”رستم لہوری نے کہا تھا: "زندگی تو بس جوانی کا نام ہے شاہ زادے! اسے موت تک قائم رکھا جاسکتا ہے ،لیکن اسے سنبھال کر، لگام دے کر نہ رکھا جائے تو یہ بس چند سال کی ہوا ثابت ہوتی ہے۔ اس کے بعد بندہ فارغ"…
قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
مرشد
قسط نمبر 04
چار آدمی مرغا بنے کرلا رہے تھے۔ چاروں زخمی تھے۔ ان میں سے ایک زیادہ زخمی تھا۔ اس کے سر، ناک اور ہونٹوں سے خون رس رہا تھا۔ ان کے سامنے ایک مکان کا کشادہ دروازہ تھا جو چوپٹ کھلا ہوا تھا اور دروازے کے سامنے سرکنڈے کی پشت والے موڑھے پر مرشد مطمئن سے انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ننگے پاﺅں تھا۔ اس کی نوروزی جوتی کا ایک پاﺅں اس کے یار ساون کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا مراد کے اور وہ دونوں وقفے وقفے سے مرشد کے سامنے گلی میں مرغا بنے ان چاروں افراد کی تشریفات کی خبر گیری کررہے تھے۔
آس پڑوس کے کوٹھوں کی کھڑکیوں سے عورتیں لڑکیاں جھانک رہی تھیں۔ اشارے کر رہی تھیں اور ہنس رہی تھیں۔ گلی میں بھی کافی لوگ جمع ہو چکے تھے۔ راہ گزرتے دو تین ہیجڑے باقاعدہ وہاں ناچنے لگے تھے۔ اچھا خاصا تماشا لگا ہوا تھا۔ وہ چاروں معافیاں مانگ رہے تھے۔ منت سماجت کر رہے تھے مگر مرشد کے تیور انہیں معاف کرنے کے ہرگز نہیں تھے۔ اس کے سفید کرتے پر داغ تھے اور گریبان بھی تھوڑا سا پھٹا ہوا تھا۔
اصل میں تو وہ پانچ بندے تھے۔
پانچوں ہی نشے میں دھت ادھر ادھر بے وجہ چھیڑ خانیاں اور بدتمیزیاں کرتے پھر رہے تھے۔ منع کرنے پر انہوں نے ایک دوافراد کو زد و کوب کیا اور ایک رقاصہ کو بھی تھپڑ شپڑ مارے تھے۔ ایک بندے کا سر بھی پھاڑ دیا تھا اور جس کا سر پھٹا تھا وہ مرشد کے چیلوں میں سے تھا اور اس وقت اندر اس کے سر کی مرہم پٹی کی جارہی تھی۔ اسی کی وجہ سے مرشد نے باہر آ کر ان کا سامنا کیا تھا مگر ایک تو شراب اور دوسرا ناواقفیت…
ان کے سرغنہ نے مرشد کو گریبان سے دبوچ لیا تھا۔ وہ لاہور شہر کا نہیں تھا۔ مرشد کو جانتا پہچانتا نہیں تھا۔ کچھ اسے اپنے بڑے بھائی کالے خان کے بدمعاش ہونے کا زعم تھا ،مگر یہ زعم اسے بہت مہنگا پڑا اور اب وہ یوں سرعام ذلت اور بے چارگی کی تصویر بنا دہائیاں دے رہا تھا مگر مرشد پر ان چاروں کی داد و فریاد کا چنداں اثر نہ تھا۔
وہ چار وہاں مرغا بنے کھڑے تھے اور ان کے پانچویں ساتھی کو اچھی خاصی چھترول کے بعد مرشد نے بھیجات ھا کہ جا،اور جاکر اپنے کالے خان کوبلا کرلا… یا تووہ یہاں سب کے سامنے تمہاری طرف سے معافی مانگتے ہوئے یہ معاہدہ کر کے جائے گا کہ آئندہ تم میں سے کوئی ادھر کا منہ نہیں کرے گا یا پھر آج فیصلہ ہو کر رہے گا کہ لاہور شہر میں تم لوگ رہتے ہو یا مرشد… ساتھ ہی اس نے یہ شرط رکھی تھی کہ جب تک کالے خان خود نہیں آ جاتا یہ لوگ یہاں یونہی مرغا بنے رہیں گے اور یونہی ان کی سیوا خاطر جاری رہے گی۔
شاید یہ معاملہ طول پکڑ جاتا اگر استاد مبارک علی وہاں نہ پہنچ جاتے…
ان کے پیچھے پیچھے ٹڈا اچھو بھی پھدکتا آرہا تھا مگر وہ چند قدم پیچھے ہی رک گیا اور استاد جی مرشد کے قریب چلے آئے۔
”مرشد ! حسن بٹیا تمہیں بلا رہی ہے۔“
”کیوں اب کیا ہوا؟“ مرشد کا موڈ خراب تھا۔
”اسے تمہارے اس جھگڑے کی خبرملی ہے اور اس نے کہا ہے کہ جہاں اور جس حال میں ہو، فوراً اٹھ کر چلے آﺅ۔“
استاد جی کی بات پر مرشد بس خاموشی سے انہیں گھورتا رہ گیا‘ ایک نظر اس نے اچھو کو بھی دیکھا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
”ٹھیک ہے!‘ آپ چلیں میں بھی آرہا ہوں۔“
ساون اور مراد نے صور ت حال کو سمجھتے ہوئے جوتے مرشد کے سامنے ڈال دیئے۔
”کھڑے ہو جاﺅ بھئی؟“
مرشد نے جوتوں میں پیر پھنساتے ہوئے کہا تو چاروں مرغے کراہیں بھرتے ہوئے آہستہ آہستہ سیدھے کھڑے ہوگئے۔
”آپ ابھی تک کھڑے ہو!“ استاد جی کووہیں کھڑے دیکھ کر مرشد نے ناگواری سے کہا تووہ فوراً! واپس پلٹ گئے۔
مرشد ان چاروں کے سامنے آکھڑا ہوا… ان بے چاروں کی حالت بڑی خراب تھی۔ چہرے سرخ انار اور سر سے پاﺅں تک پسینے میں شرابور ‘ سارے نشے کب کے ہرن ہو چکے تھے۔
”چل میرے گریبان پر ہاتھ ڈال۔“
مرشد نے اس باریک مونچھوں اورچھوٹی آنکھوں والے کوگھورتے ہوئے مخاطب کیا جس نے جھگڑے کے شروع میں مرشد کے گریبان پر ہاتھ ڈالا تھا اور جو کالے خان کاچھوٹا بھائی تھا۔
”میں نے کچھ کہا ہے تم سے ؟“ چند لمحوں کے توقف کے بعد مرشد نے اسے دوبارہ مخاطب کیا مگر وہ نظریں جھکائے خاموش کھڑا رہا جب کہ باقی تینوں نے ہاتھ جوڑ دیئے تھے۔
”سنا نہیں تم نے ؟“ مرشد کے لہجے میں ہلکی سی غراہٹ در آئی۔ اس شخص نے ایک نظر مرشد کی طرف دیکھا پھر دزدیدہ نظروں سے اپنے اردگرد موجود جمگھٹے کو دیکھتے ہوئے دوبارہ نظریں نیچی کر لیں۔
مرشد نے اچانک بایاں ہاتھ بڑھا کر اس کادایاں ہاتھ کلائی کے قریب سے پکڑ کر تھوڑا اوپر اٹھایا اور دائیں ہتھیلی کو نیچے سے اس کی کہنی پر مارا”کڑک“ کی آواز ابھری اور اس شخص کے حلق سے کرب ناک چیخ نکل گئی۔ اس کی کہنی کا جوڑ کھل چکا تھا۔ وہ دوسرے ہاتھ سے اپنی کلائی تھامتا‘ ڈکراتا ہوا وہیں گھٹنوں کے بل مرشد کے سامنے گرپڑا۔
”ان چاروں کو اندر کتکان کے ساتھ بٹھاﺅ… میں واپس آ کر ان کی خبر لیتا ہوں۔“
مرشد نے ساون اور مراد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور جدھر استاد جی گئے تھے ادھر کو بڑھ گیا۔ باقی تینوں مرشد کو دہائیاں دینے لگے مگر مرشد نے ان کی طرف دیکھا تک نہیں۔
وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا اور سیدھا حسن آرا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
حسن آرا ہمیشہ کی طرح تھکی ہوئی سی اپنے پلنگ پر دراز خالی خالی نظروں سے چھت کی سیاہ کڑیوں کو تک رہی تھی۔ کمرے کے دروازے پر آہٹ محسوس کرتے ہوئے اس نے ذرا سا سر اٹھا کر دیکھا۔ آنے والا مرشد تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔سفید کرتا داغ دار تھا اور گریبان کے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔
”پھر سے جھگڑا کیا تم نے ؟“ وہ تکیے کاسہارا لیتے ہوئے اٹھ بیٹھی ۔مرشد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموشی سے پلنگ کے سرہانے دیوار میں بنی الماری کی طرف بڑھ گیا۔
”کیوں کرتے ہو یہ سب… کیا ملتا ہے تمہیں ان جھگڑوں سے؟ پتا ہے سب کتنے پریشان رہتے ہیں تمہارے لیے۔“
مرشد خاموش رہا۔
اس نے الماری سے کچھ دوائیں نکالیں‘ تپائی سے جگ اٹھا کر پانی کا گلاس بھرا اور حسن آرا کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
حسن آرا چند لمحے اسے گھورتی رہی اور وہ خاموشی سے دونوں ہاتھ اس کے سامنے کیے کھڑا رہا۔ پھر حسن آرا نے دوائیاں اس کے ہاتھ سے لیں اور منہ میں ڈال لیں… جانتی تھی کہ اب جب تک وہ یہ گولیاں وغیرہ کھا نہیں لے گی مرشد ہونٹ سیئے یونہی کھڑا رہے گا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے حسن آرا کو چند گھونٹ پانی پلایا اور پھر ایک شیشی سے دو چمچ سیرپ کے حسن آرا کے منہ میں ڈالے اور آگے بڑھ کر شیشی دوبارہ الماری میں رکھ دی۔
”تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ یہ سب چھوڑ دو… یہاں سے چلے جاﺅ… کسی دور دراز جگہ پر‘ جا کر نئی زندگی شروع کرو۔ اچھے طریقے سے زندگی گزارو‘ مگر تمہیں اثر نہیں ہوتا۔ کیوں نہیں ہوتا… کیوں میری بات نہیں مانتے تم؟“
”کوئی نیا سوال ہے آپ کے پاس؟“
مرشد نے جیسے خود کلامی کی تھی۔ وہ پلنگ سے ٹیک لگا کر نیچے قالین ہی پر بیٹھ گیا۔
”نہیں۔“
”کوئی کام ہے مجھ سے ؟“
”نہیں۔“
”تو پھر بلایا کیوں ہے ؟“
”تمہیں تو جیسے معلوم نہیں‘ کیا تماشا لگا رکھا تھا گلی میں۔ کیوں مارا پیٹی کر رہے تھے ؟“
”یونہی… شوقیہ۔“
”اس طرح کے فضول شوق چھوڑ نہیں سکتے تم… آخر کیا حاصل ہوتا ہے اس سب سے تمہیں۔ کیوں ہر کسی سے جھگڑتے پھرتے ہو؟“
”آپ کو تو جیسے معلوم نہیں۔“ مرشد نے اسی کے انداز میں کہا۔ ”ویسے بھی آپ چاہتی کب ہیں کہ میں یہ فضول شوق چھوڑ دوں۔“
”‘میں تو تمہیں منع کر کر کے تھک گئی ہوں۔ جانتی ہوں کہ تم نے میری بات نہیں ماننی، اسی لیے اب کہنا ہی چھوڑ دیا ہے مگر جو میرے کلیجے پر گزرتی ہے وہ بس میں ہی جانتی ہوں۔“
”کیوں گزرتی ہے آپ کے کلیجے پر… کیوں بے وجہ پریشان ہوتی ہیں۔“
”ماں ہوں تمہاری۔“
”آدھی ماں …آدھی ماں اور آدھی باجی… باجی امی!“
”مرشد!“ حسن آرا نے قلق انگیز لہجے میں جیسے اس کا نام نہیں لیا تھا بلکہ اسے ٹوکا تھا۔
”جی، باجی امی!“
”مت کہا کرو مجھے باجی امی، میں تمہاری باجی نہیں صرف امی ہوں۔ صرف ماں ہوں۔ تم مجھے صرف امی کہا کرو۔“ حسن آرا کی آواز بھیگ گئی۔
”ٹھیک ہے… آپ جو کہتی ہیں وہی کہوں گا۔ جیسے کہیں گی ویسے ہی پکاروں گا۔ لڑائی جھگڑے بھی چھوڑ دوں گا۔ جہاں کہیں گی وہیں جا کر رہوں گا۔ جیسے کہیں گی ویسے رہوں گا۔ بس ایک بات میری بھی مان لیں آپ… صرف ایک بات… میں آپ کی ہر بات پر بلا چوں چراں کیے عمل کرتا جاﺅں گا۔ جو آپ کہیں گی… بس صرف ایک بات میری مان لیں‘ صرف ایک بات۔“
مرشد نے رخ بدلتے ہوئے پہلے حسن آرا کے پاﺅں تھامے پھر اس کے پاﺅں پر اپنا سر رکھ دیا۔
اس کے ملتجی لہجے پر حسن آرا کا دل تڑپ اٹھا تھا مگر وہ منہ سے ایک لفظ نہ کہہ سکی‘ بلکہ اس نے سختی سے ہونٹ بھینچ لیے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ مرشد کیا چاہتا ہے‘ کیا مانگ رہا ہے‘ کونسی ایک بات ہے جو وہ منوانا چاہتا ہے۔
گزشتہ کئی سال سے وہ یہی ایک بات تو کہتا آ رہا تھا۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا۔ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ جو بات وہ منوانا چاہتا ہے‘و ہ جائز سہی۔ قابل عمل سہی مگر اس پر عمل کر پانا حسن آرا کے بس کی بات ہی نہیں۔ حسن آرا کے لیے تو ویسا سوچنا بھی ممکن نہیں تھا‘ عمل کر پانا تو پھر دور کی بات تھی۔
مرشد اس کے پیروں پر سر رکھے بیٹھا رہا اور حسن آرا پتھر کا بت بنی نم آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔ کچھ دیر دونوں ہی اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھے رہے‘ پھر خود بخود جیسے مرشد اپنی باجی امی کا جواب جان گیا۔ کئی سالوں سے تو اس ضد بحث کاسلسلہ جاری تھا۔ اس نے آہستہ سے سر اٹھا کر حسن آرا کی طرف دیکھا پھر اٹھا اور بغیر کچھ کہے کمرے سے باہر نکل آیا۔
اس کا ارادہ اپنی بیٹھک پرپہنچ کر کالے خان کے گرگوں کی مزید چھترول کے ذریعے اپنے سینے کی بھڑاس نکالنے کا تھا مگر ڈیوڑھی میں ٹڈے اچھو سے اس کا سامنا ہو گیا… اچھو کے ہاتھ میں آٹھ دس رسالے دبے ہوئے تھے۔
”یہاں شکایت کس نے پہنچائی تھی؟“ مرشد اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔
”وہ… وہ میں نہیں تھا مرشد بھائی۔“
’کون تھا؟“مرشد نے اس کا کالر پکڑ لیا۔
”وہ… ہا…ہاشوخان…“ اچھو‘ مرشد کے تیو ردیکھ کر ہکلانے لگا۔
’کدھر ہے وہ ؟“
’ادھ…ادھر پچھلی طرف باغیچے والے کمرے میں ہو گا۔ بڑی اماں نے ادھر بلایا ہے اسے۔“
مرشد نے اسے چھوڑا اور واپس پلٹ کر عقبی طرف کو چل پڑا جدھر صحن کے ایک حصے میں گیندے‘ گلاب اور کلیوں کے پودے لگائے گئے تھے اور کونے میں ایک کمرہ بھی تھا۔
توقع کے عین مطابق ہاشو خان کمرے میں موجود تھا مگر وہ اکیلا نہیں تھا۔ نزہت بیگم بھی وہاں موجود تھی۔ خالہ زاد شگفتہ اور خالہ عشرت جہاں کے علاوہ ایک اور لڑکی بھی کمرے میں تھی جس کی شکل و صورت مرشد کے لیے نظر آشنا نہیں تھی۔
مرشد نے کسی کی طرف بھی دھیان نہیں دیا اور نہ اس بات پر توجہ دی کہ وہاں کیا صورت حال ہے۔ البتہ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب کا دھیان اور توجہ اس کی طرف مبذول ہوگئی تھی۔ اس کے اس طرح اچانک اندر آنے پر سبھی جیسے گڑبڑا گئے تھے۔ مرشد نے اندر داخل ہوتے ہی ہاشو خان کے منہ پر ایسا زبردست طمانچہ مارا کہ وہ لڑکھڑا کر دیوار سے جا ٹکرایا۔
”مرشد… نزہت بیگم فوراً آگے بڑھی مگر پھر ٹھٹک گئی۔
مرشد کے تاثرات خاصے خراب تھے۔
”بڑاشوق ہے تجھے جاسوس بننے کا… چل آج تجھے مکمل جاسوس بناتا ہوں میں۔“ مرشد نے آگے بڑھ کر اسے کالر سے پکڑا اور گھسیٹ کر کمرے سے باہر لے آیا۔
”باواجی! میں… میں نے کیا کیا ہے۔ کیا ہوا ہے ؟“ مرشد کے تاثرات دیکھ کر ہاشو کا پتہ پانی ہو گیا تھا۔
”مرشد… رک جا مرشد۔“
”کیا کِیا ہے اس نے ؟“
”رک…“
نزہت بیگم اور عشرت جہاں دونوں اس کے پیچھے لپکی تھیں۔
ہاشو خان اپنا گریبان چھڑانے کے لیے ایک ذرا پھڑکا تو مرشد نے اسے گھما کر پہلے تو دیوار سے ٹکرایا پھر دو تین تھپڑ رسید کردیئے۔ ہاشو خان کے حلق سے بے اختیار دھاڑیں نکل گئی تھیں۔
’مرشد! چھوڑ اسے… چھوڑ دے میں کہتی ہوں۔“ نزہت بیگم چند قدم کے فاصلے پر کھڑی مرشد پر چلا رہی تھی۔ اس کی تو مرشد نے سننی نہیں تھی مگر ٹھیک اسی وقت برآمدے سے حسن آرا نمودار ہوئی۔ اس کے عقب میں اچھو بھی تھا۔
”مرشد! کیا ہو رہا ہے یہ؟ چھوڑو اسے… میں کہہ رہی ہوں چھوڑ دو اسے۔“
حسن آرا کی آواز پر مرشد کی وحشت کو جیسے لگام آ گئی۔ اس نے ہاشو خان کوگردن سے دبوچ رکھا تھا۔
”آج کے بعد اگر تو نے میری جاسوسی کی… میرے کسی معاملے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی تو میں تیری ٹانگیں توڑ کر تیرے گلے میں لٹکادوں گا… یاد رکھنا میری یہ بات۔“
اس نے ہاشو خان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر غراتے ہوئے کہا اور پھر اسے دھکا دے کر ایک طرف گرا دیا۔
”دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا…بالکل ہی پاگل ہو گئے ہو کیا؟“ حسن آرا اچھی خاصی خفا معلوم ہو رہی تھی۔ مرشد نے چپ چاپ وہاں سے نکل جانا چاہا مگر حسن آرا نے قریب سے گزرتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر روک لیا۔
”اب باہر کہیں یا بیٹھک پر جا کر کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں کرنا۔ بس بہت ہو گیا ،مزید کچھ نہیں اور… وہ جو چاربندوں کو تم نے کان پکڑا رکھے تھے۔ ان کی بھی جان بخشی کرو… میرے لیے اذیت کا سامان مت کرو۔“
مرشد نے ایسی نظروں سے اس کی طرف دیکھا کہ حسن آرا کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔
کیا نہیں تھا ان آنکھوں میں…غصہ‘ ناراضگی‘ شکایت اور بے بسی۔
حسن آرا کی گرفت اس کے بازو سے ختم ہو گئی اور مرشد تیزی سے بیرونی طرف بڑھ گیا۔
حسن آرا اس کی آنکھوں کے اس مخلوط تاثر کو سمجھتی تھی۔ یہ بھی تسلیم کرتی تھی کہ جوان جہان بیٹا اور اس کا تقاضا‘ دونوں اپنی جگہ درست ہیں مگر اس کی بات پر عمل کرنا اس کے بس… اس کے اختیار کی بات نہیں تھی۔!
☆ ☆ ☆
حجاب بی بی کو یہ جاننے سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی تھی کہ قسمت کے الٹ پھیر نے اسے کہاں لا پھینکا ہے… یہاں پہنچنے کے کچھ ہی بعد اسے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ لاہور کے بدنام زمانہ علاقے ”بازار حسن“ کے ایک کوٹھے پر پہنچا دی گئی ہے۔
سب سے پہلے اس عشرت نامی عورت نے اسے اپنی بیٹی کے کپڑے نکال کر دیئے تھے جو حجاب نے غسل کر کے پہن لیے… پہلی رات کسی نے اس سے کچھ نہیں کہا تھا مگر دوسرے روز دوپہر کے بعد نیا معاملہ شروع ہو گیا۔ پہلے نزہت جہاں اسے میٹھے میٹھے انداز میں نصیحتیں کرنے آئی۔‘ پھر عشرت اور اس کی بہن سندس جہاں نے آ کر اسے سمجھانا بجھانا شروع کیا اور حالات سے سمجھوتا کر لینے کی پٹیاں پڑھائیں۔
سندس جہاں کی دو بیٹیاں شگفتہ بانو اور شازیہ بانو بھی آ کر ویسی ہی باتیں کرتی رہیں… عجیب سی چمک تھی سب کی نظروں میں اور ان سبھی کی نگاہیں جیسے پور پور اس کے وجود کی تلاشیاں لیتی رہی تھیں۔ حجاب نہیں جانتی تھی کہ ان سب کی آنکھوں میں تین کنال کی کوٹھی سجی ہوئی ہے۔
دوسری رات وہ رات بھر روتی رہی اور خدا کے حضور گڑگڑاتی رہی۔
صبح ہوئی تو پھر سے وہی سلسلہ شروع ہو گیا… پہلے نرمی‘ محبت اور پیار سے اسے پیروں میں گھنگھرو پہن لینے کے لیے کہا جاتا رہا مگر اس کے مسلسل انکار پر ان عورتوں کے لہجے اور انداز سے وہ نرمی اور محبت یوں غائب ہوئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ وہ اسے ڈرانے دھمکانے پر اتر آئیں۔ تیسرے روز سہ پہر کا وقت رہا ہو گا کہ باہر سے دروازے کی زنجیر ہٹنے کی آواز آئی ‘ دروازہ کھلا اور نزہت بیگم اور عشرت جہاں اندر داخل ہو آئیں۔
”کیوں ری چھوری! کیا سوچا پھر تو نے‘ کیا فیصلہ کیا؟“ بھدے جسم والی مکروہ صورت نزہت بیگم نے اندر داخل ہوتے ہی تیوریاں چڑھا کر اس سے پوچھا تھا۔
”مجھے یہاں سے جانا ہے۔“ اس نے سر جھکائے جھکائے کہا۔ وہ پلنگ پر بیٹھی تھی۔
”کس ماں کے پاس جانا ہے یہ بھی بتا دے تو میں تانگہ منگا دوں تجھے۔“
”کہیں بھی چلی جاﺅں گی‘ بس آپ لوگ مجھے ادھر سے باہر جانے دیں۔“
”تو پہلے ہی کہیں اور دفع ہو جاتی… ادھر آئی کاہے کو تھی۔“
دونوں ہی اندر آ کر دوسری دیوار کے ساتھ بچھی مسہری پر بیٹھ گئیں۔
”میں خود سے تو نہیں آئی۔ وہ… وہ چوہدری مجھے زبردستی یہاں…“
”دیکھ لڑکی! تو اچھی طرح جانتی سمجھتی ہے کہ تیری مرضی کی اب کوئی اہمیت نہیں۔ تو نا تو یہاں اپنی مرضی سے آئی ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے یہاں سے جا سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہاں خیریت سے رہنا چاہتی ہے تو تجھے یہیں کے طور طریقوں کے مطابق جینا ہے۔ ہماری مرضی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ تو خود ہی یہ سب جان سمجھ لے۔ دوسری صورت میں تیرے ساتھ جو سلوک ہو گا اس کا اندازہ تیرے فرشتے بھی نہیں کر سکتے… سمجھی تو؟“
یہ عشرت جہاں تھی۔ پھر اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا کچھ بولتا دروازے سے دو حواس باختہ صورتیں اندر داخل ہوئیں۔ ایک تو عشرت کا بیٹا ٹڈا اچھو تھا اور دوسری سندس جہاں کی بیٹی شگفتہ بانو۔
”اماں! وہ، مرشد… ہاشو۔“ شگفتہ بانو نے گھبرائے ہوئے انداز میں کچھ کہنا چاہا تھا۔
”کیا؟“
”وہ ، مرشد کا جھگڑا ہو گیا ہے ۔کالے خان کے بندوں کو گلی میں پیٹ رہا ہے۔ ایک زخمی کو ہاشو لے کر اوپر آیا ہے۔“
”یا خدا“
نزہت اور عشرت دونوں بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کالے خان‘ اس کوٹھے اور ان کے اس دھندے کی پشت پناہی کرنے والو ں میں سے ایک مضبوط شخص تھا۔ نزہت بیگم کے اپنے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔
”اے عشرت! تو یہیں رک، میں دیکھتی ہوں۔ ایک تو اس مرشد نے جینا حرام کر چھوڑا ہے۔ پتا نہیں اسے کب موت آئے گی۔ کب جان چھوٹے گی اس منحوس مارے سے۔“ نزہت بیگم فوراً بکتی جھکتی کمرے سے نکل گئی۔ اچھو بھی اس کے پیچھے ہی نکل گیا تھا۔
”کس بات پر جھگڑا ہوا ہے ؟‘ نزہت بیگم کے جاتے ہی عشرت جہاں نے شگفتہ سے پوچھا اور دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔
”مرشد کو جھگڑا کرنے کے لیے کسی بات کی کیا ضرورت ہے بھلا۔“
شگفتہ نے استہزا سے کہا اور آگے بڑھ کر حجاب کے قریب ہی پلنگ پر ٹک گئی۔
”ہاشو ایک زخمی بندے کو ساتھ لے کر آیا ہے کہ اسے حسن آرا کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں تا کہ اس کے باقی ساتھیوں کی بھی جان بخشی کا پروانہ جاری کرا سکے۔“
”ان دونوں ماں بیٹے سے تو بس خدا ہی پوچھے … انسانوں کے بس کے تو شاید یہ رہے ہی نہیں۔“
”جو لچھن اس مرشد کے ہیں نا! وہ زیادہ عرصہ رہنے والوں والے نہیں۔ خدا نے دیر کر بھی دی تو اُس کا کوئی بندہ ہی اس کو کہیں گھیر پوچھے گا، دیکھ لینا۔“
”ہمارے برباد ہو چکنے کے بعد ہی شاید ایسا کچھ ہو گا۔ یا جب اس کوٹھے پر تالے پڑ جائیں گے تب۔“
”تو بڑی اماں سے بات کر کے اس حسنو کو یہاں سے نکلوا کیوں نہیں دیتی۔“
”ارے وہ فنے کٹنی یہاں سے جانا چاہے تو تب ہے نا! مرشد تو کب سے اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ چل تجھے یہاں سے کہیں دور لے چلتا ہوں۔ زندگی کے آخری کچھ دن عزت سے گزار لے‘ مگر نہیں… بیٹھی ہے کھونٹا گاڑ کے۔ اس کے جیتے جی اس خبیث نے کہیں نہیں جانا اور اس خبیث کے ہوتے ہوئے کوئی اسے کچھ نہیں کہہ سکتا… اب بندہ مرے یا جیئے!“
وہ ماں بیٹی ،حجاب کو نظر انداز کیے اپنی ہی باتوں میں مگن ہو گئی تھیں۔
حجاب بی بی اپنی جگہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس کے دل و دماغ کی عجیب حالت تھی۔
اپنے گھر، اپنے صحن سے اغوا ہوئے اسے تقریباً آٹھ دس روز ہو چکے تھے۔ ان آٹھ دس دنوں میں وہ بے تحاشا روئی تھی۔ اپنا گھر‘اپنے لوگ‘ اپنا گاﺅں‘ سب کچھ اس کے اندر تڑپتا رہا تھا۔ سسکتا رہا تھا اور وہ ہر ہر پل اپنے خدا کو پکارتی رہی تھی۔
التجائیں اور فریادیں کرتی رہی تھی۔
دن، رات ،ہر وقت… مسلسل… اسے مسلسل یہ امید، یہ توقع رہی تھی کہ ضرور کوئی معجزہ ہو گا۔ ضرور کوئی نہ کوئی کرشمہ ہو گا اور سب کچھ پھر پہلے کی طرح ہو جائے گا۔ وہی گھر‘ وہی مطمئن اور آسودہ حال زندگی۔ مہربان و مشفق ماں باپ اور جان چھڑکنے والے گھبرو جوان بھائی… مگر تا حال ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اور کچھ ہونے کی توقع بھی اب جیسے دم توڑنے لگی تھی۔
اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ نہ تو آسمانوں سے کوئی مہربانی ہونی ہے اور نہ کوئی زمینی مدد نصیب ہونی ہے… ایک مایوسی خودبخود ہی اس کے دل میں پھیلنے لگی تھی۔ وہ جب سے یہاں پہنچائی گئی تھی تب سے اس کے ذہن میں یہ خیال آ رہا تھا کہ کسی طرح یہاں سے نکل جاﺅں مگر اس نے ابھی تک اس خیال پر توجہ نہیں دی تھی کہ یہ اسے کسی صورت قابل عمل اور ممکنات میں سے محسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنے دماغ میں الجھی رہی… عشرت اور شگفتہ اپنی باتوں میں محو تھیں۔ پھر انہیں نزہت بیگم کی تند و ترش آواز ہی نے چونکایا تھا۔
”اب ادھر کدھر منہ اٹھائے آ رہا ہے مردود! جا کر ہاشو کو ادھر بھیج،۔جا، دفع ہو۔“
وہ باہر غالباً غصے میں اچھو پر برس رہی تھی۔ چند لمحوں بعد وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کا چہرہ ضبط کرنے کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا۔ اندر آتے ہی اس نے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی گھنگروﺅں کی جوڑی حجاب کے سامنے پلنگ پر پٹخ دی۔
”چل اے چھوری! اٹھا کر باندھ یہ پاﺅں میں اور تیار ہو جا۔ بہت سمجھا لیا تجھے پیار سے ۔ اب دیکھتی ہوں تو کیسے میری بات پر عمل نہیں کرتی۔“
نزہت بیگم تو جسے انگارے چبا کر لوٹی تھی۔
”کیامسئلہ تھا اماں! کیا ہوا؟“
عشرت جہاں بے ساختہ متفسر ہوئی۔
”مسئلہ…“ نزہت بیگم فوراً عشرت کی طرف پلٹی۔ ”یہ جو ماں بیٹا میرے کلیجے کی دق بن کر رہ گئے ہیں ان کے علاوہ اور کیا مسئلہ ہوسکتا ہے؟ یہ حسن آرا کا پاگل سانڈ کسی روز خودبھی جانور کی موت مرے گا اور ساتھ ہمارا بھی رگڑا نکلوا دے گا۔ ا س منحوس نے کالے خان کے پانچ بندوں کانیچے گلی میں اچھا خاصا تماشا بنایا ہے اور… ان میں ایک کالے خان کا چھوٹا بھائی بھی ہے۔“ نزہت بیگم عشرت کے ساتھ ہی مسہری پر بیٹھ گئی۔ ”میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ان ماں بیٹوں کا کیا کروں۔“
اس کی حجاب پر نظر پڑی تو پھر سے بھڑک اٹھی۔
”اے! تجھے سنائی نہیں دیا کیا؟’ یہ گھنگرو اٹھا کرپیروں میں باندھ لے ورنہ آج تیری چمڑی اتار لوں گی میں اور کل یہ گوری ملائم چمڑی جوتی کی صورت میرے پاﺅں میں ہو گی… سمجھی؟“
حجاب اپنی جگہ پتھر کا بت بن کر رہ گئی۔ اس کی نظریں گھنگرﺅں پر ٹکی تھیں اور روح پر لرزہ طاری تھا۔ اس کے پردہ تصور پر اس کے بابا سائیں کا سفید ریش اور پر نور چہرہ تھا اور وہ دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہہ رہی تھی۔
”حجاب! یہ لوگ تمہارے ساتھ جو بھی سلوک کریں۔ جو بھی ظلم توڑیں، تم نے ان کی یہ بات نہیں ماننی… ان کے کہے پر عمل نہیں کرنا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔“ اس کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی تو نزہت بیگم نے لپک کر اسے بالوں سے دبوچ لیا۔
”جانتی ہوں میں۔ سیدھے سبھاﺅ بات آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی۔ مگر میرا نام بھی نزہت بیگم ہے۔ بڑی بڑی چھنالوں کو سیدھا کیا ہے میں نے۔ تُو تو پھر بالشت بھر کی چھوکری ہے۔“
”میں ایسا کبھی نہیں کروں گی چاہے مجھے جان سے مار ڈالو۔“
حجاب نے لرزیدہ آواز میں کہا تو نزہت بیگم نے طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے اپنے پان زدہ گندے دانتوں کی نمائش کی۔
”یہاں کسی کو جان سے نہیں مارا جاتا…
تجھے بھی زندہ ہی رکھا جائے گا… بس آٹھ دس بندوں کو ایک ساتھ جب تجھ پر چھوڑا جائے گا نا تو ساری ہیکڑی چٹکیوں میں جاتی رہے گی… دیکھتی ہوں میں بھی کہ تو کب تک اڑی دکھاتی ہے۔“
نزہت بیگم نے اسے بالوں سے ایک ذرا جھنجوڑا، اسی وقت دروازے سے ہاشو خان اندر داخل ہوا… حجاب کو اس کی صورت ہی سے کراہت محسوس ہوئی تھی۔
”جی بائی جی ! وہ اچھو نے کہا کہ آپ نے بلایا ہے مجھے۔“
نزہت بیگم حجاب کے بال چھوڑ کر ہاشو کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”ہاں، آﺅ ہاشو! دیکھو تو… کیسی چیز ہے یہ ؟“اس کا اشارہ حجاب کی طرف تھا۔ ہاشو کی ندیدہ نظریں تو پہلے ہی حجاب پر جمی تھیں۔
”کیا بات پوچھتی ہو بائی جی! یہ تو ایک دم خالص کھوئے ملائی والی قلفی جیسی ہے۔ آگ کا بنا گلاب ہے۔ ہر دامن جلا کر رکھ دے گا۔ بیٹھے بٹھائے یہ خزانہ کدھر سے ہاتھ لگ گیا۔“ اس کی نظریں بدستور حجاب کے بدن پر سرک رہی تھیں۔
”بس ہاتھ لگ ہی گیا ہے۔ مگر اس کھوئے ملائی والی قلفی کا کہنا ہے کہ یہ بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔“
”آپ حکم کریں تو ساری ٹیڑھ منٹوں میں نکال دیتے ہیں۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے جی!“ ہاشو خان سینہ پھلا کر کھڑا ہو گیا تھا۔
”کیوں ری! کیا کہتی ہے ؟ اب بھی فیصلہ تیرے ہاتھ میں ہے۔“ نزہت بیگم کے سوال کے فوراً بعد شگفتہ نے حجاب کے گھٹنے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ ”بے وقوف نہ بن۔ تھوڑا عقل سے کام لے۔ کیوں اپنی کم بختی اور مصیبت کو آواز دے رہی ہے !تیرا بھلا اسی میں ہے کہ جو کہا جا رہا ہے وہ چپ چاپ مان لے۔“
”میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی۔ آپ سب کیوں مجھے زبردستی مجبور کر رہے ہیں۔“ ہزار ضبط کے باوجود وہ سسک اٹھی۔ خشک پڑ چکی آنکھوں میں جانے پھر کدھر سے آنسو امڈ آئے۔ ”مجھے جانے دیں۔ خدا کے لیے مجھے جانے دیں… میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ میرے …میرے والدین کو پتا چلا تو وہ دکھ سے مر جائیں گے… خدا کے لیے مجھ پر رحم کریں۔ جانے دیں مجھے یہاں سے۔“
”میں نے کہا ہے نا ہاشو! یہ ٹیڑھی کھیر ہے۔ ایسے نہیں سمجھے گی۔ تو یوں کر کہ چار چھ اور جوانوں کا انتظام کر اور آج کی ساری رات دل کھول کر اس کی خبر لو… میں پھر کل دن میں اس کے مزاج پوچھوں گی۔“
”اور کسی کی کیا ضرورت ہے بائی جی! میں اکیلا ہی اس کی طبیعت بحال کردوں گا۔“
ہاشو خان نے مونچھوں کو تاﺅ دیتے ہوئے کہا تو نزہت بیگم نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔ وہ تو حجاب کو صرف نفسیاتی مار مار رہی تھی‘ ورنہ چوہدری اکبر کے الفاظ وہ کوئی بھولی تو نہیں تھی۔
”نہیں ہاشو! کم از کم چھ آٹھ بندے تو ضرور ہوں تا کہ یہ خود کمرے سے بغیر کپڑوں کے دھمال ڈالتی ہوئی باہر آئے۔ مزہ تو تبھی آئے گا۔“
ہاشو کچھ بولنا چاہتا تھا مگر اسی وقت مرشد کمرے میں داخل ہوا تو سب چونک کر اس کی جانب متوجہ ہو گئے۔
اس نے اندر آتے ہی ہاشو کے گال پر اس زور کا تھپڑ رسید کیا کہ ہاشو لڑکھڑا کر دیوار سے جا ٹکرایا۔
”مرشد…“ نزہت بیگم فوراً آگے بڑھی مگر پھر ٹھٹک گئی ۔مرشد کے تاثرات خاصے خراب تھے۔ حجاب بی بی کچھ مزید سہم گئی۔
”بڑا شوق ہے تجھے جاسوس بننے کا۔ چل، آج تجھے مکمل جاسوس بناتا ہوں میں۔“ مرشد نے ہاشو کو کالر سے پکڑا اور گھسیٹ کر کمرے سے باہر لے گیا۔
نزہت بیگم اور عشرت جہاں، مرشد کو پکارتی ہوئی فوراً اس کے پیچھے لپکی تھیں۔
شگفتہ بھی فوراً اٹھ کر ان کے پیچھے ہی کمرے سے باہر نکل گئی۔ حجاب کمرے میں تنہا رہ گئی۔ اس کے بالکل ہی سامنے کمرے کا دروازہ تھا جو چوپٹ کھلاتھا۔ دروازے سے باہر، سامنے ہی پھولوں کے کچھ پودے دکھائی دے رہے تھے اور صحن کی چار دیواری کی ایک دیوار بھی جو حجاب کے قد سے تھوڑی چھوٹی ہی رہی ہو گی… اگر ایک ذرا ہمت اور کوشش سے کام لیا جاتا تو اس دیوار کو پھلانگا بھی جا سکتا تھا۔
یک بہ یک حجاب کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں… یہی ایک موقع اور وقت تھا جس کافائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ وقت بہت کم تھا۔ کسی بھی وقت وہ چڑیلیں واپس پلٹ سکتی تھیں۔ حجاب کو جو کرنا تھا وہ ابھی کرنا تھا… وہ اضطراری انداز میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ پھر بے اختیار آگے بڑھ کر دروازے کے قریب پہنچ گئی۔ باہر کچھ فاصلے سے ہاشو کی دھاڑیں اور وہاں موجود خواتین کی روک ٹوک کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
دروازے کے قریب پہنچتے ہی حجاب کو صحن کی دوسری دیوار بھی دکھائی دینے لگی جو سامنے کی دیوار سے، اسی کمرے کی بغلی طرف کو آتی تھی۔ اسی دیوار کے ساتھ کوئی دس بارہ قدم دور کچھ لکڑی کے تختے اور لکڑیوں کا ایک چھوٹا سا ڈھیر پڑا تھا جس پرپاﺅں رکھ کر با آسانی دیوار کے اوپر پہنچا جا سکتا تھا۔ شاید قدرت اس کی مدد پر آمادہ ہو آئی تھی۔
اس نے ایک ذرا دروازے سے باہر جھانکا۔
کچھ فاصلے پر وہ چڑیلیں موجود تھیں، مگر اس طرف کو ان کی پشت تھی ایک طرف زمین سے اٹھتے ہوئے ہاشو خان کی جھلک بھی اسے دکھائی دی۔ ان سب سے آگے برآمدہ تھا۔ برآمدے میں ایک عورت اس جنونی شخص کا بازو تھامے کچھ بول رہی تھی۔ جسے نزہت بیگم نے کچھ دیر پہلے مرشد کہہ کر پکارا تھا۔
حجاب کے پورے وجود میں ایک سنسناہٹ جاگ اٹھی۔ دل جیسے حلق میں آ کر دھڑکنے لگا تھا۔ اس کے وجود پر شگفتہ کے کپڑے تھے اور پاﺅں میں اسی کی چپل۔ اس نے آہستہ سے چپل اتار دی۔ نہیں سوچا تھا کہ دیوار پھلانگ کر کدھر جائے گی؟ کیاکرے گی ؟اس کے دل و دماغ میں تو بس ایک خیال تھا کہ اس چار دیواری سے نکل جاﺅں۔ یہاں سے کہیں دور چلی جاﺅں۔ اتنی دور کہ یہ لوگ دوبارہ میری گرد کو بھی نہ پا سکیں۔
اس نے آخری بار تختوں ‘کڑیوں کے اس ڈھیر پر ایک نظر ڈالی۔ دیوار کی اونچائی کو دیکھا‘ دروازے سے اس ڈھیر تک کے فاصلے کو دیکھا اور ایک بار پھر خدا کو مدد کے لیے پکارتی ہوئی دیوار کی طرف دوڑ پڑی۔
کمرے سے نکلتے ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ اسے دیکھ لیا گیا ہے۔ ایک دو آوازیں بھی بلند ہوئیں مگر الفاظ اس کی سمجھ میں نہ آسکے۔
تختوں کے اس ڈھیر اور دیوار کے سوا اس کے حواس اور کسی شناخت کے لیے آمادہ نہیں تھے۔
اس نے دوڑتے ہوئے ان تختوں کڑیوں کے ڈھیر پر چھلانگ لگائی اور ہاتھ بڑھا کر دیوار کے اوپر رکھے مگر اگلے ہی پل اس کے ہاتھ دیوار سے پھسل گئے۔ پیروں کے نیچے سے کڑیاں سرک گئی تھیں۔ توازن گڑبڑایا تو وہ گر پڑی۔ چوٹوں کو محسوس کیے بغیر تڑپ کر اٹھی اور ایک بار پھر کڑیوں پر چڑھ گئی۔
دونوں بازو دیوار پر رکھتے ہوئے اس نے اپنے وجود کو ایک جھٹکے سے اوپر اٹھا لیا۔ قریب تھا کہ وہ دوسری طرف کود پڑتی، ٹھیک اسی لمحے ایک ہاتھ نے عقب سے اس کی قمیض دبوچ لی۔ دوسرا ہاتھ اس کی ٹانگ پر آ جما اور اگلے ہی پل اسے واپس پیچھے کھینچ لیا گیا۔ وہ بامشکل گرتے گرتے بچی۔ اسے کھینچنے والی شگفتہ تھی۔ نزہت بیگم اور عشرت جہاں بھی فوراً ہی اس کے سر پرپہنچ آئیں۔ نزہت بیگم سر پرپہنچتے ہی دوہتڑوں سے شروع ہوگئی۔
”کدھر کو اڑی جا رہی تھی ناس پیٹی! ہیں… یہاں سے اڑ کر نکل جانا اتنا آسان سمجھا ہے تو نے … کمینی‘ چنڈال۔“
شگفتہ نے اسے دھکا دیا تو وہ لڑکھڑا کر گر پڑی۔ عشرت جہاں بھی نزہت بیگم کے ساتھ آ ملی۔ اس نے حجاب کے بال دبوچ لیے تھے۔ حجاب کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔
”میں فرار کراتی ہوں تجھے۔“
”حرافہ کہیں کی … بھاگنے کی کوشش کرتی ہے۔“
”ہاشو! پکڑ… پکڑ ذرا اس چھنال کو۔“
”اماں! اسے اندر لے چلو۔“
حجاب نے دیکھا‘ ہاشو اس کے سر پر کھڑا تھا اور برآمدے میں دکھائی دینے والی عورت بھی حیران پریشان سی صورت لیے اسی طرف چلی آ رہی تھی۔
”اماں! اماں کیوں مار رہے ہو اسے … کون ہے یہ ؟“
ہاشو نے ہاتھ بڑھا کر اس کے بال مٹھی میں جکڑ لیے۔ نزہت بیگم اسے چھوڑتے ہوئے فوراً، قریب آتی اس حیران پریشان صورت والی عورت کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
”بس حسن آرا! رک جا۔ اس معاملے سے تیرا کوئی لینا دینا نہیں۔“
”مم… مگر یہ ہے کون؟ اور تم لوگ اسے پیٹ کیوں رہے ہو…کیوں مار رہے ہو اسے ؟“
”میں نے کہا نا! یہ تیرا مسئلہ نہیں ہے۔ تو… تو واپس اپنے کمرے میں چل‘ چل واپس۔“
نزہت بیگم نے اسے بازوﺅں سے پکڑ کر واپس موڑا اور ہاشو سے مخاطب ہوئی۔ ”ہاشو! تو اس مال زادی کو اندر لے چل میں ابھی آئی۔“
ہاشو نے حجاب کو بالوں سے پکڑے پکڑے بے رحمی سے کمرے کی طرف گھسیٹا تو بے اختیار اس کے حلق سے چیخیں نکل گئیں۔ اس نے اپنے بال چھڑانے کی کوشش کی مگر گرفت مضبوط تھی ۔ہاشو یونہی اسے بالوں سے دبوچے، گھسیٹ کر کمرے میں لے آیا۔ ساتھ ہی وہ اسے غلیظ اور شرمناک گالیاں اور دھمکیاں دے رہا تھا۔ عشرت جہاں اور شگفتہ بھی اس سب میں شریک تھیں۔
کچھ ہی دیر میں نزہت بیگم بھی لوٹ آئی۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی‘پھر بھی اس نے اندر آتے ہی حجاب کو بالوں سے دبوچ لیا۔ پہلے اسے بالوں سے جھنجوڑا پھر کچھ دوہتڑ برسائے اور دوسری مسہری پر ڈھے سی گئی۔
”آج …آج نہیں بچے گی تو!“ اس نے ایک مردانہ قسم کی گالی نکالی۔ ”تجھے عبرت کا نشان بنادوں گی میں… تیری… تیری سات پشتیں بھی نزہت بیگم کو کبھی بھول نہیں سکیں گی۔“ پھر وہ ہاشو سے مخاطب ہوتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
“چلو ہاشو! تیاری کرو… آج کی رات اس کے سارے کس بل نکالنے ہیں۔ ساری رات سبق سکھاناہے اسے، چلو۔“
نزہت بیگم ان تینوں کو ساتھ لے کر باہر نکل گئی اور باہر سے ایک بار پھر زنجیر چڑھا دی گئی۔ حجاب بی بی فرش پر بیٹھی تھی۔
اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے سر پلنگ پر ڈالا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی
☆ ☆ ☆
قسط کا بقیہ حصہ نیچے، صفحہ نمبر 2 پر ملاحظہ کریں۔