آغازِ زبان کے موضوع میں جتنی دلچسپی لی جاتی رہی ہے اور مختلف دبستانِ فکر کے دانشوروں نے اس پر جتنی زیادہ توجہ دی ہے ، اتنی شاید کسی اور موضوع کو نصیب نہیں ہو سکی۔
زبان: تخلیقِ ربانی
انسان ہمیشہ موجوداتِ عالم سے غیرمطمئن اور ان کی حقیقت اور ان کے وجود کے اسباب اور طریقوں سے واقفیت حاصل کرنے کا آرزو مند رہا ہے۔ زبان کے ذیل میں اس کے تجسس نے مختلف مراحل طے کئے ہیں۔ قدیم ادوار میں زبان کی تخلیق فوق الفطرت یا ماورائی قوتوں سے منسوب ہوتی رہی۔
سقراط کی رائے تھی کہ دیوتاؤں نے دنیا کی اشیاء کے موزوں نام رکھے۔
نارس دیومالا کی رو سے اوڈن دیوتا نے زبان تخلیق کی۔ قدیم ہند میں برہما کو بھی زبان کا خالق سمجھا جاتا رہا اور اِندر دیوتا کو بھی۔
یہودی عقیدے کی رو سے آدم نے خدا کی ہدایت کے بموجب اشیاء کے نام مقرر کئے۔ مسیحی یورپ میں صدیوں تک ”عہد نامہ قدیم“ کی زبان عبرانی کو آسمانی زبان ہی نہیں بلکہ ”ام الاالسنہ“ بھی سمجھا جاتا رہا۔ کم و بیش تمام مذاہب کی رو سے زبان تخلیقِ ربانی قرار پاتی ہے۔
ابو ہاشم معتزلی (۹۳۰) نے پہلی بار یہ رائے ظاہر کی کہ زبان انسان کی وضع کردہ ہے۔ اس نے اپنے نفس اور ماحول کے محرکات کے زیرِ اثر اسے وضع کیا۔ اس کے مقلدین نے اس بنیاد پر جو نظریات پیش کیے وہ کم و بیش وہ ہی ہیں جو نو سو سال بعد مغربی دنیا میں نقالی کے یا احکائی نظریات کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔
آغازِ زبان کے دینیاتی نقطہ نظر کی تردید
مغربی دنیا میں مذہب کی گرفت کچھ ڈھیلی ہوئی تو بتدریچ مظاہرِ حیات کی علمی توجیہ کا رجحان پیدا ہونے لگا۔ جرمن مفکر ہرڈر (Johann Gottfried Herder 1772) نے پہلی بار آغازِ زبان کے دینیاتی نقطہ نظر کی تردید کی۔ اس نے اپنے ایک مضمون ”زبان کا آغاز“ میں یہ رائے ظاہر کی کہ اگر زبان تخلیقِ ربانی ہوتی تو زیادہ منطقی اور منظم، زیادہ جامع اور بلیغ ہوتی۔ انسانی زبانوں میں جو بے قاعدگی ، بے ڈھنگا پن اور تشنگی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ زبان انسان کی وضع کی ہوئی ہے۔ اس نے آغازِ زبان کے ذیل میں نقالی کا نظریہ پیش کیا۔
زبان کے ارتقا کے مختلف مراحل
اٹھارویں صدی کے اواخر میں دانشوروں کو یہ یقین ہونے لگا کہ زبان کے ارتقا کے مختلف مراحل کی استخراجی تشکیل یا باز آفرینی کے ذریعے سے اس کے پراسرار آغاز تک رسائی ممکن ہے۔ آغازِ زبان کے موضوع میں جتنی دلچسپی لی جاتی رہی ہے اور مختلف دبستانِ فکر کے دانشوروں نے اس پر جتنی زیادہ توجہ دی ہے۔ اتنی شاید کسی اور موضوع کو نصیب نہیں ہو سکی۔
اس غیر معمولی دلچسپی اور توجہ کے باوجود آغازِ زبان کا مسئلہ پراسرار ہی رہا۔ ماہرین لسانیات نے معلومہ زبانوں کے ماقبل تاریخ ادوار کی لاسانی ہئیتوں کی باز آفرینی کی مدد سے اور انسانی نفسیات کے اسرار و رموز کا سہارا لے کر انسانی زبان کے اولین نقوش کی استخراجی تشکیل کی کوششیں ضرور کیں۔ لیکن ان میں قیاسات کی کار فرمائی زیادہ ہے اور سائنسی استدلال برائے نام یا مفقود ہے۔ اسی لئے بہت سی کوششیں مضحکہ خیز بھی نظر آتی ہیں۔
زبان: اختراع، حادثہ یا اتفاق
فرانس کی سوسائٹی دالنگوستک نے اس موضوع پر اظہارِ رائے اور بحث و تمحیص کو ممنوع اور سوسائٹی کے لئے نا قابل قبول قرار دے دیا تھا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اسی سوسائٹی کے اراکین نے اس موضوع پر دھڑا دھڑ مضامین لکھے اور کتابیں شائع کرائیں۔ شروع شروع میں جو نظریات منظر عام پر آئے انھیں دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
اختراعی
حادثاتی یا اتفاقی۔
پہلے کی رو سے زبان انسان کا تخلیقی عمل ہے۔ جرمن فلسفی ہرڈر اس کا پہلا مبلغ ہے۔ دوسرے کی رو سے زبان کا آغاز محض ایک اتفاق ہے۔
ماہرِ نفسیات ”ونٹ“ نے پہلی بار اختراعی اور نقالی کے نظریوں میں تفریق کی۔ رڈالف ایسلر نے آغازِ زبان کے نظریوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا۔
دینیاتی
اختراعی
نفسیاتی نسبی
پہلے زمرے میں تخلیقِ ربانی کا مذہبی نقطہ نظر بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے کی رو سے زبان بعض ذہین انسانوں کی اختراع کی مرہونِ منت ہے۔ تیسرے زمرے میں وہ تمام نظریے شامل کئے گئے ہیں، جن کا تعلق نقالی ، صوتی رمزیت، دلالت کرنے والی حرکات و سکنات فجائیہ آوازوں، ابلاغی خواہش وغیرہ جیسے مختلف عوامل سے ہے۔
جی رے ویز نے تین زمروں ، حیاتیاتی بشریاتی اور اس فلسفیانہ اور دینیاتی کے ماتحت ان کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اس کے نزدیک جو نظریہ انسانی بول چال کو حیوانات کے صوتی ردِ عمل اور بیوہار کے صوتی طریقوں سے اخذ کرتا ہے۔ اورحیوانی دنیا میں زبان کے ماقبل تاریخ احتمال ادوار کی نشان دہی کرتا ہے۔ اسے حیاتیاتی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بر عکس بشریاتی نظریوں کی رو سے زبان کی بالکل ابتدائی صورت بھی انسانی ذہن کا کرشمہ ہے۔
ارتقا کے ابتدائی دور ہی میں مادی اور سماجی حالات نے ابلاغ کی مخصوص صورت پیدا کرنے کے لئے انسان کو ذہنی صلاحیتوں کے استعمال پر اکسایا۔
زبان انسانی اختراع ہے
اس زمرے میں نقالی کے مختلف نظریات، بچوں کی غوں غاں ، بچگانی زبان، قدیم ترین گیتوں، انسانی نفسیات اور غیر متمدن قوموں کی زبان سے آغازِ زبان کے استخراج کے نظریات شامل کئے جاتے ہیں۔ فلسفی نظریات خلقیت اور تجربیت سے تعلق رکھتے ہیں یا شعور و ارادہ سے یا اتفاقی صورت حال ہے۔
انیسوی صدی کے دوران منظر عام پر آنے والے اکثر نظریات انفرادیت پسندانہ ہیں۔ جن کی رو سے زبان انسان ہی کی اختراع کی ہوئی ہے۔ اس کے شعور اور ارادے کی مرہون منت ہے۔
فریڈرک فان شلیگل نے ”فلاسفی آف لینگ “ میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ زبان تدریجی ارتقا کا نتیجہ نہیں ہے۔ بلکہ بالکل ابتدا ہی سے تمام ضروری خصوصیات لے کر انسان کے شعور اور باطنی زندگی سے ابھری ہے۔
رے ویز نے آغازِ زبان کا ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے۔ ارتباطی نظریہ… اس کے نزدیک لفظ ارتباط (میل جول) سماجی ہئیتوں کے ایک دوسرے سے قریب ہونے، موانست پیدا کرنے ، تعاون اور ابلاغ کے باطنی رجحان پر دلالت کرتا ہے۔
زندگی کا آفاقی اصول
سچ پوچھیے تو سماجی گروہوں کے افراد کے لئے زندگی کا آفاقی اصول ارتباط، یعنی رسم و راہ، میل جول ہی ہے۔ اس اصول سے ابلاغ کی مخصوص صورتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یوں تو یہ نظریہ بھی آغازِ زبان کے ارتقائی مراحل، فطری آوازوں سے اخذ کردہ ہے۔ لیکن نقالی کے نظریات سے کچھ مختلف ہے۔ نقالی کے نظری سماجی پہلو اور ابلاغ کے ارادے کو نظرانداز کر کے، فطرت کی طرح طرح کی آوازوں کو زبان کا نقطہ آغاز قرار دیتا ہے۔
ارتباطی نظریہ ان صوتی مظاہر تک محدود رہتا ہے جو ایک مخصوص رجحان کے تابع ہوتے ہیں۔ اس رجحان کے جو ہماری زبان کا ہے۔
ان نظریات میں سے صرف چند کو زیادہ اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ ان میں بھی حکائی نظریات اور بچوں اور غیر متمدن اقوام کی زبانوں سے آغازِ زبان کے استنباط کے نظریے نمایاں نظر آتے ہیں۔ حکائی نظریوں میں زیادہ دلچسپی لینے کی ایک وجہ وہ حکائی کلمے ہیں۔ جو کم و بیش تمام زبانوں میں ملتے ہیں ۔
قدیم انسان اور فطری آوازوں کی نقالی
ان نظریوں کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ زبان کے تخلیقی اور اصلی کلموں اور فطری آوازوں سے پیدا ہونے والے خالصی حیاتی تاثرات میں علت و معلول کا رشتہ ہے۔ قدیم انسان نے فطری آوازوں کی نقالی سے ابتدائی کلمے وضع کئے۔ ان نظریات کے سلسلے میں دو نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایک میکس ملر کا اور دوسرا اسٹین ہل کا۔
اول الذکر اپنے ڈنگ ڈانگ نظریے کی وجہ سے اور ثانی الذکر اپنے رجعی نظریے کی بدولت۔۔۔۔۔ یہ دونوں نظریے حکائی یا نقالی ہی کے نظریات ہیں۔ میکس ملر نے بعد میں اپنے نظریے کو ترک کر دیا۔ اسٹین ہل نے اپنے نظریے میں قصد و ارادہ کی خصوصیت کا اضا فہ کر دیا۔
ڈنگ ڈانگ نظریہ
ڈنگ ڈانگ نظریے کی رو سے جس چیز پر بھی کوئی ضرب لگتی ہے وہ بج اٹھتی ہے۔ اسی طرح بیرونی مہیجات سے انسان کا باطن بج اٹھتا ہے۔ باہر سے قبول کیا جانے والا ہر وہ تاثر جو دراصل خارجی آوازوں ہی کا ہوتا ہے۔ انسان کے باطن سے صوتی اظہار پاتا ہے۔
رجعی نظریہ
اسٹین ہل کا رجعی حرکت کا نظریہ، تکلمی آوازوں کا نقطہ آغاز، اس رجعی حرکت یا حسیاتی تاثر کو قرار دیتا ہے۔ جو فطری آوازوں کے خارجی مہیجات سے پیدا ہوتا ہے۔ ڈنگ ڈانگ نظریے اور رجعی نظریے کے منظر عام پر آنے سے تقریبا نو سو سال پہلے۔ ابو ہاشم معتزلی اور اس کے متبعین، آغازِ زبان سے متعلق یہی کچھ کہہ چکے تھے۔
زبان بتدریج وجود میں آئی
ابو ہاشم معتزلی نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ انسان نے محسوس کیا کہ ایک ہی حیوان مختلف موقعوں پہ مختلف آوازیں نکالتا ہے۔ مثلا مرغی اپنے چوزوں کو شکاری پرندوں سے محفوظ رکھنے کے لئے جو آواز نکالتی ہے۔ وہ اس آواز سے مختلف ہوتی ہے جو دانہ کھانے کے لئے نکالتی ہے۔ اس طرح اس نے ترہیبی اور ترغیبی آوازوں کا اختلاف سیکھا۔ دوسرے جانوروں کی آوازوں کی کیفیتوں اور تبدیلیوں کو سمجھا۔ مظاہر فطرت کی آوازوں، مثلا بادل کی گرج ، ہوا کی سرسراہٹ، سوکھے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ وغیرہ کو سنا۔ ان سب آوازوں کی نقالی کی کوشش کی۔ اعضائے صوت زیادہ نرم اور لچک دار ہوتے گئے۔ یوں اس کی آوازیں زیادہ واضح اور صاف ہوتی گئیں۔ اور کلموں کی موجب ہوئیں اور پھر بتدریج زبان تشکیل پاتی گئی۔
ابو ہاشم کے کچھ شاگردوں نے یہ کہا کہ وفورِ جذبات میں انسان جو آوازیں نکالتا رہا وہ آہستہ آہستہ کلموں کی حیثیت اختیار کرتی گئیں۔ قوت فاعلہ اور منفعلہ کی تاثیر در تاثر سے اس کی زبان سے جو آوازیں نکلتی رہیں۔ ان سے بتدریج زبان وجود میں آئی۔
پہلی بار آغازِ زبان کا فجائیہ نظریہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ بعض نے یہ رائے بھی ظاہر کی کہ خارجی آوازیں مختلف خیالات کی موجب ہوئیں۔ مشاہدے اور سماعت کے نتیجے میں انسان کے قوائے مدرکہ پر خیالات کی ضرب لگتی رہی۔ اس تصادم سے دماغ میں تحریک اور پھر ایک طرح کی آواز پیدا ہوئی۔
انسان کے دماغ کا ہر حصہ جدا گانہ ادراک اور احساس کا ذریعہ ہوتا ہے۔ محسوسات اور مشہودات کی ضرب سے تحریکات کے ساتھ ساتھ گوناگوں آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ انسان کا ملکہ گویائی ان کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس طرح زبان بتدریج وجود میں آتی گئی۔
ہم رنگ اشاعت زندہ اور مردہ زبانیں ماضی کی بہت سی زبانوں کو آج کوئی نہیں جانتا ، بہتوں کے نام بھی نہیں معلوم ۔ کچھ ایسی ہیں جن کی یادگاریں لوحوں یا کتبوں میں طرح طرح کی بصری علامتوں میں نظر آتی ہیں۔ زندہ اور مردہ زبانیں۔ living-and-dead-languages
فطری آوازوں کی نقالی نے لسانی عناصر کی تخلیق کی
فرانسیسی ماہرِ لسانیات ریناں نے ۱۸۵۹ میں اپنی تصنیف میں یہ خیال ظاہر کیا تھا۔ کہ فطری آوازوں کی نقالی نے لسانی عناصر کی تخلیق کی راہیں ہموار کی ہیں۔
یسپرسن اور دامو نٹگنی حکائیت یا فطری آوازوں کی نقالی کو زبان کا اہم سر چشمہ قرار دیتے ہیں۔ چونکہ بول چال میں آواز ہی اہم ترین ذریعہ اظہار ہوتی ہے۔ اس لئے یہ سمجھ لیا گیا کہ آغازِ زبان کی سراغ رسی بے ساختہ تکلمی آوازوں ہی میں ہوسکتی ہے۔ اور زبان کے مخصوص میڈیم آواز ہی پر توجہ مرکوز کی گئی اور محرکات کو کم و بیش نظر انداز کر دیا گیا۔
یہ کہا جاتا ہے کہ حکائی کلموں کا تعلق ان عبوری ادوار سے ہے۔ جب غیر لسانی ذرائع ابلاغ استعمال ہوتے تھے۔ جوں جوں بول چال کی علامتی صورتیں ابھرتی گئیں صوتی نقالی کے عناصر پسِ منظر میں ہوتے گئے۔ اس خیال کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ زبان کے ارتقا میں صوتی نقالی کا اچھا خاصا کردار رہا ہے۔
زبانوں میں حکائی کلمے خاصے کم ہوتے ہیں۔ ان میں سے بھی بہت سے تاریخِ زبان میں بہت بعد کے وضع کئے ہوۓ ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ بعض زبانوں میں مثلاً باسک زبان میں ان کی بہتات ہے۔ ان کی کمی بیشی کا دار و مدار زبانوں پر نہیں بلکہ بولنے والوں پر، ان کی جنس، عمر اور سماجی طبقے پر ہوتا ہے۔
غیر متمدن انسان نے صوتی نقالی ، علامتی حیثیت سے نہیں بلکہ محض اظہاری حیثیت ہی سے کی ہو گی۔جب زبان اپنی بالکل ابتدائی صورت میں وجود میں آگئی ہو گی۔ تب نقالی کی آوازوں نے زبان میں جگہ پا کر ابلاغ کا حق ادا کیا ہوگا۔ غیر متمدن انسانوں نے اپنی صوتی عادتوں کے ماتحت ہی فطری آوازوں کی نقالی کی ہوگی۔ آج بھی جو حکائی کلمے رائج ہیں ، وہ زبانوں کی صوتی حدود کے اندر ہی ہیں۔ اسی لیے ہر زبان میں کچھ مختلف ہیں۔
ایک انگریز،امریکی یا آسٹریلوی، گھنٹی کی آواز کو ڈنگ ڈانگ سے تعبیر کرتا ہے۔ لیکن چونکہ فرانیسی میں این جی آواز کا گزر نہیں۔ اڈا کا وجود نہیں اس لئے ایک فرانسیسی ” تَم تَم ” کہتا ہے۔ ہسپانوی ڈن ڈون اور جرمن بِم بیمبن سے تعبیر کرتا ہے۔ گویا تمام زبانوں میں جو بھی حکائی عنصر ملتا ہے۔ وہ ان زبانوں کی مروجہ آوازوں ہی کی نمائندگی کرتا ہے۔
صوتی نقالی کو زبان کا نقطہ آغاز قرار دینا درست نہیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صوتی نقالی سے پہلے انسان کی تکلمی آوازوں اور زبان کی بالکل ابتدائی صورت کا وجود رہا ہو گا۔ چنانچہ صوتی نقالی کو زبان کا نقطہ آغاز قرار دینا درست نہیں۔
بچوں کے زبان سیکھنے کے مراحل
بچوں کے زبان سیکھنے کے مراحل سے آغازِ زبان کی صورتیں اخذ کرتے وقت یہ مدِ نظر نہیں رکھا جاتا کہ بچہ بولنے سے پہلے، اپنے ماحول میں اکثر استعمال ہونے والے کلموں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ان کے اور مراد لی جانے والی چیزوں کے درمیان تعلق کو کچھ سمجھ لیتا ہے۔ تو پھر اپنے طور پر انہیں دہراتا ہے۔ اپنی غلطیاں اپنے طور پر درست کرتا رہتا ہے۔ یا گھر کے افراد تصحیح کرتے رہتے ہیں۔
اس طرح بتدریج وہ کلمے اور پھر پورے پورے جملے ادا کرنے لگتا ہے۔ وہ جو زبان سیکھتا ہے۔ وہ پہلے سے عالم وجود میں ہوتی ہے۔ اس کے ماحول میں بولی جاتی ہے۔ ان بولنے والوں ہی سے بالواسطہ سیکھی جاتی ہے۔ اس کا دار و مدار بچے کی ذہنی نشو نما پر ہوتا ہے۔
بچوں کی زبان میں ابتدائی انسانی زبان کے عناصر کی نشان دہی آغازِ زبان کا مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔ یہ بات کہ قدیم ترین زبانوں کی ساخت انسان کی ابتدائی زبان میں استعمال ہونے والے عناصر پر اچھی خاصی روشنی ڈال سکتی ہے۔ بظاہر دل کو لگتی ہے۔ لیکن ان زبانوں کا ماضی، ماقبل تاریخ اندھیروں میں ہے۔
قدیم زبانیں اور لسانیاتی معیار
پرانی ہئیتوں کی استخراجی تشکیل کے لئے ضروری مواد کی فراہمی کا امکان بھی نہیں۔ ان زبانوں کے بولنے والے تہذیبی سطح کے لحاظ سے پسماندہ کہلا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ فطرت کی طاقتوں کو مطیع کر کے اس کے خزانوں کو حسب منشا اور ضرورت کے مطابق بھرپور طور پر استعمال نہیں کر سکتے۔ لیکن ان کی زبانیں لسانیاتی اعتبار سے کم تر نہیں قرار پا سکتیں۔
ان میں ترقی یافتہ زبانوں کی تمام بنیادی خصوصیات ملتی ہیں۔ مختلف زمروں کے کلمے ہیں، قواعدی زمرے ہیں ، نحوی ہئیتیں ہیں، صوتی قوانین کی کار فرمائی ہے۔ ان کا اپنا صوتی نظام ہے۔ قواعدی اور معنویاتی نظام بھی ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سرمایہ کلمات جدید معاشرتی اور تہذیبی رنگا رنگی کی آئینہ داری نہیں کرتا۔ بلکہ محدود معاشروں اور مخصوص پرانی تہذیبوں ہی کے کام آسکتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں کہ لسانیاتی اعتبار سے یہ زبانیں، جدید زبانوں کے مقابلے پر حقیر نہیں۔ ان کی بالکل ابتدائی بول چال کی پرچھائیاں نہیں مل سکتیں۔ اگر مل سکتی ہیں تو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ انسان کی اولین زبان ابتدا ہی سے لسانیاتی اعتبار سے مکمل تھی۔
کیا ام الالسنہ کا تصور درست ہے؟
ہر زبان کی جو کچھ بھی تاریخ مرتب ہو سکی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی زبان کی شاخ ہے۔ یا اس کی بنیاد کوئی قدیم تر زبان ہے۔ ملتی جلتی زبانوں کے سر چشمے بھی ہوں گے لیکن ہر سر چشمہ خود کیوں کر پھوٹا؟
کیا یہ تمام سرچشمے ایک ہی منبع کے مرہون منت ہیں۔ اگر ہیں تو وہ منبع کون سا ہے۔ اس کی ماہیت کیا ہے ؟ کیا دنیا بھر کی تمام زبانوں کا ایک ہی منبع ہے ؟ کیا ام الالسنہ کا تصور علمی اور استدلالی طریقوں سے درست ثابت ہو سکتا ہے؟
بشریاتی نقطہ نظر
بشریاتی نقطہ نظر یہ ہے کہ انسانوں کے باہمی رابطے کی ضرورت زبان کے وجود میں آنے کی موجب ہوئی۔ سماجی ضرورتوں اور تقاضوں نے انسان کو زبان سے کام لینا سکھایا۔
اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زبان کی تخلیق سے پہلے انسان کسی نہ کسی نوعیت کی سماجی زندگی شروع کر چکا تھا۔ وہ انتہائی سیدھی سادی اور محدود سہی۔ لیکن سماجی زندگی کے لئے افراد کے ذہنی و جذباتی رابطے ضروری ہیں۔ یہ رابطے جذبات کی ترسیل اور ذہنی تجربوں اور خیالات کے ابلاغ و اوامر و نواہی ، استفہام اور تشریحی بیانات ہی سے مستحکم ہو سکتے ہیں۔
زبان کے بغیر سماجی زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ انسان کی مابہ الامتیاز خصوصیت، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ہے۔ اس کی بالکل ابتدائی زندگی میں سوچنے سمجھنے اور خیالات کی سطح جو بھی رہی ہو۔ اس میں زبان کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ گویا انسان ایک سماجی اور سوجھ بوجھ رکھنے اور سوچ بچار ،غور و فکر کرنے والی ہستی کی حیثیت سے زبان کا محتاج رہا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان ، سماج اور زبان کے بغیر انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔
انسانی زبان آغاز ہی سے متکلمی آوازوں پر مشتمل رہی ہے۔ نقالی کرنے والی حرکات مطلب کی وضاحت کے لئے اس کا سہارا بھی بنتی رہیں۔ وہ شروع ہی سے اظہار و ابلاغ کا اچھا وسیلہ رہی ہے۔ ساتھ سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کا آلہ بھی۔
تہذیبی ارتقا
انسان کے تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ زبان ، منتظم غور و فکر ، خود شناسی اور خود آگہی کا وسیلہ بھی بنتی گئی۔ اس میں ابتدا ہی سے وہ تمام لسانی خصوصیات رہی ہیں جو آج کی انتہائی ترقی یافتہ زبانوں میں ہیں۔ یعنی تکلمی آوازوں کی تالیف و ترکیب کی مخصوص صورتیں، کسی نہ کسی طرح کی قواعدی تنظیم اور معنویاتی سطح انسان کی ابتدائی ضرورتوں کی مماثلت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ کہ تمام زبانیں اپنے اختلافات کے باوجود ملتے جلتے بنیادی رجحانات کی حامل رہی ہیں۔ اور ان رجحانات کا اظہار نکلتی آوازوں، گرامر اور معانی میں ہوتا رہا ہے۔
یہ اور بات ہے کہ ان کے ارتقائی عمل سے ان کے صوتی نظام، اور ساختیاتی حیثیتوں میں بڑا اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ مختصر یہ کہا جا سکتا ہے۔ لسانیاتی نفسیات، انسانی زبان کے آغاز تک رسائی کی جو کوشش کرتی رہی ہے۔ وہ سائنسی قطعیت اور لسانیاتی شواہد کی حامل تو نہیں۔ تاہم ایک دھندلا سا خاکہ ضرور پیش کرتی ہے۔
زبان کے آغاز سے متعلق جو نظریے پیش کئے گئے ہیں۔ ان سب میں جزوی صداقت ضرور ہے۔ لیکن ان سے یہ یقینی علم نہیں ہوتا کہ زبان کی ابتدا کس طرح ہوئی۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ تہذیبی آثار کی کہنگی کی بنیاد پر انسان کی جو کچھ بھی قدامت ہو۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ شروع ہی سے تحکم، استفہام اور اظہار کے تفاعل کے لئے صوتی و حرکاتی زبان سے متصف تھا۔ اس نے اپنی ضرورتوں کے ماتحت سماجی زندگی اختیار کی اور سماجی تقاضوں کی وجہ سے زبان تشکیل کی۔ انسان نے زبان بنائی اور زبان نے انسان کو نکھار کر صحیح معنوں میں انسان بنایا۔