مرشد (عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر16

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
murshid best urdu novel by sahir jameel syed, ishq
Murshid Urdu Novel

دھماکا ہوا تھا اقبال اور دروازے کے تصادم سے چیخ اور کراہ کی آواز بھی اسی کی تھی۔کمرے میں موجود سبھی افراد کے ساتھ ساتھ حسن آرا نے بھی دیکھا ،اقبال کے چہرے پر شدید تکلیف کے آثار تھے۔پیشانی سے خون بہہ رہا تھا۔اسے ایک دھکا مزید دیا گیا اور وہ ہراساں سا لڑکھڑاتا ہوا کمرے کے اندر آگیا۔اس کے عقب میں اندر آنے والے کرخت صورت دیوہیکل کو حسن آرا نے فوراً ہی پہچان لیا۔

یہ چست سیاہ لباس والا شخص میر ظفر اللہ کے ان ہی کارندوں میں سے ایک تھا جو چند روز پہلے اسے اور نزاہت بیگم کو رات گئے زبردستی یہاں سے ہانک کر میر ظفر اللہ کے پاس لے گئے تھے۔اس کے پیچھے دروازے سے اندر داخل ہونے والے شخص پر نظر پڑتے ہی حسن آرا کا دل دھک سے رہ گیا۔اندیشوں اور وسوسوں نے فوراً سے پیشتر اس کے نازک دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس کے سامنے میر ارشد اللہ کے بڑے بھائی کا پرسکوت چہرا تھا۔آغا جی کا چہرہ کسی سنگلاخ پتھر کی مثال ، کسی سرد سل کا حوالہایک غیر مانوس ، اعصاب شکن کیفیت کے زیرِ اثر اسے اپنے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑتے ہوئے محسوس ہوئے۔

”آغا جی“ میر ارشد اللہ کے ساتھ ساتھ خود حسن آرا اور دیگر افراد بھی بے اختیار گبھرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔” یہ کیا تماشا کر رہے ہیں آپ ؟“

میر صاحب کی گمبھیر آواز میں غیر محسوس سی لرزش تھی۔شاید ان کے وجدان نے جان لیا تھا کہ آغاجی کی اس آمد کے پیچھے ضرور کوئی انہونی یا ہولناک وجہ موجود ہے۔خود آغا جی کا ستا ہوا پتھریلا چہرہ بھی کچھ ایسی ہی کہانی سنا رہا تھا۔انہوں نے آگے بڑھ کر میر صاحب کا بازو دبوچ لیا۔

” میر ارشد اللہ ! ہمیں آپ سے کچھ کہنا ہے۔ آئیے ہمارے ساتھ۔“کمرے میں ان کی آواز گونجی اور وہ میر صاحب کو تقریباً کھینچنے والے انداز میں لے کر دروازے کی طرف بڑھ گئے۔

” اس حرکت کا کیا مطلب ہے ، یہ کیا طریقہ ہے ؟“

” بتاتے ہیں آئیے آپ“آغا جی کے لب و لہجے میں مہیب سرسراہٹ تھی۔میر صاحب ان کے ساتھ کھینچتے چلے گئے۔وہ کمرے سے نکل گئے تو حسن آرا نے خالی خالی نظروں سے نزہت بیگم کی طرف دیکھا۔اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھی۔ یقیناً اسے اپنی عافیت خطرے میں دکھائی دینے لگی تھی۔وہاں موجود دیگر سبھی چہروں پر بھی ایک پریشانی ، ایک بے چینی دکھائی دے رہی تھی۔قریشی صاحب اپنے برابر میں موجود فربہ اندام شخص کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے آغا جی اور میر صاحب کے پیچھے ہی کمرے سے نکل گئے۔

حسن آرا کی سماعت میں میر صاحب کے ان الفاظ کی بازگشت سی ابھری جو کچھ دیر پہلے انہوں نے اوپر والے کمرے میں بیٹھ کر کہے تھے۔

”کہیں کوئی مسلہ نہیں بنے گا۔آپ بالکل مطمئن رہیں۔ ہم مکمل بندوبست کر چکے ہیں۔اور سب کچھ طے کر کے آئے ہیں”

ایک کرب فوراً ہی سوال بن کر اس کے ذہن میں پھیل گیا۔

"اگر میر صاحب سب کچھ طے کر کے آئے تھے تو پھر اس وقت آغا جی کے یوں آنے کا کیا مطلب تھا "؟

اقبال سہما ہوا کمرے کے درمیان کھڑا تھا۔اس کی پیشانی سے بہنے والے خون نے اس کا چہرہ رنگین کر دیا تھا۔غالباً اس کے ایک بازو پر بھی چوٹ آئی تھی۔اس سے آگے دروازے کے قریب وہی سیاہ پوش گرانڈیل کھڑا تھا۔اقبال کو یہ چوٹیں یقیناً اسی نے پہنچائی تھیں۔اب وہ اپنی شعلہ بار نگاہوں سے حسن آرا کو گھور رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں حسن آرا کو اپنے لیے نفرت اور غصے کی آگ بھڑکتی ہوئی دکھائی دی۔ضرور کوئی ایسی بات تھی جس کی شدت کا اثر اس سیاہ پوش تک کی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا اور وہ بے دم سی ہو کر واپس صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔نزاہت بیگم اور عشرت فوراً اس کی طرف لپکی تھیں۔

” ارے ارے حسن آرا ! تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟ "نزاہت بیگم کی آواز کہیں دور سے گونجی تھی۔ پھر عشرت کی آواز ابھری۔

"اس کے تو ہاتھ پیر ٹھنڈے ہورہے ہیں ، رنگ بھی دیکھ کیسے لیموں ہو ئے جا رہا ہے "۔

” اے حسن آرا "

” اے پانی کا گلاس دے۔ جلدی سے۔ "

اسے اپنے اردگرد ہلچل سی محسوس ہوئی۔اس نے دیکھا کہ عشرت اور نزاہت بیگم اس کی ٹھنڈی پڑتی ہتھیلیوں کا مساج کر رہی ہیں۔ اقبال کا چہرہ اس کے سامنے تھا۔

” حسن آرا! ایسے دل نہ چھوڑ ہوش پکڑ ,سب سب کچھ ٹھیک ہے۔”نزاہت بیگم کو یوں لگا جیسے وہ اسے طفل تسلی دے رہی ہو۔ اس کا تو خود اپنا دل بری طرح ہول رہا تھا۔اس کے پردہ تصور پر میر ظفر اللہ کا غضب ناک چہرہ تھا اور سماعت میں ان کی قہر ناک آواز کی گونج !

"جس کھیل کی تم لوگوں نے شروعات کی ہے وہ نظر انداز کئے جانے والا نہیں ہے آئندہ اپنی چوکھٹ کا دھیان رکھنا ورنہ بلڈوزر پھر جائے گا اور تم دونوں ہمیشہ کے لئے لاپتا ہوجاو�¿ گی ….ہم اپنے ہاتھوں سے آپ کو گولی تو مار دیں گے لیکن اپنے شجرہ نسب میں کسی طوائف یا طوائف سے چلنے والی نسل کا ذکر آنا برداشت نہیں کریں گے۔“

عشرت نے پانی کا گلاس حسن آرا کے ہونٹوں سے لگایا تو اس نے چھوٹے چھوٹے دو گھونٹ بھرے۔

"تھوڑا اور پی لے۔” 

 ” نہیں , بس۔ "

"کچھ نہیں ہوتا حسنہ ! حوصلہ رکھ۔”نزہت بیگم کہہ تو حسن آرا سے رہی تھی لیکن در حقیقت وہ خود ہی کو بہلا رہی تھی۔حسن آرا کھوئے کھوئے سے انداز میں بولی۔

"ہو چکا اماں ! کچھ ہو چکا ہے۔ ضرور کچھ نہ کچھ ایسا ہوا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔”

” تو خود کو سنبھال بس۔ ہاتھ پیر چھوڑ بیٹھنے سے کیا حاصل ہوگامیں دیکھتی ہوں کیا رپھڑ ہے۔ "وہ پریشان کن انداز میں کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔اس نے استاد مبارک اور نورے کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی۔پتا نہیں وہ کیا ارادہ رکھتی تھی۔ باہر کس طرف کو جانا چاہتی تھی۔ جو بھی تھا۔وہ اس پر عمل نہیں کر سکی۔ دروازے کے قریب کھڑا سیاہ پوش فوراً دروازے کے سامنے جم کر کھڑا ہو گیا۔

 ”پیچھے ہٹ کر اپنی جگہ پر واپس بیٹھ جاو�¿ ورنہ اٹھا کر دیوار پر دے ماروں گا۔“اس کی غضب ناک غراہٹ پر نزہت بیگم ٹھٹک کر رک گئی۔اس گرانڈیل کی انگارہ آنکھیں مزید دہک اٹھی تھیں

” بچی کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ تمہارے سامنے ہی ہے۔ کسی ڈاکٹر حکیم کو بلانا ہے۔”

”بچی ” اس نے ایک نفرت بھری نظر حسن آرا پر ڈالی۔”پورا زمانہ کھا جائے اور پھر بھی بچی ہی رہے گی یہ ڈائن پیچھے ہٹ ، نہیں موت پڑتی تیری اس بچی کو۔”

نزہت بیگم ہونٹ بھینچ کر رہ گئی۔محض چند لمحے مزید گزرے ہوں گے کہ میر ارشد اللہ اندر داخل ہوئے ،ان کے چہرے کے تاثرات چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ کسی شدید پریشانی کا شکار ہیں۔کوئی پہاڑ جیسی مصیبت آن پڑی ہے۔ سب کچھ بدل گیا ہے۔کمرے میں موجود افراد

سرگوشیاں کرنا بھول کر ان کی طرف متوجہ ہوئے ، حسن آرا عشرت کے کندھے کا سہارا لیتے ہوئے بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئی۔میر صاحب کے چہرے نے اس کی آنکھوں کو جیسے پتھرادیا تھا۔وہ یک ٹک میر صاحب کی طرف دیکھے گئی۔نزہت بیگم نے میر صاحب سے کچھ کہا لیکن حسن آرا کے منجمد ہوتے حواس اس کی بات سمجھ نہیں سکے۔میر صاحب بھی اس کی طرف دھیان دیے بغیر سیدھے حسن آرا کے سامنے آکھڑے ہوئے۔

چند لمحوں کے لیے کمرے کی فضا میں جیسے ہو کا عالم اتر آیا۔سب کی توجہ میر صاحب پر مرکوز تھی۔یقیناً سبھی یہ جاننے کے لئے بے قرار تھے کہ ہوا کیا ہے ؟کیا مسئلہ ، معاملہ ہے ؟ان سب میں حسن آرا کی ذہنی و جذباتی حالت زیادہ دگرگوں تھی۔اسے تو جیسے یہ اندیشہ تھا کہ ابھی موت کی خبر مل جائے گی اور اس کی چھٹی حس جیسے پہلے ہی اسے اس دل دوز خبر کے حوالے سے آگاہ کر چکی تھی۔سینے میں دھڑکنیں ڈوبنے لگی تھیں۔دم گھٹنے لگا تھا۔

آخر کار میر صاحب کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی اور ان کی گمبھیر آواز نے اس سکوت کو توڑا۔

"حسن آرا ! ہمیں ازحد افسوس ہے کہ ہمیں ابھی اور اسی وقت واپس جانا پڑرہا ہے۔صورت حال ہی ایسی ہوگئی ہے۔ اسے آپ ہماری ناگزیر مجبوری سمجھ لیں…. لیکن ہم جلد دوبارہ واپس آئیں گے۔اس بات کا ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں۔”

وہ مزید بھی کچھ کہ رہے تھے مگر حسن آرا کی سماعت میں ان کے ابتدائی چند الفاظ ہی کھب کر رہ گئے تھے۔

"ازحد افسوسابھیاسی وقت واپس“

یہی اندیشہ یہی خوف تو مسلسل کسی جونک کی طرح اس کے یقین و اطمینان کو چاٹتا آ رہا تھا۔وہ بھیانک دھڑکا جو ہر پل اس کے دل کو لگا رہا تھا اب عین آخری لمحات میں جان لیوا حقیقت کا روپ دھار کر اس کے سامنے آگیا تھا۔اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑنے لگے۔عشرت جہاں اور میر صاحب اسے فوراً تھام نہ لیتے تو یقیناً وہ دھڑام سے گر جاتی۔دوبارہ ہوش میں آنے پر اس نے خود کو کسی کلینک کے بستر پر پایا۔اس کے دائیں بائیں صرف نزہت بیگم اور میر صاحب ہی موجود تھے۔ 

”خوش ہو جا حسن آر!“نزہت بیگم ایک نظر میر صاحب کے متفکر اور پریشان چہرے پر ڈال کر کاٹ دار لہجے میں بولی۔

”خدا کے کرم اور میر صاحب کی مہربانی سے تیری گود ہری ہوگئی ہے پیٹ سے ہے تو ماں بنے گی اب ۔میر صاحب سے تیرا رشتہ تو اب تیرے بھاگوں کا لکھا بن گیا ۔“نزاہت بیگم کا نکتہ نظر کچھ بھی رہا ہو ،حسن آرا کے لیے تو یہ نوید آب حیات جیسی تھی۔نزاہت بیگم کے الفاظ ٹھنڈک بن کر اس کے رگ و پے میں دوڑ گئے تھے۔اس کی خوبصورت آنکھیں بے اختیار میر صاحب کی طرف اٹھ گئیں۔وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولے۔

”آج کا دن ہماری زندگی کا عجیب دن ہےآج ہمیں ایک ساتھ دو ایسی خبریں ملی ہیں جنہوں نے ہمارے اندر باہر کی دونوں دنیاﺅں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔“

انہوں نے ایک ذرا توقف کیا۔

”خدا تعالیٰ نے آپ کو ہمارے وارث ہماری نسل کا امین ٹھہرایا ہے۔یہ ایسا موقع نہیں کہ ہم آپ کو یوں چھوڑ کر چلے جائیں لیکن مجبوری یہ ہے کہ دوسری طرف ہمارے بابا سائیں کی میت ہے وہ ایک حادثے کی نذر ہوگئے ہیں, لہذا فی الوقت ہمارا جانا ناگزیر ہے۔”

حسن آرا کچھ نہیں بول پائی ، کسی انہونی کا اندازہ تو اسے پہلے ہی سے تھا۔اب میر صاحب نے اس کی نوعیت بھی بتا دی تھی۔وہ مزید بولے۔

"ہم دونوں ایک دوسرے کو قبول کرچکے ہیں۔ خدا نیتوں کو جاننے والا ہے۔اس نے بھی ہمیںایک اٹوٹ رشتے میں باندھ دیا ہے

جو شرعی اور رسمی کاروائی ہے، مناسب اور درست وقت پر وہ بھی مکمل کر لیں گے۔فی الحال کچھ دن آپ ہمارا انتظار کریں، پھر ہم آکر آپ کو لے

جائیں گے۔”وہ نزہت بیگم کی طرف متوجہ ہوئے۔ ” ہمارے درمیان جو کچھ طے پایا تھا وہ ہم پورا کر چکے ہیں۔ حسن آرا اب آپ کے پاس ہماری امانت ہیں۔آپ چند دن انہیں ،اپنا مہمان سمجھیں۔ ہم کچھ روز بعد آکر اپنی امانت لے جائیں گے۔”

”مجھے کوئی اعتراض نہیں میر صاحب !آپ بھلے سے اسے ابھی ساتھ لے جائیں ! یہ اب آپ ہی کی ہے۔ "

”ابھی تو ہم یہاں سے سیدھے اپنے آبائی علاقے کی طرف جائیں گے۔ کچھ روز تک تو ایک ذرا فرصت نہیں ہوگی۔بہرحال ہم جلد از جلد آنے کی کوشش کریں گے۔”

"بابا سائیں کو کیا ہوا ہے ؟”حسن آرا ایک ذرا پیچھے کو سرک کر اٹھ بیٹھی۔ وہ میر ظفر اللہ کی اس اچانک موت کے حوالے سے مشکوک تھی۔

اس کے ذہن میں میر ظفر اللہ کے وہ جملے گونج اٹھے تھے جو انہوں نے انتہائی غیظ و غضب کے عالم میں میر ارشد اللہ سے کہے تھے۔

” ایک طوائف کا عشق اس درجہ آپ کے دماغ پر سوار ہوچکا ہے کہ آپ یہاں اپنے باپ ہی کے فیصلے کیخلاف کھڑے ہیںتمیز و تہذیب اور اپنی خاندانی اقدار کو کس موری میں بہا دیا ہے آپ نے لیکن ہم آپ کو بتا دیں. میر ظفر اللہ کے جیتے جی تو ایسا کچھ نہیں ہوگا جیسا آپ چاہ رہے ہیں اور اگر ایسا کچھ ہوا تو یاد رکھیے گا کہ ایک لاش تو ضرور گرے گی چاہے وہ لاش آپ کی ہو یا ہماری۔”

"ملتان کے قریب ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہے۔”

حسن آرا نے دیکھا ،میر صاحب کی آنکھوں میں ایک سایہ سا لہرا گیا تھا۔شاید حقیقت کچھ اور تھی۔ اس کے دل پر یکایک ایک بوجھ سا آپڑا۔ اسے انتہائی شدت سے محسوس ہوا کہ کہیں نہ کہیں میر ظفر اللہ کی اس اچانک اور ناگہانی موت کے پیچھے اصل وجہ اس ہی کی ذات رہی ہے۔ وہی اس حادثے کی وجہ بنی ہے۔

"آخر وہی ہوا جس کا ہم کو ڈر تھا۔ "وہ بولی تو اس کی نظریں کہیں خلا میں ٹکی تھیں۔

"نہیں ،اس حادثے کا آپ کے ڈر سے قطی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بس ایک حادثہ ہے۔”

"ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔”

” قضائے الٰہی صرف خدا کی چاہت سے مشروط ہوتی ہے۔ کسی کے چاہنے نہ چاہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ بے وجہ اپنے ذہن پر بوجھ مت ڈالیں۔ ” میر صاحب نے کہہ تو دیا تھا لیکن حسن آرا اپنے دل کا کیا کرتی۔آئینہءاطمینان پر لکیر آپڑی تھی۔ قدرت نے یہ کیسی دو خبریں اس کی جھولی میں ڈالیں تھیں۔ایک طرف زندگی کی ایک ننھی سی کونپل نے ابھی نمو پکڑی ہی تھی اور دوسری طرف ایک تناور درخت ڈھے گیا تھا ایک معصوم جان کی خبر کے ساتھ ہی اس کے دادا کی ناگہانی موت کی خبر آجڑی تھی۔

"قریشی صاحب باہر موجود ہیں۔ وہ آپ لوگوں کو واپس پہنچا دیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ صورت حال کو سمجھ رہی ہیں۔”

حسن آرا نے نظروں کا رخ بدل کر ان کی طرف دیکھا۔ وہ پریشان اور مضطرب تھے۔

"ہم بالکل سمجھ رہے ہیں۔ بس ہمارے اندر کی حالت اس وقت بہت عجیب ہو رہی ہے۔ دراصل ہم یہ نہیں سمجھ پارہے کہ ہمیں کیا کہنا چاہیے ، کیا نہیںآپ ہماری طرف سے پوری طرح بے فکر ہو کر جائیں۔ آپ کے گھر بار والوں کو آپ کا شدت سے انتظار ہوگاان سب کو اس وقت آپ کی ضرورت ہے۔ آپ جائیں ہم دعا کریں گے اورآپ کا انتظار بھی۔”

"ٹھیک ہے پھر ہم روانہ ہوتے ہیں۔ آپ اپنا بہت خیال رکھئے گا۔ "

میر صاحب اس کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے اٹھ کر کھڑے ہوئے تو نزہت بیگم جو خاموش بیٹھی ٹکر ٹکر ان دونوں کی شکلیں دیکھ رہی تھی بول پڑی۔ 

” میر صاحب ! ہمیں کب تک آپ کا انتظار کرنا پڑے گا ؟ میرا مطلب ہے کہیں آنے والے دنوں میں آغا جی یا چودھری اکبر ہم لوگوں کو پریشان کرنے آگیا تواب تو حسن آرا کی کوکھ میں آپ کی نشانی بھی ہے۔ لڑکا لڑکی جو بھی ہو بڑا امتحان بن سکتا ہے ہمارے لیے!“

اس کے لہجے میں مکارانہ اتار چڑھاو�¿ تھا۔ وہ میر صاحب کو کچھ جتلا رہی تھی۔میر صاحب نے گہری سنجیدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ 

"کوئی امتحان نہیں بنے گا۔کچھ دن کی بات ہے اور اس دوران قریشی صاحب آپ لوگوں کی خیر خبر رکھیں گے۔”

اس کے بعد وہ حسن آرا سے چند رسمی کلمات کہہ کر وہاں سے چلے گئے۔

*****

یہ اس سے تین دن بعد کا واقعہ ہے۔ رات کا وقت تھا۔ محفل شروع ہوئے کچھ ہی دیر گزری تھی۔حسن آرا اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی کہ نزہت بیگم اندر داخل ہوئی۔ وہ قدرے گھبرائی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔

” کیا بات ہے اماں ؟” حسن آرا آہستہ سے اٹھ بیٹھی۔” پریشان لگ رہی ہو۔“

”وہ بھیڑیے کا بچہ آیا بیٹھا ہے۔ چودھری اکبر مسلسل شراب پی رہا ہے۔مجھے اس کے تیور ٹھیک دکھائی نہیں دیتے۔“وہ سخت مضطرب تھی۔ حسن آرا بھی چوہدری اکبر کے ذکر پر چونک پڑی۔

”اس خبیث کو کورم میں بیٹھنے کیوں دیا تم نے۔“

”روک بھی کیسے سکتی ہوں۔ “ نزاہت بیگم اس کے برابر ہی پلنگ ہر ٹک گئی۔” میر صاحب نے جو فون نمبر دیا تھا ، کتنی ہی بار وہ گھما چکی ہوں، کوئی اٹھاتا ہی نہیں ہے۔ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں ؟ پتا نہیں کیا بنے گا۔ تیرے میر صاحب کی وجہ سے تو جینا حرام ہو کر رہ گیا ہے۔“

حسن آرا خاموش رہی۔ وہ بحث میں نہیں پڑنا چاہتی تھی۔ اس کے ذہن کو تو چوہدری اکبر کی آمد کچوکے لگانے لگی تھی۔جس روز میر صاحب نے اسے گرفتار کروایا تھا اس دن کے بعد سے وہ مسلسل غائب رہا تھا۔میر صاحب نے حسن آرا کو اطمینان دلایا تھا کہ وہ اب دوبار کبھی اس کوٹھے کی سیڑھیوں پر پاو�¿ں نہیں رکھے گا لیکن آج پھر وہ اچانک ہی آن پہنچا تھا۔حسن آرا کا دل کہہ رہا تھا کہ چودھری اکبر کی یہ آمد خالی ازعلت نہیں۔ وہ ضرور کسی انتہائی ارداے سے آیا ہے۔نزاہت بیگم چند لمحے اس کے برابر بیٹھی اضطراری انداز میں اپنا نچلا ہونٹ دانتوں سے چباتی رہی پھر جیسے اسے اچانک یاد آیا۔

"ملک منصور خان۔ ہاں! ، میں ملک صاحب کو فون کرتی ہوں۔ وہ یقیناً کچھ نہ کچھ کریں گے۔ "وہ جس طرح اچانک آئی تھی اسی طرح اٹھ کر تیزی سے واپس چلی گئی۔

حسن آرا کی طبیعت شام ہی سے کچھ بوجھل بوجھل سی تھی سو وہ دوبارہ لیٹ گئی۔نکاح کی رسم ادھوری رہ جانے کے باعث وہ گزشتہ تین روز سے ایک عجیب سی مایوسی اور اداسی کا شکار تھی۔ایسے وقت میں میر ظفر اللہ کی پراسرار موت نے ایک تشویش انگیز فکر بھی پیدا کر دی تھی۔ میر صاحب نے تو کہہ دیا تھا کہ ملتان کے قریب انہیں کوئی حادثہ پیش آیا ہے لیکن یہ خیال بار بار اسے مضطرب کر دیتا تھا کہ اگر کسی بھی لحاظ سے اس موت کی وجہ اس کی ذات

بنی ہے تو پھر نجانے ابھی میر صاحب کی زندگی ، ان کے گھر بار میں مزید کیا کیا اور کیسی کیسی خرابیاں پیدا ہوں گی۔اس سارے ذہنی و جذباتی جنجال میں اگر کوئی تسلی بخش احساس تھا تو وہ اس ننھی جان کا خیال تھا جو اس کے وجود کے نہاں خانوں میں اسی کے وجود سے وجود پانے لگی تھی۔اس کے اور میر صاحب کے درمیان میلوں کا فاصلہ تھا لیکن اسے یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے زماں و مکاں کے یہ فاصلے بے معنی ہو کررہ گئے ہیں۔اس کے نزدیک تو جیسے میر صاحب سمٹ کر اس کے جسم و جاں میں سرائیت کر چکے تھے۔اس کے جسم و جاں کا حصہ بن گئے تھے۔اس کے لیے یہ ایک انمول اور ناقابلِ بیان احساس تھا اب رات کے اس پہر اچانک چودھری اکبر کی آمد کی خبر نے اس احساس کو فی الحال پس پشت دھکیل دیا تھا اور کی جگہ تشویش انگیز پریشانی نے لے لی تھی۔رات دو بجے کے بعد جب محفل برخاست کر دی گئی اور سب مہمان رخصت ہوگئے تب حسن آرا کو بلاوا آگیا۔افتاں و خیزاں نزاہت بیگم خود آئی تھی۔

"چل حسن آرا ! چودھری تجھ ہی سے ملنے آیا ہے ۔“وہ خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"وہ جو بھی بکواس کرے خاموشی سے سن لینا۔ کوئی سخت یا کڑوا جواب نہیں دینا….سمجھ رہی ہو نہ میری بات۔”

"تمہارے ملک منصور نے کیا جواب دیا ہے ؟”

"کچھ نہیں ، بات ہی نہیں ہوسکی، اس کے کسی ملازم نے بتایا کہ ملک اپنے کچھ مہمانوں کو سیر کرانے کشمیر لے کر گیا ہوا ہے۔”

وہ دونوں نیچے ہال میں چلی آئیں۔چودھری اکبر اپنے پورے کروفر کے ساتھ وہاں موجود تھا۔کمر کے پیچھے بھی گاو�¿ تکیہ تھا اور دونوں بغلوں میں بھی ، اس نے اپنی بائیں ٹانگ بھی ایک گاو�¿ تکیہ پر کھی ہوئی تھی۔اس کے علاو�¿ہ وہاں صرف دو رائفل برادر موجود تھے۔

حسن آرا کے پہنچتے ہی چودھری کمال نرمی اور خوش اخلاقی سے بولا۔

"آئیے حسن آرا جی ! آئیے سنا ہے دشمنوں کی طبیعت کچھ خراب شراب ہے۔ کیا ہو گیا ؟ "

نزاہت بیگم نے حسن آرا کو چودھری کے سامنے بیٹھا دیا اور خود بھی اس کے برابر میں ہی بیٹھ گئی۔حسن آرا کی جگہ چودھری کو جواب بھی اسی نے دیا۔

"کسی کسی وقت بخار ہو جاتا ہے۔ آج بھی شام سے کچھ حرارت سی ہے۔ "چودھری نے اپنے سامنے موجود طشت ، نزاہت بیگم کی طرف سرکا دیا جس میں شراب نوشی کے لوازمات موجود تھے۔

"حرارت ؟” اس نے اپنی خمار آلود سرخ آنکھوں سے برپور انداز میں حسن آرا کے وجود کو ٹٹولا۔” حرارت تو اس عمر کا تقاضا ہے۔ ضروری تو نہیں بخار ہو۔جوانی کی اپنی ایک حرارت ، اپنی گرمی ہوتی ہے۔ وہی ہوگی۔ کیوں حسن آرا جی ؟ "

"کہیے چودھری صاحب ! مجھ کسبی کو کیسے یاد فرمایا آپ نے۔ وہ اس کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے سنجیدگی سے متفسر ہوئی۔”

"آپ کو ہم بھولے ہی کب تھے جو یاد فرمانے لگے۔ بس مصروف تھے تھوڑا کچھ گھوڑے گدھے سرکشی پر اترے ہوئے تھے۔ان کے مزاج درستکرانے میں چند دن لگ گئے لیکن آپ قسم لے لیں …. اس دوران ایک لمحے کو بھی آپ کا خیال ہمارے دل و دماغ سے نکلا نہیں۔ ہر ہر سانس کے ساتھ آپ کو یاد کرتے اور سوچتے رہے ہیں ہم۔ "

نزہت بیگم نے شراب کا گلاس اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔

"کیا حکم ہے میرے لیے ؟”اس نے دوبارہ سوال کیا۔ چودھری نے گلاس اٹھا کر شراب کا گھونٹ بھرا اور بولا۔

"اس روز ہم سے آپ دونوں کے ساتھ زیادتی ہو گئی۔ وہ تو رب کا شکر ہے کہ ارشد اللہ وقت پر آگئے ورنہ تو شاید ہم جزبات میں آپ دونوں کو زندہ جلا

دیتے اور پھر ساری زندگی افسوس ہی کرتے رہ جاتے۔”چودھری نے اپنے لہجے میں تاسف سمیٹتے ہوئے کہا لیکن اس کے لہجے کا تصنع نزاہت بیگم اور حسن آرا دونوں پر پوری طرح عیاں تھا۔چودھری مزید بول رہا تھا۔”لیکن وہ بات بھی تو ایسی ہی تھی نا! کوئی بھی سچی محبت کرنے والا اپنی محبوبہ ، اپنی معشوقہ کے متعلق ایسی بات سن کر پاگل ہوسکتا ہے اور پاگل پن میں اپنے ساتھ ساتھ کسی کی بھی جان لے سکتا ہے۔ہمیں بھی اس روز ایسے ہی پاگل پن کا دورہ پڑا تھا۔ بعد میں ہم مسلسل دکھ اور افسوس میں مبتلا رہے۔پھر ہم نے سوچا کہ محبت کرنے والوں میں ایسی چھوٹی موٹی بدمزگیاں اور جھگڑے تو ہو ہی جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے کئے کی تلافی کرنی چاہیے اور ہم چلے آئے۔”

حسن آرا کی جگہ نزاہت بیگم خوشامدی لہجے میں بولی۔

"آپ کو خدا نے دل بھی بڑا دیا ہے چودھری صاحب ! ہم تو کمزور اور مجبور لوگ ہیں۔ ہمارا کسی پر کوئی زور نہیں۔ آپ یقین کریں کہ ہمارے نزدیک آپ کی اہمیت ارشد اللہ سے کسی طور بھی کم نہیں لیکن ان کی حثیت اور اختیار و طاقت کے سامنے ہماری کوئی اوقات نہیں ، اسی لیے مجبور ہو گئے ہم سب۔”

"ہم اس بات کو سمجھتے ہیں بائی جی !اسی لیے ہم نے تم لوگوں کی وہ غلطی معاف کر دی ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم وہ سب بھول کر حسن آرا کو پہلے ہی کی طرح اپنے دل کے تختے پر بٹھائیں گے۔ویسے ہی اس کی قدر کریں گے۔ یہ دیکھیں ہم حسن آرا کے لیے ایک تحفہ بھی لے کر آئے ہیں۔ "

چودھری نے کھیسے میں ہاتھ ڈالا اور سونے کا ایک چمچماتا ہوا گلوبند نکال کر حسن آرا کے سامنے کر دیا۔ نزہت بیگم کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے غیر محسوس انداز میں حسن آرا کو کہنی کا ٹہوکا مارا کہ ہاتھ بڑھا کر یہ قیمتی تحفہ قبول کرلے لیکن وہ اپنی جگہ ساکت بیٹھی رہی۔

"لیں حسن آرا ! یہ ہم نے بطور خاص آپ کے لیے بنوایا ہے۔ قبول کریں۔”چودھری نے ہاتھ آگے بڑھایا تو حسن آرا اسی سنجیدگی سے گویا ہوئی۔

"نہیں چودھری صاحب ! ہم معذرت چاہتے ہیں۔ یہ ہم قبول نہیں کرسکتے۔ اب سے پہلے جو تحائف آپ اماں کی جھولی میں ڈال چکے ہیں وہ بھی بے شک اماں سے واپس لے لیں۔ہم کسی منافقانہ کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ آپ کو کسی غلط فہمی میں نہیں رکھیں گے۔ آپ اپنے دل و دماغ میں جو خیالات بھی رکھتے ہیں انہیں نکال دیجیے۔”اس کی بات پر چودھری کو دھچکا لگا۔نزاہت بیگم بھی کسمسا کر رہ گئی۔

"کیوں ؟“ چودھری کی کشادہ پیشانی پر بل نمودار ہوئے۔

"کیوں کہ ہم آپ کے لائق نہیں رہے۔”

"کوئی بات نہیں ہم وہ سب نظر انداز کرچکے ہیں .”

"مگر ہم نہیں کرسکتے۔ ہم اپنے تن کے ساتھ ساتھ اپنا من بھی میر صاحب کے نام کرچکے ہیں۔ ہماری زندگی میں اب کوئی اور نہیں آسکتا۔”

” میر صاحب تو آپ کی زندگی سے جاچکے ہیں۔” عجیب انداز تھا چودھری کا۔

"مجبوری تھی ان کی۔ وہ جلد واپس لوٹ آئیں گے۔”

 "اور اگر ہم کہیں کہ وہ اب کبھی واپس نہیں آئیں گے تو ؟ "

حسن آرا نے ایک جھٹکے سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں ایک شیطانی چمک۔

"آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ واپس آئیں گے۔ وہ ہم سے وعدہ کر کے گئے ہیں۔”

"وعدہ۔ “چودھری استہزا سے ہنسا۔”آپ نے تو کم عقل دیہاتی عورتوں والی بات کر دی۔ وعدہ کیا ہوتا ہے میر ارشد اللہ کا آپ سے دل بھر چکا

ہے۔ آپ کو وعدے کے پنگھوڑے پر بیٹھا کر نکل گیا خودآپ اب جھولتی رہو اور وعدوں پر بنے گانے ٹپے گاتی رہو ، لیکن ہم آپ کو بتا رہے ہیںآپ یہ بات اپنے دماغ میں بیٹھا لو کہ وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا کبھی بھی نہیں ، کہیں لکھ رکھو ہماری یہ بات۔”

نزہت بیگم نے کچھ بولنا چاہا لیکن چودھری نے ہاتھ اٹھا کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور شراب کا آدھا گلاس ایک ہی ایک سانس میں چڑھا گیا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ بولا تو اس کے مزاج کی ازلی نخوت اور زہر اس کے لب و لہجے میں پوری طرح موجود تھا۔

"تم لوگ کوٹھے کی پیداوار ہوطوائفیں ہو۔ یہ وعدوں کی باتیں ،وفاﺅں کے ارادے اور قسمیں تمہارے منہ سے یہ سب لطیفوں سے زیادہ نہیں لگتا۔ نہ یہ باتیں یہ حرکتیں تم لوگوں پر جچتی ہیں۔ میں چاہوں تو ابھی اور اس وقت تمہیں اپنی ملکیت بنا سکتا ہوں لیکن میں زبردستی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے تمہیں چند دن دیتا ہوںاچھی طرح سوچ بچار کرلو اور اگر بالفرض محال ارشد اللہ کی قسمت نے اس کے ساتھ دشمنی کی اور وہ ادھر آنکلا تو زندہ واپس نہیں جاسکے گا۔ اس کا خون یہاں کی گلیوں اور نالیوں میں بہتا دکھائی دے گا۔ اتنے فائر ماروں گا میں اسے کہ اس کے وارث اس کی لاش تک نہیں پہچان پائیں گے سمجھی تم ؟ "اس کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے نزاہت بیگم سے مخاطب ہوا۔

”بائی جی ! تم سمجھاو�¿ اس کھوتی کی بچی کو اس ارشد اللہ نے اسے کوئی تعویز وغیرہ پلوائے ہیں تو ان کا اتارا کراﺅابھی بھی وقت ہے۔ میں تم لوگوں کی زندگیاں بدل دوں گا لیکن اگر اس کا دماغ درست نہ ہوا تو تم سب کا بیڑا بھی میں ہی غرق کروں گا۔ٹھیک ہے نا ؟ ابھی فی الحال میں چلتا ہوں۔تم لوگوں کو سوچنے سمجھنے کے لیے چند دن کی ڈھیل ہے مہلت ہے۔”چودھری پلٹ کر واپس گیا اور حسن آرا ، نزاہت بیگم کی نصیحتوں کو نظر انداز کرتی ہوئی اوپر ، اپنے کمرے میں چلی آئی۔چودھری کی تمام باتوں کو اس نے فضول بکواس سے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔

اگلے تین دن روز مرہ معمول کے مطابق گزرے اور چوتھے روز سہ پہر کے وقت قریشی صاحب پہنچ گئے۔ ان کی آمد کسی خاص مقصد کے تحت نہیں تھی۔وہ بس میر صاحب کی ہدایت کے مطابق خیر خبر کی غرض سے پہنچے۔چند رسمی باتوں کے بعد حسن آرا نے انہیں چودھری اکبر کی آمد اور اس کی باتوں کے متعلق بتایا۔ قریشی صاحب اس سے تسلی تشفی کے کلمات کہہ کر واپس لوٹ گئے۔دوبارہ ان کی واپسی تقریباً ایک ہفتے بعد ہوئی۔ کچھ دیگر سازو سامان کے ساتھ اس بار وہ میر صاحب کا ایک خط بھی لائے تھے۔ان کے جانے کہ بعد حسن آرا نے اپنے کمرے میں پہنچ کر وہ لفافہ کھولا۔اندر سے ایک انتہائی نفیس اور خوش بو میں بسا ہوا کاغذ برآمد ہوا۔ حسن آرا کی بے تاب نظریں اس کاغذ پر موجود خوش خط تحریر پر پھسلنے لگیں۔

"حسن آرا! ہمارا محبت بھرا سلام قبول فرمائیں۔ 

اس وقت ہم اپنے آبائی گھر میں موجود ہیں۔کل قبلہ بابائیں کا دسواں ہے۔ ہمارا ارادہ تو یہی تھا کہ دسواں

کرکے ہم آپ کی طرف آئیں گے ، لیکن بابا سائیں کے بعد ہماری زمہ داریوں میں گونا گوں اضافہ ہوگیا ہے۔

گھر ، خاندان کے علاو�¿ہ بھی کچھ معاملات اور مسائل ہماری توجہ کے منتظر ہیں اور ہم خود کو ان سب کا پابند اور ذمہ دار جانتے ہیں۔ اسی باعث ہماری واپسی میں کچھ تاخیر ہوگی۔کم از کم بابا سائیں کے چہلم تک تو ہم یہاں سے

کسی صورت بھی ادھر ادھر نہیں ہوسکتے ، البتہ چہلم کے فوراً بعد ہم سیدھا آپ کے پاس پہنچیں گے۔ 

قریشی صاحب کی زبانی ہمیں چودھری اکبر علی کے متعلق معلوم ہوا۔ وہ ایک بالکل جاہل اور بے و قوف آدمی ہے۔

اس کی کسی بھی بات کو ذہن و دل میں جگہ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ کسی کی بھی بات پر کان مت دھریے گا۔ 

ہمارا تعلق ،ہمارا رشتہ ختم ہو جانے کی حدود سے بہت آگے بڑھ چکا۔ آپ کے بطن میں ہماری نشانی ، ہماری امانت 

محفوظ ہے۔ اس باعث ہمارا آپ سے دہرا رشتہ بن چکا ہے اور ہم بھلا اس بات کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ 

یہ تو ناممکن ہے حسن آرا !

اس لئے چودھری اکبر علی یا اس کی باتوں سے پریشان ہونے کی بالکل بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جس ذات

کے حضور ہم روزانہ پانچ ٹائم سر جھکاتے ہیں ، اس رب کی قسم کھا کر آپ کو زبان دیتے ہیں کہ ہم واپس آئیں گے۔

تھوڑی بہت تاخیر ہو سکتی ہے لیکن ہم آئیں گے ضرور چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ ان شااللہ تعالی۔

اس لیے آپ پریشان ہونے کے بجائے اپنا بہت بہت خیال رکھئے گا اور اپنے ساتھ ساتھ اس ننھی جان کا بھی جو ہماری

محبت ، ہمارے رشتے کی بنیاد ہے۔ بہت جلد ملاقات ہوگی تب تک کے لئے اجازت چاہیں گے۔ 

اللہ حافظ 

خیر اندیش ، میر ارشد اللہ“

حسن آرا نے اس جاں فزا تحریر کو بار بار پڑھا اور نہال ہو ہو گئی۔ چودھری اکبر علی کی باتیں اس کے نزدیک نری بکواس ہی تھیں ، کیونکہ وہ میر صاحب کو جانتی تھی۔ محض چند دنوں میںبرس ہا برس کی آشنائی کے مراحل طے ہوئے تھے ان کے درمیان۔اب اس خط نے اس کے یقین کو کچھ اور بڑھا دیا تھا۔آنے والے دنوں میں چودھری اکبر علی ایک بار پھر کہیں گم ہوگیا۔ وہ اس دن کے بعد دوبارہ نہیں آیا۔ یوں جیسے انہیں بھول ہی گیا ہو۔ زندگی کے معمولات جوں کے توں جاری تھے۔

روز و شب گزرتے گئے۔ چہلم تک وقتاً فوقتاً قریشی صاحب تین بار آئے۔ چہلم سے کچھ روز پہلے میر صاحب نے فون بھی کیا۔ کوئی لمبی چوڑی بات تو نہیں ہوئی لیکن جتنی ہوئی وہ مکمل طور پر اطمینان بخش تھی۔چہلم کے روز خود اس نے بھی میر ظفر اللہ کے ختم کا اہتمام کیا۔ وہ بہت خوش اور تازہ دم تھی ۔ یہ چالیس دن گوکہ کئی حوالوں سے اس کے لیے بھاری اور صبر آزما ثابت ہوئے تھے لیکن آخر کار گزر گئے تھے۔

مغرب کا وقت تھا۔ وہ سندس جہاں کے کمرے میں بیٹھی تھی۔ سندس جہاں ننھی شگفتہ کو کھانا کھلا رہی تھی اور ساتھ ساتھ حسن آرا سے باتیں کر رہی تھی۔اچانک بیٹھے بیٹھے حسن آرا کی طبیعت بگڑ گئی۔ پہلے اسے گھٹن سی محسوس ہوئی اور پھر یکایک تیورا کر گرپڑی۔دوبارہ ہوش آنے پر اس نے خود کو کہیں تاریک خلاو�¿ں میں تیرتے ہوئے پایا۔ اپنے وجود کا وزن اسے محسوس نہیں ہو رہا تھا۔اردگرد کچھ ہیولے اور چند گونج دار بھاری آوازیں تھیں لیکن اس قدر بوجھل اور گونجتی ہوئی کہ کوئی ایک لفظ بھی اس کی سمجھ میں نہ آسکا۔ان ہیولوں میں سے بھی وہ کسی کو شناخت نہ کر پائی۔ محض کچھ دیر کے لیے اس کی یہ کیفیت برقرار رہی پھر دوبارہ اس کے حواس گہری تاریکی میں جا اترے۔دوبارہ جب ہوش آیا تو اس نے خود کو اسپتال کے بستر پر پایا۔ وجود ازحد نقاہت کا شکار تھا۔سر بہت بھاری ہورہا تھا۔ حلق یوں خشک تھا کہ سوکھ کر لکڑی ہو چکا تھا۔ہر چیز گول گول گھومتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے بہ مشکل سر گھما کر دیکھا۔برابر والے بیڈ کے ساتھ ایک نرس موجود تھی۔ حسن آرا نے اسے پکارنا چاہا لیکن حلق سے آواز نہیں نکلی۔ نرس البتہ اس کی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔

حسن آرا نے دیکھا ، نرس اس کی طرف دیکھ کر چونکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک طرح کاہراس دیکھ کر حسن آرا قدرے متعجب ہوئی۔ اس نے ہونٹوں کو زبان سے تر کرتے ہوئے نرس سے پانی طلب کیا . وہ پھٹی پھٹی سی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔بجائے اس کے کہ حسن آرا کو پانی دیتی ، اس کے قریب آتی ، الٹا دو قدم پیچھے ہٹی اور پھر جلدی سے پلٹ کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔اس کا یہ عجیب و غریب رویہ تعجب انگیز تھا لیکن حسن آرا اس پر زیادہ غور نہیں کرسکی۔ اسے ایک بار پھر گہری بے ہوشی نے آن دبوچا تھا۔بے ہوشی کے اس دورانیے کی طوالت کا بھی اسے کوئی

اندازہ نہیں ہوسکا۔ البتہ اس بار ہوش آنے پر اس نے عشرت جہاں اور نزاہت بیگم کو اپنے قریب پایا۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ حسن آرا نے سب سے پہلے پانی طلب کیا۔

"اب کیسا محسوس کر رہی ہے ؟ "نزہت بیگم نے سوال کیا۔ وہ چند گھونٹ ہلک میں اتار لینے کے بعد نقاہت زدہ آواز میں بولی۔ 

"سر بہت بھاری ہورہا ہے۔ دل بھی تھوڑا گھبرا رہا ہے۔ "

"کوئی بات نہیں ، ٹھیک ہوجاو�¿ گی۔میں ڈاکٹر کا پتا کرتی ہوں۔ "وہ فوراً اٹھ کر دروازے کی طرف چلی گئی۔حسن آرا عشرت کی طرف متوجہ ہوگئی۔

"عشرت کیا ہوا تھا مجھے ؟”

"خدا جانے ہم سب تو گھبرا ہی گئے تھے۔تمہارے منہ سے جھاگ نکلنے لگی تھی۔ہاتھ پیر مڑ گئے تھے ۔بھاگ گم بھاگ اٹھا کر یہاں لائے تھے۔”

"ڈاکٹر نے کیا بتایا ؟ "

"کچھ خاص نہیں ، ڈاکٹر کا کہنا ہے کمزوری بہت زیادہ ہے اور تم کسی شدید پریشانی اور اعصابی دباو�¿ کا شکار ہو۔”

حسن آرا نے اس کی بات پر غور کیا۔ پریشانی اور اعصابی دباو�¿ ایسی تو کوئی بات نہیں تھی۔ گزرے دنوں میں کچھ تھوڑی بہت پریشانی اور بے چینی رہی تھی مگر اب تو ایسا کچھ نہیں تھا، بلکہ وہ تو بہت خوش تھی اور خود کو بالکل چاق و چوبند اور تازہ دم محسوس کر رہی تھی۔

"لیکن میں تو بھلی چنگی تھی۔ کوئی پریشانی بھی نہیں تھی مجھے۔ "وہ قدرے الجھن زدہ انداز میں بولی۔

"تم کیا ڈاکٹر سے زیادہ جانتی ہو ؟ ویسے بھی تمہاری نزاکت تو کمزوری سے بھی پرلے درجے کی چیز ہے۔ اوپر سے اب تم ہو بھی ایسی حالت میں ایسے میں تو اچھی خاصی عورتیں بھی چکر کھا کر دھڑام سے گرتی ہیں۔ تمہاری حالت کچھ زیادہ ہی پتلی ہوگئی تھی۔ پہلے دو دن تو ہمیں یہی لگتا رہا کہ تم ہاتھوں سے گئی اب۔ آج صبح آکر تمہاری حالت کچھ سنبھلی ہے۔ "عشرت کے آخری جملے پر وہ چونک پڑی۔

"کیا مطلب میں کتنے دن سے ہوں یہاں ؟”

"تین دن سے۔ کل شام تک تو تم مسلسل بے ہوش رہی ہو۔ ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ رات تمہاری بے ہوشی ٹوٹی ہے ، لیکن کچھ ہی دیر بعد تمہارے حواس پھر ساتھ چھوڑ گئے تھے۔”

حسن آرا حیرت و بے یقینی سے عشرت کی طرف دیکھے گئی۔ اس کا خیال تو یہ تھا کہ وہ بس گھنٹے ! دو گھنٹے تک اپنے آپ اور اپنے گردو پیش سے بے خبر رہی ہے لیکن یہ عشرت تو کچھ اور ہی کہہ رہی تھی۔اسی وقت نزہت بیگم ایک کرخت صورت ادھیر عمر ڈاکٹر کے ساتھ واپس آگئی۔ڈاکٹر نے اس کی نبض دیکھی۔ آنکھوں میں جھانکا۔ بے پروائی سے ایک دو سوال کئے پھر نزاہت بیگم سے مخاطب ہوا۔

"اب پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن آپ اس کی خوراک اور آرام کا خاص خیال رکھیں۔ یہ کوئی وزنی یا زور آزمائی والا کام نہ کرے۔ سیڑھیاں چڑھنے اترنے سے بھی اجتناب کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ بصورت دیگر اور کچھ ہو یا نہ ہو ، اس کا حمل ضرور ضائع ہو جائے گا۔”

"کام تو ایسا کوئی نہیں ہوتا ڈاکٹر صاحب !البتہ سیڑھیوں والا مسئلہ ہے۔”

"بچے کی زندگی چاہتی ہیں تو اس مسلے کا کوئی حل نکال لیں۔”

"ٹھیک ہے۔ کیا اب ہم اسے گھر لے جاسکتے ہیں۔”

"نہیں، کم از کم آج رات اسے یہیں رہنے دیں۔”

حسن آرا فورا بول پڑی۔

"نہیں مجھے گھر جانا ہے۔ "ڈاکٹر اس کی طرف متوجہ ہوا۔

"ابھی تمہاری طبیعت پوری طرح نہیں سمبھلی۔ کل صبح تک تمہارا یہیں رہنا بہتر ہوگا "

"نہیں، اب میں ٹھیک ہوں۔” وہ اور بے قرار ہوگئی۔ اسے میر صاحب کے استقبال کے لیے وہاں موجود رہنا تھا۔ جبکہ تھوڑی دیر پہلے ہی اسے عشرت سے معلوم ہوا تھا کہ وہ گزشتہ تین روز سے یہاں بے سدھ پڑی ہے۔اس کی بات سن کر ڈاکٹر نے سوالیہ نظروں سے نزاہت بیگم کی طرف دیکھا تو وہ جلدی سے بولی۔

"ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب ! ہم اسے کل صبح لے جائیں گے۔”

"نہیں اماں ! مجھے یہاں نہیں رہنا۔ میں اب بلکل ٹھیک ہوں۔”ڈاکٹر پلٹ کر دوسری طرف چلا گیا تو نزاہت بیگم اس سے مخاطب ہوئی۔

"پتا ہے مجھے تو جتنی ٹھیک ہے وہ تیری صورت بتا رہی ہے۔ چپ کر کے پڑی رہ یہیں۔ "

"پہلے ہی تین دن سے یہاں پڑی ہوں۔ اب اور نہیں، مجھے لے کر چلو یہاں سے۔ "

"تین دن سے پڑی ہے تو کیا ہوا۔ زندہ تو ہے نا! اور وہاں کون سا تیرے بچے تیری جان کو رو رہے ہیں جن کے لیے اتنا بے چین ہو رہی ہے تو۔”

"بچے نہ سہی وہاں بچے کے باپ کو آنا ہے۔مجھے وہی موجود ہونا چاہیے۔ "اس کے ذہن میں میر صاحب کے خط کے الفاظ نقش تھے۔

"چہلم کے فوراً بعد ہم سیدھا آپ کے پاس پہنچے گے۔ "

نزاہت بیگم ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولی۔

"ہاں ، آنا ہے لیکن اس کے آنے میں ابھی چار دن باقی ہیں۔”

"یہ کس نے کہا تم سے ؟ کیا قریشی صاحب آئے تھے ؟ ” اس نے چونک کر پوچھا۔

"ہاں کل شام آئے تھے۔ یہاں سے بھی ہو کر گئے ہیں۔ بتا رہے تھے کہ جمعہ کے روز دوپہر میں آئیں گے میر صاحب۔”نزہت بیگم کے الفاظ اسے توانائی دے گئے۔ ٹھنڈک بن کر اس کے جسم و جاں میں اتر گئے۔ چار دن جمعے کے روز۔ آخر خدا خدا کر کے انتظار کا یہ پل صراط طے ہو ہی گیا تھا۔ محض چار دن باقی رہ گئے تھے۔ اس نے بے اختیار ایک اطمینان بھری سانس لی اور پرسکون انداز میں آنکھیں بند کر لیں۔آنکھیں بند کرتے ہی میر صاحب اس کے سامنے آکھڑے ہوئے۔

"ہم نے آپ سے گزارش کی تھی کہ اپنا خیال رکھئے گا اور آپ بیمار ہو کر یہاں آگئیں۔ "

"بیمار نہیں ہوں۔ آپ آگئے ہیں تو سمجھیں بھلی چنگی ہوگئی پھر سے جی اٹھی۔”

"آنا تو ہم نے تھا ہی۔ آپ سے وعدہ بھی تو کیا تھا۔ "

"ہمیں یقین تھا اس بات کا اور ہم پوری شدت سے آپ کا انتظار کرتے رہے ہیں۔”

"بس پھر آج آپ کا انتظار ختم۔ آئیے ہمارے ساتھ ، ہم آپ کو یہاں سے لے جانے کے لیے آئے ہیں۔ یہاں سے دور۔ہمیشہ کے لیے۔ 

ایک چھوٹی سی جنت آپ کی منتظر ہے۔”

حسن آرا دوسری صبح واپس کوٹھے پر پہنچ گئی۔ اگلے تین چار روز وہ اسی طرح جاگتی آنکھوں سے سپنے دیکھتی رہی۔ایک روشن اور با عزت مستقبل کے

خواب سجاتی رہی۔ جمعہ کی صبح نہا دھو کر اس نے وہی سرخ عروسی جوڑا زیب تن کیا جو میر صاحب کی طرف سے آیا تھا اور اس نے نکاح کے روز پہنا تھا۔ ہلکا میک اپ اور میر صاحب کی طرف سے بھیجا گیا زیور۔ اس روز وہ پھر دلہن کے روپ میں تھی۔ خوشی اسے دونوں پہلوو�¿ں سے گدگدا رہی تھی۔وہ بات بے بات ہنستی پھر رہی تھی۔ دن جیسے جیسے چڑھتا گیا۔ اس کا انتظار بھی ویسے ویسے شدت اختیار کرتا گیا۔ دوپہر ہوئی۔ ڈھل گئی۔ سہ پہر اتری اور شام میں بدل گئی۔ حسن آرا کی بے چینیاں عروج پر جا پہنچیں۔اس نے باری باری نزاہت بیگم ، عشرت اور سندس ، تینوں سے تصدیق کی کہ قریشی صاحب نے جمعے ہی کا کہا تھا نا ؟اسی جمعے کا دوپہر کا ؟۔

سہ پہر شام میں بدل گئی۔ حسن آرا چھت پر جا پہنچی۔سورج ڈوب گیا۔ مغرب کی اذانیں ہو کر گزریں اور حسن آرا کے اندر ایک طلاطم برپا ہو گیا۔

وحشت ناک اندیشوں اور خیالوں نے اسے انتہا درجہ مضطرب کر دیا۔ وہ بے اختیار بار بار اپنے خدا کے حضور خیر خیریت کی دعائیں مانگتی رہی۔ میر صاحب اور ان کے گھر خاندان کے لیے امن اور سلامتی طلب کرتی رہی۔اس رات پراگندہ خیالی نے اسے آنکھ نہ جھپکنے دی۔ وہ من ہی من ہولتی رہی اور ذہن پر جھپٹتے پریشان کن خیالوں کو جواز پیش کرتی رہی۔ خود کو بہلاتی رہی۔

"کوئی ناگزیر کام آن پڑا ہوگا۔”

"کسی کی طبیعت خراب ہوگئی ہوگی۔”

”گھر یا باہر کے کسی ضروری مسلے میں الجھ گئے ہوں گئے۔“

”نہ پہنچ پانے پر وہ بھی پریشان اور بے چین ہوں گئے۔“

”صبح تو آہی جائیں گے۔ اگر نہیں بھی آسکے تو قریشی صاحب کو تو بھیجیں گے ہی۔”

لیکن دوسرا دن بھی اسی بے مہری سے گزر گیا۔ میر صاحب آئے نہ قریشی صاحب اور نہ ہی کوئی فون۔حسن آرا نے فرض کر لیا کہ اماں لوگوں ہی کے سننے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہوگی۔قریشی صاحب نے اگلے جمعہ کا بتایا ہوگا۔اگلا جمعہ کون سا برسوں کے فاصلے پر تھا آیا اور گزر گیا۔ اس سے اگلا جمعہ بھی گزر گیا۔میر صاحب کو آنا تھا نہ آئے۔ قریشی صاحب بھی یوں رستہ بھولے کہ جیسے اس طرف کبھی آئے ہی نہ ہوں۔حسن آرا کے اندر انتظار جیسے گھر کر گیا۔اندیشے اور واہمے اس کے ذہن میں گھر کرتے چلے گئے۔ اس انتظار اور اندیشوں نے یکجا ہو کر اسے ایک مہلک اضطراب میں مبتلا کر دیا اور یونہی تین جمعے گزر گئے۔اس اعصاب شکن ذہنی و جذباتی حالت نے اس کے دھیان کو خدا کی طرف موڑ دیا۔

صبح آنکھ کھلتی تو وہ میر صاحب کی سلامتی اور خیریت کی دعا مانگتی۔ سوتی تو ذہن میں میر صاحب کی سلامتی اور خیریت کی یہی سوچیں اس کے خوابوں میں بدل جاتیں۔ کبھی کبھار کی نماز کی بجائے وہ باقاعدگی سے پانچوں نمازوں کی پابند ہوتی گئی۔ہر نماز کا ایک مقصدہر نماز کے اول و آخر موجود دعاﺅں کا وہی ایک محورمیر صاحب کی سلامتی ،عافیت ، بہتری ، ان کا امن و امان اور سکھ سکون والی طویل زندگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**********۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس بھڑکتی ہوئی بھٹی کے گرد مصروف عمل ان دونوں افراد کو مرشد اور خنجر اب سے پہلے بھی دیکھ چکے تھے۔ آج صبح ہی گوجرہ کے نواح میں واقع سپیروں کی بستی میںان میں سے ایک تو زہر مزاج بوڑھا مصری تھا اور دوسرا مفلوک الحال شخص وہ تھا ، جیسے انہوں نے لہراسب کے رائفل برادروں والی جیپ میں سہما سمٹا بیٹھے ہوئے دیکھا تھا۔اس وقت وہ خشک پودوں کی ٹہنیاں توڑ توڑ کر بھٹی میں جھونک رہا تھا۔اس کی میلی قمیض پسینے سے تر ہو کر اس کے بدن سے چپکی ہوئی تھی۔اس سے چار پانچ قدم اس طرفبوڑھا مصری ، زمین پر اکڑوں بیٹھا تھا۔اس کا رخ دوسری طرف اور پشت مرشد لوگوں کی طرف تھی۔ اس کی کمر کی خشک ، سوکھی اور کھنچی ہوئی چمڑی،دھوپ میں چمک رہی تھی۔وجود پر صرف وہی صبح والی میلی کچیلی دھوتی موجود تھی۔غالباً اس کے سامنے کھلے منہ والا برتن پڑا تھا اور اس کے چپٹی لکڑیوں جیسے ہاتھ اس برتن کے اندر اترے ، کسی کاروائی میں مصروف تھے۔اس کے قریب ہی کھجور کے پتوں سے بنی ایک چٹائی پر کچھ الم غلم چیزیں بکھری پڑی تھی۔

”اگر یہ دونوں یہاں دکھائی دے رہے ہیں تو پھر عین ممکن ہے کہ کوٹھی کے کسی کمرے میں لہراسب اور چوہان بھی موجود ہوں۔“خنجر نے وہی بات کہی جو اس نظارے کے فوراً بعد ذہن میں آتی تھی۔

”اگر ایسا ہے تو پھر ان لوگوں نے ہمیں چودھری کی مخالفت میں پناہ کیوں دی ہے۔حالانکہ ان ہی کے بندے نے چودھری کو ہم لوگوں کے ٹھکانے تک پہنچایا تھا۔”

”میرا خیال ہے کہ لہراسب یا چوہان کو ابھی اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس ارباب نے ہمیں یہاں پناہ دی ہے۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے ساتھ کوئی کھیل کھیلا جا رہا ہو۔ “مرشد نے رخ پھیر کر اس کی طرف دیکھا۔ آنکھوں میں سوچ اور الجھن کی پرچھائیاں تھیں۔”اگر ارباب ، لہراسب کا آدمی ہے یا اس سے تعلق رکھتا ہے تو اسے یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ لہراسب کا چودھری فرزند سے کیسا تعلق ہے پھر یہ ہمارا ساتھ کیوں دے رہا ہے ؟”

"ہوسکتا ہے لہراسب کا چودھری کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی تعلق نہ ہو ، ان کے پیچھے کوئی نواب بھی تو ہے۔ اس کا تعلق ہوگا۔اس بات کی اسے خبر نہیں ہوگی۔”

"یہ کچھ ہضم ہونے والی بات نہیں ہے۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ چودھریوں کی جنم کنڈلی سے مکمل طور پر واقف ہے۔ان کا آپس میں کوئی تنازع ، کوئی رنجش بھی ہے ، یا پھر ماضی میں رہی ہے۔ "

"ایک بات اور بھی ہے۔”

"کیا؟”

ا”اب تک جو چار بندے ہمیں یہاں دکھائی دیے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی لہراسب کے ساتھ نہیں تھا اور جو اس کے ساتھ تھے ان میں سے کوئی بھی ابھی تک یہاں دکھائی نہیں دیا۔وہ گاڑی بھی یہاں نظر نہیں آئی ، پھر ان لوگوں میں ایک اور عجیب سی بات ہے۔ مشترکہ طور پر ان کے لباس….اب تک جتنے بندے ہمیں دکھائی دیے ہیں سب کی قمیضیں کالی ہیں اور سر کی پگڑیاں بھی جبکہ لہراسب کے ساتھ جتنے بندے تھے ان میں ایسا کچھ نہیں تھا۔”

"اس طرف تو میرا دھیان ہی نہیں گیا !لیکن ہمیں ان کے کپڑوں یا کپڑوں کے رنگوں سے کیا لینا دینا ؟ یہ برائی یہاں موجود ہے اور میرے خیال میں یہ خطرے کی نشانی ہے۔ ” خنجر کا اشارہ بوڑھے مصری کی طرف تھا۔مرشد کی پر سوچ نظریں ایک بار پھر لان میں جا اتریں۔

” نہیں خنجر!مجھے یہ کہانی تھوڑی عجیب لگ رہی ہے۔ ان دونوں کو شاید یہاں نہیں ہونا چاہیے۔ "

"لیکن یہ موجود ہیں۔”

"تمہیں ان کی یہ موجودگی کچھ پراسرار نہیں لگ رہی ؟” مرشد نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"نہیں مجھے زہر لگ رہی ہے اور پریشانی ہو رہی ہے۔”

عقب میں سنائی دینے والی آہٹ پر دونوں نے ایک ساتھ پلٹ کر دیکھا۔ جو بندہ پہلے نیچے دودھ سوڈا دے کر گیا تھا وہی اندر داخل ہورہا تھا۔اس بار اس کے ہاتھوں میں موجود ٹرے میں تام چینی کی پھولدار چینک اور کپ دکھائی دے رہے تھے۔ٹرے اس نے اندر آکر میز پر رکھ دی۔

"تمہارا نام جان سکتے ہیں ہم ؟” خنجر نے اسے مخاطب کیا۔

"بشارت حسین "۔ اس نے باری باری دونوں کی شکل دیکھی۔ شاید ان دونوں کا کھڑکی کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونا اسے عجیب لگا تھا۔

"تو بھائی بشارت ! کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ ادھر نیچے لان میں کیا ہو رہا ہے ؟”

"کیوں، کیا ہے ادھر ؟ ” اس نے قدرے حیرت سے استفسار کیا اور آگے بڑھ آیا۔ قریب پہنچ کر اس نے کھڑکی سے نیچے جھانکا اور ساتھ ہی اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ رینگ آئی۔

”یہ یہ کوئی دوائی تیار ہو رہی ہوگی یا شراب نکالنے کی تیاری ہوگی۔یا پھر…… انجینئر چاچا کوئی اور نیا تجربہ کر رہا ہوگا۔”

"کون انجینئر چاچا ؟”

"یہی یہ جو ڈیڑھ پسلی بیٹھا ہے۔ سفید بالوں والا بابا۔ "یقینی طور پر وہ بوڑھے مصری ہی کی بات کر رہا تھا۔

"یہ انجینئر ہے کس طرف سے اور کس چیز کا انجینئر ہے ؟” خنجر نے بدمزگی سے کہا تو بشارت کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

"یہ سانپوں کا انجینئر ہے جی ! سانپوں کی نسلیں ، قسمیں ، زہریں اور ان کے فائدے نقصان یوں جانتا ہے کہ کیا کوئی ڈاکٹر حکیم جانتا ہوگا گزرے سانپ کی لکیر دیکھ کر سانپ کی نسل ، عمر اور اس کے زہر کی تاثیر کی شدت تک بتا دیتا ہے۔ کسی گھر ، ڈیرے یا حویلی وغیرہ میں سانپ ہو تو یہ سونگھتا ہوا اس جگہ تک جا پہنچتا ہے جہاں سانپ چھپا یا دبکا بیٹھا ہو۔ آپ کو شاید عجیب لگے سن کر ، یہ سانپ کھاتا ہے۔ ان کا خون پیتا ہے اور سانپ اسے کاٹتے ڈستے بھی نہیں ہیں۔ "

"نام کیا ہے اس کا ؟” یہ سوال مرشد نے کیا تھا۔ 

"کاستو ، مالکی ، مصری, سائنس دان ، ددا، انجینئر ، بسلا ، آتمائی بہت سارے نام ہیں اس کے۔ مختلف علاقوں میں مختلف لوگ اسے الگ الگ ناموں سے جانتے پہنچانتے ہیں۔”

”یعنی سپیرا ہے یہ” خنجر نے متاثر ہوئے بغیر کہا۔

"یہ تو بہت معمولی لفظ ہے لیکن آپ اسے جانتے نہیں اس لیے کہہ سکتے ہیں ، ورنہ سپیرے لوگ تو اسے اپنا گروگھنٹال ، اپنا باپ دادا مانتے ہیں۔ اس کا پانی بھرتے ہیں۔ وہ وہ جو بھٹی میں لکڑیاں ڈال رہا ہے۔ وہ ایک سپیرا ہے۔ ”تاجل“ نام ہے اس کا۔ سندھ کا رہنے والا ہے۔ انجینئر چاچا کا چیلا ہے ، بلکہ بے دام کا غلام کہہ لیں آپ یہ دیکھ لو کہ سندھ سے پیدل یہاں تک آیا ہے ، اس انجینئر کے پیچھے پیچھے۔”

"تمہارے اس انجینئر نے خان صاحب کا کیا بگاڑا ہے ؟ "مرشد کے اس اچانک سوال پر بشارت نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"کون خان صاحب ؟”

"لہراسب خان۔ ” مرشد اور خنجر دونوں نے اسے واضح طور پر چونکتے دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ فورا ہی غائب ہوگئی تھی۔

"یہ کیوں پوچھ رہے ہیں آپ اور لہراسب خان کو کیسے جانتے ہیں ؟” بشارت نے باری باری ان دونوں کی شکلیں دیکھیں. 

"آج صبح گوجرہ کے قریب ملاقات ہوئی تھی۔ ان دونوں کو انہوں نے باندھ کر گاڑی میں ڈال رکھا تھا۔ انہیں یہاں وہی لے کر آئے ہیں نا ؟”

"نہیں ،انہیں یہاں ارباب صاحب لائے ہیں۔”اس نے سنجیدہ اور سپاٹ لہجے میں کہا اور پیچھے ہٹ گیا۔ کسی نا معلوم وجہ کے تحت اس کے تاثرات میں تیزی سے تبدیلی واقع ہوئی تھی۔

"چائے حاظر ہے ، پی لیں۔”

"کیا ہم نے کوئی غلط سوال کیا ہے ؟” مرشد نے پوچھا۔

"کچھ دیر تک شاید ارباب صاحب آئیں۔ آپ نے مزید جو بھی سوال کرنا ہے ان ہی سے کرنا۔”اس نے اسی سپاٹ انداز میں جواب دیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ مرشد اور خنجر بھی کھڑکی سے پیچھے ہٹ آئے۔

"کچھ سمجھ آیا ؟”

"نہیں۔ ” مرشد کے استفسار پر خنجر نے نفی میں سر ہلایا۔

"تیری اس مصری کو اس چاردیواری میں لہراسب نہیں ارباب لے کر آیا ہے۔”

"اور اسے یہ زہریلی سلاجیت کی ڈلی کہاں سے ملی ؟”

"یہ بھی پتا لگ جائے گا۔ ” وہ ایک صوفے کو گھسیٹ کر کمرے کے وسط میں لے گیا اور خنجر چائے والی میز کے قریب رک گیا۔

"بہرحال ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔”

"وہ تو ہمیشہ ہی رہنا چاہیے۔ تو چائے پلا۔”

"چائے میں کچھ ملا ہوا نہ ہو۔”

"اتنے چھوٹے سے دماغ کو اتنی تکلیف نہ دے کہ وہ تنگ آکر تجھے ماں بہن کی گالیاں دینے لگے۔ کسی نے ہمیں زہر پلانا ہوتا تو وہ نیچے دودھ سوڈے میں ہی پلا چکا ہوتا۔ "

"ہوں یہ بھی ٹھیک ہی ہے۔ ” اس نے کندھے اچکائے اور سامنے موجود برتنوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ مرشد نے دروازے کی طرف دیکھا۔ سامنےجس کمرے میں حجاب موجود تھی۔ اس کا کھلا ہوا دروازہ دکھائی دے رہا تھا۔ دروازے کے سامنے جھولتا سفید پردہ ،، کمرے میں

 چلتے پنکھے کی ہوا سے ہل رہا تھا۔ اب مرشد اس صوفے پر بیٹھ کر بہ آسانی اس دروازے کو مسلسل نگاہ میں رکھ سکتا تھا۔

"تمہاری سرکار جی کے لیے بھی ڈالوں نا چائے؟ "خنجر کی آواز پر اس نے رخ پھیر کر اس کی طرف دیکھا تو وہ وضاحت والے انداز میں مزید بولا۔

"دوسروں کے مقابلے میں وہ تمہارے لیے زیادہ خاص ہیں ، اس لیے تمہاری سرکار جی کہا ہے”

"ہاں ، ڈالو۔”

"یہ ماتھے پر نشان کیسا ہے ؟”

"کہاں اس جگہ ؟ مرشد نے پیشانی کے دائیں حصے کو انگلیوں سے ٹٹولا۔”

"ہاں ، خراش سی ہے، معمولی سی۔”

"پتا نہیں ، جلن سی تو ہے۔ شاید کار کی ونڈ اسکرین کا کوئی ٹکڑا رگڑ کھا گیا ہوگا۔”خنجر چائے کپ میں انڈیل چکا تھا۔ مرشد نے ایک کپ پرچ میں رکھا اور حجاب کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ باہر راہداری کے کونے میں پگڑی والا ڈشکرا جوں کا توں بیٹھا تھا۔ اس نے کمرے کے باہر رکتے ہوئے دروازے پر ہلکی سی دستک دی اور گلا کھنکھارتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔ حجاب بیڈ پر موجود تھی لیکن اس انداز سے کہ اس پر نظر پڑتے ہی مرشد بے اختیار ٹھٹک گیا۔وہ بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ بڑی سی کالی چادر جو اب تک اس نے بکل کے انداز میں استعمال کی تھی اس وقت بھی گردن تک اس کے جسم کو ڈھانپے ہوئے تھیگویا اس وقت وہ چادر پوری دنیا کے سب سے زیادہ حسین اور متناسب ترین نسوانی مجسمے کے تحیر خیز اسرار اپنے دامن میں چھپائے ہوئے تھی۔ اس خوابیدہ صورت کو ایک نظر دیکھتے ہی مرشد کو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ وہ گہری نیند میں ہے۔ اپنے گردوپیش سے بے خبر اپنے آپ سے غافل۔

دروازہ کھلا دیکھ کر وہ یہی سمجھا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے۔ اس کا خیال تھا جب وہ سونے لگے گی تو یقیناً دروازے کو اندر سے کنڈی لگا کر سوئے گی۔ اسی لیے وہ چائے لے کر بے دھڑک چلا آیا تھا لیکن اب وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ بالکل سکون سے سو رہی ہے۔اس کا یہ اطمینان دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کسی بھی ڈر ، خوف یا پریشانی کا شکار نہیں ہے۔مرشد نے اس سے کہا تھا کہ آپ بے فکر ہو کر سوجائیں ، میں باہر موجود ہوں۔ اس نے کہا تھا اور وہ اس کے کہنے پر سچ میں بے فکر ہو کر سو گئی تھی۔ یہ اس کا مرشد کی ذات پر انتہا درجہ کا اعتماد تھایہ تحفظ کا وہ جاں فزا احساس تھا جو حجاب کو اپنے بابا سائیں اور بھائیوں کے علاو�¿ہ اس کی ذات سے محسوس ہوا تھا۔ وہ جیسے پر یقین تھی کہ مرشد کے ہوتے ہوئے اسے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔وہ ہر دشمن اور ہر خطرے سے محفوظ ہے۔

مرشد چند لمحے سحر زدہ ، مبہوت سا اسی جگہ کھڑا رہا پھر اپنی بے ترتیب دھڑکنوں کو سنبھالتا ہوا تیزی سے پلٹ کر کمرے سے واپس نکل آیا۔

خنجر میز کے قریب ہی صوفے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ مرشد اندر داخل ہوا تو اس نے ٹٹولتی ہوئی نظروں سے دیکھ کر بھویں اچکاتے ہوئے سوال کیا۔ 

"کیوں کیا ہوا ؟”

"وہ سو رہی ہیں۔” مرشد آگے بڑھ کر کمرے کے وسط میں رکھے صوفے پر بیٹھ گیا۔چائے کے کپ والی پرچ اس کے ہاتھ میں تھی۔

رائفل اس نے کندھے سے اتار کرگود میں رکھ لی۔

"کیا سوچا پھر مشورے کے بارے میں ؟ "خنجر کے پوچھنے پر اس نے متفسرانہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"کس مشورے کے بارے میں ؟”

"اسی مشورے کے بارے میں جو مجھے تم نے اور تمہیں سرکار جی نے دیا ہے لاہور سے ہجرت کر کے بلوچستان میں کہیں روپوش ہو جانے کے بارے میں۔”

"تجھے میری مجبوری کا اچھی طرح علم ہے۔”

"وہ مسئلہ اپنی جگہ لیکن سرکار جی کا مشورہ سولہ آنے ٹھیک ہے۔ تمہیں کوئی رستہ نکالنا چاہیے۔”

"آج تک تو نکال نہیں سکا،اب کیا نکلے گا رستہ۔”اس نے بد دلی سے سر جھٹکا اور چائے کا کپ ہونٹوں سے لگالیا۔

"یعنی تم اپنی سرکار کے کہے پر عمل کرنے والے نہیں ؟ ایسی بات ہے تو پھر انہیں سرکار کہنا ہی چھوڑ دو۔”

"یہ لفظ” اپنی“ استعمال مت کر سرکار کافی ہے۔ "

"کیا خرابی ہے اس لفظ میں ؟ زمانے بھر سے اپنائیت کا احساس دلا دیتا ہے یہ تو۔ دوسرا سرکار جی، تمہاری سرکار ہیں تو تمہاری اپنی کہہ رہا ہوں انہیں۔”

” مت کہہ۔”

” وجہ؟”

"وہ میری سرکار نہیںمیرے لیے سرکار ہیں۔”

"تمہیں وہ اپنی لگتی ہیں یا نہیں۔”خنجر نے اس کی طرف ہتھیلی کھڑی کی۔”کھولنے ابلنے سے پہلے ایک ذرا اپنے اندر جھانکنے کی تکلیف اٹھاو�¿ اپنا اندر ٹٹولو اور پھر بولو جو بولنا ہے۔ "مرشد نے تیکھی نظروں سے اسے گھورا لیکن بولا کچھ نہیں۔دیانت دارانہ جواب تو اثبات ہی میں تھا۔

”زبان سے اقرار کیا جائے یا انکار ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سچ دونوں صورتوں میں سچ ہی رہتا ہے۔ حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ “

مرشد خاموشی سے چائے کے گھونٹ لیتا رہا۔تصور میں کہیں حجاب کا چہرہ تھا اور ذہن میں ایک منظر۔ اس کوٹھی میں داخل ہونے سے پہلے کا اسے بیٹھے بیٹھے اچانک ہی ایک جھماکے کی صورت یاد آگیا تھا۔ کار سے نکل کر وہ سرکار کا ہاتھ پکڑ کر دوڑتا ہوا اس طرف آیا تھا۔ سرکار اس کے پہلو بہ پہلو دوڑ رہی تھیں اور ان کا نرم و نازک ہاتھ اس کے مضبوط ہاتھ میں دبا ہوا تھا۔ جس وقت اسٹیشن کے قریب ہوٹل سے نکل کر وہ مہران کار کی طرف بڑھے تھے ، اس وقت بھی مرشد نے اضطراری انداز میں لاشعوری طور پر حجاب کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ اب اچانک یاد آجانے پر اس کا رواں رواں جیسے جھنجھنا کر رہ گیا تھا۔دائیں ہاتھ کی پوروں اور ناخنوں کے نیچے سے ایک خوش گوار سنسناہٹ بیدار ہوئی اور اس کے پورے بازو میں دوڑ گئی۔

"تم نے محبت بھی کی ہے تو کہاں اور کس انداز کی ! ” خنجر تاسف سے بولا۔”سچ کہوں تو کسی وقت مجھے حیرت ہوتی ہے اور کسی وقت تم سے ہمدردی محسوس ہونے لگتی ہے۔ بھلا کیا انجام ہوگا تمہاری اس محبت کا اور کیا بنے گا تمہارا ؟”

مرشد نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس کی نظریں اپنے دائیں ہاتھ پر جمی تھیں، جس سے اس نے چائے کا کپ تھام رکھا تھا۔چند لمحے اسے دیکھتے رہنے کے بعد خنجر مزید بولا۔

"اپنا ماننا تو یہ ہے کہ بندہ یہ محبت وحبت والی مصیبت نہ پالے اور اگر پالے تو پھر چاہے دنیا تہس نہس ہو ، شادی بھی وہیں کھڑکائے جہاں محبت کرے۔ میرے خیال سے تمہیں کم از کم ایک بار اس حوالے سے کھل کر بات کر لینی چاہیے اپنی سرکار سے۔ آگے پھر قسمت یا نصیب۔ "

"خنجر ! احتیاط وہ قابل احترام ہیں۔”اس بار مرشد خاموش نہیں رہ سکا۔

"بے شک ہیں ، لیکن انسان بھی ہیں۔ انہیں آسمانی ہستی تصور کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔”حجاب کے حوالے سے مرشد کے انتہا درجہ مو�¿دب رویے کے باعث وہ جو الجھن سی محسوس کرتا آیا تھا۔ بالاآخر وہ اس کی زبان تک آگئی۔

"میں نے تو یہ نہیں کہا کہ وہ آسمانی ہستی ہیں۔ وہ انسان ہی ہیں لیکن عام انسان نہیں ہیں۔ عام انسانوں سے بالکل الگ ہیں وہ۔”

"اچھا کون سی بات ہے جو انہیں عام انسانوں سے الگ کرتی ہے ؟”

"ابے بانگڑو ! بھنگ پی بیٹھا ہے کیا ؟ تو نہیں جانتا وہ کون ہیں ؟” مرشد نے چائے کا آخری گھونٹ پیتے ہوئے کپ پرچ میں رکھا اور پرچ نیچے فرش 

پر رکھ دی۔

خنجر بولا۔ "میں جانتا ہوں۔ وہ میرے لیے قابل احترام ہیں۔ رب دلوں کا حال جانتا ہےمیں تمہارا مسئلہ جاننا ، سمجھنا چاہتا ہوں، لہذا تم اپنی بتاو�¿ ؟ ذرا کھل کے تفصیل سے۔”اس نے جیسے آج سب کچھ اگلوانے کی ٹھان لی تھی۔

"مجھے تو کوئی مسئلہ سرے سے لاحق ہی نہیں ہے۔ تم ہی زبردستی ثابت کرنے کے چکر میں ہو۔ ” مرشد نے اپنا رخ دروازے کی طرف کیا اور صوفے کے بازوں سے پشت ٹکاتے ہوئے نیم دراز ہوگیا۔

"مسلہ لاحق نہیں تو بتاو�¿ پھر ؟ یہ سید سرکار والے حوالے سے ہٹ کر کوئی بات کرو اور کون سی بات ہے جو عام انسانوں میں نہیں ہوتی اور ان میں ہے ؟”

"اس حوالے سے نہیں ہٹا جا سکتاکم از کم میں تو نہیں ہٹ سکتا خاندان کا حوالہ انسان کی شناخت ہوتا ہے۔ جس طرح جانوروں میں ، شیر ، کتے ،سور ،گیدڑ اور ہاتھی گھوڑے وغیرہ اپنے اپنے خاندان اور اپنی اپنی نسل رکھتے ہیں ، اسی طرح انسان الگ الگ خاندان اور نسلیں رکھتا ہے۔ ہر نسل کی اپنی اپنی خصلتیں ہوتی ہیں جو نسل در نسل سفر کرتی ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ خصلتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں۔ سرکار اسی لیے سرکار ہیں کہ انہیں سرکارِ دو عالم ﷺ سے نسبت ہے۔ وہ آل رسول ﷺ ہیں۔ اولاد علی ؓہیں۔ ان کی رگوں میں دوڑنے والے لہو کی تاریخ بہت قدیم اور مقدس و متبرک ہے۔ اس لہو میں صدیوں کے سفر کی کہانی محفوظ ہے۔ خدا نے ان کا ذکر بھی ہمارے لیے ثواب ٹھہرایا ہے۔”

"او جگر! جن کا ذکر بھی ثواب ٹھہرایا گیا تھا وہ ہستیاں تو اب رہی ہی نا اب ایسا کہاں ہے ؟ میں نے تو ایسے ایسے سید دیکھے ہیں کہ اب کیا بتاو�¿ں تمہیں۔ کون سا کام ہے جو آج سید لوگ نہیں کر رہے۔ ” 

"میں تیرا اشارہ سمجھ رہا ہوں۔ کیا پتا ایسے لوگ اصل میں سید ہوتے بھی ہیں یا نہیں…. اس کے علاو�¿ہ یہ کہ ہر کوئی صرف اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہوگا۔ مجھے تو یہ پتا ہے کہ اگر میں کسی کمرے میں ہوں اور نماز کا وقت ہے۔ اسی کمرے میں کوئی سید موجود ہے اور وہ زنا یا کسی اور ایسے ہی گناہ کبیرہ میں مشغول ہے۔تو بھی جب تک میں اس کے لیے درود و سلام یعنی خیر و برکت اور سلامتی کے کلمات ادا نہیں کر لوں گا ، تب تک تو میری نماز بھی مکمل نہیں ہوگئی اب ایسے میں تو خود اپنے کھوپڑے سے کام لے کر مجھے یہ بتا کہ سید سرکار والے حوالے سے کیسے ہٹا جا سکتا ہے ؟ کم از کم مسلمان رہتے ہوئے تو ایسا ممکن نہیں۔ گناہ گار سہی گناہ کی پیداوار سہی ! لیکن میں خود کو مسلمان مانتا ہوں۔اس لیے میں تو اس حوالے کو ، اس نسبت کو نظر انداز نہیں کر سکتا بالکل بھی نہیں”

مرشد نے پر سکون انداز میں کہا۔ اس کا رخ اور دھیان دروازے کی طرف تھا۔ دروازے کے پار ایک اور دروازہ تھا۔ اس دروازے کے سامنے ایک سفید اجلا پردہ ہولے ہولے لہرا رہا تھا۔ اندر دروازے سے قدرے بائیں ہاتھ ، چند قدم کے فاصلے پر ایک بیڈ تھا اور اس بیڈ پر ایک ہستی کسی دل فریب مجسمے کی طرح لیٹی محو خواب تھی۔اس کا تصور مرشد کی دھڑکنیں گدگدائے جارہا تھا۔ اس نے دایاں ہاتھ اپنے سینے پر رکھا ہوا تھا اور بایاں ہاتھ گود میں دھری رائفل پر۔خنجر چند لمحے اس کی طرف دیکھے گیا پھر سر کھجاتے ہوئے گہری سانس لے کر رہ گیا۔

"خدا رحم کرے بس! ابھی پھر کچھ دیر کے لیے سوجانے کی کوشش کرکے دیکھتے ہیں۔”وہ بھی اسی جگہ ، صوفے پر ہی پسر گیا۔

”ہاں، خدا بس رحم کرے اور….. خیال و بے خودی معاف فرمائے۔” مرشد کا انداز خود کلامی والا تھا۔ حجاب کے حوالے سے کچھ سرکش ، لیکن لطیف جذبات واحساسات رہ رہ کر اس کے خیالوں کو گڑبڑا جاتے تھے۔کچھ دیر تک دونوں کے درمیان خاموشی رہی مرشد کی نظریں حجاب والے دروازے کے پردے سے ہم کلام رہیں اور ذہن باہر گلی کی طرف متوجہ رہا ، جہاں متوقع طور پر اس وقت چودھری فرزند اور اس کے پالتو کتوں کے علاو�¿ہ

پولیس بھی موجود تھی جو گلی کے مختلف مکانوں میں گھس گھس کر ان تینوں کو ڈھونڈ رہی تھی۔ 

ان کے علاو�¿ہ ذہن کے ایک حصے میں ارباب اور بوڑھا مصری کھڑے تھے۔ ان کے ساتھ لہراسب اور چوہان اور ان کے نامعلوم نواب کا خیال بھی ایک کھدبد مچائے ہوئے تھا۔اس کا دل کہہ رہا تھا کہ بہت جلد ڈپٹی اعوان اور ملنگی لوگ بھی یہاں پہنچنے والے ہیں۔خنجر رائفل کو سینے پر سنبھالے صوفے پر دراز تھا۔ اس کی نظریں چھت کے کالے تختوں اور کڑیوں کا جائزہ لے رہی تھیں۔کمرے میں صرف پنکھا چلنے کی مخصوص آواز گونج رہی تھی۔کچھ دیر بعد خنجر ہی کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔

"ٹھیک ہے جگر ! تمہاری بات ہی بڑی کرتے ہیں۔اس سارے قصے کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں . اس سب سے ہٹ کر بتاو�¿ ، شادی کے بارے میں تم نے کیا سوچ رکھا ہے۔ کیا ارادے ہیں ؟”

"کچھ نہیں !” مرشد نے اس کی طرف دیکھے بخیر جواب دیا۔ خنجر کی نظریں بھی بدستور کڑیوں پر رینگتی رہیں۔

"کیوں کچھ نہیں ! ستائیس اٹھائیس سال تو عمر ہوچکی ہے نا ؟ کوئی دیکھی نہیں ابھی تک؟“

"نہیں "

"اچھا سچ میں ؟ یعنی اماں کی مرضی اور پسند سے کرو گے انہوں نے کوئی دیکھ رکھی ہے کیا ؟ "

"سوجا اب "

"نیند نہیں آرہی۔ "

"منہ بند کرے گا تو آجائے گی۔”

"آئے گی تو کر لوں گا۔ تم یہ بتاو�¿ اپنی شادی کا زردہ کب کھلا رہے ہو ؟”مرشد خاموش رہا تو ایک ذرا توقف سے خنجر دوبارہ بولا۔

"اچھا اس فیروزہ کے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا ؟” فوراً ہی اس کے لہجے میں خیال انگیزی در آئی۔”نہیں میرا خیال ہے کہ اپنے محلے ، رشتے داروں یا اپنی برادری میں تو شادی نہیں کرو گےٹھیک اندازہ ہے نا میرا ؟”

مرشد کی آنکھوں میں اپنا گھر ، گلیاں ، کوٹھے ، چوبارے اور کئی چہرے گھوم گئے۔سماعت کے نہاں خانوں میں محفوظ کئی سازوں کی بازگشت کسمسا کر رہ گئی۔ گھونگھرو ، طبلے ، ہار مونیم اور سارنگی کی یاس انگیز دھن۔ خنجر بول رہا تھا۔

"ویسے آپس کی بات ہے جگر ! اس بارے میں تم نے سوچا کیا ہے ؟ شادی تو آخر کرو گے ہی ، اب نہیں تو چار چھ سال بعد کرو گے۔اپنی شریک حیات کے حوالے سے تمہارے ذہن میں کس طرح کا خاکہ ہے ، کس طرح کی لڑکی سے شادی کرو گے ؟”

 اس کے سوال پر مرشد کا ذہن اچھل کر سامنے والے کمرے میں جاگرا۔ تصور میں پہلے سے موجود حجاب کا سراپا یکبارگی پوری طرح واضح اور روشن ہو آیا۔ اس نے فوراً سر جھٹک کر اپنا دھیان بٹایا۔

"جو بھی تیار ہوگئی۔”اس کے جواب نے جنجر کو چونکا دیا تھا۔ اس نے گردن موڑ کے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔

"جو بھی چاہےچاہے”

”ہاں چاہے کوئی طوائف ہی ہو۔ ” مرشد نے اس کا جملہ مکمل کر دیا۔

”تم مزاق کر رہے ہو ہے نا ؟”

"میں نے تو تیرے سوال کا جواب دیا ہے۔تجھے اب جو بھی لگے۔”

یعنی اگر کوئی بھی طوائف تمہیں شادی کا کہہ دیتی ہے تو تم سچ مچ میں اس کے ساتھ شادی کر لو گے ؟ اپنے گھر ، فیملی نسل کی بنیاد رکھ دو گے ؟”

”شادی سچ مچ ہی کی ہوتی ہے۔ جھوٹی موٹی تو عیاشی کی فلم ہوتی ہے۔ باقی کہنے والیاں تو بہت ہیں لیکن صرف اتنا کافی نہیں ہے شادی میں اس سے کروں گا جو پوری طرح تیار ہوگی۔” اس کی آخری بات خنجر کے کسی ایسے حساس خانے میں جاکر لگی کہ اس نے فوراً سانپ کے پھن کی طرح گردن اٹھا کر مرشد کی طرف آنکھیں نکالیں۔

"اشکے بھئی! اشکے ! پوری طرح تیارہیں کسی لڑکی عورت کی بات کر رہے ہو یا کسی سبزی، کسی پھل وغیرہ کی ؟ اور خیر سے معلومات میں اضافے کے لیے یہ تو بتاو�¿ کہ جو پوری طرح تیار ہو ، اس کی شناخت ، پہچان کیا ہوتی ہے ؟ یعنی کسی لڑکی کو دیکھ کر کیسے پتا چلتا ہے کہ یہ پوری طرح تیار ہے یا نہیں ؟ "

اس بار مرشد نے گردن گھما کر اس کی پر شوق صورت ملاحظہ کی تھی۔

"اس بات سے میری مراد یہ تھی کہ جو مجھے قبول کرنے کے لیے دل و دماغ سے تیار ہوگی۔ میری ہر خامی سمیتجو جیسا ہے کی بنیاد پر جو ایک نئی زندگی کو کچھ نئے اور مخصوص ضابطوں کے ساتھ گزارنے کے لیے دل سے آمادہ ہوگی۔ نئی زندگی شروع کرنے کی صرف خواہش ہی نہیں ، ارادے اور حوصلے بھی رکھتی ہوگی۔ ” بات کرتے کرتے ہی دھیان ایک بار پھر حجاب کی طرف گیا۔وہاں سے سینے پر دھرے ہاتھ پر آ ٹکا ، اس ہاتھ میں کچھ دیر کے لیے حجاب کا ہاتھ دبا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کا گداز ، نرمی اور ملائمت بھرا لمس ابھی تک اس کی مٹھی میں زندہ تھا۔ اس نے دھیرے سے مٹھی کھول کر ہتھیلی کو بے قرار دل پر ٹکا دیا۔ دھڑکنوں میں یوں ٹھنڈک اور راحت اترتی ہوئی محسوس ہوئی جیسے وہ ہاتھ اس کا نہ ہو سرکار کا ہو گیا ہو۔

"بندہ بات اس طرح کرے ، جو سمجھ بھی آسکے۔ ایسے قلابازی کھانے کی کیا تک ہے بھلا۔” خنجر نے دوبارہ گردن نیچے ڈال دی۔مرشد کی نظریں پھر سے سامنے سفید پردے پر جا ٹکیں ، وہ دھیمے لہجے میں بولا۔

"میں نے سوچ رکھا ہے۔ جس کسی سے بھی شادی کروں گا ، اس سے کچھ چھپاو�¿ں گا نہیں۔ اگر وہ میرے متعلق پوری طرح نہ جانتی ہوگی تو میں خود پہلے اسے سب کچھ بتاو�¿ں گا ، حتیٰ کہ یہ بھی کہ میں ایک بن بیاہی طوائف کا بیٹا ہوں۔ ناجائز رشتے کی پیداوار ہوں۔کسی شریف اور عزت دار گھرانے کی لڑکی سے تو ایسے میں رشتہ ہونے سے رہا ، لہذا طوائف بھی چلے گی۔ بشرط کہ اس کے اندر کی عورت زندہ ہو اور کھل کے زندہ رہنا چاہتی ہو۔”

"رشتہ تو عزت دار گھرانے میں بھی ہو سکتا ہے۔ اپنا شجرہ بتانا اور دکھانا ضروری نہیں ہوتا۔ بندہ والدین کے حوالے سے تھوڑی مصلحت سے کام لے لیتا ہے۔”

"میں مصلحت کو منافقت جانتا ہوں۔ یہ میرا ماننا ہے کہ بندہ چاہے کچھ بھی ہو ، مگر جھوٹا اور منافق نہ ہو۔ یہ دونوں کام انتہائی نیچ اور پست ہوتے ہیں۔ میں ایک حرامی ہوں۔ ایک نئی نویلی طوائف اور ایک عزت دار ، نیک نام آدمی کی ناجائز اولادیہ میرا سچ ہے۔میرے وجود کی جڑ ہے, بنیاد ہے۔”

خنجر آہستہ سے اس کی طرف کروٹ بدلتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔

”یہ تم اماں کا ذکر کس انداز میں کر رہے ہو ؟ میں نے تمہارے منہ سے کبھی ایسی کوئی بات نہیں سنی۔”

"یہ سب جانتے تو ہونا ؟”

"ہاں جانتا تو ہوں مگر؟”

"یہی سچ ہے خنجر! زبان سے اقرار کیا جائے یا انکار ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاسچ تو دونوں صورتوں میں سچ ہی رہتا ہے۔”

مرشد نے کچھ دیر پہلے کہے ہوئے اسی کے الفاظ ، اس کو لوٹا دیے۔ خنجر نے دیکھا کہ اس کے سنجیدہ چہرے پر ایک اداس سی مسکراہٹ جھلک دکھلا کر رہ گئی تھیوہ اسی کیفیت میں بول رہا تھا۔”میری ماں ایک طوائف رہی ہے۔ وہ آج بھی ہیرا منڈی کے اسی کوٹھے پر بیٹھی ہے جہاں وہ محفلوں میں ناچتی گاتی رہی ہے۔وہاں کے سب لوگ جانتے ہیںسب کے سب۔ اماں کی محبت اور میرے پیدا ہونے کی داستان …. یہ سارا سچ اتنا اذیت ناک بھی نہیں لیکن اسے اذیت ناک بنا دیا گیا ہے۔ میں ایک حرام زادہ ہوں۔ ذاتی سطح پر میں اس حقیقت سے کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہیں پاتا۔ مگر یہ جان کاری کہ میری اس حقیقت کو تو ایک گالی ٹھہرایا جاتا ہے۔قابلِ نفرت ، قابلِ نفرین گناہ سمجھا جاتا ہے۔یہ سب میرے لیے بہت اذیت ناک بن جاتا ہے۔میرے لیے صحیح معنوں میں اس اذیت سے واقفیت کا انتظام اماں کی محبت ہی نے کیا تھا۔ "

اس نے بات کرتے کرتے خنجر کی طرف دیکھا۔

"چائے ٹھنڈی تو نہیں ہوگئی ؟”

"چائے پتا نہیں ” خنجر نے ہاتھ بڑھا کر چینک کو چھوا۔ کوسی کوسی (نیم گرم ) سی ہے ابھی "

"بنا کے دے توپھر ذرا ایک پیگ ” مرشد ایک جھٹکے سے سیدھا ہو بیٹھا۔ سینے میں ہٹرک تو شراب کی جاگی تھی مگر فی الوقت چائے کا کپ ہی میسر تھا۔ خنجر نے فوراً اٹھ کر دو کپوں میں چائے انڈیلی اور اٹھ کر ایک کپ مرشد کو تھما دیا۔

"اماں کی محبت نے کیسے انتظام کیا ؟”اس نے واپس بیٹھتے ہوئے اسی جگہ سے سلسلہ کلام جوڑنے کی غرض سے سوال کیا۔خلاف توقع مرشد نے آج خود ہی اپنی ذات کے ان پہلوو�¿ں کے متعلق بات شروع کر دی تھی جن کے بارے میں وہ عام طور پر کچھ بھی کہنا سننا گوارا ہی نہیں کرتا تھا۔خنجر اس کی زبان سے اب مزید جاننے اور سننے کا متمنی تھا۔

"میری پگلی اماں کا بھول پن تھا بس اور کیا سفنے دیکھا کرتی تھی۔ مجھے بہت زیادہ پڑھا لکھا کر ایک بہت زیادہ بارعب اور بہت زیادہ عزت والا شخص بنانے کے کسی کسی وقت مجھے خیال آتا ہے کہ مجھے چار جماعتیں پڑھا کر اماں نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ مجھے یاد ہے ، زندگی میں پہلی بار مجھے اپنے وجود کے گالی ہونے کا احساس اسکول ہی سے ملا تھا۔اپنے گلی محلے اور گھر کے اندر گالیوں کا استعمال تو عام ہوتا تھا لیکن اسکول سے مجھے گالیوں کی معنویت کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ اذیت ناک احساس بھی ملا۔ جیسے جیسے ساتھی لڑکے میرے بارے میں جانتے گئے۔ اذیت بڑھتی گئی۔ ماسٹرز تک کے انداز عجیب ہوگئے تھے ایک خبیث نے تو خدا واسطے کا بیر ہی ڈال لیا تھا۔تین سال اس کا لہجہ اور باتیں برداشت کیں میں نے۔ایک روز اس نے مجھے کلاس میں کھڑا کرکے اماں کے متعلق فضول بکواس شروع کر دی۔ میرے اعتراض اٹھانے پر اس نے مجھے دھنک دیا اور بکواس کرنے سے باز بھی نہیں آیا۔ الٹا مجھے بستہ پکڑایا اور اسکول سے باہر نکال دیا۔ اس کے تمام جملے انگارے بنے میرے ذہن میں گردش کرتے رہے اور میں اسکول کے باہر ہی بیٹھا رہا۔ چھٹی کے بعد جب وہ ماسٹر باہر نکلا میں نے ایک وزنی پتھر سے اس کتے کا کھوپڑ کھول دیا۔” مرشد نے ہاتھ میں موجود کپ کو گورتے ہوئے ایک ذرا توقف سے کام لیا۔”میرا خیال ہے کہ معاملہ اسکول کے بجائے صرف گھر اور گلی محلے کی گالیوں تک رہتا تو شاید یہ گالیاں ہمیشہ بے وقعت اور بے اثر ہی رہتیں تب میرے اندر ان کیخلاف مزاحمت پیدا ہوتی نہ میرے لڑائی جھگڑے شروع ہوتے اور

 نہ آج میں ایک بدمعاش ہوتا۔”

"اگر تم بدمعاش نہ ہوتے تو پھر شائد کچھ بھی نہ ہوتے جگر! تعلیم ہی انسان کے اندر عقل تمیز کو جگاتی ہے۔ اماں کا تم پر یہ بھی احسان ہی ہے کہ انہوں نے تمہیں چند جماعتیں پڑھوادیں۔ تمہیں اچھے برے اور صحیح غلط کی پہچان کرنے کے قابل کردیا۔ "خنجر کی بات کے جواب میں مرشد نے کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔ خنجر نے اپنا کپ خالی کرکے میز پر رکھا اور دوبارہ صوفے پر دراز ہوتے ہوئے سوال کیا۔ 

"اماں سے اور کیا کیا گلے شکوے ہیں تمہیں؟”

"اور سے تیرا کیا مطلب ہے ؟ یہ کوئی گلہ شکوہ نہیں تھا گلہ تو اماں سے مجھے بس ایک ہی ہے اور وہ شاید ہمیشہ ہی رہے گا۔”لہجے کی اداسی میں بد دلی بھی شامل ہو آئی۔ 

"تمہارے ابا کی واپسی کے انتظار والا ؟”

"میں نے اس شخص کے نطفے سے وجود پایا ہے بس۔“ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر ناگواری اور لہجے میں تلخی اتر آئی۔ 

”ہمارے بیچ ابے پتر والا کوئی مزاق نہیں . وہ شخص…. اگر وہ کہیں زندہ سلامت ہے تو وہ میرا اباشبا نہیں ہے . میں صرف اس کی ایک غلطی کا نتیجہ ہوں اور بس…. ایک ایسی غلطی جس کی شرمندگی نے اس شخص کو ہمیشہ کے لیے اپنا چہرہ چھپانے پر مجبور کر دیا۔ایک ایسی غلطی جس نے ایک گالی کو وجود کی شکل دی۔ ایک ایسی غلطی جس نے ایک جوان لڑکی کو زندگی بھر کے لیے روگی بنا دیا۔ برسہا برس بیت گئے ، وہ بوڑھی لڑکی آج بھی اس شخص کی اس غلطی کی سزا بھگت رہی ہے۔ آج بھی اسی جگہ پڑی اس جھوٹے انسان کے ایک جھوٹ کی تسبیح پڑھتی رہتی ہے۔”

 اس کے لب و لہجے میں سلگ اٹھنے والی بے بسی اور کرب نے کچھ دیر کے لیے کمرے کی فضا کو بوجھل کیے رکھا پھر پہلے خنجر ہی بولا۔

"اماں کے اس رویے کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟”

مرشد خالی کپ نیچے رکھتے ہوئے بولا۔ 

"رائے کیا ہونی ہے۔ سیدھے سے سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ اس جھوٹے اور بزدل شخص کے حوالے سے اماں بہت پہلے ہی نفسیاتی مریضہ بن گئی تھی. میرے ہوش سنبھالنے سے بھی پہلے۔ وہ آج بھی پہلے روز کی طرح پر یقین ہے کہ اس کے میر صاحب واپس آئیں گے۔ ہر صورت, ہر حال میں واپس آئیں گے۔ اس حوالے سے وہ ذہنی طور پر بیمار ہے۔ میر صاحب کی ذات اور ان کی واپسی کے یقین کو پھلانگ کر آگے کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر ہے وہ۔”

اماں کی بے بسی ، اضطراب اور دکھ کا خیال آتے ہی مرشد کے پورے وجود میں وہی مانوس وحشت بیدار ہوئی جو برسہا برس سے اس کے ساتھ ہی پلتی آئی تھی۔ پروان چڑھتی آئی تھی۔ سینے میں وہی شناسا الاو�¿ دہک اٹھا تھا جسے بجھانے کے لیے شراب کی کئی بوتلیں استعمال ہو جایا کرتی تھیں۔

ان کے درمیان خاموشی کا طویل وقفہ آیا۔مرشد رائفل گود میں رکھے سر جھکائے بیٹھا رہا اور خنجر اپنی جگہ لیٹا اس کی طرف دیکھتا رہا آخر پھر خنجر ہی نے اس تناو�¿ زدہ خاموشی کو توڑا۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور طویل کش لینے کے بعد دھواں اگلتے ہوئے بولا۔

"پتا نہیں باہر کی کیا صورت حال ہے۔ یہ چودھری فرزند بڑی کتی اور زہریلی چیز ہے۔پولیس والوں کے پچھواڑے میں بھی بھانبھڑ مچا ہوا ہوگا۔ گلی کے سارے رہائشی کم بختی میں ہوں گے اس وقت۔ مجھے اندیشہ ہے کہ باقی سارے گھروں کی تلاشی ہو چکنے کے بعد چودھری اور پولیس ، دونوں پارٹیوں کو یقین ہو جانا ہے کہ ہم اس کوٹھی میں چھپے ہوئے ہیں، شاید یہ ارباب لوگ ایسی صورت حال میں پولیس والوں کو اندر گھس آنے سے نہ روک پائیں . 

"مرشد کو اس کی داخلی اذیت کے بھنور سے باہر کھینچ نکالنے کے حوالے سے یہ خنجر کی ایک کامیاب کوشش تھی۔مرشد نے سر اٹھا کر ایک نظر حجاب والے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا پھر خنجر کی طرف متوجہ ہوا۔

"ہم لوگ ایک طرح سے حالت جنگ میں ہیں۔کسی بھی وقت ،کچھ بھی ہوسکتا ہے۔موجودہ صورت حال میں تیری رائے کیا ہے؟”

"سچ پوچھو تو تھوڑا کنفیوز ہوں۔ یا تو ہمیں کسی عقبی راستے سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے یا شاید فی الحال خاموش بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ایک یہ زہریلی مصری اور لہراسب والی الجھن بھی ہے ،پھر میں ابھی اس ارباب کی طرف سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوں۔ نجانے اس کا لہراسب اور چوہان سے کیا تعلق واسطہ ہے ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کمرہ ہمارے لیے چوہے دان بن جائے۔”

"ہمارے ہاتھ پاو�¿ں آزاد ہیں اور ہم مسلح بھی ہیں اگر ہوشیار رہیں گے تو آسانی سے مار نہیں کھائیں گے۔ ” وہ اٹھ کر کھڑا ہوا ، میں نماز پڑھ لوں ، تو بے شک سو جا ،میں جاگوں گا۔ 

"خیر نیند تو مجھے بھی نہیں آنی بس تھوڑی تھکاوٹ سی ہے۔ تم پڑھو نماز۔ "اس نے آخری کش لیتے ہوئے فلٹر ایک کپ میں ڈال دیا۔نماز ادا کرنے کے بعد مرشد دوبارہ صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔

"تمہیں بچپن کی ایک کتاب عملی سائنس یاد ہے ؟” خنجر نے پوچھا۔

"ہاں۔”

"اس میں ایک اول جلول سے سائنس دان کی تصویر ہوتی تھی لگتا تھا کہ اس شخص کے بالوں میں کسی نے بم پھوڑا ہے۔” 

"ہاں ہوتی تھی آئن اسٹائن نام تھا اس سائنس دان کا۔”

”یہ جو زہریلا بوڑھا ہے۔ مصری…. اس کا سر دیکھا ہے تم نے بالکل ویسا ہی نہیں ؟”خنجر کی اس خیال آرائی پر بے اختیار مرشد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اتر آئی۔ 

"بالکل صحیح جگہ پہنچے ہو اسے دیکھتے ہی میرے ذہن میں بھی وہی تصویر آئی تھی۔ یہ اپنا لوکل آئن سٹائن ہے۔ سانپوں کا آئن سٹائن ، "

"اس آئن سٹائنی نمونے کی یہاں موجودگی مجھے بری طرح چبھ رہی ہے۔ ” 

"ارباب آجائے۔ معلوم ہو جائے گا کہ یہ راز کیا ہے۔ "

"اس سے بات کرنا آبیل مجھے مار والا معاملہ نہ ہو جائے۔”

"جو کچھ بھی ہوا سامنے آجائے گا۔”باتیں کرتے کرتے خنجر کی آواز بوجھل ہوئی اور کچھ ہی دیر بعد وہ نیند کی آغوش میں جا پہنچا۔ 

بات کا جواب نہ پاکر مرشد نے گردن موڑے اس کی طرف دیکھا تو وہ اپنے اردگرد سے بالکل غافل پڑا تھا۔ مرشد نے دوبارہ نظریں اسی سفید پردے پر ٹکا دیں ، جس کی دوسری سمت اس کی سرکار جی محو خواب تھیں ۔ سرکار جی, جن کا ہاتھ تھامے دوڑتے ہوئے وہ اس کوٹھی تک پہنچا تھا۔ 

مرشد اسی جگہ نیم دراز حالات و واقعات پر غور کرتا رہا۔

مغرب کی اذانوں کے وقت اس نے اٹھ کر کمرے کی بتی جلائی, اس کا ارادہ تھا کہ نماز ادا کرے لیکن اسی وقت ارباب قیصرانی اندر داخل ہوا اس کے عقب میں ایک رائفل برادر بھی تھا۔ رائفل اس کے بائیں کندھے کے ساتھ جھول رہی تھی اور اس کے دائیں ہاتھ میں کالے رنگ کے کپڑے تھے۔ مرشد دروازے کے قریب ہی تھا ارباب اس کے بالکل سامنے آرکا اس کے چہرے پر دبی دبی سنسنی اور آنکھوں میں اشتیاق آمیز حیرت چمک رہی

تھی۔ چند لمحے مرشد کو گہری نظروں سے گورتے رہنے کے بعد وہ بولا تو اس کے لہجے میں حیرت اور بے یقینی بھری ہوئی تھی۔

"او یار ! تم کیا چیز ہو ؟ میں تو تمہارے قصے سن سن کر حیران ہوں۔”

"کیوں، کیا ہوا ؟ ” مرشد نے سوال کیا۔

” کیا ہوا ؟ تم نے ایک تھانے پر حملہ کیا۔ کئی پولیس والوں کو زخمی کیا۔ حوالات کے اندر بندے کو چھلنی کر مارا شیخو پورہ میں پولیس مقابلہ کیا۔ گوجرانولہ کے قریب ایک اغوا کی واردات, وہ بھی ڈی ایس پی رینک کے آفیسر کا اغوا اس کے ساتھ موجود پانچ پولیس والوں کو کھلی سڑک پر برسٹ مار کر قتل کیا پھر چودھری لوگوں کے بھی بندے پھڑکائے۔ وہ بھی ان کے گاو�¿ں میں گھس کر ایک ایم پی اے پر قاتلانہ حملہ کیا اور اس کے سامنے اس کی بیوی اور سالے کو گولیوں سے اڑا دیا اور پھر اس سب کے بعد حیرت انگیز طور پر تم اب تک زندہ بھی ہو اور آزاد بھیمیں فیصلہ نہیں کر پارہا کہ تم انتہا سے زیادہ خوش قسمت ہو یا کوئی انتہائی مہان قسم کی چیز ؟ "

"خوش قسمت ہی کہہ لیں، باقی یہ سارا کچھ سچ نہیں ہے۔”

"جو بھی ہے ، باہر کی صورت حال خاصی سنگین ہے۔ پولیس اور چودھری کے بندے کوٹھی میں گھسنا چاہ رہے تھے۔ ہماری آپس میں اچھی خاصی گرما گرمی ہوئی ہے۔ گولیاں چلتے چلتے بچی ہیں ،کچھ دیر تک ایس پی صاحب خود پہنچنے والے ہیں۔ وہ اندر آکر پوری کوٹھی کا ملاحظہ اٹھائیں گے۔”

اس نے عقب میں موجود رائفل برادر کے ہاتھ سے کپڑے لے کر مرشد کی طرف بڑھائے۔

"تم دونوں قمیصیں بدل لو اور سروں پر پگڑیاں باندھ لو اور بی بی جی کو کچھ دیر کے لیے الماری میں چھپا دو ۔وہیں بیڈ کی پائنتی والی دیوار کے ساتھ کھڑکی ہے ، خاصی بڑی اور گنجائش والی الماری ہے. ابھی تھوڑی دیر میں , میں بندہ بھیجوں گا،اس کے آتے ہی بی بی جی پانچ دس منٹ کے لیے الماری میں چھپ جائیں۔ تم چھت پر چلے جاو�¿ یا وہ جو کونے میں گن مین کھڑا ہے اس کے پاس چلے جاو�¿۔ "ارباب نے عجلت آمیز سنجیدگی سے کہا۔

"آپ اجازت دیں تو ہم اس وقت عقبی طرف سے نکل جاتے ہیں۔ ہماری وجہ سے آپ خوامخواہ مشکل میں پڑ جائیں گے۔”

"عقبی طرف بھی پولیس والے موجود ہیں۔ تمہیں شاید اپنے قد کاٹھ کا درست اندازہ نہیں۔ اچھی خاصی نفری ہے۔ پورے محلے میں سنسنی پھیلی ہوئی ہے۔ رہی بات ہم لوگوں کی مشکل کی تو یہ بات چھوڑو تم یہ تمہارا مسئلہ نہیں۔ پریشانی والی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ ایس پی صاحب ملک منصب کے ہم نواﺅں میں سے ہیں۔ ملک کے ہی کہنے پر اپنے محکمے کے پلسیوں کو پٹا ڈال کر یہاں سے لے جانے کے لیے آرہے ہیں کیونکہ ویسے یہ ٹلنے والے نہیں۔ گلی کے سارے گھروں کو کھنگال چکے ہیں ، انہیں پوری طرح یقین ہوچکا ہے کہ تم لوگ اسی چار دیواری کے اندر چھپے بیٹھے ہو ۔کوٹھی کا اندرونی ملاحظہ تو بس رسمی کاروائی والی بات ہے۔ دوسروں کی تسلی کے لیے منہ بھی تو بند کرنے ہوتے ہیں نا!یہ میری ذاتی سوچ ہے کہ بی بی جی ایس پی صاحب کو نہ ہی دکھائی دیں تو اچھا رہے گا۔ احتیاطاً۔”اس نے دایاں ہاتھ مرشد کے کندھے پر رکھتے ہوئے اسے دبایا۔ 

"سمجھا کرتے ہیں احتیاط مفید ہی ثابت ہوا کرتی ہے۔ ” مرشد نے کپڑے اس کے ہاتھ سے لے لیے۔

"تم دونوں اس کوٹھی کے مکینوں والے روپ میں آجاو�¿۔ ایس پی صاحب جب اوپر آنے لگیں گے میں تم لوگوں کو اطلاع کرادوں گا۔” وہ بات کرتے کرتے پلٹ کر واپس چلا گیا۔مرشد نے آگے بڑھ کر خنجر کو جگایا۔ پہلے اس سے قمیض تبدیل کرائی اور پھر اسے صورت حال سمجھا کر پگڑی سر پر لپیٹتا ہوا حجاب والے کمرے کی طرف چل دیا ۔قمیض وہ پہلے ہی بدل چکا تھا۔

راہداری میں معقول روشنی تھی البتہ حجاب والے کمرے میں اندھیرا تھا، یعنی وہ ابھی تک پڑی سو رہی تھی۔ مرشد اندر داخل ہوتے ہی زور سے

کھنکھارا۔دروازے کے عقب میں موجود الیکٹرک بورڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ بتی جلا سکے لیکن فوراً ہی ایک عجیب سی ہچکچاہٹ نے اس کے ہاتھ کو ٹھٹھکا دیا۔ راہداری میں موجود روشنی اور ایک کھڑکی کی بدولت کمرے میں بھرا اندھیرا قدرے مجروح ہو رہا تھا لیکن واضح طور پر دکھائی کچھ نہیں دے رہ تھا۔کھڑکی کی طرف موجود بیڈ پر لیٹے ہوئے وجود کا پتا تو چلتا تھا لیکن یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ کوئی عورت ہے یا مرد لیکن مرشد تو پہلے سے آگاہ تھا۔ وہاں سرکار سو رہی تھیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس پہلو ، کس حال و حلیے میں لیٹی ہیں پتا نہیں چادر ان کے بدن پر موجود ہے یا نہیں؟

 اسے تو ایسے میں ان کی خلوت گاہ کا تصور بھی ذہن میں نہیں لانا چاہیے تھا اور کہاں یہ کہ وہ خود موجود کھڑا تھا۔ وہ روشنی کرتا تو سرکار کا غافل وجود اس کے سامنے ظاہر ہو جاتا ۔ سرکار کی غفلت میں، ان کی لاعلمی میںاچانک کوئی تیز ، سرکش مزاج اندھی لہر سی اس کی ریڑھ کی ہڈی کو سنسنا گئی۔ اس کا بازو کپکپایا اور ہاتھ بے اختیار بورڈ سے پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے دماغ میں برق رفتاری سے یہ خیال آیا تھا کہ وہ بے ادبی پر بے ادبی کا مرتکب ہوئے جا رہا ہے۔ ایک ایسی بے ادبی ، ایسی گستاخی جس کا بوجھ سہارنے کی سکت بھی وہ نہیں رکھتا۔ فوراً ہی دوسرا خیال اس کی ذات کے نہاں خانوں میں چیختا ہوا اٹھا اور اس کے دماغ میں صور اسرافیل کی صورت گونج اٹھا کہ اگر اس نے سرکار کے بے خود و بے حجاب وجود پر نگاہ ڈالی تو وہ اپنی بینائی گنوا بیٹھے گاآنکھیں ہمیشہ کے لے بجھ جائیں گی، اندھا ہو جائے گا وہ اس خیال میں حیرت انگیز طور پر ایسی بے پناہ شدت تھی کہ کچھ دیر کے لیے تو وہ اسی جگہ کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ جسم سے جیسے ساری توانائی نچڑ کر پیروں کے تلوو�¿ں میں جا گری تھی۔

اس کی نظریں بیڈ پر سوئی حجاب ہی کی طرف تھیں۔ وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ سو رہی ہے لیکن ایسا نہیں تھا

تھکاوٹ اور بے آرامی کے باعث وہ لیٹتے ہی سو تو گئی تھی لیکن ذہن بے دار تھا۔ جس لمحے مرشد نے اندر داخل ہوتے ہوئے گلا کھنکھارا تھا اس کی آنکھ اسی وقت کھل گئی تھی۔ شاید وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی لیکن شعور میں ہونے والی ایک سرسراہٹ نے جھپٹ کر اس کے اعصاب کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔

وہ دروازے ہی کی طرف منہ کیے پہلو کے بل لیٹی تھی۔ ویسے ہی ساکت کی ساکت پڑی رہی آنے والا دروازے کے قریب ہی ٹھہر گیا تھا۔ اس کے عقب میں راہداری میں روشنی تھی لہذا حجاب اسے واضح طور پر دیکھ سکتی تھی۔ آنے والے نے دیوار پر موجود سوئچ بورڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا پھر ٹھٹک کر رک گیا۔ اس کی پگڑی کا تو صاف پتا چل رہا تھا۔ قمیض کا بھی اندازہ ہوتا تھا کہ سیاہ رنگ کی ہے۔ وہ دیکھ ہی چکی تھی کہ اس کوٹھی کے سب مکینوں کا لباس ایسا ہی تھا سب کی قمیصیں کالی تھیں اور سروں پر کالی پگڑیاں تھیں۔ بظاہر اس شخص کا حلیہ بھی ایسا ہی تھا لیکن حجاب کی چھٹی حس نے فوراً سے پیش تر اسے یہ احساس دلا دیا کہ یہ شخص کوئی اور ہے۔ اس کے قد کاٹھ ، ڈیل ڈول سے ایک شناسائی کا احساس ابھرتا تھا۔

حجاب نے دیکھا کہ سوئچ بورڈ کی طرف اٹھا ہوا اس کا ہاتھ لائٹ کا بٹن دبائے بغیر ہی پیچھے ہٹ گیا۔ یکایک دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا اور وہ جان گئی کہ یہ شخص کون ہے اور یہ بھی جیسے کسی الہام کی صورت اس کے دل میں اترا کہ اس نے لائٹ کیوں آن نہیں کی۔

بعض سوچیں اور خیالات اپنے اندر بے پناہ شدت اور توانائی رکھتے ہیں۔ یہ توانا لہریں کسی غیبی ذریعے سے دوسروں پر اثرانداز ہوتی ہیں ، بغیر کچھ بولے دوسرے کو اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ ایسے میں احساس بولتا ہے ادراک سنتا ہے۔ زبانیں اور الفاظ اضافی ٹھہرتے ہیں۔ سماعتیں گنگ رہ جاتی ہے۔ کہنے اور سننے والے کے درمیان خاموشی بولتی ہے اور بغیر کچھ کہے سنے ایک دوسرے کے دل کا حال تک منکشف ہو جاتا ہے۔ ان کے درمیان بھی اس وقت ایک ایسے ہی انکشاف انگیز لمحے نے جنم لیا تھا۔

مرشد کے ذہن میں صورا سرافیل کی صورت گوجنے والا خیال ایسی ہی بے پناہ شدت اور توانائی رکھتا تھا۔ اس خیال کی لہریں انتہائی خاموشی سے حجاب کے احساس کی تاروں کو چھو گئی تھیں۔ وہ بے حس و حرکت لیٹی اس شخص کی طرف دیکھے گئی جو مرشد کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ان لمحوں میں مرشد کا دل تو یہ کہہ رہا تھا فوراً الٹے قدموں اس باعصمت اور پاکیزہ خلوت گاہ سے باہر نکل جائے لیکن صورت حال کی غیر یقینی کچھ اور تقاضا کر رہی تھی۔

حجاب نے دیکھا کہ وہ چند لمحے اسی جگہ کھڑے رہنے کے بعد بغیر لائٹ جلائے متذبذب سے انداز میں آگے بڑھا اور آہستہ آہستہ سے چلتا ہوا بیڈ سے چار پانچ فٹ کے فاصلے پر آرکا۔کسی غیر مانوس اور ناقابلِ فہم ذریعے سے مرشد کی جذباتی حالت جیسے خودبخود اس کی سمجھ میں آرہی تھی۔ اس کی ہچکچاہٹ ، اس کا گریز ، وہ بے ادبی اور گستاخی کے خیال سے دست و گریباں تھانیند کے باعث اس کے بے ترتیب پڑے وجود پر غلطی سے بھی نظر نہ پڑ جائے اس اندیشے کے پیش نظر اس نے کمرے میں روشنی کرنے سے بھی احتراز برتا تھا حالانکہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تسلی سے اپنی آنکھیں بھی سینک سکتا تھا مگر اس کے نزدیک تو شاید ایسا خیال بھی گناہ کے زمرے میں آتا تھا۔ 

حجاب نے یکایک مرشد کے لیے اپنے دل میں عزت و احترام کا ایک سیلاب امڈتا ہوا محسوس کیا۔ ان لمحوں ہیرا منڈی کے اس بدنام بدمعاش کے حوالے سے اسے اپنے سینے میں اپنائیت کا ایک بے کراں سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا محسوس ہوا تھا۔

بے شک اس کی شناخت ایک بدمعاش کی حیثیت سے تھی لیکن اس کی آنکھ میں حیا تھی، شرم تھی۔ حجاب کا خیال خود بخود اس کے والدین کی طرف چلا گیاماں کا چہرہ اور شخصیت تو فوراً ہی ممتا کی مہربان تصویر کی طرح اس کے پردہ تصور پر روشن ہو گئی البتہ باپ کے حوالے سے تختی خالی رہی۔ کچھ پتا تھا نہ اندازہ پھر بھی ایک یقین خود بخود دل میں گھر کرتا چلا گیا کہ اس بدمعاش کا باپ بھی ضرور کوئی خاندانی غیرت مند اور اعلیٰ ظرف آدمی ہی ہوگا۔ وہ جہاں اور جس ماحول میں تھا، اس کی رگوں میں یقیناً غیر معمولی افراد کا دودھ اور خون گردش کر رہا تھا۔ اس دودھ اور خون میں شامل احساس ، دیانت ، ایثار اور غیرت و وقار جیسے اعلیٰ ترین انسانی اوصاف رہ رہ کر اس کے طور اطوار سے اپنی جھلک دکھاتے تھے۔ 

”سرکار” اچانک جیسے کمرے کا اندھیرا اپنی بھاری لیکن مو�¿دب اور نرم آواز میں بول اٹھا حجاب کو لگا کہ مرشد سر جھکائے کھڑا ہے۔

”سرکار” ایک ذرا توقف کے بعد مرشد نے اسے پھر پکارا تھا۔

"جی! کیا بات ہے؟”

”آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔” وہ نادم سے لہجے میں بولا۔ حجاب آہستہ سے اٹھ بیٹھی۔

"ہاں جی ! کہیے ؟”

"آپ جاگ جائیں” حجاب کو اس کا ہیولہ پیچھے ہٹتا ہوا دکھائی دیا۔

”میں جاگ چکی ہوں۔“ اس نے دیکھا وہ دوبارہ دروازے کے قریب سوئچ بورڈ کے پاس جاکھڑا ہوا تھا۔

"سرکار ؟”

"آپ پہلے لائٹ جلائیں ” حجاب نے اس کی پکار کا مطلب سمجھتے ہوئے اس کی مشکل آسان کر دی۔ اگلے ہی پل ایک ہلکی سی چٹخ کی آواز کے ساتھ ہی کمرہ روشنی سے بھر گیا۔ مرشد نے ایک جھجک آمیز اچٹتی سی نظر سے اس کی طرف دیکھا اور اسے چادر میں لپٹا بیٹھا دیکھ کر فوراً ہی جیسے مطمئن ہوگیا۔

"سرکار معافی چاہتا ہوں .آپ کو بے آرام کیا لیکن بات یوں ہے کہ آپ کو تھوڑی دیر کے لیے اپنی جگہ تبدیل کرنا پڑے گی۔ ” ساتھ ہی وہ تیزی سے بیڈ کی پائنتی کی طرف دیوار کے ساتھ کھڑی الماری کی طرف بڑھ گیا۔

"کیا ہوا ؟”

"پولیس تلاشی لینے آرہی ہے لیکن پریشانی والی کوئی بات نہیں ۔ اندر آنے والے پولیس ملازم ارباب کے اپنے اعتماد اور بھروسے کے لوگ ہوں گے۔

 بس ایسے ہی رسمی کاروائی ہے۔”وہ الماری کے دونوں پٹ کھول کر جائزہ لینے لگا۔ اندر صرف دو سوٹ لٹک رہے تھے۔ حجاب باآسانی اس میں کھڑی بھی رہ سکتی تھی اور آرام سے بیٹھ بھی سکتی تھی۔

"کدھر چلنا ہے ؟”

"کہیں نہیں ، بس تھوڑا سا وقت آپ کو اس الماری میں گزارنا ہوگا۔ "

وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"ابھی تھوڑی دیر تک جیسے ہی وہ لوگ اوپر آنے لگیں گے آپ اس کے اندر بیٹھ جائیے گا۔میں یہیں آس پاس ہی رہوں گا۔”

حجاب ٹھٹک کر رک گئی۔ مرشد اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے سے کترا رہا تھا۔لیکن حجاب نہیں . اس نے بغور اس کے موجودہ حلیے کا جائزہ لیا کالی قمیض ،کالی پگڑی اس کے مضبوط اور ورزشی جسم پر خوب پھب رہی تھی۔ اس کا سرخ و سفید رنگ کچھ مزید کھلا کھلا دکھائی دینے لگا تھا۔ داڑھی کے ساتھ مونچھوں کا سائز تھوڑا مزید بڑا ہوا محسوس ہوتا تھا گھنی بھاری سیاہ چیڑ داڑھی مونچھیں اور اس سیاہ پہناوے کے ساتھ اس کا چہرہ یوں رونق دکھا رہا تھا جیسے تقدیر کی تاریک گذرگاہوں میں کوئی توانا چراغ روشن ہو۔

"کیا ان لوگوں کو پتا چل گیا ہے کہ ہم لوگ یہاں چھپے ہوئے ہیں ؟” حجاب نے سوال کیا۔

"نہیں اردگرد کے باقی گھروں کی طرح ادھر سے بھی اپنا شبہ دور کرنا چاہتے ہیں۔ "

"اگر آپ کو کسی نے پہچان لیا تو ؟”

"امید تو نہیں لیکن کسی نے پہچان بھی لیا تو کوئی مسلہ نہیں ،انہیں اعتماد میں لیا جا چکا ہے۔ ” اس نے حجاب کو تسلی دے دی تھی لیکن خود اس بارے میں کچھ زیادہ مطمئن نہیں تھا ،کچھ ہی دیر مزید گزری تھی کہ باہر راہداری میں کچھ آہٹیں ابھریں پھر کمرے کے دروازے پر خنجر کی صورت دکھائی دی۔

"وہ لوگ اوپر آنے لگے ہیں۔ "حجاب فوراً حرکت میں آئی اور آگے بڑھ کر الماری میں داخل ہو گئی۔

"سرکار ! گھبرانا بالکل بھی نہیں ہے۔ میں یہیں موجود ہوں۔”

اس کے اثبات میں سر ہلانے پر مرشد نے الماری کے پٹ بند کیے اور جلدی سے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ باہر دروازے کے قریب ہی خنجر اور بشارت موجود تھے۔ اس کے باہر آتے ہی بشارت راہداری کے کونے میں بینچ پر بیٹھے پگڑی پوش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تیز لہجے میں بولا۔

"آپ ادھر غضنفر کے پاس چلے جائیں اور آپ میرے ساتھ آئیں۔”آخری جملہ اس نے خنجر سے کہا اور تیزی سے راہداری کے مخالف کونے کی طرف بڑھ گیا۔ اس کونے میں غالباً چھت پر جانے والا زینہ تھا مرشد غضنفر نامی رائفل برادر کی طرف بڑھ گیا۔

رگ و پے میں دوڑتے لہو کے اندر ہلکی ہلکی سی سنسناہٹ بے دار ہوگئی۔ کچھ ہی لمحوں میں یہاں پہنچنے والے ایس پی صاحب کے حوالے سے گوکہ ارباب مکمل اطمینان و اعتماد کا اظہار کر کے گیا تھا لیکن مرشد کسی خاص خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھا۔متعدد وارداتوں کے ساتھ ساتھ ڈپٹی اعوان جیسے

پولیس آفیسر کے اغوا اور کئی ایک پولیس ملازمین کے بہیمانہ قتل جیسی سنگین ترین وارداتیں اس کے نام کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔اسے ایک خطرناک اشتہاری مجرم قرار دیا جا چکا تھا۔ ایسے میں پولیس والوں کے رویے کے حوالے سے کسی بھی قسم کی خوش فہمی میں مبتلا ہونا سوائے نری حماقت کے اور کچھ نہ ہوتا۔

علاقے کا ایس پی خود آرہا تھا تو اس کے ساتھ کم از کم آٹھ دس مسلح سپاہیوں کا اندر آنا یقینی بات تھی۔ مرشد کو اس بات کی بھی پوری توقع تھی کہ ایس پی پر اس کی زندہ یا مردہ گرفتاری کے حوالے سے بھی خاصا دباو�¿ ہوگا۔وہ ذہنی طور پر خود کو پولیس والوں کی ہر قسم کی کمینگی کا سامنا کرنے کے لیے پوریطرح تیار کر چکا تھا۔

"آو�¿ جی بادشاہو! بسم اللہ ادھر آجاو�¿۔”

مرشد کے قریب پہنچتے ہی بینچ پر بیٹھا پگڑ پوش ایک کونے کی طرف کھسک کر بینچ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔ یہاں موجود دیگر سبھی افراد کی نسبت اس شخص کی پگڑی کا سائز قدرے زیادہ بڑا تھا اور اسکے تن و توش کی مناسبت سے ٹھیک ہی تھا۔ بھاری آواز,بھاری اور پ�±رگوشت چہرہ,لٹکے ہوئے کلے، درخت کے تنے جیسی موٹی گردن کے ساتھ کالی ڈوری سے بندھا ہوا چاندی کا تعویز دان اور اسکی مونچھیں اسکی مونچھوں کے سامنے مرشد نے اپنی بدمعاش مونچھوں کو بھی شرمندہ شرمندہ محسوس کیا۔ اسکی اپنی مونچھیں اگرچار چھ کی تھیں تو سامنے بیٹھے اس پگڑ پوش کی آٹھ بارہ کی تھیں۔وہ مونچھیں ہونٹوں کو چھپاتی ہوئی گالوں کی طرف جاتی تھیں اورگالوں پر پہنچتے ہی سانپ کی کنڈلی کی سی صورت اختیارکرتے ہوئے ایک موٹے اور گول لچھے نما پھول کی شکل دھار لیتی تھیں۔ 

مرشد نے دلچسپی سے اسکی طرف دیکھا۔ اسی وقت سیڑھیوں کی طرف سے ایک ہلچل سی اوپر کی طرف آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کندھے پر موجود رائفل جیسے خود بخود سرک کر اسکے ہاتھوں میں آ پہنچی۔ اسکو رائفل کا سیفٹی کیج ہٹاتے دیکھ کر مچھل چونک پڑا۔ لیکن مرشد پلٹ کر عقبی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ راہداری کے مخالف کونے میں, جہاں سے زینے چھت پر جاتے تھے,وہیں سے نیچے گراو�¿ند فلور پر بھی جاتے تھے۔ آوازیں وہیں سے ابھررہی تھیں۔ اگلے ہی لمحے چند افراد ان زینوں سے راہداری میں داخل ہوآئے۔ سب سے آگے ایس پی اور ارباب تھے۔ ایس پی مکمل یونیفارم میں تھا اور پوری طرح مستعد دکھائی دیتا تھا۔ ارباب کی دوسری سمت ایک پگڑی پوش رائفل بردار تھا اور ان کے عقب میں پانچ چھ مسلح سپاہی۔ سپاہیوں کی تعداد مرشد کی توقع سے کم تھی۔ پھر بھی اسکے اعصاب میں ہلکا سا تناو�¿ تھا حواس پوری طرح چوکس اور تیار تھے۔

 راہداری میں داخل ہوتے ہی دو سپاہی تو چھت والے زینوں کی طرف بڑھ گئے جب کہ باقی تین راہداری کے کمروں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ مرشد اور مچھل کی طرف ان لوگوں نے دیکھا تو تھا مگر خصوصی طور پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ ایس پی اپنے پورے افسرانہ وقار کے ساتھ ارباب سے بات کرتا ہوا راہداری کے وسط میں آن کھڑا ہوا۔ یہ ٹھیک وہ جگہ تھی جہاں اسکے دائیں ہاتھ مرشد اور خنجر والا کمرہ تھا اور بائیں ہاتھ حجاب والا۔ جہاں وہ ایک الماری میں دبکی بیٹھی تھی۔ 

ارباب سے بات کرتے کرتے اس نے ایک نظران دونوں کی طرف دیکھا۔ ایک نظر غضنفر کو اور ایک نظر مرشد کو۔ ایک لمحے کے لیے مرشد کی اور اسکی نظریں آپس میں ٹکرائیں اور ایس پی کی نظریں کسی برقی رو کی طرح اسے اپنی آنکھوں کے رستے گدی اور پھر ریڑھ کی ہڈی کی طرف اترتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ بڑی کھتری آنکھ تھی اسکی برمے کی طرح تیکھی چبھتی ہوئی اور سانپ کی آنکھ جیسی گہری اور پراسرار ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈی سرد لہریں دوڑادینے والی۔ 

"بادشاہو! گھبرانے کی جرورت نہیں ہے۔ یہ راو�¿ صاب اپنے ارباب جی کے تعلک(تعلق) داروں میں سے ہیں سکون میں رہو۔ "

غضنفر نے دھیمے لہجے میں مرشد کو مطلع کیا۔ شاید وہ اسکی طرف سے کوئی خدشہ محسوس کر رہا تھا۔ مرشد نے اسکی طرف دیکھا۔

 "راو�¿ صاحب؟” 

"یہ اپنے ایس پی صاحب!راو�¿ اعظم جاوید نام ہے انکا لیہ کے رہنے والے ہیں۔ اچھے خاصے زمیندار گھرانے سے تعلک(تعلق) رکھتے ہیں۔ "

"تم لوگ اچھے سے کمروں کی تلاشی لو اور پھر نیچے صحن میں جا کر ٹھہرو۔”

مرشد نے دیکھا ایس پی اپنے تحکمانہ انداز میں ایک سپاہی سے مخاطب تھا۔ اپنے ماتحت کو حکم دے کر وہ خود حجاب والے کمرے کی طرف پلٹا۔

اندر داخل ہوتے وقت اس نے ایک نظر دوبارہ مرشد پر ڈالی۔ اس بار یہ ایک بھرپور نظر تھی۔ گہری ٹٹولتی,کھوجتی ہوئی چبھتی ہوئی۔ مرشد کے لہو میں دوڑتی ہوئی سنسناہٹ میں اضافہ ہوآیا۔ اس بندے کا کرخت چہرہ اور آنکھوں کا خطرناک تاثر اسے شدت سے احساس دلا رہا تھا کہ زمیندار گھرانے کا یہ سپوت کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ 

"یہ سارا چکر کیا ہے؟” مچھل کے سوال پر مرشد اسکی طرف متوجہ ہوا۔ 

"کون سا چکر؟ "

"یہی پولیس اور چوہدریوں کے ساتھ جو پنگا ہے آپکا کیا جھگڑا پھڈا ہے ؟ "

"کچھ خاص نہیں۔ یہ چوہدری فرزند اپنی بہن کا نکاح کرنا چاہتا تھا میرے ساتھ میرا موڈ نہیں بنا تو یہ ذرا جذباتی ہو گیا۔ اب اپنی بہن کو لیے میرے پیچھے پیچھے پھر رہا ہے۔ شاید کوئی قسم شسم کھائے ہوئے ہے کہ ہر صورت اپنی باجی کو میرے حوالے کرکے ہی دم لے گا۔ باولا ہے بالکل۔”

مچھل نے بہ غور مرشد کی سنجیدہ شکل کو دیکھا۔

"یہ آپ مجاق میں کہ رہے ہو نا؟” اس نے تائید طلب انداز میں پوچھا تو مرشد مزید سنجیدگی سے بولا۔ 

"نہیں ایسی باتیں مذاق میں نہیں کرتے ،یہی سچ ہے۔ بات تو اتنی بڑی نہیں تھی لیکن ان چوہدریوں نے میرے انکار کو اپنی عزت غیرت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ جاہل نہ ہوں تو جنگلی کہیں کے۔” مرشد کے لب و لہجے کی سنجیدگی پر وہ عجیب الجھن زدہ ٹتولتی ہوئی نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگا۔ تفصیل اسے معلوم نہیں تھی۔ مرشد کی بات کو ہضم کرنا تھوڑا مشکل تھا لیکن مرشد پوری طرح سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ 

مرشد کا سارا دھیان اس کمرے کی طرف لگا ہوا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہاں کھڑے رہنے کی بجائے سرکار کے قریب پہنچ جائے۔ کمرے میں چلا جائے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کمرے سے ارباب کا پگڑی پوش ساتھی برآمد ہوا۔ اس کا رخ اسی سمت تھا۔ مرشد کو اپنی طرف متوجہ پا کر وہ اسے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بولا

"آپ آئیں ذرا ارباب صاحب بلارہے ہیں۔” مرشد فورا حرکت میں آیا۔ وہ تو پہلے سے ہی یہی سوچ رہا تھا۔ جس وقت وہ اس پگڑی پوش کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ ارباب اور ایس پی راو�¿ اعظم جاوید سامنے ایک ہی صوفے پر بیٹھے تھے۔ 

"آو�¿ مرشد! ان سے ملو۔ یہ ہیں ایس پی اعظم جاوید صاحب۔ اپنے دوستوں میں سے ہیں۔” ارباب فورا اس سے مخاطب ہوا۔ پھر راو�¿ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا

"آپکو تو کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے دوسرا بندہ بھی یہیں ہے، ہماری پناہ میں۔” راو�¿اعظم کچھ نہیں بولا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے

مرشد کو سامنے والے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اپنی سانپ جیسی آنکھوں سے یک ٹک اسکی طرف دیکھے گیا۔اسکے متناسب بدن پر ایس پی کا شان دار یونیفارم خوب سج رہا تھا۔ ہونٹ قدرے باریک,لمبی ناک,کلین شیو چہرہ,کھینچی ہوئی تھوڑی اور پکی ہوئی سانولی رنگت۔ مرشد کے ذہن میں کسی بد مزہ,سخت چھوہارے کا خیال چمکا۔ وہ آگے بڑھا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔ رائفل بدستور اسکے ہاتھوں میں تھی اور دھیان بائیں ہاتھ چند قدم کے فاصلے پر کھڑی الماری کی طرف لگا ہوا تھا۔ جس میںحجاب دبکی بیٹھی تھی۔ 

"راو�¿ صاحب بندہ بھی آپکے سامنے ہے اور ساری کہانی بھی۔” ارباب ،راو�¿ اعظم سے مخاطب ہوا۔ ”آج دوپہر تک میں اس بندے کوجانتا تھا نہ اس معاملے کو۔ ہم لوگوں کو اس کے دشمنوں دوستوں سے کوئی سروکار نہیں۔ قانون کے جو معاملات ہیں ان پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اس وقت یہ ہماری چار دیواری میں ہے ہماری حدود میں ہے مہمان ہے یہ ہمارا اور مہمان کو تو ہم لوگ ملک الموت کے حوالے کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

 ہاں یہ یہاں سے باہر نکل جائے تو دوسری بات ہے۔ پھر ہم پر اسکی ذمہ داری نہیں آتی اور نہ کوئی حرف پھر چاہے اس کے نصیب اسے دشمنوں کے ہاتھوں شکار کرائیں یا قانون کے ہاتھوں گرفتار ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ "

"اب آگے مزید کیا ارادے ہیں تمہارے؟ "راو�¿, ارباب کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے براہ راست مرشد کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔

” آدھے سے زیادہ سفر باقی ہے ابھی۔” مرشد نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ 

"کدھر کا سفر؟”

"آپ یہاں کے حاکم اعلٰی ہیں۔ اتنے بے خبر تو نہیں ہو سکتے۔ "

ایک ذرا توقف سے راو�¿ اعظم ٹھہرے لہجے میں بولا۔

"ٹھیک کہا تم نے مجھے تمہاری اب تک کی ساری کار گزاریوں کی مکمل خبر ہے اور اور اگر میں کہوں کہ میں تمہاری آگے کی تقدیر سے بھی باخبر ہوں تو شاید یہ غلط نہیں ہوگا! "

"یعنی آپ نجومی بھی ہیں۔“ مرشد مسکرایا۔“

"میں ملک منصب کے طرف داروں میں سے ہوں اور تم اس وقت ملک کی ایک چھت کے نیچے بیٹھے ہو۔ اسے اپنی خوش قسمتی سمجھو۔ اسی لیے میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ تم کسی بھی صورت ملتان سے نکل نہیں پاو�¿ گے اور اگر بالفرض محال کرشماتی طور پر نکل بھی گئے تو اس منزل تک ہرگز نہیں پہنچ پاو�¿ گے جسکا تم نے سوچ رکھا ہےجو لوگ تمہارے پیچھے پڑے ہیں وہ پولیس سے زیادہ طاقت ور اور با اختیار ہیں اور ان سب نے کسی بھی قیمت پر تمہیں ہلاک کردینے کی ٹھان رکھی ہے۔ "

"پھر ان حالات میں آپکاکیا مشورہ ہے مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ "

"تمہارے پاس صرف دو راستے ہیں۔” اس نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں ہلاتے ہوئے کہا۔ وہ صوفے سے پشت ٹکائے ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ 

"یا تو یہ ہے کہ تم اپنے سفر کو جاری رکھنے کی کوشش کرو اور اپنے دشمنوں میں سے کسی دشمن کے ہاتھوں مارے جاو�¿ یا پھر خود کو پولیس کے حوالے کر دو، گرفتاری دے دو۔ اس طرح کم از کم تمہارے ساتھیوں کی جانیں بچ جائیں گی۔ "

"اور اگر میرے دشمن میرے ہاتھوں اپنی جانیں ہار گئے تو؟ "

"ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے ٹھیک ہے کہ اتنی کار روائیاں ڈالنے کے بعد بھی تم زندہ اور محفوظ ہو لیکن ہو تو گوشت پوست کے انسان ہی نابکرے کی ماں ہو یا باپکب تک خیر مناو�¿ گے ؟ کسی معجزے کی صورت تم اپنے دشمنوں پر سبقت لے بھی جاتے ہو توکیا آج نہیں تو کل یا تو گرفتار ہو جاو�¿ گے یا پھر کسی پولیس مقابلے میں مارے جاو�¿ گے۔” مرشد کو لگا جیسے وہ سامنے بیٹھا اسے دھمکی دے رہا ہے۔ 

"راو�¿ صاحب! مرنا تو باری باری سب نے ہی ہے۔ مجھے بھی موت آنی ہے۔ لیکن اس بات کامجھے پتا ہے میں جانتا ہوں۔

 ابھی موت میری طرف رخ نہیں کرنے والی۔ایسے ہی موت آنی ہوتی تو اب تک میں مر چکا ہوتا۔ میرے ذمے قدرت نے بڑا اہم کام لگایا ہے۔ بہت بڑی ذمہ داری سونپی ہے مجھے اورجب تک میں اس ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو جاتا تب تک موت مجھے گلے لگانے کی جرات نہیں کرے گی "آج” میں تو مجھے بس اسی ذمہ داری کی فکر ہے۔ یہ نمٹا لوں، کل پھر دیکھا جائے گا کہ ہتھکڑی مقدر بنتی ہے یا پولیس کی گولی!”

راو�¿ اعظم جو شکرے کی نظر سے اسے گھور رہا تھا, اس سے کچھ کہنے کی بجائے ارباب کی طرف متوجہ ہوا۔

"ارباب صاحب!پولیس یہاں سے محاصرہ اٹھا لے گی۔ حالانکہ میں نے آپکو بتایا ہے ہمیں اس بندے کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کے احکامات ہیں،پھر بھی میں اک بڑے رسک کو فیس کرنے کا حوصلہ کر کے اسے ایک موقعہ دے رہا ہوں کہ یہ نکل سکتا ہے تو نکل جائے۔ دوبارہ ایسی صورت حال بننے پر شاید میں چاہ کر بھی اس کے لیے کچھ نہ کر پاو�¿ں ملک منصب کو بھی یہ بات میں نے بتا دی تھی کہ یہ بندہ اتنے گل کھلا چکا ہے کہ اب اس کے پاس زیادہ دن نہیں ہیں! "

"ٹھیک ہے راو�¿ صاحب! وہ پھر اس بندے کے اپنے نصیب,مقدر۔ ہونی کو تو کوئی نہیں ٹال سکتا نا! ہمارے یہاں اسے اک موقعہ مل رہا ہے تو یہی بہت ہے۔”راو�¿ اعظم اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔ اسکی تقلید میں ارباب اور ارباب کی تقلید میں مرشد بھی کھڑا ہو گیا۔ ارباب کا پگڑی پوش کارندہ پہلے ہی اک طرف مستعد کھڑا تھا۔

"میں پھر نکلتا ہوں۔ اپنے لوگوں کو ادھر سے ہٹواتا ہوں۔” اس نے ارباب سے کہا اور پھرمرشد سے مخاطب ہوا۔ 

"تم مزید سوچ لو۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ اپنے آگے کے سفر کو ذہن سے نکال دو۔ وہ لوگ کسی صورت تمہیں وہاں تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ "

"مشورے کے لیے شکریہ راو�¿ صاحب! لیکن میں اپنے مقصد سے ہر گز پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔”

"مجھے اچھی طرح اندازہ ہے۔ تمہاری طبیعت مزاج کے جتنے لوگ بھی میں نے اپنی آج تک کی زندگی میں دیکھے ہیں وہ بڑھاپے تک نہیں پہنچ پائے اسی لیے تو کہا تھا کہ میں تمہاری آگے کی تقدیر سے بھی با خبر ہوں۔ مقصد تمہارا ہر لحاظ سے ٹھیک ہے لیکن حالات حالات تمہاری توقع سے زیادہ خراب ہیں۔ بہرحال تمہارے لیے مزید صرف دعا ہی کر سکوں گا۔ "

"اس کے لیے پیشگی شکریہ قبول فرمائیں۔”

راو�¿ اس کے شکریے کو نظر انداز کرتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ ارباب اور پگڑ پوش بھی اس کے ساتھ ہی گئے تھے۔ ان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی مرشد الماری کی طرف بڑھا اور اس نے الماری کے دونوں پٹ کھول دیے۔ حجاب پسینے میں شرابور ساکت کھڑی تھی۔ 

"آجائیں سرکار! ” اس نے نظریں جھکا کر ایک طرف ہوتے ہوئے کہا اور حجاب الماری سے نکل آئی۔ 

"سب ٹھیک ہے نا؟” اس نے چادر کے پلو سے چہرے کا پسینہ پونچھتے ہوئے بغور مرشد کی صورت دیکھی۔ ان لوگوں کی تقریباً ساری باتیں ہی اسکی

سماعت تک پہنچتی رہی تھیں۔ 

"جی سرکار! سب ٹھیک ہے۔ آپ یہاں آرام سے بیٹھیں میں ابھی آتا ہوں۔” وہ پلٹ کر فورا کمرے سے باہر نکل گیا۔ خنجر کے حوالے سے تسلی چاہئے تھی اور پولیس کی بھی۔ارباب دوبارہ ایک گھنٹے بعد رات کے کھانے کے ساتھ ہی واپس آیا۔ کچھ دیر کے لیے۔ انہیں صرف تازہ صورت حال بتانے کی غرض سے۔

"پولیس واپس جا چکی ہے۔ البتہ ایک دو مشکوک چہرے ارد گرد موجود ہیں ابھی, لیکن فکر یا پریشانی کی بالکل بھی کوئی بات نہیں ہے۔ تمہارے اگلے سفرکا بھی کوئی تسلی بخش انتظام کر لیتے ہیں۔ تم لوگ کھانا کھاو�¿ اور اطمینان سے لمبی تان کر آرام کرو۔ صبح ملاقات ہوگی اب۔” اس نے کھڑے کھڑے چند باتیں کیں اور واپس چلا گیا۔ مرشد، خنجرکو ساری بات اور آئندہ متوقع حالات سے آگاہ کر چکا تھا۔ کھانے کے بعد چائے آئی تو وہ دو کپ اٹھائے حجاب والے کمرے میں پہنچ گیا۔ ضروری تھا کہ اس کا حوصلہ بنائے رکھنے کے لیے اس کے قریب وقت بھی بتایا جاتا اور باتوں کے ذریعے اس کا ذہن بھی بٹائے رکھنے کی کوشش کی جاتی۔ وہ بھی کھانا کھا چکی تھی۔ برتن سینٹر ٹیبل پر رکھے تھے اور وہ خود بیڈ پر بیٹھی تھی۔ 

مرشد نے آگے بڑھ کر اسے کپ تھمایا اور خود اپنا کپ سنبھالے,پیچھے ہٹ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ 

"سرکار! آپ چائے پی کر دوبارہ سو جائیں۔ کنڈی اندر سے لگا لیں۔ میں باہر موجود رہوں گا۔ "

"آپ خود بھی تو کل سے مسلسل جاگ رہے ہیں۔” حجاب کی بات پر وہ بے پرواہی سے بولا۔ 

"کوئی مسئلہ نہیں۔ میں عادی ہوں آپ کی نیند پوری نہیں ہوئی ہوگی اس لیے آپ دوبارہ سو جائیں۔ آج کی رات یہاں گزارتے ہیں۔ کل کسی وقت ادھر سے نکل چلیں گے۔ "

"ملتان سے نکلیں گے کیسے اور آگے جائیں گے کہاں؟”

 اسکے سوال پر مرشد نے ایک نظر اسے دیکھا اور دوبارہ ہاتھ میں موجود کپ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ 

"ان باتوں کی آپ ٹینشن نہ لیں۔ یہ میری ذمہ داری ہے اور باقی,جانا کہاں ہے۔بلوچستان آپ کی پھوپھو جی کے ہاں اور بھلا کدھر جانا ہے ؟” خاموشی کے ایک مختصر سے وقفے کے بعد حجاب کے لبوں کو جنبش ہوئی۔ 

"آپ اب یہی رہیں گے۔ اس سے آگے میں اکیلی جاو�¿ں گی۔! "مرشد نے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگایا ہی تھا۔ گرم کپ نے اسکے ہونٹوں کو ایک پر تیش بوسہ دیا۔ اسکا ہاتھ تھوڑا سا لرز گیا۔ بے اختیار اس نے حجاب کی طرف دیکھا تھا۔ 

"یہ آپ کیا کہ رہی ہیں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ "

"ایسا اس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ ارباب سے بات کریں۔ یہ لوگ کسی طرح رازداری سے مجھے قلعہ سیف اللّہ والی گاڑی پر بیٹھا دیں اور بس آگے کا کوئی مسئلہ نہیں۔”اس نے کپ سے ایک سپ لیا۔ مرشد نے بے ساختہ سر کو نفی میں حرکت دی۔

"نہیں سرکار! اس طرح نہیں ہو سکتا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ ذمہ داری میری ہے۔ میں خود آپکو اس دہلیز تک چھوڑ کے آو�¿ں گا۔”

"مجھے آپ کے ساتھ سفر کرنا ہی نہیں ہے۔ یہاں سے آگے اب میں اکیلی ہی جاو�¿ں گی۔” اس کے لہجے کی قطعیت مرشد کے رگ و پے میں اضطراب پھونک گئی۔ دل پر ایک گھونسہ سا پڑا تھا۔

"کیوں سرکار! کیا گستاخی ہوئی مجھ سے کیا غلطی کر بیٹھا ہوں میں؟ "

"کچھ بھی نہیں۔”

"میری کونسی بات یاحرکت بری لگی ہے آپکو؟”

"اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے۔”

"تو پھر کیا بات ہے ؟ اچانک ایسا کیا ہو گیا ہے ؟ "یکایک جیسے اک جھماکے سے اپنے سوال کا جواب اس کے ذہن میں اتر آیا۔ یقینی بات تھی کہ حجاب نے بھی ایس پی راو�¿ کی ساری باتیں سن لی ہیں۔ 

"اچانک کچھ نہیں ہوا۔ میں نے یہ فیصلہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ "

"آپ شاید ایس پی کی باتوں کی وجہ سے ایسا کہ رہی ہیں۔ آپ ان باتوں کو ذہن پر سوار مت کریں۔ یہ پولیس والوں کے خاص ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔ بندے پر نفسیاتی دباو�¿ بنانے کے لیے۔ "

"آپ کا مطلب ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے ؟”

"میں یہ تو نہیں کہ رہا لیکن وہ کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر "

"انہوں نے کوئی غلط بات نہیں کی۔” حجاب اسکی پوری بات سننے سے پہلے ہی بول پڑی۔”یہ بالکل یقینی اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ دشمنوں نے آگے کے تمام راستوں پر جگہ جگہ گھات لگا رکھی ہو گی“

”اور آپ کہ رہی ہیں کہ ایسے حالات میں آپکو اکیلے سفر پر روانہ کر کے میں خود یہاں چوہے کی طرح دبک کر بیٹھا رہوں ہیں ؟”

"جانتے بوجھتے خود کو ہلاکت میں جھونکنا بہادری یا جواں مردی نہیں,بے وقوفی اور حماقت ہوتی ہے۔”

"معاف کیجئے سرکار! لیکن یہ عقلمندی میرے بس کی بات نہیں ہے کہ میں آپکو ہلاکت کی طرف جانے دوں اور خود یہاں محفوظ بیٹھا رہوں۔” اس نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ 

"میں اکیلی سفر کروں گی تو زیادہ محفوظ طریقے سے منزل تک پہنچ جاو�¿ں گی۔”

مرشد نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ مزید بولی۔ 

"ہمارے جتنے دشمن ہیں وہ سب یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم تین لوگ ایک ساتھ دکھائی دیں گے اس لیے کسی اکیلی عورت کی طرف انکا دھیان نہیں جائے گا اور میں آسانی سے پھوپو کے گھر تک پہنچ جاو�¿ں گی۔ اسکے بجائے اگر ہم تینوں یہاں سے روانہ ہوئے تو فورا نظر میں آجائیں گے اور تینوں مارے جائیں گے۔”

"آپ جانتی ہیں سرکار! زندگی موت تو صرف سوہنے رب کے اختیار میں ہے۔ جو رات قبر میں آنی ہے وہ قبر سے باہر نصیب نہیں ہو سکتی۔ آپ کو اکیلے روانہ کر کے مر تو میں یہاں بیٹھے بیٹھے ہی جاو�¿ں گا۔ خود سے آنکھ ملانے جوگا نہ اماں سے لٰہذااس سے تو ہزار درجے بہتر ہوگا کہ میں لڑ کر چار چھ کو مار کر مروں۔ وہ کم از کم شرمندگی کی موت تو نہیں ہوگی نا؟ "

"یہ میرا ذاتی فیصلہ ہے۔ آپکو خود سے یا اماں سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا کچھ مت سوچیں۔ گھر پہنچ کر خالہ سے میں خود فون پر بات کر لوں گی۔ "

"معاف کیجئے سرکار! میری آپ سے درخواست ہے۔ گزارش ہے کہ مجھے کسی ایسے عذاب میں مبتلا مت کیجئے جو میرے لیے موت سے بھی بدترین ثابت ہو میں آپ سے رحم کی درخواست کرتا ہوں۔” اس کے لب و لہجے میں کوئی ایسی غیر معمولی بات تھی کہ حجاب اپنی جگہ چپ چاپ بیٹھی رہ گئی۔ مزید کچھ کہنے کی اسے ہمت ہی نہیں ہو سکی تھی۔ مرشد کے لہجے کی بے چارگی اور کرب سیدھا اس کے دل پر اثر انداز ہوا تھا۔دونوں اپنی اپنی جگہ بیٹھے اپنے اپنے کپ کی طرف متوجہ رہے۔ حجاب کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ مرشد اپنے ارادے اور فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ یہ بھی اس پر پوری طرح آشکار تھا کہ وہ دو مختلف حوالوں سے مرشد کے نزدیک غیر معمولی اہمیت اور حیثیت رکھتی ہے۔ پھراسے اسکی اماں جی کی طرف سے بھی خصوصی تاکید تھی کہ وہ خود پوری حفاظت سے اسے اسکی منزل,اس کے وارثوں تک پہنچا کر واپس لوٹے گا۔ اس سب کے بعد یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اس ذمہ داری سے پہلو تہی کرتا۔

اسکی موجودگی,اسکا ساتھ حجاب کے لیے بے انتہا ڈھارس اور حوصلے کا باعث تھا۔ اس کے ساتھ اسے گہرے تحفظ کا احساس میسر تھا,لیکن اب اس احساس کو ایک سنگین پریشانی نے کسی سانپ کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔حالات و واقعات پہلے ہی پریشان کن تھے لیکن اب ایس پی راو�¿ کی باتوں سے حالات کی تصویر واضح ہو کر سامنے آگئی تھی۔ 

مفرور مجرم، قاتل چوہدری لوگ اور پولیس کا پورامحکمہ سب کے سب مرشد کی راہ پر لگ چکے تھے۔ سب کے سب اسکی جان کے دشمن بن چکے

 تھے۔ چوہدری فرزند اپنی پوری سفاکی اور حیوانیت کے ساتھ ان کے ارد گرد موجو د تھا۔ یقینا وہ مرشد کے خون کا پیاسا ہو رہا تھا۔ موت ڈھیر سارے دشمنوں کی صورت اسکے گرد گھیرا تنگ کرتی آرہی تھی اور یہ سبھی دشمن ساری دشمنی ،صرف اور صرف اسکی وجہ سے مرشد کے حصے میں آئی تھی۔ اب اگر مرشد کسی ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہوتا, ماراا جاتا تو اس کے ساتھ ہی شاید وہ مہربان عورت بھی مرجاتی جو لاہور کے بدنام ترین محلے کے ایک چوبارے پر بیٹھی ، ہر گھڑی اسکی کامیابی، سلامتی اور خیر خیریت سے واپسی کی دعائیں کرتی رہتی ہو گی۔ وہ جلد از جلد اپنی پھوپوکے گھر پہنچ جانا چاہتی تھی مگر کسی کی موت، کسی کی لاش پر سے گزر کر نہیں مرشد اور حسن آراکی تو ہرگز بھی نہیںوہ دونوں ماں بیٹا اسکے خیر خواہ تھے۔ محسن تھے۔ اس سماجی جنگل کے وحشت زدہ جانوروں کی بھیڑ میں یہی تو دو انسان ملے تھے اسے۔ دونوں ماں بیٹا جیسے اک دوسرے کے لیے ہی جی رہے تھے۔ اب اگر یہ انسان جو اسکے سامنے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگائے بیٹھا تھا۔ بے رحم اور ظالم جانورں کا شکار بن جاتا تو وہ اپنے ان دونوں محسنوں کی مجرم ٹھہرتی ساری زندگی دل و دماغ پر ایک بوجھ کا اذیت ناک احساس مسلط رہتا۔

اس حوالے سے ایک بے چین کر دینے والی پریشانی وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسے کیا کرنا چاہئے؟ یہ تو اسے ہرگز گوارہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے ان ماں بیٹے کو کوئی نقصان یا تکلیف پہنچے, جب کہ حالات کے جلو میں ان دونوں کے لیے بے شمار سنگین خطرات اکٹھے ہو آئے تھے۔

"آپ نے بتایا نہیں ،خالہ وہ جگہ کیوں نہیں چھوڑنا چاہتیں ؟” ایک خیال آنے پر حجاب نے اچانک سوال کیا۔ 

"اسکی زندگی وہیں گزری ہے۔ وہ در و دیوار اسکی روح میں رچے بسے ہوئے ہیں۔”

 چند لمحے پھر خاموشی کے آئے۔ حجاب کے اگلے سوال نے اسے بری طرح چونکا دیا۔ 

"خالہ آپ کے بابا سائیں کے انتظار کی وجہ سے وہ جگہ نہیں چھوڑنا چاہتی نا؟” اسکا انداز تائید طلب تھا۔ مرشد نے گردن گھما کر اسکی طرف دیکھا تو وہ

 مزید بولی۔

” مجھے یاد آگیا ایک روز شازیہ نے سرسری سا ذکر کیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ خالہ ستائیس سال سے ان کے انتظار میں بیٹھی ہیں! "

 حجاب کو لگا جیسے یکایک مرشد کے چہرے کے عضلات پتھراگئے ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکی بیدار آنکھوں میں ایک سکوت کا تاثر سمٹ آیا ۔ وہ سر کو اثبات میں ہلاتے ہوئے گمبیھر لہجے میں بولا۔ 

"ہاں جی! اس نے آپکو ٹھیک بتایایہی بات ہے۔”

"ستائیس سال تو بہت طویل عرصہ ہوتا ہے۔ کسی کا اتنا انتظار کوئی کیسے کر سکتا ہے؟” 

"کسی کا تو پتا نہیں, اماں کر رہی ہے یہ انتظار شایداس کے خون میں گھل چکا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کا مطلب ہی انتظار ہے۔”

"اتنے عرصے میں انہوں نے آپ لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں کیا ؟ "

"نہیں۔ ” مرشد نے آخری گھونٹ لیتے ہوئے خالی کپ سامنے ٹیبل پر رکھ دیا۔ 

کوئی خیر خبر لی؟ "

"نہیں۔”

"پھر بھی خالہ آج تک انکا انتظار کر رہی ہیں؟” وہ متعجب ہوئی۔ 

"اس کے پاس کرنے کو اور کچھ ہے ہی نہیں وہ آج بھی پہلے روز کی طرح اس پاکھنڈی کی واپسی کے حوالے سے پر یقین ہے میرے اس دنیا میں آنے سے بھی پہلے سے وہ اپنے اس خود ساختہ یقین کو پالتی آرہی ہے۔ اپنے خون کی خوراک پلا پلا کر اب تو یہ اس کے گٹے گوڈوں (ٹخنوں,گھٹنوں) میں بیٹھ چکا۔ چلنے پھرنے سے اوازار(بیزار) رہتی ہے۔ "

حجاب کو اسکی بات کا انداز ذرا مشکل محسوس ہوا البتہ ایک لفظ اسکی سماعت میں جیسے چبھ کر رہ گیا تھا۔ اس نے بغور مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔

"یہ، آپ پاکھنڈی کسے کہہ رہے ہیں۔”

” پاکھنڈی کو جس کے انتظار میں اماں ایک بدنام چوبارے کی اینٹ بنی بیٹھی ہے۔” 

"وہ وہ آپکے بابا سائیں ہیں۔ آپ کے والد !” حجاب کے لہجے میں حیرت و بے یقینی تھی۔ ایک بیٹے کی زبان سے باپ کے متعلق اس طرح کا کچھ سننے کی اسے امید نہیں تھی۔ جس طرح کے ماحول میں اس نے پرورش پائی تھی۔ جو وضع داری اور تہذیب اپنے گھر میں دیکھی تھی۔ اسکی بدولت وہ تو ایسا کچھ تصور ہی نہیں کر سکتی تھی۔ 

مرشد نے ایک نظر اسکی متحیر صورت پر ڈالی اور دھیرے سے مسکرا دیا۔ ایک پھیکی اور بجھی ہوئی سی مسکراہٹگردن جھکاتے ہوئے اس نے اپنے سینے کے نہاں خانوں کو محسوس کیا اپنے دل و دماغ کے کچھ گوشوں کو تصور اور احساس کی انگلیوں سے ٹٹول کر دیکھا۔ ایک اذیت اور ہلکی سی گھٹن کا احساس تو اندر کہیں بیدار ہو آیا تھا لیکن وہ تلخی اور آگ کہیں نہیں تھی جو اس موضوع, اس حوالے سے اسکے رگ و پے میں پھیل جاتی تھی۔ سینے میں اچانک بھڑک اٹھتی تھی۔ یقینا یہ داخلی تبدیلی سامنے بیٹھی ہستی ہی کی مرہونِ منت تھی۔ دوسری طرف اس ہستی یعنی حجاب کو اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ مرشد کی ذات کے کن حبس زدہ اور تاریک گوشوں کی طرف نکل آئی ہے۔

٭ ٭ ٭                                                                           

اس دل چسپ اور سنسنی خیز داستان کو آگے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے