سیاہ آسمان میں بظاہر بے ترتیبی سے گڑے ستارے، استقرار اور عدم تغیر کا استعارہ رہے ہیں۔ ہر لحظہ متغیر انسانی دنیا میں بسنے والوں کو یہ جہانِ ثبات کے نمائندہ اور لافانی قوتوں کے مظہر نظر آئے۔ انسان اور اقوام بلکہ بنی نوع انسان کی کل عمر اتنی مختصر ہے کہ براہ راست مشاہدہ ان کے تغیر کا ادراک نہیں کر سکتا۔ لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ ستارے بھی لافانی نہیں۔ یہ پیدا ہوتے ہیں اور مختلف مراحل سے گزر کر مر جاتے ہیں۔ یہاں ہم ستاروں کی پیداش اور انکی زندگی کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔
ستارے اور ان کا ایندھن
ستارے صرف کہکشاں کے اندر موجود ہو سکتے ہیں۔ کہکشانی کل سے باہر یہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ ایسا ہونے کی صورت میں کچھ بنیادی قوانین کا ابطال ہو گا۔ صدیوں پہلے بھی نکولس آف کوزا جیسے کچھ فلسفہ دانوں کا خیال تھا کہ ستارے بھی ہمارے سورج کی طرح ہیں۔ مگر زیادہ فاصلے پر پائے جاتے ہیں۔
اس قیاس آرائی کی راہ میں حائل سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اتنی دور سے نظر آنے والے اجسام مین کونسا ایندھن جل رہا ہے کہ وہ اس درجہ زیادہ روشنی اور حرارت خارج کرتے ہیں۔ صدیوں یہ مسئلہ زیر بحث رہا اور کوئی مناسب جواب نہ دیا جا سکا۔
اس سوال کا مدلل جواب انگریز ماہر فلکیات آرتھر-ایس-ایڈنگٹن نے1962ء میں چھپنے والی اپنی کتاب میں دیا۔ اس نے ستاروں کے مرکز The Internal Constitution Star پر ایٹمی طبیعات کے نو دریافت قوانین کا کامیابی سے اطلاق کیا۔ اس نے بتایا کہ ہمارے سورج کی طرح ستاروں کے مرکز بھی بہت گرم ہوتے ہیں۔ انکا درجہ حرارت چودہ ملین کیلون(14ضرب 106) ہوتا ہے۔
ستاروی مرکز میں حرکی توانائی
درجہ حرارت مادے کے ذرات کی حرکی توانائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بلند درجہ حرارت سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ستاروی مرکز میں موجود مادہ کے ذرات جو زیادہ تر ہائیڈروجن نیوکلئس یعنی پروٹان پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کسقدر زیادہ حرکی توانائی کے حامل ہوں گے۔ ایڈنگٹن نے مفروضہ پیش کیا کہ جب ہائیڈروجن نیوکلئس ٹکراتے ہیں تو باہم پیوست ہو کر ہیلیم نیوکلئس بنا دیتے ہیں۔
یعنی چار بنیادی ذرات مل کر ہیلیم نیوکلئس بناتے ہیں۔ لیکن ہیلیم کے نیوکلئس میں مادہ کی مقدار چار ذرات کی مجموعی کمیت سے کم ہوتی ہے۔ ایڈنگٹن کا مفروضہ تھا کہ ہیلیم نیوکلئس بننے کے دوران مادہ کی یہ بظاہر غائب ہو جانے والی مقدار توانائی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ فرض کریں کہ ایک ذرے کی کمیت یعنی مادے کی مقدارـــــــ ہیلیم نیوکلئس کی کمیت، تو ان ذرات کے باہم پیوست ہونے کی صورت میں خارج ہونے والی توانائی ــــــــ ذیل کی مساوات سے ظاہر ہو گی۔
E=(4m-M)c2
یہ آئن سٹائن کی مشہور مساوات (E=mc2) کا اطلاق ہے۔ لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہو گیا۔ پروٹان پر مثبت چارج ہوتا ہے۔ جب یہ قریب آتے ہیں تو ایک دوسرے کو پرے دھکیلتے ہیں۔ ستاروں کے مرکز میں بھی انکی حرکی توانائی اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ مذکورہ بالا دافع قوت پر غالب آ سکے۔ اس لئے سائنسدان ایڈنگٹن کے نظریے پر کچھ زیادہ مطمًن نہیں تھے۔
ریاضیاتی ثبوت
اس مشکل کا حل 1928ء میں جارج گیمو اور ای۔یو۔کانڈن نے پیش کیا۔ انکے نظرئے کو قدری سرنگ کا نام دیا گیا۔ اسکی رو سے ایک خاص حد سے زیادہ باہم قریب ہو جانے والے ذرات کو پیوست ہونے کے لئے دافع قوت پر حاوی ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ حائل رکاوٹ کو سرنگ اثر سے بھی عبور کر کے باہم پیوست ہو سکتے ہیں۔ اس نو دریافت نظریئے کی روشنی میں 1929ء میں ایٹکنسن نے ایڈنگٹن کے نظرئے کی حقانیت ریاضیاتی طریقہ سے ثابت کر دی۔
ء 1938میں امریکی سائنسدان ہیس بیتھے نے ریاضیاتی طریقوں سے دو نیوکلیائی تعاملات دریافت کئے۔ کاربن چکر نامی نیوکلیائی تعامل میں ہائیڈروجن کے نیوکلئس کاربن کی موجودگی میں مل کر ہیلیم نیوکلیئس بناتے ہیں۔ اور توانائی حرارت کی شکل میں خارج ہوتی ہے۔ یہاں کاربن بطور تعامل انگیز یعنی کیٹالیسٹ حصہ لیتی ہے۔ دوسرا نیوکلیائی تعامل صرف پراٹانوں یعنی ہائیڈروجن کے نیوکلیئسوں کے مابین تھا۔ اس میں کاربن کی تعامل انگیزی کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
ٹیکنالوجی کی ترقی
ستاروں سے خارج ہونے والی توانائی کا منبع دریافت ہو جانا یقیناً بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس اثناء میں تیز رفتار کمپیوٹر میدان میں آنے لگے۔ سائنسی ترقی میں انکا حصہ نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔ 1955ء میں فیڈہائل اور مارٹن شیوارزچائلڈ نے کمپیوٹر سائمیولیشن سے ایک عام ستارے کی ارتقائی زندگی کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم کیا کہ وہ زندگی کے ایک خاص مرحلے پرکس طرح پھول کر سرخ جن ستارہ بن جاتا ہے۔
آنے والی دہائیوں میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث مشاہداتی اور حساباتی سہولتوں میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ حساس الیکٹرانی شناخت کنندہ مصنوعی سیارے، ایکسرے اور ریڈیو فلکیات اور ان سے وابستہ نظام ایسی ہی سہولتوں کی مثالیں ہیں۔ ان مشاہداتی آلات کے ساتھ ساتھ ایٹم کے کوانٹم نظرئے اور نیوکلیائی و پلازما طبیعات کی نظری اور تجربی ترقی نے بھی جدید فلکی طبیعات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
کائنات کے ریاضیاتی خاکے
ایٹمی تحقیقات کے دوران سائنسدانوں کے نظری ریاضیاتی خاکوں کی تجربی تصدیق نے سائنسدانوں کو اعتماد دیا کہ وہ کائنات کے ریاضیاتی خاکے بنا کر انکی مشاہداتی تصدیق کے لئے کوشش کریں۔ مشاہداتی اعدادوشمار کی پڑتال اور انکا بنائے ہوئے خاکوں سے تقابل کرنے میں تیزرفتار کمپیوٹر معاون ثابت ہوئے ہیں۔
جدید فلکی طبیعات کے مطابق ستارے گرم گیسوں کے بہت بڑے بڑے گولے ہیں جو زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل ہیں۔ تجاذبی قوت ان گیسوں کو گولے میں مقید رکھتی ہے۔ جوں جوں مادہ کی مقدار بڑھتی چلی جاتی ہے، تجاذبی قوت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
عام حالت میں گیس کے نیوکلئس ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر ہوتے ہیں۔ لیکن ستارے کے مرکز میں دباؤ دو ملین ٹن فی مربع انچ سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس دباؤ کے تحت نیوکلئس باہم قریب آ جاتے ہیں۔ اس دباؤ کے علاوہ سورج کا مرکز اتنا گرم ہوتا ہے کہ نیوکلئس کی حرکی توانائی بڑھ جاتی ہے اور انکے باہم مل کر ہیلیم بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
اس عمل میں توانائی خارج ہوتی ہے۔ اگر کسی ستارے کا مرکز اتنا گرم نہیں کہ ہائیڈروجن کے جلنے یعنی ہیلیم بننے کا عمل شروع ہو سکے اور توانائی کا اخراج محض تجاذبی دباؤ کا نتیجہ ہے تو ستارے کی زندگی بہت مختصر یعنی 20 ملین سال ہوتی ہے۔
نئے ستارے کی ابتدائی حالت
نیا ستارہ اپنے ابتدائی مراحل میں گیس کا بہت بڑا گولہ ہوتا ہے۔ یہ گیس تقریباً سو فیصد ہائیڈروجن ہوتی ہے۔ مادہ کرے کی شکل ہو تو اسکے تمام ذرات پر لگنے والی قوت کا رخ مرکز کی طرف ہوتا ہے۔ اسی لئے کرہ اپنا حجم کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
قوت تجاذب، فاصلے کے مربع کے ساتھ معکوس متناسب ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں گولہ جوں جوں سکڑتا ہے اس پر اندر کی جانب عمل کرنے والی قوت تیزی سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اگر گیسوں کے اس گولے یعنی نومولود ستارے پر عمل کرنے والی واحد قوت تجاذب ہو تو یہ گولہ بہت جلد اپنی ہی قوت تجاذب کے ہاتھوں بھنچاؤ کا شکار ہو کر ختم ہو جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
اسی گیسی کرے میں مادے پر ایک اور قوت بھی عمل کر رہی ہے جسکا رخ گیسی گولے پر مرکز سے باہر کی طرف ہے۔ یعنی یہ قوت تجاذب کے متضاد سمت میں عمل کرتی ہے۔ یہ قوت بھنچاؤ سے پیدا ہونے والی حرارت ہے۔ ستاروں کی زندگی کے مختلف مراحل میں تجاذبی دباؤ اور حرارتی قوت باہم عارضی طور پر متوازن ہو جاتے ہیں۔
ایسے ادوار ستاروں کی زندگی میں عارضی استحکام کے ادوار ہوتے ہیں۔ لیکن ستاروں کا انحطاط کی طرف سفر جاری رہتا ہے۔ حرارتی توانائی کا ایک کے بعد دوسرا ماخذ صرف ہوتا چلا جاتا ہے اور ستارہ کئی پرہنگامہ تبدیلیوں سے گزر کر بلآخر سرد موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ یہی اسکا آخری انجام ہے۔
جوہری ایندھن اور دباؤ
ستارے کا سکڑاؤ شروع ہوتا ہے تو کل تجاذبی توانائی کا نصف حرارت میں بدل جاتا ہے۔ اس حرارت کا بہاؤ کرے کے مرکزسے سطح کی طرف آتا ہے۔ یہ حرارتی بہاؤ کچھ عرصے تک تجاذبی بھنچاؤ کی مزاحمت کرتا ہے۔ لیکن حرارت کا یہ ماًخذ ناکافی ہے۔
سطح پر سے خارج ہونے والی حرارت کی تلافی اور ہر لحظہ بڑھتی ہوئی تجاذبی قوت کا مقابلہ کرنے کے لئے حرارت کے کسی اور ماًخذ کی ضرورت ہے۔ یہ ماًخذ کیمیائی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ایسے کسی ماخذ کی فراہمی بیس بلین سال سے زیادہ جاری نہیں رہ سکتی۔
انسانی عمر کے تقابل میں یہ عرصہ لمبا نظر آتا ہے۔ لیکن کائناتی پیمانے پر اسکی کوئی اہمیت نہیں۔ تاہم نیوکلیائی ایندھن یعنی ہائیڈروجن کے ہیلیم اور ہیلیم کے نیوکلیاؤں کے زیادہ بھاری عناصر میں تبدیل ہونے کا عمل مطلوبہ مقدار میں اور اتنے طویل عرصے تک حرارت فراہم کرسکتا ہے۔
عام گیس میں نیوکلئس ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہوتے ہیں۔ مثبت چارج کے باعث یہ باہم مدغم نہیں ہوسکتے۔ تاہم نومولود ستارہ کی زندگی کے ابتدائی مراحل میں سے ایک ایسامرحلہ آتا ہے۔ جب اسکے مرکز پردباؤ دو بلین ٹن فی مربع انچ ہو جاتا ہے۔ اسقدر دباؤ پر ہائیڈروجن کے نیوکلئس یعنی پروٹان باہم ادغام کے عمل سے گزرتے ہیں۔
سورج اور زمین کی عمر کا معمہ
انیسویں صدی کے طبیعات دان توانائی کے نیوکلیائی منبع سے واقف نہیں تھے۔ سورج سے اتنی مقدار میں اور اتنے لمبے عرصے تک توانائی کا مسلسل اخراج ان کے لئے معمہ بنا رہا۔ انیسویں صدی کے جرمن طبیعات دان ہرمن فاں ہیلم ہولٹز کا خیال تھا کہ سورج میں تجاذبی بھنچاؤ ہی حرارت کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
انگریز طبیعات دان لارڈ کیلون نے کیمیائی توانائی کو شمسی توانائی کا ماخذ مان کر سورج کی عمر 20 ملین سال متعین کی۔ لیکن یہ نتیجہ انیسویں صدی کے ماہرین حیاتیات اور ارضیات کی تحقیقات سے متصادم تھا۔ انکے حساب کی رو سے زمیں کی عمر بیس ملین سال سے کہیں زیادہ تھی۔
زمیں اور اس پر موجود مخلوق کی عمر سورج سے زیادہ کیونکر ہو سکتی تھی؟ کوئی جزو اپنے کل سے قدیم نہیں ہو سکتا۔ اس تضاد نے انیسویں صدی کے سائنسدانوں کو دو مکاتب فکر کیٹاسٹروفسٹس اور یونیفارمیٹیریین میں بانٹ دیا۔
آج ہم جانتے ہیں کہ زمین کی عمر تقریبا 5۔4 بلین سال ہے۔ یہ نہ صرف نظام شمسی اور سورج کی تخمینہ شدہ عمر سے مطابقت رکھتی ہے بلکہ مختلف علوم کی آزادانہ تحقیقات بھی اسکی تائید کرتی ہیں۔
ہمارا وجود کبھی ستاروں کا حصہ تھا
ستارے کا مرکزی حصہ نہایت گرم ہوتا ہے۔ اس میں متواتر حرارت پیدا ہوتی ہے جس کے باعث ستارہ لمبے عرصے تک زندہ رہتا ہے۔ زندگی کے آخری حصے میں’اسی مرکز میں بھاری عناصر پیدا ہوتے ہیں۔ جو سیاروں اور زندگی کے وجود کے لئے لازم ہیں۔
خود ہمارا جسم بھی انھی عناصر سے مل کر بنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہمارا جسم دراصل کسی بہت بڑے ستارے کے مرکز میں بننے والے عناصر کی نہایت قلیل مقدار سے مرکب ہے۔
ستارے کا بیرونی حصہ گیسوں کی بہت موٹی تہہ ہے جو مرکز میں پیدا ہونےوالی حرارت کو سطح تک منتقل کرتی ہے۔ ستارے کی سطح سےلاکھوں میل اونچےشعلے خلاؤں میں لپکتے، اور یوں حرارت اور مادہ خلائے بسیط میں بکھیرتے ہیں۔ اسطرح ستارے کے اندر اور گہرائی میں ہونے والے نیوکلیائی تعاملات کا تعلق باقی کائنات سے برقرار رہتا ہے۔
مرکز میں ہونے والا نیوکلیائی تعامل توانائی اور بیرونی جانب عمل کرنے والے اس دباؤ کوجنم دیتا ہے جو ستارے کو برقرار رکھتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی ساتھ فوٹون بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ستارہ غیرشفاف ہوتا ہے اور پیدا ہونے والے یہ فوٹون مرکز سے براہ راست ستارے کی بیرونی تہہ میں سے گزر کرخلا میں نہیں جا سکتے۔
یہ فوٹون یعنی توانائی کے ذرے ستارےکے اندر ہی اندر ایٹموں سے اندھا دھند ٹکراتے ہوئےسطح کی طرف سفر کرتےہیں۔ ایک عام ستارے کے مرکز میں جنم لینے والا فوٹون تقریباً دس ملین سال میں سطح تک پہنچ کر باہر نکل جاتا ہے۔ یہی فوٹون کبھی کبھارہماری آنکھوں سے ٹکرا کر اپنے منبع کے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔
ستارے کی زندگی
فلکی طبیعات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ستارے کی زندگی اس میں موجود مادے کی مقداریعنی اسکی کمیت کے مربع کے ساتھ معکوس متناسب ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسا ستارہ جسکی کمیت ہمارے سورج سے دس گنا زیادہ ہے۔ سورج کی عمر کا صرف سوواں حصہ زندہ رہ سکے گا۔ ہمارے سورج کی کل عمر کا اندازہ کوئی دس بلین سال ہے۔
اسی حساب سے سورج سے نوے گنا بھاری ستارہ صرف ایک ملین سال زندہ رہ سکے گا۔ کائناتی پیمانے پر یہ عمر بہت ہی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ وزنی ستارے ہمارے مشاہدہ میں نہیں آتے۔ ایسے ستارے دراصل بہت کم عرصہ کے لئے وجود میں آتے ہیں۔
اگر ستاروں میں موجود مادہ سورج کے نوے گنا سے بھی زیادہ ہو تو انکے مرکزوں میں درجہ حرارت اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ فوراً پھٹ جاتے اور اپنا مادہ کم کرتے ہیں۔ اس لئے نوے سورج مادہ کے برابر مادہ ستاروں کے حجم اور کمیت کی اب تک معلوم شدہ آخری حد ہے۔
بڑے سے بڑا ستارہ نوے سورجوں سے بڑا نہیں ہوسکتا۔ چھوٹا سے چھوٹا ستارہ سورج سے کتنے گنا کم ہوگا اور یہ ستارہ کونسا ہے؟ ابھی عرصہ پہلے تک یہ مقام مجمع النجم اکیولا کے ستارے وبیو کو حاصل تھا۔ لیکن تازہ ترین تحقیقات کی روشنی میں یہ مقام مجمع النجوم سکلپٹر کے ستارے آر-جی0050-2722 کو حاصل ہے۔
ستارے اور سیارے
ستاروں کی تابانی کا ان میں موجود مادے کی مقدار یعنی کمیت کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ کوئی ستارہ جتنا بھاری ہوگا، اسی قدر زیادہ روشنی خارج کرے گا۔ مذکورہ بالا سب سے چھوٹے ستارے کی تابانی ہمارے سورج کی تابانی کا 2۔3 فیصد ہے۔
اس سے کم کمیت کے اجسام میں وہ حالات پیدا نہیں ہو سکتے کہ وہ ستاروں کے درجہ تک پہنچیں۔ مادے کی کم ہوتی ہوئی مقدار میں وہ لمحہ کب آتا ہے کہ اجرام فلکی سورج کی صف بندی سے نکل کر سیارے کہلانے لگیں؟
ہمارے نظام شمسی کے جیوپیٹر کی کمیت سورج کی کمیت کا 1۔0 فیصد ہے۔ یعنی کہ سب سے کم کمیت کے ستارے کا فقط بیسواں حصہ۔ اگر پیدا ہونے کا انحصار محض شروع میں موجود گیس پربھی ہو تو ہمارے ریاضیاتی حساب کتاب بتاتے ہیں کہ اتنی جسامت اور کمیت کے اجرام فلکی ستارے نہیں بن سکتے۔
کیونکہ ان میں نیوکلیائی تعامل شروع نہیں ہوسکتا۔ لیکن فلکی طبیعات کے ماہرین کا خیال ہے کہ سیارے اور ستارے بننے کے بنیادی مراحل مختلف ہیں۔ سیاروں کی ابتداء گیسوں کے تھالی نما اجتماع سے ہوتی ہے اور پھر ان میں کسی قریبی ستارے سے خارج ہونے والاملبہ بھی موجود ہوتا ہے۔
ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ سب سے چھوٹے ستاروں اور جیوپیٹر جیسے بڑے سیاروں کے درمیان کی جگہ خالی ہے۔ یعنی ایسے اجسام جوسیاروں سے بڑے اور سورجوں سے چھوٹے ہوں۔ یا تو موجود نہیں یا پھر ابھی مشاہدہ میں نہیں آسکے۔
شمسی آندھی – کائناتی ری سائکلنگ
سورج میں مادے کی حرکات اور تبدیلیوں کے باعث انواع و اقسام کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن ستاروں اور ہمارے درمیان حائل بسیط خلاؤں کے باعث یہ آوازیں ہم تک نہیں پہنچ سکتیں۔ کیونکہ ستارے غیر شفاف ہیں۔ اسکی بجائے وہ ستاروں کی بیرونی تہہ میں موجود گیسوں کو گرم کرتی ہے۔ اس تہہ کی گیس اس حرارت کو ستارے کی سطح پر لاتی ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سورج کے گرد موجود گیسی غلاف سورج کے متغیر مقناطیسی میدان سے پیدا ہونے والی برقی رو سے گرم ہوتا ہے۔ یہ کرہ ہوائی اتنا کثیف نہیں کہ حرارت شعاعوں کی شکل میں خارج کر سکے۔
اسکی بجائے وہ خود ہی سورج کی سطح سے اوپر باہر کی طرف پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ سورج سے ان شعلوں کا باہر کی طرف لپکنے کا عمل شمسی آندھی کہلاتا ہے۔ اس عمل میں سورج ہر سیکنڈ میں سینکڑوں ملین ٹن شمسی مادہ باہر خلا میں پھینکتا ہے۔
اس طرح حاصل ہونے والا مادہ بھی نئے ستاروں کی تشکیل کے لئے گیس فراہم کرتا ہے۔ اس طرح سورج کا یوں باہر کی طرف مادہ پھینکنا دراصل کائناتی ری سائیکلنگ کا ایک حصہ ہے۔
تمام ستاروں کی طرح سورج کا جسم بھی ہمہ تن مرتعش ہوتا رہتا ہے۔ یہ ارتعاش کئی طرح کے ہیں اور انکی وجوہات بھی مختلف ہیں۔ ماہرین ان ارتعاشات کو جیلی کے بھرے ہوئے پیالے میں پیدا ہونے والے ارتعاشات سے تشبیہہ دیتے ہیں۔
کچھ ارتعاشات کا دورانیہ منٹوں پر محیط ہوتا ہے جبکہ کچھ گھنٹوں طویل ہوتے ہیں۔ انکا مطالعہ سائنسدانوں کو سورج کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر بیرونی تہہ کے ارتعاشی مطالعہ سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ سورج کا مرکزی حصہ کس رفتار سے گھوم رہا ہے۔
برقی مقناطیسی لہریں
ستاروں کے متعلق ہمیں تقریباً تمام معلومات ان سے آنے والی برقی مقناطیسی شعاعوں کے مطالعہ سے حاصل ہوتی ہیں۔ مختلف طول موج کی ان شعاعوں کو ہم ریڈیو، مرئی، انفراریڈ، ایکس ریز اور گیما امواج میں تقسیم کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام امواج اصل میں برقی مقناطیسی لہریں ہیں لیکن انکی شناخت اور مطالعے کے آلات اور طریقہ تحقیق مختلف ہونے کے باعث ہمیں انکی اسطرح تقسیم کرنا پڑتی ہے۔
ان امواج کے مطالعہ سے حاصل ہونے والے اعدادو شمار کی روشنی میں ہم کائناتی اجسام اور خود کائنات کی ساخت و ماہیت پر مفروضے قائم کرتے ہیں۔ اوربعد ازاں مزید مشاہدات سے انکی توثیق، ترمیم یا تردید کرتے ہیں۔ اس متواتر عمل میں ہمارا علم آگے بڑھتا ہے۔
ستارے کا مطالعہ
ستاروں سے آنے والی روشنی میں دو معلومات قیمتی ترین ہیں۔ اول ستاروں کی تابانی اور دوم انکا رنگ۔ ستاروں کا رنگ سرخی مائل سے نیلگوں تک کئی حالتیں اختیار کر سکتا ہے۔ ستارے کے رنگ کا تعلق اسکی سطح کے درجہ حرارت سے ہے۔
نیلگوں ستارے گرم ترین ہیں۔ جبکہ سرخی مائل ستاروں کا درجہ حرارت سب سے کم ہوتا ہے۔ تابانی کا تعلق سورج سے خارج ہونے والی کل توانائی سے ہے۔ اگر مختلف ستاروں کی سطح کے درجہ حرارت اور تابانی کے درمیان ایک گراف بنایا جائے تو حاصل ہونے والا خط گرم اور روشن ستاروں سے شروع ہو کر نسبتاً کم گرم اور مدھم ستاروں تک جائے گا۔ یہ خط ڈایاگرام کہلاتا ہے۔
جب کسی ستارے کا مشاہدہ کرنے کے بعداسکا مقام خط مذکورہ بالا پر متعین ہو جائے تو اسکے متعلق کئی معلومات فوراً حاصل ہو جاتی ہیں۔ نہ صرف پتہ چل جاتا ہے کہ ستارہ کتنا وزنی ہے۔ بلکہ اسکے آخری مراحل پر بھی کافی تفصیل سے روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔
۔جوں جوں ستاروں میں ہائیڈروجن خرچ ہوتی ہے۔ یہ خط پر آگے بڑھتا ہے۔ حتٰی کہ ڈرامائی تبدیلیوں کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ اور ستارے اس خط پر سے اتر جاتے ہیں۔ اسی لئے سرخ جن اور سفید بونے اس خط پرنہیں پائےجاتے۔
ستارے کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لئے اسکی روشنی کا طیف بنایا جاتا ہے۔ روشنی بظاہر یک رنگی نظرآتی ہے۔ لیکن پرزم میں سے گزارے جانے پر کئی رنگوں میں بٹ جاتی ہے۔ ہر رنگ علیحدہ علیحدہ طول موج کی نمائندگی کرتا ہے۔
ستارے کی انگلیوں کے نشان
سرخ سے نیلے تک مختلف رنگوں کی پٹیوں کے علاوہ روشنی کے کچھ باریک اور زیادہ روشن باریک خطوط بھی حاصل ہوتے ہیں۔ بعض ستاروں کی طیف میں کچھ رنگ غائب ہوتے ہیں۔ ان رنگوں یعنی طول موجوں سے پتہ چلتا ہے کہ متعلقہ ستارے کے ایٹم کس طرح کی تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں۔
اسی طرح ستاروی طیفوں کے مطالعہ سے ہم ستاروں میں موجود عناصر اور انکی کیفیت پر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ کسی ایک ستارے کا طیف دوسرے سے مکمل طور پر نہیں ملتا۔ یوں کہہ لیں کہ طیفی نمونہ ستارے کی انگلیوں کے نشان ہیں۔ طیف حاصل کرنے اوراسکےمطالعے کو طیف نگاری کہتے ہیں۔
فرانسیسی معاشرتی علوم کے ماہر اور نظریہ دان آگست کامے نے 1825ء میں اپنی کتاب میں بیان دیا کہ ستاروں کی کیمیائی ترکیب کبھی ہمارے علم میں نہ آ سکے گی۔ اسی وقت جرمن سائنسدان فران ہافر، گستاد کرچوف اور رابرٹ بنسن جدید طیف نگاری کی بنیاد رکھ رہے تھے۔
ستاروں کی نسلیں
طیفی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ستاروں کی کیمیائی ترکیب ایک سی نہیں ہے۔ تمام ستارے زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم سے مل کر بنے ہیں۔
کچھ ستاروں میں ایک سے دو فیصد تک ان سے بھاری عناصر بھی موجود ہیں۔ کچھ ستاروں میں ان بھاری عناصر کی مقدار ایک فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔ جرمن نژاد امریکی فلکیات دان والٹر باڈ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہائیڈروجن اور ہیلیم سے بھاری عناصر کی مقدار کے حوالے سے ستاروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔
اس نے بھاری عناصرکے حامل ستاروں کو قسم اول اور باقی کو قسم دوم قرار دیا۔ اس نے ہماری کہکشاں کے مطالعہ سے نتیجہ اخذ کیا کہ اطرافی مرغولہ دار بازوؤں میں پائے جانے والے نیلگوں نسبتاً نو عمر ستارے قسم اول سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان میں ہمارا سورج بھی شامل ہے۔ جبکہ کہکشاں کے مرکزی گیند نما حصے میں پائے جانے والے عمر رسیدہ سرخی مائل ستارے زیادہ تر قسم دوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسکے علاوہ کہکشاں کے مسطح سے اوپر اور نیچے پائے جانے والے ستارے بھی زیادہ قسم دوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ستارے خاصے قدیم ہیں، انکا زمانہ کہکشاں کے ابتدائی دور کا ہے۔
ستاروں کی یہ دو نسلیں کس طرح وجود میں آئیں اور ان میں یہ فرق کسطرح پیدا ہوا؟؟ زیادہ ماہرین کا خیال ہے کہ بگ بینگ کے نتیجے میں جو عناصر وجود میں آئے۔ زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم تھے۔ بہت تھوڑی مقدار میں لیتھیم اور ڈیوٹریم بھی موجود تھے۔
موخرالذکر ہائیڈروجن کا ائسوٹوپ ہے۔ جس کے مرکز میں ایک نیوٹران اور ایک پروٹان موجود ہوتا ہے۔ اسی لئے انھیں بدائی عناصر بھی کہا جاتا ہے۔ باقی تمام عناصر بہت بعد میں ستاروں میں ہائیڈروجنی ایندھن کے جلنے سے تیار ہوئے اور سپر نووا جیسے دھماکوں کی صورت کائنات میں پھیلے۔
خالص” ستارے تیسری اور نابود نسل”
ابتداء میں کائنات صرف بدائی ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل تھی۔ ان گیسوں کی تکثیف سے ستارے بنے۔ ان میں بھاری عناصر موجود نہیں تھے۔ کیونکہ وہ ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہ”خالص” ستارے صرف ہماری قیاس آرائی کی دنیا کے باسی ہیں۔
ایسا کوئی ستارہ اب کائنات میں موجود نہیں۔ انھیں نسل سوئم کے سیارے کہا جاتا ہے۔ ان ستاروں میں نیوکلیائی بھٹیوں نے ہائیڈروجن اور ہیلیم سے کاربن اور نائٹروجن جیسے عناصر بنائے۔ جب نسل سوئم کے ستارے پھٹے تو انھوں نے یہ بھاری عناصر بین ستاروی خلاؤں میں بکھیر دئیے۔ یہ نایاب بھاری عناصر نسل دوئم کے ستاروں کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہو گئے۔
نئے ستارے زیادہ تر پرانے ستاروں کے ملبے سے بنتے ہیں
ان ستاروں نے مزید بھاری عنصر پیدا کئے۔ انکا مادہ خلاؤں میں بکھرا تو یہ نسل اول کے نوجوان ستاروں کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہو گئے۔ بین ستاروی خلاؤں میں موجود بھاری عناصر کے ایٹم باہم مل کر چھوٹے چھوٹے ذرات بن جاتے ہیں۔ جنکی جسامت ایک سینٹی میٹر کے لاکھویں حصے سے زیادہ نہیں ہوتی۔
یہی ذرات ہماری کہکشاں کےمرغولہ نما بازوؤں میں نیبولا بادل کی صورت اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہیں نئے ستارے جنم لیتے ہیں۔ نئے ستارے زیادہ تر پرانے ستاروں کے ملبے سے بنتے ہیں۔
ستاروی تشکیل کی حقیقی نوعیت کیا ہے؟ اس امر کا امکان بہت کم ہے کہ ہم کوئی حقیقی ستارہ تشکیلی مرحلے میں دیکھ سکیں گے۔ ستاروں کے بننے کا عمل جنگلی جانوروں کی پیدائش سے مشابہہ ہے۔ ہم بہت چھوٹے چھوٹے جنگلی جانور بھی دیکھتے ہیں لیکن ہم انھیں پیدا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔
الکوحل کے بادل
کہکشاں کچھ ایسی صاف ستھری جگہ نہیں۔ ستاروں کے درمیان کی جگہ ایٹموں اور مالیکیولوں پر مشتمل گیس سے بھری ہوتی ہے۔ اس میں گرد یعنی مادے کے باریک ذرات بھی تیرتے ہیں۔ لیکن بین ستاروی مادہ نہایت لطیف ہوتا ہے۔
اس میں موجود مادہ کی مقدار کہکشاں کے کل مادہ کا صرف پانچ فیصد ہے۔ اس گیس کے متعلق ہماری معلومات کوپرنیکس نامی مصنوعی سیارے کے مرہون منت ہیں۔ یہ سیارہ 1972ء میں چھوڑا گیا اور 1980ء تک کام کرتا رہا۔ اس میں نیلی اور بالائے بنفشی شعاعوں کی تحقیق کا انتظام کیا گیا تھا جو کرہ ہوائی عبور کر کے زمین پر ہمارے آلات میں داخل نہیں ہو سکتیں۔
اس سیارے کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے سائنسدانوں نے بین ستاروی گیس کی ماہیت، درجہ حرارت اور دوسری خصوصیات کا مطالعہ کیا۔ انہی تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ گیس زیادہ تر ایٹموں پر مشتمل ہے۔
اسکا دس سے پندرہ فیصد حصہ مالیکیولوں کی صورت میں ہے۔ انکا ننانوے فیصد حصہ ہائیڈروجن مالیکیولوں پر مشتمل ہے لیکن 53 دوسرے مالیکیول بھی دریافت ہو چکے ہیں جن میں ایتھائل الکوحل بھی شامل ہے۔ ہماری کہکشاں کے مرکز کے قریب موجود گیسی بادلوں میں اتنی الکوحل موجود ہے کہ ہماری زمین کی جسامت کے دس ہزار جام بھر سکتے ہیں۔
ستاروں کی نرسری
یہ مالیکیولی گیس بادل خاصے کثیف اور ٹھنڈے ہیں۔ یہ ہماری کہکشاں کے سب سے بھاری اجسام ہیں۔ ایسے چار ہزار بادل دریافت ہو چکے ہیں۔ اگر آپ مجمع النجوم اورین پر غور کریں تو پیٹی کے تین ستاروں کےقریب شکاری کی تلوار میں اورین نیبولا دیکھ سکتے ہیں۔
اسے ستارون کی نرسری کہا جاتا ہے۔ یہاں بہت بڑے بڑے مالیکیولی گیسی بادل پائے جاتے ہیں۔ ان بادلوں کے اندر ستارہ بننے کے عمل کے دوران خارج ہونے والی زیادہ شعاعیں بادلوں میں جذب ہو جاتی ہیں۔ صرف انفراریڈ شعاعیں گرد میں جذب نہیں ہوتیں اور ہم تک آتی ہیں۔
انکے مطالعے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے 25 جنوری 1983ء کو ایک سیٹیلائٹ خصوصاً انکا مطالعہ کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ اسے انفاریڈ آسٹرونومی سیٹیلائٹ کا نام دیا گیا۔ ستارہ بننے کی تفہیم میں ریاضیاتی خاکوں کے بعد سب سے اہم کردار اس سیارے سے حاصل ہونے والی معلومات نے ادا کیا ہے۔
گیسی بادلوں میں گرد کے ذرات بلحاظ وزن بہت کم یعنی صرف ایک فیصد ہیں۔ لیکن انکا کردار خاصا اہم ہوتا ہے۔ گیس کے مالیکیول ان سے چمٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ غالباً انہیں ذرات کی وجہ سے پڑنے والی روشنی مالیکیولوں کو توڑ کر ایٹموں میں تبدیل نہیں کر سکتی۔
تجاذب کی قوت ذرات اور مالیکیولوں پر مشتمل بادل کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جبکہ مقناطیسی میدان ، حرارت، میکانی انتشار اور گھماؤ کی قوتیں اسے بکھیرنے کی سعی کرتی ہیں۔ یہ مقابلہ ایک لمبا عرصہ یعنی تقریباً دس ملین سال تک جاری رہتا ہے۔ جس میں جیت بلآخر تجاذب کی ہوتی ہے۔
پروٹو سٹار
جوں جوں بادل کا حجم کم ہوتا ہے اور ذرات باہم قریب آتے ہیں۔ تجاذب مزید بڑھتا ہے۔ ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب اس میں سے شعاعیں نہیں گزر سکتیں۔ اب اسکا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ جب اسکا حجم ہمارے نظام شمسی سے چند گنا بڑا رہ جاتا ہے تو اسکا درجہ حرارت منفی سے مثبت کی طرف بڑھتا ہوا صفر سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔
لیکن جب اسکا حجم ہمارے نظام شمسی کے برابر ہو جاتا ہے تو اسکا درجہ حرارت کئی ہزار ڈگری سینٹی گریڈ ہو جاتا ہے۔ یعنی کے تمام دھاتوں کے نقطہ پگھلاؤ سے زیادہ۔ سکڑاؤ شروع ہونے کے تقریباً ایک لاکھ سال کے بعد اسکا حجم ہماری زمین کے مواد جتنا ہو جاتا ہے۔ اس وقت اسکا درجہ حرارت کئی لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ یہ حجم ابھی تک ستارہ نہیں بنا۔ اسے پروٹو سٹار کہا جاتا ہے۔
یہ پرو ٹو سٹار تقریباً دس ملین سال تک کئ تبدیلیوں سے گزرتا ہے۔ حتٰی کہ اس کے مرکز کا درجہ حرارت دس ملین ڈگری ہو جاتا ہے۔ اس درجہً حرارت پر ہائیڈروجن فیوژن کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اور حقیقی ستارہ وجود میں آتا ہے۔
ستارے بننے کا مندرجہ بالا نظریہ کئی سوالوں کے جوابات فراہم نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر سائنس دانوں نے بالواسطہ مشاہدہ کیا ہے کہ نومولود ستاروں سے مخالف سمت میں گیسوں کے نہایت تیز دو دھارے نکلتے ہیں۔ ان دھاروں کی شدت ہمارے سورج کی شمسی آندھیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ستارے بننے کا متواتر بھنچاؤ نظریہ اس مظہر کی تشریح نہیں کر سکتا۔
جڑواں ستارے
اب فلکی نظریہ دانوں کا خیال ہے کہ ستارہ بننے کے عمل کی حرکیات انکے ابتدائی نظریات سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ نئے کمپیوٹر ماڈل اس مسئلے کے دو ممکنہ حل پیش کرتے ہیں۔ ایک حل یہ ہے کہ ایک وقت میں دراصل ستاروں کا جوڑا پیدا ہوتا ہے جنکا گھماؤ اسطرح کا ہوتا ہے کہ قانون بقائے گردشی مومینٹم کی خلاف ورزی نہیں ہو پاتی۔
دوسری صورت میں ستارہ ایک ہی پیدا ہوتا ہے اور اسکا گردشی مومینٹم وابستہ ستاروں کے مابین تقسیم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ مفروضہ درست ہے تو پھر کائنات کے نصف ستاروں کو دو ستاروی نظاموں پر مشتمل ہونا چاہیئے۔ جبکہ اکیلے ستاروں کے ساتھ سیاروی نظام وابستہ ہونا چاہیئے۔ لیکن کچھ ماہرین اس خیال کے حامی ہیں کہ گردشی مومینٹم ستاروی آندھی کو منتقل ہو جاتا ہے۔
ستاروں کے درمیان مادے کا تبادلہ
گردشی ستارہ سازی میں گردشی مومینٹم کے بقاء کا مذکورہ حل کائنات کو جڑواں ستاروں پر مشتمل مانتا ہے۔ کچھ ایسے ستارے بھی ہیں کہ تین یا چار کے گروہوں کی شکل میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ دو ستاروی نظاموں کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا ہے۔ کچھ نظاموں میں یہ ستارے ایک دوسرے کے گرد اتنی تیزی سے چکر لگاتے ہیں اور باہم اتنے قریب سے گزرتے ہیں کہ انکے درمیان مادے کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔
ماہرین ایک مسئلہ میں تا دیر الجھے رہے۔ جوڑا ستاروں کی عمر ایک سی ہونی چاہیئے۔ لیکن مشاہدہ میں آیا کہ ایک کی عمر دوسرے سے کافی زیادہ ہے۔ لیکن بہت سے دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے اور باہم مادے کا لین دین کرتے ستاروں کی اصل اور ظاہر میں اچھا خاصا فرق ہو سکتا ہے۔
ایک بار وجود میں آ جانے کے بعد زیادہ تر ستارے خاموش اور اوسط درجہ کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں بڑھتی عمر کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ کئی بلین سال ستارے گنگناتے ہوئے اور حالت ارتعاش میں گزار دیتے ہیں بہت کم ستارے ہیں جو غیر روایتی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
سیفیڈ ستارے – کائنات کے پیمانے
ستاروں کی ایک اور قسم خصوصی دلچسپی کی حامل ہے۔ انھیں سیفیڈستارے کہتے ہیں۔ یہ ستارے آسمان میں ٹمٹماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یعنی انکی تابانی مستقل نہیں۔ یہ گھٹتی بڑھتی ہے۔ کم ہوتے ہوتے ایک خاص قیمت پر پہنچ کر دوبارہ بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔
بلند ترین تابانی کی دو حالتوں کے درمیانی وقفہ کو دورانیہ کہتے ہیں۔ یعنی وہ وقفہ جس میں تابانی کم ہونے کے بعد دوبارہ اپنی اونچی قیمت پر واپس آ جائے۔ یہ ستارے کہکشاؤں کے فاصلے معلوم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ قطبی ستارہ یا ستارہ شمال بھی ایسا ہی ستارہ ہے۔
1912ء میں ہارورڈ کالج کی رصد گاہ میں کام کرتے ہوئے ہینریٹا لیویٹ نے سب سے پہلے انکی نشاندہی کی تھی۔ اس نے نظریہ پیش کیا تھا کہ متواتر توانائی خارج کرنے کی بجائے گھٹتی بڑھتی شرح سے توانائی کا اخراج کر کے یہ ستارے اپنی عمر کو طوالت دے رہےہیں۔
ان ستاروں کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ انکا دورانیہ ٹمٹماہٹ انکی تابانی کے ساتھ راست متناسب ہے۔ انکی ظاہری تابانی ( یعنی وہ تابانی جو ہماری دوربین میں نظر آتی ہے۔) اور اندرونی تابانی یعنی ان سے برقی مقناطیسی لہروں کی صورت میں خارج ہونے والی کل توانائی باہم راست متناسب ہے۔ مطلب یہ ہواکہ جتنا کسی ستارے کا دورانیہ زیادہ طویل ہو گا اتنی ہی زیادہ اسکی ظاہری اور اندرونی تابانی ہوگی۔
کسی سیفیڈ ستارے سے کہکشاں کا فاصلہ معلوم کرنے کے لئے اسکی تابانی کا تقابل کسی نزدیکی ستارے کی تابانی سے کیا جاتا ہے۔ جس کی تابانی اور فاصلہ ہمیں دونوں معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی سیفیڈ ستارے کے دورانیہ سے اسکی تابانی معلوم کر لی جاتی ہے۔
پھر اسکا تقابل کسی نزدیکی ستارے کی تابانی سے کیا جاتا ہے۔ اسکے بعد دونوں کا فاصلہ بھی نسبت تناسب کے سادہ طریقہ سے معلوم کر لیا جاتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ سیفیڈ ستارے کائنات کے پیمانے ہیں جن سے اسکی وسعتوں کی پیمائش کی جاتی ہے۔
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
زمانہ قدیم کے لوگ سورج کو زندگی کا منبع مان کر اسکی پرستش کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ ستاروی نظاموں پر ہمارا علم بڑھے تو ہمیں پتہ چلے کہ زندگی بجائے خود ایک نظام کے ارتقائی مراحل کا ایک حصہ ہے۔
ستارے زندگی کے لئے سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں۔ اور ہم انکے ساتھ بندھے ہیں۔ لیکن ستارے خود منحصر اجسام نہیں ہیں۔
یہ محض کہکشاؤں کا ایک حصہ اور انکے دم سے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ کائنات کا کوئی حصہ بھی دوسرے سے ہٹ کر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا اور کیا یہ ممکن نہیں کہ زمین کی طرح کائنات کے طاقتور حصے میں بلین سالوں کے ارتقاء نے زندگی کے لئے کوئی سازگار کونا تراشا ہو۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا وجود اسکے ایک نہایت چھوٹے اور بے وقعت حصے کا محض ایک حادثہ ہو، جسکے دوسرے ستاروں میں ظہور اور تسلسل کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں۔ ان سب سوالوں کے جوابات ستاروں کے تفصیلی مطالعہ کے متقاضی ہیں۔
To read whole article need big size letters phont
جی محترم! پہلے ہی بیس پوائنٹ کا فونٹ استعمال کیا گیا ہے۔ آپ کی فرمائش بھی محفوظ کر لی گئی ہے۔ فونٹ سائز پر مزید توجہ دیتے ہیں۔ شکریہ کے ساتھ، سلامت و شاد رہیں.