مرشد (عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر21

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی

love story action novel murshid, urdu book
Murshid Urdu Novel

نازیہ کا خیال آنے پر ذہنی رو اس کی طرف چل نکلی ۔ وہ اس کے شروع بچپن کی سہیلی تھی۔ساتھ ساتھ ہوش سنبھالا تھا دونوں نے۔ گاوں بھر میں سب سے زیادہ گوڑھی اور عزیز سہیلی تھی وہ اس کی۔ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر سکون نہ ملا کرتا تھا دونوں کو لیکن اب حجاب زندگی میں پھر کبھی اس کی صورت نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ ایک طرح سے اس سارے الم ناک خرابے کی اصل جڑ بنیاد اسی کی شوخیاں اور تیزیاں طراریاں رہی تھیں۔ اسرار سے زیادہ سمجھدار اور معاملہ فہم ہونے اور حجاب کے بار بار روکنے ٹوکنے اور سمجھانے کے باوجود وہ اپنی روش سے باز آئی تھی نہ محتاط ہوئی تھی۔

اس بات کا بھی حجاب کو ایمان جیسا یقین تھا کہ اسرار کو حویلی میں اپنے کمرے تک خود آپ اسی نے گھسیٹا ہوگا ورنہ اسرار کتنا ایک ہوشیار چالاک تھا یا اس میں کس حد تک حوصلہ اور جرات تھی، وہ بخوبی جانتی تھی۔ اپنے طور پر تو اسرار سات جنم مزید کوشش کرتا تو بھی اتنی جرات،اتنا حوصلہ نہ کر پاتا کہ کسی بھی لڑکی کے لیے اس کے گھر کی دیوار پھلانگتا۔

اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ نازیہ اگر زندہ بھی ہوئی تو کسی اچھے حال میں ہرگز نہیں ہوگی۔فرزند علی نے اپنی فرعونیت اور نام نہاد اندھی غیرت کے جوش میں یقینا اس کے ساتھ بھی بہت برا سلوک کیا ہوگا۔

فیروزہ آنکھیں بند کرتے ہوئے نیم دراز ہو کر لیٹ گئی تھی جبکہ حجاب کا ذہن انتشار و اذیت کا شکار تھا۔شاید یہ اذیت بڑھتی ہی رہتی کہ تقریباً ایک گھنٹے بعد خنجر نے آکر یہ جان فزا خبر سنائی کہ مرشد کی بے ہوشی ٹوٹ گئی ہے۔ گو کہ ہوش کے محض چند منٹ بعد ہی وہ دوبارہ ہوش و ہواس سے بے گانہ ہو گیا تھا لیکن ڈاکٹر نے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ مسلسل بے ہوشی تشویش اور خطرے کا باعث تھی اب کم از کم بے ہوشی کا تسلسل ٹوٹ گیا ہے۔ مرشد نے خنجر اور جعفر کو شناخت بھی کر لیا تھا اور حجاب کے متعلق استفسار بھی کیا تھا۔اس کا مطلب سب ٹھیک تھا۔ بقول ڈاکٹر کے مرشد کی حالت اب شدید خطرے سے باہر تھی۔

حجاب کے منہ سے بے اختیار خدا کی لیے شکریہ کے کلمات ادا ہوئے۔اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے خدا نے خود اسے ایک نئی زندگی کی نوید دے دی ہو۔ اس نے اسی وقت وضو کیا اور شکرانے کے نفل ادا کرنے کی نیت سے کھڑی ہوگئی۔دوبارہ مرشد کو سہ پہر کے وقت ہوش آیا۔خنجر ہی یہ اطلاع دینے آیا تھا کہ مرشد کو ہوش آ گیا ہے اور وہ آپ کے حوالے سے شدید عدم اطمینان میں مبتلا ہے۔حجاب فوراً چپل پاو�¿ں میں پھنساتی ہوئی اٹھ کر مرشد والے کمرے میں پہنچ آئی۔وہ اسی طرح چارپائی پر دراز تھا البتہ اس کے سر کے نیچے دو تکیے رکھے تھے۔وہ کمرے میں داخل ہوئی تو مرشد کی نقاہت زدہ آنکھوں میں عجیب طرح کا اطمینان چمکا۔یوں جیسے اچانک زمانوں کی بے قراریوں کو یک بارگی قرار آ جائے۔جسم و جاں میں کھولتا پکتا اضطراب اچانک سکون اور طمانیت میں ڈھل جائے۔اس کے زرد چہرے پر ایک مدھم سی مسکراہٹ بھی طلوع ہوئی تھی۔خشک ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔

"سرکار!آپ ٹھیک ہیں نا؟” ہوش حواس گنواتے وقت بھی اسے اسی کی فکر رہی تھی اور اب ہوش میں آتے ہی اس نے پھر اسی کی خیریت جاننا چاہی تھی۔

"آپ پلیزبولیں مت۔” ڈاکٹر نے فوراً مرشد کو ٹوکا۔وہ ایک کیل کی مدد سے دیوار کے ساتھ لٹکتی ڈرپ میں انجیکشن انجیکٹ کر رہا تھا۔اک نظر حجاب کی توجہ ڈاکٹر کی طرف گئی تھی۔مرشد آنکھوں کی مدد سے ڈاکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

"آپ!اس کی باتوں پر….کان نہ دھریں۔” اس کی آواز اور چہرہ صاف غمازی کر رہے تھے کہ بولنے سے اس کے پہلو کے گھاو�¿ میں تکلیف ہو رہی ہے۔

حجاب فوراً بولی۔”ڈاکٹر صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔آپ ابھی بات چیت سے پرہیز کریں” بات کرتے کرتے اس کی آنکھوں میں نمی چمک گئی۔یہ مسرت و تشکر کے جذبات کی شدت کا کمال تھا۔

"آپ کو….کوئی… پریشانی تو نہیں سرکار؟” وہ بس ایک اس کی ذات کے حوالے سے مکمل اطمینان چاہتا تھا۔اس کی نظریں حجاب کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ٹیپو اور جعفر وہاں موجود نہیں تھے۔ڈاکٹر باری باری حجاب اور خنجر کی طرف دیکھتے ہوئے بے چارگی سے بولا۔

"براہِ کرم انہیں بولنے مت دیں۔اگر گھاو�¿ سے اندرونی طرف بلیڈنگ شروع ہو گئی تو کام بگڑ جائے گا”.

 حجاب فوراً مسکراتے ہوئے بولی۔

"ہم میں سے کسی کو بھی کوئی پریشانی نہیں ہے۔سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔بس اب آپ چپ رہیں۔بالکل بھی کچھ بولنا نہیں ہے”.اس نے حق جتانے والے حکمیہ انداز میں کہا تو مرشد کے ہونٹ مسکرانے والے انداز میں تھوڑے سے کھنچ گئے۔خنجر نے بھی اسے چپ رہنے کا کہا اور اسے جوس پینے میں مدد دینے لگا۔اس وقت دروازے پر فیروزہ نمودار ہوئی تو اس پر نظر پڑتے ہی مرشد واضح طور پر چونک پڑا لیکن اس کے سوال کرنے،اس کے بولنے سے پہلے ہی خنجر نے فیروزہ کی یہاں موجودگی کا پس منظر بتانا شروع کر دیا۔

مرشد کے بے ہوش ہونے سے لے کر اب اس کے ہوش میں آنے تک جو واقعات پیش آئے تھے وہ سب خنجر نے من و عن اس کے گوش گذار دئیے۔ایک ایک بات بالکل صاف صاف بیان کر دی۔پتا نہیں اس وقت حجاب کی وہاں موجودگی کو وہ بھول گیا تھا یا اس نے دانستہ ایسا کیا تھا برحال اس کی چند باتیں حجاب اور فیروزہ دونوں کے لیے انکشاف ثابت ہوئی تھیں۔

فیروزہ کے حوالے سے زریون کا رویہاس کے ساتھ زریون کا تعلق، حجاب کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھا۔وہ اپنی جگہ سن ہوکر رہ گئی تھی۔

دوسری طرف فیروزہ یہ جان کر اپنی جگہ حیران و پریشان بیٹھی تھی کہ زریون حجاب کا پھوپھی زاد ہے۔ان دونوں کی بچپن سے نسبت طے ہے اور آنے والے وقت میں انہوں نے شادی کے بندھن میں بندھ جانا ہے!یہ سب سن کر خود مرشد کے چہرے اور آنکھوں سے کئی رنگ اور کئی طرح کے تاثرات گزرے تھے۔اس کے چہرے پر نقاہت کی تھکاوٹ تھی اور آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیاں۔یہ اندازہ کر پانا تھوڑا مشکل تھا کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔وہ کیا سوچ رہا ہے؟

٭ ٭ ٭

اگلے دو تین روز میں مرشد نے حیرت انگیز تیزی سے سنبھالا لیا۔

باقی تو جو تھا سو تھا، اس کی آنکھوں اور آواز میں وہی پہلے والی زندگی کی حرارت اور چمک لوٹ آئی تھی۔مزید اگلے تین دن میں وہ خود سے ٹیک لگا کر بیٹھنے اور لیٹنے کے قابل ہو گیا۔ ڈاکٹر اس کے ساتھ ساتھ فیروزہ کی بھی برابر دیکھ بھال کر رہا تھا۔آرم سلنگ سے فیروزہ کی جان چھوٹ چکی تھی اور کندھے میں بھی اب تکلیف نہیں تھی۔بس بازو فضا میں بلند کرتے ہوئے کندھے کے اندر کہیں ہلکی سی چبھن ہوتی تھی،اس کے متعلق ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ چند دن میں ختم ہو جائے گی۔

ٹیپو اس ہفتہ بھر کے دورانیے میں شدید بے چین رہا تھا۔وہ مسلسل اس بات پر مصر تھا کہ حویلی فون کر کے ملک منصب یا ارباب صاحب کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا جائے یا پھر خود اسے یہاں سے جانے دیا جائے تاکہ وہ خود شاہ پور پہنچ کر ارباب صاحب کو مطلع کر سکے اور پھر وہاں سے افرادی قوت لیکر واپس آ سکے لیکن جعفر اور خنجر نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا۔یہاں فون نام کی چیز تھی نہیں اور احاطے کی چار دیواری سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔جعفر اور خنجر مسلسل اسے نظروں میں رکھے ہوئے تھے۔باسط سیال نے سامنے کے رخ گیٹ پر اپنے دو کارندے بھی متعین کر دیئے تھے۔

اس روز کڑاکے کی دھوپ پڑ رہی تھی۔گرمی کچھ زیادہ ہی تھی شاید اسی لیے ٹیپو بھی حویلی فون کرنے کے حوالے سے گرم ہو کھڑا ہوا تھا۔خنجر نے ساری باتیں مرشد کے گوش گزار دیں۔نتیجے میں پانچ منٹ بعد مرشد والے کمرے میں میٹنگ بیٹھ گئی۔جعفر، خنجر اور ٹیپو کے علاو�¿ہ باسط سیال بھی اس میٹنگ میں شامل ہوا تھا۔وہ اچھے ہڈپیر کا ایک پختہ عمر شخص تھا۔سر پربالوں کی خاصی قلت تھی اور چھوٹی سی توند بھی نکلی ہوئی تھی۔کچھ ہی فاصلے پر موجود موضع تلیری نامی علاقے میں اس کا گھر تھا اور وہ پرسوں کا گھر گیا ہوا آج….ابھی کچھ دیر پہلے ہی واپس لوٹا تھا۔

"آپ لوگوں کو اپنی پرواہ نہیں ہے تو نا سہی لیکن کم از کم ان بی بی کا تو کچھ خیال کریں!”ٹیپو جزباتی انداز میں کہہ رہا تھا۔

"یہ کوئی محفوظ ٹھکانا نہیں ہے۔آپ لوگ مجھے جانے دے رہے ہیں نہ فون کا کچھ کر رہے ہے۔آپ کو شاید اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان حالات میں ارباب صاحب آپ کی کتنی مدد کر سکتے ہیں۔ملک منصب کا اثر و رسوخ بھی کام آئے گا اور….اور اب جب ان لوگوں کو ان بی بی جی کی اصل حقیقتکا پتا چلے گا تو وہ یقین مانیں اپنا آپ قربان کرنے کے لیے تڑپ اٹھیں گے…. بھونچال کھڑا کر دیں گے اور جب ان کے ذریعے بڑے شاہ جی تک اطلاع پہنچے گی تب….” اس نے ایک جذب کے عالم میں سر کو دائیں بائیں حرکت دیتے ہوئے باری باری ان سب کی طرف دیکھا۔

” تب آپ دیکھنا…. یہ جو سرکاری اور غیر سرکاری کتوں کا جھنڈ پاگل ہوا پھر رہا ہے نا! ان سب کو دیکھنا پٹے کیسے ڈلتے ہیں…. یہ سب بھاگیں گے، چھپتے پھیریں گے اور چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی انہیں۔”

"بڑے شاہ جی؟” مرشد سمجھ تو گیا تھا کہ ٹیپو کا اشارہ حجاب کے پھوپھاسید نظام الدین کی طرف ہے. پھر بھی اس نے استفسار کیا تھا۔

بڑے شاہ جی…. چھوٹے شاہ جی کے والد صاحب، بی بی جی کے پھوپھا جی!“ 

"کیا بڑے شاہ جی اتنا زیادہ اثرورسوخ رکھتے ہیں؟” 

” اللہ نے انہیں بڑا نوازا ہے جی! بڑی عزت دی ہے انہیں…. بی بی جی کے متعلق ان تک اطلاع پہنچنے کی دیر ہے بس…. آپ کی ساری مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔ بلوچستان تک جانے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی آپ کو اور اگر جانا ہوا بھی تو عزت واحترام اور پورے ٹہکے سے جانا ہو گا۔.” 

"ملک منصب ، ارباب صاحب، تم… کیا واسطہ ہے تم سب کا شاہ جی سے؟چھوٹے شاہ جی کو بھی تم پہلے سے جانتے تھے !”

"ہمارا پیرو مرشد گھرانہ ہے۔ شاہ جی ہمارے مائی باپ ہیں۔ ہماری بستی شاہ پور…. ان ہی کی زمین پر آباد ہے اور وہاں ارد گرد، خصوصاً دریا کے ساتھ ساتھ دائیں ہاتھ پھیلا سینکڑوں ایکڑ رقبہ بھی ان ہی کا ہے۔ آج سے پینتیس چالیس سال پہلے بڑے شاہ جی کے والد صاحب نے یہ ساری زمین، سارا رقبہ ایک مہاجر بلوچ قبیلے کو دے دیاتھا… یونہی….فری فنڈ میں۔ اس قبیلے کے سردار ملک منصب کے بزرگ تھے۔.”

"ہاں جی!”باسط سیال نے بے ساختہ حصہ لیا. "ہم نے بھی اس طرح کی باتیں سن رکھی ہیں۔ برسوں پہلے کوئی بڑی پنچایت کا قصہ بنا تھا۔ پنچایت میں شاید نوابوں، چوہدریوں میں سے کوئی قرآن ا�±ٹھا لایا تھا…. شاہ پور کے بلوچوں اور خان پور کے نوابوں کے بیچ اسی زمین کے چکر میں تو جھگڑا اور دشمنی چلی آ رہی ہے۔.”

ٹیپو مزید بولا۔ "اپنے والد صاحب کے بعد اگر بڑے شاہ جی چاہتے تو یہ سارا رقبہ واپس لے سکتے تھے۔ وہ قانونی طور پر اس کے مالک ہیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، کبھی جتلایا تک نہیں کہ وہ اس ساری زمین جائیداد کے مالک ہیں۔ سوچیں ذرا…. کیسا بڑا دل اور کیسا ظرف ہے ان کا۔ "

ٹیپو کے لہجے میں سچی عقیدت اور محبت بول رہی تھی۔ 

"وہ خود یہاں رہتے ہیں یا بلوچستان؟” خنجر نے پوچھا۔ 

"بلوچستان…. یہاں تو بہت کم کبھی آتے ہیں.. آئیں بھی تو شہر کے دوسرے کنارے ان کی دو فیکٹریاں ہیں، ادھر آتے ہیں۔ بستی کی طرف نہیں آتے۔ میں نے اپنی زندگی میں صرف دو بار انہیں بستی میں دیکھا ہے بس…. بارہ سال پہلے فساد اور تباہی کا ایک ہولناک طوفان ا�±ٹھا تھا، اس طوفان کو بڑے شاہ جی ہی نے آ کر سنبھالا تھا وگرنہ ضلع بھر کی پولیس اور انتظامیہ تو بے بس ہو کر رہ گئی تھی۔” ٹیپو کی آواز میں گھمبرتا سمٹ آئی۔ باسط کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں بڑبڑایا۔ 

"توبہ، توبہ…..” 

"اور چھوٹے شاہ جی؟” مرشد نے زریون کے متعلق استفسار کیا۔

” وہ…. وہ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان زمینوں کے علاوہ ان کا اور بھی بہت سا رقبہ پڑا ہے یہاں۔ کئی ایکڑ پر تو صرف آموں کے باغ ہیں۔ بہت بڑا فارم ہاو�¿س ہے۔ ان باغوں، زمینوں اور فارم ہاو�¿س کے معاملات ہمارے قبیلے کے لوگ ہی دیکھتے ہیں۔ادھر…. فارم ہاو�¿س پر چھوٹے شاہ جی

اور ان کے دوست وغیرہ اکثر آتے جاتے رہتے ہیں. "

مرشد کے چہرے پر سوچ بچار کے تاثرات ابھر آئے۔ ٹیپو مزید بولا… 

"آپ لوگ میری بات مانیں۔ مجھے شاہ پور حویلی تک جانے دیں یا پھر حویلی فون کروائیں۔”

” یہ کہیں آنے جانے والی بات بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔“ باسط فوراً بولا۔”شہر تو شہر…. شہر کے ارد گرد دیہات اور بستیوں کے حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ علاقے بھر کی پولیس تم لوگوں کی بو سونگھتی پھر رہی ہے۔ نواب کے بندوں کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی تمھارا کھرا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔”

"پھر تو کسی بھی وقت وہ لوگ یہاں بھی پہنچ سکتے ہیں…اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے جانے دیں یا حویلی فون کرائیں۔ ارباب صاحب تک اطلاع پہنچائیں۔ "

"تمہارے پاس مزید کیا خبر ہے؟”. مرشد باسط کی طرف متوجہ ہوا۔ 

"خبر یہی ہے جی! چاروں طرف ایک سنسنی سی پھیلی ہوئی ہے۔ رات بستی کے ایک ہوٹل پر مجمع لگا ہوا تھا۔ چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ علاقے میں خطرناک دہشت گردوں کا ایک گروہ گھس آیا ہے۔ پولیس کے علاوہ ایک دو اجنبی شکلیں بھی بستی میں دکھائی دی ہیں۔ بستی کے سادہ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اجنبی دراصل سادہ کپڑوں میں انٹیلی جینس کے لوگ ہیں جو آپ سب کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ پوچھ گچھ کرتے پھر رہے تھے کہ کسی نے دیکھا ہو ،کسی کے پاس کوئی خبر ہو…. چار پانچ لوگوں کے گروہ میں ایک لڑکی ہے اور ان کا ایک ساتھی شدید زخمی ہے۔ ہفتہ پہلے چناب پار بند پر دو دن تک جو پولیس مقابلہ ہوتا رہا ہے، اس میں دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ کچھ پولیس والوں کی بھی لاشیں گری ہیں.. شہر اور شہر کے قرب و جوار میں ایک پر اسرارسی دہشت کی فضا بنی ہوئی ہے۔ آپ کے دشمنوں کو پختہ یقین ہے کہ آپ لوگ اسی شہر یا شہر کے اردگرد کے کسی گاو�¿ں کی کسی بستی میں چھپے بیٹھے ہیں۔ چاروں طرف ڈھونڈیا مچی ہوئی ہے آپ کی۔”

 چہرے کے ساتھ ساتھ اس کے لہجے میں بھی سنسنی خیزی تھی اور جو صورتحال اس کی زبانی معلوم ہو رہی تھی وہ تھی بھی سنسنی خیز ہی۔ اس کی باتوں سے صاف صاف ظاہر تھا کہ ان کے بل واسطہ وبلاواسطہ سب ہی دشمن…. اس علاقے میں جمع ہو کر ان کے خلاف صف آرا ہو گئے ہیں۔ باسط نے اس سب کی مزید تصدیق کر دی۔ وہ باری باری ان سب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔

” پورے علاقے میں ایک جال کی طرح پھیلے پھر رہے ہیں وہ لوگ…. آپ میں سے کوئی بھی باہر نکلا تو یقینی طور پر نظر میں آ جائے گا…. یہاں بھی محتاط رہیں۔ دن کے وقت کمروں سے باہر بالکل ہی نا نکلیں تو اچھا رہے گا۔ "

"یہی بات میں کہہ رہا ہوں۔” ٹیپو ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے پر زور انداز میں بولا۔”یہ ٹھکانہ زیادہ محفوظ نہیں ہے۔ وہ لوگ کسی بھی وقت یہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔میں نہیں جاتا لیکن آپ ارباب صاحب کو فون پر اطلاع تو دے سکتے ہیں نا!! "

"ہاں! تمہاری بات غلط نہیں ہے۔.” مرشد نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا پھر باسط سے مخاطب ہوا۔ 

"چناب پار کی مزید کوئی خبر… کتنے دہشت گرد مارے گئے ہیں؟؟” اس کے ذہن میں سجے، خانواور ان کے دیگر چار ساتھیوں کے چہرے تھے۔

” سنا ہے کہ گیارہ بارہ دہشت گرد مرے ہیں اور سات پولیس والے… چار چھے زخمی بھی ہوئے ہیں۔. "

مرشد نے فوراً یاد کیا… سجے کے ساتھ چار نہیں تو پانچ بندے رہے ہوں گے۔ سجے سمیت وہ کل چھ لوگوں سے زیادہ نہیں تھے پھر ان کی تعداد گیارہ بارہ کیسے ہو گئی؟اسے یاد آیا کہ سجے نے کہا تھا ک کچھ فرشتے ابھی پردے کے پیچھے ہیں۔ وقت پڑنے پر وہ بھی سامنے آ جائیں گے…. چھ سے اوپرباقی پانچ چھ لاشیں پھر ان فرشتوں کی رہی ہوں گی۔ سجے کی گولیوں سے چھلنی خون آلود لاش کے تصور کے ساتھ ہی مرشد کے سینے پر ایک بوجھ سا اتر آیا…. ایک دن کا مختصر سا ساتھ رہا تھا۔ وہ لوگ آپس میں بالکل اجنبی تھے پھر بھی…. پھر بھی ان رِند باش لوگوں نے ان کی خاطر اپنی جانیں لڑا دیں تھیں۔ وہ اجل خیز طوفان جو مرشد اور اس کے ساتھیوں کی زندگیاں نگل لینے کی ہوس میں ان پر ٹوٹا پڑ رہا تھا۔ اس سے سجا اور اس کے ساتھی بھڑ گئے تھے… ایک عجیب سر فروشی اور رندانہ جرات کے ساتھ…. مرشد کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ ایسا ہوتا ہی کب ہے بھلا…. نہیں، ایسا نہیں ہوا کرتا! 

اور اگر ایسا ہوا تھا تو یہ محض قدرت کا ایک کرشمہ ہی تھا… اگروہ سر فروش لوگ ان کے اور موت کے ہرکاروں کے درمیان رکاوٹ نہ بنے ہوتے تو مرشد لوگوں کے لیے اس صورت حال سے نکل آنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ یہ ہوا تھا…. ان کے لیے سبب بنا تھا تو یہ اس مسبب الاسباب کا کام تھا جو ہر پل آگاہ اور حاضروناظرہے۔ یقیناً اس علیم الخبیر نے ان کے لیے کچھ اور…. کچھ اچھا اور بہتر ہی سوچ رکھا تھا جو اس نے اس مشکل اور جان لیوا صورتحال سے ان کے نکل آنے کے اسباب پیدا فرما دئیے تھے۔ 

"تمہاری بستی یہاں سے کتنی دور ہے؟” خنجر، باسط سے مخاطب ہوا.

” یہی کوئی ڈھائی تین کلومیٹر۔ "

”ہماری یہاں موجودگی کے متعلق تمہارے علاوہ اور کس کس کو پتا ہے؟ "

"کسی کو نہیں…. بس سلطان اور بابر ہی کو پتا ہے اور وہ دونوں تو مسلسل یہیں موجود ہیں۔”

” ادھر سے ہوا نہیں نکلے گی۔ بے فکر رہو۔“جعفر نے باسط کی طرف سے اس کی تشفی کرائی۔” ہاں البتہ دشمن خود ہی کسی طرح یہاں تک پہنچ آوے تو وہ دوسری بات ہے۔”

"اس بات کے کتنے فیصد چانس ہیں؟” مرشد نے سوالیہ نظروں سے باسط کی طرف دیکھا تو وہ شش وپنج کی سی کیفیت میں بولا۔ 

"اس بارے میں بھلا کیا کہا جا سکتا ہے… ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی… اس ڈیرے کا پتا تو پوری بستی کو ہے لیکن یہ دیکھا بس چند لوگوں ہی نے ہے ۔آپ کے سامنے ہے۔ زیادہ وقت نہیں ہوا اسے بنے.. ساڑھے تین چار ماہ پہلے بنایا ہے۔ آس پاس اور کوئی بستی نہیں ہے اور یہاں چاروں طرف تین تین، چار چار فرلانگ تک آموں کے باغ ہی باغ ہیں۔ سڑک یہاں سے تین فرلانگ دور ہے اور سطح زمین سے اونچی بھی ہے۔ درختوں کی بہتات کی وجہ سے کچھ فاصلے سے یہ ڈیرہ دکھائی بھی نہیں دیتا۔ اس وجہ سے یہ محفوظ بھی ہے اور اسی وجہ سے غیر محفوظ بھی کیونکہ یہ خیال آ جانے پر یہاں کی پولیس کسی بھی وقت ان باغوں کی طرف بھی منہ کر سکتی ہے اور یہی پہلو تشویش ناک ہے۔“

ٹیپو نے فوراً لقمہ دیا۔” اگر ایسا کچھ ہوا تو اس کے نتیجے میں ہم سب کا انجام کچھ بھی ہو سکتا ہے پھر…. کچھ بھی۔ "

"او شہزادے! تیری مہربانی یار! یہ ڈرانے والی باتیں مت کر….” جعفر کے ٹوکنے پر ٹیپو قدرے ترشی سے بولا۔ 

"میں کوئی مذاق نہیں کر رہا.. نہ ہی تم لوگوں کی فکر کھائے جا رہی ہے مجھے… مجھے فکر ہے تو صرف اور صرف ان بی بی جی کی۔ وہ چھوٹے شاہ جی کی ہونے والی بیوی ہیں… پیرو مرشد گھرانے کی بہو.. ان پر کوئی حرف، کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ مجھے بس یہی ایک پریشانی ہے۔ "

"چھوٹے شاہ جی کی ہونے والی بیوی۔” مرشد کے دل پر گھونسہ سا پڑا تھا۔

” ارباب صاحب تک کیا اطلاع پہنچانا چاہتے ہو تم؟” مرشد اس سے مخاطب ہوا۔ 

"یہی…. ہم لوگوں کی اس جگہ موجودگی کے حوالے سے اور ان بی بی جی کے بارے میں کہ وہ دراصل ہیں کون…. ان کی اصلیت کہ وہ کس گھرانے، کس خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔”

” اور یہ اطلاع ملنے کے بعد ارباب صاحب کا ردِعمل کیا ہو گا، کیا کریں گے وہ؟ "

"ظاہر ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور جیسے تیسے بھی ہو سکا ہمیں باحفاظت طریقے سے یہاں سے نکال لے جائیں گے۔ ” 

"کہاں؟ "

"کہیں بھی… جہاں آپ سب مکمل طور پر محفوظ رہ سکتے ہوئے۔ ممکن ہے یہاں سے سیدھے شاہ پور کا پروگرام بنے….ملک منصب کی حویلی کا۔.” چند لمحوں کے پ�±ر سوچ توقف کے بعد مرشد بولا۔ 

"چوہدری، نواب اور پولیس… سب ہی کو پتا ہے کہ پچھلے دنوں ارباب صاحب پسِ پردہ ہی سہی ہماری مدد کرتے رہے ہیں.. تمہاری بستی اور بستی کے لوگوں پر تو با طور خاص نظر رکھ رکھی ہو گی سب نے…. ارباب صاحب خود بستی سے نکلیں یا کچھ اور لوگوں کو بھیجیں، وہ یقیناً نظر میں آ جائیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے پیچھے لگ کر دشمن بھی یہاں تک آ پہنچے.. "

"ہم اس طرح کے اندازے لگا سکتے ہیں لیکن شہر کے اصل اور درست حالات کیا ہیں۔ ارباب صاحب ان سے پوری طرح واقف ہوں گے اور وہ حالات کے مطابق بہترین سے بہترین فیصلہ کر سکتے ہیں۔ بہترین لائحہ عمل بنا سکتے ہیں۔ "

"ریسٹ ہاو�¿س سے بشارت کی لاش بھی پولیس کے ہاتھ لگی ہوگی۔“ مرشد کا انداز خود کلامی والا تھا۔ اس کی پیشانی پر سوچ بچار کی لکیریں پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کی وہ میٹنگ تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے جاری رہی لیکن وہ سب کسی ایک حتمی فیصلے پر متفق نہیں ہو سکے۔ 

ہر صورت، ہر طریقے شدید خطرہ موجود تھا۔ حالات از حد سنگین اور پیچیدہ صورت اختیار کر چکے تھے۔ اچھے خاصے بحث مباحثے اور صلاح مشورے کے بعد بھی جب وہ کسی فیصلے تک نہیں پہنچ پائے تو مرشد نے فی الوقت مزید سوچنے سمجھنے کا کہتے ہوئے میٹنگ برخاست کر دی۔ 

اگلے روزباسط ہی کے ذریعے حالات و واقعات کی تصویر ان پر کچھ مزید واضح ہو آئی۔ شہر کے چاروں راستوں پر سخت چیکنگ جاری تھی۔ شہر کے اطراف میں پانچ میل کے دائرے تک جگہ جگہ پولیس ناکے لگے ہوئے تھے اور شہر کے علاوہ ارد گرد کی بستیوں میں بھی پولیس ان کی ٹوہ لیتی پھر رہی تھی۔ بقول باسط کے پولیس پارٹی ایک آدھ چکر ان باغوں کا بھی لگا چکی ہے لیکن بس معمول کے گشت کی طرح ۔شاید وہ تین فرلانگ دور سڑک ہی پر سے ہو کر چلے گئے تھے۔ 

حالات و واقعات کی اس تصویر سے یوں لگتا تھا جیسے علاقے بھر کی ساری پولیس دیگر تمام معاملات چھوڑ کر صرف ان کی تلاش میں ج�±ت گئی ہے۔ یقینی طور پر پولیس کے علاوہ چوہدری ٹولے، ملنگی گروپ اور نواب اسفندیار کی صورت مقامی زمینی طاقت بھی ان کے خلاف اور ان کی تلاش میں تھی۔ 

جمال نے انہیں یہ بھی بتایا کہ پولیس کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو مقامی تو بہرحال نہیں ہیں لیکن دیکھنے سننے میں آ رہے ہیں۔ شہر میں مختلف مقامات پر دو تین چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کی بھی اطلاع سننے کو ملی ہے اور یہ بھی پتا چلا ہے کہ شاہ پور حویلی پر بھی کسی نے دھاوا بولا تھا لیکن بھرپور مزاحمت پر دھاوا بولنے والے فوراً ہی فرار ہو گئے ۔ اس سب کے علاوہ پانچ نا معلوم افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ دو ریلوے یارڈ کی پچھلی طرف سے، ایک جی ٹی ایس اڈے کی لیٹرینوں سے اور دو کھجوروں کے ایک باغ سے بتانے والے نے بتایا ہے کہ ان دونوں لاشوں کی حالت انتہائی ابتر تھی۔ دونوں کو انتہائی بے دردی اور بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پانچوں میں سے کسی ایک کی بھی شناخت نہیں ہو سکی۔ ان سب حالات کی بدولت پورے علاقے کی فضا بدلی ہوئی ہے۔ ایک عجیب پر اسرار سا خوف پھیلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔یوں لگتاہے جیسے اس سارے علاقے کو کسی خطرناک اور زہریلی مکڑی نے اپنے مضبوط لیکن نادیدہ جال میں جکڑ لیا ہو۔

خودباسط کے اپنے حواس اڑے اڑے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ الجھن و اضطراب کے ساتھ قدرے پریشان بھی لگ رہا تھا… شاید پہلے اسے اندازہ نہیں تھا کہ جعفر کے ساتھ موجود لوگوں کی وجہ سے علاقے بھر میں اتنا بڑا کھڑاگ پیدا ہو جائے گا لیکن اب… اب یقینی طور پر موجودہ حالات کی سنگینی کا تصور اس کے اعصاب پر اثرانداز ہو رہا تھا۔ خود مرشد اور اس کے ساتھیوں کے چہروں پر بھی تشویش آمیز غوروفکر کے تاثرات پھیل گئے تھے۔ 

"یہ…. مرنے والے لوگ کون ہو سکتے ہیں؟” جعفر، باسط سے متفسر ہوا ۔

” کچھ پتا نہیں…. لوگوں میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔” 

"مثلاً…. کس طرح کی؟ "

"یہ بات تو طے ہے کہ آپ لوگوں کے علاوہ بھی کچھ خطرناک اور پر اسرار لوگ شہر میں چکراتے پھر رہے ہیں۔ یہ مرنے والے بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہوں گے کیونکہ یہ اگر اسی علاقے کے ہوتے تو کسی ایک کی شناخت تو ہوئی ہوتی… "

"چناب پار ہونے والے پولیس مقابلے کے حوالے سے کچھ مزید جاننے سننے کو ملا ہو؟” مرشد نے پوچھا. 

"نہیں….. کچھ نہیں…” 

"یہ مرنے والے کون لوگ ہوں گے اور انہیں مارا کس نے ہو گا؟” جعفر نے پھر سوال اٹھایا۔ اس بار اس نے متفسرانہ نظروں سے باری باری مرشد اور خنجر دونوں کی طرف دیکھا تھا۔ 

"کس نے مارا ہو گا؟” خنجر کے ذہن میں بھی سوال کسمسایا۔ 

"یہاں صرف ہمارے دشمنوں ہی کا میلہ لگا ہوا ہے۔ "

 "کچھ دوست بھی تو ہو سکتے ہیں۔ "مرشد نے کہا ۔

"ارباب صاحب کا عمل دخل ہو سکتا ہے۔ ملنگی گروپ اور چوہدریوں کے درمیان بھی کچھ تناو�¿ والا معاملہ چلتا رہا ہے. یا پھر… کوئی بھی ہو سکتے ہیں…. وہ مر چکے… ان میں سے اب کیا نکالنا ہے؟” 

"نہیں… نکالنا کیا ہے، میں تو یہ بس… یونہی” جعفر کچھ کہتے کہتے ارادہ بدل گیا۔ ان کے درمیان کچھ دیر مزید گفت وشنید جاری رہی اور پھر یہ طے پایا کہ آج بستی واپس جا کرباسط حویلی شاہ پور فون کرے گا اور ملک منصب یا ارباب قیصرانی سے بات کر کے ٹیپو کا پیغام دے گا۔ اس کے بعد آگے پھرقسمت یا نصیب!اس فیصلے کے بعد کم از کم ٹیپو خاصی حد تک مطمئن اور پر جوش دکھائی دینے لگا تھا۔ اسے پورا یقین تھاکہ ملک منصب اور ارباب قیصرانی سارے معاملات و مسائل کو بخوبی سنبھال لیں گے. وہ مطمئن ہو گیا تھا لیکن مرشد بالکل بھی مطمئن نہیں تھا۔ وہ مضطرب تھا، پریشان تھا۔ تشویش کے ساتھ ساتھ ایک تذبذب، ایک بے چینی سی اسے اندر سے چاٹ رہی تھی اور اس کی وجہ تھی اس کی بستر نشینی، پہلو کا گھاو�¿، جسمانی کمزوری… زخم ابھی کچا تھا، ٹانکے بھی نہیں ک�±ھلے تھے۔ گھاو�¿ بھرنے میں ابھی کافی سارے دن لگنے تھے جب کہ ان کے اردگرد کے حالات انتہائی تشویش ناک تھے۔ کسی بھی وقت حالات اچانک خطرناک اور جان لیوا صورت اختیار کر سکتے تھے اور وہ تھا کہ بستر پر پڑا تھا۔ بھاگ دوڑ یا لڑنا بھڑنا تو دور کی بات فی الحال تو وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے سے بھی قاصر تھا اور یہ چیز اسے مایوسی اور جھنجھلاہٹ کااحساس دلا رہی تھی۔ 

ٹیپو، ملک منصب اور ارباب قیصرانی کے حوالے سے مطمئن تھا لیکن مرشد دوسروں پر انحصار کرنے والوں میں سے نہیں تھا.۔ویسے بھی اس کے نزدیک حجاب صرف اور صرف اس کی ذمہ داری تھی اور اپنی ذمہ داری خود اسے ہی نبھانی تھی… شاید وہ تندرست ہوتا تو کبھی بھی اس طرح کسی کی مدد طلب کرتا،نہ مدد کا انتظار… فی الحال مجبوری یہ تھی کہ صورتحال مکمل طور پر غیر یقینی تھی۔ کسی بھی وقت اچانک ان کے لیے کوئی بڑی مصیبت کھڑی ہو

سکتی تھی اور وہ حجاب کے حوالے سے ایک رتی برابر بھی رسک گوارا نہیں کر سکتا تھا.. بس اسی باعث اس نے باسط کو حویلی شاہ پور فون کر کے ارباب یا ملک منصب تک اطلاع پہنچا دینے کا کہہ دیا تھا.. 

اگلے روز باسط صبح صبح ہی پہنچ آیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ اس کے پاس کوئی خاص خبر ہے…. جعفر، خنجر اور ٹیپو، مرشد کے ساتھ ایک ہی کمرے میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے ۔باسط کی آمد پر وہ بھی ہوشیار ہو بیٹھے.. سب سے پہلے تو اس نے دھماکا خیز انداز میں یہ بتایا کہ شاہ پور میں کل شام پھر ایک زور کا پنگا پڑا ہے۔ 

”میں نے رات وقفے وقفے سے کوئی تین بار فون کیا لیکن نہ تو ملک منصب سے بات ہو سکی نہ ارباب صاحب سے!“ وہ مرشد کی پائنتی ہی پر ٹک کر بیٹھ گیا تھا۔ "پتا چلا ہے کہ کل مغرب کے قریب چوہدریوں نے حویلی کو گھیر لیا تھا۔وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو ملک نے اپنی حویلی میں چھپا رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کو ان کے حوالے کر دیا جائے نہیں تو وہ خود حویلی میں گھس کر آپ لوگوں کو وہاں سے اٹھا لے جائیں گے۔“باسط نے باری باری ان کی صورتیں دیکھیں۔

” اوئے تیری….” ٹیپو بے ساختہ پ�±رجوش انداز میں کہتے ہوئے سیدھا ہو بیٹھا۔ "چوہدریوں کی بڑی گندی ہوئی ہو گی پھر تو ” 

باسط کے لہجے میں مزید سنسنی در آئی۔ "سنا ہے بڑے زور کا پھڈا پڑا ہے دوبدو گولیاں بھی چلی ہیں۔”

 یہ خبر واقعی اہم اور چونکا دینے والی تھی… مرشد بھی بازو�¿ں کے زور پر ا�±ٹھتے ہوئے عقب میں دھرے تکیوں سے کمر ٹکا کر بیٹھ گیا تھا

".. نتیجہ کیا رہا؟ ” اس نے پوچھا۔

” ابھی تک تو میرا خیال ہے کہ پھڈا ختم ہی نہیں ہوا….” سبھی کچھ مزید چونک پڑے. "رات موقع پر ہی دو تین پولیس پارٹیاں پہنچ گئیں تھیں اس لیے فساد ر�±ک گیا تھا.. دونوں طرف کے لوگ پھٹل ہوئے ہیں لیکن باتیں ہو رہی ہیں کہ چوہدریوں کے پھٹلوں کی تعداد زیادہ ہے…. مرا شاید کوئی نہیں… پولیس نے چوہدریوں کو پیچھے تو ہٹا لیا ہے لیکن چوہدری ٹلنے پر آمادہ نہیں ہیں… انہوں نے بستی سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر، بستی کے دو طرف نا کا لگا لیا ہے اور آپ لوگوں کے حوالے سے اپنی بات پر بضد ہیں …. دوسری طرف حویلی والوں کی طرف سے اعلانیہ کہہ دیا گیا ہے کہ اب اگر چوہدریوں کا کوئی بھی بندہ بستی کی حدود میں داخل ہوا تو ا�±سے سیدھے سیدھے فائر مار دیا جائے گا۔ دونوں طرف سے اثرورسوخ لڑایا جا رہا ہے اور درمیان میں پولیس والے زچ ہوئے پھر رہے ہیں۔ "

"نوابوں کا کوئی بندہ آیا ہے بیچ میں؟؟” ٹیپو نے باسط سے پوچھا۔ 

"نہیں…. سنا تو نہیں ہے۔ ویسے نوابوں کو حصے دار بننا بھی نہیں چاہیے۔”

اگر اس بار فساد چھڑا نا! تو ان حرامی چوہدریوں کا چھوڑیں گے ہم کھکھ بھی نہیں۔ بارہ سال…. بارہ سال سے ایک آگ، ایک لاوہ پکتا آ رہا ہے ۔ بارہ سال سے بستی کا بچہ بچہ تیاری کرتا آرہا ہے۔” ٹیپو کی آواز میں ایک گھمبیرتا سمٹ آئی۔ چہرے پر گہری سنجیدگی اتر آئی تھی۔

باسط کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔

"نہیں جوان! اللہ نہ کرے یار کہ ویسا کچھ ہو…. کوئی اچھے کی دعا مانگو، خیر کے کلمے بولو۔”

جعفر اور خنجر نے مرشد کی طرف دیکھا ،وہ سنجیدگی سے ٹیپو کی طرف متوجہ تھا۔ ارباب کے الفاظ اسے یاد تھے۔ چوہدریوں کے ساتھ ان کی بھی کوئی گہری رنجش چلی آ رہی تھی بارہ سال پہلے یہاں کوئی بڑا اور طویل فساد ہوا تھا اور اب ٹیپو کی با توں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ کسی نہ کسی طور اس فسادسے چوہدریوں کا بھی تعلق رہا ہے۔ مرشد کے ذہن میں ایک ساتھ کئی خیالات کلبلانے لگے۔ 

حجاب… نندی پورسادات اور چوہدریوں کے درمیان دشمنی…. حجاب کے پھوپھا نظام الدین، قلعہ سیف اللہ ، نواب اسفند یار…. 

نظام الدین کے والد….. شاہ پور بستی اور زمینیںچوہدری اکبر کا باپ حاکم علی… ملک منصب کے بزرگ…. شاہ پور کے بلوچوں کی چوہدریوں اور نوابوں سے دشمنی اور شاہوں سے عقیدت!!

"چوہدریوں کے ساتھ تم لوگوں کا کیا پنگا چلا آ رہا ہے؟؟ کیا ہوا تھا بارہ سال پہلے؟” مرشد نے ٹیپو سے سوال کیا۔ 

"یہ چوہدری نہیں جی !چمار لوگ ہیں یا پھر اس سے بھی کوئی ہلکی قوم ذات ہے ان کی…. ان کے بڑے، ان کے جد انگریزوں، نوابوں کے گھوڑوں کی خدمتیں خاطریں کیا کرتے تھے۔ آگے سے اولادیں خود کو جاگیردار اور چوہدری کہلوانے لگ گئیں۔” ٹیپو نے نفرت و حقارت سے کہا۔ اس کی بات مکمل ہوتے ہی باسط بولا۔ 

"یہ وہی چالیس سال پرانا جھگڑا ہے جناب! ٹھیک ٹھیک بات کا تو پتا نہیں لیکن جو بڑے بوڑھوں سے سنا ہے ،اس کے مطابق شاہوں، نوابوں، چوہدریوں اور بلوچوں کے درمیان انیس سو سنتالیس (1947) میں ایک بڑے زمینی رقبے کی وجہ سے تنازعہ پیدا ہوا تھا اور وہ تنازعہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ سید سرکار تو اسی دور میں دامن بچا گئے تھے رقبے کے ایک بڑے حصے سے تقریباً دست بردار ہو گئے تھے لیکن ان کے حق کے لیے شاہ پور کے بلوچ ڈٹ گئے مخالف طرف نوابوں اور چوہدریوں کا گٹھ جوڑ تھا۔ بس دشمنی پڑ گئی…بارہ سال پہلے دشمنی کی یہ آگ اچانک اس شدت سے بھڑک اٹھی تھی کہ سب کچھ جلا کر راکھ کر گئی بڑی قتل و غارت گری ہوئی تھی بڑی تباہی مچی تھی۔خدا کی پناہ۔”گزرے وقت کی ہولناکی کا تصور باسط کے چہرے پر سایہ سا لہرا گیا۔ اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جو ریڑھ کی ہڈی کے اندر سرد سی سر سراہٹ جگا جاتا ہے۔

"چالیس سال پہلے بھی کہتے ہیں کہ اصل شیطانی نوابوں کی تھی اور بارہ سال پہلے بھی چنگاری بھڑکانے والے نواب ہی تھے سب ان ہی کا کیا دھرا تھا۔ اب اگر اس معاملے میں نوابوں کی طرف سے کسی نے مداخلت کی…. چوہدریوں کا ساتھ دیا تو شاید شاہ پور کے بلوچ برداشت نہ کر پائیںگے۔ حالات بہت خراب ہو جائیں گے ایسے میں۔�©�©“

”سنا ہے کہ حویلی میں اور بستی کے باہر چوہدریوں کے ناکے پر رات سے پنجایتیں ہو رہی ہیں،اسی لیے تین بار فون کرنے پر بھی میری ملک منصب یا ارباب صاحب سے بات نہیں ہو سکی۔“باسط نے مزید تفصیل بیان کی۔مرشد گہری سوچ میں پڑ گیا۔ اس کے ذہن میں متضاد سوچوں اور خیالوں کی ایک بھگدڑ سی مچی ہوئی تھی۔

سادات گھرانہ، چوہدری، نواب اور شاہ پور کے بلوچ…. واضح ہو چکا تھا کہ یہ سب لوگ ایک زمینی تنازعے کے باعث برسوں سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں ایک برسوں پرانی زہریلی رنجش کسی نا کسی طور ان سب کو ایک دوسرے سے منسلک کرتی تھی ،ایک مشترکہ ربط بناتی تھی تقریباً سارا معاملہ ،سارا قضیہ واضح ہو چکا تھا۔ ساری کہانی سامنے کھلی پڑی تھی پھر بھی…. پھر بھی کوئی ایسی بات تھی جو اس ساری کہانی میں اپنے نہ ہونے کا…. اپنی کمی کا احساس دلاتی تھی!

برسوں پرانی دشمنی کی اس زنجیر میں سے کوئی ایک کڑی کم تھی…. کوئی ایک ٹکڑا غائب تھامرشد نے ایک ایک نظر باسط اور ٹیپو پر ڈالی، وہ دونوں شاہ پور اور چوہدریوں کے حوالے سے آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ مرشد ان سے برسوں پرانی دشمنی کی اس کہانی سے متعلق مزید پوچھنا، جاننا چاہتا تھا مگر وہ سوال کرتے کرتے خاموش ہو گیا۔ ذہن مسلسل اچھل کود میں مصروف تھا۔

لاہور کے ساتھی… لالہ رستم، اماں، حجاب…. حجاب اور زریونزریون کا خیال آتے ہی دل میں دھواں سا بھرتا ہوا محسوس ہوا۔ ذہن کے کسی

دوردراز تاریک گوشے میں خفیف سا ناگواری اور نا پسندیدگی کا احساس کسمسایا اور اس نے ذہن جھٹک کر دھیان ہٹا لیا۔باہمی غوروفکر اور تبادلہ خیال کے بعد مرشد نے فیصلہ صادر فرمایا کہ چوہدری شاہ پور کی طرف متوجہ ہیں تو ان کی بدولت یقینی طور پر اب باقی تمام دشمنوں کی توجہ بھی اسی طرف ہو جانی ہے، لہٰذا جب تک ادھر کی صورتحال واضح نہیں ہو جاتی، ادھر کا تناو�¿ ختم یا کم نہیں ہو جاتا، تب تک چپ چاپ خاموشی سے سب یہیں دبک کر بیٹھے رہیں گے۔ 

شاہ پور کے حالات کی خیر خبر رکھنے کی ذمہ داری مرشد نے باسط سیال کے ذمے لگائی اور ساتھ ہی اسے کچھ اسلحے کی تفصیل سمجھائی کہ اگر بغیر کسی خاص دشواری کے اس سامان کا انتظام ہو سکے تو کر دے جوتے، کپڑے وغیرہ وہ ابھی دو دن پہلے ہی لا کر دے چکا تھا انہیں۔ ایک ہفتہ تو انہیں اس ڈیرے پر گزر ہی چکا تھا۔ قدرت ابھی شاید انہیں مزید کچھ وقت یہیں بٹھائے رکھنا چاہتی تھی۔ مرشد کو بھی مکمل طور پر آرام کی ضرورت تھی اور حالات و واقعات بھی کچھ ایسا ہی تقاضا کر رہے تھے۔ اس طرح ایک لحاظ سے یہ ان کے حق میں ٹھیک ہی ہوا تھا۔

حتی الامکان محتاط تو وہ پہلے ہی تھے۔ اب انہوں نے کچھ مزید احتیاط شروع کر دی۔ سارا دن وہ مسلسل کمروں کے اندر ہی گھس کر بیٹھے رہتے۔ پہلے رات کو کمروں میں لالٹینیں روشن رہتیں تھیں، اب انہوں نے وہ لالٹینین روشن کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔باسط کے دو بھروسا مند کامے مسلسل دن رات وہیں موجود تھے۔ وہی دونوں گزشتہ اتنے دن سے چوکیدارے اور کھانے پکانے کا نظام سنبھالے ہوئے تھے۔ ایک طرف موجود کچی کوٹھڑی کو انہوں نے رسوئی گھر کی شکل دے دی تھی۔چند ایک مویشی بھی ڈیرے پر موجود تھے۔ مرشد لوگوں کے ساتھ ساتھ ان مویشیوں کی خدمت خاطر کی ذمہ داری بھی ان ہی پر تھی۔ ان مویشیوں کی برکت سے دودھ، لسی کی وہاں کوئی کمی نہیں تھی۔اس کے علاوہ چاروں طرف آموں سے لدے گھنے اور تناور درخت پھیلے ہوئے تھے۔ ڈیرے کی چار دیواری کے اندر بھی چار پانچ درخت موجود تھے۔ ان درختوں کی بدولت پورے ڈیرے کو ایک تو گھنی چھاو�¿ں میسر تھی، دوسرا چوبیس گھنٹے تازہ اور صحت مند آم ان کی دسترس میں تھے۔ان درختوں پر علی الصبح سے لے کر شام کا اندھیرا اترنے تک پرندوں اور ان پرندوں کی چہکاروں کی صورت زندگی رقص کرتی تھی ہنستی مسکراتی تھی۔ فضائیں جیسے ہر لمحہ آموں کی خوشگوار خوشبو سے لدی رہتی تھیں۔ گرمی اور حبس کے ماحول میں وقفے وقفے سے کسی طرف سے ہوا کے ٹھنڈے جھونکے آتے تھے اورعجیب راحت کااحساس دلا جاتے تھے۔

محض تین چار دن مزید گزرے ہوں گے کہ مرشد اپنے ساتھیوں اور ڈاکٹر کے منع کرنے کے باوجود ا�±ٹھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ بہ دقت تمام دھیرے دھیرے وہ کھڑا تو ہو گیا تھا لیکن ٹانگوں پر وجود کا پورا وزن آتے ہی پہلو میں تکلیف کی ایک شدیدلہر تڑپی اور وہ وہیں کا وہیں ساکت کھڑا رہ گیا۔ تکلیف کی لہرپہلو سے بل کھاتی ہوئی پشت پر ریڑھ کی ہڈی کی طرف کو لپکی تھی۔ شدت ضبط سے اس کے جبڑے کی ہڈیاں ابھر آئیں۔ اسے یہی محسوس ہوا تھا کہ مزید اس نے ذرا بھی حرکت کی تو پہلو کے اندر سے کوئی چیز ایک پٹاخے کے ساتھ پھٹ جائے گی۔

جعفر اورخنجر نے معاملے کو سمجھتے ہوئے فورااً اسے سنبھالا اور دوبارہ بستر پر لٹا دیا۔ ہیرا منڈی کے اس اتھرے جوان کا اتنے ہی سے سانس پھول گیا تھا چہرے پر پسینے کی نمی اور خون کے دباو�¿ کی سرخی اپنی جھلک دکھانے لگی تھی۔جعفر، خنجر اور ڈاکٹر زمان اپنے اپنے طور پر اسے سمجھا رہے تھے لیکن وہ ان کی بک بک نہیں سن رہا تھا…. وہ چت لیٹا گہرے گہرے سانس لیتا رہااور اس کے تصور میں حجاب کی صورت چمکتی رہی۔سمجھانے والے جو کچھ کہہ رہے تھے وہ اپنی جگہ ٹھیک تھا…گھاو�¿ ابھی کچا تھا چلنا پھرنا اس کے لیے کسی صورت بھی مناسب اور سود مند نہیں تھا۔ اسے ابھی مزید کچھ دن بستر پر گزارنے کی ضرورت تھی اور اس کے بعد بھی ڈاکٹر کے مطابق اسے زیادہ اور تیز حرکت کی بالکل بھی اجازت نہیں تھی۔ وہ مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا تھااور یہی احساس اسے رہ رہ کر اضطراب میں مبتلا کر جاتا تھا…. بے بسی اس کے دل و دماغ میں عجیب سی وحشت پیدا کرنے لگی تھی۔

حالات نازک تھے ۔وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور پہلے ہی اسے کتنے بہت سارے دن گزر چکے تھے اس سفر پر نکلے ہوئے۔

چند دن سے اماں کا خیال بھی مسلسل پریشان کرنے لگا تھا.. پتا نہیں اماں کی طبعیت کیسی تھی۔ ساون کو اماں کی دواو�¿ں کے حوالے سے بتا سمجھا کر اچھے سے تاکید تو کی دی تھی اس نے…وہ کسی صورت غفلت کرنے والا بندہ بھی نہیں تھا پھر بھی… پھر بھی دل وقفے وقفے سے پریشان ہو جاتا تھا۔ اماں کی یاد دل کے اندر سے کہیں سے ا�±ٹھتی تھی۔ مرشد جانتا تھا کہ وہ پوری شدت اور بے چینی سے اس کی واپسی، اس کی طرف سے خیر خبر کی منتظر ہو گی۔ رات دن اس کی اور حجاب کی خیرو عافیت اور زندگی کی دعائیں مانگتی رہتی ہو گی۔

دوسرا اب تک مسلسل وہ صرف دفاعی انداز اختیار کیے ہوئے تھا، جب کہ خون ابالے کھاتا تھا کہ بے دھڑک جارحانہ انداز میں باری باری قہر بن کر ملنگی، ڈپٹی اور چوہدری لوگوں پر ٹوٹ پڑے۔ بہت سارے قرض گردن کا بوجھ بنے ہوئے تھے۔ یاروں کا خون پکارتا تھا، اپنی ذلت اپنی ذات کا تماشا لہو میں شرارے جگاتا تھا،چوہدری فرزند نے اس کی اماں کے بارے میں انتہائی گھٹیا اور غلیظ ترین جملے بولے تھے۔ اس کی سماعت مجروح تھی…. زخمی تھی چوہدری فرزند سے اس سب کا عبرت اثر حساب لینا تھا اور اس حساب کے ساتھ ساتھ چند حساب اور بھی لینے تھے۔ ایک سید گھرانے کی تباہی کا حساب، سادات کے تہرے قتل کا حساب،ایک فرشتوں سی معصوم اور پاکیزہ لڑکی کی زندگی کو جہنم بنا دینے کا حساب۔

چوہدری فرزند کے گناہوں اور مظالم کا گھٹڑ بہت بھاری تھا۔ اسے ڈھوتے وقت چوہدری کاکلیجہ خون ہو کر اس کے منہ سے باہر آجانا تھا۔ اس بد بخت کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اپنے کر توتوں کا بوجھ سہار سکنے کی اس میں سکت نہیں ہے۔

سب ہی دشمنوں کا سوچ سوچ کر اس کے رگ و پے میں پھر پریاں سی دوڑ تی تھیں لیکن…. وہ مجبور تھا۔ حجاب اس کےساتھ تھی اور اسے ہر صورت اس نے با حفاظت طریقے سے اس کے پھوپھا کے ہاں پہنچانا تھا۔ جب تک اس کی ذمہ داری مرشد کے سر پر تھی، جب تک وہ اس کے ساتھ تھی، تب تک وہ کھلم کھلا دشمن سے نہیں بھڑ سکتا تھا… جنگ شروع نہیں کر سکتا تھا۔ اسے مخاذ سے دامن بچا کر نکلتے ہوئے آگے بڑھنا تھا۔ حجاب کو اس کی منزل تک پہنچانا تھا اور اب تک وہ یہی کرتا آ رہا تھا ہر موقع پر خواہش کے باوجود وہ ٹکڑاو�¿ کی بجائے دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے کترا کر نکلتا آیا تھا اور دشمن منہ زور سے منہ زور ہوتا آیا تھا۔

اب گزشتہ چند دن سے باسط کے توسط سے شہر اور ارد گرد کی جو صورتحال اسے سننے کو مل رہی تھی اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ د شمنوں نے پولیس کی مدد سے ایک طرح پورے علاقے کو سیل کر ڈالا ہے اور اب آگے ایک قدم بھی مزید سفر طے کر پانا ممکن نہیں رہا بلکہ سفر طے کر پانا تو دور کی بات، یہ خطرہ ، یہ اندیشہ بھی موجود تھا کہ کہیں پولیس یا دشمن کسی وقت اچانک یہیں نہ ٹوٹ پڑیں۔ بظاہر وہ سب ایک الگ تھلگ پر سکون اور خوبصورت جگہ پر موجود تھے لیکن فضا میں چاروں طرف ایک تناو�¿، ایک سنگینی کا احساس چکراتا پھرتا محسوس ہوتا تھا انہیں۔

مرشد ساری ساری رات بستر پر چوکنا لیٹا رہتا تھا۔ کان خلاف معمول آہٹوں کی چوکیدار ی پر لگے رہتے تھے۔ دھیان پھڑپھڑا، پھڑپھڑا کر حجاب کی طرف جاتا تھا اور اس کی نسوں میں چھپا بیٹھا ا ضطراب جھر جھری لے کر بیدار ہو آتا تھا۔ اندیشے , فکرو پریشانی کو آوازیں دینے لگ جاتے اور مرشد کے سینے میں بے چینیاں دھمال ڈالنے لگ جا تیں وہ ایک ناکارہ اور مفلوج بوجھ کی صورت بستر پر پڑا تھا اگر خدانخواستہ کوئی خطرناک صورتحال بنتی تو وہ ڈھنگ سے اپنا دفاع کرنے کی حالت میں بھی نہیں تھا۔ ایسے میں پھر بھلا وہ حجاب کے لیے کیا کر پاتا…. یہ سوچ اس کے لیے انتہائی پریشانی اور تکلیف کا باعث تھی۔ وہ جلداز جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہو جانا چاہتا تھا۔ اس کے بس میں نہیں تھا کہ کسی منتر کے ذریعے رات و رات بھلا چنگا ہو کر پہلے ہی کی طرح حجاب کے محافظ کے طور پر حرکت میں آ جاتا۔

حجاب سے صبح وشام مختصر سی ملاقات ہو جاتی تھی البتہ فیروزہ بے جھجھک ان سب کے درمیان آ بیٹھتی تھی۔ اسے کوئی باک ہوتی بھی کیوں بھلاڈاکٹر زمان ان کے منت ترلے کرتا رہا تھا کہ اب اسے جانے دیا جائے لیکن اس کی منتوں پر کسی نے بھی کان نہیں دھرے تھے۔ ان حالات میں وہ ایسا کوئی رسک کیسے لیتے؟

ایک روز فجر کے بعد جب سلطان انہیں ناشتہ دینے آیا تو ان پر یہ پریشان کن انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر زمان اور ٹیپو ڈیرے پر سے غائب ہیں…

انہوں نے معمول یہ بنا رکھا تھا کہ ساری رات جاگتے تھے۔ ایک کمرے میں مرشد، خنجر اور ٹیپو ہوتے تھے۔ دوسرے میں ڈاکٹر اور جعفر رات کو وہ باہر بھی بیٹھ جاتے تھے اور ڈیرے کے احاطے میں گھوم پھر بھی لیتے تھے۔ فجر کے بعد ناشتہ کر کے خنجر کے علاوہ سب سو جاتے تھے اور پھر دوپہر کو ان کے جاگنے پر خنجر نیند پوری کر لیتا تھا۔اس صبح خنجر، ٹیپو اور ڈاکٹر باہر تھے۔ کمرے میں صرف جعفر اور مرشد بیٹھے تھے۔ سلطان حسب معمول ناشتہ لے کر آیا تو اس نے یہ دھماکاکیا۔

"میں نے چاروں طرف دیکھ کر تسلی کر لی ہے جی! وہ دونوں ادھر کہیں بھی نہیں ہیں۔ لگتا ہے کہ یہاں سے چلے گئے ہیں… "مرشد اور جعفر بری طرح چونک پڑے ۔اسی لمحے دروازے پر خنجر نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھوں میں بھاپ ا�±ڑاتا تام چینی کابڑاپیالہ تھا۔

"یہ سلطان کیا کہہ رہا ہے؟” مرشد اس سے مخاطب ہوا۔ ” کدھر ہیں ٹیپو اور ڈاکٹر؟”

"پتا نہیں… میں تو تمہارے لیے یہ…. یخنی تیار کر رہا تھا۔کیا ہوا؟”

"” یہ بتا رہا ہے کہ وہ دونوں ڈیرے پر نہیں ہیں!“

"لگتا ہے وہ خبیث کے بچے مرنے نکل گئے ہیں۔ خود بھی مریں گے اور ہماری موت کا سامان بھی کرواویں گے۔.” جعفر نے غصے اور تلخی سے کہا اور فوراً ا�±ٹھ کر باہر نکل گیا۔

"ابھی کچھ دیر پہلے ہی میں نے ٹیپو کو دیکھا تھا۔ باہر کھڑا مسواک کر رہا تھا۔.” خنجر نے آگے بڑھ کر پیالہ تپائی پر رکھتے ہوئے کہا اور خود بھی بہ عجلت جعفر کے پیچھے ہی باہر کو لپکا۔”میں دیکھتا ہوں، یہیں ارد گرد ہوں گے کہیں۔“جو برائے نام سا سکون تھا وہ بھی غارت ہو گیا تھا۔ ان دونوں نے یوں یہاں سے فرار ہو کر اپنے ساتھ ساتھ ان سب کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا تھا۔

ان دونوں کے جاتے ہی مرشد بھی رائفل سنبھالتا ہوا بہ دقت بستر سے ا�±ٹھ کھڑا ہوا۔ ان چند دنوں میں نقاہت جیسے ہڈیوں تک میں سرائیت کر گئی تھی۔ کھڑے ہوتے ہی کنپٹیاں تیزی سے سن ہوئیں اور اس کی آنکھوں کے سامنے ایک بار تو اندھیرا سا چھا گیا۔ اس نے چارپائی کا سہارا لیتے ہوئے سر کو جھٹکا، آنکھیں پٹپٹا کر دیکھا اور پھر چارپائی ہی کا سہارا لیتے ہوئے کمرے کے دروازے تک جا پہنچا۔سلطان برتن رکھ کر پہلے ہی جا جکا تھا۔

باہر ابھی ٹھیک سے اجالا نہیں پھیلا تھا۔ ایک ملگجا سا اندھیرا اجالا آپس میںغتربود ہو رہا تھا۔ گھنے درختوں کے نیچے سرمئی سی تاریکی کسمسا رہی تھی اور اوپر بلندیوں سے ،نیم دودھیا سی سفیدی نیچے ان درختوں کے سروں پر اترتی محسوس ہو رہی تھی۔ کمرے کی پ�±ر حبس فضا سے باہر آتے ہی دھلی نکھری سی ہوا کے ایک سبک رو ٹھنڈے جھونکے نے لپک کر اس سے بغل گیر ہوتے ہوئے اسے خوش آمدید کہا اور دوسری سمت کو پھسل گیا۔ درختوں پر پرندوں اور چڑیوں کی چہکاریں تھیں۔

اس کے گھاو کے رات ہی ٹانکے کھلے تھے۔ بیرونی طرف سے زخم بھر چکا تھا۔ وہاں اب سوائے ایک سرخی مائل سیاہ نشان کے اور کچھ نہیں تھا لیکن اندرونی طرف کی حالت ابھی پوری طرح تسلی بخش نہیں تھی۔ وہ باقاعدگی سے دوائیاں کھا رہا تھا۔ ان چند ہی دنوں میں جسمانی کمزوری نے اس کی یہ حالت کر دی تھی کہ کمرے میں بستر پر سے ا�±ٹھ کر ڈیرے کے صحن تک آنے سے ہی اس کی سانس پھول گئی۔ پورے وجود میں چیونٹیاں سی کلبلانے لگیں ۔پنڈلیاں اور رانیں یوں بے وزن محسوس ہونے لگیں تھیں کہ لگتا تھا جیسے ان میں کسی نے ہوا بھر دی ہو۔وہ قریب ہی موجود آم کے ایکدرخت کا سہارا لے کر کھڑا ہوگیا۔ خنجر اور جعفر کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔سلطان اور بابر بھی شاید سامنے کے رخ تھے۔ پہلو میں اندرونی طرف درد کی ایک شدید لہر ا�±ٹھی تو اس نے بے اختیار بائیں ہاتھ سے پہلو کو دبوچ لیا۔ دائیں ہاتھ میں سیون ایم ایم رائفل تھی جسے وہ زمین پر ٹکاتے ہوئے اس کے سہارے گھٹنے کے بل نیچے بیٹھ گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اندر سے وجود کا کچھ حصہ کسی آہنی شکنجے کی گرفت میں آ گیا ہو۔ اچھا خاصا درد تھا لیکن اس درد کی شدت تھی قابل برداشت حدوں میں۔

اس نے اسی حالت میں بیٹھے بیٹھے گردن ا�±ٹھا کر ارد گرد کا جائزہ لیا، یہ ڈیرے کی عمارت کا عبقی حصہ تھا۔ ایک طرف قریب قریب ہی وہ دونوں کمرے تھے. جن میں ان لوگوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ ان کمروں سے پندرہ بیس قدم آگے ایک اور کمرہ تھا۔ اس کمرے میں حجاب اور فیروزہ رہ رہیں تھیں۔اس کمرے سے چندقدم اس طرف آم کا ایک درخت تھا اور اس کے نیچے جناتی سائز کی ایک چارپائی بچھی تھی۔ کھجور کے پتوں سے بنائے گئے بان سے بنی گئی اس چارپائی کو مقامی زبان میں” ہماچہ” یا "ماچہ” کہا جاتا تھا اور اس پر بہ یک وقت دس پندرہ بندے با آسانی بیٹھ سکتے تھے۔ کمروں کے بالکل سامنے بیس پچیس قدم کے فاصلے پر احاطے کی نا بالغ کچی دیوار تھی جس کی اونچائی کہیں سے چار فٹ، کہیں سے تین اور کہیں سے محض دو فٹ تھی۔ پرندوں کی چہچہاہٹ کے علاوہ دور ونزدیک کہیں کسی آواز یا آہٹ کے آثار نہیں تھے۔ خنجر اور جعفر بھی شاید ٹیپو اور ڈاکٹر کے تعاقب میں ڈیرے کی حدود سے باہر جا چکے تھے۔ مرشد ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ اگر ٹیپو اور ڈاکٹر یہاں سے بھاگ گئے تھے تو پھر اب ان کے پیچھے جانا لا حاصل تھا۔ جعفر اور خنجر کو ان کے تعاقب میں نہیں نکلنا چاہیے تھا۔ یہ کسی طور بھی کوئی دانش مندانہ کام نہیں کیا تھا انہوں نے۔ 

مرشد چند لمحے تک تو وہیں اسی حالت میں بیٹھا رہا پھر رائفل پر زور ڈالتا ہوا ا�±ٹھ کھڑا ہوا۔ اندیشے واہمے توپہلے ہی ہمہ وقت جیسے اس کا خون چوستے رہتے تھے کہ فی الحال وہ چلنے پھرنے اور لڑنے بھڑنے سے معذور تھا۔ اب اس نئے واقعے نے اسے مزید اضطراب و پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔ 

وہ دھیمے قدموں سے ڈیرے کے سامنے کے رخ بڑھا لیکن بغلی حصے میں پہنچتے ہی بے اختیار ٹھٹھک کر رک گیا۔ ہوا کے جھونکے کے ساتھ ہی کچھ مدہم آوازیں اس کی سماعت کے ساتھ ٹکرائیں تھیں اور اسے بری طرح چونکا گئی تھیں۔ زیادہ فاصلے کی وجہ سے ٹھیک طور پر کچھ سمجھ نہیں آئی البتہ یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی سمت سامنے ہی کی ہے ۔اس کے دائیں ہاتھ ایک کمرے کی بغلی دیوار تھی۔ وہ اس کے ساتھ کندھا ٹکاتے ہوئے بغور سامنے کے رخ دیکھنے لگا۔ سماعت بھی پوری طرح اسی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔ دور تک درختوں کے تنے ہی تنے تھے۔ کچھ جگہوں پر درختوں کے نیچے فصلیں بھی موجود تھیں۔ ایک تو صبح صبح کا ملگجا اندھیرا اور دوسرا درختوں کی پھل دار شاخیں یوں نیچے کو جھکی ہوئیں تھیں کہ ذیادہ فاصلے تک دیکھنا ممکن ہی نہ رہا تھا۔ 

اس نے پہلو پر ہاتھ جماتے ہوئے قدرے جھک کر دیکھا،ساتھ ہی اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک یک سرد لہر دوڑ گئی ٹھیک اسی وقت ا�±ڑتی ا�±ڑتی سی چند مدھم آوازیں پھر اس کی سماعت تک پہنچیں۔ تقریباً ڈیرھ دو فرلانگ کے فاصلے پر تاریکی زیادہ گہری معلوم ہوتی تھی اور وہیں… اسی تاریکی میں کچھ متحرک ہیولے دکھائی دیئے تھے ۔وہ کوئی دو چار لوگ نہیں تھے ۔ان کی تعداد کم از کم بھی بیس پچیس کے قریب تھی۔ 

جھکی شاخوں کی بہتات کے باعث ان کے جسموں کے صرف زیریں نصف حصے دکھائی دے رہے تھے لیکن یہ بات بالکل واضح تھی کہ وہ اسی طرف چلے آ رہے ہیں۔یقینی طور پر ان کے ساتھ چند کتے بھی تھے کیونکہ مرشد کو سنائی دینے والی مدھم آوازوں میں سب سے واضح آواز کتوں ہی کی تھی اور اگر اس کا اندازہ غلط نہیں تھا تو یہ آوازیں کوئی عام کتوں کی نہیں تھیں۔ اسی وقت کتوں نے دوبارہ سے بھونک کر جیسے اس کے بد ترین اندازوں کی تصدیق کر دی۔ کسی شک وشبے کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ یہ آوازیں صد فی صد جرمن النسل خطرناک ترین کتے روٹ وائلر کی تھیں۔ مرشد اچھے سے جانتا تھا کہ اس کتے کے بھیانک جبڑوں میں کیسی عفریت نما طاقت ہوتی ہے۔ آواز بھی ایسی زور دار کہ سن کر کلیجہ کانپ ا�±ٹھے۔ اس کے جبڑوں کی گرفت میں آنے کے بعد شکار کے لیے چھوٹ پانا تقریباً نا ممکنات میں سے تھا۔ اپنے طاقت ور اور مضبوط جبڑوں سے شکار کی ہڈیاں تک چبا جانےکی شہرت رکھتے تھے یہ کتے۔ مرشد کا رواں رواں سنسنا ا�±ٹھا۔ رگ و پے میں ایک ساتھ کئی سرد لہریں دوڑ گئیں۔ گزشتہ اتنے دنوں سے جو دھڑکا لگا رہا تھا وہ ایسے اچانک ہی حقیقت بن آیا تھا۔ دشمن کو ان کی کمین گاہ کا پتا چل گیا تھا۔ وہ ایک بھاری تعداد بمعہ خطرناک ترین کتوں کے سر پر پہنچ آیا تھا۔ اب اگلے پانچ سات منٹ بعد وہ سب یہاں…. اس چار دیواری کے اندر ہوتے۔ خود مرشد کی حالت ایسی تھی کہ لڑنا بھڑنا یا بھاگنا دوڑنا تو بہت دور، ابھی وہ ڈھنگ سے چلنے پھرنے کے بھی قابل نہیں تھا۔ اس کے ہونٹ سختی سے بھینج گئے۔ دماغ میں فوراًسے بیشتر حجاب کا خیال آیا ۔وہ وہیں سے الٹے قدموں پیچھے ہٹا اور پہلو میں بل کھاتے درد کو بائیں ہاتھ میں دبوچ لینے کی کوشش کرتا ہوا حجاب والے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ پورے وجود میں بد ستور چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب اپنی اس شکستہ جسمانی حالت کے ساتھ وہ اتنے سارے دشمنوں سے اپنی اور حجاب کی حفاظت کیسے کر پائے گا؟

دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگی تھیں۔ خدا نے اسے مشکل ترین وقت میں خطرناک اور سنگین ترین آزمائش میں ڈال دیا تھا۔

وہ ڈیرے کے عقبی حصے میں پہنچتے ہی حجاب والے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ کمرے سے ابھی وہ چند قدم ادھر ہی تھا کہ احاطے کے کونے میں موجود باتھ روم سے حجاب نکلتی دکھائی دی۔ اس کے ہاتھ، پاو�¿ں اور چہرہ گیلا تھا۔ یقیناً وہ نماز کی نیت سے وضو کر کے نکلی تھی۔اسی لمحے اس کی نظر بھی مرشد پر پڑی، وہ ب�±ری طرح چونکی تھی!

مرشد کو بستر پر ہونا چاہیئے تھا جب کہ وہ ایک ہاتھ میں رائفل لیے، دوسرا ہاتھ اپنی پسلیوں پر رکھے اسی کمرے کی طرف آ رہا تھا۔ ضرور کوئی غیر معمولی بات تھی ضرور…. ضرور پھر کوئی گڑبڑ تھی۔ وہ ایک ذرا ٹھٹھکتے ہوئے تڑپ کر مرشد کی طرف بڑھی جب کہ مرشد اپنی جگہ ٹھہر گیا تھا۔

 "ارے…. آپ بستر سے کیوں ا�±ٹھے، کیا ہوا، سب خیریت تو ہے نا؟”پریشانی اس کا انداز تھی۔

”خیریت نہیں ہے سرکار! دشمن یہاں آ پہنچے ہیں۔بیس…. بیس پچیس بندے ہیں۔آپ آئیں میرے ساتھ…. جلدی۔ "

مرشد احاطے کی عقبی دیوار کی طرف کی طرف بڑھا تو حجاب بے اختیارانہ انداز میں اس کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے قدرے تذبذب سے بولی۔

"‘وہ…..وہ فیروزہ جی اندر سو رہی ہیں۔“ مرشد کی بات سنتے ہی وہ ب�±ری طرح گھبرا’گئی تھی۔ مرشد کے لہجے اور چہرے سے وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ اس کے پہلو میں تکلیف ہے۔

 "سونے دیں…. ہمارے دشمنوں کو اس کی ذات سے کوئی غرض نہیں اور اسے جگانے، سمجھانے کا وقت بھی نہیں ہے ہمارے پاس۔ "

احاطے کی تین فٹ اونچی دیوار پار کرتے ہوئے اس کی پسلیوں میں تکلیف نے یوں کروٹیں بدلیں جیسے اندر کسی خار دار آہنی تار نے بل کھائے ہوں۔ حجاب اس کے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات دیکھ کر خوف اور پریشانی ملے لہجے میں متفسر ہوئی۔

"‘ کیا بہت زیادہ تکلیف ہے؟ "

 "فی الحال قابلِ برداشت حد میں ہے۔.”

 "آپ کے دوست کدھر ہیں؟”

 "کچھ پتا نہیں…. آجائیں۔.” اسی وقت عقبی طرف، کہیں دور سے کتوں کے بھونکنے کی بھیانک آوازیں حجاب کی ریڑھ کی ہڈی کو جھنجھوڑ گئیں۔

دیوار پار کرتے ہی وہ ناک کی سیدھ میں آگے بڑھے۔ اس طرف ڈیڑھ دو سو گز کے فاصلے پر سامنے درختوں کے نیچے چری (جوار) کی تین تین فٹ لمبی فصل موجود تھی۔ مرشد دوڑنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کا یہ دوڑنا محض تیز رفتاری سے چلنے ہی کے برابر تھا۔ اس کی سانس پھول چکی تھی۔لہجے میں دردونقاہت کا تاثر تھا،ہاتھوں، پیروں اور کنپٹیوں میں سنساہٹ سی دوڑنے لگی تھی تو جسم کے ہر مسام نے ٹھنڈے پسینے ا�±گلنے شروع کر دیئےتھے۔ حلق اور سانسوں میں گ�±ھلی دواو�¿ں کی ب�±و ان لمحوں اسے چاروں طرف فضا میں پھیلتی ہوئی محسوس ہوئی۔جوار کی فصل تک پہنچنے کے بعد چند گز فصل کے اندرآگے بڑھنے کے بعد مرشد ر�±ک گیا۔

 "نیچے بیٹھ جائیں…. سرکار” اس نے ہانپی ہوئی آواز میں کہا اور ایک اضطراری سی نظر عقب میں ڈالتے ہوئے خود بھی نیچے بیٹھ گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کی حالت اس کے اپنے بارے لگائے گئے اندازے سے بھی زیادہ پتلی ہے… اس ذرا سی جسمانی حرکت سے وہ ب�±ری طرح ہانپنے لگا تھا۔ حلق سوکھ کر لکڑی ہو رہا تھا اور خون جیسے اس کے سینے کے وسط اور کنپٹیوں میں ٹھوکریں مارنے لگا تھا۔ حواسوں پر ایک تاریک سایہ سا منڈلانے لگا تھا۔پہلو کے درد میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ پہلو پر ہاتھ رکھے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا،قدرے آگے کو جھک گیا۔

 "مم، مرشد جی! آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟”حجاب نے پریشان اور پرتشویش نظروں سے اس کے زرد پڑتے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔اس کی آواز میں خفیف سی لرزش تھی۔

مرشد جی…. یہ الفاظ اور انداز ہمیشہ کی طرح مرشد کو زندگی کی صدا جیسے محسوس ہوئے اس نے گردن موڑ کر حجاب کی طرف دیکھا اور دھیرے سے مسکرا دیا۔ حجاب کے چہرے پر اپنے لیے فکر مندی دیکھ کر ایک عجیب سی تقویت کا احساس ہوا تھا اسے۔ وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔

 "ہاں جی…. ٹھیک ہوں میں۔.”وہ کہہ رہا تھا ٹھیک ہوں میں لیکن حجاب کو صاف سمجھ آرہی تھی کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی حالت خاصی کمزور نظر آرہی تھی۔ کتوں کی آواز پر مرشد نے ہونٹ بھینچتے ہوئے اپنی جگہ سے ا�±ٹھ کر ڈیرے کی طرف جھانکا… ابھی تک کوئی گڑبڑ نہ تھی۔ ذہن ب�±ری طرح ا�±دھیڑ بَن میں مصروف تھا۔ قرب وجوار میں کوئی آبادی نہ تھی۔ یہ بھی وہ سمجھ چکا تھا کہ وہ زیادہ د�±ور تک اپنے وجود کو نہیں گھیسٹ سکے گا۔ دشمن راہ پر لگ گیا تو بہت جلد وہ دونوں دھر لیے جائیں گے۔ دھیان جعفر اور خنجر کی طرف چلا گیا گو کہ وہ دونوں ڈیرے سے نکل گئے تھے لیکن اس بات کا اسے یقین تھا کہ وہ زیادہ د�±ور نہیں گئے ہوں گے۔ ضرور وہ دونوں بھی ڈیرے کے اردگرد ہی کہیں موجود تھے۔ وہ دوبارہ بیٹھ گیا۔

 "کیا یہ چوہدریوں کے بندے ہیں؟ "حجاب نے پوچھا.

 "فی الحال کچھ اندازہ نہیں…. کافی فاصلے پر تھے۔ ٹھیک سے نظر نہیں آئے۔.”

 "اور وہ…. خنجر اور جعفر کدھر ہیں؟”

 "وہ ذرا ڈیرے سے باہر گئے تھے… یہیں اردگرد ہی…. ہوں گے وہ بھی۔. "

ایک ذرا توقف سے حجاب پھر بولی.۔ ” آپ کو ابھی بستر سے ا�±ٹھنا نہیں چاہئیے تھا۔ آرام کی ضرورت تھی آپ کو۔ "

 ” آرام کے لیے تو ابھی بڑی عمر پڑی ہے۔ "

 "ا�±ن لوگوں کے پاس کتے بھی ہیں؟ "وہ جھرجھری سی لے کر بولی۔ کتوں کی آوازیں برابر آ رہی تھیں۔ ان آوازوں سے مرشد کو کسی تبدیلی کا احساس ہوا۔

 "ہاں جی!”اس نے مختصراً جواب دیتے ہوئے ایک بار پھر رائفل کے زور پر گھنٹوں کے بل کھڑے ہو کر ڈیرے کی سمت دیکھا اور چونک پڑا۔ اسے ان لوگوں کی جھلک دکھائی دی تھی لیکن ڈیرے کی سمت نہیں… وہ ڈیرے سے کافی فاصلے پر سے کلاوہ کاٹ کر بائیں ہاتھ کو آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے ساتھ کم از کم تین کتے بھی تھے۔ فاصلہ کافی زیادہ تھا۔ مرشد کو الجھن آمیز حیرت ہوئی۔

یوں لگتا تھا جیسے انہیں ڈیرہ دکھائی ہی نہ دیا ہو یا پھر جان بوجھ کر، دیدہ دانستہ وہ ڈیرے کو نظر انداز کر گئے ہوں لیکن ایسا بھلا کیسے اور کیوں کر ہو سکتا تھا… مرشد کو خیال گزرا کہ ہو سکتا ہے یہ ان کے دشمنوں کی بجائے کوئی دوسرے لوگ ہوں۔ فی الوقت بس قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی تھیں۔

اس نے اپنے چاروں طرف کا جائزہ لیا۔ اس کتوں والے گروپ کے علاوہ کہیں کوئی ذی روح نہ تھا اور وہ قریب دو فرلانگ کے فاصلے پر ڈیرے کے بائیں پہلو سے دوسری سمت جا رہے تھے۔ ان کا ر�±خ کسی اور طرف تھا۔ ڈیرے کی دیوار کے پار مرشد کو درختوں کی شاخوں میں سے کسی ایک بندے کے کپڑوں کی جھلک دکھائی دی وہ غالباً سلطان تھا جو مرشد لوگوں کو ہی دیکھتا پھر رہا تھا۔ مرشد دوبارہ نیچے بیٹھ گیا۔

شدید خطرے کا احساس کم پڑگیا تھا لیکن اتنی جلدی مطمئن نہیں ہوا جا سکتا تھا۔اس گروپ کا یہاں دکھائی دینا ایک طرح سے اشارہ تھا۔ خطرے کا الارم تھا۔

 "کیا ہوا؟” حجاب بولی۔

 "وہ لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں؟”

 "کیوں؟” یہ گھبراہٹ ذدہ سی” کیوں” بے ساختہ تھی۔ مرشد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چمک گئی۔

 "آپ حکم دیں تو یہ میں جا کر ا�±ن سے پوچھ آتا ہوں۔“ اس کے لہجے میں ہلکی سی شرارت تھی۔حجاب کو اپنے سوال کا احساس ہوا تو وہ تھوڑا سا گڑبڑائی۔

 ” وہ، میرا مطلب تھا کہ وہ ڈیرے کی طرف نہیں آ رہے کیا؟”

 "نہیں…. ایسا لگتا ہے جیسے ڈیرہ انہیں نظر ہی نہیں آیا۔“حجاب کی نا قابلِ فہم بڑبراہٹ پر اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا، وہ آنکھیں بند کیے،ہاتھ جوڑے زیرِلب بدبدا رہی تھی۔ شاید خ�±دا کے حضور درخواست گزار تھی۔ مرشد کی نظریں اس کے چہرے پر ٹھٹھک کر ساکت ہو گئیں…. وہ چہرہ اس کی نظروں کے عین سامنے تھا…. محض دو فٹ کی دوری پر… ابھی چند منٹ پہلے ہی اس نے نماز کی نیت سے وضو کیا تھا ،شاید اسی لیے، اس کی دھلی نکھری صورت سے ایک تقدس آمیز ا�±جلا پن پھوٹ رہا تھا۔ ایک نرم، ملائم اور طمانیت بخشنے والا ٹھنڈا ا�±جالا۔

مرشد کو محسوس ہوا جیسے اسی صورت سے زمانے میں ا�±جالا پھیلتا ہے… ان ہی خدوخال سے صبح طلوع ہوتی ہے یہی وہ آنکھیں ہیں جن کی جنبش زمانوں کی تقدیروں پر اثر انداز ہوتی ہے!چند لمحوں کے لیے تو وہ یوں مبہوت ہو کر رہ گیا کہ باقی سب کچھ اسے بھول ہی گیا۔ وہ جوار کی فصل میں بیٹھے تھے۔ان کے درمیان بھی سبز شاخوں نما پودے کھڑے تھے۔ فضا میں ان پودوں، آم کے درختوں اور نم آلود مٹی کی مہک کے علاوہ ایک بوجھل سی بھڑاس بھی پھیلی ہوئی تھی لیکن مرشد کو اس کا احساس نہ رہا۔ کتے، دشمن، ڈیرہ، پسلیوں میں کروٹیں لیتا درد…. سبھی کچھ محو ہو کر رہ گیا تھا۔ وہاں صرف ایک پ�±رنور صورت تھی اور دو بے خود مشتاق آنکھیں… بے خودی اور وارفتگی سے دیکھتی ہوئیں.. مسحور، متحیّر اور مخمور آنکھیں!

شاید یہ محویت مزید عمر پاتی لیکن حجاب کی پلکوں کے جنبش کرتے ہی مرشد کی تلپٹ ہونے والی دھڑکنوں ہی نے اسے چونکا دیا۔ خود حجاب کا اپنا دل، آنکھیں کھولتے ہی اس شدت سے دھڑکا کہ ایک ثانیے کو تو وہ خود بھی گڑبڑا سی گئی کہ کہیں دل دھڑکنے کی یہ آواز مرشد نے س�±ن نہ لی ہودل کیسے نہ دھڑکتا مرشد کی آنکھوں سے جھانکتے جذبے تھے ہی ایسے زندہ وجان دار، ایسے توانا و بھرپور کہ شاید وہ ٹکٹکی باندھ کر کسی پتھر کو دیکھنے لگ جاتا تو وہ پتھر بھی دھڑکنے پر مجبور ہو جاتا۔دونوں نے ایک دوسرے سے گڑبڑا کر نظریں جھکا لیں۔ایک طرف فطری حیا تھی۔ دوسری طرف ایک نسبتی عقیدت و احترام، ایک ادبی جھجھک۔ مرشد من ہی من خود کو جھاڑیں پلانے لگا اور حجاب اپنے آپ ہی میں سمٹ سی گئی۔ اس کے ذہن میں فیروزہ کی باتیں گونج اٹھیں۔

 "حجاب بی بی! یہ جو دل ہوتا ہے نا! یہ ہمیشہ انہونے خوابوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ سرابوں کے پیچھے دوڑتا ہے یہ…. اور شاید ایسا ہم سب کے ساتھہوتا ہے۔ کچھ وقت سے خود مرشد کے ساتھ بھی ایسا شروع ہو چکا ہے…. وہ بھی جاگتے میں ایک ایسا خواب لیے پھر رہا ہے جس کی کوئی تعبیر ہی نہیں…. اس خواب نے ہمیشہ خواب ہی رہنا ہے… سراب رستے نے ہمیشہ سفر ہی رہنا ہے…کبھی اور کسی صورت منزل نہیں ہونا…. اس حقیقت کا خود اسے بھی اچھی طرح پتا ہے پھر بھی…. واپسی پر انسان کا اختیار ہی نہیں ہوتا نا! "

اس نے فیروزہ سے کہا تھا کہ میں سمجھاو�¿ں گی مرشد جی کو کہ وہ کسی خواب سراب میں نہ پڑیں۔ زندگی کا سفر کھوٹا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

اس نے نظریں ا�±ٹھا کر مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ گردن جھکائے، پہلو پر ہاتھ جمائے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔اس کے بھنچھے ہوئے جبڑے غمازی کر رہے تھے کہ وہ درد کو ضبط کیے بیٹھا ہے۔ اس کے چہرے سے چھلکتی صحت مندانہ سرخی کی جگہ ذردی نے لے لی تھی۔ رخساروں کی ہڈیاں قدرے ا�±بھر آئیں تھیں۔ چہرے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے چمک رہے تھے۔ چند قطرے پھسل کر اس کی چھوٹی چھوٹی لیکن گھنی سیاہ داڑھی کے بالوں میں آ الجھے تھے۔صبح دم کی پ�±رسکون اور خاموش فضا میں ان کے سروں پر خوبصورت پرندوں کی کھنک دار چہکاریں برس رہی تھیں۔ کتوں کی مدھم آوازیں بتا رہی تھیں کہ وہ کچھ مزید دور جا چکے ہیں۔

حجاب کے دل میں شدت سے خواہش جاگی کہ وہ مرشد سے بات کرے۔ اس کے دلی جذبات اور ان جذبات کی آغوش میں پلتی لاحاصل خواہش کے متعلق۔ اس بے تعبیر خواب کے حوالے سے ،جو وہ جاگتی آنکھوں میں ا�±ٹھائے پھر رہا ہے۔ ہاں…. اس کا شدت سے دل چاہا تھا کہ آج، ان لمحوں وہ سیدھے سبھاو�¿ ک�±ھل کر اس سے بات کرلے….اسے سمجھائے کہ وہ اس خواب کو آنکھوں سے نوچ پھینکے ورنہ یہ خواب اس کی آنکھیں نگل جائے گا اپنے جذبات پر نظرثانی کرلے کہ یہی جذبات آنے والے وقت میں اس کے سینے کی دِق بن سکتے تھے یہ خواہش، اس خواہش کے لاحاصل رہنے کا غم اس کے گلے کا طوق بن سکتا تھا…. اس سب کا کچھ حاصل نہ تھا… ہو ہی نہیں سکتا تھا نا….

وہ اکثر اپنے حوالے سے اس کی آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتے محبت کے سمندر کو دیکھ کر گھبرا جاتی تھی…. ان زور آور اور بے پناہ جذبوں کو محسوس کرتے ہوئے پریشان ہو جاتی تھی۔ یہ خیال اسے ب�±ری طرح مضطرب کر جاتا تھا کہ کہیں بعد میں یہی توانا جذبے مرشد کے لیے جان کا آزارنہ نہ بن جائیں…. یہی بے پناہ محبت زندگی بھر کا روگ نہ بن جائے!یہ خیال اس کے دل ودماغ میں ایک احساس خطا، احساس ج�±رم جگاتا تھا۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو بل واسطہ سہی یا بلا واسطہ وجہ تو اسی کی ذات ہوتی نا!ایسے میں ایک عجیب سی بے چینی رہ رہ کر اندر ہی اندر اس کے دل کو چاٹنے لگتی تھی…. دل میں دھیما دھیما سا ایک درد کسمسانے لگتا تھا۔ دھڑکنیں سینے میں ایک عجیب دکھن سی جگانے لگتی تھیں۔ ایسی دکھن جو ناگوار نہیں گزرتی تھی۔

اس نے مرشد سے بات کرنی چاہی، بولنے کی کوشش بھی کی لیکن ہونٹ بس کپکپا کر رہ گئے۔ ایک بھر پور حیا آمیز جھجھک نے لپک کر اس کا گلا دبوچ لیا تھا۔ وہ چاہنے کے باوجود کچھ بھی نہ کہہ بول پائی۔ بولتی تو بولتی بھی بھلا کیا…. مجھ سے محبت نہ کرو…. مجھے اس شدت سے نہ چاہو…. یہ موضوع ہی کیسا حیا انگیز تھاسوچ کر ہی وہ شرما گئی۔ نظریں خود بخود ج�±ھک گئیں لیکن دل کی ک�±ھد ب�±د میں کچھ مزید اضافہ ہو گیا۔ 

وہ دونوں کچھ دیر مزید وہیں د�±بکے رہے۔ جب مرشد کو یقین ہو گیا کہ وہ نا معلوم افراد کہیں دور نکل گئے ہیں اور اب ارد گرد کوئی خطرہ موجود نہیں ہے تو وہ ا�±ٹھ کھڑا ہوا۔جس وقت وہ دونوں اس فصل سے نکل کر ڈیرے کی طرف بڑھے اسی وقت ان کی نظر جعفر اور خنجر پر پڑی۔ وہ دیوار پھلانگ کر اسی طرف آ رہے تھے۔ دیوار کی اس طرف انہیں ٹیپو کی جھلک بھی دکھائی دی اور غالباً سلطان کے علاوہ ڈاکٹر زمان بھی وہیں…. ٹیپو کے قریب ہی موجود تھا۔خنجر اور جعفر ان دونوں پر نظر پڑتے ہی دوڑتے ہوئے ان کے قریب پہنچ آئے.

 "جگر! تو ٹھیک تو ہے؟” خنجر جیسے سہارا دینے کے لیے فوراً آگے بڑھا تو مرشد نے رائفل اسے تھما دی جو ایک بھاری بوجھ محسوس ہو رہی تھی اسے۔

 "اسے سنبھالو… کدھر نکل گئے تھے تم دونوں؟”

"ٹیپو لوگوں کے پیچھے۔ دونوں کو واپس لے آئے ہیں۔”

جعفر بولا. "اصل کہانی کچھ اور ہی تھی۔ "

 ” اور یہ…. کتوں والے کون لوگ تھے؟” مرشد نے چلتے چلتے ایک نظر بائیں طرف دیکھا۔

 "کچھ اندازہ نہیں…. سلطان سے بھی پوچھا ہے۔ اسے بھی کچھ پتا نہیں۔ "

 ” اگر یہ ہمارے دشمنوں میں سے تھے…. ہماری تلاش میں تھے تو اس ڈیرے کی طرف کیوں نہیں آئے؟ "

 ” شاید ڈیرہ انہیں دکھائی نہیں دیا۔”

 ” یہ بات تو دل کو نہیں لگ رہی۔”

 "ہو سکتا ہے وہ دوبارہ گھوم کر پھر اس طرف کو آئیں۔”

وہ آپس میں تبادلہ خیال کرنے لگے۔ حجاب ان کے عقب میں چلتی ہوئی بار بار مرشد کی طرف دیکھتی رہی جو بدقت آگے بڑھ رہا تھا۔

خنجر اور جعفر نے اسے سہارا بھی دینا چاہا تھا لیکن اس اکھڑ کھوپڑی نے گوارا نہیں کیا ۔

ڈیرے کے احاطے میں واپس پہنچتے ہی مرشد کمروں کے سامنے درخت تلے پڑی جناتی سائز کی چارپائی پر ڈھیر ہونے والے انداز میں بیٹھ گیا۔ اس کے اشارے پر سلطان نے فوراً اندر سے دو موٹے تکیے لا کر اس کی کمر کے پیچھے رکھ دیئے تھے۔ قریب ہی ٹیپو اور ڈاکٹر موجود تھے۔ ڈاکٹر کا حلیہ چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہا تھا کہ تھوڑی ہی دیر پہلے اسے اچھی طرح سے مٹی میں رولا گیا ہے۔ دو تین جگہ سے اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے. م�±نہ سر یوں مٹی مٹی ہو رہا تھا کہ اس کی شناخت مشکل ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ ڈرا سہما سا ٹیپو کے آگے کھڑا تھا۔

مرشد کے کہنے پر حجاب اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ ابھی تھوڑا وقت باقی تھا۔ اسے نماز ادا کر لینے کی جلدی تھی۔ کمرے میں پہنچی تو فیروزہ اسی طرح ہر بات سے غافل پڑی سو رہی تھی۔ ڈاکٹر کے حلیے پر اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ جعفر اور خنجر کی زبانی صورتحال جان چکی تھی۔

ڈاکٹر نے آنکھ بچا کر وہاں سے نکل بھاگنے کی کوشش کی تھی لیکن ٹیپو نے اسے دیکھ لیا تھا۔ وہ بھی اس کے پیچھے نکل گیا ،دونوں میں تھوڑی سی ریس لگی اور ٹیپو نے اسے چھاپ لیا۔ڈاکٹر نے زور آزمائی کر کے چھوٹ جانا چاہا تو ٹیپو نے پھر اس کی یہ درگت بنا ڈالی۔ اتنے میں جعفر اور خنجر بھی ان تک جا پہنچے اور پھر وہ تینوں اسے گھسیٹ کر واپس لے آئے تھے۔

نماز کے بعد اس نے دروازے سے جھانک کر دیکھا، ا�±جالا پوری طرح پھیل چکا تھا۔مرشد، خنجر، جعفر اور ٹیپو…. چاروں ہی ماچے پر ایک ایک کونا سنبھالے بیٹھے تھے۔ ان کے درمیان شاید کسی اہم موضوع پر بات ہو رہی تھی اور وہ اہم موضوع متوقع طور پر کتوں والا گروپ تھا۔ وہ دوبارہ پیچھے ہٹ کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔ تین فٹ کے فاصلے پر بچھی دوسری چارپائی پر فیروزہ عجیب مردانہ سے انداز میں لیٹی خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔

حجاب کے دل و دماغ میں ہنوز وہی کشمکش جاری تھی۔ وہ مرشد کو سمجھانا چاہتی تھی اسے احساس دلانا چاہتی تھی کہ وہ ایک طرح کے پاگل پن کی پرورش کرتا آ رہا ہے۔ ایسے جذبوں کو پال رہا ہے جن کا مقدر دائمی محرومی کے سوا اور کچھ نہیں ہونا تھا۔ یہ سب ٹھیک نہیں تھا…. غلط تھا یہ سب…. اسے…. اسے ابھی یہیں سے سنبھل جانا چاہیئے تھا… سنبھل جانے کی کوشش شروع کر دینی چاہیے تھی۔

ان باتوں کے ساتھ ہی اسے یہ خیال آیا کہ مرشد نے ابھی تک باقاعدہ طور پر محبت کا اظہار تو کیا نہیں…. سب کچھ پوری طرح واضح اور صاف تھا لیکن تاحال ان کہا تھا…. گویا کہ ہونے کے باوجود نہیں تھا…. جذبوں کو اظہار نہیں ملا تھا۔ زبان تھی مگر آواز نہیں تھی۔ اس نے اپنی محبت، اپنےجذبوں کو ابھی تک ایسے مقام، ایسے ر�±خ کی طرف آنے ہی نہیں دیا تھا جہاں وہ کسی کے بھرم کے لیے آزمائش بنتے یا……. خود اس کی وہ محبت، وہ جذبات قابلِ گرفت ٹھہرتے….

اب ایسے میں اگر وہ خود سے اس حوالے سے بات کرتی تو یہ ایک ان کہی کو فسانہ بنانے والی بات ہو جاتی…. بات کے م�±نہ میں زبان دینے والا قصہ بن جاتا یہ… دوسری بات یہ بھی تھی کہ اگر وہ اس کے لیے محبت کے جذبات رکھتا تھا تو ان جذبات کے بدلے ،یا ان کی آڑ میں اس نے حجاب سے کوئی تقاضا تو نہیں کیا تھا کچھ مانگا ،چاہا تو نہیں تھا…. وہ تو بس اپنی داخلی کیفیات، اپنے ان جذبوں ہی میں مست و شادماں تھا…. کسی بھی طرح کے صلے یا حاصل کی تو جیسے اس کے دل میں کوئی تمنا ہی نہیں تھی!

حجاب نے سوچا کہ شاید ایسا اس بے انتہا ادب واحترام کے باعث ہو جو وہ سادات کی نسبت سے اس کا کرتا تھا۔ جو اس کی بے باکیوں کے لیے ایک لگام بھی بنا تھا…. اس خیال کے ساتھ ہی اس کا دماغ اس تجزیے میں مصروف ہو گیا کہ آیا مرشد کے رویے اور طورواطوار میں اس کے لیے ادب کا عنصر زیادہ ہے یا محبت کی شدت؟

وہ سوچتی رہی اور ا�±لجھتی رہی۔ اسے محسوس ہوا کہ یہ فیصلہ کرنا، یہ طے کر پانا آسان کام نہیں ہے۔کچھ دیر مزید گزری ہو گی کہ فیروزہ بھی جاگ گئی۔ معمول کے مطابق انہوں نے ناشتہ کیا۔ اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ خنجر، جعفر، ٹیپو وغیرہ احاطے میں اِدھر ا�±دھر الگ الگ جگہ سنبھالے بیٹھے ہیں. صبح صبح دکھائی دینے والے لوگوں نے اندیشے بڑھا دئیے تھے، جس کے باعث یہ لوگ اب اس چاردیواری کے اندر پوری طرح چوکس تھے۔

دو گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ مرشد کے پہلو کا درد کچھ زیادہ ہی شدت اختیار کر گیا تھا لہٰذا اسے میڈیسن دے کر س�±لا دیا گیا ہے۔ حجاب کی فکر وپریشانی دوچند ہو گئی۔

دوپہر کے قریب فیروزہ چکر لگا کر آئی تو اس نے بتایا کہ مرشد کو بخار ہے۔ ڈاکٹر نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ گولی کا گھاو�¿ اندرونی طرف سے پھر ک�±ھل گیا ہے۔ حجاب کا باقی کا دن سخت بے چینی اور بے سکونی میں گزرا۔ سارا وقت اس کا دل مرشد کو دیکھنے کے لیے ہمکتا رہا۔ آخرکار سہ پہر کے بعد جب فیروزہ لیٹے لیٹے اونگھنے لگی تو اس سے رہا نہیں گیا اور وہ ا�±ٹھ کر مرشد والے کمرے میں چلی آئی۔ ا�±س وقت وہ شدید بخار کے زیرِ اثر بے س�±دھ پڑا تھا اور خنجر اونچی پشت والی کرسی اس کی سرہاندی کی طرف ڈالے بیٹھا، اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رہا تھا۔

 "کیسی طبعیت ہے ان کی؟”

 "بخار اور تیز ہو گیا ہے۔”

 "وہ ڈاکٹر صاحب کدھر ہیں، انہوں نے دیکھا نہیں انہیں؟” وہ مرشد کے قریب جا کھڑی ہوئی۔ چہرے اور لہجے میں گہری بے چینی اور فکر مندی تھی۔ خنجر برابر پڑی تپائی پر رکھے پانی بھرے طشت میں سے ایک رومال نما کپڑا ا�±ٹھا کر نچوڑتے ہوئے بولا۔

 "دیکھا ہے…. اسی نے یہ پٹیاں رکھنے کا کہا ہے…. کمزوری بہت ہوگئی ہے نا جگر کو…. قوتِ مدافعت کم پڑ گئی ہے۔ پہلے کی طرح فٹ ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا اب۔.”عجیب سنجیدہ اور ا�±کتایا ہواسا انداز تھا اس کا یا شاید صرف حجاب ہی کو ایسا محسوس ہوا تھا۔ ایک ذرا توقف سے وہ پھر بولی۔

 ” ان کے زخم کے بارے میں کیا کہا ہے ڈاکٹر صاحب نے؟ "

”صبح جو صورتحال بنی تھی اس کی وجہ سے زخم اندر سے متاثر ہوا ہے۔ ابھی کچھ دن مزید جگر کا بستر پہ رہنا ضروری تھا ۔”ایک آہ نما گہری سانس بھرتے ہوئے وہ مزید بولا۔

 ” بہرحال… قسمت…. نصیب… "اس نے جیسے کہا نہیں…. سنایا تھاکچھ بتایا تھا یا شاید حجاب کے اپنے ہی محسوسات عجیب ہو رہے تھے۔ وہ دوقدم پیچھے ہٹ کر دوسری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ متذبذب و متفکر آنکھیں مرشد کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ خنجر کو ا�±ٹھا کر اس کی جگہ بیٹھ جائے اوریہ کام خود سنبھال لے۔ خود اپنے ہاتھوں سے مرشد کے ماتھے پر پٹیاں رکھے۔جب تک اس کا بخار مکمل طور پر ا�±تر نہ جائے ،تب تک یہیں….اس کے آس پاس ہی رہے ۔خود اس کی دیکھ بھال کرے،اس کا خیال رکھے لیکن وہ بس چپ چاپ بیٹھی رہی۔ ایسی سوچوں خیالوں کو عملی جامہ پہنانا، ا�±ن پر عمل کرنا اسے از حد مشکل محسوس ہوتا تھا۔ ایک جھجھک، ایک گھبراہٹ اور ایک حیا اس کے اعصاب کو دبوچے رکھتی تھی۔

 "کیا زریون صاحب نے بڑے شاہ جی کو آپ کے بارے میں بتا دیا ہو گا؟” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد خنجر نے اچانک اس سے سوال کیا۔

 "شاید… یا نہیں… مجھے پتا نہیں ہے۔”

چند لمحے کی خاموشی کے بعد وہ پھر بولا۔ 

 "اس شہر میں ان لوگوں کی اچھی خاصی زمین جائیداد اور بڑا کاروبار ہے۔ ٹیپو سے سنا ہے کہ ایک بڑے فارم ہاو�¿س کے علاوہ دو فیکڑیاں بھی ہیں…. زریون صاحب اور بڑے شاہ جی ادھر آتے جاتے رہتے ہیں۔ اگر…. زریون صاحب نے بڑے شاہ جی تک اطلاع پہنچائی ہے تو شاید وہ خود بھی یہاں پہنچ چکے ہوں۔“

 ” مجھے کچھ اندازہ نہیں…. کاروبار تو کئی شہروں میں ہے ان کا۔ ادھر…. لاہور میں بھی فیکٹریاں کارخانے ہیں۔ اِدھر بھی آتے جاتے رہتے ہیں وہ۔ "

 ” لیکن زریون صاحب اسی شہر میں موجود ہیں۔ آپ بھی…. اور آپ کے اور بڑے شاہ جی کے دشمن بھی۔ "

حجاب چونک پڑی.” بڑے شاہ جی کے دشمن…. آپ پھوپھا جی کی بات کر رہے ہیں نا؟ "

 ” ہاں جی! "

 ” ا�±ن کے کون سے دشمن ہیں یہاں؟ "خنجر نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔اس کی آنکھوں اور چہرے پر حقیقی تعجب پھیلا ہوا تھا۔

 ” ا�±ن کی اس علاقے میں پ�±رانی دشمنی رہی ہے نا! "

 "مجھے تو اس بارے بھی کچھ پتا نہیں۔میں نہیں جانتی۔ "وہ واقعی لاعلم تھی اور خنجر بھی یہ بات سمجھ گیا۔ وہ دوسرے ر�±خ پر بات کرتے ہوئے بولا۔

 "اگر ا�±ن تک آپ کے متعلق اطلاع پہنچی ہے…. وہ یہاں آئے ہوئے ہیں اور جیسا کہ ہم نے ا�±ن کی پہنچ اور اثر ورسوخ کے متعلق سنا ہے…. وہ شاید یہیں آپ کو اپنی تحویل میں لے لیں اور پھر…. یہیں سے آپ کو اپنے ساتھ لے جائیں۔“اس نے جیسے تمہید باندھی تھی۔ وہ کچھ مزید بھی کہنا چاہتا تھا۔ حجاب کی خاموش نظریں اس کی سنجیدہ صورت پر جا ٹھہریں۔ خنجر کے چہرے پر چند لمحے ایک کشمکش کی دھوپ چھاو�¿ں سی پھیلی رہی پھر وہ بولا.. اس کا انداز خود کلامی والا تھا۔

 ” ہاں! آخر جانا تو ہے آپ نے…. ہمیشہ کے لیے…. انسان اپنوں ہی میں مطمئن اور س�±کھی رہ پاتا ہے… غیر تو غیر ہی ہوتے ہیں نا! "

اس کے لہجے میں ایک مضمحل سا دکھ تھا۔ یہ د�±کھ اس کے جگر مرشد کے حوالے سے تھا۔ وہ سمجھ گئی کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے… جو وہ کہنا چاہ رہا تھا وہ کہہ نہیں پایا تھا اور یہ اچھا ہی تھا۔مرشد کی” ان کہی محبت سے“ وہ بھی تو واقف ہی تھا کچھ اور لوگ بھی جانتے تھے، لیکن اپنی اپنی جگہ سبھی خاموش تھے۔ اس حوالے سے مرشد کی خاموشی اور خود اس کی اپنی ذات کے حوالے سے مرشد کے عقیدت مندانہ اور ادبی سنجیدگی سے بھرے روّیے نے سبھی کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ اس سارے معاملے کی حدودوقیود کیا ہیں…. حجاب کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور اس کے مقابل ،ان سب کی اپنی حیثیت اور حد کیا ہے۔

حجاب نے خنجر کی بات کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ بس خاموشی سے ا�±ٹھی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس نے شعوری طور پر ذہن کو اپنے پھوپھا جی کی طرف موڑ دیا۔ اگر خنجر کی بات کے مطابق زریون نے انہیں اطلاع کی ہوئی تھی تو پھر یہ عین ممکن تھا کہ پھوپھا جی سچ میں یہاں پہنچ چکے ہوں۔ یہیں….اسی شہر میں کہیں موجود ہوں اور اپنے طور پر اس کی تلاش بھی شروع کرا چکے ہوں۔ ذہن میں پھر ا�±مید وبیم کی کیفیت ا�±بھر آئی۔

ماضی کے کئی ایک دریچے وا ہوتے چلے گئے۔ مستقبل کے کئی مناظر جھلملا ا�±ٹھے اور اس کے حال سے ا�±لجھنے لگے اس کے خیالات، سوچیں اور احساسات متضاد سمتوں اور زاویوں میں تقسیم ہوتے چلے گئے۔

وہ الجھتی رہی، سوچتی رہی…. سوچتی رہی اور الجھتی رہی۔

دن بھر کی شدید گرمی کے بعد شام مغرب کے قریب اچانک ہی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہو گئی۔ ڈیرے کا بابر نامی کاما، مشک کی مددسے احاطے کے کچے صحن میں چھڑکاو�¿ کرنے لگا تو حجاب وضو کرنے چلی گئی۔ مغرب کی نماز کے بعد جب اندھیرا پھیل چکا تھا تو وہ اور فیروزہ کمرے سے نکل کر سامنے کے حصے میں ٹہلنے لگیں۔پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں د�±بک چکے تھے۔ فضا میں گہری خاموشی پھیلی تھی۔ اس خاموشی میں بس دور کہیں چلتی کسی چکی کی مدہم آواز ایک مخصوص تسلسل سے ڈوب ا�±بھر رہی تھی کسی آہ، کسی ہ�±وک کی صورت۔

فیروزہ اسے بازارِ ح�±سن کے قصّے س�±نا رہی تھی جن میں اسے ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی۔ اس سے بات چیت کرتے وقت محتاط تو فیروزہ بھی رہتی تھی البتہ جھجکتی وہ نہیں تھی۔ گزشتہ دنوں وہ مختلف موضوعات پر بڑی سہولت کے ساتھ بات چیت کرتی رہی تھی۔

اندھیرا تھا…. ان دونوں کو وہاں ٹہلتے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ایک ہیولا سا انہیں اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ دونوں نے بآسانی شناخت کر لیا کہ وہ خنجر ہے۔ قریب پہنچ کر وہ فیروزہ سے مخاطب ہوا۔

 "مجھے کچھ بات کرنی ہے بی بی جی سے…. اکیلے میں۔”

حجاب کو اس کا یہ انداز تھوڑا عجیب سا لگا۔ فیروزہ نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کندھےاچکائے۔

 "ٹھیک ہے…. کرو میں نے کب منع کیا ہے۔“ وہ دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گئی اور ان کی طرف دیکھنے لگی۔

 "حجاب بی بی! مجھے بس چند منٹ چاہیے آپ کے. "خنجر کی گھمبیر آواز اس کی سماعت پر دستک انداز تھی۔ وہ ایک ذرا ہچکچائی پھر دوسری طرف کو قدم بڑھاتی ہوئی بولی۔

 ” ہاں جی کریں… کیا بات ہے ؟” اس نے گڑبڑاتے ہوئے دل کو سنبھالتے ہوئے کہا۔ اس کا وجدان جیسے اسے بتا گیا تھا کہ خنجر کس حوالے سے بات کرنا چاہتا ہے۔ اس کی بات چیت کا لبِ لباب کیا ہے!

 "بی بی جی! آپ ماشاءاللہ سلجھے ہوئے گھرانے سے ہیں۔ خود بھی سمجھدار ہیں۔ میری بات کو بد تمیزی یا بے ادبی نہ سمجھنا. میں…. میں مرشد کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔.”حجاب کا دل زور سے دھڑکا۔ خنجر مزید بولا۔

 "میں اس کی حالت کی طرف سے خاصا پریشان ہوں۔.”

حجاب کے دل میں آئی کہ مرشد کی طبیعت کے متعلق استفسار کرے لیکن وہ بول نہیں پائی۔

 ” بظاہر تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی ہے… ابھی بخار ہے ا�±تر جائے گا۔ زخم کچا ہے، درد ہے، ٹھیک ہو جائے گا…. جسمانی کمزوری ہے یہ بھی ہمیشہ نہیں رہنی۔ جگر بہت جلد پہلے ہی کی طرح فٹ فاٹ اور ٹچن ٹَیٹ ہو جائے گا۔ اس سب میں پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے…. اصل مسئلہ، اصل پریشانی کچھ اور ہے….. اور وہ زیادہ خطرناک، زیادہ سنگین معاملہ ہے! "یہ جملے بھی گویا تمہید ہی تھے۔ وہ پوری احتیاط سے نپے تلے انداز میں بات کر رہاتھا۔ وہ مرشد کا مقدمہ پیش کرنے آیا تھا۔ مرشد کا وکیل بن کر آیا تھا۔ اسے یونہی پوری طرح ناپ تول کر بات کرنی تھی۔حجاب خاموش رہی۔ وہ جانتی تھی کہ اس سنگین معاملے کا تعلق براہِ راست اس کی اپنی ذات سے ہے۔

 "جگر نے کلیجے میں ایک روگ پال لیا ہے۔“ خنجر بول رہا تھا۔ وہ دھیمے قدموں سے ٹہلتے ہوئے احاطے کی دیوار کے پاس جا ٹھہرے۔ "ابھی شاید اسے خود اندازہ نہیں ہے…. وہ خوش باش اور مست ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ اب وہ زیادہ عرصہ خوش باش رہ نہیں پائے گا، یہی خوشی آنے والے دنوں میں گ�±ھٹ کر اس کے گلے کا پھندہ بن جائے گی۔آپ نے اپنی منزل پر پہنچ جانا ہے خدا نے چاہا تو آپ کو ایک نئی اور بہتر زندگی بھی مل جانی ہے لیکن آپ کے چلے جانے کے بعد….”

ایک لمحے کے توقف سے وہ پھر بولا۔ ” مرشد شاید اب پہلے والا مرشد نہیں رہے گا… اندر سے اس کی کایا پلٹ ہو چکی ہے۔ اس کے اندر بہت کچھ بدل چکا ہے اور ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں یہ بدلاو�¿ اس کے لیے عمر بھر کا د�±کھ، عمر بھر کی تکلیف نہ بن جائے۔اس کے کلیجے کو کہیں کوئی روگ نہ لگ جائے۔.”اس کے محتاط اور دھیمے لہجے میں مرشد کے لیے کسمساتی فکر مندی اور پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے حجاب کے دل کو گو نا گوں اطمینان سا پہنچا۔وہ جانتی تھی کہ وہ مرشد کے چند بہترین دوستوں، ساتھیوں میں سے ایک ہے۔ مرشد اس پر پوری طرح بھروسہ کرتا تھا۔ حجاب کو اپنے حوالے سے بھی اس کے خلوص پر رتی برابر شبہ نہیں تھا۔

جس پریشانی اور ا�±لجھن کا اظہار ان لمحوں خنجر کر رہا تھا کتنے دنوں سے اسی ا�±لجھن و پریشانی میں وہ خود بھی م�±بتلا تھی…. اب خنجر کی زبان سے یہ باتیں سن کر کم از کم اسے یہ تسلی ضرور ہو گئی تھی کہ چلو اس کے علاوہ بھی کوئی ہے جو اس حوالے سے مرشد کے لیے فکر مند ہے!

 "آپ ان کے دوست ہیں ۔آپ کو چاہیے کہ آپ انہیں سمجھائیں۔.” وہ سامنے پھیلے اندھیرے میں دیکھتی ہوئی دھیمی سی آواز میں بولی تھی۔ چند درختوں کے ہیولوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ حدِ نگاہ تک تاریکی کا ایک بیکراں سمندر پھیلا ہوا محسوس ہوتا تھا۔

 "کوشش کر چکا ہوں…. سمجھنے سمجھانے کی حد سے تو وہ بہت آگے جا چکا ہے۔.”

 "کوئی بات نہیں، آہستہ آہستہ خود ہی سمجھ جائیں گے۔.”

 "گستاخی معاف حجاب بی بی! کیا آپ سمجھ رہی ہیں کہ میں کس حوالے سے سے بات کر رہا ہوں؟”

 "ہاں جی! میں خود بھی کچھ دنوں سے اس بارے میں سوچ رہی تھی۔ مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ آپ بھی مرشد جی کے لیے فکر مند ہیں. "

 ” کیا آپ بھی اس کے لیے فکر مند ہیں؟ "خنجر نے اس کے جملے میں سے” آپ بھی” کو فوراً گرفت کیا تھا۔ا�±س کے سوال پر ایک ذرا تو حجاب کو چ�±پ لگ گئی پھر اسے خیال آیا کہ اتنے روز سے جو اضطراب اس کے دل و دماغ میں پکتا آ رہا ہے۔ اسے شاید مرشد کے سامنے وہ کبھی بھی ک�±ھل کر ظاہر نہ کر سکے۔ جو کچھ وہ مرشد سے چاہنے کے باوجود نہیں کہہ پا رہی تھی وہ خنجر سے کہا جا سکتا تھا، ا�±سے سمجھایا جا سکتا تھا، وہ پھر آگے مرشد سے کہہ سکتا تھا…. اسے سمجھا سکتا تھا۔ وہ گہرے دوست تھے۔ انہوں نے تو آگے بھی ساتھ ہی رہنا تھا سو یہی بہتر تھا کہ وہ آج، ان لمحوں حوصلے اور اعتماد سے کام لیتے ہوئے خنجر کو سمجھاتی اور آنے والے وقت میں پھر وہ مرشد کو سمجھاتا سنبھالتارہتا۔وہ بولی تو اس کے لب ولہجے میں گہری سنجیدگی شامل تھی۔

 "ہاں جی! مرشد جی کے لیے میں بھی سخت فکر مند ہوں…. وہ میرے محسن ہیں۔ میرے دل میں ان کے لیے بے انتہا عزت ہے۔ احترام ہے۔ اتنا زیادہ کہ میں بتا نہیں سکتی…. میرے دل میں ان کا ہمیشہ ایک الگ اور بلند مقام رہے گا۔ وہ ہمیشہ میری د�±عاو�¿ں میں شامل رہیں گے۔ میں جانتی ہوں کہ میں کبھی بھی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی…. کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں نہیں…. چاہوں تو بھی نہیں… ایسا کچھ میرے بس، میرے اختیار ہی میں نہیں ہے!“

دونوں کچھ دیر کے لیے خاموش کھڑے رہے۔ ہلکی ہلکی ہوا، فضا میں بہتی رہی اور اندھیرا منتظر سماعتیں لیے انہیں دیکھتا رہا، پھر خنجر ہی کی آواز نے اس خاموشی میں رخنہ اندازی کی۔

 "زریون صاحب نے آپ کو ہمارے ساتھ دیکھا ہے۔ وہ ہم لوگوں کے سماجی پس منظر سے واقف ہیں… مرشد کو بھی اچھی طرح جانتے پہچانتے ہیں۔ آپ اتنے وقت سے ہمارے ساتھ ہیں۔کیا وہ اس بات کو ہضم کر لیں گے…. نظر انداز کر سکیں گے؟”

یہ وہ دوسرا پریشان ک�±ن پہلو تھا جو رہ رہ کر حجاب کے دل و دماغ کو کچوکے دینے لگتا تھا۔ اندیشے جگاتا تھا اور پھر رنگ برنگے جواز خود ہی اس کی ڈھارس بندھانے لگتے تھے۔ اسے حوصلہ دیتے تھے۔ جواز تھے بھی تو بہت سارے…

 ” میرا کلینک سے آپ کے ساتھ یہاں چلے آنا انہیں اچھا نہیں لگا ہو گا لیکن…. وہ سمجھ جائیں گے…. میری مجبور ی بھی اور حالات کی ستم ظریفی بھی۔”

"اور ایک ذرا فرض کریں کہ اگر وہ نہ سمجھ پائے تو؟”

 ” تو میں انہیں سب کچھ تفصیل سے بتاو�¿ں گی۔ انہیں بھی اور پھوپھو، پھوپھا کو بھی۔ وہ لوگ سمجھا لیں گے انہیں…. وہ سب ہی بہت پڑھے لکھے اور اچھے لوگ ہیں اور…. اور پھر اب وہی تو میرے اپنے ہیں وہ بھلا کیوں نہیں سمجھیں گے۔”. اس کے لہجے میں یقین تھا۔

 "ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ! اپنے "اپنوں” کو یقیناً آپ سمجھا لیں گی لیکن…. اس سے پہلے آپ کو چاہیے کہ آپ ایک اجنبی اور غیر کو بھی کسی وقت بیٹھ کر سمجھائیں۔ اشد ضرورت ہے اس کی…. اور وہ غیر کسی اور کی سمجھے یا نہ سمجھے…. آپ کی کہی ضرور سمجھے گا۔”

حجاب کی نظریں بے ساختہ مرشد والے کمرے کی طرف پھسل گئیں۔ وہ بخار اور میڈیسن کے زِیر اثر پڑا سو رہا تھا۔ کمرے کے اندر شاید دھیمی لو سے لالٹین روشن تھی۔ دروازے کے اندر از حد مدھم سی روشنی کا احساس ہوتا تھا۔

 ” آپ ان کے قریبی اور بے تکلف دوست ہیں۔ آپ یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔.”

 "اس کے سارے دوست سجن ،حتا کہ وہ خود بھی ایک طرف اور آپ کی ذات ایک طرف…. ہم سب کے سارے لیکچرز بے اثر رہیں گے اور آپ کی زبان سے ادا ہوا حرف حرف اس کے نزدیک فرمان کا درجہ پائے گا…. اس کے خون میں جو مرض جڑیں پھیلا چکا ہے ،اس کا علاج دنیا میں اور کسی کے پاس نہیں ہے…. اس مرض، بیماری کا حل، علاج صرف آپ ہی کر سکتی ہیں اس پر ظلم ڈھانے سے پہلے آپ کو اس ظلم کا سدِ باب کر جانا چاہیے! "

 ” ظلم…. اس نے چونک کر خنجر کی طرف دیکھا۔ اندھیرے کے باعث وہ ایک دوسرے کے تاثرات دیکھنے سے قاصر تھے۔

 "آپ کی جدائی آپ کا چلے جانا اس پر ظلم ٹوٹنے کے برابر ہی ہو گا…. آپ نے ہمیشہ کے لیے چلے جانا ہے اور مرشد نے اندر سے ٹوٹ جانا ہے، بکھر جانا ہے۔ پتا نہیں اتنی خطرناک دشمنیاں پال چکنے کے بعد ایک ٹوٹے بکھرے مرشد کے لیے دشمنوں سے نمٹنا کیسے ممکن ہو گا…. مجھے ڈر ہے کہ وہ کسی دشمن کا شکار ہو کر ختم ہو جائے گا….. مارا جائے گا وہ! "

 ” خدا کا نام لیں…. یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ "حجاب کا دل ہی تو لرز ا�±ٹھا تھا۔” کیوں بد فالیں نکالتے ہیں؟ انسان کوئی اچھی بات، اچھا کلمہ نکالتا ہے م�±نہ سے.۔ "

 ” اس سے بھلا کیا ہوتا ہے…. حقیقت بدل تو نہیں جاتی۔ حالات و واقعات کیا ہیں؟آپ کو بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کیا ؟ آپ کو نہیں لگتا کہ میں درست کہہ رہا ہوں؟” جنجر کے لہجے میں شکوہ کناں سی ا�±داسی و بے چارگی تھی۔ حجاب کی نس نس میں بے چینیاں پھیل گئیں۔ خنجر تو گویا اس کے بد تریناندیشوں کی تائید کرنے پر ا�±تر آیا تھا۔ حجاب نے شدتِ اضطراب کے تحت یونہی قدم آگے کی طرف بڑھائے تو خنجر اس کے ساتھ چلتے ہوئے مزید کہنے لگا۔

 "میں مرشد کو بہت اچھے سے اور بہت قریب سے جانتا ہوں۔ اس کے سینے میں جو جذبات پل رہے ہیں، وہ کوئی عام تام سے جذبات نہیں ہیں…. وہ بے پناہ طاقتور ہیں۔ ان میں غیر معمولی شدت ہے۔ جذبوں کا ایک سمندر ہے جو اس کے سینے میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور یہی ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کے بعد ا�±سے معمولی تنکے کی طرح اپنے ساتھ بہا کر لے جا سکتا ہے..…. میری کوئی بات ب�±ری لگے تو اعلا ظرفی سے معاف کر دینا لیکن مجھے کہنے دیں کہ مرشد کا رویہ آپ کے حوالے سے نارمل نہیں ہے…. آپ کے حوالے سے اس کے جذبات و احساسات پاگل پن کی حدوں کو چھو رہے ہیں…. سچ کہوں تو آپ کے بارے میں اس کے ساتھ بات کرتے ہوئے خود مجھے بھی ڈر لگتا ہے۔ وہ…. وہ آپ کے بارے میں حد سے زیادہ حساس ہے۔ کوئی بات تو د�±ور، ایسا ویسا حرف تک برداشت نہیں کر سکتا وہ…. فیصل آباد بس اسٹینڈ والا معاملہ یاد ہے نا آپ کو؟ "

وہ دھیمے قدموں احاطے کی دیوار کے ساتھ ساتھ اندھیرے میں ٹہل رہے تھے۔ بات کرتے کرتے خنجر نے ایک اضطراری سی نظر اس کی طرف دیکھا تھا، جو کچھ وہ کہہ رہا تھا اور جو کہنے والا تھا اس کے لیے اسے بڑا حوصلہ جٹانا پڑا تھا۔ مرشد کو معلوم ہو جاتا توان کے درمیان اچھی خاصی بد مزگی بن سکتی تھی۔ ان کا تعلق، ان کی دوستی میں گڑبڑ پیدا ہو سکتی تھی۔ اس کے باوجود آج اس نے مرشد کی وکالت میں سب کچھ کہہ ڈالنے کا فیصلہ کر رکھا تھا کیونکہ وہ اچھی طرح جان چکا تھا کہ ادب واحترام کا مارا مرشد اب کبھی ک�±ھل کر حجاب پر اپنے جذبات، اپنی محبت کا اظہار نہیں کرے گا۔

 "وہاں معاملہ کیوں بگڑا تھا…. جھگڑا کس بات سے شروع ہوا تھا؟” خنجر بول رہا تھا۔ حجاب کی آنکھوں کے سامنے اس وقت کے لمحات کا منظر روشن ہو آیا۔ اسے سب یاد تھا۔

 "اس بد بخت کانسٹیبل کو مرشد کے جذبات کا کچھ پتا نہیں تھا…. اس نے لاعلمی میں آپ کی کلائی دبوچ لی تھی اور نتیجے میں اسی وقت مرشد نے اس کا بازو ہی توڑ ڈالا تھا اور….. اور دریا کے ا�±س پار جو ہوا ،وہ…. حکم داد نے آپ کی گردن پر ہاتھ ڈالے تھے۔ پتا ہے مرشد نے اسے ،اس گستاخی کی کیسی اذیت، کیسی عبرت ناک سزا دی؟ "حجاب بے اختیار جھرجھری لے کر رہ گئی۔ اس کے پردہ تصور پر فوراً دو کٹے ہوئے انسانی ہاتھ ا�±بھر آئے…. خون میں لتھڑے ہوئے، جنہیں کتا بھنبھوڑ رہا تھا۔

 ” مرشد نے اس کے دونوں ہاتھ کاٹ کر ک�±تے کو کھلا دیئے تھے…. آپ تھوڑا غور کریں تو آپ کو ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں اور واقعے یاد آئیں گے جن سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے حوالے سے وہ دیوانگی اور پاگل پن کی حدوں کو چھو رہا ہے…. اس کے اس پاگل پن اور دیوانگی کی یہ سہما ،دہلا دینے والی شدتیں آپ کے بعد کیا ر�±خ اور کیا رنگ اختیار کریں گی، یہ سوچ کر ہی مجھے تو سچ میں گھبراہٹ ہونے لگتی ہے!

اوپر سے اتنی ڈھیروں ڈھیر دشمنیاں…. ڈپٹی اعوان کے اغواءکے علاوہ کئی پولیس والوں کے جھوٹے قتل اس کے سر مڑے جا چکے ہیں۔ صوبے بھر کی پولیس اس پر خار کھائے بیٹھی ہے۔ آپ کے سامنے ہی ہے سب…. پولیس اس کی تلاش میں کیسے پاگل ہو رہی ہے۔ پولیس کے علاوہ چوہدری اور ملنگی گروپ اور مزید کتنے سارے لوگ ہیں جن کا بس چلے تو وہ اسے ایک سے دوسرا سانس لینے کی بھی اجازت نہ دیں اور آپ جانتی ہیں کہ یہ سب حالات و واقعات کیوں پیدا ہوئے ہیں…. اس سب میں مرشد کا قصور اور ج�±رم کیا رہا ہے؟ 

سیدھی صاف کہوں تو ان سب حالات و واقعات کے بعد کم از کم مجھے تو آنے والے وقت سے کوئی اچھی یا زندگی بخش توقع یا ا�±مید بالکل بھی نہیں ہے۔ہاں بلی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے سامنے کھڑی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے خوش فہمیاں پالتے رہیں تو وہ ایک الگ بات ہے…. اب ان حالات میں… ایسے میں اگر کوئی مرشد کے لیے کچھ کر سکتا ہے… کچھ بھی…. اسے سمجھا ،یا سنبھال سکتا ہے تو وہ صرف آپ کی ذات ہےحجاب بی بی! صرف اور صرف آپ کی ذات…. اسے ” سنبھال” لیں… نہیں تو کم از کم اس سے ج�±دا ہونے سے پہلے، اسے اچھے سے سمجھا ضرور دیجیے گا! "خنجر نے سنبھال اور سمجھا پر خصوصاً زور دیتے ہوئے کہا، اس کا مطلب و مفہوم وہ بخوبی سمجھ گئی تھی۔ وہ دوبارہ دیوار کے ساتھ ایک جگہ ٹھہر چ�±کی تھی۔ دل ودماغ کی حالت عجیب ہو رہی تھی مگر خنجر اس کی حالت سے بے خبر، بے نیاز اپنی ہی رو میں بولتا چلا گیا۔ چند ایک جگہ حجاب نے بولنا چاہا تھا لیکن خنجر کو شاید اس سے کچھ س�±ننے میں دلچسپی تھی ہی نہیں تھی۔ وہ شاید صرف کہنے، سنانے کی ٹھان کر آیا تھا سو بغیر ر�±کے کہتا چلا گیا۔ وہ بولتا رہا اور وہ چ�±پ چاپ س�±نتی گئی. 

خنجر نے بتانے،سنانے کے ساتھ ساتھ محتاط انداز میں ایک دو باتیں اسے جتلا بھی دی تھیں….. ان باتوں نے اس کے اندر موجود احساسِ خطا، احساسِ ج�±رم کو یکایک کئی گ�±نابڑھا دیا …. اندیشوں واہموں کو مہمیز لگا دی تھی۔ اس کے لہو میں دوڑتی بے چینیوں اور ذہن میں چکراتی رہتی پریشانیوں میں کئی گ�±نا اضافہ کر دیا تھا۔ یہ سب مرشد کے حوالے سے تھا.۔ا�±س کی ذات، ا�±س کی زندگی اور اس کے آنے والے کل سے متعلق تھا۔ 

خنجر اپنے اندر کا سارا غ�±بار اس کے حوالے کر کے مرشد والے کمرے کی طرف واپس پلٹ گیا لیکن وہ اسی جگہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ کسی پتھر کے مجسمے کی طرح بے حس وحرکت.۔اس کا سارا وجود جیسے س�±ن ہو کر رہ گیا تھا۔ دماغ میں سائیں سائیں ہو رہی تھی۔ اسے غصہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا…. تھوڑا سا اطمینان تھا تو ڈھیر ساری بے اطمینانی.. 

مرشد قصور وار اور م�±جرم نہیں تھا تو اس کا بھی شروع سے اب تک بھلا کیا قصور، کیا ج�±رم رہا تھا اسرار اور نازیہ کے تعلق سے لے کر اب تک وہ خود تو کسی ایک معاملے کی بھی ذمہ دار نہیں تھی…. اس نے کب ایسا کچھ چاہا تھا…. وہ تو خود آندھیوں کے لپیٹے میں آئے خشک پتے کی طرح بے بس اور بے اختیار تھی۔ حالات و واقعات کی آندھی اپنی مرضی سے اسے گھسیٹے پھر رہی تھی۔ پتا نہیں کس نا کردہ ج�±رم کی سزا تھی جو ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہی تھی.. 

وہ قصور وار نہیں تھی…. مجرم نہیں تھی….اس سب کی ذمہ دار نہیں تھی، اس کے باوجود… ایک بات اس پر پوری طرح واضح اور روشن تھی۔ مرشد کی زندگی میں ساری م�±صیبتیں اور م�±شکلیں اس کی وجہ سے آئی تھیں۔ وہ اسی کی وجہ سے گزشتہ اتنے دنوں سے مسلسل بستر پر پڑا تھا اور ابھی آگے ڈھیروں ڈھیر جان لیواخطرات، مستقل بنیادوں پر اسے درپیش تھے۔ خنجر اسے مراد اور شبیر کے بے رحمانہ قتل کے متعلق بھی بتا گیا تھا۔

یہ خون آشام اندھی دشمنی حجاب کے نصیب کی تھی جو مرشد نے اپنے سر لے لی تھی۔ ابھی اس دشمنی نے آگے نہ جانے کس کس کا لہو چاٹنا تھا…. کس کس کی ہڈیاں چابنا تھیں۔ 

حجاب نے اپنے سینے میں ایک بوجھ اترتا ہوا محسوس کیا۔ ایک بھاری اور جاں گ�±سل بوجھ…. دل پر ایک د�±کھ سا آ بیٹھا تھا۔ شاید یہی د�±کھ اور شدید تر بے بسی کا احساس تھا جو آنسو بن کر اس کی پلکوں کی منڈیروں سے گالوں پر بہہ نکلا۔

            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انیس سو پچاسی ،چھیاسی (86-1985) کی برکھا ر�±ت،یعنی ساون بھادوں کے دن تھے۔ گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی۔ سورج خوب ک�±ھل کر آگ برسا رہا تھا۔ پسینہ تھا کہ سارا دن دھاروں کی صورت بہتا رہتا تھا۔

موسم کے کڑے تیوروں کی اس حشر آفرینی کا سامنا تو سبھی کر رہے تھے لیکن ان سب میں مرشد زیادہ تنگ، زیادہ بے زار تھا۔گزشتہ چند دنوں سے اس کی طبیعت سخت نا ساز تھی۔ بخار تھا کہ جان چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھا۔ کبھی اس کی شدت کم ہو جاتی تھی تو کبھی زیادہ….مسلسل بستر نشینی، میڈیسنز، بخار اور ا�±وپر سے یہاں کی قہر ناک گرمی، وہ سخت عاجز آیا پڑا تھا۔ یہ مسلسل آرام اس کے لیے شدید بے آرامی اور بے سکونی کا باعث بن چکا تھا۔

باسط نے انہیں بتایا تھا کہ ساون بھادوں میں بھی یہاں بارشیں کم کم ہی ہوتی ہیں۔دراصل یہ علاقہ، یہ شہر صحرائے تھل میں شمار ہوتا تھا۔ شہر کے اِرد گرد میلوں د�±ور تک ریت کے ٹبے ٹیلے پھیلے ہوئے تھے، جن پر ش�±وکتی پھرتی گرم ل�±و ان آبادیوں کو بھی متاثر کرتی تھی۔

دو تین روز پہلے باسط ،حالاتِ حاضرہ کے خبر نامے کے ساتھ ایک ریڈیو بھی ان کے حوالے کر گیا تھا۔ وہی ریڈیو ان کے دل بہلاوے اور وقت گزاری کا واحد بہانہ بنا ہوا تھا۔ اسی کے ذریعے وہ اس چار دیواری سے باہر کی دنیا کے ساتھ ج�±ڑے ہوئے تھے۔

ان دنوں محمد خان جونیجو م�±لک کے وزیراعظم تھے۔ چوہدری شجاعت حسین وزیرِ صنعت تھے اور میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب…. بے نظیر بھٹو دو سال برطانیہ میں جِلا وطنی کاٹ کر چند ماہ پہلے ہی واپس آئی تھیں اور ریڈیو خبر نامے کے مطابق ان کی بے انتہا مقبولیت کو حکومتی حلقوں میں تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو اور صدر جنرل ضیاءالحق کے درمیان بے اطمینانی کی فضا تھی تو چوہدری شجاعت اور میاں نواز شریف کے درمیان بھی چقلش چل رہی تھی۔ اس طرح کے حالات میں محمد علی شہکی کا ایک نیا ملی نغمہ بار بار نشر کیا جاتا تھا۔

  "میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے” 

مرشد کو خبر نامے میں دلچسپی ہوتی تھی تو خنجر کو گیتوں گانوں کا چسکا آ چمٹا تھا۔ زبیدہ خانم، نور جہاں، ٹینا ثانی، اقبال بانو، عالم لوہار، الن فقیر، نازیہ حسن، زوہیب اور شہکی…… جو بھی نصیب ہو جاتا وہ سب کو بلا تخصیص ایک سے ذوق وشوق اور ایک سے ادب واحترام سے سنتا تھا۔

جعفر کچھ ا�±جڈ اور لا پرواہ سی طبعیت کا مالک تھا۔ ا�±سے خبر نامے میں کوئی دلچسپی تھی نہ گیتوں میں۔ ڈاکٹر زمان کو زیادہ وقت ساتھ والے کمرے میں بند رکھا جاتا تھا۔ ا�±ن کی مجبوری تھی کہ فی الحال وہ ا�±سے چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ یہاں سے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ چند روز گزر جانے کے بعد کتوں والے گروپ کے حوالے سے بھی وہ لوگ تقریباً بے فکر ہو گئے۔ وہ شاید کوئی اور ہی اجنبی لوگ رہے تھے۔

وہ جمعے کی شام تھی۔ موسم اس روز کافی بہتر ہو گیا تھا۔ گزشتہ رات چند قطرے بارش کے گِرے تھے جِن سے یہ ا�±مید پیدا ہو گئی تھی کہ شاید آج کل میں بارش ہو…. رات ہی سے کالے کالے بادلوں کی ٹولیاں بلندیوں سے ان باغات کا یوں سروے کرتی پھر رہی تھیں جیسے انہوں نے فیصلہ کرنا ہو کہ یکجا ہو کر ک�±ھل برسنے کے لیے کون سا خطہ مناسب اور موزوں رہے گا۔

عصر کے وقت بابر نے ان کمروں کے سامنے والے حصّے سے جھاڑو کی مدد سے پتے وغیرہ سمیٹ کر چھڑکاو�¿ کیا تو مرشد کمرے سے نکل کر باہر "ماچے” پر آ بیٹھا۔ آج صبح سے بخار تو نہیں تھا البتہ مزاج سخت مکدر تھا۔بے زاری، بد مزگی اور عجیب سی گھٹن…. بہت زیادہ کمزوری وناتوانی کا احساس اور ایک گہری بد دلی کی کیفیت طاری تھی۔ باہر چلتی بارشی ٹھنڈک والی ہواو�¿ں نے اس کے حواسوں کو ایک خوشگوار احساس بخشا۔ فضا میں آموں کی کنواری باس اٹھلاتی پھر رہی تھی۔ چھڑکاو�¿ کے بعد زمین سے ا�±ٹھنے والی کچی مٹی کی س�±وندھی س�±وندھی مہک حواسوں میں تراوٹ سی جگا رہی تھی۔ سیاہ بدلیوں اور ٹھنڈی ہواو�¿ں نے گرمی کا زور توڑ دیا تھا۔ فضا د�±ھلی نتھری اور ہلکی پھلکی محسوس ہو رہی تھی۔ موسم کی یہ تبدیلی پرندوں پر بھی اثر انداز ہوئی تھی۔ ان کی چہکاروں میں ایک اضافی خوشگواریت شامل ہو آئی تھی۔

مرشد ماچے پر آ کر بیٹھا تو باسط نے دیسی پٹھے کی یخنی کا بڑا پیالہ لا کر اسے تھمایا اور خود بھی ماچے پر سوار ہو گیا۔ دوسری طرف سے جعفر اور خنجر بھی آ بیٹھے۔ ٹیپو ساٹھ، ستر قدم د�±ور سلطان اور بابر کے پاس کھڑا تھا اور وہ دونوں رات آندھی سے گرنے والے آم چ�±نتے پھر رہے تھے۔ ریڈیو اس وقت بھی خنجر کے ہاتھ میں تھا۔ آواز دھیمی تھی۔ سندھ کے لوک فنکار علن فقیر کی آواز میں ایک ملّی نغمہ نشر ہو رہا تھا۔

اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا

ساحل اترا بیچ بھنور میں اِک نیا امکان دیا

جعفر،باسط کے ساتھ موسم اور یہاں کی گرمی کے حوالے سے بات چیت کرنے لگا تھا۔

 "موسم کا تو جعفرے تجھے پتا ہی ہے کیسا رہتا ہے یہاں۔“باسط کہہ رہا تھا. "اور یہ میگھ ملہار یعنی ساون بھادوں کے دو مہینے تو ویسے ہی گندے ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو وہ بات بنی ہے….. بھادوں دی دھپ، مترئی دی م�±ک، تے بیڑی دی ب�±ھکھ…. ہک برابر۔”

خنجر، جس کا ایک کان ریڈیو اور دوسرا ان لوگوں کی طرف تھا،باسط کی بات پر فوراً متفسر ہوا.۔

 "کیا…. کیا بتا رہے ہو۔ کون سی ب�±ھکھ؟ "

 ” بھادوں دی د�±ھپ، مترئی دی م�±ک تے بیڑی دی ب�±ھکھ…. یعنی بھادوں کی دھوپ کی سختی، سوتیلی ماں کے م�±کے کی مار اور کشتی میں بھوک لگ جائے تو برابر نا قابلِ برداشت ہوتی ہیں…. ساون بھادوں میں تو پسینے ہی نہیں سوکھیں۔ پسینے بھی عجیب چِپ چِپ۔ "باسط نے ب�±را سا منہ بنایا۔

”یہاں کی گرمی تو واقعی جیتے بندے کو روسٹ کر دینے والی ہے۔.” خنجر نے فوراً ہاں میں ہاں ملائی۔ "کیوں جگر! ہے کہ نہیں؟”

 "گرمی کے حوالے سے ملتان کا ذکر سنا کرتے تھے لیکن میرا خیال ہے کہ ملتان سے زیادہ یہاں پڑتی ہے…. شاید ریت کے ٹیلوں کی وجہ سے….گرم ل�±و جو چلتی رہتی ہے۔ "

جعفر نے تائید کی ” بالکل ا�±ستاد! یہی بات ہے۔ ارد گرد بڑا رقبہ ریگستانی ہے۔ک�±ھل کے گرمی پڑے ہے اور اس گرمی کی وجہ سے کھجوروں اور آموں کے ساتھ ساتھ بندے بھی پکتے رہویں ہیں۔ "

مرشد یخنی کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔” ہاں! ہم نے دیکھا ہے کہ اس علاقے میں آموں کے ساتھ ساتھ کھجور کے درخت بھی عام دکھائی دیتے ہیں۔ "

 ” اور جو ذائقہ یہاں کے امب میں پایا وہ اس سے پہلے کبھی نئیں ملا۔ "خنجر چٹخارہ لینے والے انداز میں بولا۔ ” یا شاید ایسا اس لیے لگا ہے کہ پہلے کبھی یوں” ڈریکٹ“ درخت سے توڑ کر کھانے کا اتفاق ہی نئیں بنا۔ "

 ” دونوں باتیں ہی سمجھ لیں جی! اس علاقے کے امب کا سواد ویسے ہی بڑا کمال ہے…. یہ ساتھ ہی قصبہ ہے, خان گڑھ…. اپنے نواب زادہ نصراللہ خان کا علاقہ…. ادھر کا امب بڑا مشہور ہے۔ وہاں کے کچھ باغوں کا تو سارا پھل یہاں سے باہر جاتا ہے۔ دوسرے ملکوں میں…. پتا نہیں د�±نیا میں کہاں کہاں کی مخلوق ہمارے یہاں کا امب کھاتی ہے جی! "

باسط نے فخریہ لہجے میں کہا۔ کھجوروں، آموں سے آگے بات مزید پھلوں، سبزیوں اور پھر موسمی فصلوں اور کاشت کاری کی طرف پھسل گئی۔ کاشت کاری سے یہاں کے زمینی حالات اور رقبے زیرِ بحث آئے اور رقبوں سے بات آ گئی ملک منصب، نواب اسفند یار اور چوہدریوں کی طرف۔

 ” یہاں مظفر گڑھ اور خان پور میں برابر برابر زمینیں ہیں نوابوں اور چوہدریوں کی۔. "باسط بتا رہا تھا۔ ”بہت بڑا رقبہ ہے۔ کم از کم بھی ہو تو دو ڈھائی ہزار ایکڑ تو کہیں نہیں گیا۔ اصل حقیقت تو جانے جی اللہ سائیں…. خدا بخشے چاچے نور دین کو، وہ بتاتا ہوتا تھا کہ نوابوں اور چوہدریوں , دونوں کی ک�±ل زمین تین ساڑھے تین سو ایکڑ تھی بس! باقی جتنا رقبہ بھی آج ان کے پاس ہے اس پر نا جائز قابض ہیں یہ…. اصل میں یہ سارا رقبہ ایک بھلے مانس سید بادشاہ کا تھا۔ چالیس سال پہلے نوابوں اور چوہدریوں نے ملی بھگت سے اس سارے رقبے پر قبضہ جما لیا تھا۔”

 ” مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی! "مرشد خالی پیالہ نیچے پائے کے ساتھ رکھ کر سیدھے ہوتے ہوئے بولا۔ دو تین روز سے اس کے پہلو کی تکلیف تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ اب وہ آسانی سے اٹھنے بیٹھنے اور تھوڑا تھوڑا چلنے پھرنے لگا تھا۔

 ” جس طرح ہمیں معلوم ہوا ہے کہ شاہ جی لوگ شروع ہی سے بڑے اثرو رسوخ والے لوگ ہیں تو پھر انہوں نے چوہدریوں اور نوابوں کو قابض ہونے ہی کیوں دیا؟ اور چلو اگر وہ قابض ہو گئے تھے تو شاہ جی نے قبضہ چ�±ھڑایا کیوں نا؟ بلکہ قبضہ چھڑانے کی بجائے الٹا دست بردار ہو گئے…. کیوں؟ اس کی کیا وجہ…. دو، ڈھائی ہزار ایکڑ کوئی معمولی رقبہ تو ہے نہیں! "

 ” آپ شاید ان بی بی جی کے پھوپھا جی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ اس دن ٹیپو اسی طرح کی کچھ کہانی سنا رہا تھا آپ کو…. "

 ” ہاں! ان ہی کی بات کر رہا ہوں۔ وہ ہو گئے یا ا�±ن کے والد صاحب ہو گئے، معمولی لوگ تو یہ چالیس سال پہلے بھی نہیں تھے نا! "

 ” نا جی! آپ غلط سمجھے بیٹھے ہیں۔ "جمال نے یوں شدومد سے سر کو نفی میں حرکت دی جیسے مرشد نے کوئی انتہائی غلط بات کہہ دی ہو۔ وہ سنجیدگی سے مرشد کی طرف متوجہ ہو گیا۔ خنجر نے بھی ریڈیو کا والیم کچھ مزید دھیما کر دیا تھا۔ باسط ایک نظر د�±ور کھڑے ٹیپو کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

 ” اس لکڑبگے کو صحیح بات کا پتا نہیں ہے۔ اس زمین، اس سارے رقبے کے مالک یہ شاہ نہیں تھے۔ وہ کوئی اور ہستی تھی ان شاہوں کی زمینیں، رقبے اور فیکڑیاں تو آج بھی پوری طرح ان کے اپنے استعمال میں ہیں۔ یہ شاہ تو سچ میں شروع ہی سے بڑے ڈاہڈے اور تگڑے لوگ ہیں۔ ان کے ساتھ ک�±ھل کر پنگا لینے کی ج�±رات نوابوں یا چوہدریوں میں کل تھی نہ آج ہے… وہ کوئی اور سید بادشاہ تھے۔ "

مرشد چونک پڑا۔

 ” تم شاید ٹیپو سے الگ کوئی کہانی س�±نانے لگے ہو؟ "ا�±سے لگا کہ اس زہرناک پرانی دشمنی میں کوئی نئی الجھن پڑنے والی ہے یا…. یا پھر کوئی الجھن رفع ہونے والی ہے ایک عہد پرانی دشمنی کی کوئی نا معلوم، گ�±م شدہ کڑی ملنے والی ہے۔باسط پھر پوری سنجیدگی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔

 ” کہانی شہانی والی کوئی بات نہیں پہلوان جی! یہاں ارد گرد کے سارے بڑے بوڑھے حقیقت جانتے ہیں سب کا بیان ملتا جلتا ہے“ وہ پھر ٹیپو پر ایک نظر ڈالتے ہوئے قدرے استہزا سے بولا۔ "اس طرح کے ٹینڈن نوجوانوں کو بھلا ایسی باتوں سے کیا دلچسپی، کیا لینا دینا…. میں نے تو خود چاچے نور دین سے قصّے س�±ن رکھے ہیں اور چاچا نور دین ا�±نیس سو سنتالیس (1947) میں خود بھی موجود تھا۔ بہت سی باتوں کا وہ خود چشم دید گواہ تھا۔.”

جعفر بولا۔ "تو پھر تیرے چاچے کے بقول جو سید بادشاہ اس رقبے کے اصل مالک تھے ،وہ کون تھے اور اب کہاں ہیں؟ دوسرا یہ کہ پھر…. ان بی بی جی والے شاہ جی کا اس سارے معاملے سے کیا واسطہ ہے…. یہ دونوں شاہ جی آپس میں کیا لگتے ہیں؟ "

مرشد کے ذہن میں بھی یہی سوال پیدا ہوا تھا، وہ تینوںباسط کی طرف متوجہ ہو گئے۔

 ” رشتہ تو کوئی نہیں تھا البتہ , ملنا ملانا تھا اور ملنا ملانا تو ان سبھی کا تھا آپس میں…. نواب اسفند ہو گیا، چوہدری اکبر کا باپ ہو گیا، ان بی بی جی کے دادا سسر اور وہ شاہ جی گھرانا، کیا بھلا سا نام لیا کرتا تھا چاچا…. نام یاد نہیں ہے مجھے، بہرحال ان چاروں کا ملنا ملانا تھا…. آپس میں اتنی اچھی علیک سلیک تھی چاروں کی کہ علاقے کے لوگ ان سب کو اچھے سجن مانتے سمجھتے تھے۔” باسط نے گہری سانس کی صورت پیٹ بھر آکسیجن سمیٹی اور مزید بولا۔ ” پھر ششناب خان اور گجناب خان نامی دو مہاجر بلوچ بھائیوں کی آمد ہوئی اور یہ چاروں دوست دو گروپوں میں بٹ گئے۔ معمولی اختلاف شدید مخالفت میں بدلا اور دوستی دشمنی میں بدل گئی. ".

 ” ششناب،گجناب…. یہ کیسے جناتی قسم کے نام ہیں بھئی؟” خنجر بے ساختہ متعجب ہوا۔

 ” وہ دونوں بندے بھی جناتی قسم ہی کے تھے۔ ان دونوں بھائیوں میں سے ایک ملک منصب کا دادا تھا۔ ان دونوں بھائیوں نے ایک عرصہ چوہدریوں اور نوابوں کو نتھ ڈالے رکھی۔ بستی شاہ پور اور اس کے اردگرد کا سینکڑوں ایکڑ رقبہ ان بھائیوں ہی کی وجہ سے محفوظ رہا ورنہ نواب، چوہدری تو وہ بھی ہڑپ کر جانا چاہتے تھے۔ "

مرشد نے سوال اٹھایا۔ ” اگر یہ چاروں لوگ سجن تھے تو پھر ان کے درمیان دشمنی پڑنے کی اصل وجہ کیا بنی؟ یہ…. اس ششناب، گجناب نے ایسا کیا کیا تھا… کون لوگ تھے یہ؟ ".

” یہ دونوں بھائی اپنے اپنے خاندان اور قبیلے کے ساتھ انڈیا سے یہاں پہنچے تھے۔ بڑی حالت خراب تھی سب کی…. وہ سید بادشاہ جو ان زمینوں کے اصل مالک تھے انہوں نے شاہ پور بستی والی زمین ان لوگوں کو دے دی۔ یونہی خدا ترسی میں…. نوابوں اور چوہدریوں نے سید بادشاہ کے اس فیصلے اور عمل کی مخالفت کی، ان کی نظر میں وہ لوگ ہندوستانی تھے۔ 

بس…. لوکل مہاجر والا جھگڑا کھڑا ہو گیا اور بات بگڑتی ہی چلی گئی۔ معاملہ فساد تک پہنچا تو پنچایتیں بیٹھ گئیں۔ چاچا بتایا کرتا تھا کہ ایک پنچایت میں کسی بات پر چوہدری اکبر کے باپ نے جھوٹا قرآن ا�±ٹھا لیا تھا۔وہ اللہ لوک سید بادشاہ جو اپنے فیصلے پر اٹل کھڑے تھے ،اس دن لرز گئے۔ بقول چاچے کے اسی پنچایت میں سید بادشاہ اپنے سارے رقبے سے دست بردار ہو گئے۔ انہوں نے اپنی بس ایک شرط منوائی تھی پنچایت میں….

آپ لوگ ذرا اندازہ لگائیں تو…. کیا شرط ہو گی وہ؟ "باسط نے ڈرامائی انداز میں باری باری ان سب ہی کی صورت دیکھی۔

 مرشد بولا۔ ” پتا نہیں۔ "

 جعفر نے مارے تجسّس کے جیسے اسے جھاڑ پلائی۔ ” تو زیادہ مزے نہ لے، سیدھی طرح بات مکمل کر۔“باسط پ�±رگدازلہجے میں بولا۔

 ” میں نے چاچے سے جب جب ان سید بادشاہ کے متعلق سنا، دل پر رقت طاری ہوتی محسوس کی وہ کوئی اللہ کے ولی بندے تھے جی! ایسے سخی ولی کہ اپنی ذات کے لیے کوئی بات نہیں منوائی انہوں نے اس ا�±جڑے پجڑے مہاجر قبیلے کے حوالے سے شرط رکھی تھی کہ ان کی بستی اور بستی کے ارد گرد کا رقبہ ان ہی کے پاس رہے گا…. انہیں وہاں سے اٹھانے کی کوشش کی جائے گی نا انہیں کوئی وہاں پریشان کرے گا۔ اس کے بدلے اپنی دیگر دو ڈھائی ہزار ایکڑ زمین سے وہ چوہدریوں اور نوابوں کے حق میں دستبردار ہونے کو تیار ہو گئے اور پنچایت میں اسی پر” ٹک “لگا… نوابوں، چوہدریوں نے بعد میں ان کے ساتھ اسی بات پر م�±ک م�±کا کیا۔

آپ سوچیں ذرا…. اندازہ کریں کیسے درویش طبیعت بندے ہوں گے وہ سید بادشاہ…. حساب لگائیں دو ڈھائی ہزار ایکڑکا…. سو مربعے کے لگ بھگ رقبہ بنتا ہے…. کوئی مذاق کی بات نہیں ہے یہ…. بس خ�±دا جس کو ایسا آسمانوں جیسا ظرف عطا کر دے۔ جب جب خیال آتا ہے قسم سے دل تڑپتا ہے کہ کاش اس اللہ کے ولی، اس ظرف کے شہنشاہ کی زیارت کا شرف نصیب ہو پاتا! ” باسط کے لب و لہجے میں حسرت آمیز سی بے چارگی ا�±مڈ آئی۔ خود مرشد، خنجر اور جعفر بھی اپنی اپنی جگہ دنگ سے بیٹھے تھے۔ سو مربع زمین…. مرشد کے علاوہ وہ دونوں ہی حیرت و بے یقینی کا شکار تھے۔

” اتنے بڑے رقبے سے کوئی یونہی کیسے دستبردار ہو سکتا ہے بھلا؟ خنجرنے اس بے یقینی کا اظہار بھی فوراً کر دیا۔

 "لالاباسط! آسانی سے ہضم ہونے والی بات نئیں ہے تمھاری…. لیکن تم ایک سید بادشاہ کے حوالے سے یہ سب بتا رہے ہو، اس لیے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے…. سو مربع زمین…. حیرت ہے! ” وہ واقعی حیرت زدہ تھا۔ باسط کے بھرے بھرے سانولے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

 ” ہاں جی! ہضم ہونے والی نہیں ہے مگر ہے بالکل حقیقت…. سولہ آنے سچ۔ خدا سہولت اور آسانی والا معاملہ کرے۔ آپ لوگوں کا اگر شاہ پور جانے کا اتفاق ہو گیا تو وہاں سے آپ کو اس سب کی مکمل تصدیق مل جائے گی اور ساری بات اپنی اصل اور پوری تفصیل کے ساتھ معلوم ہو جائے گی۔ "

 ” تم نے ا�±ن سید بادشاہ کی زیارت کی کوشش کی… ابھی حیات ہیں یا پردہ فرما چ�±کے؟ ". مرشد نے گہرے عقیدت مندانہ لہجے میں پوچھا۔ اسے خود اندازہ نہ ہو سکا کہ یہ سوال پوچھتے ہوئے اس کی دھڑکنیں کیوں تیز ہو گئی تھیں۔ جمال کے چہرے پر آزردگی کا سایہ چھا گیا۔ اس نے سر کو نفی میں جنبش دی۔

 ” ان کے بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں۔ آج سے چالیس سال پہلے جب یہ سب ہوا، تب ہی وہ اپنے بال بچوں کو لے کر ایک رات خاموشی کے ساتھ یہاں سے چلے گئے۔ پتا نہیں کہاں…. انہوں نے کسی کو بھی کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن…. پھر کبھی کسی کو ان کی خیر خبر نہیں ملی۔ "

 ” کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں بال بچوں سمیت غائب کر دیا گیا ہو لیکن علاقے والوں نے خود سے یہ سمجھ لیا ہو کہ وہ اپنی مرضی سے چلے گئے ہیں؟ ” خنجر نے ایک امکان ظاہر کیا۔

 ” نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ انہیں چند لوگوں نے جاتے وقت دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے بھروسے کے کچھ لوگوں کو بتا چ�±کے تھے کہ اب وہ عن قریب یہ علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ خدا معلوم آج اس وقت وہ کہاں ہوں گے ہوں گے بھی یا واصل حق ہو چکے ہوں گے۔ بچے ان کے صرف دو ہی تھے ایک لڑکا، ایک لڑکی دونوں نوجوان تھے۔ پتا نہیں وہ دونوں کہاں اور کس حال میں گزار رہے ہوں گے… کیا حالات ہوں گے ان کے.. بوڑھے ہو چکے ہوں گے دونوں۔ اولادیں بھی جوان ہو چکی ہوں گی اب تو۔ "باسط جیسے بیٹھے بیٹھے کہیں د�±ور خلاو�¿ں میں جا پہنچا۔ باقی تینوں کے احساسات بھی عجیب ہو رہے تھے۔تینوں اس سید ہستی ہی کے متعلق سوچ رہے تھے۔ کیسی قلندر مزاج شخصیت رہی ہو گی ان سید بادشاہکی کیسی شانِ سخاوت سے نوازا تھا خ�±دا نے انہیں

اس نا معلوم اور گمنام سید کے حوالے سے ان سب کے دلوں میں غائبانہ طور پر خودبخود ایک گہری عقیدت، گہرے احترام کے جذبات بھرتے چلے گئے۔تینوں سوچ رہے تھے کہ اگر اس ہستی کے لیے باسط بار بار "سید بادشاہ” کا لفظ استعمال کر رہا ہے تو ٹھیک کر رہا ہے۔

مرشد کی توقع کے مطابق کوئی الجھن حل ہوئی تھی نہ کوئی گم ش�±دہ کڑی ہاتھ لگی تھی، ہاں البتہ ایک اور گمنام شخصیت کے متعلق تجسّس ضرور پیدا ہو گیا تھا۔ اس حوالے سے ان کے درمیان کچھ دیر مزید بات چیت ہوئی۔ اس بات چیت سے یہ اندازہ ہوا کہ اگر اس نا معلوم سید بادشاہ کے حوالے سے کسی کے پاس کوئی خیر خبر ہو سکتی ہے تو وہ صرف ایک ہی ہستی ہے اور وہ ہے حجاب بی بی کے پھوپھاسید نظام الدین کی ہستی…. ا�±س دور میں وہ بھی نوجوان تھے۔سید بادشاہ کے اکلوتے نوجوان بیٹے اور سید نظام الدین کے بیچ بڑی گاڑھی اور گوڑھی سنگت تھی۔ دونوں بھائی بنے ہوئے تھے۔ ان دونوں کے باپ بھی آپس میں یونہی گہرے سجن تھے۔ ان دونوں میں بھی گوڑھی بھائی بندی کا تعلق تھا، اس لیے یہ بات بالکل دل و دماغ کو لگتی تھی کہ ان کو سید بادشاہ اور ان کے بچوں کی خیر خبر ہو گی۔ وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ سید بادشاہ یہ علاقہ چھوڑنے کے بعد کہاں جا کر آباد ہوئے اور آج ان کے بچے کہاں اور کس حال میں ہیں…. ان کے اپنے ہم عمر ہی تھے وہ بھی…. اب تو دونوں گھرانوں کے بچے بھی جوان ہو چکے ہوں گے۔ اس دوران مرشد کے ذہن میں سید نظام الدین کے بیٹے زریون کا خیال بھی آیا۔ ایک لمحے کو یہ خیال بھی اس کے دماغ میں ا�±ترا تھا کہ سید بادشاہ کے نوجوان بیٹے کابیٹا بھی آج کم و بیش زریون ہی کی عمروں کا ہو گا…. ایک دم بھرپور جوان…

 ان کے درمیان ابھی اس سب پر بات چیت جاری تھی کہ باغوں کے پار کہیں بہت د�±ور سے اذانِ مغرب کی مدھم مدھم سی آواز بلند ہونے لگی تو مرشد گفتگو درمیان میں ہی چھوڑ کر وضو کی نیت سے ا�±ٹھ کے باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ جب تک وہ کونے میں موجود باتھ روم میں داخل ہو کر نظر سے اوجھل نہیں ہو گیا،باسط بے دھیانی میں اس کی طرف دیکھے گیا۔ وضو کے بعد مرشد نے احاطے کے صحن ہی میں نماز ادا کی اور واپس ماچے پر آ بیٹھا۔

باسط اور جعفر غائب تھے۔باسط کی جگہ ٹیپو بیٹھا تھا۔ اسی نے بتایا کہ باسط اور جعفر سامنے کی طرف گئے ہیں۔باسط رات گرنے والے پھل کو چھانٹی اور محفوظ کرانے گیا تھا۔

خنجر ماچے کی سر ہاندی والے تنا نما پائے پر تشریف ٹکائے عجیب اکڑوں سی حالت میں بیٹھا تھا۔ ریڈیو اس کے ہاتھ میں تھا جس پر زراعت کے متعلق کوئی پروگرام نشر ہو رہا تھا۔ ایک بھدی سی آواز والی خاتون، سنڈیوں کے رنگوں، نسلوں اور ان نسلوں کے خاندانی پسِ منظر کے حوالے سے پ�±ر مغز قسم کی تفصیلات بیان فرما رہی تھی۔اندھیرا پوری طرح اپنے پر پھیلا چکا تھا ۔اس اندھیرے میں گھنے درختوں کے ساتھ ساتھ آسمان پر تیرتے کالے بادلوں کا بھی عمل دخل تھا۔ پرندوں کی رونق انگیز مصروفیات ختم ہو چکی تھیں۔ سب اپنے اپنے گھونسلوں میں جا بیٹھے تھے۔ کسی کسی وقت ہوا کے دوش پر کہیں سے کسی آوارہ کتے کی بھونکار سنائی دے جاتی یا پھر ایک چکی کی آواز تھی جو روز شام کے چند گھنٹے مسلسل سنائی دیتی رہتی تھی۔ اتنے بہت سارے دنوں میں یہ آواز بھی ان کے معمولات کا حصّہ بن چکی تھی پھر بھی نجانے کیوں یہ آواز ایک عجیب سا احساس دلاتی تھی یوں لگتا تھا جیسے یہ آواز فضاو�¿ں میں ایک گہری یاسیت پھونک رہی ہو ایسی گہری اور سحر انگیز سی یاسیت جو سکون کا احساس دلاتی ہے ذہنی انتشار کو ایک نکتے، ایک مرکز کی طرف سمیٹتی ہے۔ انسان کو ا�±داس بھی کرتی ہے اور درونِ ذات اسے ایک یکجائی… ایک جڑت کا احساس بھی دلاتی ہے!

فضا میں سکون سے بہتی ہوا میں کچھ مزید دھیما پن ا�±تر آیا تھا۔ ماچے پر وہ تینوں خاموش بیٹھے تھے۔ چکی کی آواز اندر…. دل پر دستک انداز تھی۔ دھلی نکھری ہوا ہلکے ہلکے حواسوں کو سہلا رہی تھی۔ ریڈیو سے سنڈیاں ا�±ڑ ا�±ڑ کر فضا میں تیرتی جا رہی تھیں….شمالی طرف ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر موجود دو کتے وقفے وقفے سے پکار پکار کر ایک دوسرے سے کچھ کہتے پھر چ�±پ کر جاتے…. تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد ایک کتا با آواز بلند کچھبھونکتا،جواب میں کافی د�±وری سے دوسری آواز بلند ہوتی اور پھر خاموشی چھا جاتی…. پتا نہیں ان کے درمیان کوئی خاص نوعیت کی بات چل رہی تھی یا وہ بس ایک دوسرے کو اپنی موجودگی کا دلاسا دے رہے تھے…. عادت سے مجبور بھونکتے رہنے کی ذمہ داری نبھا رہے تھے….

نجانے وہ جوہڑ کہاں تھا؟ جس کے پار سبزے سے لدے میدان میں ایک پنچایت کا منظر تھا…. اس پنچایت میں دو روشن ہیولے تھے.. شکل و صورت واضح نہیں تھی لیکن مرشد کے احساسات میں ان کے لیے شناسائی موجود تھی۔ ا�±ن میں ایک درویش صفت، قلندر مزاج سید بادشاہ تھے اور دوسرے سید نظام الدین….

خلاو�¿ں میں کہیں ایک بازگشت سرسراتی تھی…. مرشد جی…. مرشد جی…!

دو آنکھیں تھیں…. سہمی ہوئی، حیران پریشان، سحر انگیز سی آنکھیں…. سرخ انگور سے ہونٹ اور عودو عنبر سی خوشبو بکھیرتی آب شار سی زلفیں…. ایک آنسو…. گداز اور کومل رخسار پر روشنی بکھیرتا ہوا موتی سا ننھا آنسو…. ایک ٹکڑے ٹکڑے سی تصویر لاہور کی تھی۔ ایک جائے نماز پر تھکی ہاری سی بیٹھی اس کی باجی امی اور پس منظر میں راگ و رنگ کی آوازیں , موسیقی کے آلات، پھول، گجرے اور گھنگرو…. جانے کتنی صورتیں ایک پل میں پردہ تصور پر روشن ہوئیں اور بجھ گئیں…. کئی ر�±تیں اور زمانے ایک تیز رفتار ریلے کی صورت نظروں کے سامنے سے گزر گئے۔ زندہ و مردہ کئی دوست، کئی دشمن اپنی یاد دلا گئے تھے۔

شاید وہ محسوسات اور خیالات کے اس بہاو�¿ میں مزید د�±ور تک بہتا چلا جاتا کہ اچانک اسے کچھ تبدیلی کا احساس ہوا۔ خنجر بھی پائے سے فوراً ہی نیچے کو سرکا، ساتھ ہی وہ تیز سرگوشی والے انداز میں بولا تھا۔

 "حجاب بی بی…. ادھر ہی آرہی ہیں۔.” مرشد عقب میں تکیے رکھے بڑے آرام سے بیٹھا تھا ۔فوراً سیدھا ہو بیٹھا۔

حجاب اکیلی نہیں تھی۔ ا�±س کے ساتھ فیروزہ بھی تھی۔ ان دونوں کے قریب آنے تک وہ تینوں ہی ماچے سے ا�±ٹھ کھڑے ہوئے۔

 "آئیے سرکار ! بیٹھیے” سلام کا جواب دیتے ہی مرشد نے ماچے کی پائنتی کی طرف ہٹتے ہوئے حجاب سے کہا۔ وہ جس کے تصور ہی سے دھڑکنوں میں تغیرات جنم لینے لگتے تھے وہ مجسم خود چل کر اس کے قریب، اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی تو دھڑکنوں کا تیز ہونا تو بنتا ہی تھا!

 "آپ…. سب کھڑے کیوں ہو گئے۔ میں تو بس…. آپ کی طبیعت کا پوچھنے چلی آئی تھی۔.” 

جیسے اندھیرا دھیرے سے گنگنایا ہو یا سبک رو ہوا ہولے سے ہنسی ہو۔ حجاب کی دھیمی آواز ماحول پر اسی طرح اثر انداز ہوئی تھی!

 "طبیعت تو الحمدللہ باغ باغ ہے۔ آج صبح سے بخار بھی نہیں ہے اور کوئی درد تکلیف بھی نہیں ہے۔ آپ…. آپ کھڑی کیوں ہیں؟ بیٹھیے نا !” مرشد نے خوش دلی سے کہا اور پھر فوراً خنجر سے مخاطب ہوا۔”خنجر! سلطان سے بول سرکار ہماری طرف آئی ہیں۔ کوئی چائے لسّی کا انتظام کرے, فٹافٹ۔ "

 ” ارے…. "وہ اس کے انداز پر متعجب ہوئی۔” یہ سب کیا کر رہے ہیں آپ؟ میں کون سا کہیں اور سے آئی ہوں۔. "

 ” آئی تو ہیں نا! چار قدم چل کر ہی سہی آپ کی خدمت تو خوش نصیبی والی بات ہے اور…. آپ بیٹھیں تو سہی۔ ” مرشد کا انداز اتنا ہلکا پھلکا اور خوش باش تھا کہ حجاب ج�±زبز سی ہو کر رہ گئی۔

 "وہ جن کا بچہ جعفر نہیں دکھ رہا کدھر ہے وہ؟ ". فیروزہ نے مرشد سے پوچھا تھا لیکن جواب دوسری طرف کھڑے خنجر نے دیا۔

 ” وہ ادھر…. باسط اور بابر کے ساتھ آموں کو مصالحہ لگوا رہا ہے۔ آو…. میں دکھاتا ہوں۔“

 "اس نے یہ کام کب سیکھ لیا؟”

 "ابھی کوشش کر رہا ہے۔ موٹے دماغ کا ہے کچھ , ٹیپو…. تم ذرا فیروزہ بی بی کو جعفر کا کام دکھاو�¿، میں سلطان سے مل کر آتا ہوں۔وہ تینوں ہی ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے ڈیرے کے سامنے والے حصے کی طرف چلے گئے اور وہاں صرف حجاب اور مرشد کھڑے رہ گئے۔ ایک ماچے کی سرہاندی کے قریب اور دوسرا پائنتی کے قریب….

٭ ٭ ٭                                                                                


اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے