ہندوستان اردو کی جائے پیدائش ہے۔ اس کی نشوونما اور پرورش میں ایسے ایسے اساتذہ نے حصہ شامل کیا ہے جن کا نام شعر و ادب اور شعری صلاحیت کے باعث یونیورسل لٹریچر سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ ڈاکٹر راحت اندوری جیسے شاعر یہ شعر یاد دلاتے ہیں۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے ڈاکٹر راحت اندوری
ان کے کلام میں برجستگی اور معنی آفرینی اور دور حاضر کا عکس ہے۔ ایک سخت جان ، بے رحم قسم کا معاشرہ جونشو و نما پارہا ہے۔ نا انصافی اور بدامنی کی جو ہوا ان دنوں چل رہی ہے۔ قدم قدم پر لہولہان مناظر کا سامنا ہوتا ہے۔ اس سے ایک حساس انسان کے احساسِ لطیف کو اور اس کے کردار کی پاکیزگی کو چوٹیں پہنچتی ہیں۔
ڈاکٹر راحت اندوری کی شاعری میں واضح طور پر اس کا بیان ہے۔ ان کی تخلیق ” پانچواں درویش کو میں جہاں سے دیکھتا ہوں وہیں نظر ٹھہر جاتی ہے۔ میں نے اکثر یہ کتاب پڑھی ہے۔ ان کے مزاج میں تلخی اور ترشی زیادہ محسوس کرتا ہوں۔
حسن و عشق کا معاملہ، رومانی قسم کے اشعار بہت جلد یاد ہو جاتے ہیں۔ بہت جلد ذہن میں بیٹھ جاتے ہیں لیکن ان کا کلام ان سختیوں اور جفاکشیوں کی آئینہ داری کرتا ہے جنہیں دورِ حاضر کی دشمنی اور عداوت کہا جاسکتا ہے۔ چاند سے لوگ کیا کیا تعبیریں دیا کرتے تھے لیکن راحت لکھتے ہیں۔
برچھی لے کر چاند نکلنے والا ہے گھر چلیے اب سورج ڈھلنے والا ہے
مزید اک حملہ ہو گا احساس لطیفہ پر، تمہارے دل پر، جتنی تعریف کروں اتنی کم ہے۔ ان کا وجود اردو شعر و سخن اور اردو زبان کے لیے بڑا قیمتی تحفہ ہے۔ کہنے کے لیے تو جتنی بات کروں کم ہوئی۔ میں صرف اس پر اکتفا کروں گا کہ یہ اشعار پڑھنے کے قابل تو ہیں ہی ، اس کے ساتھ ایک احساس موجودہ socio-economic historyکی سختیاں ہیں۔ اس کے پس منظر میں ان کا کلام اور عظیم تر ہو جاتا ہے۔
دلیپ کمار
راحت اندوری کی منتخب غزلیں
ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے
غزل ہاتھ خالی ہیں ترے شہر سے جاتے جاتے جان ہوتی تو مری جان لٹاتے جاتے اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے اب کے مایوس ہوا یاروں کو رخصت کر کے جا رہے تھے تو کوئی زخم لگاتے جاتے رینگنے کی بھی اجازت نہیں ہم کو ورنہ ہم جدھر جاتے نئے پھول کھلاتے جاتے میں تو جلتے ہوۓ صحراؤں کا اک پتھر تھا تم تو دریا تھے مری پیاس بجھاتے جاتے مجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے ❤ ❤ ❤
یہاں کب تھی جہاں لے آئی دنیا
غزل یہاں کب تھی جہاں لے آئی دنیا یہ دنیا کو کہاں لے آئی دنیا زمیں کو آسمانوں سے ملا کر زمیں پر آسماں لے آئی دنیا میں خود سے بات کرنا چاہتا تھا خدا کو درمیاں لے آئی دنیا چراغوں کی لویں سہمی ہوئی ہیں سنا ہے آندھیاں لے آئی دنیا جہاں میں تھا وہاں دنیا کہاں تھی وہاں میں ہوں جہاں لے آئی دنیا توقع ہم نے کی تھی شاخِ گل کی مگر تیر و کماں لے آئی دنیا ❤ ❤ ❤
موسم بلائیں گے تو صدا کیسے آۓ گی
غزل موسم بلائیں گے تو صدا کیسے آۓ گی سب کھڑکیاں ہیں بند ہوا کیسے آۓ گی میرا خلوص ادھر ہے ، ادھر ہے ترا غرور تیرے بدن پہ میری قبا کیسے آۓ گی رستے میں سر اٹھاۓ ہیں رسموں کی ناگنیں اے جانِ انتظار بتا ، کیسے آۓ گی سر رکھ کے میرے زانو پہ سوئی ہے زندگی ایسے میں آئی بھی تو قضا کیسے آۓ گی آنکھوں میں اشک یوں ہی اگر قید ہو گئے تاروں کو ٹوٹنے کی ادا کیسے آۓ گی وہ بے وفا یہاں سے بھی گزرا ہے بار ہا اس شہر کی حدوں میں وفا کیسے آۓ گی ❤ ❤ ❤
جتنا دیکھ آئے ہیں ، اچھا ہے ، یہی کافی ہے
غزل جتنا دیکھ آئے ہیں ، اچھا ہے ، یہی کافی ہے اب کہاں جایئے ، دنیا ہے ، یہی کافی ہے ہم سے ناراض ہے سورج کہ پڑے سوتے ہیں جاگ اٹھنے کا ارادہ ہے ، یہی کافی ہے اب ضروری تو نہیں ہے کہ وہ پھل دار بھی ہو پیڑ سے شاخ کا رشتہ ہے ، یہی کافی ہے لاؤ میں تم کو سمندر کے علاقے لکھ دوں میرے حصے میں یہ قطرہ ہے ، یہی کافی ہے کیا ضروری ہے کبھی تجھ سے ملاقات بھی ہو تجھ سے ملنے کی تمنا ہے ، یہی کافی ہے گالیوں سے بھی نوازے تو کرم ہے اس کا وہ مجھے یاد تو کرتا ہے ، یہی کافی ہے اب کسی اور تماشے کی ضرورت کیا تھی یہ جو دنیا کا تماشا ہے ، یہی کافی ہے ❤ ❤ ❤
سوال گھر نہیں, بنیاد پر اٹھایا ہے
غزل سوال گھر نہیں بنیاد پر اٹھایا ہے ہمارے پاؤں کی مٹی نے سر اٹھایا ہے ہمیشہ سر پہ رہی اک چٹان رشتوں کی یہ بوجھ وہ ہے جسے عمر بھر اٹھایا ہے مری غلیل کے پتھر کا کارنامہ تھا مگر یہ کون ہے جس نے ثمر اٹھایا ہے یہی زمیں میں دباۓ گا ایک دن ہم کو یہ آسمان جسے دوش پر اٹھایا ہے بلندیوں کو پتا چل گیا کہ پھر میں نے ہوا کا ٹوٹا ہوا ایک پر اٹھایا ہے مہابلی سے بغاوت بہت ضروری تھی قدم یہ ہم نے سمجھ سوچ کر اٹھایا ہے ❤ ❤ ❤
مجھ پر نہیں اُٹھے ہیں تو اُٹھ کر کہاں گئے
غزل مجھ پر نہیں اُٹھے ہیں تو اُٹھ کر کہاں گئے میں شہر میں نہیں تھا تو پتھر کہاں گئے کتنے ہی لوگ پیاس کی شدت سے مر چکے میں سوچتا رہا کہ سمندر کہاں گئے میں خود ہی میز بان ہوں مہمان بھی ہوں خود سب لوگ مجھ کو گھر پہ بلا کر کہاں گئے یہ کیسی روشنی ہے کہ احساس بجھ گیا ہر آنکھ پوچھتی ہے کہ منظر کہاں گئے پچھلے دنوں کی آندھی میں گنبد تو گر چکا اللہ جانے سارے کبوتر کہاں گئے ❤ ❤ ❤
لمحہ لمحہ جنگ ہے کچھ دیر مہلت چاہیے
غزل لمحہ لمحہ جنگ ہے کچھ دیر مہلت چاہیے صاحبو! اچھی غزل کہنے کو فرصت چاہیے خودکشی کو بزدلی کہنا سمجھ کا پھیر ہے موت سے آنکھیں ملانے میں بھی ہمت چاہیے گالیاں لکھی گئیں اپنے خداؤں کے لیے جس طرح بھی مل سکے لوگوں کو شہرت چاہیے اُس کی جب مرضی ہو مجھ کو لوٹ سکتا ہے مگر وہ مہذب ہے ، اُسے میری اجازت چاہیے شاعری ، آوارگی ، خوشبو ، وفا ، لذت ، شراب مختلف شکلوں میں شہزادے کو عورت چاہیے ❤ ❤ ❤
کوئی موسم ہو ، دکھ سکھ میں گزارا کون کرتا ہے
غزل کوئی موسم ہو ، دکھ سکھ میں گزارا کون کرتا ہے پرندوں کی طرح سب کچھ گوارا کون کرتا ہے سمندر کے سفر میں ساتھ چلنا ہے بہت مشکل یہ موجیں خود بتا دیں گی ، کنارہ کون کرتا ہے وزیروں سے سفارش کی تمنا ہم نہیں کرتے ہمیں معلوم ہے ذرے کو تارا کون کرتا ہے گھروں کی راکھ پھر دیکھیں گے پہلے دیکھنا یہ ہے گھروں کو پھونک دینے کا اشارہ کون کرتا ہے جسے دنیا کہا جاتا ہے ، کوٹھے کی طوائف ہے اشارہ کس کو کرتی ہے ، نظارہ کون کرتا ہے ❤ ❤ ❤
رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
غزل رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پر بھیڑیے جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے جاہل ہمارے شہر میں اُستاد ہو گئے ❤ ❤ ❤
ابھی تو صرف پرندے شمار کرنا ہے
غزل ابھی تو صرف پرندے شمار کرنا ہے یہ پھر بتائیں گے کس کا شکار کرنا ہے بہت غرور ہے تجھ کو اے سر پھرے طوفاں مجھے بھی ضد ہے کہ دریا کو پار کرنا ہے ہم اپنے شہروں میں محفوظ بھی ہیں، خوش بھی ہیں یہ سچ نہیں ہے مگر اعتبار کرنا ہے تجھے قبیلے کے قانون توڑنے ہوں گے مجھے تو صرف ترا انتظار کرنا ہے ہمارا شوق ہے دار و رسن کی پیمائش تمہارا کام کبوتر شکار کرنا ہے ❤ ❤ ❤