برنارڈ شا اس قدر شرمیلا تھا کہ اپنے دوستوں کو ملنے سے گھبراتا تھا۔ اس کے باوجود وہ اپنے دور کا بہترین مقرر بن گیا۔
تحریر: ڈیل کارنیگی
ترجمہ: جاوید شاہین
دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ہیں جو اس قدر مشہور ہوں کہ ان کے نام کی جگہ اکثر ان کے نام کے ابتدائی حروف استعمال کئے جائیں۔ ان میں سے آئر لینڈ کا ایک باشندہ تھا۔ اس کے نام کے ابتدائی حروف جی بی ایس ہیں۔ میرے خیال میں وہ اپنے وقت کا سب سے نامور ادیب تھا۔ اس کی ناقابل اعتبار زندگی کی کہانی پر ایک ایسی کتاب لکھی گئی ہے، جس کا عنوان بھی اس کا نام نہیں۔ فقط سرورق پر تین حروف درج ہیں۔ جی، بی ایس۔
برنارڈ شا کی زندگی عجیب تضادات سے بھری ہوئی تھی۔ مثلاً اس نے فقط پانچ برس سکول میں تعلیم پائی۔ لیکن رسمی تعلیم کی کمی کے باوجود اسے اپنے دور کا عظیم ترین ادیب تسلیم کیا گیا ہے۔ اسے زندگی میں وہ اعزاز حاصل ہوا جو ایک ادیب کے لئے زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے۔ یعنی اس نے ادب میں نوبیل پرائز حاصل کیا۔
یہ انعام سات ہزار پونڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن جارج برنارڈ شا نے محسوس کیا کہ نہ اسے اعزاز اور نہ ہی روپے کی ضرورت ہے۔ لہذا اس نے روپیہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آخر اسے اس بات پر رضامند کیا گیا کہ وہ فقط ایک سیکنڈ کے لئے یہ رقم قبول کر لے اور ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے اینگلو سویڈش ادبی اتحاد” نامی جماعت کے لئے وقف کر دے۔
برنارڈ شا کی ابتدائی زندگی
برنارڈ شا کا والد ایک اچھے آئرش گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی والدہ نے اپنی ایک امیر چچی کی مرضی کے خلاف برنارڈ شا کے والد سے شادی کی تھی اور اس جرم کی پاداش میں اس کی چچی نے اسے اپنی جائداد سے عاق کر دیا تھا۔ کنبے کی مالی حالت اس قدر پتلی ہو گئی کہ برنارڈ شا کو پندرہ برس کی عمر میں پیٹ پالنے کے لئے مجبورا کام کرنا پڑا۔
ملازمت کا پہلا برس وہ ایک پونڈ ماہوار سے بھی کم تنخواہ پر کام کرتا رہا۔ پھر سولہ برس سے بیس برس کی عمر تک وہ ایک ذمہ دار خزانچی کی حیثیت سے فرائض منصبی ادا کرتا رہا۔ اس کی ہفتہ وار تنخواہ 35 شلنگ تھی۔ لیکن اسے دفتری کام سے نفرت تھی۔ اس کی یہ وجہ تھی کہ اس کی تربیت ایک ایسے گھرانے میں ہوئی تھی جہاں علم و فن اور ادب و موسیقی کی شمعیں روشن تھیں۔
برنارڈ شا کا ذوقِ مطالعہ
سات برس کی عمر میں برنارڈ شا نے شیکسپئر، بن یان، الف لیلی اور بائبل کا مطالعہ مکمل کر لیا تھا۔ جب وہ بارہ برس کا تھا تو بائرن، ڈکنز، ڈوما اور شیلے اس کی نظر سے گزر چکے تھے۔ اٹھارہویں برس میں قدم رکھنے سے پہلے وہ ٹائن وال ، سٹورٹ مل اور ہربرٹ سپنسر کی نگارشات سے واقف ہو چکا تھا۔ عظیم ادیبوں نے اس کے تصور کو تیز تر کر کے اس کا ذہن عجیب خوابوں کی آماجگاہ بنا دیا تھا اور وہ اسی سبب اپنے دفتری امور میں بالکل دلچسپی نہ لیتا تھا۔
اس کا تصور تو ادب و فن ،سائنس اور مذہب کے حسن زاروں کو اپنا مسکن بنائے ہوئے تھا۔ اپنی بیسویں سالگرہ سے تھوڑا عرصہ پہلے جی، بی ایس نے خود سے کہا۔ "زندگی فقط ایک دفعہ حاصل ہوتی ہے۔ میں اسے دفتری الجھنوں کا ہرگز شکار نہ ہونے دوں گا۔” لہذا 1876ء میں وہ ملازمت ترک کر کے لندن چلا آیا جہاں اس کی والدہ موسیقی کا سبق دے کر گذر اوقات کر رہی تھی۔
وہاں برنارڈشا نے اس ادبی زندگی کا آغاز کیا جس نے اسے دولت اور دنیا میں شہرت بخشی تھی۔ لیکن ادب سے روزی کمانے سے پیشتر وہ متواتر نو برس تک لکھتا رہا۔ اس نے اپنا سارا وقت لکھنے کے لئے وقف کر دیا ۔ وہ ہر روز خود کو پانچ صفحے لکھنے پر مجبور کرتا۔ زیادہ نہیں فقط پانچ صفحے۔
اس کے متعلق شا لکھتا ہے۔
”میرے اندر طالب علم اور کلرک ابھی تک چھپا بیٹھا تھا۔ اگر پانچواں صفحہ کسی جملے کے درمیان ختم ہو جاتا تو میں وہ جملہ ادھورا ہی رہنے دیتا اور اسے اگلے دن مکمل کرتا۔”
مسلسل ناکامی
نو سال کے عرصہ میں اس نے پانچ طویل ناول لکھے۔ ان میں سے ایک کا نام ”فنکاروں کے درمیان محبت” تھا۔ اس نے اپنے ہر ناول کا مسودہ انگلینڈ اور امریکہ کے ہر ناشر کے پاس بھیجا لیکن ہر کسی نے انہیں واپس بھیج دیا۔ بعض ناشروں نے اتنا ضرور لکھا کہ وہ اس کی اگلی کوشش کو دیکھنا پسند کریں گے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ کسی نے اس کی اولا صلاحیتوں پر نکتہ چینی نہ کی اور اسے یہ نہ کہا کہ وہ کوئی دوسرا کام کرنے لگے تو بہتر ہو گا۔ بات یہ تھی کہ شا کے خیالات ان کی سمجھ میں نہ آتے تھے۔
ان دنوں برنارڈ شا کی مالی حالت اس قدر ناگفتہ بہ تھی کہ اس کے پاس اپنے مسودے ار سال کرنے کی خاطر ٹکٹ خریدنے کے لئے بھی پیسے نہ ہوتے تھے۔ ادبی زندگی کے پہلے نو برس میں اس کی آمدنی فقط چھ پونڈ تھی۔ اس کے بدن پر اکثر پھٹے پرانے کپڑے ہوتے اور اس کے جوتوں میں لمبے لمبے سوراخ ۔ لیکن وہ کبھی بھوکا نہ رہا تھا۔ اس کی والدہ نان بائی اور پرچون فروش سے ادھار لے کر اسے بھوک کے چنگل سے بچاتی رہی۔
ادبی زندگی کے پہلے پانچ پونڈ
اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی نو برس میں اس نے ادب سے پہلے پانچ پونڈ ایک نئی دوا کے متعلق ایک مضمون لکھ کر کمائے۔ چھٹا پونڈ اس نے ایک دفعہ الیکشن کے موقع پر ووٹوں کی گنتی کر کے حاصل کیا۔ تو پھر شاہ زندہ رہنے کے لئے پیسے کہاں سے لیتا تھا۔ اس نے بلا تکلف تسلیم کیا ہے کہ اس کے کنبے کو اس کے سہارے کی اشد ضرورت تھی۔ لیکن وہ کنبے کی مالی حالت بہتر بنانے کے لئے کچھ نہ کرتا تھا۔ اس کے برعکس وہ کنبے کا دست نگر تھا۔ جیسا کہ شا نے خود کہا ہے کہ
"میں نے خود کو معاش کے بکھیڑوں میں ڈالنے کی بجائے اپنی والدہ کو ڈال رکھا تھا۔”
آخر شا فنون لطیفہ کے نقاد کی حیثیت سے خود کفیل ہو گیا۔ اس کی پہلی ادبی اور مالی کامیابی اس کے ناولوں کی بجائے اس کے ڈرامے ثابت ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے تمام ابتدائی ڈرامے نا کام نکلے۔
برنارڈ شا کا شرمیلا پن یا احساسِ کمتری
اس بات پر یقین نہیں آتا کہ برنارڈ شا جو ایک بہترین اور اعلا درجے کا مقرر تھا اور بڑے سے بڑے مجمع کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور عائلی قوانین، جمہوری ہیرا پھیری، مذہبی اداروں اور انسانوں کی تقریباً تمام مروجہ روایات پر کھلم کھلا کڑی تنقید کرتا تھا۔ کسی زمانے میں شرمیلے پن ، انکساری اور احساس کمتری میں بری طرح مبتلا تھا۔ لیکن یہ حقیقت ہے۔
مثلاً جوانی کے دنوں میں شا کبھی کبھی ان دوستوں کو ملنے کے لئے جاتا جو لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے رہتے تھے۔ ایسے موقعوں پر شا کی کیا حالت ہوتی تھی اس کا نقشہ اس نے خود بیان کیا ہے۔
"شرمیلے پن کی اذیت مجھے اس قدر تنگ کیا کرتی کہ میں بعض اوقات اپنے کسی دوست کے دروازے پر دستک دینے سے ہچکچاتا اور کتنی کتنی دیر تذبذب کے عالم میں اس کے مکان سے ذرا ہٹ کر ادھر ادھر گھومتا رہتا۔ پھر میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑتا اور راستے میں خود سے کہتا کہ اگر واپس چلے آنا اتنا آسان ہے تو پھر خود کو اذیت میں مبتلا کرنے سے کیا فائدہ۔ بہت کم لوگ جوانی میں مجھ سے زیادہ بزدل یا دوسرے الفاظ میں شرمیلے ہوں گے۔”
فنِ تقریر کی کلاسیں
اس کے باوجود برنارڈ شا معاشرے میں اپنے طرز سلوک کے متعلق اس قدر محتاط تھا کہ لندن کی ہر اچھی لائبریری میں اسے آدابِ زندگی کے متعلق جو بھی کتاب نظر آئی اس نے پڑھ ڈالی۔ لیکن جس واحد کتاب سے اس نے استفادہ کیا، اس کا نام ہے ” اچھے معاشرے کالب و لہجہ” آخر اس نے اپنے شرمیلے پن اور انکساری پر قابو پانے کے لئے ایک راہ نکالی اور وہ فن تقریر کی ایک کلاس میں داخل ہو گیا۔
پہلے پہل چند دفعہ اس نے اس اعتماد کے ساتھ تقریر کی کہ اگلے چند موقعوں پر اسے مجلس مباحثہ کا صدر بنا دیا گیا۔ اس کے باوجود وہ داخلی طور پر اس قدر گھبرا جاتا کہ ایسے موقعوں پر اس کے لئے اپنی کپکپاتی ہوئی انگلیوں سے کار روائی کے رجسٹر پر دستخط کرنا مشکل ہو جاتا۔ نوٹس کی عدم موجودگی میں اسے یاد نہ رہتا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ تقریر کرتے وقت اس کی حالت بڑی قابل رحم ہوتی۔ اس کے باوجود لوگ اس کی باتیں سنتے۔
اپنے شرمیلے پن پر قابو پانے کی اس نے قسم کھائی۔ لندن میں جہاں کہیں عوامی جلسہ ہوتا۔ وہ وہاں ضرور جاتا۔ اور اگر اسے بولنے کا موقع مل جاتا تو ضرور بولتا۔ پھر ایک شام جب کہ شا کی عمر چھبیس سال کی تھی اس نے "ترقی اور اخلاص” کے مصنف ہندی جارج کی تقریر سنی۔ وہ سنگل ٹیکس کے نظریے پر اظہار خیال کر رہا تھا۔ یہ تقریر سننے کے بعد شا سیاست کی راہ پر چل نکلا اور وہ فوراَ زمین کو قومی ملکیت بنانے کے موضوع پر تقریریں کرنے لگا۔
کارل مارکس کی کتاب "سرمایہ”
پھر کسی نے اسے بتایا کہ سنگل ٹیکس کے مسئلہ پر کوئی شخص اس وقت تک بحث کرنے کے قابل نہیں ہوتا جب تک اس نے کارل مارکس کی کتاب "سرمایہ” نہ پڑھی ہو۔ اس کتاب کے مطالعہ نے اس کی باقی زندگی پر کیا اثر کیا۔ یہ خود شاہ جتاتا ہے۔
” "سرمایہ” کا مطالعہ میری زندگی میں ایک انقلاب سے کم نہ تھا۔ کارل مارکس میرے لئے ایک انکشاف تھا اگرچہ اس کی مبہم اقتصادیات میں نے بعد میں غلط پائی لیکن اس وقت اس نے میرے سامنے ایک نیا دروازہ کھول دیا۔ اس نے تاریخ اور تہذیب کے حقائق کے بارے میں میری آنکھیں روشن کر دیں اور ان کے متعلق مجھے ایک تازہ نظریہ عطا کیا۔ مجھے اپنی زندگی کا کوئی مقصد، کوئی نصب العین دکھائی دینے لگا۔ قصہ مختصر اس نے مجھے انسان بنا دیا۔”
ہاں اب برنارڈ شا کا لہو لوگوں میں بولنے لگا تھا۔ اس کا شرمیلا پن اور انکساری جاتی رہی تھی۔ شا کے ہاتھ میں ایک کتاب آگئی تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہو گا کہ ایک شا ایک کتاب کے سحر میں گرفتار ہو گیا تھا۔ ایک کتاب جس نے اسے جہاد پر تیار کر دیا اور اس کی اپنی ہستی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اب اسے اپنے نصب العین کے سوا کوئی چیز عزیز نہ تھی۔
سوشلزم کا پرچار
اگلے بارہ برس وہ تقریباً ہر رات گلیوں کی نکڑوں پر کھڑا ہو کر، عوامی جلسہ گاہوں اور کلیساؤں میں سوشلزم کا پرچار کرتا رہا۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے لیکن وہ ان سے بے نیاز اپنی دھن میں مگن رہا اور ایک دن وہ اپنے وقت کا عظیم مقرر بن گیا۔ آخر ایک مقرر کی حیثیت سے اس کی مانگ اس قدر بڑھ گئی کہ لوگ معاوضہ دے کر اس سے تقریریں کرانے لگے۔ لیکن ایسے معاوضے وہ اپنے پر حرام سمجھتا اور یہ رقوم اپنے نصب العین پر خرچ کرتا۔
شارلٹ پاین ٹاؤن شنید
1896 ء میں برنارڈ شا شارلٹ پاین ٹاؤن شنید(Charlotte Payne-Townshend) نامی ایک خاتون سے ملے اس وقت شا چالیس برس کا کنوارا اور شارلٹ 39 برس کی کنواری خاتون تھی۔ شارلٹ کو ورثے میں خاصی دولت ملی تھی۔ شا کو ان دنوں امریکہ میں اپنے ایک ڈرامے کی کامیابی پر بیس ہزار پونڈ ملے تھے۔ شارلٹ معاشرتی زندگی سے تنگ آچکی تھی اور سوشلزم سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ وہ شا میں دلچسپی لینے لگی اور اس حقیقت سے اسے آگاہ کر دیا۔ بعد میں وہ شا کو خود پسند اور ظالم کہا کرتی تھی۔
دو برس گزر گئے۔ اس دوران میں شا کو شادی کا کبھی خیال بھی نہ آیا۔ آخر مارچ 1898ء میں شارلٹ میونسپل اداروں کے مطالعے کی غرض سے روم چلی گئی۔ جب وہ روم پہنچی تو اسے ایک تار ملا۔ شاہ بڑا سخت بیمار تھا وہ الٹے قدموں لندن واپس لوٹ آئی۔ زیادہ کام کرنے سے شاہ کی صحت خراب ہو گئی تھی۔ جس گندے کمرے میں وہ کام کیا کرتا تھا اس کی حالت دیکھ کر شارلٹ کو سخت صدمہ ہوا۔
شادی اور مسز شا کا انتقال
اس کمرے کے متعلق شا خود ہی کہا کرتا تھا کہ "اسے تو فقط بارود کا ایک فیتہ ہی صاف کر سکتا ہے۔ اگر سات جوان لڑکیاں اور سات جوان لڑکے نصف صدی تک یہ کمرہ صاف کرتے رہیں تو پھر بھی اس پر کوئی اثر نہ ہو گا۔” جب سبز آنکھوں والی شارلٹ نے شا کو وہ کمرہ چھوڑنے اور اسے اپنے ہمراہ اپنے گاؤں چلنے پر مجبور کیا تو شا نے اس سے کہا کہ وہ پہلے بازار جا کر ایک انگوٹھی اور شادی کا لائسنس لے آئے۔ انہوں نے اپنی ازدواجی زندگی کے پینتالیس برس بڑے ہنسی خوشی سے گزارے۔
مسز شا کا انتقال 12 ستمبر 1943ء کو ہوا۔ ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ وہ شا سے بیس برس چھوٹی تھی اور شا اس سے پہلے مرے گا۔ لیکن حقیقت میں ان کی باہمی عمروں کا فرق صرف چار ماہ تھا۔
اگر چہ شا 1856ء میں پیدا ہوا تھا۔ لیکن اس نے 1946ء میں اعلان کیا تھا کہ وہ اس قدر مصروف ہے کہ ابھی موت کے بارے میں سوچنے کے لئے اس کے پاس وقت نہیں۔ اس نے کہا تھا۔
"میں زندگی میں زندگی کی خاطر دلچسپی لیتا ہوں۔ یہ میرے نزدیک کوئی مختصر شمع نہیں۔ میرے لئے یہ ایک شاندار مشعل ہے اور میرے ہاتھ میں ہے۔ اسے آئندہ پود کے سپرد کرنے سے پہلے میں اسے زیادہ سے زیادہ روشن دیکھنا چاہتا ہوں۔”