سید عبد الحمید عدم 10 دس اپریل، 1910ء کو گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے جس کا نام تلونڈی موسیٰ تھا۔
انہوں نے جن دنوں شاعری کا آغاز کیا ان دنوں اردو شاعری کے آسمان پر اختر شیرانی، جوش ملیح آبادی اور حفیظ جالندھری جیسے تاب ناک آفتاب جگمگا رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عدم نے جی بھر بھر کر شراب پی اور زیادہ تر رومانی شاعری کی اور بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی۔
ان کی شاعری میں ہلکا ہلکا سوز اور عشق و محبت کی دھیمی دھیمی آنچ ہے۔ ابلاغ و تغزل اور برجستگی کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں ایک ایسا بانکپن پایا جاتا ہے جو بس ان ہی کا خاصا ہے۔ انہیں شہنشاہِ غزل بھی کہا جاتا ہے۔
ان کی وفات 10 مارچ 1981ء میں ہوئی اور انہیں قبرستان ڈرائی پورٹ مغل پورہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔
ان کے درجنوں شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جن میں سے
- خرابات
- نگار خانہ
- چارہ درد
- رم آہو
- دہانِ زخم، وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
خوش خیالیاں (نظم)
حدیثِ مذہب و پروردگار رہنے دے
یہ اعتقاد کے رنگین خار رہنے دے
مجھے جہانِ حقائق کی کوئی بات سُنا
جو تیری آنکھ نے دیکھے وہ واقعات سُنا
سنا کہ کیسے سمن پوش کوٹھیوں کے مکیں
حسین و دلکش و مسرور کوٹھیوں کے مکیں
سیاہ راتوں میں کارِ ثواب کرتے ہیں
فلاح و خیر کے گُر انتخاب کرتے ہیں
تمام مجلسیںِ بر طرز ِ جیش ہوتی ہیں
ملازمائیں بھی مصروفِ عیش ہوتی ہیں
سرود و رقص کی جھنکار گرم رہتی ہے
مفرخات کی مہکار گرم رہتی ہے
یہ طبقہ رحمتِ حق کا بہت چہیتا ہے
خُدا شناسی کا پورا ثبوت دیتا ہے
سنا کہ کیسے پُر انوار خانقاہوں میں
ضمیرِ زُہد ہے لتھڑا ہوا گناہوں میں
جہاں حسین مرادوں کے پھول کھلتے ہیں
کنواریوں کو رفیق حیات ملتے ہیں
لباسِ نور پہن کر شراب چلتی ہے
بزیرِ خرقہء خیر و ثواب چلتی ہے
جہاں سوال کو چاندی کے پر لگاتی ہے
تو احتیاج سنہری جواب پاتی ہے
سنا کہ کیسے چمکتی ہوئی ملوں کا نظام
غریب کارگروں کے لہو سے ہے گلفام
کرہتے ہوئے مزدور جنکے پرزے ہیں
ضمیر دہر کے ناسور جنکے پرزے ہیں
وہ جن کا خون _مشینوں کا تیل بنتا ہے
تو سیم و زر کا سنہری غبار چھنتا ہے
مگر وہ نانِ جویں کے لئے بھی حیراں ہیں
کہ اُن کے جسم خس و خار سے بھی ارزاں ہیں
کہے گا تُو کہ خُدا ظلم کا رفیق نہیں
نہیں نہیں مرا دل استقدر شقیق نہیں
عظیم چیزوں کے رتبے کو جانتا ہوں میں
خُدا و دین کو شدت سے مانتا ہوں میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سید عبدالحمید عدم
شیخ صاحب خُدا خُدا کیجیے
شیخ صاحب خُدا خُدا کیجیے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ حَسیں عورتیں ، یہ تصّویریں
رحمتِ ایزدی کی تَفسیریں
جن کی زُلفوں میں ، آبِ حیواں ھے
جن کو تکنا ، ثوابِ قرآں ھے
جن کی باتوں سے ، پُھول جَھڑتے ھیں
زندگی کے اُصُول ، جَھڑتے ھیں
یہ جہنم میں جانے والی ھیں؟؟
آپ کی مَنطقیں نِرالی ھیں!!
شیخ صاحب ! خُدا خُدا کیجیے
یہ مُصّور ، یہ خُوشنما شاعر
زندگی کے ، شعُور کے ماھر
جو ستاروں کو ، نُور دیتے ھیں
طُور کو ، برقِ طُور دیتے ھیں
جِن کو سُورج ، سَلام کرتا ھے
جِن سے یَزداں ، کلام کرتا ھے
یہ جہنم میں ، جانے والے ھیں؟؟
آپ کے ، فلسفے نِرالے ھیں!!
شیخ صاحب خُدا خُدا کیجیے
یہ مُریدوں کے ، نقد نذرانے
سیم کے ڈھیر، زَر کے پیمانے
حِرص کا کاروبارِ یاقُوتی
ہاؤ ھُو کا خروشِ لاھُوتی
آنکھ ھر حُور پر مَٹکتی ھُوئی
ریشِ اَقدس سے ، مئے ٹپکتی ھُوئی
خُلد کے ، کیا یہی وَسیلے ھیں ؟؟
آپ کے نین ، کیا نکیلے ھیں!!
شیخ صاحب ! خُدا خُدا کیجیے
شیخ صاحب ! خُدا خُدا کیجیے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کلام: شہنشاہِ غزل سید عبدالحمّید عدم
کتاب "دَھانِ زَخم” سے اِنتخاب