بھارت کے مقابلہ میں اردو کی ادبی روایات پاکستان میں معیار کی بلندیوں تک پہنچیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں علم و ادب کے فروغ اور ادبی تخلیق و تحقیق کی موجودہ صورت ِحال اور رفتار بحیثیت مجموعی قابل اطمینان نہیں کہی جاسکتی۔
علم و ادب کا فروغ
پاکستان میں علم و ادب کے فروغ اور ادبی تخلیق و تحقیق کی موجودہ صورت ِحال اور رفتار بحیثیت مجموعی قابل اطمینان نہیں کہی جاسکتی۔ معاشرتی اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ قوم کی ایسی کاوشوں کو جو تخلیق و تحقیق کے ضمن میں آتی ہیں. نہ صرف ملک کی عام ترقیوں کا ساتھ دینا چاہئے تھا بلکہ انھیں ترقی کے زیادہ بلند مقام پر پہنچنا چاہیے تھا۔
اس سے قطع نظر کہ ملک معاشی، دفاعی اور سائنسی و تعلیمی ترقی کے کن کن مراحل کو طے کر چکا ہے۔ اس کی مجموعی حیثیت و قوت کس قدر قابلِ اطمینان ہے۔ ہمیں ادب اور تخلیق و تحقیق کی مجموعی صورتحال سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔
قوم اور معاشرہ کی مجموعی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ ان کے تہذیبی و ثقافتی مظاہر اور ان کی تخلیق و تحقیق کی سطح پر موجود رفتار سے لگایا جا سکتا ہے۔
تہذیب و ثقافت اور ان کے مظاہرے ہمارے ملی و قومی تشخص کی کس قدر عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ملی ورثہ کے کس قدر امین ہیں۔ یا انھیں کس قدر ملی تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس وقت یہ بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ ادبی تخلیق و تحقیق کی سطح پر ہم اس وقت جس صورتحال سے دو چار ہیں۔ کساد بازاری اور بے اطمینانی کی جو کیفیت آج نمایاں ہے وہ اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔
اردو کی ادبی روایات اور تخلیق و تحقیق
تخلیق و تحقیق کے محرکات کا انحصار زیادہ تر لکھنے والے کی ذات پر ہوتا ہے۔ لیکن ان کی ترقی کے اسباب بالعموم معاشرتی اور اجتماعی ہوتے ہیں۔ تخلیق کار اور محقق کے لیے خوشحالی اور سرپرستی حوصلہ افزائی کا باعث ہوتی ہیں۔ یہ متعدد ذرائع سے ہو سکتی ہیں۔ لیکن حکومت اور علمی و ادبی اداروں کی سرپرستی زیادہ موثر اور قابل عمل ہوتی ہے۔ بعض صورتوں میں خود ادارے بھی مثبت اور موثر طور پر تخلیق و تحقیق کے ارتقا میں محرک ثابت ہوتے ہیں۔ اور مناسب معاونت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
چنانچہ ہمارے ہاں نجی طور پر جہاں چند شخصیات نے علم و تحقیق میں گراں بہا خدمات انجام دیں۔ وہیں بعض علمی و ادبی اداروں نے بلاشبہ تخلیق و تحقیق کی بھرپور تحریک پیدا کی ہے۔ اور معاونت کی قابل تحسین خدمات بھی انجام دی ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام اداروں کی کل خدمات ان کے حقیقی مقاصد کے تابع ہیں۔ انھوں نے اپنا فریضہ دیانت داری کے ساتھ انجام دیا۔ ان کی وجہ سے تخلیق و تحقیق کو کماحقہ ، فروغ حاصل ہوا۔
تخلیق کی حد تک کہ یہ فرد ہی کی ذہنی اپج کا نتیجہ ہوتی ہے۔ صور تِ حال قدرے اطمینان بخش ہے۔ خصوصا ادب کے بعض مقبول اصناف مثلا” غزل افسانہ اور ناول….. پڑوسی ملک بھارت کے مقابلہ میں جہاں اردو کی ادبی روایات اسی طرح اپنے پسِ منظر میں جاری و ساری رہیں جیسے پاکستان میں۔ لیکن یہ ہمارے ملک میں معیار کی بلندیوں تک پہنچیں۔
ادبی روایات پر تقسیمِ ہند کے اثرات
تقسیم ِہند کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے معاشروں میں بھی فرق نمایاں ہوا ہے۔ پاکستان کا معاشرہ انتشار ، بحران اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے دو چار ہو تا رہا ہے ۔ ابھی یہاں کی تہذیب و ثقافت کا کوئی خاص رخ اس کے معاشرہ کی مناسبت سے متعین نہیں ہو سکا جس پر اس کا سفر جاری رہ سکے۔ یہاں تخلیق کو جس انتشار اور بحران کی فضا میں جنم لینا پڑا ہے، وہ بھارت میں اس صورت میں موجود نہیں ہے۔
عمدہ تخلیق کے لیے انتشار اور بحران کی جو فضا در کار ہوتی ہے وہ پاکستان میں مل جانے کے سبب شاعری ، افسانہ اور ناول کو پر تاثیر لب و لہجہ اور قلب و ذہن کی صداقتوں کی صورت میں حاصل ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام تاثر کے مطابق پاکستان میں تخلیق ہونے والا ادب بھارت کے ادب کے مقابلہ میں زیادہ جاذبیت اور اثر رکھتا ہے۔ بھارت کے معاشرہ میں چونکہ ایک عرصہ تک ٹھہراؤ اور استحکام رہا ہے۔ اس لیے وہاں تخلیق کی بجائے تحقیق نے زیادہ عروج حاصل کیا ہے اور بلند معیار تک پہنچی ہے۔
علم و ادب اور سرکاری سرپرستی
اس کے باوجود کہ پاکستان کے تخلیقی ادب کی مذکورہ اصناف میں معیاری ارتقاء نظر آتا ہے۔ تخلیقی کاوشوں کا انحصار ذاتی اپج اور فطری میلان ہی پر رہا ہے۔ اگر حوصلہ افزائی کی خاطر خواہ اور مناسب روایت موجود ہوتی تو ظاہر ہے کہ یہ ارتقاء مزید بلندی حاصل کر سکتا تھا۔ سرکاری سرپرستی، اعانت اور ستائش کی کوئی حوصلہ افزا مثال ہمارے ملک میں موجود نہیں۔
حکومت اور اب اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ہر سال کچھ وظائف معمر اور نا آسودہ ادیبوں ، شاعروں اور دیگر تخلیق کاروں کو ضرور دے دیئے جاتے ہیں۔ لیکن ایک تو اس اعانت کا حلقہ بہت محدود ہے۔ دوسرے متعدد ضرورت مند اور مستحق افراد ایسی اعانتوں سے ابھی تک محروم ہیں۔ چند اداروں اور انجمنوں کی جانب سے چند انعامات کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ لیکن یہ خاصے تعطل اور تاخیر کا شکار رہتا ہے۔ پھر ان اداروں کی جانب سے انعامات کا اعلان تو ہو جاتا ہے لیکن کئی کئی سال ان کا اجراء اور فیصلہ نہیں ہوتا۔
لکھنے والوں کی ایک معروف انجمن بھی کئی سالوں سے متعدد ادبی انعامات تقسیم کرتی ہے۔ لیکن مبینہ طور پر ان کے تعلق سے ایسی بے قاعدگیوں، گروہ بندی اور اقربا نوازی کی حکائتیں عام ہوئیں کہ لوگوں کا اعتماد مجروح ہو کر رہ گیا۔ چنانچہ اب سنجیدہ مصنفین استحقاق کے باوجود ان انعامات کے حصول کے خواش مند نظر نہیں آتے۔ اب وہ ان انعامات کو اپنے لیے باعث افتخار بھی نہیں سمجھتے۔
تخلیق و تحقیق کے تقاضے
مناسب حوصلہ افزائی اور سرپرستی کے نہ ہونے سے تخلیق سے کہیں زیادہ تحقیق متاثر ہوئی ہے۔ یہ تخلیق کے مقابلہ میں زیادہ جاں کاہی، دقتِ نظر اور مشقت و جستجو کا مطالبہ کرتی ہے ۔ اس کے لیے زیادہ مدت اور زیادہ وسائل بھی درکار ہوتے ہیں۔ یہ اس وقت ممکن ہوتی ہے جب ضروری سہولتیں حاصل ہوں اور اس کے مطلوبہ تقاضے پورے ہوتے رہیں۔ چونکہ اس کے تقاضے تخلیق سے کہیں زیادہ دقت طلب ہوتے ہیں۔ اس لیے بہت کم افراد اس میں اپنی دلچسپی برقرار رکھ سکتے ہیں اور اپنی کاوشوں کو منظر عام پر لا سکتے ہیں۔
تحقیق کے فروغ کے لیے مناسب سرپرستی کا ہونا ضروری ہے ۔ یہ سرپرستی یا تو سرکاری اداروں کے سبب ہو سکتی ہے۔ یا عام ناشرین و تاجر کتب کی علم دوستی کے باعث ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا خال خال ہی نظر آتا ہے۔ ہمارے معاشرہ کی تاجرانہ ذہنیت کے پیش نظر تاجران کتب سے تجارتی مفاد اور مالی منفعت کے علاوہ کسی حوصلہ افزائی کی توقع رکھنا فضول ہے ۔ جامعات بھی تحقیق کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
کروڑوں روپے کے بجٹ
جامعہ پنجاب کی ایک مثال موجود ہے۔ جہاں تحقیقی مجلوں کی اشاعت کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور کئی دیگر بلند پایا عملی و تحقیقی منصوبے اساتذہ اور محققین کے پیشِ نظر رہتے ہیں۔ لیکن دوسری جامعات… جبکہ اہل افراد کی ان میں بھی کوئی کمی نہیں۔ رقوم کی ناکافی فراہمی کے سبب علمی و تحقیقی منصوبوں کی تکمیل سے قاصر رہتی ہیں۔ یہ صورتحال ان سے منسلک، اہل افراد کے لیے نارسائی و مایوسی کا باعث ہوتی ہے۔ یوں ان پر سکوت کی کیفیت طاری نظر آتی ہے۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن مختلف نوعیت کی عملی سرگرمیوں کی سرپرستی کے عنوان سے کروڑوں روپے کی تقسیم کا بجٹ بناتا ہے۔ لیکن ابھی تک اسے یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اساتذہ کی ترقی کے قواعد میں ایسی ترمیم کرے کہ جس سے تحقیق، تصنیف و تالیف کے رجحان اور شوق کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس نے اعلی معیار کے علمی جرائد کے اجراء اور اشاعت کے لیے جامعات کو خصوصی رقم فراہم کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔
ہماری سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت نے بھی معیاری علمی و سائنسی جرائد کے اجراء کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کی۔ بلکہ زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ پی سی ایس آئی آر کے تحت سائنس کا جو علمی جریدہ شائع ہوتا تھا اس کی اشاعت بھی روک دی گئی۔ ایسے ادارے جو حکومت کی ایماء پر قائم ہوتے ہیں یا جن کی اعانت حکومت کرتی ہے۔ علم و ادب کی ترقی کا ایک بڑا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حکومت نے جو متعدد ادارے علم و ادب کے فروغ کے لیے قائم کئے ہیں وہ اپنے اپنے موضوع اور مقاصد کے تحت فرائض انجام دینے کے پابند ہیں۔
اداروں کی بد انتظامیاں
اس قسم کے بعض اداروں نے بعض بڑی قابل قدر اور دقیع خدمات بھی انجام دی ہیں۔ لیکن کسی ادارے کے بارے میں شاید مشکل ہی سے کہا جا سکے کہ اس نے اپنی ساری مدت میں اپنی کل کار کردگی کو اپنے مقررہ مقاصد کے تحت رکھا ہے۔ اس کی مستعدی سے اس کے منصوبوں کا ہدف پورا ہوا ہے۔ متعدد وجوہات ہیں جن کے سبب ادارے اپنے کل مقاصد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔
ایک تو اداروں کی بدانتظامیاں ہیں جن سے وہ یا تو مجہول ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یا مستعدی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ مالی امداد کی ناکافی فراہمی ، اس کے بے محل استعمال اور خرد برد اور ارباب اختیار کی مصلحتوں اور دیگر مفاد پرستوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب، جو ایسے اداروں سے کسی طرح کا تعلق رکھتے اور ان سے اپنا مفاد وابستہ کر لیتے ہیں اور اقربا پروری اور دوست نوازی کے سبب اداروں کا نظم زیر و زبر ہو تا رہتا ہے ۔ اس طرح مناسب اور اہل افراد کو بہت کم کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ایسے ادارے جو تحقیقی کاموں کی صلاحیتیں بھی رکھتے ہیں اور انھیں انجام بھی دے سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے سہولتوں کی عدم فراہمی اور مالی رکاوٹوں کے سبب اپنے مقاصد کی تکمیل سے قاصر رہتے ہیں۔
بے ہنر مسند نشیں اہلِ ہنر در در خراب
اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اداروں کو ایسے افراد کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو اس کے اہل ہی نہیں ہوتے۔ محض ان کی شہرت اور وابستگیوں کو ان کی تمام اہلیتوں کا حاصل سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ فی زمانہ شہرت زیادہ تر ایسے افراد کے حصہ میں آتی ہے جو رابطہ عامہ کے فن سے کام لیتے ہیں۔ شہرت کے ذرائع کو مختلف حربوں سے اپنے حق میں استوار کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اکثر اوقات مناسب اور اہل افراد کے مقابلہ میں، جن کا انتخاب و حصول کچھ مشکل بھی نہیں۔ ایسے ہی افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جو شہرت کے حامل ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے ہی افراد ایک سے زیادہ اداروں کی قسمت کے مالک بھی بنا دیئے جاتے ہیں۔
یہی صور تحال ان کمیٹیوں یا مجلسوں میں بھی نظر آتی ہے جو حکومت گاہے گاہے علم و ادب کے فروغ اور متعلقہ مسائل کے حل کے لیے تشکیل دیتی ہے۔ بلکہ خود ادارے ایسی کمیٹیاں یا مجلسیں وضع کرتے ہیں۔ ایک اور افسوسناک بلکہ تشویشناک صورتحال یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ ایسے مفاد پرست افراد اپنے حلقہ ءاثر اور ذرائع ابلاغ میں اپنے اثر و نفوذ کے باعث اداروں اور ساتھ ہی ارباب اختیار سے یا تو روابط بڑھا کر یا ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بلیک میل اور اس طرح استحصال بالجبر کرتے ہیں۔ یوں ان اداروں یا ان کی مجلسوں میں شامل ہو کر خود کو اور اپنے حلقوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
قومی زیاں
یہ سب کچھ اس وجہ سے ہو تا ہے کہ ہمارے ہاں اداروں کی کارکردگی اور ان سے وابستہ افراد کی اہمیت کو جانچنے اور پرکھنے کا کوئی باقاعدہ طریقہ موجود نہیں۔ مالیاتی امور کی جانچ پڑتال تو شاید ہوتی ہو لیکن کارکردگی اور استعداد کار کو گاہے گاہے پر کھنے اور پھر باز پرس کی کوئی مستقل روایت نظر نہیں آتی۔ کتنے ہی ایسے ادارے ہیں جو غیر متعلق کاموں پر زرکثیر صرف کر دیتے ہیں۔ کوئی انھیں ٹوکنے والا نہیں۔ اس صورتِ حال میں ہم سب پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ ہم اس قومی زیاں کو روکیں اور علم و ادب کے فروغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور بد عنوانیوں کو دور کریں۔
اس ضمن میں حکومت کے ان متعلقہ افراد پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو اس قسم کی صورتحال کے تدارک کے زمہ دار ہیں۔ ایک طرح سے سارے ملک و ملت کی جانب سے علم و ادب اور تخلیق و تحقیق کی ترقی اور اس کے فروغ کے اداروں پر نگراں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ علم و ادب کے فروغ کا اہم اور موثر ذریعہ سرپرستی اور حوصلہ افزائی کا ہوتا ہے۔ اس لیے بالخصوص حکومت کو ایسے منصوبے تیار کرنے چاہیں۔
مصنفین اور محققین کی اعانت اور حوصلہ افزائی
مستقل مزاجی کے ساتھ ان منصوبوں کو روبہ عمل بھی لانا چاہئے جو تخلیق کاروں، مصنفین اور محققین کی اعانت اور حوصلہ افزائی کے باعث ہوں۔ ساتھ ہی ان کی کاوشوں کی مناسب اشاعت کا بندوبست بھی ہونا چاہیے۔ تا کہ سنجیدہ ، باوقار اور گوشہ نشین افراد کی کاوشیں منظر عام پر آتی رہیں۔ وہ اپنے مقابلہ میں نا اہل افراد کی پذیرائی اور اپنی معیاری کاوشوں کے مقابلہ میں غیر معیاری کاوشوں کی ستائش کو دیکھ کر نارسائی اور محرومی کے مزید شکار نہ رہیں۔
یوں بھی اداروں اور ان سے وابستہ اکابر کے احتساب کی کوئی تو روایت قائم ہونی چاہیے۔ تاکہ ادارے تعمیر کے عمل سے گزر کر اپنے مقاصد کماحقہ پورے کر سکیں۔ کیا علم و ادب کی یہ موجودہ کساد بازاری ایسی غیر اہم ہے کہ اس سے ہم اسی طرح حسبِ حال صرفِ نظر کیے رہیں… جو کچھ ہو رہا ہے اسے اسی طرح ہونے دیں۔ یا جو نہیں ہو رہا ہے ، اس کی کوئی جستجو نہ کریں؟