چوہدری کی آنکھوں اور چہرے پر درندگی تھی۔ خباثت تھی اور ہونٹوں پر ایک زہرخند سی سفاک مسکراہٹ۔
مرشد: قسط نمبر 03
اس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی تھی۔ مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے تھے۔ ذرا ہوش سنبھالا تو اس صبح شام رنگ بدلتے ماحول نے اس کے دل و دماغ پر عجیب متضاد اثرات مرتب کرنے شروع کردیئے۔ روشنیوں، رنگوں اور مسکراہٹوں سے چھلکتی یہاں کی راتیں بڑی زندہ اور بارونق ہوتی تھیں اور صبح جب وہ جاگتا توسارا طلسم کہیں غائب ہو چکا ہوتا۔
در و دیوار کے ساتھ ساتھ مکینوں پر بھی ایک نحوست زدہ سا اضمحلال اور مردنی چھائی ہوئی دکھائی دیتی۔ سبھی کے رویے انداز اور لہجے تک بدلے ہوئے ہوتے۔ اس کا معصوم ذہن یہ سب محسوس تو کرتا تھا مگر سمجھنے سے قاصر رہتا تھا کہ یہ سب کیا گورکھ دھندہ ہے۔
اپنے گھر اور ارد گرد کے تمام گھروں سمیت محلے بھر کی یہی حالت تھی… یہی معمول، یہی طور اطوار تھے۔ یہاں سبھی کی سبھی عورتیں باجیاں تھیں یا پھر خالائیں۔ ایک حسن آرا نامی پیاری سی عورت تھی۔ تھی تو وہ بھی باجی ہی مگر دوسری باجیوں سے بہت الگ… بہت مختلف سی تھی وہ۔ ہروقت اس کے لیے پریشان و فکرمند رہنے والی۔ اس کے نہانے دھونے ،پہننے، اوڑھنے، کھانے پینے، غرض کہ اس کے ہر معاملے اور ضرورت و کام کاخیال رکھنے والی۔
وہ اسے سلاتی بھی اپنے کمرے میں اپنے ساتھ ہی تھی۔
اکثر دروازہ بند کر کے وہ اسے کہا کرتی تھی کہ اکیلے میں، تنہائی میں تم مجھے اماں کہا کرو۔
اس لیے تم تنہائی میں مجھے اماں، امی یا ماں جی کہا کرو۔“ اور جب وہ اس کا کہا مانتے ہوئے اسے امی یا ماں جی کہا کرتا تو اس کے چہرے پر عجیب رنگ بکھر جایا کرتے۔
چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ اتر آتی۔ وہ نہال سی ہو کر اسے بازوﺅں میں بھر کر یوں اپنے سینے سے لگا لیا کرتی جیسے اسے اپنے جسم و جاں میں چھپا لینا چاہتی ہو۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اسے باقی تمام باجیوں اور خالاﺅں سے زیادہ اچھی، زیادہ پیاری لگا کرتی تھی۔ دوسری باجیاں یا خالائیں اسے ڈانٹتی ڈپٹتی بھی تھیں مگر باجی امی نے اسے کبھی نہیں ڈانٹاتھا۔ بلکہ جو کوئی اسے ڈانٹتا تھا باجی امی اس سے خفا ہو جایا کرتی تھی۔
عمر کے ساتھ ساتھ سمجھ بوجھ میں تھوڑا مزید اضافہ ہوا تو یہاں کے معمولات اور دوغلے ماحول کی حقیقت کا اسے کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا… ساتھ ہی اس کا ذہن ناگواری اور ناپسندیدگی کے احساسات سے بھی آشنا ہو آیا… ناگواری اور ناپسندیدگی کے یہی احساسات پکتے پکتے تلخی اور ضد میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔
فطری طور پر وہ حساس واقع ہوا تھا۔
باجی امی کے علاوہ باقی تقریباً سبھی کارویہ اور برتاﺅ اس کے ساتھ کچھ ایسا کرخت اور ہتک آمیز ہوتا تھا کہ وہ کم گو اور کم آمیز ہوتاچلاگیا۔ مزاج میں گہری سنجیدگی، ضد اور غصے کے عناصر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔ اس کا زیادہ تر وقت باجی امی کے کمرے میں گزرتا یا پھر محلے میں اسی جیسے اس کے دو دوست تھے، جن کے ساتھ وہ گھوم پھر لیت اتھا۔ ان دوستوں میں سے ایک کا نام ساون تھا اور دوسرے کا مراد۔ باقی یہاں کا ماحول اور لوگ اسے بالکل بھی پسند نہیں تھے۔
کوئی اسے شانی کہہ کر پکارتا، کوئی میرو تو کوئی شاہو کہتا… کوئی بھی درست طریقے سے اس کا نام نہیں لیتا تھا حالانکہ اس کا نام بہت خوبصورت تھا۔ خود اسے بھی اپنا نام اچھا لگتا تھا مگر باجی امی تک بھی اسے اس کے صحیح اور پورے نام سے مخاطب نہیں کرتی تھی۔ البتہ وہ انتہائی پیار اور محبت بھرے انداز میں اسے میر صاحب یا میر بابو کہا کرتی تھی اور یہ اندازِ تخاطب کم از کم اسے برا یا ناگوار نہیں گزرتا تھا۔
وہ شروع دن سے دیکھتا آیا تھا کہ باجی امی پابندی کے ساتھ پانچ دفعہ نماز پڑھا کرتی ہے۔ عموماً نماز کے دوران اور بعد میں جب وہ جائے نماز پر بیٹھی ہوتی تو اس کی آنکھوں سے خاموشی کے ساتھ آنسو بہتے رہتے جن کا شاید خود باجی امی کو بھی احساس نہیں ہوا کرتاتھا… اسی کی دیکھا دیکھی وہ خود بھی جائے نماز پرکھڑا ہونے لگ گیا اور پھر یونہی
غیر محسوس طریقے سے خود اسے بھی نماز کی عادت ہوتی چلی گئی۔
گلی محلے میں کھیل کے دوران لڑائی جھگڑا اور ہاتھا پائی تو ہو ہی جایا کرتی تھی لیکن ایک روز ایک ایسا واقعہ ہوگیا کہ جس سے پورا محلہ چونک اٹھا… اس دن پہلی دفعہ سب نے محسوس کیا کہ یہ بچہ یہاں کے باقی تمام بچوں سے مختلف ہے… بچوں سے لے کر بڑوں تک، سبھی کی نظر میں وہ ایک الگ امتیازی حیثیت اختیار کر گیا۔ وہ دن… وہ دن اس کی پہچان… اس کی شناخت طے کر گیا تھا!
اس وقت اس کی عمر صرف تیرہ چودہ برس تھی۔ وہ چھت سے مغرب کی نماز پڑھ کر اترا تھا کہ باجی شگفتہ نے بے وجہ ہی اس کی بے عزتی شروع کر دی۔ ا س نے احتجاجاً اعتراض اٹھایا تو بڑی خالہ نزہت جہاں نے آ کر اس کے منہ پر تھپڑ جمادیا۔ وہ باہر چاچے گوگے پان والے کے کھوکھے کے ساتھ تھڑے پر آ بیٹھا۔ موڈ بری طرح خراب تھا اور ایسے میں الیاسا چوئی آ کر اس پر جگت بازی کرنے لگ گیا۔ وہ پہلے ہی الیاسے سے چڑتا تھا… اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یا کھیلنا اس نے کبھی بھی پسند نہیں کیا تھا اور اس وقت تو وہ ویسے ہی غصے سے بھرا بیٹھا تھا، سو اس نے الیاسے کو بری طرح جھڑک کر رکھ دیا۔
ٹھیک اسی وقت تھوڑے ہی فاصلے پر آگے پیچھے تین لش پش کرتے تانگے آ کر رکے۔
چہل پہل اور گہما گہمی کی شروعات تھی۔ سبھی لوگ ان تانگوں کی طرف متوجہ ہو گئے، جن میں سے آگے والے تانگے پر رستم لہوری سوار تھا اور عقبی دونوں تانگوں پر اس کے ہٹے کٹی آٹھ دس چیلے۔ وہ نامی گرامی بدمعاش تھا اور وہاں موجود کم و بیش سارے ہی لوگ اسے بخوبی جانتے پہچانتے تھے۔
الیاسا چوئی اس کے جھاڑ پلانے پر ایک ذرا تو ٹھٹک کر اس کی صورت دیکھتا رہ گیا پھر اس نے اچانک اس کے منہ پر ایک چپت لگائی اور پلٹ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بڑی خالہ کے طمانچے سے دہکا ہوا اس کا گال کچھ اور سلگ اٹھا…
اس نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے جھپٹ کر ساتھ پڑے بوتلوں کے کریٹ سے ایک بوتل نکالی اور تانگوں کی طرف دوڑے جاتے الیاسے چوئی کی طرف کھینچ ماری… رستم لہوری تانگے سے اتر رہا تھا… الیاسا چوئی رخ بدلتا ہوا بوتل سے بچ نکلا اور بوتل رستم لہوری کے پاﺅں نیچے رکھتے ہی اس کے دونوں پیروں کے درمیان جا کر پختہ فرش سے ٹکرائی اور ایک چھناکے سے ٹوٹ کر رستم کے بے داغ سفید لاچے اور پیروں کو داغ دار کرتی ہوئی بکھر گئی… اردگرد یکایک ایک سکوت، ایک پرہول سی خاموشی اتر آئی۔
رستم لہوری نے جہاں پاﺅں دھرے تھے وہیں جم کر رہ گیا…
ایک لمحے کو تو جیسے سبھی کو سانپ سونگھ گیا۔ اگلے ہی پل بیسیوں حیران و پریشان نظریں اس کی طرف سرک گئیں… رستم لاہوری کے چیلے یکایک حرکت میں آئے اور اس کے سر پر پہنچ گئے۔ ایک دو تھپڑ اسے مزید پڑگئے۔ ایک ہٹے کٹے شخص کا ہاتھ اس نے تھاما تو دوسرے نے گالی دیتے ہوئے اس کی گدی میں ایک دھپ رسید کردی۔
” ادھر لاﺅ اس کارٹون کو“ اچانک رستم لاہوری کی گرجدار آواز بلند ہوئی تو وہ سب ٹھٹک گئے۔ فوراً ہی انہوں نے اسے دبوچ کر رستم لہوری کے سامنے جا کھڑا کیا اور خود سب پیچھے ہٹ گئے۔ چاروں طرف ایک سنسنی پھیل گئی تھی۔ سبھی اپنی اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔رستم کے چہرے کے تاثرات بڑے خراب تھے۔ اندھیرا ابھی پوری طرح نہیں چھایا تھا، البتہ گلی، کوٹھوں اور بالاخانوں کی تمام روشنیاں جل چکی تھیں۔ کچھ جھروکوں اور دروازوں سے بھی گھبرائی سہمی سی آنکھیں یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔
رستم لاہوری دونوں ہاتھ کولہوں پر جمائے چند لمحے تو کھڑا اسے گھورتا رہا پھر آنکھ سے پیروں کی طرف خفیف سا اشارہ کرتے ہوئے بھاری آواز میں بولا۔
”صاف کر۔“
اس نے رستم لہوری کے پیروں کی طرف دیکھا… اس کے پیروں میں کوہاٹی چپل تھی… چپل، پاﺅں اور اس کے خوبصورت سفید لاچے پر پانی اور مٹی کے چھینٹے تھے۔ پیروں کے اوپری حصوں پر کانچ کے ذرات کے ساتھ ساتھ چند ایک ننھے ننھے سے خون کے قطرے بھی چمک رہے تھے۔ اس نے نظریں اٹھا کر سامنے موجود اس بھاری بھرکم جن جیسے آدمی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ لاچے ہی کی طرح اس کا سفید کرتا بھی بے شکن اور اجلا تھا۔ چوڑے جبڑے، بڑی بڑی سیاہ مونچھیں اور انگاروں جیسی سرخ آنکھیں۔
”صاف کر… “ رستم نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سر کو اشارتاََ جنبش دی۔
”میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا… میں نے تو اسے… الیاسے کو بوتل ماری تھی۔“
اس نے گویا حکم کی تعمیل سے انکار کیا۔ رستم لہوری کی پیشانی پرشکنیں ابھر آئیں۔
”صاف کر۔“ وہ جیسے غرایا تھا۔
”جی! میں نے بتایا ہے کہ میں …“ اسکا جملہ اس کے منہ ہی میں جھنجھنا کر رہ گیا۔
رستم کے بھرپور تھپڑ نے اسے لڑکھڑا کردو قدم پیچھے ہٹا دیا تھا… ایک اور تھپڑ… گال میں پھر سے آتشیں لہر سرایت کر گئی… اس نے بے اختیار اپنے گال کو چھوتے ہوئے نفرت سے رستم لہوری کی طرف دیکھا تو رستم نے پھر سے اپنے پیروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
”صاف کر…“
وہ چند لمحے تو اپنی جگہ کھڑا رہا پھر دو قدم آگے بڑھ کر رستم کے سامنے بالکل تن کر کھڑا ہوگیا…گردن بالکل اکڑا کر، نفرت اور غصے سے بھری آنکھیں، اس کی آنکھوں میں گاڑ کر۔ یہ گویا خاموش چیلنج تھا کہ میں ایسا نہیں کرتا… تم ! میرا سر جھکا سکتے ہو تو جھکا لو۔“
رستم کے چہرے پر ایک ذرا بے یقینی اور ایک تھوڑی حیرت کے آثار نظر آئے اور فضا ایک اور تھپڑ سے گونج اٹھی… وہ دوبارہ لڑکھڑایا… اور پھر سے رستم کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
اس بار رستم لہوری نے اسے بغور گھورا…
اس کے چہرے پر ایک پرعزم سی چمک تھی اور آنکھوں میں ضد اور غصے کی آگ… رستم نے پھر اس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا اور وہ لڑکھڑانے کے بعد پھر آگے بڑھ آیا۔
رستم کے چیلے خاموش نظروں سے ایک دوسرے کی صورتیں تکنے لگے… جھروکوں اوردروازوں میں ہاتھ بے اختیار کھل آنے والے ہونٹوں پر آ جمے… اردگرد موجود لوگوں اور دکان داروں کی آنکھیں بھی جیسے آپس میں سرگوشیاں کرنے لگی تھیں۔
پھر سے ”چٹاخ“ کی آواز بلند ہوئی اور وہ پھر سے دو قدم آگے بڑھ آیا۔ رستم لہوری کا غصہ حیرت و بے یقینی میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔!
یہ کہنا کوئی ایسا غلط نہیں ہو گا کہ پورے لاہور میں اس کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ اچھے اچھے بدمعاش اور پہلوان اس کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے۔ اور تو اور پولیس ملازمین بھی اس کے نام سے گھبراتے تھے۔ خود اسے اپنی شخصیت کے رعب داعب کا بڑا گھمنڈ تھا اور آج … آج ایک معمولی سا چھوکرا سر بازار اس کی شخصیت کا کچرا کیے جا رہا تھا۔!
اس نے ایک اور تھپڑ مارا تو اسے اپنا ہاتھ سنسناتا ہوا محسوس ہوا۔
لڑکے نے منہ میں بھر آنے والا خون حقارت سے ایک طرف تھوکا اور پھر سے رستم کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی شعلے اگلتی آنکھیں مسلسل رستم کی آنکھوں میں گڑی ہوئی تھیں۔ اس بار رستم ایک ذرا اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا پھر اس نے الٹے ہاتھ سے اس چھوکرے کے دوسرے گال پر تھپڑ رسید کر دیا… اس کے منہ سے نکلتے خون کو دیکھ کر شاید رستم کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اندر سے اس کا گال پھٹ چکا ہے۔ ساتھ ہی رستم کا ذہن برق رفتاری سے اس چھوکرے کے متعلق فیصلہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔
یقینی بات تھی کہ وہ تھا تو کوئی طوائف زادہ ہی لیکن اس کے نین نقش، روپ، اس کے رنگ ڈھنگ اور تیور… یہ سب شاہوں اور سرداروں والا تھا۔ اس کے اندر یقینا ایک غیر معمولی روح تھی اور وہ خود کسی غیر معمولی انسان کی بازگشت… رستم نے دیکھا کہ اگر اندر سے اس کا گال پھٹا تھا تو اسی طرف…بھنو کے نیچے سے بھی خون رسنا شروع ہو آیا تھا لیکن وہ چھوکرا… وہ پھر اس کے روبرو اسی طرح اکڑ کر سر اٹھائے کھڑا تھا۔
اس بار رستم اسے تھپڑ مارتے ہوئے قدرے متذبذب تھا… چھوکرا دوبارہ آگے بڑھنا چاہتا تھا کہ اچانک ایک عورت دائیں طرف سے بھاگتی ہوئی آئی اور اس چھوکرے سے لپٹ گئی۔
”مت مارو ، مت مارو اسے۔ بچہ ہے… اس کا اور تمہارا بھلا کیا جوڑ، کیامقابلہ۔ معاف کر دو اسے۔“
رستم لہوری کو تو یہاں کے سبھی مکین جانتے تھے البتہ وہ زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا تھا کیونکہ وہ کوٹھوں اور طوائفوں میں دلچسپی رکھنے والا بندہ نہیں تھا۔ آج بھی وہ ادھر آیا تو کسی اور کام سے تھا لیکن یہاں پہنچتے ہی یہ تماشا بن کھڑا ہوا تھا۔ وہ زیادہ تر لوگوں کو نہیں جانتا تھا مگر جن چند ایک کو جانتا یا پہچانتا تھا حسن آرا بھی ان ہی میں سے تھی۔ اس کی اس طرح مداخلت، چہرے کی گھبراہٹ اور لہجے کی تڑپ سے صاف ظاہر تھا کہ یہ چھوکرا اسی کا لخت جگر ہے۔
”کیا… کیا غلطی کی ہے اس نے… کیا کیا ہے؟“
حسن آرا نے فوراً اسے بازو سے پکڑ کر ایک طرف کھینچ لیا۔ بیٹے کے خون آلود ہونٹ اور زخمی رخسار دیکھ کر اس کے ہونٹوں سے بے اختیار ایک سسکاری سی نکلی۔ آنکھوں میں فوراً ہی آنسو تیر گئے۔ اردگرد بیسیوں افراد موجود تھے پھر بھی ایک سناٹے کا عالم تھا۔ رستم کے چیلے بھی اپنی اپنی جگہ حیران و پریشان سے خاموش کھڑے تھے۔
”ہائے میرے اللہ! “ حسن آرا جیسے روہانسے اندز میں کراہی تھی…” ایک بچے کو کتنی بے دردی سے پیٹا ہے… اپنی بہادری اور طاقت ثابت کرنے کے لیے اس معصوم کی جان لے لو گے کیا؟ معاف کردو اسے۔ اس کی… اس کی طرف سے میں معافی مانگتی ہوں تم سے۔“ حسن آرا نے باقاعدہ رستم لہوری کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے… چھوکرے نے فوراً اس کے ہاتھ تھام کرسینے سے لگالیے۔ وہ منہ سے کچھ نہیں بولا، البتہ اپنی آنچ دیتی آنکھوں سے برابر رستم کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
رستم تھا کہ اس نے تانگے سے اترتے ہوئے جہاں پاﺅں رکھے تھے، ہنوز وہیں جما کھڑا تھا۔
چند لمحے وہ چپ چاپ کھڑا یک ٹک اس چھوکرے کو تکتا رہا پھر اس نے رخ بدلا اور تانگے پر سوار ہوگیا۔ اس کے چیلوں نے اس کی تقلید کی اور تینوں تانگے واپس روانہ ہوگئے۔
فوراً ہی یہ پورا واقع سرسراتا ہوا سارے محلے میں پھیل گیا۔ حسن آرا اسے اپنے کمرے میں لے آئی۔ وہ مسلسل آنسو بہاتی رہی اور اس کے منہ… اس کے چہرے کی ٹکوریں کرتی رہی۔ کوٹھے کی روایات اور مصروفیات سے تو وہ گزشتہ کئی سالوں سے کٹی ہوئی تھی۔ بس کبھی کبھار کسی گیت غزل کی حد تک وہ صاحبِ ذوق مہمانوں کی تسکین کا کچھ سامان کر دیا کرتی ورنہ زیادہ تر تو بیمار ہی رہتی تھی… تقریباً اپنے کمرے تک محدود ہو چکی تھی وہ۔
اس تکلیف دہ واقعہ کے بعد رات گئے جب بازار کی رونقیں اپنے شباب کے عروج پر پہنچی ہوئی تھیں۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہی تینوں تانگے ایک بار پھر بازار میں داخل ہوئے اور سیدھے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے کے سامنے جا رکے۔ رستم اور اس کے بندے تانگوں سے اتر کر تیزی سے اوپر جاتے زینوں کی طرف بڑھے تو ایک ذرا تو دیکھنے والی آنکھوں پر سکتے کی سی کیفیت اتر آئی۔ رستم لہوری کی دوبارہ آمد کی خبر، سنسنی خیز سرگوشیوں کی صورت چاروں طرف دوڑ گئی۔
حسن آرا اس وقت اس کا سر اپنی گود میں رکھے ہولے ہولے سے اس کاسر دبا رہی تھی اور بار بار اپنے رخساروں پر بہہ آنے والے آنسو پونچھ رہی تھی۔ اس کاسر دوپٹے میں بندھا ہوا تھا۔ حسن آرا نے دوگولیاں بھی کھلادی تھیں پھر بھی درد میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ وہ ماں کی گود میں سر رکھے، آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا۔ ہال میں محفل اپنے جوبن پر تھی کہ اچانک ساز خاموش ہو گئے۔
آوازیں تھم گئیں۔
باہر ایک ہلچل، ایک افراتفری سی محسوس ہوئی اور چند ہی لمحوں بعد رستم لہوری دروازہ کھولتا ہوا کمرے کے اندر آن کھڑا ہوا۔
اس کے جسم پر وہی سفید کرتا اور داغ دار لاچاتھا۔ چہرے پر گہری سنجیدگی اور آنکھوں میں ایک عجیب سا اضطراب… حسن آرا کا دل دھک سے رہ گیا، وہ بھی رستم کے اس طرح اندر داخل ہونے پر ایک جھٹکے سے اٹھا اور پلنگ سے نیچے اتر کھڑا ہوا۔ سر پر بندھا ہوا دوپٹہ اس نے فوراً ہی اتار کر پلنگ پر اچھال دیا تھا۔
رستم چند لمحے اس کی صورت تکتا رہا۔ چھوکرے کا منہ سوجا ہوا تھا۔ تھپڑوں کی وجہ سے اس کا ایک گال تو پوری طرح سیاہی مائل نیلاہٹ اختیار کیے ہوئے تھا اور دوسرے گال پر بھی انگلیوں کے نشان واضح تھے۔ لیکن اس کے تیور اب بھی وہی تھے۔ اس کے چہرے یا آنکھوں میں رستم کو کسی ڈر خوف یا گھبراہٹ کی پرچھائیں تک نظر نہیں آ رہی تھی۔
رستم اس کی طرف بڑھا تو حسن آرا فوراً اسے ایک طرف ہٹاتے ہوئے خود سامنے آ کھڑی ہوئی۔
”رستم! یہ ناسمجھ بچہ ہے۔ میں نے پوچھا ہے۔ وہ… وہ ایک اتفاقیا غلطی ہوئی ہے اس سے۔ اور… اور پھر تم اچھی خاصی سزا بھی دے چکے ہو اسے۔ خدا کے لیے اب اسے کچھ مت کہو۔“
حسن آرا کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔ رخساروں پر آنسو پھسل رہے تھے۔ کمرے کے باہر سے کچھ ایسی آوازیں سنائی دیں جیسے نزہت بیگم اندر آنا چاہ رہی ہو لیکن غالباً دروازے کے باہر موجود رستم کے بندوں نے اسے وہیں روک لیا تھا۔ رستم رک کرحسن آرا کی صورت دیکھنے لگا۔ پھر اس کی آنکھیں اس کے برابر کھڑے اس چھوکرے پر آ ٹکیں جو، اب بھی کڑی نظروں سے اسے گھور رہاتھا…
وہ چند لمحے اپنی جگہ خاموش کھڑا رہا۔ اس کے چہرے پر عجیب کشمکش کی دھوپ چھاﺅں سی پھیلی ہوئی تھی۔ جیسے فیصلہ نا کر پا رہا ہو… یا پھر کچھ کہنے کے لیے مناسب الفاظ سوچ رہا ہو پھر وہ ایک گہرا سانس چھوڑتے ہوئے متحمل انداز میں بولا۔
”بائی جی! مجھے افسوس ہے کہ میری طرف سے اس چھوکرے کے ساتھ زیادتی ہوگئی … اس وقت میں اسے کوئی سزا دینے نہیں بلکہ اس سے معافی مانگنے آیا ہوں۔“
حسن آرا کوجیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
”بندہ بندہ جانتا ہے کہ رستم لہوری نے کبھی کسی سے ناحق زیادتی نہیں کی۔“ وہ کھڑا بول رہا تھا۔ ”اس حوالے سے کوئی رستم پر انگلی نہیں اٹھاسکتا… مگر آج شام جو ہوا، اس نے مجھے میری ہی نظروں میں شرمندہ کر دیا ہے۔ بس کیا کروں… کھوپڑی بڑی جلدی گرم ہو جاتی ہے میری۔ غصہ آ گیا تھا سو زیادتی کر گیا چھوکرے کے ساتھ۔ لیکن رب سوہنا جانتا ہے کہ یہ تین چار گھنٹے کیسی کرب ناک بے چینی میں گزرے ہیں میرے۔… اس وقت سے اب تک پانی کا گھونٹ تک حلق سے نہیں ترا۔ بس اسی لیے اٹھ کر چلا آیا کہ جب تک اپنی اس زیادتی کی تلافی نہیں کر لوں گا دل و دماغ کا بوجھ کم نہیں ہو گا!“
حسن آرا کے چہرے پر ایک پراطمینان سی حیرت اتر آئی۔ رستم کا لہجہ اور چہرہ اس کے کہے کی تائید کر رہا تھا۔ آج پہلی بار حسن آرا کو یقین آیا کہ رستم لہوری کے متعلق جو قصے مشہور ہیں وہ سچ ہوں گے۔ اسکے برابر کھڑے اس کے لخت جگر کے تاثرات بھی نرم پڑگئے… آنکھوں میں دہکتی آگ کی تپش بھی مدھم پڑ گئی تھی۔ رستم دھیمے قدموں سے آگے بڑھ کر اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
”کیوں شہزادے… تیرا کیا خیال ہے؟ غلطیاں تو سبھی سے ہوتی ہیں۔ بچوں سے بھی، بڑوں سے بھی… غلطی مان لینے والے کو معاف کر دینا چاہیے یا نہیں؟“ وہ جو اب تک براہ راست اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا‘ اس نے نظریں جھکالیں۔ اسے محسوس ہوا کہ یہ وہ بددماغ اور ظالم شخص نہیں ہے جو چند گھنٹے پہلے جبراً اسے اپنے قدموں میں جھکانا چاہ رہا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی تھا… یہ شخص تو اس کے سامنے خود جھکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
اس کے چہرے کے تاثرات فوراً ہی اعتدال پر آ گئے۔
رستم نے پاﺅں کی مدد سے ایک طرف پڑی تپائی کو گھسیٹ کر قریب کیا اور تپائی پر بیٹھتے ہوئے اس نے چھوکرے کو بھی بازو سے پکڑ کر نرمی سے اپنے قریب ہی پلنگ پر بٹھا لیا۔ حسن آرا اپنے آنسو پونچھتی اور دوپٹہ سنبھالتی ہوئی پلنگ کے دوسرے کونے پر بیٹھ گئی تھی۔
”چل شہزادے! اب ناراضگی ختم کر یا پھر جس طرح چاہے اپنا غصہ نکال لے۔ میں تیرے سامنے بیٹھا ہوں۔“
”آپ نے غصے ناراضگی کی گنجائش ہی ختم کردی ہے۔ اب کیا غصہ دکھاﺅں؟“
اس کے پر سکون انداز پر رستم کا چہرہ کھل اٹھا۔
”اگر یہ بات ہے تو پھر ملا رستم سے ہاتھ۔“
اس نے ایک نظر رستم کے آگے بڑھے مضبوط اور چوڑے ہاتھ پر ڈالی پھر نظریں اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
”ہاتھ ملانے کا مطلب؟“ اس کے سوال پر رستم مسکراتے ہوئے بولا۔
”ہاتھ ملانے کا مطلب … ہاتھ ملانے کامطلب ہوا کہ ہماری آپس میں کوئی رنجش نہیں، ہم دوست ہیں۔“
”دوست…“ وہ خود کلامی کے سے انداز میں بڑبڑایا۔
”ہاں دوست…اور رستم دوستی کامطلب خوب جانتا ہے۔“
شہزادہ چند لمحے اس کی صورت دیکھتا رہا پھر اس نے اپنا ہاتھ رستم کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
”او خیر میرے شہزادے کی… دل خوش کر دیا تو نے قسم سے ورنہ آج تو رستم لہوری سو بھی نہ پاتا۔“ رستم نے کہا پھر دروازے کی طرف دیکھ کر قدرے بلند آواز میں بولا۔
”اوئے نصیرے …دلاور! منہ مٹھا کراﺅ اوئے! ہماری دوستی ہو گئی ہے۔“
اس کی آواز پر فوراً ہی دوبندے اندر داخل ہوئے۔ دونوں ہی سامان سے لدے پھندے تھے۔ انہوں نے آتے ہی رنگ برنگے شاپر رستم کے سامنے رکھ دیئے۔ کچھ سامان پلنگ پر رکھ دیاگیا۔ ایک نے مٹھائی کاڈبہ کھول کر رستم کے سامنے کیا تو ودسرے نے ایک شاپر سے کانچ کے گلاس نکالے اور ایک تھیلے سے ڈرم نما تھرماس برآمد کر لیا۔
رستم نے ڈبے سے برفی کاایک ٹکڑا اٹھایا اور شہزادے کے ہونٹوں کی طرف بڑھایا۔
”لے رستم کی جان! اپنی دوستی کی خوشی میں منہ مٹھا کر۔“
اس نے حیران نظروں سے ان رنگ برنگے شاپروں کی طرف دیکھتے ہوئے برفی کا وہ ٹکڑا رستم کے ہاتھ سے لے لیا۔ رستم نے ایک ٹکڑا اپنے لیے اٹھایا اور اس کی آنکھ کا اشارہ سمجھتے ہوئے اس کابندہ مٹھائی کا ڈبہ حسن آرا کے ہاتھوں میں تھما کر خاموشی سے باہر نکل گیا۔
”یہ… یہ سب کیا ہے؟“حسن آراء نے متحیرانہ انداز میں سوال کیا تھا۔
”یہ میرا دوستانہ خلوص ہے… اپنے شہزادے کے لیے۔“
دوسرے بندے نے تھرماس سے دودھ کا گلاس بھر کر رستم کو تھمایا اور پھر وہ بھی الٹے قدموں باہر نکل گیا۔
”لے میری جان! یہ ہلدی ملا دودھ پی… غٹاغٹ چڑھا جا۔“ رستم نے گلاس اسے تھمایا اور ایک بڑا سا شاپر اٹھا کر اس کے برابر پلنگ پر الٹ دیا۔ پلنگ پر فروٹ کا ڈھیر سا لگ گیاتھا۔
”یہ سارا فروٹ تو نے اکیلے نے کھانا ہے… سمجھا۔“ رستم نے اس کے بالوں میں انگلیاں ہلاتے ہوئے کہا اور ایک سیب خود اٹھا لیا۔ دونوں ماں بیٹا حیران نظروں سے کبھی سامان کے اس ڈھیر کو دیکھنے لگتے اور کبھی رستم کی صورت… وہ واقعی کھلے دل کا ایک کمال بندہ ثابت ہوا تھا۔اپنی زیادتی کا اسے احساس ہوا تھا تو اس نے آ کر برملا اپنی غلطی تسلیم کر لی تھی اور اپنے طریقے سے اپنی زیادتی کی تلافی کی بھرپور کوشش بھی… وہ دس پندرہ منٹ مزید بیٹھا شہزادے سے باتیں کرتا رہا پھر اجازت لیتا ہوا اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا لیکن دروازے کے قریب پہنچ کر ٹھٹک کر رک گیا۔
”لو… یہ تو مجھے خیال ہی نہیں آیا۔“ اس نے اپنی گدی میں ایک چپت رسید کی اور پلٹ کر دوبارہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
”اتنی باتیں بھی ہوگئیں۔ دوستی بھی ہو گئی، مگر میں اپنے اس چھوٹے دوست کا نام پوچھنا بھول ہی گیا۔“ اس کے چہرے پرمسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
شہزادے نے ایک نظر ماں کی طرف دیکھا۔ پھر رستم کی طرف متوجہ ہوا۔
”شانی… میرو …شاہو۔“
”ہائیں…..“ رستم نے نا سمجھنے والے انداز میں پلکیں جھپکائیں۔ ”یہ کیسا نام ہے بھئی! مجھے سمجھ نہیں آئی۔“
”کوئی مجھے شانی کہتا ہے، کوئی میرو تو کوئی شاہو، آپ کا جو دل چاہے کہہ لیں۔“
اس کے جواب پر رستم کے چہرے پر سنجیدگی اتر آئی… وہ دوبارہ اس کے سامنے تپائی پر بیٹھ گیا۔
دیکھ شہزادے! “ رستم نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ٹھہرے ٹھہرے انداز میں کہنا شروع کیا۔”
تجھے کچھ اندازہ ہے کہ رستم لہوری کیوں چل کر تیرے پاس آیا ہے ؟“
وہ چپ چا پ سوالیہ نظروں سے اس کی صورت دیکھتا رہا تو رستم خود ہی بولا۔
”میں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے… شیطانوں سے تو واسطہ رہتا ہی ہے۔ رحمان کے بندوں کی صحبت بھی پائی ہے۔ لوگوں اور دنیا کو بہت قریب سے دیکھتا آیا ہوں میں۔ شام کو تجھ سے سامنا ہوا… دیکھا تجھے… تیری آنکھوں کی آگ اور تیرے اندر کی آزاد روح کو محسوس کیا ہے میں نے۔ تو بھی اپنے اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کرنا۔ یہاں کے دوسرے چھوکروں کی طرح زندگی نہیں گزارنی تو نے… تُو… تیرا اصل کچھ اور ہے… اسے پہچان اور ہمیشہ اس کی حفاطت کرتے رہنا… میری بات سمجھ رہا ہے نا؟“
رستم کے تائید طلب انداز پر اس نے اثبات میں آہستہ سے سر ہلایا۔ اس کی سوچتی ہوئی سی آنکھیں رستم کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں… رستم کی یہ باتیں حسن آرا کے ذہن میں ایک دریچہ وا کر گئیں… ایک پر رعب اور باوقار چہرہ اس کی آنکھوں میں لہرایا۔ دل میں ایک ٹیس سی تڑپی اور دو خاموش آنسو اس کے رخساروں پر لڑھک آئے…
”چل پھر اب بتا… کیا نام ہے تیرا؟“ رستم کے سوال پر اس کے ہونٹوں کوجنبش ہوئی۔
”میر شاہ نواز ارشد۔“
”واہ بھئی! میر…شاہ نواز“ رستم کے چہرے پر واضح پسندیدگی کا تاثر ابھر آیا…اس نے ایک نظر حسن آرا پر ڈالی اور دوبارہ شاہ نواز کی طرف دیکھنے لگا۔
”شاہ کا نوازا ہوا سردار… نوازے ہوﺅں کا سردار…“ میر شاہ نواز ارشد…“ بڑا سوہنا نام ہے تیرا تو شہزادے! پھر بھلا یہ شانی، میرو اور شاہو کیوں؟“
”بس جس کا جو دل چاہتا ہے وہ ویسے ہی بلاتا ہے۔“
”اور تیرا دل … تیرا دل کچھ نہیں چاہتا… تجھے یہ شانی ‘میرو اور شاہو کہلوانا اچھا لگتا ہے کیا؟“
”نہیں تو…“ اس نے بے ساختہ کہا تھا۔
”تو بس پھر… آج کے بعد شانی، میرو اور شاہو کہنے والوں کی کوئی بات مت سننا، ماننا… سب سے پہلا اور بنیادی کام ہی یہ ہے… اپنے نام کی حفاظت… اپنا نام منوا شاہ نواز… اپنا نام خود بتا سب کو۔“ رستم نے اس کی پیشانی چومی۔
”اب میں چلتا ہوں۔
میری دو باتیں، اگر دل مانے تو ان پر ضرور عمل کرنا۔ پہلی یہ کہ تجھے اپنی پہچان، اپنی شناخت خود بنانی ہے اور دوسری … اپنی زندگی کا ہر چھوٹا بڑا فیصلہ ہمیشہ خود کرنا… راب راکھا۔“
رستم لہوری نے اس کا کندھا تھپتھپایا او رپھر بغیر رکے کمرے سے نکلتا چلاگیا… وہ چلا گیا لیکن اس لڑکے شاہ نواز کی سوچوں کو ایک مخصوص رخ دے گیا… ایک ایسا رخ جو اس کے مزاج … اس کی شخصیت… اس کی آئندہ شناخت کی باقاعدہ سمت طے کر دینے کاباعث بن گیا۔
☆ ☆ ☆
قسط کا بقیہ حصہ نیچے، صفحہ نمبر 2 پر ملاحظہ کریں۔