طبیعیات، فیلڈ اور کوانٹم

طبیعیات دانوں نے ضد ذرات کے موجود ہونے کی پیش گوئی کیسے کی؟ فیلڈ کی كوانٹم شماریاتی تشریح کے مطابق کسی نقطہ پر اس کی شدت اس سے وابستہ کوانٹم ذرے کی اس جگہ موجود ہونے کے امکان کے برابر ہے۔ اس لئے کسی کوانٹم فیلڈ کے کسی ایک نقطہ پر اس سے منسلک ذرے کے پیدا یا فنا ہونے کا امکانی حکم لگایا جا سکتا ہے۔

میٹرکس میکانیات

1975ء میں ہیزن برگ (Heisenberg)۔نے میٹرکس میکانیات واضح کی۔ اسے ایٹموں کے کوانٹم میکانیاتی نظریئے میں اولین کام کی حیثیت حاصل ہے۔ ان ہی خطوط پر کام کرتے ہوئے اس نے دوسرے ماہرین کے ساتھ مل کر کوانٹم نظریے کی ایک نئی شکل پیش کی۔ اس نئی حرکیات کو ایٹموں کی خصوصیات کے حساب کتاب میں اس طرح استعمال کیا جا سکتا تھا۔ جیسے نیوٹنی حرکیات سیاروں کی حرکت کا حساب لگانے میں استعمال ہوتی ہے۔

اگرچہ کوانٹم میکانیات کی مدد سے لگایا گیا حساب کتاب تجربات کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ تھا لیکن اس کے علمبرداروں کو اس کی مادی تعبیر میں مشکل پیش آ رہی تھی۔
دراصل نیوٹنی میکانیات کا اطلاق بڑے اجسام مثلا مدار پر گھومتے سیاروں یا بلیئرڈ کی گیندوں پر کیا جاتا تھا۔ اس عمل کی ایک مکمل تخیلی تصویر ذہن میں لائی جا سکتی تھی۔ لیکن اس کی کوئی مثل کوانٹم میکانیات میں موجود نہیں تھی۔ ہماری روزمرہ زندگی کے بصری تجربوں کا اطلاق ایٹموں کی دنیا پر نہیں ہوتا۔

اصول عدم تیقن

کوانٹم کی دنیا کے باسی یعنی ایٹم، نیو کلیئس اور تحت ایٹمی ذرات (Sub-atomic Particles) ہماری روزمرہ کی دنیا سے نہ صرف جسامت میں بہت چھوٹے ہیں۔ بلکہ عمل کرنے والی قوتوں پر ان کا رد عمل کیفیتی (Qualitatively) اعتبار سے بھی بالکل مختلف ہے۔ ہیزن برگ اور نیل بوہر نے کوانٹم دنیا کی ہماری جانی پہچانی اصطلاحات میں تعبیر کرنے کی کوشش میں اصول عدم تیقین” (Uncertainity Principle) وضع کیا۔

اصول عدم تیقن کی رو سے کچھ طبیعی متغیرات (Variables) ایسے ہیں جن کی ایک ساتھ۔ یعنی ایک ہی وقت میں یکساں اور ایک ہی صحت کے ساتھ پیمائش نہیں کی جا سکتی۔ ان طبیعی متغیرات (Variables) کے جوڑوں میں سے ایک کسی ذرے کے مومینٹم اور محل (Position) کا جوڑا ہے۔ فرض کریں کہ ہم ایک الیکٹران کے محل اور مومینٹم (Momentum) کی پیمائش کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں پتہ چلے گا کہ ان متغیرات کی حاصل ہونے والی قیمتیں ایک خاص اوسط قیمت کے گرد کم یا زیادہ ہوتی چلی جاتی ہیں

۔
ہیزن برگ نے معلوم کیا کہ ان متغیرات میں سے کسی ایک کی پیمائش زیادہ صحت کے ساتھ کرنے کی کوشش دوسری مقدار کی پیمائشی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ فرض کریں کہ ہم محل (Position) زیادہ صحت کے ساتھ دریافت کرنے کی کوشش میں خوردبین کی تحلیلی طاقت (Resolution) بڑھا دیتے ہیں۔ ہم کچھ خاص حدود میں رہتے ہوۓ ہر ممکن چھوٹی طول موج کی روشنی استعمال کرتے ہیں.

اس طرح محل کی پیمائش میں عدم تیقن کم ہو جاتا ہے۔ لیکن طول موج چھوٹا ہونے سے روشنی کے کوانٹم کا اپنا مومینٹم بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ الیکٹران کے مومینٹم کو متاثر کرنے لگتا ہے۔ یوں ہماری محل کی زیادہ صحت سے پیمائش کرنے کی کوشش مومینٹم کی پیمائشی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ ہم کسی بھی ذرے کے یہ دونوں متغیرات ایک ساتھ مطلق صحت کے ساتھ دریافت نہیں کر سکتے۔

اسراع گر (Accelerators)

ہم اپنی عام دنیا میں اشیاء کو دیکھنے کے لئے ان پر سے فوٹون منتشر کرواتے ہیں۔ لیکن اس طریقے کی اپنی حدود ہیں۔ بہت چھوٹی مثلا کوانٹم ذرات جیسی اشیاء کی صورت میں یہ طریقہ کام نہیں دیتا۔ اس دنیا کو دریافت کرنے کے لئے طبیعیات دانوں نے کوانٹم ذرات کے تصادم کا طریقہ استعمال کیا۔ ان ذرات کی توانائی اور مومینٹم جتنا زیادہ ہو گا ان سے وابستہ طول موج اتنی ہی کم ہو گی۔ اور وہ اتنے ہی کم فاصلے کی تحلیل کر سکیں گے۔

اس لئے طبیعیات دان زیادہ سے زیادہ توانا ذرات حاصل کرنے کے لئے اسراع گر (Accelerators) بناتے رہے ہیں۔ جن کو بعد ازاں باہم کرلیا جاتا ہے۔ ان مشینوں کے باعث طبیعیات دانوں کو مادہ پر اپنی تحقیق ایٹم اور نیو کلیس سے بھی آگے ایسے ذرات تک بڑھانے کا موقع ملا جن سے مل کر نیو کلیس بنا ہے.

خیال رہے کہ ایک نیو کلیئس ایک ایٹم کی جسامت کا دس ہزارواں حصہ ہے۔ یہ پروٹان اور نیوٹران سے مل کر بنتا ہے۔ پروٹان پر مثبت چارج ہے۔ نیوٹران پر کوئی چارج نہیں لیکن یہ پروٹان سے کچھ زیادہ وزنی ہے۔ ان دونوں ذرات کے مابین طاقتور باہمی تعاملات ہوتے ہیں۔ جو انہیں نیوکلیس میں مضبوطی سے باندھے رکھتے ہیں۔ طبیعیات دانوں نے ذرات کو باہم ٹکرانے کا آغاز دراصل ان قوتوں کی تفہیم کے لئے شروع کیا تھا۔

انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ذرات کا ایک پورا عجائب گھر ان کا انتظار کر رہا ہے۔ پروٹان اور نیوٹران کے بعد طاقتور تعامل کا حامل ذرہ پائی میزان (Pimeson) دریافت ہوا۔ پچاس کی دہائی میں کے میزان، رہو میزان (Rho meson) اور دوسرے بہت سے ذرات دریافت ہوئے۔ ان سب ذرات کو مجموعی نام ہیڈران (Hadrons) دیا گیا۔ ان میں سے صرف نیوٹران اور پروٹان مستحکم ہیں۔ باقی ذرات وجود میں آنے کے فورا” بعد انحطاط کا شکار ہو کر زیادہ مستحکم ذرات کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔

بنیادی ذرات اور معیاری خاکہ

ساٹھ کی دہائی میں طبیعیات دانوں کو پتہ چلا کہ نیوٹران اور پروٹان بجائے خود بنیادی ذرات نہیں ہیں۔ بلکہ یہ زیادہ بنیادی ذرات کوارک (Quark) سے مل کر بنے ہیں۔ ان کوارک ذرات پر مشتمل پروٹان اور نیوٹران کا خاکہ مرے گل مان (Murry Gullmann) نے 1963ء میں پیش کیا۔ اس کی نہایت عمدہ تجربی تصدیق 1968ء میں سٹین فورڈ کے خطی اسراع گر (Linear Accelerator) پر کئے جانے والے تجربات سے ہوئی۔
ستر کی دہائی میں اہم نظری اور تجربی دریافتیں ہوئیں اور تحت ایٹمی ذرات کی ایک نئی دنیا سامنے آئی۔

اب مادے کے بنیادی تعمیری اجزاء کو ذرات کے تین بنیادی گروہوں کوارک، لیپٹون (Leptons) اور گلو آن (Gluons) میں بانٹ دیا گیا تھا۔ اصولی طور پردنیا میں موجود ہر قسم کا مادہ ان تین ذرات سے بنایا جا سکتا تھا۔ ان ذرات اور ان کے باہمی تعاملات کو بیان کرنے والے ریاضیاتی خاکہ (Mathematical Model) کو معیاری خاکہ کا نام دیا گیا۔ یعنی سائنس دان پہلے ایٹم سے آشنا ہوئے۔ اس کے بعد نیو کلیئس ان کی شناخت میں آیا جو ایٹم کی جسامت کا دس ہزارواں حصہ ہے۔ اس کے بعد ان ذرات کی باری آئی جن سے مل کر ایٹم بنا تھا۔

اضافی کوانٹم فیلڈ

یعنی ستر کی دہائی تک سائنسی تحقیق کے نتیجے میں طبیعیات ایٹم کے تحت نیوکلیائی (Sub-Nuclear) ذرات کی سطح تک مادے کے اندر اتر چکی تھی۔ اس معیاری خاکے کو ریاضیاتی طور پر بیان کرنے کے لئے ایک نئی ریاضیاتی زبان آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت اور کوانٹم نظریے کو ملا کر وضع کی گئی۔ اور اسے اضافی کوانٹم فیلڈ نظریہ (Relativistic Quantum Field Theory) کا نام دیا گیا۔

اس نئے نظریے کی رو سے تمام ذرات میدان (Field) کی قدریت (Quantization) کے مظہر تھے۔ فیلڈ کے اس جدید نظریے نے طبیعیات کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اس کے آنے سے یہ تصور ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا کہ فیلڈ اور ذره دو علیحدہ علیحدہ مقادیر ہیں۔ فیلڈ اپنی جگہ بنیادی فطری طبیعی مقدار ہیں۔ لیکن یہ اپنا اظہار ذرات کی شکل میں کرتی ہیں۔ ہم سب سے پہلے مقناطیسی اور برقی میدانوں سے آشنا ہوئے تھے۔

مقناطیسی میدان

مقناطیسی میدان نظر نہیں آتا لیکن لوہے کو کھینچنے جیسے اثرات کے باعث اپنا آپ محسوس کرواتا ہے۔
انیسویں صدی میں کلرک میکسویل (J. C. Maxwell) نے ثابت کیا کہ روشنی دراصل باہم متغیر اور باہم منحصر برقی مقناطیسی میدانوں پر مشتمل ہے۔ آئن سٹائن نے 1905ء میں ثابت کیا کہ برقی مقناطیسی لہروں کو سفر کرنے کے لئے ایتھر یا کسی اور واسطے کی ضرورت نہیں۔ اس طریقہ سے ہمیشہ کے لئے ثابت ہو گیا کہ بقول سٹیون وین برگ (Steven Weinberg) اصل حقیقت صرف میدانوں (Fields) کا سیٹ ہے۔ باقی ہر مقدار اور میدانوں کی کوانٹم حرکیات سے اخذ کی جا سکتی ہے۔

میدان کو مزید سادہ اجزاء میں تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سادہ ترین اشیاء میں برقی مقناطیسی کے علاوہ اور قسم کے میدان بھی موجود ہیں۔ ان میدانوں کے رویے ، تعاملات (Interactions) اور تبدیلیوں کو فیلڈ مساواتوں کی مدد سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ میدان ایسے ذرات سے منسلک ہیں جن کی کوئی کمیت نہیں۔ ان میدانوں میں برقی مقناطیسی اور تجاذبی میدان شامل ہیں۔ ان میدانوں کا اثر دور تک ہوتا ہے۔ کچھ میدان بھاری كوانٹم ذرات کے باہمی تعاملات سے وابستہ ہیں۔ ان کا دائرہ عمل بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ آج طبیعیات دان کونیات (Cosmology) میں مادے کی بنیادی ترتیب پر تحقیقات کے لئے فیلڈ کی زبان استعمال کرتے ہیں۔

فوٹون اور الیکٹران

طبیعیات دانوں نے کلاسیک فیلڈ نظریے پر کوانٹم طبیعیات کا اطلاق کیا۔ اور برقی مقناطیسی میدان سے وابستہ کوانٹم کو فوٹون کا نام دیا۔ یہ روشنی کا ایک ذرہ ہے۔ اس طرح ڈائرک فیلڈ (Dirac Field) سے وابستہ ذرہ کوانٹم الیکٹران ثابت ہو گیا۔ اس طرح فیلڈ اور ذرے کی دوئی (Dualism) ختم ہو گئی۔ کوانٹم نظریے کی مدد سے فیلڈ سے وابستہ کلاسیکی نظریات کی ازسر نو تعمیر کی گئی۔

کسی نقطے پر فیلڈ کی شدت (Intensity) کو اس نقطے پر فیلڈ سے وابستہ ذرے کے پاۓ جانے کا امکان قرار دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میدان کا دراصل کسی ذرے کی امکانی امواج (Waves Probability) ہونا ثابت ہو گیا۔ اگر کسی نقطے پر فیلڈ کی شدت زیادہ ہے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ یہاں وابستہ کوانٹم ذرے کے پاۓ جانے کا امکان زیادہ ہے۔

كوانٹم ذرات اور مادے کا رویہ

اب طبیعیات میں انفرادی وقوعوں (Events) کی اہمیت ختم ہو گئی اور ان پر شمارتی اصطلاحات میں بات کی جائے گی۔ اس نقطہ نظر کی روشنی میں اب دنیا باہم متعامل میدانوں کی کارگاہ تھی۔ جن کا اظہار كوانٹم ذرات کی صورت ہوتا تھا۔ جو ایک دوسرے کو متاثر کرتے ادھر سے ادھر اڑتے پھر رہے تھے۔ تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ اینٹی اور نیوکلیائی پیمانے پر مادے کا رویہ اس طریقہ سے نہایت صحت سے بیان ہو جاتا ہے۔

ضد ذرات (Anti Particles)

ضد ذرات (Anti Particles)
اضافی کوانٹم میکانیات (Relativistic Quantum Mechanics) کی اولین کامیابیوں میں سے ایک ضد ذرات کی دریافت تھی۔ یہ عام مادے کا عکس ہوتے ہیں۔ ان ذرات کی کمیت اور گھماؤ (Spin) عام مادے میں پاۓ جانے والے ذرات کا سا ہوتا ہے۔ مگر ان کا چارج الٹ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر الیکٹران کا ضد ذرہ پازیٹران ہے۔ اس کی کمیت الیکٹران جتنی ہے۔

اس پر برقی چارج بھی الیکٹران جتنا مگر مثبت ہے۔ جب دو ضد ذرات کو باہم قریب لایا جاتا ہے تو وہ فورا” فنا ہو کر توانائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس عمل میں اتنی ہی توانائی خارج ہوتی ہے جتنی خصوصی نظریہ اضافیت کے مطابق اتنی کمیت کے ذرات میں موجود ہونی چاہئے۔

طبیعیات دانوں نے ضد ذرات کے موجود ہونے کی پیش گوئی کیسے کی؟ فیلڈ کی كوانٹم شماریاتی تشریح کے مطابق کسی نقطہ پر اس کی شدت اس سے وابستہ کوانٹم ذرے کی اس جگہ موجود ہونے کے امکان کے برابر ہے اس لئے کسی کوانٹم فیلڈ کے کسی ایک نقطہ پر اس سے منسلک ذرے کے پیدا یا فنا ہونے کا امکانی حکم لگایا جا سکتا ہے۔

اگر کسی ایسے نقطہ پر متعلقہ ذرے کے پیدا یا فنا ہونے پر اضافی کوانٹم میکانیات کا اطلاق کیا جائے تو ثابت ہو جائےگا کہ کوئی ایک ذرہ پیدا ہونے کا امکان اس وقت ہو گا جب اس کا ضد ذرہ بھی اس کے ساتھ ہی پیدا ہو۔ یعنی کہ کسی ایسے میدان کے ایک نقطہ پر ذرات کے ایک جوڑے کا پیدا ہونا کوانٹم اور اضافیت کے نظریے کے ملاپ سے حاصل ہونے والا نتیجہ ہے۔

پازیٹران

اس حقیقت کا ادراک پہلی بار پال ڈائرک (Paul Dirac) نے کیا۔ اس کے حساب کی رو سے جوڑا ذرات کی پیدائش کے کسی وقوعہ میں ایک ذرہ الیکٹران اور دوسرا ذرہ مثبت چارج کا حامل پیدا ہونا چاہئے تھا۔ جس کی کمیت الیکٹران کے برابر ہونی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ مثبت چارج کا یہ ذرہ پروٹان نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ الیکٹران سے تقریبا اٹھارہ سو گنا وزنی ہے۔ ڈائرک نے اپنے اس ذرے کا نام پازیٹران (Positron) رکھا۔ یہ ذرہ 1932ء میں اینڈرسن (Anderson) نے کلاؤڈ چیمبر کی مدد سے کائناتی شعاعوں کے دوران شناخت کر لیا۔
ضد ذرات کی دریافت نے مادے کے معلوم نظریات کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا۔

اس سے قبل مادے کو مستقل سمجھا جاتا تھا۔ مالیکیول ایٹم اور بنیادی ذرات ایک دوسرے میں بدل سکتے تھے لیکن بنیادی طور پر مادہ مستقل تھا۔ لیکن فطرت میں مادے اور توانائی کی اس تقلیب نے طبیعیات میں فکری سطح پر انقلابی تبدیلیاں برپا کیں۔ مناسب توانائی مہیا ہو جانے پر مادی ذرات کے جوڑوں کی پیدائش نے واضح کر دیا کہ اونچی توانائی کے اسراع گروں اور زیادہ اہم طور پر بگ بینگ میں مادہ خالص توانائی سے ذراتی شکل میں آ سکتا ہے۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے