محسن نقوی

سید محسن نقوی کو شاعر اہل بیت کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ محسن کی مولائی اور کر بلانی شاعری میں بھی اتنی دلکشی اور دلربائی ہے کہ اس پر ایمان لائے بغیر چارا نہیں۔ لیکن میں اس محسن نقوی کو زیادہ قریب سے جانتا ہوں جو عقائد کی دنیا سے دور ادب کے نخلستانوں میں، کسی کھجور کے تلے خیمہ زن – حرف حرف زندگی کو جوڑ کر شعروں کے ساغر بناتا ہے اور انہیں آفاقیت کے میخانے میں سجا کر صلائے عام کا اعلان کر دیتا ہے۔

وہ اپنی ذات میں کائنات کی وسعتیں رکھنے والا شاعر ہے۔ اسے اپنے عہد کے تقاضوں کا اس حد تک احساس ہے کہ لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتے ہوئے مسائلِ حیات سے پیچھے رہ جانا اس کے نزدیک پسپائی سے کم نہیں۔ وہ ایک فاتح اور ظفرمند تاجدار کی طرح شعر و ادب کے کئی معر کے سر کر چکا ہے اور ابھی اسے کئی معر کے سر کرنے ہیں۔

قتیل شفائی


تخلیق اور تخلیق کار

تخلیق شعور کا فیصلہ ہے اور شعور کے فیصلے زمینی فاصلوں کے محتاج نہیں ہوا کرتے۔ ویران بستیوں کی کچی مٹی کی کنواری باس کو اپنے لہو میں کھپا کر، محرومیوں کی طویل رات کے دامن میں جلتے ہوئے کم نفس چراغ کی آخری نیکی کے سائے میں اپنی بجھتی آنکھوں کا آخری آنسو کھردرے کاغذ کے سینے میں انڈیلنے والا فنکار بھی اتنا ہی معتبر اور محترم ہے جتنا قابل تعظیم وہ تخلیق کار جو روشنیوں سے اٹے شہر کی رنگ و نکہت سے دہکتی مہکتی فضاؤں کی دھوپ چھاؤں میں جذ بہ و احساس کا جلترنگ چھیڑ کر ہواؤں کی برہنگی کو لفظوں لکیروں اور رعنائیوں کی پوشاک عطا کرتا ہے……

سچ ہر حال میں سچ ہے۔ وہ صدیوں پہلے کے سقراط کی زبان پر ہو یا آج کے محروم نوا فنکار کے زخمی سینے میں۔ وہ یوں کہ سچ زندگی ہے اور زندگی کی توانائی پاتال کے گونگے پانیوں اور سینہ کہسار سے پھوٹتے منہ زور جھرنوں کے شور کو یکساں طور پر اعتماد سے نوازتی ہے۔ سچائی اور توانائی کے لیے کو ہسار کی بلندی اور پاتال کی گہرائی کے درمیان حد امتیاز قائم کرنا توہینِ صداقت و حرارت ہے۔

محسن نقوی

27 دسمبر 1985

محسن نقوی کی غزلیں

کب تلک شب کے اندھیرے میں سحر کو ترسے

غزل

کب تلک شب کے اندھیرے میں سحر کو ترسے
وہ مسافر جو بھرے شہر میں گھر کو ترسے

آنکھ ٹھہرے ہوئے پانی سے بھی کتراتی ہے
دل وہ رہرو کہ سمندر کے سفر کو ترسے

مجھ کو اس قحط کے موسم سے بچا ربِ سخن
جب کوئی اہلِ ہنر عرض ہنر کو ترسے

اب کے اس طور مسلط ہو اندھیرا ہر سُو
ہجر کی رات مرے دیدۂ تر کو ترسے

عمر اتنی تو عطا کر مرے فن کو خالق
میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے

اس کو پا کر بھی اسے ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
جیسے پانی میں کوئی سیپ گہر کو ترسے

ناشناسائی کے موسم کا اثر تو دیکھو!‏
‏آئینہ خال و خدِ آئینہ گر کو ترسے!

ایک دنیا ہے کہ بستی ہے تری آنکھوں میں
وہ تو ہم تھے جو تری ایک نظر کو ترسے

شورِ صرصر میں جو سرسبز رہی ہے محسن
موسمِ گل میں وہی شاخ ثمر کو ترسے
🕮
ایک شعر

کسی نے گھول دیا آنکھ میں بدن اپنا

مگر نگاہ کو ضد ہے کہ روشنی کم ہے

اب میں سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں

غزل

اب میں سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں

کیوں ترے درد کو دیں تہمتِ ویرانی دل؟
زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں

موسمِ زرد میں اک دل کو بچاؤں کیسے؟
ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

اب کوئی کیا مرے قدموں کے نشاں ڈھونڈے گا
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اکھڑ جاتے ہیں

شغلِ اربابِ ہنر پوچھتے کیا ہو کہ یہ لوگ
پتھروں میں بھی کبھی آئینے جڑ جاتے ہیں

سوچ کا آئینہ دھندلا ہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خد و خال بگڑ  جاتے  ہیں

شدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی؟
کچھ دیے تند ہواؤں سے بھی لڑ جاتے ہیں

‏!وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر
خود تراشیدہ اصولوں پہ بھی اڑ جاتے ہیں
🕮

غزلوں کی دھنک اوڑھ مرے شعلہ بدن تُو

Black and white photo of famous urdu poet faiz ahmad faiz

اک فرصتِ گناہ ملی، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
فیض احمد فیض

دو شعر

سکوتِ دشت مرے دم سے بول اُٹھتا ہے
خود اپنا شہر سمجھتا ہے بے نوا مجھ کو

میں رائیگاں تھا تو پھر کیوں مری تلاش میں ہے؟
میں بے بہا ہوں تو پھر خاک سے اُٹھا مجھ کو

محسن نقوی

rahat-indoori-urdu-poet
راحت اندوری
غزل

غزلوں کی دھنک اوڑھ مرے شعلہ بدن تُو
ہے میرا سخن تو مرا موضوعِ سخن تُو ‏

کلیوں کی طرح پھوٹ سرِ شاخِ تمنا
خوشبو کی طرح پھیل چمن تا بہ چمن تُو ‏

نازل ہو کبھی ذہن پر آیات کی صورت ‏
آیات میں ڈھل جا کبھی جبریلِ دہن تُو ‏

اب کیوں نہ سجاؤں میں تجھے دیدہ و دل میں ‏
لگتا ہے اندھیرے میں سویرے کی کرن تُو ‏

پہلے نہ کوئی رمزِ سخن تھی نہ کنایہ ‏
اب نقطہء تکمیل ہنر محورِ فن تو

یہ کم تو نہیں تو مرا معیار نظر ہے ‏
اے دوست میرے واسطے کچھ اور نہ بن تو

ممکن ہو تو رہنے دے مجھے ظلمتِ جاں میں ‏
ڈھونڈے گا کہاں چاندنی راتوں کا کفن تو
🕮

دو اشعار

درِ قفس پہ قیامت کا حبس طاری ہے
کوئی غزل کوئی نوحہ کہ رات کٹ جائے

شعورِ جاں بھی وہی، محورِ غزل بھی وہی
وہ سادگی جو ترے حسن میں سمٹ جائے

محسن نقوی

فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا؟

غزل

فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا؟
بدن دریدہ کسی کو لباس کیا دے گا؟

یہ دل کہ قحطِ انا سے غریب ٹھہرا ہے ‏
مری زباں کو زرِ التماس کیا دے گا؟

جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر ‏
وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا؟

یہ شہر یوں بھی تو دہشت بھرا نگر ہے یہاں ‏
دلوں کا شور ہوا کو ہراس کیا دے گا؟

وہ زخم دے کے مجھے حوصلہ بھی دیتا ہے ‏
اب اُس سے بڑھ کے طبیعت شناس کیا دے گا؟

جو اپنی ذات سے باہر نہ آ سکا اب تک ‏
وہ پتھروں کو متاعِ حواس کیا دے گا؟

وہ میرے اشک بجھائے گا کس طرح محسن
سمندروں کو وہ صحرا کی پیاس کیا دے گا؟
🕮

تمام دن مرے سینے میں جنگ کرتا ہے

وہ شخص جس کے مقدر میں خود کشی بھی نہیں

محسن نقوی

میں خود پہ جبر کروں گا، تجھے بھلا دوں گا

دو شعر

میں خود پہ جبر کروں گا، تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا

یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو؟
میں تیرے شہر کے سارے دیے بجھا دوں گا

محسن نقوی

سو بھی جاؤں تو ہر اک خواب بُرا ہی دیکھوں

غزل

سو بھی جاؤں تو ہر اک خواب بُرا ہی دیکھوں
میں کن آنکھوں سے دل و جاں کی تباہی دیکھوں

دل یہ چاہے کہ پلٹ جاؤں خود اپنے گھر کو
جب بھی منزل سے بھٹکتے ہوئے راہی دیکھوں

تو سحر ہے تو افق سے کوئی سورج بھی نکال
میں کہاں تک تیرے ماتھے کی سیاہی دیکھوں

جرمِ  ناکردہ گناہی کی سزا یہ ہے کہ میں
اپنی سوچوں کو بھی زنجیر بپا   ہی دیکھوں

بارہا ترکِ تعلق پہ یہ سوچا میں نے!‏
تجھ کو ڈھونڈوں، تری افسردہ نگاہی دیکھوں

وہ بھی کیا شخص ہے کھلتا ہی نہیں بھید اُس کا
جب بھی دیکھوں اُسے دنیا سے خفا ہی دیکھوں

کس سے پوچھوں میں پتہ اپنے پرانے گھر کا
اجنبی شہر میں ہر شخص نیا   ہی دیکھوں

وسعتِ دشت کی تنہائی سے ڈر لگتا  ہے
کوئی رہرو نہیں، نقشِ کفِ  پا   ہی دیکھوں

میرے ساتھی تو مری صف سے الگ ٹھہرے ہیں
اپنے حق میں کسی دشمن کی گواہی دیکھوں

میرے محسن ترا معیارِ نظر کچھ بھی سہی!‏
میں تو انسان کے پیکر میں خدا ہی دیکھوں
🕮
ایک شعر

تُو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا؟

مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداؤں والے

محسن نقوی

زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں

غزل

زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں ‏
میں آوازوں کے بن میں گھر گیا ہوں

مرے گھر کا دریچہ پوچھتا ہے! ‏
میں سارا دن کہاں پھرتا رہا ہوں؟

مجھے میرے سوا سب لوگ سمجھیں ‏
میں اپنے آپ سے کم بولتا ہوں

ستاروں سے حسد کی انتہا ہے ‏
میں قبروں پر چراغاں کر رہا ہوں

سنبھل کر اب ہواؤں سے الجھنا ‏
میں تجھ سے پیشتر بجھنے لگا ہوں

مری قربت سے کیوں خائف ہے دُنیا ‏
سمندر ہوں میں خود میں گونجتا ہوں

مجھے کب تک سمیٹے گا وہ محسن؟ ‏
میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہوں
🕮
اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے