مرشد (عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر9

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی

Urdu Novel murshid by sahir, action love
Urdu Novel Murshid

حسن آرا کے کمرے میں اس وقت حجاب کے علاوہ فیروزہ اور فیروزہ کی ضعیف العمر نانی بے بے گوہر جان بھی موجود تھی۔حجاب پلنگ پر سکڑی سمٹی بیٹھی تھی جب کہ فیروزہ اور اس کی نانی پلنگ کے برابر فرش پر بچھے بستر پر حسن آرا کے قریب بیٹھی تھیں۔بے بے گوہر جان پلنگ سے کمر ٹکائے حسن آرا سے کچھ کہہ رہی تھی۔مرشد لوگ اندر داخل ہوئے تو وہ چاروں ان کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

”بس یہیں رکھ دو اور۔۔۔۔۔ جعفر! تم ذرا چاچے دین کے ذمے لگاﺅ،دودھ پتی کی چینک بھیج دے“ وہ دونوں سامان کے تھیلے رکھ کر خاموشی سے واپس پلٹ گئے۔

”سلام بے بے! کیسی ہے ت�±و؟“

”وعلیکم اسلام پ�±تر! بے بے نے کیسا ہونا ہے اب تیرے سامنے ہی ہوں“

مرشد نے اس کا گھٹنا چھوتے ہوئے سلام کیا تو بے بے نے اپنی دھندلائی ہوئی آنکھیں سکوڑ کراسے دیکھتے ہوئے اپنا سرد استخوانی ہاتھ اس کے سر پر پھیرا۔

”یہ تم نے اپنے منہ کا کیا حال بنا رکھا ہے؟“

”کیوں،کیا ہوا میرے منہ کو؟“ وہ وہیں ٹک کر بیٹھ گیا۔

”لوگ داڑھی کو سنبھال کر رکھتے ہیں تونے اسے مونچھوں کی جگہ ا�±گا لیا ہے۔اس میں تیری سانسیں نہیں پھنستی کیا؟“بے بے نے چہرے کی جھریوں میں تعجب سمیٹتے ہوئے پوپلے سے انداز میں کہا تو بے ساختہ ان سبھی کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔حجاب نے ایک ذرا ترچھی نگاہ اس کے چہرے پرڈالی اس کی مونچھوں کی طرف دیکھا، ”وہ“ اپنے اسی تفاخرانہ انداز میں اپنی جگہ موجود تھیں۔مرشد کے سرخ و سفید اور جوان

چہرے پروہ بل کھائی بھاری ، گھنیری اور سیاہ مونچھیں خوب صورت لگ رہی تھیںخوب جچ رہی تھیں۔

”آم کے جھاڑ پہ کدو نہیں لگتے بے بے! مونچھوں کی جگہ مونچھیں ہی اگتی ہیںاور یہ مونچھیں ہی ہیں۔“

”اچھا پھر میری نظر کچھ زیادہ ہی کمزور ہو گئی ہے حالاں کہ ابھی کل رات تک اچھی بھلی تھی“

”یہ سب کیا ہے؟“ حسن آرا نے سامان کے تھیلوں کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

”یہ یہ میں آپ کی اس لاڈو رانی کے لیے کچھ سامان لایا ہوں۔جوتے کپڑے اوراسی طرح کی کچھ چیزیں“ اس نے کپڑوں والا ایک تھیلا اپنے قریب گھسیٹ لیا۔ ”یہ کچھ کپڑے سلے سلائے ہیں“ اس نے سوٹ نکال کر وہیں درمیان میں ڈال دیئے۔

”سائز میں کم زیادہ ہو سکتے ہیںاس لیے کافی سارے لے آیا جو پورا آجائے“ اس نے دوسرا تھیلا گھسیٹ لیا۔

”یہ کچھ ان سلے سوٹ بھی ہیں “ اس نے وہ بھی نکال نکال کر رکھنا شروع کر دیئے۔ایک نظر حجاب کی صورت پر سمٹی متحیرانہ سی دل چسپی وہ دیکھ ہی چکا تھا۔

”کپڑا تو سبھی سوٹوں کا اچھا ہے“

”اور رنگ بھی اچھے ہیں سارے رنگ ہی سمیٹ لائے تم تو“ فیروزہ نے ایک کڑھائی والا سوٹ اٹھاتے ہوئے مرشد کی طرف دیکھا۔

”میں نے سوچا اماں کی مہمان کو ایسے خالم خولی تو نہ بھیجا جائے یہاں سے۔کچھ اور سامان بھی ہے۔وہ اس والے تھیلے میں جوتے چپلیں ہیں۔چھوٹے بڑے ہوں گے،جو پاﺅں میں پورے آجائیں۔“

”اور اس کے ساتھ والے تھیلے میں کیا ہے؟“ فیروزہ نے سوال کیا۔

”اس میںاس میں بھی کوئی چھوٹی موٹی چیزیں ہوں گیپراندے اور چوڑیاں وغیرہ۔“

”تم تو لگتا ہے پورا بازار ہی اٹھا لائے ہوذرا دیکھوںتو تمہاری لائی ہوئی چوڑیاں“ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر تھیلے تک جا پہنچی ۔ ”واہ جی یہ چوڑیاں تو سچ میں بہت خوبصورت ہیں“ وہ واپس اپنی جگہ پر آئی اور چوڑیاں نکال نکال کر دیکھنے لگی۔ سرخ ، سبز، گلابی ، نیلی ڈھیر ساری تھیں۔کچھ سیٹ تھے۔کچھ سادہ تھیں۔شیشے کے رنگ داراور منقش کنگن تھے۔یہاں بھی مرشد نے جیسے تمام رنگ اکٹھے کر لینے کی کوشش کی تھی۔

”اور یہ سنگھار کا سامان بھی ہے“ وہ تھیلے کی مزید تلاشی لے رہی تھی۔

”اچھا چل بس کر اب تھیلے کے اندر ہی نہ گھستی جا“

”کیوں کوئی دوسرا دیکھ بھی نہیں سکتا کیا؟“ مرشد کے ٹوکنے پر اس نے عجیب چبھتے ہوئے سے لہجے میں کہا۔حجاب نے بھی بے اختیار نظریں اٹھا کر اس کی صورت دیکھی۔فیروزہ کے جملے اور لہجے پر اس کا دل یوں دھڑکا تھاجیسے کمرے کی فضا میں کوئی راز سرسرایا ہو!

ابھی کچھ ہی دیر پہلے اسے جو خوش گوار سی حیرت محسوس ہوئی تھی وہ فوراََ ناپسندیدگی میں بدل گئی۔پتا نہیں کیوں اسے اچانک مرشد پر غصہ آیا تھا۔

مرشد حسن آرا سے مخاطب ہوا۔

”اماں! ساری چیزیں اچھے سے دیکھ لینا۔مجھے تو بس جو سمجھ آئی اٹھا لایاکوئی اور چیز یا ضرورت ہو تو بتا دینا مجھے۔“ آخری جملہ کہتے ہوئے اس نے ایک نظر ٍحجاب کی طرف دیکھا تھا۔

”تم نے روانہ کب ہونا ہے؟“

حسن آرا نے پوچھا۔مرشد کچھ کہنے والا تھا کہ اسی وقت اچھو کمرے میں داخل ہواتو وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔اس کے ہاتھ میں چینک اور پیالیاں دکھائی دے رہی تھیں۔

”ہاں بھئی، گھوڑے کی شکل والے گدھے! کدھر سے آرہا ہے تو؟“

”ادھرنیچے چاچے دین کے پاس ہی بیٹھا تھا سلام خالہ، سلام بے بے!“ وہ مرشد کے قریب آ کر پیروں کے بل بیٹھ گیا۔ ”چائے پینے گیا تھا کہ جعفر آ گیا۔ میں نے سوچا یہیں آپ کے ساتھ ہی پی لوں گا“

”تیری اماں لوگن دکھائی نہیں دے رہیں۔سب زندہ سلامت تو ہیں نا؟“

”چھوڑو بھی مرشد بھائی! آپ جانتے تو ہوکانٹے چبائے بیٹھی ہیں ادھر سے۔ ہر وقت ک�±ڑ ک�±ڑ،کڑکڑ“ اچھو کے کالے چہرے پربدمزگی پھیل گئی۔

”وے گِٹھ م�±ٹھیے!مجھے آدھی پیالی دینا بس“ بے بے نے جگالی سی کی۔ اچھو نے بے چارگی سے اس کی طرف دیکھا۔

”بے بے! تو بھی جگت بازی کرے گی اب“

”بے بے اب یہی کچھ تو کرتی ہے“ فیروزہ کی آواز پر مرشد نے اس کی طرف دیکھا۔وہ بائیں بازو میں درجن بھر چوڑیاں چڑھاکر ، بازو سامنے کئے ان کا جائزہ لے رہی تھی۔اگلے ہی پل بازو اس نے مرشد کے سامنے کر دیا۔

”دیکھوتو کیسی لگ رہی ہیں؟“

مرشد نے بے اختیار اس کے گورے چٹے بازو پرایک نظر ڈالی۔ہلکی گلابی چوڑیاں اس کی کلائی کی رنگت کے ساتھ بہت کھلی کھلی دکھائی دے رہی تھیں۔

”جیسی ہیں ،ویسی ہی۔“ مرشد کا لہجہ ہموار تھا اور مونچھوں پر خفیف سی مسکراہٹ،جسے فیروزہ مسلسل محسوس کر رہی تھی۔وہ غصہ ہر وقت جس کی ناک پر چمکتا رہتا تھا،آج وہ بالکل بدلا بدلا دکھائی دے رہا تھا۔

”یہ میں رکھ لوں؟“ اس نے گردن ایک طرف کو جھکاتے ہوئے لاڈلے سے انداز میں کہا۔وہ انداز جواب طلب نہیں تائید طلب تھا

”تیرے لیے لایا تو نہیں ہوں“

”اے فیری!“ بے بے اپنا ”سن“ ہوتاپہلو بدلتے ہوئے بولی۔ ”اس طرح کی حرکتیں نہیں کرتےاتار کے رکھ واپس تھیلے میں“

”یہ تو اب نہیں اترتیں۔“ فیروزہ نے فوراََ بازو پیچھے ہٹا لیا۔ ”جس کے لیے بھی لائے ہو، یہ والی تو میرے سائز کی ہیں،لہذا یہ اب میری ہو چکیں“

”اچھی لگ رہی ہیں۔دوسرے بازو میں بھی پہن لو“ حسن آرا نے مشفق انداز میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

”نکمی چھوکری! تحفے اس طرح نہیں وصولتے۔ناک رکھنی چاہیے۔ تو نے سنا نہیںشاعرنے کہا ہے۔

”مانگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذاب اچھا“

”یہ کوئی کھسکا ہوا شاعر ہو گا بے بے! مانگ کر چیز لینے میں بھی ایک اپنا ہی مزہ ہوتا ہے“ فیروزہ نے ایک پیالی اٹھا کر حسن آرا کو تھمائی اور دوسری خود اٹھا لی۔

”تم ”انہیں“ لے کر کب روانہ ہو رہے ہو؟“ حسن آرا نے سنجیدگی سے مرشد کو مخاطب کیا۔ اس کا اشارہ حجاب کی طرف تھا۔

”آج شام کو رستم لالا نے چوہدریوں کے ساتھ پنچائت رکھی ہے“ اس نے ایک پیالی اٹھا کر حجاب کو تھمائی اور دوسری خود اٹھا کرسنگھار میز کے اسٹول

پر جا بیٹھا۔ ”وہ ادھر سے ہو کر واپس آجائے، پھر دیکھتے ہیں“

اس کے اس بیان میں کوئی صداقت نہ تھی۔اس کا مقصد صرف اماں کے اس سوال کو ٹالنا تھا۔یہ جھوٹ بولنے پراس کے اندر کہیں ایک کھد بد سی تو ہوئی تھی، لیکن وہ اسے نظرانداز کرگیا۔اس کے نزدیک حجاب کو چند دن مزید یہاں روکے رکھنے میں کوئی قباحت نہ تھی۔

”زیادہ دیر مت کرو۔یہ ذمہ داری جتنی جلد نبھ جائے اچھا ہے“

”آپ فکر نہیں کریں اماں! جو ہونا تھا وہ ایک بار ہو چکا۔ اب ویسا کچھ نہیں ہو گا“ مرشد نے پیالی ہونٹوں سے لگا لی۔لاپرواہی تو اس کی طبیعت ومزاج کا حصہ تھی۔لیکن اس وقت اس کے لہجے اور چہرے میں حسن آرا کوکچھ اور بھی محسوس ہوا تھا۔

”پھر بھی ان کا زیادہ دیر یہاں رہنا ویسے ہی ٹھیک نہیں۔یہ جگہ ان کے رہنے کی نہیں ہے۔“

”آپ نہ ایسے بے وجہ پریشان ہوں۔میں رات کو رستم لالا سے بات کرتا ہوں۔اس کے بعد پھر کرتے ہیں تیاری“

”تیری اماں ٹھیک کہہ رہی مرشد پتر!بے بے نے رخ اس کی طرف پھیرا۔ ”یہ کسی نیک اور شریف گھرانے کی بچی ہے۔اس کا ہمارے یہاں اس جگہ رہنا، اس بے چاری کے حق میں بہت برا ثابت ہو سکتا ہے۔یہ علاقہ اب صرف غلاظت اور گالی ہے۔ یہاں کا تو اس بچی پر سایہ بھی نہیں پڑنا چاہیے تھا۔اب اگر ایک نیکی کا بیڑہ اٹھا ہی چکے ہو،اتنا کھڑاگ بھی پال لیا ہے تو اب دیر نہ کرو۔“

”سایہ تو جو پڑنا تھا وہ پڑ چکا بے بے! اب مزید دو چار دن میں کوئی پہاڑ نہیں گر پڑے گا،باقی بستے تو یہاں بھی انسان ہی ہیں“ مرشد کو اپنے رگ و پے میں وہی تلخی بے دار ہوتی محسوس ہوئی جو اس کے ساتھ ہی پروان چڑھی تھی۔

”اب انسان کہاں پتر!اب تو یہاںبس لاشیں رہتی ہیں“

بے بے نے اپنا پوپلا منہ کھول کر ایک آہ بھری۔ ”زندہ لاشوں کا بازار ہے یہ اور مردار خوروں کے لیے ضیافت گاہ انسانوں والا دور تو کب کا گزر چکا خواب ہو چکا“ بے بے کے چہرے اور لب و لہجے میں اچانک ایک یاسیت سمٹ آئی۔ شاید اسے اپنے ماضی کا کوئی دل فریب دور یاد آ گیا تھا۔اپنے دور میں تو وہ جو کچھ بھی اور جیسی بھی رہی ہو، اس وقت صرف چچوڑی ہوئی ہڈیوں کی ایک مٹھی دکھائی دیتی تھی۔اس کی سیاہ کھال یوں تھی جیسے ہڈیوں پر مڑ دی گئی ہو۔

”ویسے بے بے! اس وقت تیری عمر کیا ہو گی؟“ مرشد نے محض بات بدلنے کی غرض سے سوال اٹھایا تھا۔

”میری عمر میری عمر کا تو اس سے اندازہ لگا لے پتر! کہ جب پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تھی اس وقت میں سترہ اٹھارہ برس کی تھی۔ اسّی پچاسی برس تو کھائے بیٹھی ہوں اور سچ پوچھو تو قت بھی بس وہی تھا۔ یہ بازار ، جسے آج لاہور کے ماتھے کا بدنما داغ تصور کیا جاتا ہے۔ اس دور میں اسے لاہور کے ماتھے کا جھومر مانا جاتا تھا ان گلیوں ، بازاروں ،دیواروں اور مکانوں کی صفائی ستھرائی دیکھنے سے تعلق رکھا کرتی تھی۔فن اور فنکار کی عزت و قدر باقی تھی۔یہاں کی فضاﺅں میں زبان کا ذائقہ اور تہذیب کی خوشبو ہوا کرتی تھی۔ان چوباروں پر آنے والے بھی کچھ معیار رکھتے تھے اور یہاں کی طوائفیں بھی اپنے کچھ اصول اور اپنا کچھ وقار رکھتی تھیں۔ اب تو بالکل ہی جھاڑو پھر چکا“

حسن آراکپڑے واپس تھیلے میں ڈال رہی تھی۔اچھو نے خالی پیالی رکھی اور آنکھوں ہی آنکھوں اجازت لیتا اٹھ کر باہر نکل گیا۔ حجاب بدستور خاموش بیٹھی تھی۔

”بازار بے بے کے ساتھ ہی بوڑھا ہوا ہے۔ بے بے نے اصل عروج دیکھا ہوا ہے یہاں کا“ فیروزہ نے کہا تو بے بے نے فوراََ اپنا سوکھا سڑا ہاتھ

لہرا کر اسے ٹوکا۔

”اے نہیں ری اصل عروج کی بات نہ کر یہاں کے اصل عروج کے مقابلے میں تو میں نے بھی ایک طرح سے زوال ہی کا دور دیکھا ہے۔ہاں یہ ہے کہ تقسیم ہند تک روایات باقی تھیں۔رقص و موسیقی کے قدر دان، کن رسیا باقی تھے۔ گویّوں، مغنیوں اور رقاصاﺅں کی کچھ عزت باقی تھی“

”اور یہ سلسلہ یہاں کب سے چلتا آرہا ہے؟کس دور میں یہ سب شروع ہوا تھا بھلا؟“

” اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔کہتے ہیں کہ بازارِ حسن، بوڑھے راوی کا ہم عمر ہے ،البتہ مغلوں کے دورِ حکومت میںیہاں کی طوائفی ثقافت اپنے بام عروج تک پہنچی۔ ہندوستان میں اپنی سلطنت جماتے ہی انہوں نے اپنے لیے عیش و نشاط کا انتظام کیا تھا۔ ان کے عشرت کدوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔میری بے بے بتایا کرتی تھی کہ1857میں ادھر دہلی پر جو قیامت ٹوٹی اس نے پرانی ثقافت کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دیں۔جن کے ہاں شاہی دستر خوان بچھتے تھے، ان پر روٹی روزی تنگ ہو گئی۔ جن کے ہاتھ ہمیشہ دیتے آئے تھے ان کے دامن کشکول ہو گئے۔خاندانی شرافت راہ کا پتھر ہو گئی۔تہذیب اور لاج مذاق بن گئی۔ہر چیز اپنا رنگ بدلتی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ انقلاب برپا ہوا کہ شاہ ِعالم کی بیٹیاں تن ڈھانپنے کے لیے چیتھڑے ڈھونڈتی پھرتی تھیں۔معاشرہ ہی تلپٹ ہوتا چلا گیاجن طوائفوں کے ہاں شرفاءکے بچے آدابِ مجلس سیکھتے تھے، وہ شمع راہ گزر ہوگئیںیوں اٹھتی گئیں کہ حقیقی طوائف کا تصور ہی بگڑ کر رہ گیا۔گوشت فروش بازاریوں میں انہی دنوں اضافہ شروع ہو۔غدر کے ان ہنگاموںکے ختم ہو چکنے کے بعد نوابوں، مہاراجوں اور جاگیرداروں نے پھر سے طوائفیت کو فروغ دیا۔بے بے بتاتی تھی کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میںلاہو ر شہر کے آدھے سے زیادہ حصے میں طوائفیں آباد تھیں۔نئی اور پرانی انار کلی میں بھی پہلے طوائفیں ہی بیٹھتی تھیں۔بعد میں انہیں یہاں ہیرا منڈی منتقل کر دیا گیا۔“

اسی وقت چائے والا بچہ برتن اٹھانے چلا آیا۔حسن آرا کپڑے وغیرہ سمیٹ کر باتھ روم کی طرف چلی گئی۔ فیروزہ اپنی لو دیتی نظریں مرشد کے چہرے پر جمائے بیٹھی تھی۔اس کا بھی بس نہیں چلتا تھا نہ مرشد پر اور نہ خود پر۔ حجاب تھی تو وہ بس چپ چاپ بیٹھی سب سن رہی تھی وہ اپنی جگہ مجبور تھی۔بے بے اپنی دھن میں بہتی جا رہی تھی۔

”اس انڈیا پاکستان کے بٹوارے نے طوائفیت کو مزید محدود کر دیا۔پھر پہلے تو ایوب خان کے اس چہیتے گورنر نے وہ کیا نام تھا اس کا“

بے بے نے فیروزہ کی ران پر ہاتھ مارا۔ ”ہاںنواب آف کالا باغ، ملک امیر محمد نے ایک آرڈی نینس کے ذریعے چم فروشی پر پابندی اٹھائی اور اس کے بعد رہی سہی کسر بھٹو صاحب نے پوری کر دیابھی چند سال پہلے ہی کی تو بات ہے۔کیسے پولیس کی نفری ادھر ٹوٹ پڑی تھی!“

بے بے نے ایک گہری سانس لی اور ٹانگ فیروزہ کے سامنے پھیلا دی۔ ”اے! دیکھ ذرا اسے۔سو گئی ہے کم بخت“

فیروزہ اس کی مٹھیاں بھرنے لگی تو وہ مزید گویا ہوئی۔

”تم لوگوں نے تو ٹھیک سے کچھ دیکھا ہی نہیں۔تمہاری ماﺅں نے اس ثقافت کے زوال کا آخری دور دیکھا ہے آخری ہچکی سنی ہے

پہلے مجرا، مجرے سے ٹائم لگانا ہوا اور اب آفس لگانا،دفتر سجانا ہو گیا ہے۔خاندانی کنچن رہے نہیں،لوگ فن سے زیادہ فنکار کے ماس ،چم میں دل چسپی لینے لگے ہیں۔پہلے سمعی و بصری تفریح صرف ہمارے دم کرم سے تھی، پھر ریڈیو اور سینیما آیا اور اب اب یہ شیطانی ڈبہ ٹی وی جس نے دو فلمی گیت گا لیے وہ مغنّیوں کی سرخیل ہو گئی، جس نے کولہے مٹکا لیے وہ رقاصہ اب تو بس واہیاتی ، بے ہودگی ، اور بازاری پن کا دور اور زور ہے

 س�±چل چیزیں تو مر کھپ گئیں، کچھ گھروں کو اٹھ گئیں اور جو دو چار دانے بچے، وہ میرے حال کو ہیں صبح ہوں ، نہ ہوں“

بے بے کی آواز میں کچھ مزید اداسی گھل آئی۔چہرہ کچھ مزید بجھ گیا۔ اس کی زندگی کی بہاریں کب کی گزر چکی تھیں۔ اب تو بس دم واپسیں تھا اور بے بے کو بھی اس دل دوز حقیقت کا پوری طرح احساس تھا۔اس کے حافظے کی بجھی راکھ میں ماضی کے چمکتے دنوں کی یادیں ادھ بجھی چنگاریوں ہی کی طرح جھلملاتی تھیں اباور شاید اس مٹھی بھر ہڈیوں کے پنجر میں ہر چیز سے زیادہ قیمتی شئے یہی جھلملاہٹ تھی،جو بے بے کو اس کے زندہ ہونے کا احساس دلاتی رہتی تھی۔

فیروزہ اس کی ٹانگ دبا رہی تھی۔مرشد نے حجاب کی طرف دیکھا، وہ گود میں پڑے دوپٹے کی لیس کو ناخن سے کھرچ رہی تھی، چھیڑ رہی تھی۔

دل نے جیسے اچانک اچھل کر مرشد کے پہلو کو اندر سے ایک گدگدی کی اور مسکراہٹ اس کی مونچھوں کے اوپر تک چلی آئی حجاب کا تو خیال اور تصور بھی اس کو راحت اور خوشی کا احساس دلاتا تھا۔اس وقت تو وہ ویسے ہی اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے ابھی تک حجاب کو مخاطب نہیں کیا تھا۔اس سے بات نہیں کی تھی۔یوں اپنے تئیں اس نے اپنی قلبی بے قراریوں پر قابو پا رکھا تھااپنے اندر کی بغاوت اور جذبوں کی شوریدہ سری کو سینے ہی میں دبا ، چھپا رکھا تھا،لیکن وہ اندازہ نہیں کر سکا کہ اس کی مسکراہٹ، چہرے کے رنگ اور آنکھوں کی چمک سارا راز فاش کیئے دے رہی ہے!                                                                                                            

فیروزہ کچھ کچھ اندازہ تو پہلے ہی کر چکی تھی۔ان لمحوں اس نے مرشد کی نظر نوازی اور مسکراہٹوں کو تاڑ بھی لیا۔ شاید کچھ ایسی ہی نشانیاں ، ایسی ہی علامات ہوتی ہیں جو عشق کے معاملے میں ”مشک“ کا کردار ادا کرتی ہیں۔

اگلے دو روز میں اس کے قریبی جاننے والوں میں سے تقریباََ سبھی نے اس ”مشک“ کو سونگھ لیا۔ساون اور مراد نے اس سے تصدیق چاہی تھی لیکن مرشد نے فوراََ انکار کر دیا تھا۔یہ الگ بات کہ ان دونوں کو اس کا وہ مسکراتا ہوا انکار، انکار کم اور اقرار زیادہ محسوس ہوا تھا۔دونوں کو بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ” یار جی کو دل والی لگ گئی ہے“ باری باری باقی سب کو بھی اندازہ ہوتا چلا گیا۔اس کی خوش مزاجی ہی مشکوک کر دینے والی چیز بن گئی تھی۔ جب اس کے دوست ساتھی خود بہ خود سمجھ گئے تھے تو حسن آرا تو پھر اس کی ماں تھی وہ ہستی جو بغیر دیکھے سنے بھی اپنی اولاد کی ہر غمی خوشی کو جان لیتی ہے،سمجھ لیتی ہے۔حسن آرا بھی جان گئی تھی۔جس پل اس پر مرشد کے جذبات و احساسات کے حوالے سے انکشاف ہوا، وہ سن ہو کر رہ گئی تھی۔دماغ نے کچھ دیر کے لیے مکمل طور پر خاموشی اختیار کر لی تھی۔

مرشد پہلی بار کسی لڑکی کی ذات میں دل چسپی لے رہا تھا،لیکن جس لڑکی میں وہ دل چسپی لے رہا تھا، اس کے متعلق یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ ایک نجیب الطرفین سید زادی ہے___ _اگر جانتا ہوتا توشاید اس کے اندر ایسے جذبات سر ہی نہ اٹھاتےایسا کوئی خیال جنم ہی نہ لیتا

 اور کچھ ہو نہ ہو، تمام کسبیاں، طوائفیں اورپکے بدمعاش لوگ پیروں، فقیروںاور اولیا اللہ کا تو از حد احترام کرتے ہیں۔ ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ خود کو اللہ کی نیک اور برگزیدہ ہستیوں کے نام کا غلام، حتٰی کہ خود کو ان کے در کا کتا تک شمار کرتے ہیں،حسن آرا اور خود مرشد بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے تھے،جب کہ حجاب کا تعلق اس گھرانے سے تھا، جس گھرانے سے ولیوں کو ولایت حاصل ہوئی۔اس کے اجداد نے شریعت کی وراثت نبھائی تھی اور وہ خود ولایت کے وارثوں میں سے تھی۔حسن آرا کے نزدیک وہ بہت عالی مرتبت تھی۔ ہر صورت قابلِ تعظیم و تکریم تھی۔مرشد کو اس کی طرف دیکھنا تو در کنار ، اس کے متعلق سوچنا بھی عزت و ادب کے ساتھ چاہیے تھا۔جب کہ معاملہ کچھ اور رنگ اختیار کر نے کو تھا۔اسی باعث حسن آرا ایک بار تو سن ہو کر رہ گئی تھی ۔شام کو مرشد نے چکر لگایا تو حسن آرا حتمی فیصلہ کیے بیٹھی تھی۔

”دو دن تمہارے پاس صرف دو دن ہیں۔جو رپھڑ بھگتانا ہے بھگتا لو، تیسرے روز اگر تم انہیں لے کر یہاں سے روانہ نہیں ہوئے تو میں خود ان کو

لے کر بلوچستان کے لیے نکل جاﺅں گی“ اس نے مرشد کی کوئی بھی بات سننا تک گوارا نہیں کیا تھا۔

”تیسرے دن ہر صورت تمہیں یہ ذمہ داری نبھانی ہے۔ چاہے طوفان آئے یا بھونچال، میں کچھ نہیں جانتی اور مزید میں کچھ کہنا سننا بھی نہیں چاہتی“ اس کے خشک اور دو ٹوک انداز پر مرشد ہونٹ بھینچ کر واپس پلٹ گیا۔

اس کو اپنا فیصلہ اور حکم سنا کر حسن آرا مطمئن ہو گئی۔جانتی تھی کہ اس کے ان تیوروں کے بعد مرشد ہر صورت اس کا حکم بجا لائے گا۔وہ خود تو مطمئن ہو گئی تھی لیکن مرشد کے اطمینان کے سامنے ایک سوالیہ نشان آکھڑا ہوا تھا۔

یہ بات تو طے تھی کہ حجاب نے ہمیشہ وہاں نہیں رہنامرشد نے اسے اس کی منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی لے رکھی تھی،ہاں یہ الگ بات ہے کہ فی الحال اس نے اس بارے میں نہ تو سنجیدگی سے کچھ سوچا تھا اور نہ ہی اس حوالے سے ابھی تک کوئی پروگرام ترتیب دیا تھا۔اس کا ارادہ تو یہ تھا کہ حجاب کو چند دن مزید یونہی مہمان بنا کر یہیں ٹھہرائے رکھا جائے۔اس کی یہاں موجودگی کی بدولت زندگی کے جس نئے پہلو سے آشنائی ہوئی ہے،اسے چند دن مزید چکھ لیا جائے جی لیا جائے لیکن اب اچانک اماں نے اس نئی زندگی کے وہ چند دن بھی مختصر کر دیئے تھے۔ایک حد، ایک وقت طے کر دیا تھا اور وہ بھی محض دو دن

وہ واپس بیٹھک پر پہنچا تو اس کے موڈ کی تبدیلی کو سبھی نے محسوس کیا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سب کے ساتھ چبوترے پر بیٹھا رہا،لیکن اس دوران اس کی بے چینی میں کچھ مزید اضافہ ہو گیا۔وہ چبوترے سے اٹھا اور چھت پر پہنچ گیا۔ہوا ساکت تھی،ارد گرد کے سبھی کوٹھوں اور مکانوں کی لائٹیں روشن تھیں۔کہیں کہیں سے سارنگی اور طبلے کی آواز ابھر رہی تھی۔یقیناسبھی کوٹھوں پر محفلوں کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ موسیقی کے آلات ترتیب دیئے جا رہے تھے۔انہیں ٹھونک بجا کر ان کے لہرے اور تیور جانچے پرکھے جا رہے تھے۔ فاصلے سے گزرتی گاڑیوں اور ان کے ہارنزکی آوازیں بھی ڈوب ابھر رہی تھیں۔ چھت کی چار دیواری کے ایک کونے میں کچھ کاٹھ کباڑ پڑا تھا۔ددسرے کونے میں کبوتروں کا ایک درمیانے سائز کا دڑبہ تھا۔ چھت کے وسط میں دو چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں اور ان چارپائیوں کے درمیان میں لکڑی کا ایک پانچ فٹ کا بینچ پڑا تھا، جس پر کچھ برتن دھرے تھے۔ایک جگ گلاس، دو تین چائے والے گندے کپ، ایک چھابی اور اس میں المونیم کا ایک ان دھلا کٹورا۔ وہ آگے بڑھ کر ایک چارپائی پر جا بیٹھا۔دو دن بعد اس نے حجاب کو ساتھ لے کر بلوچستان کے لیے روانہ ہونا تھا اور پھر اسے ہمیشہ کے لیے وہاں چھوڑ کر واپس لوٹ آنا تھا۔اس خیال کے ساتھ ہی دل میں ایک ٹیس سی چبھتی، سانس سینے میں اٹکتی ہوئی محسوس ہوتی۔ اس کے اطمینان اور خوش مزاجی کو ایک بے چینی، ایک اضطراب نے آلپیٹا تھا۔ پہلی بارایسا ہو رہا تھا کہ اماں کا حکم اس کے لیے بے سکونی اورپریشانی کا باعث بن رہا تھا۔

وہ وہاں بیٹھا اپنی جذباتی ایڈجسٹمنٹ میں مصروف تھا کہ ساون اوپر چلا آیا۔

”جی ہاں…کون سی گتھی سلجھائی جارہی ہے یہاں بیٹھ کر؟“وہ سامنے والی چار پائی پر آبیٹھا۔

”ساون میں نے حجاب کی اماں اور بھائی کا ذکر کیاتھا کہ وہ کہیں روپوش ہیں؟“ مرشد ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوا۔

”تو؟“

”تو…یہ کہ ان دونوں کا کھوج کھرا نکالنا ہے؟“

”کہاں سے؟“

”جہاں سے اور جیسے بھی ہوسکے…اس کے بھائی اسرار اور اسرار کے باقی یاروں سجنوں کے بارے میں جیدے سے معلومات مل جائیں گی۔ رہی

بات اس کی اماں کی تو ہوسکتا ہے کہ وہ تاحال گاﺅں ہی میں کہیں روپوش ہو اور اگر گاﺅں سے کہیں باہر کہیں دور ہے تو اس بارے میں بھی گاﺅں ہی سے کوئی کھرا مل سکتا ہے۔“

”ٹھیک ہے اسرار پر صبح ہی کام شروع کراتا ہوںالبتہ گاﺅں کے لیے ایک دو دن لگیں گے۔ کوئی تعلق کوئی رستہ نکالتے ہیں کھوج کھرا بھی مل ہی جائے گا، پھر اس کے بعد؟“

”اس کے بعد مجھے ان کی ضرورت پڑے گی۔“مرشد نے سنجیدگی سے کہا۔ ساون نے کندھے اچکا دیئے۔

”ٹھیک ہے سمجھ گیا۔ کرتے ہیں کوشش۔“چند لمحے مرشد کی سنجیدہ صورت دیکھتے رہنے کے بعد وہ پھربولا۔

”اور کچھ ؟“

”اور یہ کہ دو دن بعد میں حجاب کے ساتھ بلوچستان جارہا ہوں۔ اسے اس کی پھوپھی کے ہاں چھوڑنے۔پیچھے دو دن اماں کی خیر خیریت کی ذمہ داری تیری ہوگی۔“ ساون اس اطلاع پر چونک پڑا۔مرشد کے خراب موڈ کی وجہ فوراً ہی اس کی سمجھ میں آگئی تھی گو کہ مرشد نے ابھی تک حجاب کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیاتھا۔ اپنی زبان سے کچھ بھی تسلیم نہیں کیا تھا لیکن گزشتہ چند دن میں اس کے طور اطوار چیخ چیخ کر سب کو سمجھا بتا چکے تھے کہ وہ گردن گردن اس لڑکی حجاب کی محبت میں دھنس چکاہے ہر ہر لمحہ وہ اس کے عشق کے خمار میں مہکتا رہا تھا۔ مسکراتا رہا تھا۔ وہ مہک، وہ مسکراہٹ سبھی سونگھتے دیکھتے رہے تھے۔

”یہ دو دن بعد جانا ضروری ہے کیا؟“کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ساون نے استفسار کیا۔

”ہاں !میں نے اسے وہاں تک پہنچانے کا وعدہ کررکھا ہے اس سے۔“

”تو کیا ہوا…وعدہ کچھ دن بعد نبھا لینا۔ ابھی کچھ دن اسے یہاں آرام کرنے دو۔ اس کے دشمن بھی مکمل طورپر خاموش ہیں۔ چند دن مزید ان کے ردعمل کا انتظار کرلیا جائے تو بہترہوگا۔“

”چند دن بعد بھی تو یہی کرنا ہے۔ پھر چند دن کا انتظار کیوں؟“مرشد کا لہجہ گمبھیر ہوگیا۔ وہ جیسے ساون کو جواب نہیں ،خود کو جواز دے رہا تھا۔ قائل کررہا تھا خود کو۔

” نظر آرہا ہے کہ تمہیں اس سفر کے لیے ذہنی طورپر تیار ہونے میں کچھ دن لگیں گے۔“ساون کی اس خیال آرائی پر مرشد نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی اور ہلکے سے مسکرا دیا۔

”اماں کا آرڈرہے ساون! دو دن… مجھے ہر صورت نکلناہوگا۔“اماں کا ذکر آتے ہی ساون کو چپ لگ گئی۔

دوسرے روز صبح صبح اس کی ملاقات لالا رستم سے ہوئی۔ وہ خود ہی بیٹھک پر آیا تھا۔ ایسے ہی دس پندرہ منٹ کے لیے۔ اسی سے مرشد کو معلوم ہوا کہ وہ باری باری رانا سرفراز اور چوہدری اکبر علی کو مل چکا ہے۔ کچھ بار سوخ شخصیات کو ملوث کرکے لالا نے ان دونوں کے ساتھ جس طرح معاملات طے کیے تھے۔ اس سے لالا کو کافی حد تک اس بات کا اعتبار تھا کہ اب ان میں سے کوئی براہ راست تو مرشد سے نہیں الجھے گا۔ ساتھ ہی اسے یہ اندیشہ بھی تھا کہ وہ دونوں کمینہ خصلت انسان ہیں۔ اس لیے پس پردہ رہتے ہوئے نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔وہ مرشد کو یہی مشورہ دینے آیا تھا کہ وہ فی الوقت محتاط رہے۔ مرشد پہلے ہی محتاط تھا۔ پسٹل ہر وقت اس کی ڈب میں رہتا تھا۔ آٹھ دس مسلح افراد ہر وقت ادھر ادھر موجود رہتے تھے۔ جعفر اور دلشاد مستقل طورپر مکان کے دالان میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ سب اپنی اپنی جگہ محتاط اور چوکنے رہ کر ہی وقت گزار رہے تھے۔ کل شام تک

وقت گزرتا بھی بہت اچھے سے رہا تھا۔ لیکن اب …اب وقت گزارنا مرشد کے لیے تو دوبھرہوچکا تھا۔ اس نے اماں کے حکم پر سر تسلیم خم کرلیا تھا۔ روانہ ہونے کے لیے ذہنی طورپر تیار بھی ہوگیاتھا لیکن ساتھ ہی اس کے رگ و پے میں ایک شدید اضطراب کھول اٹھا تھا۔ اس کے پاس پرسوں صبح تک کا وقت تھا اور جیسے جیسے وقت سرکتا گیا۔ مرشد کے اس اضطراب میں مزید شدت آتی گئی۔ کوئی تھا جو اس کے اندر اس کی روانگی کے فیصلے سے اختلاف برت رہا تھااس دو دن والے پروگرام کے خلاف احتجاج کررہا تھا۔ اماں نے جس دو ٹوک اور حتمی لہجے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا اس کے بعد مرشدمزید کسی بات کی گنجائش نہیں سمجھتا تھا۔ اسے کچھ کچھ یہ شبہ بھی تھا کہ ہونہ ہو دوسرے دوست ساتھیوں کی طرح اماں کو بھی اس کی جذباتی حالت کا اندازہ ہوگیا ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ یہ سلسلہ مزید طوالت اختیار کرے،لہٰذااب وہ فوری طورپر حجاب کو اس کے وارثوں تک پہنچا دینا چاہتی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ اماں کا یہ فیصلہ ،یہ حکم کوئی ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ اب نہیں تو چند دن بعد وہ خود بھی ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا مگر اس کا دل سمجھنے کوتیارنہیں تھا کچھ بھی سمجھنے کو تیارنہیں تھا۔

اگلے روز شام تک مرشد صحیح معنوں میں اس مصرعے کی تفسیر جی چکا تھا۔

’الٹی پڑ گئی سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا۔“

حجاب اور اس سے ہمیشہ کے لیے جدائی کے خیال کو وہ لمحہ بھر کے لیے بھی نظر انداز نہیں کرپایاتھا۔ کل شام کے بعد سے وہ دوبارہ اماں کی طرف بھی نہیں گیا تھا، حالانکہ اس کے اندر ایک بھونچال کی کیفیت تھی۔ اس کا دل باربار چیختا رہا تھا کہ جاکے صاف صاف حجاب اور اماں دونوں سے کہہ دے کہ وہ اسے کہیں چھوڑنے نہیں جائے گا۔ نہ ہی اسے کہیں جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ہر اچھے برے نفع نقصان اور دکھ سکھ کی ذمہ داری میں لیتا ہوں ہمیشہ کی بنیادوںپر ہر دم،ہر قدم خیال رکھوں گا۔ کہیں جانے کی بجائے یہ بس یہیں رہ جائے پورے مان اعتماد اور یقین و بھروسے کے ساتھ…مستقل بنیادوں پر۔“

ایسا کر گزرنے کی شدید خواہش کے باوجود اس نے خود پر قابو رکھا تھا۔ نہیں گیا تھا اماں کی طرف ،اور آج بھی اس کا ادھر جانے کا ارادہ نہیں تھا کہ مبادا جذبات کی اس یورش میں بے خود ہو کر ایسی کوئی بے ہودہ گوئی کرہی نہ گزرے۔

اگلے روز ان سب کے زخموں سے ٹانکے کھل گئے۔ حجاب کے سر سے بھی اور مرشد کے سینے سے بھی، مگر مرشد کے اس زخم میں ایک جلن سی بیدار ہوآئی تھی۔ دل کے قریب سینے کے جس حصے پر وہ زخم موجود تھا،وہاں صبح سے ایک آنچ اندر اس کے سینے میں اتر رہی تھی، لمحہ بہ لمحہ اس کے سینے میں ایک حبس کا احساس جگا رہی تھی۔

وہ رات مرشد نے چھت پر بیٹھ کر اکیلے شراب پیتے ہوئے گزاری۔ ساون اور مراد لوگوں نے اس کی تنہائی میں مخل ہونا چاہا تو مرشد نے انہیں واپس نیچے بھیج دیا۔ساری رات شراب نوشی کے بعد وہ اگلے روز دن چڑھے بے سدھ ہو کر بے ہوشی جیسی نیند سوگیا۔ وہ جو جاگتے میں ہر پل دکھائی دیتی تھی بے ہوشی جیسی نیند میںبھی رہ رہ کر اپنی جھلک دکھاتی رہیاماں کے کمرے میں جائے نماز پربیٹھی تھی کہ اچانک کھیتوں کی ایک پگڈنڈی پر بے سدھ پڑی دکھائی دی۔ مرشد نے جھک کر اس کے ر یشم جیسے وجود کو بازوﺅں میں اٹھایا ہی تھا کہ وہ دوبارہ سے اماں کے کمرے میں دکھائی دی ڈری سہمی وحشت زدہ، آنکھوں میںخوف کا ایک جہان لیے۔ اس کی بائیں آنکھ کے قریب ایک نیلگوں نشان تھا اور اس کے انگور جیسے ہونٹوں کا ایک گوشہ بھی ورم زدہ تھا اس کی اس ہیت و حالت پرگہری نیند میں بھی اس نے اپنے دل میں دکھ کی لہر سی اترتی محسوس کی وہ اس کے سرکا زخم صاف کررہی تھی اس کا ہاتھ تھامے دوڑ رہی تھی اس کا سر اور چہرہ خون میں لت پت تھا اور مرشد اسے بازوﺅں میں اٹھائے اماں کے

کمرے میں داخل ہورہا تھا وہ چہرے کے گرد دوپٹہ لپیٹے بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھی۔ اپنی شفاف چمک دار آنکھوں میں نمی لیے اسے تک رہی تھی وہ ایک آنسو تھا۔ اس کی پلکوں سے ٹوٹنے والا موتی،جو اس کے گال پر روشنی نچھاور کرتا ہوا اس کی خوب صورت ٹھوڑی کی طرف اترگیاتھا۔

اس روز اس نے کوئی نماز بھی نہیں پڑھی۔ عصر کے بعد بیدار ہوا اور یونہی اٹھ کر باہر نکل گیا۔بہت دیرتک یونہی بے مقصد ادھر ادھر پھرتا رہا۔ اندر کی بے چینی اور اضطراب کوفریب دینے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ مغرب کے بعد واپس پلٹا اور پھر سے شراب کی بوتل اٹھا کر چھت پر جاپہنچا۔

اس کے ساتھی کل سے اس کی یہ حالت دیکھ رہے تھے لیکن چونکہ مزاج آشنا تھے، تیور سمجھتے تھے اس لیے سبھی محتاط تھے۔حسن آرا کے دیئے گئے وقت کے مطابق صرف کل صبح تک کا وقت باقی تھا۔ کل انہیں ادھر سے روانہ ہونا تھا۔یعنی حجاب کی آج یہاں آخری رات تھی۔اس کے بعد اسے دوبارہ پھر کبھی بھی یہاں نہیں ہونا تھا۔آج کے بعد یہاں کی فضا نے اس کی سانسوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجانا تھا۔ آگے آنے والی کوئی بھی رات آج سی نہیں رہنی تھی۔ ہر آنے والی رات میں ایک کمی ایک ادھورا پن رہنا تھا…ہمیشہ

وہ چھت پر بیٹھا گھونٹ گھونٹ آتشیں سیال اپنے حلق میں انڈیلتا رہا۔ عشاءکی اذانیں ہو گزریں۔ وہ وہیں بیٹھا رہا۔ ارد گرد معمول کی آوازیں بے دار ہونا شروع ہوگئیں۔ حجاب کا خیال دھندلایا نہ شراب نے ڈھنگ سے اپنا اثر دکھایا۔

حجاب کو پہلی بار اماں کے کمرے میں جائے نماز پر بیٹھا ہوا دیکھنے کے بعد روز بہ روز وہ اس کے اعصاب پرحاوی ہوتی چلی گئی تھی۔ کچھ نئے اور منہ زور جذبات بتدریج نمودارہوئے تھے اور مرشد نے ان کے سامنے چند دن کی شدید مزاحمت کے بعد پوری دیانت داری سے ان کی ناقابل تسخیر قوت کو تسلیم کرتے ہوئے سر تسلیم خم کردیاتھا، پھر جووقت ان کا دھوپ سڑی کی ہنگامہ خیزیوں میں گزرا، اس نے مرشد کے سینے میں اس معصوم اور من موہنی لڑکی کے لیے اپنائیت کا ایک سمندر بیدار کردیا۔ وہ اس کے لیے اس قدر اپنائیت محسوس کرنے لگاتھا کہ اب وہ اسے اپنے ہی وجود کا ایک حصہ محسوس ہونے لگی تھی۔ چند روز کی ادھوری واقفیت کے پس پردہ صدیوں کی آشنائی محسوس ہوتی تھی۔ ایک ایسی پراسرار آشنائی جس نے آشکار ہوتے ہی ایک سحر پھونک دیاتھا۔ محلے کے مکانوں چوباروں اورجھروکوں پر اترنے والی سورج کی روشنی کچھ اور چمک دار اور نکھری نکھری دکھائی دینے لگی تھی۔ گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے لوگ کچھ اور زندہ اورجان دار ہوگئے تھے۔ ہواﺅںکے لمس میں بھی ایک بھرپور آشنائی گھل آئی تھی۔ فضا ایک خوشبو میں ڈھل گئی تھی۔ ہر آواز میںایک موسیقی، ایک دلکشی تھی۔ وہ اپنی رگوں میں دوڑتے لہو کے ارتعاش سے پھوٹتے خمار کو محسوس کرنے لگاتھا۔ آسمان کچھ مزید روشن، مزید کشادہ اور کچھ مزید مہربان لگنے لگاتھا۔

اس چند روزہ مست آسودہ حالی کے بعد اب ایک نئی اندرونی تبدیلی ا سے اپنا تعارف دے رہی تھیشاید وہی اطمینان و آسودگی ایک گہری بے قراری اور کرب میں تبدیل ہوآئی تھی۔ حجاب کو خود سے جدا کرنے ،دور کردینے کا خیال غیر متوقع طورپر اسے زیادہ ہی دکھ اور تکلیف میں مبتلا کررہا تھا۔

سیڑھیوں کی طرف سے سنائی دینے والی آوازوں پر اس نے گردن موڑ کر دیکھا۔ ساون اور مراد اوپر آرہے تھے۔ دونوں کسی بات پر آپس میں بحث کررہے تھے۔اوپر آکروہ مرشد پر کوئی خاص توجہ دیئے بغیر دوسری چارپائی پر بیٹھ گئے۔ دو گلاس اوردیسی شراب کی بوتل ان کے پاس تھی۔

”ابھی میری بات تیری سمجھ میں نہیں آئے گی ساونے! لیکن تو دیکھ لینا، ایک دن تو خود مانے گا کہ میں ٹھیک کہتا تھا۔“

”چل اب بک بک بند کر اوربوتل کھول۔“

”اتنی تکلیف کیوں ہورہی ہے تجھے؟تو نے کیا اس سے شادی کرنی ہے۔ایسے خوامخوہ کا ٹوپی ڈرامہ۔“مراد نے سرجھٹکا اور بوتل گلاس بینچ پر سجاتے

ہوئے ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔ بظاہر وہ مرشدکی طرف سے بے پرواہی کامظاہرہ کررہے تھے لیکن مرشد جانتا تھا کہ وہ دراصل اوپر آئے ہی اس کی وجہ سے ہیں۔

”مجھے تکلیف ہورہی ہے یا نہیں، تجھے کس بات کی اتنی پریشانی ہے ،تو نے بہن کو جہیز تیار کرکے دینا ہے کیا؟“

”اوئے ل�±مب دین!مجھے تیری طرف سے پریشانی ہوتی ہے تو اگراس گلابو کے دوپٹے کے نیچے آگیا تو تیراحال بھی موالی ملنگ جیسا ہوجانا ہے۔ مارامارا پھرے گا روڑیوں اور سڑکوں پر“

” اور تجھے پریشانی ہے کہ اس سے تیرا رستہ کھوٹا ہوگا۔ لعنتی نہ ہوتو…مرشد صحیح تجھے مردار خان کہتا ہے۔“

”مرشد کی بات چھوڑ۔اسے نہ درمیان میں لا…ویسے بھی آج کل اس کے پاس وقت نہیں ہے کسی فضول قصے میں پڑنے کا۔ اس کاکام پہلے ہی ہوچکا ہے۔ “مرادنے دزدیدہ نظروں سے مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے ایک گلاس اٹھا کر ساون کو تھمایا اور دوسرا خود اٹھالیا۔

”ساون میں نے تمہارے ذمے کچھ کام لگایا تھا؟“مرشد کی سنجیدہ آواز پر وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔

”وہ اسرار اور اس کی اماں والا…چھیڑ چھاڑ تو کی ہے مگر ابھی تک کوئی تسلی بخش بات سامنے نہیں آئی۔ فی الحال جتنے لوگوں تک رسائی ہوئی ہے وہ سب مکمل طورپر ان دونوں کی طرف سے بے خبر ہیں۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ دونوں کہاں اور کس حال میں ہیں۔ہیں بھی یانہیں؟“

”ان کے پڑوسیوں کو خصوصاً چیک کرو اور کسی وقت خالہ اقبال سے پتا معلوم کرو ڈسکہ میں ان کے رشتے دار رہتے ہیں۔ ان کو بھی اچھی طرح ٹٹولو۔اس کے علاوہ کل حاجی والی جیپ تیار کرلو۔ میں کل رات حجاب کے ساتھ ادھر سے بلوچستان کے لیے نکلوں گا۔“

”اور کون ہوگا ساتھ؟“ساون نے بغور اس کی صورت دیکھی۔

”وہ کل دیکھا جائے گا۔ فی الحال تو دن میں تم جیپ تیار کروپہلے۔“

”جیپ تیار۔“ کرنے سے مرشد کی کیا مراد تھی یہ ساون اور جعفر دونوں بخوبی جانتے تھے دو چار بار وہ رستم لہوری کے اراضی قبضوں کے جھگڑوں کے لیے نکلے تھے اور ایسے میں جیپ پہلے سے تیار کی جاتی تھی۔ اس میں اسلحہ اور ہتھیار چھپائے جاتے تھے۔

”میں تو کہتا ہوں بلوچستان نہ ہی جاﺅ۔“مراد نے شراب کا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے مرشد کی طرف دیکھا۔ ”اس لڑکی کو وہاں پہنچانے کے بجائے یہیں خالہ ہی کے پاس رہنے دو تو بہتر ہوگا۔“مراد نے اس کے دل کی بات کہی تھی۔ لیکن یہ مرشد کے لیے قابل عمل نہیں تھی۔ اس نے گلاس خالی کرتے ہوئے سامنے بنچ پر رکھا اور بولا۔

”نہیں مراد!وہ کسی اور دنیا کی رہنے والی ہے۔ اس دلدل میں تو حادثاتی طورپر آگری ہے۔ یہ جگہ اس کے رہنے کی نہیں ہے اور وہ یہاں رہ بھی نہیں سکے گی۔“

”اور اگر وہ وہاں بلوچستان میں بھی نہ رہ سکی تو؟“

”مطلب؟“مرشد نے بھویں اچکا کر اسے دیکھا۔

”مہینہ ہونے والا ہے اسے غائب ہوئے۔وہ لوگ اس کے قریبی سگے والے تو ہیں نہیں اگر انہوں نے اسے قبول ہی نہ کیا تو…اور بالفرض قبول کرلیا تو آنے والے وقتوں میں اس کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہوگا؟ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہ اب اس گھرانے میں کھپ سکے گی۔“مرشد خاموشی سے اس کی صورت دیکھے گیا۔ اسے یاد آیا کہ اماں نے ذکر کیاتھا کہ وہ حجاب کا ہونے والا سسرال بھی ہے۔ ایسے میں حجاب کا اتنے روز تک مسلسل لاپتہ رہنے

والا پہلو کچھ مزید حساس نوعیت اختیار کرجاتا تھا۔

”میرا تو خیال ہے کہ اس حوالے سے تجھے خالہ کے ساتھ بات کرنی چاہئے۔ اس کے جو اصل اپنے ہیں، ان میں سے اس کا ایک بھائی اور اماں تو زندہ ہیں نا!ہم مزید شدومد سے ان دونوں کو تلاش کرتے ہیں۔ تب تک یہ لڑکی خالہ کے پاس رہے۔ بھائی اور اماں کے مل جانے کے بعد یہیں کہیں ان کو آباد کردیں گے…اپنی حفاظت اور نگرانی میں۔“مراد نے اپنے تئیں اس کی تمام الجھنوں اور اذیتوں کا ایک سیدھا سادہ سا حل پیش کردیا تھا لیکن مرشد کو اماں کا انداز اس کے تیور یاد تھے۔

”نہیںاماں نہیں مانیں گی اور ویسے بھی میں اماں کے حکم کے سامنے زبان نہیں چلانا چاہتا۔ انہوں نے آج تک صرف اذیت اور دکھ ہی تو جیا ہے میں ان کا دل نہیں دکھانا چاہتا۔“اس کے لہجے میں بے بسی اور اضطراب کی ہلچل سی کسمسائی۔ وہ پھر سے بوتل اور گلاس کی طرف متوجہ ہوگیا۔

”اس صورت میں پھر ہمارا مرشد تو شراب پی پی کر ہی ختم ہوجائے گا۔“مراد کے معنی خیز جملے پر مرشد خاموش رہا۔ اس نے گلاس اٹھایا اور منہ سے لگالیا۔

”اور آج پہلی دفعہ صاحب بہادر نے ایک بھی نماز نہیں پڑی۔ دونوں باتیں ہی تشویش ناک ہیں۔“ساون نے کہا۔

مرشد کی رگوں میں دوڑتی بے چینی میں کچھ مزید شدت آگئی۔ آج واقعی پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس نے ایک بھی نماز ادا نہیں کی تھی۔ ادا کر ہی نہیں پایا تھا۔ فجر کی نماز کے لیے وہ مصلے پر کھڑا ہوا تھا اور کھڑے کا کھڑا رہ گیاتھا۔ اس کے اندر حجاب کے سوا اور کچھ نہیںتھا۔

”اللہ اکبر۔“اس نے تکبیر پڑھ کرہاتھ باندھے تھے کہ کسی طرف سے اسے حجاب نے پکارا۔

”مرشدجی!“ اس کا دل دھڑکنے کی تمیز بھول گیا تھا۔مصلے پر سجدے کی جگہ دوپٹے کے ہالے میں گھرا حجاب کا روشن چہرہ چمک رہا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کیں تو وہ سراپا اس کی آنکھوں کے اندر آبیٹھی۔ ڈری گھبرائی سی سکڑی سمٹی ہوئی۔

”وہ…وہ آپ مجھے دیکھتے ایسے ہیں کہ مجھے گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔“اس نے بے ساختہ آنکھیں کھول دیں اور کھڑے پاﺅں مصلے سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔ وہ اس انکشاف پر پریشان ہو کر رہ گیا تھا کہ وہ حجاب کو نظر انداز کرکے نماز تک ادا نہیں کرسکتا۔مراد ساون کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

”یہ اب کسی اور نماز کی تیاری میں ہے۔ مصلے والی نمازیں پوری ہوچکیں۔ اب ادھر یارجی والی نمازوں کی تیاری چل رہی ہے۔“

”میں نماز کا رہا نہیں۔“مرشد نے خالی خالی نظروں سے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے گمبھیر لہجے میں کہا۔

”یہ تو سامنے ہی کی بات ہے۔ ہم سب کو یہ بھی نظر آرہا ہے کہ اگر تیری صورت حال آگے بھی ایسی ہی رہی تو تو کسی کام کا بھی نہیں رہے گا۔“

”مرشد!کیا تمہیں نہیںلگتا کہ تم کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے ملوث ہو رہے ہواس سب میں؟“ساون نے بغور اس کے وحشت زدہ سے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے محتاط انداز میں سوال کیا۔ مرشد اسی طرح خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

”پتہ نہیں!“

”اور تمہاری یہ بات اور بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔“

”ہاں شاید۔“

”تو پھر کیا حل سوچا ہے اس سب کا؟“

”کچھ نہیں!“

”وجہ؟“

مرشدخاموش رہا۔ ساون اور مراد دونوں سنجیدہ اور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔مرشد چونکہ اب تک اپنی ان نئی جذباتی الجھنوں اور اذیتوں کے حوالے سے بات چیت کرنے سے سخت گریزبرتتا آیا تھا، لہٰذا اس وقت بھی وہ بات کرنے میں قدرے احتیاط برت رہے تھے۔رات گزرتی جارہی تھی۔ اردگردکی فضا میں سازوآواز کی مخصوص آوازیں لہرا رہی تھیں۔ ڈوب ابھر رہی تھیں۔ چند لمحے کی خاموشی کے بعد مرشد نے شراب کا ایک اور تلخ گھونٹ حلق میں انڈیلا اور قدرے سیدھا ہو بیٹھا۔ شراب کی حدت نے اس کا چہرہ دہکارکھا تھا۔ شام ہی سے تو پی رہا تھا، البتہ ابھی تک اس کی زبان میں لڑکھڑاہٹ نہیں آئی تھی۔

”میں کچھ انوکھے تجربوں سے آشنا ہواہوں۔ بہت تھوڑے سے وقت میں زندگی بہت مختلف انداز میں کھلی ہے مجھ پر…ہم دو دنیاﺅں کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک دنیا میں ہم زندگی بھر بہت کچھ کرتے ہیں اور دوسری دنیا میں زندگی بھر ہمارے ساتھ بہت کچھ ہوتا ہے۔ خودبخود، قدرتی طورپر…ہماراوہاں کوئی زور، کوئی بس نہیں چلتا۔ ہمیں بس چپ چاپ خاموشی سے وہ سب جینا ہوتا ہے۔ بھوگنا ہوتا ہے۔“ساون اور مراد حیران نظروں سے ایک دوسرے کی صورت دیکھ کر رہ گئے۔

”جو اہواخودبخود ہوا جو ہو رہا ہے خود بخود ہورہا ہے۔ میری کسی خواہش یا کوشش کا توکوئی عمل دخل ہی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے میرے جہان احساس میں قدرت کوئی کھیل کھیل رہی ہے۔ پتا نہیں کیوں!“چند لمحے سر جھکائے بیٹھے رہنے کے بعد وہ ساون اور مراد کی طرف دیکھتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے بولا۔

”ساون…مراد!حجاب چند ہی روز میں اماں کو ازحد عزیز ہوگئی تھی میں سمجھتا ہوں کہ ان لمحوں مجھے وہ اماں سے بھی کئی گنا بڑھ کر عزیز ہے۔ پتا نہیں کیاہے اس میں ایسا، لیکن یہ حقیقت واضح جان لو کہ میں اس کے لیے ایسی اپنائیت محسوس کرتا ہوں کہ جیسے وہ میری اپنی ہی ذات کا دوسرا حصہ ہو۔ میں نہیں جانتا کہ آگے کیا ہوگا،لیکن مجھے ایسامحسوس ہوتاہے کہ اسے خود سے دور کردینے کے بعد میں آدھا رہ جاﺅں گاشاید ہمیشہ کے لیے“ اس کے لہجے میں سمٹ آنے والے کرب نے ان دونوں کو مزید فکروپریشانی میں مبتلا کردیا۔ مرشد کے لب ولہجے کے پیچھے جس منہ زور جذبے کی موجودگی کا احساس انہیں اب ہورہا تھا،وہ ان کی توقع سے زیادہ طاقت ور اور مضبوط تھا۔ اس جذبے کی اصل منہ زوری اور طاقت توصرف مرشد ہی پرآشکار تھی۔ اسی کے حواس اور اعصاب تھے جو مسلسل ایک شکست ریخت کا شکار تھے۔ ایک جان لیوا کشمکش، رگیں چٹخادینے والا اضطراب اور حجاب کے تصور کی طرف ہمک ہمک کر پھڑپھڑاتا ہوا دل جیسے جیسے رات گزرتی گئی اس کے دل کی پھڑپھڑاہٹیں بڑھتی گئیں۔ سحری کے وقت وہ چھت سے اتر کر باہر گلی میں آگیا۔ پوری گلی میں خاموشی تھی، سناٹاتھا۔ بس ایک طرف موالی ملنگ ایک بنددوکان کے سامنے ٹہل رہا تھا اورکچھ بڑبڑا رہاتھا۔

 مرشد قصائی والے پھٹے پر جا بیٹھا۔ یہاں سے سامنے ہی چوبارے کی سیڑھیاں تھیں۔ سیڑھیوں پر قادرا اور جمشیدابیٹھے دکھائی دے رہے تھے اور چوبارے پراماں کا کمرہ تھا اور اس کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ اندر اندھیرا تھا۔ مرشد وہیں بیٹھے بیٹھے دیکھ سن رہا تھا کہ اندر کمرے کے اندھیرے میںچھت والے پنکھے کی گھڑگھڑگونج رہی ہے۔ اماں فرشی بستر پر پڑی سو رہی ہے اور پلنگ پر حجاب مدہوش پڑی ہے۔ اس کی بے چینیوں اوربے قراریوں سے مکمل طورپر بے خبر…غافل مرشد کے ہونٹوں پر بے ساختہ ایک مضمحل سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔

”الو کی دم پینڈو لڑکی۔“

وہ لاڈ بھرے لہجے میں بڑبڑایاتھا۔ دن چڑھے تک وہ جیسے پل صراط پرٹہلتا رہا۔ دن تقریباً نو بجے کے قریب اس کے اندر کا انتشار سمٹنا شروع ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ اس کی اماں اپنے کہے کی لاج میں حجاب کو لے کر یہاں سے نکلتی مرشد کو اس کے حضور پیش ہونا تھا۔ پھر دس بجے کے قریب جب وہ نہادھوکر اماں کی طرف جانے کے لیے نکلا تو اس وقت تک اس کا تمام ذہنی انتشار ایک کنارے لگ چکا تھا۔ امکانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے کچھ حتمی فیصلے کرلیے تھے اور اب بڑی حد تک ان فیصلوں کی بناءپرمطمئن بھی تھا۔

وہ ایک شیشے کی طرح چمکیلا دن تھا۔ دھوپ میں خاصی تپش محسوس ہوتی تھی۔ مرشد چوبارے پر پہنچ کر پانچ سات منٹ دالان میں جعفر اور دلشادکے ساتھ بیٹھا رہاپھر اٹھ کر اماں کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ جس وقت وہ دروازے سے کمرے میں داخل ہوا۔ اس وقت کمرے میں صرف حجاب موجود تھی۔ اس نے مرشد ہی کا لایا ہوا ایک ریڈی میڈسوٹ زیب تن کررکھا تھا۔ سفید اور سبزدھاریوں والا یہ ریشمی سوٹ اورسفید دوپٹہ مرشد نے ایک نظر دیکھ کر ہی پسند کرلیا تھا اور اس وقت اس کی یہی پسند حجاب کے بدن پر تھی۔

حجاب کی دروازے کی طرف پشت تھی۔ وہ سامنے ہی گھٹنے فرش پر ٹکائے بیٹھی اماں کے بستر کی چادر درست کررہی تھی۔ غالباً ابھی کچھ ہی دیر پہلے اس نے غسل کیا تھا۔دوپٹے کے نیچے اس کی کمر پر پھیلے ہوئے اس کے ریشمی بالوں میں نمی تھی۔ اس نمی نے کمر سے اس کی قمیض کو بھی نم کر رکھا تھا۔ مرشد کو یکایک محسوس ہوا کہ پورے کمرے کی فضا، بھیگی عود کی مسحور کن خوشبو سے بھری ہوئی ہے۔اپنے عقب میں کسی کی موجودگی کے احساس پر ہی اس نے پلٹ کر دیکھا تھا۔ مرشد کے مخصوص بے باک اور والہانہ انداز نظر کو اپنی ہی جانب مائل پا کر وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ دل میں اچانک ہی ایک حیاانگیز گھبراہٹ دھڑک اٹھی تھی۔

”اماں کدھر ہیں؟“

”وہ نہا رہی ہیں۔“ مرشد کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ پیچھے ہٹ کر پلنگ پرٹک گئی۔مرشد کی نظروں کا نرم لمس بدستور اسے اپنے چہرے پر محسوس ہورہا تھا۔ پلنگ کی پائنتی کے قریب ایک ٹرنک اور دو بیگ پڑے دکھائی دے رہے تھے۔ دو فٹ کا وہ ٹرنک جس پر ہرا رنگ پھرا ہوا تھا خاصا پرانا تھامگر مضبوط ہونے کے باعث ابھی تک ٹھیک ٹھاک حالت میں تھا۔ اماں نے شاید اسے خالی کرکے اس میں حجاب کا سامان ،اس کی ضرورت کی چیزیں بھر دی تھیں، یعنی وہ پیکنگ مکمل کرچکی تھیں۔ چند لمحے دروازے میں کھڑے رہنے کے بعد وہ بائیں طرف کونے میں موجود سنگھار میز کے اسٹول پر بیٹھ گیا۔

”اچھا،تو پھر اب کیا پروگرام ہے تیرا؟“وہ متفسر ہوا تھا۔

”وہ توآپ کو معلوم ہوگا۔ مجھے خالہ نے کہا ہے کہ آج، آپ مجھے پھوپھو کے ہاں چھوڑآئیں گے۔“

”تو سچ میں ادھر جانا چاہتی ہے؟“

”جی !جانا توچاہتی ہوں، میرے لیے اب وہی ایک جگہ بچی ہے۔“

”اور اگر ادھر نہ جائے تو کیا نقصان ہوگا تیرا؟“

”ماموں خالہ کے ہاں نہیں جاسکتی۔ وہ مجھے پناہ دے بھی نہیں سکتے۔ ان کے بعد بس پھوپھو ہی کا گھر بچ جاتا ہے اور شاید اسرار بھی وہیں ہو۔“وہ اسی طرح نظریں جھکائے جھکائے بولی۔ ایک دکھ، ایک حسرت ویاس کی تحریر تو مرشد شروع دن سے ہی اس کے چہرے پر دیکھ رہا تھا۔ البتہ چند روز

پہلے والی نفاہت اب اس کے چہرے سے رخصت ہوچکی تھی۔

”وہاں تو سکون سے رہ تولے گی نا…پریشان تو نہیں ہوگی ادھر؟“اسے خود ٹھیک سے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا جاننا چاہتا ہے۔ حجاب کو بھی اس کا سوال تھوڑا عجیب محسوس ہوا۔ سکون کا لفظ اس کے نزدیک اتنا ہی بے معنی اورکھوکھلا تھا۔ اس کے لیے سکون کا کوئی آسرا رہا ہی کب تھا۔ زندگی کے دامن میں بھی پریشانیوں کے سوا اورکیاہونا تھا ابلیکن اس کا جواب اثبات میں تھا۔

”جی!“

مرشد کچھ کہنے لگا تھا کہ اسی وقت کمرے کے کونے میں موجود دیوارگیر پردے میں حرکت ہوئی اور حسن آرا کمرے میں آگئی۔ گیلے بال اس نے تولیے میں لپیٹ رکھے تھے۔اس نے بس ایک نظر مرشد پر ڈالی ،جب کہ مرشد بغور اس کی طرف دیکھتا رہا۔ حسن آرا کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ وہ آگے آکر اپنے بستر پر بیٹھتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی۔

”کس وقت روانہ ہورہے ہو؟“اس کا لہجہ بالکل ہموار اور بے تاثر تھا۔

”کیا کدھر کو؟“اس کے متعجب انداز پر حسن آرا نے تیز نظروں سے اس کی طرف گھورا۔ وہ یوں ظاہر کررہا تھا جیسے اسے کسی بات کی خبر ہی نہ ہو۔

”تم کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ نہیں ہوتے جارہے؟“

”ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ ہی دن بدن کچھ چڑچڑی اور ضدی ہوتی جارہی ہیں۔“وہ ہلکے سے مسکرایا۔

”میرے سٹھیانے میں ابھی بڑی دیر ہے۔ تم چڑاتے ہوتو چڑتی ہوں۔“اس نے تولیہ بالوں سے ہٹا کر کندھے پر ڈالا اور پلنگ کے پائے کے ساتھ دھری تیل کی شیشی اٹھالی۔

”آرام سکون سے کہی ہوئی بات مان لیا کرو تو مجھے کیا ضرورت ہے چڑنے یا ضد کرنے کی…لیکن تم تو اب جنے جوان ہوچکے ہو۔ ماں کا حکم مانتے ہوئے عزت گھٹتی ہے اب تمہاری۔“

”یہ جھوٹ آپ کس سے بول رہی ہیں؟“حسن آرا نے ہتھیلی پر تیل انڈیلتے ہوئے ناراض نظروں سے اسے دیکھا۔

”ہاں تو اورپھر کس لیے اتنے دنوں سے ایک بات کو ٹالتے آرہے ہو۔ الٹا پچھلے دو دنوں سے شکل گم کر رکھی ہے۔پلٹ کر دیکھا تک نہیں کہ پیچھے ماں بھی ہے۔“حسن آرا کے لہجے کا قلق بتا رہا تھا کہ اس نے گزشتہ دو دن مرشد کی غیر حاضری کو کتنی شدت سے محسوس کیاہے۔ دو دن پہلے اس کا اپنا رویہ مرشد کے ساتھ خاصا سخت ہوگیا تھا۔ اسے بعد میں خود بھی تھوڑا سا رنج ہوا تھا۔ لیکن اب ایسا بھی نہیں تھا کہ مرشد دو دن شکل ہی نہ دکھاتا۔پہلے تو کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس روز پہلے حسن آرا مرشد کی جذباتی نوعیت کا اندازہ کرکے گھبرا گئی تھی۔ پھر مرشد کا ان دو دنوں پلٹ کر ادھر نہ آنا اسے مزید الجھن اورپریشانی میں مبتلا کر گیا تھا۔ اس کی اس غیر حاضری نے ہی حسن آرا کو احساس دلایا تھا کہ ہو نہ ہو مرشد کے ساتھ معاملہ کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہے۔ وہ تیل سر میں لگاتے ہوئے مرشد ہی کی صورت تک رہی تھی۔ شاید اس کے چہرے اور آنکھوں کے تاثرات سے اس کے جذبات وخیالات کے متعلق اندازہ کرنا چاہ رہی تھی۔ مرشد اس سے نظریں چرا کرکنپٹی کھجاتے ہوئے بولا۔

”آپ کی پریشانی نے ہی نہیں آنے دیا…اپنی اس لاڈو رانی کی جتنی فکر ہے آپ کو اس نے مجھے بھی پریشان کر رکھا ہے اماں!مجھے …مجھے خود بہت فکر ہونے لگی ہے اس کی۔اگر خدانخواستہ یہ کسی مشکل کا شکار ہوگئی تو؟“

”مشکل بس منزل تک پہنچنے کے وقت تک رہے گی۔جب ایک بار یہ اپنوں میں پہنچ گئیں تو مشکلوں سے خود ہی آزاد ہوجائیں گی۔“

”اور …اگر یہ اپنوںمیں پہنچنے کے بعد کسی مشکل، کسی مصیبت میں پھنس گئی تو؟“

”پاگلوں والی باتیں مت کرو۔ ایسا ویسا کچھ نہیں ہوگا۔ تم بس اپنی ذمہ داری نبھاﺅ۔“

”مجھے میری ذمہ داری ایک بار پھریاد دلادیں۔“

”ان کو پوری حفاظت کے ساتھ بلوچستان ان کی پھوپھی کے ہاں چھوڑ کر آنا تمہاری ذمہ داری ہے۔“

”یہ کیسی ذمہ داری ہوئی بھلا!“

”تو اور کیسی ہونی چاہئے؟“

”حفاظت کی بات کررہی ہیں توپھر مکمل ذمہ داری دیں۔ میں اسے وہاں چھوڑ کر یہاںآجاﺅں اور وہاں اس کے ساتھ کوئی مصیبت بن جائے تومجھے یاآپ کو کیسے پتا چلے گا؟ ہم کیسے اس کے لیے کچھ کرسکیں گے؟“مرشد کی بے قراری اور فکر مندی اس کے دل کا حال بتا رہی تھی۔ حسن آرا کی پیشانی پر ایک رگ ابھر ائی۔

”ہمیں پتا چلنا اتنا ضروری بھی نہیں ہے ہمیں ان کے لیے جو کرنا ہے وہ اتنا ہی ہے جتنا میں تم سے کہہ چکی ہوں۔ اس کے بعد ان کے لیے جو بھی کرنا ہوا وہ ان کے وہاں والے بزرگ کریں گے۔ تمہیں اتنا فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔“دو روز پہلے کی طرح حسن آرا کا لہجہ ایک بارپھر یک لخت خشک ہوگیا۔ حجاب کے حوالے سے مرشد کی جذباتی بے قراری حسن آرا کے نزدیک گستاخانہ جسارت تھی۔اسے پھر سے پریشانی ہونے لگی۔

”ضرورت کا تو پتا نہیں اماں! لیکن مجھے یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا۔ ایک طرف آپ اس کے لیے اتنی فکرمند ہیں۔ زمانے کے گندے ترین لوگوں کے ساتھ دشمنی تک ڈال لی ہے آپ نے۔ دوسری طرف چاہتی ہیں کہ میں اس کو سیکڑوں میل دور پہاڑوں میں چھوڑ آﺅں اورپھرہم سب اس کی طرف سے مکمل طورپر لاتعلق اور غافل ہوجائیں…یعنی پھر اس کے ساتھ جو مرضی ہوجائے خیر ہے۔“مرشد کے لہجے میں بھی سنجیدگی اتر آئی۔

”وہاں ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوسکتا۔ ان کے پھوپھا خود وہاں کی ایک با اثر اور طاقت ور شخصیت ہیں۔ وہ بخوبی جاگیردارلوگوں کو لگام ڈال لیں گے۔“

”اور ایک ذرا آپ فرض کریں کہ اگر وہ لگام ڈالنے میں ناکام رہے تویا بالفرض ان کے گھرمیں رہنا ہی اس کے لیے عذاب اور وبال بن گیاتو کیاہوگا؟“

”کیوں اول فول بولے جارہے ہو۔ میرے ساتھ فضول بحث مت کرو۔“حسن آرا نے ناگواری سے کہا۔ وہ مرشد کے لہجے اور تیوروں سے پریشان ہورہی تھی۔ اس کے اعتراضات اختلاف اورحجاب کے حوالے سے فکر مندی حسن آرا کو عجیب خوف آمیز گھبراہٹ میں مبتلا کررہی تھی۔ اسے وہ باتیں بھی سمجھ آرہی تھیں جو ابھی صرف بے چینی کی صورت مرشد کی آنکھوں میں ہلکورے لے رہی تھیں۔ ان کے لب و لہجے کے عقب میں سرسرارہی تھیں۔ حجاب اپنی جگہ خاموش بیٹھی گود میں دھرے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔ کمرے کی فضا میں پیدا ہوتا تناﺅاسے بے چین کررہا تھا۔

”چوہدریوں کی یہ خاموشی عارضی ہے اماں! وہ خبیث لوگ بلوچستان تک اس کا پیچھا کریں گے۔اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔“

”اچھامزید؟“حسن آرا نے اپنی نظریں اس کے چہرے پر جما دیں۔

”مزید…یہ کہ وہاں پھوپھی کے گھر بھی پتا نہیں کیسے حالات پیش آئیں اسے…ان لوگوں کا رویہ اس کے ساتھ پتا نہیں کیسا ہوگا یہ اتنے دن سے

لاپتہ ہے۔“

”اور…“

”اور کیا اب…“

وہ اماں کی مسلسل گھورتی ہوئی نظروں سے قدرے گڑبڑاگیا۔ اسے اچانک یوں لگا تھا کہ جیسے اماں کی آنکھیں اس کے دل ودماغ کے ان نہاں خانوں تک جھانک کر دیکھ رہی ہیں۔ جہاں حجاب کے خوابوں اورخیالوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔

”پھر تم ہی مشورہ دوکہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟“وہ جیسے اسے اصل نکتے پر لے آئی تھیں۔ چندلمحوں کے لیے مرشد کو چپ لگ گئی پھر وہ گلا کھنکارتے ہوئے بولا۔

”میں نے اس کی اماں اور بھائی کی تلاش میں بندے دوڑا رکھے ہیں۔میرا خیال ہے ان کے ملنے تک یہ یہیں رہے۔ اس کے بعد انہیں کہیں کوئی مکان کرائے پر لے دیں گے۔ اپنی زندگی سکون سے گزاریں۔ چوہدریوں کو میں خود سمجھالوں گا۔“

”بہتر تو یہ رہے گا کہ تم خود کوسنبھالو تم جو کچھ چاہ رہے ہو ویسا کچھ نہیں ہوسکتا۔اپنے دماغ سے ہر بات، ہر فضول خیال نکال دو۔“حسن آرا نے اس قدر سرد لہجے میں کہا کہ مرشد بس اس کی صورت دیکھتا رہ گیا۔ وہ بخوبی سمجھ گیاتھا کہ اماں کا اشارہ کس سمت ہے اور وہ کیا کہہ رہی ہے۔ حجاب بھی اپنی جگہ کسمسا کر رہ گئی۔ اسے بھی حسن آرا کے انداز سے محسوس ہوگیاتھا کہ بات کس رخ پر آگئی ہے۔

”اپنے دماغ سے ہر بات، ہر فضول خیال نکال دو۔“

اماں کے یہ الفاظ کسی سرد نشتر کی طرح اس کے دل میں جاکر چبھے تھے۔ دل میں ایک برفیلی دکھن کااحساس اتر گیا تھا۔

”ہر فضول خیال، فضول خیال…فضول…“ کچھ دیر تک تووہ بول ہی نہیں پایا۔ کمرے میں ایک بوجھل اور بے ڈھنگی سی خاموشی پھیلی رہی پھر اس نے اپنے ذہن میں تعجب بیدار ہوتے محسوس کیا۔ حسن آرا کی اس درجہ سرد مہری اور ناگواری تعجب کی بات تو تھی۔ اسے شدت سے احساس ہوا کہ اماں کوئی غلط اندازہ قائم کئے ہوئے ہے۔ وہ اس کے جذبہ و احساس کے حوالے سے کوئی نامناسب نتیجہ اخذ کررہی ہے ،کوئی غلط تعبیر تصور کئے ہوئے ہے۔

”فضول خیال…فضول خیال

مرشد کے دل و دماغ کو دھچکا سالگا۔ یہ الفاظ اس کی اماں کی زبان سے ادا ہوئے تھے۔ حجاب کی ذات سے جڑے اپنے جذبوں اور خیالوں کے حوالے سے ایک ذرا تو وہ خود بھی بے یقینی کا شکار ہوگیا۔ اماں کے لہجے اور اندازنے اسے گڑبڑا دیا تھا۔ لیکن فوراً ہی ایک یقین اس کے قلب وجان کی گہرائیوں سے ابھرکر اسے مطمئن کر گیا۔ 

اس نے بے اختیار نظروں کا زوایہ بدل کر حجاب کی طرف دیکھا۔ سفید دودھیا دوپٹے کی اوٹ سے اس کے چہرے کا وہی آدھا رخ دکھائی دے رہا تھا جو اس کے نزدیک، اس کے لیے زندگی کا پہلا منظر تھا۔ زندگی سے پہلا تعارف تھا کچھ روز پہلے جب اس نے پہلی بار حجاب کو یہیں، جائے نماز پر بیٹھے دیکھا تھا اس وقت حجاب کے ہونٹ اور آنکھ کی ہڈی پر معمولی چوٹوں کے نشان تھے جو اب مٹ چکے تھے۔ اس روز ،اس ایک پہلی نظر کے ساتھ ہی مرشد کے دل و دماغ میں ایک عجیب پر اسرارسی لہر سرائیت کر گئی تھی۔ اس کے رگ و پے میں اتر گئی تھی۔ آئندہ دنوں لمحہ بہ لمحہ اس کے اندر بہت کچھ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اندر بھی اور باہر بھی اس کے اطراف میں پھیلی زندگی کی تصویر کے سارے رنگ کسمسا کر بیدار ہوآئے تھے۔ یہ زندہ تصویر کچھ

مزید زندہ اوربھرپورہوگئی تھی۔اس اولین پل سے آج ،اس موجودہ پل تک اس کے دل و دماغ میں حجاب کی ذات کے حوالے سے کوئی بھی سستایا بازاری خیال پیدا نہیں ہوا تھا۔

 مرشد نے بھرپور نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔ وہ سرجھکائے ہنوز خاموش بیٹھی تھی۔ پتا نہیں یہ اس کے سرپر موجود نئے نکور سفید دودھیا دوپٹے کی وجہ سے تھا کہ کیا مرشد کو اس کے گرد ایک خفیف سا روشن ہالہ محسوس ہوا۔ ایک مہین سی روشن لکیر تھی جو اس کی کمر سر اور چہرے کے گرد اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی۔ اس نے پوری دیانت داری سے اپنے اندرجھانک کر دیکھا۔ وہاں سب کچھ بہت واضح اور روشن تھا۔ حجاب کے لیے اسے اپنے سینے میں لاڈ بھرے جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر محسوس ہوا۔ اس سمندرکے شفاف پانیوں میں موتیوں کی سی چمک تھی۔ زمانے سے جدا ایک آسمانی نوعیت کی مسحور کن خوشبو تھی۔ مرشدکو وہ اس دنیا، اس زمین کی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اس سے تعلق رکھنے والے احساسات بھی اسے کسی آسمانی جہان کی مقدس خلوتوں سے اترے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ اسے یہ سب خود پر قدرت کی کرم نوازی، قدرت کی مہربانی محسوس ہورہا تھا۔ اس سب کا وسیلہ یا بہانہ بنی تھی حجاب کی معصوم اور مظلوم ذات۔

اس نازک جان پر جو قیامت ٹوٹی تھی اور وہ مسلسل کئی روز تک جن عذاب ناک حالات کا شکار رہی تھی۔ وہ سارا دکھ، سارا کرب کسی خود کار طریقے سے خودبخود مرشد کے دل کی اتھاہ گہرائیوں تک اترتا چلا گیاتھا۔ اس کے سینے میں حیرت انگیز طورپر آناً فاناً ایک ایسا شدید گداز پیدا ہوآیا تھا کہ حجاب کا درد اسے اپنا درد محسوس ہونے لگا تھا۔ حجاب کے جان کا ہ ہ دکھ کے تصور سے اس کے اپنے کلیجے پر دکھ کی ایک بھاری سل آن پڑی تھی۔ اس کے ذہن میں صرف حجاب کے تحفظ و سلامتی، اس کے سکھ و سکون اور اس کی خوشی سے متعلقہ خیالات تھے۔ اسے صرف اس کی بہتری اوربھلائی مقصود تھی۔ ہرصورت… اور اس سب کے ساتھ اس کے دل میں صرف ایک خواہش تھی۔ ایک بے ضرر اور معصوم سی خواہش حجاب کوہمیشہ اپنی نظروں کے آس پاس رکھنے کی خواہش ہرپل اس کی خیروعافیت سے باخبر رہتے ہوئے اس کے اردگرد رہنے کی خواہش اور یہ خواہش بے پناہ طورپر توانا اور بلاخیز تھی۔ 

اس نے حسن آرا کی طرف دیکھا۔ وہ تیل کی شیشی پر ڈھکن چڑھا رہی تھی۔ ذہنی دباﺅ اس کی پیشانی پر رگ ابھارے ہوئے تھا۔

”آپ کے ساتھ اصل مسئلہ کیا ہے اماں؟یکایک ہم اتنے اجنبی کیسے ہو گئے!“ وہ بولا تو اس کے لہجے میں دکھ اور تاسف کی آمیزش تھی۔ اسے سچ میں دکھ پہنچا تھا۔ اماں کا اندازفکر اس کے لیے تکلیف کا باعث بنا تھا۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اماں …اماں اسے سمجھنے میں غلطی کرسکتی ہے۔ اس کے متعلق کوئی سستی اور ہلکی رائے قائم کرسکتی ہے۔ حسن آرا نے شیشی رکھ کرکندھے پر موجود تولیے سے ہاتھ صاف کئے اور تکیے کے غلاف میں سے دوٹکٹیں نکال کر تکیے پر ڈال دیں۔

”یہ دو ٹکٹیں ہیں۔ آج رات دس بجے گاڑی نکلے گی۔“اس کا انداز ایسا تھا جیسے کمرے میں موجودکسی نادیدہ ہستی سے مخاطب ہو۔ مرشد کا لہجہ اس کے دل پر اثر انداز ہوا تھا مگر اس نے اپنے چہرے پر کوئی تاثر نہیں آنے دیا۔ وہ کوئی وضاحت نہیں دینا چاہتی تھی۔ اس کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے اسے یہ نہیں بتانا چاہتی تھی کہ ہم اجنبی نہیں ہوئے بلکہ تم ان” پاک بی بی“ کی اصل حیثیت سے واقف نہیں ہواس کی خواہش تھی کہ جوپاک نسبتیں اور مقدس حوالے ابھی تک پردے میں ہیں وہ اب پردے میں ہی رہیں تو بہتر ہے۔

کچھ دیر تک کمرے میں وہی بے ڈھنگی خاموشی بھری رہی۔ پھر مرشد کی گمبھیر آواز ابھری۔

”اماں!یاتو ابھی اسے یہیں اپنے پاس ٹھہرائیں یاپھر آپ بھی تیاری کریں۔ اکٹھے چلتے ہیں۔ اس کو وہاں پہنچا کر کچھ وقت ہم بھی وہیں ڈیرے ڈال

لیں گے۔ پھر جب سب ٹھیک ہوچکنے کی تسلی ہوجائے گی تو ہم واپس لوٹ آئیں گے۔ کیوں حجاب!تو کیا کہتی ہے؟“مرشد آخری جملے پر اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اس کے اس بے ادب انداز تخاطب پر حسن آرا کسمسا کررہ گئی۔

”خالہ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ وہاں میرے لیے کوئی پریشانی یا خطرہ نہیں ہوگا۔ آپ بس مجھے وہاں تک پہنچا دیں یا پھر مجھے بس گاڑی پر بٹھا دیں۔“اس نے ایک سرسری سی نظر مرشدکی طرف دیکھا اور جھجک کر فوراً دوبارہ نظریں جھکالیں۔ مرشد کی آنکھوں میں وہی پراشتیاق چمک تھی جو اسے گھبراہٹ میں مبتلا کرتی تھی۔

”اور جو بات میں نے کہی ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟تیرے بھائی اور اماں کو ڈھونڈتے ہیں پھر تو انہی کے ساتھ رہنا۔“

”کیا پتا وہ دونوں پہلے سے وہیں ہوں۔“حجاب کے دل میںموہوم سی امید تو تھی کہ شاید اسرار اور ماں جی کسی نہ کسی طرح پھوپھو کے ہاں جاپہنچے ہوں اور اب وہ سب خود اس کے لیے پریشان ہوں۔ اسے تلاش کرتے پھر رہے ہوں۔ اچانک دروازے میں جعفر کی شکل دکھائی دی۔ اس کی صورت پر لکھا تھا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ مرشد نے مستفرانہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

”کیا؟“

”ذرا ایک منٹ کے لیے۔“اس کی ہچکچاہٹ اوربے چینی دیکھتے ہوئے مرشد اٹھ کرباہر چلا آیا۔

”ہاں ! کیا پنگا ہے؟“

”تھانے سے اطلاع آئی ہے کہ یہاں چھاپہ پڑنے والا ہے۔“

”کس چکر میں؟“

”اس لڑکی کے لیے ڈپٹی اعوان خود نفری کے ساتھ آرہا ہے۔“ مرشدکی پیشانی پر سوچ کی لکیریں ابھر آئیں۔

”پولیس کوتو کافی پہلے آجانا چاہئے تھا۔ بہرحال تم لوگ اسلحہ وغیرہ غائب کرو، میں حجاب کو غائب کرتاہوں۔“مرشد کی بات مکمل ہوئی ہی تھی کہ بیرونی طرف کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی۔ اگلے ہی لمحے دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور قادرے کی گھبرائی ہوئی سی صورت دکھائی دی۔

”پولیس چار پانچ گاڑیاں ہیں اور پندرہ بیس پولیس والے ہیں۔“جعفر تڑپ کر دالان کی طرف لپکا جہاں دلشاد رائفل لیے بیٹھا تھا، لیکن پولیس پارٹی کچھ زیادہ ہی غیر معمولی کارکردگی کامظاہرہ کرنے پر آمادہ تھی۔ اچانک سیڑھیوں پر بھاری جوتوں کی آواز سنائی دی اور پھر یکے بعد دیگرے چھ سات پولیس والے اندر گھستے چلے آئے۔ سب سے آگے ایک اونچا لمبا چالیس پنتالیس سالہ کرخت صورت شخص تھا۔ اس کے جسم پر پولیس یونیفارم کی بجائے سفید کلف لگی شلوار قمیض تھی۔ توند قدرے نکلی ہوئی پیشانی پر بال کم تھے البتہ داڑھی گھنی تھی جس میں کہیں کہیں سفید بال چمک رہے تھے۔ اس کے عقب میں آنے والے پولیس والوں میں ایک ٹبی تھانے کا سب انسپکٹر ادریس منج تھا۔ دوسرا اے ایس آئی حق نواز تھا اور ان کے عقب میں چار کانسٹیبل تھے۔ اس سفید پوش کے علاوہ باقی سب جس طرح مستعد اور محتاط دکھائی دیتے تھے اس سے مرشد نے اندازہ لگایا کہ یہی سفید پوش ڈپٹی اصغر اعوان ہے۔ اندر داخل ہوتے وقت منج نے ڈپٹی سے کچھ کہتے ہوئے مرشد کی طرف اشارہ بھی کیا تھا۔ وہ سیدھا مرشد کے سامنے آرکا۔

”ہیلو مسٹر مرشد!!“اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے مرشد کا ہاتھ تھام کر مصافحہ کیا۔”میں ڈی ایس پی اصغر علی اعوان …چھوٹی بی بی کہاں ہیں؟“

”چھوٹی بی بی! کون چھوٹی بی بی؟“مرشد متعجب ہوا۔

”نندی پور کے شاہ صاحب سید صلاح الدین کی صاحب زادی سیدہ حجاب بی بی کدھر ہیں؟“ ڈپٹی اعوان نے اس کا ہاتھ ہلاتے ہوئے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔ اس کے الفاظ مرشد کے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح لگے تھے۔

”چھوٹی بی بی نندی پور کے شاہ صاحب ،سید صلاح الدین کی صاحب زادی سیدہ حجاب بی بیسیدہ …سیدہ!“ اس کے لیے یہ ایک انکشاف تھا۔ حجاب کی ذات کے جس پہلو سے وہ ابھی تک نہ آشنا تھا وہ اب اچانک ہی اس پر آشکار ہوگیا تھا۔ اس کا رواں رواںسننااٹھا۔

”وہ …کیا وہ سید زادی ہے؟“ اس سوال کی ادائیگی میں اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ الفاظ خود بخود اس کی زبان سے پھسل پڑے تھے۔ وہ عجیب حیرت وبے یقینی سے ڈپٹی کی صورت تک رہا تھا۔

”رائفل نیچے رکھ دو۔“

”ادھر، ادھر بیٹھ جاﺅ دونوں۔“دالان والی سائیڈ پر پولیس والوں نے جعفر اور دلشاد کو دبوچ لیا تھا۔ ڈپٹی اعوان مرشد کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے اندرونی راہداری کی طرف بڑھا تو منج اور حق نواز فوراً اس کے پیچھے لپکے۔ منج نے نہایت خشمگیں نظروں سے مرشد کو گھورا تھا۔ مرشد چند لمحے تو اسی جگہ کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ پھر یکایک جیسے اس کا سکتہ ٹوٹا تو وہ فوراً ان کے پیچھے لپکا۔ ڈپٹی اعوان اماں والے کمرے کے دروازے پرجاپہنچا تھا۔

ان لوگوں کے اچانک اندر داخل ہونے پر حسن آرا اور حجاب دونوں ہی بری طرح چونک پڑیں۔ ڈپٹی نے اندر داخل ہو کر سامنے کی جیب سے حجاب کی تصویر نکال کر تسلی کی اور پھر مطمئن انداز میں حجاب سے مخاطب ہوا۔

”السلام علیم چھوٹی بی بی! میں ڈی ایس پی اصغر علی اعوان۔پچھلے کئی دنوں سے آپ کو تلاش کرتا پھر رہا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ صحیح سلامت مل گئی ہیں۔“

”اماں یہ ڈپٹی صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟“مرشد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی عجیب الجھن زدہ لہجے میں حسن آرا کو مخاطب کیا۔”یہ بتا رہے ہیں کہ یہ …یہ حج …حجاب سید زادی ہیں۔“وہ پہلی بار اس کا نام لیتے ہوئے جھجک گیا تھا۔ حسن آرا اور حجاب دونوں ہی حیران پریشان دکھائی دے رہی تھیں۔ حق نواز اور منج مستعداندازمیں دروازے کے قریب ہی ٹھہر گئے تھے۔ ڈپٹی نے باری باری بغور حسن آرا اور مرشد کے تاثرات کاجائزہ لیا۔ پھر مرشد سے مخاطب ہوا۔

”ہاں ،یہ ایک نجیب الطرفین سید زادی ہیں۔ ان کے گھرانے میں کئی بزرگ گزرے ہیں۔ خود ان کے والد ایک صالح اورصاحب شریعت شخص تھے۔ ان کے گھرانے پر جو گزری ہے وہ کیس میں ہی ہینڈل کررہا ہوں۔ “پھر وہ حجاب کی طرف پلٹا۔

”بی بی! آپ کو ہمارے ساتھ چلناہے۔“اس کی صورت ہی کی طرح اس کا لہجہ بھی کرخت تھا لیکن حجاب سے بات کرتے ہوئے اس میں ایک نرمی در آئی تھی۔

”کک…کہاں؟“حجاب ہکلائی۔ حسن آرا فوراً ڈپٹی سے مخاطب ہوئی۔

”ڈپٹی صاحب !آپ انہیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟پچھلے کچھ دنوں میں انہوں نے بہت مصیبت اور رنج اٹھایا ہے۔ ہم لوگ آج انہیں ان کے پھوپھاکے ہاں بلوچستان پہنچانے والے ہیں۔ یہ وہاں محفوظ رہیںگی۔“

”یہ اب بالکل محفوظ ہیں۔ ان کے پھوپھا جی کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور انہیں ان کے حوالے کرنا اب میری ذمہ داری ہے۔ لیکن اس سے پہلے کچھ دیگر معاملات نمٹانے ہیں ہم نے۔“

”کیسے معاملات؟“

”کچھ قانونی تقاضے ہیں۔ ان کے گاﺅں سے چوہدریوں کے خلاف کوئی ایک بھی گواہ نہیں مل سکا مجھے۔اب…اب دیکھوں گا میں اکبر علی اور فرزند علی کتنے پانی میں ہیں۔دونوں کو پھانسی کے پھندے تک گھسیٹوں گا میں۔“اس نے ایک بار پھر حجاب کی طرف رخ پھیرا۔

”چلیں بی بی اٹھیں…کوئی چیز، سامان ہے تو ساتھ لے لیں۔“

”مم…میں کہیں نہیں جانا چاہتی۔“حجاب کا رنگ ہلدی ہورہاتھا۔ وہ خوف زدہ ہوگئی تھی۔ دھوپ سڑی میں اس نے دیکھا تھا کہ پولیس غنڈوں کا ساتھ دے رہی تھی۔ اس کے ذہن میں ایک ساتھ کئی اندیشے بیدار ہو آئے۔ اسے یہی لگ رہاتھا کہ پولیس والے دھوکے سے اسے یہاں سے لے جائیں گے اور لے جاکر چوہدریوں کے حوالے کردیں گے۔

”یہ آپ کیاکہہ رہی ہیں بی بی!آپ کو معلوم بھی ہے کہ آپ کی تلاش میں کتنی کوششیں کی گئی ہیں۔ آپ کے پھوپھا اورپھوپھی آپ کے لیے کس قدر پریشان ہیں۔“

”یہ خود بہت پریشان ہیں ڈپٹی صاحب! ان کے دشمن بھی آپ کو پتا ہے کہ کتنے با اثر اور ظالم لوگ ہیں۔ ابھی چند دن پہلے وہ انہیں یہاں سے اغواءکرکے لے گئے تھے۔ میرا بیٹا بڑی مشکل سے انہیں ان کے چنگل سے نکال کر لایا ہے۔“حسن آرا نے کہا۔

”میں سب کچھ جان چکا ہوں۔ ان کے دشمن جتنے بھی با اثر ہوں قانون سے زیادہ با اثر نہیں ہیں۔ ان کا بیان ان سب کو کیفر کردار تک پہنچائے گا۔ میں خود ہتھکڑیاں پہناﺅں گا انہیں۔“

”لیکن میں کہیں نہیں جاﺅں گی۔ مجھے خالہ کے پاس رہنا ہے۔ جیسے یہ چاہتی ہیں میں ویسے ہی کروں گی۔“حجاب نے پریشان لہجے میں کہا اور پلنگ سے سرک کر نیچے حسن آرا کی اوٹ میں بیٹھ گئی۔ یوں جیسے حسن آرا کی ذات میں پناہ لے رہی ہو۔ ڈپٹی اعوان حسن آرا کی طرف متوجہ ہوا۔

”اور…آپ بھلا کیا چاہتی ہیں؟“

”میں نے عرض کی ہے کہ ہم انہیں آج ان کے پھوپھا کے ہاں بھیجنے والے ہیں۔“ڈپٹی اعوان چند لمحے خاموش کھڑا رہا پھر پلٹ کر منج اور حق نواز سے مخاطب ہوا۔

”تم لوگ باہر دالان میں ٹھہرو۔“ وہ دونوں فوراً پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔ ڈپٹی نے ایک نظر کمرے کا جائزہ لیا اور پھر اسٹول کھینچ کر بیٹھ گیا۔ ان کے پھوپھا جی سے میں نے بھی یہی وعدہ کر رکھا ہے کہ اگر یہ زندہ سلامت ہیں تو میں انہیں بحفاظت ان کے حوالے کروں گا اور ان کے باپ بھائیوںکے قاتلوں کو قرار واقعی سزا بھی دلواﺅں گا۔ اب ان دونوں کاموں کے لیے ان کا میرے ساتھ چلنا ناگزیرہے۔“

”نہیں، میں نہیں جاﺅں گی۔“حجاب نے جلدی سے انکار کیا۔

”آپ کیسی باتیں کررہی ہیںبی بی! کیا آپ کو اندازہ نہیں کہ یہ کون سی جگہ ہے؟آپ کہاں بیٹھی ہیں؟اگر آپ کے پھوپھا ،پھوپھی کو پتا چل گیا کہ آپ ہیرا منڈی کے ایک کوٹھے پر بیٹھی ہیں اور یہیں رہنا چاہتی ہیں تو سوچیں ان پر کیا گزرے گی…جیتے جی مر جائیں گے وہ لوگ۔ مجھ پر شاہ صاحب کے بے انتہا احسانات ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کی یہاں موجودگی کی ان کو خبر ہو۔لہٰذا آپ اٹھیں اور چلیں ہمارے ساتھ۔“

”آپ بے شک انہیں خبر دے دیں۔ وہ آئیں گے تو میں ان کے ساتھ چلوں گی یا پھر مرشد جی مجھے ان کے ہاں چھوڑ آئیں گے۔“اس نے پر امید نظروں سے مرشد کی طرف دیکھا جو اپنی جگہ گم صم سا کھڑا اسی کو دیکھ رہا تھا۔یوں جیسے اسے آج پہلی بار دیکھ رہا ہو جیسے اسے پہچاننے کی کوشش

کررہاہو۔

”بی بی! ایسے بے وجہ کی ضد نہ کریں۔ چلنا تو پڑے گا آپ کو۔ بہتر ہوگا کہ آپ نہ ہمارے لیے پریشانی پیدا کریں نہ اپنے لیے۔“اسی وقت باہر کچھ آوازیں اورہلچل محسوس ہوئی۔ ڈپٹی اعوان، حسن آرا اور مرشد سے مخاطب ہوا۔

”مجھے معلوم ہے کہ تم لوگوں نے بی بی کی مدد اور حفاظت میں کافی کوششیں کی ہیں…بی بی تم لوگوں پر بھروسا رکھتی ہیں۔تم لوگ ہی سمجھاﺅ انہیں۔ تم لوگوں کی خلاف قانون حرکتیں نظر انداز کرتے ہوئے میں رعایت برتوں گا،لیکن سوچ سمجھ لو۔“اسی وقت کمرے کے دروازے کے قریب کچھ آوازیں سنائی دیں اور اگلے ہی پل خالہ اقبال، چمکیلی اور فیروزہ اندر داخل ہوآئے۔ منج غالباً انہیں روکنے کی کوشش ہی کرتا رہ گیا تھا۔ ڈپٹی اعوان اٹھ کھڑا ہوا۔

”میں یہاں کے دوسرے لوگوں کے بیان محفوظ کرلوں۔ اتنے میں تم لوگ سوچ لو اور بی بی کو بھی سمجھالو۔ان کا مزید یہاں رہنا ان کے اپنے حق میں ٹھیک نہیں ہوگا۔“وہ اٹھ کر دروازے سے باہر نکل گیا۔ خالہ اقبال فیروزہ اور چمکیلی آگے بڑھ کر حسن آرا کے قریب بیٹھ گئیں۔

”کیا کہہ رہے ہیں یہ ٹھلے؟“

”یہ بھی کوئی پولیس کا افسر تھا کیا؟“

”باہر بھی اچھی خاصی نفری موجود ہے۔ کس چکر میں آئی ہے پولیس؟“ان تینوں کے چہروں پر تشویش اور فکر مندی کے آثار تھے۔ مرشد اورحسن آرا کو بخوبی اندازہ تھا کہ باہر گلی اور بازار میں اچھا خاصا سنسنی کا ماحول بن چکا ہوگا۔

”حجاب بی بی! کیا یہ ڈپٹی سچ کہہ رہا تھا…آپ سید گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں؟“ مرشد کی گمبھیر آواز پر خالہ اقبال کے ساتھ ساتھ فیروزہ اورچمکیلی نے بھی چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ خالہ تو یہ بات پہلے ہی جانتا تھا البتہ فیروزہ اور چمکیلی کے چہروں اور آنکھوں میں امڈ آنے والا تعجب گواہ تھا کہ انہیں بھی اس حقیقت کا علم نہیں ہے۔ حجاب متذبذب سے انداز میں بولی۔

”جج…جی! مگر میں ان کے ساتھ نہیں جانا چاہتی۔“مرشد نے عجیب شکوہ کناں اور آزردہ نظروں سے حسن آرا کی طرف دیکھا۔

”کیوں اماں آپ نے یہ بات مجھ سے کیوں چھپائی؟“

”ادب و احترام کا تقاضا یہی تھا مرشد بیٹا!میں نہیں چاہتی تھی کہ یہ بات کھلے اوریہاں کے غلیظ ذہنوں اور ناپاک زبانوں پر سادات کا ذکر کسی تماشے کی صورت آئے۔ لوگ سادات گھرانے اور ایک سید زادی کے متعلق فضول تبصرے کریں۔ ان کی اور بزرگوں کی بے حرمتی کا پہلو نکلے۔“حسن آرا کی آواز بھیگ گئی۔ مرشد پر اماں کے رویے کے حوالے سے بہت سی گرہیں خود بخود کھلتی چلی گئیں۔ اسے یہ بات بھی اب سمجھ آرہی تھی کہ جب سے حجاب اس کمرے میں دکھائی دے رہی ہے تب سے اماں کا بستر فرش پر کیوں ہے۔ اس سے بات چیت کرتے وقت ،یا اس کا ذکر کرتے ہوئے اماں کے لب ولہجے میں احترام وعزت کا رنگ کیوں چھلک آتا ہے۔ کیوں وہ حجاب کے حوالے سے اس درجہ فکر مند اور حساس رہی ہیں!

وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا تب سے دیکھتا آرہا تھاکہ یہاں کے مکروہ اور گھناﺅنے معمولات میں عید تو کیا رمضان المبارک جیسے مقدس اور بابرکت مہینے میں بھی کوئی تعطل نہیں آتا تھا۔ کوئی ناغہ یا چھٹی نہیں ہوتی تھی۔ البتہ محرم الحرام کے دنوں میں یہ بازار اور یہ کاروبار مکمل طورپر بند کردیاجاتاتھا۔ اس مہینے کو سادات سے …اہل بیت سے نسبت تھی اور اسی نسبت کے احترام میں عاشورہ کے دس دن یہاں مکمل چھٹی ہواکرتی تھی۔ تمام طوائفیں، کسبیاں بلا تخصیص پیر فقیر مناتی تھیں۔ نذر نیاز دیتی تھیں۔ مزاروں خانقاہوں کے سلام کو جاتی تھیں۔ عاشورہ کے دنوں

میں ماتم کیاجاتا۔تعزیے نکالے جاتے اور علم اٹھائے جاتے تھے۔ 

عقیدے کے لحاظ سے تمام طوائفیں فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتی تھیں اور پیروں فقیروں اور سادات کی ازحد عزت وقدرکرتی تھیں۔ پنج تن پاک کے نام پر معذوروں گداگروں اورملنگوں وغیرہ کو خیرات سے نوازتی تھیں۔ بیشتر طوائفیں ہر جمعرات کو بی بی پاک دامناں پر حاضری دیتیں ،صابر شاہ کے مزار پر منتیں مانگنے جاتیں۔ نوگز ے کی قبر، دربار قاسم شاہ اور داتا صاحب کے ہاں دیگیں اور چادریں چڑھانے کی رسم تو خود مرشد بھی کئی برسوں سے نبھاتا آرہا تھا۔رجب کے کونڈوں کے ختم کا وہ ہر سال ایسا اہتمام کرتا تھا کہ محلے کے ہر گھر ہرچوبارے پر مرشد کی طرف سے حلوہ پوری اور کھیر کی نیاز پہنچائی جاتی تھی۔ رسمی و روایتی طرز پر ہی سہی لیکن خود مرشد سادات اور پیروں و فقیروں کا معتقد تھا اور اسے یہ عقیدت اپنی ماں سے وارثت میں ملی تھی۔ بچپن میں جب بھی وہ اسے کچھ کھلانے لگتی تو بسم اللہ کے ساتھ ہی نذر اللہ نیاز حسین کے الفاظ دہرایا کرتی تھی۔ 

دوسری طوائفوں کی نسبت حسن آرا سادات کے لیے کچھ زیادہ ہی غیر معمولی عقیدت کے جذبات رکھتی تھی اور یہی عقیدت اس سے مرشد کی ذات میں بھی منتقل ہوئی تھی۔ مرشد نے خود بھی پڑھا تھا اور عاشورہ کے دنوں میں ذاکرین کے منہ سے بھی بہت کچھ سن رکھا تھا۔ ایک آیت پوری شدت سے اس کے ذہن میں گردش کرنے لگی۔

”اِنما یریداللہ لیذھب عنکم الرِجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا“

”پس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔“

پھر اس کے ذہن میں درودشریف کے الفاظ گونجے۔

الھم صلی علی محمد وعلی آل محمد

”یا اللہ! تومحمد ﷺکو سلامتی دے اور محمدﷺ کی آل کو سلامتی دے۔“

”وہ جن کا ذکر بھی خدا نے عبادت وثواب ٹھہرایا تھا۔ حجاب بی بی انہی کی آل اولاد میں سے تھیں۔ وہ خود امتیوں میں سے تھا اور حجاب بی بی سرکار دو عالم،سرور کائنات ﷺکی آل میں سے تھی۔ ان کے ساتھ اس کا خون کا رشتہ بنتا تھا۔ وہ بہت عالی مقام اور مقدس و پاک ہستی تھی۔

مرشد کے وجود میں ایک تیز سنسناہٹ جاگ اٹھی۔ ایک لہر اس کے روئیں روئیں کو جھنجوڑ گئی تھی۔ وہ بے اختیار جھرجھری سی لے کر رہ گیا۔ اس کی نظریں اورگردن خود کار انداز میں جھک گئی۔یکایک ہی حجاب جیسے اس سے صدیوں کے فاصلے پرجاٹھہری تھی۔ بہت اونچے اور بلند مقام پر جا بیٹھی تھی۔

 مرشد کے سینے میں ایک ہلچل ایک شور برپا ہوگیا۔ متضاد جذبوں کی ایسی شدید یورش تھی کہ اس کے لیے وہاں ،حجاب کے سامنے کھڑے رہنا دشوار ہوگیا۔ وہ ایک جھٹکے سے پلٹا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

اگلے ایک گھنٹے تک ڈپٹی نے دالان میں کچہری لگائے رکھی۔ ان سب کے بیانات محفوظ کئے گئے۔ نزہت بیگم عشرت جہاں اور سندس جہاں بھی دست بستہ حاضرہوئیں۔ حسن آرا اور مرشد کا بیان بھی لیا گیا۔ مرشد پر ایک عجیب سکوت اور بے حسی کی سی کیفیت طاری رہی۔ وہ بظاہر پتھرایا ہوا سا دکھائی دیتا رہا اور اس کے دل و دماغ میں ایک طوفان، ایک ہنگامہ برپا رہا۔

حجاب پولیس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی۔ شاید کوئی کشیدگی یا بدمزگی پیدا ہوجاتی لیکن عین وقت پر رستم لہوری نے پہنچ کر خود اس سارے معاملے کو سنبھال لیا۔ اس نے حسن آرا کو بھی تسلی دی اور حجاب کے سرپر ہاتھ رکھ کر اسے بھی دلاسادیا۔ وہ سب جانتے تھے کہ پولیس سے الجھنا کسی صورت بھی

درست نہیں ہوگا۔قانونی کارروائی میں رخنہ اندازی ان سب کے لیے مشکلات اور پیچیدگی کاباعث بن جاتی۔ ڈپٹی اصغر علی اعوان اور رستم لہوری ذاتی طورپر ایک دوسرے کے شناسا بھی تھے۔ وہ ایک معتبر اور ذمہ دار آفیسر تھا۔ رستم نے حسن آرا اور حجاب دونوں کو یقین دلایا کہ حجاب کو یہاں سے براہ راست اس کے پھوپھا کے ہاں پہنچانے کی بجائے یہ زیادہ بہتر ہے کہ تمام قانونی معاملات نمٹا کر اسے اس کے وارثوں کے حوالے کرنے والا کام خود ڈپٹی اعوان ہی انجام دے۔

رستم لہوری، مرشد اور ڈپٹی اعوان کے درمیان الگ سے ایک مختصر سی میٹنگ بھی ہوئی۔ جعفر اور دلشاد سے اسلحہ تو ضبط کرلیا گیا البتہ رستم لہوری کی سفارش اور حجاب کی مدد اور حفاظت کی بے لوث ذمہ داری نبھانے کی رعایت میں ان میں سے کسی کو بھی نہ توگرفتارکیاگیا اور نہ ہی خطرناک اسلحے کی برآمدگی کاکوئی کیس بنایا گیا۔ پولیس کے ہمراہ رخصت ہونے سے پہلے حجاب حسن آرا کے گلے لگ کر بلک بلک کر روئی تھی۔ چند ہی روزمیں حسن آرا کے ساتھ اس کا کچھ ایسا ہی مضبوط جذباتی تعلق بن گیا تھا جیسے برسوں کی گہری شناسائی ہو۔ بازارمیں اچھا خاصا رش جمع ہوچکا تھا۔ ہر چہرے پر تجسس اور سنسنی کا منظر تھا۔ ڈپٹی اعوان نے حجاب کو عزت واحترام سے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور مرشدلوگوں کو پابند کیا کہ بوقت ضرورت ان کو جب بھی تھانے یا گواہی کی غرض سے عدالت طلب کیا جائے تو وہ لازمی پیش ہوں۔مرشد مسلسل خاموش تھااس کا چہرہ پتھر کی تصویر دکھائی دیتاتھا۔گلی میں بازار اور محلے والوں کا ہجوم تھا۔ کچھ چہرے چوباروں کی کھڑکیوں اورجھروکوں سے لگے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔

مرشد حجاب کے ساتھ ڈپٹی کی گاڑی تک گیا لیکن چپ رہا اس کے ہونٹ سختی سے بند رہے حجاب سرجھکائے مسلسل آنسو بہاتی رہی۔ اس کی ذہنی وجذباتی حالت خاصی دگرگوں دکھائی دیتی تھی۔ اس وقت، اس نے مرشد کی لائی ہوئی ایک چادر ہی میں خود کو چھپا رکھا تھا۔ جس وقت گاڑی اسٹارٹ ہوکر حرکت میں آئی اس وقت اس نے سر اٹھاتے ہوئے اپنی بھیگی ہوئی سرخ آنکھوں سے مرشد کی طرف دیکھا تھا اور وہ ایک آخری نظر مرشد کے دل وجان کو چیرتی ہوئی اس کی روح کی گہرائیوں تک جااتری۔

اس ایک خاموش نظر میں یکبارگی کئی طرح کے جذبات سسک کر رہ گئے تھے۔ بے کسی، شکر گزاری، ممنونیت، احسان مندی اور الوداع … خداحافظ وہ اس ایک نظر سے بہت کچھ کہہ گئی تھی۔مرشد بے حس وحرکت ساکت کھڑا پولیس گاڑیوں کے اس قافلے کو لمحہ بہ لمحہ دور جاتے دیکھتا رہا۔

٭ ٭ ٭

خواب تو خواب ہوتے ہیں خود بہ خود آنکھوں میں آبراجتے ہیں۔بن بلائے مہمانوں کی طرح شاید یہ انسانی خمیر کی ترکیب کا حصہ ہوتے ہیں۔ انسان کے خون سے جنم لیتے ہیں اور آنکھوں میں آچمکتے ہیں۔بچپن ،نوجوانی اور بڑھاپے کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں،بس وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ انسانی ترجیحات کے ساتھ ساتھ خوابوں کی شکل بھی بدلتی رہتی ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ترجیحات اور خواب آپس میں لازم و ملزوم ہوجاتے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں کوئی کمی بیشی ہوتی ہے نہ خوابوں میں بعض اوقات کوئی ایک ہی خواب انسان کی پوری زندگی پر محیط ہوجاتاہے۔ انسان تا زندگی اس کے اثر سے نکل نہیں پاتااور ساری زندگی کسی ایک خواب کی اسیری میں گزار دیتا ہے۔ ایسے خواب انسان کو بنا سنوار بھی دیتے ہیں اور بگاڑ بھی دیتے ہیں۔ اندر ہی اندر انسان کو چاٹ لیتے ہیں،نگل جاتے ہیں

 حسن آر کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیاتھا۔ اس کے بے شکل خواب کو میر ارشد اللہ نے اپنی شکل دی تھی اور پھر خود نجانے وقت کے منظر نامے سے اوجھل ہو کر کہاں گم ہوگئے تھے، کدھر کھو گئے تھے اس کے بعد حسن آرا کے خواب کدوں میں کبھی کوئی اورخواب روشن نہیں ہوا۔ مقفل کواڑہمیشہ کسی آہٹ ،کسی دستک کے منتظر ہی رہے۔

بقول شاعر

آسیب زدہ گھر کا میں وہ درہوں دوستو!

دیمک کی طرح کھا گئی دستک کی جس کو آس

اس کی خلوت صرف ایک رات کے لیے آباد ہوئی تھی۔ وصل ونشاط کی ایک ہی شب نصیب ہوئی تھی اسے۔ اس کے اگلے دو دن وہ بخار کی حدت میں پھنکتی رہی۔ دوسری ملاقات میں قطعی غیرمتوقع طورپر میرصاحب نے اس سے نکاح کرنے کی خواہش کا اظہارکرکے اسے ششدر کردیاتھا۔ ہفتہ دس دن میں ان کے درمیان تین چار ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ خود تو پہلی ہی نظر میں اپنا سب کچھ میر صاحب پروار چکی تھی۔ان ملاقاتوں میں میر صاحب نے بھی واشگاف الفاظ میں اس بات کا اظہار کردیا کہ ان کی اپنی جذباتی حالت بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے شدید محبت کے منہ زور جذبے نے انتہائی برق رفتاری سے ان دونوں کو یوں لپیٹ میں لے لیا تھا کہ معاشرے کی تمام کھوکھلی دیواریں بھربھری مٹی کی طرح ڈھیر ہو گئیں۔ دونوں نے ہی پورے خلوص اور دیانت داری سے اپنی اپنی ذات کی اس سچائی کو تسلیم کرلیا تھاکہ ایک دوسرے کے بغیر جینا زندگی بھرایک نا ختم ہونے والی سزا کے جیسا ہوگا، اس کے باوجود حسن آرا کا کہناماننا یہ تھا کہ میر صاحب اسے اتنا بلند اور معتبر مقام دینے کے بجائے اسے صرف اپنی کنیز اپنی داسی کے طورپر اپنے قدموں میں جگہ دیئے رکھیں اور بس…ان کا خاندانی جاہ و حشم اور نجابت وشرافت کا سلسلہ حسن آرا کے نزدیک اتنا عظیم اور مقدس تھا کہ وہ اس کا حصہ بننے کا تصور بھی اپنے لیے گناہ سمجھتی تھی مگر میر صاحب اس کے خیالات سے متفق نہیں تھے اس روز وہ اسی سلسلے میں نزہت بیگم سے بات کرنے پہنچے تھے۔ تینوں حسن آرا ہی کے کمرے میں موجود تھے۔ ان کا مدعا سننے کے بعد نزہت بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔

”آپ تو موری کی اینٹ کو محل کی پیشانی پر سجانے کی بات کررہے ہیں میر صاحب!بھلا روڑی کومسجد سے کیا نسبت خاک ِپاپوش پاﺅں میں ہی ٹھیک رہتی ہے۔ آپ اسے دستارپر اٹھانے کی بات کررہے ہیں!“

”ہم کچھ ایسا غلط نہیں کہہ رہے۔ وہی بات کہہ رہے ہیں جو ہمارے دل میں ہے۔ “میرصاحب سامنے والی مسہری پر گاﺅ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔

”ان گلی کوچوں میں دل والوں کے لاتعداد قصے سسکتے ہیں۔ بہت سی دل والی طوائفیں آنکھوں میں شرافت کے خواب سجائے دل والوں کے گھروں کو

رخصت بھی ہوتی ہیں مگر چند ماہ یا سال ڈیڑھ سال بعد ہی پھر ذلیل وخوار ہو کر یہیں مرنے سڑنے لوٹ آتی ہیں۔ جوہڑ کی مٹی جوہڑ ہی میں سکون پاتی ہے۔ آپ ہمارے حال پر رحم کریں میر صاحب! ایسی فرمائش مت کریں جو ہم ابھاگنیں پوری کرسکنے کی بساط نہیں رکھتیں۔“

”ہم مان لیتے ہیں کہ آپ کی پریشانی اور اندیشے بجا ہیں۔ آپ ہمیں بتا دیں کہ ہم آپ کے اطمینان و تسلی کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ ہم ہر طرح کی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔“

نزہت بیگم تذبذب کا شکار ہوئی۔ میر صاحب کی سنجیدگی اسے سمجھا رہی تھی کہ پنچھی پوری طرح جال میں پھنسا ہوا ہے لیکن جو تقاضا میر صاحب کررہے تھے وہ نزہت بیگم کے خیال میں خاصا ٹیڑھا معاملہ تھا۔ یہ پنچھی تو جال ہی لے اڑنے کے چکرمیں تھا اور اس جال میں تومیرصاحب جیسے اور بھی کچھ پنچھی پکھیرو بری طرح الجھے ہوئے تھے ایک دو کے ساتھ تو اس نے اپنے طورپر کچھ معاملات بھی طے کر رکھے تھے۔ ایسے میں اگر وہ میر صاحب کی بات مان لیتی تو دوسرے شیدائی اس کے لیے مسائل کھڑے کرسکتے تھے۔ وہ بے اختیار سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولی۔

”نہیں میر صاحب! ہمیں کوئی ضمانت درکار نہیں۔ ہم لوگ تو بازار میں سجے کھلونے ہیں۔ کھیل اور دل بہلاوے کا سامان۔ آپ ہمیں ہماری اسی حیثیت اور حقیقت کے ساتھ جینے دیں۔ باقی آپ جب جی چاہے تشریف لائیں۔ ہم دل جان سے آپ کی ہر طرح کی سیوا خاطر کے لیے چوبیس گھنٹے حاضر ہیں۔ ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھائیں گے حضور کو، بس ہمیں ایسے کسی مشکل امتحان میں مت ڈالیں۔ ہماری جگہ اپنی جوتیوں ہی میں رہنے دیں۔ آپ جیسی ہستی کے ساتھ رشتے داری کا توہم سوچ بھی نہیں سکتے۔“

”رشتہ تو بن چکاہے نزہت بیگم! اب تو ہم صرف اس رشتے کو حلال اور شرعی شکل دینا چاہتے ہیں۔ آخر اس میں قباحت ہی کیا ہے؟“نزہت بیگم کی آنکھوں کے سامنے فوراً ہی چوہدری اکبر کی کرخت صورت لہرا گئی۔

”قباحتیں تو بہت ساری ہیں لیکن آپ ٹھیک سے ان کا اندازہ نہیں کرسکتے، نہیں سمجھ سکتے آپ!“

”ہم سمجھنے کوتیار ہیں۔ آپ سمجھائیں ہمیں۔“

نزہت بیگم پہلو بدل کر رہ گئی۔ میر صاحب جیسی اسامی کو وہ گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ یہاں سے وہ من چاہا اور منہ مانگا فائدہ حاصل کرسکتی تھی لیکن ساتھ ہی چوہدری اکبر کاخیال اسے بری طرح پریشان کرجاتا تھا۔ یہ کہنا کچھ ایسا غلط نہیں ہوگا کہ وہ کسی حد تک چوہدری اکبر کی طرف سے خائف تھی۔

”آپ کیوں اپنے اجلے دامن کو داغ دارکرنے پر تلے ہیں۔ آپ کے بیوی بچے ،والدین ،خاندان والے کبھی اسے قبول نہیں کریں گے۔“

نزہت بیگم نے اپنے پہلو میں خاموش بیٹھی حسن آرا کی طرف اشارہ کیا۔ ”اس کا ماضی ہمیشہ ایک طعنے ،ایک گالی کی صورت اس کا تعاقب کرے گا۔ نہ یہ چین سے جی پائے گی نہ آپ سکون سے رہ پائیں گے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے اور اس بے چاری کے لیے مصیبت و اذیت کا سامان مت کیجئے۔ اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔“

”ٹھیک ہے، مزید جو قباحتیں ہیں وہ بھی بیان کردیجئے۔“میر صاحب کے اطمینان و سکون میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ نزہت بیگم ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولی۔

”یہ جذبات صرف آپ ہی نہیں رکھتے شوکیس میں سجے کھلونے کسی ایک گاہک کے لیے مخصوص نہیں ہوتے۔ یہ ایک گڑیاہے، شوکیس میں رہے گی تو سبھی کے دل ونظر کی تفریح کا سامان بنی رہے گی۔ میں اسے کسی ایک کے سپرد کردوں، کسی مخصوص فرد کو سونپ دوں تو باقیوں کوکیاجواب دوں گی یہاں بڑے بڑے بددماغ اورمزاج کے ٹیڑھے لوگ اس کی خاطر آپس میں ضد ڈالے بیٹھے ہیں۔ میرا تو جینا حرام کردیں گے وہ۔‘

”مثلاً کن کی بات کررہی ہیں آپ؟“میر صاحب نے بغور نزہت بیگم کی صورت دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ وہ کسی حد تک سمجھ گئے تھے کہ نزہت بیگم کا اشارہ کس سمت ہے۔

”کئی لوگ ہیں ،کس کس کا بتاﺅں آپ کو اور بتانے سے حاصل بھی کیا ہوگا؟“

”پھر بھی؟“

”سب سے پہلے تو چوہدری اکبر ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں اسے۔ ایک دم پاگل ہے وہ حسن آرا کے لیے۔ بالکل جنونی…وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ہم غریب فنکار لوگ ہیں۔ دشمنیاں اور مخالفتیں مول نہیں لے سکتے۔ سب کی خوشی کا خیال رکھنا پڑتا ہے ہمیں۔“

چوہدری اکبر کے ذکر پر حسن آرا نے ناگواری کی ایک تندلہر اپنے لہو میں پھیلتی ہوئی محسوس کی۔ میر صاحب کو بھی ایک ذرا چپ لگ گئی تھی۔

”میں کوئی اس کی زرخرید تو نہیں ہوں اماں!“ حسن آرا سے چپ نہیں رہاگیا تھا۔ نزہت بیگم اس کی طرف دیکھتے ہوئے ناصحانہ انداز میں بولی۔

”طوائف سب زر والوں کی ہوتی ہے اورپھر بھی کسی کی نہیں ہوتی۔ اپنی اس ناگواری کو اپنے کلیجے کا خون پلا، قابومیں رکھ اسے۔ زیادہ تلملانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی بہت کچھ سیکھنا سمجھنا ہے تجھے۔“حسن آرا شاید مزید کچھ کہتی مگر میر صاحب کی بھاری آواز نے اسے چپ رہنے پر مجبور کردیا۔

”ٹھیک ہے نزہت بیگم!ہم نے یہ ساری قباحتیں جان لیں۔ جہاں تک بات ہمارے دامن کے داغ دار ہونے کی ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو داغ ہمارے دامن پر لگ چکا ہے وہ حسن آرا سے نکاح کی صورت ہی میں دھل سکتا ہے۔ رہی بات بیوی بچوں یا خاندان کی تو انہیں بھی حسن آرا کو قبول کرنا ہی پڑے گا اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ زندگی ہم نے گزارنی ہے۔ حسن آرا دنیا کے جس کونے میں چاہیںگی ہم وہیں حسن آرا کے لیے الگ سے ایک چھوٹی سی جنت تعمیر کردیں گے اوررہی بات اکبر علی کی تو…“ میر صاحب اچانک اٹھ کھڑے ہوئے۔

”اکبر علی کی طرف سے بھی آپ اپنے ہر اندیشے اور پریشانی کو ذہن سے جھٹک دیں۔ اسے ہم خود سمجھالیں گے۔ ابھی اجازت چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے آپ کی یہ اکبرعلی والی پریشانی ہی کا سدباب کرلیں، پھر ملتے ہیں۔فی امان اللہ۔‘ ‘اس کے بعد وہ رکے نہیں ۔

حسن آرا کو پورا یقین تھا کہ میر صاحب بہ احسن و خوبی چوہدری اکبرعلی کو سنبھال لیں گے،لیکن دوسرے روز صبح جو واقع پیس آیا وہ حسن آرا کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

اگلے روز صبح نو بجے کے قریب کچھ آوازوں پر اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا یہ کمرہ اوپر والی منزل پر تھا اور کمرے کے باہر ایک ہلچل، ایک شور سنائی دے رہا تھا۔ ابھی اس کا دماغ پوری طرح بے دار نہیں ہوا تھا کہ کمرے کا دروازہ ایک دھماکے کی آواز سے کھل گیا۔ آنے والے نے دروازے پر لات ماری تھی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔توقع کے بالکل خلاف آنے والا چوہدری اکبر علی تھا۔ اس کے نتھنے پھولے ہوئے تھے اور چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا۔ وہ فرش پر بچھے قالین کو پیروں تلے روندنے والے انداز میں چلتا ہوا حسن آرا کے سامنے آرکا اور کولہوں پر ہاتھ لگاتے ہوئے قہر بار نظروں سے اسے گھورنے لگا۔ حسن آرا کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ باہر سے آنے والی ہنگامہ خیز آوازوں سے اس کو اندازہ ہوا کہ ہو نہ ہو چوہدری کے کارندوں نے جاجے اور نورے وغیرہ کو دبوچ رکھا ہے۔

”آخر اپنے رانڈ پنے کی آگ ٹھنڈی کر ہی لی نا تو نے؟“ چوہدری کے تنک لہجے میں زہریلی تلخی تھی۔ سانپ سی پھنکار تھی۔

”گوشت کی ہٹی (دکان) کا بھی افتتاح کر ہی دیا تیرے اندر کا گندا خون حرام توپ پر اتر ہی آیا۔ اپنی اصل اوقات پر آگئی تو۔“

”ہاں چوہدری صاحب! بالکل درست کہہ رہے ہیں آپ… ہم لوگوں کی اوقات تو یہی کچھ ہے، لیکن… آپ کو تو اپنی شانِ مبارک کا کچھ پاس رکھنا چاہئے۔ آپ کی آمد کا یہ طریقہ اور یہ زبان بھلا کون سی تہذیب سے تعلق رکھتی ہے؟“ اس نے اپنے اندر کی ناگواری کو دبانے چھپانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔ چوہدری نے آگے بڑھ کر بے دردی سے اسے بالوں سے دبوچ لیا۔

”تہذیب کی بات کرتی ہے دھوکے باز کنجری! اس ارشد اللہ کے ساتھ بستر گرماتے ہوئے تیری تہذیب کدر گئی تھی؟ حرافہ کہیں کی مجھ سے تہذیب کا پوچھتی ہے۔ میری محبت اور نرمی کا نجائز فیدہ اٹھایا ہے تو نے۔“

”میں کسی کی زر خرید نہیں ہوں۔“ حسن آرا نے چوہدری کا ہاتھ جھٹک دیا۔ اپنی مرضی کی مالک ہوں۔ جس کا چاہے بستر گرماﺅں۔ آپ کون ہوتے ہیں مجھ پر یوں رعب جمانے والے؟“ اس کا جملہ مکمل ہوا ہی تھا کہ چوہدری کا زناٹے دار تھپڑ اس کے دائیں گال پر پڑا۔ بکھرے ہوئے بال اچھل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے۔ چوہدری نے گھٹنا پلنگ پر ٹکاتے ہوئے اس کی گردن اپنے پنجے میں جکڑ لی اور دانت پیستے ہوئے غرایا۔

”میں تیرا اصل عاشق صادق ہوتا ہوں۔ ہزاروں روپیہ اور ہزاروں کے تحفے تحائف دے چکا ہوں۔ تو میری زر خرید ہی ہے اور میری زرخرید ہوتے ہوئے تو نے اپنا پنڈا، اپنا گوشت کسی اور کو کھلا دیا کتیا کہیں کی اوپر سے مجھے ہی نخرے دکھا رہی ہے۔ بکواس کر رہی ہے… تیری زبان کاٹ ڈالوں گا میں، تو نے سمجھ کیا رکھا ہے۔“

اس نے بری طرح حسن آرا کو جھنجوڑ دیا۔ اس کے تھپڑ کی جلن حسن آرا کے نازک رخسار میں سنسنا رہی تھی۔ پنجے کی گرفت اتنی سخت تھی کہ حسن آرا کو یوں لگا جیسے اس کی گردن کی ہڈی چٹخ جائے گی۔ وہ باوجود کوشش کے اس جنونی گرفت سے اپنی گردن آزاد نہیں کراپائی۔

”میں نے تجھے اس لئے ڈھیل دے رکھی تھی کہ تو خود سے میرے لیے اپنا دماغ تیار کرلے۔اپنی مرضی سے اپنا آپ میرے حوالے کردے اور تو… تو اس ارشد اللہ پر نچھاور ہوگئی۔ کیوں… مجھ میں کیا کمی تھی؟ جوانی کی اگ اتنی ہی بھڑک اٹھی تھی تو اک بار اپنے منہ سے بھونکتی تو سہی تیری مکمل طور پر تسلی نہ کرادیتا تو پھر بے شک کہیں اور منہ مارلیتی۔ مگر نہیں… تو نے منہ کالا کیا اور پھر اپنے یار ہی کو سفارشی بناکر میرے پاس بھیج دیا میرے جیتے جی کسی اور کا عشق چڑھ گیا تیرے دماغ کو… عشق کی چادر اوڑھ کر رنڈی سے شریف عورت بننے چلی ہے۔ ویاہ کرنے کی سوجھی ہے تجھے! میں… میں ڈکرے کردوںگا تجھ کسبی کے۔“ چوہدری نے زور دے کر حسن آرا کا منہ تکیے میں گھسیڑ رکھا تھا۔ وہ سجدے سی حالت میں تھی۔ اسی وقت چوہدری کے دو کارندے نزہت بیگم کو دھکیلتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس کے بھی بال بکھرے ہوئے تھے، پاﺅں ننگے تھے اور چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ صاف نظر آرہا تھا کہ چوہدری کے رائفل بردار اسے سوتے میں سے اٹھاکر گھسیٹ لائے ہیں۔

”آجا… تو بھی آجا حرام کی جنی!“ چوہدری، حسن آرا کو چھوڑ کر نزہت بیگم کی طرف متوجہ ہوا۔ ساتھ ہی اس نے اندر آنے والے اپنے کارندوں کو مخاطب کیا۔ ” کوئی تیل پیٹرول کا انتظام کرو اوئے! ان دونوں کنجریوں کو اس کوٹھے کے ساتھ ہی زندہ جلانا ہے۔“

”جی چوہدری صیب! ابھی کرتے ہیں۔“ ”ان میں سے ایک نے مستعدی سے کہا اور پھر فوراً ہی دونوں پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔ نزہت بیگم پہلے ہی بری طرح گھبرائی ہوئی تھیں، اب چوہدری اکبر علی کے غضب ناک تیور دیکھتے ہوئے اس کی حالت بالکل ہی پتلی ہوگئی۔

”کک… کیا ہوا چچ، چوہدری صاحب ! آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں۔ کک… کیا حسن آرا سے کوئی غلطی ہوئی ہے؟“

”سچ کہا ہے کہنے والے نے کہ طوائف کے مکر کی کوئی حد نہیں ہوتی… اس کی بھوک بھی امر ہوتی ہے۔ نہ مال کی بھوک ختم ہوتی ہے نہ کھال کی۔“

چوہدری نے قریب پہنچ کر اس کاٹیٹوا دبوچا اور اس کی ڈری گھبرائی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے زہر خند لہجے میں بولا۔

”ففے کٹنی لومڑی! ابھی کج دیر بعد جب تیری یہ گندی چمڑی جلے گی اور نیچے سے چربی ،تیل بن کر بہے گی تو تجھے خود سمجھ آجائے گا کہ کس کس سے غلطی ہوئی ہے۔“ اس نے دھکا دیا تو نزہت بیگم لڑکھڑاکر عقب میں پڑے موڑھے سے ٹکرائی اور دھڑام سے قالین پر آرہی۔ حسن آرا جو پلنگ پربیٹھی اپنی گردن سہلا رہی تھی فوراً اٹھی اور لپک کرنزہت بیگم تک پہنچ آئی۔

”اماں… تو ٹھیک ہے نا!“

”چچ، چوہدری صاحب بات کیا ہوئی ہے؟ کچھ بتائیں تو۔“ نزہت بیگم دوبارہ چوہدری اکبر سے مخاطب ہوئی۔ اسے اندازہ تو بخوبی ہوچکا تھا کہ کیا ہو اہے، کیا معاملہ ہے۔ پھر بھی وہ انجان ہونے کا اظہار کر رہی تھی۔ چوہدری کی طاقت، اثر و رسوخ اور سفاکی سے خوف زدہ تھی اور پھر یہ بھی تھا کہ حسن آرا کو لالچ دے کر وہ اسے لوٹتی رہی تھی ،کھاتی رہی تھی، مسلسل مال بٹورتی رہی تھی۔ اس نے اپنے ذہن میں ایک منصوبہ ترتیب دے رکھا تھا، لیکن اب چوہدری کے تیور دیکھ کر وہ جان چکی تھی کہ بھانڈا پھوٹ چکا، سب کچھ چوپٹ ہوچکا ہے۔

”کنجریوں! تم نے چوہدری اکبر علی کے ساتھ دھوکے بازی کی ہے… چوہدری اکبر علی کے ساتھ۔ اتنے دن ہوگئے اور تم نے مل کر مجھے پھدو بنائے رکھا… کھوتے کا پت سمجھے رکھا مجھے کیا کمی تھی مجھ میں اور کیا کمی چھوڑی میں نے… اس ارشد اللہ نے جو کچھ بھی نتھ کا دیا، مجھے بتاتی تو میں اس سے دگنا وار دیتا تم کتیاﺅں پر… مجھ سے کہا تو ہوتا۔ دو چار مربعے تمہارے نام لکھ دیتا، مگر نہیں… تم نے کہا کہ باقیوں کو بھی نچوڑ لیا جائے اور چوہدری اکبر کو بھی بے وقوف بناکر لوٹتے رہیں۔“

”تم جو کرتے رہے اپنی مرضی سے کرتے رہے۔ زبردستی تحفے دیتے رہے۔ میں نے کبھی تم سے کوئی فرمائش نہیں کی، کبھی کچھ طلب نہیں کیا اور نہ ہی کبھی عہد و پیماں سے تمہاری کوئی آس امید بندھائی۔“ حسن آرا کے لہجے میں ترشی تھی۔ آنکھوں میں ایک آتشیں نمی تھی۔ چوہدری نے ایک موڑھے کو ٹھوکر مار کر حسن آرا پر اچھالا، جسے اس نے بازو سے روکا۔

”اس بڑی کنجری! اپنی اس ماں سے پوچھ جو عہدوپیمان بھی کرتی رہی اور فرمائشیں بھی… بول ری… بول، بتا اسے بھی اور مجھے بھی کہ تیری کون سی فرمائش رد کی میں نے۔ بھونک“

حسن آرا دوبارہ کچھ کہنے لگی تھی کہ نزہت بیگم اس کا بازو دباتے ہوئے جلدی سے بولی۔

”نن، نہیں چوہدری صاحب! آپ کی دریا دلی اور سخاوت میں تو کوئی شک و شبہ ہی نہیں۔ بس حسن آرا سے ناسمجھی میں غلطی ہوگئی۔ آپ کے سامنے ہی تو ہے۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے؟ بچی ہی تو ہے۔ بالکل ناسمجھ اور کچے ذہن کی ہے، بس اسی لیے ذرا گڑبڑا گئی۔ معاف کردیجئے اسے۔“

”ذرا گڑبڑاگئی… اوئے کھوتا کھوہ میں جا پڑاسب کچھ لٹا چکی یہ اور تو بھونک رہی ہے کہ ذرا گڑبڑا گئی… میں نے محبت کی تھی اس سے، دل سے چاہا تھا اس حرام زادی کو۔ تم نے… تم دونوں نے دھوکا دیا ہے مجھے۔ میری محبت کا مذاق اڑایا ہے۔“

”محبت… محبت کا مذاق۔“ حسن آرا طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ”اب تم خود اپنا مذاق اڑا رہے ہو چوہدری! ایک طوائف کے کوٹھے پر کھڑے ہوکر ایک طوائف… ایک کسبی سے محبت کی بات کر رہے ہو۔ محبت… یہ ہنسی مخول کی بات نہیں لگتی تمہیں؟“

ایک لمحے کو تو یہی محسوس ہوا کہ چوہدری حسن آرا پر ٹوٹ پڑے گا اور وحشیانہ انداز میں اسے تھپڑوں اور ٹھوکروں پر رکھ لے گا، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ وہ بس اپنی جگہ کھڑا پھاڑ کھانے والی نظروں سے اسے گھورتا رہا۔ نزہت بیگم نے فوراً اٹھ کر حسن آرا کو جھنجوڑا اور جھڑکا۔

”تو اپنا منہ بند رکھ۔ پہلے ہی تو نے جو حماقت کی ہے اس نے مجھے چوہدری صاحب کی نظروں میں دوکوڑی کا بھی نہیں رہنے دیا۔ مزید جہالت کا

ثبوت مت دے۔ خبردار جو ایک لفظ بھی تو نے زبان سے نکالا تو۔“

حسن آرا نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا۔ نزہت بیگم نے آنکھوں ہی آنکھوں جیسے درخواست گزاری، اسے چپ رہنے کی تلقین کی اور پھر چوہدری کی طرف پلٹ پڑی۔ ”چوہدری صاحب! آپ بہت بڑے آدمی ہیں۔ آپ کا دل بھی بہت بڑا ہے۔ ہمیں معاف کردیجئے۔ ہم … ہم تو آپ کے جوتوں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہیں۔ پہلی اور آخری غلطی، خطا سمجھ کر معاف کردیں۔“

چوہدری کے چہرے کا تناﺅ کم ہوگیا۔ چہرے پر ایک انتہائی زہریلی اور سفاک مسکراہٹ اتر آئی۔ وہ چند قدم پیچھے ہٹ کر حسن آرا والے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے بے رحم لہجے میں بولا۔

”پہلی شہلی کا تو پتانئیں، ہاں… یہ تم دونوں کنجریوں کی آخری غلطی ضرور ہے۔آئندہ کسی حرام زادی غلطی کے لئے میں تم دونوں کو زندہ چھوڑنے والا نئیں ہوں تیری اس کتا کھانی کو میری محبت ہنسی مخول کی بات لگتی ہے۔ محبت کی زندگی اس کے وارے میں نہیں آئی، اب یہ نفرت دیکھے گی… نفرت کی موت مرے گی یہ اور… ساتھ تو ففے کٹنی بھی جل کر کولہ بنے گی۔“ چوہدری کا لہجہ اس قدر سفاک اور سرد تھا کہ نزہت بیگم کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک برفیلی لہر مچل کر رہ گئی۔ ٹھیک اسی وقت کمرے کے دروازے پر وہی دو کرخت صورت رائفل بردارنمودار ہوئے جو نزہت بیگم کو یہاں تک گھسیٹ کر لائے تھے۔ دونوں کے ہاتھوں میں پلاسٹک کین تھے۔ شاید یہ وہ نیچے کھڑی جیپ میں سے اٹھا کر لائے تھے۔

”چوہدری صیب! پیٹرول…“ ان میں سے ایک چوہدری اکبر کی طرف دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں بولا۔ چوہدری کے چہرے کی سفاکی اور آنکھوں کی درندہ چمک میں کچھ مزید اضافہ ہوگیا۔ اس نے حسن آرا اور نزہت بیگم کی طرف شدید حقارت سے دیکھتے ہوئے رائفل برداروں سے کہا۔

”ہاں… نہلا دو ان دونوں حرامنوں کو اور اس کمرے کو بھی۔“

حسن آرا کے چہرے پر خوف یا پریشانی کا نام و نشان نہیں تھا، بلکہ وہاں ناگواری، نفرت اور طیش کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔ البتہ نزہت بیگم کا چہرہ بالکل زرد پڑگیا تھا۔

”چچ، چوہدری صاحب! خدا کے لیے اتنا غصہ نہ کیجیے۔ ہم… ہم لوگ مجبور ہوگئے تھے۔ ہمیں معاف کردیجئے۔“ اس نے آگے بڑھ کر چوہدری کے پاﺅں پکڑنے چاہے تھے، مگر چوہدری کی لات سینے میں کھا کر چیختی ہوئی پشت کے بل گری، اس کی قلا بازی ہی لگ گئی تھی۔ ڈشکرا کین کا ڈھکن کھولتے ہوئے آگے بڑھ آیا تھا۔ حسن آرا نے لپک کر نزہت بیگم کو سنبھالا، ڈشکرے نے کین سے پیٹرول ان دونوں پر پھینکا، نزہت بیگم پیٹرول کی تیز بو اور اپنی گردن اور کندھے پر پھیلتی اس کی نمی کو محسوس کرتے ہوئے بے ساختہ چیخ پڑی۔

حسن آرا نے تڑپ کر پیٹرول پھینکنے والے کو دھکا مارا تو چوہدری نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے جھپٹ کر اسے بالوں سے دبوچ کر اتنے زور کا جھٹکا دیا کہ بے ساختہ اس کے حلق سے ایک درد ناک چیخ خارج ہوگئی۔ وہ لڑکھڑا کر گھٹنوں کے بل گری اور چوہدری نے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا۔

”حرام زادی کتیا! شادی کرے گی تو… چوہدری اکبر علی کو ٹھکراکر کسی اور سے دل لگایا تو نے… تجھے بہت بار سمجھایا تھا کہ میرے علاوہ کسی دوسرے کا کبھی مت سوچنا… مت سوچنا… تیرے سرکو عشق کا بخار چڑھ گیا۔ تیرا یہ میلا گندا،مسلا کچلا پنڈا…یہ خوبصورت کھال، آج جلا کر کولہ بنادوں گا میں۔ تو نے … تو نے چوہدری اکبر علی کے ساتھ دغا نئیں کیا، اپنی عبرت ناک موت کا سامان کیا ہے۔“

دو چار منٹ میں ہی چوہدری ہانپ گیا اور حسن آرا بے سدھ سی ہوکر اس کے پیروں میں بکھری بکھری سی پڑی رہ گئی۔ چوہدری کے کارندے اتنے میں

نزہت بیگم کو پیٹرول سے نہلاچکے تھے اور وہ برابر واویلا مچارہی تھی۔ چوہدری کی منتیں کر رہی تھی۔ جانے کون کون سے واسطے دے رہی تھی اسے، لیکن چوہدری کی سماعت پر… اس کے ذہن و دل پر نفرت و کدورت کے پردے پڑچکے تھے… اسے تو جیسے کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔

اس نے جھپٹ کر ایک کارندے سے کین چھینا اور نیچے پڑی کراہتی ہوئی حسن آرا کو بھی پیٹرول سے نہلادیا۔ دوسرا کارندہ کین لیے کمرے کی دیواروں اور بستروں پر پیٹرول چھڑک رہا تھا۔ 

چوہدری نے حسن آرا کی جودرگت بنائی تھی اس کے سبب وہ تو شاید ٹھیک سے اپنے حواسوں میںہی نہیں تھی، البتہ نزہت بیگم سب کچھ دیکھ سن رہی تھی۔ شدت غضب سے چوہدری کی صورت بگڑی ہوئی نظر آرہی تھی۔ اس کے کارندوں کی شکلیں بھی بے رحمی اور سفاکی کی زندہ تصویریں دکھائی دے رہی تھیں۔ نزہت بیگم کو لگا کہ وہ جل کر مرنے سے پہلے ہی اس بھیانک موت کے خوف و دہشت سے مرجائے گی۔

صبح کا وقت تھا۔ پورا محلہ سو رہا تھا۔ یہ ساراتماشہ اوپر والی منزل پر جاری تھا۔ نزہت بیگم کو باہر سے کسی مداخلت یا مدد کی ذرا بھر بھی کوئی توقع یا امید نہیں تھی۔ اس چار دیواری کے اندر اس کے صرف دو پالتو بدمعاش تھے۔ جاجا اور نورا اور ان دونوں کی بے بسی اور لاچاری وہ باہر سے دیکھ کر آرہی تھی۔ چوہدری کے پانچ چھ بھیانک صورت ڈشکروں نے ان دونوں کو مارپیٹ کر فرش پر لٹارکھا تھا اور وہ ان ڈشکروں کی رائفلوں کی زد پر بے چارگی کا منظر بنے پڑے تھے۔

”ماچس دے اوئے!“ چوہدری نے غراتے ہوئے ،ہاتھ ایک رائفل بردار کی طرف بڑھایا تو اس نے پھرتی سے اپنے کھسے میں سے ماچس نکال کر چوہدری کی ہتھیلی پر دھردی۔ چوہدری کی قہر آلود نظریں فرش پر پڑی حسن آرا پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کے چہرے پر نرمی یا رحم کی معمولی سی رمق تک نہیں تھی۔ نزہت بیگم کا چہرہ لٹھے کی طرح سفید پڑچکا تھا۔ اس نے رحم اور معافی کی التجا کرنے کے لیے بولنا چاہا مگر اس کا حلق اس قدر خشک پڑچکا تھا کہ اس کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا۔ بس ایک عجیب پھنسی پھنسی سی بے معنی آواز بامشکل اس کے اپنے کانوں تک ہی پہنچ سکی۔

چوہدری نے ماچس میں سے تیلی نکالی تو نزہت بیگم نے بے اختیار آنکھیں بند کرلیں۔ اس کے پورے وجود پر لرزہ طاری تھا۔ وہ ابھی مرنا نہیں چاہتی تھی۔ ابھی تو بہت سی ناآسودہ خواہشیں باقی تھیں… دل و دماغ میں تمناﺅں اور آرزوﺅں کا ایک پورا جہان آباد تھا… بہت سے منصوبے ابھی ادھورے تھے… اسے یقین ہوگیا کہ وہ تمام منصوبے، خواہشیں اور خواب اب اس کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہوجائیں گے۔ محض چند لمحے میں آگ ،کسی جہنمی سزا کی طرح اس کے ماس پر جھپٹنے و الی تھی۔

٭…٭…٭                                                                            

اس دل چسپ اور سنسنی خٰیز داستان کو آگے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے