٹکائے تفاخرانہ انداز میں ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ ہم اپنی چوٹوں کو فراموش کرتے ہوئے اٹھے اور وحشیانہ انداز میں لدھڑ پر جھپٹ پڑے۔ مگر وہ ہماری توقع سے زیادہ پھرتیلا نکلا۔ وہ برق رفتاری سے ایک طرف ہٹا، ساتھ ہی اس نے ایک ہاتھ سے ہماری کائی تھامی اور دوسرا ہاتھ جو ہماری بغل میں گھسیڑ کر جھٹکا دیا تو ہم اچھل کر اس کے عقب میں جاگرے۔ ہمارے کندھے پر خاصی چوٹ آئی تھی مگر اس بار بھی ہم نے اٹھنے میں دیر نہیں لگائی۔

ہمیں اپنے منہ میں خون کا مخصوص نمکین سا ذائقہ محسوس ہوا جو اس ذلیل کی ٹکر کا نتیجہ تھا۔ ہم نے نفرت سے ایک طرف تھوکا اور آستین سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے دوبارہ اس پر چھلانگ لگادی۔ اس نے بچنے کی بھر پور کوشش کی تھی مگر ہم بھی اس بار پہلے سے زیادہ ہوشیار تھے سو ہم دونوں ایک ساتھ ہی گرے۔ اس کی گردن ہمارے بازو کے شکنجے میں جکڑی جا چکی تھی۔ لدھڑ نے اسی حالت میں پلٹا کھایا تو ہم بھی اس کے ساتھ ہی دوسری طرف الٹ گئے۔ پھر دائیں، پھر بائیں، وہ ہماری گرفت سے نکلنے کے لیے ماہی بے آپ کی مانند تڑپ رہا تھا مگر ہم بھی کسی چیچڑی کی طرح اس سے چمٹ کر رہ گئے تھے۔

"نہیں لدھڑ خان! اب اس شکنجے سے تمہیں ملک الموت ہی آ کر رہائی . . ” ہمارے جملے کا آخری حصہ بے ساختہ چیخ میں ڈھل گیا۔ اس کتے نے ہمارا دوسرا ہاتھ پکڑ کر اپنے واہیات دانتوں میں دبا لیا تھا۔ ہمیں یوں لگا جیسے کسی موذی نے ہمارے انگوٹھے کی کمر میں زہریلے نشتر اتار دیے ہوں۔ ہماری کربناک چیخوں سے رات کا سناٹا لرز اٹھا تھا۔ ہماری گرفت از خود ڈھیلی پڑتی چلی گئی اور وہ جہنمی ہماری گرفت سے نکل گیا۔

ہمارے بازو کے حلقے سے نکلتے ہی اس نے الٹا ہاتھ گھما کر ہماری دائیں کنپٹی پر رسید کیا تو ہم ایک درد بھری کراہ کے ساتھ بائیں طرف الٹ گئے۔ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے ہماری کنپٹی پر کسی لوہار نے ہتھوڑا رسید کر دیا ہو۔ ہم نے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی تھی کہ پسلیوں میں پڑنے والی زور دار ٹھوکر نے ہمیں دوسری طرف لڑھکنے پر مجبور کر دیا۔ بس پھر اس کے بعد اس کمینے نے ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

کسی فٹ بالر کی طرح پیشترے بدل بدل کر اور اچھل اچھل کر ہمیں ٹھوکریں رسید کرتا رہا کبھی ادھر سے۔ کبھی ادھر سے۔ کبھی دائیں سے کبھی بائیں سے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے حواس ہی مختل ہو کرہ گئے تھے۔ ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے کہ وہ ہماری کس سمت موجود ہے۔ ہمیں تو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ایک نہیں بلکہ ایک ساتھ چھ چھ لدھڑ ہمارے وجود کو فٹبال سمجھ کر پریکٹس میں جت گئے ہوں۔

آئندہ کچھ ہی دیر بعد ہم کچے صحن میں ادھ مرے سے پڑے اپنی درد ناک کراہوں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے اور لدھڑ صاحب ہمارے سرہانے ملک الموت بنے کھڑے تھے۔ مزاج شریف درست ہوئے یا مزید چھترول کی گنجائش ہے ابھی۔؟” لدھڑ کی زہریلی آواز ہماری سماعت میں زہر گھول گئی۔

"خدا تمہیں غارت کرے۔ تم… تمہاری ٹانگوں میں، تمہارے پپ… پیروں میں لمبے لمبے کیڑے پڑیں۔ کس جرم کا بب… بدلہ لے رہے ہو مجھ سے۔” ہم نے کراہوں کے ساتھ ساتھ بددعائیں دیتے ہوئے اس سے استفسار کیا۔

"لعنت ہے تم پر۔ ہماری زندگی تہ و تیغ کر دی تم نے۔ ہم نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ تم خود اس عبرت ناک حالت میں پڑے ہو اور ابھی تک تمہیں اپنے جرم ہی کا پتا نہیں چلا۔… ہم نے منع کیا تھا تمہیں۔ سرزنش کیا تھا تمہیں۔ اس کے باوجود تم کمینے پن اور اپنی ڈھٹائی سے باز نہیں آئے اور الٹا لدھڑ نامہ جیسی واہیات اور لچر قسم کی کہانی لکھ ڈالی۔ یہ جرم نہیں تو اور کیا ہے۔؟ بہر حال اب بھی وقت ہے۔ ہماری بات مان لو۔ چل کر سلیم کو ساری تفصیل سے آگاہ کر دو۔ اس کی غلط فہمی دور کر دو اور باقی زندگی سکون سے گزارو۔”

لدھڑ بات کرتے کرتے ہمارے قریب ہی پنجوں کے بل بیٹھ گیا تھا۔ ایک بار تو ہمارے جی میں آئی کہ اس کے تھوبڑے پر گھونسہ رسید کر دیں لیکن پھر اپنی حالتِ زار کے پیش نظر ہم نے اپنے اس جذبے پر لعنت ڈال دی۔

"”کیا میں تمہیں اس قابل تن… آہ… ہائے، نظر آتا ہوں کہ چل کر کہیں جا سکوں۔

"تم صرف ہامی بھرو ہم تمہیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے جائیں گے۔ لدھڑ اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ ہم کچھ زہر اگلنا چاتے تھے کہ وہ پلٹ کر اندرونی جانب بڑھ گیا۔ ہم پیچ و تاب کھا کر رہ گئے اور دل ہی دل میں اسے ڈھیر ساری نا قابلِ اشاعت قسم کی گالیاں دے ڈالیں کہ یہی ہمارے بس میں تھا۔

وہ خبیث دیکھنے میں مریل اور مریض نظر آتا تھا اور ہم سمجھتے تھے کہ دو تھپڑ ماریں گے تو یہ عالم بالا کو روانہ ہو جائے گا مگر آج کا تجربہ ہماری ساری خوش فہمیوں کو مٹی چٹا گیا تھا۔ ہمارا پورا وجود اپنی زبوں حالی پر نوحہ کناں تھا۔ جگہ جگہ سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ دانتوں اور جبڑے میں بھی شدید تکلیف شروع ہو چکی تھی۔ ان لمحوں میں ہمیں نجمی کا خیال آیا تو اسے بھی ہم نے جی بھر کر گالیوں اور بدعاؤں سے نواز دیا کہ اس نے ہمیں کہانیاں لکھنے پر اکسایا تھا۔ ایک طرح سے اس ساری خرابی کا انتظام کروانے والا وہی خنزیر تھا۔

ہم اسی جگہ پڑے کراہ و کڑھ رہے تھے کہ لدھڑ ایک گلاس اٹھائے ہمارے قریب آ بیٹھا۔

یہ لو، نیم گرم دودھ پیو۔ تمہاری حالت سنبھل جائے گی۔””

ہم نے نفرت انگیز نظروں سے اسے گھورا مگر وہ نظر انداز کرتے ہوئے نرم اور ناصحانہ انداز میں بولا۔ ہلدی ڈال کر لائے ہیں۔ تمہارے لیے بہت فائدہ بخش ثابت ہوگا۔ پی لو۔” اس نے ہمیں سہارا دیا اور ہم نے بہتر خیال کرتے ہوئے گھونٹ گھونٹ کر کے گلاس خالی کر دیا۔ حالانکہ ہمارا دل کچھ اور چاہ رہا تھا۔ دودھ کے بعد وہ خبیث ہمیں سہارا دے کر اندر لے گیا اور ہمیں مسہری پر لٹا کر گردن تک لحاف اوڑھانے کے بعد خود نہایت اطمینان سے ہماری پائنتی ہی بیٹھ گیا۔

"دیکھنا ابھی کچھ ہی دیر میں تمہارے درد میں افاقہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم سلیم کی طرف چلیں گے۔”” اس کتے کمینے اور ذلیل کو بدستور سلیم کی پڑی ہوئی تھی۔

"”مجھ سے بالکل بھی ایسی توقع مت رکھنا۔” ہم نے زہر خند سے کہا۔

"کل سلیم کی شادی ہے۔ وہ رخصت ہو گئی تو پھر اس تک رسائی حاصل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ یعنی ہمارے پاس صرف صبح تک کا وقت ہے۔ اس لیے آج رات تمہیں ہر صورت سلیم تک پہنچنا ہے۔ وہ تمام مصنف حضرات کی حد درجہ عزت کرتی ہے۔ انہیں آئیڈیالائز کرتی ہے لہذا وہ تمہاری بات توجہ سے سنے گی اور لازماً تمہارے کہے پر یقین بھی کرے گی۔ اس کے بعد ہمیں…” لدھڑ اپنی ہانکے جار ہا تھا۔

ہم نے چڑھ کر اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ دی۔ "کیا تم پاگل ہو چکے ہو؟ میں کہہ چکا ہوں کہ مجھ سے ایسی کوئی توقع مت رکھنا۔ میں ایسا کچھ نہیں کروں گا۔ چاہیے تم مجھے جان سے مارڈالو مگر میں تمہاری یہ حسرت ہرگز پوری نہیں کروں گا۔ سمجھے تم۔” لدھڑ چند لمحے سنجیدگی سے ہمیں دیکھتا رہا پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولا۔ "اگر تم نے ہماری بات نہیں مانی تو ہم تمہاری زندگی کو جہنم بنا دیں گے۔ تم زندگی کو بھی ترسو گے اور موت کو بھی۔ مرنا چاہو گے تو ہم تمہیں تمہاری موت سے پہلے مرنے بھی نہیں دیں گے۔ نہ جی سکو گے نہ مر سکو گے آگے تمہاری اپنی مرضی۔”

"بہتر ہوگا کہ تم مجھے جان سے مار ڈالو۔ وگرنہ اگر میرا داؤ چل گیا تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔” ہماری بات سن کر اس کے ہونٹوں پر ایک استہزائیہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ایسی صورت میں ہم پیشگی تمہیں اپنا خون معاف کرتے ہیں۔” لدھڑ اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا اور ہم دانت پیس کر رہ گئے۔

وقت گزرتا گیا اور لدھڑ کی وحشتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ کبھی اندر آتا۔ کبھی باہر نکل جاتا۔ بار بار ہمیں سلیم کی طرف جانے پر اکساتا بھی۔ دھمکیاں دے کر اور کبھی نرمی سے لالچ دے دے کر۔ پھر کمرے میں ٹہلنے لگ جاتا۔ ہماری چوٹوں کے درد میں کچھ افاقہ ہوا تو دو بار ہمارے درمیان پھر سے ہاتھا پائی ہوئی اور ہمارے دردوں چوٹوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔

لدھڑ جھنجھلاتا رہا۔ اول فول بکتا رہا اور ہمیں آئندہ کی اذیت ناک زندگی کے حوالے دے دے کر ہراساں کرنے کی سعی کرتا رہا۔ مگر ہم بھی اپنی ضد پر قائم رہے۔ ہمارے اختیار میں اس سے انتقام کا یہی ایک طریقہ تھا۔

رات کے آخری پہر اس کی وحشت اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ اس کی بے چینی، اذیت و بے بسی اور حواس باختگی کو دیکھتے ہوئے خود ہمیں بھی ہول اٹھنے لگے تھے۔ ہمیں اندیشہ محسوس ہونے لگا کہ یہ کم بخت کہیں اس حالتِ جنون میں ہمیں قتل ہی نہ کر ڈالے۔ ساتھ ہی اس کی ایسی قابل رحم حالت دیکھ کر ہم اپنے زخموں میں ٹھنڈک سی بھی اترتی محسوس کر رہے تھے۔

جس وقت محلے کی مسجد سے موذن کی آواز بلند ہوئی۔ لدھڑ اس وقت انتہائی مضطربانہ انداز میں کمرے کے اندر ٹہل رہا تھا۔ موذن کی آواز سنتے ہی وہ یک دم ٹھٹک کر رک گیا۔ اس کی آنکھیں وحشت سے پھٹی پڑ رہی تھیں۔ چہرے کی رنگیت بالکل سفید پڑ چکی تھی۔ یوں جیسے اس پر موت وارد ہوگئی ہو۔ ہم بغور اس کا جائزہ لے رہے تھے۔ وہ اپنی جگہ یوں ساکت کھڑا تھا جیسے یکا یک پتھر کا ہو کر رہ گیا ہو۔

اذان کے ساتھ ساتھ ہی اس کے تاثرات نرم پڑتے چلے گئے۔ اس کا اضطراب اور تناؤ کم ہوتا چلا گیا۔ اذان ختم ہوئی تو وہ دیوار کا سہارا لے کر کسی تھکے ہوئے مسافر کی طرح آہستہ آہستہ نیچے زمین ہی پر بیٹھ گیا۔ اس کی حالت کسی ایسے جواری جیسی ہو گئی تھی جو اپنی کل متاع، تمام جمع پونجی کے ساتھ ساتھ اپنی سانسیں تک ہار گیا ہو اور اسے یقین ہو کہ بس اب ملک الموت پہنچا کہ پہنچا۔ اس نے دونوں ٹانگیں زمین پر پھیلا دی تھیں۔ کمر دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور اس کا سر آہستہ آہستہ یوں جھک گیا تھا کہ اسکی تھوڑی اس کے سینے سے جا لگی تھی۔

باہر کا اندھیرا اجالے میں ڈھلتا چلا گیا۔ چڑیوں اور پرندوں کی چہکاریں سنائی دینے لگیں۔ وقفے وقفے سے گاڑیوں کے انجن اور ہارن بجنے کی آوازیں آنے لگیں۔ زندگی حرکت میں آچکی تھی۔ ہم مسہری پر نیم درازی کی حالت میں پڑے لدھڑ کا جائزہ لے رہے تھے وہ جوں کا توں بیٹھا تھا۔ جسے بیٹھے بیٹھے ہی اس کی روح اس کے جسم کا ساتھ چھوڑ گئی ہو اور اب اس کا بے جان وجود بس دیوار کے سہارے پڑا ہو۔ سورج طلوع ہوا، باہر اچھی خاصی دھوپ پھیل گئی تو ہمیں لدھڑ کی اس ساکن حالت سے اختلاجِ قلب محسوس ہونے لگا۔

چلو بس کرو اب۔ کب تک یونہی بیٹھے رہو گے۔ ؟” ہم نے اسے مخاطب کیا مگر اس نے تو جیسے سناہی نہیں۔ چند لمحے کے توقف کے بعد ہم نے دوبارہ کہا۔ "زندہ بھی ہو یا موت پڑ گئی ہے تمہیں۔؟” اس بار بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ہم نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔ "اچھا چلو اٹھو! سلیم کی طرف چلتے ہیں۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔”

یہ الفاظ اس کے پتھرائے ہوئے وجود میں جیسے حرکت پھونک گئے۔ اس نے رعشہ کے مریض کی طرح لرزتے ہوئے سر کو اٹھا کر ہماری طرف دیکھا۔ اس کی سرخ ہوتی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور چہرے پر شدید کرب کے تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔

"اچھا تو ابھی زندہ ہو۔ میں تو سمجھا تھا کہ اب تمہارے کفن دفن کا سیاپا بھی مجھے ہی بھگتانا پڑے گا۔”” وہ جواب میں کچھ کہے بغیر چند لمحے یتیموں کی طرح ہماری صورت تکتا رہا پھر سر کو پیچھے دیوار کے ساتھ ٹکا کر چھت کو تکنے لگا۔

"رات گزر چکی، دن نکل آیا ہے۔ تم بھی نکلو اور اپنے چچا حضور کے ہاں پہنچو۔ شادی والا گھر ہے۔ سو کام ہوتے ہیں۔ ہاتھ بٹانا ان لوگوں کا ” ہم آہستہ سے سیدھے ہو بیٹھے۔ لدھڑ خاموش رہا۔ "اب کس لیے یہاں دھرنا دیے بیٹھے ہو۔ اٹھ کر جاتے کیوں نہیں۔؟”

"کہاں جائیں؟” لدھڑ کی مردہ سی آواز سنائی دی۔

"جہنم میں۔ اپنے باپ کے پاس جاؤ یا اپنی سلیم کے پاس جاؤ۔ جہاں مرضی جاؤ، لیکن یہاں سے دفع ہو جاؤ۔”

"ان میں سے کسی کے پاس ہم کیسے جاسکتے ہیں۔ ہمیں تو بے دخل کیا جا چکا ہے۔ سب قطع تعلقی کر چکے ہیں ہم سے۔”

"تو جدهر مرضی جاؤ۔ یہاں سے بہر حال نکلو اب۔”

"ہمارے پاس رہنے کو، سر چھپانے کو کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔”

"تو پھر؟”

"پھر یہی کہ اب ہم یہیں رہیں گے۔ تمہارے ساتھ، ہمیشہ… تا زندگی۔””

” تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا۔؟ میں تمہیں اپنے ساتھ کیوں رکھنے لگا۔ میں تمہیں ایک منٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔”

"جب ہم رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو تمہارے رکھنے نہ رکھنے کا کیا سوال اور اب تو عمر بھر تمہیں بس برداشت ہی کرتے رہنا ہے اور بس۔” لدھڑ نے گردن سیدھی کرتے ہوئے اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھورا۔

واہ! یعنی زبردستی ہے۔ بدمعاشی ہے۔؟”“

"جو مرضی سمجھو۔”

"میں کہتا ہوں کہ شرافت کے ساتھ دفعان ہو جاؤ ورنہ۔

"بکواس بند کرو۔” لدھڑ نے تیز لہجے میں ہماری بات کاٹ دی۔ "ذرا تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کرو۔ سلیم کی وجہ سے ہم تمہاری بہت بکواس برداشت کرتے رہے ہیں مگر اب وہ مجبوری ختم ہوئی۔ اب اگر تم نے ایک لفظ کی بد تمیزی بھی کی تو ہم ابھی اٹھ کر تمہارے دونوں ہاتھ توڑ ڈالیں گے۔ کھانے سے بھی جاؤ گے اور دھونے سے بھی۔” لدھڑ نے خونخوار لہجے میں کہا تو ہم ہونٹ بھینچ کر رہ گئے۔ جسمانی طور پر ہم پہلے ہی کچھ اچھی حالت میں نہیں تھے اور لدھڑ کے تیور بتا رہے تھے کہ اس نے جو کہا ہے خلوص دل کے ساتھ کہا ہے۔

"تم کہیں اور جا کر بھی تو رہ سکتے ہو یہیں کیوں۔؟” ہم نے ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔

"کسی اور کے اتنے احسانات نہیں ہیں ہم پر۔ عمر بھر تمہاری مہربانیوں کا بوجھ اٹھانا تو اب ہمارا مقدر ہو چکا ہے مسٹر آفاق بزمی۔” لدھڑ نے طنز بھرے لہجے میں کہا اور اٹھ کر کپڑے

جھاڑنے لگا۔ "اب ذرا مسہری بھی خالی کر دو۔ ہم کمر سیدھی کرنا چاہتے ہیں۔”

نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں اس کے حکم پر عمل کرنا پڑا۔ ہمارے خیال میں عقل مندی کا تقاضا یہی تھا کہ فی الوقت ضبط تحمل سے کام لیا جائے۔ ہم اپنا شکستہ وجود اور جسمانی قوت مجتمع کرتے ہوئے اٹھے تو وہ ہماری مسہری کو اپنے ابا کی ملکیت سمجھتا ہوا اس پر پھیل گیا۔ اب کھڑے ہماری صورت کیا تک رہے ہو؟ کوئی صفائی ستھرائی کرو اور کچھ ناشتے پانی کا انتظام بھی کر لو۔ جاؤ شکل گم کرو۔”

اس نے دونوں ہاتھ اپنی گردن کے نیچے رکھتے ہوئے ہمیں یوں حکم دیا جیسے ہم اس کے زرخرید غلام ہوں۔ ہم نے اچھی طرح سوچ سمجھ لیا تھا کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے۔ لہذا ہم خاموشی سے سر جھکا کر صحن میں نکل آئے۔ مگر صحن میں رکے نہیں بلکہ لنگڑاتے ہوئے دبے قدموں بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ بے آواز انداز میں ہم نے دروازے کی زنجیر ہٹائی اور باہر نکل آئے۔

دن اچھا خاصا نکل آیا تھا۔ یقینی بات تھی کہ نجمی سے ہم اس کے آفس ہی میںمل سکتے تھے سو ہم اس کے آفس کی طرف روانہ ہو لیے۔ جب ہم اس کے سامنے پہنچے تو ہم پر نظر پڑتے ہی وہ بری طرح چونک پڑا۔ "ارے بلند بخت! یہ تمہاری حالت کیسی ہو رہی ہے، کیا ہوا۔؟” اس نے ہمیں جلدی سے بٹھایا پانی پلایا اور ہم نے کل شام سے لے کر اب تک کا سارا ماجرا کہہ سنایا اور ساتھ ہی اپنے آنے کا مقصد بھی بیان کر دیا کہ ہم لدھڑ کے خلاف ڈکیتی اور ارادہ قتل کی ایف آئی آر درج کرانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ہمیں تمہارے تعاون کی ضرورت ہے۔”

ہماری ساری بات پوری توجہ اور انہماک سے سننے کے بعد وہ کسی گہری سوچ میں گم ہو گیا۔

"اب کیا سوچ رہے ہو تم۔” اس کا مراقبہ طویل ہوتا دیکھ کر ہم سے چپ نہیں رہا گیا۔

"تم نے بتایا ہے نا کہ لدھڑ تمہارے گھر ہی میں موجود ہے۔”

"ہاں! اس کا وہاں سے ٹلنے کا بالکل بھی موڈ نہیں ہے۔

"دیکھو بلند بخت! اگر ہم تھانے میں ایف آئی آر درج کروا کر پولیس کو ساتھ لے کر تمہارے گھر پہنچتے ہیں تو پولیس والے اسے گاڑی میں ڈال کر لے جائیں گے پھر وہ جانیں اور لدھڑ جانے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرے ایک دو دوست پولیس میں ہیں اگر ان میں سے کسی کو ہم ساتھ لے کر لدھڑ کے سر پر جا پہنچیں تو پہلے خود ذاتی طور پر تمہاری اس حالت کا حساب کتاب برابر کریں گے اور پھر اس پولیس ملازم دوست ہی کے ذریعے اسے تھانے پہنچا دیں گے۔ وہاں پھر پولیس والے اس کی الگ سے سیوا کریں گے تو اس کا دماغ پوری طرح ٹھکانے آجائے گا۔”

نجمی کی بات سن کر ہمیں اپنی آپ بیتی یاد آ گئی کہ کس طرح پہلے قصائی خاندان نے ہماری درگت بنائی تھی اور اس کے بعد پولیس والوں نے کیسے اپنی مہربانیوں کی تلافی کی تھی۔ یہ تو اور بھی اچھا ہے۔ میں بھی کھل کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لوں گا پھر۔” "

ہاں بالکل۔ میں ابھی پتا کرتا ہوں دلاور خان کا۔” نجمی نے جلدی سے کہا اور پھر ٹیلی فون پر کسی سے رابطہ کرنے لگ گیا۔ دوسری طرف رابطہ ہو جانے کے بعد نجمی نے مختصر الفاظ میں اپنا مدعا بیان کیا کہ "ایک ڈکیتی کا کیس ہے۔ مدعی میرا دوست ہے اور اس وقت میرے سامنے بیٹھا ہے۔ مجرم نہتا اور تنہا ہے اور ابھی موقع واردات پر موجود ہے۔ فوری کار روائی چاہیے۔ مگر فرینڈلی۔”

دوسری طرف سے کیا کہا گیا تھا یہ تو ہم نہیں سن سکے البتہ نجمی نے مطمئن سے انداز میں فون بند کیا تو ہمیں اندازہ ہو گیا کہ جواب مثبت ہے۔

"لو بھئی! بات ہو گئی۔ تم جلدی سے چائے ختم کرلو۔ دلاور خان بس ابھی پہنچ آئے گا۔” اور پھر واقعی پانچ منٹ بعد دو لحیم شحیم خوفناک سے پولیس ملازم پہنچ آئے۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی نجمی انہیں جلدی سے ایک طرف لے گیا اور کچھ کھسر پھسر کرنے لگا۔ ہمیں اس کا یہ رویہ کچھ عجیب تو لگا تھا مگر ہمیں زیادہ غور و خوض کا وقت نہیں ملا کیوں کہ کچھ ہی دیر میں وہ تینوں ہمارے قریب چلے آئے تھے۔

ہم سے مصافحہ کرتے ہوئے ان میں سے ایک پولیس والوں کے سے مخصوص انداز میں ہمیں ٹٹولتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔ "سرجی! نجیب صاحب نے ہمیں معاملے کے متعلق سمجھا دیا ہے۔ آپ اب بالکل بے فکر ہو جائیں۔ اب ہم جانیں اور وہ ڈاکو کا بچہ جانے۔ چلیں کدھر چلنا ہے۔ یقیناً وہی دلاور خان تھا۔

ہم نے رسمی انداز میں اس کا شکر یہ ادا کیا اور پھر ہم چاروں آفس سے باہر نکل آئے۔ دلاور لوگوں کے پاس اپنی بائیک تھی۔ ہم نجمی کے ساتھ بیٹھ گئے اور دلاور لوگ اپنی بائیک پر ہمارے پیچھے پیچھے آنے لگے۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ ان لوگوں کے جثے دیکھتے ہی لدھڑ کی ہوا خشک ہو جائے گی اور وہ بھاگنے کا رستہ ڈھونڈھے گا مگر اس بار ہم بھی اگلے پچھلے سارے حساب بے باک کر کے ہی دم لیں گے۔

جس وقت ہم گلی میں داخل ہوئے اس وقت ہمارا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ کہیں وہ کمینہ ہمیں غائب پا کر متوقع صورت حال کے پیش نظر فرار ہی نہ ہو گیا ہو۔ بائیکس ہم لوگوں نے دروازے کے سامنے ہی گلی میں کھڑی کر دیں اور خود اندر داخل ہو گئے۔ نجمی ہمارے برابر چل رہا تھا جب کہ دلاور اور اس کا ساتھی ہم سے دو قدم پیچھے تھے۔ ہم دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہے تھے کہ "یا اللہ لدھڑ اندر کمرے ہی میں موجود ہو۔ ہمارے گھر سے نکل آنے کے بعد وہ مسہری سے اٹھا ہی نہ ہو۔ اس کی آنکھ لگ گئی ہو اور وہ ابھی تک پڑا سو رہا ہو۔”

پھر جب ہم کمرے کے دروازے میں پہنچے تو ہمارا پورا وجود جیسے توانائیوں سے بھر گیا۔ ہماری چوٹوں کا درد جیسے اچانک کہیں غائب ہو گیا تھا۔ وه بد بخت مسہری پر موجود تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے نیچے تھے اور آنکھیں بند تھیں۔ وہ یوں اطمینان سے لیٹا ہوا تھا جیسے اپنے باپ کے گھر میں پڑا ہو۔ ہم لپک کر مسہری کے قریب پہنچ گئے۔ "یہی ہے وہ کمینہ، مردو، یہی ہے لدھڑ کا بچہ۔ اوہ جہنمی جنّ کی اولاد۔”

ہمارے چلانے پر اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور ہمارے پیچھے کھڑے نجمی اور دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے دو پولیس والوں پر نظر پڑتے ہی وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔

"دیکھ لو نجمی! یہی ہے وہ ذلیل فیاض لدھڑ جس کے اکسانے پر میں پھمن پہلوان کے گھر میں داخل ہوا تھا اور اب رات بھر یہ پھر مجھے مجبور کرتا رہا ہے کہ میں پہلوان کی بیٹی کے سامنے جا کر اس خبیث کے کردار کی صفائی پیش کروں۔ میرے انکار پر اس نے چھنو وغیرہ کو بھی کہیں غائب کر دیا ہے اور مجھے بھی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔”

ہم خاموش ہوئے تو ہمیں توقع تھی کہ اب نجمی یا دلاور وغیرہ میں سے کوئی اس خنزیر سے کچھ کہے گا مگر وہ تینوں چپ رہے تو ہم نے نجمی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ "کیا سوچنے لگے؟ یہ صرف دیکھنے میں مریل اور مریض لگتا ہے۔ ہے پورا سوّر رات وقفے وقفے سے تین چار بار پیٹا ہے اس نے مجھے۔” "

نجمی نے ہمارے چہرے سے نظر ہٹا کر ایک سرسری سی نظر لدھڑ پر ڈالی پھر دلاور لوگوں کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں بھی عجیب سوالیہ نظروں سے نجمی کی صورت تک رہے تھے۔ ان تینوں کی خاموشی اور چہروں کے تاثرات سے ہمیں فوراً کسی غیر معمولی گڑ بڑ کا احساس ہوا تو ہم چونک پڑے۔ ہم نے لدھڑ کی طرف دیکھا۔ وہ اپنی جگہ خاموش بیٹھا تھا نجمی اور دلاور کی طرف دیکھا تو ان کی سنجیدہ نظروں کو اپنی ہی جانب متوجہ پایا۔

"کیا مسئلہ ہے؟ تم لوگ بت بن کر کیوں کھڑے ہو۔؟” ہمارے سوال کے جواب میں نجمی نے محبت بھرے انداز میں ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

بلند بخت! آؤ چلو میرے ساتھ۔””

” کہاں؟”

ڈاکٹر داور کے کلینک چلتے ہیں۔ تم بہت زیادہ اپ سیٹ ہو۔ کچھ دن وہیں۔”…”

"کیا… کیا مطلب کیا ہے تمہارا۔ ؟” ہم نے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے تیز لہجے میں کہا اور ساتھ ہی ایک نظر لدھڑ پر ڈالی۔ جس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ اتر آئی تھی۔ ایک وحشت انگیز خیال ہماری دھڑکنوں کو بے ترتیب کر گیا تھا۔

"”مطلب تم سمجھ رہے ہو بلند بخت! تمہیں تھوڑے حو صلے اور تحمل سے کام لیتے ہوئے یہ سچائی تسلیم کرنا ہو گی کہ اس کمرے میں ہمارے علاوہ اگر کوئی اور فرد بھی تمہیں دکھائی دے رہا ہے تو وہ محض تمہارا الوژن ہے۔ حقیقت نہیں۔” نجمی کے کہے ہوئے الفاظ گویا الفاظ نہیں ایک ہولناک دھما کا تھا۔ جو ہمارے اندر کہیں ہوا تھا؟ اور کچھ دیر کے لیے ہمارے ہوش و حواس کو مفلوج کر گیا تھا۔

ہم اپنی جگہ حیران و ششدر کھڑے اس کی صورت تکتے رہ گئے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ شاید ہمیں وہم ہوا ہے۔ ہمارے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ ہم نے لدھڑ کی طرف دیکھا وہ اپنے غلیظ ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے دلچسپ نظروں سے ہم ہی کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں گہر ا طنز ہلکورے لے رہا تھا۔

ہم نے لدھڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دلاور کو مخاطب کیا۔ "کیا آپ کو بھی یہ ملعون دکھائی نہیں دے رہا۔؟” دلاور متذبذب سے انداز میں کندھے اچکا کر نجمی کی طرف دیکھنے لگا تو اس کے اس انداز سے ہمارے ذہن میں شک کا ایک انتہائی تکلیف دہ اور دلدوز خیال کسمسا اٹھا۔ "نجمی! کہیں یہ سب تمہارا کوئی پلان تو نہیں۔؟ تم میرے ساتھ کوئی سنگین قسم کا کھیل تو نہیں کھیل رہے۔؟”

"فار گاڈ سیک یار! تم اپنی ذہنی کیفیت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ میری مانو اور چلو میرے ساتھ تمہیں ڈاکٹر داور کی ہیلپ کی ضرورت ہے۔آؤ…” نجمی نے ہمارا بازو تھامنا چاہا تو ہم فوراً تڑپ کر دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔

” "مجھے کسی کی ہیلپ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تمہارا پاگل پن ہے جو تم مجھے میرے ہی پاگل ہونے کا یقین دلانے کی احمقانہ کوشش کر رہے ہو۔“ ہم نے لدھڑ کی طرف اشارہ کیا۔ "تم اس کتے کو میرا الوژن قرار دے رہے ہو اور اس الوژن نے رات میری ہڈی پسلی ایک کر چھوڑی تھی۔ یہ تمہیں دکھائی نہیں دے رہا تو…. تو کیا میری یہ چوٹیں بھی تمہیں نظر نہیں آ رہیں؟ کیا یہ بھی میرا الوژن ہیں۔؟ "

ہم نے اپنے نیلے پڑے گال اور سوجے ہوئے ہونٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیخ کر کہا۔

"ہاں! یہ چوٹیں تو ہیں مگر میں ان کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ…

” تم کسی کے متعلق کچھ مت کہو۔” ہم نے تلخی سے اس کی بات کاٹ دی۔ "میں تمہارے اس کھیل کو سمجھ چکا ہوں۔ اب تم مجھے مزید بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ سمجھے تم؟ ” "کیسا کھیل! کیا سمجھ چکے ہو تم۔ ؟”

"مجھے فکشن اسٹوری رائٹنگ پر آمادہ کرنا۔” ہم نے لدھڑ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اس جن کے بچے کا وارد ہونا۔ مجھے پہلوان کے گھر اور تھانے میں پھنسا کر قصائی خاندان اور تھانے میں موجود ملازمین کی نظروں میں ایک نفسیاتی مریض کی شناخت دلوانا پھر ڈاکٹر داور جیسی معتبر ہستی کو گواہ بنانا اور اب مجھے اس کے کلینک میں داخل کروا کر باقاعد میرے پاگل پن کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا چاہتے ہو تم۔ اس سارے کھیل کے پیچھے تمہارا ہی شاطر دماغ ہے نا؟” آپ ہی آپ ہمارا لہجہ زہریلا ہوتا چلا گیا تھا۔

” مجھے بھلا اس سب سے کیا حاصل ہو گا ؟”

چھنو دھنو اور رجو تو مجھ سے ہتھیا چکے تم لوگ اور اصل چیز تو ابھی باقی ہے۔ میرا یہ مکان۔ یہ لاکھوں کی جائیداد۔ تمہیں معلوم ہے نا کہ میرا آگے پیچھے کوئی نہیں۔ اب اگر میں بھی کسی پاگل خانے پہنچ جاؤں تو تم جو مرضی پیرا پھیری کر لو کون پوچھنے والا ہو گا۔ تمہیں لاکھوں روپے نظر آ رہے ہیں۔ اس لیے یہ خزیر تمہیں نظر نہیں آئے گا۔ ؟ ہم نے نفرت انگیز نظروں سے لدھڑ کو گھورتے ہوئے کہا۔

ہمارے ذہن میں اس کے علاوہ تو اور کوئی وجہ تھی ہی نہیں جس کے باعث نجمی لدھڑ کے بیٹھے ہونے کے باوجود بھی اس کی موجودگی سے انجان بنتے ہوئے اسے محض ہماری نظر کا دھوکہ اور فریب قرار دیتا رہتا۔

"یہ تم کیا بکواس کر رہے ہو؟ میرے ساتھ یہاں اور بھی دو افراد موجود ہیں مگر لدھڑ صرف ایک تمہیں دکھائی دے رہا ہے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہی ہوا نا کہ مسئلہ صرف تمہارے ساتھ ہے۔”

یہ دونوں بھی تو تمہارے ہی دوست ہیں۔ یہ سب تم لوگوں کی آپس کی ملی بھگت ہے۔ تم سب ملے ہوئے ہو۔” ہمارے تبصرے پر دونوں پولیس ملازموں کے چہروں پر ناگواری کے تاثرات کھنڈ گئے۔ مگر وہ نجمی کی طرف دیکھتے ہوئے خاموش ہی رہے۔ چلو اب بکواس بند کرو اور چلو ہمارے ساتھ ۔ نجمی ہماری طرف بڑھا۔ تو ہمارا پارہ کچھ اور چڑھ گیا۔ "میں کہتا ہوں ڈرامہ بازی بند کر دو اور اپنے اس جن کے بچے کو یہاں سے لے کر دفعہ ہو جاؤ۔”

"چلو ایک دفعہ ڈاکٹر داور سے مل لو۔ اس کے بعد جو مرضی کرتے پھرنا۔ نجمی نے قریب آ کر ہمارا بازو تھاما تو ہم نے ایک جھٹکے سے بازو چھڑا کر اسے دھکا دیا۔

"دور رہو ورنہ تمہارا منہ توڑ دوں گا میں۔” نجمی ایک ذرا لڑکھڑایا اور نا گوار لہجے میں بولا۔ "سیدھی طرح نہیں مانے تو مجھے زبردستی کرنا پڑے گی۔”

"اور میں اپنے جیتے جی تمہیں تمہارے اس گھٹیا مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔ یہ مکان میرے والد صاحب نے بڑی مشکل اور محبت سے بنایا تھا۔” ہم نے قطعیت سے جواب دیا مگر نجمی بھی جیسے کوئی پختہ ارادہ باندھ چکا تھا۔ وہ دوبارہ ہماری طرف بڑھا تو اس کے نزدیک آتے ہی ہم نے اسے گردن سے دبوچ کر زمین پر پٹخ دیا۔ اور خود اس کے سینے پر سور ہو گئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر دلاور اور اس کا ساتھی دونوں ایک ساتھ ہم پر جھپٹ پڑے ہمارے درمیان کھینچا تانی تو ہوئی مگر کچھ ہی دیر میں ان قوی ہیکل پولیس والوں نے ہمیں بے بس کر دیا۔

دلاور کے ساتھی نے دیوار پر کیل کے سہارے لٹکی ہوئی ہماری شلوار میں سے ازار بند نکالا اور ہمارے دونوں ہاتھ ہماری پشت پر کس کر باندھ دیئے۔ لدھڑ اب باقاعدہ ہنس رہا تھا مگر کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ صرف ہم نے دو چار موٹی موٹی گالیوں سے نوازا تھا اسے۔

"نجیب صاحب! آپ نے تو کہا تھا کہ تھوڑی سی گڑبڑ ہے مگر یہ بندہ تو مکمل طور پر پاگل ہے۔ بلکہ خطرناک پاگل ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ رات اس نے ایسے ہی دورے کی حالت میں کہیں ٹکریں شکریں مار کر اپنا تھوبڑا بھی خود ہی سجایا ہے۔” دلاور اپنی پینٹ درست کرتے ہوئے نجمی سے مخاطب ہوا۔

"مجھے خود اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ اتنی سنگین حد تک پہنچ چکا ہے۔”

"بہر حال اسے یوں آزاد چھوڑنا دوسروں کے ساتھ ساتھ خود اس کے اپنے حق میں بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ لہذا میں اسے تھانے لے جا رہا ہوں۔ ڈاکٹر داور کے پاس بھی میں اسے خود ہی لے جاؤں گا۔”

"ٹھیک ہے۔ مگر خیال کیجیے گا کوئی سختی مت کیجیے گا۔ آپ خود بھی دیکھ چکے ہیں کہ اس کی ذہنی حالت کیا ہے۔”

آپ بے فکر رہیں نجیب صاحب! ہماری طرف سے ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔””

نجمی نے ممنونیت سے ان کا شکر یہ ادا کیا اور وہ دونوں بھوت ہمیں اپنے ساتھ تھانے لے گئے۔ دوسرے روز ہمیں ڈاکٹر داور کے کلینک لے جایا گیا اور اس ڈنگر ڈاکٹر نے پوری ذمہ داری سے ہمارے متعلق شیزوفرینیا کی کریٹی کل اسٹیج کی رپورٹ بنا کر دلاور خان کے حوالے کر دی اور ساتھ ہی تحریری طور پر اپنی رائے یا مشورہ بھی دے دیا کہ ہمیں مینٹل ہاسپٹل لاہور ریفر کر دیا جائے۔ اور پھر دو دن بعد ہی ہمیں پولیس کسٹڈی میں بذریعہ ٹرین لاہور پاگل خانے پہنچا دیا گیا۔ اسی سفر کے دوران ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ لدھڑ کو ہمارے علاوہ کوئی دوسرا نہیں دیکھ سکتا۔

اس کا اظہار لدھڑ نے خود بھی کیا تھا کہ وہ ہمارے علاوہ کسی دوسرے پر اپنا آپ ظاہر نہیں کرے گا اور دورانِ سفر ہمیں اس بات کا مشاہدہ اور تجربہ بھی ہو گیا۔ راستے بھر وہ جہنمی ہمیں ذلیل کرتا رہا واہیات بکواس میں مصروف رہا مگر ہمارے اردگرد کے مسافر اور ہمارے نگران پولیس ملازمین اس کے وجود سے بالکل بے خبر رہے۔

تب ہمیں یقین ہوا کہ نجمی اپنی جگہ حق بجانب تھا۔ یقینا اسے اور دلاور لوگوں کو بھی وہ ذلیل دکھائی نہیں دیا ہوگا۔ شاید ہم نجمی کے کہے مطابق یہ بھی یقین کر لیتے کہ وہ محض ہمارا ایک الوژن ہے کوئی حقیقت نہیں۔ لیکن ایک معاملہ ہمیشہ اس بات کی نفی کرتا رہا۔ آئے دن ہمارے جسم پر لگنے والی چوٹیں، چہرے کے نیل، زخم اور ان سے اٹھنے والی ٹیسیں… ؟

گزشتہ تین سال سے ہم لاہور کے پاگل خانے میں بیٹھے نجمی اور لدھڑ کو بددعائیں دینے کے ساتھ ساتھ خود کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ یہ چوٹیں، زخم اور ان سے اٹھنے والی ٹیسیں محض ایک الوژن کی کرامات نہیں ہو سکتیں!!!

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے