زبان اور فکر کے باہمی تعلق اور ایک دوسرے پر انحصار کو لسانیاتی اضافیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کی حدود کا تعین تنازعہ رہا ہے لیکن اس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ سوچنے اور بولنے کے حقیقی اور امکانی تاریخی رشتوں کے جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ کہ زبان ، فکر کے وسیلے کی حیثیت سے ابھری ہے۔ اور انسان کی معقولیت کسی قدر اس کے ملکہ گویائی کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر رہی ہے۔
زبان اور فکر کا باہمی رشتہ
زبان اور فکر کے رشتے نے اس امکان کا احساس بھی دلایا ہے۔ کہ مختلف لسانی ڈھانچے مختلف مناہج فکر کے غماز ہی نہیں بلکہ وہ ارد گرد کی دنیا کو سمجھنے اور اس پر غور و فکر کرنے کی راہیں بھی ہموار کر سکتے ہیں۔
امریکی ماہر لسانیات بی ایل وہارف تو یہ رائے ظاہر کرتا ہے کہ جس نہج پر کوئی شخص سوچتا یا غور و فکر کرتا ہے۔ وہ بہت کچھ اس انداز سے مشروط ہوتی ہے۔ جس کے ذریعہ سے اس کی زبان کی ساخت اسے زیادہ آسانی سے سوچنے کی توفیق دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے ، مختلف زبانوں کے بولنے والے مختلف طریقوں سے اپنے عالم تجربات کا احاطہ کرتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ وہارف نے کچھ مبالغہ سے کام لیا ہے۔ تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے نزدیک، ارد گرد کی دنیا پر غور کرنے کے طریقے مخصوص زبانوں کی ساخت، گرامر کی شقوں اور اجزائے کلام کے معنویاتی وظائف کی نوعیتوں کی وجہ سے آسان ہو جاتے ہیں۔
فکری سرگرمی میں زبان کا کردار
یوں بھی فکری منصب یا وظیفے اور سرگرمی میں زبان کا جو کردار رہا ہے اسے کون نہیں جانتا ۔ ذہنی اعمال میں اس کے کردار، ادراک کے طریقوں میں خوابیدہ افکار کی تشکیل و ترتیب اور خوابوں کی تعبیر میں اس کے منصب یا وظیفے اور منظم اور معنی خیز سوچ میں اس کے بھرپور حصے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ولیم فان ہمبولٹ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ زبان مسلمہ صداقتوں کے بیان کا ذریعہ ہی نہیں۔ بلکہ ایسی صداقتوں کی دریافت کا وسیلہ بھی ہے جو نظر عام پر نہ آئی ہوں۔ فکر کو خاموش گویائی بھی کہا جاتا رہا ہے۔ میکس ملر کی یہ رائے ہے کہ فکر کا مطلب ہے آہستہ بولنا اور بولنے کا مطلب ہے با آواز بلند سوچنا۔
ہم سوچتے وقت اندرونی طور پر بولتے بھی ہیں۔ یا کسی مسئلہ پر فکر کرتے وقت اپنے آپ سے ایک طرح مخاطب رہتے ہیں یا زبان کا سہارا لیتے ہیں ۔
زبان و فکر کے تعلق پر دو نکتہ نظر
لسانی فلسفہ اور نفسیات میں زبان اور فکر کے باہمی تعلق اور اس کی حقیقی نوعیت کو پوری طرح بے نقاب نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس سلسلے کے مباحث نے دو مختلف نکتہ ہائے نظر پیدا کئے ہیں۔ ایک نکتہ نظر زبان اور فکر کو ہم آہنگ کر کے مترادف قرار دیتا ہے۔ ان کی موانست اور یک جہتی کی تبلیغ کرتا ہے۔ اس کی رو سے دونوں کا ایک ہی غیر منقسم منصب یا وظیفہ ہوتا ہے۔ دوسرا نقطہ نظر ان کی ثنویت پر زور دیتا ہے۔ اور ان دونوں کے مناصب یا وظائف کو ایک دوسرے سے آزاد اور بے تعلق ٹھہراتا ہے۔
دونوں نقطہ ہائے نظر جن نتائج کا استنباط کرتے ہیں ہمارے تجربے ان کی نفی کرتے ہیں۔ پہلے نکتہ نظر کی رو سے سوچ اور گفتگو کے مراحل اور فکر اور زبان کے مناہج ہم آہنگ ہونے چاہئیں۔ ہمارے روزمرہ کے تجربے اس کی توثیق نہیں کرتے۔ بہت سے مناہج فکر ایسے بھی ہوتے ہیں جو لسانی اظہار میں مزاحم ہوتے ہیں۔
بعض فکری مراحل زبان کی گرفت سے بالا تر رہتے ہیں۔ زبان اور فکر ہم قدم تو ر ہتے ہیں لیکن ہر وقت نہیں۔ فکری استعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ لسانی صلاحیت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں۔ اسی طرح لسانی صلاحیت میں اضافہ فکری استعداد کو لازماً نہیں بڑھا دیتا۔
زبان و فکر کی نفسیاتی اساس
ثنویت کا نکتہ تو سوچ سے عاری گفتگو پر منتج ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نقطہ نظر بھی بیان اور فکر یا گفتگو اور سورچ کے گوناگوں رشتوں کی وضاحت سے قاصر ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے که زبان میں پڑنے والے رخنے زبان تک ہی محدود رہیں۔
ان کا اثر سوچ یا فکر پر بھی ہوتا ہے۔ فکر اور زبان کے باہمی رشتوں کی حقیقت سمجھنے کے لئے ان دونوں کے مناصب اور اعمال کی متحدہ نفسیاتی اساس تلاش کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے ہمیں اس بنیادی سوال پر بھی غور کر نا ہو گا کہ آیا ان میں سے ایک کے وجود کے لئے دوسرے کا پیشگی وجود لازمی بھی ہے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی دو اور سوالوں کے جواب بھی منسلک ہوں گے جو یہ ہیں
”کیا زبان فکر کے بغیر وجود میں آ سکتی ہے؟
کیا فکر، زبان کے بغیر ممکن ہے؟
پہلے سوال کا جواب چنداں دشوار نہیں۔ سوچے بغیر بولنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ پہلے سوچو پھر بولو۔ یا بات کو تولو پھر بولو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض لوگ بغیر سوچے سمجھے بولتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ بولنے والے صحیح طور سے سوچ کر یا اپنی سوچ کے مضمرات پر غور کئے یا پرکھے بغیر بولتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بولنے کا عمل سوچنے کے عمل کا نتیجہ ہی نہیں، بلکہ اس کا ہم رکاب بھی ہوتا ہے۔ تکیہ کلام یا عادتاً ادا کرنے والے کلمے صحیح معنوں میں زبان کے زمرے میں نہیں آتے۔ کیونکہ ان میں ابلاغ کے قصد و ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
دوسرا سوال کہ آیا زبان فکر کی پیش رو ہے یا نہیں، غور طلب ہے۔ زبان کا سہارا لئے بغیر سوچنا ممکن بھی سمجھا جاتا ہے۔ تمثالوں یا ذہنی تصویروں، نقشوں ، خاکوں اور ماڈلوں کے ذریعہ سے سوچنے کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جو لوگ گویائی اور سماعت سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ مثالوں کے ذریعہ سے سوچتے ہیں۔
ہمارے تجربات، ذہنی سرگرمی اور تخیل و تصورات
لیکن اگر ہم فکر کے مناہج اور طریقوں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے تجربات ، ہماری معلومات ، فکر اور زبان کی ہئیتیں، ذہن میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ یا لاشعور میں دبک جاتی ہیں۔ جب ذہنی سرگرمی شرو ع ہوتی ہے تو وہ یاد یا تخیل یا تصور کی حیثیت سے شعور میں ابھر آتی ہیں۔ یا شعور میں ابھرے بغیر افکار، اقدار محاکموں، عقل سلیم ، بصیرت وغیرہ کو متاثر کرتی ہیں۔
ان تجربات اور معلومات میں سے بہت سے لاشعور میں ڈوبنے سے قبل کسی کسی نوع کی لسانی تشکیل پا چکے ہوتے ہیں۔ ان کے بعد ابھرنے یا جنم لینے والے افکار کلموں کے مرہون منت نہ سہی، کلموں کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے یا زبان میں ملبوس پچھلے افکار سے یکسر بے تعلق نہیں ہوتے۔ بلکہ ان پر اضافہ یا ان کی ترمیم ہوتے ہیں۔
لسانی فکر
کہا جاتا ہے کہ فکر اور اعلی درجے کے نفسیاتی اعمال، زبان سے بے تعلق نہیں رہ سکتے۔ غالباً اسی وجہ سے قدیم یونانی، زبان اور عقل کے لئے ایک ہی لفظ استعمال کرتے تھے۔ اور ہم بھی لسانی فکر کی ترکیب استعمال کرتے ہیں۔ زبان اور فکر کے مباحث و مسائل پر علمائے نفسیات ، اور ماہرین لسانیات بہت کچھ روشنی ڈال چکے ہیں۔ اس کے تفصیلی جائزے کا یہ موقع نہیں۔ تاہم سطور بالا کے مباحث کو سمیٹتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ فکر کا زبان یا الفاظ سے گہرا تعلق ہے۔
زبان فکر کے لئے ایک اہم وسیلہ ہے۔ زبان کے بغیر فکر کے ابتدائی مدارج ہی طے ہو سکتے ہیں۔ فکر کی اعلی سطح اور فکر کا ارتقاء، زبان کا سہارا لیتے ہیں۔ فکر کوتقویت دینے والے مباحث اور استدلال کا دار و مدار زبان ہی پر ہوتا ہے۔ زبان افکار کی بازیافت میں بھی مدد دیتی ہے اور فکر کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ کبھی کبھار کلمے (الفاظ) فکر کا ساتھ نہیں دے سکتے اور اس کی ترجمانی سے قاصر رہتے ہیں۔
فکر کے ارتقاء کا ذریعہ
فکر مجرد الفاظ کی گرفت میں نہیں آتی۔ کلمے (الفاظ) خالص فکر کے تمام لطیف پہلوؤں، اس کی گہرائیوں اور باریکیوں کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ وہ معنی کی چند سطحوں پر ہی دلالت کر سکتے ہیں ۔ تاہم زبان کی یہ افادیت کیا کم ہے کہ وہ فکر کے لئے مواد جمع کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔ استدلال میں معاونت کر کے فکر کے ارتقاء کا ذریعہ بنتی ہے ۔ حقائق کی بازیافت میں مدد دیتی ہے۔ جو حقائق یا تجربات لاشعور میں روپوش ہو چکے ہوتے ہیں۔ زبان ہی کی مدد سے ان کی بازیافت میں کچھ آسانی ہو جاتی ہے۔
زبان خارجی یا معروضی مدرکات کی تشکیل، ترمیم اور تکملہ کا کردار ادا کرتی ہے۔ اور انھیں حافظے میں محفوظ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لسانی تشکیل کی بدولت مدرکہ تصور کی ہئیت اور اس کے متن یا مواد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کی وضاحت بھی ہوتی ہے۔ مدرکات کی تقسیم اور درجہ بندی بھی لسانی تعین ہی کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ یہی تقسیم اور درجہ بندی خارجی دنیا کو معنویت بخشتی ہے۔
زبان اور تصورات و خیالات
اندرونی یا موضوعی مدركات مثلا عام افکار ، ارادے ، تجریدات، جبلی اور ہیجانی لہروں کی مرئی اور غیر مرئی چیزیں، زبان ہی کی معرفت شعور کی سطح تک پہنچتی ہیں۔ ادراک در اصل امتزاجی تجربوں پرمشتمل ہوتا ہے۔ پرانے تجربوں کے احساسات کو معنی دینے کا عمل کلموں کے لباس میں ملبوس ہو کر محفوظ ہوتا ہے۔ نئے احساسات کو معنی دینے کے مرحلے میں نئے اور پرانے تجربوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ پرانی لسانی تشکیل اس میں آسانی پیدا کر دیتی ہے۔ اور ادراک کی نئی کیفیت اور صورت ظہور میں آتی ہے۔
تصورات اور خیالات جن پر فکر مشتمل ہوتی ہے بسا اوقات زبان کا سہارا لیتے ہیں۔ گویائی کے ملکہ اور تمثال گری کے ذریعہ سے تصور سازی کی قدرت میں قریبی تعلق ہے۔ بچہ یہ دونوں ہنر ساتھ ساتھ پروان چڑھاتا ہے۔ معروضی اشیاء یا حقائق کے ادراک سے تمثالیں یا ذہنی تصویریں ابھرتی ہیں۔ جن میں اشیاء کی محسوس کی جانے والی خصوصیات جھلکتی ہیں۔
ان کی تعلیم سے تصورات جنم لیتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ مجرد تصورات بھی وضع ہونے لگتے ہیں۔ اگرچہ الفاظ ان کی علامات ہی ہوتے ہیں۔ لیکن بتدریج وہ ایسی ہئیت اختیار کر لیتے ہیں کہ معروضی حقائق بھی کسی قدر ان کے تابع ہو جاتے ہیں ۔
اکثر پڑھے لکھے لوگ عموما اشیاء کے تصورات کے بجائے ان الفاظ کے تصورات استعمال کرتے ہیں ، جن سے وہ اشیاء موسوم کی جاتی ہیں۔ ان کے لئے کسی خیال کا تصوری پہلو لفظی تصور ہی پرمشتمل ہوتا ہے ۔
زبان: خود آگہی کی پیش رو
خود آگہی وظائف فکر کی ایک مخصوص جولاں گاہ ہے۔ زبان اس کی بھی پیش رو ہو جاتی ہے ۔ نہاں خانۂ باطن کو ٹٹولنے میں زبان بڑی موثر ثابت ہوتی ہے۔ موضوعی تجربات اور اخلاقی معیارات یا اقدار کی لسانی تشکیل کے بغیر خود آگہی نا مکمل رہتی ہے۔ یہی ماجرا ضبط نفس کا ہے۔ زبان کے وظائف کو صرف فکری ابلاغ تک محدود کر دینا درست نہیں۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اظہاریت کا پہلو۔
اس سے مراد صوتی رمزیت نہیں ہے۔ ہیجانات کا اظہار صرف اظہاری آوازوں ہی سے نہیں ہوتا۔ بلکہ تکلمی علامتوں سے بھی ہوتا ہے، جو زبان کا شیوہ خاص ہے۔ گویا زبان ابلاغ ہی کا نہیں بلکہ اظہار جذبات کا وسیلہ بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے جذبات دوسروں تک پہنچانے کا ارادہ بھی اس میں شامل ہو جائے اور ابلاغی قدر کا شائبہ بھی آجائے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کبھی کبھی انسان محض اظہار چاہتا ہے۔ جذباتی آسودگی اور طمانیت قلب کی وجہ سے زبان جمالیاتی تجربوں کی آئینہ داری کر سکتی ہے۔ اور ترفع کی موجب بھی ہو سکتی ہے ۔