مرشد (اردو ناول) قسط نمبر6

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی

مرشد کو غالباً دہلیز سے ٹھوکر لگی تھی۔ اس نے سنبھلنے اور اٹھنے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں کی۔ موالی ملنگ اور کتکان, دونوں بائیں طرف منہ اٹھائے کھڑے تھے۔ کتکان ‏کچھ بھونک بھی رہا تھا۔ پوری گلی میں فاصلے فاصلے پر بس دو تین بلب ہی روشن تھے۔ مرشد نے دیکھا کہ موٹر سائیکل سوار اگلی گلی کی نکڑ مڑ رہے تھے۔ البتہ چاچے گوگے کے ‏کھوکھے کے سامنے ملگجے سے اندھیرے میں تین ہیولے سے موجود تھے۔ ایک شخص غالباً نیچے پڑا کراہ رہا تھا اور دو اس پر جھکے ہوئے تھے۔

‏”زریون؟“مرشد نے ایک اندازے کے تحت پکارا اور پسٹل پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے آگے بڑھا

‏”یس… پلیز ہیلپ می۔“ توقع کے مطابق وہ زریون اور اس کے ساتھی ہی تھے۔ مرشد کو آواز سے محسوس ہوا کہ وہ زخمی ہے۔ چند ہی لمحوں میں مرشد ان کے قریب تھا اور ‏اس کے عقب میں مراد، ساون اور جعفر بھی۔

‏”اسے ہماری گاڑی تک پہنچانے میں ہیلپ کیجیے پلیز۔“‏

قریب پہنچتے ہی زریون مرشد سے مخاطب ہوا تھا۔ مرشد نے دیکھا کہ زریون کے بائیں ہاتھ میں پسٹل تھا اور دائیں بازو میں غالباً گولی لگی تھی کیونکہ اس کی سفید آستین سے ‏خون نچڑ رہا تھا۔ نیچے گرا ہوا اس کا ساتھی زیادہ زخمی تھا۔ اسے دو گولیاں لگی تھیں۔ ایک پسلیوں میں اور دوسری پشت پر کندھے میں اور یقینا یہ قاتلانہ حملہ انہی موٹر سائیکل ‏سواروں نے کیا تھا اور بعد والے تین چار فائرز ان پر زریون نے کیے ہوں گے۔

‏”کون لوگ تھے؟ کوئی دشمن داری ہے یا…“‏

‏”ہاں! دشمنی ہی کا معاملہ ہے۔ آپ پلیز اسے گاڑی تک پہنچانے میں ڈیوڈ کی مدد کیجیے، میرے شاید بازو کی ہڈی متاثر ہو گئی ہے۔“ مرشد کے سوال پہ زریون نے کہا، اس کے ‏چہرے پر تکلیف کے آثار تھے اور کچھ دیر پہلے تک والا سارا نشہ جیسے ہرن ہو چکا تھا۔

‏”خون بہت بہہ رہا ہے۔ آپ ادھر سے پکڑیے اسے۔“ ڈیوڈ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا اور زخمی کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر اسے اٹھانے کی کوشش کی تو اس بے چارے ‏کے حلق سے بے اختیار کراہیں ابل پڑیں۔

‏”اوئے میرے خدا… ہائے، آہ بس، بس اب میں بچنے والا نہیں۔“‏

‏”بھونکو مت، چپ رہو تم۔“ زریون نے اسے دبکا تھا۔ مراد اور جعفر دونوں آگے بڑھ کر زخمی پر جھک گئے۔‏

‏”نہیں…زر… زریون! پاپا کو سوری بولنا اور… اور براﺅن والا بریف کیس سائرہ تک پہنچا… پہنچانا۔“‏

‏”کچھ نہیں ہو گا تمہیں۔“‏

‏”مردبنو یار! دوتوگولیاں لگی ہیں ۔کیوں دل چھوڑ رہے ہو…. جعفر! پکڑو ذرا۔“ مراد نے پہلے زخمی کو مخاطب کیا پھر جعفر کو۔ دونوں نے مل کر اسے اٹھایا تو زریون فوراً بولا۔ ‏‏”گاڑی اس طرف ہے… وہ دائیں ہاتھ والی بڑی گلی میں۔“‏

‏”اگر کہو تو ہم اسپتال تک پہنچا آئیں تم لوگوں کو۔“‏

‏”اس کی ضرورت نہیں۔ ڈیوڈ بالکل ٹھیک ہے، ڈرائیو کر لے گا وہ۔“‏

مرشد کے پوچھنے پر زریون نے جواب دیا۔ جعفر اور مراد زخمی کو اٹھا کر آگے بڑھے تو زریون اور ڈیوڈ بھی فوراً ہی ان کے پیچھے چل دیئے۔

‏”ساون… کوئی پریشانی ہے کیا؟“‏

شبیرے کی آواز پران دونوں نے مڑ کر دیکھا۔ شبیرا اور دلشاد بیٹھک کے دروازے پر دکھائی دے رہے تھے۔”کوئی پریشانی نہیں ،سب ٹھیک ہے۔“ ساون نے پلٹ کر ‏جواب دیا۔ مرشد چاچے گوگے کے تھڑے پر بیٹھ گیا۔‏

‏”کون لوگ تھے یہ؟“‏

‏”معلوم نہیں۔“ساون نے مرشد کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی تھی اور وہ کچھ ہی فاصلے پر موجود نزہت بیگم کے کوٹھے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ساون ‏خاموش ہو رہا۔ مرشد کی نظریں لکڑی کے ان کہنہ زینوں پر ٹکی تھیں جو وحید درزی اور استاد عارف ساﺅنڈ والے کی دکانوں کے درمیان سے اوپر کوٹھے تک جاتے تھے۔ ‏کوٹھے کی بغلی طرف والی گلی خاصی کشادہ تھی۔ جعفر اور مراد زریون کے زخمی ساتھی کو اٹھا کر اسی گلی میں گئے تھے۔ کوٹھے کا ایک داخلی راستہ اس طرف بھی تھا۔

لکڑی کے ان زینوں کا اختتام ایک گیلری نما حصے پر ہوتا تھا۔ جس کے سامنے لکڑی ہی کی ریلنگ موجود تھی۔ ایک طرف داخلی دروازہ اور ریلنگ کے اختتام کے قریب ایک ‏کھڑکی…. گیلری میں ایک کمزور سا بلب روشن تھا جس کی زرد روشنی میں وہ حصہ خاصا شکستہ اور نحوست زدہ سا دکھائی دے رہا تھا۔ جیسے … جیسے کسی آسیب نگری کا راستہ یا پھر

کسی ‏عقوبت گاہ کا ایک بیرونی منظر…

اسی آسیب نگری، اسی عقوبت گاہ میں اس نے جنم لیا تھا۔ پرورش پائی تھی اور اسی عقوبت گاہ، اسی نحوست خانے میں اس کی ماں زندگی کے ‏نام پر جیسے ایک سزا کاٹتی آئی تھی اور ہنوز کاٹ رہی تھی اور شاید آخری سانس تک اسے یہ سزا کاٹتے رہنا تھا۔ کیونکہ یہ اس کا اپنا انتخاب تھا۔ اپنی مرضی کا سودا تھا۔ سال ہاسال ‏سے ہر لمحہ‘ ہر گھڑی اس کی زندگی بس ایک انتظار بن کر رہ گئی تھی۔ ایک ایسا انتظار جس کی شاید کوئی منزل نہ تھی۔ کوئی حاصل نہ تھا، مگر پھر بھی وہ اس انتظار کی قیدی تھی اور ‏راضی خوشی اس قید میں اپنا آخری سانس تک گزار دینے کی خواہش مند تھی۔‏

وہ یہاں نہیں رہنا چاہتا تھا اور شاید کب کا وہ یہاں سے کہیں دور ‏چلا گیا ہوتا… مگر وہ مجبور تھا… اپنی ماں کی وجہ سے۔ اس کی اب تک کی زندگی میں اس کی واحد مجبوری اور کمزوری اس کی ماں ہی تھی، جس سے وہ بے تحاشا محبت کرتا تھا۔ جس ‏سے دور وہ کسی صورت‘ کسی قیمت پر نہیں جا سکتا تھا… گزشتہ چند سالوں میں وہ ہر ممکنہ کوشش کر چکا تھا کہ ماں کو یہاں سے کہیں دور چلے چلنے پر آمادہ کر لے مگر… لاحاصل…!‏

اس کی یہ بات ماننے کو وہ تیار نہیں تھی…

مرشد کو غصہ آ جاتا تھا۔ وہ جھنجلاہٹ کا شکار ہو جاتا تھا کہ ماں نے بے وجہ اس جہنم کی اسیری قبول کر رکھی تھی۔ وہ ایک پرچھائیں کی ‏منتظر تھی۔ ایک سراب کا شکار تھی۔ مرشد کے نزدیک وہ ایک ایسے بدنسل انسان کے لایعنی انتظار میں زندگی گھلا رہی تھی جسے کبھی نہیں لوٹنا تھا مگر وہ تھی کہ اس شخص کے ‏متعلق کوئی ایک بھی برا جملہ سننے کو تیار نہیں تھی۔

‏ مرشد اچانک اپنی جگہ سے اٹھا اور تیز قدموں سے بیٹھک کی طرف بڑھ گیا۔ یکایک سینے میں جیسے انگارے سے دہک اٹھے تھے۔ بیٹھک میں آ کر وہ سیدھا غسل خانے میں ‏گھسا اور کپڑوں سمیت ہی پانی کے نل کے نیچے بیٹھ گیا۔ کافی دیر بھیگتے رہنے کے بعد وہ باہر نکلا، کپڑے تبدیل کیے، نماز ادا کی اور پھر صحن میں چبوترے پر آ بیٹھا… دل و دماغ میں ‏قدرے سکون اتر آیا تھا۔

دن کے تقریباً آٹھ بجے لالا دلاور آ پہنچا… رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے بتایا کہ رات ڈیرے پر پنچایت بیٹھی تھی۔ کالے خان کے ساتھ گھوڑا بھی آیا تھا اور سارا معاملہ رفع ‏دفع ہو گیا ہے۔ اب ان لوگوں کی طرف سے کوئی شرارت نہیں ہو گی… مرشد بس ہوں ہاں کرتا رہا تھا۔

اس نے ان سب باتوں میں دلچسپی لی تھی نہ کوئی توجہ دی تھی۔ دلاور ‏تقریباً آدھا گھنٹہ وہاں بیٹھا رہا اور جب وہ واپس جانے لگا تو مرشد نے رستم کے پانچ بندوں کو بھی اس کے ساتھ ہی روانہ کر دیا۔ وہ لوگ روانہ ہوئے ہی تھے کہ ٹڈا اچھو آ گیا

‏مرشد، ساون اور مراد اس وقت چبوترے پر بیٹھے ناشتہ کررہے تھے۔

‏”آ بھئی گھوڑے کی شکل والے گدھے! کیسے آیا ہے؟“‏

‏”مرشد بھائی! وہ… خالہ کہہ گئی ہیں کہ مہمان کا خیال رکھنا۔“‏

‏”پوری بکواس کیا کر۔“‏

‏”وہ خالہ کہیں منت مانگنے گئی ہیں تو وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ کو ان کا پیغام دے دوں کہ وہ…. حجاب بی بی خالہ کی مہمان ہیں۔ ان کا خیال رکھنا ہے۔ انہیں ادھر کوئی پریشانی ‏وغیرہ نہ ہو… خالہ رات تک یا پھر کل دن میں کسی وقت واپس آئیں گی۔“‏

مرشد کا نوالہ بناتا ہوا ہاتھ ٹھٹک گیا۔

‏”کہاں منت مانگنے گئی ہیں اماں؟“‏

‏”یہ تو انہوں نے نہیں بتایا۔“‏

‏”اور یہ حجاب بی بی کون ہے ؟“‏

‏”وہی لڑکی، وہ… جس کا آپ پوچھ رہے تھے۔“‏

‏”وہ پٹولا۔“ مرشد کے پردہ تصور پر سرخ انگور جیسے ہونٹ ابھر آئے۔ ایک چہرہ روشن ہوا اور خوفزدہ آنکھیں چمک اٹھیں۔‏

‏”جی!“‏

ساون اور مراد دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا۔‏

‏”ٹھیک ہے۔ تُو نکل۔“ مرشد نے نوالہ چھوڑ دیا… پھر تیز لہجے میں بولا۔‏

‏”اماں کو گئے کتنی دیر ہوئی ہے۔؟“‏

‏”گھنٹے سے زیادہ ہو گیا۔ انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ ان کے جانے کے ایک گھنٹے بعد آپ کو پیغام دوں۔“ اچھو نے ٹھٹکتے ہوئے جواب دیا اور پھر مرشد کے ہاتھ کے اشارے پر ‏پلٹ کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ مرشد کے چہرے پر قدرے فکر مندی کے آثار ابھر آئے تھے۔ یہ اطلاع اس کے لیے حیرت کے ساتھ ساتھ پریشانی کا باعث ‏بھی تھی۔

اماں کا گھر سے نکلنا حیران کن تھا۔ گزشتہ تین سالوں سے وہ باہر نہیں نکلی تھی۔ اس سے پہلے اس نے لاہور شہر اور ارد گرد کے شہروں میں کوئی دربار، مزار نہیں چھوڑا تھا ‏جہاں حاضریاں نہ دی ہوں‘ منتیں نہ مانگی ہوں‘ کوئی پیر فقیر ایسا نہیں تھا جس کے حضور وہ حاضر نہ ہوئی ہو…

مگر تین سال پہلے وہ یہ سب چھوڑ چکی تھی ۔شاید اس سب سے ‏تھک گئی تھی یاپھر ان راستوں سے مایوس ہوگئی تھی‘ اور تین سال بعد آج اچانک پھر وہ منت مانگنے نکل کھڑی ہوئی تھی اب تو اس کی صحت اور ہمت بھی اتنی نہیں تھی کہ وہ ‏کہیں آجاسکتی۔ مرشد کو فکر مندی نے آلیا… پتانہیں اماں نے دواکاکیا کیا تھااور اپنے ساتھ کسے لیاتھا۔تین سال پہلے تو زیادہ تر شازیہ ہی اس کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔

اس نے پانی کی گڑوی اٹھا کر کلی کی اور پھر ہاتھ پرپانی گراتاہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

‏”تم لوگ ناشتہ کرو میں آتا ہوں۔“‏

اس نے سفید دھوتی اور سفید کرتا پہن رکھا تھا۔پسٹل اٹھا کر اس نے ڈب میں پھنسا لیا۔

‏”ناشتہ تو پورا کر لے یار!“ ساون نے اس کی فکر مند صورت پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔‏

‏”بس ہو گیا پورا۔“ وہ پلٹ کر بیرونی جانب بڑھ گیا۔‏

‏”آفرین ہے یار ان ماں بیٹے کی محبت پر تو… کبھی کبھی تو رشک آتا ہے۔“مرشد کے باہر نکلتے ہی ساون مراد سے مخاطب ہواتھا۔‏

‏”خالہ کا تو پتا نہیں، اپنا مرشد واقعی اس سے شدید محبت کرتا ہے۔“‏

‏”وہ ماں ہے۔ اس کی محبت کوکیا تولے گا تو۔“‏

‏”مائیں تو ہماری بھی ہیں۔ کتنی ہوتی ہے ماں کی محبت؟“‏

‏”ہماری ماں میں اور مرشد کی ماں میں فرق ہے۔ وہ مشین نہیں بنی۔ اندر سے بھی آج تک عورت ہی ہے۔ اسی لیے اس کے سینے میں اصلی والی ممتا بھی ہے اور ہم سبھی جانتے ‏ہیں کہ وہ عورت مرشد ہی کودیکھ دیکھ کر جیتی آئی ہے آج تک… ورنہ میرصاحب والا روگ تو کب کااس بے چاری کو کھا چکا ہوتا۔“‏

‏”ہاں… اور یہی روگ اس کے ساتھ ساتھ مرشد کا کلیجہ بھی کھائے جارہا ہے۔ یہ بات اس ماں کوشاید سمجھ نہیں آرہی۔“‏

‏”آتی ہوگی سمجھ مگر وہ بے چاری مجبور ہے… میرصاحب کاانتظار اس کے پیروں کی بیڑیاں بنا ہوا ہے نا۔“ مراد نے ایک بڑا سا نوالہ منہ میں ڈالا اور ساون کی صورت دیکھتا رہا۔

سارا بازار‘ پورا محلہ حسن آرا اور میر صاحب کی داستان سے اچھی طرح واقف تھا…سال ہاسال بیت چکے تھے مگر حسن آرا آج بھی میر صاحب کی واپسی کی منتظر تھی۔ وہ آج بھی ‏پریقین تھی کہ میر صاحب ضرور واپس آئیں گے اور لوگ اس کے اس یقین پر حیران ہوتے تھے …طوائفوں کی اکثریت اس کے لیے اچھے اور ہمدردانہ جذبات رکھتی تھی ‏کہ حسن آرا کی زندگی میں ایک ہی آدمی آیا تھا اور اس کے بعد آج تک کی زندگی اس نے گویا عدت میں گزاری تھی۔ بقول شاعر

☆ ☆ ☆

مرشد بازار والوں کے سلام کے جواب میں سرہلاتا ہوا تیز قدموں سے چلتا گھر تک پہنچاتھا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر شازیہ اور خالہ سندس پرپڑی۔ وہ دونوں ‏صدردالان میں موجود تھیں۔ خالہ نیچے بیٹھی تھی اور شازیہ تخت پوش پربیٹھی اس کا سر دیکھ رہی تھی۔ دونوں نے کھلے گلے کی تنگ قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور دونوں کے ‏دوپٹے ندارد تھے۔ مرشد پر نظر پڑتے ہی شازیہ کا چہرہ کھل اٹھا ،البتہ خالہ سپاٹ صورت بیٹھی رہی۔

‏”اماں کہاں ہے ؟“ مرشد نے پہنچتے ہی سوال داغا تھا۔

‏”کہیں منت مانگنے گئی ہیں۔“‏

‏”ساتھ کون گیا ہے؟“‏

‏”میں نے بہت کہا انہیں کہ مجھے ساتھ لے چلیں۔ میں چلتی ہوں مگر وہ مانی ہی نہیں… اکیلی ہی نکل گئیں۔“”تو نے جانے کیوں دیا… مجھے بلا لیا ہوتا۔“ مرشد نے بے چینی سے ‏کہا اور ایک طرف موڑھے پر بیٹھ گیا۔”کچھ بتایا نہیں کہ کس جگہ جارہی ہیں؟“‏

‏”نہیں۔“”چار قدم چل کر تو تھک جاتی ہیں اماں… پتانہیں کدھر نکل گئی ہیں۔“ اس نے جیسی خود کلامی کی تھی۔ فکرمندی میں اضافہ ہو گیا تھا۔

‏”تیری طرح وہ بھی تو اپنی مرضی کی مالک ہے۔ کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔“ خالہ بلند آواز میں بڑبڑائی تھی۔

‏”ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے۔“‏

‏”ہر کسی کی مرضی کہاں چلتی ہے۔“ شازیہ نے فوراً حصہ ڈالا تھا۔ اس کی مسکراتی نظریں مرشد پرجمی تھیں۔ مرشد خاموش رہا۔ اسے خیال آیا کہ تین سال بعد اچانک غیر ‏متوقع طور پر اماں منت مانگنے چلی گئی اور جسم میں سکت نہ ہونے کے باوجود اکیلی ہی چلی گئی۔ شازیہ کے اصرار کے باوجود اسے ساتھ لے کر نہیں گئی ۔کیوں ؟

‏ اچھو کو بھی گھنٹے بعد پیغام پہنچانے کی تاکید کی۔ یقینی بات تھی کہ اسے پتا تھا کہ اگر روانگی کے وقت ہی مرشد کو معلوم ہو گیا تو وہ مجھے نہیں جانے دے گا اور اکیلے تو کسی ‏صورت بھی نہیں… جانا لازمی تھا اور کہاں جانا تھا یہ بھی راز میں رکھنا ضروری تھا اسی وجہ سے شازیہ کو بھی ساتھ نہیں لیا۔ مرشد کو اچانک محسوس ہوا کہ اماں منت مانگنے نہیں ‏گئی بلکہ اصل بات کچھ اور ہے۔ اس کا دھیان فوراً اس لڑکی کی طرف چلاگیا۔ حجاب بی بی… مہمان !‏

‏”یہ مونچھیں چھوٹی کیوں نہیں کرا لیتا تو۔“ شازیہ کی آواز نے اس کا دھیان بانٹ لیا مگر وہ بولا کچھ نہیں۔

‏”کیسے چھتے کا چھتا پال رکھا ہے… ہونٹوں کا تو ٹھیک سے پتا ہی نہیں چلتا۔“‏

‏”اچھا ہی ہے۔ چڑیلوں کی نظر لگنے سے محفوظ ہیں۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا اور اٹھ کر حسن آرا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

‏”دو منٹ توجہ سے دیکھ لے تو میں پھر جان چھوڑوں تیری۔“ سندس جہاں نے بیزار سے انداز میں شازیہ سے کہا تو وہ پھر سے اس کے سر کی طرف‏ متوجہ ہو گئی۔مرشد دالان سے نکل کر کمرے میں چلا آیا۔

حجاب بی بی ‘پلنگ پر نیم دراز سی پڑی چھت کی کڑیوں کو تک رہی تھی… دروازے پر آہٹ محسوس کرتے ہوئے اس نے گردن موڑ کردیکھا اور مرشد کو اندر داخل ہوتے ‏دیکھ کر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ وہی روشن چہرہ مرشد کے سامنے تھا۔ ہونٹ کا ورم کم ہو چکا تھا البتہ آنکھ کے قریب وہ نیلگوں ہلالی نشان ویسا ہی تھا۔ اس نے فوراً دوپٹہ سنبھالا اور ‏گھبرائی ہوئی نظروں سے مرشد کی طرف دیکھا جو دو قدم اندر آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔

‏”حجاب تیرا ہی نام ہے نا؟“‏

‏”جی۔“‏

‏”تو یہاں کیا کر رہی ہے ؟“‏

‏”مم… مجھے خالہ حسن آرا نے کہا تھا کہ میں یہیں رہوں۔“‏

مرشد خاموش کھڑا چند لمحے اسے تکتارہا پھر ایک طرف دیوار کے ساتھ رکھے سنگار میز کے اسٹول پر بیٹھ گیا۔ حجاب کے وجود پر وہی لباس اور وہی دوپٹہ تھا جو اس نے بڑے ‏اچھے سے اوڑھ لیا تھا۔ وہ گھبرائی سمٹی سی بیٹھی گود میں دھرے اپنے ہاتھوں کو تک رہی تھی اور مرشد اسے۔ اس کے سامنے جیسے حجاب نہیں بلکہ ایک خیالی تصویر رکھی تھی۔ ‏مشرق کی افسانوی تہذیب کی عکاس ایک معصوم صورت با حیا لڑکی کی تصویر۔

اس نے اپنے سینے میں ایک عجیب سرسراہٹ محسوس کی اور اچانک ہی اس کے دل میں ایک گھبراہٹ سی آ دھڑکی۔

‏”اچھا تو کیا فلم ہے تیری؟“ اس نے کھردرے لہجے میں پوچھا تھا۔‏

‏”جی… کیسی فلم ؟“‏

‏”کیا…. کہانی کیا ہے تیری۔ یہاں کیسے پہنچی؟“‏

‏”جھگڑا ہوا تھا، میرے بھائیوں کا اور گاﺅں کے چوہدریوں کا، تو وہ وہ لوگ مجھے زبردستی گھر سے اٹھا کر یہاں چھوڑ گئے۔“‏

‏”کیا نام ہے تیرے گاﺅں کا؟“‏

‏”نندی پور۔“‏

‏”اور ان چوہدریوں کا؟“‏

‏”اکبر علی اور فرزند علی، باپ بیٹا ہیں۔“‏

مرشد چونک پڑا۔ ابھی چند روز پہلے ہی تو جاگیردار اکبر علی سے اس کی بات ہوئی تھی تو یعنی وہ جس لڑکی کے حوالے سے بات کرنا چاہتا تھا وہ یہی تھی… حجاب!‏

‏”تجھے یہاں مارا پیٹا کس نے ہے ؟“‏

‏”جی‘ وہ …ہاشو اور…نزہت بیگم اور… اور وہ مجھے جن کاموں پر مجبور کرتے رہے ہیں، وہ میں نہیں کرسکتی‘ کسی صورت بھی نہیں۔“‏

‏”اچھا…“ مرشد نے پر سوچ انداز میں ہنکارا سا بھرا… تقریباً ساری کہانی ہی اس کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ وہ اکبر علی جیسے نیچ ذہنیت لوگوں کے مزاج اچھی طرح سمجھتا تھا۔ ایسے ‏لوگ دشمنی میں نہ تو کوئی معیار رکھتے ہیں اور نہ کوئی تمیز۔ بس اپنے خود ساختہ معیاروں اور اصولوں کی غلامی میں زندگیاں گزار دیتے ہیں۔

مرشد نے دیکھا وہ اسی طرح سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے کا کچھ حصہ کھلا دکھائی دے رہا تھا اور کچھ دوپٹے کی اوٹ میں چمک رہا تھا۔ مرشد کے اندر کہیں جھنجناہٹ ‏سی ہوئی۔

‏”ابھی اماں کدھر گئی ہے ؟“‏

‏”جی کون؟“ اسے ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی تھی۔‏

‏”تیری خالہ حسن آرا نے تجھے میرے متعلق نہیں بتایا؟“‏

‏”آپ کو پیغام بھیجا تھا انہوں نے اور… بتایا تھا کہ آپ آئیں گے اور… اور یہ کہ میں آپ سے گھبراﺅں نہیں۔“‏

‏”تو پھر کیوں گھبرا رہی ہے ؟“‏

‏”جی‘ نہیں تو… وہ بس یونہی۔“‏

‏”اچھا! اماں کا بتا کدھر گئی ہے وہ؟“ مرشد اس سے سوالات کر رہا تھا اور اس کی نگاہیں لاشعوری طور پر حجاب کے ہونٹوں پر ٹک کر رہ گئی تھیں۔ ان ہونٹوں کی حرکت اسے ‏انتہائی بھلی اور اچھی لگ رہی تھی۔

‏”اماں۔“ حجاب نے نا سمجھی سے کہا۔ حسن آرا نے اسے اپنے اور مرشد کے رشتے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔‏

‏”ہاں اماں۔ تیری خالہ حسن آرا میری ماں لگتی ہے۔“‏

اس بار حجاب نے بے اختیار چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ مرشد اندرونی طور پر ایک ذرا گڑبڑایا مگر اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں آیا۔ حجاب نے یوں اس کی صورت ‏دیکھی جیسے پہلی بار اسے دیکھ رہی ہو… اسے جھٹکا سا لگا تھا۔ اتنی مشفق اور مہربان عورت اور بیٹا بدمعاش…!‏

‏”یہ انہوں نے نہیں بتایا تھا۔“ اس نے دوبارہ سر جھکا لیا۔ ”اور وہ کسی دربار مزار پر گئی ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ کس مزار پر۔“‏

مرشد کچھ دیر تک پر سوچ نظروں سے اس کی سمت دیکھتا رہا پھر سر ہلاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

‏”چلو…ٹھیک ہے۔اب اماں نے تجھے مہمان کہا ہے تو بے فکر ہو کر وقت گزار، اب تجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا۔“‏

‏”جی اچھا۔“‏

مرشد کمرے سے باہر نکل آیا… دالان خالی پڑا تھا ۔گھر میں مکمل خاموشی تھی۔یقینا باقیوں کی طرح سندس جہاں اور شازیہ بھی آرام کرنے چلی گئی تھیں۔ مرشد عقبی طرف ‏صحن میں نکل آیا… وہاں پہنچ کر س نے بلند آواز سے اچھو کو پکارا۔‏

‏”اچھو…“‏

‏”ابے او اچھو…“‏

‏”کیا ہے …کیا ہوا؟“ دوسری منزل کی ایک کھڑکی سے فوراً ہی شازیہ نے سر نکالا تھا۔‏

‏”وہ ٹڈا کدھر ہے؟“‏

‏”شور نہ مچا بھیجتی ہوں اسے۔“ وہ کھڑکی سے غائب ہوگئی اور کچھ ہی دیر میں سیڑھیوں سے اچھو نمودار ہوا۔‏

‏”جی مرشد بھائی!“‏

‏”تو نے یہاں والوں کو بتایا تھا کہ یہ لڑکی اماں کی مہمان ہے ؟“‏

‏ ‏

‏”جی !سب کو بتا دیا تھا۔“‏

‏”ایک بار پھر بتا دے… اب یہ مرشد کی بھی مہمان ہے۔ خصوصاً مائی کے اور اس ڈنگر ہاشو کے کان میں بھی ڈال دے یہ بات ۔ چل … شاباش۔“‏

‏”جی! بہتر۔“‏

مرشد اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے بیرونی جانب چلا گیا۔ اسے یہ تو یقین تھا کہ اب یہاں حجاب کو کوئی پریشان کرنے کی جرات نہیں کرے گا البتہ اماں کی طرف سے اسے ‏پریشانی لاحق تھی۔ وہ واپس بیٹھک پر پہنچا تو مراد کے علاوہ باقی ساتھی وہاں موجود تھے۔ اس نے مختصر الفاظ میں سب کوسمجھایا اور اگلے ایک گھنٹے میں محلے کے سبھی لفنگے تلنگے ‏اور نوجوان سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر اماں کی تلاش میں مختلف سمتوں میں روانہ ہوچکے تھے۔ بیٹھک پر مرشد کے علاوہ صرف ساون اور جعفر ملتانی رکے تھے۔

کچھ تھوڑا وقت مزید گزرا ہو گا کہ مرشد ایک نئی الجھن محسوس کرنے لگا۔اس کا دل وہاں بیٹھنے کو نہیں چاہ رہا تھا… اس کے پردہ تصور پر بار بار حجاب کا سراپا ابھرنے لگا تھا۔ ‏کانوں میں اس کی آواز کسی جھنکار کی طرح گونجنے لگی تھی اوراس کا دل چاہ رہا تھا کہ دوبارہ جا کر وہیں سنگھار میز کے اسٹول پرجا بیٹھے اور یک ٹک اس خیالی تصویر کو تکتا رہے… ‏خاموش بیٹھا اسے سنتا رہے اور بس۔

اس نے سر جھٹک کر یہ سب ذہن سے نکال دیا مگر کچھ ہی دیر بعد یہ الجھن سی پھربیدار ہوئی اور وہ بے چین ہو اٹھا۔ اس بے چینی میں تھوڑا مزید اضافہ ہوا تو وہ اٹھ کر کمرے ‏میں ٹہلنے لگ گیا۔ ساون اور جعفر بیٹھے اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ رہے تھے۔ اونچی چھت کے وسط میں لمبے راڈ والا پنکھا چل رہا تھا۔ پچھلے چند دنوں سے گرمی کی ‏شدت میں اضافہ محسوس ہونے لگا تھا۔

‏”مرشد اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں … خالہ کی طبیعت بہتر ہو گی تبھی تو وہ گئی ہیں۔ آجائیں گی خیر خیریت سے۔“‏

مرشد نے یوں چونک کر اس کی طرف دیکھا جیسے کمرے میں اس کی موجودگی سے ابھی واقف ہوا ہو۔

‏”میں اوپر اپنے کمرے میں جا رہا ہوں۔ کچھ دیر اکیلا رہوں گا۔“‏

اس نے الجھن زدہ انداز میں کہا اور اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ اسے اوپر آئے تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی کہ کمرے کے دروازے پر مراد کی صورت دکھائی دی۔‏

‏”میں کچھ بات کرنا چاہتاہوں تجھ سے۔“‏

‏”بول۔“‏

‏”صبح جب میں اور جعفر زریون لوگوں کو روانہ کر کے واپس آرہے تھے تو میں نے تیرے گھر کی طرف سے کسی کو نکلتے دیکھا تھا۔“ مراد مرشد کے قریب چلا آیا۔

‏”کسے ؟“‏

‏”یقین سے تو نہیں کہہ سکتا مگر… مجھے یوں لگا تھا جیسے وہ تیری اماں ہو… بڑی سی کالی چادر میں خود کو لپیٹے ہوئے تھی۔ میں جعفر کو ادھر بھیج کر اس کے پیچھے بھی گیا تھا۔“ مراد ‏یقینا نیچے سے ساری صورت حال سن آیا تھا۔ مرشد پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔

‏”بہرحال وہ جو کوئی بھی تھی ادھر… خالہ اقبال کوثر کے گھر گئی تھی۔“‏

‏”وہ اماں ہو سکتی ہیں۔“ مرشد نے پر امید لہجے میں کہا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ مراد فوراً اس کے پیچھے لپکا تھا۔ ‏

خالہ اقبال کوثر ہیجڑوں کے ایک گروپ کا گرو تھا اورحسن آرا کے خیر خواہوں میں سے تھا۔ وہ دل سے حسن آرا کی عزت کرتا تھا۔ کبھی کبھار اس سے ملنے کی غرض سے ‏کوٹھے کا چکر بھی لگا لیا کرتا تھا۔‏

اگلے دس منٹ بعد مرشد اور مراد، خالہ اقبال کے دروازے پر تھے۔ دروازہ کھلاتھا۔ مرشد نے ہاتھ بڑھا کر زنجیر بجائی اور انتظار کیے بغیر اندر داخل ہو گیا۔ مراد اس کے ‏پیچھے تھا۔

وہ ایک تنگ اور گھٹن زدہ سا مکان تھا۔ صحن میں بمشکل دو یا تین چارپائیاں آتی ہوں گی۔ دائیں ہاتھ نلکا تھا اور چمکیلی وہاں بیٹھا کپڑے دھو رہا تھا۔ سامنے برآمدے میں بچھی ‏چارپائی پرشبو اور رانی بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے۔ گھر کی فضا سے ایک عجیب سی بو چھلک رہی تھی۔ دودھ میں بھیگے ہوئے پسینے جیسی بو… مرشد کواندر داخل ہوتا دیکھ کر وہ تینوں ‏ہی چونک پڑے۔

‏”آئے ہائے! آج صبح سورج کدھر سے ابھرا تھا۔ اے شبو، رانی! دیکھو تو ذر اکون آیا ہے۔“ چمکیلی فوراً اٹھ کھڑی ہوئی تھی یا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

‏”ارے مرشد باﺅ! آئیے آئیے… ادھر آ جائیے۔“ شبو اور رانی نے فوراً لڈو سمیٹی اور چارپائی سے اتر کھڑے ہوئے۔‏

‏”ادھر… اس چارپائی پر آ جائیے… اے چمکیلی! جلدی سے دو بوتلیں پکڑ کے لا مہمانوں کے لیے۔“‏

‏”ضرورت نہیں ہے۔“ مرشد نے فوراً چمکیلی کو منع کیا… پھر شبو سے مخاطب ہوا۔‏

‏”خالہ اقبال کدھر ہے ؟“‏

‏”وہ تو گھر پر نہیں ہے مگر… ہم تین یہیں ہیں مرشد باﺅ‘ ہمیں خدمت بتائیے۔“‏

‏”کہاں گئی ہے وہ؟“‏

‏”کوئی خبر نہیں۔ سویرے سویرے نکل گئی تھی۔ خیریت تو ہے نا؟“‏

‏”کس کے ساتھ گئی ہے ؟“‏

‏”ادھر پرے مر۔“ چمکیلی کے ہاتھ تھامنے پر مراد نے اسے جھڑکا تھا۔‏

‏”مرشد باﺅ کے ساتھ رہ رہ کر تیرے بھی کانٹے نکل آئے ہیں۔“ چمکیلی نے دھیمے لہجے میں کہا اور پھر مرشد کو دیکھتے ہوئے دوقدم اور ہٹ گیا۔

‏”بات کیا ہے ؟کچھ بتائیے تو۔“ شبو نے لہراتے ہوئے کہا… مرشد نے محسوس کیا کہ وہ کچھ پردے میں رکھنا چاہتا ہے۔‏

‏”دیکھ شبو! میں اس وقت بہت ٹینشن میں ہوں۔ جو کچھ تو جانتی ہے صاف صاف بتا دے۔“‏

وہ اور مراد برآمدے کے قریب کھڑے تھے جب کہ شبو اور رانی ان کے سامنے برآمدے میں… شبو نے ایک ذرا بغور مرشد کے تاثرات دیکھے پھر ایک آہ بھرتے ہوئے ‏چمکیلی اور رانی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

‏”اب کیا کرے شبو… مرشد باﺅ کے ساتھ کیسے آنکھ مچولی سے کام لیوے… صبح اذانوں کے ٹائم اماں حسن آرا آئی تھیں۔ بس ایسے دس منٹ کے لیے ۔ہم کو پتا نہیں کہ اماں اور ‏خالہ کے درمیان کیا گٹ مٹ ہوئی‘ پھر صبح ہوئی تو خالہ نے چاچا یاسین کو بلا لیا… اسی کی ٹیکسی میں گئی ہیں دونوں‘ اماں بھی اور خالہ بھی۔ اب گئی کہاں ہیں یہ ہمیں بالکل خبر ‏نہیں … جیسی مرضی قسم لے لو ہم سے۔“‏

مرشد کو یقین ہو گیا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے اور اس سے زیادہ نہیں جانتا… اس نے سرہلایا اور واپسی کے لیے پلٹ گیا۔

‏”ٹھیک ہے۔“‏‏

‏”رکیے تو…“‏

‏”چائے بوتل تو پیتے جائیے … آپ نے کون سا روز روز آنا ہے۔“‏

‏”مرشد باﺅ!“‏

‏”ابھی میرے پاس وقت نہیں ہے۔“ مرشد ان کی آوازوں کو نظر انداز کرتا ہوا باہر نکل آیا۔

کچھ تشفی ہو گئی تھی کہ چلو اماں جہاں کہیں بھی گئی ہے‘ کم از کم اکیلی نہیں ہے۔ ساتھ ہی اسے کچھ کچھ شبہ ہونے لگا تھا کہ ہو نہ ہو‘ اماں حجاب کے چکر میں نکلی ہے اور عین ‏ممکن ہے کہ وہ نندی پور گئی ہو۔ دوپہر کا وقت تھا۔ بیٹھک پر واپس پہنچتے ہی مرشد نے ساون اور جعفر کو بھی اپنے کمرے میں بلالیا… کمرے میں دبیز قالین بچھا تھا۔ ایک ‏طرف عمدہ بستر لگا تھا اور گاﺅ تکیے رکھے تھے۔

‏”میرا خیال ہے اماں کسی دربار مزار پر نہیں بلکہ نندی پور گئی ہے۔“ مرشد نے بیٹھتے ہی کہا تو مراد فوراً چونکتے ہوئے بولا۔‏

‏”یعنی حجاب کے گاﺅں!“‏

اب کے چونکنے کی بار ی مرشد کی تھی۔ اس نے حیرت سے مراد کی طرف دیکھا۔

‏”تو حجاب کو کیسے جانتا ہے؟“‏

‏”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ میں کیا، آدھا محلہ جانتا ہے اسے، بس ایک تو ہی ہے جو بے خبر بنا ہوا ہے۔“‏

‏”کیا جانتا ہے آدھا محلہ اور کیسے جانتا ہے؟“ مرشد واقعی حیران رہ گیا تھا۔‏‏

‏”ہاشو خان کے کام ہیں۔“ ساون نے سنجیدگی سے کہا۔ ”ا س نے کہیں اپنی اس شادو ڈائن سے ذکر کیا تھا۔ وہ دو تین اور چڑیلوں کو ساتھ لے کر حجاب کو دیکھنے جا پہنچی اور واپس ‏آ کر ایک ایک کے کان میں ڈالی کہ واقعی میں لڑکی تو ایسی ہے کہ محلے پر قیامت ڈھا دے گی۔“‏

‏”اگر خالہ نندی پور گئی ہے تو یقینا اس کی وجہ یہ لڑکی ہی ہوگی ۔حجاب… مگر خالہ کو بھلا وہاں جانے کی کیا پڑی تھی ؟“ مراد کے اظہار خیال پر مرشد چند لمحے کچھ سوچتا رہا اور ‏پھر فیصلہ کن انداز میں بولا۔

‏”ایسا ہے کہ مراد یہیں رہے گا‘ اور ساون‘ جعفر تم لوگ فوراً نندی پور روانہ ہو جاﺅ۔ مجھے اماں کی طبیعت کی طرف سے پریشانی ہے ۔ چلنے پھرنے کی تو اس میں سکت نہیں اور ‏وہ کہاں نندی پور جا پہنچی ہے اور… پھر یہ بھی ہے کہ اگر وہ سچ میں ادھر ہی گئی ہے تو ہو سکتا ہے حجاب کے گھر گئی ہو۔“‏

مرشد کے ذہن میں جاگیردار اکبر علی کا خیال آیا۔

‏”اماں کو وہاں نہیں جانا چاہیے تھا… بہرحال تم لوگ فوراً روانہ ہو جاﺅ۔ اگر ضرورت پڑے تو مائی کے گھر فون کر لینا۔“‏

سبھی جانتے تھے کہ مائی سے مرشد کی مراد نزہت بیگم ہے۔ اس کے بعد مرشد اٹھ کھڑا ہوا۔

‏”میں ادھر ہی جا رہا ہوں… مراد تو یہیں بیٹھک پر رہ۔“‏

‏”ٹھیک ہے استاد! تم بے فکر ہو جاﺅ۔ ہم ابھی روانہ ہوجاتے ہیں۔ چل ساون آ جا۔“ جعفر نے پہلے مرشد سے کہا اور پھر ساون سے مخاطب ہوا۔ مرشد خاموشی سے باہر کی ‏طرف پلٹ گیا۔ ”اور ہاں… ایک بات اور…‘ ‘وہ واپس پلٹا تھا۔ ”تم لوگ صرف اماں کے لیے جا رہے ہو۔

ہمیں کسی دوسرے کے پھڈے میں ٹانگ نہیں اڑانی۔ البتہ جتنی جان کاری اس” پٹولے “کے متعلق مل سکے وہ لے لینا۔“‏

‏”ٹھیک ہے۔“‏

‏ پھر وہ تینوں اکٹھے ہی وہاں سے نکلے۔ رستے میں دو تین لڑکے بھی انہیں ملے جنہوں نے تاحال اماں کے نہ مل سکنے کی رپورٹ مرشد کے گوش گزاری۔ مرشد ان لوگوں سے ‏الگ ہو کر کوٹھے پر آ گیا۔ رستے میں کسی سے اس کاسامنا نہیں ہوا اور وہ سیدھا اماں کے کمرے تک چلا آیا۔ دروازے پر جھولتا پردہ ہٹاتے ہوئے بے دھڑک اندر داخل ‏ہو رہا تھا کہ اس کے ذہن میں اچانک خیال آیا کہ اسے دروازہ بجا کر اندر داخل ہونا چاہیے مگر صرف ایک ذرا ٹھٹکتے ہوئے وہ اندر داخل ہو گیا۔

پہلے تو اس کمرے میں صرف اس کی اماں ہوا کرتی تھی مگر اس وقت وہاں صرف ایک اجنبی اور غیر لڑکی موجود تھی۔ مرشد کواندازہ ہوا کہ آج سے پہلے … محلے کی کسی ‏عورت یا لڑکی کے حوالے سے اسے ایسا خیال نہیں آیا تھا… شاید اس لیے کہ وہ اس پورے محلے ہی کو اپنا کنبہ مانتا تھا یا پھر یہاں والیوں کو وہ عورتیں اور لڑکیاں ہی نہیں مانتا تھا۔ ‏پلنگ پر کوئی نہیں تھا۔ پلنگ کیا کمرے میں ہی کوئی نہیں تھا۔ کمرہ خالی تھا حجاب وہاں نہیں تھی…

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے