قلوپطرہ

قلوپطرہ , دنیا کی حسین ترین اور دور اندیش عورت۔ اس نے انتالیس برس کی عمر میں خود کشی کر لی۔ دنیا کے دو عظیم ترین شخص اس کے دامِ محبت میں گرفتار رہے۔

یہ اس حسین ترین عورت کی زندگی کی داستان کا ایک حصہ ہے جسے دیکھتے ہی مردوں کے خون کی گردش تیز ہو جایا کرتی تھی۔ اس کا نام قلوپطرہ تھا۔ قلوپطرہ، سر زمینِ مصر کی دیوی صفت ملکہ، نیل کی جادو گرنی۔ اسے مرے ہوئے دو ہزار سال ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کی شہرت صدیوں کی حدود و قیود سے آزاد چڑھتے ہوئے سورج کی مانند بڑھتی چلی جارہی ہے۔

اس نے انتالیس سال کی عمر میں خود کشی کر لی تھی۔ لیکن اس مختصر سی زندگی میں اس نے دنیا کے دو عظیم ترین انسانوں کو اپنی محبت کے جادو میں گرفتار کر لیا تھا۔ ان کے نام تھے مارک انطونی اور جولیس سیزر۔ مؤخر الذکر کا احترام آپ اتنی ہی مرتبہ کریں گے جتنی مرتبہ آپ جولائی کے مہینے کا نام لیں گے۔ کیونکہ اس مہینے کا نام اس کی یاد میں رکھا گیا ہے۔ سیزر نے عملاً پوری دنیا فتح کر لی تھی۔ لیکن چھوئی موئی قلوپطرہ نے اسے فتح کیا اور یہ اس نے کیسے کیا؟ یہ کہانی تاریخ میں ایک ڈرامائی حیثیت رکھتی ہے۔

جولیس سیزر
جولیس سیزر

حضرت یسوع مسیح علیا شاہ کی پیدائش سے اڑتالیس سال قبل جب جولیس سیزر کا جنگی بیڑا سکندریہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تو اس زمانے میں قلوپطرہ کی حالت بڑی خراب ہوا کرتی تھی۔ اس کا تخت اس سے چھن چکا تھا اور وہ پائی پائی کی محتاج تھی۔ ہر وقت اسے اپنے قتل کا دھڑ کا لگا رہتا تھا۔ اس نے اپنے بھائی سے شادی کر لی تھی۔ لیکن ان دونوں میں خانگی جھگڑے بے حد طوالت اختیار کر چکے تھے۔ اس کے بھائی نے اس پر حملہ کر دیا تھا۔ وہ اپنی جان بچانے کے لئے قاہرہ سے بھاگ گئی تھی۔ سیزر نے اسے اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ لیکن وہ اس کے سامنے کیسے آتی؟

یہ ایک مسئلہ تھا کیونکہ سکندریہ اس کے بھائی کے جاسوسوں سے بھرا پڑا تھا۔ اگر وہ پکڑی جاتی تو اس کا مطلب موت تھا۔ آخر کار ایک اندھیری رات کو وہ اپنے ملازم کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے کی ایک کشتی میں بیٹھ کر سکندریہ میں داخل ہوئی۔ اس کے ملازم نے اس کو ایک غالیچے میں لپیٹ رکھا تھا۔ جسے اب محل کے اندر پہنچایا جانا تھا۔

محل کے اندر پہنچ کر قلو پطرہ کے ملازم نے سیزر کی نظروں کے سامنے غالیچہ کھولا۔ قلو پطرہ اس کے اندر سے نکل کر مسکرانے لگی اور کمرے میں تھر کنے لگی تو اس کے بلوریں اور مرمریں بدن کو دیکھتے ہی حیرت زدہ سیزر کے خون کی گردش بڑھ گئی۔ ایسا جادوئی منظر اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ منہ ہی منہ میں بدبدانے لگا۔ ایسی حسینائیں روم میں کیوں نہیں ہیں؟“

سیزر کی عمر اس وقت چون 54سال تھی۔ اس کا سر گنجا ہو چکا تھا۔ قلوپطرہ اس وقت عمر کے اکیسویں سال میں تھی۔ قلوپطرہ کو دیکھتے ہی سیزر کو ایسا لگا کہ جیسے کوئی طوفانی لہر اسے اٹھا کر محبت کے دھند زدہ جزیروں پر چھوڑ آئی ہو۔ اس کی ذہانت اور جذبات کی اشتعال انگیزی نے سیزر کوزندگی بھر کے لئے قلو پطرہ کا غلامِ بے دام بنا دیا۔

اس کا بھائی اس کی ہلاکت کا متمنی تھا۔ سیزر نے قسم کھائی کہ وہ اس نوجوان کو ایک ایسا سبق سکھائے گا کہ جو اس کو عمر بھر یاد رہے گا۔ اس نے بہادر رومی سپاہیوں کو مصری فوج پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور قلو پطرہ کے بھائی کا تعاقب دریائے نیل تک کیا۔ جہاں وہ ڈوب کر مر گیا۔

اس کے بعد قلو پطرہ بلا روک ٹوک مصر کی ملکہ بن گئی اور فرعون کی سر زمین پر اس کا قبضہ ہو گیا۔ کئی ماہ بیت گئے۔ سیزر کا قلوپطرہ سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ سیزر کی ایک بیوی روم میں بھی تھی۔ اس لئے وہ مروجہ قانون کی وجہ سے قلو پطرہ سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اس بات سے واقف تھا کہ لوگ اس کے خلاف باتیں کریں گے۔ اس لئے لوگوں کی زبان کو لگام دینے اور اپنے بیٹے کو سیزر کا جائز وارث بنانے کے لئے قلوپطرہ نے ایک بہت ہی شاندار چال چلی۔

اس نے پادریوں کو حکم دیا کہ وہ سیزر کو ایک انسان کی بجائے دیوتا قرار دیں۔ اب وہ سورج کے دیوتا امون کا اوتار تھا اور سیزر کے بھیس میں ان کی ملکہ کو ایک بیٹا دینے کے لئے آیا تھا۔ حالانکہ آج یہ کہانی بہت ہی عجیب سی لگتی ہے لیکن آج سے دو ہزار سال قبل لوگوں نے اس پر یقین کر لیا تھا۔ اگر قلو پطرہ ہمارے زمانے میں ہوتی تو اسے اس داستان گوئی کی سزا بھگتنی پڑتی۔

اس کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد سیزر قتل ہوگیا اور شرابی اور مقروض انطونی روم کا سب سے طاقتور انسان بن گیا۔ اپنی فتح کے نشے میں چور اس نے مشرق پر حملہ کیا اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیا اور خود بھی ایک غیر اخلاقی زندگی بسر کرنے لگا۔ اس وقت مصر مشرق کا امیر ترین ملک تھا۔ اس لئے انطونی کے بعض عقیدت مندوں نے اس سے کہا۔ "آئیں! سکندریہ چل کر قلو پطرہ کا سر اڑا کر مصر میں عیش و عشرت کا بازار گرم کریں۔”

یہ خبر سن کر قلو پطرہ کانپ گئی۔ وہ انطونی کو کیسے روکے؟ جنگ و جدل سے نہیں، پیار و محبت سے۔ ہاں یہ طریقہ کامیاب رہے گا۔ اس کے گرد ایک الف لیلوی ماحول تھا۔ اس نے اپنی نشست کے آس پاس محبت کے دیوتا کیوپڈ کی علامت کے طور پر کئی خوبصورت لڑکوں کی تصویریں بنوائی تھیں جو اسے مور چھیل سے پنکھا جھل رہے تھے۔ آس پاس کئی جذبات انگیز خادمائیں تھیں جنہوں نے ریشمی ملبوسات پہن رکھے تھے۔ وہ صحرائی موسیقی کی لہروں پر ناچ رہی تھیں۔ طرح طرح کی خوشبوؤں اور صندل اور لوبان کے جلنے سے ماحول نشیلا بنا ہوا تھا۔ اس سارے طلسمی ماحول میں قلوپطرہ بذات خود ایک ابریشمی صوفے پر محبت کی دیوی وینس کا روپ دھار کر بیٹھی ہوئی تھی۔

مارک انتھونی
مارک انتھونی

اب اگر آپ مارک انطونی ہوتے تو خود ہی بتائیے کہ آپ کیا کرتے؟ انطونی اس ساری فسوں کاری کے آگے بے بس ہو گیا۔ اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش ہی نہ کی۔ انطونی ایک بڑا سخت، اکھڑ اور بد تہذیب آدمی تھا جو عورتوں کے اجتماع میں بڑا خوش رہتا تھا اور بعض اوقات اپنے ملک کو بھی بدنام کرنے سے گریز نہ کرتا۔ اور اب قلو پطرہ جو کہ ایک عظیم نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ نہایت مہذب اور شائستہ خاتون تھی اور شعروں میں بات کیا کرتی تھی۔ اس کی بیوی بن گئی۔

وہ بے طرح اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ جس سے اس کی ہنگامہ خیز اور وحشت بھری زندگی میں ایک سکون سا آ گیا۔ وہ اپنی بیوی کا اتنا دیوانہ ہوا کہ گزشتہ دو ہزار سالوں میں انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

قلوپطرہ مردوں کو قابو کرنا جانتی تھی ۔ اس نے انطونی کے انداز و اطوار کی پرواہ نہ کی۔ وہ سب کچھ اس کی خواہش کے مطابق کرتی تھی۔ وہ اس کے ساتھ شمشیر زنی کرتی اور شکار کھیلنے جایا کرتی تھی۔ بعض اوقات وہ ایک غلام کا بھیس بدل کر اس کے ساتھ رات کے وقت گلیوں میں گھومتی پھرتی۔

ایک بار وہ دریائے نیل میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ انطونی کے ہاتھ کوئی مچھلی نہ لگ رہی تھی۔ اس نے قلوپطرہ سے اس کی شکایت کی۔ قلوپطرہ نے اپنے ایک ملازم کو حکم دیا کہ وہ چوری سے ایک مچھلی لے کر جہاز کے عقب سے ہو کر دریا میں اتر جائے اور پانی کے اندر غوطہ لگا کر وہ مچھلی انطونی کے کانٹے کے اندر پھنسا دے۔

قلو پطرہ اس کا بڑا خیال رکھتی تھی اور اس کے لئے قسم قسم کے کھانے تیار کیا کرتی تا کہ جس وقت انطونی کو کھانے کی خواہش ہو تو اسے جو چاہے مل جائے ۔ قلوپطرہ کی اس خدمت گزاری اور وفا شعاری پر انطونی اس کا اتنا گرویدہ ہو گیا تھا کہ ہوش و حواس بھی کھو بیٹھا تھا۔ اس نے تحفے کے طور پر اپنے مفتوحہ علاقے قلو پطرہ کو دے دیئے تھے۔ ان میں قبرص کا جزیرہ بھی شامل تھا۔

اس کی دریا دلی کا نقطہ عروج یہ تھا کہ اس نے سارے کا سارا ایشیا قلوپطرہ کو دے دیا تھا۔ ان تحائف کی خبر جب روم میں پہنچی تو وہاں کے لوگ نفرت اور غصے سے کھولنےلگے۔ سینکڑوں لڑائیوں بھڑائیوں کے بعد اہل روم کے قیمتی خون سے حاصل کئے جانے والے یہ علاقے ایک مصری حسینہ کی عشوہ طرازیوں پر اس طرح نچھاور کر دیئے جائیں گے؟

اس کا جواب جنگ تھا۔ قلوپطرہ کے دن بیت چکے تھے۔ وہ اپنا کھیل کھیل چکی تھی۔ روم غصے سے مشتعل ہو گیا۔ اس نے قلو پطرہ اور انطونی کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے جہاز بھی نیست و نابود کر دیے۔ وہ اپنے انجام سے باخبر تھے۔ انطونی کو پتہ تھا کہ اگر وہ زندہ گرفتار ہو گیا تو اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ اس لئے اس نے اپنے سینے میں چھرا گھونپ لیا اور مر کر اس سے چھٹ گیا۔

قلوپطرہ نے قسم کھائی کہ وہ بھی گرفتار نہیں ہوگی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے ہاتھ پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر اسے روم میں گھمایا جائے اور لوگ اس پر آوازیں لگائیں۔ اس لئے اس نے زہر کھا کر خود کشی کر لی۔ اس نے کس طرح یہ خودکشی کی، یہ راز کبھی کوئی نہ کھول سکے گا۔ وہ لوگ بھی اس سر بستہ راز کو کھولنے میں ناکام رہے تھے جو اس کی موت کے بیس منٹ کے بعد ہی اس کے کمرے میں پہنچ گئے تھے۔

اکثر یہ کہتے ہیں کہ پہلے اس نےدانتوں سے اپنے بازو پر کا ٹا تھا اور پھر زخموں میں زہر ڈال لیا تھا۔ اکثر یہ کہتے ہیں کہ اس نے پھولوں کی ٹوکری میں ایک سانپ ڈلوا کر اپنے کمرے میں منگوایا تھا اور جب دشمن کی فوجیں اس کے محل کا دروازہ توڑ رہی تھیں تو اس نے اس سانپ سے اپنی چھاتی پر ڈسوالیا تھا۔

آج وہ مصر ہی میں کہیں مارک انطونی کے پہلو میں دفن پڑی ہوئی ہے۔ وہ کون سی جگہ ہے، یہ بھی ایک سربستہ راز ہے۔ اگر آپ اسکندریہ جا کر اس کی قبر تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو آپ بڑے دولتمند ہو سکتے ہیں اور دنیا بھر کے اخبارات میں آپ کا نام جلی حروف میں شائع ہوگا۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے