قتیل شفائی

قتیل شفائی کا اعجاز یہ ہے کہ موضوعات کے اتنے وسیع تنوع کو بھی اس نے غزل ہی کی زبان دی ہے ۔ صرف عاشقانہ غزل ہی نہیں بلکہ مترنم   عاشقانہ غزل میں قتیل کا کوئی جواب ہی نہیں کہ حفیظ جالندھری کے بعد قتیل ہی ہے جس نے اپنی غزل کے الفاظ کے آہنگ سے باقاعدہ موسیقی پیدا کی ہے ۔ چنانچہ قتیل جب یہ دعوی کرتا ہے تو وہ سچ بول رہا ہوتا ہے۔

قتیل ، حرف و ترنم کو ربط جو بخشے

 دیا ہوا وہ غزل کو شعور میرا ہے

اور کون نہیں جانتا کہ قتیل کی غزل جواں غزل ہے۔ توانا اور بھر پور غزل ، جس میں  آیندہ صدیوں تک زندہ اور جوان رہنے کی صلابت اور صلاحیت موجود ہے۔

احمد ندیم قاسمی

لاہور یکم مارچ ۱۹۸۵ع


قتیل شفائی کا منتخب کلام

ڈھیلا سلا لباس تو درزی کا کیا قصور

لکھی ہوئی کمر ہی نہ تھی تیرے ناپ

      بیٹے کے ساتھ روز نئی ایک داشتا

خوبی بھلا کہاں تھی یہ مرحوم باپ میں

غش کھا گیا میں اس کے قدم چوم کر قتیل

وہ آ گیا تو میں نہ رہا اپنے آپ میں

🕮

قتیل شفائی


میں اس کا دوست ہوں وہ اعتراف کرتا تھا

غزل

میں اس کا دوست ہوں وہ اعتراف کرتا تھا

مگر وہ باتیں بھی میرے خلاف کرتا تھا

سنا ہے گِر کے مرا بادلوں کی سیڑھی سے

وہ آسمان کی چھت میں شگاف کرتا تھا

بنا ہوا ہے وہ چھوٹا سا ایک درباری

مزاجِ شاہ سے جو اختلاف کرتا تھا

کمال ہے کہ ہوا وہ بھی نذرِ بے خبری

جو ہم پہ روز نئے انکشاف کرتا تھا

جنابِ شیخ سے پہلے خدا بھی تھا منصف

مگر وہ سب کی خطائیں معاف کرتا تھا

وہ قتل ہو گیا بدصورتوں کی محفل میں

جو سارے شہرکے آئینے صاف کرتا تھا

قتیل اب تو مزاروں کا بھی وہ قائل ہے

خدا سے بھی جو کبھی انحراف کرتا تھا

🕮


ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے

famous urdu poet qateel shifai قتیل شفائی
قتیل شفائی

قتیل شفائی

کی

ایک غزل سے تین اشعار

__________

شہر میں ہے یہ حال ترے دیوانے کا

جس رستے سے گُزرے، پتھر لگتا ہے

 چوٹ بھی کھا کر جب وہ چومے پتھر کو

ایسے میں انسان پیمبر لگتا ہے

 اس نے ہاتھ چھُڑا کر موڈ بگاڑ دیا

اب وہ مجھ کو زہر برابر لگتا ہے

🕮


ایک شعر

ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس تھم جائے

قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں

٭ – ٭ – ٭

بھٹک  رہا  ہے   در   بدر ، کبھی اِدھر کبھی اُدھر

غزل

بھٹک  رہا  ہے   در   بدر ، کبھی اِدھر کبھی اُدھر

یہ  دِل  یہ  میرا  ہمسفر ، کبھی اِدھر کبھی اُدھر

کبھی  اِدھر  اُداس  ہم، کبھی  اُدھر  وہ آنکھ نم

بس  ایک  غم  کا  ہے اثر، کبھی اِدھر کبھی اُدھر

سِرک  رہی  تھی  وہ نظر، کبھی اِدھر کبھی اُدھر

اگرچہ   ہم   قریب   تھے، مگر  وہیں  رقیب  تھے

خیال  یوں  رُکیں مُڑیں، کہ جیسے دم بہ دم اُڑیں

گھٹائیں   آسمان   پر ،  کبھی   اِدھر  کبھی  اُدھر

مفاہمت   پہ   غور   تھا،   منافقت   کا   زور   تھا

کسی کا جُھک رہا تھا سر، کبھی اِدھر کبھی اُدھر

بتاؤں  دوست  کیا  تجھے،  لیے  لیے  پھرا  مجھے

خلاؤں  میں  وہ  راہبر ،  کبھی  اِدھر  کبھی اُدھر

غزل  کا  وہ   طلُوع  تھا ، قتیلؔ  جب  شروع  تھا

خُنک   ہواؤں  کا  سفر ، کبھی  اِدھر  کبھی  اُدھر

قتیلؔ شفائی

٭ – ٭ – ٭

اس نے کتنے پیار سے اپنا کفر دیا نذرانے میں

اس نے کتنے پیار سے اپنا کفر دیا نذرانے میں

ہم اپنے ایمان کا سودا جس سے کرنے آئے تھے

کیسا پیارا منظر تھا جب دیکھ کے اپنے ساتھی کو

پیڑ پہ بیٹھی اک چڑیا نے اپنے پر پھیلائے تھے

٭ – ٭ – ٭

اس کی حسین راتوں کا جو لے سکے حساب

اس کی حسین راتوں کا جو لے سکے حساب

کہتی  ہے وہ ابھی کوئی پیدا نہیں ہوا

یا اس نے دل کسی کو دیا ہی نہیں ابھی

یا اس پہ آج تک کوئی شیدا نہیں ہوا

* – * – *

عمر پوشی – نظم

میں نے پوچھا

 منے ! تم کیوں اپنی امی جان کو باجی کہتے ہو

منا بولا

باجی بھی تو نانی جی کو آپا آپا کہتی ہیں

اس بازار کا جو کو ٹھا ہے اس کی ریت نرالی ہے

 یہاں تو ماں کو ماں کہہ دینا سب سے گندی گالی ہے
قتیل شفائی کی ایک نظم
عمر پوشی – نظم
اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے