؟کہکشائیں اور ان کے جھرمٹ کائنات میں بے ترتیبی سے پھیلے ہوئے ہیں یا ان کی ایک خاص ترتیب ہے
پہلی ریڈیو دوربین
جارج ایلری ہیل George Ellery Haleنے اپنی زندگی کے آخری سال سب سے بڑی انعکاسی دوربین کی تعمیر میں صرف کئے۔ 1938میں اس کی وفات کے کچھ عرصہ بعد فٹ 200 قطر کی یہ دوربین کام کر رہی تھی۔ دور بین پر کام کرنے والے اس نئی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ کائنات میں زیادہ دور تک دیکھ رہے تھے۔ اس دوربین کے پیدا کردہ جوش خروش کے زمانہ عروج ہی میں پہلی ریڈیو دوربین بنی اور فلکی تحقیق میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
آسمان سے آنے والی ریڈیو لہروں کو سب پہلے 1931ء میں بیل ٹیلی فون لیبارٹریز Bell Telephone Laboratories کے کارل جینسکی Karl Janskyنے شناخت کیا۔ ایک ریڈیو انجینئر ریبر (Reberنے اکتیس فٹ کا ایک عاکسہ Reflector))اپنی ذاتی بچت سے اپنے گھر کے پچھواڑے قائم کیا۔ کئی حوالوں سے یہ کام اٹھارہویں صدی میں ہرشیل کےباتھ، انگلینڈ، میں اپنی فلکی دوربین بنانے سے مماثلت رکھتا تھا۔
ریبر کی ریڈیو دوربین
ریبر کی ریڈیو دوربین میں سمتی اشاری شناخت( Directional Signal Detection)کی صلاحیت موجود تھی۔ اس نے معلوم کیا کہ ریڈیو لہروں کا سب سے طاقتور مرکز ہماری کہکشاں کے مرکز میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ ریبر نے مجمع النجوم سگنس Cygnusاور کیسو پیا (Cassiopeiaمیں بھی ان ریڈیو لہروں کے منابع موجود ہونا معلوم کیا۔ اس طرح ریبر نے ہماری کہکشاں کا پہلا ریڈیائی نقشہ بنانے آغاز کیا۔
ریبر کے اس کام کو فلکیات دانوں نے کچھ زیادہ اہمیت نہ دی۔ ان کا خیال تھا کہ ریڈیو موجیں اتنی طویل ہیں کہ ریڈیو دوربین کی تحلیلی طاقت (Resolving Power) مرئی دوربین کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن وہ ایک امر کو نظر انداز کر گئے تھے۔ اگر باہم مربوط کئی اینٹینا مناسب فاصلوں پر لگا دیئے جائیں تو اس کا اپرچر (Aperture) مناسب اور موثر طور پر بڑھایا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی اس کی تحلیلی طاقت بھی۔
اس نئی دوربین کو نظر انداز کرنے کی ایک اور وجہ یہ تھی۔ فلکیات دانوں کے خیال میں ریڈیو لہروں کا منبع صرف چارج شدہ گیسی ذرات ہو سکتے تھے۔ اور اس وقت تک یہی معلوم تھا کہ ایسی گیس کہکشاں کے صرف چند حصوں تک محدود ہے۔ چنانچہ ریڈیو دوربین کہکشاؤں کی تحقیق میں کسی زیادہ اہمیت کی حامل نظر نہیں آتی تھی۔
ریڈیو فلکیات
دوسری جنگ عظیم کے بعد ریڈیو انجینئرنگ، راڈار اور الیکٹرانکس کے استعمال پر مہارت رکھنے والے سائنس دانوں کی ایک پوری جماعت مشاہداتی فلکیات کے اس نئے میدان میں کود پڑی۔ اگرچہ ریڈیو فلکیات کی بنیاد جینسکی اور ریبر نے امریکہ میں رکھی لیکن ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اس پر زیادہ تر کام برطانوی اور آسٹریلوی سائنس دانوں نے کیا۔
ابر آلود اور کہر زدہ برطانیہ مرئی روشنی کی عام دوربین کے استعمال کے لئے کچھ زیادہ بہتر علاقہ نہیں تھا۔ لیکن ریڈیو دوربین کے استعمال میں یہ دونوں قدرتی عوامل رکاوٹ نہیں بنتے۔ برطانیہ کے مارٹن ایل نے پہلی بار چھوٹی ریڈیو ڈشوں کو باہم منسلک کر کے ان سے ایک دوربین کا کام لیا۔
فلکیات میں نئے آلات متعارف ہوۓ تو اس کی تعلیم کا طریقہ بھی بدل گیا۔ پچاس کی دہائی میں بہت کم فلکیات دانوں کے پاس طبیعیات کی باقاعدہ تعلیم ہوتی تھی۔ آج یہ عالم ہے فلکیات میں ڈاکٹر آف سائنس کرنے والوں میں سے پینتیس فیصد کی پی ایچ ڈی طبیعیات میں ہوتی ہے۔
ریڈیو فلکیات کی کامیابی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں خرچ ہونے والی توانائی بہت کم ہے۔ چنانچہ ہر طرح کا فلکی جسم اسے پیدا کرنے پر قادر ہے۔ اور ہر ریڈیو دوربین کا رقبہ بہت زیادہ ہے۔ جس کے باعث اس کی شناختی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ بڑی ریڈیائی دور بینوں میں سے ایک ویری لارج امرے (VLA) نیو میکسیکو میں ہے۔ اس نظام میں 25 میٹر قطر کی 27 ریڈیو دور بینیں باہم منسلک ہیں۔ ایک اور نظام اس سے بھی بڑا بنایا گیا ہے۔ اسے ویری لانگ بیس لائن انٹر میرو ملٹری (VLBI) کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مختلف حصے کئی برا عظموں پر پھیلے ہوۓ ہیں۔ اس کی تحلیلی قوت کسی بھی دوسرے نظام سے زیادہ ہے۔
روشنی کی دوربینیں اور ریڈیو دوربین
عام، یعنی مرئی روشنی کی دوربینیں اور ریڈیو دوربین باہم تکمیلی (Complementary) ہیں۔ یعنی کہ فلکی نظام کے کچھ خصائص کا مشاہدہ عام دوربین بہتر طور پر کر سکتی ہے۔ لیکن کچھ خصائص اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ موخرالذکر میں سے بہت سے ریڈیو دوربین کے احاطہ کار میں شامل ہیں۔ لیکن فلکیات میں کئی ایسی بڑی دریافتیں ہیں جو صرف ریڈیو دوربین ہی سے ممکن ہو سکتی تھیں۔
کہکشاؤں میں غیر چارج شدہ ہائیڈ روجن کی تقسیم، کہکشاؤں کے مقناطیسی میدانوں کی نقشہ نویسی، ریڈیو کہکشاؤں اور کوزار (Quasar) وغیرہ کی دریافت صرف ریڈیو دوربین سے ہی ممکن ہو سکتی تھی۔ بعض ریڈیو کہکشائیں اتنی دور ہیں اور اتنی کم مقدار میں مرئی روشنی خارج کرتی ہیں کہ عام دور بین سے ان کا دیکھا جانا محال ہے۔ لیکن ان کا مطالعہ بہت ضروری ہے کیونکہ کائناتی ارتقاء پر ان سے اہم سراغ ملنے کی توقع ہے۔
ساٹھ کی دہائی میں ایک سو ریڈیو کہکشائیں دریافت ہو چکی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر دھند کے اجسام کی صورت میں نظر آتی تھیں۔ لیکن ان میں سے کچھ اجسام ستاروں کے سے تھے۔ ان کا رویہ باقی ریڈیو منابع (Radio Sources) سے مختلف تھا۔ ریڈیو اور مرئی امواج کے ساتھ ساتھ ان سے بالائے بنفشی (Ultraviolet) موجیں بھی غیر معمولی طور پر زیادہ مقدار میں خارج ہوتی تھیں۔
کوازار (Quasars)
جب ہبل رصد گاہ میں ان کا مرئی دوربین پر مطالعہ کرتے ہوۓ طیف حاصل کیا گیا تو پتہ چلا کہ خطوط کا سرخ ہٹاؤ (Red Shift) سولہ فیصد (16) ہے۔ اگر اتنا زیادہ سرخ ہٹاؤ کائناتی پھیلاؤ کے باعث ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اجسام کوئی دو بلین نوری سال کے فاصلہ پر ہیں۔ ان ستاره نما اجسام کو کوازار (Quasars) کا نام دیا گیا۔ ماہرین متفق ہیں کہ یہ دور ترین کائناتی اجسام ہیں جن کا سراغ ہم لگا پاۓ ہیں۔
یہ کائناتی اجسام میں سب سے زیادہ بلاۓ بنفشی شعاعیں (Ultaviolet Radiation) خارج کرتی ہیں اور اسی باعث یہ بہت سے دو سرے ستارہ نما اجسام سے متمیز ہیں۔
ان سے خارج ہونے والی توانائی کی شدت کا اندازہ لگانے کے لئے فرض کریں اس کہکشاں کا کل حجم ایک کمرے جتنا ہے۔ اس میں کوازار بمشکل نظر آنے والے سے ذرہ بڑا نہ ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود ایک اکیلا کوازار ہماری کہکشاں کے کئی بلین ستاروں جتنی توانائی خارج کرتا ہے۔ اور وہ یہ توانائی دس ملین سال تک خارج کرتا رہتا ہے۔ اس قدر توانائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے سورج جتنے ایک سو ملین اجسام کو خالص اور پوری طرح توانائی میں تبدیل کر دیا جاۓ۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اتنی شدید توانائی بہت تھوڑے سے علاقہ سے حاصل ہوتی ہے۔ اس علاقے کا کل محیط ایک نوری ہفتہ ہے یعنی ہمارے نظام شمسی سے کوئی دس گنا بڑا۔ یہ علاقے اپنی حالت کے تغیر کا دورانیہ ایک ہفتہ میں مکمل کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اس کا کل گھیر ایک نوری ہفتہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ کوازار میں اس قدر زیادہ توانائی کس طرح پیدا ہو رہی ہے؟
بلیک ہول
ماہرین نے اس سوال کا جواب کہکشانی ارتقاء پر قیاس آرائی میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں کہکشاں عام ستاروں اور گرد پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے ستاروں میں سے کوئی ایک مختلف مراحل سے گزر کر بلیک ہول بن جاتا ہے۔ یہ اپنے ہمسایہ ستاروں کو ہڑپ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کا حجم بڑھنا شروع ہو جاتا ہے حتی کہ یہ کمیت میں تقریبا ایک سو ملین سورجوں کے برابر ہو جاتا ہے۔ اس کام میں صرف چند ملین سال لگتے ہیں۔
بلیک ہول خود توانائی خارج نہیں کرتا۔ تاہم جو ہائیڈ روجن گیس یہ اپنی طرف کھینچتا ہے اس کا دس فیصد توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر یہ بلیک ہول سورج کی جسامت کے ایک بلین ستارے نگلتا ہے تو اس کی خارج کردہ توانائی ایک سو ملین ستاروں کے مادے کے برابر ہوتی ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ ماہرین کے یہ مفروضے درست ہیں۔ اور ریڈیو کہکشاؤں کے مراکز میں بلیک ہول موجود ہیں۔ لیکن جب بلیک ہول اپنا کام مکمل کر چکتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟
کہکشاں کا مرکز
جب بلیک ہول کہکشانی مرکز کے بیشتر ستاروں اور گیس کو ہڑپ کر چکتا ہے تو خاموش ہو جاتا ہے۔ اور کہکشاں ہمارے قریب میں موجود بیشتر کہکشاؤں کی طرح عام حالت پر آ جاتی ہے۔ مرغولہ دار کہکشاؤں کے مرکز میں موجود بلیک ہول غالبا بیضاوی (Ecliptical) سے کافی چھوٹے ہیں کیونکہ ستاروں کی زاویائی گردش (Angular Rotation) انہیں مرکز سے دور رکھتی ہے۔ اگر مذکورہ بالا نظریات درست ہیں تو ہماری کہکشاں کے مرکز میں بھی چند ملین ستاروں کی کمیت کا حامل بلیک ہول موجود ہے۔
اس مفروضے کو مشاہداتی تصدیق حاصل ہے۔ ہماری کہکشاں کے مرکز میں ریڈیو موجوں کا ایک مرکز موجود ہے۔ اس کے گرد مرغولہ نما راستوں پر گردش کرتی ہوئی ہائیڈ روجن گیس ریڈیو موجوں کا منبع ہے۔ اس کے علاوہ کہکشاں کے مرکز کی طرف سے آنے والی ایکس ریز اور گیما ریز کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔
کسی بلیک ہول کے وقوعی افق کے باہر یہ شعائیں مادہ کے فنا (Annihilation) سے پیدا ہوتی ہیں۔ ابھی VLA اور VLBI سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ خلائی دوربین (Satellite Telescope) ہے، جس کی تحلیلی طاقت اتنی ہی بڑی زمینی دوربین کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ ہے۔ اور بہت سے قیمتی اعداد و شمار فراہم کر رہی ہے۔ اس دوربین کے استعمال سے یہ مسئلہ طے ہو جانے کی بھی توقع ہے کہ کوازار بھی کہکشاؤں کی طرح جھرمٹوں کی صورت میں پاۓ جاتے ہیں یا نہیں۔
تجازبی عدسے (Gravitational Lenses)
ابھی حال ہی میں سائنس دانوں نے تجاذبی عدسے (Gravitational Lenses) دریافت کئے ہیں۔ ہماری کہکشاں اور کوازار کے درمیان خط نظر (Line of Sight) کے نزدیک موجود کہکشائیں عدسے کا سا کام کرتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ خود نظر نہ آئیں۔ لیکن یہ کوازار سے آنے والی روشنی کی شعاع پر قوت تجاذب لگا کر انہیں ایک طرف کر دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمیں ان کوازار کے ایک سے زیادہ عکس حاصل ہوۓ ہیں۔ سائنس دان کوشش کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ تجازبی عدسے دریافت کر لیں تاکہ دور دراز کے اجسام کے فاصلوں کا درست تعین کرنے کا ایک اور طریقہ ہاتھ لگ جائے۔
آج ماہرین کائنات کے دور دراز گوشوں میں جھانکنے کے لئے جدید سے جد یدآلات تیار کرنے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ سائنس دان کوشش کر رہے ہیں کہ ریڈیو دوربین کا اصول عام دور بین پر لاگو کرتے ہوۓ بہت بڑے عدسے یا آئینے کی بجاۓ چھوٹے دھانے کی بہت سی دور بینیں بنائیں اور ان سے حاصل ہونے والے کسی چیز کے عکسوں کو الیکٹرانی طور پر ملایا جاۓ۔ اس طرح تحلیلی طاقت کئی گنا بڑھ جاۓ گی۔
ایک اور منصوبہ یہ ہے کہ ساٹھ ٹکڑوں پر مشتمل ایک انعکاسی عدسہ پندرہ میٹر کا بنایا جاۓ۔ اس کے ساٹھ ہفت پہلو (Hectogonal) عدسوں کو الگ الگ سے اور اپنی اپنی جگہ حرکت دی جا سکے گی۔ اور یوں وہ کسی چیز کی ایک شبیہہ بنائیں گے۔ اس طرح کیلیفورنیا یونیورسٹی بھی سینتیس ہفت پہلو ٹکڑوں پر مشتمل دس میٹر کی ایک انعکاسی دوربین بنا رہی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ دور بین کسی بھی موجودہ دوربین کے مقابلے میں کائنات کے اندر انسانی رسائی دو گنا بنا دے گی۔
کہکشاؤں کی عمر
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ نئے ایجاد ہونے والے آلات کی مدد سے وہ کہکشاؤں کی قدامت پر زیادہ اعتماد سے بات کر سکیں گے۔ فی الوقت سائنس دانوں کا نظریہ ہے کہ کہکشائیں کوازار سے ارتقاء پاتی ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو پھر کہکشاؤں کی عمر کوازار کی عمر کے برابر ہے۔ اب کسی کوازار کی عمر کتنی ہے۔ کائنات کا قدیم ترین اور ظاہر ہے دور ترین جسم جو تاحال دریافت کیا گیا ہے ایک کوازار ہے۔
اسے نیو ساؤتھ ویلز آسٹریلیا میں نصب شدہ دوربین (Parkes Radio) رصد گاہ میں دریافت کیا گیا۔ اسے (2000-300 Parles) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کوازار ہم سے روشنی کی رفتار کے نوے فیصد رفتار سے دور ہٹ رہا ہے۔ اس سے آنے والی روشنی جو ہم تک پہنچتی ہے۔ خارج ہوئی تو کائنات کی عمر موجودہ عمر کا صرف پانچواں حصہ تھی۔ قریب ترین کوازار سے ہم تک پہنچنے والی روشنی خارج ہوئی تو کائنات کی عمر موجودہ کا ایک تہائی تھی۔ دور ترین کوازار سے ہم تک آنے والی روشنی خارج ہوئی تو کائنات کی عمر موجودہ عمر کا صرف پانچواں حصہ تھی۔ کائنات کی موجودہ عمر کو پیش نظر رکھتے ہوۓ، اس کے پہلے پانچویں حصے اور ایک تہائی حصے کے درمیانی زمانی علاقہ کو کوازار کا عہد کیا جاتا ہے۔
اگر یہ مدت کہکشاؤں کے قدیم ترین ستاروں کی دوسرے طریقوں سے معلوم کی گئی عمر سے مطابقت رکھتی ہے تو خود کائنات کی عمر بھی تقریبا اتنی ہی ہے۔
بگ بینگ اور بدائی کہکشائیں
کوازار سے پہلے کہکشاؤں کی صورت کیا تھی؟ سائنس دان اس مقصد کے لئےحساس ترین آلات سے اپنی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان میں سے ”بدائی کہکشائیں” (Primeval Galaxies) کوازاروں کے گرد موجود ہوں۔ مگر اتنی مدھم ہوں کہ ان کا سراغ لگانا مشکل کام ہو۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کہکشائیں اس حالت میں بگ بینگ کے بعد پہلے سو ملین سالوں سے لے کر پہلے چند بلین سال تک موجود تھیں۔ اس طرح کی کہکشاں کا دریافت ہونا کسی نادر رکاز (Fossil) کے دریافت ہونے سے کم نہ ہو گا۔
کائنات پر ہمارا علم ہبل کے دور سے بہت آگے نکل آیا ہے۔ اس نے قرار دیا تھا کہ کہکشائیں خلا کے سیاہ سمندر میں ستاروں بھرے یکہ و تنہا جزائر ہیں۔ لیکن آج ہم نظری اور مشاہداتی تحقیق کی بنیاد پر کہکشانی ارتقاء پر نظریات پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جس طرح ستارے مل کر اپنے گروہ بناتے ہیں اور جن سے آگے ایک کہکشاں بنتی ہے۔ جس کا اپنا ایک ماحول اور اپنی میکانیات ہے۔ اس طرح کہکشائیں مل کر کہکشانی جھرمٹ بناتی ہیں جس میں ان کا ایک دوسرے کے ساتھ تعامل ہوتا ہے۔ یہ تعامل ان کے ارتقائی مراحل اور دوسرے متغیرات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
کہکشانی جھرمٹ
بیضاوی کہکشائیں زیادہ تر کہکشانی جھرمٹوں کے گنجان آباد حصوں میں پائی جاتی ہیں۔ مرغولہ نما کہکشائیں نسبتا اکیلی ہوتی ہیں اور کہکشانی جھرمٹوں (Galactic Clusters) کے کم آباد حصوں میں ملتی ہیں۔ اس امر کے شواہد روز بروز مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔ کہکشانی مرکزوں کی کہکشائیں کبھی ایسی ہی مرغولہ دار ہوا کرتی تھیں جن کی گیس کسی وجہ سے چھن گئی اور ان سے نئے ستارے بننے کا عمل ختم ہو گیا۔ اس لئے کسی کہکشاں کی شکل، ساخت اور ارتقائی مراحل کے تعین میں اس امر کا فیصلہ کن ہاتھ ہوتا ہے کہ وہ کس کہکشانی جھرمٹ میں کہاں واقع ہے۔
ستارے ، کہکشائیں اور کہکشانی جھرمٹ بھی ارتقا پذیر ہیں۔ ہم نے اس ارتقاء کا طریقہ کار سمجھنے کا ابھی صرف آغاز کیا ہے۔ ہمارے ادراک کی راہ میں بہت سے کٹھن مراحل ہیں۔ ہو سکتا ہے ہم ابھی تک نہ جانتے ہوں کہ کائنات کے بنیادی ساختی اجزاء کون سے ہیں اور پھر بہت سی ایسی قوتیں ہیں جن کی تفہیم ابھی بالکل ابتدائی درجہ کی ہے۔ بڑے پیمانے پر ایسی قوتوں کی مثال کہکشانی ہالے (Galactic Halo) میں موجود سیاہ مادے کی قوت تجاذب اور چھوٹے پیمانے پر اس کی مثال کوانٹم ذرات ہیں۔
کائنات کی تفہیم میں اگلا قدم اس امر کا ادراک ہو گا کہ آیا کہکشائیں اور ان کے جھرمٹ بے ترتیبی سے پھیلے ہوئے ہیں یا ان کی ایک خاص ترتیب ہے جسے ہم تاحال سمجھ نہیں پاۓ۔ اس سوال کا جواب کائناتی پیمانے پر ترتیب کی تلاش میں چھپا ہے جس پر ہم اگلے مضمون میں بات کریں گے۔
وین برگ
ترجمہ: محمد ارشد رازی