فیض احمد فیض

فیض احمد فیض کی نظموں کو مجموعی حیثیت سے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک ان اقدار کا تعلق ہے، جن کو شاعر نے ان میں پیش کیا ہے، وہ تو وہی ہیں، جو اس زمانے میں تمام ترقی پسند انسانیت کی اقدار ہیں۔  لیکن فیض نے ان کو اتنی خوبی سے اپنایا ہے کہ وہ نہ تو ہماری تہذیب و تمدن کی بہترین روایات سے الگ نظر آتی ہیں اور نہ شاعر کی انفرادیت، اس کا نرم ، شیریں اور مترنم انداز ِ کلام کہیں بھی ان سے جدا ہوتا ہے۔

 اس کے متحرک اور رواں استعاروں میں ہمارے وطن کے پھولوں کی خوشبو ہے۔  اس کے خیالات میں ان سچائیوں اور ان جمہوری مقاصد کی چمک ہے جن  سے ہماری قوم کی عظیم اکثریت کے دل روشن ہیں۔

اگر تہذیبی ارتقاء کا مطلب یہ ہے کہ انسان مادی اور روحانی مسرت سے نجات حاصل کر کے اپنے دلوں میں گداز ، اپنی بصیرت میں حق شناسی اور اپنے کردار میں استقامت و رفعت پیدا کریں اور ہماری زندگی مجموعی اور انفرادی حیثیت سے بیرونی اور اندرونی طور پر مصفا بھی ہو اور منتظر بھی ،  تو فیض احمد فیض  کا شعر غالبا ان تمام تہذیبی مقاصد کو چھو لینے کی کوشش کرتا ہے۔

سجاد ظہیر
لکھنو ، ۱۳ جنوری ۱۹۵۶ء

فیض احمد فیض کی منتخب غزلیں

دلبری ٹھہرا زبانِ خلق کھلوانے کا نام

غزل

دلبری ٹھہرا زبانِ خلق کھلوانے کا نام
اب نہیں لیتے پری رو زلف بکھرانے کا نام

اب کسی لیلی کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں 
ان دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام

محتسب کی خیر، اونچا ہے اسی کے فیض سے 
رند کا، ساقی کا، مے کا۔ خُم کا، پیمانے کا نام

ہم سے کہتے ہیں چمن والے، غریبان چمن! 
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

فیض ان کو ہے تقاضاۓ وفا ہم سے جنہیں 
آشنا کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام
🕮

تیری صورت جو دلنشیں کی ہے

غزل

تیری صورت جو دلنشیں کی ہے 
آشنا شکل ہر حسیں کی ہے

حسن سے دل لگا کے ہستی کی 
ہر گھڑی ہم نے آتشیں کی ہے

صبحِ گل ہو کہ شامِ مے خانہ 
مدح اس رُوۓ نازنیں کی ہے

شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں 
ہم نے توبہ ابھی نہیں کی ہے

ذکرِ دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے

اشک تو کچھ بھی رنگ لا نہ سکے 
خوں سے تر آج آستیں کی ہے

کیسے مانیں حرم کے سہل پسند 
رسم جو عاشقوں کے دیں کی ہے

فیض، اوجِ خیال سے ہم نے 
آسماں سندھ کی زمیں کی ہے
🕮

قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم

غزل

قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم 
سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم

کچھ امتحان دستِ جفا کر چکے ہیں ہم 
کچھ ان کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم

اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی 
قاتل سے رسم و راہ سوا کر چکے ہیں ہم

دیکھیں ہے کون کون، ضرورت نہیں رہی 
کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم

اب اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں 
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم

ان کی نظر میں ، کیا کریں ، پھیکا ہے اب بھی رنگ 
جتنا لہو تھا صرفِ قبا کر چکے ہیں ہم

کچھ اپنے دل کی خُو کا بھی شکرانہ چاہیے 
سو بار ان کی خُو کا گلا کر چکے ہیں ہم
🕮
ایک شعر

فیض کیا جانئے یار کس آس پر، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر

میکشوں پر ہوا محتسب مہرباں، دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آ گیا
فیض احمد فیض

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

غزل‎ 
‎ 
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے ‏‎ 
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے‎ 
‎ 
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں ‏‎ 
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے‎ 
‎ 
اک فرصتِ گناہ ملی، وہ بھی چار دن ‏‎ 
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے‎ 
‎ 
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا ‏‎ 
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے‎ 
‎ 
بھولے سے مسکرا تو دئیے تھے وہ آج فیض ‏‎ 
مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے
🕮

رازِ الفت چھپا کے دیکھ لیا

غزل

رازِ الفت چھپا کے دیکھ لیا
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے
ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا

آج اُن کی نظر میں کچھ ہم نے
سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا

فیض تکمیلِ غم بھی ہو نہ سکی
عشق کو آزما کے دیکھ لیا
🕮

وفائے وعدہ نہیں، وعدهء دگر بھی نہیں

غزل

وفائے وعدہ نہیں، وعدهء دگر بھی نہیں ‏
وہ مجھ سے رُوٹھے تو تھے ، لیکن اس قدر بھی نہیں

برس رہی ہے حریمِ ہوس میں دولتِ حسن
‏ گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں

نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں ‏
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں

نگاہِ شوق سرِ بزم بے حجاب نہ ہو ‏
وہ بے خبر ہی سہی، اتنے بے خبر بھی نہیں

یہ عہدِ ترک محبت ہے، کس لیے آخر ‏
سکونِ قلب ادھر بھی نہیں اُدھر بھی نہیں
🕮

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے

غزل

کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے ‏
مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی

کئی بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا ‏
مگر یہ چشمِ حیراں، جس کی حیرانی نہیں جاتی

نہیں جاتی متاعِ لعل و گوہر کی گراں یابی ‏
متاعِ غیرت و ایماں کی ارزانی نہیں جاتی

مری چشمِ تن آساں کو بصیرت مل گئی جب سے ‏
بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

سرِ خسرو سے نازِ کجکلاہی چھن بھی جاتا ہے ‏
کلاهِ خسروی سے بُوئے سلطانی نہیں جاتی

بجز دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے؟ ‏
جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی
🕮

تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے

غزل

تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے ‏

جنوں میں جتنی بھی گزری، بکار گزری ہے
اگر چہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے ‏

ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے ‏

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے ‏

نہ گُل کھلے ہیں ، نہ ان سے ملے، نہ مئے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

چمن پہ غارتِ گلچیں سے جانے کیا گزری ‏
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
🕮

رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام

رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام ‏
موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

دوستو، اُس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر ‏
گلستاں کی بات رنگیں ہے، نہ میخانے کا نام

پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں ‏
پھر تصور نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام

‏(ق)‏

دلبری ٹھہرا زبانِ خلق کھلوانے کا نام ‏
اب نہیں لیتے پری رو زلف بکھرانے کا نام ‏

اب کسی لیلی کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں ‏
ان دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام

محتسب کی خیر، اونچا ہے، اسی کے فیض سے ‏
رند کا، ساقی کا، مئے کا، خُم کا، پیمانے کا نام

ہم سے کہتے ہیں چمن والے، غریبان چمن! ‏
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

فیض ان کو ہے تقاضائے وفا ہم سے جنہیں ‏
آشنا کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام
۔۔۔❤۔۔۔
اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے