بقیہ حصہ قسط نمبر 04
نزہت بیگم‘حسن آرا کو اس کے کمرے میں پہنچا کر واپس گئی تھی اور ساتھ ہاتھ جوڑ کر ،واسطے بھی دے گئی تھی کہ تو اس سب سے الگ رہ ،مگر حسن آرا کے دل ودماغ میں ایک بے سکونی آ بیٹھی تھی۔ اس لڑکی کی دیوار پھلانگنے کی کوشش۔ نزہت اور عشرت کی اس کے ساتھ مار پیٹ اور ہاشو کا بے دردی سے اس بے چاری کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا اور… اور اس لمحے اس لڑکی کے حلق سے نکلنے والی دل دوز چیخیں… حسن آرا کا دل بیٹھنے لگا۔ کنپٹیوں میں برف سی جمتی محسوس ہوئی اور وہ پلنگ پر لیٹ گئی۔
حسن آرا نے اس سارے واقعے کو ذہن سے جھٹک دینے کی کوشش کی مگر… اسے ناکامی ہوئی ۔ چیخوں کی وہ آواز اس کے دماغ میں گونجتی رہی اور وہ معصوم سی صورت جیسے اس کے پردہ تصور پر جم کر رہ گئی۔ یہ تو یقینی بات تھی کہ وہ لڑکی کسی بہت ہی اچھے اور شریف گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر کون ہے‘ کہاں سے ہے اور یہاں کیسے آ پھنسی ہے؟ اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا… نزہت بیگم تھی تو وہ اس بارے میں کچھ کہنے سننے پر ہرگز بھی آمادہ نہیں تھی۔
حسن آرا نے ایک بار پھر سر جھٹکا اور اٹھ کربیٹھ گئی۔
تکیے کے نیچے سے دو ٹیبلیٹس اٹھا کر منہ میں ڈالیں اور دو گھونٹ پانی پی کر دوبارہ لیٹ گئی۔ لڑکی کا خوبصورت اور معصوم چہرہ ایک بار پھر اس کے سامنے تھا۔ خوف اور دہشت سے بھری وہ آنکھیں…
حسن آرا سے لیٹا نہیں گیا، وہ اٹھی اور کمرے میں ٹہلنے لگی ،مگر بے چینی بڑھتی ہی گئی۔ نزہت بیگم سے فی الوقت کوئی بھی بات کرنا فضول تھا۔ وہ کمرے سے نکلی اور دوسری منزل پر آگئی۔ سندس جہاں تو اپنے کمرے میں نہیں تھی البتہ شازیہ بانو ہاتھوں پیروں اور منہ پر لیپا پوتی کیے حسب عادت ایک کرسی پر بیٹھی رسالہ پڑھنے میں مگن تھی۔
”ارے خالہ ! آپ ادھر… آئیے آئیے۔“
شازیہ نے اس پر نظر پڑتے ہی رسالہ بند کیا اور سیدھی ہو بیٹھی۔ ایک تو حسن آرا اپنے کمرے سے کم ہی نکلتی تھی اور اگر نکلتی بھی تھی تو کچھ دیر کے لیے عقبی صحن کے باغیچے میں چہل قدمی کے لیے اور بس… دوسرا محلے کی اور بہت سی طوائفوں اور رقاصاﺅں کی طرح شازیہ بھی مرشد کو دیکھ دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرنے والیوں میں سے تھی۔ سو پیٹھ پیچھے بھی اس نے مرشد یا حسن آرا کے متعلق کبھی کوئی فضول بات نہیں کہی تھی۔
”خیریت تو ہے خالہ! آپ آج ادھر کو کیسے آ گئیں؟“
”بس خیریت ہی ہے… دل گھبرا رہا تھا تو اٹھ کر ادھر چلی آئی ۔ سندس نظر نہیں آرہی۔“حسن آرا پلنگ پر بیٹھ گئی۔
’اماں کو گل ناز نے بلایا تھا… ادھر ہی کو نکلی ہوئی ہے۔“
”اچھا۔“
”خالہ! کچھ کھائیں پئیں گی آپ؟“
”نہیں شازیہ!“
”چائے بنادوں؟“
”نہیں بالکل بھی نہیں۔ تم یہ بتاﺅ کہ ادھر باغیچے والے کمرے میں جو لڑکی ہے ،اس کے بارے میں کچھ جانتی ہو؟“
”وہ… وہ لڑکی نہیں ہے خالہ! تین کنال کی کوٹھی ہے وہ تو۔“
”تین کنال کی کوٹھی!“
”ہاں جی! ابڑی اماں سے کسی نے سودا کیا ہے۔ اسے جلد از جلد طوائفوں والی تربیت دے کر تیار کر دیا گیا تو اجرت میں تین کنال کی کوٹھی ملے گی۔ ماڈل ٹاﺅن میں۔“ شازیہ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی مگر اس کی بات سنتے ہی حسن آرا کے چہرے پر ناگواری سی پھیل گئی۔
”کہاں کی ہے ؟ اور اسے یہاں لایا کون ہے ؟“
”یہ تو پتا نہیں! بڑی اماں ذکر کر رہی تھی مگر میں نے دھیان نہیں دیا۔ بہرحال دشمنی وغیرہ کے چکر میں یہاں تک پہنچائی گئی ہے۔“
حسن آرا بیٹھے بیٹھے سوچ میں پڑ گئی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس معاملے میں کیا کہے اور کیا نہیں ۔ دوسرا اسے کچھ کہنا چاہیے بھی یا نہیں … یہ تو جگہ ہی ایسی تھی، چاروں طرف بے شمار ایسی کہانیاں تھیں۔
حسن آرا نے خود بھی دیکھا تھا کہ
یہاں تو یہ معمول کی ایک بات تھی مگر پتا نہیں کیوں اس لڑکی کا چہرہ اور آنکھیں حسن آرا کے اندر جم کر رہ گئی تھیں۔
”آپ نے دیکھا ہے اس لڑکی کو…؟“
شازیہ کے سوال پر حسن آرا کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ ”بالکل آپ جیسی دکھتی ہے۔ ہے نا! جب آپ اس عمر کی تھیں تو یہی قد بت‘ یہی رنگ روپ تھا نا! اس کے چہرے کی بناوٹ ‘ آنکھیں‘ پیشانی اور ناک بھی ملتی جلتی سی ہے۔ میں نے تصویریں دیکھی ہیں آپ کی۔ اماں اور بڑی اماں بھی یہی بات کر رہی تھیں۔“
شازیہ اپنی رو میں بول رہی تھی اور حسن آرا اپنی جگہ گم صم سی بیٹھی خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔
☆ ☆ ☆
آدھے صحن میں چاندنی تھی اور آدھے میں اس دو منزلہ مکان کا سایہ ۔صحن کے بالکل وسط میں کتکان (کتا) پڑا سو رہا تھا۔ سامنے برآمدہ تھا اور برآمدے کے سامنے تقریباً چھ بائی آٹھ کا ایک پختہ چبوترہ سا بنا ہوا تھا۔ صبح قریب تھی … چاروں طرف خاموشی تھی‘ مگر اس چبوترے پر موجود تینوں افراد جاگ رہے تھے۔
مراد ایک طرف بغل میں گاﺅ تکیہ دبائے نیم دراز تھا۔ ساون برآمدے کے ستون سے پشت ٹکائے ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ کے قریب جگ گلاس اور شراب کی بوتل دھری تھی ‘جبکہ مرشد چبوترے پر چاروں شانے چت پڑا تھا۔ اس کا سر چبوترے سے نیچے کو ڈھلکا ہوا تھا‘ آنکھیں بندتھیں اور ہونٹ حرکت میں ۔اس کی بھاری گونجیلی آواز چاندنی میں ڈوب ابھر رہی تھی۔
پھر کوئی آیا دل زار ! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا‘ کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات‘ بکھرنے لگا تاروں کاغبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہگزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں‘ بڑھا دو مئے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں‘ کوئی نہیں آئے گا!!
وہ خاموش ہوا تو چند لمحے تک فضا میں خاموشی تیرتی رہی‘ پھر مراد اپنے ٹیٹوے کو کھجاتے ہوئے بوجھل آواز میںبولا۔
”اچھا استاد! تیری مرضی ہے۔ جو مرضی ہے… کہتا رہ۔“
”کون مرگئی ہے ؟“ ساون‘ مراد سے مخاطب ہوا تھا۔
”مر نہیں گئی… ماری گئی ہے۔“
”ماری گئی ہے … کون ماری گئی ہے ؟“
”تیری مت ماری گئی ہے… چڑھ گئی ہے تجھے ؟“
مرشد ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”ساون!“ اس نے ساون کی ران پر زور سے ہاتھ مارا تو وہ ہڑبڑا گیا۔ ”بنا ایک ایک اور۔“
”پہلے ہی اپنے اصول سے زیادہ پیئے بیٹھے ہو تم۔“
”اوئے اصول گیا تیل لینے … تو گلاس پکڑا۔“ مرشد کے لہجے میں وہی ازلی بے پروائی تھی۔ ساون نے جگ گلاس اپنے سامنے سرکا لیے‘ مراد بھی سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
مرشد شراب تو پیتا تھا مگر ایک مخصوص سے حساب کتاب کے مطابق ۔کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا تھا کہ وہ اپنے اس حساب کتاب کو نظر انداز کر دیتا تھا اور جب ایسا ہوتا تھا تب پھر وہ بے حساب پیتا تھا اور آج وہی بے حسابی چل رہی تھی۔
کل شام اپنی ماں سے مل کر آنے کے بعد اس نے کالے خان کے آدمیوں کو فوراً ٹھڈے مار مار کر وہاں سے بھگا دیا تھا مگر تب سے اب تک اس کاموڈ بحال نہیں ہوا تھا۔ رات تقریباً گزر چکی تھی اور ساری رات وہ تینوں شراب ہی کے ساتھ مصروف رہے تھے۔
ساون نے گلاس تیار کیے‘ تو مرشد نے فوراً اپنا گلاس اٹھایا اور ایک ہی سانس میں چڑھا گیا۔
”اوئے …او۔“
”او لالا…حوصلے سے یار! کیسے پی رہا ہے تو؟“
ساون اور مراد دونوں ہی متعجب تھے۔ انہوں نے تو ابھی اپنا اپنا گلاس اٹھایا بھی نہیں تھا۔ مرشد نے منہ کھول کر ایک سانس چھوڑا اور گویا ہوا۔
میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبر ا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں‘ کوئی فرشتہ نہیں حضور!
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا!!
”استاد! تو یہ اخبار اور رسالے پڑھنا چھوڑ دے ورنہ دیو داس بن کے رہ جائے گا… مان مری بات‘ چھوڑ دے۔“
مراد نے مرشد کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر کہا… مرشد کو جیسے اچانک کچھ یاد آیا۔وہ ساون سے مخاطب ہوا۔
”اچھو آیا تھا کل؟“
”ہاں! وہ … جب تم اماں کو ملنے گئے تھے تو… وہ آ کر اندر سے رسالے رسولے اٹھا کر لے گیا تھا۔“
”استاد!“ مراد نے مرشد کے گھنٹے پر دستک دی۔ ”مان میری بات… چھوڑ دے … اس بے چاری کو بھی سمجھا، منع کر۔“
”کسے ؟“ ساون نے بات برائے بات پوچھا تھا۔
”وہی… شازیہ، جو اس کے جوٹھے رسالے پڑھتی ہے۔“ اس نے پھر مرشد کے گھٹنے پر دستک دی۔
”مردار خان! تجھے چڑھ گئی ہے۔ یہ میرا گھٹنا ہے‘تیری بے بے کا دروازہ نہیں جسے بجا رہا ہے۔“ مرشد بچپن سے مراد کویونہی مردار خان کہہ کرمخاطب کرتا تھا۔
”ویسے یہ جوٹھے رسالے والی بات تم نے اچھی یاد دلائی ہے۔“ساون نے مراد کے گھٹنے کو تھاما۔
”ایک روز… وہ فیروزہ مجھ سے کہہ رہی تھی کہ اگر تو مرشد کا کوئی جوٹھا رسالہ لا دے تو… میں تجھے گنڈیریاں کھلاﺅں گی۔“
”ساون … تجھے بھی چڑھ گئی ہے۔“
”ہاں… کچھ چڑھی ہوئی تو ہے اور کام کیا ہے اس کا۔“
”تو پھر تم دونوں اب سو مر جاﺅ۔“
”اب کیا سونا… اب رات باقی ہی کتنی ہے … اب تو دن چڑھے ہی سوئیں گے۔“
”تو پھر یہ زنانیوں والی باتیں مت کرو‘ ورنہ … میں سوجاﺅں گا۔“ مرشد نے ایک بدن توڑ انگڑائی لی۔
”لو… خود زنانیوں والے اکڑیسے لے رہا ہے اور ہم لوگ زنانیوں والی باتیں بھی نہ کریں۔ یہ کہاں کا انصاف ہوا بھلا۔“ مراد نے شراب کا گھونٹ بھرا اور برا سامنہ بنا کر بولا۔
”لا ساون! بوتل پکڑا ادھر۔“
”بس مرشد! بہت ہو گئی۔“
”یار! یہ تو دادا ابو نہ بن بیٹھا کر… لا دے ادھر۔“ مرشد نے بیزاری سے کہتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا تو ساون نے سر جھٹکتے ہوئے بوتل اٹھا کر اسے تھما دی۔
”کیا…؟ مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟“ ساون نے سنجیدگی سے مرشد کی طرف دیکھا۔
”کوئی مسئلہ نہیں ہے۔“
”نہ… کچھ تو ہے … کوئی بھانبڑ تو ہے اندر جسے ساری رات کی شراب نوشی بھی ابھی تک بجھا نہیں سکی، بول کیا بات ہے ؟“
”کہا تو ہے کچھ نہیں ہے۔ اب کیا اسٹام پیپر لکھوائے گا مجھ سے۔“مرشد نے پھر گلاس بھر لیا تھا۔
”یعنی پھر اماں سے وہی بحث و تکرار ہوئی ہے کل۔“ ساون نے جیسے خود سے جان لیا تھا۔ مرشد کے سینے میں یہی ایک زخم تو تھا جو کب سے اندر ہی اندر سلگتا آ رہا تھا۔
”چھوڑ… کوئی اور بات کر۔“ مرشد نے گلاس اٹھایا… گلاس ہونٹوں کے قریب پہنچا ہی تھا کہ فضا میں اذان فجر کی صدابلند ہوئی۔
”اللہ اکبر… اللہ اکبر… اللہ اکبر… اللہ اکبر۔“
مرشد کا ہاتھ ٹھٹک کر رک گیا… اس نے ہونٹوں کے قریب آیا گلاس واپس نیچے رکھ دیا۔
”کیا…“ مراد فوراً آگے کو ہو کر اس سے مخاطب ہوا۔
”اشہد ان لاالہ الااللہ… اشہد ان لاالہ الااللہ“
”اللہ جل شانہ۔ “مرشد نے زیر لب پڑھا۔
”یہ کیا ہے اب؟’“ مراد نے گردن آگے کونکال کر اس کی آنکھوں میں جھانکنا چاہا مگر مرشد نے سر جھکا لیا تھا۔
اشہد ان محمد رسول ا للہ!
”صلی اللہ علیہ والہ وسلم!“ مرشد جیسے زیر لب بڑبڑایا تھا۔
مراد نے ایک گہری سانس لی اور سر جھٹکتے ہوئے پیچھے ہو کر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
اس کے بعد اذان مکمل ہونے تک تینوں ہی خاموش رہے اور جیسے ہی اذان ختم ہوئی مراد نے گلاس اٹھا کر مرشد کے سامنے کر دیا۔
”بس اب رہنے ہی دو۔“ مرشد نے آہستہ سے اس کا ہاتھ ہٹا دیا۔
’کاہے کو رہنے دو؟ یہ پکڑو اب اور چڑھاﺅ… ابھی آدھی بوتل اور پڑی ہے۔“ مرشد نے اس کے ہاتھ سے گلاس پکڑ کر ایک طرف رکھا اور خود صحن کی طرف منہ کرتے ہوئے دونوں ٹانگیں چبوترے سے نیچے لٹکا کر بیٹھ گیا۔
”یار! تیری یہ فلم آج تک اپنی سمجھ میں نہیں آئی۔“
”آئے گی بھی نہیں۔ لہٰذا تو اپنی سمجھ دانی پر زیادہ زور مت ڈال۔“
اگر تجھے دین دھرم کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر یہ الٹے سیدھے کھیل ویسے ہی چھوڑ دے … داڑھی بڑھا اور مولوی بن جا… بدمعاشی کی بجائے کسی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو نمازیں پڑھا، کسی ایک طرف کا ہو… یہ… دو دو کشتیوں میں سواری کا ٹوپی ڈرامہ کرتے رہنے کی کیا ضرورت ہے ؟“
”دین اور دنیا کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں گھامڑ! کتنی بار تو سمجھایا ہے تجھے۔“
”اپنے کو ایسی بے تکی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں… تو… یا تو یہ شراب پینا چھوڑ دے …یا پھر نماز پڑھنا چھوڑ دے… اس طرح نمازیں پڑھنا فضول ہے۔ تیری ایسی نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔ سمجھ اس بات کو۔“
”اوئے واہ اوئے مردار خان! میری نمازیں قبول کرنا نہ کرنا رب کا کام ہے یا تیرا؟ اور یہ تو مجھے سمجھا رہا ہے یا کوئی فیصلہ سنا رہا ہے ؟“
”کچھ بھی سمجھ … مگر سمجھ سہی … ثواب کو ثواب ہی رکھنا چاہیے ۔ جو تیرا طریقہ کار ہے اس طرح تو نماز پڑھ کے تو الٹا گناہ کماتا ہے… لہٰذا اس کام سے باز آجا۔“
مرشد نے بے ساختہ ایک زور کاقہقہہ لگایا تھا۔
”کیا…‘ ‘مراد نے آنکھیں پٹپٹا کر تعجب سے اس کی طرف دیکھا۔
”تیرا کیاخیال ہے، میں نماز ثواب کمانے کے لیے پڑھتا ہوں؟“
”تو اور کیا…؟ اور نماز کس لیے پڑھی جاتی ہے ؟“
مرشد ایک بار پھر کھل کر ہنس پڑا۔
”تو واقعی مردار خان ہے مرادے! نرا گھامڑ کا گھامڑ۔“ وہ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
”یار! تو بھی کیا فضول بات لے کر بیٹھ گیا ہے۔“ ساون نے بدمزگی سے مراد کی طرف دیکھا ”ہربندہ اپنے عمل کا آپ ذمہ دار ہے … آپ جواب دہ ہے۔ تجھے بھلا کیا تکلیف ہے۔“
”یار کو یار کی تکلیف نہیں …“
”او بس رہنے دے یار تکلیف دار! چھوڑ کوئی اور بات کر۔“ساون نے اس کی بات درمیان ہی میں کاٹ دی ، پھر اس سے پہلے کہ ان میں سے کوئی کچھ بولتا، کسی نے بیرونی دروازہ اس زور سے دھڑدھڑایا‘ کہ وہ تینوں ہی بری طرح چونک اٹھے۔
”کون ہے بھئی ؟“
”کون ہے ووئے؟“
ایک ساتھ دو آوازیں بلند ہوئی تھیں۔ ایک مکان کی دوسری منزل سے اکرم عرف اکو کی ‘جو بشیرے کے ساتھ پہرے پر مامور تھا اور دوسری مرشد کی…. کتکان نے بھی فوراً بھونکنا شروع کر دیا تھا۔
”دروازہ کھول شاہ زادے !“ جواب میں سنائی دینے والی بلند اور پاٹ دار آواز پر وہ سبھی چونک پڑے۔ مرشد فوراً ہی دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اس نے دروازہ کھولا تو رستم لہوری کو بالکل دروازے کے سامنے کھڑا پایا۔ اس کے عقب میں اس کے چند کارندے بھی موجود تھے۔
”رستم لالا! اس وقت‘ اس طرح اچانک… خیریت تو ہے نا؟“ مرشد نے کسی قدر تعجب سے پوچھا۔ رستم لہوری کی آمد قطعی طور پر غیر متوقع تھی۔ وہ تو کبھی مہینوں بعد ہی ادھر کا رخ کرتا تھا۔ اکثر اوقات مرشد ہی اس کے ڈیرے پر چکر لگا آتا تھا۔
”سب خیریت ہی ہے شاہ زادے !بس دل کیا اور اٹھ کر چلا آیا۔“
رستم نے آگے بڑھ کر مرشد کو بازوﺅں میں بھرتے ہوئے کہا۔ ”تُو تو ہو گیا ہے مہنگا۔ آج تین ہفتے ہو گئے اور تجھے اپنے لالا کا خیال نہیں آیا کہ شکل ہی دکھا دے‘ سو میں چھاپا مارنے آ گیا۔“
”مگر… اس وقت!“ شاید رستم کے جواز پر مرشد کی تشفی نہیں ہوئی تھی۔
”چھاپے تو ایسے بے وقتے ہی ہوتے ہیں نا۔“ یہ نصیر تھا۔ عقب میں سات بندے اور تھے۔ سبھی مرشد کو سلام کرتے ہوئے اندر آ گئے۔ وہ چبوترے کی طرف بڑھے۔ ساون اور مراد پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
رستم، نصیر مرشد اور ساون تو چبوترے پر بیٹھ گئے جب کہ مراد رسمی علیک سلیک کے بعد تین بندوں کو ساتھ لے کر اندرونی طرف چلا گیا۔ چبوترے کے ارد گرد فوراً ہی تین چار چارپائیاں نکال کر بچھا دی گئیں۔ اوپری منزل سے اکو اور شبیر بھی اتر آئے اور مرشد کے مزید تین ساتھی جو دوسری منزل پر سو رہے تھے وہ بھی فوراً چہروں پر پانی کے چھینٹے مار کر رستم لہوری کے گھٹنے چھونے کی غرض سے چلے آئے۔
وہ لوگ نیچے آئے تو رستم کے دو آدمی غیر محسوس سے انداز میں اوپری منزل کی طرف چلے گئے۔
مراد اکو اور جعفر کو ساتھ لے کر ناشتے پانی کے انتظام کے لیے نکل گیا۔ باقی چارپائیوں پر مسلط ہو گئے۔ بظاہر وہ لوگ خود کو مطمئن ثابت کر رہے تھے مگر مرشد نے محسوس کر لیا کہ وہ کچھ چوکنے سے ہیں اور جو دو بندے چھت پر گئے تھے انہیں بھی مرشد نے کھسکتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
”جوانوں نے پھر رات جاگا منایا ہے … ہیں۔“ رستم نے جگ گلاس اور بوتل کو دیکھ لیا تھا۔
”بس چبل پنے کا موڈ بن گیا تھا۔“
عورت اور شراب دونوں چیزیں مرد کو کہیں کا نہیں چھوڑتیں۔ عورت گھٹنوں سے لے بیٹھتی ہے تو شراب کم بخت کلیجہ کھا جاتی ہے۔“
مرشد نے نظروں کا زاویہ بدل کر دیکھا، اس کا رکھا ہوا گلاس ویسے کا ویسا بھرا رکھا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر گلاس اٹھا لیا اور ایک شعر جیسے خود بخود اس کے ہونٹوں سے پھسل پڑا۔
پیتا ہوں اس غرض سے کہ جل جائے جوانی
واللہ ! کسی شوق کے مارے نہیں پیتا!
”گھٹنوں میں تو ہمیشہ سریا رہے گا لالا! مگر یہ کلیجہ … یہ کم بخت خون بن کر منہ سے باہر آ جائے تو شاید سینے میں کچھ ٹھنڈک اتر آئے۔“
اس نے گلاس ہونٹوں سے لگالیا۔
”تو نے کسرت وغیرہ چھوڑ رکھی ہے ؟“
”نہیں‘ بس ایک وقت… صبح یا پھر شام میں۔“
”زندگی تو بس جوانی کا نام ہے شاہ زادے! اسے موت تک قائم رکھا جاسکتا ہے ،لیکن اسے سنبھال کر، لگام دے کر نہ رکھا جائے تو یہ بس چند سال کی ہوا ثابت ہوتی ہے۔ اس کے بعد بندہ فارغ… لہٰذا اس کی قدر کرو… کلیجہ خون کرنے میں تو کوئی وقت نہیں لگتا۔“ رستم نے لاچا تھوڑا سمیٹتے ہوئے گاﺅ تکیے سے ٹیک لگا لی۔
نصیر ساون کے ساتھ کسی بات میں مگن تھا اور ان کے باقی کارندے اور مرشد کے ساتھی آپس میں گپ شپ کرنے لگے تھے۔ مرشد اورر ستم کے درمیان یونہی بے مقصد سی باتیں ہو رہی تھیں۔ صحن میں صبح کی سپیدی اتر آئی تھی‘ پھر بیرونی دروازے سے مراد لوگ اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے ناشتے کے برتن بھانڈے اور شاپرز وغیرہ اٹھا رکھے تھے۔ اندر آتے ہی وہ لوگ فوراً سب کے سامنے ناشتہ سجانے لگے۔
رستم لہوری‘ نصیر‘مرشد‘ ساون اور مراد چبوترے پر ہی بیٹھ گئے۔
مراد نے خوب اچھا انتظام کیا تھا۔ سری پائے‘ نہاری‘ دھی‘ پراٹھے۔ اکو تین چار بندوں جتنا کھانا لے کر چھت پر چلا گیا اور مراد جب چبوترے پر بیٹھا تو دزدیدہ نظروں سے رستم کی طرف دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں مرشد سے مخاطب ہوا۔
”پانچ چھ بندے باہر بھی ہیں… انہوں نے نہ تو ناشتہ قبول کیا اور نہ ہی ا ندر آنے کو تیار ہوئے‘ ان کا کیا؟“
”کہاں؟“ مرشد نے مختصراً پوچھا۔
”تین باہر گلی میں ہیں اور دو ادھر… گلی کی نکڑ پر۔“
”ٹھیک ہے … ان کی ٹینشن مت لو‘ وہ فی الوقت ڈیوٹی پر ہیں۔“مرشد زیرلب مسکرایا تھا۔
”کیسی ڈیوٹی ؟“
”جب لالا پردہ رکھ رہا ہے‘ نہیں بتانا چاہتا تو پوچھ بھی مت۔“
مرشد ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ مراد نے ایک نظر رستم اور مرشد کی طرف دیکھا اور خاموشی سے کھانے لگا۔ ناشتہ سبھی نے خوب سیر ہو کر کیا۔ اس کے بعد رستم نے مرشد اور نصیر کو ساتھ لیا اور ایک اندرونی کمرے میں آ گیا۔
کمرے میں صرف لکڑی کا ایک بینچ‘ دو کرسیاں اور ایک چارپائی رکھی تھی۔ رستم چارپائی پر بیٹھ گیا جبکہ مرشد اور نصیر کرسیوں پر…چند لمحے ان کے درمیان خاموشی رہی پھر مرشد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”چلو لالا! بہت ہو گئی اب دل کا بوجھ اگل بھی دو۔ کب تک داڑھ تلے کنکر دبائے رہو گے۔“
”خبر ملی تھی کہ یہاں دو گروہ حملہ آور ہونے والے ہیں۔ کچھ بندے کالے خان کے اور باقی اجو گھوڑے کے مسٹنڈے… سنا ہے کہ گھوڑا خود ان سب کے ساتھ آنے والا ہے۔“ رستم بغور مرشد کے چہرے کو دیکھ رہا تھا مگر اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔
”تو یعنی تم اپنی فوج کے ساتھ مرشد کا بچاﺅ کرنے کے لیے پہنچے ہو۔“
”نہیں … گھوڑے کی طبیعت درست کرنے کے لیے آئے ہیں۔“
”گھوڑا…“ مرشد نے ہنکارا سا بھرا۔ ”کالے کے کتوں کی تو سمجھ آتی ہے کہ وہ کل چھترول کروا کر گئے ہیں، مگر گھوڑے کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھا ہے… اسے کیا تکلیف ہے۔“
”کالے خان کا بھائی اور اس کے کچھ مزید بندے گھوڑے سے جا ملے ہیں اور گھوڑا تو تیرے لیے عرصے سے دل میں کدورت رکھتا ہے۔ وجہ تو جانتا ہی ہے۔“
”ہاں! وہ بھی اپنے چیلوں سمیت ادھر سے جوتے کھا کر گیا تھا مگر شاید کسر باقی رہ گئی۔ عقل نہیں آئی اسے …مزید سیوا خاطر چاہتا ہے وہ۔“
”دشمن کو ہمیشہ خود سے زیادہ سمجھنا چاہیے مرشد! اور پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے تو گھوڑا ویسے ہی کافی زور پکڑ چکا ہے۔ رانا سرفراز اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ نصیر نے سنجیدگی سے کہا۔ رانا سرفراز سے مرشد بھی واقف تھا۔ وہ شیخوپورہ کا رہائشی تھا اور پنجاب اسمبلی کا ممبر تھا۔ خاصے اثر و رسوخ والا بندہ تھا وہ۔
”گھوڑا اور دشمن۔“ مرشد کے چہرے پربدمزگی کے تاثرات پھیل گئے۔
”حد کرتے ہو لالا نصیر! اب گھوڑے جیسی چیزوں کو دشمنوں میں شمار کرنا ہو گا… دشمنی کا کوئی معیار ہوتا ہے۔ ایسے شہدوں سے اپنا کیا واسطہ بھلا۔ باقی اگر وہ آجاتا ہے تو اچھا ہی ہو گا۔ پہلے وہ یہاں کی ساری گلیوں میں مجرا کرے گا اس کے بعد اسے نتھ پہنا کر رانا سرفراز کے ہاں بھیج دوں گا۔ ذرا بھی عقل نام کی چیز اس رانا کے پاس ہوئی تو خود ہی گھوڑے کی پشت سے ہاتھ ہٹا لے گا وہ۔“
”میں نے دلاور کو بھیجا ہے نا! گھوڑے کی طرف… سمجھ داری سے کام لے گا تو شرارت سے باز رہے گا۔ نہیں تو پھر دیکھ لیں گے اسے۔“ رستم نے نصیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اگر گھوڑا شریف کی خدمت میں ایلچی بھیج دیا تھا تو پھر ادھر آنے کی کیا ضرورت تھی ؟“ دلاور کو گھوڑے کی طرف بھیجنے والی بات شاید مرشد کو اچھی نہیں لگی تھی۔
”یہ بات تجھے سمجھانا تھوڑا مشکل ہے۔ تیری عمر میں، میں بھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔ ضدی، جذباتی، بالکل اکھڑ مزاج…..
جوانی کے خون کی تاثیر ہی الگ ہوتی ہے۔ بندے کو ہر مشکل‘ ہر مسئلے کا ایک ہی حل سمجھ آتا ہے۔ بازو کی طاقت…..
مگر بازوﺅں کی طاقت سے زیادہ طاقت ہوتی ہے انسان کے دماغ میں … جسے عقل کہا جاتا ہے لیکن عقل بھی آتے آتے ہی آتی ہے۔
ابھی تو نے خود ہی کہا تھا نا کہ دشمنی کا بھی کوئی معیار ہوتا ہے…. تو بس اسی طرح سمجھ لے کہ گھوڑے جیسے لوگوں سے کسی سڑک چوراہے پر دنگل کرنا ہم لوگوں کو جچتا نہیں۔“
وہ تینوں کچھ دیر مزید وہیں بیٹھے بات چیت کرتے رہے۔ ان کے وہیں بیٹھے بیٹھے دلاور بھی پہنچ گیا۔ وہ گرم جوشی کے ساتھ مرشد سے ملا تھا۔ رستم کی سوالیہ نظروں پر اس نے بتایا کہ اس کی بات گھوڑے کی سمجھ میں آ گئی ہے۔ اور اب وہ ادھر کومنہ نہیں کرے گا۔
ساتھ ہی اس نے کالے خان کا بھی بتایا کہ اس نے بھی فون پر اپنے بھائی اور گھوڑے کومنع کیا ہے کہ کسی قسم کا کوئی بھی قدم ابھی نہ اٹھایا جائے اور یہ کہ آج شام تک کالے خان خود بھی واپس پہنچ جائے گا۔ یعنی فی الوقت فساد ٹل گیا تھا مگر رستم لہوری ابھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوا تھا۔ وہ کافی دیر تک وہیں موجود رہا اور جب جانے لگا تو مرشد کے منع کرنے کے باوجود اپنے پانچ بندوں کو وہیں چھوڑ گیا۔
رستم کے جانے کے بعد مرشد دوسری منزل پر اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔
اسے ذرا بھر بھی کوئی فکر یا پریشانی نہیں تھی۔ رات بھر کا جاگا ہوا تھا۔ شراب بھی کچھ زیادہ ہی پی تھی، سو وہ بوجھل طبیعت کے ساتھ بستر پر دراز ہوا اور کچھ ہی دیر میں اپنے گرد و پیش سے بے خبر ہو گیا۔ پھر جس وقت اس کی آنکھ کھلی اس وقت عصر کی اذانیں سنائی دے رہی تھیں۔ سر قدرے بھاری تھا۔ کچھ کسلمندی سی طاری تھی۔
فجر اور ظہر کی نمازیں بھی آج قضا ہوگئی تھیں۔ لہٰذا اس نے غسل کر کے سب سے پہلے نماز ادا کی اور پھر زینے اتر کر نیچے چلا آیا۔
مراد اور شبیر چبوترے پر بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ دو بندے رستم لہوری کے بھی موجود تھے۔ جعفر اور اکو کسیاں سنبھالے صحن کے آدھے حصے میں بنائے گئے اکھاڑے کو تازہ کرنے میں مصروف تھے اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر جگت بازی بھی کر رہے تھے۔
مرشد کے پہنچتے ہی رستم کے بندوں نے چبوترہ چھوڑ دیا۔
”آج تو گھوڑے گدھے سب بیچ کر سوئے ہو استاد! ظہر کی نماز بھی نہیں پڑھی۔“ مراد فوراً چہکا تھا۔ مرشد اس کے قریب ہی ٹانگیں لٹکا کر چبوترے پر ٹک گیا۔
”ساون کدھر ہے ؟“
”وہ بھی ابھی جاگا تھا۔ منہ بھی نہیں دھویا اور نکل گیا، اپنی گلابو کی طرف ۔کہہ رہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گلابو مجھے یاد کر رہی ہے۔“
”یہ گلابو کچھ زیادہ ہی سوار نہیں ہوتی جا رہی اس کے دماغ پر؟“
”ہوتی جا نہیں رہی … ہو چکی ہے۔“
” بس کر مرادے! کیوں الزام لگاوے ہے اس غریب پر۔“ جعفر کسّی ایک طرف رکھتا ہوا بولا۔
”اپنے ساون کے دماغ پر سوار نہیں وہ … ساون اس کمینی کے دماغ پر چڑھا ہوا ہے۔ ساون تو اپنے گھر چکر لگانے گیا ہے استاد!“
جعفر بات کرتا ہوا چبوترے کی طرف آیا تو اکمل اور دلشاد(رستم کے حواری) قمیصیں اتارتے ہوئے اکھاڑے کی طرف بڑھ گئے۔
”اجازت ہے نا استاد!“ دلشاد نے مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ مرشد نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مراد کومخاطب کیا۔
”کیوں ہر وقت فضول کی ہانکتا رہتا ہے تو؟“
”پتا نہیں پھر گھر ہی گیا ہو گا۔میرے سامنے تو گلابو ہی کو یاد کر رہا تھا۔“
”لالا کے باقی تین بندے کدھر ہیں ؟“
”ایک چھت پر اور دوباہر ادھر… چاچے گوگے کے تھڑے پر بیٹھے ہیں۔“ شبیرے نے جواب دیا تو جیسے مراد کو بھی یاد آگیا۔
’اوئے ہاں! مجھے تو خیال ہی نہیں رہا۔ یہ چکر کیا ہے استاد۔“
”مطلب ؟“
”مطلب یہی … ان کی یہاں موجودگی اور استاد رستم کا اس طرح پہنچنا‘ کیا رولا ہے ؟“
”کچھ خاص نہیں۔“
”چلو عام ہی سہی‘ پتا تو چلے۔“
”لالا کا خیال ہے کہ کالے خان کے لوگوں کی طرف سے انتقامی کارروائی ہوسکتی ہے۔“
”او واہ بھئی ! تو ان زنخوں کے لیے استاد چل کر یہاں تک آ پہنچا‘ حد ہے۔“
”ان سب کے لیے تو ہم دو چار ہی کافی تھے۔“ شبیرے نے فوراً اظہار کیا تھا۔
”مرشد استاد! کہو تو ان کے ڈیرے پرجا کر کھڑکا آویں سب کو؟“ جعفر ان کے قریب آکھڑا ہوا۔
”لعنت ڈالو۔“
‘”کل پانچ جنے جوتے کھا کے گئے ہیں اور آج باقیوں کو خارش شروع ہو گئی۔“
”کہا ہے نا مٹی ڈالو۔ کوئی اور بات کرو۔ بلکہ لنگوٹ کسو‘ اکھاڑہ تازہ ہو چکا ہے۔“ مرشد نے لا پروائی سے کہا اور پھر وہ سب حسب معمول باری باری تیاری کر کے زور آزمائی اور کسرت میں مشغول ہو گئے۔ ہمیشہ کی طرح مرشد نے ایک ایک دو دو کو پچھاڑا اور ہاتھ پاﺅں جھاڑتا ہوا اکھاڑے سے نکل گیا۔
”تم لوگ جاری رکھو۔ اذان ہونے والی ہے۔ میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔“
اس کے ساتھی جانتے تھے کہ مغرب کی نماز مرشد نے کہاں پڑھنی ہے۔
مرشد نے نہا کر لباس تبدیل کیا… اتنے میں مغرب کی اذان شروع ہو گئی اور وہ مکان سے نکل گیا۔ عموماً وہ صبح سے رات تک تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی مگر دو تین بار گھر کا چکر ضرور لگا لیا کرتا تھا مگر آج سارا دن وہ یہیں موجود رہاتھا۔ اسے اپنی باجی امی کاخیال آیا تو سینے میں وہی مخصوص تلخ سی جلن جاگ اٹھی جو بچپن سے اس کے ساتھ ہی پروان چڑھی تھی۔
”پتا نہیں آج دن میں اماں نے دوا بھی کھائی ہو گی یا نہیں۔“
اس نے سرجھٹکا اور اپنے شناساﺅں کے سلام کا جواب دیتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔
حسب سابق اس کے ذہن میں یہی تھا کہ سب سے پہلے چپ چاپ اماں کو دوا کی خوراک کھلاﺅں گا اس کے بعد چھت پر جا کر نماز ادا کروں گا اور کچھ دیر وہاں کی کھلی اور شفاف آب و ہوا میں بیٹھ کر فضا کی وسعتوں کا نظارہ کروں گا۔ وہ یہی سب سوچتا ہوا حسن آرا کے کمرے تک پہنچا تھا۔ پھر جب دروازے کے سامنے لٹکتا ہوا باریک پردہ ہٹاتے ہوئے وہ اندر داخل ہوا، بے اختیار ٹھٹک گیا۔ اس کے بالکل سامنے ہی ایک ایسا انوکھا اور غیر متوقع منظر تھا کہ اس کے پاﺅں قالین پر جم کر رہ گئے۔ آنکھیں جھپکنا بھول گئیں اور وہ کسی پتھر کے بت کی طرح وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔
☆ ☆ ☆
حجاب بی بی کے لیے زندگی ایک بھیانک خواب بن کر رہ گئی تھی۔
ایک ایسا بھیانک خواب جس کا دور دور تک انت دکھائی نہیں دیتا تھا۔
نزہت بیگم جن ارادوں کا اظہار کر گئی تھی، وہ حجاب کے نزدیک زندگی اور موت سے بھی بدتر تھے۔ آنے والی رات اور متوقع ذلت کا خیال ہی سوہان روح تھا۔ اس کے نزدیک ایسی کسی صورت حال سے گزرنے کی بجائے مر جانا لاکھ درجے بہتر تھا۔ خود کشی حرام سہی مگر حجاب کے نزدیک ان لمحوں میں یہ حرام کاری اس سلوک سے تو افضل تھی جو کہ نزہت بیگم آج کی رات اس کے ساتھ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
خود پر ٹوٹنے والا قہر اور سبھی اذیتیں اب تک وہ برداشت کرتی آئی تھی۔
اسی خیال کے تحت اس نے پورے کمرے کا اچھی طرح جائزہ لیا کہ کوئی ایسی چیز دستیاب ہو جائے جس سے وہ خود کو ختم کر سکے مگر کمرے میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ دروازہ اتنا مضبوط تھا کہ اسے کھولنا یا توڑنا ممکن نہیں تھا۔ ایک روشن دان تھا اور وہ اتنی بلندی پر تھا کہ اول تو وہاں تک پہنچا نہیں جا سکتا تھا اور بالفرض اس تک رسائی ہو بھی جاتی تو اس میں موجود موٹی سلاخوں کا کوئی حل نہیں تھا۔
وہ پوری طرح بے بس اور لاچار تھی۔
حالات کے رحم و کرم پر تھی اور جب انسان خود کومکمل طور پر بے بس اور مجبور پاتا ہے۔ اسے کوئی آسرا سہارا‘ کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا اور وہ خود کو مایوسی کی دلدل میں دھنستا ہوا محسوس کرتا ہے تو ایسے میں خودبخود اسے خدا کا خیال آتا ہے ۔حجاب بھی بے اختیار اسے پکارنے لگی کہ اور کر بھی کیا سکتی تھی!
شام کے بعد رات آئی اور وقت جیسے جیسے آگے رینگتا رہا حجاب کا خون خشک ہوتا رہا۔ اس کی سماعتیں پوری طرح باہر کی آوازوں کی طرف متوجہ رہیں۔ مگر صرف موسیقی کی مخلوط مدھم آوازیں تھیں جو کمرے کے اندر پہنچ رہی تھیں۔ وہ دل میں ٹھان چکی تھی کہ جیسے ہی کوئی آئے گا وہ اس سے بھڑ جائے گی نوچ لے گی۔ دانتوں سے بوٹیاں ادھیڑ دے گی‘ مر جانے کی حد تک مدافعت کرے گی مگر ۔۔۔۔۔۔
رات لمحہ لمحہ سکڑتی رہی اور کمرے کے قریب کوئی آہٹ سنائی نہیں دی۔ کوئی اس طرف نہیں آیا۔ وہ ساری رات جاگتی رہی اور ہولتی رہی۔ ایک پل کو بھی اس کی آنکھ نہیں لگی اور آخر کار صبح ہو گئی۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ کل دوپہر سے اس نے کچھ نہیں کھایا پیا تھا۔ اور نہ ہی اسے ایسی کوئی طلب محسوس ہو رہی تھی۔
صبح کے بعد سورج بلند ہوتا ہوا اپنے عروج پر جا پہنچا۔
قریب قریب دوپہر کا وقت تھا جب دروازے کے باہر آہٹ بلند ہوئی۔ حجاب اس وقت پلنگ سے کمر ٹکائے فرش ہی پر بیٹھی تھی۔ اس کی تمام حسیات فوراً سے پیشتر دروازے کی جانب مبذول ہو گئیں۔
زنجیر ہٹنے کی آواز سنائی دی۔ دروازہ کھلا اور نزہت بیگم کی کریہہ صورت اندر در آئی۔ اس کے عقب میں عشرت جہاں اور بدصورت ہاشو بھی موجود تھا۔
نزہت بیگم نے ایک ذرا رک کر دیکھا‘ گنگھروﺅں کی جوڑی پلنگ پر اسی جگہ پڑی تھی جہاں کل اس نے پھینکی تھی۔ وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور گھنگرو اٹھا کر حجاب کے سامنے کردیئے۔
”لے پہن۔“ اس کا لہجہ انتہائی سرد تھا مگر حجاب یوں ساکت بیٹھی رہی جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو۔
”پہن انہیں۔“
حجاب پر پوری طرح روشن تھا کہ رات بے شک گزر چکی ہے مگر مصیبت نہیں۔ پہلے وہ چوہدریوں جیسے وحشی جانوروں کے شکنجے میں تھی تو اب گویا خون آشام بلاﺅں کے نرغے میں۔
”میں نے کہا ہے انہیں پہن۔“
”میں ایسا نہیں کروں گی۔“ حجاب کا جملہ مکمل ہوتے ہی نزہت بیگم نے اسے ایک زور کی لات رسید کی اور وہ پہلو کے بل گر پڑی۔
”نہیں پہنتی تو نہ پہن۔ رات کا ادھار ابھی چکتا کرتے ہیں۔“ نزہت بیگم نے زہرخند سے کہا پھر ہاشو سے مخاطب ہوئی۔
”ہاشو! کل تو کہہ رہا تھا کہ تو اکیلا ہی اس کی طبیعت بحال کردے گا۔ چل… شروع ہو جا… تو اس کی طبیعت بحال کر میں اور عشرت ادھر بیٹھ کر براہ راست ساری نشریات دیکھیں گے۔ آ عشرت! ادھر بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں۔“ آخر میں اس نے عشرت جہاں کومخاطب کیا اور دیوار کے ساتھ موجود مسہری پر بیٹھ گئی۔ عشرت نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔ جب کہ ہاشو بھوکی نظروں سے حجاب کو دیکھتا ہوا آگے بڑھا۔
”میں تو کل سے اشارے کا منتظر تھا بائی جی! اس کی عزت شرم کا جنازہ نکلے گا تو یہ کوئی بات سنے مانے گی۔ پھر گھنگرو بھی خود ہی پہنے گی اور مجرا بھی کرے گی۔“ ہاشو نے قمیص اتار کر پلنگ پر اچھال دی۔ حجاب پہلے فرش پر ہی تیزی سے پیچھے کھسکی اور پھر تڑپ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کادماغ چیخ چیخ کر کہنے لگا تھا کہ زندگی کے بدترین لمحات آن پہنچے ہیں۔
٭…٭…٭
اس دل چسپ اور سنسنی خیز ناول کے بقیہ واقعات پڑھنے کے لیے یہان کلک کیجیے