مرشد(عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر 2

چوہدری فرزند کی لات پر کمرے کادروازہ ایک دھماکے کی آواز سے کھلا۔ دروازے کے بالکل سامنے ہی نازیہ کسی دہشت زدہ مجسمے کی صورت ساکت کھڑی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دروازے ہی کی سمت دیکھ رہی تھی۔

مرشد

وہ ایک محل جیسی عالی شان کوٹھی کا وسیع و عریض سرسبز لان تھا، جس کے اطراف کیاریوں میں خوش رنگ اور خوشنما پھولوں والے پودے کثرت سے لگائے گئے تھے۔ لان کے سبز قالین پر دودھ جیسی سفید ٹیبل اور کرسیاں سجائی گئی تھیں۔ ان کرسیوں میں سے ایک پر میر ارشد اللہ بیٹھے تھے اور ٹیبل کے اس طرف… سامنے کی کرسی پر حسن آرا رونق افروز تھی۔ دونوں کے درمیان موجود ٹیبل پر چائے کے الوازمات دھرے تھے اور میر صاحب خود ہی چائے بنانے میں مصرو ف تھے۔

”میٹھا کتنا پسند کیجیے گا؟“ کپ میں چینی ڈالتے ڈالتے انہوں نے رک کر حسن آرا کی طرف دیکھا۔

”میزبان کاذائقہ جاننا چاہیں گے؟“حسن آرا کے ہونٹوں پر ایک نرم سی مسکراہٹ جھلملائی۔

میر صاحب نے مسکراتے ہوئے چائے میں چینی ملائی اور کپ پرچ میں سجا کر حسن آرا کے سامنے پیش کر دیا۔

”بھلا لگے نہ لگے … برا ہرگز نہیں لگے گا… اس بات کا یقین رکھتے ہوئے گھونٹ لیجیے۔“

”شکریہ ! “ حسن آرا نے پرچ تھام لی۔”آپ ابھی تک اپنے کہے پربضد ہیں۔“

”نہیں… یہ کوئی ضد نہیں ہے… یہ پوری طرح سے ایک شعوری فیصلہ ہے اور آپ کے سامنے محض ایک درخواست اور… اس درخواست کے حوالے سے ایک یہ درخواست بھی کہ براہ کرم آپ ہماری درخواست قبول فرمالیں۔“

میر صاحب نے اپنے کپ میں چینی حل کی اور کپ اٹھاتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹک کر بیٹھ گئے۔ گزشتہ تین ملاقاتوں میں ہم نے جو کچھ بھی آپ سے کہا ہے … اس میں کچھ بھی جھوٹ نہیں ہے۔ وہ سب اپنی جگہ درست ہے مگر آج… آج اس وقت ایک وجہ اور بھی موجودہے۔“ میر صاحب نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا پھر ایک آہ نما سانس بھرتے ہوئے نگاہوں کا زاویہ تبدیل کر کے فضا میں تیرتے مٹیالے بادلوں کے ٹکڑوں کی طرف دیکھنے لگے۔ ایک خفیف سی بے ساختہ مسکراہٹ ان کے زیر لب مچل رہی تھی۔

”وجہ نہیں بتائیں گے…“حسن آرا نے ایک چھوٹی سی چسکی لی۔

’میر صاحب کرسی پر سیدھے ہوتے ہوئے تھوڑا سا آگے کوسرک آئے۔

”ذرا آگے ہوکر دیکھئے۔“ انہوں نے حسن آراء کے صبیح چہرے پرنظریں جماتے ہوئے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا۔

”جی…“

” جی… قریب ہو کر دیکھیے ذرا! “ حسن آرا نے ان کے اصرار بھرے لہجے پر استفہامیہ انداز میں آنکھیں ان کی آنکھوں میں ڈال دیں۔

”کہیے… کیا دکھائی دے رہا ہے آپ کو؟“

”اپنی صورت۔“ حسن آرا نے دھیمے لہجے میں کہا۔

”اور ہم چاہنے لگے ہیں کہ ہر ایک منظر کے ساتھ یہ ایک منظر ہمیشہ آپ کے سامنے رہے۔“ میر صاحب دوبارہ پیچھے ہٹ کر اطمینان بھرے انداز میں پشت ٹکا کر بیٹھ گئے۔ دائیں ٹانگ کو انہوں نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں دوسری ٹانگ پر ڈال دیا تھا۔

”ہم محسوس کرنے لگے ہیں کہ ہم زندگی میں پہلی بار ضرورت مندی کی لذت سے آشنا ہوئے ہیں… ہم اپنی ذات کے سچ کے ساتھ آپ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں… ہمیشہ ہمیشہ کی بنیادوں پر… ہرلمحہ‘ ہر پل‘ اس سب کے ساتھ ہم یہ یقین لے آئے ہیں حسن آرا کہ ہم آپ کی محبت میں مبتلا ہوچکے ہیں… پتا نہیں کیسے؟ کس طرح، مگر ہمارے اندر ایسا واقع ہو آیا ہے۔ انہی دوچار دنوں میں ہم آپ سے محبت کرنے لگے ہیں۔“

حسن آرا کا ہونٹوں کی طرف بڑھتا ہوا ہاتھ رک گیا … دل جیسے اچھل کر حلق میں آ دھڑکا تھا۔ وہ یک ٹک میر صاحب کی طرف دیکھتی رہ گئی۔

پہلے شادی کا تقاضا اور اب یوں اچانک اظہار محبت… آج دوسری بار اسے اپنی ہی سماعتوں پریقین نہیں آرہا تھا… وہ بس حیرت و بے یقینی سے میر صاحب کی صورت دیکھے گئی۔

”ہم اپنی اس نئی جذباتی حالت کو بھی بڑی اچھی طرح سمجھ رہے ہیں مگر ہمیں ایسے مناسب اور موزوں الفاظ سجھائی نہیں دے رہے کہ جن میں ہم اپنے جذبوں کااظہار کر سکیں … اپنی قلبی بے قراریاں بیان کرسکیں…“

وہ بول رہے تھے۔”کمال کی بات یہ بھی ہے کہ دو چار روز پہلے تک ہم جذبوں کے اس رنگ ‘ اس ذائقے سے قطعی ن اآشنا تھے… حالانکہ ہماری شریک حیات بہت اچھی‘ بہت خدمت گزار خاتون ہیں اور ہم اپنے تئیں ان سے محبت رکھنے کے دعوے دار بھی ہیں … لیکن اب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ان سے ہمیں اپنائیت اور لگاﺅ تو بے شک ہے، لیکن محبت سے تو ہم خود بھی پہلی بار واقف ہو رہے ہیں۔ آپ سے ملنے کے بعد… اب… آپ کے حوالے سے۔“انہوں نے کپ سے ایک چسکی لی۔

”ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک، ہر سہولت… دنیا کی ہر آسائش کو ہم نے اپنے در کی باندی پایا ہے۔ ہمیں وہ سب کچھ میسر رہا ہے جس کی انسان خواہش کر سکتا ہے… اس کے باوجود ہم ہمیشہ ہی ایک بے نام سی کمی محسوس کرتے رہے ہیں۔ ایک … ایک خلا سا تھا جو کبھی پر نہ ہوسکا… ہم یہ بھی کبھی نہیں جان سکے کہ ایسا کیوں ہے اور اب … آپ سے ملاقات کے بعد جیسے اس بے نام کمی کو ایک عنوان مل گیا ہے۔ ہمارے اندر کا وہ خلا ہم پر منکشف ہو آیا ہے… وہ کمی محبت کی کمی تھی۔ اور وہ خلا آپ کے ساتھ… آ پ کی رفاقت کا طلب گار ہے حسن آرا!“

میر صاحب کے لہجے میں ایک بے خودی‘ ایک خواب ناکی آ گھلی تھی۔ ان کی محبت بھری نظریں حسن آرا کے چہرے کا طواف کرنے میں مگن تھیں … اور حسن آرا تو جیسے ان کے لفظوں اور لہجے کے زیر اثر مسمرائز ہوئی بیٹھی تھی۔

”ہر لمحہ‘ ہر پل… محبت … رفاقت…“وہ خود کلامی کے سے انداز میں بڑبڑائی۔

”ہاں جی! بالکل“ میر صاحب نے چائے کاایک گھونٹ لیا۔ ”آپ نے کہا تھا کہ وہاں… آپ کے ہاں اس موضوع پرتسلی بخش گفتگو نہیں ہوسکتی۔ یہ جگہ ہمیں ہر لحاظ سے بہتر او رمعقول لگی اور پھر یہی وہ عمارت ہے جو آپ کی رضامندی کے بعد ہمارا گھر… ہماری بہشت ہو گی۔ اب آپ کہیے کہ آپ نے کیا سوچا… کیا فیصلہ کیا ہے آپ نے ؟“

حسن آرا نے چائے کا گھونٹ بھرا… اس کی نظریں وسیع و عریض لان سے گزرتی ہوئی کوٹھی کی رہائشی عمارت کی طرف گئیں اور پھر اس کی بلندیوں کو ماپنے لگیں۔

”میر صاحب! آپ کے پر خلوص جذبے قابل تعظیم ہیں مگر ہم اس سب کے اہل نہیں … آپ نے جو کچھ کہا، جو کچھ آپ چاہتے ہیں وہ ہمارے لیے سعادت اور اعزاز کی بات ہے اور ہمارے لیے ایک ایسا خوبصورت خواب کہ جو ہم چاہنے کے باوجود اپنی آنکھوں میں نہیں سجاسکتے …

”آپ کا اعتماد جتنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟“

”کچھ نہیں …بس آپ کے لیے کسی شرمندگی یا پریشانی کاباعث بننا ہم گوارا نہیں کرسکتے۔“

”شرمندگی تو تب رہے گی جب آپ ہمیں رد کریں گی… ہمارے خلوص اور جذبوں کو ٹھکرا دیں گی۔ رہی بات پریشانی کی تو… پریشانیوں سے نمٹنا ہم خوب جانتے ہیں۔“

”آپ کو یہ سب اتنا ہی آسان لگتا ہے۔“

”کہیں کوئی مشکل نہیں ہے ماسوائے… آپ کے اقرار کر لینے کے۔“

”ہم اقرار سے خوف اور گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں… اس لیے کہ ہمارا ماضی… ہماری اصل کبھی بھی اور کسی بھی صورت تبدیل نہیں ہوسکتی“ اندیشے اور واہمے حسن آرا کو جھنجوڑنے پر تلے ہوئے تھے۔

”ماضی سے آپ کا کوئی واسطہ نہیں رہے گا اور آپ کی اصل… اسے تو شاید آپ خود بھی ٹھیک سے شناخت نہیں کرپا رہیں… آپ کی اصل کچھ اور ہے حسن آرا! جسے کہ آپ شاید دیکھنا سمجھنا اور جاننا چاہتی ہی نہیں ہیں۔“

”ہم عرض کر چکے ہیں میر صاحب کہ جو خواب آپ ہمیں دکھا رہے ہیں اس کی چاہت اور خواہش رکھنے کے باوجود ہم اسے اپنی آنکھوں میں جگہ نہیں دے سکتے۔“

”چلیں…ہم ایک ذرا مان لیتے ہیں کہ جو ہم چاہتے ہیں وہ ناممکن ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ لیکن آپ یہ تو تسلیم کر رہی ہیں نا کہ آپ بھی یہی خواہش رکھتی ہیں۔ آپ کے دل میں بھی وہی کچھ ہے جو کہ ہمارے دل میں پنپ رہا ہے … جو ہم نے سوچ رکھا ہے … جو ہم چاہتے ہیں؟“

حسن آرا نے ایک ذرا میر صاحب کی اشتیاق بھری آنکھوں میں جھانکا پھر نگاہیں جھکاتے ہوئے دھیمے لہجے میں مختصراً بولی۔

”جی …“

”یہ… یہ ہوئی نا بات… بس اب آپ باق سب ہم پر چھوڑ دیں اور بالکل بے فکر ہوجائیں۔ ہر اندیشے اور ہر خدشے پر مٹی ڈال دیں…“ میر صاحب کے پرجوش اور مسرت بھرے لہجے پر اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا… میر صاحب کاچہرہ کھل اٹھا تھا۔ آنکھوں میں ایک چمک اور چہرے پر انتہائی اطمینان بھری اور جاندار مسکراہٹ رقص انداز تھی۔

”اللہ اکبر…اللہ اکبر!“

اچانک کسی طرف سے اذان کی آوازبلند ہوئی تو میر صاحب جو کچھ کہنے والے تھے ہونٹ بھینچ کر خاموش ہو رہے … اندرونی جذبات کی شدت ان کے سرخ چہرے پرمزید سرخی پھیلا دینے کا باعث بن گئی تھی… وہ یقینا کچھ اور کہنا چاہتے تھے… شاید بہت کچھ کہنا چاہ رہے تھے مگر حسن آرا نے محسوس کیا کہ وہ اذان کی وجہ سے خاموش ہو رہے ہیں۔

انہوں نے آنکھیں بند کرتے ہوئے سر بھی قدرے خم کر لیا تھا… پھر جب تک اذان ہوتی رہی وہ اپنی جگہ اسی انداز میں بیٹھے رہے اور اذان مکمل ہوتے ہی وہ کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

ہم نماز ادا کر لیں پھر مزید بات کرتے ہیں۔“

انہوں نے والہانہ نظروں سے حسن آرا کو دیکھتے ہوئے کہا اور اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئے۔ ایک الوہی سی طمانیت اور شادمانی تو جیسے ان کے انگ انگ سے چھلکنے لگی تھی۔ حسن آرا ان کی پشت پر نظریں جمائے اپنی جگہ گم صم سی بیٹھی رہی۔ اس کے دل ودماغ کی حالت عجیب تھی۔ ماضی اور مستقبل سے تعلق رکھنے والی سوچوں اور خیالوں نے اسے عجیب مخمصے میں مبتلا کر کے رکھ دیا تھا۔

دل نے سینے میں ایک اودھم مچا رکھا تھا اور دماغ… دماغ الگ ایک واویلا مچائے ہوئے تھا۔

☆ ☆ ☆

چوہدری فرزند علی اکبر کی شادی کو ایک سال سے کچھ زیادہ ہی وقت گزر چکا تھا لیکن ابھی تک چوہدرانی کی گود ہری ہونے کے امکان پیدا نہ ہوسکے تھے ۔ وارث کی کوئی آس امید بنتی نظر نہیں آرہی تھی ،جس کی بنا پر یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ ہو نہ ہو چوہدرانی ہی کسی خرابی، کسی نقص کا شکار ہے اور اسی خرابی کی تصدیق اور تدارک کی غرض سے چوہدری فرزند علی چوہدرانی کو لے کر لاہور پہنچا تھا۔

میڈیکل چیک اپ میں کوئی سنگین یا مایوس کن بات سامنے نہیں آئی تھی۔ بقو ل ڈاکٹر کے چوہدرانی بس رحم کے معمولی ورم کا شکار تھی جس کے حل کے لیے کچھ میڈیسنز تجویز کر دی گئی تھیں۔

چوہدرانی اور نازیہ کو واپس گاﺅں روانہ کرنے کے بعد چوہدری فرزند علی اپنے خاص جاں نثاروں کے ساتھ ملتان روڈ پر واقع اپنی کوٹھی پر چلا آیا تھا۔ ارادہ یہی تھا کہ چند روز یہیں رہتے ہوئے کچھ اہم اور ضروری معاملات بھی بھگتائے جائیں اور کچھ عیش وعشرت کا سامان بھی کیا جائے مگر پہلی رات ہی ایک عجیب بدمزگی کی صورت حال بن آئی۔

اس بدمزگی اور ساری خرابی کی وجہ ایک بڑے سائز کا سیاہ کتا تھا جو رات گئے کسی طرح دیوار پھاند کر کوٹھی کے اندر آ گھسا تھا اور پھر اس سے پہلے کہ اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی کی جاتی…

وہ کوٹھی میں خلاف معمول رونق اور خطرہ محسوس کرتے ہوئے اچانک ہی دیوار پھاند کر فرار ہوگیا۔

چوہدری فرزند کی پوچھ تاچھ پر مالی فقیر حسین نے بتایا کہ "گزشتہ چند روز سے وہ روزانہ دیوار پھلانگ کر کوٹھی میں گھس آتا ہے اور پوشا کے ساتھ نامناسب اور نامعقول قسم کی چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔ ہم نے اسے پکڑنے ‘قابو کرنے کی کوشش بھی کی ہے مگر وہ نکل بھاگتا ہے۔“

بس اتنا سنتے ہی چوہدری فرزند آگ بگولہ ہوگیا تھا۔ مالی کی جان تو دوچار تھپڑوں اور ٹھوکروں کے بعد چھوٹ گئی البتہ چوکیدار منظور کی شامت آگئی۔ اسے بری طرح زد و کوب کیا گیا کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی کتا مسلسل پوشا کو تنگ کرنے آ رہا ہے تو کیوں… اس نے اس آوارہ کتے کو گولی کیوں نہ مار دی!

دوسری رات باقاعدہ مورچہ بندی کی گئی اور جیسے ہی وہ کتا اپنے معمول کے مطابق کوٹھی میں داخل ہوا، اسے چھلنی کر کے رکھ دیاگیا۔ اپنے ہم جنس اور آشنا کی اس درد ناک موت پر پستہ قامت پوشا کا غم و اندوہ سے لبریز فطری ردعمل چوہدری فرزند برداشت نہیں کرپایا اور بے چاری بے زبان پوشا چوہدری فرزند کی اندھی انا اور وحشت و تنفر کاشکار ہو کر خود بھی جان گنوا بیٹھی۔

وہ بہت چھوٹی سی تھی جب ایک تحفے کے طور پر چوہدری فرزند کے ہاتھ لگی تھی۔

چوہدری کو بھی وہ اتنی پیاری ہو گئی تھی کہ اس نے اپنے بچوں کی طرح اس کی پرورش کی تھی… اپنے ہاتھوں سے دودھ پلاپلا کر بڑا کیا تھا…ا س کی دیکھ بھال کی تھی اور آج… آج اپنے ہاتھوں سے اسے گولی مار دی تھی۔ اس کی موت پر چوہدری فرزند کو یونہی محسوس ہوا تھا جیسے اس نے اپنا کوئی بچہ قتل کر دیا ہو۔ 

اس سب کا ذمہ دار چوہدری کے نزدیک چوکیدار منظور اور اس کی غفلت تھی سو اس نے حکم داد کو منظور کی موت کا اشارہ دیتے ہوئے واپس گاﺅں کی طرف منہ کر لیا تھا کہ اب فی الوقت اس کوٹھی میں رکنا اسے تکلیف اور رنج کاباعث محسوس ہو رہا تھا۔

واپسی پر تمام رستے گاڑی میں ایک گھمبیر خاموشی بھری رہی ۔ صبح کی اذانوں سے کچھ پہلے گاڑی حویلی کے مردان خانے میں آ رکی۔ فرنٹ سیٹ سے قادر داد نے اتر کرفوراً عقبی دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے ہی چوہدری فرزند علی خوددروازہ کھولتے ہوئے نیچے اترا اور بغیر کچھ کہے سنے لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا زنان خانے کی طرف بڑھ گیا۔

اس کاموڈ اس قدر بگڑا ہوا تھا کہ اس نے راستے میں پہرہ دیتے محافظوں کے سلام کاجواب دینا تو دور، ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔

حویلی کے زنان خانے میں داخلے کا ایک حصہ مردان خانے کی عمارت کے عقبی طرف واقع تھا۔ چوہدری فرزند خاموشی سے آگے بڑھتا ہوا عمارت کی عقبی طرف آگیا۔ صبح قریب تھی اور تھوڑی دیر تک اذانیں ہونے والی تھیں … ڈھلتے چاند کی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی… پوری حویلی خاموشی اور سکون میں ڈوبی ہوئی تھی…چوہدری فرزند ابھی زنان خانے والے راستے سے کچھ قدم دور ہی تھا کہ اچانک اس کی نظر دیوار کے اس درمیانی کھلے حصے میں ایک اجنبی پر پڑی تو وہ حیرت و بے یقینی سے ٹھٹک کر رک گیا۔

وہ کوئی نوجوان تھا جو زنان خانے سے نکل کر مردان خانے کی طرف آ رہا تھا اور غالباً چوہدری فرزند کو آتا دیکھ کر ٹھٹک گیا تھا۔ شاید وہ فوری طور پر دائیں بائیں کہیں چھپنے دبکنے کی کوشش بھی کرتا مگر چوہدری کو اپنی جانب متوجہ پا کر وہ جیسے جہاں کا تہاں کھڑا رہ گیا تھا۔ ایک لمحے کو تو جیسے چوہدری فرزند کو اپنی آنکھوں ہی پر یقین نہیں آیا مگر دوسرے ہی لمحے اسے وہ نوجوان جانا پہچانا بھی محسوس ہوا اور چوہدری نے کڑک دار آواز میں اسے تنبیہ کیا۔

”خبردار اوئے! اپنی جگہ سے ہلنا نہیں۔“

ساتھ ہی کسی لاشعوری احساس کے تحت اس کا ہاتھ برق رفتاری سے قمیص کے نیچے، کمر سے بندھے ہولیسٹر کی طرف ر ینگ گیا۔ ٹھیک اسی وقت نوجوان پلٹ کر بھاگ کھڑا ہوا۔

”رک…( ناقابل اشاعت)“ چوہدری فرزند نے ایک غلیظ گالی دیتے ہوئے اسے للکارا اور ساتھ ہی پسٹل نکالتے ہوئے اس پر فائر بھی کر دیا۔ مگر اسے گولی چلانے میں لمحہ بھر کی تاخیر ہو چکی تھی۔ نوجوان حویلی کے عقبی حصے میں موجود بھانے کی طرف دوڑتے ہوئے دیوار کی اوٹ میں ہو چکا تھا۔ سو دوسرے فائر کی گنجائش نہیں تھی۔

”رمضانی! پکڑنا اس حرام کے جنے کو۔“

رمضان عرف رمضانی رات کو بھانے میں پہرے پر ہوتا تھا۔ چوہدری فرزند غضب ناک لہجے میں اس کو آواز دیتے ہوئے خود بھی اپنی جگہ سے دوڑ پڑا تھا۔ فائر کے دھماکے اورچوہدری کی بلند آہنگ آوازوں سے حویلی پر طاری سکون اور خاموشی درہم برہم ہو کر رہ گئی۔ مردان خانے میں بندھے کتوں نے اچانک ہی اپنی بھیانک آوازوں میں بھونکنا شروع کر دیاتھا۔

چوہدری فرزند پسٹل ہاتھ میں سنبھالے زنان خانے والے حصے میں داخل ہوا اور عقبی طرف، بھانے میں داخلے کے راستے کی طرف دوڑتا چلا گیا۔

چند لمحوں کے لیے ان دونوں نے ایک دوسرے کو آمنے سامنے سے دیکھ اتھا اور اس نوجوان کی صورت و شناخت کے حوالے سے چوہدری کو جو شبہ سا گزرا تھا وہ اس کے رگ و پے میں بھانبھڑ جلا گیا تھا۔ اس کے دماغ میں جیسے طوفانی آندھیوں کے جھکڑ سے چلنے لگے تھے … وہ خود بھی طوفانی رفتار سے بھاگتا ہوا بھانے میں داخل ہوا اور داخلی راستے کے سامنے ہی زمین سے اٹھتے ہوئے رمضانی سے ٹکرا گیا۔

خود کو تو چوہدری فرزند نے بامشکل گرنے سے بچایا البتہ رمضانی اس اچانک دھکے سے دوبارہ زمین پر جا پڑا… چوہدری نے چاروں طرف نظر دوڑائی… اس نوجوان کا کہیں کوئی نشان نہیں تھا… چاروں طرف کھڑی بھینسیں حویلی میں اچانک بلند ہونے والی ہاہا کار سے وحشت زدہ ہو کر اپنی بھدی آوازوں میں ڈکرا رہی تھیں۔ ایک کتا بھی وہاں موجود تھا جو منہ اٹھا اٹھا کربھونک رہاتھا۔

”ادھر پچھے بھانے کی طرف۔“

”جو بھی ہے‘ جانے نہ پائے۔“

”گلشن…. سانگھے۔“

مسلح محافظ ایک دوسرے کو پکارتے سمجھاتے، بھانے کی طرف دوڑے آرہے تھے۔ چوہدری فرزند نے خونخوار عقابی نظروں سے چاروں طرف کا جائزہ لیا اورپھر آگے بڑھ کر زمین سے اٹھتے ہوئے رمضانی کی پسلیوں میں ایک زور کی لات ماری اور وہ بے چارہ ایک بار پھر کراہتا ہوا اچھل کر گرپڑا۔ دوسری ٹھوکر چوہدری نے اپنے پیروں میں پڑی رمضانی کی رائفل کو رسید کی تھی۔

”کتے کے بچے! حرامی… کدر ہے وہ سور کا تخم… کدر گیا ہے وہ ؟“ چوہدری فرزند نے غصے سے چیختے ہوئے آگے بڑھ کر رمضانی کو ایک اور ٹھوکر رسید کی۔

”وہ… وہ پچھلی طرف “ رمضانی نے کراہتے ہوئے کہا اور چوہدری فرزند کی ایک اور ٹھوکر کھا کرچیختا ہوا بھانے کے غلیظ فرش پر لوٹ پوٹ ہو کر رہ گیا۔ اسی وقت آٹھ دس مسلح افراد بھاگتے ہوئے بھانے میں داخل ہو آئے۔

”کون ہے … کون تھا…؟ کیا ہوا چوہدری صیب؟“

آگے آگے حیران و پریشان گلشن تھا۔ چوہدری فرزند نے اس کے مخاطب کرنے پر تڑپ کر اس کی طرف دیکھا۔ اور دوسرے ہی لمحے ایک ایسا بھرپور تھپڑ گلشن کے منہ پر رسید کیا کہ وہ لڑکھڑا کر رہ گیا۔

”تمہاری …(ناقابل اشاعت)۔“ مجھ سے پوچھ رہے ہو کون تھا؟ کنجری کے بچو! پہرے پر تم لوگ تھے… تمہارے ہوتے ہوئے کوئی حویلی میں داخل کیسے ہوا؟ کہاں مرے ہوئے تھے تم سب؟“ فرط غیض سے چوہدری فرزند کے منہ سے جیسے جھاگ اڑی تھی۔

”کوئی نہیں آیا چوہدری صیب! ہم …ہم سب چوکس تھے۔ کوئی پرندہ تک باہر سے اندر حویلی میں نہیں آیا۔“ چوہدری نے آگے بڑھ کر بولنے والے کو یکے بعد دیگرے دوچار تھپڑ رسید کردیئے۔

”میں پاگل ہوں… جھوٹ بول رہا ہوں … تیری… جاﺅ دیکھو ادھر بھانے کے پچھواڑے… جو بھی تھا اسے پکڑ کر زندہ حالت میں واپس لے کر آﺅ… اگر وہ بچ نکلا تو سب کو الٹا لٹکا دوں گا… کتوں کے آگے ڈال دودں گا سبھی ہڈ حراموں کو… جاﺅ دفع ہو جاﺅ… پکڑو اس حرام کے جنے کو۔“

چوہدری فرزند حلق کے بل دھاڑا اور مسلح افراد فوراً حرکت میں آگئے۔

چوہدری پلٹ کر دوبارہ مردان خانے کی طرف بڑھ گیا… پوری حویلی میں ایک ہلچل مچ گئی تھی۔ زنانے مردانے دونوں حصوں کی تمام روشنیاں جل اٹھی تھیں۔ کتوں نے بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا رکھاتھا۔ وہ مردان خانے میں داخل ہوا ہی تھا کہ سامنے سے چوہدری جمال علی اور جاوید علی کو آتے دیکھ کر رک گیا۔ ان کے ساتھ چار چھ مسلح ملازم بھی تھے۔ جمال علی اور جاوید علی کے اپنے ہاتھوں میں بھی پسٹل دکھائی دے رہے تھے اور ان کی شکلیں بتا رہی تھیں کہ وہ نیند سے اٹھ کر دوڑے آرہے ہیں۔

”کیا ہوا بھاہ جی! کون تھا… کیا مسئلہ ہے؟“ جمال علی اکبر نے پریشان سے لہجے میں دریافت کیا۔

”کون آیا تھا حویلی میں ؟“ چوہدری فرزند نے جیسے اسے جواب دینے کے بجائے ملازموں کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا تو وہ شش و پنج سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

”میں نے پوچھا ہے کون آیا تھا حویلی میں؟“ چوہدری کی غضبناک دھاڑ پر سبھی جیسے لرز اٹھے۔

”کک کوئی نہیں چوہدری صیب! وہ… وہ بس نکے چوہدری جی کے دوست آئے تھے رات… چھوٹے شاہ جی، اور تو کوئی بھی نہیں آیا گیا۔“

ایک ملازم نے بوکھلائے بوکھلائے سے انداز میں کہتے ہوئے جاوید علی اکبر کی طرف اشارہ کیا تو چوہدری فرزند ایک جھٹکے سے رخ بدل کر جاوید علی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ملازم کا جواب گویا چوہدری کے شبے پر مہر تصدیق ثبت کر گیا تھا۔ ساری گتھی جیسے ایک لمحے میں سلجھ گئی تھی۔ سارا معاملہ ایک لمحے میں پوری طرح چوہدری فرزند پر واضح ہو آیا تھا۔

”کیوں جیدے… کہاں ہے وہ کتے کا پلا؟“ وہ جیسے بولا نہیں، غرایا تھا۔

”وہ تو شاید چلا گیا!“ جاوید گویا ابھی تک نیند کے زیر اثر تھا۔

”شاید… “ چوہدری فرزند نے زہر خند سے کہا اور دوبارہ اسی ملازم کی طرف دیکھا۔

”نئیں جی! ہم باہر موجود تھے۔ وہ… وہ باہر نئیں گیا۔“

”بھاہ جی! وہ اسرار“ جاوید نے کچھ کہنا چاہا تھا کہ فرزند علی کا زناٹے دار تھپڑ کھا کر اپنی جگہ سے لڑکھڑا گیا۔

”بھاہ جی! ہوا کیا ہے ؟ آخر کچھ بتائیں تو“ جمال علی فوراً فرزند علی اور جاوید کے درمیان آتے ہوئے بولا، مگر فرزند علی اسے کوئی جواب دینے کی بجائے پلٹ کر تیزی سے زنان خانے کی طرف بڑھ گیا… اس کارواں رواں جیسے ایک نادیدہ آگ کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔

جاوید علی کادوست… چھوٹا شاہ اسرار حیدر، رات جاوید سے ملنے حویلی آیا تھا اور اس کے بعد ملازموں نے اسے واپس جاتے نہیں دیکھا تھا… جاوید تو اب مردانے سے سوتے میں سے اٹھ کر آ رہا تھا اور فرزند علی نے اب سے کچھ ہی دیر پہلے اپنی آنکھوں سے اسرار کو زنانے سے مردانے کی طرف آتے دیکھا تھا… وہ ادھر کیا کرنے گیا تھا… کس لیے گیا تھا… کیوں گیا تھا… کیوں؟“

یہ ” کیوں“ چوہدری فرزند علی کے دماغ میں جیسے چرکے لگائے جارہا تھا۔

اس کے اندر کی آگ اور وحشت کو مسلسل بھڑکائے جارہا تھا۔ اس سے آگے، اس کیوں کا جواب بھی چوہدری فرزند علی کے دماغ میں موجود تھا مگر وہ جیسے اس جواب کو دیکھنا سننا نہیں چاہتا تھا۔

وہ وحشت و غصے سے بھرا زنان خانے میں داخل ہوا تو سامنے سے رائفل اٹھائے چوہدری اکبر علی خان نمودار ہوا… اس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے، گو کہ آدھے سے زیادہ بال سفید ہو چکے تھے مگر اس کے مضبوط جثے اور جسمانی چستی سے اس کی عمر کا درست اندازہ مشکل تھا۔

”کیا بات ہے فرزند! کیا شور شرابہ ہورہا ہے!“ اس نے کڑک آواز میں بدمزگی سے پوچھا مگر فرزند علی بغیر کچھ کہے خاموشی سے اس کے برابر سےگزر گیا۔ سامنے برآمدے میں بیوی کے ساتھ ساتھ دونوں مائیں بھی کھڑی تھیں مگر فرزند علی سب کونظر انداز کرتا ہوا سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔

اس بار چوہدری اکبر علی کے ساتھ ساتھ بڑی اماں … بڑی چوہدرانی نے بھی اسے پکارا تھا مگر فرزند علی تو جیسے کچھ سننے ‘دیکھنے کی حالت میں نہیں تھا۔ ایک غیظ و غضب اور وحشت ناکی جیسے اس کے روئیں روئیں سے مترشح تھی… جمال علی اور جاوید علی بھی اس کے پیچھے پیچھے آتے ہوئے چوہدری اکبر علی کے قریب پہنچ آئے تھے ۔ پسٹل بدستور فرزند علی کے ہاتھ میں تھا اور اس کا رخ سیڑھیوں کی طرف تھا… یعنی اوپری منزل کی طرف… اوپری منزل، جہاں نازیہ کا کمرہ تھا۔

”اوئے! بات تو بتا؟“ چوہدری اکبر کا لہجہ کرخت تھا۔

”بھاہ جی! کدھر جارہے ہیں؟“

”فرزند پتر! “ بڑی چوہدرانی کے لہجے میں قدرے سنسنی اور تعجب تھا۔

فرزند علی سیڑھیوں تک پہنچنے کے بعد ایک ساتھ دو دو زینے پھلانگتا ہوا اوپر کی جانب بڑھ گیا۔

”باجی…“ جاوید نے جیسے لاشعوری طور پر کہا۔

اسکے لہجے میں ایک عجیب سی سرسراہٹ تھی۔ جمال علی نے ایک نظر اس کی صورت دیکھی پھر جیسے اس کی چھٹی حس اسے حرکت میں لائی اور وہ فرزند کو پکارتا ہوا تیزی سے اس کے پیچھے لپکا۔ اتنے میں فرزند علی سیڑھیاں طے کرتا ہوا اوپر پہنچ چکا تھا اور بغیر رکے راہداری میں پلٹ کر نازیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔

سادات گھرانے کے متعلق شدید نا پسندیدگی کے جذبات رکھنے کے باوجود اس نے کبھی بھی نازیہ کو ادھر جانے سے منع نہیں کیا تھا۔ بلکہ ماں باپ کے ٹوکنے پر اس نے الٹا ہمیشہ نازیہ کی طرف داری کی تھی۔ خود اس پر کوئی پابندی عائد کی تھی اورنہ کسی کو کرنے دی تھی کہ وہ اس کی پیاری اور لاڈلی بہن تھی مگر…

مگر آج اس لاڈلی بہن نے اس کی طرف داری اور لاڈ پیار کا جنازہ نکال کے رکھ دیا تھا… اس کے اعتماد کو خاک میں رول کے رکھ دیا تھا۔

چوہدری فرزند کی لات پر کمرے کادروازہ ایک دھماکے کی آواز سے کھلا۔ دروازے کے بالکل سامنے ہی نازیہ کسی دہشت زدہ مجسمے کی صورت ساکت کھڑی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دروازے ہی کی سمت دیکھ رہی تھی۔ چوہدری فرزند کو محسوس ہوا کہ وہ جیسے بالکل اس کے آگے آگے راہداری سے پلٹ کر ابھی کمرے میں واپس آئی ہے۔

اس کا زرد چہرہ اور آنکھوں میں لرزتا خوف جیسے اس کے جرم … اس کے گناہ کی گواہی دے رہاتھا۔

”کب سے؟“ چوہدری فرزند اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے غراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا۔ ”کب سے چل رہا ہے یہ سب؟“ وہ بالکل اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

”کک… کیا؟“ نازیہ کی ہکلاہٹ پر چوہدری فرزند نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور وہ بے اختیار چیختی ہوئی لڑکھڑا کر کمرے کے فر ش پر گر گئی۔

”جو پوچھا ہے صرف اس کا جواب دے … کب سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے ؟“

چوہدری فرزند نے ایک گھٹنا زمیں پر ٹکاتے ہوئے اپنے چوڑے ہاتھ میں اس کا گلا دبوچ لیا۔

”ایک آوارہ کتے کے کوٹھی میں گھس آنے پر میں اس کے ساتھ ساتھ پوشا کو بھی فیر (فائر) ٹھوک کر آ رہا ہوں اور… یہاں تو نے یہ سب شروع کر رکھا ہے… چوہدری فرزند علی کی بہن ہوتے ہوئے … تجھے اک بار بھی خیال نئیں آیا؟“

چوہدری فرزند علی کی آنکھوں سے ایک کرب انگیز قہر چھلکا پڑ رہا تھا۔ لہجے میں ایک اندھی وحشت غرا رہی تھی۔

فرزند علی کے ہاتھ کی گرفت یکلخت بڑھ گئی۔ نازیہ کا دم گھٹ کر رہ گیا۔ اس کی دہشت زدہ سفید آنکھیں حلقوں سے ابلی پڑرہی تھیں۔

اسی وقت کھلے دروازے میں جمال علی اکبر کی صورت دکھائی دی اور اگلے ہی لمحے وہ فرزند علی کو پکارتا برق رفتاری سے آگے بڑھ آیا۔

”بھاہ جی! یہ… یہ کیا کر رہے ہیں ؟ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟“ اس نے آتے ہی فرزند علی کو عقب سے جھپا ڈالا اور نازیہ کو اس کے شکنجے جیسی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ نازیہ نے دیکھا‘ دروازے سے جاوید علی کے ساتھ ہی چوہدری اکبر علی خان اندر داخل ہوا تھا۔ اس کے پیچھے ہی بڑی اماں اور بھرجائی الفت بھی بھرا مار کر کمرے کے اندر آگئیں۔ سبھی اندر کامنظر دیکھ کر ایک ذرا تو ششدر رہ گئے پھر جیسے ایک اضطراری انداز میں آگے بڑھ کر فرزند علی سے لپٹ گئے۔

’بھاہ جی! “

”اے فرزند! یہ تو کیا کر رہا ہے… پاگل ہو گیا ہے؟“

”اوئے؛ بندے کا پتر بن، چھوڑ اس کو۔“ چوہدری اکبر علی نے اس کی کلائی پکڑ کر جھٹکے سے نازیہ کی گردن چھڑائی اور جمال علی اور جاوید علی اسے جپھا ڈال کر ایک ذرا پیچھے لے گئے۔ اماں اور بھرجائی فوراً لپک کر نازیہ اور اس کے درمیان آ گئیں۔ نازیہ نے دیکھا‘ چھوٹی اماں کمرے میں داخل ہوئی اور پھر دروازے کے سامنے ہی وحشت زدہ سی کھڑی رہ گئی۔

”اوئے چھوڑو مجھے … ہٹ جاﺅ پچھے …“

فرزند علی نے خود کو چھڑانے کے لیے زور مارا اور ساتھ ہی ایک ذرا آگے ہوتے ہوئے نازیہ کے منہ پر لات مارنے کی کوشش کی مگر نشانہ الفت کا کندھا بنا اور وہ جیسے نازیہ کے اوپر ہی الٹ پڑی… فرزند علی نے پسٹل والا ہاتھ نازیہ کی طرف سیدھا کیا تو چوہدری اکبر علی فوراً اس کے سامنے آ گیا۔ ساتھ ہی اس نے اپنا بایاں ہاتھ فرزند علی کے پستول پر ڈالا اور دائیں ہاتھ کا ایک زور دار طمانچہ فرزند علی کے گال پر رسید کر دیا۔

”اوئے! ہوش پکڑ ذرا… کس پاگل کتے نے کاٹا ہے تجھ کو… پہلے منہ سے کج پھوٹ۔“ چوہدری اکبر علی نے اس کے جبڑے ہاتھ میں جکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی اپنی آنکھیں اس کی آنکھوں میں گاڑ دیں۔ چوہدری اکبر علی کا تھپڑ فرزند علی کے حواسوں پرطاری جنون کو ایک ذرا منتشر کر گیا تھا۔

”کیا آفت ٹوٹ پڑی ہے‘ کیوں اس کی جان کادشمن ہو رہا ہے۔“

”دشمن میں نئیں، یہ ہو چکی ہے… ہماری عزت اور غیرت کی … اگے سے ہٹ جا ابا! میں اس کمینی چھنال کو نئیں چھوڑوں گا اج… اوئے! چھوڑو تم دونوں مجھے۔” چوہدری فرزند علی نے باپ کوجواب دیتے ہوئے دونوں بھائیوں کوجھڑکا اور جھٹکا تھا۔

”فرزند علی… “ چوہدری اکبر علی جیسے اس کی بات سنتے ہی سلگ اٹھا… ”کیا بک رہا ہے تو؟“

”اوئے! چھوڑو تم لوگ مجھے۔“ فرزند علی بھائیوں کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے دھکیل کر دونوں بھائیوں کو خود سے پرے کیا تو چوہدری اکبر علی نے آگے بڑھ کر اسے گریبان سے پکڑلیا۔

”دماغ تو نئیں پھر گیا تیرا… اپنے لفظوں کا مطلب جانتا ہے تو؟“

’ہاں دماغ پھر گیا ہے میرا … تو ہٹ جا میرے اگے سے۔“ فرزند علی نے ایک جھٹکے سے گریبان چھڑایا اور ایک بار پھر بھوکے عقاب کی طرح نازیہ پر جھپٹ پڑا۔ الفت اور نازیہ کے حلق سے بے اختیار چیخیں نکل گئیں۔ فرزند علی نے نازیہ کے بال مٹھی میں دبوچ کر جھٹکا دیا تو وہ اذیت کے مارے بے حال ہو کر رہ گئی۔

”پوچھو اس سے، وہ شاہوں کا چھوکرا یہاں کیا کرنے آیا تھا… کیوں آیا تھا وہ؟“

”فرزند!“ اماں نے جیسے دہائی دی تھی۔

”بھاہ جی!“

ایک بار پھر سب نے آگے بڑھ کر نازیہ کو چھڑایا‘ چوہدری فرزند علی تو جیسے ہوش و حواس ہی میں نہیں تھا… چوہدری اکبر علی اس بار اسے دھکے مارتا ہوا کمرے سے باہر راہداری تک لے آیا۔

چوہدری فرزند علی کے علاوہ باقی سبھی نیند سے اٹھے تھے … صورت حال کا کسی کو بھی ٹھیک سے علم نہ تھا، البتہ اندازہ سبھی کو ہو چکا تھا۔

’ہوش میں آ فرزند علی…“ چوہدری اکبر علی نے اسے کندھوں سے تھام کر سخت لہجے میں مخاطب کیا۔

چوہدری اکبر علی کے لہجے میں زہر اور آنکھوں میں انگاروں کی سی تپش اتر آئی تھی۔

فرزند علی چند لمحے باپ کی سرخ ہوتی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر یک دم پلٹ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ چوہدری اکبر علی نے خاموشی سے اسے جاتے دیکھا اور پھر پلٹ کر کمرے میں آگیا۔

نازیہ فرش پر اسی جگہ بیٹھی سسک رہی تھی … لرز رہی تھی۔ بڑی چوہدرانی اور الفت اسے سنبھالے ہوئے تھیں۔ سبھی کی نظریں چوہدری اکبر علی کے چہرے پر جم گئیں جہاں ایک سنگین اور پتھریلی خاموشی آجمی تھی۔ وہ چند لمحے کھڑا جیسے سرد نگاہوں سے نازیہ کی زرد ہوتی صورت کا جائزہ لیتا رہا پھر دونوں بیٹوں کو اشارہ کرتا ہوا چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گیا۔

فرزند علی تھا کہ وہ سیڑھیاں اترتے ہی کسی اندھے طوفانی گھوڑے کی طرح مردان خانے میں پہنچا اور سیدھا اپنی پراڈو کی طرف بڑھ گیا… چار پانچ مسلح ملازم اپنے چوہدری کے تیوروں کو سمجھتے ہوئے رائفلیں سنبھالتے بہ عجلت اس کے پیچھے پیچھے لپکے تھے۔

”بیٹھ جاﺅ سب!“

فرزند علی نے تحکمانہ انداز میں کہا اور خود اچھل کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پسٹل وہ پہلے ہی دوبارہ کمر سے بندھے ہولسٹر میں ڈال چکا تھا۔

ایک چہرے کی حدت اسے اندر سے جلائے دے رہی تھی اور وہ چہرہ تھا اسرار شاہ کا چہرہ۔ اس کے پیچھے دوچہرے اور تھے۔ زوار شاہ اور کرار شاہ کے چہرے جو ہمیشہ سے اسے چبھتے آئے تھے۔ دونوں ہی بدتمیز اور بددماغ جوان تھے۔ جب بھی اور جہاں بھی سامنے آتے تھے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولتے تھے۔ دو ٹکے کے ہاڑی اور انداز ایسے جیسے پورے نندی پور کے مالک ہوں… ان کی گردنوں میں تو جیسے سلاخیں فٹ تھیں۔ یوں سینہ تان کر اور گردن اکڑا کر آس پاس سے چپ کر کے گزر جاتے تھے کہ جیسے زمین کی خدائی ان کے پاس ہو۔

کئی بار چوہدری فرزند علی ان کی ایسی گستاخیوں اوربدتمیزیوں کو نظر انداز کر چکا تھا۔ یہ سوچ کر کہ چلو پورے گاﺅں میں ان کی عزت بنی ہوئی ہے تو بنی رہے۔ پھر دونوں گھروں کی بچیاں بھی ایک دوسرے کے ساتھ خاصی مخلص تھیں مگر شاہوں نے ایسا نہیں سوچا تھا … انہوں نے نازیہ کو بہن بچی نہیں سمجھا تھا…

بے غیرتی اور بددیانتی کی حد کر دکھائی تھی انہوں نے۔

یعنی اب انہوں نے خود چوہدری فرزند علی پر یہ فرض کر دیا تھا کہ وہ ان کی گردنوں میں ڈلی وہ سلاخیں توڑ کر ان میں پٹے ڈلوائے اور انہیں ان کی اصل اوقات سمجھائے۔ چوہدری فرزند علی نے نفرت اور حقارت کے ساتھ کھڑکی سے باہر تھوکا۔ مسلح گرگے پچھلے حصے میں سوار ہوچکے تھے۔ مردانے کے دربان پہلے ہی چوہدری کو گاڑی کی طرف بڑھتے دیکھ کر گیٹ کھولے کھڑے تھے … چوہدری فرزند علی نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے آگے بڑھائی اور گیٹ سے باہر نکلتے ہی گاڑی کسی وحشی بھیڑیے کی طرح سید صلاح الدین شاہ کے گھر کی طرف دوڑ پڑی۔

خاموشی اختیار کرتے ہوئے کتے ایک بار پھر اپنی بھیانک آوازوں سے آسمان لرزانے پر اتر آئے۔

نندی پور میں ایک شدید ہنگامہ خیز صبح بیدار ہونے جارہی تھی۔

☆ ☆ ☆


اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے