جب کوئی شخص مثبت سوچ اپنا لیتا ہے تو اُس کی ذات میں موجود تمام مثبت قوتیں حرکت میں آ جاتی ہیں اور ناکامی کے منفی خیالات کو باہر دھکیل دیتی ہیں۔
مثبت سوچ اور کامیابی
"میں اگرچہ گاؤں میں رہتا ہوں لیکن میں نے ہمیشہ مثبت سوچ کو اپنایا ہے۔” دیہاتی لڑکے نے شرم سے سر جھکاتے ہوئے مجھ سے کہا۔” کیا میں آپ کے ساتھ چند قدم چل سکتا ہوں؟” اُس نے بتایا کہ وہ کئی سال سے زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے موضوع پر کتابیں پڑھ رہا ہے۔
” میں نے آپ کی کتابیں بھی پڑھی ہیں۔ جو آدمی کے خیالات کو مثبت بنانے میں مدد دیتی ہیں۔” اُس نے بتایا کہ مجھے آپ کی پہلی کتاب میری ماں نے تحفے میں دی تھی۔ اُس وقت میں ایک بچہ تھا۔ لیکن اب میں بڑا ہو چکا ہوں اور اپنی منزل پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
”اور تم کیا بننا چاہتے ہو؟” میں نے اُس سے پوچھا۔
”میں چاہتا ہوں کہ وکیل بنوں اور ہو سکتا ہے کہ بعد میں، میں سیاست کے میدان میں آ جاؤں لیکن مجھے یہ سب کچھ ایک خواب سا لگتا ہے۔ کیونکہ ہم بہت غریب ہیں۔ وکیل بننے کے لئے پہلے کالج میں داخل ہونا پڑتا ہے اور پھر وکالت کا کورس کرنا پڑتا ہے۔ لیکن میرے خاندان کے سب لوگ کھیتوں پر کام کرتے ہیں اور آج تک کوئی کالج نہیں گیا۔”
اُس لڑکے کے ساتھ میری یہ بات چیت اُس وقت ہوئی جب میں ایک ہوٹل میں تقریر کرنے کے بعد واپس جا رہا تھا۔ اُس لڑکے نے مجھے بتایا کہ اُس کی عمر تیرہ سال ہے۔ اُس نے اخبار میں میری تقریر کے بارے میں ایک اشتہار دیکھا تھا۔ اور اس اشتہار کو دیکھ کر ہی وہ ہوٹل میں میری تقریر سننے آیا تھا۔ پھر اُس نے مجھ سے پوچھا۔ "کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ میرا وکیل اور سیاست دان بننے کا خواب پورا ہو گا یا نہیں؟ آپ مجھے کوئی اچھا سا مشورہ بھی دیں تاکہ میں اپنی منزل پر پہنچ سکوں۔“
شدید خواہش، سچی لگن اور خدا پر یقین
لڑکے کا گفتگو کا انداز اچھا اور متاثر کرنے والا تھا۔ وہ غریب تھا، گاؤں میں رہتا تھا اور وکیل بننے کا خواہش مند تھا۔ میں نے اُس سے کہا۔ بچے تمہارے اندر وکیل بننے کی شدید خواہش ہے۔ اس لئے تم ضرور وکیل بننے میں کامیاب ہو جاؤ گے۔ کسی کام کی شدید خواہش اور سچی لگن ایک قیمتی چیز ہے جو آدمی کو ضرور منزل تک لے جاتی ہے۔ تم نے بس کا کرایہ خرچ کیا اور یہاں تک پہنچے۔ یہ تمہاری اسی شدید خواہش کی وجہ سے ہوا۔ تم ذہین ہو۔ یہ تمہارے چہرے سے ظاہر ہوتا ہے۔ تم مثبت سوچ رکھتے ہو۔ اس لئے خدا پر یقین رکھو اور اپنے ذہن سے ہر قسم کے شک کو نکال دو۔ تمہاری خواہش ضرور پوری ہو گی۔
”میں نے ایک کارڈ نکالا اور اُس پر یہ الفاظ لکھے۔ میں سب کچھ کر سکتا ہوں کیونکہ خُدا نے مجھے اس کی طاقت دی ہے۔“ میں نے اُس سے پوچھا۔ کیا تمہیں خُدا پر یقین ہے؟
اُس نے کہا۔ ہاں! مجھے خُدا پر پورا یقین ہے۔ میں نے کہا تو پھر ٹھیک ہے۔ خُدا بھروسہ رکھنے والوں کی ہمیشہ مدد کرتا ہے۔ تم پکا ارادہ کر لو۔ تم اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہو گے اور اپنی منزل پر ضرور پہنچو گے۔میں نے کارڈ پر جو الفاظ لکھ کر اُسے دیئے تھے اُن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے اُس سے کہا۔ ان کو پڑھتے رہنا۔ یہ تمہاری مدد کریں گے۔
مثبت سوچ سے لوگ کیسے کامیابی حاصل کرتے ہیں
ایک دفعہ اٹلانٹا کے ہوائی اڈے پر مجھے ایک پرانا دوست مل گیا۔ ہم لاؤنج میں بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کرنے لگے۔ میرا یہ دوست ایک ادارے میں بزنس ایگزیکٹو تھا۔ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ مثبت سوچ سے لوگ کیسے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ تم لوگوں کو کارڈ پر کچھ الفاظ لکھ کر دیتے ہو جن کی مدد سے وہ مثبت سوچ اپنا کر کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
میں نے اپنے دوست سے کہا کہ جب کوئی شخص کسی کام کو اچھی طرح کرنے میں ناکام ہو جائے تو اُسے کام نہیں بدلنا چاہیے بلکہ اپنے آپ میں تبدیلی لانی چاہیے۔ لیکن جب کوئی شخص کئی بار مثبت کوششیں کرنے کے باوجود کسی کام کو اچھی طرح کرنے میں ناکام ہو جائے تو پھر اُس کو اپنا کام تبدیل کر دینا چاہیے۔ جو شخص اپنے آپ کو تبدیل کر لے، وہ ہر چیز کو تبدیل کر سکتا ہے کیونکہ ذہنی تبدیلی کے ساتھ آدمی کا سب کچھ بدل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کے حالات بھی بدل جاتے ہیں۔
اپنی کمزوریوں کا جائزہ لو
ایک مرتبہ ایک نوجوان سیلز مین نے مجھ سے کہا ” میں کیا کروں، میں مثبت سوچ پیدا کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے کامیابی نہیں ہوتی۔“ میں نے اُس سے کہا کہ تم اپنی ملازمت جاری رکھو۔ مثبت سوچ پیدا کرنے کے ابھی بہت موقعے آئیں گے۔ تم اپنے ذہن سے یہ منفی خیال نکال دو کہ تم بے وقوف اور نکمے ہو۔ تم اپنی تمام کمزوریوں کا جائزہ لو۔ انہیں اپنے سامنے رکھو اور ایک ایک کر کے اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت میں بدل دو۔ اس طرح تم میں مثبت سوچ پیدا ہو گی اور تمہاری شخصیت بالکل بدل جائے گی۔
یہ نوجوان دراصل بے یقینی کا شکار تھا۔ میں نے صرف اتنا کیا کہ اُس میں یقین کی طاقت کو بیدار کر دیا۔ اُس کو بتا دیا کہ وہ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جاتے جاتے اُس سیلز مین نے مجھ سے پوچھا کہ میرا باس مجھ سے کیسے متاثر ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا کہ جب تم اپنے آپ کو تبدیل کر لو گے تو تمہارا باس بھی تم سے متاثر ہونے لگے گا۔
مثبت سوچ نفسیات دانوں کے مطابق
ماہر نفسیات ولیم جیمز کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص مثبت سوچ اپنا لیتا ہے تو اُس کی ذات میں موجود تمام مثبت قوتیں حرکت میں آ جاتی ہیں اور اُس کے منفی خیالات کو باہر دھکیل دیتی ہیں۔ جو لوگ مثبت ہونے کا پکا ارادہ کر لیتے ہیں اُن میں ضرور مثبت سوچ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ مشہور ماہر نفسیات جیمز ایم بیری کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم ترین سوال ہے کہ لوگ کسی کام کو کرنے میں آخر ناکام کیوں رہتے ہیں۔؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ناکام رہنے والے لوگ دراصل کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش نہیں کرتے۔ وہ اپنے اندر ہمت، عزم، ارادے اور حوصلے کو بیدار نہیں کرتے۔ اُن کے دماغ میں پہلے ہی سے اس خیال نے پنجے گاڑھ رکھے ہوتے ہیں کہ وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔ اس لئے وہ ناکام رہتے ہیں۔
میں نے کامیابی حاصل کرنے والے بہت سے لوگوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور بڑی گہرائی میں جا کر اُن کا جائزہ لیا ہے اور اُن کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔ میں نے ان تمام لوگوں میں ایک بات مشترک پائی ہے یعنی مثبت سوچ کی یہ خوبی ان سب میں موجود تھی۔ یہ سب لوگ ارادے اور یقین کے معاملے میں بہت پکے تھے۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اُنہوں نے کیا کرنا ہے۔ وہ اپنی منزل کو سامنے رکھ کر کام شروع کرتے تھے۔
یقینِ کامل
اس طرح اُن کی ساری قوتیں اور ساری توجہ کامیابی حاصل کرنے پر مرکوز رہتی تھی اور اُن کے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹیں دور ہو جاتیں۔ ان لوگوں میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ یقین کامل رکھتے تھے اور اُن کی سوچ مثبت تھی۔ اُن کا دماغ ہر قسم کے شک و شبے سے پاک تھا اور انہیں مکمل یقین تھا کہ وہ ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔
آرتھر ریبلوف امریکہ میں پراپرٹی کا کاروبار کرنے والا ایک بہت ہی مشہور شخص ہے۔ پورے امریکہ میں بے شمار بڑے بڑے سٹور ، عمارات اور پلازے اُس کی ملکیت ہیں اور ان بڑی بڑی عمارتوں پر ریبلوف کا نام لکھا ہوا ہے۔ آرتھر ایک انتہائی غریب خاندان میں پیدا ہوا۔ شروع میں اُس نے اخبار بچنے کا کام کیا۔ پھر جوتے پالش کئے۔ پھر ایک بحری جہاز پر ملاح کا کام کیا۔ یہ معمولی کام کرتے ہوئے بھی آرتھر ریبلوف بڑے بڑے خواب دیکھتا رہا اور اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے مسلسل جدوجہد کرتا رہا۔ وہ ذہین تو تھا ہی اُس کی سوچ بھی انتہائی مثبت تھی۔ اسی مثبت سوچ نے اُسے بلند ترین مقام پر پہنچایا۔
ایک آفاقی سچائی
شکاگو کے ایک اور بہت ہی کامیاب شخص کلیمنٹ سٹون کے بھی اسی قسم کے خیالات تھے۔ وہ بچپن میں اخبار بیچا کرتا تھا لیکن آج کروڑوں ڈالر کی جائیداد کا مالک ہے۔ کلیمنٹ نے ایک میگزین میں مضمون لکھا تھا۔ جس میں اُس نے اس بات پر زور دیا تھا کہ صرف یہ تہیہ کر لینا کہ میں فلاں کام کر سکتا ہوں، انسان کو کامیابی کی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔
اُس نے مزید لکھا کہ زیادہ تر لوگ صرف اپنی منفی سوچ کی وجہ سے کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر یہ لوگ منفی خیالات سے نجات حاصل کر کے اپنے اندر یہ اعتماد اور یقین پیدا کر لیں کہ وہ فلاں کام کر سکتے ہیں تو انہیں ہر صورت میں کامیابی حاصل ہو گی کیونکہ یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ صحیح سوچ سے صحیح عمل پیدا ہوتا ہے۔ جو لوگ اچھی نیت، نیک ارادے اور صحیح خیالات رکھتے ہیں اور بھرپور اعتماد اور یقین کے ساتھ مسلسل کوشش کرتے ہیں ۔ خُدا اُن کے لئے ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے جو انہیں کامیابی کی منزل تک لے جاتے ہیں۔
مثبت سوچ رکھنے والے لوگ کامیابی کے راستے میں آنے والی ہر مشکل کو شکست دیتے ہیں۔
مثبت سوچ رکھنے والے لوگ کامیابی کے راستے میں آنے والی ہر مشکل کو شکست دیتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مسلسل کوشش کریں۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کریں اور اُن کی فیلڈ یعنی شعبے کے بارے میں جو کتابیں اور لٹریچر موجود ہے اُس کا مطالعہ کریں۔ اس طرح یہ تمام باتیں اُن کے لاشعور میں اتر جائیں گی اور مقاصد کے حصول کی منزل خود بخود اُن کے قریب آنے لگے گی۔
میں نے ایک مرتبہ اپنے دوست جان کے فارم پر چند دن اُس کے ساتھ گزارے۔ یہ فارم تقریباً ساڑھے چار ہزار ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ اس فارم کے علاوہ بھی جان کی کئی جائیدادیں تھیں۔ ہانگ کانگ میں اُس کا ایک بہت بڑا پلازہ تھا۔ جان کوئی خاندانی رئیس نہیں تھا۔ وہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ اُس کے باپ کے پاس صرف بیس ایکٹر زمین تھی اور وہ زمین بھی پتھریلے علاقے میں تھی۔
جان پیدل سکول جاتا جہاں غربت کی وجہ سے اکثر اوقات اُسے شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب دنیا کے بڑے بڑے لوگوں سے جان کے ذاتی تعلقات ہیں۔ جان کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں اپنے ذاتی ایئر پورٹ سے اُڑتا ہے تو اکثر اُسے وہ بیس ایکڑ پتھریلی زمین دکھائی دیتی ہے جہاں اُس نے اپنا بچپن گزارا تھا اور جہاں اُس کا باپ غربت کے عالم میں اپنے ہاتھوں سے مٹی کھود کر اناج پیدا کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ انتہائی غربت کے اس ماحول میں جان نے کامیابی کیسے حاصل کی۔ یہ وہ معجزہ ہے جس پر یقین نہیں آتا۔
کامیابی کا راز
اپنی کامیابی کے بارے میں جان کا کہنا ہے کہ اس کامیابی میں سب سے پہلی چیز میری شدید خواہش تھی اور دوسری چیز میرا عزم، ارادہ اور یہ یقین کامل تھا کہ میں کامیابی ضرور حاصل کروں گا۔ جان کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ لوگوں سے خوشگوار تعلقات رکھتا ہوں۔ دوست مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ میرے ملازم میری دولت مندی کی وجہ سے نہیں میرے اچھے سلوک کی وجہ سے میرا احترام کرتے ہیں۔ میں بھی اُن کو ملازم نہیں بلکہ اپنا دوست ہی تصور کرتا ہوں۔
جان نے مزید بتایا کہ میں نے کبھی تحمل مزاجی کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنی سوچ کو ہمیشہ مثبت رکھا ہے۔ میری تحمل مزاجی اور مثبت سوچ ہی میری کامیابی کا راز ہے۔ کسی شخص کو اگر اپنی ذاتی زندگی میں کسی مقصد کو حاصل کرنا ہو تو اُس کے اندر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے زبردست تحریک اور شدید خواہش ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُسے کامیابی کا پختہ یقین ہونا چاہیے۔ اسی کا نام مثبت سوچ ہے۔
ابراہم لنکن
ابراہم لنکن میرا دوست بھی ہے اور مشہور مقرر اور ماہر نفسیات بھی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا لیکن اُس نے کبھی بھی غربت کو تسلیم نہیں کیا۔ اُس نے کہا ”میں نہیں چاہتا تھا کہ غریب رہوں۔ میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ میں غربت کو ہر قیمت پر شکست دوں گا اور پھر میں نے مثبت سوچ پیدا کی۔ ابراہم لنکن محنتی، جفاکش اور مثبت سوچ رکھنے والا شخص تھا۔ ماں کے الفاظ نے اُس کے اندر ایک نئی توانائی پیدا کر دی تھی جس نے اُسے مزید متحرک کیا۔ وہ پختہ یقین کے ساتھ مسلسل کام کرتا رہا اور ایک دن امریکہ کا صدر بن گیا۔
ولمپک چیمپئن: جیسی اوونزا (Jesse Owens)
مثبت سوچ، مسلسل محنت اور قوتِ یقین وہ صلاحیتیں ہیں جن کی مدد سے مشکل سے مشکل کام کیا جا سکتا ہے۔ اولمپک چیمپئن: جیسی اوونز (Jesse Owens) کا نام بھی ان عظیم لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے مثبت سوچ کی مدد سے ناقابل فراموش کارنامے سر انجام دیئے۔ اگرچہ جیسی انکساری سے کام لیتے ہوئے اپنے کارناموں کو بہت بڑے کارنامے نہیں سمجھتا لیکن امریکہ میں کھیلوں کے مبصرین اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ امریکی تاریخ میں جیسی سے بڑا کوئی اتھیلیٹ نہیں ہے۔
ایک دفعہ ایک عشائیے میں میری جیسی (Jesse) سے ملاقات اور گفتگو ہوئی ۔ جیسی نے بتایا کہ وہ ایک انتہائی غریب سیاہ فام گھرانے میں پیدا ہوا۔ سیاہ فام ہونے کی وجہ سے کوئی ان کی عزت نہیں کرتا تھا۔ غربت کی وجہ سے ہمیں روٹی ملنا بھی مشکل تھا۔ جیسی کا کہنا تھا کہ گو ہم غریب تھے لیکن ہماری روحیں امیر تھیں۔ جیسی نے بتایا کہ جب میں پیدا ہوا تو عام بچوں کے مقابلے میں میرا وزن بہت کم تھا۔ میری ماں اکثر مجھے کہتی کہ میرا بیٹا بہت بڑا آدمی بنے گا۔ لیکن میں کیسے بڑا آدمی بنوں گا؟ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی تھی۔
ہم لوگ غریب تھے۔ کوئی ہماری عزت نہیں کرتا تھا۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے ہمارے پاس کوئی سہارا نہیں تھا۔ تو پھر میں کیسے بڑا آدمی بن سکتا ہوں۔؟ یہ وہ سوال تھا جو میں پنی ماں سے پوچھتا۔ میری ماں جواب دیتی۔ "خُدا پر بھروسہ رکھو۔ وہ ضرور دکھائے گا اور تمہاری مدد کرے گا۔”
اتھلیٹ چارلی پیڈوک
ہمارے سکول میں صبح کے وقت میدان میں بچوں کی اسمبلی ہوتی تھی۔ ایک روز اُس زمانے کے ایک بڑے اتھلیٹ چارلی پیڈوک نے بچوں سے خطاب کیا۔ یہ مشہور کھلاڑی سکولوں میں جا کر بچوں سے خطاب کیا کرتا تھا اور اپنے کارنامے بیان کرتا تھا تا کہ بچوں میں کھلاڑی اور اتھلیٹ بننے کا شوق اور جذبہ پیدا ہو۔ جب چارلی ہمارے سکول میں اسمبلی کے دوران تقریر کر رہا تھا تو میں اگلی صف میں موجود تھا اور اُس کی باتوں کو بڑے غور سے سن رہا تھا۔
چارلی نے بچوں سے کہا ”بچو! کیا تمہیں پتہ ہے کہ تم میں کتنی طاقت ہے؟ نہیں ….تمہیں نہیں پتہ کہ تم کتنے طاقت ور ہو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم کتنے طاقت ور ہو۔ تم میں خُدا نے اپنی روح پھونکی ہے۔ تم اس دنیا میں بہت بڑے بڑے کام کر سکتے ہو۔ بس تمہارے ارادے نیک اور پختہ ہونے چاہئیں۔ تم جو چاہو کر سکتے ہو کیونکہ خُدا خود تمہارا مددگار ہے۔”
جیسی نے مجھے بتایا کہ چارلی کے ان الفاظ نے مجھ پر گہرا اثر کیا۔ میرے جسم میں بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی اور میں نے اُسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ مجھے زندگی میں کیا بننا ہے۔ چارلی سے ہاتھ ملانے کے بعد میں دوڑتا ہوا اپنے کوچ کے پاس گیا اور اُس سے کہا کہ میرا خواب ہے کہ میں بھی چارلی کی طرح بہت بڑا اتھلیٹ بنوں۔ ہمارا کوچ بہت ہی سمجھ دار تھا۔ اُس نے مجھے تھپکی دی اور کہا ”ہاں میں تمہاری آنکھوں میں اس خواب کو دیکھ رہا ہوں۔ لیکن اس خواب کی تعبیر پانے کے لئے تمہیں بہت محنت کرنا ہو گی۔ مجھے پکا یقین ہے کہ تم ضرور کامیاب رہو گے۔“ چار باتوں کی طرف خاص توجہ دو۔ یعنی ارادے، توجہ، ڈسپلن اور اپنے رویے کو بہتر بنانے کی طرف۔
کامیابی کے دس اصول
جیسی (Jesse) کا کہنا ہے کہ میں نے اس مشورے پر عمل کیا اور ہمیشہ محنت کرتا رہا۔ چند سال بعد اولمپک کھیلوں میں جیسی Jesse) نے سونے کے چار تمغے جیتے اور دوڑ کے دو سابقہ ریکارڈ توڑے۔ پورے امریکہ میں جیسی کی شہرت پھیل گئی۔ اور اس طرح بچپن میں اُس نے جو خواب دیکھا تھا اُس کی تعبیر اُسے مل گئی۔ جیسی کی اس کہانی میں وہ دس (10) اصول نظر آتے ہیں جن پر عمل کر کے ہر آدمی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
- یہ واضح طور پر طے کریں کہ آپ نے کیا حاصل کرنا ہے۔ یعنی آپ کی منزل کیا ہے۔
- یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ خُدا آپ کی مدد کر رہا ہے۔
- جب آپ کے ذہن میں کوئی منفی خیال آئے تو اس منفی خیال کو فوراً مثبت خیال کی مدد سے دماغ سے باہر نکال دیں۔
- اپنے ذہن میں یہ یقین پیدا کریں کہ آپ ہر مشکل کو دُور کر سکتے ہیں۔
- اپنے ذہن سے ہر قسم کے احساس کمتری کو نکال کر اپنے یقین کو مضبوط بنائیں۔
- اپنے آپ پر اعتماد اور یقین رکھیں۔
- دوسروں کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ سلوک کریں۔
- ہمیشہ کچھ نہ کچھ ضرور پڑھتے یا سیکھتے رہیں۔
- مضبوط ارادے، توجہ، ڈسپلن اور اپنے رویے کو بہتر بنانے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھیں۔
- یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لیں کہ آپ مشکل سے مشکل کام بھی کر سکتے ہیں۔
اہم ترین باتیں
٭کسی کام کی شدید خواہش اور سچی لگن ایک قیمتی چیز ہے جو آدمی کو ضرور منزل تک پہنچاتی ہے۔
٭ جو شخص اپنے آپ کو تبدیل کر لے، وہ ہر چیز کو تبدیل کر سکتا ہے کیونکہ ذہنی تبدیلی کے ساتھ آدمی کا سب کچھ بدل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کے حالات بھی بدل جاتے ہیں۔
٭ لوگ کسی کام کو کرنے میں اس لئے ناکام ہوتے ہیں کہ ان کے دماغ میں پہلے ہی سے اس خیال نے پنجے گاڑھ رکھے ہوتے ہیں کہ وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔
٭ جب کوئی شخص مثبت سوچ اپنا لیتا ہے تو اُس کی ذات میں موجود تمام مثبت قوتیں حرکت میں آ جاتی ہیں اور ناکامی کے منفی خیالات کو باہر دھکیل دیتی ہیں۔
٭ کامیابی کا یقین کامیابی دلاتا ہے۔ صرف یہ تہیہ کر لینا کہ میں فلاں کام کر سکتا ہوں، کامیابی کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔