مرشد (عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر8

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
love story urdu novel murshid, by sahir jameel syed
Urdu Novel Murshid

”آ…آپ مجھ کو…کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔“ وہ ہکلائی تھی

”اس خیال خام کی وجہ؟“

”کیوں کہ …آپ ایسے نہیں ہیں …مم…مجھے خالہ حسن آرا نے اس بات کا یقین دلایا تھا۔ وہ …وہ آپ کو سب سے زیادہ جانتی ہیں۔“

مرشد کے سرخ و سپید چہرے پر ایک پرسرار سی مسکراہٹ اتر آئی۔ حجاب اضطراری انداز میں کرسی پیچھے ہٹاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے سامنے ٹیبل پر مرشد موجود تھا۔ ٹیبل کے برابر والے راستے میں ایک ٹانگ حائل تھی۔ حجاب کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ اپنی مرضی سے یہاں سے نکل نہیں سکتی۔ وہ بے اختیار پیچھے ہٹ کر دیوار سے جا لگی۔ مرشد اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے اس کی صورت تک رہا تھا۔

”دیکھیں آ…آپ ایک اچھے انسان ہیں اور آپ…“

”میں بہت ہی برا انسان ہوں۔“ مرشد نے اس کی بات درمیان ہی میں کاٹ دی۔ ”اور تو یہ بات اچھی طرح جانتی ہے۔پھر بھی اگر تجھے غلط فہمی سے مجھ میں کوئی اچھی بات نظر آئی ہے تو کیا ہوا…آخر کار میں ہوں تو ایک غنڈہ بدمعاش ہی نا!“

باہر یکایک ہی بارش نے زور پکڑ لیا۔

”اگر آپ کو میری وہ…غنڈہ بدمعاش والی بات بری لگی ہے تو میں اس کے لیے آ پ سے معافی مانگتی ہوں۔“ وہ روہانسی ہوگئی اس نے باقاعدہ مرشد کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے تھے۔ مرشد کو اس پر بے تحاشہ ترس آیا۔ وہ بالکل ایک ڈری سہمی سی چڑیا کی طرح دکھائی دے رہی تھی لیکن مرشد اسی طرح سنجیدہ رہا۔ اس کی تپش دیتی نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے حجاب نے سر جھکالیا البتہ ہاتھ اسی طرح جوڑے کھڑی رہی۔

”میں آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کہوں گی مرشد جی! پہلی غلطی سمجھ کر معاف کردیں۔“ دو موٹے موٹے آنسو پلکوں کی دہلیز سے لڑھک کر اس کے رخساروں پر آبہے۔

”ایک شرط پر معاف کر سکتا ہوں۔“

”کک‘ کیا…“ حجاب نے فوراً اس کی طرف دیکھا۔ منظر میں کچھ تبدیلی محسوس ہوئی۔ مرشد کے چہرے پر انتہائی نرم و ملائم سی مسکرائٹ تھی۔ چہرے کے تاثرات یکسر بدل چکے تھے۔

”تجھے ایک وعدہ کرنا پڑے گا مجھ سے۔“

”جی، کیسا وعدہ؟“

”یہ وعدہ کہ تیرا جب دل چاہے تو مجھے غنڈہ بدمعاش کہے گی اور اس کے علاوہ بھی تیرا جو دل چاہے گا تو بلا جھجک کہا کرے گی۔“

”جج، جی!“ حجاب نے ایک بار پھر سر جھکا لیا۔ عجیب شخص تھا یہ وہ حیران و پریشان تھی۔

”وعدہ کرتی ہے یا پھر اٹھوں میں؟“

”جج ، جی… جی وعدہ کرتی ہوں۔“

”ادھر دیکھ میری طرف۔“ حجاب نے نظریں اٹھا کر دیکھا مگر فوراً گھبرا کر دوبارہ نظریں جھکالیں۔ مرشد کے چہرے پر ایک عجیب سی مسرت کھیل رہی تھی اور آنکھوں میں ایک جہان شوق آباد تھا اوریہی چیز اسے پریشان کرتی تھی۔ اسے نہ تو ایسی نظروں کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ایسی نظروں سے دھڑکنوں میں پیدا ہونے والی اتھل پتھل سے کوئی واقفیت …اسی باعث وہ گھبرا جاتی تھی…ذہن الجھن کا شکار ہوتا تھا اور سمجھ میں نہ آنے والی ایک پریشانی اسے آدبوچتی تھی۔

”کیا تو پاگل ہے؟“مرشد کے اگلے سوال نے اسے چونکا دیا۔

”نن، نہیں۔“

”بڑی کب ہوگی تو؟“

”جی…پتا نہیں۔“

”مجھے ایک سوال کا جواب چاہیے۔“

”جی…“

”درست جواب۔“

”جی …پوچھئے؟“ وہ ٹیبل سے اٹھ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔

”پہلے سکون سے بیٹھ جا اور دو چار گھونٹ پانی بھی پی لے۔“ حجاب فرماںبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واپس کرسی پر بیٹھ گئی اور آدھا گلاس پانی بھی پی گئی۔

” اب ادھر دیکھ۔“

حجاب نے نظروں کا زاویہ اس کی طرف پھیرا تو مرشد بولا۔

”میری طرف دیکھتے ہوئے میرا سوال سن اور میری طرف دیکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر سچ سچ جوا ب دے۔“

”سوال کیا ہے؟“

”اگر…میں ابھی یہاں…تجھ پر مجرمانہ حملہ کروں تو…کیا تو اپنا بچاو�¿ کر سکتی ہے؟“ حجاب کی نظریں ازخود جھک گئیں۔

”ادھر دیکھ۔“ مرشد کے دبکے پر اس نے گھبرا کر دوبارہ اس کی طرف دیکھا۔

”بتا…کیا لگتا ہے تجھے…بچ کر نکل سکے گی تو؟“

”نن…نہیں۔“آنکھوں میں پھر سے پانی ابھر آیا۔

”تو کیا میں ایسا کچھ کر رہا ہوں نہیں نا! پھریہ بات تیری سمجھ میں کیوں نہیں آرہی کہ میرے دل و دماغ میں تیرے لیے کوئی غلط خیال، غلط سوچ

نہیں ہے تجھے مجھ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں تجھے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچاو�¿ں گا…میرے لیے اپنے ذہن میں بدگمانیاں مت پال… مت الٹا سیدھا سوچا کر۔“

”جی! ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔“وہ جزبز ہو کر رہ گئی۔ اسے یوں لگا تھا جیسے مرشد نے اس کے دماغ میں جھانک کر دیکھ لیا ہو۔

”ایسی کوئی بات نہیں ہے تو پھر مجھ سے اتنا گھبراتی کیوں ہے…کیوں اتنا ڈرتی ہے؟“

”وہ …وہ مجھے…“

”ہاں، کیا وہ؟“

”وہ…مجھے آپ کی آنکھیں…آپ دیکھتے ایسے ہیں کہ…کہ مجھے گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔“ اس نے پھر گھبرا کر نظریں جھکالیں۔ چند لمحے دونوں خاموش رہے۔ آفس میں باہر ہوتی موسلادھار بارش کی مدھم آواز آتی رہی۔ پھر کچھ دیر بعد مرشد کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

”کچھ کچھ ٹھیک ہے تیری بات…میں کچھ زیادہ ہی نظریں بھر لینا چاہتا ہوں شاید اس لیے۔“ چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا ۔ ”تجھے خدا نے شکل و صورت ہی اتنی پیاری اور من موہنی دی ہے اور…اور تو مجھے لگتی ہی اتنی اچھی اتنی پیاری ہے کہ میں بیان ہی نہیں کر سکتا…اس کی وجہ میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ تیری رگوں میں جن ماں باپ کا دودھ خون دوڑ رہا ہے وہ بہت اچھے اور پیارے لوگ ہوں گے…تو اچھے ماں باپ کی اولاد ہے،اس لیے خود بھی اچھی ہے۔اب تواچھی دکھتی ہے تو اسی لیے مجھے بھی اچھی لگتی ہے اور… اسی لیے میں تجھے نظریں بھر بھر کر دیکھتا ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی پیار محبت یا عشق معشوقی والا معاملہ ہے یا میرے دل میں کوئی اور ایسی ویسی بات ہے۔ نہیں، ہرگز بھی نہیں تو کچھ ایسا ویسا، اوٹ پٹانگ سوچ کر نہ اپنی توہین کر اور نہ میری…سمجھ رہی ہے نا میری بات کو؟“

”جی!“ حجاب نے آہستہ سے کہا۔ بالکل سیدھا صاف سا انداز تھا مرشد کا۔ حجاب کو عجیب تو محسوس ہورہا تھا مگر اس کے بے ساختہ انداز میں کوئی ایسی بات تھی کہ حجاب کو یہ سب ناگوار نہیں گزر ا تھا۔ وہ بول رہا تھا۔

”میں نے تجھے باحفاظت عزت و آبرو کے ساتھ تیرے پھوپھا کے گھر تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور تو ہے کہ مجھ ہی سے عزت کا خطرہ محسوس کرتی ہے… مجھے اپنی آبرو کے حوالے سے خطرناک سمجھتی ہے ۔واپس اماں کے پاس پہنچ کر محلے بھر سے میرے کردار اور مزاج کے بارے میں پوچھ لینا۔ وہ طوائفوں اور رنڈیوں کا بازار ہے۔ زمانے بھر کی خراب اور بری عورتیں وہ سب بھی میرے کردار کی گواہی دیں گی ،مگر تو…مرشد کو اتنا ذلیل تیرے سوا اور کوئی نہیں سمجھتا۔“ اس کے لب و لہجے میں کچھ ایسا دکھ اور افسوس تھا کہ یکایک ہی حجاب کو عجیب سے احساس جرم اور شرمندگی کا احساس ہوا۔

”ایسی بات نہیں ہے مرشد جی! آپ …آپ اور خالہ تو میرے محسنوں میں سے ہیں۔“ لفظ اس کی زبان سے ادا ہوئے تو دل نے جیسے فوراً گواہی دی کہ سچ کہا ہے اس شخص کی ماں…اور خود یہ شخص واقعی تیرے محسنوں میں سے ہیں ایسے محسنوں میں سے جن کا احسان کبھی نہیں چکایا جا سکتا۔

”ایسی بات نہیں ہے تو پھر مجھے اپنے سر کی پٹی کیوں نہیں بدلنے دیتی؟“ وہ جیسے اصل مدعے پر آگیا تھا۔ حجاب کو چپ لگ گئی۔

”یا تو تیرے اپنے ذہن‘ اپنی سوچ سمجھ میں کوئی گڑبڑ ہے یا پھر تو نے میرے متعلق کچھ سستے اور گھٹیا اندازے قائم کر رکھے ہیں ورنہ مجھ سے اس قدر گھبرانے اور جھجکنے کی بھلا اور کیا وجہ ہوسکتی ہے؟“

وہ حجاب کی جھجک اور گھبراہٹ کی وجہ جاننے ‘سمجھنے کی کوشش میں تھا لیکن یہ کم از کم اس کی سمجھ میں آسانی سے آنے والی بات نہیں تھی۔ ایک تو اس لیے کہ وہ ایک بے باک اور اکھڑمزاج شخص تھا…دوسرا یہ کہ اس کا کسی عام لڑکی سے کبھی کوئی واسطہ رہا ہی نہیں تھا اور تیسرا یہ کہ اس کی اب تک کی زندگی جس ماحول میں گزری تھی، جس قماش کی عورتوں ‘لڑکیوں کو وہ جانتا تھا، ان کے نزدیک شرم و حیا اور جھجک و گھبراہٹ ویسے ہی شخصی خامی اور خرابیوں کا نام تھا۔

اس کی باتوں پر حجاب کچھ دیر پرسوچ انداز میں سرجھکائے بیٹھی رہی پھر اس نے مرشد کی طرف دیکھا تو اس کی نگاو�¿ںکو اپنی ہی جانب مرکوز پایا۔چند لمحے وہ گہری سنجیدہ نظروں سے مرشد کی پر رعب صورت کو دیکھتی رہی پھر آہستہ سے اس نے اپنی چادر سر سے نیچے سرکالی۔ یہ بہ زبان خاموشی اس بات کا اجازت نامہ تھا کہ وہ اس کے سر کا زخم دیکھ سکتا ہے،پٹی تبدیل کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ اس بات کا بھی اظہار تھا کہ مجھے تم پر بھروسا ہے۔ تمہاری نیت پر مجھے کوئی شک و شبہ نہیں اور در حقیقت یہ ان کے درمیان باہمی اعتمادکا ابتدائی لمحہ تھا …مرشد کا چہرہ کھل اٹھا۔

”تھینک یو باس۔“ اس نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے حجاب کو خوش دلی سے سلیوٹ کیا اور اس کے قریب جا کر ٹیبل پر ٹک گیا۔

”گاو�¿ں میں پینو کے علاوہ بھی تیری کچھ سہیلیاں تو رہی ہوںگی۔“

”ہاں، چند ایک تھیں۔“

”ان میں کوئی مو نچھوں والی بھی تھی؟“

”نہیں۔“

”چلو…اب ہوگئی۔“

حجاب اس کی بات کا مطلب سمجھ گئی مگر خاموش رہی۔ مرشد اس کے چہرے اور سر کے گرد لپٹی پٹی کو آہستہ آہستہ کھولتے ہوئے بولنے لگا۔

”میں بدمعاش بندہ ہوں اور پکے والا بدمعاش کوئی شریف بندہ نہیں ہوں، اس لیے دوغلاپن نہیں ہے مجھ میں لہذا اپنے دل و دماغ سے سارے شکوک و شبہات نکال پھینک اماں چاہتی ہے کہ میں جلد از جلد تجھے بلوچستان تیرے پھوپھا کے ہاں پہنچا دوں، اماں کا حکم سر آنکھوں پر۔ ان کے حکم کے علاوہ آج میں خود تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگلے چند روز تک تجھے باحفاظت وہاں تک چھوڑ آو�¿ں گا۔ تیری ہر طرح کی حفاظت مرشد کی ذمہ داری اس حوالے سے مرشد آج خود تجھے زبان دیتا ہے اور ایک زمانہ جانتا ہے کہ مرشد جان دے سکتا ہے مگر زبان سے نہیں پھر سکتا…یہ بات اچھے سے اپنے ”یہاں“ بٹھالے…“ اس نے انگلیوں سے حجاب کی کنپٹی تھپتھپائی۔

”لٹیروں کی اس بستی میں ہر قدم پر تو اس بدمعاش بندے کو اپنا محافظ پائے گی۔“

پٹی اتارنے کے بعد مرشد نے خاموشی سے اس کے زخم کی صفائی کرکے نئی پٹی باندھ دی۔ اس دوران حجاب کی یہ قربت خود بخود اس کے دل و دماغ کو اپنا احساس دلاتی رہی تھی۔ حجاب کے گھنے اور لمبے بال جو چادر کے نیچے کہیں گم ہوتے تھے، روکھے اور بے جان ہورہے تھے لیکن ان بالوں سے اٹھنے والی عودو عنبر کی سی مہک ویسی ہی بھرپور اور جان دار تھی حجاب کا ورم زدہ ہونٹ ٹھیک ہوچکا تھا۔ آنکھ کے قریب موجودنشان بھی بڑی حد تک مدہم پڑچکا تھا۔اس کی اس مرہم پٹی کے بعد مرشد ٹیبل کے ساتھ پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔ دواو�¿ں والی ٹرے کھسکا کر اس نے اپنے قریب کرلی اور قمیص کے بٹن کھول کر اپنے سینے کے زخم کا جائزہ لینے لگا۔ حجاب نے چادر دوبارہ سے سر پر اوڑھ لی۔ اس کے ذہن میں پینو کی باتیں گردش کر نے لگیں۔

”وہ تیری محبت میں گرفتار ہے۔“

بدمعاش بندہ ہے مگر اس کی آنکھ میں تیرے لیے کوئی میل نہیں ہے۔“

”تیرے لیے لڑ کر کٹ مرنا گوارا کرلے گا۔“

”شاید تیرے لیے یہ قدرت کا کوئی انتظام ہو۔“

”میں اس معاملے میں گاو�¿ں کی بدنام ترین لڑکی ہوں اور پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ اندر سے بری طرح گھائل ہے۔“

حجاب نے آہستہ سے نظریں اٹھا کر مرشد کی طرف دیکھا ، وہ باہر سے بھی گھائل تھا سامنے ہی صوفے پر بیٹھے، اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے وہ پوری توجہ سے اپنے سینے کے زخم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھا۔ اس کی گردن اور قمیض کے کالر پر بھی خون کے داغ موجود تھے۔ ان کے علاوہ یقینا اسے کچھ اور چوٹیں بھی آئی ہوں گی۔ حجاب نے محسوس کیا تھا کہ چلتے وقت وہ دائیں ٹانگ پر قدرے کم وزن ڈالتا تھا۔ یقینا ٹانگ پر بھی کوئی چوٹ آئی تھی اسے، اور یہ ساری چوٹیں اسے حجاب کی وجہ سے لگی تھیں…حجاب کو یقین نہیں تھا ،البتہ موہوم سی امید تھی کہ شاید یہ بندہ سچ میں کامیاب ہوجائے اور وہ بلوچستان اپنی پھوپھو کے ہاں پہنچ جائے۔ وہاں پہنچ کر وہ یقینا چوہدریوں کی درندگی سے محفوظ ہوجاتی ،لیکن اس کے بعد…مرشد کوتو واپس ادھر ہی لوٹ کر آنا تھا…حجاب کا یہی اندازہ تھا کہ مرشد کو ٹھیک سے معلوم نہیں کہ اس کی حفاظت کے چکر میں اس نے کن لوگوں سے دشمنی مول لے لی ہے۔وہ کتنے طاقت ور اور ظالم لوگ ہیں۔ ابھی اگر وہ دونوں یہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو بھی جاتے…مرشد اسے بلوچستان پہنچانے میں کامیاب ہوبھی جاتا تو واپسی پر اس کے ساتھ کیا نہیں ہوسکتا تھا۔ چوہدری کچھ بھولنے اور معاف کردینے والے لوگ تو نہیں تھے۔ آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں انہوں نے مرشد کی جان لے لینی تھی…اسے قتل کیے بنا وہ اب سکون سے بیٹھنے والے نہیں تھے۔وہ اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ اس کی مدد کے جرم میں مرشد نے اپنی زندگی مختصر کرلی ہے۔ اس کے باپ بھائیوں کی طرح عنقریب وہ بھی ایک درد ناک انجام سے دوچار ہونے والا تھا۔ اس خیال کے ساتھ ہی پہلی بارحجاب نے اپنے دل میں مرشد کے لیے ہمدردی کے جذبات کو محسوس کیااسے اس بدمعاش پر ترس آرہا تھا!

سینے کے زخم کے بعد اب وہ سر جھکائے سر کے عقبی حصے میں موجود زخم کو اسپرٹ اور روئی کی مدد سے صاف کرنے کی کوشش میں مصروف ہوچکا تھا اور اس کام میں اسے قدرے دشواری پیش آرہی تھی۔ چہرے پر تکلیف کے آثار بھی تھے۔ چند لمحوں کے فطری تذبذب کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے قریب چلی آئی۔ اس کے ہاتھ سے حجاب نے روئی کا پھاہا پکڑا تو مرشد نے سر اٹھاتے ہوئے خوش گوار حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

”یہ میں صاف کردیتی ہوں۔“

”اچھا جی یعنی میرے سر پر ڈاکٹری سیکھے گی تو۔“ مرشد نے مسکراتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی سر دوبارہ جھکالیا۔ گندی سی نائیلون کی چپل میں سے جھلک دکھلاتے اس کے گورے گداز پاو�¿ں مرشد کی آنکھوں کے عین نیچے تھے۔ اس کے سر کا زخمی حصہ دیکھتے ہی حجاب کے ہونٹوں سے بے اختیار ایک سسکی خارج ہوگئی۔

”مہربانی کر اب یوں ڈرا مت مجھے۔“ پتا نہیں مرشد نے اسے ٹوکا تھا یا احتجاج کیا تھا۔

”دو جگہ سے کھال پھٹی ہوئی ہے۔ سوجن بھی کافی ہے…گردن تک آرہی ہے۔“

”یہ کارخانہ کسی تنازعے کی وجہ سے ڈیڑھ مہینے سے بند پڑا ہے ورنہ پھٹی ہوئی کھال پر ویلڈنگ کا ٹچ لگوالیتا میں۔ ابھی مجبوری ہے، بس تو خون اچھے

سے صاف کردے اگر کر سکتی ہے تو۔“

حجاب کپکپاتے ہاتھوں سے زخم کے آس پاس سے بال ہٹاتے ہوئے روئی سے خون صاف کرنے لگی۔ مرشد کی بے پروائی اور بے فکری پر وہ حیران تھی۔ گردن سے اوپر کا حصہ اچھا خاصا متاثر تھا۔ وہ زخم صاف کرتے کرتے سوچ رہی تھی کہ اگر یہی چوٹیں اسے آئی ہوتیں تو شاید دو چار دن تک وہ سر اور گردن کو ٹھیک سے حرکت بھی نہ دے پاتی۔

”بڑی تگڑی قسم کی انا والی لڑکی ہے تو۔“

”وہ کیسے؟“مرشد کی بات پر وہ متفسر ہوئی۔

”فوراً سر کا بدلہ چکانے جو اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔“

حجاب خاموش رہی۔ مرشد نے ٹیبل ٹٹول کر ٹرے میں سے پلاسٹک کی ڈبیا اٹھالی۔

”زخم صاف کرکے یہ پوڈر اوپر سے چھڑک دے۔“

حجاب نے سر کے بعد اس کی گردن سے بھی خون صاف کیا اور مرشد کی ہدایت کے مطابق وہ پوڈر زخموں پر چھڑک دیا۔

”ہوگیا۔“وہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔

”ٹھیک ہے جی…بڑی مہربانی۔“ اس نے گردن کو دائیں بائیں حرکت دی۔ دو گولیاں لے کر منہ میں ڈالیں اور پانی پیتے ہوئے حجاب سے مخاطب ہوا ،جو دوبارہ اپنی جگہ پر جا بیٹھی تھی۔

”ابھی میں باہر بیٹھوں گا، تو ادھر صوفے پر کچھ دیر سستالے۔ سردی محسوس ہو تو یہ کھیس بھی پڑا ہے۔“ اس نے دوسرے صوفے پر پڑے کھیس کی طرف اشارہ کیا۔

”باہر تو تیز بارش ہے۔“

”تو میں بارش میں بیٹھنے کا تو نہیں کہہ رہا…تین چار گھنٹے اس دفتر سے باہر رہوں گا تاکہ تو اطمینان سے آرام کرسکے۔“

حجاب نے نظریں جھکالیں۔ مرشد نے اٹھتے ہوئے ٹیبل سے رائفل اٹھا کر کندھے کے ساتھ لٹکالی۔

”میں نہیں چاہتا تھا کہ ہماری وجہ سے پینوڑا خان کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی یا مصیبت بنے۔ ویسے بھی اس چار دیواری کی نسبت یہ جگہ میری نظر میں بہتر ہے…مغرب کے بعد جیسے ہی اندھیرا پھیلے گا ہم لوگ اس بستی سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ تو فی الحال آرام کر،بے فکر ہو کر…سمجھ لے میں باہر ہی بیٹھا ہوں…پہرے پر۔“

”میں ٹھیک ہوں آپ بے شک یہیں رہیں۔“ حجاب کی آواز پر وہ دروازے کی طرف پلٹتے ہوئے رک گیا۔ پھر حجاب کی طرف دیکھ کر ہنس پڑا۔

”تیری شکل بتا رہی ہے کہ تو کتنی ٹھیک ہے۔ تھکاوٹ اور نیند کے ہاتھوں کہیں ٹپک گئی تو خواہ مخواہ ایسے میرے سر مدعا پڑجائے گا۔ آرام کر تو۔“

وہ پلٹ کر آفس سے باہر نکل آیا۔ اسے اندازہ تھا کہ اس کی موجودگی میں وہ آرام نہیں کر سکے گی۔ اسے خود بھی تنہائی چاہیے تھی، سوچنے سمجھنے اور آگے کی منصوبہ بندی کے لیے ضروری تھا ورنہ تو دھیان حجاب کی طرف ہی لگا رہتا۔ حالات و واقعات جیسے بھی تھے، حجاب کے ساتھ ہونے کا احساس اس کے باقی تمام احساسات اور خیالات پر حاوی تھا۔ رگ وپے میں ایک عجیب سی ترنگ جاگی ہوئی تھی۔

صبح اسے خیال آیا تھا کہ جیدے کے ذریعے لاہور اپنے ساتھیوں کو فون پر اطلاع کردے کہ میں کہاں پھنسا ہوا ہوںمگر پھر اس نے ارادہ بدل دیا تھا۔

وہ ان لوگوں کو کسی بھی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔

یہاں کارخانے میں پہنچتے ہی اس نے سب سے پہلے ٹیلی فون ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر ناکامی ہوئی تھی۔ سب سے زیادہ فکر اسے اماں کی طرف سے تھی اور اس کے بعد ارشاد اور دلبر کی طرف سے…ارشاد کی ران میں گولی لگی تھی اور موٹر سائیکل کے ایکسیڈنٹ کے وقت اس نے دلبر کی چیخ سنی تھی۔ اس کے بعد کچھ دیر کے لیے تو اس کے اپنے حواس بھی مختل ہو کر رہ گئے تھے پھر اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتا دشمنوں نے اس پر غلبہ پالیا تھا۔ اسے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ دلبر کا انجام کیا ہوا، ابھی وہ کس حال میں ہوگا؟ کہیں ہوگا بھی یا…مراد اور اکو ّ پہلے ہی اچھے خاصے زخم کھانے کے بعد ڈاکٹر ظفر کے کلینک میں پڑے تھے۔

باہر موسم کے تیور ہنوز بگڑے ہوئے تھے۔ بارش پورے پاگل پن سے برس رہی تھی اور موسم کی یہ شدت انگیزی کافی حد تک ان کے حق میں ہی جاتی تھی۔

صبح ہنگامہ خیزی کے باعث وہ فجر کی نماز ادا نہیں کر پایا تھا۔ اب ظہر اور عصر کی نماز اس نے یہیں …آفس کے باہر گیلری کے فرش پر ادا کی تھی۔ بارش وقفے وقفے سے جاری تھی۔ کبھی زور پکڑ جاتی اور کبھی معمولی بوندا باندی کی صورت اختیار کرجاتی۔ اس دوران اس نے دو بار آفس میں جھانک کر دیکھا، حجاب سر تک کھیس اوڑھے صوفے پر پڑی سو رہی تھی۔

آسمان پر چھائے ہوئے سیاہ بادل اس قدر گاڑھے تھے کہ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی باہر گہرا اندھیرا محسوس ہونے لگا۔ تب ہی مرشد نے حجاب کو جگایا تھا۔ اسے جگانے کے بعد خود وہ گیلری میں نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ نماز کے ایک گھنٹے بعد یہاں سے نکل لیں گے لیکن بارش ایک بار پھر شروع ہوگئی تھی۔ مغرب کے بعد عشاءکی نماز بھی ان دونوں نے وہیں ادا کی۔ عشاءکی نماز کے بعد بارش تھمی تو مرشد کھیس کی بکل مارتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

”چل حجاب خان! کھڑی ہوجا۔ حرکت میں آنے کا وقت آگیا ہے۔“

دونوں آفس سے نکل کر واپس اسی طرف آگئے جدھر سے اس کارخانے میں اترے تھے۔ حجاب تھوڑی سی پریشان تھی کہ جیسے تیسے وہ چھت سے اتر تو آئی تھی لیکن اب دوبارہ اوپر چڑھے گی کیسے؟عقبی طرف پہنچ کر اس کی یہ پریشانی جاتی رہی۔ غسل خانے کی دیوار کے ساتھ لوہے کے چند صندوق اس ترتیب سے رکھے گئے تھے کہ چھت تک تین زینے بن گئے تھے جن کے ذریعے با آسانی چھت پر پہنچا جا سکتا تھا۔ یقینا یہ انتظام مرشد ہی کا کیا ہوا تھا۔ پہلے وہ ہی چھت پر پہنچا پھر حجاب۔

”بستی سے نکلنے میں تھوری بہت دشواری کا سامنا کر نا پڑسکتا ہے۔ کسی بھی قدم پر دل نہیں چھوڑنا … ٹھیک ہے؟“مرشد مخاطب تو اس سے تھا مگر اس کی نظریں اطراف کی چھتوں پر سر سرارہی تھیں۔ حجاب بس ”ٹھیک ہے“ کہہ کر خاموش ہورہی۔ وہاں سے وہ کمرے کی چھت سے ہوتے ہوئے کارخانے کی وسیع چھت پر پہنچ گئے۔ بستی کے تقریباً تمام گھروں میں روشنیاں جل رہی تھیں لیکن فضا میں ایسی تاریکی پھیلی ہوئی تھی کہ کارخانے کی اس چھت پر کھڑے ان دونوں کو یہ روشنیاں ٹمٹماٹے دیوں کی طرح دکھائی دے رہی تھیں۔ مرشد آگے بڑھ کر چھت کی عقبی منڈیر کے قریب جا بیٹھا۔ وہ وہاں سے نیچے جھانک رہا تھا۔ حجاب اس کے برابر موجود تھی اسے کوشش کے باوجود نیچے تاریکی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا۔

”کیا ہم نے یہاں اترنا ہے؟“

”ہاں، یہ سارا قبرستان ہے اور یہ…نیچے قبرستان کے احاطے کی دیوار ہے۔“

حجاب نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا لیکن اسے کوئی قبر نظر آئی نہ دیوار۔

”مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ چھت بھی کافی اونچی ہے… میں…میں کیسے اتر سکوں گی؟“وہ پریشان ہوگئی تھی۔

”کیسے اتر سکو گی، یہ مت سوچ۔ ایسی سوچ خوف اور پریشانی پیدا کرتی ہے۔ صرف اتنا سوچ کہ ہم نے یہاں سے اترنا ہے۔ دکھائی خود ہی دینے لگ جائے گا۔“ وہ ایک لمحے کے توقف سے پھر بولا۔

”میں یہاں سے نیچے دیوار پر اترتا ہوں۔ دیوار پر پہنچ کر میں کارخانے کی اسی دیوار کے ساتھ کمر لگا کر کھڑا ہوجاو�¿ں گا۔ تو ادھر پیچھے…کارخانے کی طرف منہ کرتے ہوئے اپنا دایاں پاو�¿ں میرے دائیں کندھے پر رکھے گی۔ تیرے بائیں پاو�¿ں کو میں بائیں ہاتھ سے سہارا دوں گا۔ اس کے بعد تو منڈیر سے دایاں ہاتھ نیچے مجھے تھمائے گی۔ اس سے آگے کا کام میرا۔“

”یہ تو بہت مشکل کام ہے۔ میں گر جاو�¿ں گی۔“ وہ واقعی بری طرح پریشان ہوگئی تھی۔ اسے لگا تھا کہ مرشد اسے سرکس کے کسی کرتب کے متعلق سمجھارہا ہے۔

”شاباشے…اوئے! مرشد اتنا مرا ہوا نہیں ہے کہ تیرا پھول جیسا وزن نہ سنبھال سکے۔“

”نن…نہیں یہ میں نہیں کر سکتی…مجھ سے نہیں ہوگا یہ۔“

”فٹے منہ…“ مرشد نے بدمزگی سے برا سا منہ بنایا۔ ”تو�± تو سوچنے سے بھی پہلے ہی شکست تسلیم کیے کھڑی ہے۔ ایک ذرا حوصلہ کرکے تسلی اور سنجیدگی سے سوچ تو سہی…ڈنگر نا ہو تو!‘

”مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“

”کوئی بات نہیں۔ڈرتے ڈرتے ہی اتر آنا۔“ اس نے حجاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور ایک ہاتھ منڈیر سے ہٹالیا۔ حجاب کا دل دھک سے رہ گیا۔ لیکن وہ کامیابی سے دیوار پر منتقل ہوچکا تھا۔

”چل ! آجا۔“ وہ دیوار سے پشت ٹکا کر کھڑا ہوگیا۔ حجاب کو وہ ہیولے کی صورت دکھائی دے رہا تھا۔ منڈیر سے اس کا سر تقریباً تین فٹ نیچے تھا۔

”منتر پڑھنا بند کر۔ نیچے آ۔“وہ دبی دبی زبان میں بولا۔

”کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا کیا ؟“ وہ منمنائی تھی۔“

”نہیں۔“

”مرشد جی…“

”اوئے ہوئے …تیرا یہ ” مرشد جی“ لے ڈوبے گا مرشد کو جھلیے! ایک بدمعاش کو اتنی عزت نہ دیا کر، بدمعاش خراب ہوجائے گا چل اب نیچے آ۔“ اس نے مصنوعی بے زاری سے کہا۔ وہ حجاب کے اترنے کا منتظر کھڑا تھا اور حجاب کا خوف کے مارے حلق خشک تھا۔

”اب کیا ساری رات یہی ڈرامہ جاری رہے گا؟“ مرشد کے لہجے میں ناگواری تھی۔ حجاب چار و ناچار کپکپاتے ہاتھ پیروں کے ساتھ اس کٹھن مرحلے کو سرکرنے کے لیے تیار ہوگئی۔چادر کو سمیٹ کر اس نے کندھوں پر ڈالا اور خداکو یاد کرتی ہوئی پیٹ کے بل گیلی اور یخ سرد منڈیر پر لٹک گئی۔ مرشد نیچے جم کر کھڑا ہوگیا۔ حجاب کا دایاں پاﺅں اس نے خود تھام کر داہنے کندھے پر ٹکایا۔ حجاب کو لگا کہ اس کا پاﺅں گوشت پوست کے وجود کے بجائے کسی ٹھوس اور سخت چیز پر جاٹکا ہے۔وہ ڈر تے ڈرتے منڈیر سے سرک کر تھوڑا مزید نیچے ہوئی تھی کہ مرشد کا چوڑا چکلا اور مضبوط ہاتھ اس کے

بائیں گھٹنے کے عین نیچے کسی مضبوط شکنجے کی طرح آجما۔

”دایاں ہاتھ ادھر مجھے پکڑا۔“ مرشد کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی مگر منڈیر چھوڑنے کا اسے حوصلہ نہیںہوا۔ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور سارا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔

”ہاتھ پکڑا مجھے۔“ مرشد نے گردن موڑ کر اوپر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ حجاب منڈیر سے چمٹی ہوئی تھی۔ اسے بے اختیار رونا آیا اور رونے کی آواز کو اس نے ہونٹ بھینچ کر روکا۔ اس کی گھٹی گھٹی ” ٹھنوں ٹھنوں“ کی آواز مرشد کے کان تک پہنچی تو وہ بے اختیار بولا۔

”اوئے…اوئے! ایسی سچویشن میں ہنستے نہیں، توازن بگڑتا ہے اس سے …چل دایاں ہاتھ پکڑا ادھر۔“

حجاب نے آنکھیں بند کرتے ہوئے دایاں ہاتھ منڈیر سے ہٹا کر آہستہ آہستہ نیچے جھکایا تو فوراً ہی مرشد نے اسے اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔

”یہ ہوئی نا بات۔ چل اب منڈیر چھوڑ دے…شاباش!“

مرشد نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا اور اپنے گھٹنوں کو خم دیتے ہوئے آہستہ آہستہ نیچے بیٹھنے لگا۔ یہ خاصا مشکل اور خطرناک کام تھا۔نیچے ایک اینٹ کی دیوار تھی اور اس دیوارپر مرشد نے آگے پیچھے رکھ کر پاﺅں جما رکھے تھے۔ حجاب ذرا بھی دائیں بائیں ڈگمگاتی تو مرشد کے لیے توازن برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجاتا۔ وہ دونوں قبرستان کی اس چھ سات فٹ اونچی دیوار سے نیچے آگرتے لیکن، ایسا نہیں ہوا۔

مرشد کے نیچے سرکنے کی وجہ سے منڈیر پر سے حجاب کاہاتھ بھی خود بخود نیچے سرک آیا تو اس نے قدرے جھکتے ہوئے فوراً اس ہاتھ سے مرشد کا سر تھام لیا۔ مرشد نے اسی طرح دیوار سے کمر ٹکائے ٹکائے حجاب کا بایاں پاﺅں اپنی نصف خمیدہ ران پر ٹکادیا۔ دوسرا پاﺅں دوفٹ اوپر ہنوز مرشد کے کندھے پردھرا تھا۔ حجاب کی قمیض اور چادر کا کچھ حصہ مرشد کے چہرے پر سرسراہا تھا۔ اس نے حجاب کی ٹانگ چھوڑتے ہوئے اپنے سر پر موجود اس کا ہاتھ تھام لیا دوسرا ہاتھ پہلے ہی اس کی گرفت میں تھا۔

”چل اب دایاں پاﺅں نیچے دیوارپر ٹکا۔“ اس کی آواز پر حجاب نے دھیرے دھیرے پاﺅں اس کے کندھے سے ہٹایا اور ڈرے ڈرے انداز میں پاﺅں سے نیچے دیوار کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔ چند لمحوں کے لیے دونوں کے چہرے آمنے سامنے ہوئے۔ اس طرح کہ دونوں نے ہی ایک دوسرے کی گرم سانسوں کا لمس اپنے چہروں پر بکھرتا محسوس کیا۔حجاب کی تو ویسے ہی جان پر بنی ہوئی تھی البتہ وہ چند لمحے مرشد کو بھی انتہائی جان لیوا محسوس ہوئے تھے آئندہ چند ہی لمحوں میں حجاب دونوں پاﺅں نیچے لٹکائے دیوار پر بیٹھی لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔ اسے محسوس ہورہا تھا کہ اس کا دل سینے سے اچھل کر کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا ہے۔ مرشد دیوار سے کود کرقبرستان کے اندر اترا تو چپل کے اندر سے اس کے پاﺅں بھی کیچڑ سے لتھڑ گئے۔یہاں مرشد نے ایک بار پھر وہی عمل دوہرایا جو کل رات کے آخری پہر وہ رانا اور فوجی لوگوں والے ڈیرے سے فرار کے وقت سر انجام دے چکا تھا۔ اس نے اچانک ہاتھ بلند کرتے ہوئے حجاب کی نرم و گداز کمر کو تھاما اور اسے دیوار سے کھینچ کر نیچے کھڑا کردیا۔ اس کی اس اچانک کارروائی پر حجاب کے پورے وجود میں ایک سنسناہٹ سی دوڑ گئی تھی۔

”چل آجا۔“ وہ حجاب کاہاتھ پکڑتے ہوئے دیوار کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگا۔ وہ پوری طرح چوکنا تھا۔ اس کا اندازہ تھا کہ ہو نہ ہو دشمن بستی سے باہر جانے والے تمام راستوں کونظر میں رکھے ہوئے ہوں گے۔ پولیس کی موجودگی بھی بعید از قیاس نہیں تھی۔

دن بھر ہونے والی بارش نے قبرستان کی زمین کو دلدل جیسی کیچڑ میں تبدیل کررکھا تھا۔ دونوں کے پاﺅں اس کیچڑ میں دھنس دھنس جارہے تھے اور انہیں آگے بڑھنے میں دقت پیش آرہی تھی۔پیر جوتیوں میں پھسل رہے تھے اور جوتیاں پیروں سے پھسل رہی تھیں۔ایک جگہ تو حجاب پھسل کر گرنے

لگی تھی کہ مرشد نے فوراً اسے سنبھال لیا۔

”اتنی بے صبری کیوں دکھا رہی ہے۔ آرام سے چل۔“

”جوتی پھسل رہی ہے۔“

”دھیان سے ،جوتی پیروں میں ہی رہے۔ ادھر سے نکل کر پاﺅں کہیں دھولیں گے۔“

”ہم ادھر کدھر جارہے ہیں؟“

”ابھی تو پتا نہیںلیکن جدھر سے یہ گاڑیوں کی آوازیں آرہی ہیں، ادھر پہنچنا ہے ہم نے۔“

تقریباً سو قدم دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے رہنے کے بعد مرشد نے رخ بدلا اور قبرستان کی اندرونی طرف کو چل پڑا۔ چاروں طرف بے شمار کچی پکی قبریں بکھری ہوئی تھیں۔ یعنی وہاں چاروں طرف زمین کے اندر بے شمار لاشیں موجود تھیں۔ بہت سارے مردے،بہت سارے ڈھانچے۔

حجاب سہمی سہمی سی چل رہی تھی۔ مرشد کا ساتھ اسے چلتے رہنے کا حوصلہ بخش رہا تھا ورنہ اس قدر اندھیرے میں قبرستان کے اندر لڑکھڑاتے ڈگمگاتے ہوئے آگے بڑھتے رہنے کا اس میں تو یارا نہیں تھا۔

جگہ جگہ موجود خود رو جھاڑیاں اور جنگلی کیکروں کے درخت ماحول کی پراسراریت اور خوف ناکی میں مزید اضافے کا باعث بنے ہوئے تھے۔

چلتے چلتے اچانک ایک جگہ پاﺅں رکھتے ہی حجاب کے وجود کو زور کا دھچکالگا اور بے ساختہ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ اس کی بائیں ٹانگ پنڈلی تک ایک قبر کے اندر دھنس گئی تھی مرشد نے اس کا ہاتھ نہ تھام رکھا ہوتاتو وہ بری طرح گر پڑی ہوتی۔

”ایک تو تو�± کسی کھوتے کے کھر کی بات نہیں سنتی مانتی کہا بھی ہے کہ زیادہ بے صبری نہ دکھا،پھر بھی۔“

”اس میں میرا کیا قصور ہے!“ وہ بے چارگی سے بولی اور مرشد کا سہارا لیتے ہوئے ٹانگ اس نے کھینچ کر قبر سے باہر نکال لی۔

”چوٹ تو نہیں آئی؟“ مرشد کی آواز میں اسے اپنے لیے فکر مندی محسوس ہوئی تھی۔

”نہیں۔“

”دھیان سے چل ذرا۔“

ایک بار پھر وہ آگے بڑھنے لگے۔ سامنے چند قدم کے فاصلے پر ایک برگد کا پیڑ تھا اور اس پیڑ کے نیچے ایک جھگی کا ہیولہ سا محسوس ہورہا تھا۔ شاید کسی ملنگ نے یہاں ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ مرشد کا ارادہ وہاں سے خاموشی سے گزر جانے کا تھا لیکن بالکل اچانک اس جھگی کے اندر سے دو ہیولے تڑپ کر باہر نکلے اور ایک طاقت ور ٹارچ کی روشنی نے ان کی آنکھیں چندھیا کر رکھ دیں۔ساتھ ہی ایک بھاری تحکمانہ آواز مرشد کے کانوں سے ٹکرائی۔

”بس اوئے!اپنی جگہ سے ہلنا نئیں ورنہ سینہ چھاننی کردوں گا۔“

٭ ٭ ٭

چوہدری اکبر علی بالکل اچانک ہی سیڑھیوں پر سے نمودار ہوا تھا۔ان دونوں ہی کو ایسی کوئی توقع نہیں تھی۔اس کے چہرے پر نفرت اور وحشت برس رہی تھی اور ہاتھوں میں ایک خوف ناک شکل کی بندوق تھی۔ حسن آرا کا دل لرز اٹھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی حرکت کرتی یاکچھ بولتی چوہدری اکبر نے بندوق کا رخ میر ارشد اللہ کے سینے کی طرف کیا اور گولی چلا دی۔ حسن آرا نے بندوق کی بھیانک نال سے آگ کا ایک بھبھکاسا چھوٹتے دیکھا۔ اس کے کانوں نے برابر میں کھڑے میر ارشد اللہ کے سینے سے ٹکراتی گولی کی آواز سنی اور ان کی درد ناک کراہ بھی۔اس کی اپنی ہی چیخ کی آواز تھی جس سے اس کی آنکھ کھل گئی۔

وہ اپنے ہی کمرے میں تھی۔ پلنگ کے برابر فرش پرلگے بستر پر۔رات جاگتے گزری تھی۔آدھا دن بھی جاگتے ہی گزرا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد وہ بالکل نڈھال سی ہو کر لیٹی تھی اور اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ اب عصر کا وقت ہورہا تھا تو اس منحوس خواب نے اسے جھنجوڑ کر جگا دیا تھا۔ دل بری طرح دھڑک رہا تھا حلق بالکل خشک تھا۔ اس نے اٹھ کر چند گھونٹ پانی پیااور کمرے سے باہرنکل آئی۔ صدر دالان میں بیٹھے جعفر اور قادرے نے اسے آتے دیکھا تو فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

”کچھ پتا چلا ؟کوئی خبر ملی؟“

”نہیں خالہ! لیکن اپنے اور مرشد بھائی کے سارے یار دوست ان کے پیچھے نکلے ہوئے ہیں۔ آپ تسلی رکھیں، شام تک یا رات تک وہ لوگ واپس آجاویںگے۔“ جعفر نے مطمئن انداز میں کہا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اور باقی ساتھی بھی مرشدکے حوالے سے قدرے پریشان تھے لیکن مرشد کی پریشان حال اماں کے سامنے کسی اندیشے یا فکر مندی کا اظہار کرکے وہ اسے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ حسن آرا پلٹ کر واپس اپنے کمرے میں آگئی۔ رات گزر چکی تھی۔ دن بھی تقریباً گزر ہی گیاتھا لیکن ابھی تک مرشد اور حجاب کے حوالے سے کوئی اطمینان بخش خبر نہیں مل سکی تھی۔ رات جب وہ جرائم پیشہ صورتوں والے لوگ حجاب کو زبردستی کمرے میں سے گھسیٹ کرلے گئے تھے اور کمرے کے دروازے کی باہر سے زنجیر چڑھا گئے تھے، اس وقت حسن آرا نے کمرے کی کھڑکی میں سے چیخ چیخ کر مرشدکو پکارا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ باہر مرشد کے دوست ساتھی موجود ہیں۔ مرشد تو نہیں البتہ دروازے کی زنجیر آکر جعفر نے ہٹائی تھی اور ایک بھگدڑ اور افراتفری کا ماحول بن گیا تھا۔ عقبی طرف کہیں فائرنگ بھی ہوئی تھی۔ پھر وقفے وقفے سے اسے چند خبریں موصول ہوئیں۔

شب خون مارنے والے کامیابی سے حجاب کولے نکلے تھے مرشد اور دلبر ان کے پیچھے گئے تھے پھر پتا چلا کہ ارشاد نامی بندے کی ٹانگ میں گولی لگی ہے اور اسے اسپتال پہنچایا گیاہے ساون کچھ ساتھیوں کے ہمراہ مرشدکے پیچھے نکل گیا تھا صبح کے قریب معلوم ہوا کہ رات شیخوپورہ روڈ سے دلبر انتہائی زخمی حالت میں ملا تھا۔ غالباً کوئی ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور اب وہ اسپتال میں ہے۔ اسے اسپتال پہنچانے والا ساون تھا۔ وہ خود تو لوٹ آیاتھا البتہ کچھ دوسرے ساتھی مرشد اور حجاب کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے لیکن تاحال ان دونوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں مل سکی تھی۔

 دن چڑھتے ہی آس پڑوس والیاں خیر خبر کے لیے آنے لگیں۔ فیروزہ بھی چکر لگا گئی تھی۔ حسن آرا کے متعلق وہ سب ہمدردانہ جذبات اور مثبت خیالات رکھتی تھیں پھر بھی بیشتر نوچیوں اور طوائفوں کا خیال تھا کہ حسن آرا نے خواہ مخواہ ہی اس حجاب نامی چھوکری کے چکر میں مسئلہ کھڑا کرلیا ہے۔ گندے اور طاقت ور لوگوں کے ساتھ دشمنی ڈال لی ہے۔ ان میں سے کچھ اپنے ان خیالات کا اظہار بھی کرگئی تھیں لیکن حسن آرا نے کسی سے نہیں کہا

کہ وہ لڑکی صرف لڑکی نہیں ہے بلکہ سادات گھرانے کی لڑکی ہے۔ ایک سید زادی ہے آل نبی ﷺاور اولاد علیؑ میں سے ہے۔ وہ بس خاموش رہی تھی۔ حجاب کی زرد اور سراسیمہ صورت رہ رہ کر اس کے پردہ تصور پر روشن ہوتی رہی اور اس کے اضطراب اور فکر مندی میں اضافہ کرتی رہی۔

 رات جو کچھ بھی ہوا تھا وہ اس قدر اچانک اور برق رفتاری سے ہوگزرا تھا کہ جس کی کسی کو بھی کوئی توقع نہیں تھی۔ حسن آرا نے اپنی سی مزاحمت بھی کی تھی مگر کیا وہ بیمار کمزور جان اور کیا اس کی مزاحمت۔ ان وحشی صورت بندوں میں سے ایک نے اس کے بازو مروڑ کر اسے پلنگ پر دھکیل دیاتھا اورپھر پلک جھپکنے کی سی تیزی سے وہ کمرے سے نکل گئے تھے۔ حسن آرا کے بائیں کندھے میں تب سے درد تھا۔ وہ وقفے وقفے سے کندھے اور بازو کے جوڑ والے حصے کو دبانے لگتی تھی۔ پھر اسے حجاب کی تکلیف اور مشکل کا خیال آتا تو اسے اپنا درد بھول جاتا۔ وہ بے اختیار حجاب کی خیریت اور سلامتی کی دعائیں کرنے لگتی۔ مرشد اس کے تعاقب میں گیاتھا اور تاحال اس کی یا اس کی طرف سے کسی قسم کی خیر خبر نہ ملنے کی وجہ سے، کسی وقت تو دل کو ایک ڈھارس سی ہوآتی کہ مرشد حجاب پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گا اور کسی وقت خود مرشد کے حوالے سے بھی دل و دماغ میں ایک تشویش سی بیدار ہوآتی کہ خدا جانے وہ خود کہاں اور کس قسم کی صورت حال سے دو چار ہے؟

 جیسے جیسے وقت آگے سرکتا جارہاتھا۔حسن آرا کی تشویش بڑھتی جارہی تھی لیکن عجیب بات یہ تھی کہ حسن آرا کی یہ تشویش اس حوالے سے نہیں تھی کہ کہیں مرشد کو کچھ ہونہ جائے اسے تشویش اس بات پرتھی کہ کہیں مرشد حجاب بی بی کی حفاظت اور بازیابی میں ناکام نہ ہوجائے۔

اکبر علی اور فرزند علی کا خیال باربار اس کی سوچیں زخماتا تھا۔ اکبر علی کی شیطنت اور کینہ پروری سے تو وہ بہت پہلے سے واقف تھی ،اب فرزند علی کو بھی دیکھ سمجھ چکی تھی۔ وہ باپ سے چار قدم بڑھ کر خباثت اور فرعونیت کا مالک تھا۔ آج سے ستائیس اٹھائیس سال پہلے اکبر علی سے اس کا واسطہ پڑا تھا اور اس کی زندگی اس کے لیے ایک مستقل سزا بن کر رہ گئی تھی۔ بیس سال پہلے ایک طرح سے ان کی آخری ملاقات ہوئی تھی اور اب بیس سال بعد وہ اپنے درندہ صفت بیٹے کے ہمراہ پھر سے اس کے سامنے‘اس کے مقابل آکھڑا ہوا تھا۔ ستائیس سال پہلے اس نے اپنا جذباتی مدار گنوایا تھا۔ اپنے جسم و جاں کے محرم کو کھویا تھا۔ میر ارشد اللہ لاپتہ ہوئے تھے اور اب…کل رات سے انہی میر صاحب کا خون، ان کی آخری نشانی اور حسن آر کا لخت جگر مرشد لاپتہ تھا۔اس کی کوئی خیر خبر نہیں تھی۔ حسن آرا کے نزدیک وقت اور حالات وواقعات کا یہ الٹ پھیر قدرت کی کوئی سازش تھی قدرت شاید پھر سے کوئی کہانی کوئی کھیل رچنے جارہی تھی پھر سے کسی آزمائش ،کسی امتحان سے، اس کے حوصلے اور صبر کو جانچا پرکھا جانے والا تھا۔

اس کے ذہن کی تاریک تہوں میں دفن ایک یاد کسمسا کر بے دار ہوئی اور اندھیرے میں ایک منظر کی صورت روشن ہو آئی۔ یہ منظر کم از کم بھی ستائیس سال پرانا تھا۔سرکار پاکستان نے ا بھی محفلوں مجروں پر پابندی نہیں اٹھائی تھی۔ بازار کی رونقیں اور روشنیاں دیدنی ہوا کرتی تھیں۔ حسن آرا نے گزشتہ رات ہی محفل میں اپنی زندگی کا پہلا رقص پیش کیاتھا اور دوسری رات جب محفل میں جانے سے پہلے وہ اپنے کمرے میں تیار ہورہی تھی تو چوہدری اکبر علی نزہت بیگم کی سفارش سے اس کے کمرے میں چلا آیا تھا۔ نزہت بیگم خود بھی ساتھ ہی تھی۔

”اے حسن آرا! ان سے ملو بیٹی! یہ ہیں چوہدری اکبر علی۔ میں نے ذکر کیا تھانا…بڑے ہی قدر شناس اور دل دار طبیعت کے مالک ہیں۔ تیرے لیے سونے کی پازیبیں لائے ہیں‘ کہہ رہے تھے اپنے ہاتھوں ہی سے حسن آرا کے پیروں میں پہنائیں گے۔“نزہت بیگم کچھ زیادہ ہی خوش اخلاقی پر مائل تھی۔ حسن آرا نے اسٹول پر بیٹھے بیٹھے سنگھار میز کے آئینے میں اکبر علی کو دیکھا۔ مضبوط جسم، گورارنگ ،تاﺅ دلی مونچھیں اور شراب کے خمار میں ڈوبی سرخ سرخ آنکھیں۔

”اس کی وجہ ہے بائی جی!حسن آرا کے چاندی جیسے پیروں میں یہ سنہری پازیبیں کیسی دکھتی ہیں۔ یہ نظارہ سب سے پہلے اکبر علی کی آنکھوں کو دکھائی دینا چاہئے۔“وہ بوجھل لہجے میں بولتا ہوا آگے بڑھ آیا۔

”خداکی کاری گری کہوں آپ کی فنکاری کہوں یا کیا کہوں…آپ نے تو کل رات بندے کا اندر ہلا کر رکھ دیا حسن آرا! ایسا ناچ، ایسی محفل پہلے نہیں دیکھی تھی کبھی۔ دل میں ایسا بھانبھڑ بھڑکا دیا آپ نے کہ اب کیا بتاﺅں آپ کو۔“

اکبر علی اس کے عقب میں آکھڑاہوا۔ اس کی تپش دیتی آنکھوں کا لمس حسن آرا کی پیٹھ پر سرسرارہا تھا۔ حسن آرا بہ آہستگی اس کی طرف پلٹ پڑی۔اکبر علی کے چہرے اور آنکھوں سے ہوس ناکی مترشح تھی۔ نظروں میں ایک اوچھا ندیدہ پن تھا اور خال وخد میں حیوانی جبلت کی مخصوص سنسناہٹ…حسن آرا کی مردم شناسی کی تعلیم ان لمحوں اسے بخوبی سمجھا رہی تھی کہ اکبر علی خود کو ایک تہذیب یافتہ فرد ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔

”چوہدری صاحب!آپ کو بھلا اتنی زحمت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ پازیبیں ہمیں تھمائیں ہم خود پہن کر حضور کو دکھا دیتے ہیں۔“اس نے مسکراتے ہوئے بغور اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔

”نہیں حسن آرا!اس میں زحمت کی کوئی بات نہیں ہے۔“وہ دیوار کے ساتھ تپائی کھینچ کر حسن آرا کے سامنے بیٹھ گیا۔

”آپ اس قدر دانی اور عزت کی حق دار ہیں بلکہ یہ تو بس معمولی سلامی ہے آپ کے حسن و خوب صورتی کو، میں تو آپ کو پور پور سونے چاندی سے سجادوں گا۔لائیں، پاﺅں ادھر کریں۔“ وہ کرتے کی جیب سے چمچماتی ہوئی پازیبیں نکال کر بھوکی نظروں سے حسن آرا کی ٹانگوں کو دیکھنے لگا۔

”یہ تو آپ کا بڑا پن ہے چوہدری صاحب ،جو آپ اس صورت عزت افزائی فرما رہے ہیں۔“نزہت بیگم نے خوشامدانہ لہجے میں کہا اور ساتھ ہی حسن آرا کو اشارہ کیا کہ وہ ٹانگ آگے بڑھائے۔ اس نے عمل کیا، اکبر علی نے اس کا پاﺅں اپنی ران پر رکھ لیا۔

”حسن آرا جی!اپنی طبیعت اگر شاعرانہ ہوتی تو قسم سے ایک دیوان شیوان تو میں صرف آپ کے ان خوب صورت پیروں ہی پر لکھ مارتا۔ سدھی بات تو یہ ہے کہ کل رات محفل میں موجود سارے لوگ ہی گھائل ہوئے ہوں گے مگر اکبر علی سے زیادہ بری طرح گھائل کوئی اور نہیں ہوا ہوگا۔“

اس کے ہاتھوں کی حدت اور انگلیوں کا اضطراب انگیز لمس حسن آرا کے دل و دماغ میں الجھن اور ناگواری کے احساسات جگاتا رہا مگر اس نے اپنے چہرے سے ایسا کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا یہ اکبر علی سے اس کی پہلی ملاقات تھی، تعارف تھا۔ وہ جتنی دیر وہاں بیٹھا اپنے جذبات خیالات کا اظہار کرتا رہا،حسن آرا کو اپنے دل و دماغ پر ایک بوجھ اور کراہت کا احساس ہوتا رہا۔

آئندہ دنوں وہ” گھائل گدھ“ پوری طرح حسن آرا پر فریفتہ ہوگیا۔ اس کی یہ فریفتگی کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ حسن آرا پر اترنے والا شباب تھا ہی ایسا سحرخیز کہ جس کی بھی نگاہ اٹھتی ‘پتھرا جاتی۔ غیر معمولی بات تھی اکبر علی کی طبیعت اور مزاج…وہ کینہ پرور اور ضدی تھا۔ بد دماغ اور جنونی تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ وہ یہ سب اپنی زبان سے بتلاتا جتاتا بھی رہا اور اپنی حرکتوں سے ثبوت بھی دیتا رہا۔ خود ساختہ طور پر ہی اس نے حسن آرا کو اپنا پابند‘ اپنی ملکیت سمجھنا شروع کردیا تھا۔کافی حد تک اس کے ایسے رویے کی ذمہ دار نزہت بیگم تھی جو اپنے طورپر ہی اس کی آسیں امیدیں بندھا کر اس سے تحفے تحائف اورمال پانی بٹور رہی تھی۔ حسن آرا تھی تو وہ اس دوران اپنی دوشیزگی میر ارشد اللہ کے قدموں میں ارپن کرچکی تھی لیکن اکبر علی کو اس بات کا علم نہیں تھا اندازہ تک نہیں تھا!

٭ ٭ ٭

مغرب کی نماز کے بعد شازیہ کھانا لے کرآئی تو کچھ دیر کو وہ پھر حال میں حاضر ہو آئی۔ بس شازیہ ہی تھی جو آجارہی تھی۔ حسن آرا کا خیال رکھ رہی تھی۔ نزہت بیگم بس صبح کچھ دیر کو آئی تھی اور منہ سجائے کھڑے کھڑے دو چار باتیں سنا کر واپس لوٹ گئی تھی۔ اس کا مقصد صرف یہ بتانا جتانا تھا کہ ان میں سے کسی کا بھی اب حجاب والے اس رپھڑ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں اور یہ کہ اب جو کچھ بھی ہو وہ اور اس کا سانڈ اب اپنے طورپرآپ ہی بھگتیں۔ 

چند لقمے کھاکراس نے دو تین گولیاں نگلیں اور دوبارہ اسی جگہ لیٹ گئی۔ ذہن میں پھر سے ایک منظر روشن ہوا آیا۔ایک بھاری آواز اور مہذب لہجہ اس کے اندر گونج اٹھا تھا۔

”آج ہم اپنی ہی نظروں میں نا اہل اورمعتوب ٹھہر چکے ہیں۔“میر ارشد اللہ اپنے سرخ وسپید چہرے پر گھمبیرتا سمیٹے بول رہے تھے۔

”ہم مجرم ہیں۔ اپنے خاندان ‘ اپنے لوگوں کے…اپنی شریک حیات کے،جس کا حق ہم نے یہاں آپ کے ساتھ بانٹا ہے۔ ہم اپنی اولاد اپنے دونوں بچوں کے بھی مجرم اور گناہ گار ہیں اور…اور خطا و گناہ کا یہی احساس ہمارے لیے سوہان روح بن کر رہ گیا ہے۔ہم…ہم آئینہ دیکھتے ہوئے خود سے بھی ندامت محسوس کرتے ہیں حسن آرا!“وہ ان کے لہجے کی کرب ناک دیانت پر تڑپ اٹھی تھی۔

”حسن آرا کی جان آپ پر قربان میر صاحب! آپ اس اذیت کی پرورش کرتے ہوئے کیوں خود کو ہلکان کئے ہوئے ہیں۔ آپ نے کسی زور وجبر سے تو کام نہیں لیا۔ ہم نے اس رات اپنی خوشی اور رضا سے اپناآپ حضور کے سپرد کیا تھا۔ دل و جان سے آپ کو اپنا حق دار تسلیم کیا تھا۔ آپ کی قربت میں گزرے وہ لمحات ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں اور با خدا ہم آخری سانس تک ان لمحات کو اپنی روح کی گہرائیوں میں کسی مقدس امانت کی طرح چھپا کر رکھیں گے۔“

میر ارشد اللہ نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی اور مضطربانہ انداز میں اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے۔ ان کے روئیں روئیں سے ان کی بے چینی اور بے سکونی ظاہر ہورہی تھی۔ چند لمحے ادھر ادھر ٹہلتے رہنے کے بعد وہ کھڑکی کے سامنے جاکھڑے ہوئے۔ کھڑکی کے سامنے کھنچا ریشمی پردہ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر ایک طرف ہٹایا اورکھڑکی سے باہر تاحد نظر پھیلے ،ستاروں بھرے آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ کمرے کے اندر ایک مضطرب سی خاموشی ہلکورے لیتی رہی۔ وہ منتظر تھی کہ میر صاحب کچھ کہیں گے مگر وہ تو کھڑکی میں کھڑے باہر آسمان کی بے کراں وسعتوں میں جانے کیا دیکھنے ‘تلاشنے کی سعی میں محوتھے۔

”میر صاحب…“ہوا کا دھلا نکھرا ساجھونکا کھڑکی سے گزرکر ان کے چہرے سے ٹکرایا۔ ”آپ کی اپنی کوئی مجبوری کمزوری رہی ہوگی اور ہماری تو خیر تقدیر ہی یہی ٹھہری…ہم جانتے ہیں کہ ہم آپ کے قابل نہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آپ وہ پہلے انسان ہیں جو ہم تک پہنچے ہیں، ہمارے وجود سے واقف ہوئے ہیں۔ ہم نے سب کچھ آپ کی نذر کردیا۔آپ اگر یقین کرسکیں تو کرلیں کہ اس سب میں کہیں کچھ بھی ”جھوٹا“ یا…”جھوٹھا “ نہیں تھا ہمیں اپنی حیثیت اور اوقات کا بھی بخوبی ادراک ہے۔ اس کے باوجود ہم خود کو یہ کہنے پر مجبور پاتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی کسی مشکل یاپریشانی میں کسی بھی طرح…کچھ کام آسکتے ہیں تو بس اشارہ کرکے دیکھیے۔ یہ کنیز آپ کی ایک مسکراہٹ کے لیے اپنی سانسیں تک قربان کرسکتی ہے۔“

یہ ایک طوائف زادی…ایک آدھی طوائف کے اندر جینے والی لڑکی کا پورا سچ تھا میر ارشد اللہ نے اپنی جگہ سے پلٹ کر اس کی سمت دیکھا،چند لمحے گہری نظروں سے دیکھتے رہے پھر ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوئے۔

”حسن آرا! ہم یہاں آپ کی تضحیک کرنے یا اپنا اعلا حسب نسب جتانے کی نیت سے ہر گز نہیں آئے۔نہ ہی اس ساری گفتگو سے ہمارا ایسا کوئی مقصد ہے۔ یہ سب تو ہم نے آپ کو اپنی ذہنی و جذباتی حالت سمجھانے کی غرض سے کہا ہے۔ شاید کہ آپ کچھ اندازہ کرپائیں کہ ہم کس عذاب کا شکار ہوچکے ہیں۔ مختصر الفاظ میں کہنا پڑے تو ہم یوں کہیں گے کہ اس عذاب …اس وحشت واذیت کو سینے میں دبائے جیتے چلے جانا ہمارے لیے قطعی ممکن نہیں ہے اور اس سے نجات کے ہمارے سامنے صرف دو راستے ہیںاول یہ کہ ہم اپنی زندگی کا فیصلہ کرتے ہوئے خودکو شوٹ کرلیں،بزدلی اور حرام کی موت مرجائیں جوکہ ہمیں بالکل بھی گوارا نہیں۔ دوسرا راستہ ایسا ہے کہ اس کا ممکن ہونا نہ ہونا آپ پرمنحصر ہے۔ اس کا انحصار آپ کی مرضی پرہے اور آج…یہاں آپ کے روبرو ہم پھر سے موجود ہیں توصرف اور صرف اسی بنا پر…آپ کی مرضی اور رضا جاننے کی غرض سے۔“وہ دھیمے لہجے میں کہتے نپے تلے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے سامنے آکھڑے ہوئے تھے۔

”آپ بس حکم دیجئے ہم آپ کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟“وہ سوالیہ انداز میں بولی۔ اس بات کی اسے توقع ہی نہیں تھی ،کچھ اندازہ ہی نہیں تھا کہ میر ارشد اللہ کیا کہنے والے ہیں، وہ کیا ٹھان کر آئے ہیں وہ چند لمحے بالکل بے حس وحرکت اور خاموش کھڑے رہے پھر ان کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔

”ہم آپ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں!“

”کک…کیا…یہ …یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“وہ دنگ ہی تو رہ گئی تھی۔ اسے اپنی سماعت پر شبہ ساہوا تھا۔

”جوآپ سن رہی ہیں آپ کے ساتھ ہمارا وہ تعلق بن گیا ہے جو صرف اور صرف شریک حیات ہی سے ہوتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی تنہائی اور جسموں کے ان پہلوﺅں سے آشنا ہوچکے ہیں جو بہت ہی ذاتی ہوتے ہیں۔ اس رشتے، اس تعلق کا مطلب ہوتا ہے ایک دوسرے کی شرم و حیاکامحرم ہوجاناایک دوسرے کی عزت وغیرت میں حصہ دار ہوجانا، جوکہ ہم ہوچکے ہیں۔ آپ کے خیال سے اب ہمیں حیا اور غیرت آتی ہے حسن آرا! ہم…ہم اب آپ کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ کسی صورت بھی نہیں۔“

تماش بین مردوں کی اقسام اور ان کی نفسیات کے متعلق اسے آج تک جتنی بھی تعلیم دی گئی تھی۔ ان لمحوں میر صاحب کے روبرو وہ سب دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ مجرا دیکھنے کوٹھے پر آنے والا ایک مرد اور شرم و حیا کے حوالے سے اس کا ایسا نکتہ نظر…وہ سمجھ ہی نہیں پارہی تھی کہ یہ خوش پوش اور خوش رو شخص مردوں کی کون سی قسم سے تعلق رکھتا ہے وہ بس ساکت بیٹھی حیرت وبے یقینی سے ان کی صورت دیکھے گئی تھی۔

”آپ اس طرح خاموش کیوں ہیں؟“

”کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ…اس وقت کچھ زیادہ ہی حساس اورجذباتی ہورہے ہیں۔“اس نے دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے نظریں جھکالیں۔ میر صاحب دوبارہ سامنے والی مسہری پر گاﺅ تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔

”آپ درست کہہ رہی ہیں۔ ہم واقعی جذباتی ہورہے ہیں اور جذباتی کیوں نہ ہوں؟ یہ معاملہ، یہ صورت حال ہی ایسی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ،آپ نے خود بھی فرمایا ہے کہ ہم وہ پہلے انسان ہیں جو آپ تک پہنچے ہیں…آپ کے وجود سے واقف ہوئے ہیں۔ اپنی جذباتی اور جسمانی حقیقت کے متعلق آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سب میں کچھ بھی جھوٹا اور جھوٹھا نہیں تھا۔ ایک ذرا آپ خود ہی سوچیں اور ایمان داری سے ہمیں بتائیں کہ ہماری

غیرت یہ کیسے برداشت کرے کہ آپ کی ذات کا خلوص اور سچائیاں سمیٹ چکنے کے بعد اب ہم آپ کو زمانے کے استعمال کی ایک چیز کے طورپر چھوڑ دیں…ہم جانتے ہیں حسن آرا کہ ایک عورت میں حقیقی عورت پن تبھی برقرار رہ پاتا ہے جب وہ ساری زندگی، اسی مرد کے ساتھ گزارپائے جسے کہ وہ پہلی بار پورے خلوص سے اپنا تن من سونپتی ہے۔ اپنی نسوانیت ،اپنی محبت کا حق دار تسلیم کرتی ہے۔ اس کے بعد کی ساری زندگی تو وہ بس ایک خالی اور کھوکھلے وجود کی صورت باقی رہتی ہے دوسرے کسی بھی مرد کو اس کی جسمانی سچائی سے آگے رسائی نصیب نہیں ہوپاتی۔کوئی اس کے اندرکی عورت کو دریافت نہیں کرپاتا کیونکہ وہ تو پہلے ہی کسی اور پر قربان ہوچکی ہوتی ہے وہ مزید باقی نہیں رہی ہوتی، ختم ہوچکی ہوتی ہے اورجب اندر کی عورت ختم ہوجائے ،مر جائے تو وجودبس ایک چیز …ایک شے بن کر رہ جاتا ہے۔ پھر اسی شے نما وجود میں کسبی یا طوائف جنم لیتی ہے اور یوں ایک نہ ختم ہونے والے مکروہ اور قابل نفرین سلسلے کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ہم ایسے کسی سلسلے کے آغاز کے ذمہ دار نہیں بننا چاہتے حسن آرا!ہم کسی عورت کے خاتمے یا کسی بھی طوائف کے جنم کی وجہ بننا گوارا نہیں کرسکتے۔ ہم اسے اب اپنی حماقت ٹہرائیں یا حادثہ ہم دونوں ایک دوسرے کے محرم راز تو ہوچکے۔آپ ،ہمیں اب ہماری ذمہ داری محسوس ہونے لگی ہیں اور ہم تادم آخر اس ذمہ داری کو نبھانے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ فقط آپ کی رضا مندی درکار ہے۔ ہم آپ کے ساتھ نکاح کریں گے اور آپ باقی کی زندگی ہماری شریک حیات کی حیثیت سے ہمارے ساتھ گزاریں گی۔“ میر ارشد اللہ خاموش ہوئے تو حسن آرا نے نظریں اٹھا کر دیکھا، وہ اسی کی طرف متوجہ تھے۔ حسن آرا فوری طورپر کچھ بھی نہ کہہ سکی۔ اس کے اندر ایک ہلچل ،ایک اتھل پتھل شروع ہوگئی تھی۔ دل اڑ کر آسمانوں کو چھولینے کے لیے بے قرار ہواٹھاتھا تو ذہن اسے اس کی حیثیت اور نصیب کی پستیوں کو دھیان میں رکھنے پر زور دے رہا تھا۔ ابھی وہ کچھ کہنے کے لیے مناسب اورموزوں الفاظ ہی سوچ رہی تھی کہ باہر سے کچھ آوازیں اور آہٹیں سنائی دیں اور پھر اچانک کمرے کا دروازہ جس کے دونوں پٹ یونہی لپیٹے گئے تھے، ایک جھٹکے سے کھلا اور نشے میں دھت چوہدری اکبر لڑکھڑاتا ہوا سا کمرے کے اندر داخل ہوآیا۔ اس کے عقب میں نزہت بیگم کی گھبرائی ہوئی پریشان صورت بھی دکھائی دی ، وہ غالباً اکبر علی کو اندر آنے سے روکنے کی کوشش کررہی تھی۔

 کمرے میں آتی موسیقی کی مدھم آوازیں دروازہ چوپٹ ہوتے ہی واضح طورپر سنائی دینے لگیں۔ اکبر علی محض ایک قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ میر ارشد اللہ پر نظر پڑتے ہی بری طرح ٹھٹک کر رک گیا۔ وہ اس بری طرح چونکاتھا کہ ایک دفعہ تویوں معلوم ہوا جیسے اس کا سارا نشہ ہرن ہوگیاہو۔ چند لمحے کے لیے تو وہ اپنی جگہ جم کر رہ گیاتھا اور آنکھیں جیسے پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں!

اس کی بد دماغی اور حاکمانہ مزاج کے پیش نظر، اس کی یوں اچانک آمد پر ایک ذرا تو حسن آرا بھی گڑبڑا کر رہ گئی تھی کہ اب بدمزگی اور خرابی پیدا ہوگی۔ یقینی بات تو یہی تھی کہ وہ میر ارشد اللہ سے بدتمیزی کرے گا لیکن اکبر علی کے چہرے پر امڈآنے والی حیرت و بے یقینی کچھ اور ہی معاملہ بیان کررہی تھی حسن آرا کی طرف تو اس نے دیکھا بھی نہیں تھا۔ یوں جیسے وہ کمرے میں موجود ہی نہ ہو!

”شاید اج اکبر علی کو سچ مچ چڑھ گئی ہے!“اس نے سر کو جھٹکتے ہوئے دوبارہ میر صاحب کی طرف دیکھا۔ معلوم نہیںکیوں لیکن حسن آرا کو محسوس ہوا تھا کہ چوہدری اکبر کو دیکھتے ہی میر صاحب کے چہرے پر بھی ایک سایہ سا لہراگیاتھا۔ ان کی رنگت قدرے پھیکی پڑ گئی تھی۔

”یہ میری نظریں میرے ساتھ دھوکا بازی کررہی ہیں یا میرا دماغ کج کھسک گیاہے؟“ اس نے پلٹ کر دروازے میں کھڑی پریشان صورت نزہت بیگم کو دیکھا‘ ایک نظر حسن آرا پر ڈالی اورپھر سے بھنویں سکیڑ کر میر صاحب کو گھورنے لگا۔

”تمہارے یہ دونوں خیال ہی درست نہیں ہیں اکبر علی!یہ ہم ہی ہیں…آﺅ بیٹھو۔“

”تو …تو یعنی اب آپ جیسی ہستیاں بھی اس بدنام بستی میں آنے لگی ہیںمجھے سچ میں یقین نہیں آرہا۔“ اکبر علی نے ہچکی بھری اور ڈولتے قدموں سے آگے بڑھ کر سنگھار میز کے اسٹول پر جاٹکا۔ اس کے چہر پر بدستور حیرت و بے یقینی موجود تھی۔ میر صاحب خود پر قابو پاچکے تھے البتہ اب وہ قدرے بے چین دکھائی دینے لگے تھے۔

”بس دیکھنے چلے آئے کہ اس بدنام بستی میں ایسا کیا ہے جس کی خاطر اکبر علی جیسے لوگ بھی ادھر کھینچے چلے آتے ہیں۔“

”اچھا جی…تو پھر وہ چیز کیسی لگی جو اکبر علی کو بغیر رسی کے باندھ کر گھسیٹ لیتی ہے ادھر۔“ اکبر علی نے مخمور نظروں سے حسن آرا کی طرف دیکھا۔ وہ اپنی جگہ کسمسا کر رہ گئی۔ اتنا تو وہ سمجھ ہی چکی تھی کہ اکبر علی اورمیر صاحب کے درمیان گہری شناسائی ہے مگر کیسے اور کیوں؟ اس بارے میں اسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔

”ادھر آکر ہمارے خیالات میں تبدیلی آئی ہے۔ ہم جیسے انسان ہی بستے ہیں یہاں۔“

”ہائیں…یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ…ہم جیسے !ہم جیسے نہیں…ہم جیسوں کے لیے ہیں یہ لوگ اور…آپ یہاں جو بیٹھے ہیں، کیا اس بات کا میاں صاحب کو علم ہے؟ویسے ہونا تو نہیں چاہئے۔“ عجیب چبھتا ہوا سالب ولہجہ تھا اکبر علی کا۔ میر صاحب حسن آرا سے مخاطب ہوئے۔

”حسن آرا !آپ کچھ دیر کے لیے ہمیں اکیلا چھوڑ دیں۔ ہم اکبر علی سے کچھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔“

”او صاب بہادر!آپ نے جو بات کرنی ہے بے جھجک اور بے دھڑک کہہ دیں حسن آرا کوئی غیر تھوڑی ہیں۔ انہی کا دم توہے جو ہم یہاں بیٹھے ہیں، بولیں آپ۔“ حسن آرا سے پہلے اکبر علی بول پڑا تھا۔نزہت بیگم فوراً آگے آئی۔

”کوئی بات نہیں۔ آپ لوگ آرام اور تسلی سے بات چیت کرلیجئے، حسن آرا کا کیا ہے، اس نے کہاں جانا ہے، یہ تو یہیں ہے۔ آﺅ حسن آرا! ہم نیچے جاکر بیٹھتے ہیں۔“

”بالکل! یہ ٹھیک رہے گا۔ آﺅ اکبر علی ادھر آجاﺅ۔“

میر صاحب سیدھے ہوبیٹھے۔ حسن آرا نزہت بیگم کے ہمراہ کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس کا ذہن قدرے الجھن کاشکار ہوگیا تھا۔ اکبر علی اور میر صاحب تو ہر لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد تھے۔یکسر مختلف تھے۔ایک آسمان کی طرح بلند‘ عظیم اور کشادہ ظرف تھا تودوسرا پاتال کی طرح پست نیچ اور تاریک قلب و ذہن کا مالک تھا۔ دونوں میں کوئی ایک قدر بھی مشترک معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس سب کے باوجود ان دونوں کے درمیان کوئی گہرا تعلق، گہری شناسائی تھی تو کس بنا پر؟ یہ بات حسن آرا کی سمجھ سے بالا تر تھی۔

٭ ٭ ٭

وہ دونوں بے اختیار ٹھٹک کر رک گئے۔ حجاب فوراً رک کر مرشد کی اوٹ میں ہوگئی۔ اس کا دل جیسے اچھل کر اس کے حلق میں آدھڑکا تھا۔ اسے تو یوں اچانک ایسی صورت حال پیش آجانے کی توقع نہیں تھی البتہ مرشد ذہنی طورپر تیار تھا۔کھیس کی بکل کے اندر رائفل اس کی بغل میں دبی ہوئی تھی۔ سیفٹی کیچ اس نے پہلے سے ہٹا رکھا تھااور اب اس کی انگلی رائفل کی لبلبی پرجاپہنچی تھی۔

”ہاتھ اپنے سرپر رکھ لے نہیں تو میں گولی چلا دوں گا…جلدی کر۔“تنبیہ کرنے والا دو قدم آگے بڑھ آیا۔ وہ پوری طرح چوکس دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا دوسرا ساتھی اسی جگہ جم کر کھڑا رہا۔ اس کے ہاتھ میں رائفل بھی تھی اور اس نے ٹارچ بھی سنبھال رکھی تھی۔ ٹارچ ہی کی روشنی میں مرشد نے ان کی کالی خاکی وردیاں دیکھیں،وہ دونوں پولیس کے سپاہی تھے۔

”سنا نہیں تو نے ؟ہاتھ اپنے سر پر رکھ لے ورنہ…ابھی یہیں ٹھار دوں گا میں۔“

”رستے سے ہٹ جا جوان! ہمیں جانے دے، تیرے لیے یہی بہتر ہوگا۔“مرشد نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔ وہ چاہتا تو محض ایک سیکنڈ میں ان دونوں کو نشانہ بنا سکتا تھا لیکن وہ کوئی قتل نہیں کرنا چاہتا تھا اور وہ دونوں تو تھے بھی پولیس والے۔ ان پر گولی چلانے کا مطلب تھا پورے محکمہ پولیس سے دشمنی۔مقابل نے جواب میں ایک اور تگڑی سی گالی دی۔

”تیرے بڑے پھنے خان کی…ہاتھ اٹھاتا ہے یا؟“

”اوے گھوڑے کی شکل والے گدھے!تونے اگر ایک گولی چلائی تو تم دونوں پر پورا پورا برسٹ چل جانا ہے۔ تم دونوں اس وقت رائفلوں کے نشانے پر ہو۔ میں اکیلا نہیں ہوں ادھر۔“مرشد نے بس یونہی یہ بات کہی تھی۔ لیکن اس کا اعتماد اور سکون ان دونوں کو الجھن میں مبتلا کر گیا۔

”تو بھی تم لوگ یہاں سے نکل نہیں پاﺅ گے۔ بہتر ہوگا کہ خود کوگرفتاری کے لیے پیش کردو۔“

”کس خوشی میں؟“

”وہ تو خود بھی جانتا ہے۔ مزید جان کاری تجھے تھانے سے مل جائے گی۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ تیرے پاس رائفل ہے لیکن اگر تو نے ذرا بھی فنکاری

دکھانے کی کوشش کی تو سب سے پہلے تیری چھاتی میں سوراخ ہوں گے۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔“

”کیوں اپنا اور اپنے ٹبر کا دشمن بن رہا ہے؟ رستے سے ہٹ جا۔ تجھے پتا نہیں ہے کہ تو کس پر یہ بندوقڑی تانے کھڑا ہے۔“

”گھٹنے زمین پر رکھ اور دونوں ہاتھ سر پر رکھ لے۔ مجھے گولی چلانے پر مجبور مت کر۔“

ٹارچ کی روشنی سیدھی مرشد پر پڑ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ ان کے چہرے نہیں دیکھ پا رہا تھا،البتہ اپنے مقابل کے لب و لہجے سے اسے انداز ہ ہورہا تھا کہ وہ پسپائی اختیار نہیں کرے گا اور اگر اسے مرشد سے خطرہ محسوس ہوا تو وہ گولی چلانے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔حجاب اس کی اوٹ میں سہمی کھڑی تھی۔ مرشد کے ہاتھ پر اس کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی۔

”ٹھیک ہے پھر آکر لگا مجھے ہتھکڑی۔“

”اپنے ہاتھ سرپر رکھ۔“

مرشد خاموش کھڑا رہا۔ چند لمحے انتہائی تناﺅ میں گزرے پھر اچانک اس رائفل بردار نے رائفل کی نال قدرے جھکا کر مرشد کے پیروں کے قریب ایک فائر کیا اور تیز لہجے میں بولا۔ ”ہاتھ اوپر کر ورنہ دوسری گولی سیدھی تیرے سینے میں لگے گی۔“اس کے لہجے میںوحشت اتر آئی تھی۔ گولی کے دھماکے پر حجاب کے حلق سے بے ساختہ ایک گھٹی گھٹی سی چیخ نکل گئی۔ مرشد بھی پریشان ہوگیا تھا اور کچھ ہوتا یا نہیں فائر کی اس آواز کے بعد اب مزید کچھ ہی دیر میں سارے دشمن اس قبرستان کی طرف ٹوٹ پڑنے تھے اور شاید اس فائر سے اس خبیث کا مقصد بھی یہی تھا۔

 پولیس والوں کے متعلق تو کچھ کہنا مشکل تھا البتہ فوجی کے ساتھی یقیناً اسے دیکھتے ہی گولیوں سے چھلنی کردیتے۔ کل رات اس نے فوجی کے کچھ ساتھیوں کو بری طرح زخمی کیا تھا اور وہ سب پاگل ہوئے پھر رہے تھے۔ ایک بار تو اس کے دل میں آئی کہ ان دونوں پر فائر کھول دے لیکن اندیشہ یہ تھا کہ اسی دوران ان کی طرف سے بھی فائر ہوسکتا تھا اور گولی حجاب کو بھی لگ سکتی تھی۔

”میرے ہاتھ میں رائفل ہے، اس کا کیا کروں؟“مرشد نے فی الحال ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

”وہیں ،اپنے پیروں میں ڈال دے۔“

مرشد نے بہ آہستگی رائفل نیچے اپنے پیروں کے قریب پھینک دی۔

”اب دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ اور گھٹنوں کے بل بیٹھ جا۔“ مرشد نے اس ہدایت پر بھی چپ چاپ عمل کیا اور گھٹنے قبرستان کی کیچڑ نما زمیں پر ٹکا دیئے۔

”اے کڑیے! وہ رائفل اٹھا کر ادھر پھینک۔“ اس نے حجاب کو مخاطب کیا تو وہ رائفل اٹھانے کی بجائے ایک قدم پیچھے ہٹ کر مرشد کے عقب میں جاکھڑی ہوئی۔

”اے سنا نہیں تو نے۔“ اس نے کرخت لہجے میں کہا تو مرشد نے حجاب کو مخاطب کیا۔

”جیسا یہ کہہ رہا ہے کر، پریشان ہونے یا ڈرنے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔“حجاب نے اس کے دائیں گھٹنے کے قریب کیچڑ میں پڑی رائفل اٹھائی اور سامنے کھڑے شخص کی طرف پھینک دی۔

”اختر! یہ رائفل قبضے میں لے لے۔“

اس نے اپنے ٹارچ بردار ساتھی کو مخاطب کیا تو وہ محتاط قدموں سے آگے بڑھ آیا۔ جہاں وہ دونوں سپاہی کھڑے تھے وہ جگہ تقریباً دو ڈھائی فٹ اونچی

تھی۔ دونوں پوری طرح چوکنے تھے اور دونوں ہی کی نظریں مرشد پر ٹکی ہوئی تھیں۔ ان میں سے جواب تک احکامات صادر فرما رہاتھا۔ اس کے اور مرشد کے درمیان چار پانچ قدم کا فاصلہ تھا جب کہ اس کا ٹارچ بردار ساتھی اس سے قدرے دائیں طرف دو قدم پیچھے سے آگے بڑھا تھا اور مرشد اسی کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ ایک لمحے کو بھی اس کے اور اپنے ساتھی کے درمیان آیا تو اس پر جھپٹ پڑے گالیکن اچانک ایک اور کام ہوگیا۔ ان دونوں کا سارا دھیان ساری توجہ تو مرشد پر مرکوز تھی۔ پیچھے اس نے دیکھا نہیں بہت بری طرح پاﺅں پھسلا تھا، اس کی ٹارچ اس کے ہاتھ سے نکل گئی اور وہ دھڑام سے نیچے آگرا۔ اس کے نیچے گرنے سے پہلے مرشد کھڑا ہوچکا تھا۔ روشنی کا حصار ختم ہوگیا تھا۔ اس کا دوسرا ساتھی ایک لمحے کو گڑبڑایا اور اسی لمحے اسے محسوس ہوا کہ مرشد اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے اس پر جھپٹا ہے۔ اس نے اضطرابی طورپر گولی چلائی۔ ٹھیک اسی لمحے مرشد اس سے ٹکرایا اور ایک زور دار ٹکر اس کے منہ پر پڑی۔ مرشد کے ٹکراﺅ کا دھکا زور کا تھا اور اس کی ٹکر، اس سے بھی زیادہ زور دار تھی۔ اس بے چارے کے منہ سے انتہائی کرب ناک کراہ خارج ہوئی اور وہ اچھل کر اپنے عقب میں جاگرا۔ اس نے کوشش تو کی تھی کہ رائفل پر گرفت جمائے رکھے لیکن اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوپایا کہ چہرے پر ٹکر پڑنے سے پہلے ہی رائفل کی نال مرشد کی مضبوط گرفت میں جاچکی تھی۔

دوسرا سپاہی سنبھل کر اٹھ رہا تھا کہ مرشد نے اس کی کمر میں لات رسید کی اور وہ دوبارہ منہ کے بل گر پڑا۔اس کا سر ایک پختہ قبر کے کتبے سے جا ٹکرایا تھا۔

”بس اب زمین سے اٹھنا نہیں ورنہ سرکا تربوز ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔“وہ، پہلے ہی تربوز کو دونوں ہاتھوں میں دبوچ کر گٹھڑی بن گیا تھا۔ دوسرا سپاہی اپنے منہ پر ہاتھ رکھے پڑا کراہ رہا تھا۔

ٹارچ ایک طرف کیچڑمیں پڑی تھی اور اس کا شیشہ بھی کیچڑ میں لتھڑ چکا تھا۔ زمین پر بس دو فٹ تک ہی اس کی روشنی باقی تھی۔ مرشد فوراً ٹارچ کی طرف بڑھا۔ ٹھیک اسی وقت بائیں طرف کچھ دوری سے موٹر بائیک کی آواز سنائی دی اور پھر دو بائیکس کی ہیڈ لائٹس قبرستان میں داخل ہوئیں۔ کچھ لوگوں کی آوازیں بھی مرشد کے کانوں تک پہنچی تھی۔

اس نے فوراً ٹارچ آف کی اورلپک کر دونوں رائفلیں اٹھا ئیںاور حجاب کا ہاتھ تھامتے ہوئے واپس قبرستان کی اسی دیوار کی طرف دوڑ پڑا جدھر سے کچھ دیر پہلے وہ حجاب کو لے کر اس طرف آیا تھا۔ دو جگہ وہ دونوں پھسل کر گرے بھی لیکن فوراً ہی اٹھ کر دوبارہ آگے بڑھ گئے۔ دیوار سے ابھی وہ بیس پچیس قدم دور تھے کہ اچانک ان کے بالکل سامنے دیوار پر ایک ہیولہ سا نمودار ہوا تو مرشد حجاب کا ہاتھ کھینچتے ہوئے فوراً نیچے بیٹھ گیا۔ اس ایک ہیولے کے بعد ایک اورہیولہ دیوار پر آیا۔ یقینی بات تھی کہ وہ بھی ان کے دشمن ہی تھے۔ وہ تین افراد تھے۔ تینوں دیوار سے قبرستان کے اندر کود آئے۔ مرشد نے پلٹ کر دیکھا۔موٹر بائیکس اس جگہ پہنچ کر رک چکی تھیں جہاں وہ دونوں پولیس والے پڑے تھے۔ وہ ایک بار پھر دشمنوں کے گھیرے میں آچکے تھے۔ ان دشمنوں میں غالباً کرائے کے قاتل تھے اور رانا کے تنخواہ دار پولیس ملازمین۔

مرشد نے اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ چھپنے کے لیے کوئی معقول جگہ نہیں تھی۔ اطراف میں اونچی نیچی کچی پکی قبریں بکھری ہوئی تھیں یا پھر خود روجھاڑیاں۔

”ادھر اس طرف آﺅ۔“ اس نے حجاب کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں کہا اور ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل بائیں طرف کو رینگنے لگا۔ حجاب نے بھی اس کی تقلید کی ۔ دیوار سے قبرستان میں اترنے والوں نے دوٹارچیں روشن کرلی تھیں۔

”مریدے!دھیان سے وہ حرام کا پلا یہیں کہیں ہے۔“ عقبی طرف سے بلند آواز میں پکار کر کہا گیا۔ یہ آواز وہ پینو کے گھر میں بھی سن چکا تھا۔ یہ

فوجی کا ساتھی تھا۔ غالباً استاد ملنگی چند قدم آگے کچھ جھاڑیاں تھیں ، ان کے ساتھ ایک پختہ قبر اور ایک کچی قبر ایسی تھی جو غالباً سارے دن کی بارش کی وجہ سے بیٹھ کرایک گڑھے کی صورت اختیار کرچکی تھی۔ مرشد فوراً ہی اس گڑھے نما قبر میں رک گیا۔

”آجا، ادھر آجا۔“

”یہ …یہ تو قبر ہے۔“وہ ہکلائی۔

”اپنی قبر کا انتظام کروانے سے بہتر ہے کہ کسی دوسرے کی قبر میں کچھ دیر مہمان بن کر بیٹھ جائیں۔“اس نے حجاب کو بازو سے پکڑکر اپنے قریب گھسیٹ لیا۔

”یہ ایک رائفل تو سنبھال۔“اس نے ایک رائفل اس کی گود میں ڈالی اور ایک کندھے سے اتار کر خود سنبھال لی۔ دونوں کے ہاتھ پاﺅں اور کپڑے کیچڑ میں بری طرح لتھڑچکے تھے۔ حجاب کی چادر اس کے کندھوں پر موجود تھی البتہ مرشد کا کھیس وہیںبرگد والی جگہ پر رہ گیا تھا ۔دونوں کی چپلیں بھی چھوٹ چکی تھیں۔دیوار سے قبرستان میں اترنے والے تینوں افراد ٹارچوں کی روشنی ادھر ادھر پھینکتے ہوئے آگے آرہے تھے۔

”وہ کہیں ادھر سے بھی نکل نہ گئے ہوں۔“

”اتنی جلدی کیسے نکل سکتے ہیں۔ یہیں کہیں دبکے ہوں گے۔ذرا پھیل کے آگے بڑھتے ہیں ،تو دائیں ہاتھ کو ہوجا اور تو…ادھر سے ہو کے آگے جا‘ میں سیدھا بڑھتا ہوں۔“

”دھیان احتیاط سے، وہ حرامی بندہ خطرناک ہے۔“ کچھ فاصلے سے ان کی مدھم آوازیں حجاب اور مرشد کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔ پھر دونوں ٹارچیں مخالف سمت میں حرکت میں آگئیں۔ ایک کارخ کسی حد تک انہی کی طرف تھا۔

“نیچے ہوجا۔“ مرشد نے حجاب کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا اور خود بھی سر نیچے کرتے ہوئے تقریباً نیم دراز ہوگیا۔ حجاب بھی سکڑ کر گٹھڑی سی بن گئی۔ اس کا کندھا مرشد کے بازو میں گڑا ہوا تھا اور گال مرشد کے کندھے پر آٹکا تھا۔اس شدید اعصابی تناﺅ کی صورت حال میں بھی مرشد حجاب کے اس لمس کو محسوس کیے بنا رہ نہیں سکا۔ اسے لگا تھا کہ کم از کم ان لمحوں میں تو حجاب صرف اسی کے قرب میں خود کو محفوظ تصورکررہی ہے۔ جیسے اس وقت اس کی واحد پناہ گاہ صرف اسی کا وجود…اسی کی ذات ہو۔ مرشد کے سینے میں بے اختیار اس کے لیے لاڈ کی لہراٹھی۔ اس نے تھوڑی سی گردن موڑی اور غیر محسوس انداز میں حجاب کے بالوں کو سونگھا۔کیچڑگارے کی خنک بو میں اس کے بالوں کی مہک بالکل الگ سے محسوس ہوئی ۔

 ایک لمحے کے لیے ٹارچ کی روشنی ان کے اوپر سے گزری لیکن وہ دیکھ لیے جانے سے محفوظ رہے۔ ٹارچ بردارکچھ قدموں کی دوری سے آگے نکل گیا تھا۔ کچھ دیر بعد مرشد نے سر اٹھا کر دیکھا، وہ تینوں افراد ان سے دور جاچکے تھے۔ ادھر برگد والی جگہ پر بائیکس اسٹارٹ کھڑی تھیں اور ان کا ہینڈل گھما گھما کر ان کی ہیڈ لائٹس کی روشنی ادھر ادھر پھینکی جارہی تھی۔ دو ٹارچوں کی روشنی قبرستان کے شمالی حصے کی طرف بھی متحرک تھی۔ ان کی تلاش کا عمل شروع ہوچکا تھا۔

”چل حجاب! آجا۔“ اس نے دھیمے لہجے میں کہا اور رائفلیں کمر پر جماتے ہوئے کہنیوں کے بل رینگ کر قبر سے باہر نکل آیا۔ حجاب بھی اسی کے انداز میں رینگتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے بڑھنے لگی۔ دونوں نے تقریباً دس پندرہ قدم کا فاصلہ اسی طرح طے کیا پھر مرشد نے رک کر حجاب کا ہاتھ تھاما اور اٹھ کر جھکے جھکے انداز میں سامنے موجود دیوار کی طرف بڑھ گیا۔اسے معلوم تھا کہ قبرستان کی دیوارکے اس طرف ایک تنگ سی گلی ہے۔ پہلے اس

نے ادھر جانے سے اس لیے گریز کیا تھا کہ اسے یقین تھا کہ ادھر کہیں نہ کہیں دشمن راستہ روکے کھڑے ہوں گے۔ اب قدرت کی کرنی سے وہ دشمن ادھر سے ،ادھر قبرستان میں کود آئے تھے، اس لیے مرشد کا دل کہہ رہا تھا کہ اب انہیں اس طرف سے نکل جانے کا موقع مل جائے گا۔

دیوار کے قریب پہنچ کر اس نے عقب کا جائزہ لیا۔ قبرستان کے تین مختلف مقامات پر حرکت اور ہلچل کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔کچھ آوازیں بھی ابھر رہی تھیں لیکن وہ سب کافی فاصلے پرتھا۔مرشد نے اچانک جھکتے ہوئے حجاب کی ٹانگوں کو جھپا ڈالا اور اسے ایک جھٹکے سے اٹھاتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا۔

”چل اوپر پہنچ۔“

حجاب نے فوراً گڑبڑا کر اس کے کندھوں کو دبوچ لیا۔ اس اچانک کارروائی پر اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا تھا۔ رواں رواں سنسنا اٹھا تھا۔ مرشد پہلے بھی اسی طرح اچانک دو تین حرکتیں کرچکاتھا۔ اس کی یہ حرکت حجاب کے نزدیک پسند کیے جانے والی تو نہیں تھی لیکن وہ یہ بھی سمجھتی تھی کہ وہ خود سے اس چھ سات فٹ اونچی دیوارپر نہ تو چڑھ سکتی تھی اور نہ اتر سکتی تھی۔ اس کو دیوارپر پہنچانے کے بعد خود مرشد بنا دقت دیوار پر جاپہنچا تھا۔ دوسری طرف کود کر اس نے حجاب کو کمر سے پکڑ کر دیوار سے نیچے اتارلیا۔ حجاب کے کپڑوں سے اس کا چہرہ بھی کیچڑ آلود ہوگیاتھا۔

”چل میرے پیچھے پیچھے آجا۔“ اس نے کمر سے ایک رائفل اتارتے ہوئے حجاب کو مخاطب کیا اور گلی میں بائیں طرف کو چل دیا۔ یہ گلی مکانوں کی ایک طویل قطار کی عقبی طرف موجود تھی اور مکمل طورپر اندھیرے اور ویرانی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر بھی بکھرے ہوئے تھے۔ شاید ان گھروں کے مکین اپنے گھروں کا کچرا یہیں پھینکتے تھے۔

گلی توقع کے بر خلاف خاصی طویل ثابت ہوئی۔ دو تین جگہ اس نے رخ بھی بدلا۔ مکانوں کی عقبی طرف سے نکل کر وہ کچھ مکانوں کی بغل سے بھی گزری لیکن خوش قسمتی سے انہیں کسی نے نہیں دیکھا۔ان کے سارے دشمن بھی شاید قبرستان ہی کی طرف متوجہ تھے۔ ماحول اور گہرا اندھیرا بھی ان کے لیے ساز گار ثابت ہوا اور وہ بستی کے جنوبی کنارے پر نکل آئے۔ ان کے سامنے ایک وسیع جوہڑ نما جگہ تھی اور اس جوہڑ کی دوسری جانب کسی فیکٹری کی طویل دیوار اور عمارت دکھائی دے رہی تھی۔ اس عمارت کے سامنے کے رخ یعنی مرشدکے بائیں ہاتھ کچھ فاصلے پر مین روڈکا کچھ حصہ بھی دکھائی دے رہا تھا۔ جس کے کنارے کچھ بے ڈھنگی سی چھوٹی چھوٹی دوکانیں اور لکڑی کے کھوکھے پڑے تھے۔ ٹریفک آجارہی تھی۔ روشنی اور زندگی متحرک تھی۔ ان کے بائیں ہاتھ بھی کسی فیکٹری یا کارخانے ہی کی دیوار تھی جس کے بالکل برابر سے کچھ تھوڑا سا راستہ جوہڑ کے ساتھ ساتھ روڈ کی طرف جاتا تھا۔ مرشد اسی تنگ سی پٹی پر اتر گیا۔ حجاب ہر قدم پر اس کی تقلید کررہی تھی۔

جوہڑ سے انتہائی ناگوار بو کے بھبھکے سے اٹھ رہے تھے۔ ان کے پاﺅں بری طرح کیچڑ میں دھنس رہے تھے۔ مرشد تو پھر بھی آرام سے آگے بڑھتا دکھائی دے رہا تھا لیکن حجاب کو سخت دقت کا سامنا تھا۔ اس کے سارے کپڑے کیچڑ میں لتھڑے ہوئے تھے اور کیچڑ کپڑوں سے آگے اس کے جسم تک بھی پہنچی ہوئی تھی جو اسے سخت کوفت کا احساس دلا رہی تھی لیکن فی الوقت اپنے تحفظ اور بچاﺅ کی فکر سبھی احساسات پر حاوی تھی۔

کچھ ہی دیر بعد وہ دونوںمین روڈ کے کنارے واقع ایک ڈھابے کی بغل میں موجود تھے۔ یہاں ڈھابے کی دیوار کے ساتھ لکڑی کا ایک پان سگریٹ والا کیبن موجود تھا اور اسی کیبن کے پیچھے وہ دونوں آٹھہرے تھے۔ ہوٹل پر شاید اکا دکا لوگ ہی موجود تھے۔ کسی خاص رونق یا ہلچل کے آثار نہیں تھے۔ مرشد نے کیبن کی اوٹ سے جھانک کر دیکھا۔ روڈ کے دونوں اطراف دکانیں اورڈھابے کھلے ہوئے تھے۔ رونق تو نہیں تھی البتہ اکا دکا لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ روڈ کے اس طرف کسی ڈھابے پر عنایت حسین بھٹی کا گانا چل رہا تھا۔

”اب کیاکریں گے؟“ وہ بس مسلسل خاموشی سے گھبرا کربولی تھی۔ مرشد نے پلٹ کر دیکھا۔ حجاب اسے بھوتنی کی طرح دکھائی دی۔ اس کا اپنا حال بھی اس سے کوئی مختلف نہ تھا۔ دونوں کیچڑ میں اس بری طرح لت پت تھے جیسے کیچڑ میں کشتی لڑکر نکلے ہوں ،بالکل بھوت دکھائی دے رہے تھے دونوں۔

”مجبوری ہے۔ مجھے یہاں سے نکلنے کے لیے بدمعاشی کا مظاہرہ کرناپڑے گا۔“اس نے گردن ٹیڑھی کرتے ہوئے سرتا پا حجاب کا جائزہ لیا۔

”تیرے کپڑوں کی حالت ٹھیک نہیں۔ چادر میں ذرا اچھے سے لپیٹ لے خود کو۔ میں گن پوائنٹ پر کوئی گاڑی روکوں گا۔ تو نے بس گاڑی میں گھسنے والی کرنی ہے۔ سمجھ گئی؟“

”جی!“حجاب نے سر ہلایا اور اپنی چادر درست کرنے لگی۔ مرشد دوبارہ روڈ کی جانب متوجہ ہوگیا۔اسے کسی حد تک یہ اندیشہ بھی تھا کہ ہوسکتا ہے یہاں روڈ پر بھی دشمن کی نظر ہو اور ان کے روڈ پر ظاہر ہوتے ہی انہیں دیکھ لیا جائے لیکن اب یہ خطرہ مول لینا تو ناگزیر تھا اورکوئی چارہ ہی نہیں تھا۔

مرشد آگے بڑھنے کی سوچ ہی رہا تھاکہ ایک چمچماتی کار بالکل سامنے روڈ پر آرکی۔ اس کا رخ بھی لاہور ہی کی طرف تھا اورصرف فرنٹ سیٹ پر دو خوش پوش جوان بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس کی شکل مرشد کوکچھ نظر آشنا محسوس ہوئی تھی مگر اسے فوری طورپر یاد نہ آسکا کہ یہ چہرہ وہ پہلے کہاں دیکھ چکا ہے۔ پھرجب وہ اپنے ساتھی سے کچھ بات کرکے کار سے اترتے ہی اسی طرف کو آیاتو اس کا مکمل چہرہ دیکھتے ہی مرشد کے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا۔اسے یاد آیا کہ اب سے پہلے وہ اس بندے کو کہاں دیکھ مل چکا ہے۔

صرف دو تین روز پہلے ہی مرشد نے اسے مزید دو آدمیوں کے ساتھ فیروزہ کے کوٹھے کے سامنے دیکھا تھا ۔ان پر دو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ بھی کی تھی، جس میں اس کے باقی دونوں ساتھی زخمی بھی ہوئے تھے۔ان میں سے ایک کا نام زریون تھا اور زریون نامی وہ خوبرو جوان اس بندے کو ڈیوڈ کے نام سے پکارتا رہا تھا۔

”گاڑی آگئی ہے، تو تیار ہے نا؟“

”جج…جی!“

مرشد نے دوبارہ جھانک کر دیکھا۔ ڈیوڈ اسی کیبن کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔ غالباً وہ سگریٹ خرید رہا تھا۔

”ڈیوڈ۔“ مرشد کی آواز پر ڈیوڈ چونک پڑھا لیکن اس طرف اندھیرا ہونے کی وجہ سے مرشد اسے دکھائی نہیں دیا۔ مرشد نے دوبارہ اسے پکارا تو وہ بھویں سکیڑتا ہوا دو قدم اس طرف کو آیا اور مرشد کیبن کی اوٹ سے نکل کر اس کے سامنے آگیا۔ اس نے سوچا تھا کہ اگر ڈیوڈ اسے پہچان کر لفٹ دینے پر آمادہ ہوگیاتو ٹھیک ورنہ رائفل تو اس کے ہاتھوں میں تھی ہی

”کون ہو تم؟“ مرشد پر نظر پڑتے ہی اس نے شدید حیرت سے پوچھا۔ اس کے چہرے پر قدرے گھبراہٹ اور پریشانی کے تاثرات بھی اتر آئے تھے۔ مرشد کی ہیئت ہی کچھ ایسی تھی ،پھر اس کے ہاتھوں میں رائفل بھی دکھائی دے رہی تھی۔

”میں ہوں مرشد…پہچانا؟“

”نن…نہیں۔“ ”فیروزہ بائی یاد ہے…تمہارے دو ساتھی وہاں زخمی بھی ہوئے تھے۔“مرشد نے اسے چونکتے دیکھا۔

”اوہ ہاں، ہاں بالکل… میں نے پہچان لیا آپ کو، آپ یہاں کیسے اور یہ …یہ آپ کی حالت!“ اسی وقت سگریٹ والے نے کیبن سے گردن نکال کر جھانکا اور مرشد پر نظر پڑتے ہی اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ یقیناً بستی والی ساری صورت حال اس کے علم میں تھی۔

”بس کچھ لفنڈر قسم کے دشمن پیچھے پڑ گئے تھے۔ فی الحال ہمیں لاہور تک لفٹ چاہئے۔میرے ساتھ ایک لڑکی بھی ہے۔“اس نے رائفل کندھے پر ٹکاتے ہوئے مسکرا کرکہا۔

”ہاں… کیوں نہیں، آ آپ آجائیں۔“لفظ جیسے نا چاہتے ہوئے اس کے منہ سے نکلے تھے۔کیبن والے نے سراسیمہ چہرے کے ساتھ سگریٹ کی دو ڈبیاں ڈیوڈ کو تھمائیں اور ڈیوڈ پیسے اسے پکڑاتا ہوا کار کی طرف بڑھ گیا۔

”چل حجاب ! جلدی کر، آجا۔“ مرشد کی آواز پر وہ فوراً حرکت میں آئی تھی۔ مرشد نے آگے بڑھ کر کارکا دروازہ کھولا اور حجاب غڑاپ سے پچھلی سیٹ پر جاپہنچی۔ مرشد نے ایک نظر دیکھا۔ کیبن والے کے علاوہ ہوٹل پر موجود تین چار بندے اور بھی تھے ،جوسنسنی خیز نظروں سے انہی کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ارد گرد کہیں بھی اسے کوئی مشکوک چہرہ دکھائی نہیں دیا تھا۔ اس کے اندر بیٹھتے ہی ڈیوڈ نے کار آگے بڑھا دی۔

”یہ …یہ سب کیا ہے؟“ ڈیوڈ کا ساتھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے معتجبانہ انداز میں ڈیوڈ سے مخاطب تھا۔

”یہ مرشد صاحب ہیں۔ اپنے لاہور ہی کے ہیں۔ میں نے ذکرکیاتھا…دو دن پہلے جو حادثہ ہوا ہے وہاں انہی کے ساتھیوں نے ہماری ہیلپ کی تھی۔“

اس شخص نے دوبارہ گردن موڑ کر مرشد اور حجاب کی طرف دیکھا۔ حجاب تو گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی البتہ مرشد نے اس شخص کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مسکر اکر اسے آنکھ ماری تو وہ برا سا منہ بنا کر سامنے دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر سخت ناگواری اور بدمزگی کے تاثرات تھے لیکن اتنی اسے سمجھ آرہی تھی کہ اگر اس نے کوئی فضول بات منہ سے نکالی تو وہ اسے مہنگی پڑسکتی ہے۔ اس کے ساتھی ڈیوڈ کا چہرہ اور لہجہ بھی اسے سمجھا گیا تھا کہ یہ زبردستی کی مہمان نوازی ہے جسے شرافت سے نبھانے میں ہی بہتری رہے گی۔

گاڑی کے خوش گوار ماحول میں کیچڑ گارے کی ناگوار بو پھیل چکی تھی۔ڈیوڈ کو مرشد کے دشمنوں سے یقیناً اپنی سلامتی ہی عزیز تھی جو وہ حتی الامکان تیز رفتاری سے کارکو اڑائے لے جارہا تھا۔ مرشد کی ساری توجہ اپنے عقب میں تھی۔ وہ باربار دیکھ رہا تھا کہ کوئی مشکوک گاڑی تو ان کے پیچھے نہیں آرہی۔لیکن جب آدھا رستہ طے کرچکنے کے بعد بھی اسے اپنے تعاقب میں ایسی کوئی گاڑی دکھائی نہیں دی تو وہ تقریباً مطمئن ہوگیا کہ تاحال دشمن ان کے وہاں سے نکل آنے کے بارے میں لا علم ہیں۔ یقیناً وہ سب قبرستان کی طرف متوجہ تھے۔ کچھ لوگ اندر موجود تھے تو کچھ نے باہر سے قبرستان کو گھیرے میں لے لیا ہوگا مگر وہ خوش قسمتی سے پہلے ہی ادھر سے نکل چکے تھے۔ حجاب اس کے برابر میں سر جھکائے ساکت بیٹھی تھی۔ ایک دھڑکا سا تو اسے بھی لگا ہو اتھا لیکن جیسے جیسے سفر طے ہوتا جارہا تھا اس کی گھبراہٹ بھی کم ہوتی جارہی تھی۔

”تمہارے ان دو ساتھیوں کا کیابنا؟“مرشد نے اچانک ڈیوڈ کو مخاطب کیا تھا۔

”وہ …ان میں سے ایک ہاسپٹل میں ہے دوسرے کا زخم معمولی نوعیت کا تھا۔“

”حملہ کرنے والوں کا کیا کیا تم لوگوں نے؟“

”وہ روپوش ہیں۔ ایف آئی آر درج کرا دی تھی ہم نے۔ پولیس تلاش کررہی ہے ان کو۔“

”یعنی دونوں زندہ ہیں۔“یہ خود کلامی تھی۔

”تم لوگ آکدھر سے رہے ہو؟“چند لمحے کی خاموشی کے بعد مرشدنے پھر سوال کیا۔

”شیخوپورہ سے…ایک فنکشن تھا …شادی۔“اس کے بعد ان کے درمیان خاموشی رہی۔ جس وقت انہوں نے راوی کراس کیا اس وقت ڈیوڈ

عقب نما میں دیکھتے ہوئے بولا۔

”آپ کو کہاں ڈراپ کریں؟“

”ہمارا حلیہ تمہارے سامنے ہے۔ اس لیے سیدھے چلے چلو جگہ کاتو تمہیں پتا ہی ہے۔“ڈیوڈ ہونٹ چبا کر رہ گیا۔

رات تقریباً دس ساڑھے دس کا وقت رہا ہوگا، جب وہ کار قلعہ روڈ سے چیت رام روڈ کی طرف مڑی۔ بارش نے گلیوں کا نقشہ بدل رکھا تھا لیکن اس کے باوجود ادھر کے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ بالاخانوں پر محفلوں کی ابھی ابتدا ہی ہوئی تھی۔ ساز و راگ کی آوازیں اسی طرح کھڑکیوں جھروکوں کے پردوں سے چھلک چھلک کرباہر کی فضا میں شامل ہورہی تھیں۔ شوقین افراد جابجا موجود تھے۔ ان کے علاوہ محلے کے لفنگے تلنگے مرد، دلال اور لونڈے ادھرادھر تھڑوں اور پھٹوں پر محفلیں جمائے بیٹھے تھے۔ کہیں تاش کی بازی چل رہی تھی تو کہیں سگریٹ بیڑی کی محفل جمی ہوئی تھی۔ چائے والے بھی مصروف تھے اور پان والے بھی۔ پتا نہیں کس کی نظر کار کی عقبی سیٹ پر پڑی تھی بہرحال کسی نے با آواز بلند صدا لگائی تھی۔

”مرشد باوا آگئے۔ باوا جی آگئے“

مرشد کی نظر کچھ شناساچہروں پر پڑی۔ محلے کے لوگ چونک چونک کر کار کی طرف متوجہ ہورہے تھے۔ نزہت بیگم کے کوٹھے کی بغلی گلی میں کار کے رکتے ہی کتنے بہت سارے لوگ اکٹھے ہو آئے۔شبیرا قادرا اور فیاض ڈوگر آگے آگے تھے۔ چند ایک اور ساتھیوں پر بھی نظر پڑی تھی اس کی۔ ساتھیوں کے چہروں پر دبا دبا جوش اور مسرت چمک رہی تھی تو بازار والوں کے چہروں پر سنسنی اور تجسس دکھائی دے رہا تھا۔

”تمہارا بہت شکریہ ڈیوڈ! ہماری وجہ سے تمہیں خاصی زحمت اٹھانا پڑی اور گاڑی کی ان سیٹوں کا بھی ہم نے ناس کردیا۔“ مرشد نے اترنے سے پہلے ڈیوڈ کا شکریہ ادا کرنا ضروری خیال کیا تھا۔

”کوئی بات نہیں جناب !یہ صفائی ہوجائے گی۔“

مرشد دروازہ کھول کر کار سے باہر نکلا تو ارد گردموجود لوگوں کے چہروں پر کئی رنگ سرسرا گئے۔ وہ کیچڑ میں لت پت تھا۔ ایک رائفل اس کی کمر پر جھول رہی تھی تو دوسری اس کے ہاتھوں میں تھی۔ صاف پتا چل رہا تھاکہ وہ کوئی بڑامعرکہ سرکرکے لوٹا ہے۔حجاب کے باہر آتے ہی وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ اس کے ساتھی فوراً اس کے ساتھ لپکے تھے۔ مرشد نے رائفل شبیرے کو تھماتے ہوئے سب سے پہلے اماں کے متعلق سوال کیا تھا۔

”اماں کی طبیعت کیسی ہے؟“

”ٹھیک ٹھاک ہیں وہ۔ جعفر اور دلشاد لوگ اوپر دالان ہی میں بیٹھے ہیں۔“

”یہاں کی صورت حال۔“

”سب امن امان ہے۔ لالا رستم آیا ہوا تھا۔ آدھا گھنٹہ پہلے ہی گیاہے۔ دس پندرہ بندے بھی تمہارے پیچھے بھیجے ہیں اس نے۔“

”میرے پیچھے…کدھر؟“

”شیخوپورہ…کسی دھوپ سڑی نامی بستی میں تمہاری موجودگی کی اطلاع ملی تھی۔“

”ہوں… اور ساون کہاں ہے؟“

وہ ادھر بیٹھک پر ہے۔ استاد تاجی اور استاد افضل ملتانی آئے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے بھی دوپہر سے اپنے کچھ کارندے تمہاری تلاش میں دوڑا رکھے

ہیں۔ گوال منڈی والالالو پہلوان اور استاد کرامت لوگ بھی آئے تھے دن میں۔“

”ٹھیک ہے۔ میں اماں سے مل کر بیٹھک ہی پر آتا ہوں۔ پھر تسلی سے حال احوال کرتے ہیں۔ سارے ساتھیوں کو سمجھا دو۔ ساری رات پوری طرح چوکس رہیں۔“ اس نے سیڑھیوں کے قریب ایک ذرا رکتے ہوئے کہا اور پھر حجاب کولے کر زینوں کی طرف بڑھ گیا۔صدر دالان میں وہ، جعفر اور دلشاد سے دعا سلام کرنے کے لیے رک گیا اور حجاب بے تابی سے حسن آرا کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

عجیب بات تھی کہ چند روز پہلے جب اسے یہاں پہنچایا گیا تھا اور اسے معلوم ہوا تھا کہ یہ کون سی جگہ ہے تو اس وقت اسے محسوس ہوا تھا کہ یہاں کی فضا میں اس کادم گھٹ جائے گا۔ دم گھٹنے سے وہ مر جائے گی لیکن آج…اس وقت اسے یوں لگا تھا جیسے وہ کسی دلدل کسی جہنم سے نکل کر اچانک کسی جنت میں پہنچ آئی ہے۔

مرشد کمرے میں داخل ہوا تو ایک جذباتی منظر اس کے سامنے تھا۔ فرش پر بچھے بستر کے قریب حجاب گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اور دونوں بازو اس نے اماں کی گردن میں حمائل کر رکھے تھے۔ اس کی سسکیاں کمرے میں ڈوب ابھر رہی تھیں اور اماں ہکا بکا سے چہرے کے ساتھ اس کی کمر تھپک رہی تھی۔ اسے دلاسا دے رہی تھی۔مرشد کے اندر داخل ہوتے ہی حسن آرا نے نظریں پھیر کر اس کی طرف دیکھا، ممتا کی ایک ہی بھرپور نظر نے سرتاپا ،پور پور اس کی سلامتی کو ٹٹول کر اطمینان پایا۔اگلے ہی پل حسن آرا کے چہرے پر ایک گہرا سکون اور روشنی اتر آئی۔حجاب بی بی اس کے گلے کا ہار تھی تو اس کا غرور…اس کا مان اس کا لخت جگر بھی بالکل صحیح سلامت اس کے روبرو کھڑا مسکرا رہا تھا۔

کل رات حجاب کے اغوا ہونے کے بعد وہ اب مرشد کی شکل دیکھ رہی تھی اور اب بھی اس غیرت مند اور خود دار بیٹے نے اپنی شکل دکھانے سے پہلے حجاب بی بی کی زیارت کا اہتمام کیا تھا۔ اپنا کہا بھی نبھایا تھا اس نے اور اس کی زبان کی بھی لاج رکھی تھی۔ حسن آرا کی روح تک میں ایک ٹھنڈک اتر گئی۔ فخرو انبساط کے ساتھ ہی اس کے رگ و رپ میں عجز و تشکر کا ایک سمندر سا موجزن ہوا اور اس کی اپنی آنکھیں بھی چھلک پڑیں۔

”اچھی طرح دیکھ لیں اماں جی! آپ کی لاڈو رانی بالکل بخیر اور صحیح سلامت ہے۔“

”مجھے پتا تھا میرا بیٹا مجھے خدا کی بار گاہ میں شرمندہ نہیں ہونے دے گا۔“حسن آرا کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔” تم نے اپنی ماں کا مان بڑھایا ہے بیٹا! خدا تمہیں ہمیشہ سلامتی و سرفراز ی سے نواز ے رکھے۔“ اس کے بعد حسن آرا حجاب کو بازو سے تھام کر باتھ روم تک لے گئی۔ اپنا ایک سوٹ نکال کر باتھ روم پہنچایا اور پھر واپس آکر اس نے مرشد کا ماتھا چوما اور اسے سینے سے لگالیا۔

”تم ٹھیک ہونا بیٹا!“

”بالکل ٹھیک ہوں اماں! بلکہ پہلے سے تھوڑا زیادہ ہی ٹھیک ہوں۔“

…٭٭…

اگلے روزصبح صبح سب سے پہلے مرشد کی ملاقات رستم لہوری سے ہوئی۔ اسے حجاب کے اغوا اور اس کے تعاقب میں مرشد کی گمشدگی کا دلاور نے فون پر بتایا تھا اور وہ پنڈی میں اپنے معاملات درمیان میں چھوڑ کر واپس چلا آیا تھا۔ کچھ معلومات وہ اپنے طورپر حاصل کرچکا تھا، کچھ باتیں اسے مرشد سے معلوم ہوئیں۔ اس نے مرشد کے اس اندازے کی بھی تائید و تصدیق کی کہ اس ساری کارروائی کے پیچھے رانا سرفراز ہے۔بظاہر تو چوہدریوں کا

اس سب سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن ان کا متفقہ طورپر یہی خیال تھا کہ پس پردہ انہی کی ملعون ذات ہے۔ حجاب انہی کی انا اور بقا کے گلے کی ہڈی تھی۔ وہ زیادہ دیر مرشد کے پاس نہیں رکا تھا۔ اس کے ساتھ چھ سات گاڑیاں تھیں اور درجن سے زیادہ افراد۔ اس نے مرشد کو زور دے کرکہا تھا ”کہ تم صرف یہاں کا دھیان رکھو۔چوہدریوں اور رانا کے ساتھ مل کر یہ سارا معاملہ میں خود سنبھال لوں گا۔“

اس کے بعد وہ وہاں سے سیدھا شیخوپورہ کی طرف روانہ ہوگیا تاکہ رانا سرفراز کے ساتھ میٹنگ بھگتا سکے۔

رات حجاب کے ہمراہ وہ جس حلیے میں محلے میں واپس پہنچا تھا۔ وہ خبرپورے محلے میں پھیل چکی تھی۔ کئی افراد اسے ملنے آئے تھے، کچھ خیرخیریت معلوم کرنے۔ کچھ اس کی کامیاب واپسی پر مبارک باد دینے اور کچھ محض مزے لینے ‘قصے سننے۔

شہر بھر کی بدمعاش برادری کے وہ بدمعاش بھائی ،جن کے ساتھ مرشد کے معاملات درست تھے۔وہ بھی باری باری چکر لگا گئے تھے۔ دوسری طرف ارد گرد کی کئی طوائفیں ،نوچیاں حتیٰ کہ نائیکائیںاورکسبیاں بھی حسن آرا اورحجاب سے ملنے پہنچیں۔ ان میں کافی ساری ایسی تھیں جنہوں نے حجاب کو پہلے نہیں دیکھا تھا، لیکن حسن آر اور مرشد کی اس میں حد درجہ دلچسپی نے ان کے ذہنوں میں اس کی ذات کے حوالے سے اشتیاق پیدا کردیا تھا اور وہ محض اسی اشتیاق کے باعث ایک نظر اسے دیکھنے کی غرض سے حسن آرا تک چلی آئی تھیں۔

حجاب کی ظاہری خوب صورتی تو خود ایک کھلی اور واضح حقیقت تھی البتہ اس کی ذات کی حقیقت ابھی تک نزہت بیگم کے کوٹھے کی چار دیواری سے باہرکسی اور پر ظاہر نہیں تھی چند افراد کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کس گھرانے کس خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی ذات کے پس منظر میں نجابت و شرافت اور حیا وتقدس کا کیسا عظیم سلسلہ موجود ہے

اس کوٹھے کی چار دیواری کے باہر اگر کوئی اور اس حقیقت سے آشنا تھا تو وہ تھا خالہ اقبال‘ لیکن اس کی زبان پر حسن آرا کی تاکید نے تالا ڈال رکھا تھا۔ حجاب جو خود کو تنہا لا وارث اور بے سہارا سمجھتی آرہی تھی اسے اندازہ تک نہیں تھا کہ ایک کے بعدایک کتنے بہت سارے لوگ اس کی زندگی کی اس کہانی میں ملوث ہوچکے ہیںوقت نے اگر اسے طاقت ور اور بے رحم دشمنوں سے نوازا تھا تو قدرت نے اس کے لیے مخلص اور بے لوث ہم دردوں کا بھی انتظام کردیا تھا۔

ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد مرشد اپنے دوستوں ساتھیوں کی عیادت کو نکل گیا۔مراد، اکو اور ارشاد تو ٹھیک ٹھاک اور ہوش و حواس میں تھے۔ البتہ دلبر دواﺅں کے زیر اثر تھا۔ اس کی حالت خاصی درد ناک تھی۔ کندھے کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی چہرے کا دایاں حصہ غالباً سڑک کی رگڑ سے اس بری طرح مسخ ہوا تھا کہ وہ انسانی چہرے کا حصہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا۔ سرکے علاوہ جسم کے اور بھی مختلف حصوں پر اسے شدید چوٹیں اور گہری خراشیں آئی تھیں۔مرشد کا مقدر اور نصیب ہی تھا کہ اس ایکسیڈنٹ کے دوران وہ اڑتا ہوا ٹرالر پر لوڈ روئی کے بوروں سے جاٹکرایا تھا ورنہ تو اس کی حالت بھی اس وقت دلبر سے مختلف نہ ہوتی۔

سارادن مصروفیت اورگہما گہمی میں گزرا۔ وہ باوجود خواہش و کوشش کے مغرب سے پہلے اماں کی طرف نہیں جاسکا۔ مغرب کی نماز کے بعد وہ جاکر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ بیٹھک سے ساون کا بلاوا آگیا کہ کچھ سجن ملنے آئے ہیں۔ وہ زیادہ دیر وہاں نہیں بیٹھ سکا۔ البتہ اماں کو یہ اس نے صاف صاف سمجھا دیا تھا کہ حجاب اب اس کی ذمہ داری ہے لہذا وہ اس کے حوالے سے بے فکر ہوجائے۔چند دن ابھی حالات و واقعات کا جائزہ لینے دے جیسے ہی یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھا وہ حجاب کو با حفاظت اس کی پھوپھی کے گھر چھوڑ آئے گا حالات کے اونٹ کی طرف سے تو خیر اسے کوئی خاص فکر یا پریشانی نہیں تھی۔ یہ تو محض ایک بہانہ تھا، حجاب کو چند دن مزید یہیں روکے رکھنے کا ایک وقتی لیکن معقول اور قابل قبول جواز تھا۔

آج پہلی دفعہ اس نے دیکھا تھا کہ اس کی موجودگی میں بھی حجاب پورے اطمینان و سکون سے بیٹھی رہی تھی۔ اس کے چہرے پر نہ تو کسی گھبراہٹ یا جھجک کے آثار نظرآئے تھے اور نہ اس کی آنکھوں میں اجنبیت یا وحشت کے سائے دکھائی دیئے تھے۔ وہ بالکل بے خوف اور مطمئن دکھائی دے رہی تھی۔ اماں کی وجہ سے وہ اسے تسلی سے نظر بھر کر دیکھ تو نہیں سکا تھالیکن جو ایک سرسری سی نظر اس نے حجاب پر ڈالی تھی وہ اس کی دھڑکنوں کو تلپٹ کر گئی تھی وہ دھلی نکھری، صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ،سلیقے اور نفاست سے دوپٹہ سر پر اوڑھے بیٹھی، صبح دم کے کسی خوش گوار اور ترو تازہ سے خواب کاحصہ معلوم ہورہی تھی چند منٹ وہاں بیٹھنے کے بعد وہ اٹھ کر بیٹھک پر چلا آیا ۔

اگلے چند دن مکمل طورپر خاموشی اور سکون سے گزرے۔ اس کے دوست ساتھی باری باری ڈیوٹیاں تبدیل کرتے رہے۔ مرشد کو یہ تو معلوم ہوگیا کہ لالا رستم نے رانا سرفراز اور چوہدری اکبر لوگوں کے ساتھ باری باری ملاقات کی ہے۔ درمیان میں کچھ با اثر افراد کوبھی ڈالا گیاتھا لیکن لالا رستم نے کھل کر تفصیل نہیں بتائی تھی کہ کیا معاملہ طے پایاہے۔ اس نے خود بھی زیادہ کریدنہیں کی۔ اسے خود پر یقین تھا کہ اگر رانایا چوہدری اپنی کمینگی سے باز نہ آئے تو وہ اپنے طورپر ان کا سامنا کرے گا اور حجاب کو کسی قسم کا کوئی گزند نہیں پہنچنے دے گا۔ دو دن بعد اس نے جیدے کے گھر سے لیے گئے اپنے اور حجاب والے کپڑے اور ساتھ پانچ ہزار کی رقم بشیرے کے حوالے کرکے اسے اور فیاض ڈوگرکو دھوپ سڑی بستی کی طرف بھیجا تھا اور وہ دونوں شکریہ کے ساتھ کپڑے اور رقم جیدے کے حوالے کر آئے تھے۔

ارشاد اور دلبر کی نسبت مراد اور اکو کی حالت بہتر تھی لہذا وہ دونوں واپس بیٹھک پر لوٹ آئے۔ مرشد ان سبھی کے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا تھا۔ ہنس بول رہا تھا۔ لیکن اس کا دھیان ہر وقت اماں کے کمرے کی طرف ہی لگا رہتا تھا۔ اس کمرے میں پلنگ پر موجود حجاب تقریباً تمام وقت ہی اس کے دھیان کو باندھے رکھتی تھی۔اس کے اغوا سے لے کر صحیح سلامت یہاں واپسی تک، صورت حال پر تشویش اور غیر یقینی ہی سی رہی تھی۔ مرشد کا ذہن کئی حصوں میں تقسیم رہاتھا۔ واپسی پر دو دن مصروفیت اور گہماگہمی نے اسے الجھائے رکھا۔ معمول کی فرصت میسر آتے ہی اس کے سینے کے نہاں خانوں میں خوشبو لٹاتی کئی کھڑکیاں سی کھل آئیں کئی حادثاتی اور مجبور لمحے اس کے ذہن و دل میں بار بار چٹخنے لگے حجاب کے خواب ناک قرب اور سحر خیز لمس سے بھرے کچھ لمحات رہ رہ کر اس کی دھڑکنوں کو گدگدانے لگے تھے

حالات وواقعات کی سازش نے چند ایک بار ان دونوں کو انتہائی قریب رہنے پر مجبورکیاتھا۔ مرشد نے حجاب کو چھوا بھی تھا۔ اس کے وجود کا لمس اور گداز محسوس کیا تھا۔گویا ان دونوں نے ہی ایک دوسرے کو انتہائی قریب سے جانا تھا۔ وہ سب وقوع پذیر تو حالات کی بدولت ہوا تھالیکن اس سے حجاب کے خوف اور احساس اجنبیت میں کمی واقع ہوئی تھی اور مرشد کے احساس شناسائی میںکچھ مزید شدت در آئی تھی۔ حجاب اسے کچھ مزید دل کے قریب اور…اپنی اپنی سی محسوس ہونے لگی تھی۔

بچپن سے لے کر آج تک اپنے ماحول اپنی زندگی اور اپنے وجود کے حوالے سے وہ جس تلخی جلن اور گھٹن کو جیتا آیاتھا اب گزشتہ کچھ دن سے اس میں کمی واقع ہوئی تھی۔ جب سے اس نے حجاب کو دیکھا تھا،تب سے اس کے محسوسات میں ایک پراسرار سی تبدیلی سرائیت کر آئی تھی۔ ایک منفرد سی تازگی اور راحت کا احساس تھا جو مسلسل پروان چڑھا تھا۔ اندر کے حبس اور گھٹن میں اس کا تصور ہوا کے تازہ اور خنک جھونکے کی طرح اتر کر سارے موسم کو یکسر بدل کر رکھ دیتا تھا۔

اب حجاب کو مزید چند روز کے لیے اس نے اپنا مہمان تو ٹھہرالیا تھا لیکن اسے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ میزبانی کاحق کیسے ادا کرے۔ کیسے اس کا دل بہلائے یا کیسے اس کا خیال رکھے۔ اس کے مزاج کی یہ خوش گوار تبدیلی محسوس تو سبھی کررہے تھے لیکن ٹھیک سے اس کی وجہ کوئی نہیں جان سکا تھا۔ پھر ایک روز مرشد کو شاپنگ کرنے کی سوجھی تو اس کی شاپنگ نے اس کے سبھی جاننے والوں کو اس کی اس خوش گوار تبدیلی کے حوالے سے شکوک وشبہات میں مبتلا کردیا۔ شاپنگ میں مدد کے لیے وہ شبیرے اور جعفر کو ساتھ لے کرنکلا تھا۔کپڑوں کے نام پر اس نے سلے ان سلے تقریباََدودرجن سوٹ حجاب کے لیے خریدے۔زنانہ جوتے،چپل،کھسے،رنگ برنگی چوڑیاں ، پراندے ، چادریں ، دوپٹے،سرخی پاوڈر،پرفیوم اور نجانے کیاکیا کچھ تھا۔ اس حوالے سے اسے کوئی تجربہ یا جان کاری تو تھی نہیں، بس جذبات تھے اور انہی جذبات کے تحت وہ خریداری کرتا چلا گیا۔شبیرے اور جعفر نے اس سے تو کچھ نہیں کہاالبتہ آنکھوں ہی آنکھوں وہ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے رہے اور معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔جب واپس لوٹے تو تینوں ہی سامان سے لدے پھندے ہوئے تھے۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے