جوزف سٹالن-Joseph Stalin

جوزف سٹالن…. ایک ایسا شخص جس کے والدین غلام تھے لیکن اس نے بیس کروڑ لوگوں پر حکمرانی کی۔

روئے زمین پر سب سے طاقتور ایک ایسا شخص تھا جس سے لاکھوں آدمی محبت اور لاکھوں نفرت کرتے تھے۔ کسی زمانے میں اس کے والدین مزارع تھے۔ حقیقی معنوں میں غلام۔ زمین کے ساتھ ساتھ ان کی خرید و فروخت بھی ہوتی تھی، لیکن ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ دہقانی والدین کا یہ بیٹا ساری زمین کے چھٹے حصے کا حکمران بن گیا۔ اس کے ہاتھ میں بیس کروڑ لوگوں کی زندگی اور موت تھی۔

آپ خواہ اس سے محبت کرتے ہوں یا نفرت، لیکن ایک بات یقینی ہے کہ آپ اسے نظر انداز ہرگز نہیں کر سکتے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ زندگی میں فقط ایک نصب العین کے ساتھ وہ جس طرح وفادار رہا ہے۔ بعض لوگ اسے نظر انداز کس طرح کر دیتے ہیں۔ اس کا یہ نصب العین تھا کہ اس کے ملک پر اس کے عوام کی حکومت ہو۔ اور وہ اپنے عوام کو حکومت کرنے کے قابل بنا سکے۔

اس کا نام سٹالن تھا۔ جوزف سٹالن, لیکن یہ اس کا اصلی نام نہ تھا۔ اس کا حقیقی نام آئیوسف ویسیاریا نووچ جگاشولی تھا۔ جوزف سٹالن 1879ء میں روسی تیل کے ذخیروں کے قریب ایک چھوٹے سے تاریک اور بوسیدہ مکان میں پیدا ہوا۔ اس مکان کا ماہوار کرایہ چھ شلنگ تھا۔ سٹالن جارجیا کا رہنے والا تھا۔ وہ بحیرہ ظلمات اور بحیرہ کیسپین کے درمیان واقع ہے۔

جارجیا کے باشندے آج بھی اپنی زبان بولتے ہیں۔ اگرچہ ان کے علاقے کو روس سے ملحق ہوئے ڈیڑھ سو برس گزر چکے ہیں۔ جوزف سٹالن بھی بیس برس کی عمر تک جارجین زبان بولتا رہا۔ یہ زبان روسی سے اتنی ہی مختلف ہے جتنی ہسپانوی زبان انگریزی سے۔ سٹالن جارجین لہجے میں روسی بولتا تھا۔

امریکہ میں غلامی کی لعنت دور ہونے سے تین برس پہلے زار الیگزنڈر دوم نے روس میں "غلام مزارہا ” کا قانون ختم کر دیا۔ جب جوزف سٹالن 1879ء میں پیدا ہوا تو اس کے والدین آزاد ہو چکے تھے۔ اس کے والد نے بسر اوقات کرنے کے لئے جوتے مرمت کرنے کی دوکان کھول لی۔ آئیے اب ہم دیکھیں کہ جوزف سٹالن روس جتنے بڑے ملک کا کس طرح حکمران بن گیا؟ ایسا ملک جس پر زارِ روس پانچ سو برس سے حکومت کرتا چلا آ رہا تھا۔

اس نے اپنی ابتدائی تعلیم کچھ اس طرح حاصل کی کہ اسے اپنے گندے اور افلاس زدہ ماحول سے نفرت ہو گئی اور وہ اس سے دور ہو گیا۔ اسی تعلیم نے اس کے اندر ایک مقصد العین پیدا کر دیا۔ سٹالن کا باپ اسے موچی بنانا چاہتا تھا۔ لیکن اس کی ماں، دوسری ماؤں کی طرح اپنے بیٹے کی ترقی اور عروج کے خواب دیکھتی رہتی تھی۔

اس کی ان پڑھ ماں جو مکمل غلامی کے ماحول میں پیدا ہوئی تھی اور جو دونوں وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لئے سارا دن کپڑے سیتی اور برتن دھوتی رہتی تھی۔ اپنے بیٹے کے لئے بہتر اور اچھی دنیا کی خواہشمند تھی۔ وہ اکثر چرچ میں جا کر مقدس ماں کے مجسمے کے سامنے شمعیں جلا کر گھنٹوں اپنے بیٹے کے لئے دعائیں مانگتی اور روتی رہتی۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا ایک پادری بن جائے۔ اسے اپنی مشقت کی پروا نہ تھی۔ وہ ایک مقدس مقصد کے لئے کام کرتی تھی۔

اس نے کسی نہ کسی طرح اپنے بیٹے کے لئے ایک مذہبی وظیفہ حاصل کر لیا اور سٹالن ایک مذہبی ادارے میں پادری کی تربیت اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل ہو گیا۔ وہاں وہ چند برس رہا۔ پھر ایک دن جب کہ وہ پندرہ برس کا تھا۔ ایک واقعہ رونما ہوا۔ بذات خود یہ چھوٹا سا واقعہ تھا لیکن اس کے نتائج اتنے گہرے ثابت ہوئے کہ ایک دن انہوں نے دنیا کو ہلا دیا۔

بات فقط اتنی تھی کہ سٹالن کے ہاتھ ایک ایسی کتاب لگ گئی، جس نے تاریخ عالم میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اس کتاب سے زیادہ آج تک کوئی دوسری غیر مذہبی کتاب اثر انگیز ثابت نہیں ہو سکی۔ وہ کتاب کارل مارکس کی تصنیف کیپٹل” (سرمایہ) تھی۔

اس کتاب نے سٹالن کے جذبات کو اس طرح متحرک کر دیا کہ وہ فوراَ کارل مارکس کے آدمیوں کے ساتھ خفیہ سرگرمیوں میں مشغول ہو گیا۔ اس کتاب سے وہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اپنی زندگی عوام کے مفاد کی خاطر لڑنے کے لئے بسر کرنے کا تہیہ کر لیا۔

اس نے اس افلاس کے خلاف بغاوت کر دی جس میں روس کے ایک کروڑ کسان بے دست و پائی کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے۔ وہ افلاس اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بہت سے روسی کسانوں کے پاس نمک خریدنے کے لئے بھی پیسے نہ ہوتےتھے۔ سٹالن کا یقین تھا کہ کسانوں اور مزدوروں کے حالات زندگی بہتر بنانے کا واحد ذریعہ انقلاب ہے۔

اس کی انقلابی سرگرمیوں کے سبب اسے مذہبی تربیتی ادارے سے نکال دیا گیا۔ اگلے پچیس برس وہ اپنے نصب العین کی خاطر دن رات بے تکان کام کرتا رہا۔ کئی سال تک وہ بے گھر رہا۔ کئی کئی ہفتے وہ ہر رات مختلف جگہوں پر بسر کرتا۔ اپنے نصب العین کے لئے وہ آٹھ برس قید خانے میں تکلیفیں برداشت کرتا رہا۔ لیکن اس مصیبت کے دور میں بھی وہ ہمیشہ اپنی پارٹی کے لئے کام میں مصروف رہا۔

وہ انقلابی تقریریں کرتا اور سینٹ پیٹرز برگ میں خفیہ طور پر ایک انقلابی اخبار شائع کرتا ۔ سٹالن اس قسم کے انقلاب پسندوں میں سے تھا جو اپنی آزادی ہی نہیں بلکہ اپنی زندگی کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔

جب 1905ء کا انقلاب ناکام ہوا تو لینن اور ٹراٹسکی اپنی جان بچانے کے لئے سوئزر لینڈ بھاگ گئے۔ لیکن سٹالن اپنی زندگی کے خطرے کے باوجود روس ہی میں رہا۔ زار روس کی پولیس ہر وقت اس کی تلاش میں رہتی اور اگر وہ اس کے ہاتھ آ جاتا تو کسی دیوار کی طرف اس کا منہ کر کے اسے گولی سے اڑا دیا جاتا۔

جلاوطنی کے زمانے میں لینن چوری چھپے روس میں اشتراکی ادب بھیجتا رہتا۔ ایسے مضمون سگریٹ کے کاغذوں پر لکھے ہوتے اور انہیں شراب کے ڈرموں میں چھپا کر روس میں درآمد کیا جاتا۔ سٹالن ان مضمونوں کو اپنے خفیہ اخبار میں شائع کرتا۔ سٹالن کو چھ مرتبہ سائبیریا میں جلا وطن کیا گیا۔ پانچ مرتبہ وہ وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

ٹراٹسکی لینن اور جوزف سٹالن
ٹراٹسکی، لینن اور جوزف سٹالن

فرار کے بعد وہ پھر سے اپنی ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتا۔ قید خانے ،کوڑے اور موت کی دھمکیاں سٹالن کو متزلزل نہ کر سکیں۔ بلکہ انہوں نے اس کا اعتقاد مزید مستحکم کر دیا۔ وہ زار روس کی حکومت کا تختہ الٹ کر روس کی دولت وہاں کے عوام کو دینا چاہتا تھا۔ چھٹی دفعہ جب زار روس کی پولیس نے اسے پکڑا تو وہ اس کی پوری پوری نگرانی کرنے کا تہیہ کر چکی تھی۔ پولیس نے سپاہیوں کی نگرانی میں اسے ایسے علاقے میں جلا وطن کر دیا۔ جہاں سے بہت تھوڑے لوگ بچ کر واپس آئے تھے۔ یہ جگہ سائبیریا میں بحر منجمد جنوبی سے فقط اٹھارہ میل اس طرف تھی۔

وہاں اسے قید میں ڈالنے کی بھی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اگر سٹالن وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتا تو سردی اور بھوک سے مر جاتا۔ اس نے چار برس انتہائی غیر انسانی اور خوفناک ماحول میں بسر کئے۔ وہاں اسے کئی کئی روز کھانے کے لئے کچھ نہ ملتا۔ اگر اسے لکڑیوں کی ضرورت ہوتی تو وہ جنگل جاتا اور وہاں سے خود لکڑیاں کاٹ کر لاتا۔

وہاں اتنی سردی تھی کہ اس سے مطالعہ بھی نہ ہو سکتا۔ اپنے آپ کو منجمد ہونے سے بچانے کے لئے اسے سخت جسمانی محنت کرنا پڑتی اس کی حالت خواہ کتنی ہی مایوس کن کیوں نہ تھی لیکن اس نے اپنی جدوجہد ترک نہ کی۔ اسے یقین تھا کہ ایک روز وہ کسی نہ کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو جائے گا۔ آخر 1906ء میں جب روس میں انقلاب آیا۔ تو اسے بھی وہاں سے آزاد کیا گیا۔

سٹالن روسی لفظ ”سٹال” سے لیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے لوہا۔ اس کا جذبہ واقعی لوہے کی طرح نہ جھکنے والا تھا۔ یہ سٹالن ہی تھا جس نے مصیبت کے دنوں میں بالشویک پارٹی کا شیرازہ برہم نہ ہونے دیا اور آخر وہ انقلاب ممکن بنا دیا۔ جس نے زار روس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔

سٹالن نے دو دفعہ شادی کی۔ اس کی پہلی بیوی کیتھرین ایک نوجوان مگر کم تعلیم یافتہ لڑکی تھی۔ ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ ان کی ازدواجی زندگی بڑی خستہ حالی میں گذری۔ سٹالن ایک انقلاب پسند تھا۔ پولیس ہر وقت اس کے تعاقب میں رہتی۔ وہ سال میں دو چار مرتبہ گھر آتا اور پھر رات کی تاریکی میں چوری چھپے بھاگ جاتا۔ شادی کے چار برس بعد کیتھرین تپ دق سے مرگئی۔ سٹالن نے دوسری شادی چالیس برس کی عمر میں ایک ایسی لڑکی سے کی جو سترہ سال کی تھی۔ وہ بھی اپنڈکس کی تکلیف سے مرگئی۔ اس بیوی سے اس کے ہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئے۔

دوسری جنگ عظیم میں اس کے دونوں بیٹے روسی فوجوں کے ساتھ جرمنوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ بڑا لڑکا توپ خانے میں ایک افسر تھا اور چھوٹا لڑکا ایئر فورس میں۔ دونوں کو ان کی بہادری پر تحفے ملے تھے۔ روس کا سپریم حکمران ہونے کے باوجود سٹالن زار کے شاہی محل کے نزدیک ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا۔ اگر وہ چاہتا تو زار روس کے شاندار اور حیرت ناک محل میں بیش قیمت ساز و سامان میں رہ سکتا تھا۔ لیکن اس نے اس چھوٹے سے مکان کو ترجیح دی جس میں کسی وقت زار روس کا ایک نوکر رہا کرتا تھا۔

اس کا کھانا کریملن کے باورچی خانے سے ایک سپاہی لے کر آتا۔ یہ وہی کھانا ہوتا تھا جسے کرمیان میں کام کرنے والے دوسرے سینکڑوں سپاہی اور افسر کھاتے تھے۔ سٹالن نے کبھی خود کو نمایاں کرنے کی کوشش نہ کی تھی۔ اسے دکھاوے سے نفرت تھی۔ وہ اجنبیوں سے ملتے ہوئے گھبراتا۔ دوسرے ملکوں کے سفیر کئی کئی سال سٹالن کو دیکھے بغیر روس میں گزار دیتے۔ جب ملاقاتی اس کے معجزے کی تعریف کرتے تو وہ فقط اتنا کہتا۔ "یہ کام اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو ابھی ہمیں کرتا ہے۔”

اس قدر طاقتور ہونے کے باوجود سٹالن میں ایک بڑی اچھی صفت پائی جاتی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ انسان غلطی کا پتلا ہے اور اس سے کبھی نہ کبھی غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ اور اپنی غلطی کا اعتراف خندہ پیشانی سے کرتا۔ اس نے ایک دفعہ لکھا تھا۔ ”سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان میں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی جرات ہونی چاہئے اور وہ ان غلطیوں کی روشنی میں اپنے آپ کو حتی الامکان مختصر عرصے میں سنوارنے کی کوشش کرے۔”

سٹالن نے جو کام کرانا ہوتا اسے کرا کے رہتا۔ خواہ اس کے لئے اسے سختی ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑتی۔ روسی انقلاب کے بابا لینن نے ایک دفعہ سٹالن کے متعلق کہا تھا۔ ”یہ باورچی بے حد گرم کھانا سامنے لاکر رکھ دیتا ہے۔” لیکن اگر سٹالن اپنی من مانی کارروائی کے تحت نازیوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کرتا تو خدا جانے کتنے اتحادی سپاہیوں کو ہٹلر پر فتح پانے کے لئے جانیں قربان کرنا پڑتیں۔

ڈکٹیٹر جوزف سٹالن نے روس کو بچانے کے ساتھ جمہوریت اور ہم سب کی زندگیاں بچانے کے لئے بھی بہت کچھ کیا ہے۔ یہ سوچ کر مجھے کپکپی چھڑ جاتی ہے کہ اگر جوزف سٹالن کی سرخ فوجیں بہادرانہ قربانیاں نہ دیتیں تو نہ جانے اس وقت ہمارا کیا حشر ہوتا۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے