قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا
مرشد
شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
Murshid Urdu Novel |
اس کے بائیں ہاتھ میں ایک سات آٹھ فٹ لمبی ہڈی تھی اور دائیں ہاتھ میں ایک موٹی تار ہڈی کا ایک سرا اس نے چارپائی کے بان
پر جما رکھا تھا اور اوپر والے دوسرے سرے میں موجود سوراخ میں تار پھنسا ئے نجانے وہ ہڈی میں کیا ٹٹولنے کی کوشش کر رہا تھا!اپنے اس کام میں وہ اس قدر مست تھا کہ ان لوگوں کے قریب پہنچ آنے پر بھی اس کی دلچسپی اور توجہ میں کوئی خلل نہیں پڑا۔ ان تینوں کی طرف اس نے بالکل بھی توجہ نہیں دی تھی۔ وہ منتظر سے چارپائی کے قریب کھڑے ہوگئے۔ بوڑھے نے گردن ہڈی کے عین اوپر جھکا رکھی تھی۔ سفید میلے لچھے جیسے بال اس کے سر پر دائیں بائیں یوں پھیلے ہوئے تھے جیسے مائل بہ پرواز ہوں۔ بالوں سے وہ آئن اسٹائن دکھتا تھا اور اپنے رنگ و روپ اور صحت کی طرف سے ایتھوپیا کے قحط زدہ علاقے کا کوئی ستم گزیدہ باشندہ۔ اس کی سیاہ، خشک چمڑی کے نیچے اس کی باریک پسلیوں کی کمانیں واضح دکھائی دے رہی تھیں۔ پائنتی پر ایک میلا کھیس بچھا ہوا تھا تو سرہانے دو چھوٹی چھوٹی گٹھڑیاں سی دھری تھیں۔ اس کی شان بے نیازی کو محسوس کرتے ہوئے آخر کار خنجر ہی نے اسے مخاطب کیا۔
”بابا جی!“
بابا جی کو شاید سنائی ہی نہیں دیا تھا۔ خنجر نے آواز قدرے بلند کرلی۔
”بابا جی“ اس بار تھوڑا اثر ہوا۔ بابا جی نے گردن پھیر کر ایک اچٹتی سی نظر خنجر کے چہرے پر ڈالی اور اپنی پہلی حالت میں واپس لوٹ گئے۔
”او بابا جی کیا گیدڑ سنگھی نکالنا چاہ رہے ہو اس ہڈی میں سے؟“ بابا جی اپنے شغل میں مصروف رہے تو اس بار خنجر نے باقاعدہ ان کا لکڑی جیسا کندھا ہلکے سے ہلاتے ہوئے کہا۔
”بابا! اگر سنائی نہیں بھی دیتا تو دکھائی تو دیتا ہے نا… یا نہیں۔“ اس کا تار والا ہاتھ جو مسلسل حرکت میں تھا اس بار رک گیا۔ سفید لچھے کا زاویہ تبدیل ہوا۔ بابے نے باری باری ان تینوں کی شکلیں دیکھیں پھر دوبارہ خنجر کی طرف دیکھتے ہوئے ترشی سے بولا۔
”ہاں کیا تکلیبھ (تکلیف) ہے؟“ اس کے جھلسے ہوئے چہرے پر سخت بد مزگی کے تاثرات تھے۔ وہ جتنا مریل اور مدقوق دکھائی دے رہا تھا اس کی نسبت اس کی آواز خاصی کراری محسوس ہوئی تھی۔
”ہم مسافر ہیں، رستہ بھٹک گئے ہیں۔ یہاں سے ملتان کس طرف ہے؟“
”پتا نا ہی… اور کچھ؟“
”اور پھر… یہاں سے قریبی شہر یا کوئی قصبہ وغیرہ۔“
”قریب میں تو کچھ نا ہی… اور؟“
”قریب دور کوئی شہر تو ہوگا ۔کوئی پکی سڑک، کوئی بس یا ویگن اڈہ؟“
”نا ہی ہے“ وہی دو ٹوک اور سپاٹ انداز میں بولا۔اس کے دونوں ہاتھ اسی جگہ ساکت تھے اور وہ اسی حالت میں بیٹھا یک ٹک خنجر کو گھور رہا تھا۔ بھویں سکیڑے، سخت زہر ناک نظروں سے۔ خنجر اس کے تیور دیکھتے ہوئے سمجھ گیا کہ یہ سنکی مخلوق دراصل کچھ بتانے کا ارادہ ہی نہیں رکھتی۔ اس کے
مزاج میں تھوڑا بل بھی پڑا لیکن سامنے والا ضعیف العمر تھا۔ اس کی جسمانی صحت بھی قابل رحم تھی۔ وہ بس غصے کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔
”یہ تو بس نا ہی ہے۔“ وہ مرشد کی طرف دیکھ کر بولا۔
”ناہی ناہی کسی اور کو دیکھتا ہوں میں۔ اس مخلوق کے تو مزاج ہی نہیں مل رہے۔“ وہ پلٹا ہی تھا کہ بابا تیز لہجے میں بولا۔
”ابے او بینگن مونہے! کیا بکواس کیو ہے تو نے یہ مکھلوق کسے کہو ہے؟“ خنجر ٹھٹک گیا ۔بابے کا انداز دماغ تپا دینے والا تھا البتہ خنجر کے لمبوترے چہرے کے باعث بابے نے جس تشبیہہ کا استعمال کیا تھا وہ مرشد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر گئی۔
”تجھے کہا ہے… پھر؟“ خنجر اسے گھور کر بولا۔
”وجہ… کیوں کہوہے؟“ بابے نے بھی آنکھیں نکالیں۔
”چپ کر کے اپنا خزانہ کھود تو۔“ خنجر کا اشارہ ہڈی کی طرف تھا۔”ایسے بلا وجہ گلے نہ پڑ… کام کر اپنا۔“
”کام ہی کر رہیو تھا۔تو نے آکر بیچ میں اپنی نحوست اڑائیو ہے۔ اوپر سے مجھے مکھلوق بولےوہے تیرا وڈیرا ہیوگا مکھلوق تو کھود ہووے گا مکھلوقلپھنگا کہیں کا۔“ بابا تو جیسے پوری طرح بگڑ گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں طیش تھا اور اس کے مرجھائے ہوئے نتھنے ہولے ہولے لزرنے لگے تھے۔خنجر نے ایک نظر بابے کی ”وحشی صورت“ پر ڈالی پھر مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے قدرے تعجب سے بولا۔
”دیکھ جگر! صحت دیکھ اور حوصلے دیکھ آفرین کا مقام ہے۔“ وہ بابے کی طرف پلٹا۔”میں سمجھ گیا بادشاہ سلامت !مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ خطا معاف فرما دیجیے۔“ اس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے۔
”مجاق اڑاوے ہے مراا بینگن مونہے چلا جا ادھر سے۔ جا شکل گم کرلیو۔“ بابے نے نفرت سے ہاتھ جھٹکا۔ ”بینگن مونہے“ پر ایک بار پھر اس کا خون کھول اٹھا تھا لیکن ایک اور آواز نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔
”ٹھنڈا ہوجا ددا! ٹھنڈا ہوجا سارا دیہاڑپڑو ہے ابھی۔“ کمرے کے سامنے کے رخ سے ایک تیس بتیس سال کا جوان نمودار ہوا تھا۔ جسم پر ایک شلوار اور چھید دار بنیان، شیو بڑھی ہوئی، سر پر بھورے رنگ کے چھوٹے چھوٹے گھنگریالے بال اور پکی افیون جیسا رنگ ،چہرے پر نیند یا کسی سست نشے کا اضمحلال، وہ سوالیہ سی نظریں لیے مرشد کے قریب چلا آیا۔
”ٹھیک ہے ۔میں ٹھنڈا ہوجاتا ہوں، چپ کر جاتا ہوں۔ تو اپنی بک بک شروع کرلے۔“ بابے نے زہر خند سے کہا اور رخ پھیر کر دوبارہ ہڈی پر جھک گیا۔
”ہاں جی، باﺅ جی! کیا بات ہے؟“وہ نووارد مرشد سے مخاطب ہوا۔
”مسافر ہیں، پانی ملے گا؟“ مرشد کے ذہن میں حجاب کی پیاس تھی۔
”پانی جرور ملے گا جی! جتنا کہو مل جاوے گا۔ یہ کوئی گل ہے بھلا ۔ابھی حاجر کرتے ہیں۔“ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور واپس پلٹ گیا۔ کمرے کے سامنے کی طرف سے اس کی آواز ابھری۔ وہ کسی سے پکار کر کہہ رہا تھا۔
”اے… اے مدیا! پانی کا گڑوا دے کر بھیج ادھر فلٹر کو۔“ مدیا شاید کوئی عورت تھی کیوں کہ جواب میں ایک دبنگ سی زنانہ آواز سنائی دی۔
”کھودی آ کر لے جاﺅ، ای کتیا کا پلا ناہی اٹھنے کا آج۔“
”اس کے ٹونگے پر جما ایک… راہی لوگ ہیں… پیاسے ہیں۔“ ادھر سے مشورہ دیا گیا۔ بستی کے جھونپڑے اور کوٹھے اس کمرے کی دوسری طرف
تھے وہ لوگ مکان کی اوٹ میں تھے۔نووارد پانی کا آرڈر دے کر ایک بے ڈھنگی سی چارپائی اٹھا لایا جو اس نے بابے والی چارپائی سے آگے کمرے کی دیوار کے ساتھ بچھا دی۔
”آﺅ باﺅ جی !دم لے لو، پانی آرہا ہے۔“ نووارد کی اس خوش اخلاقی پر بابے نے ایک نظر قہر بار اس پر ڈالی اور منہ میں کچھ بدبدا کر رہ گیا۔ مرشد حجاب کی طرف متوجہ ہوا۔
”آپ کچھ دیر بیٹھ جائیں، سکون سے پانی پی کر پھر چلتے ہیں۔“ حجاب ایک ذرا ہچکچائی پھر آگے بڑھ کر چارپائی پر ٹک گئی۔ چادر اس نے اس طرح اوڑھ رکھی تھی کہ اس کا چہرہ بھی اس میں چھپ گیا تھا۔خنجر بابے کی طرف متوجہ تھا جو اسی طرح ہڈی کے ساتھ بر سر پیکار تھا۔ نوجوان مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے مرعوبانہ انداز میں بولا۔
”آپ لوگ کہاں کے رہنے والے ہیں جی؟“
”ہم ایک پرائیویٹ گاڑی میں سفر کر رہے تھے ۔وہ گھوڑے کی شکل والا گدھا… گاڑی والا، ہمیں اس ویرانے میں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ملتان جانا ہے ہم نے۔“
”تو آپ ملتان شریف کے واسی ہو؟“
”نہیں… فوتگی پر جا رہے ہیں۔ یہاں گاڑی کدھر سے ملے گی ہمیں؟“
”یہاں سے تو نئیں ملے گی جی! ہاں یہاں سے پانچ چھ میل کے پھاصلے پر گوجرہ ہے، ادھر سے بس مل جاوے گی ۔ آپ بیٹھو نا ادھر۔“ اس نے چارپائی کی طرف اشارہ کیا جس پر حجاب بیٹھی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ان تینوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے، کس نوعیت کا تعلق ہے ۔اس کا خیال یہی تھا کہ وہ آپس میں بہن بھائی ہوں گے یا نئے نئے میاں بیوی۔
”نہیں۔“ مرشد نے ہاتھ کے اشارے سے کہا ”تم پانی پلادو بس۔“
”او، وہ میں ابھی لایا۔“ وہ پلٹا ہی تھا کہ دوسری طرف سے ”فلٹر“ آگیا ۔یہ ایک دس بارہ سالہ دبلا پتلا سا لڑکا تھا ۔جسم پر صرف ایک نیکر تھی۔ نیند سے اس کی آنکھیں بند تھیں ۔یہی لگ رہا تھا کہ وہ نیند ہی میں چلتا آرہا ہے۔ نووارد نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے برتن پکڑ لیے۔
”ابھی اکھ نہ کھلے تیری، رات ساری کتوں کے ساتھ کتا بنا رہو گا تو یہی ہووے گا نا! چل دفعان ہوجا۔“ اس نے لڑکے کو جھڑکا اور پانی والا سلور کا چھوٹا مٹکا اور کٹورا اس کے ہاتھ سے لے کر پلٹ آیا۔ پانی کا کٹورا اس نے بھر کر مرشد کو تھمایا تو وہ کٹورا لے کر حجاب کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
”لیں پانی پئیں۔ ناشتہ پھر آگے گوجرہ پہنچ کر کرتے ہیں۔“پتا نہیں پانی کا ذائقہ خراب تھا یا کٹورے کی بد مزہ شکل تھی، حجاب نے بس دو گھونٹ پی کر کٹورا واپس کردیا ۔باقی پانی کٹورے ہی میں تھا۔
”اور پی لیجیے۔“ اس کے ہاتھ سے کٹورا واپس پکڑتے ہوئے یکایک مرشد کے دل سے دھڑک کر ایک خیال اس کے دماغ میں آچمکا کہ یہ بچ جانے والا پانی گرا دینا تو شاید بے ادبی ٹھہرے یہ پانی حجاب سرکار کے پرتقدس ہونٹوں سے مس ہوا تھا یہ اب عام پانی نہیں رہا تھا!
”نہیں، بس اور نہیں۔“ وہ دھیمے لہجے میں بولی۔ مرشد کی نظریں ہاتھ میں موجود کٹورے پر تھیں۔ پانی میں اس کی اپنی ہی آنکھوں اور پیشانی کا برائے نام سا عکس تھا ۔وہ ایک ذرا متذبذب ہوا پھر بسم اللہ پڑھ کر وہ کٹورا اس نے اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔ پہلے گھونٹ کے ساتھ ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ پیاس کے باوجود حجاب سرکار کے پانی نہ پینے کی وجہ پانی کا ذائقہ نہیں بلکہ وہ بد شکل کٹورا ہے۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ جیسے بچے اسے فٹبال بنا کر
کھیلتے ہوں، اسی باعث وہ خواہش کے باوجود دو گھونٹ سے زیادہ نہیں پی سکی تھی، ورنہ پانی تو انتہا درجہ کا خوش کن اور لطیف تھا ۔یا شاید یہ اس کے ہونٹوں کے لمس کا اعجاز تھا ،جس نے اس سادہ و عام سے پانی کو ایک نہایت روح پرور تاثربخش دیا تھا۔
مرشد گھونٹ گھونٹ کر کے وہ سارا پانی پی گیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ محض اس کی اپنی ہی زات کے نہاں خانوں میں پنپنے والے جذبہ و احساس کی کرشمہ کاری ہو، لیکن اسے ہر گھونٹ کے ساتھ اپنے اندر ایک نئی تازگی، نئی توانائی اترتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔خالی کٹورا اس جوان کو واپس تھماتے ہوئے اس کے احساس نے ایک اور کروٹ بدلی۔ حجاب سرکار کے ہونٹوں سے چھو کر اگر پانی اس کے لیے تبرک کی حیثیت اختیار کرگیا تھا تو وہ داغ دار کٹورا بھی تو متبرک ہوچکا تھا وہ بھی اب وہ پہلے والا کٹورا نہیں تھا۔ اس پر حجاب سرکار کی انگلیوں کا لمس تھا ان کی سانسوں سے مہکا تھا وہ ابھی اسے خنجر نے چھونا تھا۔اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگانا تھاپھر کچھ دیر بعد ان لوگوں نے یہاں سے آگے نکل جانا تھا اور یہ متبرک کٹورا یہیں ان کم فہم اور جنگلی لوگوں میں رلتا رہ جانا تھا۔
مرشد کے دل میں کچھ اضطراب سا کسمسایا، ساتھ ہی اس کا دھیان کٹورے سے اس چارپائی کی طرف پھسل گیا جس پر اس وقت حجاب بیٹھی تھی۔ چارپائی سے جیپ اور جیپ سے اس سیٹ پر جس پر بیٹھ کر حجاب فیصل آباد اڈے سے یہاں تک آئی تھی۔یہ سب چیزیں مرشد کے نزدیک اب پہلے جیسی نہیں رہی تھیں۔ان کو حجاب سرکار سے نسبت بن گئی تھی ۔یہ سب ایک خاص اہمیت کی حامل ہوچکی تھیں۔ ان کو اب دوبارہ پہلے کی طرح بے پروائی اور بے رحمی سے استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ سراسر ناقدری ہوتی ،بے ادبی ہوتی۔ وہ خود ہی اپنی اس عجیب، ذہنی رو پر چونک پڑا۔ خیالات ایک نیا ہی زاویہ اختیار کرنے لگے تھے ۔اس نے سر جھٹکتے ہوئے ذہن کو اس طرف سے ہٹایا۔وہ جوان پانی کا کٹورا خنجر کو پکڑا رہا تھا۔ خنجر اس سے متفسر ہوا۔
”یہ کیا لگتا ہے تیرا؟“ اس کی نظروں کے اشارے پر جوان نے ایک نظر بوڑھے پر ڈالی۔
”ددا کج نئیں۔ بس اپنی قبیل سے ہے۔“
”بڑا زہریلا ہے۔“ اس کے اظہار خیال پر جوان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ۔خنجر کی آواز بالکل دھیمی تھی لیکن ددا کی سماعت حیرت انگیز طور پر حساس ثابت ہوئی۔ اس نے نتھنے پھلاتے ہوئے خونی نظروں سے خنجر کی طرف گھورا۔
”یہ ہڈومیں نو ادھر سو پھینک کر مارو نا! تو بینگن کا بھرتا نکل جاوو گا۔“ خنجر پانی پیتے پیتے یوں ٹھٹک گیا جیسے سچ مچ کوئی چیز ماتھے پر آلگی ہو۔ اسے ددا کی قوت سماعت پر حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ ددا بول رہا تھا۔ ”ابھی اتنا بڈھو ناہی ہوو میں کہ میرو کان پرجو (پرزے) کھراب پڑ گﺅ ہوں سب سنائی دیوو ہو مجھو۔ بھانٹ کو بینگن۔“
خنجر کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔وہ یقینا کوئی سخت بات کہنے والا تھا لیکن اچانک ہی نظروں کے سامنے آجانے والے ایک اور نظارے نے اسے ویسے ہی گنگ کر کے رکھ دیا۔ وہ بہ مشکل ڈھائی تین سال کا ایک بچہ تھا مادر زاد برہنہ حالت میں ۔مرشد بھی اس پر نظر پڑتے ہی بری طرح چونک پڑا۔ وہ کمرے کے سامنے کی سمت سے اچانک ہی نمودار ہوا تھا۔
بچہ اتنا چھوٹا تھا کہ ابھی ٹھیک سے چلنا بھی نہیں سیکھ پایا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چیز تھی جو اس کے ساتھ ساتھ زمین پر گھسیٹ رہی تھی اور دراصل اسی چیز کو دیکھ کر خنجر اور مرشد بہ یک وقت چونکے تھے۔ وہ چیز تھی ایک پانچ چھ فٹ لمبا سیاہ کوبرا اور وہ بھی جیتا جاگتا بچے نے اس کی دم اپنی بائیں مٹھی میں دبوچ رکھی تھی۔ سانپ کا سیاہ چمک دار جسم، کلر زدہ زمین پر گھسیٹ رہا تھا۔ اپنا پھن اس نے زمین سے تھوڑا اوپر اٹھا رکھا تھا اور قدرے پھلا
بھی رکھا تھا۔ وہ کسی بھی لمحے حملہ آور ہو کر بچے کو ڈس سکتا تھا۔سنسنی کی ایک تیز لہر ایک ساتھ خنجراور مرشد کے روئیں روئیں کو چھو کر گزر گئی۔ اسی لمحے قریب کھڑے اس جوان اور ددا کی نظر بھی اس منظر پر پڑ گئی۔ دونوں ایک ساتھ تڑپ کر حرکت میں آئے ،بچے کے چہرے پر ایک معصوم سی مسکراہٹ تھی، جیسے کوئی من پسند کھلونا ہاتھ لگ گیا ہو۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس نے اپنی معصومیت میں کس موذی کو مٹھی میں دبوچ لیا ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کھلونے کے منہ میں زہر کی صورت کیسی سفاک موت چھپی ہوئی ہے۔
”ارے گجب ہوگیو مصیبت ہوگﺅ۔“
”چھوڑ… چھوڑ دے اسے کم بخت۔“
”پھینک… پھینک چھی کو… چھی۔“
”گومل چھوڑ… چھوڑ دے۔“ بچہ آگے آتے آتے حیران پریشان سا ہو کر ٹھہر گیا۔ ددا اور وہ جوان دونوںلپک کر بچے کے قریب جا پہنچے ۔
اس اچانک افراتفری پر حجاب نے بھی گردن موڑ کر اس طرف دیکھا اور نظر آنیوالے اس سنسنی خیز اور خوفناک منظر کو دیکھتے ہی وہ بے اختیار گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ محض چند فٹ کا تو فاصلہ تھا۔مرشد اور خنجر نے بھی بیگ کندھوں سے اتار کر زمین پر ڈال دیے۔ وہ دونوں ہی ان لوگوں کی مدد کے لیے آگے بڑھنے والے تھے کہ انہوںنے ایک اور عجیب منظر دیکھا۔سانپ کو کچھ کہنے کی بجائے ددا نے بچے کی گدی میں ایک چپت رسید کی اور سانپ کی دم اس کی مٹھی سے چھڑالی۔ اس کے بعد اس نے انتہائی نرمی سے سانپ کو زمین سے اٹھایا اور اسے لاڈ کرتا ہوا کمرے کی دوسری طرف غائب ہوگیا۔ جوان اس منہ بسورتے بچے کو پچکارنے لگا تھا ۔مرشد اور خنجر نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا یعنی معاملہ مختلف تھا۔ سانپ یقینا اس زہریلے بابے کا پالتو تھا اور شاید یہ بستی بھی سپیروں ہی کی تھی۔
”اب سمجھ آئی۔“ خنجر نے ایک گہری سانس چھوڑی۔
”کیا؟“ مرشد نے پوچھا۔
”اس بڈھے کی زہریلی زبان کا راز یہ ضرور کوبرے سے زبان پر ڈسواتا ہوگا۔ دیکھا تم نے اس کے قریب پہنچے ہی وہ کوبرا بھی کیسے سہم سا گیا تھا بے چارہ۔“
”ایسی بات نئیں ہے جی!“ جوان، بچے کو کندھے سے لگائے ان کے قریب آگیا۔ ”ددا کو ایسی کوئی علت نہیں ہے ۔بس ویسے ہی مجاز کوڑا ہو کے رہ گیا ہے اس کا لیکن دل کا بڑا مٹھا ہے۔ اک دم پپیتا ہے۔“
”اچھا !یہ بتاﺅ یہاں سے گوجرہ کی سواری کہاں سے ملے گی؟“ مرشد نے اصل سوال پوچھا۔ ددا کے دل یا زبان سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا۔
”پکی سے۔“
”اور یہ پکی کس طرف ہے؟“
”اس طرف، نویں چک کے ساتھ۔ ویگنیں بھی گزرے ہیں اور تانگے بھی۔“ وہ بات بھول کر حیرت زدہ سا اس سمت دیکھنے لگا جدھر اس نے نویں چک کی نشاندہی کی نیت سے ہاتھ کا اشارہ کیا تھا۔ مرشد اور خنجر نے بھی اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا اور بری طرح چونک پڑے۔مغرب کی طرف کچھ فاصلے پر جھاڑیاں تھیں اور ان جھاڑیوں کے اوپر ہلکی سی گرد کی لکیر دکھائی دے رہی تھی۔ ایک قریب آتی ہوئی گونج کی آواز بھی تھی۔ کسی گاڑی کے انجن کی گونج جھاڑیوں میں پہلے تو گاڑی کی جھلک دکھائی دی اور پھر چند ہی لمحوں میں وہ بستی کے کھلے میں ان کے سامنے پہنچ آئی۔
یہ ایک نہیں، آگے پیچھے دو گاڑیاں تھیں۔ آگے ایک سرخی مائل رنگ کی پجارو تھی اور اس کے عقب میں ایک پوٹھوہاری جیپ۔ دونوں گاڑیاں ان سے قدرے بائیں ہاتھ تقریبا ڈیڑھ دو سو میٹر کی دوری پر رکی تھیں۔ مرشد اور خنجر نے واضح طور پر دیکھا کہ ان میں سوار بندوں کے پاس رائفلیں بھی ہیں۔ ان دونوں کے دماغوں میں ایک ساتھ خطرے کے الارم بجے ۔دونوں نے ایک ساتھ اپنے بیگ سنبھالے اور کمرے کی دیوار کی اوٹ میں ہوگئے۔ مرشد نے دیکھا تھا کہ گاڑیوں سے مسلح لوگ نیچے اترنے لگے تھے ۔وہ جو کوئی بھی تھے دوست تو ہر گز نہیں تھے۔ مرشد کو یہ بھی خدشہ تھا کہ شاید انہیں بھی دیکھ لیا گیا ہے۔ دونوں گاڑیاں آنا فانا ہی تو سامنے کھلے میں پہنچ آئی تھیں۔
”مجھے لگتا ہے پچھلی جیپ ملنگی لوگوں کی ہے۔“ خنجر نے قیاس آرائی کی لیکن مرشد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دونوں نے لمحوں میں بیگوں کے اندر سے رائفلیں نکال لی تھیں۔ حجاب جو پہلے ہی دیوار کے قریب تھی، بالکل دیوار کے ساتھ چپک گئی ۔گاڑیاں اس نے بھی دیکھی تھیں اور اب خنجر کے منہ سے وہ ملنگی کا نام بھی سن چکی تھی۔ ملنگی اور فوجی لوگوں سے وہ واقف تھی۔ نزہت بیگم کے کوٹھے پر حسن آرا کے کمرے سے انہی لوگوں نے تو اسے اغوا کیا تھا۔ بعد میں شیخو پورہ شہر کے قریب مرشد نے اسے ان کی قید سے نکالا تھا ۔اس رات کی دہشت ناکی کی یاد آتے ہی وہ جھرجھری لے کر رہ گئی۔
مرشد کمرے کی نکڑ کے قریب تھا اس کے برابر میں خنجر اور آگے حجاب … حجاب جس چارپائی پر بیٹھی تھی اس پر اب دونوں بیگ کھلے پڑے تھے۔ ایک میں سے مردانہ کپڑے جھانک رہے تھے اور دوسرے سے زنانہ کپڑے جھلک دکھا رہے تھے۔ ان کپڑوں میں اب تک چھپی رہنے والی چھوٹی نال کی خوفناک رائفلیں اس وقت مرشد اور خنجر کے ہاتھوں میں تھیں اور وہ دونوں پوری طرح مرنے مارنے کے لیے تیار دکھائی دینے لگے تھے۔
”کتنے بندے ہیں؟“ مرشد نے اپنے سامنے کھڑے جوان سے پوچھا جو اپنی جگہ سے ہکا بکا سا کھڑا کبھی آنے والی گاڑیوں کی طرف دیکھ رہا تھا اور کبھی مرشد اور خنجر کی طرف۔ اس کے چہرے پر سراسمیگی کے سائے پھیل چکے تھے۔
”پپ… پانچ… چھ ہیں۔“ وہ بمشکل بول پایا، شاید اس کا حلق خشک تھا۔
”کیا اب پھر لڑائی ہوگی؟“ حجاب کی پر تشویش منمناہٹ مرشد کی سماعت تک پہنچی۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا، حجاب اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کالی چادر کے نقاب سے جھانکتی اس کی خوب صورت اور شفاف آنکھوں میں اندیشے ہی اندیشے تھے ۔مرشد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”آپ بالکل بھی فکر نہیں کریں، ہمیں اپنی منزل تک پہنچنا ہے اور ہم ہر صورت پہنچیں گے۔“ اپنے لہجے کا یقین خود اس کے اپنے اعتماد کو مہمیز کر گیا۔ ان دونوں نے لیورز کھینچ کر رائفلوں کو کاک کرلیا تھا لیکن اسی وقت ایک اور کام ہوا۔ اس کمرے کے سامنے کی سمت سے کوئی بھاگ کر نکلا اور جدھر سے کچھ دیر پہلے مرشد لوگ یہاں پہنچے تھے ادھر کو بھاگتا چلا گیا۔ مرشد اور خنجر نے اچنبھے سے دیکھا ،بھاگنے والا کوئی اور نہیں، وہی زہریلا بوڑھا تھا۔ ددا
وہ مریل، مدقوق، نحیف و نزار بوڑھا جو ہلنے جلنے سے بھی عاجز دکھائی دیتا تھا ،ان کے سامنے کسی سبک رفتار ہرن کی طرح قلانچیں بھرتا بھاگا جا رہا تھا۔ اس کی میلی بوسیدہ دھوتی اس کے عقب میں پھڑ پھڑا رہی تھی۔
”اسے کیا ہوا؟“ خنجر بے ساختہ بڑبڑایا۔
”وہ بھاگ رہا ہے۔“
”ادھر… اس طرف۔“
”جاﺅ پکڑو اس خبیث کو۔“
گاڑیوں والی سمت سے کچھ مدہم مگر تیز آوازیں بلند ہوئیں اور پھر بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی۔
”یہ تو کچھ اور ہی چکر لگ رہا ہے!“ مرشد نے کہا۔ رائفلوں پر گرفت انہوں نے مضبوط کرلی تھی۔ کان کٹے کے ساتھ ساتھ دو آوازیں مزید بھونکنے میں شامل ہو گئی تھیں۔
”رک جا مصری !بھاگ مت۔“
”رک جا اوئے!“ یقینا اس آواز میں اس بوڑھے ہی کو پکارا گیا تھا لیکن وہ رکنے کی بجائے جھاڑ نما درختوں اور جھاڑیوں کے اندر گم ہو چکا تھا۔ بھاگے آتے قدموں کی آواز قریب آچکی تھی لیکن آنے والے ان کی طرف دھیان دیے بغیر ان کے قریب سے گزرتے ہوئے بوڑھے ددا کے پیچھے ہی ان جھاڑیوں میں جا گھسے۔
”پکڑ کر گھسیٹ لاﺅ اس بوڑھے لومڑ کو۔“ایک بھاری درشت آواز قریب ہی سے بلند ہوئی۔ مرشد نے اپنے سامنے حیران پریشان کھڑے اس جوان کو مخاطب کیا۔
”یہ سب کیا ہو رہا ہے؟“
”پپ… پتا نئیں۔“
”کون ہیں یہ لوگ اور وہ بابا ان سے کیوں بھاگ رہا ہے؟“
”میرے کو سچی میں کج ملوم نئیں۔ میں نئیں جانتا۔“ جوان کی حالت پتلی تھی ۔وہ بری طرح گھبرا چکا تھا ۔اس کی صورت پر لکھا تھا کہ وہ اس معاملے کے بارے میں قطعی لا علم ہے۔
”یہ تو کوئی اور ہی لوگ ہیں جگر! زہریلے بابے کا اپنا ہی کوئی پنگا ہے۔“ خنجر نے پر خیال انداز میں کہا۔ مرشد کے تنے ہوئے اعصاب بھی قدرے ڈھیلے پڑ گئے۔ ان کے سامنے سے بھاگ کر گزرنے والے تینوں مسلح آدمی ان کے لیے بالکل اجنبی تھے۔ اب تک سنائی دینے والی ساری آوازیں بھی سماعت نا آشنا تھیں۔ یہ اطمینان بخش باتیں تھیں۔ یعنی فی الحال وہ اپنے دشمنوں کی دسترس سے دور تھے۔فضا میں تین کتوں کے بھونکنے کا شور تھا ۔اس شور سے پریشان ہو کر گدھوں نے بھی ہینکنا شروع کردیا تھا۔ مشرق کی طرف سورج آنکھیں کھول چکا تھا ۔اس کی نوخیز لیکن پر تپش روشنی جھاڑیوں کے اوپر سرسرانے لگی تھی۔ جس جگہ وہ موجود تھے وہاں کمرے کا سایہ تھا۔
”اس مکار شیطان کو باندھ کر ڈال لینا جیپ میں ،بڑا خراب کراہے اس لعنتی نے۔“
وہی بھاری اور درشت آواز مزید قریب سے ابھری اور پھر ان کے بائیں ہاتھ تقریبا پندرہ بیس قدم کے فاصلے سے دو اجنبی شخص ظاہر ہوئے۔ ایک بھاری تن و توش کا اونچا لمبا آدمی تھا جس نے کلف لگا سفید سوٹ پہن رکھا تھا ۔دوسرا درمیانے قد اور ٹھوس جسم کا مالک تھا۔ اس کے جسم پر ایک عام سا شلوار سوٹ تھا اور کندھے کے ساتھ رائفل جھول رہی تھی۔ اسی لمحے ان کی نظر بھی مرشد وغیرہ پر پڑی۔ وہ دونوں اس بری طرح چونکے کہ مرشد کو یقین ہوگیا کہ اب سے پہلے انہوں نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ۔چند لمحوں کے لیے تو وہ دونوں وہیں اپنی جگہ پر جم کر رہ گئے۔ مرشد اور خنجر کے ہاتھوں میں رائفلیں تھیں۔ ان کے عقب میں حجاب کھڑی تھی ،چادر میں لپٹی لپٹائی۔ یہ منظر یقینا دونوں نوواردوں کے لیے غیر متوقع ثابت ہوا تھا۔چند لمحے مرشد اور خنجر کو بغور دیکھتے رہنے کے بعد وہ دونوں انہی کی طرف بڑھ آئے۔
”کیا نام ہے بھئی تیرا؟“ قریب پہنچ کر بھاری تن و توش والے نے بچہ بردار جوان سے سوال کیا لیکن اس کی چیل جیسی آنکھیں مسلسل مرشد لوگوں ہی
کا جائزہ لیتی رہیں۔
”مم… میرا نام ماکھا ہے جی!“ وہ تھوک نگل کر بولا۔
”ماکھا… اچھا… یہ کب سے یہاں ہے؟“ مرشد اور خنجر کے بعد اس نے بغور حجاب کو سر سے پاﺅں تک گھورا۔مرشد نے خنجر کو اشارہ کیا اور چارپائی پر پڑے بیگوں کی طرف بڑھ گیا۔
”کک… کون؟“
”یہی بوڑھا لومڑ۔“
”دو… دو ہفتے سے۔“
”اور… یہ لوگ کون ہیں؟“ مرشد اور خنجر اپنے بیگوں کی طرف متوجہ تھے لیکن وہ دونوں سمجھ گئے کہ یہ سوال انہی کے متعلق کیا گیا ہے۔
”یہ تو… یہ تو مسافر لوگ ہیں۔ پانی پینے رک گئے تھے یہاں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں پہنچے ہیں۔“
مرشد اور خنجر نے بیگ بندکر کے کندھوں پر لٹکا لیے البتہ رائفلیں فی الحال ہاتھوں میں ہی رکھیں۔ مرشد، حجاب سے مخاطب ہوا۔
”آجائیں۔“ وہ یہاں ان لوگوں کے کسی معاملے میں ملوث نہیں ہونا چاہتا تھا ۔یہ ان لوگوں کا کوئی اپنا ذاتی معاملہ تھا اور مرشد کا ان میں سے کسی کے ساتھ بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اس کا اپنا ایک الگ رستہ، الگ منزل تھی۔ ایک اہم اور بہت ہی خاص مقصد اس کے پیش نظر تھا ۔اس نے یہی بہتر سمجھا کہ مزید کوئی شور ہنگامہ ہونے سے پہلے ہی ادھر سے نکل لیا جائے۔وہ تینوں چپ چاپ ان کے قریب سے گزر کر آگے بڑھ گئے۔ بستی کی طرف سے دو تین اور میلے کچیلے بندے اس طرف آرہے تھے ۔ان کی سوئی جاگی شکلوں پر حیرت و پریشانی کے ساتھ ساتھ اشتیاق بھی کسمسا رہا تھا۔وہ تینوں چند قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ عقب سے اسی کلف سوٹ والے کی بھاری آواز ابھری۔
”اوئے ٹھہرو! رکو ذرا۔“ ظاہر ہے یہ انہی سے کہا گیا تھا۔ مرشد رکا تو خنجر اور حجاب بھی رک گئے۔
”کون لوگ ہو تم؟“ وہ سفید سوٹ والا گرانڈیل ان کی طرف آتے ہوئے سوال انداز ہوا۔ مرشد نے محسوس کیا کہ اس کی کلف زدہ قمیص کے نیچے اس کی ڈب میں پسٹل موجود ہے ۔دوسرے شخص کی رائفل بھی کندھے سے اس کے ہاتھوں میں آچکی تھی۔ مرشد نے ایک طائرانہ نظر میں یہ دیکھ لیا تھا کہ کچھ فاصلے پر موجود گاڑیوں کے قریب بھی ایک مسلح آدمی موجود ہے اور پجارو کے اندر بھی غالباً کوئی بیٹھا تھا۔
”کون ہو اور کدھر سے آرہے ہو؟“ وہ ان کے سامنے آکھڑا ہوا۔ تن و توش کی مناسبت سے اس کا چہرہ بھی چوڑا چکلا تھا ۔داڑھی جڑ سے رگڑی ہوئی۔ گھنی مونچھیں اور گھنی بھویں، پیشانی سے بال کم اور عمر تقریبا پینتیس سال ۔اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں شکوک و شبہات تیر رہے تھے۔
”ہم سے کیا چاہتے ہو؟“اس کے سوال کے جواب میں مرشد نے الٹا اس سے سوال کردیا۔ وہ بالکل مطمئن اور پر سکون دکھائی دے رہا تھا۔
”اپنے سوال کا جواب جاننا چاہتا ہوں کہ تم لوگ کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟“
”اس سوال کا جواب تمہیں ماکھا دے چکا ہے۔ مسافر ہیں، رستہ بھٹک کر ادھر آنکلے تھے۔“
”مسافر“ اس نے باری باری ان دونوںکے ہاتھوں میں موجود رائفلوں پر نظر ڈالی۔ ”کدھر سے ”سفر مار“ کر آرہے ہو ؟“
”شیخو پورہ سے آرہے ہیں، ملتان ایک فوتیدگی پر جا رہے ہیں۔“
گرانڈ پل کے چہرے پر ہلکی سی استہزا آمیز مسکراہٹ پھیل گئی۔
”اچھا اور ملتان میں کس جگہ جاﺅ گے؟“
مرشد نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے اپنے اطراف میں نظر دوڑائی، کلر زدہ مٹی، اکا دکا جھاڑیاں، دائیں ہاتھ ڈیڑھ سو میٹر دوری پر دو گاڑیاں، گاڑیوں کے بالکل سامنے کچھ فاصلے پر بے ڈھنگے جھونپڑے، جھگیاںاور وہاں سے اسی سمت دیکھتی ہوئی کچھ آنکھیں بستی کی طرف سے آنے والے افراد ماکھے کی طرف بڑھ گئے تھے،البتہ کتے غضب ناک تیوروں سے ان کی طرف آنا چاہ رہے تھے لیکن ایک نوجوان ان کے سامنے کھڑا ان کو لعنت ملامت کر رہا تھا اور جواب میں تینوں کتے بھونک بھونک کر اپنی ناگواری اور غصے کا اظہار کر رہے تھے۔مرشد کو احساس تھا کہ اس کا جواب کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ وہ گرانڈیل کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مسکرا کر بولا۔
”میرے خیال میں تو بہتر یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی ٹوہ نہ لیں ہمیں اپنی اپنی نبیڑنی چاہیے۔“اس کے سکون و اطمینان اور پر اعتماد لہجے سے اس گرانڈیل کو اتنا اندازہ تو ہوگیا تھا کہ اس کے سامنے کھڑا شخص کوئی عام بندہ نہیں ہے۔
”دیکھو جوان! ہوسکتا ہے کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو ،تمہارا یہاں موجود ہونا اتفاق ہو، لیکن حالات و واقعات کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ تمہیں اپنے حوالے سے میری تسلی کرانی ہوگی۔“
”اور وہ کس طرح ہوگی؟“
”اپنے بارے میں درست بتاﺅ ۔کون ہو تم… کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جا رہے ہو؟“ اس کی نظریں ایک بار پھر حجاب کی طرف سرک گئیں۔
”یہ ہماری مالکن ہیں۔“ مرشد نے جیسے تنبیہہ کی۔”ہمارے پیر و مرشد کے گھرانے سے انہیں ان کی منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری ہے ہمارے سر پہ انہی کو چھوڑنے جا رہے ہیں۔ کہاں کیوں اس سب سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں، اس لیے اس بارے میں پوچھو بھی مت۔“ اس بار اس نے گہری سنجیدگی سے کہا اور اس گرانڈیل کے جواب یا رد عمل کا انتظار کیے بغیر پلٹ کر چل پڑا۔ حجاب اور خنجر اس کے دائیں بائیں تھے۔ گرانڈیل اپنی جگہ کھڑا گہری پر غور نظروں سے انہیں دیکھتا رہا اور وہ تینوں چلتے ہوئے جھاڑیوں کے درمیان اس کچے رستے پر نکل آئے جدھر سے گاڑیاں آئی تھیں اور اس وقت تھوڑے فاصلے پر سامنے ہی کھڑی تھیں۔ پجارو کے برابر کھڑا رائفل بردار اب گرانڈیل کی طرف جا رہا تھا اور مرشد لوگوں ہی کی طرف دیکھتا جا رہا تھا،ٹیڑھی، چبھتی ہوئی نظروں سے
تقریبا دو فرلانگ کے بعد انہیں پکی کے آثار دکھائی دیے تو مرشد ٹھہر گیا۔ یہ پکی ایک خستہ حال لیکن پختہ سڑک تھی۔ تین اطراف سے کچے راستے اس جگہ آکر اس سڑک سے ملتے تھے۔ سڑک کے دائیں بائیں ایک دو تھکی ہاری کچی دکانیں اور کھوکھے تھے ۔چند ایک مفلوک الحال دیہاتی بھی اِدھر ا�±دھر موجود تھے۔ ایک کیکر کے درخت کے ساتھ ہینڈ پمپ دکھائی دے رہا تھا اور اس کے برابر ہی ایک تانگہ بھی کھڑا تھا لیکن اس پر سواری کوئی بھی نہیں تھی۔ کوچوان بھی شاید کہیں اِدھر ا�±دھر بیٹھا گپ بازی میں مصروف تھا۔
”جگر! سواری تو موجود ہے۔“
”میرا خیال ہے کہ رائفلیں اب ہمیں بیگوں میں واپس رکھ لینی چاہیے۔“ خنجر کی بات کے جواب میں مرشد نے بیگ کندھے سے اتارتے ہوئے کہا لیکن ساتھ ہی ٹھٹک گیا۔ انہوں نے ایک ساتھ ہی پلٹ کر اپنے عقب میں دیکھا ،وہی دونوں گاڑیاں تھیں۔ آگے پجارو تھی اور پیچھے پیچھے وہی پوٹھوہاری جیپ جو دیکھنے میں بالکل ملنگی والی جیپ جیسی دکھائی دیتی تھی۔
”لگتا ہے اس کھڑوس اور زہریلے بڈھے کو اٹھا لائے ہیں یہ؟“مرشد نے خنجر کی قیاس آرائی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور رستے سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔ دونوں گاڑیاں لمحوں میں ان کے قریب پہنچ آئی تھیں۔ اسی رفتار سے وہ ان کے قریب سے گزر کر آگے بڑھیں لیکن چند قدم آگے پہنچتے ہی اچانک رک گئیں۔پجارو کی فرنٹ سیٹ سے وہی گرانڈیل شخص نیچے اترا۔ جیپ سے بھی فوراً تین بندے چھلانگیں مار کر اترے تھے۔ گرانڈیل سیدھا مرشد کی طرف آیا، مرشد اور خنجر نے دیکھا جیپ کے فرش پر بوڑھا ددا گھٹڑی بنا پڑا تھا۔ اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے۔ ددا کے ساتھ ہی ایک اور مفلوک الحال ہراساں صورت بھی انہیں دکھائی دی ،یہ صورت ان کے لیے اجنبی تھی۔
”چلو… آﺅ۔“ گرانڈیل نے قریب پہنچتے ہی مرشد سے یوں کہا جیسے کوئی احسان کر رہا ہو۔
”چلے جاﺅ۔“ مرشد کے فوری جواب پر اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ تینوں رائفل بردار بھی ان کے قریب آ کھڑے ہوئے تھے ۔حجاب کو پھر گھبراہٹ
ہونے لگی۔
”خان صاحب بلا رہے ہیں تجھے۔“
”نہ میں کسی خان صاحب کو جانتا ہوں اور نہ ملنا چاہتا ہوں۔ بے وجہ اپنا اور ہمارا راستہ خراب نہیں کرو، جدھر جا رہے ہو، جاﺅ۔“
”اچھا ہوگا کہ تو کچھ جانے بغیر ہی چل کر ان سے مل لے ورنہ…!“ وہ سیدھی سیدھی دھمکی دے رہا تھا۔ اس کے خان صاحب غالبا پجارو میں براجمان تھے۔
”ورنہ کیا؟“ مرشد کے ماتھے پر بھی بل نمودار ہوئے، گرانڈیل کے لہجے اور انداز پر اس کی کھوپڑی ہی تو سلگ اٹھی تھی۔
”ورنہ تجھے ابھی ساری جان کاری دے دیویں گے ہم۔ سارے طبق روشن ہوجاویں گے تیرے۔“
”لگتا ہے ڈیل ڈول کی طرح تیرا دماغ بھی موٹا ہے، نظر بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے، اپنی درگت بنوائے بغیر تجھے سمجھ نہیں آئے گی۔“ مرشد کا سرد اور استہزائیہ لہجہ گرانڈیل کے تن بدن میں آگ لگا گیا۔ اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔
”اگر خان صاحب نے تجھے بلانے کا نہ کہا ہوتا تو اب تک تیری یہ لاش اسی مٹی میں تڑپ رہی ہوتی۔تیری زبان بھی صرف اس وجہ سے چل رہی ہے کہ تو ابھی چوہان کو جانتا نہیں۔“
”اب یہ چوہان کیا جنرل ضیاءالحق کا سالا ہے یا اس کی تصویر کسی نوٹ پر چھپتی ہے؟“مرشد نے بے زاری اور ناگواری سے کہا۔ گرانڈیل کی یہ زبردستی کی دل چسپی مرشد کو سخت گراں گزر رہی تھی۔ اس بار اس کا جملہ اور انداز اس گرانڈیل کو بھی کچھ زیادہ ہی گراں گزر گیا۔ اس نے جھپٹ کر مرشد کے گریبان پر ہاتھ ڈالا تھا۔ کچھ غرانے کا بھی ارادہ رکھتا تھا وہ، لیکن اس کا جملہ اس کے منہ ہی میں گونج کر رہ گیا۔ مرشد کے ہاتھ میں موجود رائفل کی نال نیچے سے اس کی ٹھوڑی پر لگی تھی۔ضرب زور دار تھی۔ گرانڈیل ایک ذرا لڑکھڑایا اور پھر مرشد کی لات سینے پر کھا کر اپنے عقب میں کھڑے رائفل بردار سے ٹکرایا اور اسے اپنے ساتھ ہی لیتے ہوئے نیچے جا گرا۔ خنجر نے فورا اپنی رائفل سیدھی کرلی تھی۔
”خبردار اوے! کوئی غلط حرکت نہیں کرنا۔“ اس کی کڑک آواز ان سبھی کو ٹھٹکا گئی۔ البتہ رائفلیں وہ لوگ بھی تان چکے تھے۔ جیپ کے اندر ددا کے سر پر موجود رائفل بردار بھی اچھل کر نیچے اتر آیا۔ گرانڈیل نیچے گرتے ہی ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ۔شاید وہ اپنی طرف اٹھی ہوئی مرشد اور خنجر کی رائفلوں کی پروا کیے بغیر مرشد پر حملہ آور ہوجاتا لیکن ٹھیک اسی وقت ایک بھاری بارعب آواز بلند ہوئی۔
”چوہان… رک جاﺅ۔“ وہ گراندیل یعنی چوہان ،جو مرشد کو خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا اور غالباً مرشد پر جھپٹنا چاہ رہا تھا ،اپنی جگہ جم کر رہ گیا۔
پجارو کے قریب وہی چوکس رائفل بردار کھڑا تھا اور ایک سرخ و سپید ادھیڑ عمر پٹھان بھی۔ اسی پٹھان نے چوہان کو آواز دی تھی۔
”کیا ہو رہا ہے یہ سب؟ فساد کرنے کا کس نے بولا تھا تمہیں؟“ وہ انہی کی طرف بڑھ آیا۔ جسم پر بادامی رنگ کا اجلا شلوار سوٹ،پشاوری چپل ہاتھ میں دو دو سونے کی انگوٹھیاں، رنگ، سرخ انار کے جیسا ،پر رعب چہرے پر خضاب لگی ایرانی طرز داڑھی اور سر پر چھوٹے چھوٹے بال ،شکل و صورت سے وہ ایک پڑھا لکھا اور معقول انسان دکھائی دیتا تھا۔
”تمہارا جگر دن بدن تمہارے دماغ پر چڑھتا آرہا ہے ہر وقت زور دکھانے کے چکر میں رہتے ہو۔ کوئی علاج کراﺅ اپنی اس بیماری کا۔“
”خان صاحب !اس مچھل کے خون میں زیادہ گرمی ہے۔ مجھے اس کو ذرا ٹھنڈا کرلینے دیں۔“ چوہان نے پر تپش لہجے میں کہا۔ اس کی شعلہ بار نگاہیں بدستور مرشد پر جمی تھیں۔
”تم اپنا دماغ تھوڑا ٹھنڈا رکھو۔ جتنا کہا جائے صرف اتنا کیا کرو، نہیں کرسکتے تو صاف بتادو ہم نواب صاحب سے بول دے گا کہ تم ہمارے کام
کے نہیں ہو، کوئی اور کام سنبھال لینا پھر۔“ خان صاحب کے لہجے کی خفگی کچھ مزید بڑھ گئی البتہ اس بار چوہان صرف جبڑے بھینچ کر رہ گیا۔ ایک سلگتی ہوئی نظر سے اس نے مرشد کو گھورا ،پھر رخ بدلتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
”جا کر ادھر گاڑی کے پاس ٹھہرو اور تم لوگ بھی اپنی سیٹیں سنبھالو۔“ خان صاحب نے خشک انداز میں پہلے چوہان سے کہا اور پھر دوسرے رائفل برداروں سے ۔وہ سب فوراً ہی پیچھے ہٹ گئے ۔چوہان بھی بھنائے ہوئے انداز میں پجارو کی طرف بڑھ گیا تھا۔
”ہمارا نام لہراسب خان ہے۔“ خان صاحب نے اپنا گورا چٹا ہاتھ مرشد کی طرف بڑھایا۔”چوہان کے رویے کے لیے ہم تم سے معذرت کرتا ہے۔ اس کا دماغ تھوڑا خراب ہے۔“
”شاہ نواز۔“ مرشد نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ لہراسب کی عمر پینتالیس پچاس کے درمیان تھی۔ صحت قابل رشک ،ہاتھ کی گرفت جاندار لیکن ہاتھ بالکل نرم وملائم۔
”آپ دخل اندازی نہ کرتے تو شاید تھوڑی بہت خرابی تو آج درست ہوجاتی۔“ لہراسب اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے سوال انداز ہوا۔
”ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم لوگ ملتان کی طرف جا رہے ہو؟“
”جا تو رہے ہیں۔“
”تو پھر ہمارے ساتھ ہی چلو۔ ہم بھی اسی طرف جا رہے ہیں۔“
”آپ کا شکریہ لیکن آپ ہمارے لیے زحمت نہ اٹھائیں۔ہم اپنے طور پر پہنچ جائیں گے۔“
”زحمت کی اس میں کوئی بات نہیں ایک بہادرجوان کے کام آکر ہمیں خوشی ہوگی۔“
”لیکن آپ کے ان خدمت گاروں کو بہت دکھ ہوگا۔ خصوصاً چوہان کو۔“
”ان کی بات چھوڑو بے وقوف ہیں ۔آﺅ تم لوگ۔“
”آپ کیوں ہم پر مہربانی کرنا چاہ رہے ہیں۔“ مرشد کے سوال پر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اتر آئی۔
”ہمیں چوہان نے بتایا ہے کہ تم لوگ ان بی بی جی کو کہیں چھوڑنے جا رہے ہو۔ یہ تمہارے پیر و مرشد کے گھرانے سے ہیں ۔ہم بھی پیروں فقیروں کا ماننے والا ہے۔ بس اسی لیے ہم سمجھ سکتا ہے کہ تم لوگوں کا یہ معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ شاید کوئی دشمنی کا معاملہ ہو۔ ہمیں کوئی غرض نہیں… ہم بے
لوث تمہارے اور بی بی جی کے کام آنا چاہتا ہے۔ ہمارے ساتھ ملتان تک بڑی سہولت سے پہنچ جاﺅ گے۔ ہماری گاڑی میں کوئی پولیس والا بھی نہیں جھانکے گا۔“اس کی یہ آخری بات ان کے لیے واقعی بڑے کام کی تھی۔ مرشد اور خنجر کے ذہن میں یہ اندیشہ موجود تھا کہ وہ آسانی سے ملتان تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ فیصل آباد اڈے پر ہونے والے واقعے کے باعث انہیں یقین تھا کہ فیصل آباد سے ملتان تک کے سارے تھانوں میں ان کے متعلق اطلاع پہنچ چکی ہوگی اور یہاں سے وہاں تک کئی جگہ پولیس والے ان کی گھات میں ہوں گے۔ ایسے میں اس لہراسب خان کی یہ پیشکش نظر انداز کردیے جانے والی نہیں تھی۔مرشد نے خنجر کی طرف دیکھا، دونوں کی نظریں آپس میں ملیں لہراسب مزید بولا۔
”تم لوگ چاہو تو آپس میں مشورہ کرلو اور اگر دل نہ مانے تو کوئی زور زبردستی بھی نہیں ہے۔ تمہاری اپنی مرضی کی بات ہے۔ ہمارے ساتھ چلنے میں تم لوگوں کا ہی بھلا ہے۔
اگر ہماری وجہ سے آپ کے لیے کوئی مصیبت بن گئی تو ہمیں بہت افسوس ہوگا۔“ مرشد نے مسکراتے ہوئے کہا تو لہراسب ہاتھ جھٹکتے ہوئے بے پروائی سے بولا۔
”یہ افسوس چھوڑو تم! مصیبت وغیرہ کو ہم خود دیکھ لے گا۔“
”ٹھیک ہے۔ ہمیں پھر کیا اعتراض ہوسکتا ہے بھلا۔“ مرشد نے کندھے اچکائے ۔لہراسب خاصی بھاری بھرکم شخصیت کا مالک دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے اوپر کوئی نواب صاحب بھی تھے۔ یقینا یہ خاصے با اثر اور جاہ و حشم والے لوگ تھے۔ ان کے ساتھ ایک محفوظ سفر کی سبیل بن رہی تھی تو یہ خدا ہی کا انتظام تھا ۔مرشد کو ان لوگوں سے کوئی اندیشہ نہیں تھا سوائے چوہان کے، اس کے حوالے سے بھی وہ سوچ چکا تھا کہ اگر کہیں، کسی بھی جگہ ان لوگوں نے مسئلہ بننا چاہا تو ان کی طبیعت صاف کر کے رکھ دی جائے گی۔وہ لہراسب کے ساتھ ہی پجارو کی طرف بڑھے۔ جیپ میں سے ددا نے گھگیاتے ہوئے لہراسب کو خان صاحب کہہ کر پکارا مگر لہراسب نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں۔
پجارو کے قریب کھڑا رائفل بردار لہراسب خان کے اشارے پر فورا پیچھے کھڑی جیپ کی طرف بڑھ گیا۔ حجاب مرشد کے کہنے پر پجارو میں عقبی سیٹ پر جا بیٹھی۔ خنجر نے درمیانی سیٹ سنبھالی، چوہان مرشد کو گھورتا ہوا فرنٹ سیٹ پر سوار ہوگیا جبکہ مرشد اور لہراسب پہلی سیٹ پر پہلو بہ پہلو بیٹھ گئے ۔بیگ انہوں نے برابر میں رکھ لیے تھے البتہ رائفلیں ان کے ہاتھ ہی میں تھیں۔ان سب کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی سامنے دکھائی دیتی پکی سڑک کی طرف بڑھا دی۔ دونوں گاڑیاں سڑک پر پہنچ گئیں تو چوہان گردن موڑتے ہوئے لہراسب خان سے مخاطب ہوا۔
”نواب صاحب نے کہا تھا کہ واپسی کے وقت انہیں نتیجے کے بارے میں بتا دیا جائے۔“
”تو یہاں کہاں سے بتاﺅ گے؟ گوجرہ پہنچ کر فون کردینا انہیں ۔بتا دینا کہ بوڑھے کو ساتھ لے کر آرہے ہیں۔“ چوہان اثبات میں سر ہلاتے ہوئے سیدھا ہو بیٹھا۔ مرشد کا دھیان ددا کی طرف چلا گیا ۔لہراسب کی بات سے اسے معلوم ہو رہا تھا کہ اس زہریلے بوڑھے کو نواب صاحب کی ایما پر یوں اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
”اس بے چارے نے آپ لوگوں کا کیا نقصان کردیا ہے؟“ مرشد نے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا۔
”کس نے… مصری کا پوچھ رہے ہو؟“ لہراسب اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”نہیں… اس بابے کا ،جسے آپ لوگ پکڑ کر لائے ہیں۔“
”ہاںوہیاسی کا نام مصری ہے۔“
”مصری ہونا نہیں چاہیے تھا کیا دیکھنا کیا سنناکسی طرف سے بھی وہ مصری جیسا تو نہیں لگتا۔ نرا کوڑتنبہ ہے وہ تو۔“ مرشد کی بات پر لہراسب کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
”ہاں !ہونا تو نہیں چاہیے تھا مگر ہے ویسے ہماری چھان بین کے مطابق اس کے کافی سارے نام ہیں لیکن زیادہ لوگ اسے مصری ہی کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں۔“
”چھان بین!“ مرشد نے رخ اس کی طرف پھیرا۔ اس کی پر سکون آنکھیں ونڈ اسکرین کی طرف متوجہ تھیں۔
”ہاں! ہم تین چار ماہ سے اس کی تلاش میں ہیں۔ یہ آوارہ گرد روح کسی ایک علاقے یا بستی میں ٹکتی ہی نہیں ہے بہت سفر کرایا ہے اس نے ہمیں۔ پنجاب سے سندھ… سندھ سے پنجاب، بستی بستی ،دریا دریا۔“
”اس کے پاس کسی خزانے کا راز ہے کیا؟ اتنی کھیچل!“
”خزانے کا راز نہیں… یہ خود ایک خزانہ ہے۔ ایک بے بدل اور بے مول خزانہ۔“ لہراسب کی مسکراہٹ میں ایک پر اسراریت در آئی۔ ”یہ جو نظر آتا ہے وہ نہیں ہے یہ … اس کی اصل حقیقت کچھ اور ہے۔“
مرشد کے پردہ تصور پر بابے مصری کا نحیف و نزار سراپا لہرا گیا۔ لہراسب کا انداز اس کے لیے تعجب خیز تھا۔ نجانے وہ اس مریل سڑیل بوڑھے میں سے کون سی انوکھی حقیقت دریافت کرنے کے ارادے رکھتا تھا!
اس نے گردن موڑ کر ایک سرسری سی نظر حجاب پر ڈالی، وہ کھڑکی سے باہر تیزی سے بھاگتے مناظر دیکھ رہی تھی۔ دونوں گاڑیاں آگے پیچھے گوجرہ کی طرف دوڑی جا رہی تھیں۔ مرشد نے فیصلہ کیا کہ گوجرہ پہنچتے ہی حجاب کے لیے کھانے اور پانی کا بندوبست کرے گا، بھوک کا تو پھر بھی ابھی مسئلہ نہیں تھا البتہ پانی زیادہ ضروری تھا۔ اچانک اسے خیال آیا تو وہ لہراسب سے مخاطب ہوا۔
”آپ کے پاس پانی ہے پینے کے لیے؟“
”بوتل ہے تو سہی مگر گرم ہوچکاہوگا پانی۔“ گوجرہ سے لے لیتے ہیں۔“ اس نے بھی گویا مرشد ہی کے خیال کی تائید کی تھی۔ مرشد سر ہلا کر رہ گی۔ سورج سر اٹھا چکا تھا۔ اس کی پر تپش روشنی زمین کے نشیب و فراز پر حدت پھونکنے لگی تھی۔ یہ ایک نئے دن کی شروعات تھی۔
با مشکل دس پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہی وہ لوگ گوجرہ پہنچ گئے۔ یہاں مرشد نے نیچے اترنا چاہا تو لہراسب نے اسے منع کردیا۔ اس نے کھانے اور پانی کا چوہان کے ذمہ لگایا اور چوہان گاڑی سے اتر گیا۔ چند منٹ بعد وہ اور ایک اور رائفل بردار اکٹھے ہی واپس آئے ۔رائفل بردار نے کھانے کے شاپرز اور ٹھنڈے پانی کی دو بوتلیں مرشد کو تھمائیں جبکہ چوہان نے لہراسب کو نواب صاحب کا پیغام دیا کہ وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اتر کر چوہان کے ساتھ دائیں طرف کو چلا گیا ،جدھر ایک پبلک کال آفس تھا۔جس جگہ گاڑیاں رکی تھیں یہاں صرف ایک ہوٹل اور دو تین دکانیں ہی کھلی دکھائی دے رہی تھیں۔ لوگ بھی بس اکا دکا ہی تھے۔کھانے کی تو کسی نے بھی طلب محسوس نہیں کی البتہ پانی تینوں نے پیا۔ ایک بوتل مرشد نے حجاب ہی کو تھما دی تھی۔ خنجر اس موقع پر اپنی سیٹ سے کھسکتا ہوا گاڑی سے نیچے اتر کر دروازے کے قریب کھڑا ہوگیا۔
”تجھے کیا ہوا؟“ مرشد نے اسے گھورا۔ خنجر کھیسے سے سگریٹ کی ڈبیا نکالتے ہوئے بولا۔
”ایک سگریٹ پھونک لوں یار! دانت کھٹے ہو کر رہ گئے ہیں۔“
”سگریٹ میں چینی بھر رکھی ہے یا نمک؟“
”دھواں… وٹامنز والا دھواں بھر رکھا ہے۔“ اس نے سگریٹ سلگا کر ایک طویل کش کھینچتے ہوئے اپنے اطراف میں نظر دوڑائی۔
”یہ خان صاحب اس بڈھے کی کیا کہانی سنا رہے تھے؟“
”اس کا نام مصری ہے۔“
”مصری؟“
”ہاں!“ مرشد بے ساختہ مسکرایا۔ خنجر انتہائی برا سا منہ بناتے ہوئے بولا۔
”یہ مصری پھر زہر سے بنی ہوگی یا پھر پڑے پڑے زہریلی ہوگئی ہوگی۔“
”لہراسب بتا رہا تھا کہ یہ بندہ نہیں خزانہ ہے۔“
”پھر تو اسے ویسے ہی کہیں دفن کردینا چاہیے، نہیں تو اسے دیکھ دیکھ کر لوگوں کے من میلے ہوتے رہیں گے۔“ خنجر کی طبیعت کچھ مزید مکدر ہوگئی۔ ویسے یہ اسے لے جا کس چکر میں رہے ہیں؟“
”خزانے کس چکر میں لوٹے جاتے ہیں؟“ مرشد نے الٹا اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”اب کیا کہوں ان ٹوٹنے والوں کو بھی ہمارے ساتھ تو یہ بھلائی ہی کر رہے ہیں۔ کوئی انہونی نہ ہوگئی تو اب ملتان تک ہم لوگ بڑے سکون سے پہنچ
جائیں گے۔“
”اس بلڈاگ چوہان کے دماغی بیچ کچھ ڈھیلے ہیں۔ یہ ہراسب خان تو ٹھیک بندہ نظر آتا ہے۔“
”ہاں، پڑھا لکھا بھی لگتا ہے ۔میں نے کم ہی پٹھانوں کو اتنی صاف اردو بولتے دیکھا ہے۔“ اس نے ایک اور طویل کش کھینچا، چند قدم پیچھے کھڑی جیپ سے بھی دو رائفل بردار اتر کر جیپ کے برابر میں کھڑے باتیں کر رہے تھے ۔کبھی وہ دوسری طرف موجود کال آفس کی طرف دیکھتے تھے اور کبھی مرشد اور خنجر کی طرف۔ خنجر ایک نظر ان کا جائزہ لیتے ہوئے مرشد سے مخاطب ہوا۔
”چوہان کے ان چمچوں کی آنکھوں میں بھی مجھے سور کے بال دکھائی دے رہے ہیں۔“ مرشد نے ایک ٹٹولتی سی نظر انہیں دیکھا۔
”یہ چاروں پانچوں تو بے چارے سے بندے ہیں۔ ان کا دل گردہ بس ان کی آنکھوں تک ہی ہے البتہ اس ”چوہاآن “کے رگ پٹھوں میں تھوڑا گودا ہے اگر لہراسب موجود نہ ہوتا تو وہ یقینا زور آزماتا۔“ مرشد کا لہجہ دھیما تھا۔ گاڑی اسٹارٹ حالت میں کھڑی تھی۔ ڈرائیور اپنی سیٹ پر موجود تھا۔عقبی سیٹ پر بیٹھی حجاب کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی۔ اس کے سامنے دس پندرہ قدم کے فاصلے پر ایک ضعیف العمر شخص نے ابھی ابھی اپنی دکان کا شٹر اٹھایا تھا اور اب وہ دکان کے دامنے جھاڑو دے رہا تھا۔ اس کے چہرے پر سفید داڑھی تھی۔
صاف ستھری اور سلیقے سے ترشی ہوئی بالکل اس کے بابا سائیں جیسی عمر اور قد کاٹھ بھی تقریبا ویسا ہی تھا اس کے ذہن میں دھیرے سے ایک یاد منظر کی صورت روشن ہوئی، وہ صرف دس بارہ سال کی تھی۔ ایک بڑی بس کی کھڑکی والی سیٹ پر اس کے برابر میں اس کی ماں جی تھیں پھر بابا سائیں، عقبی سیٹوں پر تینوں بھائی بھی موجود تھے۔ وہ سب بلوچستان جا رہے تھے۔ پھوپھو زہرہ کے گھر۔ اسے یاد تھا، ان لوگوں نے تین چار گاڑیاں تبدیل کی تھیں اور پھر بلند و بالا پہاڑوں کے بیچ سے بل کھاتے راستوں پر سفر کرتے ہوئے وہ سب بالآخر پھوپھو کے ہاں جا پہنچے تھے۔ سارے راستے وہ بے حد خوش اور پر جوش رہی تھی۔ ہر گاڑی میں کھڑکی والی سیٹوں پر وہ اور اسرار قابض رہے تھے۔ مختلف شہر، راستے اور مناظر، انہیں سارے راستے مسحور کرتے رہے تھے۔راستے میں ایک جگہ انہوں نے پالک قیمے کے ساتھ کھانا بھی کھایا تھا۔ وہ ذائقہ آج تک اسے یاد تھااس کے ہوش
کا آخری طویل سفر بھی وہی تھا۔ اس کے بعد کبھی بھی اس نے کوئی ایسا طویل سفر نہیں کیا تھا ۔زیادہ وقت گھر کی چار دیواری کے اندر ہی گزرا تھا۔ گزشتہ آٹھ دس سال میں وہ محض چند ایک بار ہی گھر سے نکلی تھی، وہ بھی بس گاﺅں سے ڈسکہ تک، ماموں مرید حسین اور خالہ صغراں کے گھر تک۔
آج کئی سالوں بعد وہ پھر سے پھوپھو کے گھر کی طرف جانے والے اسی راستے پر تھی اس وقت ماں باپ اور بھائی ہمراہ تھے۔ وہ خوش اور پرجوش تھے۔ آج ان میں سے کوئی نہیں تھا کہیں کسی خوشی کا بھی کوئی احساس نہیں تھا۔جذبات و احساسات پر ایک برف سی جمی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ دل و دماغ بجھے ہوئے تھے۔ خون کی روانی میں دل دوز اندیشے گھلے ہوئے تھے ۔کسی کسی لمحے اسے یوں محسوس ہونے لگتا تھا، جیسے اس کے اطراف کی فضا میں ایک سہما دینے والا خوف سرسرا رہا ہے ایسے میں وہ شعوری طور پر ایک نظر مرشد کو دیکھ لیتی تھی، جیسے خود کو اس کی موجودگی کا یقین دلا رہی ہو۔ اپنے گھبراتے اور پریشان ہوتے دل و دماغ کو دلاسا دے رہی ہو کہ ایک بہادر اور زور آور محافظ اس کے ساتھ ہے ،پریشانی اور فکر مندی کی کوئی بات نہیں۔ گویا مرشد کا وجود اس کے لیے اطمینان کا باعث تھا۔ اس نے یونہی رخ بدلتے ہوئے دیکھا ،مرشد بھی اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں کمال اپنائیت اور نرمی تھی۔ اسے اپنی طرف دیکھتے پا کر اس نے فوراً نظریں ہٹا لیں۔ وہ پھر سے خنجر کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔
حجاب کو اپنے حوالے سے مرشد کے جذبات و احساسات کا بخوبی اندازہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ مرشد دل کی گہرائیوں میں اس کے لیے محبت کے جذبات رکھتا ہے، شاید شروع دن سے ہی، جب سے اس نے اسے دیکھا تھا تب سے۔ بے شک اس کی محبت کی ان بے باک وارفتگیوں پر ایک گہرے احترام نے پردہ ڈال لیا تھا لیکن وہ محبت اب بھی اس کی آنکھوں سے جھانکتی تھی ایک روشنی کی طرح اس کے چہرے سے پھوٹتی تھی اس کی ہر
حرکت ،ہر ہر عمل سے چھلکتی تھی۔اپنی اس محبت کو مرشد نے ابھی تک اس کے سامنے تسلیم نہیں کیا تھا نہ ہی محبت کا کوئی اظہار کیا تھا، ہاں البتہ اپنی پسندیدگی اور اس کی ذات میں دلچسپی کا اظہار وہ دو تین بار نہایت صاف اور واشگاف انداز میں کر چکا تھا۔
حجاب خود کو اس کا ممنون اور شکر گزار مانتی تھی، شروع شروع میں وہ اسے انتہائی برا اور خطرناک انسان لگا تھا مگر اب اس کے شرابی اور بدمعاش ہونے کے باوجود وہ اسے برا انسان نہیں سمجھتی تھی۔ پہلے پہل کی طرح اب اسے اس بد معاش سے ڈر لگتا تھا نہ کسی طرح کی گھبراہٹ محسوس ہوتی تھی۔ اب تو اس کا وجود، اس کی موجودگی حجاب کے نزدیک اطمینان کا باعث تھی ۔وہ اپنی خامیوں ، خرابیوں سمیت بہت سے انسانوں سے اچھا تھا۔ وہ اپنے دل میں اس کے لیے عزت اور احسان مندی کے جذبات محسوس کرتی تھی، پوری طرح اس پر بھروسہ کرنے لگی تھی لیکن اس سب کے علاوہ اس کے اندر اور کچھ نہیں تھا۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا اور کچھ سوچنا اسے گوارا ہی نہیں تھا
وہ پھر سے کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی ۔دوسری طرف سے لہراسب اور چوہان آتے دکھائی دیے تو خنجر سرک کر دوبارہ اپنی نشست پر پہنچ گیا۔ وہ دونوں واپس اپنی اپنی نشست پر آ بیٹھے تو دونوں گاڑیاں ایک بار پھر حرکت میں آئیں اور ملتان کی طرف دوڑ پڑیں۔
”آپ لوگ بھی ملتان ہی جا رہے ہیں۔“ مرشد نے پوچھا تھا۔
”ہمیں ملتان سے آگے جانا ہے۔ ڈیرہ غازی خان کی طرف۔“ لہراسب نے مرشد کی طرف دیکھا۔
”تم لوگ ملتان تک ہی چلو گے یا تم نے بھی آگے کہیں جانا ہے؟“
”جانا تو بہت دور ہے لیکن فی الحال ملتان تک ہی جائیں گے۔“
”اگر آگے کہیں جانا ہے تو مظفر گڑھ یا خان پور تک ہمارے ساتھ سفر کر سکتے ہو۔“
”نہیں ،ملتان تک ٹھیک رہے گا۔“
”تمہاری مرضی۔“ لہراسب نے دھیرے سے اپنے فربہ کندھے اچکائے۔ ”تم نے بتایا نہیں کہ تم لوگ آ کدھر سے رہے ہو۔“
”شیخو پورہ سے سمجھ لیں۔“
”سمجھ لیں… ٹھیک ہے ہم سمجھ گیا۔“
”اسے آپ ہماری مجبوری سمجھ لیں، بی بی جی جب تک ہمارے ساتھ ہیں ہم پوری طرح محتاط رہنے کے پابند ہیں۔“
”کوئی پروا نہیں۔ ہم اندازہ کر سکتا ہے، تم ایسے محسوس نہیں کرو۔“ لہراسب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فراخ دلی سے کہا۔ ”ملتان میں کس جگہ اتاریں تمہیں؟“
”ملتان… بس اسٹینڈ کے قریب۔“ مرشد نے روانی سے جواب دیا۔آگے کا پروگرام وہ اپنے ذہن میں ترتیب دے چکا تھا۔
باقی کے سفر میں ان لوگوں کے درمیان بات چیت کم ہی ہوئی، مرشد نے لہراسب کو کچھ کھل کر بتایا تھا نہ لہراسب نے ۔ملتان تک کے راستے میں تین چار مختلف مقامات پر انہیں پولیس کی نقل و حرکت دکھائی دی۔ ایک دو جگہ ناکوں پر چیکنگ کا عمل بھی دکھائی دیا لیکن جیسا کہ لہراسب نے کہا تھا ان کی گاڑی کو کہیں بھی روکا نہیں گیا۔ مختلف قصبات اور چھوٹے بڑے شہروں میں سے گزرتے ہوئے وہ لوگ بالآخر دوپہر کے قریب ملتان پہنچ گئے۔
”لو جوان! وہ سامنے رہا بس اڈہ، ہمارے لائق کچھ اور ہو تو بولو؟“ایک کشادہ سڑک کے کنارے گاڑی رکوا کر لہراسب خان نے مخالف سمت موجود بس اسٹینڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرشد سے کہا تھا۔
”بس شاد رہیں خان صاحب !بڑی مہربانی آپ کی، آپ کے اس خلوص کو یاد رکھیں گے ہم۔“
’ہم سچ کہتا ہے ۔یہ پورا شہر ہمارے گھر کی طرح ہے۔ کوئی مسئلہ پریشانی، کوئی ضرورت ہو کسی قسم کی بھی تو بلا جھجک ہم سے بول دو اور اگر آگے کہیں سفر کرنا ہے تو پھر ہمارے ساتھ ہی چلو۔“
”نہیں خان صاحب !ہمیں یہیں اڈے کے پیچھے جانا ہے بس۔“مرشد اور خنجر نے رائفلیں دوبارہ بیگوں کے اندر پہنچائیں اور لہراسب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے گاڑی سے نیچے اتر آئے۔ حجاب کے اترتے ہی گاڑیاں حرکت میں آئیں اور آگے بڑھ گئیں۔دھوپ میں شدید تپش تھی مدینتہ الاولیاءکی گرمی اپنے جوبن پر تھی۔ چند قدم کے فاصلے پر ایک درخت کے سائے تلے ایک موچی اپنی مختصر سی دکان سجائے بوری پر بیٹھا ایک جوتا سلائی کر رہا تھا ۔مرشد حجاب کو لیے اسی سائے تلے جا ٹھہرا۔سڑک کی دوسری طرف وسیع و عریض بس اسٹینڈ تھا۔ قطار در قطار کئی بسیں کھڑی دکھائی دے رہی تھیں۔ سڑک پر ٹریفک رواں تھی۔ دکانیں، ریڑھیاں، چھوٹی بڑی گاڑیاں، تانگے، رنگ برنگی آوازیں۔ زندگی یہاں مختلف رنگوں میں موجود اور مصروف دکھائی دیتی تھی۔وہ کچھ دیر اس سائے میں کھڑے رہے۔ دونوں گاڑیاں جب کافی دور نکل گئیں تو مرشد نے چند قدم کے فاصلے پر کھڑے ایک تانگے والے سے بات کر کے ریلوے اسٹیشن تک کا کرایہ طے کیا اور پھر وہ تانگے پر سوار ہوگئے۔ مرشد اور خنجر سامنے کی نشست پر بیٹھے جب کہ حجاب عقبی طرف۔
مرشد چند ایک بار اس شہر میں آچکا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ ریلوے اسٹیشن کا فاصلہ یہاں سے کافی زیادہ ہے۔ یوں تو چھوٹی گاڑیاں بھی اسٹیشن کی طرف جاتی تھیں، لیکن ان میں جس طرح سواریوں کو ٹھونسا جاتا تھا ،وہ انتہائی بے ہودہ اور تکلیف دہ طریقہ کار تھا۔ حجاب کے لیے ایسا سفر اسے ہر گز بھی گوارا نہیں تھا۔ ایک دو ٹیکسی کاریں اسے ضرور دکھائی دی تھیں لیکن ٹیکسی میں حجاب کے برابر سیٹ پر بیٹھنے کے خیال پر اسے ایک عجیب سی جھجک نے آ لیا تھا لہٰذا اس نے تانگے ہی پر سفر کو مناسب خیال کیا ۔
اب سے پہلے چند ایک بار جو اس کا یہاں آنا ہوا تھا۔ اس میں ساون اور مراد تو لازمی اس کے ساتھ ہوتے تھے۔ وہ لوگ بہاﺅالدین زکریا، شمس تبریز اور شاہ گردیز کے مقابر پر حاضری دیتے تھے۔ گھومتے پھرتے تھے ،کھاتے پیتے تھے، یہاں کا سوہن حلوہ، کھیر، پیڑے اور خونی برج کی مچھلی کا کہیں جواب نہیں تھا۔ ان کے لاہور شہر کی طرح یہ شہر بھی دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک تھا جس کی بنیادیں تاریخ ما قبل کے اندھیروں میں کہیں پوشیدہ تھیں۔
یہاں کا قلعہ جسے دارا اور سکندر اعظم کے بعد عرب، افغان، سکھ اور پھر انگریزوں نے برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، ہزاروں سال عمر کا حامل تھا ۔کہنے والے یہاں تک کہتے تھے کہ یہ قلعہ قبل از تاریخ کے دیو مالائی دور سے بھی پہلے کاہے۔ کسی دور میں دریائے راوی اس قدیم قلعے کے ساتھ سے بہتا تھا۔ ہر بار یہاں آنے کے بعد مراد کا یہاں سے واپس جانے کو دل نہیں کیا کرتا تھا اور ہر بار مرشد اور ساون کے ہاتھوں خوب ذلیل ہونیکے بعد ہی وہ واپسی پر آمادہ ہو اکرتا تھااس کا خیال آجانے سے مرشد کے اندر دور تک ایک تکلیف دہ اداسی پھیل گئی۔ مراد اب نہیں تھا اسے اب کبھی اس شہر میں نہیں آنا تھا وہ ہمیشہ کے لیے منہ موڑ کر جا چکا تھا۔ مرشد کے ذہن میں وہ کربناک لمحات تازہ ہوگئے۔ جب تھانہ ٹبی کے صحن میں ملنگی نے انتہائی سفاکی سے اس کے سامنے مراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ مراد کی گردن میں لگنے والی گولی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی تھی۔ مراد کے ساتھ ساتھ شبیر اور جعفر بھی اس رات ملنگی کی درندگی کا شکار ہوگئے تھے اور مرشد کچھ بھی نہیں کرسکا تھا۔ ان کا نا حق خون اس کے سر پر قرض تھا۔ کندھوں پر بار تھا جو اسے اتارنا تھا۔
تقریبا آدھ پون گھنٹے کے بعد تانگے والے نے انہیں اسٹیشن پر جا اتارا۔ یہاں اسٹیشن کے سامنے ایک درمیانے درجے کا تین منزلہ ہوٹل تھا جس میں دو کمرے حاصل کرنے میں انہیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، دونوں کمرے دوسری منزل پر پہلو بہ پہلوموجود تھے ۔مرشد پہلے بھی یہاں رہ چکا
تھا۔ کمرے گو چھوٹے چھوٹے تھے لیکن صاف ستھرے تھے۔کمرے دیکھتے ہی خنجر کو مرشد نے اسٹیشن کی طرف بھیج دیا اور وہ محض دس پندرہ منٹ میں معلومات لے کر واپس آگیا۔ شام سات بجے ایک ٹرین کوئٹہ کے لیے روانہ ہونی تھی۔ ان لوگوں نے اسی ترین کے ذریعے سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ پجارو میں مرشد، حجاب کو نیند سے جھولتے دیکھ چکا تھا لہٰذا اس نے یہی بہتر خیال کیا تھا کہ آگے کا قصد کرنے سے پہلے چند گھنٹے آرام کرلیا جائے۔
نہا دھو کر کپڑے تبدیل کرنے کے بعد انہوں نے کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد اس نے جا کر حجاب کو اندر سے کنڈی لگا کر سوجانے کا مشورہ دیا اور خود واپس برابر والے کمرے میں خنجر کے پاس پلنگ پر آ بیٹھا۔ خنجر نیم دراز سا پڑا سگریٹ پھونک رہا تھا۔ چھت کے ساتھ جھولتا پنکھا پوری رفتار سے چل رہا تھا لیکن اس کی ہوا بھی گرم محسوس ہو رہی تھی، البتہ پلنگ کی بغلی طرف موجود کھڑکی میں سے کسی کسی وقت آنے والا ہوا کا جھونکا کچھ راحت اور سکون کا احساس دلا جاتا تھا۔ اس کھڑکی سے بالکل سامنے ریلوے اسٹیشن کی پرانی اور پیلی عمارت صاف اور واضح دکھائی دیتی تھی۔
”پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے تو ہیں اپنے پاس، کچھ دیر آنکھ لگالی جائے۔“خنجر نے دھواں اگلتے ہوئے کہا پھر مرشد کے چہرے پر نظر پڑتے ہی قدرے چونک پڑا۔
”کیا ہوا؟ موڈ برابر نہیں لگ رہا۔“
”ہاں… کچھ تھوڑا سا۔“وہ سنجیدہ اور مضحمل سا تھا۔
”کیوں کیا وجہ؟“ اس کے سوال پر مرشد نے کمرے میں اِدھر ا�±دھر نظر دوڑائی، پلنگ کے ساتھ ایک میز تھی اس پر ایش ٹرے اور جگ گلاس، دو کرسیاں، ایک کونے میں ڈسٹ بن، اوپر الیکٹرک بورڈ دوسرے کونے میں باتھ روم کا دروازہ۔
”میں ایک بار پہلے بھی اس کمرے میں چند دن گزار چکا ہوں۔ اس وقت ساون، جعفر اور مراد بھی میرے ساتھ تھے۔“ خنجر فوراً سمجھ گیا کہ مرشد کے موڈ کی اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے۔ اس نے انگلیوں میں موجود سگریٹ سے ہی ایک اور سگریٹ سلگایا اور مرشد کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
”ایسی جگہوں پر آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے۔ آج ہم یہاں ہیں تو کل کوئی اور ہوگا، پرسوں کوئی اور کسی کو دوبارہ آنا نصیب ہوگا،کسی کو نہیں۔“ مرشد نے سگریٹ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
”میں نے کبھی قاتل بننے کا نہیں سوچا تھا لیکن بن چکا اور ابھی چند ایک قتل مجھ پر ادھار ہیں، قرض ہیں، پتا نہیں یہ قرض چکانے کا موقع ملتا ہے یا نہیں۔“
”میرا خیال تو یہ ہے کہ ان بی بی جی کو ان کے وارثوں تک پہنچانے کے بعد تم اماں کو لے کر کہیں دور نکل جاﺅ۔ صرف ملنگی فوجی اور چوہدری لوگوں کی دشمنی کی بات ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا ،تم پر کئی پولیس والوں کا قتل بھی آچکا ہے۔ محکمے سے نہیں لڑا جاسکتا۔ پولیس اب جان نہیں چھوڑے گی۔“
”کوئی پروا نہیں میرے یاروں کو تھانے میں میرے سامنے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کے اس بے رحمانہ قتل میں پولیس ملازم بھی شامل تھے۔ جہاں پہلے کئی ملازموں کا قتل میرے سر آچکا ہے، وہاں چند ایک اور سہی ،ہاں البتہ جو مشورہ تم مجھے دے رہے ہو اس پر خود عمل کرو، واپس جانے کی بجائے کہیں آگے نکل جاﺅ۔“
”آگے کدھر؟“
”کہیں بھی جہاں زندگی محفوظ رہ سکے۔“ مرشد نے ہاتھ بڑھا کر ایش ٹرے میں راکھ جھاڑی۔
”اپنی زندگی کا کیا ہے جگر! یہ بے وقعت ہے ۔نہ کوئی آگے نہ پیچھے ، رہیں نہ رہیں ،کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔“ خنجر نے بے فکری سے کہا۔ مرشد جانتا تھا کہ اس کی صرف ایک بڑی بہن تھی جو شادی کے بعد شارجہ چلی گئی تھی۔ والدین کی زندگی تک وہ ایک دوبار ان سے ملنے آئی تھی اور ان
’ کی موت کے بعد اس نے پاکستان کی طرف منہ نہیں کیا تھا۔ خنجر کے لچھن شروع سے ہی ایسے تھے کہ اس کے والدین بھی اس سے عاجز و نالاں ہی رہتے تھے۔ بہن نے تو کبھی اسے منہ ہی نہیں لگایا تھا۔
”پھر بھی تمہارے لیے یہ بہتر رہے گا ،بلکہ تم وہیں بلوچستان ہی میں کہیں رک جانا۔ وہاں اپنے پاﺅں مضبوط کرنا اور پھر شادی وادی کھڑکا لینا ۔ بے وقعتی کا احساس خود بخود ہی ختم ہوجائے گا۔“ مرشد نے ایک کش لگایا۔ خنجر ہنس پڑا۔
”عجیب بات کر رہے ہو مجھ جیسے لفنٹر کو کون اپنی بہن بیٹی دے گا ۔کسے اپنی بیٹی سے دشمنی ہوگی۔“
”تم لفنٹر ہو یہ کوئی تمہارے ماتھے پر تو نہیں لکھا اور کیا پتا کوئی عقل اور آنکھوں کا اندھا مل ہی جائے ۔دنیا میں بڑے بڑے نمونے پائے جاتے ہیں۔“ مرشد نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔ ان کے درمیان دس پندہ منٹ اسی طرح کی بات چیت ہوئی۔ مرشد نے دیکھا کہ نیند سے خنجر کی پلکیں بوجھل ہونے لگی ہیں تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”تم سوجاﺅ، میں نماز پڑھ لوں، صبح کی تو قضا گئی۔“ وہ اٹھ کر وضو کی نیت سے باتھ روم میں گھس گیا اور خنجر اپنی جگہ سے نیچے کو کھسک کر دراز ہوگیا۔ مرشد کے وضو کر کے باہر آنے تک وہ سو بھی چکا تھا۔جائے نماز یا کوئی چادر وغیرہ تو وہاں پر موجود نہیں تھی۔ وہ ایک طرف کمرے کے کونے میں ننگے فرش پر ہی نماز کی نیت باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ خدا کی بارگاہ میں حاضر تھا۔ویسے ہی جیسے بچپن سے آج تک ہر روز پانچ دفعہ ہوتا آیا تھا لیکن آج یہ حاضری ذرا مختلف احساس کی حامل تھی۔ بلکہ آج کیا گزشتہ کئی روز سے یہ حاضری کچھ مختلف ہی ہوتی تھی۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ اکیلا حاضر نہیں
ہے۔ اسکے ساتھ کوئی اور بھی وہاں حاضر تھا ایک بہت جاندار خیال,ایک عکس,ایک زندہ اور جیتی جاگتی سی تصویر جو اسکے دل و دماغ میں اپنی تمام تر جزیات سمیت موجود تھی اور یہ تصویر تھی حجاب کی جو اس لمحے اسکے سامنے موجود دیوار کے اس طرف پلنگ پر لیٹی شاید سو رہی تھی وہ دیوار کی دوسری طرف کمرے میں سو رہی تھی اور اس کمرے میں مرشد کے اندر کہیں جاگ رہی تھیاسکی ذات کے اندرساکت بیٹھی چپ چاپ,اسے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی اپنی غم زدہ اور اداس نظروں سے!
شروع کے دنوں میں وہ ان نظروں سے بری طرح گڑبڑاتارہا تھا۔ اسکے دل و دماغ میں وہ اتھل پتھل ہوئی تھی کہ وہ نماز پڑھنے سے بھی قاصر ہو گیا تھا لیکن اب گزشتہ کئی روز سے اسکی داخلی کیفیت تبدیل ہو چکی تھی۔ اضطراب و ہلچل کی جگہ ایک سکون,ایک ٹھراو�¿ نے لے لی تھی۔ اس تبدیلی کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ اس نے حجاب کی یاد,اسکے تصور کے سامنے مزاحمت ترک کر دی تھی۔ دوسری وجہ تھی حجاب کا خاندانی پس منظر,اسکی نسبت۔ وہ ایک نجیب الطرفین سید زادی تھی اور اس انکشاف کے بعد خود بخود ہی مرشد کے جذبات و احساسات کو جیسے بریک لگ گئے تھے۔ خیالات نے خود ہی اپنے لیے کچھ حدود کا تعین کر لیا تھا۔ وہ دونوں دو مخالف قطب تھے ۔دونوں کو اپنے اپنے مقام پر ہی جینا تھا۔ اس حقیقت کے سامنے پوری طرح سر تسلیم خم کرتے ہی اسکے وجود میں برپا ساری کشمکش جیسے ایک کنارے جا لگی تھی۔ اب اسے کوئی پریشانی تھی نہ بے چینی۔ وہ پوری طرح مطمئن اور پرسکون تھا۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ خنجر کے برابر ہی پلنگ پر دراز ہو گیا۔ ارادہ اسنے یہی کیا تھا کہ دو چار گھنٹے کی نیند لے لے۔ آگے پوری رات کا سفر تھا اور اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ گوجرہ سے یہاں تک تو وہ لہراسب خان کی بدولت بہ آسانی پہنچ گئے تھے مگر آگے کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اسکا دل کہتا تھا کہ فیصل آباد والے معاملے کی وجہ سے یہاں ملتان کی پولیس خاصی چوکس ہو گی۔ یہاں کے اڈے اور ریلوے اسٹیشن کو شاید انہوں نے خصوصاًنظرمیں رکھا ہو۔ یہ بھی عین ممکن تھا کہ لاہور اور ڈسکہ والے جھوٹے سچے واقعات کے حوالے سے یہاں کے پولیس افسران کو اعلی کمان کی طرف سے خصوصی طور پر ہدایات دی گئی ہوں کہ لاہور سے ایک وحشی قاتل, ایک خطرناک اشتہاری مجرم اپنے ایک ساتھی اور ایک لڑکی کے ساتھ ملتان میں داخل ہو چکا ہے۔ اسے زندہ یا مردہ کسی بھی حالت میں گرفتار کر لیا جائے۔
وہ آدھ پون گھنٹہ کروٹیں بدلتا رہا لیکن دماغ نیند کے اثرات سے دور ہی رہا آخر کار وہ اٹھ بیٹھا۔ خنجر کی بوجھل سانسیں غماز تھیں کہ وہ گہری نیند میں ہے۔ مرشد نے پہلے اٹھ کر پانی پیا پھر تپائی پر رکھی ایمبیسی کی ڈبیا سے ایک سگریٹ نکال کر سلگایا اور دوبارہ پلنگ پر لیٹ گیا۔ سڑک پر کھلنے والی کھڑکی اسکے بائیں طرف تھی۔ ادھر سے رنگ برنگی لیکن دھیمی آوازیں اوپر آرہی تھیں۔ اسنے رخ بدلتے ہوئے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ کچھ فاصلے پر سامنے موجود اسٹیشن کے برآمدوں میں ایک ہلچل سی جاگ چکی تھی۔ کچھ بیگ سنبھالے مسافر لوگ تھے تو کچھ سفید شلوار اور گیروی قمیصوں والے قلی حضرات۔ شاید کسی ٹرین کی آمد یا روانگی کا وقت ہو رہا تھا۔ اسٹیشن سے ادھر بائیں ہاتھ ایک دیوار کے ساتھ دس بارہ ٹیکسیاں قطار میں کھڑی تھیں۔ درمیان والی ٹیکسیوں کے عقب میں تین چار ڈرائیوربیٹھے غالباً چرس پھونک رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر دو تین ریڑھیوں کے برابر چند تانگے اور سوزوکی ویگنیں کھڑی تھیں۔ نیچے سڑک پر سے ٹریکٹرٹرالی شور مچاتے ہوئے گزرے۔ مرشد نے کھڑکی میں سے جھانک کر نیچے دیکھا۔ گرد آلود ٹرالی میں تین چار مزدور بیٹھے تھے۔ پسینے اور مٹی میں لت پت۔ ایک کونے میں انکی کسیاں بھی آپس میں الجھ رہی تھیں۔ ٹرالی گھن گرج مچاتی دائیں ہاتھ کوآگے نکل گئی اور مرشد کی نظر سڑک کنارے بیٹھی ایک مفلوک الحال عورت پر رک گئی۔ وہ کوئی بھکارن تھی۔ اسنے ایک خستہ حال میلا چکٹ ٹوپی والا برقعہ اوڑھ رکھا تھا اور سڑک کنارے دھوپ ہی میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اس چلچلاتی دھوپ میں اسے یوں تنبو نما برقع میں بند بیٹھا دیکھ کر مرشد کو تعجب بھی ہوا اور دکھ بھی۔ وہ کمرے کے اندر پنکھے کے نیچے بیٹھا تھا پھر بھی اپنے ماتھے پر پسینے کی نمی محسوس کر رہا تھا اور ایسی قہر ناک گرمی میں وہ عورت دھوپ میں
بیٹھی اپنی کچھ بے رحم ضرورتوں کے ہاتھوں مجبور ہر آتے جاتے کے سامنے ہاتھ پھیلا رہی تھی۔ یقیناً مجبوری اور بےکسی نے اسے یہاں لا بٹھایا تھا۔ وہ زندگی کو اک سزا کی صورت ہی گزار رہی تھی۔
مرشد کو خیال آیا کہ عورت کو اگر مرد کا سہارا میسر نہ ہو تو جس صورت بھی ہو، اسکا انجام عموماً عبرت اثر اور تباہ کن ہی ہوتا ہے۔ عورت سے چند قدم پیچھے ایک وسیع احاطے کی پختہ چار دیواری اور دو عدد بانسوں کی مدد سے ایک ترپال لگائی گئی تھی۔ اس ترپال کے نیچے ایک لکڑی کا پھٹہ تھا جس پر دو دیگیں اور کچھ مزید برتن بھانڈے سجے دکھائی دے رہے تھے۔ دوسری طرف تین چار بینچ پڑے تھے جن پر چار چھ بندے موجود تھے۔ ایک پہلوان نما شخص دیگوں پر کھڑا تھا اور ایک بارہ چودہ سالہ لڑکا سالن کی پلیٹیں اور نان لیے ان بینچوں کے اردگرد چکرا رہا تھا۔ وہیں اک شخص پر نظر پڑی تو مرشد بری طرح چونک پڑا وہ شخص بالکل دیوار کے ساتھ پڑے بینچ پر بیٹھا تھا۔ وہاں موجود باقی لوگ کھانے میں مصروف تھے جبکہ وہ خاموش بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا۔ اسکا رخ اسی سمت تھا۔ درمیان میں ساٹھ ستر گز کا فاصلہ رہا ہو گا۔ مرشد کو یقین تھا کہ وہ اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کر رہا۔ اسنے مزید توجہ سے دیکھا، بلا شبہ وہ وہی تھا لہراسب خان کا ایک کارندہ,چوہان کے ساتھیوں میں سے ایک۔ توے جیسی سیاہ رنگت,سر پر شیشوں والی گول ٹوپی,جسم پر نیلے رنگ کی میلی سی شلوار قمیض اور کندھے پر کالے رنگ کا صافہ اب سے دو ڈھائی گھنٹے پہلے وہ بس اسٹینڈ کے سامنے سے اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ ہی آگے ڈیرہ غازی خان کی طرف روانہ ہوا تھا اور اب قطعی غیر متوقع اور حیران کن طور پر یہاں دکھائی دے رہا تھا۔ مرشد کا ماتھا ٹھنکا۔ کچھ تو گڑبڑ تھی ا س نے سگریٹ کا اک گہرا کش لیا۔ پنڈلی کے ساتھ خنجر کی موجودگی کی تسلی کی اور پھر تکیے کے نیچے سے پسٹل بھی نکال لیا۔
اسکی چھٹی حس چیخ چیخ کر کہنے لگی تھی کہ ہو نہ ہو اس کالیے کی یہاں موجودگی کا تعلق ان ہی تینوں سے ہے۔ وہ یقیناً ان ہی کی نگرانی کے لیے یہاں بیٹھا تھا۔ مرشد کے تصورمیں لہراسب اور چوہان کے چہرے آ چمکے۔ وہ لوگ اس کے لیے قطعی اجنبی اور انجان تھے۔ وہ انہیں نہیں جانتا تھا اور اسے کسی ایسی ویسی حرکت کی توقع بھی نہیں تھی ۔ لہراسب کی طرف سے تو بلکل بھی نہیں البتہ چوہان کی کینہ پرور آنکھوں کا خیال آتے ہی اسکے ذہن میں یہ سوچ در آئی کہ شاید چوہان کے دماغی فتور نے اس سے یہ حرکت کرائی ہو۔ اس کالیے کی یہاں یہ مشکوک موجودگی چوہان کا ذاتی فعل ہو اور لہراسب کو اس بات کا علم نہ ہو۔ چوہان کی اس خوا مخواہ اور زبردستی پنگے بازی کے شوق سے مرشدکو سخت کوفت اور بدمزگی کا احساس ہوا۔ اسنے ایک نظر خنجر کی
طرف دیکھا جو گہری نیند سو رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ برابر والے کمرے میں حجاب بھی بے سدھ پڑی سو رہی ہو گی۔ اسنے ہاتھ بڑھا کر سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے؟ اس ہوٹل میں پہنچے انہیں کم از کم دو گھنٹے ہو چکے تھے۔ یعنی وہ کالیا پچھلے دو گھنٹے سے یہاں موجود تھا۔ یہ فیصلہ کرنا اسے تھوڑا مشکل محسوس ہوا کہ اس کالیے کے ذمے محض انکی نگرانی کرنا ہے یا وہ کچھ مزید ہدایات کا بھی پابند ہے۔ اسے مشکل محسوس ہوئی تھی لیکن اسی لمحے فیصلہ خود بخود ہو گیا سڑک کنارے بیٹھی برقع پوش بھکارن کے قریب دو گاڑیاں آکر رکی تھیں۔ ایک سفید کرولا اور دوسری سرخ رنگ کی پجاروترپال کے نیچے بینچ پر بیٹھا کالیا اپنی جگہ سے اٹھ کر فورا پجارو کیطرف بڑھا۔ مرشد پجارو کو دیکھتے ہی چونک پڑا تھا۔ یہ پجارو اسے دیکھی بھالی لگی تھی پھر اسکی فرنٹ سیٹ سے اک ڈشکرا نیچے اتراتو اسکے اندازے کی فوراََ ہی تصدیق ہو گئی۔ بلاشبہ یہ لال پجارو اسنے پہلے بھی دیکھی تھی۔ ڈسکہ کے قریب ملنگی لوگوں نے اسے جس ڈیرے میں باندھ رکھا تھا، وہاں یہ لہو رنگ پجارو چوہدری فرزند کی تھی۔ پجارو کی فرنٹ سیٹ سے اترنے والے رائفل بردار کو بھی اس نے فورا شناخت کر لیا، یہ چوہدری فرزند ہی کا کارندہ تھا۔ ڈیرے کی چھت پر سے جن دو افراد کو اس نے نشانہ بنانا چاہا تھا,ان میں سے ایک یہ بھی تھا۔ دوسرا تو کھوپڑی میں سیون ایم ایم کی گولی کھا کرموقع پر ہی ختم ہو گیا تھا البتہ یہ شخص بروقت کمرے میں گھس گیا تھا۔ اسکے چہرے پر چیچک کے داغ تھے اور دائیں آنکھ کے ڈیلے کی جگہ ایک نیلگوں سفید پتھر۔ غالباً حکم داد نام تھا اسکا۔ مرشد
کے جسم میں سنسنی کی تیز لہر دوڑ گئی۔
کالیا پجارو کی درمیانی کھڑکی پر جھک گیا۔ حکم داد اسکے برابر میں کھڑا تھا۔ پھر اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ اسکے ساتھ ساتھ حکم داد نے بھی اس طرف دیکھا۔ یقینی طور پر پجارو میں چوہدری فرزند خود موجود تھا اور وہ کالیا اسے مرشد لوگوں ہی کے متعلق بتا رہا تھا کہ” وہ لوگ سامنے اس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔“ ابھی بیٹھ کر یہ سوچنے سمجھنے کا وقت نہیں تھا کہ لہراسب یا چوہان کا چوہدری فرزند سے کیا تعلق واسطہ ہے یا چوہدری اتنی جلدی نندی پور سے یہاں ملتان کیسے پہنچ گیا ہے۔ فی الوقت تو اسے فوری طورپر حجاب کے تحفظ کی فکرنے آگھیرا تھا۔ اس لمحے اسکے ذہن میں صرف یہ ایک خیال تھا کہ کسی بھی طرح فوری طور پر حجاب سرکار کو بحفاظت یہاں سے لے کر نکل جاﺅں۔ اس نے خنجرکو ٹانگ سے جھنجوڑ کر جگایا۔ ”کیاکیا ہوا؟ کیا بات ہے؟ “وہ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا۔ اٹھ کر بیگ سنبھالو,ہمیں فورا سے پہلے یہاں سے نکلنا ہے۔ جلدی کرو۔ مرشد نے پسٹل شلوار کی ڈب میں لگاتے ہوئے تیز لہجے میں کہا اور پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ خنجر ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ سمجھ گیا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ مرشد نے باہر نکلتے ہی حجاب کے دروازے پر دستک دی لیکن اندر خاموشی رہی۔ اسنے مزید زور سے دروازہ بجایا۔
” سرکار! سرکار دروازہ کھولیں۔“ اسنے بے چینی سے پکارا بھی۔ تیسری دستک پر دروازے کی دوسری طرف کچھ آہٹ محساس ہوئی اور پھر کنڈی اترنے کی آواز کے ساتھ ہی دروازہ کھل گیا۔ حجاب کے ستے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے تاثرات تھے۔
”ہمیں فورا نکلنا ہے ادھر سے۔“ دروازہ کھلتے ہی وہ حجاب کے برابر سے کمرے کے اندر داخل ہو گیا۔
” کیوں؟ کک کیا مسئلہ ہے؟” وہ گہری نیند سے اٹھی تھی۔ دماغ ابھی پوری طرح بیدار نہیں ہوا تھا۔
”ہماری یہاں موجودگی کے بارے میں مخبری ہوئی ہے ۔کسی بھی وقت پولیس یہاں چھاپہ مار سکتی ہے۔“ اسنے تپائی پر سے بیگ اٹھایا اورایک نظر پورے کمرے میں دوڑائی اور کوئی چیز نہیں تھی۔
” آجائیں” وہ پلٹ کر باہر نکلا خنجر بھی بیگ اٹھائے کمرے سے نکل آیا تھا۔ حجاب نے بھی اپنی چادر درست کرتے ہوئے مرشد کی تقلید کی۔ اسکا دل پوری شدت سے دھڑک رہا تھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ہی سوئی تھی اور ابھی اچانک دروازے کی دھڑدھڑاہٹ سے دہل کر جاگی تھی۔ انکے دائیں ہاتھ وہ سنگی سیڑھیاں تھیں جو نیچے سڑک پر اترتی تھیں۔ بائیں ہاتھ برابر برابر دو مزید کمرے تھے۔ جن کے سامنے مختصر سی برآمدہ نما جگہ تھی۔ بہ مشکل دو
چارپائیاں بچھانے جتنی۔ ایک کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور اندر پلنگ پر ایک ادھیڑ عمر شخص لیٹا دکھائی دے رہا تھا۔ دوسرے کمرے کے دروازے پر تالا تھا۔ اس کمرے کے برابر میں لوہے کی تنگ اور چکر دار سیڑھی موجود تھی جو اوپر چھت پر جاتی تھی۔ مرشد اسی سیڑھی کی طرف بڑھا۔
”کیا بات ہے جگر !کچھ بتا تو سہی” خنجر نے استفسار کیا۔
”نیچے سڑک پر کچھ مشکوک بندے موجود ہیں۔ غالبا وہ اوپر آنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہمیں فورا نکلنا ہے ورنہ یہاں خاصا بڑا پنگا ہو جائے گا۔“ مرشد نے حجاب کی وجہ سے دانستہ چوہدری فرزند کا نام لینے سے گریز کیا۔
” مشکوک بندے سے کیا مراد ہے؟ کیا کوئی شناسا صورت بھی دکھائی دی ہے؟“
” ہاں! ایک نہیں ،تین تین۔ “وہ تینوں بہ عجلت زینے طے کرتے ہوئے اوپر چھت پر پہنچ گئے۔ چھت خاصی بلند تھی۔ اطراف میں اونچی نیچی عمارتیں دور تک بکھری ہوئی تھیں۔ ارد گرد کی چھتیں آپس میں یوں جڑی ہوئی تھیں کہ وہ چھتوں کے اوپر اوپر آگے بڑھ سکتے تھے۔ یہاں سے مرشد نے ایک نظر اس جگہ پر ڈالی جہاں کچھ دیر پہلے اسنے چوہدری فرزند کی لال پجارو اور حکم داد کو دیکھا تھا۔ وہ جگہ اب خالی تھی۔ یعنی وہ لوگ اب ہوٹل کی طرف
آچکے تھے۔ مرشد فورا بائیں ہاتھ پر موجود چھت کی طرف بڑھ گیا۔ یہ چھت چند فٹ نیچی تھی۔ وہ تینوں بہ آسانی اس چھت پر اتر گئے۔ چوہدری فرزند کے تصور سے ہی مرشد کے لہو میں انگارے دہک اٹھتے تھے۔ دل تو اسکا یہی چاہ رہا تھا کہ ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر خود پیش قدمی کرتے ہوئے چوہدری اور اسکے کارندوں پر ٹوٹ پڑے اور آج یہیں چوہدری کی زندگی کا گھونٹ بھر جائے لیکن حجاب کا خیال ایک مضبوط زنجیرثابت ہوا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے پسپائی اختیار کی تھی۔
تیسری چھت سے ویسی ہی لوہے کی چکردار سیڑھی نیچے اترتی تھی جیسی سیڑھی کی مدد سے وہ اوپر پہنچے تھے۔ سب سے پہلے حجاب سیڑھی سے نیچے اتری۔ اسکے پیچھے خنجر تھا۔ اسنے ابھی پہلے زینے پر پاو�¿ں رکھا تھا کہ مرشد کو دو چھت پیچھے ایک رائفل برادر کی شکل دکھائی دی۔ وہ اسی چھت پر نمودار ہوا تھا جہاں سے وہ تینوں اس طرف آئے تھے۔ اسکی نظر بھی مرشد اور خنجر پر پڑ چکی تھی۔ اسنے تیز لہجے میں غالبا اپنے ساتھیوں ہی سے کچھ کہا تھا۔ مرشد بھی پھرتی سے زینے اتر گیا۔
” تیار ہو جاو�¿ خنجر!ہم کتوں کی نظر میں آچکے ہیں۔”
” میں تیار ہوں مگریہ کتے ہیں کون؟ "
” کتے ،کتے ہی ہوتے ہیں۔“ وہ تینوں نیچے پہنچ چکے تھے۔ یہ جگہ بھی تقریبا ویسی ہی تھی۔ تین چار کمرے تھے جن میں سے دو کے دروازے چوپٹ کھلے تھے۔ ایک کمرے میں کوئی دکھاءنہیں دے رہا تھا البتہ دوسرے کمرے میں تین چار نوجوان بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔ اندرغالبا ٹیپ ریکارڈ بھی موجود تھا۔ جس پر اونچی آواز میں ایک بے ہودہ سا انڈین گانا بج رہا تھا۔ سامنے ایک کونے میں پختہ سیڑھیاں نیچے جاتی دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ تینوں فورا ان سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔ ان سیڑھیوں کا اختتام ایک چھوٹے سے ہال میں ہوا جہاں دو رویہ میزیں سجی ہوئی تھیں۔ اکا دکا لوگ بھی میزوں کے گرد موجود تھے۔ انکے نیچے پہنچتے ہی لوگ انکی طرف متوجہ ہوگئے۔ دراصل یہ ایک بڑے سائز کی دکان تھی جسے ہوٹل کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ دکان کے باہر کاو�¿نٹر اور دیگچے وغیرہ دکھائی دے رہے تھے۔ ایک گورا چٹا پختہ عمر آدمی کاو�¿نٹر پر موجود تھا۔ ایک لڑکا دائیں ہاتھ موجود میز پر چائے کے برتن سجا رہا تھا۔ ایک دبلا پتلا نوجوان کندھے پر صاقی نما کپڑا ڈالے دیگچوں کے قریب کھڑا تھا۔ وہ تینوں بیرونی طرف بڑھے، ان پر نظر پڑتے ہی اس نوجوان کے ساتھ ساتھ کاو�¿نٹر والا شخص بھی چونک پڑا۔
”اواو بھائی صاحب! کون لوگ ہو تم اوراور یہ اوپر سے کدھر سے آرہے ہو ؟ “ان میں سے ایک اچنبھے سے بولا۔
مرشد نے کاو�¿نٹر کے قریب رکتے ہوئے باہر جھانکا۔ قریبا بیس گز دور لال پجارو کے ساتھ وہ کرولا کار بھی کھڑی دکھائی دے رہی تھی۔ جس پر چوہدری اور اسکے پالتو کتے یہاں تک پہنچے تھے۔
”او ہیلو کدھر سے ٹپکے ہو تم؟ “کاو�¿نٹر کے پیچھے کھڑا شخص مرشد سے مخاطب ہوا۔ اسکے چہرے پر حیرت اور بے یقینی تھی۔ ہونی بھی چاہیے تھی۔ اوپر جانے کا واحد راستہ یہی تھا اور وہ لوگ تو یہاں سے گزرے ہی نہیں تھے اس شخص کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کی یہ تین چار افراد کہاں سے نازل ہوئے ہیں۔ مرشد نے دیکھا ،چند قدم کے فاصلے پر ایک مٹھائی کی دکان تھی۔ ابھی ابھی اسکے سامنے ایک ایف ایکس کار آ کر رکی تھی۔ کار کی عقبی سیٹ پر دو خواتین براجمان تھیں اور ڈرائیونگ سیٹ سے ایک ملازم صورت نوجوان اتر کر مٹھائی کی دکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔
”آپ عقبی سیٹ پر بیٹھنے کی کریں۔ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔“ مرشد نے حجاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، جسکی صرف آنکھیں چادر کے حجاب سے جھانک رہی تھیں۔ وہ بس اثبات میں سر ہلا سکی۔ اتنے میں کاو�¿نٹر کے عقب میں کھڑا شخص گھوم کر مرشد کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
” میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔ کون ہو تم اور یہ اوپر سے کیسے آرہے ہو ؟“ وقت بہت کم تھا۔ مسلح دشمن کسی بھی لمحے عقب سے ان تک پہنچ سکتے تھے اور یہ کوئی حیرت کی بات نہ ہوتی اگر وہ سامنا ہوتے ہی ان پر فائر کھول دیتے۔ مرشد اپنی جگہ سے حرکت میں آتا یا اپنے سامنے اکڑ کر کھڑے شخص کو کوئی جواب دیتا۔ اس سے پہلے ہی اسکی نظر عقبی طرف گئی اور اسے سیڑھیوں سے اترتے ایک رائفل بردار کی جھلک دکھائی دی۔ اسکے بعد جو ہوا وہ محض ایک سیکنڈ کے دورانیے میں ہو گزرا اس نے ڈب سے پسٹل نکالتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف یکے بعد دیگرے دو فائر کیے۔ باقاعدہ نشانہ لینے کی مہلت تو تھی نہیں پھر بھی ،اسنے رائفل بردار کو آخری زینے پر لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا،دو گولیوں کے دھماکے کی آواز نے سارے ماحول کو جھنجوڑ کر رکھ دیاتھا۔
مرشد کے سامنے کھڑا شخص بے اختیار تڑپ کر کئی قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اسکا سرخ و سفید چہرہ فورا ہی زرد پر گیا۔ مرشد نے اضطراری طور پر حجاب کا ہاتھ تھامااور کار کی طرف دوڑ پڑا۔ اردگرد موجود افراد اپنی اپنی جگہ ٹھٹک کر انکی سمت دیکھنے لگے تھے۔ کار کے قریب پہنچتے ہی مرشد نے عقبی دروازہ کھولتے ہوئے حجاب کو اندر بیٹھنے کا کہا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ خنجر دوسری طرف سے مرشد کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ عقبی طرف بیٹھی دونوں عورتوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ آنکھیں دہشت سے پھٹی پڑی تھیں۔ حسن اتفاق سے کار اسٹارٹ حالت میں کھڑی تھی۔ جیسے ہی مرشد نے کار ریورس کی ،دروازے کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی عورت نے دروازہ کھول کر چیختے ہوئے باہر چھلانگ لگا دی۔ کار جس تیزی سے پیچھے ہٹ کر سڑک کے درمیان میں آئی۔ اس سے کئی گنا تیزی کے ساتھ اسی سمت کو دوڑ پڑی جدھر چوہدری کی لال پجارو کھڑی تھی۔ مرشد نے سڑک پر لڑھکنے والی عورت کی صرف ایک جھلک ہی دیکھی تھی۔ دوسری حجاب کے برابر سکتہ زدہ سی بیٹھی تھی۔ زرق برق لباس,کلو بھر میک اپ پھر بھی واجبی سی شکل صورت۔ شاید وہ کسی شادی یا ایسے ہی کسی فنکشن میں جانے کے لیے گھر سے خوب بن ٹھن کر نکلی تھیںاور اب اچانک ایک خطرناک صورتحال کی لپیٹ میں آ گئی تھیں۔
پجارو کے برابر سے فراٹے سے گزرتے ہوئے مرشد نے ایک نظر پجارو پر ڈالی تھی۔ توقع کے عین مطابق درمیانی سیٹ پر وہ مکروہ اور سفاک چہرہ موجود تھا جسکا نام چوہدری فرزند علی تھا وہی رعونت,وہی درشتی۔ ان لوگوں کو کار میں سوار ہوتے ہوئے اس نے بھی دیکھا تھا۔ اسکی آنکھوں میں ایک خونخوار چمک تھی اور چہرے پر وحشیانہ تاثر ایک لمحے کے لیے مرشد کی اور اسکی آنکھیں چار ہوئیں۔ دونوں کی آنکھوں میں نفرت اور غصے کی آگ سی لپک گئی۔ مرشد کو اسکے ہاتھ میں سلور کلر پسٹل کی جھلک دکھائی دی۔ اس نے بہ عجلت پسٹل کھڑکی میں سے کار کی طرف سیدھا بھی کیا لیکن اتنے میں کار زن سے آگے نکل گئی۔
مرشد نے عقب نما آئینے میں دیکھا، ہوٹل سے چوہدری کے تین چار کارندے نکل کر اپنی گاڑیوں کی طرف درڑے تھے۔
”یہ یہ چوہدری فرزند تھا نا؟“ خنجر نے بھی چوہدری کی جھلک دیکھ لی تھی۔ مرشد اسکے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔
” یہ پاگل کتے پیچھے آئیں گے۔رائفل نکال لے“ خنجر فورا بیگ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ حجاب کا دل ہولنے لگا ،اس نے چوہدری فرزند کو دیکھا تو نہیں تھا لیکن خنجر کی زبان سے اسکا نام سن لیا تھا۔
” یہ لوگ یہاں تک کیسے پہنچ گئے ۔انہیں پتا کیسے چلا ؟“خنجر متعجب تھا۔ ” مخبری کس نے کی ؟“
”لہراسب یا چوہان نے۔ شاید گوجرہ سے فون کے ذریعے۔“ مرشد نے قیاس آرائی کی۔ اسکی نظریں سامنے سڑک پر جمی ہوئی تھیں۔ ساتھ کے ساتھ وہ بیک مرر پر بھی نظر ڈال رہا تھا۔ کار ہوا سے باتیں کر رہی تھی۔ انہوں نے بامشکل دو فرلانگ کا فاصلہ طے کیا ہو گاکہ عقب میں انہیں چوہدری فرزند
کی پجارو کسی بدمست درندے کی طرح اپنے پیچھے آتی دکھائی دی۔ فاصلہ کافی تھا۔ مزید نصف فرلانگ آگے سے دائیں ہاتھ اک سڑک نکلتی تھی۔ مرشد نے کار اسی طرف ڈال دی۔ فضا میں اعصاب شکن چرچراہٹ گونجی، ایک دفعہ تو یہی لگا کہ کار الٹ رہی ہے لیکن اگلے ہی پل توازن سنبھالتی ہوئی گولی کی رفتار سے آگے بڑھتی چلی گئی۔ عقبی سیٹ سے حجاب کے ساتھ ساتھ انکی میزبان خاتون بھی بے ساختہ گھٹے گھٹے انداز میں چیخی تھی۔
سہ پہر ہونے جا رہی تھی۔ شدید گرمی اور آگ برساتی دھوپ کے باعث راہ گیر تو نہ ہونے کے برابر ہی تھے البتہ ٹریفک موجود تھا اور کار کی رفتار خطرناک حد تک تیز تھی۔ مرشد کی اک لمحے کی غفلت یا کوتاہی ان چاروں کو جان لیوا حادثے سے دوچار کر سکتی تھی۔
” وہ پیچھے آرہے ہیں۔“ خنجر نے سنسنی خیز لہجے میں کہا۔ اسکا دھیان عقبی طرف تھا اور رائفل ہاتھوں میں۔ مرشد کا پسٹل اسکی گود میں دھرا تھا۔
”وہ ٹائروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔“
” کیا میں فائر کروں؟“
” نہیں ،ابھی نہیں۔“
”مم مجھے مجھے اتار دو۔ ” عقبی نشست پر بیٹھی عورت کو جیسے اچانک ہوش آیا۔ ”خدا کے لیے مجھے اتار دو۔ تم تم لوگ یہ کار لے جاو�¿ لیکن مجھے اتار دو۔تمہیں تمہیں اللہ کاواسطہ ہے۔“ اسکی آواز دہشت سے لرز رہی تھی۔
” اسے ہارٹ اٹیک ہو جائے گا۔“ مرشد نے سنجیدگی سے کہا تو خنجر نے گردن موڑتے ہوئے عورت کو مخاطب کیا۔
” تھوڑا صبر کرو,آگے کہیں اتار دیں گے۔“
” مجھے بس یہیں اتاردو۔تم کار لے جاو�¿۔مم میں تمہارے جھگڑے میں نہیں آنا چاہتی۔ خدا کے لیے,خدا کے لیے مجھے اتار دو۔ میری آپا وہاں سڑک پر گری تھی۔ پپ پتا نہیں بچی بھی ہو گی یا نہیں۔ “وہ روہانسی ہو رہی تھی۔
” ککھ بھی نہیں ہواتھا اسے۔بڑے آرام سے لڑھکی تھی وہ۔ تجھے بھی آگے کہیں لڑھکا دیں گے۔ فی الحال چپ کر کے بیٹھی رہ۔ "
نہیں ۔مجھے واپس گھر جانا ہے۔مجھے اتار دو،میں میں ابھی مرنا نہیں چاہتی۔“وہ باقاعدہ رونے لگی۔
” پھر وہی بات کہا ہے نا آگے اتار دیں گے۔”خنجر کے لہجے میں درشتی در آئی۔ صورت حال نے ان سب ہی کےاعصاب کشیدہ کر رکھے تھے۔ حجاب اپنی جگہ سراسیمہ تھی۔ عقب میں آتی لال پجارو وہ بھی دیکھ چکی تھی اور بخوبی پہچان بھی چکی تھی کہ یہ کس فرعون کی ملکیت ہے۔
پانچ سات منٹ تک یہ اندھی دوڑ اسی طرح جا ری رہی۔ دو تین بار وہ بال بال حادثے سے بچے۔ ایک سڑک کا موڑ مڑتے ہوئے کار کی سائڈ لگنے سے فروٹ سے لدا ایک ٹھیلا بھی الٹا۔ ایک چوک پرٹریفک کانسٹیبل زد میں آتے آتے بچا۔ تین چار مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے وہ لوگ ایک
درمیانے درجے کے علاقے میں نکل آئے۔ یہاں دونوں اطراف دکانوں کے ساتھ ساتھ آڑھے ترچھے گھر بھی موجود تھے۔ ٹریفک بھی خاصا کم تھا۔ یہاں ان کی کار اور پجارو کا درمیانی فاصلہ تیزی سے کم ہوا اور پھر پجاروسے پہلا برسٹ ان پر فائر ہوا۔ کچھ گولیاں کار کی ڈکی میں کہیں لگیں۔ ایک گولی عقبی شیشے میں سوراخ کرتی ہوئی ، بیک مرر پر آکر لگی اور اسے کرچی کرچی کر کے ونڈ اسکرین میں سوراخ کھولتی ہوئی نکل گئی۔
خاتون اور حجاب بے اختیار چیختی ہوئی سامنے کی طرف جھک گئیں۔ مرشد نے تیز لہجے میں حجاب کو پکارا۔ ” سرکار نیچے جھک جائیں۔ سیٹ سے نیچے ہو جائیں۔خنجر! فائر کر۔“ آخری جملہ اس نے خنجر سے کہا تھا۔ وہ پہلے ہی حرکت میں آچکا تھا۔ رائفل اس کے ہاتھوں میں تھی اور وہ تقریباًآدھا کھڑکی سے باہر نکل گیا تھا۔ اس کا یہ عمل مشکل بھی تھا اور کار کی تیز رفتاری کے باعث خاصا خطرناک بھی۔ ایسے میں درست نشانہ لینا تو نا ممکن ہی تھا۔
اس نے ایک ذرا وقفے وقفے سے دو چھوٹے برسٹ فائر کیے اور واپس اندر سرک گیا۔ اس کی اس فائر نگ کے نتیجے میں اتنا ضرور ہوا کہ پجارو کی رفتار کم ہو گئی۔ درمیانی فاصلے میں یکدم اضافہ ہو گیا۔
”سرکار!آپ ٹھیک ہیں نا؟” مرشد نے پکار کر پوچھا۔ اس کے لہجے میں تشویت تھی،فکرمندی تھی۔
” جج،جی!“ وہ تھوک نگل کر بولی۔
”وہیں بیٹھی رہیں۔“ وہ پہلے ہی اپنی نشت سے سرک کر سیٹوں کے درمیان خلا میں دبکی بیٹھی تھی۔ دوسری عورت بھی اسی حالت میں تھی۔ وہ مسلسل رو رہی تھی۔ اس کی رنگت بالکل زرد پڑ چکی تھی۔ وہ حجاب کی طرف دیکھتے ہوئے بلکی۔“
” ہم زیادہ دیر بچ نہیں سکےں گے۔ یہ لوگ ہمیں مار ڈالیں گے۔ میں میں مرنا نہیں چاہتی، کیا کروں، او میرے اللہ جی مجھے بچا لو۔“
”اے! چپ کرجا۔“مرشد نے اسے دبکا تو وہ اور زور سے رونے لگی۔
””مجھے بخش دو بھائی جی! مجھے قتل نہ کراو�¿ ، تمہارے ساتھ ساتھ وہ لوگ مجھے بھی مار ڈالیں گے۔“
”چپ کر کے بیٹھ جا۔ چپ کر جا۔“
”مجھے گاڑی سے اتار دوا للہ کے واسطے۔میرا دل بند ہو جائے گا۔ ہائے ہائے میرے اللہ میاں جی مجھے بچالو۔“
پجارو یا کرولا کار سے ایک برسٹ مارا گیا۔ دو تین گولیاں کہیں باڈی سے ٹکرائیں۔ ایک گولی نے دائیں طرف کا سائیڈ مرر توڑا,ایک دھماکا ہوا اور کار بری طرح بے قابو ہوکرسڑک پر لہرانے لگی۔ کوئی گولی ڈرائیونگ سائیڈ کا ٹائر برسٹ کر گئی تھی۔ گاڑی کے اندر حجاب اور اس خوفزدہ عورت کی دہشت زدہ چیخیں گونج اٹھیں۔ اس نازک ترین صورت حال میں مرشد نے اپنے حواسوں کو قابو میں رکھا۔ اسے اچھی طرح علم تھا کہ ان لمحات میں بوکھلاہٹ کا نتیجہ ان سب کے حق میں کس قدر بھیانک ثابت ہوگا۔ اسٹیرنگ کو قابو میں رکھنے کے لیے اس نے پوری کوشش کی تھی لیکن کار خودبخود دائیں طرف کو زور مارتی ہوئی پہلے سڑک کے درمیانی فٹ پاتھ پر چڑھی اور وہاں سے اچھلتی ہوئی سڑک کی دوسری طرف چند گز کے فاصلے پر موجود لکڑی کے ایک بے ڈھنگے اور کہنہ سال گیٹ کو توڑتی ہوئی اندر گھستی چلی گئی۔
یہ ایک وسیع احاطہ نما جگہ تھی ،ادھر ادھر درختوں کے تنے بکھرے پڑے تھے۔ دائیں ہاتھ کچھ فاصلے پرایک چھپر نما جگہ کے نیچے آرا مشین نصب تھی۔ مشین چل رہی تھی۔ فضا میں اسکا شور بھرا تھا۔ تین چار مزدور وہاں مصروف عمل تھے۔ چرائی کا کام ہو رہا تھا۔ کار کو دروازہ توڑ کر آندھی طوفان کی رفتار سے اندر گھستے دیکھ کر وہ سب ہی اپنی اپنی جگہ ٹھٹک کر رہ گئے۔
مخالف سمت تقریبا پندرہ گز کی دوری پر سامنے اینٹوں کی دیوار تھی اور دیوار میں ویسا ہی دروازہ بھی تھا جیسا دروازہ وہ توڑتے ہوئے اندر داخل ہوئے تھے۔ کار دوڑتی ہوئی سیدھی اسی دیوار سے جا ٹکرائی۔ کار اور دیوار کے اس تصادم کی آواز بہت خوفناک تھی۔ عورتوں کے ساتھ ساتھ خنجر کے منہ سے
بھی بے ساختہ دہشت زدہ آواز نکل گئی۔ چاروں بری طرح اچھلے ،مرشد کے سینے پر اسٹیئرنگ سے ایسی ضرب آئی کہ چند لمحوں کے لیے تو اسکی سانس ہی رک گئی۔ ونڈ اسکرین ایک زور دار چھنا کے سے ٹوٹ کر ان کے اوپر ہی آ رہی تھی۔
سب ہی کے حواس مختل ہو کر رہ گئے تھے۔ سماعتوں میں سناٹے بھر گئے تھے۔ سب سے پہلے خنجر خود کو سنبھالنے میں کامیاب ہوا۔ مرشد کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ کر وہ اسکا کندھاجھنجوڑتے ہوئے بولا۔
"مرشد! تم ٹھیک ہونا ؟”
مرشد نے سینہ مسلتے ہوئے اسکی طرف دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔ خنجر رائفل سنبھالتا ہوا دروازہ کھول کر فورا نیچے اتر گیا۔ مرشد نے بھی اپنے پیروں میں گرا پسٹل اٹھایا اور بیگ کھینچتاہوا کار سے نکل آیا۔ کار کا بونٹ دہرا ہو چکا تھا۔ فرنٹ مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ انجن سے نیلگوں دھواں اٹھ رہا تھا۔ فضا میں تیزی سے پیٹرول اور جلے ہوئے ڈیزل کی بو پھیلتی جا رہی تھی۔ اس نے اور کسی طرف دھیان دیے بغیر جھپٹ کر عقبی دروازہ کھولا۔
”سرکار!“۔ آنکھوں نے بے قراری سے حجاب کا جائزہ لیا۔ وہ ٹھیک تھی۔ بس تھوڑی حواس باختہ دکھائی دے رہی تھی۔ اسکے برابر موجود عورت اپنی جگہ ساکت اور چپ بیٹھی تھی۔ خالی الذہن سی۔ شاید اسے اپنے زندہ ہونے پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
”جلدی کرو مرشد!“” خنجر نے بےتابی سے کہا۔اسکا دھیان عقبی طرف تھا۔
”آئیں سرکار ! آئیں۔” مرشد نے ہاتھ پکڑ کر حجاب کو کار سے باہر نکالا۔” کوئی چوٹ تو نہیں آئی آپ کو؟“
”نن نہیں۔ کوئی خاص نہیں۔“
”چلیں,نکلیں یہاں سے۔” وہ اسکا ہاتھ تھامے، تیزی سے بائیں ہاتھ موجود دروازہ کی طرف دوڑا جو چوپٹ کھولا ہوا تھا۔ وہ لوگ دروازے سے باہر نکل رہے تھے جب ٹوٹے ہوئے گیٹ کی طرف,سڑک پر چوہدری کی پجارو آکر رکی۔ خنجر گیٹ کے درمیان میں کھڑا تھا۔ اسنے پجارو کی طرف دو سنگل شاٹ فائر کیے اور الٹے قدموں باہر نکل گیا۔
اس طرف سڑک نما کشادہ گلی تھی۔ چند قدم کے فاصلے پر سامنے ایک کباڑیے کی دکان تھی اور دکان کے ساتھ ایک تنگ سی گلی۔ دو تین افراد جو شاید کار کی دیوار سے ہونے والے تصادم کی آواز سن کر اس سمت دوڑے آ رہے تھے۔ ان لوگوں پر نظرپڑتے ہی ٹھٹک کر رک گئے۔ دراصل انکے ٹھٹکنے کی وجہ مرشد کے ہاتھ میں دکھائی دیتا پسٹل اور خنجر کے ہاتھوں میں موجود خوفناک رائفل تھی۔ وہ تینوں ان پر دھیان دیے بغیر دوڑتے ہوئے سامنے دکھائی دیتی گلی میں جا گھسے۔
”یہ یہ چوہدری فرزند اور اسکے کارندے ہیں نا؟“حجاب کے ذہن و دل میں بیدار ہونے والا ہراس ،سوال بن کر اسکی زبان تک آگیا۔
”ہاں جی ! زندگی سے زیادہ ہی تنگ آیا پھر رہا ہے یہ چول چوہدری۔“
”اس کے ساتھ زیادہ بندے ہیں اور بندوقیں بھی زیادہ ہیں۔“ حجاب کی آواز میں اندیشے بول رہے تھے۔
”بالکل چوہدری اسی وجہ سے خوش فہمی میں مبتلا ہے۔ اسے اندازہ نہیں کہ اس خوش فہمی نے اسکا کیا حشر کرانا ہے۔“مرشد کے توانا لہجے میں کسی پریشانی یا گھبراہٹ کا شائبہ تک نہیں تھا،حالانکہ وہ پریشان تھا۔ حجاب کی تشویش سے اسے پوری طرح اتفاق تھا۔ دو رائفل,دو پسٹلز ،اور ان میں بھی گنی چنی گولیاں اور اجنبی جگہ اس نازک اور سنگین صورت حال پر تشویش تو بنتی ہی تھی۔ اسے بھی تشویش تھی لیکن حجاب کے سامنے اپنی اس تشویش کا اظہار کر کے اسکے ہراس اور پریشانی میں مزید اضافہ کرنا مرشد کو گوارا نہیں تھا۔
جس گلی میں وہ گھسے تھے وہ سامنے دور تک خالی اور سنسان دکھائی دے رہی تھی۔ یقینا گرمی کی شدت کے ستائے ہوئے لوگ گھروں میں بند، پنکھوں
کے نیچے پڑے سو رہے تھے، سستا رہے تھے۔ پندرہ بیس قدم بعد ایک گلی انہیں اپنے دائیں ہاتھ دکھائی دی تووہ سب فورا اس میں مڑ گئے۔
”ہم زیادہ دور تک نہیں جا سکیں گے کہیں چھپنا ہوگا۔” خنجر نے بھاگتے بھاگتے عقبی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اسی لمحے مرشد کو بائیں ہاتھ پر ایک لوہے کا گیٹ نظر آیا جسکا بغلی دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ وہ فورا اس طرف لپکا۔
” ادھر اس طرف۔“
ان تینوں کے خیال میں اس وقت سب سے زیادہ ضروری بات یہ تھی کہ جلد از جلد اپنے دشمنوں کی براہ راست زد سے خود کو دور لے جائیں لہٰذا تینوں نے اس دروازے سے اندر داخل ہونے میں ایک ذرا بھی تاخیر نہیں کی تھی۔ اندر پہنچتے ہی مرشد نے دروازہ بند کرتے ہوئے آہستہ سے کنڈی لگا دی۔
یہ دو ڈھائی کنال پر واقع ایک دو منزلہ حویلی نما کوٹھی تھی۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی کشادہ ڈیوڑھی ،پھر ایک قطار میں چھ سات دروازے اور طویل برآمدہ۔ ایک طرف کونے سے دوسری منزل پر جاتی پختہ سیڑھیاں، بہ طور ایندھن استعمال ہونے والی لکڑیوں کا ڈھیر,لوہے کی جناتی سائز کڑاہیاں اور بہت سارے نیلے رنگ کے چھوٹے چھوٹے پلاسٹک کے ڈبے۔ بائیں ہاتھ پر دو موٹر سائیکلیں اور ایک گہرے سبز رنگ کی لینڈ روور جیپ کھڑی تھی۔ اس سب کے علاوہ وہاں اور کچھ نہیں تھا ۔یہاں کے مکین شاید کسی اندرونی حصے میں موجود تھے۔
”آجائیں۔“ مرشد نے دھیمے لہجے میں حجاب سے کہا اور سامنے دکھائی دیتے برآمدے کی طرف بڑھا۔ ایک بیگ تو کار ہی میں رہ گیا تھا۔ دوسرا مرشد کی پشت پر جھول رہا تھا۔ پسٹل اسکے دائیں ہاتھ میں تھا۔ خجنر رائفل تھامے اسکے دائیں ہاتھ جبکہ حجاب ایک قدم پیچھے اسکے بائیں ہاتھ تھی۔ ابھی وہ چار چھ قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ ان کی سماعت سے کسی کے بولنے کی آواز ٹکرائی۔ کوئی بھاری آواز میں بولتاہوا اسی سمت چلا آرہا تھا۔
”جو عذاب ان پر نازل ہوا ہے ،یہ انکے اپنے کرتوتوں کا پھل ہے۔ خدا کا قہر ہے اور ” ملک“ کا ارادہ ہے کہ یہ قہر برقرار رہے۔ لہذا اب یہ بیماری ہماری مستقل ذمہ داری ہے۔“
ان لوگوں نے اضطراری انداز میں ادھر ادھر دیکھا۔ چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ پھر اچانک ہی سامنے برآمدے میں موجود ایک دروازہ کھلا اور بولنے والا ان کے سامنے آگیا۔ وہ تین افراد تھے۔ ان میں دو تگڑے جوان دکھائی دیتے تھے۔ دونوں کے ہاتھوں میں رائفلیں تھیں۔ درمیان والا تیسرا شخص تقریبا چالیس بیالیس سال کا رہا ہو گا۔ اسکا قد باقی دو سے نکلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ کھلتی ہوئی گندمی رنگت, موٹی موٹی بھاری پپوٹوں والی آنکھیں، گھنی مونچھیں,فراخ پیشانی,چوڑی اور اٹھی ہوئی چھاتی۔ پاو�¿ں میں سنہری کامدار نوک والا کھسہ,سفید شلوار پر سیاہ کرتا اور سر پر سیاہ پگڑی۔ بلاشبہ وہ ایک شاندار شخصیت تھی۔ اسکے چہرے پر جمی ہوئی کرختگی کا تاثر اسکی اس شخصیت کو مزید اثر انگیز بناتا تھا۔ دروازے سے باہر آتے ہی ان تینوں کی نظر سیدھی مرشد لوگوں پر پڑی تو وہ بے اختیار ٹھٹک کر رک گئے۔ ان کو یوں ڈیوڑھی میں کھڑے دیکھ کر وہ تینوں بری طرح چونکے تھے۔ مرشد اور خنجر مسلح تھے، شاید اسی وجہ سے ان دونوں جوانوں نے فورا رائفلیں سیدھی کر لیں۔
”کون ہو تم لوگ؟“ اسی کرخت صورت والے نے اپنی بھاری آواز میں سوال کیا۔ لہجے میں تعجب کے ساتھ ساتھ تحکم بھی تھا۔ مرشد نے بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ عقب میں گلی سے بلند ہونے والی ایک ہانپی ہوئی آواز سن کر چپ ہو رہا۔
”اسی گلی میں گھسے ہیں۔ آگے دیکھو ذرایا یہیں کسی گھر میں گھسے ہیں۔“ بولنے والا بھاگتا ہوا اس گیٹ کے قریب پہنچ آیا تھا۔ ایسے میں مرشد یا وہاں موجود کوئی شخص بھی بولتا تو یقینا اسکی آواز بھی باہر سن لی جاتی۔
”پکڑو ان(گالی) کو۔کسی گھر میں گھسے ہیں تو گھسیٹ کر نکالو(گالی) کو باہر۔ ” گلی کے شروع کی طرف سے ابھرنے والی یہ مکروہ آتشیں
آواز چوہدری فرزند کی تھی۔ حجاب نے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد ترین سنسناہٹ محسوس کی۔ پہلے والی آواز گیٹ کے آگے کیطرف بڑھی۔
”اتنی جلدی کہیں نہیں جا سکتے۔ وہ یہیں کسی گھر میں گھسے ہیں۔ اسکے دونوں یاروں کو تو دیکھتے ہی چھلنی کر مارو۔ “
یہ الفاظ پتھر کی طرح حجاب کے ساتھ ساتھ مرشد اور خنجر کی بھی گدی میں آکر لگے تھے۔ باہر گلی میں کم از کم بھی پانچ چھ افراد کی موجودگی کا احساس ہوتا
تھا۔ دو تین گلی میں سیدھا آگے نکل گئے تھے جبکہ دو تین گلی میں موجود تھے۔ گیٹ سے باہر انکے دشمنوں کی آوازیں اور آہٹیں گونج رہی تھیں تو گیٹ سے اندر وہ تینوںتین اجنبی لوگوں کے روبروخاموش اور ساکت کھڑے تھے۔ سامنے موجود تینوں اجنبی بھی اپنی اپنی جگہ ساکت تھے خاموش تھے دو نے مرشد اور خنجر کو نشانے پر لے رکھا تھا جبکہ تیسرا گہری ٹٹولتی ہوئی نظروں سے مرشد کی طرف دیکھ رہا تھاالبتہ اسکے کان گلی سے سنائی دیتی آوازوں کی طرف لگے ہوئے تھے۔ اسے اپنے سامنے موجود لڑکی اور دونوں آدمیوں سے کچھ کہے سنے بغیر ہی انکی کہانی کا لب لباب سمجھ میں آرہا تھا۔
کچھ دیر بعد جب گیٹ کے دائیں بائیں خاموشی ٹھر گئی، تب وہی درازقامت شخص,آنکھوں سے حجاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرشد سے مخاطب ہوا۔
”کدھر سے نکال کر لائے ہو اسے کن کی ہے؟“ مرشد کو اسکا سوال سخت ناگوار گزرا۔ وہ بولا تو یہ ناگواری چہرے کے ساتھ ساتھ اسکے لہجے سے بھی مترشح تھی۔
”یہ سید سرکار ہیں۔ باہر بھونکتے کتے ان ہی کے دشمن ہو رہے ہیں۔“ اسکے انداز اور لب ولہجے نے اس شخص کو چونکا دیا تاہم وہ چھبتے ہوئے لہجے میں بولا۔ ”یہ سید سرکار ہیں اور تم دونوں؟“
”ہم انکے خادمان کے نوکر۔“
”اچھا بھلا کس قسم کی خدمت کرتے پھر رہے ہو؟“
”فی الوقت خارش زدہ پاگل کتوں سے انکی حفاظت۔ “
”تمہارے پیچھے کون لوگ ہیں؟“ایک ذرا توقف کے بعد اس نے قدرے ٹھہرے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔
”مقامی لوگ نہیں ہیں۔ گوجرانوالہ سائیڈ کا ایک جاگیردار ٹولہ ہے۔“
کچھ دیر بغور مرشد کی طرف دیکھتے رہنے کے بعد اس شخص نے اپنے ساتھیوں کو رائفلیں نیچے کرنے کا اشارہ کیا اور خود دھیمے قدموں سے چلتا ہوا اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کی نظریں مرشد کی مونچھوں کا جائزہ لے رہی تھیں۔
”تمہاری یہ مونچھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی ”نر “چیز ہو گی اور نر چیزیں تو کوئی اوچھا یا ہلکا کام نہیں کرتیں۔ یہی سوچ کر تمہارے کہے پر یقین کر رہا ہوں۔ اگر حقیقت حال میں کوئی کمی بیشی ہے تو ابھی اپنا بیان درست کر لو۔“ اسکا لہجہ متحمل لیکن انداز تنبیہ والا تھا۔
”خیر ابھی مجھ پر کوئی ایسی آفت تو نازل نہیں ہوئی جس سے بچنے کے لیے مجھے کسی جھوٹ کا سہارا لینا پڑے۔ میں نے وہی کہا ہے جو سچ ہے۔“ مرشد نے اطمینان سے کہا۔ اسی وقت چند گز کے فاصلے سے گلی کے اندر سے ایک آواز ابھری۔
”یہ گلی آگے سے بند ہے۔ وہ تینوں ضرور یہاں کسی گھر میں چھپے ہیں۔“
”دیکھو جہاں بھی ہیں نکالو باہر حرامیوں کو۔“اس دراز قامت شخص نے اپنا چوڑا چکلا ہاتھ مرشد کے کندھے پر رکھا۔
’میرا نام ارباب قیصرانی ہے۔ اگر تم نے سچ بولا ہے توپھر بلاشبہ تم ایک قابل قدر کام کر رہے ہو۔ میرے لیے پھر تم دوستوں اور بھائیوں کی جگہ ہو۔
یہاں تم لوگوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ آو�¿ میرے ساتھ۔ “
وہ یعنی ارباب قیصرانی پلٹ کر برآمدے کی طرف چل پڑا۔ لب ولہجہ تو اسکا ویسا ہی خشک تھا البتہ اس کے رویے کی یہ تبدیلی اطمینان بخش تھی۔
حجاب نے اتنی دیر میں پہلی بار قدرے سکون کی سانس لی ورنہ اسے مسلسل یہ دھڑکا لگا رہا تھا کہ کہیں اب یہاں کوئی نیا مسئلہ نہ کھڑا ہوجائے ان تینوں نے اس کے پیچھے قدم بڑھا دیے۔ ارباب نے ایک رائفل بردار سے کچھ کہا اور ان تینوں کو ایک دروازے سے گزار کر راہداری میں لے آیا۔ اس راہداری میں آگے جا کر دو دروازے تھے اور راہداری بائیں ہاتھ گھومتی تھی۔ وہاں سے گھومتے ہوئے انہوں نے دیکھا ،ایک کمرے میں ریڈیو پر کوئی پروگرام چل رہا تھا یقیناً اندر کوئی موجود تھا۔ارباب قیصرانی انہیں دوسری راہداری کے بالکل آخر میں موجود ایک بند دروازے تک لے آیا۔
”فی الحال تم لوگ اس کمرے میں بیٹھو۔ میں باہر کی صورتحال دیکھ لوں پھر آکر ملتا ہوں۔“ اس نے دروازہ کھولتے ہوئے مرشد سے کہا اور فوراً ہی پلٹ گیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی مرشد نے سب سے پہلے پنکھے کا بٹن ڈھونڈ کر دبایا۔ اسے احساس تھا کہ وہ اور خنجر پسینے میں نہائے ہوئے ہیں تو حجاب نے تو پھر خود کو چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔
یہ درمیانے سائز کا کمرہ تھا۔ کمرے کے درمیان میں ایک میز کے گرد صاف ستھرے صوفے پڑے تھے۔ ان سے آگے بیڈ۔ بغلی دیوار میں ایک کھلی حالت میں سلاخ دار کھڑکی تھی جس کے باہر ایک اجڑے ہوئے لان کا ادھورا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ کھڑکی کے ساتھ دیوار پر ایک کیلنڈر لٹک رہا تھا جس پر ٹوکہ مشین چھپی ہوئی تھی۔ بیڈ کی پائنتی والی دیوار پر ایک عورت کی پوٹریٹ آویزاں تھی۔ کمرے کی فضا حبس زدہ تھی۔ پنکھے کی ہوا بھی گرم لگ رہی تھی۔
”جگر! کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ قیصرانی بھی لہراسب یا چوہان جیسی نسل کا بندہ ہو۔“ خنجر نے خدشہ ظاہر کیا تو مرشد نے جواب میں بے فکری کا مظاہرہ کیا۔
”حوصلہ رکھجو ہو گا دیکھ لیں گے۔ ویسے بھی سارا ملک کوئی چوہدریوں کی اماں کے جہیز کی چیز نہیں ہے جو ہر بندہ ہی انکا رشتے دار نکلے گا۔“
پسٹل اس نے ڈب میں لگایا اور بیگ اتار کر صوفے پر ڈال دیا, پھر حجاب کی طرف متوجہ ہوا۔
” سرکار! آپ ادھر آجائیں,بیڈ پربالکل آرام سے بیٹھیں۔ذرا دم لے لیں پھر آگے نکلتے ہیں۔“
”فرزند کے آدمیوں کے ساتھ کہیں ان لوگوں کا جھگڑا نہ ہو جائے۔ “حجاب آگے بڑھ کر بیڈ پر ٹک گئی ۔چادر کا نقاب اس نے منہ سے نیچے سرکا لیا تھا۔
”امید تو نہیں ہے۔ یہ بندہ رکھ رکھاو�¿ والانظر آتا ہے اور اگر کوئی پھڈا پڑ بھی گیا تو میرا خیال ہے یہ لوگ بخوبی چوہدری کا دماغ درست کر لیں گے میرے اندازے کے مطابق اوپر والی منزل پر بھی انکے کچھ ساتھی موجود ہیں۔“
”پتا نہیں کیوں لیکن مجھے یہ جگہ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔“ حجاب کے لہجے میں قدرے الجھن اور بے چینی تھی۔
”ہم نے کون سا یہیں رہناہے۔باہر کا ماحول ذرا ٹھنڈا ہولے تو نکل چلیں گے۔“
”ہاں جی! یہ توہے۔“ اس نے آہستہ سے سر جھکا لیا۔ خنجر ایک صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔مرشد اس کے برابر والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
”ان لوگوں کو پورا یقین ہے کہ ہم یہیں کسی گھر میں چھپے ہیں۔ آسانی سے نہیں ٹلیں گے یہ۔“خنجر نے سنجیدگی سے کہا تو مرشد بھی سنجیدگی ہی سے بولا۔
”کچھ دیر دیکھتے ہیں۔ یہ ارباب واپس آلے اسکی سنتے ہیں پھر کوئی فیصلہ کریں گے۔ اگر ضروت پڑی تو یہاں سے نکلنے کے لیے وہ سامنے والی دیوار پھلانگیں گے۔“اس نے کھڑکی سے بارہ پندرہ فٹ کے فاصلے پر موجود دیوار کی طرف اشارہ کیا جس کی اونچائی محض پانچ چھ فٹ تھی ۔دیوار کی دوسری طرف مور پنکھ اور کنیر کے پودے ایک قطار میں اپنی جھلک دکھا رہے تھے۔
”یہ شاید اس کوٹھی کی عقبی دیوار ہے۔“
””وہاں ہوٹل میں تمہیں ان کتوں کے آنے کا پتہ کیسے چلا؟ سوئے نہیں تھے تم؟“
” نہیں بس نیند ہی نہیں آئی تھی، پھر اتفاقاً میری نظر نیچے ایک بندے پر پڑی۔ وہ چوہان کے ساتھیوں میں سے تھا۔ابھی میں اس کی وہاں موجودگی ہی پر غور کر رہا تھا کہ یہ لوگ پہنچ گئے۔ بعد کی کہانی تمہارے سامنے ہے۔“
” یعنی اس بلڈوگ کی شکل والے چوہان یا لہرا سب کا براہ راست چوہدری فرزند کے ساتھ کوئی کنیکشن ہے۔“
”بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے ،اسی لیے میں نے انداذہ لگایا تھا کہ گوجرہ سے اس نے نواب صاحب کے حوالے سے جو کال کی تھی وہ دراصل نواب کو نہیں ، نندی پور میں چوہدری فرزند کو کی گئی تھی یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے سچ میں اس نامعلوم نواب ہی کو کال کی ہو اور زہریلے بوڑھے کے ساتھ ساتھ ہم تینوں کا بھی ذکر کر دیا ہو۔ آگے نواب کا تعلق چوہدری فرزند سے ہوا اور وہ چوہدری کو ہماری یا سرکار کی وجہ سے درپیش مصیبت و پریشانی سے بھی واقف رہا ہو اور اس نے چوہدری کو فون کھڑکا دیا ہو۔ بلکہ ایسا ہی ہوا ہوگا چوہان سے ہمارے متعلق جاننے کے بعد ہی اس نے لہراسب کو کال پر بلایا ہوگا۔ ہمارے حوالے سے مزید تسلی کر لینے کے بعد لہراسب کو ہمارے متعلق ہدایت دی ہونگی۔ اور پھر چوہدری کو فون کر دیا ہوگا اور یہ پاگل کا پتر اسی وقت ملتان کے لیے نکل کھڑا ہوا ہو گا۔ ہمارے یہاں پہنچنے کے بعد انکا ایک کارندہ ہماری تاڑ میں رہا ،ہم لوگوں کے اس ہوٹل میں کمرے لیتے ہی اس نے فورا نواب کو رپورٹ دی ہوگی۔ چوہدری نے بھی ملتان پہنچتے ہی نواب سے رابطہ کر کے تازہ صورت حال معلوم کی ہوگی اور سیدھا وہاں پہنچ گیا ہو گا۔ ضرور ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا۔“
” ہاں ہو سکتا ہے۔ ویسے کیا خیال ہے تمہارا ؟ڈپٹی اعوان اور ملنگی لوگوں تک بھی اطلاع پہنچی ہوگی۔“
”یہ اطلاع پہنچی ہو یا نہیں فیصل آباد والے معرکے کی تو پہنچی ہو گی۔ ڈپٹی اور رانا ایک کچھ ہیں۔ ملنگی لوگ رانا کے پالتو ہیں تو ڈپٹی انکی پشت پناہی کرتا ہے۔ وہ سب باخبر ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ ڈپٹی کے ساتھ ساتھ ملنگی گروپ بھی اب تک ملتان پہنچ چکا ہو۔“
”پھر تو اب یہاں خاصی رونق لگے گی۔ خوب شور شرابا ہوگا۔“ خنجر کی آنکھوں میں تشویش لہرائی۔
”لیکن ہمیں ایسی کسی صورت حال کا حصہ نہیں بننا۔ حتی الامکان کوشش کرنی ہے کہ ہر سیاپے سے کنی کھاتے ہوئے نکل جائیں۔ سرکار کواللہ کے کرم سے انکی منزل تک پہنچا لیں، اس کے بعد پھر تسلی سے دیکھیں گے اس پورے شیطانی ٹولے کو۔“
”مرشد جی!“ حجاب نے اپنے مخصوص انداز میں مرشد کو مخاطب کیا تھا۔ سماعت کے رستے وہی انوکھا ترنم مرشد کے ذہن و دل کو گدگداگیا۔ جو اس کی دھڑکنیں اتھل پتھل کر دیتا تھا۔
”جی سرکار!“ وہ فورا اسکی طرف متوجہ ہوا۔ ایک ذرا توقف کے بعد حجاب کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔
”کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان سب خبیث لوگوں کے ساتھ آپ کی دشمنی مزید آگے نہ بڑھے۔ یہ یہ سب لڑائی جھگڑا ختم ہو جائے؟“
”یہ سب پاگل درندے ہیں سرکار! ان میں کوئی بھی اس دشمنی کو ختم کرنا پسند نہیں کرے گا۔ ان سب کی سمجھ میں بس ایک ہی بات آتی ہے ۔مر جاو�¿ یا ماردو۔“
” اگر یہ لوگ نہ بھی ختم کرنا چاہیں تو آپ تو ختم کر سکتے ہیں نا!“
”جی ہاں! یہ دشمنی,یہ جنگ جو ان لوگوں نے شروع کی ہے، اسے ختم ان شائاللہ میں ہی کروں گا۔“
”نہیں میرا یہ مطلب نہیں ہے۔“ حجاب نے فورا سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔
”میں کچھ اور کہہ رہی ہوں میں دراصل“ وہ الجھن زدہ سے انداز میں چپ ہو گئی۔
”آپ جو بھی کہنا چاہتی ہیں بے دھڑک کہہ دیں۔“
”میرے بعد آپ نے کیا کرنے کی ٹھان رکھی ہے؟“
”آپ کے بعد؟“ مرشد کو جیسے ٹھیک سے اسکی بات سمجھ میں ہی نہیں آئی تھی۔
”یعنی مجھے پھوپھو کے ہاں پہنچانے کے بعد آپ کا کیا ارادہ ہے؟“
”واپسی پر سیدھا اماں کے حضور حاضری دوں گا اور انہیں یہ خوشخبری سناو�¿ں گا کہ آپ کوآپکی پھوپھو جی کے ہاں چھوڑ آیا ہوں۔“
”اور اس کے بعد؟ “
”اسکے بعد بعد کی لسٹ تو خاصی لمبی ہے سرکار!“
”آپ چوہدریوں اور ملنگی لوگوں کے ساتھ ٹکر لیں گے ،ان کے ساتھ دشمنی پالیں گے؟“
”دشمنی تو خاصی پل چکی سرکار!اب اسے انجام تک پہنچاو�¿ں گا۔“
”اورمیں یہی سب نہیں چاہتی لڑائی جھگڑا ،خون خرابہ یہ سب نہیں ہوناچاہیے۔“
”ہونا تو نہیں چاہیے لیکن جب تک چوہدری فرزند اور ملنگی جیسے لوگ باقی ہیں تب تک یہ سب ہوتا رہے گا۔کمزور اور شریف لوگ ان جیسوں کی دشمنی کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ لوگوں کا ناحق خون بہتا رہے گا۔ یہ شیطانی ٹولہ دوسروں کی زندگیوں کا حلقہ تنگ کرتا رہے گا۔“
مرشد کے لب و لہجے میں خوبخود ایک تلخی,ایک تپش گھل آئی۔ کتنے ہی مناظر یکدم اسکے ذہن میں جل بجھے۔ٹبی تھانے میں اپنے یاروں کا قتل,ڈسکہ کے نواحی گاو�¿ں کے ایک ڈیرے پر ملنگی فوجی لوگوں کا اس پر تشدد اور ذلت آمیز سلوک,چوہدری فرزند کے وہ زہریلے جملے جو اس خنزیر نے اپنی ناپاک زبان سے اسکی عزیزاز جان اماں کے حوالے سے کہے تھے اور تو اور اس کے پردہ تصور پر اس کے پالتو کتکان کی خون آلود لاش بھی لہرا گئی تھی، جسے بعد از مرگ اس نے اکھاڑے کے قریب ہی ایک دیوار کے سائے میں دفن کرایا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے اس وفادار اور جان نثار پر مٹی ڈالی تھی۔
چند ایک اور مناظر بھی تھے۔ یہ سب اسکا آنکھوں دیکھا تھا۔ اس نے خود یہ ساری درندگی اور سفاکی بھگتی تھی۔ وہ خود گواہ تھا ان سب کا اور اس سب کے علاوہ حجاب پر اس کے گھر،ٹبر پر ظلم و ستم اور بربریت کے جو پہاڑ توڑے گئے تھے۔ جس سنگدلی اور بے رحمی کا مظاہرہ کیا گیا تھا وہ وہ دکھ وہ درد وہ سب کرب و اذیت صرف حجاب تک تو محدود نہیں تھا اب اس سب میں وہ خود بھی تو حصہ دار بن چکا تھا۔ نجانے کیسے لیکن حجاب کا یہ سارا جان کا دکھ, کسی پر اسرار طریقے سے خودبا خود اس کے رگ و پے میں اتر آیا تھا۔ حجاب کے دل کا ہر دکھ,ہر تکلیف اسے اپنی محسوس ہوتی تھی۔ اپنی ذات کا حصہ لگتی تھی لیکن حجاب ان سب سے یکسر لاعلم تھی!
اسی دوران ایک سیاہ پگڑی والا ملازم صورت شخص آ کر یخ ٹھنڈا دودھ رکھ گیا تھا, جو مرشد نے پہلے حجاب کو پیش کیا پھر خنجر کو دے کر خود بھی گلاس سنبھال لیا۔ اس نئے چہرے سے اس نے بیرونی حالات کے متعلق دریافت کیا تھا لیکن وہ لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے واپس پلٹ گیا تھا۔
”خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے مرشد جی! اسکی پکڑ اتنی سخت, اتنی زبردست ہوتی ہے کہ اسکی گرفت میں آنےوالا بڑے سے بڑا سورما,بڑے سے بڑا فرعون بھی دم نہیں مار سکتا۔ یہ سب لوگ بھی ایک دن اسکی پکڑ میں آئیں گے۔ عبرت ناک انجام ہوگا ان سب کا,بس آپ اس دشمنی کو اپنے دل سے نکال دیں۔“ حجاب اسی دھیمے لہجے میں بولی۔ مرشد کے ہونٹوں پر اک زخمی سی مسکراہٹ اتر آئی۔
”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں لیکن میرے ایسا کرنے سے کیا ہوگا؟ ان میں سے کوئی بھی اس دشمنی سے باز نہیں آئے گا۔ جس کو موقع ملے گا وہ وار کرے
گا۔ میری جان سے کم پر راضی نہیں ہوں گے اب یہ لوگ۔“
”میں جانتی ہوں اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ اس دشمنی کو ختم کر دیں۔“
”یہ دشمنی تو اب ایک ہی صورت میں ختم ہو سکتی ہے۔ یا تو وہ لوگ میرے ہاتھوں ختم ہو جائیں,یا پھر انکے ہاتھوں میں ختم ہو جاو�¿ں اور تو کوئی رستہ,کوئی صورت نہیں ہے۔ مرشد نے گہری سنجیدگی سے کہا اور ہاتھ میں پکڑا ہوا گلاس ہونٹوں سے لگالیا۔ چند لمحے کمرے میں خاموشی رہی پھر حجاب کے ہونٹوں سے نکلنے والے ایک جملے نے مرشد کے ساتھ ساتھ خنجر کو بھی چونکا دیا۔
”ایک رستہ,ایک صورت ہے!“
”وہ کیا؟“ یہ سوال جیسے خودبخود اسکی زبان سے ادا ہو گیا تھا۔
”میں آپ سے کچھ کہوں تو آپ میری بات مانیں گے؟“عجیب لہجہ, عجیب انداز تھا۔ مرشد نے بے اختیار اسکی طرف دیکھا۔
وہ اپنے دائیں ہاتھ میں موجود پیتل کے گلاس کی طرف متوجہ تھی اور بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے گلاس کے کنارے کو سہلا رہی تھی۔ کالی چادر کے ہالے میں لپٹے اس صبیح چہرے پر ایک جھجک,ایک کشمکش کی دھوپ چھاو�¿ں سی پھیلی ہوئی تھی۔ مرشد کا دل شدت سے دھڑک اٹھا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے یہ نازک اندام اور کمزور سی لڑکی اسے کسی جان لیوا امتحان, کسی اعصاب شکن آزمائش سے دوچار کرنے والی ہے۔ خنجر بھی ایک بے نام سے اضطراب کے تحت پہلو بدل کر رہ گیا۔
”کیوں نہیں مانوں گا سرکار! آپکی ہر بات سر آنکھوں پر۔آپ بس حکم کریں۔“ مرشد نے دل کی گہرائیوں سے کہا۔ اس لمحے جیسے وہ مجسم سماعت بن گیا تھا۔
”آپ یہ علاقہ,یہ صوبہ ہی چھوڑ دیں۔ ان سب درندوں سے دور کسی اجنبی اور دور دراز جگہ پر چلے جائیں۔ جہاں کا ان سب کو اندازہ نہ ہو سکے یا پھر ادھر بلوچستان ہی میں کہیں رہائش کا سوچ لیں,میں پھوپھا جی سے کہہ کر ہر طرح کا انتظام کرا دوں گی۔“ اس نے اسی طرح دھیمے لہجے اور جھکی جھکی آنکھوں کے ساتھ کہا۔ خنجر کی نظریں فورا مرشد کے چہرے جا ٹھہریں۔ حجاب کا یہ مشورہ,خواہش یا حکم,مرشد کے نزدیک بہت چھوٹی سی بات تھی وہ تو اسکے ایک ادنٰی سے اشارے پر دنیا تک تیاگ دیتا, اپنی باقی کی ساری زندگی کسی اندھی قبر کی تاریکیوں کے سپرد کر سکتا تھا,لیکن اسکے جسم وجاں ایک نادیدہ زنجیر کے حصار میں تھے۔ وہ خود مختار ہونے کے باوجود اس حوالے سے قطعی بے بس اور مجبور تھا۔ آج سے نہیں گزشتہ کئی سالوں سے۔وہ خود اپنا علاقہ,اپنی جنم بھومی ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کے لیے کب سے بے قرار تھا مگر اسکا بس نہیں چلتا تھا۔ حجاب کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ بات کر کے اس نے مرشد کی کون سی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہے۔ مرشد کی آنکھوں کے سامنے اسکی اماں کا چہرہ آٹھہراتھا۔
”کس سوچ میں پڑ گئے آپ؟“ اسکی چپ پر حجاب نے نظریں اٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔
”مجھے آپ کے کہے پر کوئی اعتراض نہیں سرکار!“ وہ ایک گہری سانس لیتے ہوئے گویا ہوا۔
”آپ کا کہا میرے لیے کسی حکم سے کم نہیں, لیکن وہاں لاہور میں ایک بوڑھی اور بیمار عورت رہتی ہے میں اسے اماں کہتا ہوں اور کبھی کبھار چھیڑنے ستانے کے لیے باجی امی زندگی کے نام پر اس نے بس سزا ہی پائی ہے۔ اس کے پاس اگر جینے کا کوئی بہانہ ہے تو وہ میری ہی ذات ہے اور میری بھی کل کائنات وہی ہے۔ اس کے لیے میں ستر ہزار مرتبہ مرناگوارا کر سکتا ہوں لیکن اس سے دور نہیں رہ سکتا۔ وہ میری واحد کمزوری ہے ۔میرا پہلا عشق ہے۔ میں اسے نہیں چھوڑ سکتا۔ “
”یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ! “ وہ متعجب ہوئی۔ میں نے خالہ کوچھوڑنے کا تو نہیں کہا آپ سے۔ میں نے آپ دونوں کی بات کی ہے۔ ہم لوگ تو جا ہی رہے ہیں, خالہ کو بھی رازداری سے بلوالیں گے۔“
”کاش ایسا ممکن ہوتا۔“ مرشد نے حسرت آمیز دکھ سے کہا۔ حجاب کو اسکے چہرے پر اک کرب سا چٹختا ہوا محسوس ہوا۔
”کاش کا کیا مطلب ہوا؟ اس میں بھلا کیا مشکل ہے آپ کا کوئی دوست لے آے گا نہیں تو پھوپھا جی انتظام کر دیں گے۔ “
”میرا خیال ہے کہ اماں نے آپکو سمجھایا تھا کہ آپ وہاں کسی کو نہیں بتائیں گی کہ آپ کے اتنے دن کسی کوٹھے,کسی طوائف کے ہاں گزرے ہیں۔ یہی درخواست آپ سے میری بھی ہے۔ آپ کے پھوپھا جی کے ہاں کسی کو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بتانا شاید آپکی آئندہ زندگی کے لیے اچھا ثابت نہ ہو۔“
حجاب کو ایک ذرا چپ لگ گئی۔ وہ اس بات کا مطلب بخوبی سمجھ گئی تھی لیکن خالہ اور مرشد کی سلامتی کی فکر بھی اسکے ذہن و دل کو کریدنے,کھرچنے میں لگی تھی۔
”تو آپ کے اتنے سارے دوست بھی تو ہیں اور اور آپ کے لالہ رستم بھی ہیں۔ ان کے لیے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔“
”مشکل تو کچھ اور ہے سرکار!“
”مثلاً کیا؟“
”مشکل ہے اماں کا اس بات پر راضی ہونا۔“
”انہیں اس پر کیا اعتراض ہوگا۔ وہ بھلا کیوں راضی نہیں ہوں گی!“
”بس وہ اس جگہ کو نہیں چھوڑنا چاہتیں, اپنی باقی کی زندگی بھی وہ اسی جہنم میں سڑائیں گی۔“ نہ چاہتے ہوئے بھی مرشد کے لہجے میں تلخی گھل آئی۔
’میرا تو خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ جب آپ انکی زندگی کا واحد بہانہ ہیں تو وہ آپکو اتنی خطرناک دشمنی اور ایسے بے رحم دشمنوں کے درمیان نہیں رہنے دیں گی۔ آپ کسی جگہ سے فون پر ان سے بات کر کے دیکھیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ مان جائیں گی۔“
”مجھے انکے جواب کا پتا ہے۔ وہ مجھے کہیں گم ہو جانے کا کہیں گی, خود میرے ساتھ نہیں چلیں گی اور میں انہیں چھوڑ کر کہیں ادھر ادھر نہیں ہو سکتا ۔یہ بھی وہ اچھی طرح جانتی ہیں۔ “
”وہاں آپ کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی محفوظ نہیں رہیں گی، یہ چوہدری بہت طاقت ور اور بہت ظالم لوگ ہیں۔ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ “
”اس بات کا تو خود اماں کو بھی اندازہ ہے,لیکن وہ اپنے ساتھ ساتھ میری موت بھی گوارا کر لیں گی مگر وہ جگہ نہیں چھوڑیں گی۔“ لہجے کی تلخی اسکے چہرے پر بھی اتر آئی۔ حجاب کے لہجے میں حیرت و بے یقینی کے ساتھ ایک تجسس بھی شامل ہوآیا۔
”مگر کیوں اس جگہ میں ایسا کیا خاص ہے؟ وہ جگہ تو خالہ کے مزاج کی نہیں, خالہ بھی اس ماحول کا حصہ بالکل نہیں لگتیں۔ پھر وہ اس جگہ کو کیوں نہیں چھوڑنا چاہتیں؟“چند لمحوں تک تو مرشد کچھ بول ہی نہیں پایا۔ اسے یوں لگا جیسے کسی نے سیال کونین یا تیزاب کا کوئی ڈرم اس کے حلق میں انڈیل دیا ہے۔ حجاب اور خنجر دونوں اس کے چہرے پر چھائے تناو�¿ کو دیکھ رہے تھے۔
” آپ یہ سمجھ لیں کہ اس حوالے سے وہ ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں۔ “اسکی آواز میں گھمبیرتا تھی۔ اسے یہ انتہا درجہ مشکل محسوس ہوا کہ وہ حجاب کو اپنی ماں کے معاشقے کے متعلق بتا سکے۔ یہ کہہ سکے کہ وہ اس کے ناجائز باپ اور اپنے جھوٹے اور فریبی عاشق کے لاحاصل
انتظارکی بیڑیوں میں جکڑی بیٹھی ہے
اس سے پہلے کہ حجاب کچھ پوچھتی یا کہتی دروازے کی طرف قدموں کی آہٹ سنائی دی اور ارباب قیصرانی اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ وہ کمرے کے اندر آیا اور آگے بڑھتے ہوئے مرشد کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔
"تو تم نے نندی پور کے جاگیرداروں کو ٹکردی ہے۔ "وہ مرشد سے مخاطب تھا۔” کچھ جانتے بھی ہو انکے بارے میں۔“
"اچھی طرح جانتا ہوں لیکن خوش بختی سے یہ لوگ ابھی تک مجھے ٹھیک سے نہیں جان پائے۔ میں سرکار کو انکی منزل تک پہنچانے کی اپنی ذمہ داری پوری کر لوں پھر ٹکر کے ساتھ انہیں اور بھی بہت کچھ دوں گا۔ "
"مرشد نام ہے تمہارا؟ ” ارباب اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے اسے بغور دیکھ رہا تھا۔
” ہاں۔”
"رات فیصل آباد میں کیا کیا ہے تم لوگوں نے؟”
"اگر آپکو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ہم نے فیصل آباد میں کچھ کیا ہے تو یقینا آپکو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کیا کیا ہے۔”
"ایک پولیس والے کا قتل اور تین کو زخمی, جن میں سے دو اسپتال میں پڑے ہیں۔ "
اس میں قتل والی بات غلط ہے۔ ہلاک ہونے والا اپنے ہی سب انسپکٹر کی گولی کا نشانہ بنا تھا۔ "
ارباب نے ایک نظر حجاب پر ڈالی جس نے اس کے اندر داخل ہوتے ہی آدھا چہرہ چادر سے ڈھانپ لیا تھا,پھر وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے دوبارہ مرشد سے مخاطب ہوا۔ باہر پولیس بھی پہنچ گئی ہے اور باقاعدہ گھروں کی تلاشی کا کام شروع ہو چکا ہے۔ پولیس والوں کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیصل آباد والے وقوعہ کے باعث وہ ذاتی عناد کے ساتھ جاگیرداروں کی خوش نودی بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ "
"یہ پولیسے انکے تلوے بھی چاٹ سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے فیصل آباد میں انہوں نے ہم سے جوتے کھائے تھے۔ بکاو�¿ محکمے کے بکاو�¿ لوگ ہیں سب۔ "
"جانتا ہوں میں تم حاکم علی کو جانتے ہو؟ "
"نہیں۔”
"میں جانتا ہوں وہ رذیل انسان اس جاگیردار زادے فرزند کا دادا اور مکار لومڑ اکبر علی کا باپ تھا۔ یہ سب ایک سے بڑھ کر ایک کمینے اور فرعون ہیں۔ مجھے انکا پورہ شجرہ معلوم ہے۔ "مرشد اس کی بات اور لہجے پر قدرے چونک پڑا۔ اسکے چہرے کے تاثرات اس بات کے گواہ تھے کہ وہ چوہدریوں کے بارے میں پہلے ہی خاصی گہری اور مفصل جانکاری رکھتا ہے۔
"آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اس کوٹھی کی عقبی دیوار پھلانگ کر یہاں سے نکل جاتے ہیں۔ "
"وہ کیوں؟ ” ارباب نے بھویں سکیڑ کر پوچھا۔
"ہم نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے آپ کے لیے کوئی مشکل یا پریشانی کھڑی ہو۔ "
"یہ کوٹھی ملک منصب کی ملکیت ہے۔ یہاں اپنی دھونس دکھانے سے پہلے ان پولیس والوں کو ہزار بار سوچنا پڑے گا اور اگر فرزند علی کے چمچوں کے پیٹ میں کوئی مروڑ اٹھا تو اس کا علاج ہم خود کر لیں گے، لہٰذا ہماری پریشانی کی فکر چھوڑو اورخود بھی اطمینان سے بیٹھو۔ باقی یہ سید بی بی ہیں.”
اس نے حجاب کی طرف اشارہ کیا۔ "اور ہماری نسلیں سیدوں کی مقروض ہیں ہم آج بھی سادات کا بخشا ہوا کھا رہے ہیں۔ ہمارے جیتے جی ان کا
دشمن انہیں تو کیا ان کی ہوا کو بھی چھو نہیں سکتا۔ تم لوگ یہاں آرام سے بیٹھو ،میں باہر کے معاملات دیکھتا ہوں۔ یہ لوگ دفع ہو جائیں اس کے بعد تم جہاں جانا چاہو گے ہم لوگ خود وہاں پہنچا آئیں گے تمہیں۔ "اس کے بعد وہ اٹھ کر کمرے باہر نکل گیا۔
” لگتا ہے یہ ارباب اور اس کا ملک منصب خاصی توپ چیز ہیں۔ "خنجر نے کہا اور سامنے موجود میز سے جگ اٹھا کر دوبارہ اپنا گلاس بھر لیا۔
"شاید چوہدریوں کے ساتھ ان کی بھی کوئی رنجش ہے یا پھر ما ضی میں رہی ہے۔ "
” بہرحال بندہ جی دار لگتا ہے۔ اتفاقاً ہی سہی ہم درست جگہ گھسے ہیں۔ کسی اور چار دیواری میں گھسے ہوتے تو لازمی مشکل میں آجاتے۔ "
"ہمیں یہاں بھی ذرا ہوشیار ہی رہنا ہے۔ بندہ جب مار کھاتا ہے، اپنی غفلت سے کھاتا ہے۔ ہمارا آدھے سے زیادہ سفر باقی ہے ابھی۔ "
اس نے بات کرتے ہوئے ایک نظر حجاب کی طرف دیکھا ،اس کا دھیان کسی اور طرف تھا۔ مرشد نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا۔ وہ دیوار پر آویزاں پوٹریٹ کو دیکھ رہی تھی۔ اس پوٹریٹ میں مصور نے سیاہ رنگ کمال مہارت سے استعمال کیا تھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ صرف سیاہ رنگ ہی استعمال کیا گیا تھا مگر اس خوبصورتی اور فنکاری سے کہ ایک اثر انگیز منظر تخلیق کر دیا گیا تھا۔
اس منظر میں تاریکی کا ایک بیکراں سمندر تھا اور اس سمندر میں سے ایک پختہ عمر عورت کا چہرہ ابھرتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ایک خوبصورت جاذب نظر چہرہ،کشادہ پیشانی بھرے بھرے گال، کھنچی ہوئی بھویں، بڑی بڑی پر کشش آنکھیں ،جن میں ایک یاس بھرا اسکوت جما ہوا تھا۔
مرشد کو وہ آنکھیں حجاب کی آنکھیں محسوس ہوئیں۔ اس چہرے کی بیضوی ٹھوڑی اور گردن کے اوپر ایک مہین سی سیاہ لہر کھینچی گئی تھی، جیسے کوئی باریک چادر یا دوپٹا ہو۔ پورے چہرے پر ایک سرد بے حسی کا پتھریلا تاثر ٹھہرا ہوا تھا، جو دیکھنے والے کی بصارت کے رستے اس کے دل و دماغ میں اتر کر اثر انداز ہوتا تھا۔ بلا شبہ وہ ایک اثر انگیز منظر اثر انگیز چہرا تھا۔
” کیسی لگی یہ پینٹنگ؟ ” اس آواز پر ان تینوں نے چونک کر دیکھا۔ ارباب دروازے میں کھڑا تھا۔
"بہت ہی خوبصورت اور اثر انگیز۔ مصور نے اپنے فن کا حق ادا کر دیا ہے۔” مرشد نے خلوص دل سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
” شکریہ یہ میرے کالج کے دنوں کا شوق تھا۔” وہ اندر آکر مرشد کے قریب کھڑا ہو کر تصویر کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوںمیں کچھ سلگتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
"کیا یہ آپ نے بنائی ہے؟ ” خنجر نے بے ساختہ سوال کیا ۔ان تینوں کو قدرے حیرت ہوئی تھی۔ ارباب کی شکل و صورت اور لب و لہجے سے قطعی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ اس جیسے بندے کے اندر کوئی لطیف صلاحیت بھی ہو سکتی ہے۔
"ہاں یہ میری ہی کارستانی ہے۔ کالج کے دنوں میں مجھے فائن آرٹس میں بہت زیادہ دلچسپی تھی لیکن حالات نے کچھ ایسی کروٹ بدلی کہ میری تعلیم بھی ادھوری رہ گئی اور میرا یہ شوق بھی۔ ” اس نے جیسے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں اس کے ہونٹ مسکراہٹ والے انداز میں کھینچ تو گئے لیکن چہرے پر مسکراہٹ نہ آسکی پھر وہ مرشد کی طرف دیکھ کر بولا۔
” یہاں کچھ حبس ہے۔ میں نے تم لوگوں کے لیے اوپری منزل پر انتظام کرایا ہے۔ شاید آج رات تم لوگوں کو یہیں رکنا پڑے لہٰذا اٹھو اور میرے ساتھ آو�¿۔ ” ان لوگوں کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟ وہ تینوں اٹھے اور اس کے ساتھ کمرے سے نکل آئے۔ ارباب انہیں کوٹھی کی دوسری منزل پر واقع ایک کشادہ راہداری میں لے آیا۔ اس راہداری کے وسط میں آمنے سامنے موجود دو کمروں کے سامنے آکر وہ رک گیا۔
سامنے راہداری کے آخری کونے میں ایک لکڑی کا بینچ دھرا تھا جس پر ایک سیاہ پگڑ والا ڈشکرا بیٹھا، پیالی میں چائے پی رہا تھا۔ ایک پمپ ایکشن گن
اس کے کندھے سے جھول رہی تھی۔
” یہ دونوں کمرے تم لوگوں کے لیے ہیں۔ بے فکر ہو کرآرام کرو,کسی چیز کی ضرورت ہو کچھ چاہیے ہو تو بتا دو۔” مرشد سے پہلے خنجر بول پڑا۔
” اگر کڑک سی چائے مل جائے تو ذرا تھکاوٹ اتر جائے گی۔ "شاید سامنے بینچ پر بیٹھے ڈشکرے کو چائے پیتے دیکھ کر اس کے اندر بھی چائے کی حرص جاگ اٹھی تھی۔
”اور کچھ؟”
"نہیں ،اور کچھ نہیں۔ "اس بار مرشد نے جواب دیا۔
ارباب پلٹ کر واپس چلا گیا۔ خنجر ایک کمرے میں گھس گیا اور مرشد حجاب کے ساتھ دوسرے کمرے میں داخل ہو گیا۔ راہداری کے ساتھ ساتھ یہ کمرے بھی کشادہ اور ہوادار تھے۔ روشن دانوں کے علاوہ دونوں بغلی دیواروں میں لکڑی کی چوکھٹ والی سلاخ دار کھڑکیاں بھی تھیں۔ فرنیچر پرانی طرز کا تھا اور کمروں کی چھتیں کم از کم بھی اٹھارہ بیس فٹ بلند تھیں, جن میں صرف لکڑی استعمال کی گئی تھی۔ دروازے کے ساتھ ساتھ کھڑکیوں پر بھی پردے جھول رہے تھے۔
مرشد نے دروازے کے سامنے کا پردہ درست کیا۔ بیگ ایک صوفے پر رکھ کراسکی زپ کھولی اور بیگ کے اندر موجود رائفل نکال کر کندھے سے لٹکا لی۔ اس بیگ میں صرف حجاب کے کپڑے اور ضروت کی چند دیگر چیزیں موجود تھیں۔
"سرکار ! آپ سو جائیں۔ چاہیں تو دروازے کو اندر سے کنڈی لگا لیں۔ ویسے میں باہر موجود ہوں۔” اس نے حجاب کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ واپس جانے کے لیے پلٹا تھا کہ حجاب کی آواز نے اسکے پاو�¿ں جکڑ لیے۔
” آپ کیوں مجھے دوسروں کے سامنے شرمندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ "
"جی! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔” اس نے چونک کر حیران سی نظروں سے حجاب کی طرف دیکھا جو ایک طرف موجود بیڈ پر بیٹھ رہی تھی۔
"تو اور کیا یہ سرکار سرکار کیا ہوتا ہے؟ مجھے عجیب لگتا ہے یہ لفظ۔” ایک ذرا توقف سے مرشد ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔
” سچ کہوں توکچھ تھوڑا سا مجھے بھی لگتا ہے لیکن کیا کروں, آپ ہیں جو سید سرکار اور کیا کہہ سکتا ہوں۔ "
”پہلے کیا کہتے تھے۔ "
"پہلے کی بات اور تھی۔ "مرشد کی نظریں کندھے پر موجود رائفل کی اسٹریپ پر جھک گئیں۔ وہ اس پر انگوٹھا چلاتے ہوئے مزید بولا۔
"میں آپکو بتا چکا ہوں, اس کو میری ناسمجھی اور لاعلمی سمجھیں بس اب میں چاہوں بھی توپہلے کی طرح گستاخانہ انداز سے آپ کو مخاطب نہیں کر سکتا۔ "
"مت کریں مگر اتنے ادب و آداب کا مظاہرہ بھی نہ کریں۔ یہ آپ کی شخصیت کا حصہ نہیں لگتا۔ مصنوعی مصنوعی سا لگتا ہے۔ اور اور مجھے الجھن ہوتی ہے۔ مجھے اپنا آپ اجنبی اجنبی سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ "حجاب نے الجھے الجھے انداز میں کہا۔ اس کے لہجے میں ایک بے چینی,ایک بے سکونی مچل رہی تھی۔ اسے سچ میں مرشد کا یہ مودبانہ انداز, یہ مودب رویہ بے حد عجیب لگتا آرہا تھا۔ وہ اپنی ذات کو اس کے اعصاب پر مسلط ایک بوجھ محسوس کرنے لگی تھی۔ ایک ایسا بوجھ جس نے اسکی اصل شخصیت کو کچل کر رکھ دیا ہو۔ اس کی فطری بے پروائی اور بے باکی کو پیس ڈالا ہو۔
اس کے خیال میں تو خود مرشد اس بات کا حقدار تھا کہ خود حجاب اس کی اس انداز میں عزت و تکریم کرے۔ وہ اسکی عزت و آبرو کا محافظ جو بنا ہوا تھا۔
محض اسکی سلامتی اور تحظ کی غرض سے اس نے جان لیوا خطرات مول لے لیے تھے۔ کتنے سارے درندہ نما انسانوں کو اپنا دشمن بنا لیا تھا۔
مرشد کی حیران اور پر سوچ نظروں کو اپنے چہرے پر نگران پا کر حجاب نے اسکی طرف سے نگاہیں ہٹا لیں۔ چند لمحے اسی طرح گزرے پھر مرشد کی قدرے کھوئی کھوئی سی آواز اسکی سماعت تک پہنچی۔
"ایسا ہونا تو نہیں چاہیے کیوں کہ میرے خلوص میں تو سچ میں کوئی کمی نہیں آپ کی عزت تو میرے دل کی گہرائیوں تک موجود ہے۔ آپ آپ سچ میں میرے لیے بے انتہاعزت کی جگہ ہیں۔ آپ کی عزت تو میرے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ یہ سب مصنوعی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے مجھے سلیقہ نہ ہو لیکن میں کوئی اداکاری نہیں کر رہا۔ یہ یہ کام تو مجھے آتا ہی نہیں ہے۔ آپ جیسا مرضی حلف لے لیں مجھ سے“اس کے بجھے بجھے لہجے میں
ایک بے نام سی بے چارگی، ایک مضطرب سی بے بسی کسمسائی۔ حجاب نے بات کسی اور تناظر میں کہی تھی اور مرشد نے کسی اور تناظر میں اسے محسوس کیا۔ وہ جلدی سے بولی۔
"نہیں, میرا یہ مطلب نہیں تھا میں تو میں تو "وہ”میں,تو” میں الجھ کر خاموش ہو رہی۔ اسے سخت دقت محسوس ہوئی کہ وہ کیسے اپنا مدعا اس شخص کو سمجھائے جو شائد جانتے بوجھتے ہوئے کچھ بھی نہیں سمجھنا چاہتا تھا ! کچھ دیر تک ان دونوں کے درمیان ایک منتظر سی خاموشی پھیلی رہی۔ حجاب سر جھکائے اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو نظر "لگاتی ” رہی اور مرشد اسکی نظریں حجاب کے روشن چہرے کا طوائف کرتی رہیں۔ والہانہ بے اختیارانہ
جب جب اسکی نگاہیں, اس روشن,اجلے چہرے کی طرف اٹھتی تھیں,یونہی بے خود ہونے لگتی تھیں۔یونہی واپس پلٹنا بھول جاتی تھیں۔ نجانے اس معصوم صورت سے یہ کیسا فسوں پھوٹتا تھا جو نگاہوں کے رستے جسم و جاں میں اترتا تھا اور اسے مبہوت کر جاتا تھا ! وہ,اسے نظر بھر کر دیکھنے سے کتراتا آیا تھا لیکن ان لمحوں میں اسکی نگاہیں جیسے بے خود ہو گئی تھیں۔ اس چہرے کے سحر نے اسے خود فراموشی کی کیفیت سے دوچار کر کے رکھ دیا تھا۔کچھ دیر اسی طرح گزری آخر مرشد نے سنبھالا لیا۔ ہونٹوں پر ایک از حد آسودہ مسکراہٹ اتری اور وہ انتہائی ملائم لہجے میں بولا۔
"آپ مسلسل بے آرامی کاٹ رہی ہیں۔ اگر اس بات کا کسی طرح آپ کی خالہ کو پتا چل گیا تو مجھے چھتر بھی پڑ سکتے ہیں۔ لہذا اب آپ آرام کریں کچھ دیر سو جائیں۔ ابھی کافی لمبا سفر کرنا ہے۔ نیند پوری کر لیں۔ میں بالکل دروازے کے سامنے اس کمرے میں بیٹھا ہوں۔ "
وہ دروازے کی طرف پلٹ گیا۔ حجاب بس اسے کمرے سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
پمپ ایکشن والا ڈشکرا اسی جگہ بینچ پر موجود تھا۔ مرشد ابھی راہدای میں ہی تھا کہ سامنے کمرے میں اسکی نظر خنجر پر پڑ گئی۔ وہ غالبا ً باہر کو آ رہا تھا۔ چہرے پر شدید سنسنی اور آنکھوں میں گہری تشویش۔ مرشد کو اسکی شکل دیکھتے ہی احساس ہو گیا کہ کوئی غیر معمولی بات ہے۔
"جگر! یہاں کچھ گڑبڑ ہے ہمارے ساتھ کوئی ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔” مرشد کے کمرے میں پاو�¿ں رکھتے ہی خنجر نے سرسراتی ہوئی آواز میں اسے مطلع کیا اور ساتھ ہی بغلی دیوار میں موجود کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے انداز سے ظاہر تھا کہ اس نے اسی کھڑکی میں سے کچھ دیکھا ہے۔ مرشد سیدھا کھڑکی ہی کی طرف بڑھ گیا۔
” لگتا ہے کہ اس لنکا میں سبھی راون ہیں۔”
خنجر اس کے پیچھے تھا۔ مرشد بغیر کچھ بولے کہے کھڑکی تک پہنچ گیا۔ اس کے سامنے کوٹھی کا عقبی حصہ تھا اور یہاں کچھ عجیب سی سرگرمی جاری تھی۔اس کی نگاہوں کے سامنے ایک اجاڑ اور برباد شدہ لان تھا۔ کوٹھی کی عقبی دیوار کے ساتھ ساتھ کچھ ٹنڈ منڈ جھاڑیاں تھیں,جھاڑہوں کے اختتام پر پلاسٹک
کی بوتلوں اور مرتبانوں کا ایک مہیب ڈھیر اس ڈھیر کی مخالف سمت میں,کوٹھی کی بغلی دیوار کی طرف ایک دو درخت تھے۔ نیم یا بکائن کے دیوار کے ساتھ بالکل کونے میں کھجور کا بھی ایک طویل قامت درخت موجود تھا۔
اسی جگہ دیوار کے سائے میں ایک چارپائی بچھی تھی ،جس پر ایک سیاہ پگڑی والا رائفل بردار بیٹھا تھا۔ اس رائفل بردار کے سامنے دس بارہ قدم کے فاصلے پر پودوں کی ایک متروک شدہ کیاری میں کھدائی کر کے ایک عارضی سی بھٹی بنائی گئی تھی جس میں اس وقت آگ دہک رہی تھی اور بھٹی کے اوپر تین عدد دھاتی گھڑونچیاں اوپر تلے دھری ہوئی تھیں تینوں بتدریج بڑے,درمیانے اور چھوٹے حجم کی حامل تھیں۔ قریب ہی ایک تپائی پر,بڑی سی پرات میں چاول بھگوئے رکھے تھے۔ دوسری طرف ٹنڈ منڈ جھاڑیوں کی چھوٹی سی ڈھیری دھری تھی۔ چند ایک اور چھوٹی موٹی اشیاءکے علاوہ وہاں دو افراد بھی موجود و مصروف تھے اور ان دونوں کی یہاں موجودگی اتنی ہی غیر متوقع اور حیران کن تھی کہ ان پر نظر پڑتے ہی مرشدبھی بری طرح چونک پڑا۔ حیرت و بے یقینی کی ایک تیز لہر اس کے سارے وجود میں دوڑتی چلی گئی۔ خنجر کی تشویش کی نوعیت فوراً ہی اپنی تمام تر جزیات سمیت اس پر منکشف ہو آئی تھی۔
*********