دماغ، سوچ اور روحانی بیداری

سوال :

کیا تھنکنگ (سوچنا) ہمارے دنیا میں سروائیول کے لیے ضروری نہیں ہے؟

جواب:

 آپ کا دماغ ایک آلہ ہے جس کا مقصد اور ذمہ داری کچھ خاص کام ہیں جو اس نے ہی کرنے ہیں۔ اب یہ اپنے کام کرے تو اس کے بعد یہ چپ کر کے بیٹھ جائے۔ مگر میری تحقیق کے مطابق 80 سے 90 فیصد لوگوں کی سوچ خواہ مخواہ کے اعادے اور بے کار سوچیں ہیں جو کہ ایک نقصان دہ فطرت اور برے رویے کو جنم دے رہی ہیں۔ اپنے دماغ کا محاسبہ کریں تو آپ اس کو سچ پائیں گے اور یہی چیز آپ کی انرجی کو رفتہ رفتہ ختم کرنے کا سبب ہوگی۔

مثال کے طور پر اگر نقصان ہو گیا تو ہم اس نقصان کو لے کر مہینوں اور سالوں میں دماغ کو اسی سوچ کا غلام بنالیتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت دماغ کا کام یہ نہیں ہے بلکہ اس کو ضرورت ہے کہ وہ اس نقصان کی وجوہات کو تلاش کرے، تلافی کی صورت نکالے اور وسائل کو مضبوط کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ تو آپ ماضی میں اور نہ ہی مستقبل میں جی سکتے ہیں۔ بلکہ جینے کے لیے حال ہی کی ضرورت ہے اور اس پر کام کرنا ہوگا۔

سوچنے کی عادت اصل میں ایک دماغی نشہ ہے۔

وہ کیا بنیادی چیزیں ہیں جو اس کو نشہ ثابت کرتی ہیں؟

در اصل نشہ وہ چیز ہے کہ جہاں آپ خود کو روکنے سے قاصر ہوں۔ آپ محسوس کریں کہ میں یہ کرنے پر مجبور ہوں۔ اس کا مطلب ہے یہ آپ سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ آپ کو ایک چھوٹا خوشی کا احساس بھی مہیا کرے۔ ایسا خوشی کا احساس جو کہ در دو آلام کا اصل سبب ہے۔

سوال:

ہم آخر سوچ کے نشے کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

جواب

آپ نے دماغ  کے ساتھ خود کو آئڈینٹی فائی کر لیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ اپنا احساسِ ذات دماغ کی سرگرمیوں اور اس کے مواد سے لے  رہے ہیں۔ کیونکہ آپ نے مان لیا ہے کہ اگر آپ سوچنا چھوڑ دیں تو آپ کی ذات کا وجود نہ رہے گا۔…..  

ہوتا یہ ہے کہ جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے جاتے ہیں تو اپنا ایک مینٹل امیج بناتے جاتے ہیں۔ اس امیج کی بنیاد عام طور پر آپ کی ذاتی اور آپ کی ثقافتی حالت ہوتی ہے۔ دماغ اور سوچوں کے اس مجموعے اور اس خیالی تصویر کو انا یا ایگو کا نام دیا جاتا ہے۔ انا دماغی مواد پر مبنی ہوتی ہے اور مسلسل سوچتے رہنا اس کو مزید بڑھاتا رہتا ہے۔

ایگو یا انا کا مطلب مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہے۔ مگر میں اس کو یہاں فالز سیلف،   جھوٹی خودی کے معنی میں استعمال کر رہا ہوں۔ جھوٹی خودی، وہ احساس جو دماغ کےساتھ بے شعوری شناخت کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ یہ احساس ہمارے ماحول اور سماج کی مرہون منت ہے۔

لیکن

یہ ایگو مائنڈ صرف ماضی کو زندہ رکھنے میں دلچسپی ‏رکھتا ہے۔…   کیونکہ اس ماضی کے بغیر‎ Who Are You ‘ ‎تم کون ہو؟

یہ ایگو مائنڈ اپنی بقا کو یقینی بنانے کے لیے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔….

یعنی ماضی کی تصویر سے مستقبل کا نقشہ بنانا۔ ‏جہاں اسے تھوڑی سی راحت کا احساس ملتا ہے۔ یہ کہتا ہے، ایک دن جب وہ ہو جائے گا یا، جب یہ ہو جائے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ خوشی اور راحت مل جائے گی … اس کو لمحہ موجود سے ‏کوئی غرض نہیں۔

اگر بالفرض اس کو لمحہ موجود سے غرض ہو بھی تو اس کا دیکھنے کا تناظر غلط ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ موجودہ پل کو بھی ماضی کی عینک سے دیکھتا ہے۔  یا پھر یہ ایگو مائنڈ اسی  موجودہ ‏پل کو منزل نہیں بلکہ منزل کی طرف جانے والا ایک راستہ سمجھتا ہے، جو کہ مستقبل میں ہے۔ اپنے دماغ کا تھوڑا سا غور سے مشاہدہ کریں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ آپ کا دماغ کیسے کام کرتا ہے۔

موجودہ پل ہی اصل آزادی کی کنجی ہے۔ مگر آپ اس وقت تک اس لمحہ موجود کو نہیں پاسکتے جب تک آپ اپنے دماغ کے غلام ہیں۔

اعتراض:

میں چیزوں کا تجزیہ کرتا ہوں۔ ان میں تمیز رکھتا ہوں میں اپنی یہ صلاحیت کیوں ختم کر دوں؟ میں چاہتا ہوں میرا دماغ فوکسڈ اور کلیئر ہو مگر اس کو ختم تو نہیں کرنا چاہوں گا۔ کیونکہ مائنڈ‎ ‎Thought“ ‎ہی تو وہ گفٹ ہے جو ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔

جواب:

اس وقت دماغ کا انسان پرجو غلبہ ہے وہ شعور کے ارتقاء کی ایک منزل ہے۔ مگر اب یہ انسان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کہ وہ شعور کی اگلی سیڑھی کی طرف بڑھے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم اس مائنڈ کے ہاتھوں تباہ ہو جائیں گے جو کہ اب ایک ‏عفریت بن چکا ہے۔ یہ جان لیں کہ تھنکنگ اور کانشیس نیس سوچنا اور شعور، یہ دونوں ایک چیز نہیں ہیں۔ سوچنا شعور کا بس ایک معمولی سا پہلو ہے۔

روحانی بیداری کا مطلب تھاٹ سے بلند تر ہے۔ نہ کہ تھاٹ سے بھی کم تر سطح پر ہو جانا جو کہ جانوروں اور پودوں کا شیوہ ہے۔

 روحانی بیداری کی حالت میں آپ سوچنے سے محروم نہیں ہو جاتے بلکہ اب آپ زیادہ عمدہ اور کار آمد سوچ سکتے ہیں۔ اب آپ سوچنے کو مشق کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ اب آپ اندرونی مکالمہ بازی اور مسلسل شور سے آزاد ہو چکے ہیں۔ اب آپ ایک اندرونی سکوت کے مالک ہیں۔

فرض کریں آپ کو کوئی مسئلہ در پیش ہے اور حل درکار ہے اور آپ ایک بیدار آدمی ہیں ،  تو آپ تھاٹ اور خاموشی، سوچ اور سکوت، دماغ اور لا دماغ کے درمیان سوئچ کرتے ہیں جو کہ اب آپ کے اختیار میں ہے۔ لا دماغ شعور کی اس حالت کا نام ہے جس میں تھاٹ نہیں ہوتے ۔ یہی وہ حالت ہے جس میں انسان تخلیقی( (Creatively سوچ سکتا ہے۔ کیونکہ اسی حالت میں تھاٹس کے پاس حقیقی تھاٹ پاور ہوتی ہے۔ اکیلی سوچیں، جب تک وہ شعور کی سلطنت سے نا جڑی ہوں جلد ہی بنجر ہو جاتی ہیں۔

دماغ اپنی بنیاد میں ایک سروائیول مشین ہے۔ جو دوسرے دماغوں کے خلاف حملہ اور دفاع کرتا ہے۔

معلومات کو جمع کرنا، ان کوا سٹور کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا دماغ کا کام ہے۔ یہ اپنی ذات میں کوئی تخلیقی پرزہ نہیں ہے۔

 تمام بڑے آرٹسٹ، اگر چہ وہ اس حقیقت سے آشنا ہوں یا نہ ہوں…  وہ اس نو مائنڈ کی حالت میں ہی شاہ کار تخلیق کرتے ہیں۔ نو مائنڈ  انسان کے اندر کو پر سکون کر دیتا ہے۔ اس کے بعد دماغ کی باری آتی ہے۔ جو اس تخلیقی رو کو ساخت اور ڈھانچا دیتا ہے۔ حتی کہ کئی بڑے سائنسدان یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی بڑی کامیابیاں ایسے ہی لمحات میں وجود پذیر ہوئیں کہ جب ان کا دماغ مکمل طور  پر سکوت میں تھا۔

 اس حوالے سے ایک تحقیق ہوئی جس میں فزکس کے معمار آئن سٹائن سمیت امریکہ کے ماہر ترین ریاضی دان شامل تھے۔ 

تحقیق کا موضوع تھا،           ” بڑے ریاضی دانوں کے کام کرنے کا طریقہ”            انہوں نے یہ دعوی کیا کہ تھنکنگ ایک ایسا عمل ہے جس کی تخلیق کے عمل میں بہت تھوڑے وقت کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے میں تو یہ کہوں گا کہ سائنس دانوں کی اکثریت جو، اب تخلیقی نہیں رہی، وہ اس لئے نہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ سوچا کیسے جاتا ہے….. بلکہ وہ اس وجہ سے ہے کہ ان کو معلوم نہیں کہ اس سوچ کو، تھنکنگ کو روکنا کیسے ہے۔

زمین پر زندگی کا معجزہ اس کا تواتر، اس کا قیام، اس کا تسلسل دماغ یا سوچنے کے عمل کی وجہ سے نہیں ہے…..

 بلکہ یہ بات قطعی طور پر واضح ہے کہ زمین پر اس معجزے کے پیچھے جو ذہانت کار فرما ہے، وہ دماغ سے کہیں بڑی ہے۔!!

 جتنا زیادہ ہم جسم کے کام کرنے کے طریقے کو جانتے جا رہے ہیں اتنا زیادہ یہ احساس قوی ہو رہا ہے کہ فعال ذہانت کتنی عظیم ہے اور یہ کہ ہم اس کے بارے میں کتنا کم جانتے ہیں۔

جب دماغ اس عظیم ذہانت کے ساتھ جڑتا ہے تو یہ حیرت انگیز ٹول بن جاتا ہے۔ اور اس کے بعد یہ خود سے بھی عظیم مقاصد کی تکمیل کا باعث بنتا ہے۔

یاد دہانی

زمین پر زندگی کا معجزہ اس کا تواتر، اس کا قیام، اس کا تسلسل دماغ یا سوچنے کے عمل کی وجہ سے نہیں ہے….. بلکہ یہ بات قطعی طور پر واضح ہے کہ زمین پر اس معجزے کے پیچھے جو ذہانت کار فرما ہے، وہ دماغ سے کہیں بڑی ہے۔!!

کیسے ایک اکلوتا انسانی خلیہ جو قطر میں ایک انچ کے ہزارویں حصے کے برابر ہے۔ اپنے اندر موجود ہر ایک DNAمیں اتنی ہدایات رکھتا ہے کہ اگر اس کو کتابی شکل میں لے آئیں تو چھ سو صفحات کی ہزار سے زیادہ کتابیں وجود میں آجائیں۔!!

دماغ اپنی بنیاد میں ایک سروائیول مشین ہے۔ جو دوسرے دماغوں کے خلاف حملہ اور دفاع کرتا ہے۔

معلومات کو جمع کرنا، ان کوا سٹور کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا دماغ کا کام ہے۔ یہ اپنی ذات میں کوئی تخلیقی پرزہ نہیں ہے۔

موجودہ پل ہی اصل آزادی کی کنجی ہے۔ مگر آپ اس وقت تک اس لمحہ موجود کو نہیں پاسکتے جب تک آپ اپنے دماغ کے غلام ہیں۔

انا کے لیے لمحہ موجود کا کوئی وجود نہیں ہے۔ صرف ماضی اور مستقبل اس کے ہاں اہم شمار ہوتے ہیں۔

دماغ کا فعال ہونا اس کے بھر پور ہونے کا ثبوت نہیں ہے بلکہ اس کے ناکارہ ہونے کی علامت ہے۔….

یہ ایگو مائنڈ صرف ماضی کو زندہ رکھنے میں دلچسپی ‏رکھتا ہے۔… کیونکہ اس ماضی کے بغیر‎ Who Are You ‘ ‎تم کون ہو؟

یہ ایگو مائنڈ اپنی بقا کو یقینی بنانے کے لیے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔….

یعنی ماضی کی تصویر سے مستقبل کا نقشہ بنانا۔ ‏جہاں اسے تھوڑی سی راحت کا احساس ملتا ہے۔ یہ کہتا ہے، ایک دن جب وہ ہو جائے گا یا، جب یہ ہو جائے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ خوشی اور راحت مل جائے گی … اس کو لمحہ موجود سے ‏کوئی غرض نہیں۔

اکہارٹ ٹولے


اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے