مرشد (عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر27

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
murshid best urdu novel, novel romantic, social , action and adventure
Murshid Urdu Novel

بے چینی تو اسے تھی۔ فکرمندی تھی۔ حجاب کی جسمانی چوٹیں اور زخم سنگین یا تشویش ناک نہیں تھے البتہ اس کے روحانی زخم، روحانی چوٹیں ب�±ہت شدید اور گہری تھیں م�±رشد کو گویا وہ لاسیں،وہ نیل بھی دکھائی دے رہے تھے جو حجاب کے جسم پر نہیں، ا�±س کے قلب و روح پر نقش تھے۔ م�±رشد کو ا�±س کی جسمانی حالت سے زیادہ ا�±س کی ذہنی و جذباتی حالت کی طرف سے فکر تھی۔ رستم کی واپسی کوئی ڈھائی تین گھنٹے بعد ہوئی۔ ارباب بھی ا�±س کے ساتھہی تھا۔ ارباب کے علاوہ وقاص نامی ایک نوجوان ڈاکٹر بھی تھا جسے ایک نظر دیکھتے ہی مرشد کو معلوم ہوگیا کہ یہ جوان بستی شاہ پور کے بلوچوں ہی میں سے ایک ہے۔ ا�±س نے محمود الحسن کی جگہ چارج سنبھال لیا اور محمود الحسن چلا گیا۔ رستم دوبارہ پلنگ پر ٹک گیا اور ارباب م�±رشد کا حال احوال پوچھتا ہوا کرسی گھسیٹ کر پلنگ کے قریب ہوبیٹھا۔
” میں سمجھتا ہوں جوان کے تمہیں حالات کا پورا پورا اندازہ ہے۔اس لیے مجھے شرمندگی کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں کہ کل سے اب تک تمہاری عیادت کرنے کا وقت کیوں نہیں نکال پایا۔”وہ سیدھے صاف سے انداز میں م�±رشد سے مخاطب ہوا تھا۔
"وضاحت کی بھی ضرورت نہیں۔ یقیناً اور ب�±ہت اہم اور ضروری کام درپیش ہونگے۔”
"ہاں! بالکل۔ ب�±ہت سے کام اور معاملات تو تمھاری ہی ذات کے متعلق ہیں۔ تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کی ذات کے۔ تم! اور تمھارے ساتھی ہمارے لیے غیر ضروری یا غیر اہم نہیں ہو، بلکہ تم تو ہمارے بستی شاہ پور کے تمام بلوچوں کے محسن ہو۔ تم نے بی بی جی کے لیے جو کچھ بھی کیا وہ شاہ پور کے بچے بچے پر تمہارا احسان ہے۔ افسوس! کہ ہم لوگ ابھی تک حق ادا نہیں کر پائے۔”
” اب یہ کچھ زیادہ ہورہاہے۔ میں نے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا، سرکار کے گھرانے کی حفاظت،خدمت تو دین،ایمان کا حصہ ہے۔ میں تو بس اپنا ایمان سنبھالتا پھر رہا ہوں۔ اپنے ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش اور بس!!”
رستم بولا: "ارباب خان! یہ تو رب تعالیٰ کا ہم گنہگاروں پر احسان ہے کہ بی بی جی کو با حفاظت ان کے اپنوں تک پ�±ہنچانے کے لیے ا�±س نے ہمیں ذریعہ بنایا۔ شاید اس سے ہماری آخرت کی سختی کم ہوجائے۔”
“ویسے سرکار اب کیسی ہیں؟” م�±رشد نے سوال کیا۔
“اللہ کا شکر ہے۔ ٹھیک ہیں۔ صدمے اور دہشت کا اثر ہے۔ شام تک بڑے شاہ جی بھی پ�±ہنچ رہے ہیں۔ ا�±ن کے ساتھ جب اپنوں میں پ�±ہنچ جائینگی تو جلدی سنبھل جائینگی۔”
“ابھی ا�±ن کے ساتھ کون ہے؟ کون کون پ�±ہنچا ہے؟”
“زریون شاہ جی اور ا�±ن کے تایا تائی وہ کل ہی پ�±ہنچ آئے تھے،لاہور سے۔ آ تو بلوچستان والوں نے بھی جانا تھا لیکن ا�±دھر راستہ بلاک تھا۔ ابھی صفائی کا کام شروع ہے۔ شام تک آجائیں گے وہ بھی۔”
م�±رشد ایک گہری سانس لیتے ہوئے رستم سے مخاطب ہوا۔
“یعنی مطلب یہ کہ میرا یہ سفر منزل پر پ�±ہنچنے سے پہلے ہی مکمل ہوگیا!”
"خدا جانتا ہے کہ تم نے سفر اور کوشش کا حق ادا کردیا,سو اب منزل خود سمٹ کر قریب آرہی ہے۔” رستم مسکرا یا۔
ارباب بولا:“ میں سوچتا رہا ہوں کہ اگر ہمیں ملتان ہی میں اس سارے معاملے کا پتا چل جاتا تو شاید صورتِ حال مختلف ہوتی۔ تمہیں اتنی مشکلوں اور تکلیفوں سے نہیں گزرنا پڑتا۔”
“افسوس ان مشکلوں،تکلیفوں کی عمر ب�±ہت چھوٹی ثابت ہوئی۔”
“تمہارے جذبوں اور حوصلوں کو سلام ہے جوان!”اس نے خلوص دل سے کہا۔“تم نے محاورتاً نہیں۔ حقیقتاً آگ اور خون کا سفر طے کیا ہے یہاں تک پہنچنے میں اتنے دشمنوں کے ساتھ قدم قدم ٹکراو�¿ اور دشمنوں کے دانت کھٹے کر کے زندہ سلامت یہاں تک پہنچنا بھی نا ممکن تھا۔ یہ تمہارا ہی کام ہے۔” ا�±س نے آہستہ سے م�±رشد کا کندھا تھپکا۔
رستم بولا: ” یہاں تک کے سفر میں کج نہ قابلِ تلافی نقصان بھی شامل ہے۔ چند ساتھی ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکے، بس دل کو یہ تسلی ہے کہ ا�±ن کی زندگیاں ضائع نہیں گئیں۔ وہ مرے نہیں، شہید ہوئے ہیں۔”
م�±رشد کے ذہن میں فوراً مراد،شبیر، جعفر اور اکو کے علاوہ بھی کتنے ہی ساتھیوں کے سراپے لہرا گئے۔ ان میں قریبی دوستوں کے علاوہ بھی کئی ساتھی شامل تھے۔
بات مرنے والوں کی طرف آئی تو بلوچوں کے علاوہ ملک سجاول کے بندوں کا بھی ذکر آیا، جو باسط سیال کے ڈیرے پر قتل ہوئے تھے۔ سجّے بلوچ اور بشارت کا تذکرہ بھی ہوا۔ پھر بات آگئی ملنگی گروپ اور ملنگی کی طرف۔ ارباب نے بتایا کہ ملنگی کو دو گولیاں لگی ہیں۔ ایک ران میں اور ایک کندھے میں۔ فی الحال ان تینوں کی معمولی مرہم پٹی کے بعد انہیں حویلی کے ایک تہہ خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔منصب کو صبح سویرے ملتان جانا پڑا تھا۔ جانا ضروری تھا سو ا�±س کی واپسی تک ملنگی اور اس کے دونوں ساتھیوں کا انجام ا�±دھار پر رکھا گیا تھا۔
“ارباب صاحب! میری ایک درخواست ہے۔ آپ سے بھی اور آپ ہی ملک منصب تک بھی پ�±ہنچا دینا۔”اس کے مخاطب کرنے پر ارباب فوراً بولا۔ ” ہاں! کیوں نہیں، ضرور کہو؟”
“ملنگی کو آزاد کردیں چھوڑ دیں ا�±سے!”ارباب کو اس کی یہ درخواست،یہ فرمائش سن کر حیرت کا جھٹکا لگا۔ ا�±س نے بے یقینی سے باری باری ان دونوں کی طرف دیکھا۔
“ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ ملنگی تمھارا بدترین دشمن ہے۔ اس کی گولی سے تمہیں لگا گھاو�¿ ابھی تک پوری طرح ٹھیک نہیں ہوا۔ تمھارے چند ایک ساتھیوں کا خون بھی اسی کے سر ہے۔ اسی کی وجہ سے ابھی پانچ چھ گھنٹے پہلے ہمارے تین بندے موت کا شکار ہوئے ہیں۔ اسے بھلا کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس کی موت یقینی ہے۔ بس اصول اور قاعدے کے مطابق قبیلے کے سردار، یعنی ملک منصب نے یہ فیصلہ سنانا ہے اس کے بعد ان تینوں کا قصہ ختم!”
“نہیں!” م�±رشد نے پر زور انداز میں سر کو نفی میں حرکت دی۔
“ملنگی کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ آپ لوگ جو جی چاہے کریں مگر ملنگی کو شامل نہیں کریں۔۔ ملنگی اور چوہدری فرزند ان دونوں کو آپ اور آپ کے لوگوں کی طرف سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ یہ آپ کا مجھ پر احسان ہوگا۔”
رستم بولا:۔ ” یہ دونوں پہلے سے ہمارے دشمن ہیں۔ ذاتی دشمن ان کا حساب م�±رشد خود کریگا۔”
“ چوہدری تو کسی موری میں چھپ بیٹھا ہے۔ پتا نہیں کب باہر نکلے۔ ملنگی نے خود اپنی جان سے دشمنی کی ہے جو مرنے چلا آیا۔ ابھی زندہ ہے مگر میں کچھ کہہ نہیں سکتا فیصلہ منصب ہی نے کرنا ہے اور وہ جو بھی فیصلہ کرے، ا�±س کے فیصلے ہی کوشاہ پور میں قانون مانا جاتا ہے۔” ارباب نے سنجیدگی سے کہا تو م�±رشد بولا :-
” پھر ملک منصب کو بلائیں یا مجھے ا�±س کے پاس لے چلیں۔ میں براہ راست ا�±سی سی بات کر لیتا ہوں۔”
“میں نے بتایا ہے کہ ا�±سے ملتان جانا پڑا ہے۔”
“تو جیسے ہی واپسی ہو میری ملاقات کرا دیں۔ میں نے جو درخواست کی ہے، آپ شاید اسکی اہمیت اور شدت کا اندازہ نہیں کر سکتے۔” 
ایک ذرا گہری خاموشی کے بعد ارباب بولا:- 
“ٹھیک ہے۔ میں منصب تک پیغام پہنچا دوں گا۔ ضروری ٹھہرا تو شام میں ملاقات بھی ہوجائیگی۔ مزید کچھ؟”
“ہاں! مزید یہ کہ ان دونوں، چوہدری اور ملنگی کو، نوبت پڑ جانے پر تحفظ بھی فراہم کیا جائے۔ یہ دونوں پولیس کی حراست میں بھی نا ہی جائیں تو اچھا ہے۔”
“یہ دونوں صرف تمہارے ہی دشمن نہیں سیّد سرکار اور حجاب بی بی کے بھی مجرم ہیں اور ا�±ن کے مجرموں کو شاید ذرا بھی ڈھیل اور مہلت نہ دی جاسکے۔”
"صرف میرے دشمن ہوتے تو شاید میں بھی کوئی لچک،کوئی گنجائش نکال لیتا مگر ایسا نہیں ہے۔ اِس لیے کوئی گنجائش بھی نہیں ہے۔ میرے علاوہ اور کوئی ان حرامیوں کا پورا حساب نہیں چکا پائےگا کیوں کہ اور کوئی ان کا اتنا کچا چٹھا جانتا ہی نہیں جتنا میں جانتا ہوں۔”
“میں کسی حساب کتاب کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ لوگ ایک لمحے کی مہلت کے حقدار نہیں، بس مجبوری ہے منصب کی عدم موجودگی۔”
“اگر ملنگی کو ہلاک کیا گیا تو اسی لمحے ا�±س کے ساتھ ہی میرے کھوپڑمیں بھی رائفل کا ایک برسٹ ا�±تار دینا۔”م�±رشد ا�±س کی بات کا ٹتے ہوئے اچانک بول پڑا۔ غصے کو ضبط کرنے کی کوشش، ا�±س کی آواز میں غراہٹ کا تاثر لے آئی تھی۔ 
“مجھے بھی زندہ مت چھوڑنا اگر چھوڑا تو پھر مجھ سے بدترین دشمن نہیں پاو�¿ گے۔ میرے اور ان دو حرامیوں کے درمیان جو بھی آیا جو بھی وہ مجھے مارے گا یا میرے ہاتھوں خود مرے گا آپ کو یہ بات سمجھ آئے یا نہ آئے، اسے پتھر پر لکیر سمجھیں۔”
ا�±س کا انداز حتمی اور فیصلہ کن تھا۔ ارباب کے چہرے پر نا پسندیدگی کا رنگ لہرا گیا۔۔ کچھ فاصلے پر موجود، صوفے پر بیٹھا نوجوان ڈاکٹر بھی ا�±س کی اور ارباب کی طرف دیکھنے لگا تھا۔
رستم بولا:” ملک منصب سے میں خود بات کرلوں گا۔ دشمن کم نہیں، یہ دو ہمارے حصے کے ہوئے۔ م�±رشد کے حصے کے۔ باقی سارے اِجڑ کا آپ شکار کھیلیں، ان دونوں کو م�±رشد شکار کرے گا۔”
“بس لالا! یہ پھر تمہاری ذمہ د اری ہوگئی۔۔ ملک منصب تک یہ درخواست پ�±ہنچاو�¿، قبول نا ہو تو مجھے فوراً اِس چار دیواری، بلکہ اِس بستی ہی کی حدود سے باہر نکالو یہاں پھر ایک لمحہ بھی قیام جائز نہیں رہےگا۔”
ارباب اس کے چہرے پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔ وہ سرتا پیر زخم زخم تھا، مگر اس کے ارادوں اور حوصلوں میں کسی کمزوری کا شائبہ تک نہیں تھا۔ ا�±س کے چہرے پر چٹانی سنجیدگی تھی۔ ارباب چند لمحے ا�±س کی صورت دیکھتا رہا پھر ا�±س کے کرخت چہرے پر قدرے نرمی ا�±تر آئی۔ وہ تفہیمی انداز میں سر ہلاتے ہوئے بولا:
“ٹھیک ہے تمھاری بات بڑی کرتے ہیں تم نے ایک عظیم معرکہ سرانجام دیا ہے۔ میں کہہ چکا ہوں کہ تم محسن ہو۔ دشمن ہونے یا بنانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں بنتا نا تمھارے اور ان دونوں کے بیچ کوئی نہیںآئے گا۔ کوئی ایک بلوچ بھی نہیں تم اپنے دل و دماغ سے یہ خیال نکال دو کہ یہاں کوئی تمہارا دشمن یا مخالف ہے یہاں سب تمھارے دوست اور ساتھی ہیں۔ سب کے سب بستی کا بچہ بچہ تک۔”
“یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے یا ملک منصب نے؟” م�±رشد نے ا�±س کی طرف گردن پھیری۔
“منصب نے لیکن میں فیصلہ جان چکا ہوں تمھارے ساتھ دشمنی تو کسی صورت، کسی قیمت ممکن نہیں۔ اِس کے لیے اگر ملنگی اور فرزند کو جیون دان بھی دینا پڑا تو دیا جائے گا۔ ہم بلوچ لوگ ہیں ہماری نسلیں بھی اپنے محسنوں کو نہیں بھولتیں۔”
اس کا آخری جملہ م�±رشد کے دھیان کو فوراً ہی ماضی کی طرف لے گیا۔ اِس کے دماغ میں باسط کی سنائی ہوئی کہانی گردش کرنے لگی تھی رستم،ارباب سے کچھ کہہ رہا تھا مگر م�±رشد کا دھیان ہٹ چکا تھا۔ ارباب نے آخری جملہ شاید ماضی کی اسی کہانی کے تناظر میں کہا تھا۔ اسی طرح کا ایک جملہ اس نے پہلے بھی بولا تھا۔ "ہماری نسلیں بھی سادات کی مقروض ہیں!”
دونوں جملے ہی ماضی کی طرف اشارہ کرتے تھے اور دونوں ہی سے ا�±س کہانی کی صداقت جھلک دکھاتی تھی۔ ملک منصب کے بزرگوں کی انڈیا سے یہاں تک ہجرت ایک قلندر مزاج سیّد بادشاہ کی ا�±ن پر شفقت اور مہربانی اِس بستی شاہ پور کی بنیاد اور سیّد بادشاہ کا چوہدریوں اور نوابوں سے تنازعہ دشمنی ایک ایسی زہریلی دشمنی، جس کا زہر آدھی صدی گزرنے کے بعد حجاب سرکار کے گھرانے، ا�±ن کی زندگی تک چلا آیا تھا۔ وہ بھی اسی کہانی کا ایک باب بن چ�±کی تھیں۔ ا�±ن کے پھوپھا بھی اسی کہانی کا باب تھے کہانی کے شروع کا ایک باب!!!!
“مجھے کچھ پوچھنا،جاننا بھی ہے” م�±رشد کے اچانک مخاطب ہونے پر، ارباب ا�±س کی طرف متوجہ ہوگیا۔
“مثلاً کیا؟”
“آدھی صدی پہلے، اِس بستی کی آبادکاری کے وقت جس دشمنی کی یہاں شروعات ہوئی تھی ا�±س کا حجاب سرکار سے کیا واسطہ بنتا ہے؟ا�±ن کے پھوپھا نظام الدین سرکار، ا�±ن کا اس دشمنی اور اِس بستی کی آبادکاری میں کیا کردار ہے؟”
سوال سنتے ہی ارباب کے چہرے پر ایک سکوت سمٹ آیا۔اس کی بھنویں سکڑ گئیں اور آنکھوں میں جیسے بیکراں و�±سعت سمٹ آئی۔ وہ م�±رشد کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے آہستہ سے پیچھے پشت ٹکا کر بیٹھ گیا۔
“یہ تو خاصی لمبی کہانی ہے۔۔ جیسے کہ تم خود ذکر کر چ�±کے آدھی صدی پر پھیلی ہوئی اور تاحال جاری۔” وہ کچھ مزید سنجیدہ دکھائی دینے لگا۔
”اور یہ تاحال جاری دشمنی آج حجاب سرکار اور میری اپنی زندگی کا بھی حصہ بن آئی ہے۔ اِس کا انجام قریب ہے لیکن اس سے پہلے ٹھیک سے اس کی شروعات معلوم ہوجائے تو یہ زیادہ اچھا رہے گا۔ حجاب سرکار اور نظام الدین سرکار! ان کا اِس سب سے کیا واسطہ بنتا ہے؟”
"حجاب سرکار کا کیا واسطہ ہوسکتا ہے ہاں البتہ نظام الدین سرکار کی بات الگ ہے۔ دشمنی تو ان کی بھی کوئی نہیں بنتی، بہرحال وہ شروع سے چوہدریوں اور نوابوں کے مخالف فریق رہے ہیں۔”
“یہاں جس زمینی رقبے کی وجہ سے تنازعہ شروع ہوا تھا ا�±س کے اصل مالک کون تھے؟ نظام الدین سرکار، ا�±ن کے والد یا پھر کوئی اور؟”
 “نہیں اِس رقبے کے مالک بھی تھے تو سیّد ہی، لیکن نظام الدین سرکار یا ا�±ن کے والد نہیں وہ اور سیّد تھے۔ سیّد شہاب الدین شاہ سرکار اور تنازعے کی اصل وجہ رقبہ نہیں،کچھ اور تھی یعنی تنازعہ شروع کسی اور بات سے ہوا تھا۔ یہ الگ بات کہ چوہدریوں اور نوابوں کی اِس سارے رقبے پر نیت پہلے سے خراب رہی ہوگی۔”
”سیّد شہاب الدین سرکار” م�±رشد نے زیرِ لب دہرایا۔ باسط سیال کی بیان کردہ کہانی کے مرکزی کردار، قلندر مزاج سیّد بادشاہ کا نام تو معلوم ہوگیا تھا۔ سیّد شہاب الدین سرکار
م�±رشد بولا:” میری جان کاری کے مطابق تو اِس دشمنی کی شروعات کی وجہ، دو ہزار ایکڑ کا رقبہ ہی تھا۔ انیس سو سینتالیس (1947) میں شناب اور گجناب نامی دو بلوچ اپنے خاندانوں کے ساتھ یہاں آئے اور سادات اور چوہدریوں کے بیچ دشمنی کی وجہ بنے اِس سے ملتی جلتی باتیں،افواہیں ہی سنی ہیں اب تک۔ اصل حقیقت اور سچائی آپ ہی بتا سکتے ہیں۔”
ارباب کو چند لمحے کے لیے بلکل چپ لگ گئی۔ پتا نہیں ا�±س کے دماغ میں کیا چلنے لگا تھا۔ رستم اور م�±رشد نے یہی خیال کیا کہ شاید ا�±سکا دماغ معاملات و واقعات کو ترتیب دینے میں لگ گیا ہے۔ وہ دونوں منتظر سماعتیں لیے بیٹھے رہے، آخر ارباب ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولا۔
”قریب قریب ٹھیک ہی سنا ہی تم نے اِس سارے قصے کی شروعات انیس سو سینتالیس(1947) میں ہی ہوئی تھی۔ شناب گجناب، دونوں سگے بھائی تھے۔ ملک گجناب قیصرانی، منصب کے دادا لگتے تھے اور میرے نانا۔ وہ دِلی سے ہجرت کر کے پاکستان، یہاں مظفرگڑھ پ�±ہنچے تھے ۔ وہاں جس چھوٹی سی بستی کے وہ سردار تھے، ا�±س بستی کے بیشتر گھرانے ا�±ن کے ساتھ تھے۔ بیس پچیس فیملیاں تو صرف ا�±نکی اپنی ہی تھیں۔ 
انیس سو سینتالیس (1947) کی سردیوں کے شروع میں وہ لوگ خانہ بدوش بلوچوں کے ایک چھوٹے سے قافلے کی صورت یہاں پہنچے تھے۔ اِس جگہ عارضی قیام کی غرض سے انہوں نے کھونٹے گاڑے اور ج�±ھگیاں لگائیں۔ بسے بسائے ا�±جڑ کر آئے تھے۔ ظاہر ہے حالت اور حالات ابتر تھے۔ یہ اور ارد گرد کی ساری زمینیں ا�±س وقت غیر آباد تھیں۔ ج�±ھگیاں یہ سوچ کر لگائی گئی تھیں کہ اگر کسی کو کوئی اعتراض ہوا تو کھونٹے نکال لیے جائیں گے مگر ہوا اس سوچ کے بلکل برعکسجھگیاں لگانے کے چند گھنٹے بعد ہی ملک گجناب کی اِن زمینوں کے مالک، یعنی شہاب الدین شاہ صاحب کے ساتھ ملاقات ہوگئی۔ اس خانہ بدوش قبیلے کے یہاں پڑاو�¿ کی خبر سن کر شاہ صاحب خود ہی یہاں پ�±ہنچے تھے۔”بات کرتے کرتے ہی ارباب جیسے کہیں کھو گیا۔ وہ ایک ذرا توقف کرتے ہوئے بولا:
“میں نے شاہ صاحب کو نہیں دیکھا۔۔ بس سنا ہی ہے۔۔ اماں ابّا سے نانا اور دادا سے اور اور ب�±ہت سے بزرگ بستی میں موجود ہیںجنہوں نے انہیں دیکھا، جو آج بھی ا�±نکی باتیں کرتے ہیں۔ ایسے سارے بزرگ شاہ صاحب کے متعلق رائے رکھتے ہیں کہ وہ یہاں کے نہیں تھے یہاں کے،یعنی اِس زمین کے نہیں تھے!بے غرض، بے لوث مخلص و ہمدرد اور شفقت و محبت کی جیتی جاگتی تصویر تھے وہ ملک گجناب سے ا�±س کی بپتا، ا�±س کی دربدری کی کہانی سننا تھا کہ شاہ صاحب نے اپنے ساتھ آئے ملازموں کو ہدایات دے کر دوڑا دیا۔ 
بے گھر مہاجر بلوچوں کی یہاں وہ پہلی رات تھی اور اس پہلی رات ہی سے شاہ صاحب نے جیسے زبردستی ا�±ن خانہ بدوشوں کی میزبانی اپنے ذمے لے لی۔ محض چند گھنٹوں میں پکی پکائی دیگیں پ�±ہنچ آئیں اور اگلے چالیس روزتک صبح شام،یہ سلسلہ جاری رہا۔ شاہ صاحب کی حویلی یہاں سے صرف ڈیڑھ کلومیٹر دور تھی،وہ آموں کے باغات نظر آ رہے ہیں نا ان کی دوسری طرف شاہ صاحب کے ملازمین کے علاوہ وہاں سے دیگر کئی لوگ خود بخود یہاں آکر مختلف کام اور معاملات سرانجام دینے لگے۔ صبح شام حویلی سے آنے والی دیگیں، شاہ صاحب کے ملازموں کے ساتھ وہی لوگ سنبھالتے۔ پورے پڑاو�¿ میں چالیس دن تک یوں سلیقے سے ورتاوا کیا جاتا رہا، جو مہذب اور معزز ترین مہمانوں کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے۔
کئی بلوچ جوانوں کو شاہ صاحب نے اپنے ہاں ہی ملازم رکھ لیا۔ زمینیں تھیں، باغات تھے، گودام تھے اِن کے۔”اس نے کھڑکی سے سامنے، دور تک بکھرے سبزے کی طرف دیکھا۔”ان زمینوں کے متعلق انہوں نے ملک گجناب کو کہا کہ آباد کرو اور اگاو�¿ کھاو�¿یہاں کے اور ان کی بستی (چناب نگر) کے ب�±ہت سے لوگ گواہ ہیں کہ انہوں نے با اصرار ملک گجناب اور شناب کو پابند ٹھہرایا تھا کہ وہ اب اور کہیں نہیں جائیں گے۔ مستقل بنیادوں پر اسی جگہ بستی بسائیں گے اور ارد گرد کی غیر آباد زمینوں پر اپنے ہی لیے کاشت کاری کریں گے۔
شاہ صاحب کی اس سارے علاقے میں بڑی عزت و توقیر تھی۔ اللہ نے ا�±نھیں ہر لحاظ سے فیاضی کے ساتھ نوازا تھا۔بس فیملی چھوٹی سی تھی۔ ایک بیوی اور دو بچے، رشتے دار وغیرہ تھے نہیں البتہ دوست احباب ب�±ہت تھے۔ گویا پورا علاقہ ہی اس فہرست میں شامل تھا،لیکن محض چند لوگ ہی ایسے تھے جنھیں ا�±ن کے قریبی دوست ہونے کا اعزاز حاصل تھا ۔ ان میں تین نام قابلِ ذکر ہیں۔ نواب اسفندیار، چوہدری حاکم علی اور سیّد ظفر شاہ صاحب۔
شاہ صاحب اور ظفر شاہ جی کے درمیان تو بے حد گہری دوستی تھیمثالی! جیسے دو جسم ایک جان۔ دونوں ہی جدی پشتی جاگیریں رکھتے تھے۔ ظفر شاہ جی کی تو تین فیکٹریاں بھی تھیں۔ ایک یہیں اور دو لاہور میں۔ نواب اور چوہدری بس برائے نام زمیندار تھے۔ نواب نے تو صرف چند ایک باغ یہاں خریدے تھے وہ بھی ظفر شاہ جی کی دیکھا دیکھی۔ دراصل ظفر شاہ جی اور نواب اسفند، دونوں آبائی طور پر بلوچستان کے رہنے والے تھے۔قلعہ سیف اللہ کے بلوچستان میں پھیلے کرومائٹ کے کاروبار میں پہلے سے دونوں کی شراکت داری بھی تھی۔ ظفر شاہ جی کے ذریعے ہی نواب کی یہاں شاہ جی اور چوہدری حاکم سے دوستی ہوئی تھی۔
اسفند یار اور حاکم علی کو تو بلوچوںکا یہ پڑاو�¿ ویسے ہی نا پسند تھا۔ شاہ صاحب کے التفات انہیں مزید ناگوار گزرنے لگے۔ چند ایک بار ا�±نہوں نے دبے دبے الفاظ میں اس ناگواری کا اظہار بھی کیا!…. اعتراض بھی کیا مگر شاہ صاحب نے ا�±نکی باتوں پر کان نہیں دھرے پھر جب شاہ صاحب نے بلوچ سردار کو یہیں بستی بسانے اور ان زمینوں کو استعمال میں لانے کا پابند ٹھہرایا تو اسفند یار اور حاکم علی کھلم کھلا مخالفت پر ا�±تر آئے۔
اِن کا موقف تھا کہ یہ بلوچ پاکستانی نہیں، ہندوستانی ہیں اِن کے اور ہمارے رہن سہن میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ایک مسلمان اور ہندو میں ہوسکتا ہے، یا اس کی بعد ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی میں ہوسکتا ہے۔دونوں صورتوں ہی میںبلوچ قابلِ برداشت نہیں تھے۔ انہوں نے بلوچوں کوپورے علاقے کے امن و امان اور سکون کے لیے خطرہ قرار دیا۔شاہ صاحب نے ا�±نھیں سمجھانے کی کوشش کی ا�±نکی ذہنی گرہیں کھولنے، دل صاف کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود ا�±ن کے باہمی تعلقات میں آنے والی دراڑ کی شروعات یہیں سے ہوئی۔ یہی اختلاف تھا جو ایک طویل اور خونی دشمنی کی بنیاد بنا!”ارباب نے چند لمحے توقف کیا۔۔ م�±رشد اور رستم خاموش بیٹھے رہے۔ نواب اسفندیار اور حاکم علی کے نام م�±رشد پہلے بھی سن چکا تھا اب ارباب کی زبانی باقی دونوں کرداروں کے نام بھی معلوم ہو چ�±کے تھے۔
“شاہ صاحب نے جب دیکھا کہ وہ دونوں کوئی بات ماننے،سمجھنے کو تیار ہی نہیں تو ا�±نہوں نے ا�±ن دونوں کو نظرانداز کرنا شروع کردیا۔ تب انہوں نے علاقے میں ہندوستانی مہاجر اور لوکل والا پروپیگنڈا شروع کردیا 
 فتنہ انگیزی کی پوری پوری کوششیں کی گئیں لیکن ایک تو شاہ صاحب کی اپنی شخصیت، اپنی ذات کا جادو اور دوسرا ظفر شاہ جی کی حمایت اور کوششیں وہ سیاسی اور انتظامی حلقوں میں بڑا اثر و رسوخ رکھتے تھے لہٰذا حاکم علی اور اسفندیار کی فتنہ انگیزیاں کسی سطح پر بھی کامیاب نہ ہو سکیں۔ ا�±ن ہی کی وجہ سے اسفندیار ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ بظاھر اس نے بلوچوں اور شاہ صاحب کی مخالفت چھوڑ دی لیکن درپردہ حاکم علی کو پوری طرح اکساتا رہا اور ا�±س کی ہر طرح سے مدد بھی کرتا رہا۔ اِن ہی دنوں کچھ نا معلوم افراد نے جھگیوں پر شبِ خون مارا جس میں کئی بلوچ زخمی ہوئے۔ سب ہی کو یقین تھا کہ اِس حملے کے پیچھے نواب اور چوہدری ہیں مگر یہ ثابت نہ کیا جا سکا۔ اس واقعے کے فوراً بعد شاہ صاحب کی ایما پر جھگیوں کی جگہ کچی بستی کی شروعات کردی گئی۔
شام کے قریب شاہ صاحب یہاں تشریف لاتے اور ا�±ن کے پیچھے پیچھے چناب نگر کی ب�±ہت سی خواتین اور مرد، آ آ کر رضا کارانہ طور پر بلوچوں کا ہاتھ بٹانے لگتے۔ یہیں کی مٹی سے اینٹیں بنائی گئیں اور سب نے مل کر اپنی مدد آپ کے تحت ان کچی اینٹوں سے مکانات کھڑے کرنا شروع کردیئے۔ رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہتا اور صبح سب اپنے اپنے روزگاروں پر نکل جاتے۔ کہتے ہیں دنوں میں یہاں کچی بستی کھڑی کردی گئی تھی
اِدھر یہ سب جاری تھا اور اس کے ساتھ ساتھ علاقے میں ایک اور تماشا بھی چل رہا تھا اس تماشے کا مرکزی کردار چوہدری حاکم علی تھا۔ نواب اسفندیار ا�±سکی پشت پناہی کر رہا تھا اور اِن دونوں نے اپنی اس ملی بھگت میں، علاقے کے کچھ بااثر لوگوں کو اپنا حامی،اپنا ہم خیال بنا لیا تھا۔ یہاں کچی تعمیر کا کام شروع ہوتے ہی حاکم علی نے اِس سارے رقبے کی ملکیت کا دعوا کردیا ا�±س کا کہنا تھا کہ چند سال پہلے وہ اِن ساری زمینوں کی قیمت ادا کر چکا ہے۔ شاہ صاحب سے دوستی اور ان کی صاف ستھری ساکھ کی وجہ سے ا�±س نے فوری لکھت پڑھت کو ضروری نہیں سمجھا اور اب شاہ صاحب اِس زبانی معاہدے سے م�±کر گئے ہیں۔
 یہ کوئی دس مربع رقبہ بنتا ہے۔۔ چوہدری کا دعوا اور الزام کوئی چھوٹی یا معمولی بات نہیں تھی۔ پنچایت بیٹھ گئی۔ اکثریت کو چوہدری کی بدنیتی کا اندازہ تھا۔ ا�±س کے، اِس دعوے کے جھوٹے ہونے کا یقین تھا، اس لیے اکثریت شاہ صاحب کی طرف دار تھی۔ چوہدری کے طرف دار کم تھے لیکن جتنے تھے، سب کے سب خراب اور زورآور لوگ تھے۔ ان کے تیور بھی خرابے والے تھے۔آئے روز پنچایت کا اکٹھ ہونے لگا اور پنچایت کا دائرہ بڑھنا شروع ہوگیا۔ حالات کشیدہ ہوتے چلے گئےیہ معاملہ یہاں کے دس مربع زمین کا تھا۔ شاہ صاحب کے پاس اللہ کے فضل و کرم سے کوئی سو مربع زمین کی ملکیت تھی۔ “ ارباب نے کھڑکی سی دور دکھائی دیتے آموں کے باغات کی طرف اشارہ کیا۔
” وہ سارے باغات اب نواب اسفندیار کے قبضے میں ہیں۔ یہ اور اس سے آگے کی ساری زمین بھی شاہ صاحب ہی کی ہے۔ آگے ریلوے پٹری ہے۔ پٹری کے ا�±س طرف بھی شاہ جی کا خاصہ رقبہ ہے،اس پربھی آموں کے باغات ہیں لیکن اب وہ سارا رقبہ چوہدریوں کے زیرِاستعمال ہے۔”
“کیا واقعی یہ ساری زمینیں شاہ صاحب نے خود سے انہیں دے دی تھیں؟”سوال جیسے بے اختیار م�±رشد کی زبان سے ادا ہوگیا۔ ارباب نے ایک طویل سانس لی۔ کالی قمیض، وہی کالی پگڑی،چوڑاکرخت چہرہ پتا نہیں اِس لمحے م�±رشد کو ا�±س کا چہرہ زرد زرد سا کیوں لگا!
“ شاہ صاحب بڑی اللہ لوک روح کے مالک تھے۔ پانچ وقت کے نمازی تہجد گزار اور پنچایت میں بات آگئی تھی ایمان تک یہ سارا رپھڑ بکھیڑا کئی مہینے تک چلتا رہا تھا۔ جگہ جگہ پنچایتیں بیٹھیں، علاقے بھر میں تنازعے کی فضا بن گئی۔ غریب، دیہاتی لوگ شاہ صاحب کی حمایت میں کٹ مرنے کو تیار تھے مگر پنچایت کا فیصلہ چوہدری کے حق میں قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔کچھ بھی تھا، حاکم علی، شاہ صاحب کا قریبی دوست رہا تھا۔ ا�±ن کے مزاج طبیعت سے خوب واقف تھا۔ آخری پنچایت میں وہ خبیث مردود گھر سے قرآن پاک اٹھا کر لے آیا۔
علاقے کی مختلف بستیوں، دیہاتوں سے لوگ اس پنچایت میں اکٹھے تھے۔ حاکم علی کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ شاہ صاحب کسی بھی صورت قرآن نہیں اٹھائیں گے۔ اسی کی ایما پر پنچایت نے بھی فیصلہ قرآن پر ختم کرنے کی بات کی اور حاکم علی کی توقع کے عین مطابق شاہ صاحب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کسی طرح کی قسم، حلف یہ کوئی بھی بات کہنے،کرنے سے صاف انکار کردیا۔ان سے کہا گیا کہ ایسے میں انہیں جھوٹا اور حاکم علی کو سچا ماننے میں پنچایت حق بجانب ہو گی مگر شاہ صاحب نے پروا نہیں کی۔حاکم علی سے قسم اٹھانے کا کہا گیا تو وہ مردود پنچایت کے بھرے پنڈال میں باقاعدہ قرآن پاک کو اپنے سر پہ رکھ کر کھڑا ہو گیا اس بد دیانت جہنمی کے اندر کی کالک کا اندازا کرو ذرا اس نے سب کے سامنے جھوٹا قرآن اٹھا لیا!“
رستم ہنکارا بھرتے ہوئے بولا: ” ہوں…. اور پنچائیت نے حاکم علی کے حق میں فیصلہ دے دیا؟“
”ہاں! دے دیا….اور کاش بات اسی فیصلے پر ختم ہو جاتی مگر….مگر خود شاہ صاحب نے ہی ایسا گوارہ نہیں کیا….بات خود انہوں نے ہی ختم نہیں ہونے دی….انہوں نے وہیں، اسی لمحے ایک عجیب قلندرانہ فیصلہ کیا….انہوں نے کہا کے ان کی ملکیت میں تقریباًسو مربع زمین ہے،اگر حاکم علی بلوچوں کے حق میں ان دس مربعوں سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہوجائے تو وہ اپنی باقی ساری زمینوں سے حاکم علی کے حق میں دستبردار ہو جائیں گے!یہ فیصلہ نہیں دھماکہ تھا….پہلے تو لوگوں کو ےقین ہی نہیں آیا۔دماغ چکرا دینے والی آفر تھی نا!سب کے دماغ چکرا گئے تھے۔لوگوں نے موقع پر ہی انہیں سمجھانا شروع کردےا مگر وہ اپنی کہی پر اٹل رہے اور بلکل پرسکون بھی….
حاکم علی جےسے کمی اور گھٹیا شخص کے لیے اختلاف کی گنجائش ےا جرا�¿ت بچی کہاں تھی؟اسے تو خود بخود جےسے،ہفت اقلیم کی دولت مل رہی تھی۔اس پنچایت میں معاہدہ تحریر کیا گےا اور شاہ صاحب نے اس پر انگوٹھے لگا دئیے۔“
مرشد اور رستم نے لاشعوری طور پر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔وہ اس طرح کے سینکڑوںجھگڑے،پھڈے بھگتا چکے تھے۔دونوں جانتے تھے کہ اےسی تحرےر کی کوئی حیثیت،وقعت نہیں ہوتی۔
”معاہدے کا یہ کاغذ دو چار دن بعد ہی،ظفر شاہ جی نے حاکم علی سے کسی نہ کسی طرح نکلوا لیا تھا لیکن ۔“ارباب بول رہا تھا۔ ”شاہ صاحب کے نزدیک اس کاغذ کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں تھی….انہوں نے بھری پنچایت میں یہ بات کہی تھی اور ان کے نزدیک ان کی زبان ہی معاہدہ تھا۔سب نے ان کے اس فیصلے کی مخالفت کی….ظفر شاہ جی نے اپنا پورا زور لگا دیاکہ وہ،اپنا فیصلہ بدل لیں۔ظفر شا ہ جی اس سارے معاملے کو قانونی طور پر ہینڈل کرنا،کرانا چاہتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ چوہدری حاکم علی کو قانونی شکنجے میں کستے ہیں۔موجودہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور آیندہ کے لیے بھی حاکم علی کا دماغ درست ہوجائے گا….وہ ایسا کر سکتے تھے ۔حکومتی حلقوں تک بھی رسائی تھی ان کی لیکن….شاہ صاحب مانتے تب نا!ان کے دل و دماغ میں پتا نہیں کیا چل رہا تھا….وہ بلکل مطمئن اور پرسکون تھے، بلکہ ان کے مزاج میں مزید نرمی اور انکساری جھلکنے لگی تھی۔
باقی سب ہی کی طرح،بلوچوں نے بھی ان کی بہت منت سماجت کی۔بہت کہا کہ وہ اپنا فیصلہ بدل دیںمگر سب کی کوششیں بے سود رہیںاور آیندہ دنوں میں شاہ صاحب نے قانونی سطح پر،ان دس مربعوں کے علاوہ باقی ساری زمین،سارے رقبے،چوہدری حاکم علی اور نواب اسفندیار کے نام برابر حصوں میں منتقل کردیئے اور یہ دس مربعے….یہ رقبہ انہوں نے ملک گجناب قیصرانی کے نام کر دیا۔ان سارے معاملات کے چند روز بعد ایک رات خاموشی سے وہ یہ علاقہ چھوڑکر چلے گئے….ہمیشہ کے لئے!“
مرشد بولا:”ہمیشہ کے لیئے ….کدھر؟“
”پتہ نہیں ۔انہوں نے کسی کو نہیں بتاےا تھا بلکہ منع کیا تھا کہ کوئی بھی ان کا کھوج کھرا نکالنے کی کوشش نہ کرے۔ 
”کیوں؟“
”بظاہر جو سمجھ آتی ہے وہ تو یہ ہی ہے کہ یہا ں سے دل برا ہوگیا تھا ان کا….ہو سکتا ہے ان کے اپنے نزدیک کوئی اور وجہ بھی رہی ہو!“
”میں نے پہلے جہاں سے کہانی سنی تھی وہاں بھی پوچھا تھا….اب بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہوسکتا ہے وہ کہیں نہ گئے ہوں….کوئی اورمعاملہ ،ماجرا رہا ہو….آخر ان کے کہیں جا کر آباد ہونے کاےقین کیوں ہے سب کو؟“سوال مرشد کا اندازتھا۔
”کیوں کہ یہ بالکل صاف اور مصدقہ بات ہے۔پہلے تو انہوں نے یہاں سے جانے سے پہلے ہی کچھ لوگوں کو اپنی ہجرت کے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔اس علاقے میں اپنی آخری رات انہوں نے ملک گجناب کے ساتھ گزاری تھی۔تفصیلات معلوم نہیں مگر یہ معلوم ہے کہ شاہ صاحب اور ملک کے درمیان،اس ساری رات بہت اہم اورخاص گفتگو ہوتی رہی۔حقیقت اللہ جانے،بستی کے بڑے بوڑھے بتاتے ہیںکہ اس رات کے بعد….اگلی صبح،ملک گجناب پہلے والا گجناب نہیں رہا….شاہ صاحب کے ساتھ رات بھر کی نشست میںاس کے ساتھ کچھ واقع ہو گےا تھا….اس کے مزاج اور رویے میں کچھ پر اسرار اور بہتر تبدیلیاں دیکھی گئیںجو ساری زندگی اس میں باقی رہیں۔
دن چڑھے معلوم ہوا کہ شاہ صاحب اپنی فیملی سمیت ہمیشہ کے لیے ہجرت کر گئے ہیں۔یہ تو غالباًآج تک کسی کو پتہ نہیںچلا کہ وہ یہاں سے اٹھ کر پاکستان کے کس کونے میں جا بےٹھے،البتہ یہ جلد ہی پتہ چل گےا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیںبالکل خوش باش اور سکھ سکون کی گزار رہے ہیںلیکن….یہاں سے جانے کے بعد زیادہ عرصہ جی نہیں پائے….سال ڈےڑھ سال گزرا تھا کہ اللہ کو پےارے ہوگئے۔یہ خبر بھی ان کے پردہ فرمانے کے تین سال بعد کہیں جا کر ملی۔“
”خبر کاذریعہ کیا تھا؟“ رستم نے سوال اٹھایا۔
”ظفر شاہ جی اور ان کے بعد نظام الدین شاہ جی۔ظفر شاہ جی کے بیٹے….جس طرح ظفر شاہ جی میں اور شاہ صاحب میں مثالی دوستی تھی اس طرح دونوں کے بےٹوں میں بھی گہری دوستی تھی۔تقریباً ہم عمر ہی تھے وہ دونوںبھیمےرے نانا دادا جب تک رہے، کوشش کرتے رہے کہ شاہ صاحب کی اولاد کے متعلق کچھ معلوم کر لیں کہ وہ کہاں رہائش پزیر ہیں….کہاں رہ رہے ہیں….لیکن اس سلسلے میں ظفر شاہ جی کی زبان سے کبھی کچھ نکلا نا نظام شاہ جی کےپتا نہیں کیسی قسم یا حلف نے ان کی زبانوں پر پہرہ جما رکھا ہے!“
”ےعنی نظام الدین سرکار جانتے ہیں کہ شہاب الدین سرکا ر کے فرزند کہاں رہائش پزیر ہیں؟“ مرشد نے ارباب کی طرف دیکھتے ہوئے سوال اٹھایا۔ اس کا انداز تائید طلب تھا۔ارباب کی آخری باتیں سنتے ہوئے اس کے دماغ میں خود بخود سرسراہٹ شروع ہو گئی تھی۔چھٹی حِس یوں ہوشیا ر باش ہو بےٹھی تھی جیسے جانتی ہو یہ تار،یہ کنکشن کدھر جا کر جڑنے لگا ہے!
”ہاں !بالکل….وہ دونوں بہت اچھے اور گہرے دوست تھے اور آج بھی ہیں۔اتنا اندازہ تو ہم لوگوں کو ہے۔“
مرشد کے دماغ کی سر سراہٹ میں تیزی آگئی۔اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوال کیا۔
”شہاب الدین سرکار کے فرزند کا نام کیا تھا؟“شہاب الدین اور نظام الدین کی مطابقت ایک تیسرا نام خودبخود ہی اس کے ذہن میں گردش کرنے لگا تھا۔
”سےد صلاح الدین“ارباب کے منہ سے یہ نام نکلتے ہی مرشد کا رواں رواں جھنجھنا اٹھا تھا۔دماغ میں ایک برقی جھماکا سا ہوا۔”سید صلاح الدین“….سید صلاح الدین….یہ تو….یہ تو حجاب سرکار کے والد کا نام تھا….حجاب بی بی کی نسبت سے اس کے دل و ماغ پر نقش تھا۔شہاب الدین سرکار کے بس دو ہی بچے تھے اور صلاح الدین سرکار کی ایک بہن ہی تھی بس۔یعنی….ےعنی شہاب الدین سرکار کے دو بچوں میں سے ایک بیٹی تھی!
یہ ہی سوال ا س نے ارباب سے کردےا۔”شہاب الدین سرکار کی دوسری اولاد بیٹی تھی؟“
”ہاں! سید صلاح الدین سے چھوٹی تھیں وہ….کےا….کیا تم کچھ جانتے ہو اس بارے میں؟“ مرشد کے چہرے اور آنکھوں میں کچھ ایسا تھا کہ ارباب چونک پڑا۔مرشد اس کے سوال کاجواب دئیے بغیر، خاموشی سے یک ٹک اس کی آنکھوں میں دیکھے گےا۔خود اس کے رگ و پہ میں ایک ہلچل بیدار ہو آئی تھی۔اسے محسوس ہورہا تھا جیسے کسی نا دیدہ تار نے اچانک اسے قلندر مزاج سید بادشاہ،شہاب الدین سرکا ر سے منسلک کر دیا ہو….کوئی قریبی تعلق یا جان پہچان نکل آئی ہو…. وہ اب تک انجانے میں اسی سےد بادشاہ کے بیٹے کی سنتان کا محافظ بنا ہوا تھا۔حجاب سرکار ان کی پوتی تھیں….ان کے بیٹے کی نشانی۔بیٹا نہیں رہا تھا البتہ، بیٹی….بیٹی بلوچستان میں زندہ موجود تھی۔قلعہ سیف اللہ میں….نظام الدین سرکار کے گھر….حجاب سرکار کی پھوپھو۔
”کیا ….کےاکہنا چاہ رہے ہو؟“ارباب کی آواز میں غیر محسوس سے لرزش تھی۔اسے بھی جیسے کچھ کچھ اندازہ ہوگےا تھا۔
مرشد اثبات میں سے ہلاتے ہوئے بولا:”نظام الدین سرکار آج یہاں پہنچ رہے ہیں نا….جا کر حجاب سرکار سے ان کے دادا کا نام کنفرم کریں۔ہونا تو شہاب الدین ہی چاہئیے ،کیونکہ ان کے والد کا نام تو سےد صلاح الدین ہی ہے۔“
ارباب کے چہرے پر زلزلے کے تاثرات اتر آئے۔آنکھےں مزید کشادہ ہوگئیںاور آنکھو ں کے نیچے ڈھلکا ہوا گوشت پھڑپھڑانے لگا۔اس نے کچھ بولنا چاہا لیکن ہونٹ بس لرز کر رہ گئے۔یہ انکشا ف بہت بڑا تھا اور قطعی غیر متوقع بھی۔وہ واقعتا ہل کر رہ گےا تھااور اس انکشاف کی حجاب بی بی سے تصدیق ہو جاتی تو یہ گویا پچھلے چالیس سالوں میں شاہ پور والوں کے لیے پہلی بڑی خوشخبری ثابت ہوتا۔وہ اچانک اپنی جگہ سے اٹھا اور با عجلت نیچے جاتے زینوں کی طرف بڑھ گےا۔وہ بے تابانا گےا اور کچھ ہی دیر میں وجد آفریں حالت میں واپس لوٹ آیا۔آتے ہی اس نے پہلے نم آنکھوں اور لرزیدہ ہونٹوں سے مرشد کے ہاتھوں کی پشت پر بوسے دئیے اور پھر اسکی پیشانی چوم کر سیدھا کھڑا ہوتے ہوئے بولا:
”یہ میری اڑتیس سالہ زندگی کی سب سے بڑی اور حیران کن خو ش خبری ہے جو میں نی تمہاری مبارک زبا ن سے سنی۔“اسکی آواز خوشی سے رندھی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں شفاف پانی کی جھلملاہٹ اور ہونٹوں پر شاید پہلی دفعہ حقیقی مسکراہٹ اتری تھی۔وہ مرشد کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔
”حجاب بی بی نے تصدیق کر دی ہے کہ ان کے دادا کا نام شہاب الدین ہی ہے۔ان کی قبر مبارک نندی پور میں ہے۔حجاب بی بی نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ ان کے دادا ملتان سائیڈ ہی سے نندی پور شفٹ ہوئے تھے البتہ یہ انہیں معلوم نہیں کہ یہاں مظفر گڑھ میںان کی کتنی بڑی جاگیر ہے ۔یا یہ کی چالیس سال پہلے چوہدریوں اور نوابوں نے ان کے دادا کے ساتھ بد دیانتی اور بے ایمانی کا کیسا کھےل کھےلا تھا….آج ان کی پوتی یہاں موجود ہے….شاہ پور اورشاہ پور والے اب لاوارث نہیں ہیں….انہیں شاہ پور کے اصل وارث کا حقیقی وارث مل گےا آج، اوریہ تمہاری بدولت ہوا ہے۔“ اس نے اےک بار پھر مرشد کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیا۔
”اس خبر پر سب سے پہلا حق منصب کا بنتاہے۔میں اس کے پیچھے ملتان روانہ ہو رہا ہوں….شام کو ملتے ہیں۔“
”وہ ملتان میں جہاں ہےں وہاں فون نہیں ہے کیا؟فون کر کے آجائیں….ابھی مےرے پاس کچھ سوال باقی ہیں۔“ مرشد نے کہا۔
”اےک ہزار ایک سوال قبول، سب سنوںگا،سب کے جواب دونگا لیکن ابھی فوری نہیں….پلیز!ابھی ےہ جان آفریں انکشاف مجھے منصب تک پہچانا ہے اور فون پر نہیں….اس کے روبرو کھڑے ہو کر….میں نے پچھلے بارہ سال سے اس کے چہرے پر کوئی ڈھنگ کاتاثر نہیں دیکھا ۔“آنکھوں میں جھلملاتا صاف پانی اس کی پلکوں کی منڈیر پھلانگ کر گالوں پر بہہ آیا۔
”ےہ خبر اسے بھی ہلا کر رکھ دے گی….یہ خبر ایک انمول موقع ہے پھر کبھی تفصیلاًسمجھاو�¿ںگا۔ابھی چلتا ہوں۔“اس کے بعد وہ رکا نہیں ،کسی کام یا بات کے تحت رستم بھی اسی کے ساتھ ہی نکل گےا۔ 
”پچھلے بارہ سال سے ا س کے چہرے پر کوئی ڈھنگ کا تاثر نہیں دیکھا !“ اس کا یہ جملہ چند لمحہ مرشد کے دماغ میں جھولتا رہا۔اس نے سر پیچھے ٹکاتے ہوئے آنکھےں موند لیں۔ درونِ ذات فوراً ہی حجاب کی ذات روشن ہو آئی تھی۔اب تک سب سے اداس اور دکھ دےنے والا خیال یہ رہا تھا کہ وہ بھری پری دنیا میں بالکل تنہا رہ گئی ہیں….انکا کوئی سگا عزیز نہیں بچا….وہ بے یارو مددگار ہو چکی ہیںلیکن اب….ارباب کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعدجو انکشاف ہوا تھا….جو حقیقت سامنے آ ئی تھی وہ دل اندوز اندیشوں کے لیے دوا اور قلبی بے چینیوں کے لیے گہرے اطمینان کا باعث بنی تھی۔وہ بے گھر ہو کر اپنے اصل دیس پہنچ آئی تھیں۔اپنی ریاست،اپنی سلطنت میں….برسوں پہلے ان کے دادا نے جو عزت کمائی تھی اس کا سحر،اس کا جادو مرشد خود دیکھ،سن رہا تھا۔ایک پوری بستی،ایک پورا قبیلہ ان کے دادا کا معتقد تھا۔ایسا معتقد ،جو صرف ان کے نام پر دل و جان سے نچھاور ہونے کے جذبات رکھتا تھا۔یہ علاقہ،یہ خطہ،شہاب الدین سرکار کی نسبت سے،حجاب سرکار کی راجدھانی تھااور ان کے فدائیوں کی یہاں ایک پوری جنگجوفوج موجود تھی۔
مرشد نے پہلی بار اپنی ذات کی گہرائیوںمیں یہ اطمینان اترتا ہوا محسوس کیا کہ اگر اسے کچھ ہو گےا تو ….وہ نہ رہا تو بھی حجاب سرکار پوری طرح محفوظ رہیں گی….وہ بے یارو مددگار نہیں ہونگی۔ ان کے مخلص….خیرخواہوں اور جانثاروں کی ایک کثیر تعداد موجو د تھی۔
اسے لگا اب تک کی تمام پریشانی باطل تھی۔حجا ب سرکار کی نسبت تو وہ خود بے یارومددگار تھا….اس کی اپنی کوئی حیثیت ،کوئی وقعت ہی نہیں تھی….وہ آ ج اگر زندہ سلامت تھا توخود حجاب سرکا ر کے مددگاروں اور خیرخواہو ں کی بدولت….اس کی موجودہ زندگی ان ہی کی مرہونِ منت تھی ورنہ تو چوہدری فرزند اور ملنگی ایک طرح سے اسے ختم کر ہی چکے تھے۔ 
دماغ اور اعصاب سے جیسے ایک بہت بھاری بوجھ کھسک گےا تھا۔ مرشد کو اندازہ بھی نہ ہوا اور اسی طرح لیٹے لیٹے اس کی آنکھ لگ گئی۔ دوبارہ وہ عصر کے قریب جاگا۔نیند ٹوٹنے کی وجہ وہ درد تھا جو اس کی بائیں آنکھ اور کنپٹی میں ہورہا تھا۔عجیب قسم کی ٹیس سی اٹھ رہی تھیں۔اس کے قریب صرف ڈاکٹر وقاص تھا۔اس نے فوراً اسے ایک انجیکشن دیا۔مخصوص غذا حلق سے اتارنے کے چند منٹ بعد کچھ ٹیبلٹس اور کیپسول بھی اسے نگلنے پڑے پھر ڈاکٹر نے اس کے زخموں کی ڈریسنگ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔
”یہاں درد نہیں ہوتا آپ کو؟“اس نے سوال کیا۔ وہ اس کے پٹی میں لپٹے ٹخنے سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔یہاں مرشد کو چھت سے کودتے وقت چوٹ آئی تھی۔
”ہوتا ہے….اور بھی کتنے سارے علاقے ہیں جو درد میں ڈوبے ہیں مگر پرعیشان صرف یہ کنپٹی اور آنکھ والا کرتا ہے۔“
”ہاں! وہ تو کرے گا….یہ کتنے سارے زخم تو صرف تین چار روز میں ٹھیک ہوجائیں گے البتہ پاو�¿ں ،پسلیوں اور یہ….آنکھ ،کنپٹی والا….ان میں تھوڑا وقت لگے گا۔وےسے قسمت مقدر کی بات ہے۔گولی ماتھے سے آنکھ کے فریم کو چھو کر نکل گئی ،بس سینٹی میٹر زکی کمی بیشی سے زندہ بچ گئے آپ۔“
”کمی بیشی کوئی نہیں ہوئی تھی گولی آ کر سیدھی یہیں لگی تھی مگر ٹکر کھاتے ہی”ٹن “ کی آواز نکالتی ہوئی رخ بدل گئی۔“
ڈاکٹر نے زخم صاف کرتے کرتے اس کی طرف دیکھا اور اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ کر خود بھی مسکرا دیا۔
مرشد فوراً بولا:”سچ کہہ رہا ہوں۔”ٹن“ کی آواز میں نے خود سنی تھی۔“
ڈاکٹر کسی رویے کا اظہار کیے بغیر اپنے کام میں لگا رہا۔مرشد کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔سورج اس طرف آجانے کی وجہ سے آدھی کھڑکی کے سامنے پردہ کھینچ دیا گےا تھا۔باہر نکلی دھوپ میں سارا سبزہ چلچلارہا تھا۔بستی کی گلیاں سنسان پڑی تھیں۔قبرستان کے علاوہ مزید اکا دکاجگہوں پر،درختوں کے نیچے چارپائیوں پر اسے کچھ افراد دکھائی دئیے۔بستی کے پس منظر میں دور ….ملتان روڈ پر رواں ٹریفک کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔روڈ کے دونوں کناروں پر لاچی کے بلند قامت درختوں کی قطاریں تھیں۔وہیں سے مرشد کو تین چار گاڑیاںبستی والے راستے پر آتی دکھائی دیں۔دھول مٹی کے مر غولوںمیں اس نے جلد ہی شناخت کر لیاکہ یہ حویلی کی گاڑیاں ہیں۔ان میں ایک کار کے علاوہ تین سبز رنگ کی رینج روور جیپیںتھیں جنہیں وہ پہلے بھی بلوچوں کے زیرِاستعمال دیکھ چکا تھا۔ چاروں گاڑیاں آناًفاناً ہی حویلی تک پہنچ آئیں اور حویلی کے گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی رک گئیں۔
دو جیپوں میں تو صرف مسلح افراد تھے۔
ایک ادھےڑ عمر بلوچ دوڑتا ہوا جا کر کار کی عقبی کھڑکی کے قریب مو�¿دب کھڑا ہوگےا۔کار اےسے رخ کھڑی تھی کہ اندر بیٹھی شخصیت مرشد کودکھائی نہیں دے رہی تھی۔اندازہ تو یہی ہوتا تھا کہ ملتان سے ملک منصب کی واپسی ہوئی ہے لیکن ےقےنی بات نہیں تھی….اس دوران میں وہ چار پانچ گھنٹے سوےا رہاتھااور پھر ان میں کہیں ارباب بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ شاید یہ بلوچوں کی کوئی دوسری پارٹی تھی۔
کھڑکی کے قریب،ادھیڑ عمر بلوچ اور کار کی عقبی نشست پر موجودشخصیت میں پتا نہیں کیا بات چیت ہوئی کہ اچانک کار کا عقبی دروازہ کھلا اور اند ر سے نکلنے والی شخصیت پر نظر پڑتے ہی مرشد چونک پڑا۔وہ وہی کالی آفت تھی….کالی دھوتی اور کالی چادر والی دراچھی بلوچن۔اس کا پہناوا اب بھی وہی تھا۔پیروں میں کالا کھسہ،کالی دھوتی اور اس کے اوپر….ےعنی اوپری جسم پر اسی طرح….وہی کالی چادر،جس کے دونوں پلو کندھوں سے سامنے کے رخ پھیلے ہوئے تھے۔ آج چادر بہتر حالت میں تھی پھر بھی اس کے وجود کو پوری طرح،مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے نہیں تھی۔
کار سے نکلتے ہی وہ کونے میںموجودہسپتال کی عمارت کی طرف بڑھ گئی۔کار کے قریب ادھیڑ عمرتو پہلے ہی سر جھکائے کھڑا تھا،مرشد نے دیکھا کہ اس کالی آفت کے نکلتے ہی ارد گرد ،ادھر ادھر جتنے بھی لوگ تھے،سب کے سر اور گردنیں جھک گئیں۔جیپ کے قریب موجود بلوچوں نے تو باقاعدہ رخ ہی بدل لیے تھے۔گیٹ کے قریب موجود دو تین پولیس والوں کا انداز بھی مختلف نہیںتھا۔ےہ بھی ایک حیران کن بات تھی….مرشد بے ساختہ ڈاکٹر وقاص سے مخاطب ہوا:
”یار ! یہ عورت کون ہے،کیا چیز،کیابلاہے؟اتنی پر اسرار کیوں لگتی ہے یہ؟
”عورت ….کونسی عورت“ڈاکٹر نے رخ بدلتے ہوئے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر جھانکا۔وہ ہسپتال کے قریب پہنچ چکی تھی۔کمر کا زیریں حصہ چادر کے نیچے سے جھلک دکھا رہا تھا۔بھاری اور لمبی چوٹی کمر سے نیچے تک لٹک رہی تھی۔اس کی چال میں عجیب ٹھہراو�¿ اور کمال بانکپن تھا۔ڈاکٹر نے پردہ ہٹا کر جھانکا تھا لیکن جھانکتے ہی جیسے اسے کرنٹ لگا،اس نے گھبرا کر پردہ چھوڑااور ایک جھٹکے سے مرشد کی طرف متوجہ ہو۔اس کی آنکھوں میں سنسنی خیز تعجب تھا۔
”کس عورت کے بارے میں پوچھ رہے ہیں آپ؟“
” یہ جو ہسپتال کی طرف جا رہی ہے….دھوتی چادر والی۔“
”کمال بات کر رہے ہیں آپ تو!“ حیرت و بے ےقینی اس کا انداز تھی۔یعنی آپ کو یہی نہیں پتا کہ آپ کیا بات کہہ رہے ہیں؟کس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں….یعنی آپ کو کچھ پتا ہی نہیں!“
اسی وقت رستم کمرے میں داخل ہوا….مرشد نے ڈاکٹر سے کہا۔
” اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟میں نے کوئی مشکل یا انوکھا سوال کردیا ہے؟“
”کیسے سوال چل رہے ہیں۔کیوں ڈاکٹر صاحب !کیا پریشانی ہے؟“ رستم برابر میں دھری کرسی پر آبیٹھا۔
”مشکل سوال“ ڈاکٹر نے ایک ایک نظر دونوں پر ڈالی پھر رستم سے مخاطب ہوا:”آپ نیچے سے آرہے ہیں۔آپ کو پتا ہوگا ۔یہ جو چار گاڑیاں آئی ہیں….کون آیا ہے؟“
”ابھیہاں!“رستم نے ناسمجھنے والے انداز میں کہا۔اس کے مزید کچھ بولنے سے پہلے ہی ڈاکٹرمرشد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید بولا:
”یہ جناب مجھ سے آنے والی عورت کے بارے میں پوچھ رہے ہیں….یہ عورت کون ہے،کیابلا ہے….دھوتی چادر والی!“ وہ جیسے رستم کے سامنے مرشد کی شکایت کر رہا تھا۔رستم نے چونک کر مرشد کی طرف دیکھا،چند لمحے آنکھیں سکوڑے،خالی خالی نظروںسے دیکھتا رہا،پتا نہیں کیا غور کر رہا تھاوہ۔ مرشد سے رہا نہیں گےا۔
” کیا بات ہے لالا!مسئلہ کیا ہے؟“
”کج نئیں!“ رستم نے سر جھٹکا۔”دراصل ابھی تک موقع ہی نہیں بنااور….ےہ اتفاق بھی ہے کہ تعارف نہیں ہو پایا حالانکہ جس عورت کے متعلق تم پوچھ رہے ہو اس سے تمہاری دو تین ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔“
”پہیلیاں کیوں ڈالی جا رہی ہیں۔“ مرشد نے قدرے بد مزگی سے کہا۔
” اسی عورت کی پناہ میں،میزبانی میں ہو تم اور یہاں کے لوگ اسے ملک منصب کے نام سے پکارتے،جانتے ہیں!“
”کیا….ملک منصب….یہ عورت!“مرشد کی گردن بے اختیار ایک بار پھر کھڑکی کی طرف گھوم گئی۔حیرت و بے یقینی چہرے پر برس پڑی تھی۔ادھر کوئی نہیں تھا….اس نے دوبارہ باری باری ڈاکٹر اور رستم کی طرف دیکھا۔غیر یقینی سے….وہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ وہ دونوں اس کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں یا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔رستم اس کی کیفیت سمجھتے ہوئے،اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا:
 ” ہاں! یہی عورت….اسی کا نام ملک منصب ہے۔ملک گجناب کی وارث،شاہ پور بلوچ قبیلے کی موجودہ سردار اور رہنما….تمہیں الجھن ہے تو تم اسے ملک منصب کی بجائے منصب بی بی کے نام سے سوچ سکتے ہو!“
مرشد کچھ بھی نا بول پایا،بس غےر دماغی کے انداز میںدیکھے گےا….پہلے رستم کی صورت ….پھر ڈاکٹر کی اور آخر میں گردن پھیرکر کھڑکی سے باہر،ہسپتال کی اس مختصر عمارت کی طرف جہاں ابھی کچھ ہی دےر پہلے وہ عورت….یعنی ملک منصب داخل ہوئی تھی۔یہ انکشاف واقعی اس کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوا تھا۔اب تک وہ جسے ایک جبروت قسم کے مرد کے طور پر سوچتا آیاتھا وہ ایک عورت نکلی تھی….ایک مرد مار قسم کی بھر پور عورت! 
وہ پچھلے ڈےڑھ دو ماہ سے ملک منصب کا نام،اس کاذکر سنتا آےا تھااور ایک بار بھی اس خیال نے دماغ کو نہیں چھوا تھا کہ یہ کسی عورت کا ذکر ہورہا ہے….اس نے ذہن پر زور دیا….یاد کرنے کی کوشش کی…. ان دو ماہ میں بارہا دفعہ اسکا ذکر ہوا تھالیکن کوئی ایک جملہ بھی اس کے حوالے سے اےسا نہیں تھاجس سے یہ اندازہ ہوپاتا،طے ہوتا کہ مذکورہ شخصیت کسی مرد کی ہے یا….عورت کی!
مرشد غائب دماغی کے عالم میں ہسپتال کی طرف دیکھ رہا تھاکہ اس کی نظر ارباب پر پڑی،وہ تیز قدموں کے ساتھ حویلی سے ہسپتال کی طرف جا رہا تھا۔ایک بے چینی جےسے اس کے روئیں روئیں سے مترشح تھی۔وہ ہسپتال کے باہر پہنچا ہی تھا کہ منصب باہر نکل آئی۔مرشد کو لگا کہ ارباب کسی باعث ملتان نہیں جا سکااور حجاب سرکار والا نکشاف وہ منصب پر اب ظاہر کرنے لگاہے۔
ہسپتال کے سامنے دونوں ٹھہر گئے۔ارباب بول رہا تھا۔منصب نے ایک بار نظریں اٹھا کر ادھر….مرشد والے کمرے کی طرف بھی دیکھااور پھر اچانک ارباب والی بے تابی اور بے قراری اس میں بھی سرائیت کر گئی۔وہ اچانک حرکت میں آئی اور عجلت آمیز تیزی کے ساتھ حویلی کی طرف آنے لگی۔ارباب اس کے ہم قد م تھا۔منصب نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی اس کے دونوںپلوو�¿ں کے درمیان سے ….گردن سے نیچے ….دھوتی کی گرہ تک،جسم کے درمیان کا حصہ،ایک لکیر کی صورت دکھائی دیتا تھا۔ایک آدھ بار ہوا کے جھونکے نے برہمی کا اظہار کیا تو چادر کی وہ لکیر لہرا کرشگاف ہوگئی۔آدھا سینہ برہنہ ہوگےا تھا مگر….پرواہ کسے تھیمرشد نے نظریں گھما کر دیکھا،احاطے کے اندر، ادھر ادھر دس پندرہ افراد موجود تھے مگر کوئی بھی منصب کی طرف متوجہ نہیں تھا…. اسے احساس ہوا کہ یہ نظر خیز نظارہ اس لمحے تو کم از کم صرف اسی نے دیکھا ہے! وہ دونوں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
مرشد بولا:”یہ ارباب صاحب ملتان نہیں گئے تھے؟“ 
جواب رستم نے دیا:”نہیں ….ڈی سی بہادر آگئے تھے۔یہاں تمہیں بھی سوتا دیکھ کر گئے ہیں۔خاصے پریشان تھے۔
” ہوتے رہیں، ہمیں کیا۔“
”پھر بھی….“
”اس طرف سے مزید گرفتاریاں ضروری ہیں۔دے دی جائیں گی۔“
مرشد کے منہ سے اچانک سسکاری سی نکل گئی۔ڈاکٹر نے اس کی بائیں پنڈلی سے بینڈیج جھٹک کر اتار لی تھی۔مرشد کو وہ لمحات یاد آگئے جب ایک کتے نے اس کی ٹانگ کا یہ حصہ اپنے بھیانک جبڑے میں دبوچ لیا تھا۔خنجر نے جان چھڑائی تھی اسکی۔
”آرام سے پیارے! انسانی ٹانگ ہے یہ۔“اس نے ڈاکٹر کو پچکارا۔
”سوری“
”خنجر ،ساون لوگوں کی کیا خبر ہے؟“ مرشد رستم سے مخاطب ہوا جوکھیسے سے کنگھی نکالنے کے بعد اپنی سفید داڑھی سنوار رہا تھا۔
”ٹھنڈے کمرے میںلیٹے ،آپس میں گپے لگا رہے ہیں۔تم جب سو رہے تھے تو ہسپتال کا چکر لگا آیا تھا….باقی سب بھی آرام کر رہے ہیں۔تمہیں سلام بھیجا ہے سب نے ۔بس ایک….“ وہ پر سوچ انداز میں خاموش ہوا تو مرشد فوراً بولا:
”بس ایک کیا؟“
”بس ایک فیروزہ کا مسئلہ تھوڑا سنگین ہے۔“
”کےسے….کیا ہوا اس کے ساتھ؟“
”ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ لگی ہے۔ڈاکٹر کہہ تو رہے ہیں کہ ٹھیک ہوجائے گی لیکن….فی الحال اسے بسترپرایک طرح سے باندھ کر،جکڑ کر رکھا گےا ہے۔“
”رب رحم کرے اس پر۔زریون شاہ جی سے سامنا ہوا تمہارا؟“
” نئیں….وہ تو کل سے باہر نکلے ہی نئیں۔سنا ہے اپنے تایا تائی کے ساتھ زیادہ لگاو�¿ رکھتے ہیں، کل سے اندر ان ہی کے ساتھ ہیں۔“
مرشد کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ڈاکٹر وقاص کی طرف دیکھ کر چپ کر گےا۔منصب کے حوالے سے بھی اس نے اپنے محسوسات،ڈاکٹر ہی کی وجہ سے زبان تک نہیں آنے دئیے تھے۔
” میں جن دنوں لاہور سے نکلا تھا ان دنوں دلبر ہسپتال میں تھا۔وہ کیسا ہے اب؟“
”ٹھیک ہے۔بچ تو گےا ہے لیکن اسکا چہرہ ایک طرف سے بلکل بگڑ گےا ہے۔“
مرشد کو یاد تھا،جب فوجی ملنگی حجاب کو کوٹھے سے اٹھا کر لے گئے تھے تووہ اور دلبر ان کا موٹر بائیک پر تعاقب کر رہے تھے،کوٹ مومن کے علاقے میں، ایک ہائی ایس سے ان کی ٹکر ہوگئی تھی۔رستم ان گزرے واقعات کی تفصیل پوچھنے لگا۔
قریباً آدھ گھنٹے بعد ڈاکٹر اس کے زخموں کی صفائی اور نئی مرہم پٹی کر کے فارغ ہوا ہی تھا کہ داخلی دروازے کے قریب آہٹ سنائی دی۔ارباب کی بھی آواز آئی تھی اور پھر اگلے ہی پل مرشد کو اس بستی،اس علاقے کی پر اسرار ترین ہستی دکھائی دی۔ہاں….وہ ملک منصب تھی جو کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ اس سے ایک قدم پیچھے ارباب بھی تھا۔مرشد نے پہلی بار بھرپور نظروں سے منصب کا جائزہ لیا۔
اس کی عمر چونتیس پینتیس سال رہی ہوگی لیکن وہ ستائیس اٹھائیس سے زیادہ کی لگتی نہیں تھی۔قد رہا ہوگا کوئی پانچ فٹ سات یا پھر آٹھ انچ۔بھرا بھرا ٹھوس اور کھنچا ہوا وجود ، جو نظروںکو زبردستی اپنی طرف کھینچتا تھا۔مردوں کی طرح تنی ہوئی گردن اورچھاتی ،اٹھے ہوئے کندھے….اس پر نظر پڑتے ہی زہن،نزاکت کی جگہ وجاہت کو بٹھانے لگتا تھا۔وہ زنانہ وجاہت کا کامل نمونہ معلوم ہوتی تھی!۔
رستم کرسی سے اٹھ کر مرشد کی پائینتی،پلنگ پر ٹک گےا۔ڈاکٹر نظریں جھکا تا ہوا فوراً چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔منصب اپنے مخصوص بے باک اور پر اعتماد انداز میں قدم اٹھاتی مرشد کے قریب آٹھہری۔اس کی پلکیں نم آلود اور آنکھیں بلکل خشک تھیں….شاےد کچھ دیر پہلے ہی کوئی ایک دو آنسو اس کی پلکیں نم کر گزرے تھے۔اس نے سر تا پیر مرشد کا جائزہ لیا۔چہرے پر ارباب ہی کی طرح اتنی گہری سنجیدگی جس پر کرختگی کا گمان گزرے۔سنجیدگی اور سکوت….موت جیسا پر اسرار سکوت۔ایک بازگشت سی اور بھی تھی۔
”ملک منصب نے پچھلے بارہ سال سے کالے رنگ کے علاوہ کوئی اور رنگ نہیں پہنا!“ وہ ہنوز اسی سیاہ پوشی میں تھی۔
”ماشااللہ!چنگا سوہنا تے تگڑا جوان ہئیں“ ملک منصب اس سے مخاطب ہوئی ۔اس کا لب و لہجہ بلکل ان پڑھ اور دیہاتی تھا۔ وہ آنکھوں سے اس کے جسم کی طرف اشارہ کرتے ہوئی مزید بولی:
”اے بس چھوٹے چھوٹے جھریٹاں ہِن،جلدی اٹھ کھڑ سئیں۔
“(یہ بس چھوٹی چھوٹی خراشیں ہیں ،جلدی اٹھ کھڑے ہوگے)
”تئیں بہوں وڈا تے عظیم کم انجام ڈتے….ساڈے تے تےرا دوہرا احسان تھی کھڑے….ہن ساڈے تے تےڈا صدقہ اتارن وی لازم ہئے تے عام خےرات کرن وی۔“
(تم نے بہت بڑا اور عظیم کام کےا ہے۔ہم پر تمہارا دوہرا احسان بن آیا۔اب ہم پر تمہارا صدقہ اتارنا بھی لازم ہوگےا ہے اور عام خیرات کرنا بھی)
وہ سرائیکی میں با ت کر رہی تھی۔مرشد کو باآسانی سمجھ آگئی۔ اس کے خفیف سے اشارے پرتھال بردار لڑکیاں فوراًآگے بڑھ آئیں۔
منصب بولی:”بی بی جی دی زندگی ہچ جیہڑی قیامت گزری ہئے….او آپ قیامت دی ہک نشانی ہئے….بہوںڈکھ تے ارمان لگے۔اے ڈکھ نال نا ہووے ہا تاں اساں….پوری بستی ،گھٹ توں گھٹ وی پورے چالی ڈیواراں بی بی جی دی آمد داجشن مناو�¿ں ہا،ہن اینوے نئیںسے کر سگدے….مجبوری ہئے۔“
(بی بی جی کی زندگی میں جو قیامت گزری ہے ۔ وہ خود قیامت کی ایک نشانی ہے۔بہت دکھ اور افسوس ہوا۔یہ دکھ نہ ہوتا تو ہم سب ….پوری بستی کم از کم بھی چالیس دن بی بی کے آنے کا جشن مناتے۔اب اےسے نہیں کر سکتے ….مجبوری ہے)
مرشد کو اس کے لب و لہجے اور انداز سے الجھن سے محسوس ہوئی۔اس کا بات کرنے کا طریقہ نارمل نہیں تھا….آواز ہر گز بھی بری نہیں تھی بس انداز بہت عجیب سا تھا۔بے باکی تو تھی سو تھی کچھ لاپروائی اور عدم دلچسپی کا تاثر بھی تھا….یہ ساری باتیں اس نے بڑے مشینی سے انداز میںکہی تھیں….یوں جیسے کوئی سبق یا خبر سنا رہی ہو….جذبات و احساسات کا اتار چڑھاو�¿،اس کے لہجے سے بلکل مفقود تھا۔
 اس نے خود مرشد کا صدقہ اتارا ۔اس کے دائیں بازو پر امام ضامن باندھا،اناج کی مختلف اقسام کو ہاتھ لگوایا،ان میں چاول اور گندم کے علاوہ دودھ اور گوشت بھی شامل تھا۔مرشد نے یہی خیال کیا کہ وہ اپنی کوئی مخصوص رسم روایت نبھانا چاہ رہی ہے۔وہ بس اس کی منشا کے مطابق چپ چاپ عمل کرتا رہا۔اس دوران ایک دو بار منصب کا سینا اور پیٹ چادر سے ظاہر ہوئے مگر….منصب کو تو جیسے سرے سے کوئی احساس خیال تھا ہی نہیں نا….مرشد نے جبراًان جھلکیوں سے نظر چرائی۔
یہ عمل مکمل ہونے کے بعد تینوں لڑکیاںوہ تھال اٹھائے واپس چلی گئیں۔ڈاکٹر بھی گردن جھکا کر ان کے پیچھے ہی نکل گےا۔منصب پانچ چھ قدم پیچھے ہٹ کر صوفے پر بیٹھ گئی۔بیٹھنے سے اس کے سینے کی لکیر خاصی کشادہ ہوگئی تھی لیکن اس نے چادر درست کرنے کا تکلف غیر ضروری سمجھا۔ بازو�¿ں کے علاوہ،دونوں پہلوو�¿ں سے بھی اس کا گورا چٹا جسم دکھائی دینے لگا تھا۔مرشد نے ایک سرسری نظر ارباب پر ڈالی جو ایک طرف کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔اس کا چہرہ بالکل سنجیدہ اور سپاٹ تھا ۔ وہ یک ٹک کمرے کے ایک ستون کو گھور رہا تھا!
منصب کی رسمی کارروائی اور اس کی ساری باتوں کے دوران میں مرشد بالکل خاموش رہا تھا۔وہ صوفے پر بیٹھتے ہی ارباب اور رستم کی طرف دیکھتے ہوئے بولی:
”ای کوں میری گالیں سمجھ وی آندے پئین یا کوئنا؟“
 (اس کو میری باتیں سمجھ بھی آرہی ہیں یا نہیں؟)
اشارہ مرشد کی طرف تھا سو مرشد فوراً بول پڑا:”ہاںجی !سمجھ آرہی ہیں،کسی کسی الفاظ کے علاوہ۔“
چند لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں بولی: ”میں پڑھی لکھی نا ہوں….ان پڑھ دیہاتی عورت ہوں۔منہ بنا بنا کر بولنا بھی اچھا نئیں لگتا مجھ کومگر تو ہمارا ہیرو ہے ،محسن ہے ہمارا….بابو سے شاہ پور کی تاریکھ(تاریخ) تو سن ہی لی ہے تو نے۔“ بابو سے اس کا اشارہ ارباب کی طرف تھا۔ 
”جان ہی گئے ہوگے کہ یہ ساری جمینیں پیر سرکار شہاب الدین کی جگیر(جاگیر) کا حصہ ہیں اور ہمارے باپ دادا….ہم سارے لوک ،اسی زمین کا کھاتے آئے ہیں،کھا رہے ہیں۔اور جی رہے ہیں….اس سے خود انداجا کر لے ہم پیر سرکار کے کس حد تک قرض دار ہیں….ہمارا،ہم سب بلوچوں کے کھون (خون) کا قطرہ قطرہ تک پیر سرکار کا دیون دار ہے….پیر سرکار چالی(چالیس)ورے(برس) پہلے یہاں سے غیب(غائب)ہوئے۔ان کے بعد میرا دادا،جب تک رہا ان کو یاد کر کے روتا رہا۔اج….اج چالی ورے بعد ،ان کی پوتی یہاں پہنچی ہے۔ہم لوکوں کے لیے یہ بات کتنی بڑی اور خاص ہئے تو شاید نا سمجھ سکے….ہمارے لیے یہ ایسے ہی ہے جیسے چالی ورے بعد،اپنی پوتی کی شکل و صورت میںپیر سرکار،آپ کھود واپس مڑ آئے ہوں۔“
مرشد پوری سنجیدگی اور توجہ سے اسے دیکھ ،سن رہا تھا۔اس کی شکل وصورت کی طرح ،اس کی آواز بھی خوبصورت تھی لیکن اس کے بات کرنے کے انداز اور لب و لہجہ کے باعث وہ خوب صورتی کھو جاتی تھی، دب جاتی تھی، دھیان اس کی طرف جاتا ہی نہیں تھا۔ وہ اس طرح بول رہی تھی جیسے سارے جملے،اسی ترتیب کے ساتھ اس نے پہلے سے سوچ رکھے ہوںاور اب محض انہیں زبان سے ادا کرنے کی ذمہ داری نبھا رہی ہو۔
شاید ایسا اس غیر معمولی ٹھہراو�¿ کے باعث محسوس ہورہا تھا جو ان لمحوں اس کی ذات سے چھلکا پڑ رہا تھا لیکن ساتھ یہ بھی تھا کہ افسوس،دکھ،خوشی،احسان مندی…. وہ جس حوالے سے بھی بات کرتی گئی تھی اس کا کوئی تاثر،کوئی رنگ، اس کے پر سکوت چہرے پر آیا تھا نا لہجے میں!
وہ بول رہی تھی: ” تم لوک ملتان میں تھے جب مجھے کھبر(خبر) مل گئی تھی کہ کوئی گیرت مند جوان ہے جو ایک سیدزادی کو چوہدریوں جیسے سوروں سے بچاتا پھر رہا ہے ۔تب میں نے سوچا تھا ، یہ چوہدری بھڑوے ہیں ہی یزیدی خانوادے سے….یہ جہاں بھی ہوں گے اپنے آسے پاسے کسی پیر،کسی سےد کو برداشت نئیں کریں گے۔ میں نے بابو سے کہا تھاکہ تم لوکوں کو وہاں سے سدھا یہاں ،حویلی میں لے آئے،ہم نے اسی وقت ارادہ کر لیا تھا کہ تمہاری ہر طرح سے مدد کریں گے۔یہ بات تو ہم میں سے کسی کے ویم و گمان میں بھی نا آئی تھی کہ یہ سید بی بی ،سرکار شہاب الدین کے کرانے(گھرانے) سے بھی ہو سکتی ہیں۔ان کے جگر کے ٹکڑے کے،جگر کا ٹکڑا….پیر سرکار کا اپنا کھون….“
اس حوالے سے مرشد کے زہن میںپہلے سے ایک خیال ،ایک سوال موجود تھا۔اس نے فوراً وہ ،منصب کے سامنے رکھ دیا۔
”اور یہ بات آپ کے وہم و گمان میں کیوں نہیں آئی؟“
”کس طرح آتی….چالی ورے گزرے ان کو لاپتہ ہوئے۔اتنے وروں(برسوں) سے کبھی کہیں سے کوئی کھبر بھی سننے کو نا ملی۔“
” مجھے یاد ہے ملتا ن میں جب ہم اتفاقاًآپ کی کوٹھی میں پہنچ گئے تھے،تب باہر سے ہماری باتوں کی تصدیق کر لینے کے بعد،ارباب صاحب نے واپس آکر مجھ سے کہا تھا۔
”اچھا! تو تم نے نندی پور کے جاگیرداروں کو ٹکر دی ہے؟“ اگر آپ نندی پو ر کے جاگیر داروں کو جانتے تھے تو نندی پور کے سادات سے کیسے واقف نہیں تھے؟“ 
”ہم نندی پور یا نندی پور کے کسی بھی رہائشی سے واقف نہیں“ اس بار ارباب بولا تھا۔” اس بستی سے کسی کا بھی نندی پور سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔ چوہدریوںکے متعلق بھی ہمیں بس اتنی ہی خبر تھی کہ انہو ں نے نندی پور میں بھی اچھی خاصی جاگیر بنا لی ہے اور اس کے علاوہ گوجرانوالہ اور لاہور میں کارخانے بھی لگا رکھے ہیں،بس!“
مرشد نے مزید سوال اٹھایا:”اگر چوہدری نندی پور میں بھی زمینیں رقبے رکھتے تھے تو پھر شہاب الدین سرکار کا یہ علاقہ چھوڑنااور وہاں جا بیٹھنا….کچھ عجیب سا نہیں لگتا کیا؟یا شاہ صاحب پہلے وہاں گئے اور چوہدریوں نے بعد میں وہاں جاگیریں بنا ئیں؟“
اس سوال پر ایک ذرا….منصب اور ارباب،دونوں کو چپ لگ گئی پھر منصب نے بولنے میں پہل کی:
”شید(شاےد)اس طرح ہی ہویا ہو۔یہ تو اب پتاکرنا پڑے گا کہ چالی ورے پہلے جو تناضعہ(تنازعہ)یہاں شروع ہوا تھا،اب اتنے ورے بعد وہ وہاں ،نندی پور میں کیسے پھوٹ پڑا!“
ارباب بولا:”اس بارے میں سرکار نظام الدین ضرور ساری تفصیل جانتے ہوں گے“
مرشد نے باری باری ان دونوں کی شکلیں دیکھیں۔اسے لگا کہ بظاہر جو کہانی پوری طرح کھل آئی ہے اس کے کچھ نا کچھ حصے ابھی بھی پردے میں ہیں۔چند چھوٹی چھوٹی کڑیاں اب بھی گم تھیں،لاپتا تھیں!
”حاکم علی تو مرچکا ہے نا؟“ مرشد کا انداز تائید طلب تھا۔
” اس ےزید زادے کو تو پورے ہوئے ورے گزر گئے“
”کتنے ورے ؟اور موت کیسے ہوئی تھی اس کی؟“
”وہ جےسے انجام کاحق دار تھا رب سوہنے نے اسے ویسے ہی عبرت ناک انجام تک پہنچایا….اس کے در سے نا انصافی نئیں ہوتی نا۔یہاں سے جانے کے ڈےڑھ دو سال بعد پیر سرکار پردہ فرماگئے۔سنا ہے ان کے جانے کے بعد،نواب اسفندےار اور چوہدری حاکم علی ایک ایسی خوف ناک اور موجی (موذی) بیماری کا شکار ہوئے جو کہیں کسی ڈاکٹر ،حکیم کی سمجھ میں نا آسکی۔“ منصب اپنے مخصوص انداز میں بول رہی تھی۔اس کی نظریں مرشد کے برابر، کھڑکی سے باہرسیدھی دور افق پر ٹکی ہوئی تھیں۔
 مرشد اس کی صورت دیکھ ریا تھا اور اندر ہی اندر یہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اب سے پہلے اسے کہاں دیکھ چکا ہے؟
خوب صورت جاذب نظر چہرہ،تلک لگی کشادہ پیشانی،بھرے بھرے گال،کھنچی ہوئی بھنویں،بڑی بڑی پر کشش آنکھیں،جن میں ایک یاس بھرا سکوت جما ہوا تھا۔یہ صورت ،یہ نین نقش نظر آشنا تھے مگر یاد نہیں آ رہا تھاکہ یہ آشنائی کہاں ہوئی ہے۔آشنائی کا یہ احساس اسے پہلے بھی ہوچکا تھا! 
وہ بول رہی تھی اور بولنے کے ساتھ اس کے دائیں گال میں خفیف سا گڑھا نمودار ہوتا تھا جو اس کے چہرے کو اضافی دل کشی عطا کرتا تھا۔ایک پتھریلا سا سکوت تو جیسے ان خدوخال کا حصہ ہی تھا۔موت جیسا گہرا سکوت….اس کی پوری ذات،پوری شخصیت میں سب سے زیادہ زندہ اور جان دار کوئی چیز تھی تو وہ تھی اس کی آنکھیں….موٹی نہیں تھیں لیکن بڑی بڑی تھیں۔صاف شفاف اور ایسی پر کشش آنکھیں جن میں دیکھتے ہی رگ و پے میں یہ احساس سرسرانے لگتاتھا کہ پورے وجود سے زندگی سمٹ کر ان آنکھوں میں آبیٹھی ہے۔صرف اتنا ہی نہیں،ان آنکھوں میں مزید خاص بات یہ تھی کہ ان کی سفیدی میں ہلکی سی نیلاہٹ گھلی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ پتا نہیں یہ کس چیز یا عمل کا کمال تھا۔یوں ہی لگتا جیسے ان آنکھوں سے آسمان جھانکتا ہو….یا ان کے پس منظر میں کوئی وسیع اور گہری جھیل چھپی ہو! مرشد نے ایسی خوب صورت اور اثر انگیز آنکھیں اب سے پہلے نہیں دیکھی تھیں۔اچانک اس کے اندر ایک سوال نے سر اٹھایا۔
”کیا حجاب سرکار کی آنکھیں بھی اتنی خوب صورت نہیں؟“ وہ اپنے ہی خیال سے چونک پڑا۔
یہ بھلا وہ کیا سوچ رہا تھا؟ اس نے سر جھٹکا اور پوری طرح منصب کی گفتگوکی طرف متوجہ ہو گیا۔
وہ کہہ رہی تھی: ” دونوں کتوں نے بڑی بھاگ دوڑ کی۔ باہر ملک تک ہو آئے مگرنا کسی کو مرض سمجھ لگا نا کوئی دوا دارو کم آیا۔دونوں کی شکلیں اور جسم اس طرح وگڑ گئے کہ دیکھنے والے توبہ توبہ کرتے تھے۔آخر پنج(پانچ)سال تک عذاب کاٹنے کے بعد حرامی حاکم علی تو دوزخ کو روانہ ہوگیا لیکن….نواب کے ہتھے اک سنیاسی چڑھ گےااس سنیاسی نے نواب کی جان بھی بچا لی اور بیماری کو بھی یوں کھتم(ختم) کر دیاجیسے وہ نواب کو کبھی چمبڑی(چمٹی) ہی نا ہو!“
”یہ سنیاسی کہیں وہی بابا تو نہیں….مصری!“ مرشد نے ارباب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔اس کا دماغ فوراً ہی اس بد مزاج سنکی بوڑھے کی طرف گیا تھا۔
 ”ہاں!“ ارباب نے سر کو اثبات میں حرکت دی۔”یہ اسی کا ذکر ہے۔ ملتان سے تمہارے ساتھ ہی روانہ ہوا تھا….اس کا کیا بنا؟“
” پتا نہیں …. اس سے اگلی رات ہم نے دریا پار کیا تھا۔چناب ریسٹ ہاو�¿س کے قریب وہ اچانک ہی غائب ہو گیا تھا۔پتا نہیں کدھر گیا!“
”اے گال تاں ٹیپو ڈسا چھوڑی ہئی،ول ہن تک کیا کیتے تئیں؟“
(یہ بات تو ٹیپو نے بتا دی تھی،پھراب تک کیا کیا تم نے؟)
منصب فوراًارباب سے مخاطب ہوئی تو وہ اسے بتانے لگاکہ اس نے مصری کی تلاش میں کس کس کو ،کدھر کدھر دوڑا رکھا ہے۔کئی ایک بلوچ اسے پوری شدو مد سے تلاش کر رہے تھے،ڈھونڈ رہے تھے مگر وہ کہیں نہیں مل رہا تھا۔یوں غائب تھا جیسے کسی اجگر کے بل میں گھس کر زیرِ زمین جا بیٹھا ہو۔ ان دونوں میں اس خدشے پر بھی بات ہوئی کہ کہیں وہ نواب لوگوں کے ہتھے نا چڑھ گیا ہولیکن اس حوالے سے دونوں ہی خاصے مطمئن بھی تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نوابوں اور چوہدریوں،دونوں پارٹیوں کے اندر ان کے اپنے مخبر موجود تھے۔
ان دونوں کے ایک ذرا خاموش ہوتے ہی مرشد منصب سے مخاطب ہوا: ”ارباب صاحب سے میری پہلے بات ہوچکی ہے۔ ان سے بات کر کے مجھے اندازہ تو یہ ہی ہوا ہے کہ اگرمیں آپ سے کچھ کہوں،مانگوں تو میرا مان بڑھایا جائے گا“
”سِدھا مدّے(مدعے) پہ آ باﺅ!کیا چاہتے ہو؟“ منصب بھی فوراً اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”ملنگی کی زندگی….ملنگی اور چوہدری فرزند ،دونوں کی زندگی اور….ضرورت پڑے تو دونوں کا تحفظ بھی….بس کچھ عرصے کے لیے….جب تک میں بستر پر ہوں صرف تب تک!“
منصب دایاں بازو صوفے پر پھیلائے،گردن قدرے ٹیڑھی کیے عجیب مردانہ سے انداز میں بیٹھی تھی۔چند لمحے اسی طرح گردن موڑے موڑے یک ٹک مرشد کی صورت تکتے رہنے کے بعد ،وہ اسے آنکھ مارتے ہوئے بولی:
” ان دونوں پہ تیرا دل تو نئیںآگےا؟“
”اس سے آگے کا معاملہ ہے۔عشق ہوگےا ہے مجھے۔ٹھیک ہونے کے بعد یہ دونوں مجھے صحیح سلامت نا ملے تو میں نے خود کشی کر لینی ہے….زہر کھا کر جان دے دینی ہے۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔جواباً منصب کے چہرے پر ایک بے ڈھنگا سا تاثر ابھر کر مٹ گےا۔شاید اس نے مسکراہٹ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس کوشش میں صرف اس کے ہونٹ تھوڑا سا کھنچ کر رہ گئے مسکراہٹ نظر نہیں آئی!
”اشق(عشق) ہوگےا ہو تو پھر(جہر) زہر کھانے یا کھود کشی(خودکشی)کرنے کی کیا جرورت….یہ تو اشق کی بے عجتی ہوجائے گی….بہرحال….یہ دونوں تیرے ہوئے اور بول؟“
” بس….اتنا ہی کافی ہے اور کچھ نہیں….مجھے یہ ہی تسلی چاہئیے تھی کہ آپ لوگ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے“
”تو کہے تو اشٹام لکھ دیتی ہوں۔ان دونوں(ناقابل اشاعت)…. کو کوئی بلوچ ہتھ نئیں لگائے گا۔“اس نے ایسی غلیظ مردانہ گالی کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ مرشد کے بھی کان سنسنا کر رہ گئے۔
”نہیں …. اس کی ضرورت نہیں۔ انسانوں کے بیچ زبان ہی کافی ہوتی ہے“ اس کا جملہ سن کر منصب کچھ بولتے بولتے رک گئی۔
شاےد اس کا دھیان پیر سرکار شہاب الدین کی طرف چلا گیا تھا۔رستم جو اب تک خاموش بیٹھا تھا،وہ انہیں کسی پنوار اور دستی کے متعلق بتانے لگا۔بات موجودہ حالات کی طرف پلٹ آئی۔ان تینوں کے درمیان کچھ مقامی شخصیات اورحالات پر بات ہونے لگی تومرشد رخ بدل کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔سورج سامنے دور مغربی افق پر گلال بکھیر رہا تھا۔بستی کی ویران گلیوں میں لوگ دکھائی دینے لگے تھے۔قبرستان کے ساتھ ایک چھوٹا سا میدان تھاجہاں اس وقت بستی کے نوجوان وولی بال کھیلنے کی تیاریوں میں مگن تھے۔ حویلی کے سامنے کوئی سو گز کے فاصلے پرپیپل کے چند درخت تھے اور ان درختوں کے نیچے پولیس کی دو گاڑیاں کھڑی تھیںاور چند پولیس والے بھی دکھائی دے رہے تھے۔
تین چار پولیس والے حویلی کے احاطے کے اندر بھی موجود تھے۔احاطے میں ہسپتال کی جنوبی طرف بلند فصیل کے سائے میں ایک ماچا دھرا تھا اور وہ اس پر بیٹھے تاش کھیلنے میں مصروف تھے۔قریب ہی موڑھوںپر تین چار مسلح بلوچ بھی بیٹھے تھے۔
ملک منصب کی شکل میں عورت کا ایک بلکل الگ،پیچیدہ اور غیر معمولی روپ اس کے سامنے آےا تھا۔وہ ایک توبہ شکن وجود والی خوب صورت عورت تھی لیکن….اس کے طور اطوار،بات چیت ،لہجہ اندازیا تیوروں میں کہیں کوئی عورت دکھائی نہیں دیتی تھی….پھر یہ بلوچوں کی بستی تھی۔مرشد کو بلوچوں کی خودداری اور غیرت کے حوالے سے ذرا برابر بھی شبہ نہیں تھامگر ان سب کی سردار ایک عورت تھی اور عورت بھی ملک منصب جیسی….ٹھیک ہے اس میں عورتوں والی نزاکت نظر نہیں آتی تھی پھر بھی….وہ تھی تو عورت ہی….جنس مخالف کے لیے اپنے وجود میں توبہ شکن کشش رکھنے والی ایک ان پڑھ دیہاتی عورت!
یقینا وہ حالات و واقعات بھی غیر معمو لی رہے ہوں گے جنہوں نے ایک عورت کو لڑاکا قسم کے بلوچوں کی پوری بستی کا سردار بنا دےا،اسے منصب بی بی سے ملک منصب کے،منصب پر جا بیٹھایا!
مرشد اس کے اس سفر کے علاوہ بھی کچھ باتیںجاننا چاہتا تھا مگریہ سب منصب ہی سے پوچھنا اسے کسی طور بھی کچھ مناسب نہیں لگا۔وہ چپ چاپ بستی اور کھیتوں کا نظارہ کرتا رہا۔بصارت پر طاری سرخی خاصی کم ہو چکی تھی۔ایک گلی میں چند چھوٹے بچے سائیکل کا ٹائر بھگاتے پھر رہے تھے….ایک شخص بھینسوں کو کہیںلے جا رہا تھا….ایک صحن میں لگے نلکے پر عورت برتن دھو رہی تھی….ایک بندہ کلہاڑے سے لکڑیاں پھاڑ رہا تھا….ایک پرچون کی دکا ن بھی دکھائی دے رہی تھی۔ 
اس کے ذہن میں مختلف مناظر چل رہے تھے اور وہ ان ہی کی طرف سے دھیان ہٹائے رکھنے کی غرض سے یوں ہی بستی کے مناظر گنتا رہا۔ زہنی مناظر اچھے جو نا تھے….ان میں اذیت اور تکلیف دینے والے مناظر کی تعداد زیادہ تھی جن کے بنےادی زمہ دار تھے چوہدری فرزند اور ملنگی….وہ دونوں اس روئے زمین کے بد ترین انسانوں میںسے تھے….انہوں نے بد ترین اذیت اور دکھ بانٹے تھے،وہ دونوں بدترین مجرم تھے،بدترین انجام کے مستحق!
بظاہر وہ زہنی اور جذباتی طور پر خود کو سنبھال چکا تھا۔اسے دیکھنے والا کوئی بھی اس کی اندرونی ابتری کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا….اس کے اندر غم و غصے کا ایک بحرِ بیکراںموجود تھا۔سارے کا سارا جسم تو پھوڑے کی طرح دکھ ہی رہا تھا۔اس سے کہیںزیادہ دکھن اس کے اندر موجود تھی….لہو میں بہہ رہی تھی،رگ و پے میں پیپ کی طرح پک رہی تھی،دکھ رہی تھی۔
اس سب پر ایک اضافی پریشانی،ایک مردنی اور طاری تھی،جب سے وہ یہاں پہنچا تھاتب سے حجاب بی بی اس کی نظروں سے اوجھل تھی،اسے حویلی کے کسی اندرونی حصے مین چھپا دیا گےا تھا۔کل شام سے وہ مرشد کو ارد گرد کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی تو اسے رہ رہ کر ےوں لگنے لگتا جیسے وہ اپنی ےاداشت کھو بیٹھا ہو….حافظہ گنوا بیٹھا ہو۔ زہن ایک لمحے کے لیے اس سے غافل نہیں ہوا تھا۔آنکھیں اسے دیکھنے کے لیے بے چین تھیں،سماعتیں اسے سننے کے لیے بے قرار اور دل اس کی دلی حالت جاننے کے لیے بے تاب….مگر وہ مجبور اور بے بس ہو کر رہ گےا تھا۔ وہ اس سب کا کوئی حق نہیں رکھتا تھا۔اس کا کوئی مقام و مرتبہ نا تھا، کوئی اوقات نا تھی….وہ تو بطورِ خاص یا بار بار….اس کے متعلق پوچھ بھی نہیں سکتا تھا۔کیوں کہ اسے اپنی سرکار کی عزت و حرمت کا بھی پا س رکھنا تھااور اپنے پر تقدس جذبات کا بھی!
رستم،ارباب اور منصب اپنی مخصوص گفتگو میں لگے رہے اور مرشد بستی کے منظر گنتا رہا۔اچانک اسے چند گاڑیاں نظر آئیںجو ڈیڑھ دو کلومیٹر دور ملتان روڈ سے شاہ پور آنے والی سولنگ پر اتر رہی تھیں۔یہ کوئی آٹھ دس گاڑیاں تھیں جن میں دو تین یقینی طور پر پولیس کی تھیں۔
”کچھ گاڑیاں بستی کی طرف آرہی ہیں“مرشد نے بغیر کسی کی طرف دیکھے کہا۔ارباب نے رستم سے بات کرتے کرتے اٹھ کر کھڑکی سے جھانکا،چند لمحے دیکھتا رہا پھر بری طرح چونک پڑا۔
”یہ شاہ صاحب کا قافلہ ہے“وہ جھٹکے سے منصب کی طرف پلٹا۔”شاہ صاحب پہنچ آئے۔سرکار نظام الدین….قافلہ سولنگ چڑھ چکا۔“
منصب بھی اپنی جگہ سے ایک جھٹکے سے اٹھ کے پلنگ کے قریب چلی آئی۔گاڑیاں ایک قطار میں بستی کی طرف چلی آ رہی تھیں۔یقینا ان کی منزل شاہ پور کی حویلی ہی تھی۔کھڑکی سے گاڑیوں کے اس مختصر قافلے کو دیکھتے ہوئے منصب کے چہرے پر ایک سایہ سا لہراگےا۔اس کی نیلگوں آنکھوں میں ایک پریشانی،ایک بے چینی کسمسانے لگی!
”ہا! با لکل اے شاہ جی ہی ہن۔توقیر تے ضیا تاں آکھا ہا حالی ڈھائی ترے گھنٹے لگ ویسئن،اے تاں اپڑ وی آئے ہن….بابو! آپیا۔“
(ہاں با لکل یہ شاہ جی ہی ہیں۔توقیر اور ضیا نے تو کہا تھا ابھی ڈھائی تین گھنٹے لگ جائیں گے،یہ تو پہنچ بھی آئے ہیں….بابو!آجاو�¿)
وہ ارباب سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی اور فوراً پلٹ کرباعجلت وہاں سے چلی گئی۔ارباب نے اس کی تقلید کی تھی۔مرشد اور رستم،دونوں کھڑکی کی طرف متوجہ ہو گئے۔
سورج ایک لال تھا ل کی صورت افق سے نیچے اترتا جا رہا تھا۔کچھ ہی دیر تک مغرب کی اذانیں شروع ہونے والی تھیں۔رستم نے ہاتھ بڑھا کر ،آدھی کھڑکی پر تنا ہوا موٹا سیاہ پردہ با لکل ایک طرف کر دیا۔ڈوبتے سورج کی روشنی میںسولنگ پر دوڑی آتی گاڑیوں کے گرد آلود شیشے چمک رہے تھے۔ ساری گاڑیاں بستی کے قریب پہنچ چکی تھیں۔قبرستان والے میدان میںموجود سارے نوجوان اور بستی کے دیگر افرادان ہی گاڑیوں کی طرف متوجہ تھے،پھر گاڑیاں بستی میں داخل ہوئیں تو مرشد اور رستم نے دیکھا،میدان میں موجود سارے نوجوان افرا تفری کے عالم میں بستی کی طرف دوڑ پڑے۔گاڑیاں آبادی کے درمیان سے گزرتی ہوئیں حویلی کے قریب ہوتی آئیں۔بستی میں جس جس کی نظر ان گاڑیوں پر پڑتی گئی وہ اپنا کام،اپنی مصروفیت بھولتا گیا اور اپنی جگہ سے فوراً ان گاڑیوں کے پیچھے پیچھے حویلی کی طرف چل پڑا۔ 
ان سب گاڑیوں کی کل تعداد گیارہ تھی جن میں سے تین گاڑیاں پولیس کی تھیں۔باقی آٹھ میں ایک سیاہ لینڈ کروزر تھی۔تین کاریں تھیں اور چار رینگلر جیپیں۔ آگے آگے دو گاڑیاں پولیس کی تھیں،ان کے پیچھے ایک رینگلر جیپ،پھر لینڈ کروزر،تین کاریں اور پھر تین جیپیں اور سب سے آخر میں پولیس کی گاڑی تھی۔
مرشد کی نظریں اس قطار میںچوتھے نمبر پر موجود سیاہ لینڈ کروزر پر جم کر رہ گئیں۔اس کے دل و دماغ دونوں کہہ رہے تھے کہ ہو نا ہونظام الدین سرکار اسی گاڑی میں سوارہیں ۔نظام الدین ….حجاب کے پھوپھا،اس کے ابا،سےد صلاح الدین کے بچپن کے دوست اور بہنوئی….حجاب کے ہونے والے سسر،زریون علی کے والد اورسید بادشاہ شہاب الدین سرکار کے داماد….وہ جن کی دہلیز پر حاضری دینے کے لیے مرشد کب سے سفر میں تھا۔قریب دو ماہ سے اور پھر بھی ابھی بیچ راستے میں تھا۔اس راستے میں جہاں دشمن نے قدم قدم پر موت کے جال پھیلا دئیے تھے۔ایک سیدھے سے راستے کو موت کا راستہ بنا دیا تھا۔وہ جو ایک قدیم اور زہر ناک کہانی کا ایک باب تھے،شروع سے آخر تک کا ایک ایسا باب جو شاید سب سے اہم اور خاص تھا،آخر کار وہ خود ایک طویل سفر اور بلند پہاڑی سلسلہ عبور کرتے ہوئے یہاں پہنچ آئے تھے۔بستی شاہ پور میں….ملک منصب کی حویلی تک۔
مرشد کے کانوں تک ارباب کی آوازیں پہنچیں۔وہ نیچے پہنچتے ہی پکار پکار کر ملازموں کو ہدایات دینے لگا تھا۔گیٹ پر بیٹھے دربان فوراً اٹھ کر گیٹ کی طرف لپکے۔ ماچے پر بیٹھے تاش کھیلتے پولیس والے اور بلوچ بھی افرا تفری میں اٹھ کھڑے ہوئے۔فوراً ہی ایک ہل چل سی شروع ہوگئی۔
گاڑیاں با لکل قریب آچکی تھیں۔گیٹ کھلتے ہی سب گاڑیاں حویلی کے احاطے میں گھستی چلی آئیں۔جیپیں اور پولیس گاڑیاں تو اندر آتے ہی دائیں بائیں ہو کر رک گئیں،البتہ لینڈ کروزر اور کاریں سیدھا رہائشی عمارت کی طرف بڑھتی آئیں۔مرشد اور رستم دونوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ ابھی کے ابھی ایک نظر سید نظام الدین کی زیارت کر لی جائے مگر ایسا ہونا سکا۔
گاڑیاں آگے بڑھتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔یقینا وہ سیدھا رہائشی عمارت میں داخل ہوئیں تھیں۔چاروں جیپوں پر مسلح ڈشکرے سوار تھے جو اب چھلانگیں مار مار کر جیپوں سے اتر رہے تھے۔منصب یقینا آنے والوں کے استقبال میں تھی البتہ ارباب احاطے میں موجود تھا۔وہ پولیس اور بلوچوں کو غالباً کچھ مزید ہدایات دے رہا تھا۔میدان میں کھیلنے والے نوجوان بھاگتے دوڑتے حویلی تک پہنچ آئے تھے۔ارباب آگے بڑھ کر ان کے ساتھ بات چیت کرنے لگا۔پیچھے ابھی کچھ اور لوگ بھی آرہے تھے۔یہ سارے ان گاڑیوں کو بخوبی پہچانتے تھے اور سےد سرکار کے چاہنے والے تھے۔غالباً یہ سب ان کی زیارت کر سکنے کی غرض سے حویلی کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے۔
”لے شہزادے!منزل تجھ تک پہنچ آئی….کچھ دیر بعد تیرے سامنے ہوگی۔“ رستم نے سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔اسی وقت ڈاکٹر وقاص اندر داخل ہوا۔
رستم مزید کہہ رہا تھا۔” کب سے ذکر سنتا آرہا ہوں،نظام شاہ جی،بڑے شاہ جی،آخر وہ پہنچ ہی آئے۔اب زیارت بھی ہوجائے گی۔“
”ہاں جی!بالکل ہو گی لیکن آج شاید نا ہوسکے….کل کسی وقت ضرور ہوگی“ڈاکٹر نے ایک کرسی سنبھالتے ہوئے کہا۔اس کا موڈ خوش گوار نظر آرہا تھا۔
”کیوں….اج کیوں نا ہوگی؟“رستم اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”تھکے ہوئے ہونگے نا….کل صبح سے سفر میں ہیں،رستا بلاک ہونے کی وجہ سے شاید رات بھی گاڑی ہی میں گزارنی پڑی ہو۔ہو سکتا ہے ابھی کھانا کھا کر آرام کریںیا….یا پھر ہوا تو چھوٹی بی بی کو وقت دیں گے….جن کے لیے وہ ےہاں تک آئے ہیں۔“
�´مرشد نے رخ پھیر کر اس کی طرف دیکھا: ”اور ےہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ رات رکیں ہی نا!کھا نا بھی نا کھائیں اور….چھوٹی بی بی کو لے کر ابھی واپس روانہ ہو جائیں….فوراًہی ،کےوں کہ اسی لیے تو آئے ہیںوہ۔“ 
مرشد کو خود اندازہ نا ہوسکا مگر اس کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ ڈاکٹر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
”اے….ایسا تو نہیں ہونا چاہیے۔ویسے بڑے شاہ جی ہیں تو مرضی کے مالک،ظاہر ہے ….مگر….کچھ کہہ نہیں سکتے جی!کچھ دیر تک پتا چل جائے گا۔“
پندرہ بیس منٹ گزرے ہوں گے کہ مغرب کی اذانیں شروع ہو گئیں۔اسی لمحے ڈیڑھ دو کلومیٹر دور،ملتان روڈ سے کسی گاڑی کی روشنیاں سولنگ پر اتریں۔ےہ بھی آگے پیچھے تین چار گاڑیاں تھیں۔حویلی کے باہر بستی کے کچھ لوگ جمع ہوچکے تھے ۔چند مسلح بلوچ ان سے بات چیت کر رہے تھے۔مرشد کو ان میں ٹیپو اور موچھیل غضنفر کی بھی جھلک دکھائی دی۔ دو تین بلوچ مشکیں اٹھائے حویلی کے احاطے میں چھڑکاو�¿ کر تے پھر رہے تھے اور تین چار بجلی کی تاریں گھسیٹتے پھر رہے تھے۔ مسلح بلوچوں کی تعداداچانک کئی گنا زیادہ دکھائی دینے لگی تھی۔پتا نہیں اچانک،یکا یک وہ کدھر سے احاطے میں نمودار ہو آئے تھے۔آنے والی گاڑیوںکو حویلی کے سامنے روک لیا گےا تھا۔گیٹ نہیں کھولا گےا ۔
اگلے آدھے گھنٹے میں چھڑکاو�¿ کر کے ایک حصے میں ماچے بچھائے گئے۔ان پر گول تکیے لگائے گئے۔کچھ لکڑی کے بینچ اور موڑھے بھی رکھے گئے۔اطراف میں فرشی پنکھے رکھ دیئے گئے۔روشنیوں کا بھی یقینی طور پر خاص انتظام کیا گےا تھا۔پورے احاطے کے علاوہ حویلی کی بلند دیوار وںاور چھت پر بھی بڑی اور تیز روشنیاں نصب کر دی گئیں۔یقینا یہ روشنیاںحویلی کے چاروں اطراف کو منورکر رہی تھیںکیوں کہ حویلی کے بائیں پہلو اور سامنے کی روشنیاںتو مرشد خود دیکھ رہا تھا۔
حویلی کے سامنے ایک چھوٹے سے میلے کا سماں بن چکا تھا۔بلوچوں نے اپن گھروں سے چار پائیاںوہاں لا کربچھالی تھیں۔ چھوٹے بچے بھاگتے پھر رہے تھے۔ایک طرف آنے والی گاڑیاں کھڑی تھیں۔آدھے گھنٹے میں ان کی تعداد پندرہ بیس ہو چکی تھی۔ا ن گاڑیوں میں آنے والوں میں سے آٹھ دس نفیس اور معزز قسم کے لوگوں کواندر بلا کر ماچوں پر بٹھا دیا گےا تھا۔اکثریت ابھی باہر ہی تھی اور چند بلوچ وہیں لسی پانی سے ان کی تواضع کر رہے تھے۔پولیس ملازموں کی تعداد میں بھی اضافہ دکھائی دے رہا تھا۔احاطے کے اندر بھی اور باہر ،حویلی کے سامنے بھی یوں لگتا تھا جیسے یہاں کوئی فنکشن ہونے والا ہو۔کوئی محفل سجنے والی ہو!
”لیں جی!فوری واپسی تو نہیں ہوتی شاہ جی کی۔کم از کم آج تو نہیں۔“ڈاکٹر نے پر یقین اندازمیں کہا۔وہ کھڑکی سے جھانک کر دیکھ رہا تھا۔
” یہ سب کیا ہورہا ہے؟کون لوگ ہیں یہ سب؟“مرشد نے پوچھا�´
”علاقے کے معززین ہیں ۔کچھ شاہ جی کے ملازمین بھی ہیں۔ادھر ماچوں پر….دائیں طرف جو بیٹھے ہیں انہیں تو آپ جانتے ہوں گے۔صادق گجر صاحب، ایس پی اورثاقب علیم صاحب،ڈی سی بہادر، ان کے ساتھ سومرو صاحب ہیں،سول جج ہیں۔یہ….اس طرف جو نیلی شلوار قمیض میں ہیں،یہ نادر نزیر صاحب ہیں۔ایم این اے ہیں۔ان کے ساتھ دستی برادری کے….“ وہ ایک ایک کا تعارف دینے لگا۔وہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ ایک اتھارٹی تھے۔لیکن اس وقت وہ سب ،عام لوگوں کی طرح یہاںاکٹھے بیٹھے ایک شخص کا انتظار کر رہے تھے….حجاب کے پھوپھو سید نظام الدین کا!
مرشد دیکھ سن رہا تھا مگر اس کا دھیان اس کی توجہ کہیں اور تھی۔ نیچے….حویلی کے اندرونی حصے میں….اندر کہیں کسی کمرے میں،جہاں کا ماحول ان لمحوں بڑا پرسوز اور پر گداز تھا….ممکنہ اور متوقع طورپر وہاںزریون تھا،اس کے تایا تائی تھے۔کچھ عزیز رشتے داروں کے علاوہ سید نظام الدین بھی تھے اور….اورحجاب سرکاربھی….وہ رو رہی ہوں گی۔ہوسکتا ہے انہیں خود پر گزری قیامتیں پھر سے دہرانی پڑ رہی ہوں….ان کے نادیدہ روحانی زخموں میں سے پھر لہو رسنے لگا ہوگا! 
ڈاکٹر بتا رہا تھا۔”وہ گاڑی ان کے مل افسران کی ہے۔پولیس والوں کا بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں….اور باقی اپنے بستی والے ہیں۔اب شاہ جی فرداً فرداً پوری بستی سے تو نہیں مل سکتے نا! سو اس طرح یہاں اجتماعی ملاقات ہو جائے گی“
اس دوران میں ایک ملاز م لڑکارستم اور ڈاکٹر کے لیے چائے لے آیا اور مرشد کے لیے یخنی کا پیالا۔
رستم کپ سنبھالتے ہوئے بولا: ” شاہ جی کے آرام کا کیا بنے گا؟“
”آرام کر چکے ہوں گے پھر….ان سرکاری لوگوں کی آمد سے تو یہ ہی اندازہ ہوتا ہے کہ سارا پروگرام شاہ جی نے خود ہی ترتیب دیاہے“
”یقینا ایسا ہی ہے“رستم کھڑکی سے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
”باقی انہوں نے آرام کیا ہے یا نئیں….تاخیر اور رعایت کرنے کے موڈ میں بالکل نہیں لگتے۔ یہ اکٹھ بتا رہا ہے کہ فوری تر تھلی مچنے والی ہے۔شاید اج رات ہی سے!“
ان کے درمیان باتیں ہورہی تھیں کہ مرشد نے ماچوں پر براجمان شخصیات کواپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوتے ہوئے دیکھااور پھر اس کی نظر اس ہستی پر پڑی جس کے انتظار میں وہ سب بیٹھے تھے۔جس کے انتظارمیں….جس کی زیارت کے لیے بہت سے افرادگیٹ سے باہر جمع تھے۔
وہ ہستی، یعنی سید نظام الدین، حویلی کے رہائشی حصے سے سامنے بچھے ماچوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔منصب اور ارباب کے علاوہ بھی چار پانچ افراد ان کے پیچھے تھے۔مرشد یہ سب بلندی سے دیکھ رہا تھا۔شاہ جی نے سفید رنگ کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ہاتھ میں تسبیح بھی دکھائی دے رہی تھی۔ان کے عقب میں جو چند افراد چل رہے تھے ان میں سے منصب اور ارباب کے علاوہ باقی چاروں شاید بلوچستان سے شاہ جی کے ساتھ ہی آئے تھے۔وہ بلوچوں میں سے نہیں تھے۔اس کا ثبوت تھا ان کا پہناوا،زیب تن کیے لباسوں کے رنگ….منصب کے وجود پر وہی چادر تھی مگر….اس وقت اس نے بڑے اچھے سے اس کی بکل مار رکھی تھی۔
شاہ جی نے فرداً فرداً سب کے ساتھ مصافحہ کیااور پھر وہ سب ماچوں پر براجمان ہو گئے۔شاہ جی کا چہرہ اب مرشد کے سامنے تھا۔قد کاٹھ اور شکل و صورت سے ان پرپٹھان ہونے کا گمان ہوتا تھا۔چہرے پر چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی بھی تھی۔جس ماچے پر وہ بیٹھے تھے،اس کے دائیں بائیںرکھے اونچی پشت کے موڑھوں پر ارباب اور منصب بیٹھ گئے۔ میٹنگ شروع ہو چکی تھی۔
”ماشاءاللہ!پر نور چہرہ ہے۔“رستم نے اظہارِ خیال کیا تو ڈاکٹر بولا:
”ابھی تو شاہ صاحب کی صحت آدھی بھی نہیں رہ گئی….دکھ اور پریشانیاں انسان کو آدھا کر دیتی ہیںورنہ جوانی میں تو شاہ صاحب کی صحت ایسی قابلِ رشک ہوتی تھی کہ بس کیا بتاو�¿ں….اب عمر بھی خاصی ہوچکی۔“
”شاہ جی جیسی ہستیوں کو بھی دکھ پریشانیاں ہوتی ہیں؟“ مرشد نے یخنی کا گھونٹ بھرتے ہوئے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
”بشری لبادے میں ہیں۔بشری اصول اورتقاضے تو لاگو ہوں گے ہی۔“
”ویسے شاہ جی کو کیا دکھ اور پریشانی ہوسکتی ہیں؟“ رستم نے پوچھا۔
ڈاکٹر کندھے اچکا کر بولا:”بہت ساری رہی ہوں گی۔زندگی ہے….ایک دو حادثوں کی مجھے بھی خبر ہے،مثلاً….ایک تو ان کے والد صاحب کی حادثاتی موت اوردوسرا…. ان کے ایک بھائی تھے۔وہ بھی ایک حادثے کا شکا ر ہوئے….والد اور بھائی والے دونوں حادثے آگے پیچھے ہی پیش آئے تھے۔“
”والد صاحب کی موت کس طرح ہوئی تھی؟کیا حادثہ پیش آیا تھا؟“ مرشد فوراً سوال انداز ہوا۔اس داستانِ ماضی کے دو کرداروں کا انجام وہ جان چکا تھا۔ چوہدری حاکم علی اور سید شہاب الدین کا،اب تیسرے کردار کے متعلق معلوم ہونے والا تھا۔سید نظام الدین کے والد سید ظفر شاہ کے متعلق….
”ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ان دنوں وہ وفاقی وزیر کے عہدے پر تھے۔قلعہ سیف اللہ سے یہاں اپنے فارم پر آئے،یہاں سے لاہور جانے کے لیے نکلے تھے کہ چناب پل پر حادثہ پیش آگےا….ایک ٹرک نے ان کی کار کو ٹکر مار ی اور کار پل سے نیچے….دریا کا وہ حصہ خشک تھا،پانی نہیں تھا۔شاہ جی کے ساتھ دو تین بندے موقع پر ہی ختم ہو گئے۔“
”یہ ایکسیڈنٹ ہی تھا یا….“ مرشد نے جملہ ادھورا چھوڑدیا۔
”وہ ٹرک نواب اسفندیار کا تھا۔سب جانتے تھے سب کو پتا تھاکہ ان کے درمیان عرصہ دراز سے کشیدگی چلی آرہی تھی۔ایک سرد جنگ تھی۔کہانی صاف تھی کہ یہ ایکسیڈنٹ باقاعدہ منصوبے کے تحت کیا گیا ہے….یہ حادثہ نہیں قتل تھا مگر….یہ ثابت نا کیا جا سکا، بس ڈرائیور کو معمولی سی سزا ہوئی۔دراصل ا ن ہی دنوں سید سرکاروں کے لیے ایک اور بڑی پریشانی بن کھڑی ہوئی تھی۔اس معاملے کی تفصیل تو مجھے معلوم نہیںبس یہ پتا ہے کہ بھائیوں کے درمیان شدید تنازعہ کھڑا ہوگےا تھا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بٹوارے کا جھگڑا تھا،کچھ کہتے ہیں کسی عورت طوائف کا مسئلہ تھا۔اللہ ہی جانے اصل حقیقت کیا تھی،اتنا ہے کہ وہ جھگڑابھی ایک حادثے ہی پر ٹھنڈا ہوا….غالباً بھائیوں میں ہاتھا پائی تک نوبت آگئی تھی۔نظام شاہ جی کے ہاتھوںچھوٹے بھائی کو کوئی ایسی چوٹ لگی کہ وہ پہلے تودماغی طور پر ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہوئے پھر لاپتا….کوئی بیس پچیس سال ہو گئے ان کو گم ہوئے۔آج تک پتا نہیں چلا اور….اب کیا پتا وہ کہیںہوں بھی ہا نہیں….“ڈاکٹر نے ہاتھ میں پکڑی پیالی سے چائے کی چسکی لی۔پتا نہیں کیوں….مگر اس وقت مرشد کے زہن میں موالی ملنگ آبیٹھا۔
”اوے مرشدا!چل جلدی سے چائے منگا ….جلدی کر….چائے منگا لے۔“
”مجھے گھر کا دروازہ نہیں مل رہا….سب دروازے ایک سے ہو گئے ہیں۔“
وہ ہیرا منڈی کی گلیوںمیں پھرتا رہتا تھا۔پتا نہیں کس کا اور کو ن سا دروازہ تھا جس کی تلاش میں سر گرداں تھاوہ ….کہا ں اور کس کے ہاں جانا تھا اسے!
ڈاکٹر بول رہا تھا: ” ان حادثوں کا بہت اثر لیا شاہ جی نے….شروع میں چند سال کے لیے تو با لکل گوشہ نشین ہوگئے تھے،ادھر….قلعہ سیف اللہ ہی میں ،کہتے ہیں صرف اپنے کمرے تک ہی محدود ہو کر رہ گئے تھے، کچھ سال گزرنے کے بعد پھر آہستہ آہستہ زندگی کی طرف واپس آئے۔“
مرشد کی نظریں از خود ہی کھڑکی سے باہر کھسک گئیں۔نظام سرکار کی گود میں ایک کھلی ہوئی فائل دھری تھی۔ایس پی صادق علی گجر صاحب ان کے قریب جھکے، کھڑے انہیں فائل میں کچھ دکھا ،بتارہے تھے۔سب کے چہروں پرسنجیدگی طاری تھی۔کم و بیش گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ یہ میٹنگ جاری رہی اور پھر سب لوگ ایک ساتھ،جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ان کے بعد باقی گاڑیو�´ں والوں کی باری آئی۔یہ کوئی بیس پچیس لوگ تھے لیکن انہیں شاہ جی نے آدھے گھنٹے بعد ہی روانہ کر دیا۔ان کے روانہ ہوتے ہی شاہ صاحب بھی اٹھ کھڑے ہوئے لیکن ارباب نے ان سے کچھ کہااور وہ ایک بار پھر بیٹھ گئے۔اب کی بار باہر موجود بستی والوں کے لیے گیٹ کھولا گیا۔یہ کم از کم بھی سو ڈیڑھ سو افراد تھے۔ان میں عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی۔مرشد اور رستم نے محبت و عقیدت کا اثر انگیز اظہار دیکھا۔مرد و خواتین ،انتہائی سلیقے سے دو الگ الگ حصوں میںاندر داخل ہوئے۔سب شاہ جی کو سلام کرتے،ان کے گھٹنے اور پیروں کو ہاتھ لگاتے، پیچھے ہٹتے گئے۔عورتوں نے ماچے سنبھال لیے جب کہ مردوں نے بینچ اور موڑھے۔ نوجوان عقب میں ویسے ہی کھڑے تھے۔کچھ عورتوں نے اپنے چھوٹے بچے بچیوںکے سروں پرشاہ جی سے خصوصاً ہاتھ پھروایا۔
جب سب سکون سے بیٹھ گئے تو شاہ جی اجتماعی طور پر ان سے مخاطب ہوئے۔ان کی مدھم سی آواز مرشد کے کانوں تک پہنچی مگر یہ اتنی مدھم تھی کہ کوئی لفظ سمجھ آنا ممکن نہیں تھا۔ عام ملاقات کا یہ دور بالکل مختصر ثابت ہوا۔صرف دس پندرپ منٹ بعد ہی شاہ جی اٹھ کر ہسپتال کی طرف بڑھ گئے اور بستی والے آرام سکون سے گیٹ کی طرف….شاہ جی غالباً زخمیوں کی عیادت کا ارادہ رکھتے تھے۔اس کا مطلب تھا کہ ہسپتال سے نکل کر وہ اوپر،یہاں مرشد کی عیادت کے لیے بھی آنے والے تھے۔
 اس کی آنکھ میں اچانک ٹیس سی اٹھیڈاکٹرز کی شفٹ بدل چکی تھی۔ڈاکٹر وقاص جاچکا تھااور محمود الحسن نائٹ ڈیوٹی کا چارج سنبھال چکا تھا۔ شاہ جی اور منصب ارباب لوگ ہسپتال سے نکلے تو رستم اور مرشد دونوں کو توقع تھی کہ اب وہ اوپر یہاں آئیں گے مگر ایسا نہیںہوا ۔وہ واپس حویلی کے اندرونی حصے میں چلے گئے تھے۔شاہ جی تو کیا….کوئی بھی نہیں آیا ….صرف کھانا آیا….بعد میں ڈاکٹر نے اسے میڈیسن دیں….دو تین انجیکشن ڈرپ میں شامل کیے اور ڈرپ لگا دی۔ رات تقریباً کوئی بارہ بجے کے آس پاس کا وقت رہا ہوگا جب ارباب کی شکل دوبارہ دکھائی دی۔اس بار اس کے ساتھ ٹیپو تھا۔وہ نظام سرکار کے فرمان پر آیا تھا۔
”شاہ جی نے کہا ہے کہ دیکھ لو اگر مرشدجاگ رہا ہو،طبیعت ساتھ دیتی ہو تو وہ ملاقات کے لیے آئیںیا پھر صبح ملا جائے ؟ جیسے تم پسند کرو۔“مرشد اس کا سوال سن کر حیران رہ گےا۔
”یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ!یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے؟شاہ جی پسند کریں تو میں خود اٹھ کر ان کے حضور حاضر ہوجا تا ہوں۔یہ پوچھ کر تو آپ مجھے گناہ گار کر رہے ہیں“
” میں نے تو شاہ جی کے حکم پر پوچھا ہے۔“ وہ ٹیپو کی طرف متوجہ ہوا۔”مرشد کے الفاظ سن لیے….شاہ جی تک پہنچادو“ وہ فوراً سر ہلا کر چلا گیا۔
مرشد جو نیچے ہو کر اطمینان سے لیٹ گیا تھا،اسے رستم نے پھر نیم دراز ہونے میں مدد دی۔ اس کی کمر اور گردن کے پیچھے دوبارہ تکیے ٹھیک کر کے رکھے تاکہ اسے نیم درازی کی حالت میں سہولت رہے اور اس کے زخموں ،خصوصاً پہلو کے گھاو�¿ کو زیادہ دباو�¿ یا کھنچاو�¿ برداشت نا کرنا پڑے۔
مرشد کی دھڑکنوں میں معمولی سی تیزی آچکی تھی۔کچھ ہی دیر میں وہ حجاب بی بی کے پھوپھا سے ملنے والا تھا۔آئندہ کچھ وقت تک انہوں نے حجاب سرکار کا سسر بن جانا تھا۔سرکار نے باقی کی زندگی ان ہی کے آنگن میں،ان ہی کے گھر میں گزارنی تھی۔وہ حجاب سرکار کے بزرگوں میں سے تھے….اسے خیال آیا کہ سب نسبتیں سرکار ہی سے ہیں….اس نے فوراً سر جھٹک کر دھیان ہٹایا۔ دس سے پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ دروازے کی طرف….سیڑھیوں پر کچھ آہٹیں اور آوازیں پیدا ہوئیں۔ارباب کے ساتھ ساتھ رستم اور ڈاکٹر بھی اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ڈاکٹر تو پیچھے ہٹ کر صوفے کے عقب میں جا کھڑا ہواتھا۔اندازہ ہوتا تھا کہ آنے والے دو سے زیادہ افراد ہیں،پھر وہ افراد اوپر پہنچ آئےسب سے پہلے کمرے میں داخل ہونے والے سید نظام الدین ہی تھے۔ان کے وجود پر انتہائی عمدہ تراش کا بے شکن سفیدشلوار سوٹ تھا۔اونچا لمبا قداور اس عمر میںبھی کمر با لکل سیدھی….البتہ کندھے تھوڑے ڈھیلے ڈھالے معلوم ہوتے تھے جوظاہر ہے عمر کا تقاضہ تھا….ان کے اندر داخل ہوتے ہی ایک روح پرور ہلکی پھلکی خوشبو کا جھونکاجیسے پورے کمرے میں لہرا گیا۔انہوں نے کوئی بہت ہی اعلیٰ قسم کاپرفیوم لگا رکھا تھا۔کمرے میں داخل ہوتے ہی انہوں نے سب کو ہی اجتماعی سلام کہا۔ان کے عقب میں چار افراد مزید تھے۔دو چہرے تو با لکل اجنبی تھے۔ ایک چہرے پر ہاتھ بھر لمبی سفیدی مائل داڑھی تھی اور دوسرا صفا چٹ…. پگڑیاں دونوں کے سر پر تھیں۔ ان کے پیچھے منصب تھی اور منصب کے پیچھے ٹیپو۔
شاہ جی متوازن انداز میں چلتے ہوئے مرشد والے پلنگ کے برابر میںآرکے۔مرشد نے بے اختیار بازو�¿ں پر زور ڈالتے ہوئے مزید سیدھا ہو بیٹھنے کی کوشش کی تو شاہ جی نے فوراً اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے اس کوشش سے روک دیا۔
”کسی تکلف کی ضرورت نہیں ہے مرشد میاں!بالکل آرام واطمینان سے لیٹے رہیں۔آپ ہمارے لیے پہلے ہی بہت سے بھی زیادہ تکلیفیں اٹھا چکے ،اب مزید نہیں۔مطمئن رہیں….سکون رکھیں۔“ ان کے لہجے میں کمال شائستگی اور نرمی تھی۔
مرشد جزبز ہوتے ہوئے صرف”شکریہ سرکار“ کہہ کر رہ گےا….وہ بڑے اعلیٰ گھرانے اور اونچے مقام و مرتبے والے شخص تھے….بہت بڑی ہستی تھے وہ اور جس عزت و احترام بھرے لہجے میں وہ اس سے مخاطب ہوئے تھے،جو اپنائیت ان کے لب و لہجے سے جھلکی تھی،وہ اسی لمحے مرشد کے سینے میں گداز کی کیفیت جگا گئی۔
”جوان جہان آدمی ہے کچھ نہیں ہوتا اسے….ٹھیک ہے۔“داڑھی والا مرشد کا سر تا پا جائزہ لیتے ہوئے لا پرواہی سے بولا۔شا ہ جی بھی مرشد کی جسمانی حالت ہی کا جائزہ لے رہے تھے۔اس کے جسم پر سر سے پاو�¿ں تک چھوٹی بڑی کئی پٹیاں چپکی،لپٹی ہوئی تھیں۔
”کوئی ہڈی فریکچرہوئی ہے؟“ داڑھی اب کے ڈاکٹر سے مخاطب ہوئی۔اس نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔
”نہیں ….کوئی فریکچر نہیں ہے۔“
ارباب بولا: ”ڈیڑھ دو ماہ پہلے پسلیوںمیں پسٹل کا فائر لگا تھا۔ٹھیک سے آرام و علاج نا ہو سکنے کی وجہ سے یہ ابھی تک پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوسکا۔باقی زخم اورچوٹیں تو انشاءاللہ چند ہی دن میںٹھیک ہوجائیں گی۔“ 
”بس پھر یہ فائر والا گھاو�¿ ٹھیک ہے۔“اس بار شاہ جی کے ساتھ آیا تیسرا شخص بولا۔ یہ کلین شیو تھا۔عمر کوئی پینتالیس پچاس کے درمیان رہی ہوگی۔وہ شاہ صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے مزیدکہنے لگا۔
”اس پر رپورٹ بن جائے گی ….آرام سے“ 
داڑھی باصورت بولا:”یہی ڈن کریں پھر۔“ اس نے ارباب کی طرف دیکھا۔”دو چار دن میں یہ….چہرے والی چو ٹیں بہتر ہوتی ہیں تو اس کی تصویریں بناو�¿ اور پاسپورٹ اپلائی کرو“
مرشد اور رستم اس کا آخری جملہ سنتے ہی چونک پڑے مگر بولے کچھ نہیں۔دونوں کو اندازہ ہوگیا کہ انہوں نے مرشد کے لیے کوئی پروگرام طے کر رکھا ہے۔غالباً وہ کسی جھوٹی میڈیکل رپورٹ پراسے ملک سے باہر نکالنے کا ارادہ رکھتے تھے!
منصب رستم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاہ جی سے مخاطب ہوئی: ”ان کا نام ہے رستم لہوری….مرشد باو�¿ کے استاد اور سر پرست ہیں….چوہدریوں کے چنگل سے نکلتے ہی بی بی جی سب سے پہلے ان ہی کے گھر پہنچی تھیں۔“
شاہ جی نے ایک قدم آگے بڑھ کر رستم سے مصافحہ کیا۔
”شکریہ کا لفظ بہت حقیر اور معمولی ہے رستم صاحب!ہمیں قریب قریب سارا کچھ معلوم ہوچکا ہے۔آپ لوگوں نے ہمارے لیے،ہماری بچی کے لیے اب تک جتنا کچھ کیا ہے،جتنی تکلیفیں اٹھائی ہیں،جتنی قربانیاں دی ہیںان کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا۔ہم ہمیشہ کے لیے آپ کے ممنون و احسان مند ہوئے اور…. یہ ہم رسماً نہیں،دل سے کہہ رہے ہیں۔پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ۔“
رستم نے دونوں ہاتھوں سے ان کا ہاتھ تھام کر بوسہ دیا۔
”شرمندہ اور گناہ گار نا کریں شاہ جی!ہم تو بس اپنی عاقبت اور آخرت کی فکر میںتھے۔ہمیں تو اسی بات پر بڑی ندامت اور افسوس ہے کہ بی بی جی کے مجرم ابھی تک زندہ ہیں،جہنم رسید نہیں ہوئے۔“
”سب اپنے انجام کو پہنچےں گے۔پورا پورا بدلہ پائیں گے۔قانون کسی کو نہیں بخشے گا….نا ہم ایسا کچھ ہونے دیں گے اب۔“ وہ پلٹ کر دوبارہ مرشد کی طرف متوجہ ہوئے۔ ”اور نا ہی آپ کے ساتھ مزید کو ئی زیادتی یا ناانصافی ہونے دیں گے….فی الحال تو آپ نے صرف آرام کرنا ہے۔آپ کے زخم بھر جائیں،آپ سہولت سے چلنے پھرنے لگ جائیں،اس کے بعد ہم آپ کو یہاں سے دبئی پہنچا دیں گے۔سمجھیں سب انتظامات ہوچکے ۔ آپ کو وہاں ایک پر سکون اور پر امن زندگی ملے گی۔کسی قسم کی کوئی کمی یا پریشانی نہیں ہو گی۔سب ہماری ذمہ داری رہی۔“
مرشد نظریں جھکاتے ہوئے دھیمے اور سنجیدہ لہجے میں بولا: ”یہ مجھ حقیر کی خوش بختی ہے کہ آپ مجھ جیسے گناہ گار کے لیے اتنا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیںمگر سرکار! میں یہیں خوش ہوں۔باہر کہیں نہیں جانا چاہتا میں۔“
”وہاں آپ کویہاں سے بہتراور اچھی زندگی ملے گی۔آپ یہاں سے جس جس کو ساتھ لے جانا چاہیں،لے جا سکتے ہیں۔ان کا بھی انتظام ہوجائے گا…. محض چند دنوں میں۔“
”ذرہ نوازی ہے سرکار!مگر مجھے نہیں جانا….میں جا بھی نہیں سکتا۔“
نظام شاہ جی نے قریب ہی پڑی کرسی گھسیٹی اور اس پر بیٹھتے ہوئے، مرشد سے مخاطب ہوئے: ”آپ!اپنے آخری جملے کی وضاحت پسند فرمائیں گے؟جا سکتا بھی نہیں….کیا کوئی مسئلہ مجبوری ہے؟“
 دونوں نووارد پیچھے ہٹ کر صوفے پر بیٹھ گئے۔منصب اور ارباب نے کرسیاں سنبھال لیں تھیں۔رستم ،دوبارہ مرشد کے پلنگ کی پائنتی ٹک گیا۔جب کہ ٹیپو دروازے کے قریب کھڑا رہا۔
”وجوہات تو بہت ساری ہیں سر….سید حضور!“ پتا نہیں کیوں لفظ ”سرکار“ پر زبان ڈگمگا گئی تھیسب سے بڑی وجہ تو یہ ہی ہے کہ میں خود ہی ایسا نہیں چاہتا۔میں دیسی سا بندہ ہوں حضور!اس مٹی اور اس فضا سے الگ ہو کر جینا ہی محال ہوجانا ہے مجھ غریب کا۔“
یہ بات کہتے ہوئے اس کے ذہن میں صرف حجاب کا سراپا تھا۔ 
صوفے پر براجمان ”داڑھی بردار “ بولا:” تمہارے لیے اب یہ مٹی آدم خور ہوچکی اور فضا زہریلی….قانون کچہری کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں….ساری فائلیں کاغذ خالی ہوجائیں گے مگر دشمن….تمہاری توقع سے کہیں زیادہ تمہارے دشمن پیدا ہو چکے ہیں۔محکمے کے اندر بھی….اور باہر بھی….دشمنی بڑی گندی چیز ہے….نسلوں پیڑھیوں تک سفرکرجاتی ہے۔سب سے اچھا اور بہترین حل یہ ہی ہے کہ تم فیملی سمیت ملک ہی چھوڑ دو….فی الحال دبئی نکل جاو�¿بعد میں چاہو گے تو جس ملک کا کہو گے وہیں ذاتی گھر بار اور مرضی کا کام دھندہ،کاروبار بھی تمہیں مل جائے گا اور کیا چاہیئے؟“
”کیا آپ بھی سید سرکار ہیں؟“ مرشد اس کی طرف دیکھتے ہوئے مستفسر ہوا۔
”آں….کیا؟نہیں ہم موسیٰ زئی پٹھان فیملی سے ہیں۔“
” پھر آپ مت پوچھیں کہ اور کیا چاہیے؟کیوں کہ آپ زمین و آسمان بھی ایک کر لیں تو مرشد کی کوئی سی چاہ بھی پوری نہیں کر پائیں گے۔“ اس کے لہجے میں فوراً ہی محسوس کی جا سکنے والی نا پسندیدگی در آئی۔رستم اور ارباب کی نظریں فوراً ہی شاہ جی کے تاثرات ٹٹولنے کے لیے اٹھیںتو منصب بھویں اچکا کر مرشد کی صورت تکنے لگی۔
”تم ساری کی ساری بتا دو،ہوسکتا ہے سب ہی پوری کردی جائیں،کیوں کہ پوری میں نے نہیں،شاہ صاحب نے کرنی ہیں۔“
”ان کے حضور میں عرض کر چکا۔ کچھ نہیں چاہیے اور مجھے جانا بھی کہیں نہیں۔“
شاہ جی بولے: ” یہ تو آپ کی مرضی کی بات ہے مرشد میاں!ہم توصرف آپ کو مستقبل میں چھپے خطرات سے دور اورمحفوظ رکھنے کی غرض سے ایسا کہہ رہے ہیں۔ کوئی زبردستی نہیں ہے۔باقی ہمیں خوشی ہوگی آپ کے کسی بھی کام آکر۔آپ جب جہاں اور جس طرح پسند فرمائیں۔“ 
مرشد نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا ،وہ بالکل پلنگ کے برابر ہی کرسی پر بیٹھے تھے۔ان کی عمر رہی ہوگی پچاس سے ساٹھ کے درمیان،صحت بھی ٹھیک ٹھاک ہی تھی۔ سلیقے سے ترشی ہوئی چھوٹی چھوٹی گھنی سفید داڑھی،جس میں کہیں کہیں سر مئی جھلک باقی تھی۔سرخ و سفید با رعب چہرہ،آنکھوں کے نیچے خفیف سے حلقے اور آنکھوں کے اندر ایک نرم سی ٹھنڈک،تسبیح اس وقت بھی ان کے دائیں ہاتھ میں موجود تھی۔
”ویسے ….کام تو واقعی میں پڑ سکتا ہےاگر کبھی ایسی صورت آ بنے تو آپ سے رابطہ کس طرح ہوگا؟“ مرشد نے ایک خیال کے تحت پوچھ لیا۔
شاہ جی نے ارباب اور منصب کی طرف اشارہ کیا۔
”رابطے کے لیے یہ دو لوگ بیٹھے ہیں۔مزید ارباب صاحب ابھی آپ کو ہمارا فون نمبر بھی لکھ کر دے دیتے ہیں۔“
یہ گویاارباب کے لیے حکم صادر ہوگےا تھا۔اس نے اسی وقت ڈاکٹر سے کاغذ پنسل لے کرشاہ جی کا فون نمبر لکھا اور مرشد کو تھما دیا۔
 شاہ جی نے مرشد سے ڈ پٹی اصغر علی اعوان کے متعلق سوال کیا تو وہ ذہنی طور پر محتاط ہوگیا۔طے شدہ پروگرام کے مطابق منصب انہیں بتا چکی تھی کہ حجاب بی بی چوہدریوں کی قید سے نکلنے کے بعد رستم لہوری کے گھر پہنچی تھیں۔ یقینا باقی کہانی وہ پہلے انہیں بتا چکی ہو گی کہ پھر رستم نے مرشد کوذمہ داری سونپی کہ وہ ان سید بی بی کو بلوچستان ان کے پھوپھا کے گھر چھوڑ کر آئے۔
وہ ڈپٹی کی بد دیانتی اور دہرے کردار کے متعلق بتانے لگا۔ساتھ ساتھ شاہ جی نے سوالات بھی شروع کر دیئے۔مرشد نپے تلے انداز میں جواب دیتا گےا۔ان لمحوں وہ ذہنی طور پر پوری طرح حاضر ہو بیٹھا تھا تا کہ زبان سے کوئی ایسا ویسا جملہ یا بات نا نکل جائے جس سے یہ اندازہ بھی ہو پائے کہ حجاب سرکارکے کچھ دن یا وقت ہیرا منڈی….یا ہیرا منڈی کے کسی کوٹھے پر بھی گزرا ہے!
 ڈپٹی اعوان کے ساتھ رانا سر فراز کا ذکر بھی آیا۔ اس کے ذکر پر رستم بھی گفتگو میں شریک ہوگیا۔شروع سے سارے واقعات کا ذکر چل پڑا۔کمرے میں موجود باقی افراد بھی پھر ایک ایک کر کے اس گفتگو کا حصہ بنتے گئے۔اس بات چیت سے مرشد کو اندازہ ہوا کہ حجاب بی بی کی ہیرا منڈی میں کوٹھے پر رہی چند دن کی رہائش کو مستقل طور پر پردے میں رکھنا مشکل ہوگا۔خصوصاً اگر تھانے کچہری میں کیس جاتا ہے تو پھر تو بہت ہی جلد حقیقت کھل کر سامنے آجا نی تھی!
اس خیال کے ساتھ ہی اس نے اپنے اس فیصلے کو مزید تقویت پاتے محسوس کیا کہ حجاب سرکار کے مجرمو ںکو کسی جیل یا عدالت کی شکل دیکھنا نصیب نہیں ہونا چاہیے….ان کی جلد از جلدعبرت ناک موت ضروری تھی۔وہ پہلے پولیس کو بھی تفصیلی بیان دے چکا تھا۔اسی کے مطابق بہت مختصر سا حصہ اور چند باتیں حذف کر نے کے علاوہ ،باقی سارے حالات و واقعات اس نے تقریباً من و عن شاہ جی کے گوش گزار کر دئیے۔یہ ساری گفتگو ڈھائی تین گھنٹے جاری رہی، اس کے بعد نظام شاہ جی اٹھ کھڑے ہوئے:
”ٹھیک ہے مرشد میاں! ہم نے آپ کو خاصا بے آرام اور تنگ کر لیا،ابھی آپ آرام کریں،سو جائیں،صبح کسی وقت دوبارہ ملاقات ہوگی۔“ انہوں نے چند رسمی کلمات مزید کہے اور پھر دروازے کی طرف بڑھ گئے۔باقی سب نے ان کی پیروی کی۔
کمرے میں اس کے پاس صرف رستم اور ڈاکٹر رہ گئے تو اس نے ڈاکٹر کو بتاےا کہ اس کی آنکھ اور آدھے سر میں شدید درد ہے۔ڈاکٹر نے فوراً اسے پین کلر دی۔آنکھوں میں کوئی ڈراپس ڈالے۔رستم نے سر کے پیچھے سے تکیہ ہٹایا اور وہ بستر پر نیچے ہو کر ٹھیک سے لیٹ گےا۔کنپٹی میں جیسے کوئی ہتھوڑے سے ضربیں لگانے لگا تھا۔آنکھ میں رہ رہ کر ایک ٹیس سی اٹھ رہی تھی،جس کی چبھن آنکھ سے سر کے پچھلے حصے تک سفر کرتی تھی۔ دل و دماغ پر ایک عجیب سی اداسی کا ایک بوجھ آپڑا تھا….شاہ صاحب کی شخصیت نے اس پر بھر پور اثر چھوڑا تھا۔بلاشبہ وہ ایک باوقار اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ساتھ ہی ان کے لب و لہجے میں ایک کمال حلیمی اور نرمی تھی۔ وہ انتہائی مہذب اور نفیس طبع کے مالک ثابت ہوئے تھے۔ان کے بات کرنے کا اندازاور لہجہ بے حد خوبصورت اور شائستہ تھا۔ کہیں سے…. اور کسی لحاظ سے بھی نہیں لگتا تھا کہ سید زریون علی جیسا بدمزاج اور سرکش جوان ان کا بیٹا ہوگا….مگر وہ تھا!
دوسرا نظام شاہ جی کو اب تک کے سارے واقعات اور یہاں تک کے سفر کی تفصیل بتا،سنا دینے کے بعداسے یوں محسو س ہونے لگا تھا جیسے اس نے اپنے سر اور کندھوں پر موجودحجاب سرکار کے اچھے برے کی ساری جاں فزا ذمہ داری نظام شاہ جی کے کندھوں پر منتقل کر دی ہے…. اپنا سب کچھ ان کے حوالے کر دیا ہے،ان کو سونپ دیا ہے ….وہ اپنی اب تک کی زندگی کی ،سب سے بڑی، مشکل،خطرناک لیکن عزیز ترین ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوآیاتھا۔ جن کی دہلیز، جن کے سای�¿ہ شفقت تک حجاب سرکار کو پہنچانا تھا وہ خود پہنچ آئے تھے۔ان کی طاقت اور اثر و رسوخ بھی سامنے ہی تھا۔وہ بجاطور پر اپنے فرض سے سبک دوش ہو چکا تھا….بری الذمہ ہوگیا تھا اور اس کے ساتھ ہی اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے اس کے پاس اب کچھ بھی باقی نا بچا ہو….کچھ بھی! اسے لگا، اس کے سینے میں ایک سناٹا سا بھرتا آرہا ہے۔
سونے کو جی تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن خود بخود اس کی آنکھ لگ گئی۔نیند ایسی گہری آئی کہ چھ گھنٹے اسے چھ منٹ کی طرح لگے۔آنکھ کسی آہٹ کی آواز پر کھلی تھی۔ اس نے دیکھا،کمرے کے ماحول میں تبدیلی نظر آئی،تین چار صوفے ،آٹھ دس کرسیاں اور ایک پلنگ بھی آیارکھا تھا۔ٹیپو دو تین بلوچوں کے ساتھ مل کر ان صوفوں کرسیوں کو دیواروں کے ساتھ ترتیب سے لگوا رہا تھا۔ دوسرا پلنگ عقبی دیوار میں موجود کھڑکی کے ساتھ لگایا جا چکا تھا۔وہ کھڑکی دریا کی طرف کھلتی تھی۔رستم غائب تھا،ڈاکٹر وقاص اس کے قریب موجو د تھا۔مرشد اسی سے مخاطب ہوا:
” یہ سب کیا ہو رہا ہے؟“
”میٹنگ کا انتظام….آپ ہی کے حوالے سے ہے….کچھ سرکاری افسران پہنچنے والے ہیں۔“
”لالا رستم کدھر ہے؟“
”وہ غالباً گورنمنٹ ہسپتال تک گئے ہیں۔آپ کے دوستوں ساتھیوں سے ملنے۔“
ڈاکٹر نے گیلے تولیے سے اس کا منہ صاف کیا۔آنکھ اور ہونٹوں کے ورم میں تھوڑی کمی ہو آئی تھی۔مرشد کے سر اور داڑھی کے بال ڈاکٹروں نے مرہم پٹی کے وقت کاٹے تھے۔اس باعث اس کے منہ متھے کا نقشہ تھوڑا بے ڈھنگا دکھائی دیتا تھا۔وہ فریش ہونے کے بعد کھا پی کر فارغ ہواہی تھا کہ آنے والوں کی آمد شروع ہوگئی۔ایک کے بعد ایک گاڑی اور بھاری بھرکم شخصیات۔وہ کوئی بارہ تیر ہ افراد تھے جو مختلف گاڑیوں پر پہنچے تھے۔جب باری باری وہ سب اوپر کمرے میں پہنچ آئے تواس کے تھوڑی دیر بعد ہی نظام شاہ جی بھی چلے آئے۔پلنگ ان ہی کے لیے بچھایا گےا تھا۔رات والی چار شخصیت بھی ان کے ساتھ تھیں اور ارباب و منصب بھی۔
یہ میٹنگ مرشد کے لیے بوریت کا باعث رہی اور خاصی لمبی کھنچی….کوئی چار ساڑھے چار گھنٹے۔وہ سب افراد گویایہ طے کر کے آج یہاں اکٹھے ہوئے تھے کہ اس سارے خونی کیس اور اس سے جڑے تمام خونی واقعات کو شروع سے آخر تک ایک ایسی ترتیب،ایسا رنگ دے دیا جائے جس کے حتمی نتیجے میں کوئی سی بھی عدالت چوہدری گروپ کو بد ترین مجرم ٹھہرائے اور مرشد کو ساتھیوں سمیت ہر الزام،ہر جرم سے بری الذمہ قرار دے دے۔
مرشد کو نا چاہتے ہوئے بھی پھر ایک بار شروع سے آخر تک سارا کچھ دہرانا پڑا۔مختلف سوالوں کے جواب دینے پڑے اور وہ بے دلی سے دیتا رہا۔
ساتھ ساتھ وہ دیکھ رہا تھا کہ وہاں موجود سب لوگ کس طرح شاہ جی کے سامنے مودب تھے۔جی شاہ جی،جی شاہ صاحب……..بہتر شاہ جی،بہتر شاہ صاحب….سب کی زبانوں پر بار بار یہی الفاظ آرہے تھے۔اس لمحے گویا شاہ صاحب کی ہر بات سے اتفاق کرنا ہی ا ن کی ڈیوٹی تھی! میٹنگ کے اختتام پر اسے معلوم ہوا کہ ان افراد میں چار وکیل بھی ہیں۔ان چاروں نے وکالت ناموں پر ا س کے انگوٹھے لیے۔دو وکیل اس کے لیے پہلے منصب مقرر کر چکی تھی۔ اب یہ چار نظام شاہ جی نے کھڑے کر دئیے تھے۔ 
پھر جب شاہ صاحب سمیت سب لوگ کمرے سے نکل گئے تومرشد پر ایک بار پھر غنودگی طاری ہوگئی۔ان چار ساڑھے چار گھنٹوں نے اسے سخت بے زار کیا تھا۔اعصاب تھک گئے تھے!
 آدھ پون گھنٹا مزید گزرا ہوگا کہ رستم واپس لوٹ آیا۔اس نے سب اچھے کی رپورٹ سنائی۔عصرکے بعد احاطے کے صحن میںپھر کل والی مصروفیت دیکھنے میں آئی۔چھڑکاو�¿،ماچے،موڑھے اور بستی کے لوگ۔شاہ جی بھی آبیٹھے تھے۔انہیں ملنے،سلام کرنے بستی کے مردوزن بھی آ جا رہے تھے اور علاقے شہر کے دیگر معززین بھی۔مرشد کی نظر منصب پر پڑی۔وہ ہسپتال سے نکل کر شاہ جی کی طرف آرہی تھی۔کل سے چادر اسے بڑے اچھے سے ڈھانپے ہوئے تھی۔رستم برابر میں کرسی پر بیٹھا تھا۔وہ منصب کی طرف دیکھتے ہوئے دھیمی آواز میں بولا:
”جب جب اس پر نظر پڑتی ہے تمہاری یاد آتی ہے۔“مرشد نے ایک نظر اسکی صورت دیکھی۔ڈاکٹر وقاص چند قدم پرے صوفے پر بیٹھا کوئی میڈیکل کا میگرین دیکھ رہاتھا۔
”ابھی تو میں اللہ کو پیارا نہیںہوا پھر یاد آنے کا کیا مطلب؟“
”تمہارا زنانہ ماڈل لگتی ہے۔لیڈی مرشد….بندی ہے!بندہ ہوتی تو عین تمہاری ٹکر کا جوڑتھا!“
” نئیں لالا!یہ مجھ سے زیادہ ہلی ہوئی مخلوق ہے۔“
”میرا جی چاہتا ہے تم دونوں کو صوفے پر ساتھ ساتھ بیٹھا کر ایک فوٹو بنا لوں!“ اس بار مرشد نے بطور خاص رستم کی طرف گھورا جو رشک آمیز نظروںسے نیچے….ملک منصب کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”لالا!عمر کیا ہوگئی ہے تمہاری؟“
”کیوں….فوٹو بنانے کا عمر سے بھی کج تعلق ہوتا ہے کیا؟“
”بتاو�¿تو سہی“
”یہ ہی کوئی….پچپن چھپن سال۔“
مرشد تفہیمی انداز میں سر ہلاتے ہوئے بولا:” یعنی چار پانچ سال بعد سٹھیانے والے ہو….اسی لیے سٹھیائی سٹھیائی باتیں کر رہے ہو۔“
”تو کیا غلط کہہ رہا ہوں، دیکھو تو کیسی جنی جوان….جواں مرد قسم کی عورت ہے۔مجال ہے جو….“ 
وہ رستم کی بات کاٹتے ہوئے بے زاری سے بولا:”یار لالا!بس بھی کرو ،کیا ہوگیا ہے تمہیں؟کیا کھا کے آئے ہو باہر سے….میرے تو پہلے ہی سر میں درد ہورہا ہے۔“
”اچھا اچھا بس ٹھنڈا رہ….اور سر میں کیوں درد ہے؟ڈاکٹر چوبیس گھنٹے ساتھ ہے پھر بھی!“ اس نے گردن موڑ کر ڈاکٹر کو پکارا۔
”او ڈاکٹر جی! ادھر شہزادے کے سر میں درد ہے اور آپ رسالے پڑھی جا رہے ہو!“
”یہ اور درد ہے لالا!“
”اور درد….اور کون سا؟“
”ےعنی ڈاکٹر دوائی والا نہیں ہے یہ۔“
” تو پھر۔“
”پھر کچھ نہیں۔“ ڈاکٹر اٹھ کر قریب آگےا تھا۔مرشد نے اسے بھی یہ ہی جواب دیا تو وہ اس کے باقی زخموں،پٹیوں کا معائنہ کرنے لگ گےا۔ مغرب سے تھوڑا پہلے کا وقت رہا ہوگاجب مرشد کی نظر زریون شاہ پر پڑی۔اس کا بایاں بازو آرم سلنگ میں تھا اور وہ رہائشی حصے سے احاطے میں بچھے ماچوں کی طرف بڑھ رہاتھا۔
”یہ زریون شاہ جی ہی ہیں نا؟“ رستم بولا۔
”ہیں تو وہ ہی اور لگ بھی ٹھیک ٹھاک ہی رہے ہیں۔“مرشد کا انداز خود کلامی والاتھا۔
زریون نظام شاہ جی کے ماچے کے قریب جا رکا۔شاید کوئی مسئلہ ،کوئی پریشانی تھی۔شاہ جی سمیت سب ہی لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے تھے۔
”کچھ گڑ بڑ سی لگتی ہے!“ رستم بھی ادھر ہی متوجہ تھا۔ ڈاکٹر وقاص بھی اس طرف جھانکنے لگا۔چند ہی لمحوں بعد زریون کی آواز قدرے بلند ہو گئی۔ صاف سمجھ آرہا تھا کہ وہ کسی بات پر نظام شاہ جی،اپنے باپ سے بحث کر رہا ہے۔اس کی آواز اوپر تک آنے لگی تھی۔گو کہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی مگر یہ تو صاف سمجھ آ رہا تھا کہ وہ پوری طرح بد تہذیبی اوربد تمیزی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔چند لمحے بعدوہ پاو�¿ں پٹختا ہوا کسی اندھے بگولے کی سی تیز قدمی سے واپس رہائشی حصے کی طرف چل پڑا۔
نظام شاہ جی کچھ دیر تک چپ چاپ اپنی جگہ بیٹھے اسے جاتا دیکھتے رہے پھر وہاں موجود لوگوں اور منصب سے کچھ کہتے ہوئے،زریون کے پیچھے اٹھ کر رہائشی حصے کی طرف آنے لگے۔مرشد کو پہلے ہی سے پتا تھا کہ زریون اپنے والد کے لیے کچھ اچھے خیال یا جذبات نہیں رکھتا،اب گویا اسی کی تائید و توثیق میں وہ ایک عملی جھلک دیکھ رہا تھا۔
٭ ٭ ٭                                                                

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے