قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
مرشد
Urdu Novel Murshid |
حجاب بی بی عصر کے قریب ڈپٹی اعوان کے ہمراہ روانہ ہوئی تھی اور اب عشاءکی اذانیں بھی ہو گزری تھیں، مگر مرشد پر ہنوز وہی خاموشی اور سکوت کی سی کیفیت حاوی تھی۔ کچھ دیر وہ اپنے کمرے میں بند رہا تھاپھر کافی دیر صحن میں ٹہلتا رہا۔اس کے بعد زینے طے کرتا ہوا چھت پر پہنچ گیا۔
حجاب بی بی کا نجیب الطرفین سید زادی ہونے والا انکشاف اس کے اعصاب پر بجلی بن کر گرا تھا۔ اس سے پہلے تک جن باتوں اور لمحات کو یاد کرکرکے وہ محظوظ ہوتا رہا تھا اب وہی مسلسل اس کے دل و جان کو جھنجوڑ رہے تھے۔ اسے ندامت اور پشیمانی میں مبتلا کر رہے تھے۔
ساون اور مراد نے حسب عادت اس کے پیچھے آکر اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کی، مگر وہ مسلسل جلے پیروں کی بلی کی طرح پوری چھت پر چکراتا رہااور عشاءکی اذانوں کے وقت مراد کے سامنے، دوسری چارپائی پر سرجھکا کر بیٹھ گیا۔ اب اذانیں ختم ہوئے بھی کچھ دیر گزر چکی تھی۔ ساون تھوڑی دیر تک واپس آنے کا کہہ کر اپنے گھر کی طرف چلا گیا تھا۔ مرشد ہنوز سرجھکائے مراقبے کی سی حالت میں چپ بیٹھا تھا۔
”واپس آجا مرشد! واپس آجا… بہت ہوچکی۔“ مراد کے ایک بار پھربولنے پر مرشد نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا، مگر بولا کچھ نہیں۔
”وہ سید بی بی تھی تو کیا ہوا… تیرے دل میں اس کے لیے کوئی برائی تو نہیں تھی نا! ہم لوگوں نے اس کی عزت اور جان کی حفاظت ہی کی کوششیں کی ہیں۔ اس میں کیا غلط تھا؟“
مرشد کسمساکر رہ گیا۔ مراد چند لمحے اس کی صورت تکتے رہنے کے بعد پھر سے گویا ہوا۔
”اور اگر تجھ سے اس کی جدائی یا دوری برداشت نہیں ہو رہی تو بتا… اغوا کرلاتے ہیں اسے۔“
مرشد کو اس کی بات پر جیسے کرنٹ لگا۔ اس نے جھپٹ کر سامنے بینچ پر پڑا پیتل کا گلاس اٹھایا،اس کے دل میں یہی آئی تھی کہ یہ وزنی گلاس اس کے منہ پر دے مارے، پھر نہ جانے کس خیال کے تحت اس نے اپنا ارادہ بدل دیاالبتہ مراد اتنے میں اچھل کر چار پائی کی دوسری جانب جا کھڑا ہوا تھا۔
” کیا ہے یار! اتنا بڑھکنے کی کیا ضرور ہے؟“
”وہ سید سرکار ہیں مراد! ان کے بارے میں عزت و احترام سے بات کر ورنہ…“ مرشد کا انداز تنبیہ کرنے والا تھا۔ مراد دوبارہ چار پائی پر بیٹھ گیا۔
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن تجھے کس بات کی پریشانی ہے؟اس ان… ان کے سید سرکار ہونے کی یا اپنی محبت کی؟“ مراد نے حجاب کے تذکرے پر فوراً اپنی تصحیح کی۔ مرشد بے ساختہ ایک گہری سانس لے کر بولا۔“
”اماں نے مجھ سے چھپائے رکھا کہ وہ سید سرکار ہیں، شاید انہوں نے اپنے طور پر ٹھیک ہی کیا لیکن مجھے پتا ہوتا تو اچھا تھامیں انجانے میں ان کی بے ادبی اور گستاخیوں کا مرتکب ہوتا رہا۔ مجھے ان کی اصل حیثیت اور مرتبے کا علم ہوتا تو مجھ سے ایسا کچھ بھی سرزد ہی نہیں ہوتا۔“ مراد فیصلہ نہیں کرپایا کہ اس کے لہجے میں افسوس ہے، پچھتاوا ہے یا دکھ کی آمیزش!
” تو کیا ہوا یار! کوئی انہیں بیس ہوئی بھی ہے تو انجانے میں ہوئی ہے نا! تو نے جانتے بوجھتے ہوئے تو کوئی بے ادبی یا گستاخی نہیں کی۔ جو ہوا ،ہو گزرا، اب اس بارے میں سوچنا چھوڑ دے، اپنے معمولات میں واپس آجا… آج بھی تو نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔ اٹھ کر وضو کر اور عشاء پڑھ لے۔“
” کیسے اور کس منہ سے پڑھ لوں؟ ہر نماز میں ان کا ذکر آتا ہے دن میں پانچ بار اذان ہوتی ہے اور ہر اذان سنتے ہوئے میں دوبار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھتا ہوں۔ وہ، جنہیں خود خدا تعالیٰ نے اتنا محترم اور عالی مرتبت ٹھہرایا ہے، میںمیں ان کے ساتھ تو تکرار سے پیش آتا رہا۔ انہیں جھڑکیاں بھی دیں میں نے۔ پریشان بھی کیا اور… اور ان کے حوالے سے کیسے کیسے خواب دیکھتا رہا۔ کیا کچھ سوچتا رہا… میرا خدا مجھے معاف
کردے بس!“ مرشد کے لہجے میں شدید اضطراب در آیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں اپنا سرتھام لیا۔
”میں ایک بد ترین انسان ہوں مرادے! ایک بدمعاش، ایک مجرم… بے تحاشا حرام کھایا ہے میں نے اور میرا وجود… میرا یہ ناپاک وجود گناہ کی پیداوار ہے۔ میں چلتا پھرتا گناہ اور ناپاکی کا اشتہار ہوں اور میں ایک معصوم اور پاک باز سیدزادی کے ساتھ کتنی بدتمیزی سے پیش آتا رہا اور اب اب بھی میرا دل بے ادبی پر تلا ہے۔ یہ اب بھی ان کے لیے اسی طرح دھڑک رہا ہے انہیں ویسے ہی یاد کر رہا ہے۔ یہ اب بھی ان کے حوالے سے ویسی ہی طلب رکھتا ہے۔ یہ یہ مسلسل سرکشی پر آمادہ ہے مراد!“ اس کا لہجہ خودبخود اذیت میں بھیگ گیا۔ پھر وہ اچانک اضطراری انداز میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک بار پھر چھت پر مضطربانہ انداز میں ٹہلنے لگا۔ جب سے حجاب رخصت ہوئی تھی وہ تب سے خود کو سمجھارہا تھا کہ اب اسے حجاب بی بی کے متعلق سوچنا بھی احترام و ادب کے دائرے میں رہ کر ہے۔ دماغ تو سمجھ بھی گیا تھا البتہ اس کا دل… دل کچھ بھی ماننے سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔ وہ اپنی ہی ضد پر اڑا ہوا تھا ۔اس کی وہی اپنی رٹ تھی۔ مراد خاموش بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا کہ سیڑھیوں سے جعفر نمودار ہوا اور سیدھا مرشد کی طرف بڑھ آیا۔
”مرشد استاد! شریف مولانا آیا ہے… ملنا چاہتا ہے۔“
”کس لئے کیا کہہ رہا ہے؟“ شریف مولانا…… تھانے میں ہیڈ کانسٹیبل تھا۔ مرشد اسے اچھی طرح جانتا تھا۔
”پوچھا ہے مگر وہ کچھ بتا نہیں رہا، کہہ رہا ہے کہ بہت خاص پیغام ہے اور صرف تمہیں ہی بتائے گا… آیا بھی سادہ کپڑوں میں ہے۔“
”ٹھیک ہے۔ بلا لا اوپر۔“ مرشد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا اور جعفر پلٹ کر واپس چلا گیا۔ شریف کی یوں آمد اور خاص پیغام کی بات سے اس کی چھٹی حس کسمسا اٹھی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ ضرور کوئی اہم معاملہ ہے۔ کچھ دیربعد وہ مرشد کے سامنے چار پائی پر بیٹھا ہوا تھا۔
”کس کا پیغام ہے؟“ مرشد کے فوری اور سیدھے سوال پر ادھیڑ عمر شریف نے ایک نظر مراد اور جعفر کو دیکھا، پھر قدرے آگے کو جھکتے ہوئے گہری سنجیدگی سے بولا۔
”مجھے ڈپٹی اعوان صاحب نے بھیجا ہے۔ وہ خود اس وقت تھانے میں آئے بیٹھے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ تم اپنے قریبی دوچار دوستوں کو لے کر فوراً تھانے پہنچ کر ان سے ملو۔“
مرشد قدرے چونک پڑا۔
”کیوں، کس لیے؟“
”یہ تو وہ خود ہی بتائیں گے۔ مجھے تو انہوں نے بس اتنا کہا ہے کہ ان کا یہ پیغام صرف تمہیں دیا جائے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ تم بھی اپنے جن ساتھیوں کے ساتھ تھانے پہنچو انہیں راز داری برتنے کا کہہ دو، معاملہ انتہائی اہم اور خاص ہے۔ اشارے کے طور پر اتنا کہنے کو کہا ہے کہ اس معاملے کا تعلق حجاب بی بی کی ذات سے ہے۔“ شریف کے آخری جملے پر مرشد کا دل پوری شدت سے دھڑک اٹھا۔ مراد اور جعفر بھی چونک پڑے۔
”حجاب بی بی اس وقت کہاں ہیں؟“ مرشد کے لہجے میں بے چینی تھی۔
”ان کا ڈپٹی صاحب ہی کوپتا ہوگا، میں نہیں جانتا… بس تم جتنی جلدی ہوسکے ڈپٹی صاحب کو مل لو مگر… رازداری سے۔“
”ٹھیک ہے، تم ڈپٹی صاحب تک پہنچو، ہم بھی آرہے ہیں۔“ وہ بری طرح بے چین ہو اٹھا تھا۔ ڈپٹی اعوان کو اس وقت گوجرانوالہ میں ہونا چاہئے تھا۔ خلاف توقع وہ گوجرانولہ سے یہاں… ٹبی تھانے میں آیا بیٹھا تھا تو ایسا بے وجہ یا کسی معمولی وجہ کے تحت تو ممکن نہیں تھا۔ پھر جس طرح اس نے
یہ پیغام پہنچا یا تھا، ساتھ میں حجاب بی بی کا ذکر اور راز داری کا اہتمام… مرشد کا دل کہہ رہا تھا کہ ضرور کچھ گڑبڑ ہوچکی ہے۔
شریف کے روانہ ہونے کے محض پانچ منٹ بعد وہ خود بھی تھانے کی طرف روانہ ہوگیا۔ ساون اپنے گھر گیا ہوا تھا۔ اس کی واپسی کا انتظار کرنے کا وقت نہیں تھا۔ ارشاد اور دلبر ابھی اسپتال میں تھے۔ مرشد نے بس مراد، جعفر اور شبیرے کو ہمراہ لیا تھا۔
جس وقت وہ تھانے پہنچے، سب سے پہلے ادریس منج سے ان کا سامنا ہوا۔ وہ تھانے کے صحن میں ہی کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ دو کرخت صورت افراد اس کے سامنے کرسیوں پر موجود تھے۔ بیرونی گیٹ کے قریب اور اندر… سامنے برآمدے میں مسلح کانسٹیبل دکھائی دے رہے تھے۔ ان تینوں کے اندر داخل ہوتے ہی منج نے ایک ناگوار سی نظر ان پر ڈالی اور برآمدے میں کھڑے ایک کانسٹیبل کو پکار کر بولا۔
”او…ٹھنے! ان کوا دھر… حق نواز والے کمرے میں بٹھا اور ڈپٹی صاحب کو اطلاع دے کہ ہیرا منڈی کا سورما آگیا ہے۔“
”جی سر!“ کانسٹیبل نے مستعدی سے کہا اور فوراً لپک کر ان لوگوں کے قریب چلا آیا۔
”ادھر آﺅ جی!“ اس نے دائیں طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ مرشد منج پر ایک تلخ نگاہ ڈالتا ہوا کانسٹیبل کے پیچھے بڑھ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ منج ایک روایتی حرام خور پولیس والا ہے۔ مرشد سے خار تو وہ شروع ہی سے کھاتا تھا۔ اجو گھوڑے کے لفنڈروں کے ساتھ بیٹھک پر ہونے والے معرکے کے بعد سے وہ کچھ مزید زہر پال بیٹھا تھا۔ اس معرکے میں گھوڑے کا ایک ساتھی ہلاک بھی ہوا تھا لیکن اس منج نے کمال صفائی سے وہ سارا معاملہ دبادیا تھا اور ایسا یقینا چوہدریوں کی ایما پر ہوا تھا۔ منج نے ان سے اچھا خاصا پیسہ کمایا تھا۔ وہ تینوں، کانسٹیبل کے پیچھے دائیں ہاتھ پر موجود برآمدے میں چلتے ہوئے کونے والے کمرے تک پہنچے۔ کانسٹیبل انہیں بیٹھ کر انتظار کرنے کا کہتا ہوا پلٹ گیا۔ کمرے میں ایک طرف دیوار کے ساتھ ایک لوہے کی الماری کھڑی تھی۔ الماری کے علاوہ وہاں صرف ایک آفس ٹیبل اور چند کرسیاں رکھی تھیں۔
”اس گنج مارکا منج کی طبیعت دن بہ دن کچھ زیادہ ہی خراب ہوتی جارہی ہے۔ کسی دن اس کے دماغ کے کیڑے جھاڑنے پڑیں گے۔“ مراد نے ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”لعنت ڈالو، ہمیں اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔“ مرشد کے علاوہ جعفر اور شبیرا بھی ایک ایک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔
”وہ خود لتھے لینا چاہتا ہے سور والی آنکھ ہوچکی ہے اس کی اور کتے والی زبان۔“
”ڈپٹی صاحب سے ملاقات ہوتی ہے تو انہی سے کہہ دیتے ہیں کہ اسے پٹہ ڈال کر رکھیں۔“ شبیرے نے اپنی رائے دی۔
”ضرورت نہیں ہے۔ ایسے بلا وجہ کا بکھیڑا شروع ہوجائے گا۔ ڈپٹی صاحب سے کچھ کہنے کی بجائے صرف ان کی سنی جائے کہ انہوں نے کیوں بلایا ہے۔ یہ جو طریقہ انہوں نے اپنایا ہے، اس سے تو لگتا ہے کہ شاید وہ ہم لوگوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آف دی ریکارڈ ہم سے کوئی کام لینے کا ارادہ رکھتے ہیں!“ جعفر نے سنجیدگی سے کہا۔ اس کی بات قابل غور تھی۔ خود مرشد کے ذہن میں اسی طرح کے خیالات اودھم مچارہے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر سچ میں کوئی ایسی بات ہے تو یقینا وہ کسی نہ کسی طور پر حجاب بی بی کی ذات سے جڑی ہوگی۔ شریف نے واضح اور صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ”اس معاملے کا تعلق حجاب بی بی کی ذات سے ہے۔“
چند منٹ گزرے ہوں گے کہ منشی یونس ایک فائل اٹھائے دروازے سے اندر داخل ہوا۔ اس کے ساتھ مرشد کا دوستانہ سا تعلق تھا لیکن اس وقت اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ اس کی ساری توجہ جیسے ہاتھ میں موجود فائل پر مرکوز تھی۔ مرشد پر اس نے کوئی توجہ نہیں دی اور آگے بڑھ کر کونے میں موجود الماری کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ مرشد نے بھی اسے مخاطب نہیں کیا، البتہ اس کی نظریں اسی پر مرکوز۔ اس کے چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی چھائی ہوئی
تھی۔ الماری میں سے اس نے کاغذوں کا پلندہ نکالا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوا دو قدم مرشد کی طرف سرک آیا۔ کاغذات دیکھتے دیکھتے اس نے ایک مختصر مگر گہری نظر مرشد پر ڈالی پھر سرسری سی نگاہ کمرے کے کھلے دروازے سے باہر کی طرف دیکھا اور دوبارہ کاغذات پر نظریں جماتا ہوا دھیمے مگر تیز لہجے میں مرشد مخاطب ہوا۔
مرشد بھائی! تم لوگ سخت مصیبت میں پھنسنے والے ہو، ہشیار ہوجاﺅ۔“ اس کے جملے پر وہ سبھی چونک پڑے۔ مرشد کے دماغ کو بھی جھٹکا لگا، مگر اس نے خود پر قابو رکھا اور اسی کی طرح دھیمے لہجے میں بولا۔
”کیا مطلب؟ ڈپٹی اعوان کدھر ہے؟“
”مجھے موقع نہیں ملا ورنہ میں تم تک اطلاع پہنچاچکا ہوتا۔ یہاں سے واپسی گوجرانوالہ جاتے ہوئے گوجرانوالہ کے قریب ان پر کچھ نامعلوم مجرموں نے جان لیوا حملہ کیا۔ کچھ پولیس ملازم مارے گئے اور کچھ زخمی حالت میں گوجرانولہ اسپتال میں ہیں۔ ڈپٹی صاحب اور وہ لڑکی لاپتہ ہیں۔ شاید انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ آج رات کسی بھی وقت تم سب ہیرا منڈی کے بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا جانے والا ہے… مجھے پوری تفصیل معلوم نہیں مگر کچھ اعلیٰ افسران کی صوابدید پر تمہیں اس وقت دھوکے بازی سے یہاں بلایا گیا ہے۔ کوئی بہت بڑی سازش ہے۔ کچھ بھی… کچھ بھی ہوسکتا ہے یہاں۔ ہشیار رہو۔“ منشی یونس نے دھیمی آواز میںبہ عجلت یہ سب کہا اور جیسے اندر آیا تھا ویسے ہی کاغذوں کا جائزہ لیتے ہوئے واپس چلا گیا۔
اس کی یہ اطلاع ان سب کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ وہ سناٹے میں آگئے تھے۔ مراد، جعفر اور شبیرے نے پہلے ایک دوسرے کی صورتیں دیکھیں پھر تینوں ہی نے یکبارگی مرشد کی طرف دیکھا۔ مرشد کے ذہن میں تیز سائیں سائیں کی آوازیں گونج اٹھی تھیں۔ اس کے ذہن میں یونس کی صرف ایک ہی بات چکرا رہی تھی۔ ”ڈپٹی صاحب اور وہ لڑکی لاپتہ ہیں، شاید انہیں اغوا کیا گیا ہے۔“ حجاب بی بی پھر سے مشکل اور مصیبت میں تھیں۔ یقینا وہ پھر سے اپنے بد ترین دشمنوں کے شکنجے میں جا پہنچی تھیں۔
”ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے مرشد! اب کیا کرنا ہے؟“ مراد کی وحشت انگیز آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور یہ احساس دلایا کہ وہ خود ایک سنگین صورت حال کا شکار ہیں۔ مرشد نے صرف ایک نظر ان تینوں کی تناﺅ زدہ صورتوں پر ڈالی اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ سوچ بچار میں وقت ضائع کرنا نہ صرف ان کے اپنے حق میں خطرناک ثابت ہوگا بلکہ حجاب بی بی کے لئے بھی سخت مصیبت اور پریشانی کا باعث بنے گا۔ کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس وقت وہ کہاں اور کس حال میں ہوں گی۔ شاید وہ اپنی زندگی کے بدترین لمحات سے دوچار ہوں۔ مرشد کمرے سے باہر نکلا تو اسے معلوم ہوا کہ باہر، دروازے کے دائیں بائیں دومسلح سپاہی موجود تھے۔ اس کے کمرے سے نکلتے ہی وہ دونوں اس کی راہ میں حائل ہوگئے۔
”تم لوگ اندر ہی بیٹھو۔ ڈپٹی صاحب کو اطلاع دے دی ہے، وہ تھوڑی دیر تک ملیں گے تم سے۔“
”کون سے ڈپٹی صاحب؟“ مرشد کا لہجہ سرد تھا۔ ایک لمحے کو دونوں سپاہی گڑبڑائے۔ مراد، جعفر اور شبیرا بھی مرشد کے برابر آکھڑے ہوئے تھے۔
” جن سے ملنے آئے ہو۔ ابھی وہ کچھ لوگوں کے ساتھ میٹنگ میں ہیں۔“
”ہٹ جاﺅ سامنے سے۔“ مرشد ان کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھا۔ کچھ فاصلے پر موجود دو مزید سپاہی تیزی سے ان کی طرف بڑھے۔ صحن میں موجود منج اور اس کے سامنے موجود باقی دونوں افراد بھی مرشد اور اس کے ساتھیوں کو باہر نکلتے دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مرشد کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ لوگ انہی کے متعلق بات چیت میں مصروف تھے۔ منج فوراً سپاہیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے درشت لہجے میں بولا۔
”ان لوگوں کو اندر بٹھاﺅ اوئے!“
”منج! کیا ہو رہا ہے یہاں۔ ڈپٹی صاحب کدھر ہیں؟“ ”مرشد نے براہ راست منج ہی کو مخاطب کیا۔ دوسپاہی مزید اس کے سامنے آٹھہرے۔ ایک نے مضبوطی سے اس کا بازو تھام لیا تھا۔
”باﺅ جی! واپس کمرے میں چلو۔“ دو تین سپاہیوں نے مراد لوگوں کا راستہ روک لیا تھا۔ سامنے والے برآمدے میں موجود سپاہی بھی فوراً حرکت میں آگئے۔
”ڈپٹی صاحب تیری ماں کے ولیمے میں گئے ہوئے ہیں۔ وہ ادھرنہیں آئیں گے۔“
اچانک بائیں طرف سے ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی تو مرشد نے چونک کر اس طرف دیکھا۔ چند قدم کے فاصلے پر موجود ایک کمرے سے ایک لمبا تڑنگا آدمی نکلا تھا۔ اس کے چہرے پر گھنگھریالی داڑھی تھی۔ سرکے، تیل چپڑے بال اس کے کندھوں کو چھو رہے تھے۔ آنکھیں سرمے سے بھری ہوئی اور بائیں آنکھ کے نیچے کسی پرانے اور گہرے زخم کا تقریباً ڈیڑھ دو انچ لمبا نشان تھا، جو برآمدے میں جلتے بلب کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ اس نے سیاہ رنگ کی دھوتی اور سیاہ رنگ ہی کا لمبا کرتا پہن رکھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پسٹل تھا اور اس کے عقب میں کمرے سے نکلنے والے باقی دو افراد کے ہاتھوں میں خود کار رائفلیں تھیں جو انہوں نے فوراً ہی مرشد اور اس کے ساتھیوں کی طرف سیدھی کرلیں۔
مرشد کے لیے اس شخص کی صورت نظر آشنا نہیں تھی، البتہ اس کی آواز کو وہ بخوبی پہچان گیا تھا۔ یہ آواز چند روز پہلے اس نے دھوپ سڑی میں اس وقت سنی تھی جب وہ حجاب کے ساتھ پینوکے گھر، بستروں والی لوہے کی پیٹی میں دبکا بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھی اسے” استاد ملنگی“ کے نام سے پکار رہے تھے۔ ہاں یہ استاد ملنگی ہی تھا۔ فوجی کا ساتھی اور غالباً رانا سرفراز کا نمک خوار درندہ
” الٹی ہتھکڑیاں لگاﺅ ان چاروں کتوں کو اور ادھر… صحن میں بٹھاﺅ ان کو۔“ ملنگی نے ایک سپاہی کو تحکمانہ انداز میں مخاطب کیا تو وہ جلدی سے ایک طرف کو دوڑ گیا۔ منج اور اس کے دونوں ساتھی بھی فوراً ملنگی کے قریب پہنچ آئے۔ ان کے ہاتھوں میں بھی پسٹل دکھائی دینے لگے تھے۔ لمحوں میں ارد گرد کئی مستعد سپاہی اکٹھے ہو آئے۔ یکایک ہی صورت حال انتہائی خطرناک اور سنگین صورت اختیار کرگئی تھی۔
”چلو شاباش! ادھر صحن میں… کھلے میں آجاﺅ۔ ادھر ٹھیک سے مجرا کرسکو گے تم لوگ۔“ ملنگی نے پسٹل سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ مرشد لوگوں کے ارد گرد موجود سپاہیوں نے فوراً ہی ان چاروں کو صحن کی طرف دھکیل دیا۔ ان کے اعصاب بری طرح تنے ہوئے تھے لیکن ان چاروں کو یہ بھی سمجھ آرہی تھی کہ درپیش صورتِ حال انہیں مزاحمت کی اجازت نہیں دیتی۔ ان کے اطراف میں دس بارہ مسلح سپاہی چوکس کھڑے تھے۔ ان کے علاوہ منج، ملنگی اور چار مزید مسلح افراد بھی اپنی رائفلوں اور پستولوں کا رخ ان کی طرف کئے ہوئے تھے۔
”ملنگی استاد! اب اور کس بات کا انتظار ہے؟“منج نے کہا۔ اس کی آواز میں بے چینی تھی۔
”جلدی بھی کس بات کی ہے۔ تھوڑا مزہ تو لے لیں ذرا۔“
ان چاروں کو صحن کے وسط میں پہنچادیا گیا۔ مرشد کی نظریں اپنے اطراف کا جائزہ لے چکی تھیں۔ ایک طرف دو گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ایک پولیس جیپ تھی تو دوسری ایک بند باڈی کی جیپ۔ سامنے کے رخ دائیں کونے میں غالباً سیڑھیاں تھیں جو چھت پر جاتی تھیں۔ بائیں کونے کی طرف حوالات کا سلاخ دار دروازہ تھا اور حوالات مکمل طور پر خالی دکھائی دے رہی تھی۔ اس سے آگے تھانے کا بیرونی گیٹ تھا، جسے بند کیا جاچکا تھا اور گیٹ کے سامنے دو مسلح سپاہی کھڑے تھے۔ بچاﺅ کا کوئی موقع یا رستہ ملتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مرشد کا ذہن برق رفتاری سے کام کر رہا تھا۔ اس کے
ساتھیوں کا حال بھی اسی جیسا تھا۔
”تم چاروں کو ناگ دیوتا سونگھ گیا ہے کیا… بولتیاں کیوں بند ہوگئی ہیں تمہاری؟“ ملنگی نے تمسخرانہ انداز میں کہا تو مرشد اس کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
”ڈپٹی اعوان اور حجاب بی بی کہاں ہیں؟“
بتایا تو ہے تجھے کہ وہ تیری ماں کے ولیمے میں گیا ہے۔ روٹی ٹکر کھا رہا ہوگا وہاں اور وہ چھمک چھلو بی بی وہاں مجرا شجرا کر رہی ہوگی۔“
ملنگی کرسی پیچھے کھینچ کر ان لوگوں کے سامنے بیٹھ گیا۔
”تجھ سے سوال کیا ہے میںنے، کتے کی طرح بھونکنے کو نہیں کہا۔ سیدھے سے بتا حجاب بی بی کہاں ہے… چوہدری لوگوں کے پاس ہے یا تیرے ناجائز باپ رانا سرفراز کی قید میں ہے؟“ مرشد نے بے خوفی اور بے باکی سے کہا توملنگی ہنس پڑا۔
”میں نے سن رکھا ہے کہ ہیرا منڈی کامرشد ،جی دار جوان ہے، لیکن کاکا جی! جی داری اور بے وقوفی میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ یہ موقع جو ہے نا… ایسے موقعوں پر جی داری سے بڑی جہالت کوئی نہیں ہوتی۔ تجھے اندازہ بھی ہے کہ تیرے اور تیرے ان ٹٹ پونجیئے دم چھلوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟“ اس سے پہلے کہ ملنگی کو مرشد کوئی جواب دیتا۔ مراد حقارت سے بولا۔
”دھوکے بازی سے بیس بیس رائفل برداروں کے گھیرے میں لے کر تو ہیجڑے بھی بھڑکیں مارسکتے ہیں تیری…“ اچانک دھماکا ہوا اور مراد کا جملہ ادھورا ہی رہ گیا۔ وہ کراہتا ہوا لڑکھڑایا اور پھر اپنی بائیں ٹانگ دونوں ہاتھوں سے تھامتا ہوا گرنے والے انداز میں فرش پر بیٹھ گیا۔ ملنگی نے گولی چلائی تھی اڑتیس بور کی وہ گولی مراد کی بائیں ران کا گوشت پھاڑتی ہوئی آر پار ہوگئی تھی اور زخم سے بھل بھل خون بہنے لگا تھا۔
”قسم قلندر پاک کی، اب مرشد جی کے علاوہ تم تینوں میں سے جس نے منہ کھولا، اس کے منہ ہی میں گولی ماروں گا میں۔“
مرشد نے دیکھا، ملنگی پستول کا رخ انہی کی طرف کئے بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی تھی۔ شدتِ ضبط سے مرشد کے جبڑے کی ہڈیاں ابھر آئیں۔ جعفر اور شبیرا بھی مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے۔ اسی وقت ایک سپاہی چار ہتھکڑیاں اٹھائے ان تک پہنچ آیا۔ ملنگی پستول کو گردش دیتے ہوئے ان سے مخاطب ہوا۔
”اب بی بے بچوں کی طرح ہاتھ پیچھے کرکے چپ چاپ یہ چوڑیاں پہن لو ورنہ وقت سے پہلے اللہ پاک کے پاس پہنچ جاﺅ گے۔ چلو شاباش… ہاتھ پیچھے کرلو۔“
آزاد تو وہ پہلے بھی نہیں تھے، اب ہتھکڑیاں لگوالینے کا مطلب تھا پوری طرح بے بس ہوکر اپنے درندہ صفت دشمنوں کے رحم و کرم پر آجانا، لیکن ان کے پاس اس کے سوا اور چارہ بھی نہیں تھا۔ مراد کی حالت انہیں بتا رہی تھی کہ مزاحمت تو کجا، اپنے اس دشمن کی مرضی کے خلاف زبان کھولنا بھی انہیں گولی کا نشانہ بناسکتا ہے ملنگی اس وقت تھانے کا خدا بنا بیٹھا تھا۔ تھانے کا عملہ پوری طرح اس کا مطیع و فرماں بردار دکھائی دے رہا تھا۔ سب کے سب جیسے اس کے اشاروں پر ناچنے کو تیار کھڑے تھے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہی تھا کہ اس کی پشت پر کچھ اعلیٰ افسران کا ہاتھ ہے اور یہ سارا کچھ باقاعدہ کسی طے شدہ منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے اگلے چند لمحوں میں جب ان چاروں ہی کے ہاتھ پشت پر ہتھکڑیوں میں جکڑے جاچکے تو ملنگی ،منج سے مخاطب ہوا۔
”لاﺅ… اس گھوڑے کے تخم کو لے آﺅ۔“ منج کے اشارے پر دو سپاہی فوراً اس کمرے کی طرف بڑھ گئے جس میں سے تھوڑی دیر پہلے ملنگی برآمد ہوا
تھا۔ کچھ دیر بعد مرشد نے دیکھا کہ دونوں سپاہی اس کمرے سے اجو گھوڑے کو دھکیلتے ہوئے باہر لے آئے۔ اس کے ہاتھ بھی پشت پر ہتھکڑی میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس کی پھٹی ہوئی قمیض اور چہرے پر موجود چوٹوں کے نشان بتارہے تھے کہ اس کی اچھی خاصی”سیوا خاطر“ کی گئی ہے۔ دونوں سپاہیوں نے اسے ملنگی کے سامنے لاکھڑا کیا۔ ملنگی نے ایک بھر پور نظر گھوڑے پر ڈالی، پھر منج کی طرف دیکھتے ہوئے متاسفانہ انداز میں بولا۔
”منج صاحب! تیرے بندوں نے بڑی زیادتی کی ہے اس بے چارے کے ساتھ۔ دیکھو تو… اچھا خاصا گھوڑا تھا یہ اور مار مار کر بندر بنادیا ہے اسے۔چلو ہتھکڑی کھولو اس کی اور کوئی صاف ستھری قمیض پہناﺅ اس کو۔“ پھر وہ گھوڑے سے مخاطب ہوا۔ ”بس اب دل چھوٹا نہیں کرنا، سمجھو کہ سب ٹھیک ہوگیا ہے… اپنے اس سجن سے مل… یہی ہے نا جس پر تیرا کوئی زور اور بس نہیں چل سکا کبھی۔“ ملنگی نے مرشد کی طرف اشارہ کیا، گھوڑے نے سپاٹ چہرے کے ساتھ صرف ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور رخ پھیر لیا۔
”تسلی رکھ اس کا انجام تجھ سے بھی گندا اور خراب ہونے والا ہے۔“
مرشد، گھوڑے کو اس وقت اور اس حالت میں ، یہاں دیکھ کر قدرے حیران ہوا تھا۔ گھوڑا بھی ایک طرح سے ملنگی لوگوں ہی کے گروہ کا حصہ تھا… انہی کا ساتھی اور بھائی بند تھا۔ اس کی یہاں، یوں موجودگی کی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آسکی تھی!
کچھ ہی دیر میں گھوڑے کی ہتھکڑی کھول کر اسے ایک صاف ستھری قمیض پہنادی گئی۔
”چلو گھوڑا جی! تم کچھ دیر حوالات میں مہمان کی طرح آرام فرمالو۔ تب تک میں ذرا ان نمونوں سے گپیں لڑالوں۔“
”میں رانا صاحب سے بات کرنا چاہتا ہوں۔“ گھوڑا ملنگی سے مخاطب ہوا۔
”اوئے چھڈ یار! رانا صاحب سے کیا بات کرے گا… میں بیٹھا ہوں نا ادھر… بے فکرا ہوکر حوالات میں بیٹھ، میں ابھی سب ٹھیک کردوں گا۔“ ملنگی نے اشارہ کیا تو دو سپاہی گھوڑے کو دھکیلتے ہوئے حوالات کی طرف لے گئے۔ ملنگی فرش پر بیٹھے مراد کی طرف متوجہ ہوا جو دونوں ہاتھوں میں اپنی ران دبوچے بیٹھا تھا۔ اس کی ران سے بہنے والا خون پختہ فرش پر پھیل رہا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ بھی خون سے رنگین ہو رہے تھے اور وہ ہونٹ بھینچے اپنی کراہوں پر قابو پائے ہوئے تھا۔ ملنگی تمسخرانہ ہمدردی سے بولا۔
”اب تواچھا خاصا درد شروع ہو چکا ہوگا۔تراٹیںا�±ٹھ رہی ہوں گی ہے نا؟“
”تم چاہتے کیا ہو ملنگی؟“ مرشد نے جلدی سے اسے مخاطب کیا۔ا�±سے اندیشہ تھا کہ کہیںمراد کوئی سخت یا تلخ جواب نہ دے دے۔ ملنگی کا اطمینان اور آنکھوںمیںبھری سفاکی چیخ چیخ کرکہہ رہی تھی کہ وہ ایک انتہائی بے رحم انسان ہے اوراس وقت وہ انہیں گولی مارنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔اس بات کا ثبوت بھی وہ دے چکا تھا۔
”رشتہ تو میں تجھ سے لینے سے رہااس کے علاوہ مجھے کیا چاہیے،یہ تو�± ہی سوچ کر بتا۔“
”دیکھ ملنگی!تیری ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔بہتر ہو گا کہ اس سب تماشے کو یہیں بریک لگادے،ویر نہ ڈال ورنہ بعد میں بہت پچھتاناپڑے گاتجھے۔“ ملنگی نے اپنی بائیں آنکھ کے نیچے موجود زخم کو شہادت کی انگلی سے سہلاتے ہوئے ایک نظر منج کی صورت پر ڈالی پھرمرشد کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
”کیا مجھے سچ مچ پچھتانے کا موقع دو گے؟“
”میرے ساتھی پر گولی چلا کر بہت غلط کیا ہے ت�±و نے۔اسے فوراً طبی امداد مہیا کرو۔اگر کوئی جھگڑا پھڈاہے بھی
تو وہ میرے اور تجھ لوگوں کے بیچ ہے۔میرے ساتھیوں کا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔“ مرشد نے مراد پر نگاہ ڈالی،اس کا چہرہ پسینے سے تر ہو رہا تھا۔خون مسلسل بہہ رہا تھا۔
”دھوپ سڑی میںتیری طرف سے کی گئی فائرنگ میںہمارے تین بندوں کی ٹانگوں میں گولیاں لگی تھیں۔وہ ابھی تک ہسپتال میں پڑے ہیں۔میں نے تو ابھی ایک کو ماری ہے ایک گولی۔“
”تو وہ فائرنگ میں نے کی تھی نا ت�±و نے بھی جو توپ چلانی ہے مجھ پر چلا۔“
ملنگی منج کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا۔
”کیوںبھئی منج بہادر!تھانے میں کوئی توپ شوپ بھی ہے یا کوئنا؟“
”ملنگی استاد!کیوں اس بھڑوے کے ساتھ فضول میں سر کھپا رہے ہو۔لعنت ڈالو“ منج کے لہجے میں شدید بے زاری تھی۔مرشد نے براہ
راست اسے مخاطب کیا۔
”او گینڈے کی شکل والے س�±ور!اصل دلّا بھڑوا تو ت�±و ہے ،جویہ قانون کی وردی پہنے اپنی ماں بہن کے یاروں کے تلّوے چاٹنے کو تیار کھڑا ہے۔قانون کی ماںبہن کر،کروا رہا ہے۔“
مرشد کا جملہ مکمل ہوا ہی تھا کہ ا س کے عقب میں موجود ایک سپاہی نے ایک زور کی دھپ اس کی گدی میںرسید کی۔ یقیناًاسے اپنے افسر کی شان میں یہ حقیقت بیانی ہضم نہیں ہو سکی تھی۔مرشد نے زخمی بھیڑیے کی طرح پلٹ کر اس کی طرف دیکھا تو اس نے مرشد کے چہرے پر تھپڑ مارنے کی کوشش کی، مگر مرشد نے سانپ کی سی پھرتی سے چہرہ پیچھے ہٹا لیا۔سپاہی کا اچٹتا سا ہاتھ اس کی ٹھوڑی کو چھوتا ہوا گزر گیا۔اس کے دونوں ہاتھ اس کی پشت پر ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے البتہ اس کی ٹانگیں آزاد تھیں اور اس بات کا احساس ،اس سپاہی کو اس لمحے ہوا جب مرشد کی بھرپور ٹھوکر اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچوںبیچ پڑی اس کے حلق سے نہایت کرب ناک چیخ نکلی اور وہ ا�±چھل کر عقب میں جا گرا۔دو سپاہی بہ یک وقت اس پر جھپٹے،ایک تو سینے پر لات کھا کر گرا جب کہ دوسرے نے مرشد کو جپھا ڈال لیا،لیکن اگلے ہی پل قریب کھڑے جعفر کی بھرپور ٹھوکر اس کی پسلیوں میں پڑی اور وہ بھی پہلو کے بل کمان کی طرح دوہرا ہوتا ہواوہیں فرش پر ڈھیر ہو گیا اس صورت حا ل پر ان کے اردگرد کھڑے سارے سپاہی ایک ساتھ ان پرٹوٹ پڑے۔سپاہیوں کی تعداد ان سے دو گنا تھی۔ان چاروں کے ہاتھ ہتھکڑیوں میںجکڑے ہوئے تھے اور ان میں سے ایک، یعنی مرادزخمی حالت میں فرش پر پڑا تھااس کے باوجوداگلے چند لمحوں میںتھانے کے اس صحن میں ان لوگوں نے ،ان سبھی کو مزاحمت کے صحیح معنی سمجھا دیئے۔
انہیں ذرہ بھر پرواہ نہیںتھی کہ کدھر سے گھونسے،تھپڑ پڑ رہے ہیں،یا رائفلوں کے کندے برس رہے ہیں۔ان میں سے جس کا گھٹناچلا اس نے چلا دیا۔ ٹانگ کو سہولت ہوئی تو ٹھڈا استعمال ہوا۔جس سپاہی کے سینے، چہرے یاماتھے پر کسی کی ٹکر پڑی وہ ڈکراتا ہواگرا اور تو اورانہوں نے اپنے دانتوںکا بھی بے رحمی سے استعمال کیااور جس سپاہی کو کاٹا اسے بھنبھوڑ کر رکھ دیا۔اس مختصر سے صحن میں وہ ہاہا کار مچی کہ منج ،ملنگی اور اس کے رائفل بردار ساتھیوں کو صحن سے پیچھے ہٹ کر برآمدے میں جانا پڑا۔
منج چیخ چیخ کر اپنے ماتحتوں کو ہدایات دے رہا تھا۔اس کی پریشانی اور بے چینی قابل دید تھی،مگر مرشد لوگ اور سپاہی،آپس میں یوں الجھے ہوئے تھے کہ اسے گولی چلانے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔رائفل بردار بار بارملنگی کی طرف دیکھ رہے تھے اور ملنگی گہری سنجیدہ نظروں سے صحن میں جاری اس
تماشے کو دیکھ رہا تھا۔تین سپاہی بری طرح زخمی ہو کر صحن میں گر چکے تھے۔مراد زخمی ہونے کے باوجود دو بار اٹھ کر کھڑا ہوا ، لیکن پھر گر گیا۔دو سپاہیوں نے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا۔اس نے فرش پر تڑپتے تڑپتے اپنی سلامت ٹانگ سے ایک سپاہی کی پنڈلی کے نچلے حصے پر،پاﺅں سے ایسی بھرپور جھٹکے دار ضرب لگائی کہ اس کے حلق سے نکلنے والی کرب ناک چیخ تھانے کے درودیوار لرزا گئی۔وہ بہت بری طرح فرش پر گرا تھا۔ٹخنے کے اوپر سے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔تبھی ملنگی کے ہاتھ میں موجود اڑتیس بورکے پسٹل نے ایک دھماکے سے گولی اگلی جو سیدھی مراد کی گردن میںلگی۔ گولی لگتے ہی اس کا سر سنگی فرش سے ٹکرایا اور اس کاوجود ذبح ہوئے مرغے کی طرح پھڑ پھڑانے لگا۔مرشد، جعفر اور شبیرے میں سے یہ منظر صرف شبیرے نے دیکھا تھا،البتہ مراد کو پکارتے ہوئے وہ جس قلق انگیز انداز میں دھاڑا تھا، اس نے مرشد اور جعفرکو سمجھا دیا تھا کہ ابھی چلنے والی گولی نے یقینا مراد کو جان لیوا طور پر زخمی کر دیا ہے۔
شبیرا خود سے گتھم گتھا دو سپاہیوں کو اپنے ساتھ گھسیٹ کر غضب ناک انداز میں للکارتا ہوا ملنگی کی طرف بڑھا تو اس نے ایک ساتھ دو فائر کئے،دونوں گولیاںشبیرے کے چوڑے سینے میں لگیں اور وہ لڑکھڑا گیا۔
”ملنگی“ مرشد کی بلند آہنگ دھاڑ نے فضا کا کلیجہ جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
”مجھے بھی گولی مارگولی مار نہیں تو میں تیری ٹانگیں چیر کر گزر جاﺅں گا، گولی مار“ مرشد کے لہجے میں دہلا دینے والی دیوانگی تھی۔آگ تھی۔ اس نے پوری قوت سے ملنگی کی طرف بڑھنا چاہا، ملنگی نے ایک اور گولی چلائی،مرشد لڑکھڑا کرگرا۔تین سپاہی بھی اس کے اوپر ہی گرے تھے۔اسی وقت اچانک گھپ اندھیرا چھا گیاپتا نہیں بجلی گئی تھی یا کسی نے دانستہ کچھ کیا تھا۔بہرحال پوری عمارت مکمل طور پر اندھیرے میںڈوب گئی۔
مرشد نے فرش سے اٹھنے کی بہت کوشش کی مگر تین چار سپاہی بری طرح اس پر حاوی ہو چکے تھے۔اس کے ذہن میں مراد کا پھڑکتا ہوا وجود تھا۔شبیرے کے چوڑے چکلے سینے میں گھسنے والی گولیوں کا منظر بھی ایک جھلک کی صورت اس نے دیکھا تھا۔اس کے اپنے وجود میں لا تعداد انگارے سے دہک اٹھے تھے۔وہ ملنگی اور منج پر دھاڑ رہا تھا۔انہیں للکار رہا۔اندھیرے میں کچھ دکھائی تونہیں دے رہا، لیکن ایک ذرا اسے کسی نئی افراتفری کا احساس ضرور ہوا۔کچھ بھاگتے دوڑتے قدموں کی آوازیں تھیں۔منج اور ملنگی کے علاوہ بھی کچھ ہذیانی اوربوکھلائی ہوئی للکاریں تھیں۔اسی گھپ اندھیرے میں دو تین گولیاں بھی چلائی گئیں۔مرشد کے ہاتھ تو پہلے ہی ہتھکڑیوں کی جکڑن میں تھے۔اگلی کچھ ہی دیر میںاس کے دونوں پاﺅں بھی کسی بیلٹ نما چیز سے اچھی طرح کس کر باندھ دیئے گئے۔اس کے فوراََ بعد اسے اٹھا کرایک جیپ کے اندر پھینکا گیااور یہاں بھی دو تین افراد آکٹوپس کی طرح اس سے چمٹے رہے۔وہ لوگ اسے ایک ذرا بھی ڈھیل دینے کے موڈ میں نہیں تھے۔ان لوگوں نے اس کے منہ پر بھی کپڑا باندھ دیا تھا۔
چند ہی لمحوں میںجیپ کا انجن غرا اٹھا،ساتھ ہی تھانے کی اندھی فضا خود کار رائفل کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی۔اوپر تلے چھوٹے چھوٹے دو برسٹ چلائے گئے تھے۔کچھ بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز کے ساتھ مرشد نے جیپ کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی اور اگلے ہی پل جیپ ایک جھٹکے سے حرکت میں آکر تھانے کے گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ مرشد خود کو پوری طرح بے بس پا رہا تھا۔اس کے لیے حرکت تک کرنا دشوار کر دیا گیا تھا۔ دشمن اب اپنی پوری طاقت اور اثر و رسوخ کے ساتھ کھل کر دشمنی پر اتر آیا تھا۔ تھانے کی اس اندھی چار دیواری کے اندر گزشتہ کچھ ہی دیر میں جو کچھ بھی ہو گزرا تھا، وہ مرشد کے لیے غیر متوقع تو تھا، لیکن ناقابل یقین ہر گز نہیں تھا۔
جیپ تھانے کے گیٹ سے نکلتے ہی بری طرح لہراتی ہوئی کسی نا معلوم منزل کی طرف دوڑ پڑی۔افراتفری اور شور شرابے کی آوازیں پیچھے رہ گئی
تھیں۔
٭ ٭ ٭
یہ ایک خالص دیہاتی عمارت تھی۔ایک طرف تین چار کچے کمرے،ڈیڑھ دو کنال کا کچا صحن اور تقریباََ پانچ فٹ اونچی کچی دیواروں کی چار دیواری۔
صحن کے ایک طرف پیپل کا درخت تھا۔اس سے کچھ فاصلے پر کیکر کا اور دونوں درختوں کے نیچے چند بھینسیں بندھی دکھائی دے رہی تھیں۔ ان کے قریب ہی ایک چارپائی پر تین افراد بیٹھے تاش کی بازی کھیلنے میں مصروف تھے۔ ایک دیوار کے ساتھ اوپن ایئر ہینڈ پمپ تھا۔دوسرے کونے میںتنور تھا اور اس کے ساتھ ہی بطور ایندھن استعمال ہونے والی لکڑیوں کاڈھیر، جب کہ ایک دیوار کے ساتھ دو مضبوط تنوں کو زمین میں گاڑ کر، ان سے ستونوں کا کام لیا گیا تھااور سائے کی غرض سے ایک عارضی سا چھپر ڈالا گیا تھا۔ اس چھپر کے نیچے چارہ کاٹنے والا ٹوکہ نصب تھا۔اسی دیوار کے ساتھ پندرہ بیس قدم آگے مرشد موجود تھا۔اس کا حلیہ اور حالت قابل رحم تھی۔ہاتھ ہنوز پشت پر ہتھکڑی میں جکڑے ہوئے تھے پاﺅں بھی نائیلون کی مضبوط رسّی میں بندھے ہوئے تھے۔چہرے پر چوٹوں کے نشان تھے۔گریبان ناف تک پھٹا ہوا تھا۔ گلے میں چمڑے کا پٹا تھا۔اس پٹے سے ایک موٹی زنجیر منسلک تھی، جسے برابر میں موجود ایک کھونٹے کے ساتھ باندھا گیا تھا۔اس کے دائیں بائیں چار چار قدم کے فاصلے پر اسی انداز میں دو کتے بھی بندھے ہوئے تھے۔
گزشتہ رات تھانے سے نکلنے کے بعد مرشد کو سیدھا یہیں لایا گیا تھا اور یہاں پہنچتے ہی اس کے گلے میں کتے کا پٹا ڈال کراس جگہ باندھ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ملنگی اور اس کے ساتھیوں نے اپنی اس سفاک کامیابی کا جشن منایا تھا۔شراب پی کر خوب ہنگامہ کیا گیا،ہوائی فائرنگ کی گئی۔ مرشد کے بالکل سامنے صحن میں چارپائیاں بچھا کر سب نے کھانا کھایا۔دیسی مرغیوں کی بوٹیاں وہ خود بھنبھوڑتے رہے اور جھوٹی ہڈیاں مرشد پر اچھالتے رہے جو ،اب بھی اس کے ارد گرد بکھری ہوئی تھیں۔
ان میں سی کسی نے بھی مرشد کو براہ راست تو مخاطب نہیں کیا ،البتہ آپس میں اس کی ذات پر واہیات اور بیہودہ تبصرے ضرور کرتے رہے۔جگتیں کستے رہے۔اس کے علاوہ نہ تو کسی نے کچھ پوچھا،نہ کچھ کہا۔یوں جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہواس کے دائیں بائیں بندھے دونوں کتوں کو خوب کھلایا پلایا گیا تھا،لیکن اسے ابھی تک کسی نے پانی کا بھی نہیں پوچھا تھا۔
رات گزر گئی تھی۔اب دن کے دس بج رہے تھے۔پورے صحن میں دھوپ چمک رہی تھی۔صبح دونوں کتوں کو کھول کر کیکر کی چھاﺅں میں باندھ دیا گیا تھا۔مرشد کو اسی جگہ دھوپ میں رہنے دیا گیا۔ رات سے اب تک وہ یونہی بیٹھا تھا۔چپ چاپ گہری خاموشی اوڑھے ایسی گہری خاموشی جسے طوفانوں کا پیش خیمہ تصور کیا جاتا ہے۔
دھوپ کی تپش نے اس کے خال وخد میں حدت جگا رکھی تھی۔کپڑے پسینے میں بھیگے ہوئے تھے۔ کل سے اب تک وہ بھوکا بھی تھا اور پیاسا بھی لیکن اسے کس تکلیف یا ضرورت کا احسا س نہیں تھا۔اس کے پردہ تصور پر کبھی شبیرے کا خون آلودہ سینہ ابھر آتا تھا تو کبھی فرش پر تڑپتا پھڑکتا مراد کا وجود اسے یقین تھا کہ جعفر کا انجام بھی شبیرے اور مراد سے مختلف نہیں ہوا ہوگا۔ان تینو ں کے ساتھ ساتھ حجاب کا تصور بھی بار بار اپنی جھلک دکھاتا تھا۔ رہ رہ کر اس کے ذہن کو زخماتا تھا۔ دل میں ایک ناقابل بیان ٹیس جگا تا تھا۔
کچھ دیر مزید گزری ہو گی کہ باہر کسی گاڑی کی آواز سنائی دی پھر ہارن بجایا گیا۔ تاش کی بازی میں مصروف تینوں افراد چونک کر اٹھ کھڑے
ہوئے۔ایک رائفل سنبھالتا ہوا تیزی سے کمروںکی طرف لپکا۔دوسرا فورا اس پھاٹک کی طرف بڑھا جو لکڑی کے چوکھٹے پر لوہے کی چادر ٹھونک کر بنایا گیا تھا۔تیسرا چارپائی سے اٹھ کر وہیں کھڑا ہو گیا۔
پھاٹک کھلا تو آگے پیچھے تین گاڑٰیاں صحن میں داخل ہو آئیں۔ایک جیپ تھی۔ایک نئے ماڈل کی چمچماتی کار اور تیسری ایک پجارو تھی تینوں گاڑیاں ایک طرف رکیں، انکے دروازے کھلنے اور بند ہونے کی آوازوں پر مرشد نے نظریں گھما کر دیکھا۔رانا سرفراز کواس نے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا۔اس نے ہلکے آسمانی کی رنگ کی شلوار قیمض پر سیاہ و اسکٹ پہن رکھی تھی۔ دوسرے بتیس پینتیس سالہ شخص کے وجود پر سفید بوسکی کی دھوتی اور کرتا تھا۔ بھاری اور چوڑے چہرے پر رعونت اور درشتی کے تاثرات جیسے ثبت تھے۔ اس کے نقوش اور حلیے سے مرشد کو خیال آیا کہ اب سے پہلے وہ اس شخص کا غائبانہ ذکر سنتا رہاہے اور اسکے باپ سے مل چکاہےوہ یقینا چوہدری اکبرکا پتر، فرزند علی ہی تھا۔ اسکے چہرے مہرے میں باپ کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی۔ تیسرا شخص ایک سڈول اور کسرتی جسم کا مالک تھا۔ اس نے جینز کی پینٹ پر دھاری دار قمیض پہن رکھی تھی۔ پاﺅں میںجوگر تھے۔چال میں غیر محسوس سی لنگڑاہٹ، جبڑے کی ہڈیا ں قدرے باہر کو نکلی ہوئیں ،سر کے بال چھوٹے چھوٹے اورایک دوروز کی بڑھی ہوئی شیو ان تین افراد کے عقب میں چھ سات افرد اور تھے اور وہ سبھی مسلح تھے۔پھر وہ توگاڑیوں کے قریب ہی ٹھہر گئے جبکہ باقی تینوں افراد آگے بڑھ آئے۔اسی وقت ایک کمرے سے ملنگی بالوں میںہاتھ پھیرتا ہوا باہر نکلا ،و ہ کالی شلوا راور بنیان میں تھا۔واضح نظر آرہا تھا کہ وہ ابھی نیند سے جاگا ہے۔
”کس نسل کا کتاہے یہ ؟“ چوہدری فرزند نے رانا سرفراز کو مخاطب کیا۔وہ تینوں مرشد کے سامنے آرکے تھے۔
”آوارہ نسل کا ہے۔ ہیرا منڈی کی گلیوں ،نالیوں میںمنہ مارتا پھر رہا تھا۔ملنگی پٹا ڈال کر گھسیٹ لایا۔“
”پکی بات ہے ناکہ وہی ہے یہ ؟“
”ایک دم پکی ہے چوہدری صاحب ! اس کے ساتھ دو تین کتورے اور بھی تھے۔وہ کتوں ہی کی موت مارے گے“ ملنگی اطمینان سے کہتاہو اہینڈ پمپ کی طرف بڑھ گیا۔ مرشد کے کلیجے پر ضرب پڑی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مراد، جعفر اورشبیرے کے چہرے گھوم گئے۔
”بہت پریشان کیاہے اس کتے نے۔اسے گھسیٹ کر لاﺅ ذرا ا ندر۔“ چوہدری اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا۔ جب کہ وہ جینز پوش آدمی اپنے بائیں پاﺅں پر وزن بڑھاتا ہوا مرشد کے سامنے ہی بیٹھ گیا۔ اس نے دائیں ہاتھ میں مرشد کی ٹھوڑی دبوچی اور اسکی آنکھوں میںجھانکتے ہوئے بولا۔
” تجھ سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی مرشد باﺅ ! پتا ہے کیا غلطی ہوئی ہے …..یہ کہ تو زندہ ہے۔ تجھے اب تک مر جا نا چاہئے تھا۔ مر گیا ہوتا تو اچھا رہتا۔“
اس کی آواز سے مرشد نے اسے بھی پہچان لیا۔یہ ملنگی کا ساتھی، فوجی تھا۔مرشد بغیر کچھ کہے اس کی آنکھوں میںجھانکتا رہا۔ چند لمحے بعدفوجی اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے پلٹ کر کسی کو آواز دی تو دو رائفل بردار فوراً آگے بڑھ آئے۔
” اس کی زنجیر کھولواور اندلے چلو۔“ فوجی کی کی ہدایت پر وہ دونوں مرشد کے قریب چلے آئے۔ان میں سے ایک تو کل تھانے میں ملنگی کے ساتھ بھی موجود تھا، جبکہ دوسرے مکروہ صورت رائفل بردار کی صورت اس کے لئے نظر آشنا نہیںتھی۔اس کے چہرے پرچیچک کے داغ تھے اور ایک آنکھ کے ڈیلے کی جگہ نیلگوں سفید پتھر دکھائی دے رہا تھا ،جو اس کے چہرے کی خوف ناکی میں اضافہ کرتا تھا۔
ان میں سے ایک نے کھونٹے کے ساتھ بندھی زنجیر کھولی ،پھر دونوں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ ڈالے اور گھسیٹتے ہوئے اندر ایک کمرے میں لے
آئے۔یہ خاصا کشادہ کمرہ تھا۔یہاں تین چارپائیوں کے علاوہ ایک دیوار کے ساتھ تین چار کرسیاں بھی دھری تھیں۔ایک کونے میں غالباً گندم بھری بوریوں کی داکیں لگی ہوئی تھیں اور کمرے میںگندم کی مخصوص مہک پھیلی ہوئی تھی۔چارپائیوں کے دائیں بائیں دو فرشی پنکھے رکھے ہوئے تھے اور دونوں ہوا دے رہے تھے۔ فرزند علی اور رانا سرفراز برابر پڑی دو الگ الگ چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔ دونوں رائفل برداروں نے مرشد کو چوہدری فرزند کے سامنے لا ڈالا اور خود چند قدم پیچھے ہٹ کر گھڑے ہوگئے۔فوجی دائیں ہاتھ دیوار کے ساتھ ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔مرشد کہنی زمیں پر ٹکاتے ہوئے سیدھا ہوبیٹھا تو رانا، چوہدری فرزند سے مخاطب ہوا۔
”دیکھ لیں چوہدری صاحب ! میں نے کہا تھا ناکہ چند ہی روزمیں یہ آپ کے قدموں میں پڑا ہو گا ……میں نے اپنا کہا پورا کر دیا، آپ نے بے وجہ ہی اسے توپ چیز سمجھ رکھا تھا۔“
میں نے کچھ نہیں سمجھ رکھا تھا ……ابا اب بوڑھا ہو چکا ہے ,ایسے بے بات ہاتھ پیر پھولنے لگ جاتے ہیں اس کے,اسی کی حیا میں خود سامنے نہیں آیا، ورنہ اس کو تو ہیرا منڈی کی گلیوں میں ہی گھسیٹ گھسیٹ کر کتے کی موت مار دیتا۔“چوہدری کے لہجے میں شدید نفرت اور حقارت تھی۔ پھر وہ مرشد کی طرف متوجہ ہوا۔
”کیوں اوئے !کون سا کیڑا تھا جس نے تجھے سکون سے جینے نئیں دیا اپنی اوقات سے بڑی جگہ پنگا لیتے ہوئے ڈر بھی نئیں لگا تجھے ……زندگی سے اتنا ہی تنگ تھا تو کسی اچھے طریقے سے خود کشی کرلیتا ،یوں…ناقابل اشاعت)…کی کیا لوڑ تھی ؟“
چوہدری نے اپنے اندر کی غلاظت اگلتے ہوئے کہا۔مرشد خاموش رہا۔ بس چوہدری کی آنکھوں میں دیکھتا گیا۔اسے اندازہ تھا کہ یہ لوگ اس کے متعلق کیا فیصلہ کئے بیٹھے ہیں۔ رات جس دیدہ دلیری اور سفاکی سے اس کے سامنے، اس کے ساتھیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا،اس سب کے بعد یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ اسے زندہ چھوڑنے کی حماقت کرتے۔وہاں……پولیس اسٹیشن میں اس کے ساتھیوں کے قتل کے حوالے سے جو بھی کہانی گھڑی گئی ہو ،اسے یوں بے بس کر کے یہاں لے آنے میں ا ن لوگوں کا مقصد یقینی طور پر یہی تھا کہ اسے خوب اذیتیں دے دے کر ایک ذلت آمیز موت سے دوچار کیاجائے۔
مرشدکو موت کا کوئی خوف نہیں تھا۔ بس دل میں ایک خواہش تھی کہ اگر کسی طرح ،کچھ دیر کیلئے اس کے ہاتھوں پیروں کی بندشیں کھل جائیں تو کم از کم مرنے سے پہلے وہ اپنے ساتھیوں کی درد ناک موت کا بدلہ لیتے ہوئے ،ان میں سے دوچار کو تو اپنے ساتھ لے مرے۔خصوصا ً حجاب سرکار کے اس بدترین دشمن کو جو اس وقت بالکل اس کے سامنے موجود تھا۔
”یہ کہیں گونگا تو نئیں ؟“مرشد کی گہری چپ پر چوہدری فرزند ایک نظر فوجی کی طر ف دیکھتے ہوئے بولا۔
” جب سے یہ کتے کا پٹا اس کی گردن میں فٹ ہوا ہے تب سے بولتی بند ہے۔اس سے پہلے تک تو کافی بھونکتا رہاہے۔“ فوجی نے مسکراتے ہوئے کہا۔چوہدری دوبارہ مرشد کی طرف متوجہ ہوا۔
”ایسے کیا گھور رہاہے۔کاٹ کھائے گا کیا؟“اس نے اپنا پاﺅں مرشد کے چہرے کے قریب کر دیا۔
”لے …..کاٹ لے۔ اپنی خواہش پوری کر لے۔“ساتھ ہی اس نے مرشد کے عقب میں کھڑے رائفل بردار کو مخاطب کیا۔
”حکم داد ! ا س کے گلے سے پٹا اتار دے۔ شاید بے چارے کو منہ کھولنے میں مشکل ہو رہی ہے۔“
”جی چوہدری صیب !“ حکم داد نے فورا چوہدری کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پٹا کھول کر مرشد کی گردن سے علیحدہ کر دیا۔
”لے بھئی !اب سہولت سے کاٹ لے۔“چوہدری نے اپنا پاﺅں مرشد کے بائیں کندھے پر رکھ دیا۔اس کے پیروں میں براﺅن کلر کی بھاری کھیڑی تھی جو مرشد کے گال کو چھونے لگی تھی۔
”سرکار کہاں ہیں چوہدری ؟“ مرشد کے ہونٹوں کو پہلی بار جنبش ہوئی تو زبان پر حجاب بی بی ہی کے حوالے سے سوال آیا۔ دل نے اسی کے متعلق جاننا چاہا تھا۔چوہدری، فوجی کی طرف دیکھتے ہوئے استہزائیہ انداز میں بولا۔
”تو نے ٹھیک کہا تھا۔پٹا کھلتے ہی بند بولتی بھی کھل گئی۔“پھر وہ مرشد سے سوال انداز ہوا۔ ”کس سرکار کی با ت کر رہا ہے تو ….کون سرکار؟“
”سید صلاح الدین سرکار کی صاحب زادی، حجاب سرکار کہاں ہیں ؟“
چوہدری اس کے کندھے سے پاﺅں ہٹاتے ہوئے سیدھا ہو بیٹھا۔ اسی وقت ملنگی کمرے میں داخل ہوا۔اس نے دروازے کے ساتھ موجود کیل پر سے قمیض اتاری اور تیسری چارپائی کی طرف بڑھ گیا۔
”صلاح الدین سرکار …..حجاب سرکار !ماں کی…….. تیری سرکاروں کی،ساتھ تجھ دلے کی بھی۔ تو…….“
”چوہدری ……“مرشدکی گرج دار دھاڑ اتنی بلند اور وحشت ناک تھی کہ چوہدری اپنا جملہ بھول گیا۔
”اپنی زبان کو لگام ڈال، سوچ سمجھ کر بول “
سید سرکاروں کے متعلق چوہدری کے منہ سے گالی سن کر مرشد کے خون نے اچھالا مارا تھا۔ اگر اس کے ہاتھ پاﺅں بندھے ہوئے نہ ہوتے تو ان لمحوں وہ ہر خطرے کو نظرانداز کرتے ہوئے چوہدری کا ٹینٹوا دبوچتا اور اس کے حلق سے زبان کھینچ کر اکھاڑ لیتا۔ اس کے چہرہ تمتا اٹھا تھا اور آنکھوں میں آتشیں سرخی اترآئی تھی۔اس کے عقب میںکھڑے چوہدری فرزند کے خاص گرگے حکم داد نے اچانک اس کی کمر میں لات رسید کی تو وہ منہ کے بل چوہدری کے قدموں میں گر گیا۔
”چوہدری فرزند علی پر بھونکتاہے…… تیری اس کنجری ماں نے تجھے ذرا بھی تمیز نئیں سکھائی۔تجھے بتا یا نئیں ہم لوگوں کے متعلق….. میرے متعلق ،میرے باپ کے متعلق؟“ چوہدری نے اپنی کھیڑی سے اس کی گردن پر ٹھوکر ماری تو وہ فرش پر پلٹنیاں کھاتا ہوا اس سے دو قدم دور ہٹ کر دوبارہ کہنی کی مدد سے اٹھ بیٹھا۔
”کسی نے کیا بتانا تھا چوہدری !“ وہ چوہدری کی آنکھوں میںجھانکتے ہوئے زہر خند لہجے میںبولا۔ ”میں خود جانتا ہوں کہ تو ہجڑوں کے خانوادے سے تعلق رکھتا ہے ……تم سب حرام زادے ایک ٹکے کا کلیجہ نہیںرکھتے، اتنے لوگ ہو کر بھی اپنی بہنوں کے اس یا ر کے ہاتھ پیر باندھ کر اپنے آپ میں شیر بنے بیٹھے ہو۔ دم کٹے کتے ہو تم سب …..گیدڑ کی اولادیں ہو۔“ اس نے باقاعدہ چوہدری پر تھوک دیا۔ اس کا تھوک چوہدری کی قمیض پر گراتو چوہدری لال بھبھوکا چہرے کے ساتھ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔سوائے ملنگی کے، کمرے میںموجود سبھی افراد کے چہرے تمتا اٹھے تھے۔ حکم داد نے تو باقاعدہ اس کی طرف رائفل سیدھی کرلی تھی۔
اس کے وجود کو چھلنی کردینے کے لئے وہ اپنے چوہدری کے ایک ادنیٰ سے اشارے کا منتظر تھا، لیکن چوہدری نے اس کو ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ اس نے خود آگے بڑ ھ کر مرشدک کے چہرے پر ٹھوکر رسید کی ،مرشد پہلو کے بل گرا اور چوہدری نے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا۔
”تو ایک کنجری کا کنجر کتا ہے ……کتے ہی کی موت مرے گا تو۔“
مرشد ٹھوکروں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قہقہ لگا کر ہنسا
”ہجڑے کا پتر، ہجڑا چوہدری …..ہاتھ پیر کھول میرے …..تیری ……تیری چوہدراہٹ تیرے پچھواڑے سے نہ نکال دی تو …..تو مرشد نام نہیں ،مرشد کا۔“
چوہدری پر کچھ مزید وحشت سوا ر ہوگئی۔ وہ اندھا دھند مرشد کو ٹھڈے مارنے لگا۔یوں لگتا تھا جیسے اسے پاگل پن کا دورہ پڑ گیا ہو۔ مرشد تھا تو اس کے منہ سے خون بہنے لگا تھا۔ ہونٹوں کے علاوہ اس کے رخسار کی ہڈی پر سے بھی کھال پھٹ گئی تھی۔چوہدری کی ٹھوکریں بہت وحشیانہ تھیں۔یہ مرشد کی غیر معمولی قوت برداشت ہی تھی جو وہ برابر ہنس رہا تھا اور چوہدری فرزند پر جملے بھی کس رہا تھا۔
”او کتے کی شکل والے گیدڑ ! میرے ہاتھ پیر کھلوا ……مر د کی اولاد ہے تو…..اپنی ماں کے یار کے ہاتھ پاﺅں کھول ایک بار…..سالے ہجڑے چوہدری !“ کمرے میں موجود سبھی افراد کے چہروں پر تناﺅ پھیلا ہوا تھا۔صرف ایک ملنگی تھا جو پر سکون بیٹھا تھا ،بلکہ اس کے زیر لب ایک خفیف سی مسکراہٹ بھی موجود تھی۔ چند ہی منٹ میں چوہدری بری طرح ہانپ گیا۔ مرشد بھی قدرے نڈھال ہو گیا۔
چوہدری نے آگے بڑھ کر حکم داد کے ہاتھوں سے رائفل جھپٹ لی۔اس کا ارادہ تھا کہ پورا میگزین مرشد پر خالی کر دے۔ رائفل جھپٹ کر وہ مرشد کی طر ف پلٹا ہی تھا کہ ملنگی اپنی جگہ سے اٹھا ،اور کسی چیتے کی طرح زقند بھرتا ہوا چوہدری کے سامنے پہنچ گیا۔ رائفل اس نے مضبوطی سے تھام لی تھی۔
”نہیں چوہدری صاحب !یہ کام نہیںکرنا۔“
”ملنگی تم ایک طرف ہٹ جاﺅ۔میں …..میں اس …..(ناقابل اشاعت) ….کو زندہ نئیں چھوڑوں گا۔“
”بالکل نہیں……آپ اسکے ساتھ جو مرضی سلوک کریں ،مگر اس کی جان نہیں لیں گے آپ!“
”میںکہہ رہا ہوں ہٹ جا تو …..رائفل چھوڑ“ چوہدری کسی بھیڑیئے کی طرح غرایا۔وہ پورا زور لگا رہا تھا کہ رائفل ملنگی کی گرفت سے چھڑا لے ، لیکن ملنگی کی گرفت نہایت مضبوط تھی۔حکم داد غصیلے انداز میں ملنگی کی طرف بڑھا تو ملنگی کے ساتھی نے اس کی طرف رائفل سیدھی کرلی۔
”تو رک جا حکم داد !“
رانا سرفراز اورفوجی اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔صورت حال اچانک ہی رخ تبدیل کرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
”یہ سب کیا ہے….. رک جاﺅ۔“رانا سرفراز فوراً آگے بڑھا۔اس نے ہاتھ کے اشارے سے حکم داد اور ملنگی کے ساتھی کوکوئی بھی کروائی کرنے سے روکا تھا۔
”ملنگی ! یہ کیا کر رہے ہو تم ! پیچھے ہٹ جاﺅ“
”نہیں رانا صاحب ! یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ہمارے درمیان پہلے طے ہوا تھا کہ اس کا فیصلہ ہم لوگ خود کریں گے۔“ اس کا اشارہ مرشد کی طرف تھا جو کمرے کے کچے فرش پر نڈھا ل پڑا تھا۔
”معاہدہ گیا بھاڑ میں۔ اس حرام کے جنے کو میں چھا ننی کر کے چھوڑوں گا یہ ……چوہدری فرزند علی پر بھونک رہا ہے۔میں اس کے منہ میں برسٹ ماروں گا۔رائفل چھوڑ تو“
”چوہدری صاحب ! خود کو سنبھالیں۔اپنے غصے پر تھوڑا قابو پائیں “ رانا سرفراز نے چوہدری کے کندے پر ہاتھ رکھا، فوجی بھی آگے بڑھ آیا۔
” چوہدری صاحب ! یہ حرامی آپ کو جان بوجھ کر غصہ دلا رہا ہے تاکہ آپ اسے گولی مار کر اس کی مشکل آسان کر دیں۔ آپ خود ہی ایک ذرا سوچیں۔ اتنی آسان موت مار دینا چاہئے کیا اسے ؟“ فوجی کی بات کسی حد تک چوہدری کے دماغ کو لگی۔ چند لمحے کے لئے وہ خاموش ہو گیا۔رانا سرفراز نے
فوراً فوجی کی تائید کی۔
” فوجی ٹھیک کہہ رہا ہے چوہدری صاحب! تھوڑا تحمل سے سوچئے …… اسے اتنی جلدی اور اتنی آسان موت مارناہے کیا؟“ رائفل پر چوہدری کی گرفت ایک ذرا ڈھیلی ہوئی تو ملنگی نے رائفل اس کے ہاتھوں سے کھینچ لی۔چوہدری چند لمحے اپنی جگہ کھڑا خون خوار نظروں سے مرشد کو گھورتا رہا۔ اس کے نتھنے پھول پچک رہے تھے۔پھر وہ آگے بڑھا اور پہلوکے رخ پڑے مرشد کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے بے دردی سے مرشد کے بال مٹھی میں دبوچے اور زہریلے لہجے میں غرایا۔
”کس غلط فہمی میں مت رہنا تو�± ! مرنا تو ہے تجھے ،لیکن اتنی جلد ی اور اتنی آسان موت تجھے واقعی نئیں مرنا چاہئے۔ تڑپ تڑپ کر مرے گا تو اور تیری لاش بھی اس ڈیرے سے باہر نئیں جائے گی …..یہاں کے کتے تیرا مردہ کھائیں گے۔“چوہدری نے انتہائی نفرت سے ا س کے خون آلود چہرے پر تھوکا اور اٹھ کر دو تین ٹھوکریں مزید اس کی کمر اور پسلیوں میں رسید کر دیں۔
”پانی پلاﺅ حکم داد !“ چوہدری نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہا تو حکم داد فوراً کمرے سے باہر نکل گیا۔رانا سرفراز نے چوہدری کا بازو پکڑ کر اسے واپس چارپائی پر بیٹھا دیا۔
”اس دلّے پر لعنت بھیجیں چوہدری صاحب !اس کا عبرت ناک انجام تو ملنگی اور فوجی کے ہاتھوں طے ہو چکا ہے۔ آپ اس بڑے کنجر کا سوچیںاس کا اب کیا کرنا ہے ؟“
پتا نہیں رانا کس کی بات کر رہا تھا …… فوجی کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔ملنگی دوبارہ چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اس کی نظریں مرشد کا جائزہ لے رہی تھیں جو فرش پر سر رکھے بے دم سا پڑا تھا۔
”وہ کتے کا پلا اب ہے کدھر؟“چوہدری پھنکارا۔
”یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔بس فون پر ہی دوبار بات ہوئی ہے۔ آج صبح بھی رابطہ ہوا تھا……وہی ڈیمانڈ ہے اس کی۔“
راناکی بات سن کر چوہدری نے جھنجھلائے ہوئے انداز میںایک موٹی سی گالی نکالی۔
”اس کو بھی موقعے ہی پر پار کر دینا چاہئے تھا۔ بھروسہ کرکے غلطی کی …..کوئی ”س�±و“ نکالو کسی طرح اس…. (ناقابل اشاعت) …کی !“
”کوشش تو کی ہے مگر آپ جانتے ہو، بہت کایاں بندہ ہے ……گدھے کے سینگوں کی طرح غائب ہو چکا ہے۔“
اسی وقت حکم داد ایک جستی جگ گلا س اٹھائے اندر داخل ہوا۔
”اڑن طشتری میں بیٹھ کر آسمانوں کو تو نئیں اڑ گیا …..ہے تو اسی زمین پر، اسی علاقے میںکہیں۔کوشش کرو گے تو کھرا بھی مل ہی جائے گا۔ اس کے بعد اٹھوا لو اس …..کو بھی۔ کھال میں بھس بھرواکر، پچھواڑے میں ڈنڈا دے کر کھیتوں میں کھڑا کر دیں گے۔“
حکم داد نے پانی ڈال کر دیا تو چوہدری نے گلاس اس کے ہاتھ سے لے کر منہ کو لگا لیا۔رانا سرفراز مصلحت آمیز لہجے میں بولا۔
”اس معاملے کو بڑے تحمل اور سمجھ داری سے دیکھنا پڑے گا چوہدری صاحب !جذباتی ہو کر جوش اور غصے سے کام لیا تو سارے کا سارا معاملہ بگڑ جائے گا ……ساری کہانی الٹی پڑ سکتی ہے۔“
”تو پہلے کون سی سدھی پڑی ہوئی ہے۔ سب کچھ تو پروگرام کے الٹ ہوا ہے۔“ چوہدری نے خالی گلا س حکم دادا کو تھما یا تو وہ مودبانہ انداز میں پیچھے ہٹ گیا۔
”نہیں چوہدری صاحب ! سب کچھ تو الٹ نہیں ہے …..یہ حرامی تو ہتھے چڑھ ہی گیا ہے ہمارے …..اس کا کانٹا تو نکل چکا نا !“
چوہدری نے زہر ناک نظروں سے مرشد کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر حقارت سے اس کی طرف تھوکا۔
”یہ بد نسل ،حرام کا پلا میرے ابے کی رکھیل کا انڈہ ہے……جوانی میں اس کی ماں حسن آرا بڑی قیامت چیز تھی۔اس کا عشق ابے کے سر چڑھ کر بولتا تھا، لہذا اس کی یہاں موجودگی کی خبر ابے تک نئیں پہنچنی چاہئے …..وہ نہ ہو کہ ابے کے عشق کی چنگاری پھر بھڑک اٹھے ……تڑپا تڑپا اور سسکا سسکا کر مارنا ہے اس کتے کے تخم کو۔“
مرشد نے سر کو حرکت دیتے ہوئے نفرت بھری نگاہوں سے چوہدری فرزند کی طرف دیکھا۔ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملیں ،چوہدری براہ راست اس سے مخاطب ہوا۔
”میری بات لگتا ہے بہت بری لگی ہے تجھے ……شاید تیری اس کنجری ماں نے تجھے بتا یا نئیں کہ اس کی میرے باپ سے کتنی پرانی آشنائی ہے۔جوانی کی کئی راتیں میرے باپ کی گود میں گزاری ہیں اس نے…..وہ تو پھر کسی اور حرام زادے کے چکر میں پڑگئی تھی۔ اس کے بعد میرے باپ نے اس کے منہ پر تھوک دیا ……خارش زدہ کتیا والا سلوک کیا تھا تیری ماں کے ساتھ میرے ابے نے ۔وہ چھترول کی تھی کہ آج تک یاد کرتی ہو گی۔“
چوہدری کے الفاظ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح مرشد کے کانوں کے رستے اس کے کلیجے تک ا تر رہے تھے مگروہ پوری طرح بے بس اور مجبور تھا۔بس اس کی زبان آزاد تھی سو وہ زمین پر خون تھوکتے ہوئے بولا۔
” تیرے منہ میں کسی خصی کتے کی زبان ہے۔تو اکبر علی کا نہیں ……کسی گدھے کی غلطی کا نتیجہ ہے۔گدھے کی اولاد ہے تو، چوہدری ……چوہدری نہیں ہے تو میرے ہاتھ پیر کھلوا کر میرے ساتھ دو دو ہاتھ کر، پتاچلے تجھے تیری اصل اوقات کا۔“ ایک لمحے کو چوہدری کا چہرہ پھر پوری شدت سے تمتما اٹھا۔نتھنے پھڑ پھڑائے ،یونہی محسوس ہوا کہ وہ پھر سے اٹھ کر مرشد پر پل پڑے گا، لیکن اسی دوران ملنگی قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
”تیرا منہ تو بطخ کی ……جیسا ہے مرشد ے ! کچھ نہ کچھ نکالے جا رہا ہے ،لیکن پتر جی ! جو مرضی بکتا رہ، موت تجھے سوکھے سے ملنے والی نہیں۔تیری ہڈی جتنی ڈھیٹ ہے، اس کا سرمہ بنانے کا اتنا ہی مزہ آئے گا اور اس سے زیادہ مزہ آئے گا وہ سرمہ مجھے اپنی ان نشیلی کٹیلی آنکھوں میںلگانے سے …..تو روئے گا……چلائے گا……اپنی ناک ہمارے جوتوں پر رگڑ رگڑ کر معافیاں مانگے گا۔ موت مانگے گا،لیکن موت تجھے نہیں ملے گی۔“
مرشد ملنگی کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا۔
”میں دیکھ رہا ہوں ملنگن ! سب سے زیادہ ڈھیٹ اور کمینی روح تیرے پنڈ ے میں ہی پھنسی ہوئی ہے۔اس بے چاری کومیں آزاد کراﺅں گا ……تو ایسے ہی مطمئن رہ …….تیرا اطمینان دیکھ کر مجھے بڑا مزہ آرہاہے۔ کلیجے میںٹھنڈ سی پڑرہی ہے …(ناقابل اشاعت )انسان !“
”تسلی رکھ پھر ……اج رات تجھے اور ٹھنڈ پڑے گی۔تیرے کلیجے کو برف کی ڈلی بنا دوں گا میں ،میری جان!“پھر وہ مرشد کے عقب میں موجود اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا۔
” گگو! پٹا ڈال اس کے گلے میں اور لے جا کر باندھ دے وہیں ….ٹونی اور ٹمی کی جگہ ہے۔“
یہ ٹونی اور ٹمی کتوں کی اس جوڑی کا نام تھا ،جن کے درمیان مرشد کو رات بھر باندھ کر بٹھائے رکھا گیا تھا۔گگو نے فوراً ملنگی کے فرمان کی تعمیل کی اور پھر وہ اور حکم داد، مرشد کو پہلے ہی کی طرح گھسیٹ کر کمرے سے باہر لے گئے۔
٭ ٭ ٭
بازار حسن کی نائیکاﺅں میں ، نزہت بیگم ایسی دھڑلے کی نائیکہ تھی کہ اس نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا انجام ….اس کی موت یوں بے کسی کی حالت میں واقع ہو گی۔ اتنی درد ناک اور ایسی عذاب ناک ہو گی۔ ایک تو وقت ایسا تھا اور دوسرا صورت ہال ایسی تھی کہ وہ اپنے بچاﺅ میں کچھ بھی کر سکنے سے قاصر تھی۔وہ نہ کسی تک کوئی اطلاع پہنچا سکتی تھی اور نہ کسی کو اپنی مدداور داد رسی کے لئے پکار سکتی تھی۔
چوہدری اکبر علی ماچس میں سے تیلی نکال چکا تھا۔ آتشیں موت کے جھپٹ پڑنے میں محض لمحہ دو لمحہ کا وقفہ تھا کہ کمرے کے دروازے سے ایک تیز اور بارعب آواز نزہت بیگم کی سماعت سے ٹکرائی۔
”رک جاﺅ اکبرعلی …خبردار !“آواز شناسا تھی۔ بے اختیار نزہت بیگم کی آنکھیں کھل گئیں۔اکبر علی کو تنبیہ کرنے والے میرا ارشد اللہ تھے۔کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھے اکبر علی تک پہنچے اور اس کا ماچس والا ہاتھ تھام لیا۔ ان کے پیچھے ہی دروازے سے تین چار باوردی پولیس والے بھی اندر گھس آئے۔
”کیا ہو رہا ہے یہ سب …..کیا پاگل پن ہے یہ ؟“میر صاحب کا سرخ و سیپید چہرہ ان لمحوں کچھ مزید سرخ دیکھائی دے رہا تھا۔ چوہدری اکبر سے سوال کرتے ہوئے انہوں نے اس کے ہاتھ سے ماچس چھینی، پھر فوراً پلنگ پر سے ایک پٹرول آلود چادر اٹھا کر فرش پر پڑی حسن آرا کی طرف لپکے۔ایک پولیس آفیسر کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے اکبر علی کے سامنے آرکا۔
”یہ سب آپ ہی کا کیا دھرا ہے نا؟“
چوہدری نے اسے درخور اعتنا ہی نہیں جانا۔ و ہ قہر بار نظروں سے ارشد اللہ کو گھور رہا تھا ،جو حسن آرا کے بے ترتیب وجود پر چادر ڈال رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اسے اٹھایا اور پلنگ پر لٹا دیا۔
”ظاہر ہے انسپکٹر ! یہ کوئی پوچھنے والی بات تو نہیں۔“میر صاحب نے ناگوار نظروں سے اکبر علی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور خود نزہت بیگم کی طرف متوجہ ہو گئے ،جو اسی جگہ بیٹھی ہولے ہولے لرز رہی تھی۔اس کا رنگ یوں ہلدی ہو رہا تھا جیسے پورے وجود کا لہو نچڑ چکا ہو۔ اس میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی سکت نہیں تھی۔ میر صاحب نے اسے سہارد ے کر دیوار کے ساتھ پڑی ایک کرسی پر بیٹھا دیا۔
”تم نے اج پھر میرے رستے میں ٹانگ اڑائی ہے ،یہ ٹھیک نہیں کیا۔“
”اور یہ جو تم کرنے جا رہے تھے یہ تو جیسے بہت ٹھیک تھا“ چوہدری اکبر کے دھمکی آمیز لہجے پر میر صاحب نے انتہائی خشک انداز میں کہا۔
”ہاں ! یہ ٹھیک تھا …..زمین کا گندہ بوجھ کم کر دینا چاہئے۔یہی کر رہا تھا میں …….اور یہ بوجھ تو ختم ہو کر رہنا ہے اب۔ یہ تم یاد رکھنا “
میر صاحب نے پولیس آفیسر کی طرف دیکھا تو وہ فوراً ناگوار سے لہجے میں چوہدری اکبر سے مخاطب ہوا۔
”چوہدری صاحب ! خون کو تھوڑا ٹھنڈا رکھیں اور خود کو قانون کی حراست میں سمجھیں۔“چوہدری نے پرتپش نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
”خو ن مرداروں کا ٹھنڈا ہوتا ہے اور ……حراست کیسی ؟کس جرم میں؟“
”آپ دو عورتوں کو زندہ جلانے والے تھے۔آپ نے انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا ہے اور …باہر بھی آپ کے بندوں نے دو آدمیوں کے ساتھ اچھی خاصی مار پیٹ کی ہے ؟“
”‘تھوڑا عقل کو ہتھ مارو انسپکٹر ! اپنے منہ میں اپنی زبان ہی ٹھیک رہتی ہے۔بندہ کبندہ دیکھ کر بات کرنی چاہئے ……تمہارے سامنے کوئی غنڈہ موالی نئیں۔نند ی پور کا چوہدری اکبر علی خان کھڑا ہے۔سمجھ آئی ؟“ چوہدری کا لہجہ اور انداز کچھ ایساتحقیر آمیز تھا کہ انسپکٹر کی تیوریاں چڑھ گئیں۔
”آپ کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں آپ کے سامنے آپ کا کوئی کاما،یا مزارع نہیں کھڑا ……اور کسی علاقے کا چوہدری یا کسی ریاست کا نواب ہونے سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہو جاتا کہ وہ جیسا جرم چاہے کر گزرے۔دو انسانوں پر پٹرول چھڑکے اور انہیں زندہ جلا دے ……ابھی آپ اس کمرے سے باہر جا کر ٹھہریں۔ میں ان خواتین کا بیان لے لوں پھر آپ ہمارے ساتھ تھانے چلیں گے۔“
”یہ کیڑا تم اپنے دماغ سے نکال دو کہ تم چوہدری اکبر کو تھانے لے جاﺅ گے۔یہاں جو کچھ ہوا ہے وہ میں نے نئیں ،ان دو بندوں نے کیا ہے …..میں نے تو موقع پر پہنچ کر ان کنجریوں کی جان بچائی ہے۔“
چوہدری نے اپنے کئیے کرائے کا سارا ملبہ فوراً ہی اپنے دونوں کا رندوں کے سر ڈال دیا۔وہ دونوں، چار سپاہیوں کے گھیرے میں کھڑے تھے۔ سپاہی ان کے کندھوں سے رائفلیں اتروا کر قبضے میں لے چکے تھے۔ پھر فوراً ہی چوہدری نے اپنی نفرت بھری نگاہوں سے نزہت بیگم کی طرف دیکھا۔
”کیوں اے بڑی کنجری ! بتا …..تجھے میں نے کچھ کہا ہے کیا ؟“
نزہت بیگم سے پہلے میر ارشد اللہ بول پڑے۔
”اس ڈرامے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اکبر علی ! انسان جو کرے اس کا بوجھ سہارنے کا حوصلہ بھی رکھے۔“
”چوہدری صاحب ! ہمیں چرانے کی کوشش مت کریں۔ کمرے سے باہر ٹھہریں آپ …….ہم اچھی طرح جانتے ہیں سب۔“انسپکٹر بولا تھا۔
”کوئی گواہ ہے …کوئی ثبوت ہے تمہارے پاس؟“چوہدری نے اسے آنکھیں دکھائی تو میر صاحب بول پڑے۔
”گواہ ہم ہیں……انسپکٹر صاحب ! آپ ہماری طرف سے ہی ایف آئی آر درج کریں۔ہم خود پیروی کریں گے اس کیس کی۔“میر صاحب کی بات چوہدری کے کلیجے میں خنجر کی طرح لگی۔وہ میر صاحب کو گھورتے ہوئے زخمی سانپ کی طرح پھنکارا۔
”اک بازاری عورت کے چکر میں اکبر علی کے ساتھ ویر ڈال رہے ہو ….اپنے باپ اور اپنے ٹبر ،اپنے خاندان کی عزت و شرافت سے دشمنی کر رہے ہو تم ……بہت پچھتاﺅ گے اپنے اس فیصلے پر۔“
”ہماری اور ہمارے خاندان کی چھوڑ وتم اپنی فکر کرو اکبر علی! ہم نے خود تمہیں سب کچھ بتا یا ،تم سے درخواست کی ہم نے اورتم نے الٹا اثر لیا …سب کچھ جانتے بوجھتے آج یہاں, یہ سب جو تم نے کیا ہے ,اس کے لئے ہم تمہیں ہرگز بھی معاف نہیں کر سکتے۔“
”تم معاف نہیں کر سکتے …….معاف تو تمہیں میں نئیں کروں گا۔تم نے چوہدری اکبر کی محبت پر ڈاکا ڈالا ہے۔میرے کلیجے میں خنجر واڑا ہے اور اب کھلم کھلا دشمنی پر اتر آئے۔ تمہیں تو اندازہ ہی نئیں ہے کہ تم نے اصل میں اپنی بد بختی کا انتظام کر لیا ہے۔“چوہدری اکبر کی کینہ پرور آنکھوں میں نفرت اور دشمنی کی آگ سی دہکنے لگی تھی۔
”اپنی دھمکیوں کو بریک لگائیں چوہدری صاحب !اور خود ہی کمرے سے باہر چلے جائیں۔“
ٹھیک ہے ….تجھے بھی دیکھ لوں گا میں۔تیری وردی ہی تیرے پنڈے کیلئے اگ کا شکنجہ نہ بنا دی تو اکبر علی نام نئیں میرا۔“
پولیس آفیسر کی بات پر چوہدری نے درشت لہجے میں اسے بھی دھمکی سے نوازا اور پھر ایک جھٹکے سے پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
میر صاحب حسن آرا کی طرف متوجہ ہوئے ،وہ ہوش میں تھی اور یک ٹک انہی کی صورت تکے جا رہی تھی۔ان نم آنکھوں میں عجیب والہانہ شوق چمک رہا تھا۔اس کی ناک سے بہنے والے خون کے چند قطرے پٹرول سے دھل کر ہونٹوں کے بالائی حصے پر گلابی رنگ کی صورت پھیل چکے تھے اور چہرہ جیسے دہک رہا تھا۔میر صاحب نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔
”آپ ٹھیک تو ہیں ؟“ان کے ہاتھ کا لمس اور لہجے سے چھلکتی محبت آمیز فکر مندی ایک سکون آور توانائی کی صورت حسن آرانے اپنی رگ جاں میں اترتی ہوئی محسوس کی۔ اس نے بے ساختہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
” اب فکر نہیں کریں ،ہم پہنچ آئے ہیں نا ……اب ہم یہیں ہیں۔“
اس کے بعد وہ جلدی سے بیرونی دروازے تک پہنچے۔ دروازے کے باہر ہی دو خوش پوش افراد موجود تھے۔ میر صاحب ان میں سے ایک سے مخاطب ہوئے۔
”قریشی صاحب ! ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔فوراً انتظام کیجئے۔“
”جی بہتر……“ قریشی صاحب نے فوراً مودبانہ انداز میں سرکو جنبش دی اور پلٹ کر چل پڑے۔اسی وقت عشرت جہاں اور سندس جہاں افتاں وخیزاں نمودار ہوئیں۔وہ دونوں اور میر صاحب آگے پیچھے ہی کمرے میں واپس داخل ہوئے۔تین سپاہی چوہدری کے دونوں کارندوں کولے کر کمرے سے باہر نکل گئے۔ انسپکٹر ایک سپاہی کوساتھ لے کر نزہت بیگم کا بیان قلم بند کرنے لگا۔
…}…٭٭…{…
وہ ایک کچا کوٹھڑی نما کمرہ تھا۔ کمرے کے ایک کونے میں پانی کا مٹکا دھرا تھا اور اس کے برابر زمین پر ہی، ایک میلا کچیلا بستر بچھا ہوا تھا ،جس پر مرشد بے سدھ پڑا تھا۔اس کا وجود سراپا زخم تھا۔ اس کی پشت پر ہتھکڑی میں جکڑے ہاتھ کھول دیئے گئے تھے، لیکن وہ آزاد ہر گز نہیں تھا …… اس ہتھکڑی کی ایک کڑی اس کی بائیں کلائی کو جکڑے ہوئے تھی ،جب کہ دوسری بائیں ٹانگ کو ٹخنے کے قریب سے گرفت میں لئے ہوئے تھی۔وہاں گرفت سخت تھی۔ ٹانگ کی کھال بری طرح چھل بھی چکی تھی اور اس حصے میں مرشد کومسلسل تکلیف بھی تھی۔ اس کے علاوہ ایک دس فٹ لمبی زنجیر، ہتھکڑی کے درمیان بندھی تھی اور ا س کا دوسرا سرا دیوار میں موجود سلاخ دار کھڑکی کی ایک موٹی سلاخ سے منسلک تھا۔ اسے چند گھنٹے پہلے ہی یہاں منتقل کیا گیا تھا۔
چوہدری فرزند سے ملاقات کے اگلے روز شام مغرب کے بعد اسے تین گھنٹے تک ایک کمرے میں الٹا لٹکا کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس تشدد میں کیکر کی باریک سبز شاخیں استعمال کی گئیں ……بجلی کے تار کا ہنٹر بھی اس کے وجود پر سرخ لکیریں کھینچتا رہا …….اس کے بعد نمک مرچ کو یکجا کر کے اس کے وجود کے زخموں پر مساج کیا گیا۔تشدد تو فوجی اور دیگر کارندوں نے کیا البتہ نمک مرچ کا مساج ملنگی نے اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔ مرشد اس دوران مسلسل ان سب کو گالیاں دیتا رہا اور دو بدو لڑنے کے لئے للکا رتا رہا، لیکن وہ سب اس کی اذیت اور بے کسی پر ہنستے رہے ،پھر جب اس کے حواس دھند لا گئے تو اسے دوبارہ اسی جگہ، اسی طرح باندھ کر ڈال دیا گیا۔رات ہی کے کسی پہر اسے بخار ہو گیا۔آج صبح دس بجے بارش شروع ہوئی۔وہ اسی جگہ پڑا بارش میں بھیگتا رہا۔بخار مزید شدت اختیار کر گیا تو وہ با لکل ہی بے سدھ سا ہو گیا۔ اس کی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ اس کا بچنا اب مشکل ہے۔تبھی ملنگی نے اپنے کارندوں سے کہہ کراسے وہاں سے اٹھوایا اور اس کمرے میں منتقل کر دیا۔ اس کے وجود پر موجود کپڑوں کی گیلی دھجیاں علیحدہ کر کے اسے بالکل برہنہ حالت میں، اس میلے کچیلے بستر پر لٹا کر اوپر ایک کھیس ڈال دیا گیا۔کچھ دیر بعد دو افراد نے مل کرا سے چائے کے ساتھ بمشکل چند پاپے کھلائے اور واپس چلے گئے ،پھر ملنگی نے آکر اسے دو انجکشن لگائے اور وہ بھی چلا گیا۔
مرشد کے ساتھ یہ ساری نرمی اور مہربانی کسی ہم دردی کے تحت نہیں کی گئی تھی،بلکہ یہ سب اس لئے تھا کہ وہ اذیت اور تشدد پسند درندے اتنی جلدی تشدد پسندی کے اپنے مشغلے سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔وہ ابھی بہت سے روز اسے زندہ رکھنا چاہتے تھے ۔اسے تختہ مشق بنائے رکھنا چاہتے تھے۔
تقریباً چھ گھنٹے بعد دوبارہ یہی عمل دوہرایا گیا۔اسے پھر سے چند لقمے کھلائے گئے۔اور ملنگی دوبارہ اسے انجکشن لگا کر لوٹ گیا۔صبح کے قریب مرشد
کے حواس قدرے بحال ہوئے تو اسے اپنی برہنگی اور اس نئے قید خانے کا اندازہ ہوا۔پورا وجود پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ زخموں میں جلن تھی اور ہلکا ہلکا بخار بھی ابھی تک باقی تھا۔ ہاں یہ ہوا تھا کہ اس کا دماغ سوچنے سمجھنے اور محسوس کرنے کے قابل ہو آیا تھا۔
اس نے ہتھکڑی کے نئے انداز بندش کو محسوس کیا، وہ نہ تو سیدھا ہو کر لیٹ سکتا تھا اور نہ ہی سیدھا کھڑا ہو سکتا تھا۔کوٹھڑی مکمل طور پر خالی تھی۔ مخالف دیواروں میں لکڑی کے دو دروازے تھے اور تیسری دیوار میں موٹی سلاخوں والی ایک کھڑکی، جس کی ایک سلاخ کے ساتھ زنجیر بندھی تھی۔کھڑکی سے باہر ملگجا سا اجالا تھا آسمان ابھی پوری طرح صاف نہیں ہوا تھا۔فضا گدلی تھی البتہ بارش رات کے کسی پہر رک گئی تھی۔ اسے سخت پیاس محسوس ہورہی تھی ،لہذا مٹکے پر نظر پڑتے ہی اس نے اٹھ کر مٹکے کے اوپر دھرے کٹورے سے بدقت پانی پیا اور تین کٹورے حلق میں انڈیلنے کے بعد دوبارہ کھیس اوڑھ کر لیٹ گیا۔اتنی سی مشقت ہی سے اس کی سانس پھول گئی تھی۔تین روز کی بھوک پیاس ،وحشیانہ تشدد اور پھر شدید بخار نے اس کے وجود کی ساری توانائیوں کو جیسے نچوڑ لیا تھا۔دن دس بجے کے قریب اس کی پائینتی والی دیوار میںموجود دروازے پر آہٹ ہوئی ،دروازہ کھلا اور منظوراں ایک ٹرے اٹھائے جھجکتی ہوئی اندر داخل ہو آئی۔ اس کے عقب میں ایک ناٹے قد کا سیاہ صورت رائفل بردار تھا، جو دروازے میں ہی جم کر کھڑا ہو گیا۔
گذشتہ تین دنوں میں وقتاً فوقتاً مرشد، منظوراں کو دیکھ چکا تھا۔ وہ فربہی مائل بدن کی پختہ عمر عورت تھی۔ صبح شام تنور پر وہی روٹیاں لگاتی تھی اور یہاں موجود تمام جنگلی جانور نما انسانوں کے لئے ہانڈی سالن کرتی تھی۔ا ن کے جھوٹے برتن اور گندے کپڑے دھوتی تھی۔مرشد نے کئی بار محسوس کیا تھا کہ جب بھی اس کی نظر مرشد پر پڑتی تھی، اس کی آنکھوں میں ایک خوف اور عجیب سی ہم دردی کسمسا کر رہ جاتی تھی۔ شاید اسے اندازہ تھا کہ اس بدنصیب گھبرو جوان کا انجام کیا ہونے والا ہے۔
”بس ٹرے یہاں …اس کے پاس رکھ دے“ منظوراں کی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہوئے رائفل بردار نے کھردرے انداز میں کہا،پھر مرشد کو ایک غلیظ گالی دیتے ہوئے بولا۔
”اٹھ کر کچھ زہر مار کرلے، تیرے لئے ملنگی استاد نے خاص انتظام کروایا ہے۔“
منظوراں نے دو قدم کے فاصلے پر ٹرے رکھی اور جلدی سے واپس پلٹ گئی۔اس کے باہر نکلتے ہی دروازہ ایک بار پھر بند ہو گیا۔
مرشد نے سر اٹھا کر دیکھا ،ٹرے میں تام چینی کا ایک بھاپ اڑاتا پیالہ رکھا تھا۔ اس کے ساتھ چند سیب تھے اور کچھ اخباری کاغذ کی پڑیاں۔اس نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے ٹرے کھسکا کرذرا اپنے قریب کی ، سب سے پہلے ان پڑیوں کو کھلو ل کر دیکھا۔ان میں ایک ایک کیپسول اورتین تین ٹیبلٹس تھیں۔یہ یقینا اس کے بخار وغیرہ کے لئے چندخوراکیں تھیں۔ تام چینی کے پیالے میں غالباً دیسی چوزے کی گرما گرم یخنی تھی۔ مرشد کے ہونٹوں پر زخمی سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔
اس کی بائیں آنکھ اورخسار ورم کی زد میں تھا۔ چوہدری کی کھیڑی کی ضرب سے رخسار کی پھٹنے والی آدھ پون انچ کھال سوکھ کر سیاہ پیپڑی سی کی صورت اس کے رخسار سے چمٹی ہوئی تھی۔پھلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے یخنی کا پیالا اٹھایا اور دس منٹ میں خالی کر دیا۔خالی معدے میں ایک حرارت آمیز توانائی بے دار ہو اٹھی تھی۔چند منٹ کا وقفہ دے کر اس نے ایک پڑیا اٹھائی اور پہلی خوارک حلق سے اتار کر دوبارہ لیٹ گیا۔پتا نہیں یہ ان ٹیبلٹس کا اثر تھا،یخنی کا ،یا پھر دونوں کا کچھ ہی دیر بعد اسے یوںکھل کر پسینہ آنا شروع ہوا کہ پندرہ بیس منٹ میں ہی اس کا سارا وجود ایسے بھیگ گیا جیسے وہ نہا کر آیا ہو۔
ایک گھنٹے بعد اس کا بخار مکمل طورپر اتر چکا تھا اور جسمانی نقاہت میں بھی بہت حد تک کمی واقع ہو آئی تھی۔کچھ دیر لیٹے رہنے کے بعد وہ کمبل ہٹا کراٹھ بیٹھا۔کھڑکی سے باہر ابھی تک مکگجا اجالا تھا۔ یعنی بادل بددستور موجود تھے۔وہ جھکے جھکے انداز میں اٹھ کر کھڑکی تک پہنچا۔زنجیر کو ایک سلاخ کے ساتھ لپیٹ کر تالا لگا دیا گیا تھا۔اس نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔یہ غالباً اس ڈیرے کا عقبی حصہ تھا ۔سامنے ……پانچ چھ فٹ کے فاصلے پر احاطے کی کچی دیوار تھی اور درمیانی حصے میں خودرو گھاس اور آک کے پودے اگے ہوئے تھے ،جو بارش میں دھل کر نکھرے نکھرے دکھائی دے رہے تھے۔ فضا میں گیلی مٹی اور پانی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔وہ ادھر سے ہٹ کر دوسری طرف موجود دروازے کی طرف بڑھ گیا جس کی زنجیر اندر ہی سے چڑھی ہوئی تھی۔اس نے زنجیر ہٹاتے ہوئے دروازہ کھولا، یہ بھی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی۔چھت کافی اونچی تھی اور اس میں کافی بڑا سوراخ بھی تھا۔اس حصے سے گرا ہواچھت کاملبہ اندر ہی پڑا تھا،جو اس وقت کیچڑ بنا ہوا تھا۔اس کوٹھڑی کا اصل مصرف تو پتا نہیں کیا تھا؟ مرشد نے اسے بیت الخلا کے طور پر استعمال کیا اور کسی نہ کسی طرح پر سکون ہو کر باہر نکل آیا۔ دوسرے دروازے کا اسے اندازہ تھا پھر بھی اس نے دروازے کی درزوں سے جھانک کر دیکھا ،آدھا صحن دکھائی دیا جو خالی تھا ……مکمل خاموشی تھی۔یوں جیسے یہاں کوئی ذی روح موجود ہی نہ ہو …..کوٹھڑی کے اندر صرف زنجیر کی کھنکھناہٹ تھی۔ وہ واپس اپنی جگہ پہنچ کر بیٹھ گیا۔
اب وہ خود کو کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔کوٹھڑی میں قدرے حبس کا احساس ہو رہا تھا، پھر بھی اپنی برہنگی چھپانے کیلئے اس نے اپنے زیریں جسم پر کھیس ڈال لیا تھا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے اس نے ارادہ کیا کہ اب کم از کم اس کا ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ پوری طرح آزاد ہے، لہذا اب وہ ان لوگوں کو موقع نہیں دے گا کہ وہ پھر سے اسے مکمل طور پر بے بس کر پائیں۔ اس بات کا اسے پورا یقین تھا کہ ایسی حالت میں بھی وہ اپنے قریب آنے والے کو محض چند لمحوں میں ٹھنڈا کر سکتا ہے۔ اپنے ساتھیوںکے درد ناک انجام کے حوالے سے اس کے سینے میں مسلسل ایک آگ سی دہک رہی تھی ان کے خون کا قرض چکائے بغیر وہ ختم نہیں ہونا چاہتا تھا اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ ساتھ اماں کی فکر بھی اسے مسلسل بے چین کئے ہوئے تھی۔ کچھ اندازہ نہیں تھا کہ وہاں کے حالات کیا ہوں گے۔ اسے یہاں پھنسے ہوئے آج چوتھا روز تھا اور اس دوران حجاب کا خیال بھی اسے مسلسل ایک جال گسل اضطراب میںمبتلا کئے رہا تھا۔ بھوک پیاس کے باوجود….. تشدد ،بخار اور نیم غشی کے باوجود وہ معصوم ، من موہنی صورت اس کے پردہ تصور پر جھلملاتی رہی تھی وہ روشن اور پر نور چہرہ ایک سوال کی صورت اس کی نگاہوں کے سامنے رہا تھا۔ اب بھی وہ چہرہ اس کے ذہن میں چمک رہا تھااوروہ دانستہ اسے نظر انداز کر رہا تھا……اپنے ذہن کو اس کے تصور ، اس کی یاد سے ہٹا رہا تھا اور ایسا اس لئے تھا کہ اس کے وجود پر کپڑے نہیں تھے اسے ایک جھجھک اور شرمندگی کا احساس ستا رہا تھا شاید اسی باعث کوٹھڑی کی فضا حبس زدہ ہونے کے باوجود اس نے اپنے زیریں جسم کو کھیس سے ڈھانپ رکھا تھا۔
سارا دن اسی طرح خاموشی اور سکون سے گزرا۔ مغرب سے کچھ پہلے دروازہ ایک بار پھر کھلا اور پہلے ہی کی طرح منظوراں کھانے کے برتن رکھ کر اور صبح والے سمیٹ کر واپس چلی گئی۔وہی گن مین پہلے کی طرح دروزاے میں کھڑا رہا تھا۔ ابھی تنور کی روٹیاں اور مرغی کے گوشت کا سالن تھا۔ اس بار مرشد نے کھانے کے ساتھ تسلی سے انصاف کیا اور پھر دوا کی خوراک نگل لی۔ دن میں سیبوں پر گزار اکیا تھا۔ہتھکڑی اور زنجیر کے ساتھ بھی وہ زور آزمائی کر کے دیکھ چکا تھا۔ کھڑکی میںموجود سلاخیں انتہائی مضبوط تھیں۔خلاصی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تھی ۔کوٹھڑی میں اور کوئی چیز موجود نہیں تھی۔دن بھر پسینے کے نمکیات اس کے بدن کے زخموں میں انگارے دہکاتے رہے تھے۔
مغرب کے بعد ایک بار پھر باہر بوندا باندی شروع ہوگئی اور مرشد بسترپر لیٹ گیا۔کوٹھڑی میںمکمل تاریکی پھیل گئی۔ اطراف میں ہنوز خاموشی اور سناٹا
تھا۔ملنگی اور فوجی لوگ شاید کہیں نکلے ہوئے تھے،کسی نئے مشن پر …..کسی نئی کاروائی کیلئے …..شاید اس” کا یاں“ آدمی کا کانٹا نکالنے گئے تھے ،جس کے متعلق رانا سرفراز اور چوہدری فرزند علی کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔ اس نامعلوم شخص کے حوالے سے وہ دونوں ہی خاصے پریشان دکھائی دئیے تھے۔
رات دھیرے دھیرے گزرتی گئی۔ بارش کبھی رک جاتی اور کبھی زور پکڑ جاتی۔ مرشد بستر پر لیٹا مختلف سوچوں اور خیالوں میںالجھا رہا۔ نصف شب سے اوپر ہی وقت رہا ہو گا، جب اسے ہلکی ہلکی غنودگی محسوس ہونا شروع ہوئی۔شاید کچھ دیرمیں وہ سو جاتا، مگر ایک پراسرار سی آہٹ نے اسے چونکا دیا۔ آہٹ کی وہ آوا ز کھڑکی کی سمت سے بلند ہوئی تھی …..یقینا کھڑکی کی دوسری طرف کوئی موجود تھا !
مرشد نے ایک ذرا سر اٹھا کر دیکھا۔ اندھیرے کے باوجود اسے محسوس ہواکہ کھڑکی کی سلاخوں کے درمیان کچھ ہے۔ ایک عجیب سی سرسراہٹ کی آوا ز بھی تھی۔ اگلے ہی لمحے کوئی چیز مدھم سی دھپ کی آواز کے ساتھ سلاخوں سے کوٹھڑی کے اندر آگری۔کسی انجانے احسا س کے تحت اس کی رگوں میں دوڑتے لہو کی گردش تیز ہو گئی۔ وہ اپنی جگہ اٹھ کر بیٹھا تو کوٹھڑی کے اندھیرے میں زنجیر کی کھنکھناہٹ گونج اٹھی۔ٹھیک اسی وقت کھڑکی کی طرف سے ایک سرسراہٹ اڑتی ہوئی آئی اور اس کے کندھے سے ٹکرا کر بستر پر گر پڑی۔ وہ شاپر میں لپٹی کوئی سخت چیز تھی۔ مرشد نے ٹٹول کر شاپر پکڑا اور اس کے اندر موجود چیز کی حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔اس نے بہ عجلت شاپر میں سے وہ چیز نکالی۔ وہ ایک مخصوص طرز کی چابی تھی۔ایسی چوڑی دار گول چابی جس سے ہتھکڑیوں کو کھولا اور بند کیاجاتاہے مرشد نے بے ترتیب دھڑکنوں کے ساتھ ٹٹول کر چابی کو ہتھکڑی کے سوراخ تک پہنچایا اور اگلے چند ہی لمحوں میں اس منحوس ہتھکڑی کا شکنجہ کھل گیا۔ اس کی کلائی اور ٹانگ اس آہنی گرفت سے آزاد ہو چکی تھیں۔ ایک مسرت انگیز تحیر اس کے دل و دماغ میںگھلتا چلا گیا۔ اس نے چند لمحے اپنی ٹانگ اور کلائی کوسہلایا، پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑکی تک پہنچ گیا۔یہاں ایک قدرے بڑئے سائز کا شاپر موجود تھا۔مرشد نے اسے ٹتولتے ہوئے کھولا اور ہاتھوں اور انگلیوں کی مدد سے اس کے اندرموجود سامان کا جائزہ لینے لگا۔ کپڑے تھے ،ایک کاپی سائز کاغذ کا ٹکڑا تھا اور ….. اور ایک انتہائی کار آمد ہتھیار تھا ۔ہاں، کپڑوں کے اندر لپٹا ہواایک پستول بھی تھا !
مرشد نے اٹھ کر فوراً کھڑکی سے دوسری سمت جھانکا ،مگر ادھر اندھرے اور سناٹے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ گویا یہ سب کوئی غیبی مدد تھی… یہ بات آسانی سے سمجھ آنے والی تو تھی نہیں ،کہ یہاں کون اس کا ہم درد اور مددگا پیدا ہو گیا ہے؟”کون “کے حوالے سے تو اندازہ ممکن نہ تھا البتہ فی الوقت ان حالات میں اتنا ہی کافی تھا کہ کوئی نہ کوئی ہے ضرور…..
اس نے فوراً کپڑوں کا جائزہ لیا۔ وہ ایک شلوار سوٹ تھا۔ مرشد نے اسے زیب تن کیاپھر کچھ سوچ کر شلوار کے علاوہ بنیان اور قمیض اتار کر بستر پر ،کھیس کے نیچے چھپا دی۔کاغذ کا ٹکڑا بدستو اس کے ہاتھ میں تھا۔ اندھیرا اس قدر گہرا تھا کہ کچھ بھی دیکھنا ممکن نہیں تھا۔بس قیاس کیا جاسکتا تھاکہ ہو نہ ہو اس کاغذ پر کوئی پیغام درج ہو گا۔کچھ دیر کی سوچ بچار کے بعد اس نے کاغذ کا وہ ٹکڑا قمیض کی جیب میںڈالا اور پستول کے میگزین کے بھرے ہونے کی تسلی کر کے پستول ڈب میں لگا لیا۔اس کے بعد اٹھ کر ”بیت الخلا “والی کوٹھڑی میں پہنچ گیا۔کوٹھڑی کی دیوارریں کچی سہی مگر مضبوط تھیں اور چھٹ کم از کم بھی چودہ پندرہ فٹ بلندی پر تھی۔ بنا کسی آسرے سہارے کے وہاں تک پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا کوٹھڑی سے نکل کر وہ صحن کی طرف کھلنے والے دروازے کے قریب آرکا، دروازہ مضبوطی سے بند تھا اور باہر سے زنجیر چڑھی ہوئی تھی ۔باہر ہنوز وہی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔بس کسی کسی وقت کتوںکی آواز سنائی دیتی تھی۔ وہ غالباً وسیع صحن میں کھلے پھر رہے تھے۔مرشد پیچھے ہٹ کر اس مختصر جگہ پر ٹہلنے لگا۔
ذہن بار بار اس اجنبی مددگار کی طرف چلا جا تا جس نے رات کی اس تاریکی میں اس کی مدد کرتے ہوئے اس قدر سہولت پیدا کر دی تھی کہ اب وہ مرتا
مرتا بھی دوچارکو تو بہ آسانی اپنے ساتھ لے مرتا۔وہ سوچتا رہا مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ کبھی مراد، جعفر اور شبیرے کا خیال اس کی نسوں میں لاوا دوڑا جاتا ،کبھی ساون اکو اور دیگر ساتھیوں کی فکر ہونے لگتی۔اسے یقین تھا کہ لالا رستم بھی اپنے طور پر حرکت میں آچکا ہو گا اور سب سے پہلے اس نے اماں کی حفاظت اور سلامتی کا انتظام کیاہو گا۔ حجاب کا خیال تو اسے مسلسل ہی مضطرب کئے ہوئے تھا۔ہ وہ سوچتا رہااور ٹہلتا رہا، اسی طرح صبح کا اجالا پھیلنے لگا۔ کوٹھڑی میں کچھ روشنی داخل ہوئی تو وہ بستر پر آبیٹھا۔اس نے بے چینی سے قیمض کی جیب میں سے کاغذکا ٹکڑا نکالا ،وہ کسی کاپی سے پھاڑا گیا تھا اور اس کی ایک طرف تحریر سے پر تھی۔مرشد کی نظریں اس تحریر پر پھسلنے لگیں۔وہ تحریر کسی عورت کی تھی۔
”میں جانتی ہوں مرشد کہ تم ابھی تک زندہ سلامت ہو اور خدا کے حضور دعا گو ہوں کہ تم زندہ سلامت ہی رہو۔
تمہاری مدد کی اپنی سی کوشش کرنے جا رہی ہوں۔پتا نہیں کامیاب بھی ہو پا تی ہوںیا نہیں۔بس دعا ہے کہ
میری مدد تم تک پہنچ سکے اور تم یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاﺅ۔تمہارے پاس کل شام تک کا وقت ہے۔
کل شام تک اس ڈیرے پر صر ف ایک ہی آدمی موجود رہے گا۔ شام کے بعد ا س کے باقی سارے ساتھی بھی
لوٹ آئیں گئے۔ اس کے بعد تمہارے لئے یہاں سے
نکل پانا قریبا ً ناممکن ہی ہو گا۔
میرا اندازہ ہے کہ تم ہی وہ شخص ہو جو چوہدریوں کی فرعونیت کو لگا م ڈالنے کا حوصلہ رکھتے ہو۔
حجاب بی بی کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ اس کی کسی کو خبر نہیں کہ فی الوقت
وہ کہاں ہے۔ اس کے بھائی اسرار احمد کابھی کچھ اتا پتا نہیں۔البتہ حجاب بی بی کی والدہ سردار بی بی
زندہ سلامت ہیں اور محفوظ ہیں۔اگر تم یہاں سئے بچ نکلنے میں کابیاب
ہو گئے تو میںکسی نہ کسی طرح تم تک ان کا ایڈریس پہنچا دوں گی۔فی الحال ان کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی۔
خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔
والسلام
تمہاری ایک خیر خواہ…..
مرشد نے دو تین بار وہ تحریر پڑھی اور کتنی ہی دیر پر سوچ اندازمیں بیٹھا رہا۔ اس خط کے حوالے سے سب سے پہلے اس کا ذہن منظوراں کی طرف گیا،مگر اس نے فوراً ہی ذہن سے یہ خیال جھٹک دیا۔منظوراں مکمل طور پر ایک گنوار دیہاتن تھی ،جبکہ یہ تحریر انتہائی پختہ اور نپی تلی تھی۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ لکھنے والی اچھی خاصی ذہین اور تعلیم یافتہ خاتون ہے۔ تحریر سے یہ بھی بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ حجاب بی بی کے گھرانے پر گزرنے والی ساری قیامت سے لے کر اب تک کے تمام واقعات سے باخبر ہے۔اور تو اور شاید وہ خود مرشد کے بارے میں بھی سب کچھ جانتی تھی۔ یہ بھی واضع تھا کہ وہ حجاب بی بی کی والدہ کے حوالے سے بھی وہ ساری معلومات رکھتی ہے جو کہ اور کسی کے پاس بھی نہیں تھیں …..
مرشد جس قدر سوچتا گیا یہ نامعلوم خاتون اس کے نزدیک اتنی ہی پراسرار حیثیت اختیار کرتی گئی۔ اب تک اس کا اندازہ یہی تھا کہ” ڈپٹی اعوان پر حملہ کروا کر ڈپٹی صاحب اور حجاب سرکار کو اغوا کرانے والے چوہدری اور رانا سرفراز لوگ ہیں۔“لیکن اب اس باخبر اور پراسرار خاتون کے خط سے اس پر ظاہر ہو رہا تھا کہ اس کا اندازہ غلط ہے ….. درمیان میں کوئی تیسری پارٹی کوئی تیسر ی طاقت یہ کام کر گزری تھی اور دو روز پہلے چوہدری اور رانا
کے درمیان شاید اسی حوالے سے بات چیت ہو رہی تھی۔وہ تیسری پارٹی یا تیسرا شخص کون تھا …..یہ ایک نئی الجھن،نئی پریشانی تھی !
روشنی کچھ مزیدپھیلی تو مرشد ہتھکڑی اور زنجیر تھام کر دوبارہ بستر پر دراز ہو گیا۔کھیس اس نے پیٹ تک اوڑھ لیا اور پسٹل کو تیار حالت میں کر کے ہاتھ کے نیچے رکھ لیا۔ اسے یقین تھا کہ کچھ دیر تک منظوراں رائفل بردار کی نگرانی میں کھانا لے کر آئے گی اور یہی وہ بہترین موقع ہوتا جب وہ باآسانی اس رائفل بردار کو نشانہ بناتے ہوئے یہاں سے نکل لیتا۔
وہ کھیس اوڑھے ان کے انتظار میں لیٹا رہا۔باہر ہنوز جھڑی کا سماں تھا۔کچھ دیر مزید گزری ہو گی کہ پھر سے ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ا س کی بے چینی میں اضافہ ہوتا گیا۔دو دفعہ اس نے ا�±ٹھ کر دروازے کی درزوں سے جھانکا بھی۔یہ کوٹھڑی ایک کونے میں کسی بڑے کمرے کے بغلی طرف واقع تھی ۔دروازے کے بائیں ہاتھ اس کمرے کی آٹھ فٹ لمبی دیوار دکھائی دیتی تھی۔ دائیں ہاتھ دس بارہ فٹ کے فاصلے پر بیرونی دیوار تھی جو سامنے تک چلی گئی تھی۔ یہاں سے مکمل صحن دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بس بیرونی گیٹ ،ہینڈ پمپ اور صحن کا کچھ حصہ …..تنور بھی یہاں سے سامنے ہی تھا مگر وہ ٹھنڈا پڑا تھا۔ پورے حصے میں خاموشی تھی۔کتے بھی غالبا ً کہیں دبکے بیٹھے تھے۔
کئی گھنٹے یونہی گزر گئے۔اندازاً دن بارہ بجے کے قریب قریب کا وقت رہا ہو گا ،جب دروازے کے باہر کچھ حرکت اور آواز کا احساس ہوا۔ مرشد اس وقت بے زار سا بستر پر بیٹھا تھا۔ باہر کسی کی موجودگی محسوس کرتے ہوئے یکبار گی اس کے خون کی گردش تیز ہو گئی۔وہ فوراً کھیس اوڑھتے ہوئے مخصوص انداز میں دوہرا سا ہو کر لیٹ گیا۔پسٹل اس نے دائیں ہاتھ میں تھام لیا تھا۔ چند لمحے بعد دروازے کی زنجیر ہٹنے کی آوا ز سنائی دی اور توقع کے عین مطابق منظوراں ایک چنگیر اٹھائے اندر داخل ہو آئی۔ رائفل بردار حسب سابق دروازے کے درمیان ہی جم کر کھڑا ہو گیا۔
مرشد نڈھال سے انداز میں پہلو کے بل لیٹا تھا۔ رائفل بردار کا ڈھیلا ڈھالا انداز بتا رہا تھاکہ اسے مرشد کی طرف سے کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ مرشد اس وقت مکمل طورپر آزاد ہے۔ نہ صرف آزاد ہے بلکہ ایک لوڈڈ پسٹل بھی کھیس کے نیچے اس کے ہاتھ میں موجود ہے منظوراں چنگیر اٹھائے آگے بڑھی ،مرشد کے اعصاب تن گئے۔پسٹل پر اس کی گرفت مضبوط ہو گئی اورانگلی آہستہ سے رینگ کر پسٹل کی لبلبی پر جا ٹکی۔
”چل اوئے ! بدمعاش کے ….. اٹھ کر چر مر لے۔اج رات تیری ….. ہو گی۔“
رائفل بردار نے اپنی مخصوص گندی زبان میں کہا۔ مرشد اس پر فائر کرنے ہی والا تھا کہ اچانک باہر کہیں سے ایک ساتھ دو فائر کئے گئے اور دروازے کے بیچوں بیچ کھڑا رائفل بردار بے اختیار کراہتا ہوا دروازے کے ایک پٹ سے ٹکرایا اور منہ کے بل دروازے سے اندر آگرا۔دونوں فائرز رائفل کے تھے۔ایک گولی رائفل بردار کی کمر میں گھس کرسینہ پھاڑتی ہوئی کوٹھڑی کی کچی دیوار میںدھنس گئی تھی ،تو دوسری اس کی پسلیوں سے آر پار ہوئی تھی منظوراں کے حلق سے بے اختیار دہشت زدہ چیخ خارج ہوئی۔ چنگیر اس کے ہاتھ سے گر گئی اور مرشد کھیس ایک طرف پھینکتے ہوئئے اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا۔
جو ہوا تھا وہ قطعی خلاف توقع تھا۔ کوئی اندازہ نہیں تھا کہ باہر کون ہے …..مرشد اس کے تڑپتے پھڑکتے وجود کو پھلانگتا ہوا دروازے کی اوٹ میں پہنچا اور وہاں سے جھانک کر باہر دیکھا۔ گیٹ کے قریب دیوار پر ایک ساتھ اسے تین چار افراد نظر آئے۔ سبھی مسلح تھے اور دیوارپھلانگ کر اندر آرہے تھے۔ان میں ایک شخص کو تو مرشد نے فوراً ہی شناخت کر لیا۔ابھی دو روز پہلے ہی وہ اس پتھر کی آنکھ والے شخص کو دیکھ چکا تھا۔یہ چوہدری فرزند کا گرگا تھا …..غالباً حکم داد نام تھا اس کا۔ مرشد کے دماغ میں فوراً ایک نئی مصیبت ،نئے خطرے کے الارم بج اٹھے۔یقینی بات تھی کہ یہ لوگ اسی کو اغوا
کرنے کی نیت سے یہاں پہنچے تھے۔
چوہدری فرزند ا س کی طرف سے اپنی شان میں کی گئی گستاخیوں کو نظر انداز نہیں کر پایا تھا۔وہ اپنے ہاتھوں اسے قتل کرنا چاہتا تھا لیکن ملنگی نے اسے، اس ارادے پر عمل درآمد نہیں کرنے دیا تھا۔اس وقت چوہدری نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ اب اس کے پالتو کتوں کی یوں آمد چوہدری کی کینہ پروری اور اناپرستی کی ترجمانی کر رہی تھی۔
منظوراں مسلسل چیخ رہی تھی۔پہلے مرشد کو اس نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھا تھا اور اب کوٹھڑی کی مضبوط دیوار سے لگی، رائفل بردار کے خون اگلتے وجود کو تک رہی تھی۔دہشت اس کی آنکھوں میں جم کر رہ گئی تھی۔ مرشد نے اس کی طر ف توجہ نہیں دی، لیکن پتانہیں کیوں اس کی چیخوں سے اسے حجاب کا خیال آگیا۔
صحن کے کسی گوشے سے کتوں نے بھی بھونکنا شروع کر دیا تھا۔ آنے والے چاروں افراد دیوار سے صحن میں کو د چکے تھے۔ چاروں رائفلوں سے مسلح تھے۔ یہ چوہدری فرزند کے خا ص کتے تھے اور یقینی طورپر یہ حجاب سرکار کے باپ بھائیوں کے قاتل تھے …..ان کے قاتلوں میں سے تھے۔مرشد کے دل و دماغ میں ایک تلخ دھواں سے بھرتا چلا گیا۔ وہ چاروں محتاط انداز میں اس کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مرشد نے ہونٹ بھینچے اور اچانک ان پر پسٹل سے فائر کھول دیا۔ اس نے یکے بعد دیگرے چار فائر کئے تھے۔ان میں سے ایک لڑکھڑ ایا تو دوسرا باقاعدہ تڑپ کر گر پڑا۔ البتہ ایک نے فوراً مرشد کی طرف جوابی برسٹ مارا۔گولیاں خوفناک آواز کے ساتھ دیوار اور دروازے سے ٹکرائیں، لکڑی کے کچھ ٹکڑے اڑ کر جاں بلب رائفل بردار کے وجود پر گرے۔ منظوراں کی چیخوں میں کچھ مزید شدت آگئی۔ مرشد دروازے کے برابر دیوار سے چپکا کھڑا تھا۔چند لمحوں کے وقفے سے ایک چھوٹا برسٹ مزید چلایا گیا۔آنے والوں کی پیش قدمی رک گئی تھی۔ مرشد کا اندازہ تھاکہ اس کی فائرنگ سے دو بندے زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے ایک یقینا جان لیوا طور پر نشانہ بنا تھا۔ یعنی ڈھائی تین افراد اس کے مقابل باقی تھے۔کچھ دیر بعد چند فائر ز مزید سنائی دیئے ،لیکن اس بار انکا رخ اس طرف نہیں تھا …..فائرز کے ساتھ کتوں کا بھونکنا کربناک چیخوں میں بدل کر بند ہو گیا۔ان بے رحم درندوں نے کتوں کو ہلاک کر دیا تھا۔مرشد نے ایک ذرا جھانک کر دیکھا، سامنے کوئی نہیں تھا۔یعنی ان لوگوں نے بغلی طرف والے بڑے کمرے کی آڑ لے لی تھی۔ صحن کے بھیگے ہوئے گیلے فرش پر خون کے دھبے اسے صاف دکھائی دیئے۔
دشمنوں کے پاس خود کار رائفلیں تھیں اور مرشد کے ہاتھ میں پسٹل تھا، جس میں سے چارگولیاں وہ خرچ بھی کر چکا تھا۔ اس نے دروازے کے سامنے پڑے رائفل بردار کی طرف دیکھا۔وہ ساکت ہو چکا تھا۔ اس کی پسلیوں اور سینے سے ابلنے والا خون ،کوٹھڑی کے کچے فرش پر پھیل رہا تھا۔ اس سے ایک قدم آگے ،اس کی رائفل پڑی تھی ….. یہ سیون ایم ایم رائفل تھی اور اس وقت پسٹل کے علاوہ یہی مرشد کے کام آسکتی تھی۔ وہ خا صی نازک پوزیشن میں تھا۔ سامنے والے دروازے کی اوٹ میں وہ خود کھڑا تھا۔ عقبی طرف کھڑکی تھی اورا سکے پٹ بھی نہیں تھے۔دشمن دو طرف سے اس پر حملہ آور ہو سکتے تھے، مگر وہ بہ یک وقت ان دومحازوں پر نہیں لڑ سکتا تھا یہ کوٹھڑی ایک طرح سے اس کے لئے چوہے دان بن گئی تھی۔
٭ ٭ ٭
اس روز میر ارشداللہ سارا دن ہی نزہت بیگم کے کوٹھے پر‘ حسن آرا کے کمرے میں،اس کے قریب موجود رہے۔ صرف ایک گھنٹے کے لیے وہ تھانے تک گئے تھے‘ بس حسن آرا کی جذباتی حساسیت اور جسمانی نازکی نے اسے بخار میں مبتلا کر دیا تھا۔ ویسے بھی گزشتہ چند روز سے‘جب سے اس نے اپنے خالص اور ان چھوئے جذبات میر صاحب پر نچھاور ِکیے تھے۔اس دن سے اسے وقتاًفوقتاًبخار آ دبوچتا تھا۔
اس روز میر صاحب نے ہی ڈاکٹر کا انتظام کیا اور پھر سارا دن ایک مخلص تیمار دار کی حیثیت سے اس کے قریب موجود رہے۔ انہوں نے حسن آرا کے ساتھ نکاح کے حوالے سے نزہت بیگم کے ساتھ بھی خاصی طویل اور فیصلہ کن قسم کی گفت و شنید کی۔نزہت بیگم چوہدری اکبر کی طرف سے خائف تھی لیکن میر صاحب کی طرف سے اسے اتنی بڑی پیشکش ہوئی کہ وہ انہیں واضح طور پر انکار کرنے کا حوصلہ نہیں کر پائی۔ وہ بری طرح الجھن کا شکار ہو گئی تھی۔
اس شام میر صاحب دودن بعد دوبارہ آنے کا کہہ کر روانہ ہوگئے۔ نزہت بیگم کو انہی دودنوں میں حتمی فیصلے تک پہنچنا تھا۔ اور میر صاحب اسے بتا گئے تھے کہ وہ صرف مثبت فیصلہ سننے کے خواہش مندہیں۔ دوسری صبح اس کے اور حسن آراءکے درمیان اس موضوع پر کافی دیر بات چیت ہوئی لیکن بنا کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔ سہ پہر کے وقت صورت حال میں کچھ مزید تبدیلی پیدا ہوئی چند اجنبی لوگ وہاں پہنچے‘حسن آرا کو عشرت جہاں نے آکر بتایا کہ مہمان خانے میں کچھ خاص مہمان آئے بیٹھے ہیں اور نزہت بیگم اسے بلا رہی ہے۔ اس وقت حسن آراکی طبیعت قدرے بہتر تھی۔ وہ دوپٹہ سنبھالتی ہوئی اٹھ کر مہمان خانے کی طرف چلی گئی۔ دو خوش پوش افراد مہمان خانے کے دروازے کے باہر ہی خاموش اور سنجیدہ کھڑے تھے۔ اندر داخل ہوتے وقت اس کے کانوں سے ایک گھمبیر مردانہ آواز ٹکرائی۔
”بائی جی! آپ اپنے وہم و گمان میں بھی اندازہ نہیں لگا سکتیں کہ اس سب کا کیا انجام ہو گا۔“وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ نزہت بیگم کے سامنے صوفے پر ایک ادھیڑ عمر بارعب شخصیت براجمان تھی۔ سرخ وسفید چہرے پر سلیقے سے ترشی ہوئی گھنی داڑھی‘ جس میں کہیں کہیں سفید بال چاندی کے تاروں کی طرح چمک رہے تھے۔ سر کے بال بھی ایسے ہی تھے۔آنکھوں پر سنہرے فریم کا بیش قیمت چشمہ اور جسم پر بہترین تراش کا شاندار سفید شلوار سوٹ۔بلا شبہ وہ شخص ایک انتہائی متاثر کن شخصیت تھیپتہ نہیں کیوں‘مگراسے ایک نظر دیکھتے ہی حسن آرا کے دل میں یہ خیال آبیٹھا کہ یہ
شخص بھی میرصاحب کے خاندان میں ہی سے کوئی ہے۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔
” آﺅ حسن آرا ادھر آ جاو بیٹی!“نزہت بیگم نے اپنے پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور سامنے موجود اس سفید پوش شخص سے مخاطب ہوئی۔ ”یہ ہے جی حسن آرا۔ہے تو میری بھانجی لیکن مجھے بیٹیوں سے بڑھ کر عزیز ہے۔
”آداب۔“حسن آرا کو کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ نزہت بیگم کے برابر صوفے پر بیٹھ گئی۔دو گہری نظریں‘ ناقدانہ تیوراوڑھے اس پر جمی ہوئی تھیں۔ حسن آرا نے دیکھا کہ سامنے موجود تپائی پر رکھا شربت کا گلاس لبالب بھرا ہوا ہے۔ اسے شاید ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا تھا۔
” ہم سب یہی لوگ ہیں جی! اور ہم تو امن و سکون سے روزی روٹی کرنا چاہتے ہیں بس۔“نزہت بیگم پھر سے گویا ہوئی تھی۔ ”آنے والے مہمانوں کو عزت و احترام دینا تو ہمارا فریضہ ہے”حضور“باقی نہ ہم لوگ کسی سے دوستی کے تمنائی اور نہ دشمنی کے ہمیں تو زندہ رہنے کے لیے اپنے روزگار سے مطلب ہے۔“
”آپ میرارشداللہ سے نکاح کرنا چاہتی ہیں؟“ ”حضور۔“ نزہت بیگم کی بات پر توجہ دئیے بغیر براہ راست حسن آرا سے مخاطب ہوئے تو وہ چونک پڑی۔
”جی جی نہیں۔“
”آپ !جانتی ہیں کہ میر ارشد اللہ کون ہیں؟“
”جی ہاں“
”اچھاکیا جانتی ہیں؟“
”ان االا نسان فی احسن تقویم۔“ سفید پوش کی فراخ پیشانی پر ایک سلوٹ کھینچ گئی۔
”میر صاحب اس آیت کی تفسیر ہیں۔ ہم عورتیں جو بازار سجائے بیٹھی ہیں‘یہاں صرف مردوں ہی کا آنا ہوتا ہے۔میر صاحب وہ واحد فرد ہیں جنہیں دیکھتے ہی ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ‘ ہم پہلی بار ایک خالص انسان کو دیکھ رہے ہیں۔“ سفید پوش کی آنکھوں کی پتلیوں میں استعجاب کسمسا کر غائب ہو گیا۔
”کیا آپ جانتی ہیں‘میر ارشد اللہ کے والد بزرگوار کون ہیں؟“لہجہ انتہائی سنجیدہ اور سپاٹ تھا۔ حسن آرا اپنی ہتھیلی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی
”‘نہیں۔“
”ان کے گھر اور خاندان کے متعلق کہاں رہتے ہیں؟“
”نہیں۔“
”ان کی حیثیت اور کاروبار کے متعلق،ان کے سماجی مقام و مرتبے یا ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ جانتی ہوں آپ؟“
”جی! کچھ خاص نہیں۔“
”تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتیں!“
”انہوں نے اپنے متعلق بہت کم بتایا ہے اور جتناا نہوں نے بتایا میرے لیے وہ اتنا کافی ہے کہ اس کے بعد ان سے کوئی سوال کرنا مجھے گستاخی محسوس ہوئی۔“
حسن آرا کا لہجہ اورالفاظ‘ اس سفید پوش کو بخوبی سمجھا گیا تھاکہ وہ میر صاحب کے متعلق کیا اور کتنا جانتی ہے۔ چند لمحوں کی گہری خاموشی کے بعد سفید پوش کے لبوں کو جنبش ہوئی۔
”گستاخی“ وہ سیدھا ہو بیٹھا۔
نزہت بیگم بولی”حضور شربت تو نوش فرمائیے‘کب سے منتظر پڑا ہے۔“ حضور نے ایک نظر شربت کے گلاس پر ڈالی او ر بھویں اٹھا کر نزہت بیگم کو دیکھتے ہوئے بولے۔ ” شربت تو کیا،اس جگہ سے ہم آب حیات بھی نہیں پی سکتے اورآپ فی الوقت کچھ دیر خاموش رہیں۔“ پھر وہ دوبارہ حسن آرا سے مخاطب ہوئے۔
”چلیں جو آپ جانتی ہیں وہ اپنی جگہ‘ جو آپ نہیں جانتی وہ ہم بتا ئے دیتے ہیں میر ارشد اللہ، میر ظفراللہ کے فرزند ہیں۔ میر ظفراللہ کے بارے میں کچھ نہ کچھ تو جاتنی ہی ہوں گی آپ!وہ جو وزیر ہیں وہ اس وقت صدر پاکستان جنرل ایوب کے ساتھ جرمنی میں موجود ہیں وہ ملک میں موجود نہیں ،اس لیے ہم یہاں آئے بیٹھے ہیں۔ اگر وہ یہاں ہوتے تووہ آپ کو اپنا تعارف بھی کسی اور طریقے سے کراتے اور سمجھاتے بھی کسی اور ڈھنگ سے اس خاندان نے نسل در نسل اپنی شرافت سے عزت کمائی ہے۔ یوں جان لیجئے کہ ان کے علاقے میں اس گھرانے کی شرافت اور پارسائی کی لوگ قسمیں کھاتے ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کے معاملات و مسائل کے حل اور سلجھاوکی ذمہ داری میر ارشد اللہ کے کندھوں پر ہے۔ ان کا ہر فیصلہ،زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ،لوگ آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لیتے ہیں اس سب کے علاوہ وہ شادی شدہ ہیں۔ ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی ہے۔ اب آپ کی وجہ سے ان کے پورے خاندان کی پارسائی داو پر لگ چکی ہے۔ میر ارشد اللہ کا مقام و مرتبہ‘حتیٰ کہ ان کی ذاتی زندگی بھی ایک زبردست زلزلے کی زد پر ہے۔“
”ہماری وجہ سے“حسن آرا متعجب ہوئی۔” ہم نے ایسا کیا کیا ہے؟“
” کرنے کی کوشش میں تو ہیں ناںمیر ارشد اللہ سے نکاح شادی ہم آپ کو بتا دیں کہ یہ اتنا سیدھا اور آسان نہیں صاف صاف بات کریں تو آپ یہ فتور اپنے ذہن سے نکال باہر کریں۔ ایسا ہونا ناممکن ہے۔اگر ا�±دھر کوئی زلزلہ اٹھا تو بھونچال ادھر بھی آئے گا۔ راتوں رات یہ کوٹھا‘یہ عمارت خاک کے ڈھیر میں بدل جائے گی کچھ باقی نہیں رہے گا یہاں“ اس کا لہجہ سرد سے سرد تر ہوتا چلا گیا۔ چہرے پر زمانوں کی سنجیدگی اور سختی اتر آئی۔ حسن آرا نے ایک نظر، سفید شیشوں کے عقب میں موجود ان سرد آنکھوں میں جھانکا اور مسکرا دی۔
”ہمارا بس چلے تو ہم ایسے ہزار کوٹھے اور ہزار زندگیاں میر صاحب کے پیروں کی دھول پر وار دیں حضور!رہی بات میر صاحب کے ساتھ شادی رچانے کی تو،آپ کی اس بات کا جواب ہم پہلے آپ کو دے چکے ہیں کہ ہم ایسا کچھ نہیں چاہتے۔“
”آپ ہمیں اتنا بے خبر بھی مت جانئیے۔جو خواب آپ دیکھ رہی ہیں، ہمیں ان سب کی خبر ہے میر ارشد اللہ کے گھر اور خاندان کا حصہ بننے کے یہ خواب‘ آپ اپنی آنکھوں سے خود ہی نوچ پھینکیں تو اچھا رہے گا۔“
” جناب عالیٰ!ہمیں اپنی اوقات کا بخوبی علم ہے۔ ہماری آنکھیں غلطی سے بھی کوئی ایسا خواب سجانے کی جسارت نہیں کر سکتیں۔ ان سے پہلی ملاقات کے بعد ہم نے تو فقط ایک بار پھر سے ان کی زیارت کی خواہش پالی تھی اور بس میر صاحب نے خود سے یہ فیصلہ لیا کہ وہ موری کی اینٹ کو معبد کی پیشانی پر بٹھائیں گے۔ ہم نے ان کے حضور عرض گزاری تھی کہ ہم اس مقام و مرتبے کے اہل نہیںہمیں تو اپنی دہلیز پر باندی بنا کر رکھیں تو یہ بھی ہمارے لیے اعزاز اور سعادت کی بات ہو گی،مگر جو آپ سمجھ رہے ہیں‘ہماری ایسی کوئی چاہ نہیں ہے۔ یہ فیصلہ اور فرمان اس ہستی کا ہے جس کیزبان سے نکلا ہر لفظ خلوص دل سے تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم اس حوالے سے بے بس ہیں۔ ہمیں میر صاحب جو بھی کہہ دیں، ہمیں انحراف کی جرات نہیں۔“
”میر صاحب دل کی سننے والوں میں سے ہیں جذباتی انسان لیکن انہیںہم خود سمجھا لیں گے۔آپ کے سمجھنے کی بات یہ ہے‘ جو ہم آپ کے گوش گزار کر چکے۔اپنے ارادے بدل لیں‘اگر اب میر صاحب یہاں تشریف لائیں تو انہیں صاف لظوں میں انکار کردیں‘منع کر دیں۔“
”حضور!ہم عرض کر چکے ہیں کہ ہم ان کے سامنے ایسی کوئی گستاخی نہیں کر سکتے وہ اگر ہمیں‘ اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا کاٹ لینے کا بھی حکم دیں گے تو ہم انکار کی جرات نہیں کریں گے۔“حسن آراکی گردن جھکی ہوئی تھی۔چہرے پر سکون تھااور لب و لہجے میں اطمینان۔سفید پوش چند لمحے اپنی پر سکوت نگاہوںسے اسے گھورتا رہا‘پھر اچانک اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”آپ کی ایسی گفتگو سے میر صاحب متاثر ہو سکتے ہیں ہم نہیں۔آپ کے لیے ہم دعا کریں گے اور“وہ نزہت بیگم کی طرف متوجہ ہوا۔ ”چوہدری اکبر علی کے خلاف آپ لوگوں نے جو بیان دیا ہے اسے فوری طور پر واپس لیں یہ معاملہ یہیں ختم ہو جانا چاہیئے۔“
اس کے بعد وہ شخص پروقار انداز میں چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔حسن آرا بدستور اپنی ہتھیلی پر بکھری ہوئی لکیروں کو دیکھ رہی تھی۔
٭ ٭ ٭