قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا
مرشد
شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
Murshid Urdu Novel |
صورت حال میں یہ غیر متوقع اور کایا پلٹ تبدیلی کچھ ایسی تیزی سے ، یوں آناً فاناً وقوع پذیر ہوئی کہ صحن میں کھڑے سب ہی لوگ اپنی اپنی جگہ حیران و پریشان سے کھڑے کے کھڑے رہ گئے تھے۔سب گردنیں اور آنکھیں دو اطراف کی چھتوں پر اپنی سمت اٹھی رائفلوں کی طرف متحرک ہوئیں۔ انگلیاں تذبذب آمیز اضطراب کے ساتھ ہتھیاروں کی لبلبیوں پر لرز کر کپکپا کر رہ گئیں۔
صحن میں بکھرے سب ہی لوگ جانتے تھے کہ یہ سیاہ پوش افراد، بستی شاہ پور کے نڈر اور جنگجو بلوچ ہیں یہ ایک پریشان کن بات تھی لیکن اس کے ساتھ جو دوسری بات تھی جو دوسرا منظر ان کے سامنے پھٹ پڑا تھا اس نے چند لمحوں کے لیے ان کے اعصاب سن کر کے رکھ دیئے تھے یہ بات یہ منظر ان سب ہی کے لیے پریشانی کے ساتھ ساتھ سخت ترین حیرت اور بے یقینی کے شدید تر جھٹکے کا باعث بنا تھاچوہدری فرزند اور ملنگی سمیت وہاں صرف تین چار افراد ہی ایسے تھے جنہوں نے پہلے سے اس کالی دیوی کو دیکھ رکھا تھا۔ جو پہلے سے جانتے تھے کہ یہ اچانک بلا کی طرح نازل ہو آنے والی عورت کون ہے؟ البتہ غائبانہ طور پر سب کے سب ہی اس عورت کے نام اور اس کی حیثیت اس کی طاقت اور اثر و رسوخ سے بخوبی واقف تھے۔ اس کا حوالہ کسی کالی دہشت ہی کی طرح سب کے ذہنوں میں پہلے سے موجود تھا ، شاید اسی لیے فوری طور پر ان میں سے کوئی بھی کسی رد عمل کا اظہار ہی نہیں کرسکا لیکن چوہدری اپنی وحشت کی جھونک میں تھا غصے اور جنون نے اس کے حواسوں کو اپنے قابو میں کر رکھا تھا۔
مرشد اسے رائفل جھپٹتے دیکھ کر حجاب کو بازو میں لپیٹے عقبی طرف ہٹا تو لڑکھڑا گیااس کی ٹانگیں زخمی تھیں تو حجاب کے پیروں اور ٹانگوں پر بھی چوٹیں آئی تھیں، پھر وہ مرشد کے ساتھ کچھ اس شدت ، اس مضبوطی سے لپٹی ہوئی تھی جیسے اسی کے وجود کا ایک اٹوٹ حصہ بن گئی ہو جیسے اس کے وجود کے اندر اتر کر گم ہوجانا چاہتی ہو اس دہشت ناک ماحول سے غائب اور محفوظ ہو جانا چاہتی ہو
نتیجہ یہ رہا کہ مرشد لڑکھڑا کر عقبی طرف گر پڑا۔ اسی ایک لمحے میں ایک ساتھ کئی منظر اس کے حواسوں میں چمک گئے تھے۔ چوہدری نے چیختے ہوئے ان پر فائر کھولا تھا دیگر کئی آوازوں کے ساتھ ایک کڑک دار زنانہ آواز میں گالی تھی عورت کے ہاتھوں میں موجود رائفل کی نال سے آگ سی چھوٹی بغلی چھت اور بائیں طرف سے ایک ساتھ کئی رائفلیں گرجیں کئی چیخوں کے ساتھ جیسے وہاں افراتفری کا بم آ پھٹاوہ چوہدری ہی کی رائفل سے نکلی ہوئی گولی تھی جو عقبی طرف گرتے لمحے ایک برق رفتار ٹھوکر کی طرح کلہاڑی کے پھل سے ٹکرائی تھی۔ ایک تیز ”ٹن ن ن“ کے ساتھ ہی مرشد کی کلائی اور ماتھے کو جھٹکا لگا اور وہ، شدید تکلیف کا احساس لیے حجاب سمیت عقب میں گر پڑا۔ کلہاڑی ہاتھ سے چھوٹ کر ان دونوں کے اوپر گری تھی دو ہاتھ فوراً اس کے کندھے پر آئے اور ساتھ ہی خنجر کی تیز چیختی ہوئی آواز پتا نہیں اس نے کیا کہا تھا جھٹکا لگنے سے کلہاڑی کا دستا مرشد کی پیشانی سے ٹکرایا تھا اور ساتھ ہی اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے بائیں بھنو کے اندر کوئی انگارہ سا اتر گیا ہو آنکھ ، آنکھ کی ہڈی کا پورا فریم ایک شدید تکلیف سے جھنجھنا کر رہ گیا۔
کندھے پر آنے والے ہاتھوں نے فوراً اسے عقبی طرف کھینچا۔ خود مرشد نے بھی گھسٹنے کی کوشش کی۔ چند قدم پیچھے ایک کچی کوٹھری سی تھی۔ اس میںسمٹتے وقت چند گولیوں نے کچی دیوار کی مٹی ادھیڑی اور مرشد نے دو بندوں کو بھاگتے بھاگتے گولیاں کھا کر گرتے ہوئے بھی دیکھا۔ فائرنگ کی تڑتڑاہٹ اور دھماکوں کے ساتھ ، ہوا اور گولیوں کی رگڑ کی مخصوص آوازیں بھی آس پاس "شوک” اٹھی تھیں۔
انہیں کھنچنے والا خنجر تھا۔ اس کا منہ سر بھی خون آلود تھا لیکن وہ پوری طرح چاک و چوبند دکھائی دے رہا تھا۔یہ، جس کوٹھری میں وہ تینوں گھس آئے تھے، یہ اسٹور نما چھوٹا سا کمرہ تھا اور غالباً یہاں "توڑی” اسٹور کی جاتی تھی کیوں کہ کوٹھری کا نم آلود فرش نم اور بوسیدہ توڑی سے پوری طرح ڈھکا ہوا تھا اور کوٹھری کی فضا اس بوسیدہ توڑی کی بو سے چھلک رہی تھی۔
حجاب مرشد کے سینے میں منہ چھپائے بدستور چیخے جارہی تھی۔ اس کے وجود پر لرزے کی سی کیفیت طاری تھی۔خوف نے جیسے اس کے حواس سلب کر رکھے تھے۔ ذہن و دل میں حفظ و امان یا جائے پناہ کے حوالے سے کوئی احساس ،خیال تھا تو وہ واحد مرشد کی ذات ، مرشد کا وجود تھا اور وہ اس وجود سے لپٹ گئی تھی یوں پیوست ہوگئی تھی جیسے مرشد ہی کے وجود و جان کا حصہ ہوگئی ہو
خوف و درد میں جکڑے ان سحر خیز حالات نے لمحاتی طور پر ہی سہی ان دونوں کو از حد قریب کر دیا تھا۔ دونوں کے دل گویا آپس میں پیوست ہو کر دھڑک اٹھے تھے دونوں دلوں کی دھڑکنیں آپس میں ہم کلام ہوگئی تھیں دونوں سینوں میں ، دونوں دلوں کی دھڑکنوں میں ایک سا آہنگ ایک سی دھک دھک تھی تیز بے ترتیبتڑپتی پھڑکتی ہوئی
خنجر کو کوٹھری کے دروازے میں پڑی کلہاڑی کی طرف جھپٹتے دیکھ کر مرشد حجاب کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کے بار بار جھنجھوڑنے اور پکارنے پر حجاب خوف کی لہر سے نکلی اور اسے اپنے اطراف کا اندازہ ہوا۔ دہشت اس کی سفید سفید آنکھوں میں جم کر رہ گئی تھی۔ چہرہ خون سے رنگین ہو رہا تھا لیکن
زیادہ خون اس کا اپنا نہیں ،مرشد کا تھا جو اس کی خون آلود بنیان سے حجاب کے چہرے پر لگا تھا۔
مرشد نے چند ایک بار قیامت خیز بے قراریوں سے حجاب سے اس کی جسمانی سلامتی کے حوالے سے سوال کیے۔ اس کے ٹھیک ہونے کی یقین دہانی چاہی، ساتھ ہی وہ پاگلوں کی طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے سرتاپا دیکھ رہا تھا لیکن نظر دھندلا رہی تھی۔ پیشانی اور بھنو سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ اس کی یہ حالت، یہ ہئیت کذائی دیکھتے ہوئے حجاب کے چہرے اور آنکھوں میں پھیلے دہشت اور خوف کے سائے کچھ مزید گہرے ہوگئے۔ دل میں جیسے یہ دل دوز یقین بیٹھتا چلا گیا کہ مرشد کے پاس زیادہ وقت نہیں بچا اس قدر زخمی اور لہو لہان ہونے کے بعد زندہ بچنا ممکن نہیں تھا ہاں وہ مرنے والا تھا
حجاب کے ذہن میں یہ سب ، سوچ یا خیال کی صورت میں نہیں تھا بس ایک احساس سا سینے میں دھڑکا تھا۔مرشد چند ایک بار اس سے سوال کرنے کے بعد لڑکھڑاتا ہوا تڑپ کر واپس بیرونی طرف کو پلٹا تو حجاب نے چیختے ہوئے اس کی بنیان پکڑ کر اسے روکا۔ خنجر بھی اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
"نہیں جگر ! ہوش سے کام لو۔ بلوچ پہنچ آئے ہیں اور لالا رستم لوگ بھی۔”
"کلہاڑی ادھر دو۔” مرشد کھڑا نہ رہ سکا اور گھٹنے پر آرہا البتہ اس کا ہاتھ کلہاڑی کےلیے خنجر کی طرف بڑھا رہا۔
"اپنی حالت دیکھو جگر ! تم خدا کے لیے بیٹھ جاو�¿۔”
"نہیں مرشد جی ! باہر نہیں جائیں ۔” حجاب بھی لرزیدہ آواز میں چیخی تھی۔ اس کے ایک ذرا بنیان کھنچنے پر مرشد پشت کے بل گر پڑا۔ اس کی حالت ایسے شرابی سی ہورہی تھی جو نشے میں دھت ہو کر اپنے وجود پر اختیار گنوا بیٹھا ہو۔ اس کے جسم اور اعصاب میں اب سکت نہیں بچی تھی۔ اس کی یہ کوشش محض ایک وحشت زدہ مضطرب ذہن کی عدم اطمینانی کا اظہاریہ تھی۔
اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا اور آخری لمحات آ پہنچے تھے آخری لمحاتجن کے متعلق اس نے تہیہ کر رکھا تھا کہ ان لمحات تک اپنی رائفل میں کم از کم ایک گولی ضرور بچا کر رکھے گا !
باہر چیخم دھاڑ اور ہاہا کار مچی تھی۔ فائرنگ جاری تھی۔ کہیں قریب ہی میگا فون پر کوئی چیخ چیخ کر فائرنگ بند کرنے کا کہہ رہا تھا یہ ایک نہیں دو تین آوازیں تھیں۔ ایک تو غالباً ایس پی صاحب تھے۔ دوسری آواز پر چوہدری اکبر کا شبہ ہورہا تھا۔ تیسرا پتا نہیں کون تھا۔ اس شور شرابے میں بھیانک آواز والے کتوں کی بھونکاریں بھی شامل تھیں جو اچانک ہی اندھی رفتار سے قریب آتی ہوئی محسوس ہوئیں اور ان تینوں کے جسموں میں ایک ساتھ کئی سرد لہریں ناچ کر رہ گئی۔ان کتوں کی سفاکی اور حیوانیت وہ ملاحظہ کر ہی چکے تھے اور اب پھر کم از کم دو تین کتے بھونکتے غراتے کہیں قریب ہی سے اس طرف کو اڑے آ رہے تھے۔کسی بھی لمحے وہ اندر اس کوٹھری میں داخل ہونے والے تھے اور اس وقت ان کے پاس ایک کلہاڑی کے علاوہ اور کوئی ہتھیار بھی نہیں تھا۔
مرشد نے جلدی سے سنبھالا لیا۔ اسی لمحے کتوں کی بھیانک آوازیں عین اس کوٹھری کے دروازے پر پہنچ آئیں۔ خنجر کلہاڑی تھامے دروازے سے دو قدم ادھر کھڑا تھا، پھر دروازے میں ایک ساتھ دو غضب ناک کتوں کی جھلک دکھائی دی۔ دونوں غراتے ہوئے آئے تھے لیکن ایک کی غراہٹیں فوراً ہی کرب ناک چیخوں میں بدل گئیں اور وہ اپنی ہی جھونک میں کوٹھری کے اندر آ گرا۔ اس کی کمر پر گولیوں کا برسٹ لگا تھا۔ یہ برسٹ یقینی طور پر صحن کی دوسری طرف والے مکانوں کی چھتوں پر سے فائر کیا گیا تھا۔ وہاں سیاہ پوش بلوچ موجود تھے۔ یعنی ان بلوچوں نے اس کوٹھری اور کوٹھری کے دروازے کو نظر میں رکھا ہوا تھا۔
ایک کتا تو بروقت کسی نادیدہ دوست کی رائفل کا نشانہ بن کر ڈھیر ہو گرا تھا لیکن دوسرے نے خنجر پر چھلانگ لگا دی۔خنجر نے کلہاڑی کی مدد سے کتے کے سر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن کتا اس سے زیادہ پھرتیلا نکلا۔ کلہاڑی کا اچٹتا سا وار اسے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکا تھا۔ خنجر دھکے سے لڑکھڑا کر عقبی دیوار سے ٹکرایا اور گر پڑا۔ کلہاڑی اس کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔اس مختصر سی کوٹھری میں ایک خوف ناک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ کتے کی بھیانک آوازیں انتہائی دل دوز تھیں۔ حجاب کی بے اختیار پھر چیخیں نکل گئیں۔ مرشد نے چلا کر کچھ کہتے ہوئے کلہاڑی اٹھائی اور کتے کی کمر پر وار کیا۔ یہ ایک کمزور اور بے جان سی ضرب تھے پھر بھی کتا تڑپ اٹھا۔ اس کی کمر پر گہرا کٹ آیا تھا۔وہ غضب ناک انداز میں پلٹا تو مرشد پیچھے ہٹنے کی کوشش میں گر پڑا۔ کتا پوری وحشت سے اس پر جھپٹا۔ کلہاڑی اس کے ہاتھ میں تھی جسے اس نے نیزے کی طرح استعمال کرتے ہوئے کتے کی تھوتھنی پر ضرب لگائی۔ اس ضرب کے باوجود کتے نے جھپٹ کر اس کی پنڈلی اپنے جبڑے میں دبوچ لی۔ مرشد کے حلق سے بے ساختہ دردناک کراہ خارج ہوئی۔ کتے کے بے حس دانت پلک جھپکنے کی دیر میں اس کی پنڈلی کے گوشت میں جا اترے تھے۔ مرشد کو یہ ہی محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگ یکایک کسی آہنی شکنجے کی سخت ترین جکڑ میں آگئی ہے اور اس بے رحم شکنجے کے آہنی کیل پنڈلی سے آر پار ہوگئے ہیں۔ اس پر کتے کا جھنجھوڑنا ، سر جھٹکنا ہزار ضبط کے باوجود مرشد کے حلق سے ددرناک کراہیں نکل گئیں۔
ابھی اس کی پنڈلی کی ہڈی کے حق میں ایک طرح سے یہ اچھا رہ گیا تھا کہ کلہاڑی کا دستہ پنڈلی کے ساتھ جڑا ہوا تھا اور وہ بھی پنڈلی کے ساتھ ہی کتے کے جبڑے میں آیا تھا یعنی ایک طرح سے کلہاڑی کا دستہ اس کی پنڈلی کی ہڈی کے لیے سیف گارڈ بن کر کتے کے جبڑے کی گرفت میں آیا تھا۔
صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر خنجر کو اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا اس نے آگے بڑھ کر کتے کی پچھلی دونوں ٹانگیں دبوچیں اور اس کے جوفِ سینا پر ٹھوکریں رسید کرنا شروع کردیں لیکن اس کا وجود تو جیسے لوئے کا بنا تھا یا ۔مرشد کی طرف سے ملے کلہاڑی کے چرکے کا غصہ تھا اسے مرشد پر اس نے پنڈلی سے دانت نہیں ہٹائے۔ مرشد کی دردناک کراہوں سے گھبرا کر خنجر نے آگے بڑھ کر کلہاڑی کو پکڑا اور کھینچ کر کتےکے منہ سے نکالنا چاہا لیکن مرشد کی کراہوں میں اضافہ ہوگیا۔ خنجر نے کلہاڑی چھوڑ کر کتے کے منہ پر گھونسے برسانا شروع کر دیے۔تیسرے گھونسے پر کتے نے غضب ناک ہو کر مرشد کی پنڈلی چھوڑی اور خنجر پر حملہ آور ہوگیا۔ وہ اندھا دھن اس کے منہ پر گھونسے برسا رہا تھا لہذا کتے نے اس کے ہاتھ ہی کو نشانہ بنایا تھا۔
خنجر کی بے اختیار دھاڑیں نکل گئیں۔ وہ نم آلود فرش پر ب�±ری طرح لوٹ پوٹ ہو گیا۔ اس کا دایاں ہاتھ پورے کا پورا کتے کے بھیانک جبڑے میں تھا اور کتے کی تھوتھنی اور جبڑے خون سے سرخ ہو رہے تھے۔
حجاب پوری طرح کونے میں سمٹی بیٹھی کانپ رہی تھی، رو اور چیخ رہی تھی۔ اس کے ساتھ خنجر کی چیخوں اور کتے کی غصیلی، ڈراو�¿نی غراہٹوں کی آوازیں تھیں۔مرشد کو در و دیوار اور سارا عالم گھومتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ ہر طرف ایک سرخ چادر سی تن گئی تھی۔ اس کے باوجود وہ کہنیوں کے بل گھسٹ کر آگے بڑھا۔ ساتھ ہی اس نے کلہاڑی گرفت میں لے لی۔ پنڈلی کے اندر انگارے چلچلا رہے تھے۔کتا کسی عفریت کی طرح خنجر پر چھایا ہوا تھا۔ مرشد نے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوتے ہوئے کلہاڑی دونوں ہاتھوں میں اٹھائی اور چیخ چیخ کر خنجر کو ہدایت دینے لگا۔ مرشد کو اپنے حواسوں کی ابتری کا اندازہ تھا وار میں ایک ذرا سی چوک کتے کی بجائے خنجر کو بھی جان لیوا نقصان سے دوچار کر سکتی تھی اور اگر کتا ٹھیک سے نشانہ نہ بن پاتا تو شاید دوسرے وار کی ہمت اور گنجائش اس کے شل اعصاب نکال ہی نہ پاتے
اگلے چند لمحے انتہائی روح فرسا اور اعصاب شکن تھے۔ یہ ایک کتا ان تینوں کو یہاں چیر پھاڑ کر ہلاک کر سکتا تھا۔فرش پر خون اگلتے قریب المرگ کتے کے قریب ہی خنجر دھاڑیں مارتا لوٹنیاں لگا رہا تھا۔ مرشد دونوں ہاتھوں میں کلہاڑی بلند کیے گھٹنوں کے بل ان کے قریب کھسک گیا لیکن اس کی طرف کتے کا پچھواڑا تھا اور سب کچھ گھوم رہا تھا !
پھر اچانک مرشد کو اس کی مرضی کا ایک لمحہ مل گیا۔ خنجر تڑپتا ہوا لوٹنی لگا کر دیوار کی طرف ہوا ، ساتھ ہی کتے کا رخ تبدیل ہو گیا۔ مرشد نے سانس روکتے ہوئے اپنے پورے وجود کی بچی کھچی قوت کو بازو�¿ں کی طرف سمیٹا اور کتے کے سر پر وار کر دیا کلہاڑی کا پھل قاتل رفتار سے کتے کے سر کے عین بیچوں بیچ پڑا۔ لوہے اور ہڈی کے ٹکراو�¿ کے ساتھ ہی کتے کی گھٹی گھٹی قلق انگیز چیخ نے مرشد کی سماعتوں پر اطمینان بخش اثر چھوڑا۔کلہاڑی کا آدھے سے زیادہ پھل کتے کی کھوپڑی میں اتر گیا تھا۔ کتے کے منہ کے بل گرتے ہی خود مرشد بھی پشت کے بل ڈھے گیا۔
حواس اور حوصلے بالکل ہی جواب دے گئے تھے۔ اعصاب یوں شل ہو کر رہ گئے تھے جیسے ان میں سے زندگی کی ہر رمق مکمل طور پر نچڑ چکی ہو
مرشد نے خود کو کسی سرخ سمندر کی تہہ میں گرتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ پشت کے بل گرا تھا اور گرتا ہی چلا جارہا تھا۔ نیچے اورنیچے۔ اس نے سنبھلنے کے لیے اس سمندر کی تہہ میں سے ابھرنے کےلئے بہت کوشش کی۔ بہت ہاتھ پیر مارے لیکن ساتھ ہی اس کے اندر کہیں یہ روح فرسا احساس کسمسایا کہ وہ ذہنی طور پر ہاتھ پیر چلا رہا ہے لیکن در حقیقت اس کے ہاتھ پیر ساکت ہیں پوری طرح بے حس و حرکت ہیں !
اسے اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ سینے میں گھٹن سی بھر آئی۔ یکایک اسے احساس ہوا کہ وہ خون کے سمندر میں ڈوبتا جارہا ہے۔ خون اس کی آنکھوں میں بھرا ہوا تھا منہ اور ناک کے نتھوں میں داخل ہو رہا تھا۔ اسے سانس لینے میں دقت پیش آرہی تھی !
اسے اپنے آس پاس ہی کہیں کسی کے بری طرح کراہنے کی آواز سنائی دی۔ شاید شاید وہ خنجر تھا۔کوئی اور بھی تھا کوئی عورت، لڑکی وہ چیختی ہوئی اس کے قریب آئی تھی۔ وہ وہ حجاب تھی حجاب سرکار سرکار ایک اجڑی پجڑی سید زادی معصوم ، بھولی اور بے خطا۔ ایک سنجیدہ سی سادگی جس چہرے کے خدوخال کا حصہ تھی وہ جس چہرے پر دو ایسی شفاف چمکدار اور سحر خیز آنکھیں تھیں جن کی ذرا ذرا سی جنبش سے زمانے کی نبضوں میں تغیرات ہلکورے لیتے تھے وہ جو سرتاپا پاکیزگی اور تقدس کی امین دکھائی دیتی تھی۔
خون کے اس بے کراں سمندر میں یکایک ایک ہلچل بیدار ہوئی۔ کسی نے اس کا سر تھوڑا اونچا کیا تھا یہ وہ ہی ہستی تو تھی سرکار !
وہ رو رہی تھیں اور مسلسل مرشد جی مرشد جی پکارے جا رہی تھیں۔ اس کا سر غالباً انہوں نے اپنے گھٹنے پر رکھ لیا تھا۔
مرشد کو لگا کہ وہ مر رہا ہےوہ مر رہا ہے اور اسے مرتا دیکھ کر سرکار نے بین شروع کر دیا ہے۔ تبھی اس نے دو ہاتھوں کے لمس کو زندگی بن کر اپنے سینے پر جھپٹتے ہوئے محسوس کیا۔یہ لمس گویا خود چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ یہ سرکار کے ہاتھ ہیں۔ وہ اسے جھنجھوڑ رہی تھیں۔روتے ہوئے پکار رہی تھیں۔
یکایک مرشد کے وجود کو ایک زبردست دھچکا سا لگا اور اس کے حواسوں پر مسلط کوئی بھاری چیز اچانک سے ہٹ گئی گھٹ گھٹ کر آتی ہوئی سانس ایک طویل ہچکی کے ساتھ بحال ہوئی اور دماغ میں جیسے کوئی برقی لہر سی کوند گئی ہوش و حواس سرعت سے بحال ہوئے تو اس نے خود کو چاروں خانے چت پڑے پایا۔ حجاب اس کے اوپر جھکی اسے جھنجھوڑ رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے۔ اس کا چہرہ اور کپڑے خون سے لتھڑے ہوئے تھے۔
"سرقاغ” مرشد نے سرکار کہنا چاہا تھا لیکن منہ کے حرکت میں آتے ہی اندازہ ہوا کہ منہ میں، حلق تک تو خون بھرا ہوا ہے۔ اس نے کروٹ لیتے ہوئے خون ایک طرف تھوکا۔ حجاب کا لرزیدہ ہاتھ بے پناہ فکر مندی لیے ہوئے فوراً اس کی پشت سہلانے لگا۔ دوسری دیوار کے ساتھ خنجر پڑا کراہ رہا تھا۔باہر فائرنگ کا شور تھم چکا تھا البتہ کچھ افراتفری کا ماحول تھا۔ مرشد کی سماعت سے چند دیگر کرخت آوازوں کے ساتھ ایک کڑک دار زنانہ آواز بھی
ٹکرائی جو یقینی طور پر اسی نیم برہنہ سیاہ دھوتی والی کی تھی جو کمال دلیری اور بے خوفی کے ساتھ سیدھی اس سنگین ترین صورت حال میں گھستی چلی آئی تھی۔ محض چند ہی لمحے مزید گزرے ہوں گے کہ کوٹھری کے باہر ایک ہلچل سی محسوس ہوئی۔ کافی ساری آوازیں تھیں۔ وہ کئی افراد تھے۔ پھر ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی۔
"مرشد بھائی شاہ جی ہم لوگ آگئے ہیں۔”یہ ٹیپو کی آواز تھی۔ وہ حفظ ماتقدم کے طور پر با آواز بلند پکارتا ہوا کوٹھری کے دروازے سے اندر داخل ہوا۔اس کے پیچھے چار پانچ مسلح افراد مزید تھے۔ وہ سب اندر داخل ہوتے ہی ب�±ری طرح چونکے۔اندر کا منظر ہی کچھ ایسا دل دہلا دینے والا تھا۔ خصوصاً مرشد کا حال، اس کی ہیئت کذائی وہ خون میں یوں لت پت تھا جیسے کسی نے خون کی بالٹی بھر کر اس کے سر پر انڈیل دی ہو۔ اس کے باوجود وہ ہوش و حواس میں تھا۔ ان لوگوں کے اندر داخل ہوتے ہی وہ جیسے تڑپ کر سیدھا ہوا اور بازو�¿ں کے سہارے اٹھتے ہوئے حجاب کے سامنے تن کر بیٹھ گیا۔
"خبر دار ! کوئی ،کوئی سرکار کے پاس نہ آئے۔ دور دور رہو سب۔” اس کی آواز بھی اسی کی طرح شکستگی سے چور تھی۔ کمزور ،لڑکھڑاتی اور جھومتی ہوئی۔ خود اسے تو یہی لگ رہا تھا کہ اس کا دماغ، اس کی کھوپڑی سے نکال کر کمہار کے ایسے چاک پر رکھ دیا گیا ہے جو دھیمی رفتار سے مسلسل گھومے جا رہا ہے۔ اپنے وجود کا بھی ٹھیک سے اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ آنکھوں میں سرخ دھندلاہٹ سی جم کر رہ گئی تھی اور ہوش و حواس بکھر بکھر جا رہے تھے۔
اس زخم زخم قابل رحم اور ابتر ترین حالت میں بھی ایک خیال اس کے اندر کہیں پوری شدت سے موجود تھا اور شاید یہ ہی خیال اب تک اس کے وجود اور حواسوں کو جوڑے ہوئے تھا مقدور بھر سنبھالے ہوئے تھا۔
یہ خیال تھا اس فرض کی ادائیگی کا جو فکری لحاظ سے اس کے نزدیک ایمان کا سا درجہ رکھتا تھا اسے حجاب سرکار کو با حفاظت ان کے پھوپھا کے حوالےکر کے ماں کا حکم پورا کرنا تھا اپنے قول، اپنی زبان کے کہے کی لاج نبھاتے ہوئے اپنی نظروں میں سرخرو ہونا تھا سرکار کی عزت و حرمت ان کی سلامتی اور سکھ سکون کی یہ ذمہ داری تو گویا خدا نے خود اس کے کندھوں پر ڈالی تھیحالات و واقعات کا یہ سارا کھیل خدا ہی کا رچایا ہوا تو تھااور سرکار زخمی تھیں اس کی نامراد آنکھوں کے سامنے سرکار کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا تھا چوہدری فرزند نے انہیں لاتیں اور ٹھوکریں رسید کی تھیں اس کے سامنے اور اس کے سامنے اس کے دو یاروں کو گولیوں سے چھلنی بھی کر مارا تھا۔
"مرشد بھائی ! یہ میں ہوں میں ٹیپو!”ٹیپو فوراً آگے بڑھا تھا لیکن مرشد نے ہاتھ بڑھا کر کتے کے سر میں دھنسی کلہاڑی کھینچ لی۔
"سرکار سے دور رہو سرکار سے دور رہو۔”
"مرشد بھائی! میں ٹیپو بشارت بھائی اور ارباب صاحب والا ٹیپو۔”
"دور رہو میں مار دوں گا، چیر دوں گا۔”
"مرشد بھائی! ہوش کریں پہچا نیں مجھے ہم دشمن نہیں ہیں۔ حالات اب ہمارے قابو میں ہیں۔”
"میں کہتا ہوں سرکار سے دور رہو دور رہو سرکار سے دور ہٹ جاو�¿۔ سرکار، سرکار نہیں مار ڈالوں گا ، سب کو ختم کردوں گا۔ تمہاری، تمہاری نسلیں اجاڑ دوں گا”وہ کلہاڑی کو حرکت دیتے ہوئے چلایا۔ اس پر ہذیانی کیفیت طاری تھی۔ اسے خود اندازہ نہیں تھا کہ وہ چلا رہا ہے، رو رہا ہے۔ ہاں ! وہ باقاعدہ رو رہا تھا اور دیوانگی و بےخودی کے سے عالم میں چلا رہا تھا۔”سرکار کے ساتھ گستاخی کی تم نے میں تمہارے خاندان کے بچے تک مار دوں گا۔ سرکار پر ہاتھ اٹھایا سرکار کو مار سرکار کو سرکار”
اس کی ناتواں لرزیدہ آواز میں آہ و فغاں کا سا تاثر تھا۔ قلق انگیزی کا ایک ایسا بے کراں سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا جو سارے جہان کو اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا ہو۔ کچھ دیر پہلے چوہدری کی طرف سے حجاب کے ساتھ ہونے والی بے رحمانہ مار پیٹ کسی قیامت خیز دکھ کی صورت اس کی روح تک جا اتری تھی۔
حجاب نے بے اختیار روتے ہوئے اسے مخاطب کر کے ٹیپو کے متعلق بتایا۔ خود ٹیپو بھی بول رہا تھا لیکن مرشد ٹھیک سے اپنے حواسوں میں نہیں تھا لہذا مجبوراً ٹیپو اور اس کے ساتھ آئے افراد نے زبردستی اس کے ہاتھ سے کلہاڑی چھین کر اسے قابو کیا اور وہ ایک بار پھر نیم بے ہوشی کی کیفیت کا شکار ہوگیا۔یہ عجیب ذہنی حالت تھی۔ سرخی سے بھرا منظر اور ایک پر ہول سا جمود۔ اس سرخ منظر میں اس کے اردگرد کچھ مضطرب ہیولے اور بھاری گونج دار آوازیں تھیں۔ اس جمود میں اس کے اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں جیسے جم کر رہ گئی تھیں۔ ہاں البتہ ایک دکھ کا احساس ضرور کہیں موجود تھا اور یہ جیسے ایک ہشت پہلو عجیب دکھ تھا گہرا جان گ�±سل دکھ۔
اکو اور جعفر جیسے بے لوث محبت کرنے والے جاں نثار ساتھیوں کو اس نے اپنے سامنے چھلنی ہوتے دیکھا تھا۔ ان کے ساتھ ہی لنگوٹیے یار مراد کے قتل کا غم بھی نئی شدت سے تازہ ہو آیا۔ ساون ، زریون اور دیگر ساتھی شاید مکان کے ملبے میں دفن ہو گئے تھے۔ ان کی زندگیوں کا بھی اب کوئی بھروسہ نہیں تھا۔خنجر شدید تکلیف میں تھا۔ کتے نے اس کا ہاتھ چبا ڈالا تھا اور اور حجاب حجاب سرکار ! وہ بھی بری طرح زخمی تھیں اس کی بد بخت آنکھوں نے سرکار کو چوہدری کی ٹھوکروں میں ر�±لتے تڑپتے اور چیخ وپکارکرتے دیکھا تھا۔اس کی موجودگی میں اس کی آنکھوں کے سامنے چوہدری جیسے دو کوڑی کے گھٹیا آدمی نے سرکار کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا یہ ان کی بدترین تذلیل تھی اور ابھی چوہدری فرزند زندہ تھا۔ اس کے سارے پالتو کتے باقی تھے ملنگی بھی یقیناً ابھی زندہ تھا۔ سرکار زخمی تھیں۔ خطرات ابھی باقی تھے۔
یہ سارا کچھ ایک” مشترکہ دکھ“ کے گہرے احساس کی صورت اس کی ذات پر چھا چکا تھا۔ اس کے حواسوں پر حاوی ہو چکا تھا۔ اس بری طرح اسشدت کے ساتھ کہ خود اسے ذرا بھر احساس نا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیا ردِ عمل دے رہا ہے۔ وہ چیخ رہا تھا رو رہا تھا۔ کبھی چوہدری اور ملنگی کو للکارنے لگتا تھا تو کبھی حجاب سے معافیاں مانگنے لگ جاتا اپنی آنکھوں اور حوصلوں کو کوسنے لگتا۔ اپنی آنکھوں کے لہو ہوجانے کی دہائیاں دینے لگتا اور اس کے اردگرد موجود افراد سنسنی اور اعصابی کشیدگی کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ اس کی آنکھیں سچ میں لہو ہوچکی تھیں ہاں! اس کی آنکھوں میں لہو بھرا تھا۔ وہ سرتاپا زخم زخم تھا اور اپنے ہی خون میں لت پت بھی۔ اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو خون کی لکیروں کی شکل میں اس کی خون سے لتھڑی ڈاڑھی اور مونچھوں کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔
بلوچ اسے سنبھالنے اور پانی پلانے کی کوشش کررہے تھے مگر وہ ان کے ہاتھوں سے نکل نکل جا رہا تھا۔ حجاب بھی اس کے ساتھ ساتھ روئے جا رہی تھی اور ساتھ ہی اسے پانی پی لینے کا کہہ رہی تھی لیکن مرشد کو جیسے کچھ دکھائی دے رہا تھا نا سنائی!
سب کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ وہ اپنے حواسوں میں نہیں ہے۔ اسے زبردستی چند گھونٹ پانی پلایا گیا۔ ٹیپو کی ہدایت پر دو بندے الٹے قدموں باہر کو دوڑ گئے ۔مرشد کو ذرا بھر اندازہ و احساس نہ ہو پایا کہ اسی دوران کچھ دیر کے لیے وہ سیاہ چادر والی عورت بھی کوٹھری میں آئی تھی۔ کوٹھری میں موجود تمام بلوچوں کی گردنیں اس دوران جھکی رہیں اور نظریں زمین میں گڑی رہیں۔کوٹھری کی اندرونی صورت حال کا اس نے بڑی سنجیدگی سے جائزہ لیا تھا۔
اسی وقت لالا رستم اور استاد کرامت لوگ بھی وہاں پہنچ آئے۔مرشد کی ذہنی و جسمانی حالت زار نے سب ہی کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جس قدر زخمی اس کا وجود تھا شاید اس سے کئی گنا زیادہ زخمی اس کا اندر تھا اس کا کلیجہ، اس کا دل۔ اندر کی تکلیف ، اندر کا کرب اس کی لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کچھ ایسی ہی قلق انگیزی سے چھلک رہا تھا جو براہ راست سب کے دلوں پر اثر انداز ہوا۔ اس کی آواز میں ٹھاٹھیں مارتی وحشت اور جنوں خیزی، جسم میں سنسنی کی لہریں سی جگاتی تھی۔اس حالت میں بھی جیسے وہ حجاب کے سامنے ڈھال بنے رہنے کی ناکام کوشش میں ج�±تا تھا۔ حجاب بھی اس کے عقب میں سمٹی بیٹھی تھی۔
محض چند لمحے، کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد وہ عورت اور لالا رستم لوگ پر تشویش سنجیدگی کے ساتھ آپس میں کچھ بات کرتے ہوئے کوٹھری سے باعجلت باہر نکل گئے تھے۔اس دوران ذہنی طور پر مرشد اسی سرخ جمود کا شکار رہا۔ اسے اپنی حرکات یا باتوں پر کوئی اختیار تھا نا ٹھیک سے احساس پھر کچھ دیر کے لیے تو اس کے حواس مکمل طور پر ہی اس کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن ایسا بس کچھ ہی دیر کے لیے ہوا تھا اور پھر کچھ دیر بعد یکایک ہی حواس قدرے بہتر سے بے دار ہو آئے۔
آنکھوں میں اب بھی سرخ دھندلاہٹ بھری ہوئی تھی البتہ اب دماغ سوچنے سمجھنے کی حالت میں تھا۔ دو ڈاکٹر اس پر جھکے ہوئے تھے۔ ایک شخص کوئی ڈرپ نما چیز پکڑے کھڑا تھا اس کی ٹانگوں کے ساتھ بھی کوئی مصروف کار تھا۔ اسے اپنے بازو میں سوئی کی چبھن محسوس ہوئی۔
"مجھے مجھے بے ہوش نہیں کرنا۔ ورنہ میں بعد میں تمہیں کاٹ کر پھینک دوں گا۔” اس کے خون آلود ہونٹوں کو حرکت ہوئی تھی۔
جواباً دو تین آوازیں سنائی دیں مگر سمجھ نہ آئیں۔
"بے ہوش نہیں کرنا۔” وہ دوبارہ بڑبڑایا۔ سر پر کوٹھری والی ہی چھت تھی۔ "سرکار سرکار !”
"میں یہیں ہوں۔” ایک سسکی اس کی سماعت تک پہنچی۔ حجاب اس کے سرہانے بیٹھی تھی۔ مرشد نے اضطراری انداز میں فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس کے انداز میں عجیب بے اطمینانی اور غیر یقینی سی تھی۔ وہ کچھ بولا تھا لیکن آواز بس اس کے ہونٹوں پر ہی کسمسا کر رہ گئی۔ اس نے آنکھیں پٹپٹا کر دیکھنے کی بھی کوشش کی مگر وہ ہی سرخ دھندلاہٹ !
"جگر ! خنجر کی کراہتی ہوئی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ "جگر حوصلہ رکھو۔ دوست پہنچ آئے ہیں۔ حوصلہ”
اسے اندازہ ہوا کہ برابر ہی میں خنجر کی بھی مرہم پٹی کی جارہی ہے۔ اسے سرخ چادر کے پیچھے ٹیپو کی شکل کا گمان گزرا موچھیل غضنفر بھی قریب موجود تھا شاید اور لالا دلاور کی آواز بھی کوٹھری کے اندر ہی سے سنائی دی تھی اسے۔حلق میں خون کا ذائقہ جما ہوا تھا۔ سانس میں کچے لہو کی باس یوں رچی ہوئی تھی کہ سینے کے اندر متلی کا بھنور سا حرکت کر رہا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ حالات میں زبردست تبدیلی آچکی ہے۔ فی الوقت ان کے اردگرد سب خیر خواہ اور دوست لوگ موجود تھے۔ اس کی وحشت اور ہذیانی کیفیت فوراً کم ہوتی گئی البتہ حجاب کے ہاتھ پر گرفت بدستور موجود رہی۔
باہر خاصی ہلچل کے آثار تھے۔ رنگ برنگی آوازیں تھیں ۔وقفے وقفے سے رائفل کی تڑتڑاہٹ ادھر ادھر سے بلند ہوتی تھی اور اور ساتھ ہی مختلف آوازوں کا آہنگ سمندر کی لہروں کی طرح باہر سارے صحن میں حرکت کرتا ہوا محسوس ہوتا۔ہاں یہ واضح پتا چلتا تھا کہ یہ تڑتڑاہٹ محض ہوائی فائرنگ کی ہے۔ میگا فون پر بدستور کوئی بولے جارہا تھا۔ دور کہیں اِکا د�±کا فائر اب بھی ہو رہے تھے۔ غالباً پولیس ہی کسی مسلح ٹولی پر فائرنگ کر رہی تھی۔
کوٹھری کے باہردروازے کے سامنے چالیس پچاس مسلح افراد موجود تھے۔ ان میں شاہ پور کے بلوچ بھی تھے اور لالا رستم کے جاں نثار بھی۔ اردگرد کی چھتوں پر بھی ان کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ دونوں طرف کی گلیوں میں بھی یہ لوگ پھیلے ہوئے تھے ۔ان ہی میں بھاری نفری پولیس کی بھی تھی۔ پولیس کے سب ہی جوان پوری طرح مسلح تھے۔ حفاظتی ٹوپ اور جیکٹس پہنے ہوئے۔
صحن بھی ان مسلح افراد سے بھرا ہوا تھا۔وہ کشادہ مکان اس وقت مرشد اور حجاب کے ساتھیوں اور خیر خواہوں کے حصار میں تھا۔ اس طرح کہ محاورتاً نہیں حقیقتاً کوئی پرندہ بھی فضا کی اس حدود میں پر نہیں مار سکتا تھا۔ بہت سے افراد مکان کا ملبہ ہٹا رہے تھے۔ ملبے میں دبے افراد کو نکالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔اہم اور سرکردہ لوگوں میں سے ان لمحوں کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ چوہدری فرزند اور ملنگی تو یک دم منظر سے جیسے غائب ہی ہوگئے تھے۔ساتھ والے احاطے کے صحن میں علاقے کے کئی معززین اور با اثر لوگ موجود تھے۔ سیاہ چادر پوش عورت وہاں نہیں تھی البتہ ارباب قیصرانی اور لالا رستم تھے۔
اندرونی حصے کی طرف ایس پی سمیت کئی اعلا افسران موجود تھے۔ نواب اسفند یار اور چوہدری اکبر بھی ادھر ہی تھے۔ چوہدری اکبر اور نواب کے ذاتی محافظوں کے علاوہ یہاں بھی گلیوں اور چھتوں پر پولیس کے بہت سارے مسلح اور چوکس جوان پوری طرح مستعد دکھائی دیتے تھے۔ فضا میں اعصاب شکن تناو�¿ پھیلا ہوا تھا۔
سب ہی مسلح گروہ اکھٹے ہو کر دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ مرشد لوگوں کے حریف ، جانی دشمن ایک طرف اور جاں نثار ساتھی ، خیر خواہ دوسری طرف۔ مرشد کے دوستوں اور خیر خواہوں کا پلڑا ہر لحاظ سے بھاری ہو چکا تھا۔ان کے دشمنوں کو جانی نقصان کے ساتھ پسپا ہونا پڑا تھا۔ شاید انہیں مزید نقصان اٹھانا پڑتا لیکن درمیان میں پولیس آگئی تھی۔اس وقت بستی چاہ جام والا میں پولیس کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ پولیس کے یہ مسلح جوان پوری بستی میں پھیلے ہوئے تھے۔ کئی اعلا افسران اور علاقے کے بیش تر با اثر معززین بھی موقع پر پہنچ چکے تھے۔بستی کے مختلف مقامات پر لاشیں ملی تھیں۔ کئی افراد کو گرفتار کیا جا چکا تھا اور کئی افراد کی گرفتاری ایک سنگین اور حساس معاملہ بن چکی تھی۔ ان افراد میں چوہدری فرزند ، ملنگی اور باطور خاص مرشد بھی شامل تھا۔
رستم لہوری، اس کے حواری ملک منصب اور شاہ پور کے بلوچ کسی صورت اور کسی قیمت پر مرشد کو پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑنے کو آمادہ نہیں تھے۔
ان کے علاوہ اس سارے فساد میں کئی سیاسی اور اعلا حکومتی شخصیات بھی مداخلت کر رہی تھیں۔ دونوں طرف سے کل سے وائرلیس اور دستی ہاو�¿س کا فون مسلسل مصروف رہا تھا۔ملک منصب اور رستم لہوری کی کوشش سے مرشد کو فوری طبی امداد تو مہیا کر دی گئی تھی لیکن اس کی اور اس کے چند ساتھیوں کی حالت اتنی نازک تھی کہ انہیں جلد از جلد ہسپتال پہنچائے جانے کی ضرورت تھی۔ پولیس اسے اپنے طور پر ہسپتال لے جانا چاہتی تھی اور رستم لہوری اور بلوچ ارباب قیصرانی وغیرہ اپنے طور پر۔
جب ایک گھنٹے کی بحث و تکرار اور شور شرابے کے باوجود سب اپنے اپنے مو�¿قف پر اڑے رہے تو رستم لہوری کا ضبط جواب دے گیا۔ اس کے سفید کرتے اور دھوتی پر لہو کے سرخ دھبے تھے اور یہ مرشد کا لہو تھا اس کے شہزادے کا۔ جسے اس نے ہمیشہ اپنے بیٹے کی جگہ دیکھا تھا۔ جس میں اسے اپنا آپ دکھائی دیتا تھا۔اس نے رائفل کا ایک ہوائی برسٹ فائر کیا اور پھر پولیس افسران کو مخاطب کرتے ہوئے با آواز بلند گرج کر بولا۔
” بس بہت ہو چکی ہم لوگ مرشد کو ہسپتال لے جارہے ہیں۔ ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کوئی نا کرے۔ جسے اپنے بیوی بچوں سے دشمنی ہے وہ کر دیکھے۔ ہم مرنے مارنے کو تیار ہیں مرشد کہیں فرار نہیں ہو گا لیکن فی الحال ہماری حفاظتی تحویل میں رہے گا۔”ایک ساتھ کئی رائفلیں اور تائیدی آوازیں گونج اٹھیں۔ارباب کے ساتھ سارے بلوچ بھی اس تائید میں شامل تھے۔
تناو�¿ یکایک کئی گنا بڑھ گیا۔ رستم لہوری اور استاد کرامت فوراً پلٹ کر اس کوٹھری کی طرف لپکے جہاں ڈاکٹر مرشد، خنجر اور حجاب کے ساتھ مصروف تھے۔
ایک بار تو لگا کہ معاملہ سنگین ہو جائے گا۔ گولی چل جائے گی۔ ہتھیاروں پر ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوگئی۔ چند لمحے شدید اضطراب کے رہے لیکن گزر گئے۔ مرشد کے حمایتیوں میں اس وقت وہاں کوئی چار چھ یا محض دس بیس افراد موجود نہیں تھے ان کی تعداد کم از کم بھی دو ڈھائی سو تھی اور وہ سب ہی خطرناک ہتھیاروں سے مسلح تھے۔سب پولیس والوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ کوئی عام تام لوگ نہیں ہیں۔ وہ جو ارادے رکھتے تھے جو کہہ رہے تھے، وہ ہی کچھ بلا دریغ کر گزرنے کا حوصلہ اور کلیجہ بھی رکھتے تھے۔
ملبے میں سے دو زخمی اور تین لاشیں نکالی جاچکی تھیں۔ باہر گلی میں دو تین ایمبولینس گاڑیاں کھڑی تھیں۔ زخمیوں کو ان گاڑیوں کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔رستم لہوری کی آمد پر جب مرشد کو اسٹریچر پر منتقل کیا جانے لگا تو وہ رستم لہوری کا سہارا لیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔دلاور اور رستم نے اسے سنبھالا دیا تھا۔ حجاب کی کلائی اب بھی اس کے بائیں ہاتھ کی گرفت میں تھی۔ دائیں ہاتھ سے اس نے لالا دلاور کی ڈب میں لگا پسٹل نکال لیا تھا۔ساون اور دیگر ساتھیوں کے متعلق سوال پر رستم نے اسے بتایا کہ انہیں باہر ایمبولینس میں طبی امداد دی جارہی ہے۔
حجاب کی کلائی تھامے رستم کا سہارا لیے وہ لرزتی ٹانگوں سے کوٹھری کے دروازے سے باہر نکلا تو باہر سارے لوگوں میں ایک پرجوش لہر سی دوڑ گئی۔
ایک ساتھ کئی ہوائی برسٹ فائر ہوئے، کئی نعرے بلند ہوئے۔ صحن اور اطراف کی چھتوں پر اسے سیاہ قمیضوں اور پگڑیوں والے بلوچوں کا ایک ہجوم دکھائی دیا۔ صحن میں بکھرے بہت سارے بلوچ فوراً سے پیش تر ان کے اطراف ایک دائرے کی صورت میں سمٹ آئے۔ گویا ان سب نے انہیں اپنے حفاظتی حصار میں لے لیا تھا۔
حجاب اس کا بازو تھامتے ہوئے بالکل اس کے ساتھ چپک گئی۔ ان کی نظریں تین چار لاشوں پر بھی پڑیں۔ وہ سب گولیوں سے چھلنی تھیں۔ یہ یقینی طور پر چوہدریوں یا ملنگی کے ساتھیوں کی لاشیں تھیں۔چاروں طرف سے بلند ہوتے پرجوش نعروں نے خنجر، حجاب اور مرشد تینوں ہی کو ایک اطمینان بخش حیرت سے دو چار کیا۔ سب بلوچ یک زبان ہو کر مرشد زندہ باد بی بی زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگانے لگے تھے۔
ان کی بلند آہنگ آوازوں سے بستی کی فضا گونج اٹھی۔ چاروں طرف ایک ہلچل سی بے دار ہوگئی۔مسلح پولیس والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی لیکن وہ سب ہی واضح طور پر ایک پریشان کن تذبذب کا شکار دکھائی دیتے تھے۔
وہ تینوں، بلوچوں کے حفاظتی حصار میں صحن کے بیرونی حصے کی طرف بڑھے۔ جدھر کی دیوار گری ہوئی تھی۔ چند قدم ہی آگے بڑھے تھے کہ سامنے ٹوٹی دیوار کے حصے سے وہ ہی سیاہ پوش دبنگ عورت نمودار ہوئی۔ رائفل اب بھی اس کے ہاتھ میں تھی البتہ اب اس کی بڑی سی سیاہ چادر ب�±کل کی شکل میں اس کے وجود کو لپیٹے ہوئے تھی چھپائے ہوئے تھی۔وہ مضطربانہ انداز میں آگے بڑھی۔ اس کے پیچھے اور بھی کتنے سارے افراد تھے۔ آٹھ دس معزز قسم کی شکلیں ، افسرانا شخصیات۔ مرشد کو بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں ایک صوبائی وزیر کے علاوہ شہر کے ڈی سی بہادر بھی شامل تھے۔ان کے علاوہ مسلح بلوچ اور سپاہی بھی تھے۔
وہ عورت افتاں و خیزاں سیدھی حجاب کی طرف لپکی۔ اس کے انداز میں محسوس کی جانے والی بے قراری اور پریشانی سی تھی۔بلوچوں کا حفاظتی دائرہ فوراً ہی کائی کی طرح چھٹ گیا۔ یہ تو بخوبی پتا تھا کہ وہ دشمن نہیں ہے لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا ارادے رکھتی ہے۔ غالباً کچھ بولنے بھی والی تھی وہ، لیکن مرشد فوراً اس کے راستے میں حائل ہوگیا۔
"سرکار سے دور رہو دور رہو۔ ” اس کی آواز کمزور تھی لیکن اس آواز میں ایک گھائل غراہٹ تھی ایک زخم زخم تنبیہ تھی۔ وہ تو اس وقت جیسے حجاب کو حجاب ہی کے سائے سے بھی محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ عورت ٹھٹھکی۔ اس نے قدرے تعجب اور ناگواری سے مرشد کی طرف دیکھا۔ ساتھ ہی حجاب کی طرف جو بے ساختہ مرشد کے عقب میں سرک گئی تھی۔حجاب نے مرشد کے کندھے کی اوٹ سے اس مرد نما رائفل بردار عورت کو دیکھا۔ وہ بھی اپنی بڑی بڑی سفید اور کاٹ دار آنکھوں سے اس ہی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ان لمحوں حجاب کی شفاف آنکھوں میں ایک گہرا خوف بھیگ رہا تھا ایک الم ناک دہشت جیسے اس کے معصوم چہرے پر جم کر رہ گئی تھی۔
وہ عورت با غور اس کی طرف دیکھتے ہوئے خاموشی سے ایک طرف ہٹ گئی۔ شاید وہ فوراً ہی ان دونوں کے محسوسات، ان دونوں کی ذہنی و جذباتی حالت کو بخوبی سمجھ گئی تھی !ساتھ ہی ایک حرکت اور کی تھی اس نے حجاب کا دوپٹا تو چھت سے گرتے وقت ہی اس کے جسم سے جدا ہوگیا تھا۔ اس سیاہ پوش عورت نے ایک رائفل بردار کے سر سے پگڑی جھپٹی اور فوراً کھول کر حجاب کو تھما دی جو اس نے لرزتے ہاتھوں سے تھام کر دوپٹے کی طرح اوڑھ لی۔
اگلے چند ہی منٹ بعد اس کشادہ گلی میں ایک ساتھ دس بارہ گاڑیاں حرکت میں آرہی تھیں۔دو ایمبولینسیں تھیں۔ آگے والی ایمبولینس میں مرشد اور حجاب کے علاوہ ایک ڈاکٹر اور رستم لہوری سوار تھے۔ اس ایمبولینس کے آگے سفید گھوڑی پر وہی کالی دھوتی والی ڈشکری تھی۔ گھوڑی کے آگے مسلح بلوچوں سے لدی دو لینڈ روور جیپیں اور دو پولیس جیپیں تھیں۔ اسی طرح ان ایمبولینسوں کے پیچھے بھی رستم اور بلوچوں کی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ پولیس کی گاڑیاں بھی تھیں۔
یہ تقریباً پندرہ بیس گاڑیوں کا ایک قافلہ تھا جو رائفلوں کی تڑتڑاہٹ اور مرشد زندہ باد ، بی بی زندہ باد کے نعروں کی بلند گونج میں وہاں سے روانہ ہوا۔
ایک ابر آلود تاریک اور خونی رات آخر کار گزر گئی تھی۔ مشرق کی طرف سے نہایا دھویا سا سورج سر اٹھا کر چاروں طرف دیکھنے لگا تھا۔بستی چاہ جام والا میں کل شام سے جاری بھیانک معرکہ کئی زندگیاں نگلنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا یا یوں کہہ لیا جائے کہ سمٹ گیا تھا سمٹ کر وہاں سے آگے اب ہسپتال کی طرف سفر کر رہا تھا۔
مرشد کو سانس لینے میں دقت پیش آ رہی تھی۔ بدن تو سارے کا سارا ہی پھوڑا بنا ہوا تھا لیکن آدھے سر، سینے اور پسلیوں میں کروٹیں لینے والے درد کے بھنور ناقابل برداشت تھے۔حجاب اس کے برابر بیٹھی تھی۔ اس کا ہاتھ اب تک مرشد کی گرفت میں تھا۔ زبان کو شاید سکت نہ رہی تھی یا کوئی اور وجہ تھی۔ مرشد بس اس کی طرف دیکھے جا رہا تھا اور بے آواز روئے جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے گویا خون کے آنسو بہہ رہے تھے اور سسکیاں حجاب کے ہونٹوں پر تڑپ رہی تھیں وہ دونوں ہی رو رہے تھے دونوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ایک گہرے دکھ ، گہری صدماتی کیفیت کی جان کاہ سی لہر مشترکہ طور پر دونوں کے رگ و پے میں گردش کر رہی تھی۔
مرشد کے خون آلود ہاتھ کی پر حدت گرفت اس کے ہاتھ اور کلائی پر تھی۔ یہ گرفت، یہ ہاتھ گویا حجاب کی وہاں موجودگی کا گواہ تھا۔اس کے وہاں موجود ہونے کا ضامن تھا۔ مرشد گویا لاشعوری طور پر اپنے ہاتھ کو زنجیر کیے بیٹھا تھا۔ ایک سرخی سی اب بھی اس کی نظر کے سامنے پھیلی ہوئی تھی۔ اسے صاف اور واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بس اندازہ ہوتا تھا کہ حجاب سرکار برابر میں بیٹھی ہیں۔ وہ بھی سر جھکائے روئے جا رہی تھیں۔ ان کی سسکیاں اس محدود فضا میں مسلسل چھلک رہی تھیں۔ مرشد کی گرفت کے جواب میں انہوں نے بھی مرشد کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ اس پر گداز ہاتھ کے کومل لمس میں ایک خفیف سی لرزش ضرور تھی لیکن اس گرفت میں کوئی جھجک، کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ اس گرفت میں ایک ایسی مضبوطی تھی جیسے کسی ڈوبنے والے کمزور، بے آسرا نے کسی ٹھوس چٹان کو سہارے کے طور پر دبوچ رکھا ہو ایک ایسی نرمی تھی جو کسی ڈرے سہمے بچے کو اپنی وہاں موجودگی کا احساس دلا رہی ہو یہ بتانا سمجھانا چاہ رہی ہو کہ میں یہیں ہوں۔ تمہارے قریب ہی ، تمہارے ساتھ۔ یہیں پر
وہ دونوں خاموش تھے لیکن ان کی آنکھیں چیخ رہی تھیں آنسو شور مچا رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں کا لمس آپس میں ہمکلام تھا۔
مرشد کے خون آلود ہونٹوں میں رہ رہ کر لرزش سی بے دار ہوتی تھی۔ کوئی آواز نا تھی پھر بھی حجاب کو اس کی قلق انگیز آہیں اور فریادیں سنائی دے رہی تھیں گہرے دکھ اور شدید کرب سے لرزتی ہوئی فریادیں۔
"سرکارسرکار ! مجھے معاف کر دیں۔ میں اپنے ہونے کا حق ادا نہیں کر پایا۔ مجھے معاف کر دیں یا خدایا تو نے اس وجود میں اتنی کم سکت کیوں رکھی؟معافی سرکار معافی حیف کہ یہ آنکھیں لہو نہ ہوئیں۔ کلیجہ ٹکڑے نا ہوا اور حواس اب تک سلامت ہیں کام کر رہے ہیں !
میں شرمندہ ہوں سرکار ! از حد شرمسار ہوں۔مجھے معاف کر دیجیئے گا سرکار! مجھے معاف کر دیجیے گا۔ معاف آنسو شور مچا رہے تھے۔ سسکیاں نوحہ کناں تھیں۔ھڑکنیں رو رہی تھیں اور ان کے ہاتھوں کی گرفت ہاتھوں کا لمس آپس میں گویا بغل گیر تھا۔ یک جسم ، یک جان۔ وہ دونوں ہاتھ گویا ایک دوسرے کے گلے سے لپٹے رو رہے تھے اور ایک دوسرے کو تسلی بھی دے رہے تھے۔ ایک دوسرے کی ڈھارس بندھا رہے تھے !
حجاب کی داخلی کیفیت مرشد کے حال سے مختلف نا تھی۔ دکھ ناقابل بیان تھا تو ساتھ ایک کرب آمیز گہری شرمندگی کا احساس بھی تھا۔ ایک احساسِ جرم ظلم و بربریت کے اس سارے وقوعے کی ذمہ داری کا احساس۔ انداز فکر مختلف سہی جذبات و احساسات اور ان کی حواس سلب کرتی شدتیں ، دونوں طرف ایک ہی سی تھیں۔
حجاب کی طرف دیکھتے دیکھتے ہی مرشد کی پلکیں بوجھل ہوئیں۔ حجاب کے ہاتھ اور کلائی پر موجود گرفت نرم پڑی اور پھر اس کے حواس مکمل طور پر اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ وہ بے ہوش ہو گیاتھا۔
**************
اگلے چند گھنٹے سنسنی خیزی کے ساتھ ساتھ نہایت افراتفری میں گزرے۔ نوابوں، چوہدریوں اور بلوچوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی دو تین جھڑپیں ہوئیں مگر پولیس کی فوری اور بروقت مداخلت نے ان جھڑپوں کو بڑے فساد میں نہیں بدلنے دیا۔
پورے ضلع کی انتظامی مشینری حرکت میں تھی۔ متعدد گرفتاریوں کے علاوہ حریف اور اتحادی پارٹیوں کو پولیس نے دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے شہر کی دو مخالف سمتوں میں پیچھے دھکیل دیا تھا۔ مرشد کے تمام حمایتی شہر کی مشرقی سمت تھے اور مخالفین مغربی سمت۔ دونوں کے درمیان پولیس کی ایک بڑی تعداد پوری مستعدی سے حائل تھی۔رات بھر جو ہنگامہ اور کھینچا تانی جاری رہی تھی وہ اپنی جگہ دن چڑھتے ہی یہ سارا وقوعہ ، سارا خرابا گویا جنگل کی آگ بن کر حکومتی ایوانوں تک جا پہنچا تھا۔ وائرلیس، فون کالز ، وہ اٹھا پٹخ شروع ہوئی کہ ضلع بھر کے اعلا افسران کو وخت پڑ گیا تھا!
اب تک کے خطرناک ترین مجرموں کی حیثیت یکایک ہی عجیب حساس اہمیت اختیار کر گئی تھی۔ مرشد اور مرشد کے ساتھ موجود حجاب بی بی نامی لڑکی کے خیر خواہوں کی حیثیت سے حکومتی اور بالا دست سیاسی شخصیات کی طرف سے ایسی ایسی ہدایات مل رہی تھیں کہ تمام افسران ایک الجھن ، ایک پریشانی کا شکار ہوگئے تھے۔
انہیں یہاں تک سننے کو مل رہا تھا کہ ہیرا منڈی کے اس اشتہاری بدمعاش اور حجاب بی بی سے ملنے کے لیے کسی بھی وقت صوبے کے وزیر اعلی تک یہاں پہنچ سکتے ہیں۔حجاب بی بی کی حیثیت بھی کسی حد تک سب ہی پر آشکار ہو چکی تھی اور سب ہی کو ششدر بھی کر گئی تھی۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سب کو بخوبی سمجھ آگئی تھی کہ حکومت کے اعلا ایوانوں تک میں اگر اس وقوعے نے ہلچل بے دار کر دی ہے تو کیوں؟
حجاب بی بی کے پھوپھا اور سسر کو بلا تفریق سبھی افسران اور تمام سیاسی اکابرین جانتے تھے۔ انہیں ، ان کے خاندانی پس منظر کو اور ان کے اثر و رسوخ کو بھی دن چڑھتے ہی ڈی سی صاحب کے ساتھ ساتھ ایس پی صاحب کی بھی ان کے ساتھ فون پر بات ہو چکی تھی اور اب وہ بلوچستان سے پنجاب کی طرف سفر میں تھے چند گھنٹے بعد وہ یہاں پہچنے والے تھے اور یہ بات واضح سمجھ آتی تھی کہ وزیر اعلی کی متوقع آمد کے پیچھے بھی یقیناً شاہ صاحب کا اثر و رسوخ ہی کار فرماہے!
پولیس افسران کو اب تک کی ساری معلومہ کہانی اور ساری حقیقتیں تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی تھیں۔جنرل ہسپتال شہر کا سب سے حساس ترین ایریا بن گیا تھا۔ شاہ صاحب کا بیٹا بھی اسی ہسپتال میں ایڈمٹ تھا۔ اسے ملبے میں سے نکال کر بے ہوشی کی حالت میں یہاں تک پہنچایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ چند مزید زخمیوں کے علاوہ چند لاشیں بھی اس ملبے سے بر آمد ہوئی تھیں۔کل سے اب تک ہسپتال میں پچیس تیس زخمیوں کے علاوہ ستائیس عدد لاشیں آچکی تھیں اور توقع کی جا رہی تھی کہ شام تک زخمیوں میں کمی اور لاشوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ گزشتہ چار پانچ گھنٹے سے پورا ہسپتال پولیس اور مسلح بلوچوں کے گھیرے میں تھا۔ یہ لوگ ہسپتال کے اندر بھی پھیلے ہوئے تھے۔ مرشد اور اس کے زخمی ساتھی جن تین کمروں میں موجود تھے۔ ان کمروں کے سامنے والے کوریڈور کو رستم کے مسلح ڈشکروں اور بلوچوں نے ایک طرح سے پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ یہاں صرف مخصوص افراد اور افسران کو رسائی حاصل تھی اور بس !
یہاں ہسپتال میں موقع پر موجود افسران اور سر کردہ افراد کے درمیان گزشتہ تین گھنٹے سے ایک نئی پریشانی بنی ہوئی تھی شاہ صاحب کے اتفاق رائے سے ملک منصب کی منشا تھی کہ حجاب بی بی کو یہاں سے شاہ پور حویلی میں لے جایا جائے۔ اس کی اس منشا کی طرف داری میں ذمہ دار افسران کو حکام بالا سے ہدایات بھی مل چکی تھیں سو ان کے اعتراض یا اختلاف کا تو کوئی سوال ہی نہیں رہا تھا لیکن خود حجاب نے اس سے صاف انکار کر دیا تھا !وہ صبح سے مرشد والے کمرے میں ہی تھی اور اس نے کچھ دیر کے لیے بھی مرشد سے دور ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ رستم لہوری اور ارباب قیصرانی بھی اندر ہی تھے۔ حجاب نے سسک سسک کر ان سے کہا تھا کہ مجھے مرشد جی کے پاس ہی رہنے دیں۔ مرشد اس وقت نیم بے ہوشی کا شکار تھا مگر حجاب کو اندازہ تھا وہ جانتی تھی کہ ہوش و حواس میں آتے ہی اس خرد دماغ بدمعاش کے ذہن میں کیا خیال آنا ہے
"اپنی سرکار ” کو اپنے آس پاس موجود نا پا کر اس پاگل کے دل و دماغ پر کیا اور کیسی قیامت گزرنی ہے۔ اس نے کسی کے سنبھالے نہیں سنبھلنا تھا اور اس کے سارے زخموں کے منہ پھر سے کھل جانے تھے۔ سارے بدن سے پھر خون رسنا شروع ہو جانا تھا۔ اس نے باری باری اندر آنے والے پولیس افسران اور دیگر افراد سے بھی صاف صاف کہا تھا کہ وہ کہیں نہیں جانا چاہتی۔ اسے سمجھانے اور قائل کرنے کوشش کی گئی۔ وہ سیاہ پوش رائفل بردار عورت بھی آئی تھی مگر حجاب اپنے مو�¿قف پر قائم رہی۔ اس نے سب سے یہی کہا کہ اسے مرشد کے ساتھ رہنے دیا جائے اور اگر اسے کہیں لے کر جانا ہے تو پھر مرشد جی کو بھی ساتھ ہی لے کر چلیں۔ ملک منصب نے یہ تقاضا بھی فوراً ہی پیش کر دیا تھا لیکن مرشد کے حوالے سے صورت حال ذرا مختلف اور پیچیدہ تھی یہ عام سا بدمعاش یکایک بہت ہی خاص ہوگیا تھا۔
ابھی ان کے مکمل اور تفصیلی بیان تو نہیں ہوسکے تھے لیکن دیگر افراد کے ساتھ ساتھ جو موٹی موٹی باتیں حجاب کی زبانی سننے کو ملی تھیں وہ سننے کے بعد ڈی سی اور ایس پی صاحب تو دل ہی دل میں مرشد سے ہمدردی محسوس کرنے لگے تھے لیکن یہ ہمدردی اپنی جگہمرشد ہر صورت ایک خطرناک مجرم، ایک بے رحم قاتل ثابت ہوتا تھا۔ اس کے جرائم بہت بھاری اور سنگین تھے۔ اس کے حوالے سے دو طرفہ دباﺅ تھا صورت حال ایسی بنی ہوئی تھی کہ شہر کے حاکم بھی خود کو محض کٹھ پتلیاں محسوس کرنے پر مجبور ہو کر رہ گئے تھے۔ ڈوریاں کہیں بہت اوپر سے ہلائی جارہی تھیں۔ حکام بالا کی طرف سے اس مرشد نامی بدمعاش کے متعلق مسلسل ایسے متضاد احکامات اور ہدایات مل رہی تھیں کہ یہاں کے افسران سٹپٹاہٹ کا شکار ہوئے پھر رہے تھے۔
ملک منصب، ارباب قیصرانی اور سارے بلوچ ، مرشد اور حجاب کے حوالے سے ہر طرح کی ذمہ داری قبول کر رہے تھے۔ شاہ پور میں ملک منصب کی حویلی ہی میں ایک چھوٹا سا ہسپتال بھی موجود تھا۔ملک منصب نے اس بات پر بھی رضا مندی دی تھی کہ ڈی سی صاحب ذمہ دار پولیس افسران کو حویلی میں تعینات کر دیں اور شاہ صاحب کے پہنچ آنے پر سارے قانونی تقاضے بھی آرام و سکون سے وہیں بیٹھ کر طے کر لیے جائیں۔ قانون کے مطابق کئے جانے والے کسی بھی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔اس سب کے علاوہ بھی وہ ہر قابل قبول شرط تسلیم کرنے کو تیار تھے مگر تین گھنٹے گزر چکنے کے باوجود اس حوالے سے ابھی تک کچھ طے نہیں ہو پایا تھا۔ سو حجاب بھی ابھی تک یہیں پر تھی اسی کمرے میں۔
ہسپتال کی کھڑکیوں سے دکھائی دیتا باہر کا منظر بتا رہا تھا کہ ہسپتال کے گراو�¿نڈ اور گراو�¿نڈ سے باہر سڑک پر بلوچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ سڑک کنارے ابھی ابھی دو ٹرالیاں آکر رکی تھیں اور ان ٹرالیوں پر سے مردوں کے علاوہ عورتیں بھی اتر اتر کر ہسپتال کی طرف لپکتی آرہی تھیں۔شاہ پور کے مردوں کی طرح ان سب عورتوں نے بھی کالی قمیض اور کالے دوپٹے ، چادریں اوڑھ رکھی تھیں۔
مرشد ہوش میں آچکا تھا۔ ہوش میں آتے ہی اس نے اٹھ کر کھڑے ہونے کی کوشش کی تھی اور اس کوشش کو ارباب ، رستم اور حجاب نے مل کر ناکام بنایا تھا پھر بھی وہ قدرے سیدھا ہو بیٹھا تھا۔ رستم نے اس کے کندھوں کے پیچھے دو تین تکیے لگا دیئے تھے۔سر سے لے کر پاو�¿ں تک سارے بدن پر چھوٹے بڑے کئی زخم ، کئی گھاو�¿ آئے تھے۔ چار ڈاکٹرز ڈھائی تین گھنٹے اس کے ساتھ مصروف رہے تھے۔ سر اور جسم کے چند زخموں کو باقاعدہ دھاگے سے سلائی کرنا پڑا تھا۔ ٹانکے لگے تھے۔ ایک چھوٹا اور معمولی سا آپریشن اس کی پسلیوں کے نیچے موجود پرانے زخم کا بھی کیا گیا تھا۔ یہ زخم اندر سے ٹھیک ہونے کی بجائے خراب ہونا شروع ہوچکا تھا۔ انفیکشن پھیل رہا تھا۔ اب اس کی بھی ٹریٹمنٹ ہو چکی تھی۔
اس کا چہرہ ورم زدہ نیلاہٹوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ بائیں آنکھ ورم کے باعث پھول کر تقریباً بند ہو چکی تھی۔ ہونٹ بھی سوجے ہوئے تھے۔ بائیں آنکھ کی بھنو کو گولی چھیلتی ہوئی گزری تھی آنکھ کی ہڈی کا فریم متاثر ہوا تھا لیکن مقام شکر تھا کہ فریکچر نہیں ہوا تھا۔ ہڈی اور آنکھ دونوں محفوظ تھیں جسم کے باقی مختلف حصوں کی طرح اس کے ماتھے اور سر پر بھی سفید پٹیاں لپٹی ہوئی تھیں۔اس حالت میں بھی اسے خود سے زیادہ اپنے ساتھیوں کی فکر تھی۔ ارباب کچھ ہی دیر پہلے باہر نکلا تھا۔ اس کے قریب صرف حجاب اور رستم لہوری تھے۔ رستم اسے بتا رہا تھا۔
"سب کچھ ٹھیک ہے شہزادے ! حالات اب پوری طرح ہمارے قابو میں ہیں۔ کج کتے بلے مارے گئے ، کج گرفتار ہوچکے ہیں اور جو دو چار زنور بھاگ نکلے ہیں انہیں ہم ڈھونڈ کر الٹا لٹکائیں گے۔ بہت جلد، تو اب بالکل بے فکر ہو جا تیرا لالا پہنچ آیا ہے نا !”رستم نے اس کا کندھا تھپکا۔ وہ مرشد کےساتھ ہی بیڈ پر بیٹھا تھا۔ اس کا دوسرا ہاتھ مرشد کی کلائی پر تھا۔
"اپنوں میں میں سے کون کونگیا؟” مرشد نے پوچھا۔ ورم زدہ ہونٹوں کے باعث اسے بولنے میں دقت کا سامنا تھا۔ حجاب برابر میں موجود دوسرے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ اس کا سر، بازو اور پاو�¿ں پر بینڈج موجود تھی۔ کوئی سنگین چوٹ اسے نہیں آئی تھی۔
” جہادوں اور جنگوں میں شہادتیں تو ہوتی ہیں۔ وہ سجن ساتھی خوش نصیب رہے جو شہید کا رتبہ ہوگئے۔”
"ملبے میں سے کون زندہ بچا ؟”
"چھ لوگساون، اسد ، فیروزہ ، نادر ، زریون شاہ جی اور ایک ڈھائی تین سال کا بچہ۔”
مرشد کے ذہن میں ایک لمحے کو لکڑی کا وہ جھولا چمکا جس میں اس نے ڈھائی تین سال کے ایک صحت مند بچے کو سوتے دیکھا تھا۔
"جم جمشید، دلشاد اور ولی خان؟”
رستم نے ہاتھ اس کے کندھے سے ہٹا کر گردن پر پہنچایا اور اس کی گردن سہلاتے ہوئے لاپرواہی سے بولا۔
” شانت ہو جا شہزادے! شانت ہو جا۔ سب ٹھیک ہے، سب اچھا ہے۔ باقی سجن ساتھی ساتھ والے دو کمروں میں ہیں۔ خنجر اور زریون تو یہ دیوار کے اس طرف لیٹے ہیں۔ بتایا تو ہے تجھے۔ ابھی تھوڑی دیر میں ملاقات بھی ہو جائے گی اور بی بی تو یہ تیرے پاس ہی بیٹھی ہیں۔” مرشد یک ٹک رستم لہوری کے چہرے کو تک رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ کچھ دیگر ساتھیوں کی طرح جمشید، دلشاد اور ولی خان بھی ہمیشہ کےلیے داغ دے گئے ہیں۔ اس کی ورم زدہ بند آنکھ سے بھی آنسو نکل کر ایک گرم لکیر کی طرح اس کے نیلاہٹ زدہ رخسار پر بہہ نکلا۔
"اکو اور جعفر بھی نہیں رہے نا ؟” اس کے لہجے میں نمی در آئی۔بائیں آنکھ اور کنپٹی میں ایک ٹیس ٹوٹی ،اس نے بے اختیاراکلوتی کھلی آنکھ بھی بھینچ لی اور سر عقب میں ٹکا دیا۔ دونوں رخساروں پر پھر سے آنسوو�¿ں نے لکیریں کھینچیں۔ اکو اور جعفر کو تو اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھا تھا۔
یہ آنسو بے آواز آنسو تھے۔ دوستوں کی بے لوث قربانی کو خاموش سلامی تھی۔ ان کی وفاو�¿ں کے نام نذرانہ عقیدت تھا۔ یہ لہر سینے کے اندر کہیں سے اٹھی تھی اور اس کی آنکھوں کے رستے بہہ نکلی تھی۔ کمرے کی خاموش فضا میں حجاب کی بھیگی سسکیاں اور ناک کی سوں سوں کی آوازیں تھیں۔
رستم لہوری اس کی گردن اور گال سہلاتے ہوئے کچھ مزید اس کے قریب ہو کر اس سے حوصلے تشفی کی باتیں کرنے لگا۔ وہ اسے بتانے لگا کہ اس وقت صورت حالات کیا ہے۔ اس کی اور اس کے ساتھیوں کی پوزیشن کیا ہے۔ اس کمرے سے باہر ہسپتال میں کیا صورت حال ہے اور شہر کی فضا کس رنگ ڈھنگ میں ہے۔ چوہدری اور نواب کمپنی کو نا چاہتے ہوئے بھی پسپا ہونا پڑ گیا تھا۔ وہ پیچھے ہٹ گئے تھے۔ دونوں طرف سے کئی افراد کو گرفتار کیا جا چکا تھا لیکن دونوں ہی طرف سے ابھی تک کسی سر کردہ شخص کو حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔
ایک جان لیوا خونی معرکے کے بعد یہ لڑائی، یہ دشمنی اب نئے مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔ اس مرحلے میں دوسری طرح کی طاقت کا استعمال کیا جارہا تھا۔ دونوں طرف سے اثر و رسوخ لڑایا جا رہا تھا۔ سیاسی کھینچا تانی اور تعلقات کی زور آزمائی شروع تھی۔ مرشد لوگوں کی طرف داری میں رستم لہوری نے اپنے سارے تعلقات استعمال کر رکھے تھے۔اس کے علاوہ ارباب اور ملک منصب نے اپنی ساری طاقت صرف کر رکھی تھی اور ان سب سے بڑھ کر یہ ہوا تھا کہ اس سارے خرابے کی اطلاع بلوچستان حجاب بی بی کے پھوپھا تک پہنچ چکی تھی اور انہوں نے وہیں سے ان کے حق اور تحفظ میں اعلا پیمانے سے فوری اقدامات کروائے تھے۔ ڈی سی ثاقب علیم اور ایس پی صادق علی گجر کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ تھیں۔توقع کی جارہی تھی کہ پولیس کے اندر ہی سے مرشد اور حجاب کو جانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اس اندیشے کے پیش نظر مرشد کی بے ہوشی کے دوران اسی کمرے میں ایک میٹنگ ہو چکی تھی۔ اس میٹنگ میں چار لوگ اور شامل تھے۔ ملک منصب، ارباب قیصرانی ، ثاقب علیم اورڈوگر صاحب۔
محکمانہ سطح پر درپیش دباو�¿ اور پیچیدہ حالات کے پیش نظر ایس پی صاحب اور ڈی سی بہادر نے خود ہی اندیشہ ظاہر کیا تھا اور خود ہی رستم لہوری اور ملک منصب کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ ان کمروں تو کیااس پورے کوریڈور میں مسلح سپاہیوں کی تعیناتی قبول کریں اور نا کوئی سمجھوتا باقی ہم لوگ خود سنبھال لیں گے۔ان کے اس تعاون کے پیچھے ایک مضبوط وجہ کے طور پر بڑے شاہ صاحب کی ذات موجود تھی۔
رستم لہوری آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔ بتا رہا تھا اور مرشد خاموش اور ساکت نیم دراز پڑا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر ایسی سنجیدگی تھی، جس سے اس کے اندرونی جذبات کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ اس کی نظریں کمرے کے دروازے کے اوپری حصے میں لگے شیشے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اس شیشے کے پار ایک لمحے کو کالے کپڑوں کی جھلک نمودار ہوئی۔ اگلے ہی لمحے دروازہ کھلا اور مرشد کی نظر اس دراز قد سیاہ پوش عورت پر پڑی جسے آج صبح وہ کالکا دیوی کے روپ میں دیکھ چکا تھا اور جس کی آمد نے حالات کا تختہ ہی الٹ کر رکھ دیا تھا۔
دروازہ اس نے نہیں کھولا تھا وہ تو دروازے سے دو قدم پرے پہلو کے رخ کھڑی تھی۔ دونوں ہاتھ غالباً اس نے پشت پر کر رکھے تھے۔ اوپری جسم پر کالی چادر کی بکل، نیچے کالی دھوتی، پیروں میں چمڑے کا ک�±ھسہ اور کندھے کے ساتھ جھولتی رائفلاس کے کھڑے ہونے کے انداز میں بھی ایک عجیب با رعب سا بانکپن تھا۔دروازہ کھلنے پر اس نے دھیرے سے گردن موڑ کر سرسری انداز میں اندر کی طرف دیکھا۔ نظر سیدھی مرشد پر پڑی۔ حالات کی ستم ظریفی کہ مرشد کی ایک آنکھ سوج کر بند ہو چکی تھی سو ایک ذرا ان کی آنکھیں تین ہوئیں۔ مرشد کو اس کے جاذب نظر چہرے پر ایک کرخت اور گہری سنجیدگی دکھائی دی۔ اس کی تلک لگی فراخ اور کشادہ پیشانی پر گھمبیرتا پھیلی ہوئی تھی۔ایک ذرا ان کی نظر ملی تھی اور یہ ایک ذرا انتہائی گہری اور جان دار تھی۔ اس نے انتہائی بھرپور نظروں سے مرشد کو دیکھا تھا۔ آنکھوں میں آنکھیں گاڑ کر بغور دیکھنے والے انداز میں !
اگلے ہی لمحے ارباب قیصرانی کے چہرے کی جھلک دکھائی دی۔ دروازے کو ہاتھ سے دھکیل کر کھولنے والا وہی تھا۔ دروازہ کھلا اور دروازے سے اندر داخل ہونے والی شخصیت پر نظر پڑتے ہی مرشد کے وجود کا رواں رواں جیسے ہمک اٹھا۔ اس کے ساتھ ساتھ حجاب بھی بری طرح چونکی تھی۔ وہ بے اختیار بول اٹھی۔ ” خخ خالہ !”
اندر آنے والی حسن آرا تھی۔ مرشد کی اماں اس کی باجی امی شفقت و ملائمت کی تصویر ، پیکر صبر و رضا مہر و وفا۔ آنکھوں میں بے چین فکر مندی اور چہرے پر ممتا سے بھرپور پریشانی لیے وہ اندر داخل ہوئی۔ مرشد پر نظر پڑتے ہی جیسے آگے بڑھتے بڑھتے اس نحیف جان کے قدم ایک ذرا لڑکھڑائے تھے۔دروازہ اس کے عقب میں بند ہوگیا۔ حجاب بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے لنگڑا کر آگے بڑھی اور روتے ہوئے حسن آرا کے گلے لگ گئی۔ مرشد بازو�¿ں کے سہارے تھوڑا مزید سیدھا ہو بیٹھا۔ اس کے جسم پر ہسپتال کی سفید چادر تھی ۔چادر کے نیچے اس کے بدن کا اوپری حصہ ننگا تھا۔ نچلے بدن پر وہی شلوار تھی۔ اس کا سر قدرے بوجھل اور حواس قدرے سن تھے۔ اس کی طرف حجاب کی پشت تھی۔ حسن آرا کا ہاتھ انتہائی محبت و شفقت کے ساتھ اس کی پشت سہلا رہا تھا۔ اس کے کندھے کے اوپر سے حسن آرا کا چہرہ دکھائی دیا۔ وہ حجاب کو بازو�¿ں میں سمیٹے ہوئے تھی اور اس کی بے قرار نظریں مرشد کے وجود پر لرزتی پھر رہی تھیں۔ پور پور اس کے وجود کو ٹٹول رہی تھیں۔ اس کے گھاو�¿ ، اس کے زخم شمار کر رہی تھیں۔مرشد کے چہرے اور وجود پر نظر پڑتے ہی اس بیمار ماں کا کلیجہ ہی تو مٹھی میں آگیا تھا!
ماں بیٹے کی نظر ملی تو مرشد کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ اتر آئی۔ ساتھ ہی اس نے ہونٹوں کے اشارے سے ایک "چ�±می” حسن آرا کی طرف اچھالی۔ حجاب کو اماں کے بازو�¿ں میں دیکھ کر دل کے لاشعور میں کہیں ایک ذرا ٹھنڈک سی محسوس ہوئی تھی۔
حجاب بالکل بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگی تھی۔ سینا غم و اندوہ سے بری طرح بھرا ہوا تھا۔ ایسے میں کسی کا کندھا میسر آ جانا بھی خدائی رحمت ہی ہوتا ہے۔ کسی کے سینے یا بازو�¿ں کا سہارا، حصار بہترین تسلی، بہترین ڈھارس ثابت ہوتا ہے۔ وہ تو کب سے ضبط کئے بیٹھی تھی۔ سو بکھر کر رہ گئی۔
"یہ سب میری وجہ سے ہو رہا ہے خالہ ! میں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ کسی کے لیے برا سوچا تک نہیں پھر بھی پھر بھی میری وجہ سے اتنے بہت سارے لوگ مارے گئے ،قتل ہوچکے۔” وہ رندھی ہوئی آواز میں بول رہی تھی۔ "پہلے میرے بابا سائیں اور بھائی قتل ہوئے۔ پھر راستے میں قدم قدم پر موت کے ہرکارے ملے اور اب یہاں یہ سب اور میں منحوس پھر بھی زندہ ہوں۔ ابھی تک۔ دیکھیںدیکھیں خالہ ! مرشد جی کو بھی کتنی بری اور کتنی بہت ساری چوٹیں آئی ہیں۔ اس سب کی ذمہ دار میں ہوں سب میری نحوست کا شکار ہو رہے ہیں۔ سب میری وجہ سے ہو رہا ہے۔”وہ بول نہیں کراہ رہی تھی۔ دل و دماغ پر مسلط بوجھ کی شدت سے اس کی آواز چٹخ رہی تھی۔ لرز رہی تھی۔ حسن آرا کی نظریں مرشد پر مرکوز تھیں اور آنکھوں میں آنسوو�¿ں کی جھلملاہٹ۔ وہ حجاب کی پیٹھ سہلاتے ہوئے اپنی اسی نرم اور ٹھنڈی آواز میں بولی۔
"ایسا نہیں کہیں۔ منحوس وہ سب ہیں جو آپ کی جان کے دشمن ہو رہے ہیں۔ ان میں سے جو مر گئے وہ دھرتی کا بوجھ تھے اور جو باقی بچے ہیں خدا نے چاہا تو وہ بھی جلد اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچیں گے۔ خدا ایسے لوگوں کو ڈھیل ضرور دیتا ہے مگر رعایت ہرگز نہیں اور ابھی تو سب ٹھیک ہوچکا۔ اب خطرے کی کوئی بات نہیں رہی اور مجھے پتا چلا ہے کہ آپ کے پھوپھا جی تک اطلاع پہنچ چکی ہے۔ چند گھنٹوں میں وہ یہیں ہوں گے اوراور یہ بھی سننے کو ملا ہے کہآپ کے پھوپھی زاد پہلے ہی سے یہاں موجود ہیں۔”بات کرتے کرتے ہی حسن آرا کے لب و لہجے میں ایک پر اندیش بے چینی سی در آئی۔ اسے اچانک اپنی سماجی حیثیت اور حجاب کے ورثا کے حوالے سے خیال آگیا تھا۔ اس نے حجاب سے تسلی تشفی کی باتیں کہتے ہوئے اسے واپس بیڈ پر بٹھایا اور پھر اپنے غرور اپنے بدمعاش پتر کی طرف متوجہ ہوگئی، جس کی زندگی اور سلامتی کی فکر نے اسے اس حد تک بے قرار کردیا تھا کہ وہ بے اختیار لاہور سے اٹھ کر سینکڑوں میل دور یہاںاس شہر میں پہنچ آئی تھی۔
وہ چوبارہ، وہ چار دیواری چھوڑ کر نکل آئی تھی جہاں اس نے خود کو گزشتہ چھبیس سال سے پابند و قید کر کے بٹھا رکھا تھا۔ اس دہلیز سے گزر آئی تھی جس پر چھبیس سال سے اس کی نظریں اور سماعتیں ٹکی ہوئی تھیں۔ جس ہستی کے احترام و انتظار میں وہ آخری سانس تک ایک چوبارے کی چار دیواری میں پتھر بن کر پڑے رہنے کی خواہش مند تھی، مرشد اسی کا بیٹا تھا اس کے اپنے پاس وہ اسی ہستی کی امانت تھا۔ وہ اس کے میر صاحب کا عکس ،ان کا پر تو تھا۔
"یہ تو کمال ہی ہو گیا اماں! تمہیں یہاں دیکھ کر بھی یقین نہیں آرہا !”مرشد نے مسکرانے کی کوشش کی ساتھ ہی بازو حسن آرا کی طرف پھیلایا۔ حسن آرا نے آگے بڑھ کر لرزتے ہاتھوں سے اس کے چہرے کو تھاما۔ آنکھوں میں آنسو ہلکورے لے رہے تھے۔ چند لمحے مرشد کو تکتی رہی پھر اس نے مرشد کو چومنا شروع کر دیا۔ اس کا سر ، ماتھا، آنکھیں، گال ممتا کی تڑپ اور بے قراریاں اس کے روئیں روئیں سے مترشح تھیں۔
آنسو اس کی آنکھوں سے رخساروں پر بہہ نکلے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ بیٹے پر نچھاور ہوجانا چاہتی ہو اسے خود میں سمیٹ لینا چاہتی ہو۔ لیکن سمجھ نہ پا رہی ہو کہ کیا کرےبیٹے کے زخم زخم وجود کو چھونے سے بھی اندر گھبرا رہا تھا کہ کہیں کوئی زخم دکھ نا جائے۔ اس کے چھونے یا چومنے سے اسے تکلیف نہ ہو
” پریشان نہ ہو اماں! تمہارے مشتنڈے کی ہڈیاں بڑی ڈھیٹ ہیں۔” مرشد کی لاپرواہی پر رستم لہوری نے فوراً لقمہ دیا۔ "ایسے چھوٹے چھوٹے زخم اور کھرونچیں جوانوں کا کچھ نہیں بگاڑتیں چار دن میں بالکل بھلا چنگا ہو گا تو۔”
"میں اب بھی بھلا چنگا ہوں لالا ! یہ جھگڑا یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور مجھے اس کے ختم ہونے تک رہنا ہے۔ سرکار کے مجرموں کو اپنے ہاتھوں سے انجام تک پہنچانا ہے میں نے۔” اس کی آواز دھیمی لیکن لہجہ اٹل اور ٹھوس تھا۔ سینے میں لاتعداد شرارے سے کلبلا رہے تھے۔
میڈیسن کے زیر اثر فی الوقت اس کی جسمانی تکلیفیں تقریباً سو رہی تھیں۔ دماغ بھی بوجھل اور دھندلایا ہوا سا تھا۔ اب دکھائی تو اسے صاف دے رہا تھا لیکن ایک سرخی کا احساس اب بھی جیسے اس کی بصارت پر حاوی تھا۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کی آنکھوں پر ہلکے سرخ شیشوں والی عینک موجود ہو۔
"ان مردود چوہدریوں میں سے کوئی مرا یا گرفتار ہوا؟” حسن آرا گردن موڑتے ہوئے رستم لہوری سے مخاطب ہوئی۔
رستم بولا۔ "گرفتاریاں تو کافی ساری ہوئی ہیں مگر ابھی صورت حال واضح نہیں آدھا دن ابھی باقی ہے۔ شام تک بہت کچھ سامنے آجائے گا۔ ابھی کافی ہلچل مچنی ہے۔”
"چوہدریوں کو پولیس حراست میں نہیں ہونا چاہئے لالا !” مرشد کی غراہٹ نما آواز پر وہ تینوں اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ "خصوصاً چوہدری فرزند کو اس سب سے بری الذمہ قرار دلاو�¿ اس کا اس سب سے کچھ لینا دینا نہیں اور اور ملنگی کو بھی۔ یہ دو بندے پولیس کی تحویل میں نہیں جانے چاہئے گرفتاری ابھی میں بھی نہیں دوں گا۔”اس کا چہرہ پتھرا گیا تھا اور کھلی آنکھ انگارے کی طرح دھک اٹھی تھی۔ سینے میں جلتا آگ کا بھانبھڑ فوراً سے پیش تر اس کے چہرے اور لہجے میں جھلک دکھانے لگا۔ رستم نے قریب ہو کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"ٹھیک ہے۔ جیسے تو چاہے گا ویسے ہی ہو گا۔” مرشد نے اسے اپنے برابر میں بیٹھا لیا۔ اس کے دوسرے پہلو کی طرف حسن آرا اس کا بازو تھامے بیٹھی تھی۔ مرشد نے بازو چھڑاتے ہوئے دونوں ہاتھوں میں رستم کا ہاتھ تھام لیا۔
"لالا ! مجھ سے وعدہ کرو زبان دو مجھے فرزند اور ملنگی۔ ان دونوں کو آزاد رہنا چاہیے ان کے ساتھ فیصلہ میں خود کروں گا میں اکیلا۔
ان دونوں کتوں کو کچھ نہیں ہونا چاہیے وعدہ کرو لالا ! وعدہ کرو میرے ساتھ۔”اس کے لب و لہجے اور انداز میں ایک وحشت انگیز اضطراب تھا۔ انتقام طلب نفرت کا سمندر جیسے اس کے سینے میں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔چند گھنٹے پہلے کے سارے بے رحم اور کرب ناک لمحات دل و دماغ میں جوں کے توں جم کر ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ تمام مناظر آنکھوں میں گڑے ہوئے تھے۔ دماغ میں نقش ہو کر کندہ ہو کر رہ گئے تھے۔
” تجھے یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں ہے مرشد !” رستم نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ اس کے بھاری پ�±ر گوشت چہرے پر ایک گھمبیر سنجیدگی اتر آئی۔ کپڑوں کے علاوہ اس کی سفید براک ڈاڑھی کا کچھ حصہ بھی خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ یہ سارے دھبے اور نشان مرشد کے خون سے آئے تھے۔ "تیرے ایک ایک زخم اور خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے ہم کسی زنور کو نہیں بخشیں گے۔”
"میرے خون اور زخموں کو چھوڑو لالا !” مرشد جیسے پھٹ پڑا۔ اس کی آواز بلند ہوگئی تھی۔ "میرے چاہے ٹکڑے اڑ جائیں خون کا آخری قطرہ تک وجود سے نچڑ جائے۔ پروا نہیں میرے یاروں کا خون ہے ان کتوں کے سر پروہ وہ سرکار کے مجرم ہیں۔” یکایک اس کا گلا رندھ گیا، آواز بھرا گئی اور لہجے کا آتشیں تاثر کئی گنا بڑھ گیا۔ "وہ سرکار کے مجرم ہیں۔ میں ان کے ہاتھ کاٹ ڈالوں گا ان کی ٹانگیں کاٹ دوں گا، چیر دوں گا انہیں میں” اس پر دوبارہ وہی جنونی کیفیت طاری ہونے لگی۔ شاید یہ اس کے حواسوں پر حاوی ہی ہو جاتی لیکن حجاب کی مداخلت نے اس کی اس ذہنی رو کو توڑ دیا۔ وہ فوراً ہی اٹھ کر اس کے قریب چلی آئی تھی۔
"مرشد جی مرشد جی ! ابھی آپ غصہ نہیں کریں۔ خود کو تھوڑا سنبھالیں۔ مجھے آپ کی طرف سے ڈر لگ رہا ہے۔ دیکھیں ابھی تو خالہ بھی یہیں ہیں۔ ابھی سب ٹھیک ہے۔ آگے بھی سب کچھ ٹھیک ہو جانا ہے۔ آپ خدا کے لیے غصہ نہیں کریں۔”
برہنہ کندھے پر حجاب کے پر گداز ہاتھ کا سرد لمس اترتے ہی رگ و پے میں دوڑتا لاوا یکایک سرد پڑتا چلا گیا۔ اس کی بھیگی ہوئی آواز مرشد کے حواسوں کو جھنجھوڑ گئی تھی۔ اسے فوراً احساس ہوا کہ اسے واقعی ہی اپنے اعصاب پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے۔ سرکار کے ساتھ ساتھ اماں بھی تو بیٹھی تھی۔ اس کے اعصاب تو ویسے ہی دیمک زدہ تھے اور سرکارسرکار تو خود اس سارے بدترین اور اعصاب شکن ہنگامے کا ایک کردار تھیں اور مرکزی کردار تھیں۔
اس نے سر گھما کر حجاب کی طرف دیکھا اور اگلے ہی پل سینے کی گہرائی سے جیسے کوئی سیلابی لہر سی اٹھی اور اس کی پلکوں کے بند پھلانگتی ہوئی آنکھوں سے بہہ نکلی۔ اس نے بے ساختہ گردن جھکا لی اور قلق انگیز لہجے میں بولا۔
"سرکار ! مجھ ناکارہ کو معاف کر دیجئے گا۔ میں میں ڈھنگ سے ڈھنگ سے” آواز بالکل ہی بھرا گئی اور جملہ ادھورا رہ گیا۔ اس کی آواز میں تڑپنے والا ہزیمت آمیز دکھ اس قدر شدید تھا کہ براہ راست ان تینوں کے کلیجوں پر اثر انداز ہوا۔
حجاب کے رگ و پے میں تو ایسی سنسناتی ہوئی لہریں دوڑی تھیں کہ اسے اپنے جسم کا رواں رواں دھڑکتا تڑپتا محسوس ہونے لگتا تھا۔ وہ مرشد کے اس دکھ، اس کرب سے پوری طرح آگاہ تھی اور یہ آگہی خود اس کے اپنے دل کا روگ ہوتی جا رہی تھی۔واضح سمجھ آتی تھی، دکھائی دے رہا تھا کہ مرشد کو حواس پگھلا دینے والے رنج و غم کا سامنا تھا۔ اس کا رواں رواں جیسے درد کے کسی عفریت کی سفاک گرفت میں تھا۔ اندر سے جیسے اس کی روح تک کسی عذاب میں مبتلا تھی۔
حجاب دیکھ رہی تھی سمجھ رہی تھی۔ مرشد کی اس تمام تر اذیت ، اس کرب کا تعلق اسی کی ذات سے تھا اور اس کو اس بات کی آگہی تھی۔وہ بدمعاش بندہ اسی کے دکھ ، اسی کے درد پر تڑپ رہا تھا اور اس کی یہ تڑپ حجاب کی روح تک کو جھنجھوڑ رہی تھی۔
مرشد کراہ رہا تھا۔ ” اس وجود نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ مجھے مجھے اپنے بازو�¿ں اور حوصلوں پر بڑا بڑا ناز تھا۔ حیف، صد حیف”
” میں بالکل زندہ سلامت اور ٹھیک ٹھاک ہوں مرشد جی ! آپ آپ نہیں ہوتے تو میں بہت پہلے مر کھپ گئی ہوتی۔ میں آپ کی احسان مند ہوں اور ہمیشہ رہوں گی۔ آپ نے قدم قدم پر میری حفاظت کی، میرے حصے کی گولی تک اپنے وجود پر لے لی۔ میں اس سب کا کبھی بدلہ نہیں چکا سکوں گی لیکن لیکن ہمیشہ آپ کےلیے دعا ضرور کرتی رہوں گی۔ روز روز دعا کیا کروں گی۔”
رستم بھی مرشد کا حوصلہ بندھانے لگا۔ حسن آرا حجاب سے مخاطب ہوئی۔
"سرکار! آپ نے اپنے پھوپھی زاد کو بتایا تو نہیں کہ آپ بازار حسن میں کچھ دن رہی ہیں ؟”
"نن نہیں میں نے آپ کی جگہ رستم جی کا بتایا تھا انہیں۔”
"میرا کیا ؟ ” رستم چونکا۔حجاب ان دونوں کو بتانے لگی کہ اس نے زریون کو اپنے متعلق کیا بتایا ہے اور مرشد کے ساتھ اپنے اس سفر کے حوالے سے کیا کہانی سنائی ہے۔ ظاہر ہے رستم کو پہلے اس بات کا علم نہیں تھا۔ اس کے خاموش ہوتے ہی حسن آرا سنجیدگی سے بولی۔
"ٹھیک کیا آپ نے۔ بلکہ بہت اچھا کیا آگے بھی اس بات کا خیال رکھیے گا کہ میرے یا بازار حسن کے حوالے سے بھولے سے بھی اپنی زبان پر کبھی کوئی بات نہ لائیے گا۔”
"مگر مجھے ان سے جھوٹ بولنا اچھا نہیں لگا۔”
کسی اچھے مقصد یا بھلے کے لیے جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا اور اس معمولی اور بے ضرر سے جھوٹ میں تو کوئی ایسی غلط بات بھی نہیں ہے۔ مصلحت کا تقاضا ہے یہ اس جھوٹ میں بہت سوں کی بھلائی ہے۔ ہم سب کی بھلائی بھی اسی میں ہے۔”
"مجھے اس خیال سے بہت خوف آرہا ہے کہ اگر کسی طرح انہیں خود سے سچ معلوم ہو گیا تو میرا جھوٹ میرے لیے سولی بن جائے گا۔”
حسن آرا فوراً بولی۔ "اللہ نا کرے سرکار ! اس کی امید نہیں ہے کہ انہیں پتا چلے گا۔” اس نے ایک ایک نظر مرشد اور رستم کے چہرے پر ڈالی۔ "اصل بات یہاں ہم چار لوگوں میں ہی رہے گی، باقی یہاں سب ہی کو وہ ہی کچھ بتایا جائے جو آپ نے چھوٹے سرکار کو بتایا ہےپولیس نے بیان لے لیا آپ سے؟” اس نے سوال حجاب سے کیا تھا مگر اس کے بولنے سے پہلے ہی رستم نے جواب دے دیا ۔” نہیں تفصیلی بیان ابھی ہونا ہے۔”
” بس پھرآپ اپنے تفصیلی بیان میں بھی ان چند دنوں کا ذکر مت کیجئے گا جو آپ نے ہم گناہ گاروں کی بستی میں گزارے ہیں۔ ان دنوں کو اپنے ذہن ہی سے نکال دیں۔ آپ فرض کر لیں کہ وہ ایک برا خواب تھا اور بس باقی سب اللہ پر چھوڑ دیں۔ وہ بھرم اور عزتیں رکھنے والی ذات ہے۔ سب اچھا کر دے گی۔”ان کے درمیان بات چیت ہو رہی تھی کہ اچانک دروازہ کھلا اور چار پانچ افراد اندر داخل ہو آئے۔
ڈی سی اور ایس پی صاحب کے علاوہ وہ پراسرار سیاہ پوش عورت بھی ان کے ساتھ تھی۔ انہوں نے مرشد اور حجاب سے چند سوالات کئے۔ رستم لہوری کے ساتھ چند نامعلوم افراد کے متعلق بات کی اور چند نامعلوم شخصیات ہی کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے واپس باہر نکل گئے۔ وہ عورت بھی ان کے ساتھ ہی لوٹ گئی۔
پتا نہیں کیوں مرشد کو وہ کچھ جانی پہچانی سی معلوم ہو رہی تھی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسے پہلے کہاں دیکھ چکا ہے لیکن کچھ یاد نہیں آیا۔ دماغ میں ایک دھند سی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ اس کے متعلق رستم سے پوچھنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن دھیان اماں کی بات کی طرف چلا گیا۔ اس نے حجاب کی آئندہ زندگی کے حوالے سے بات شروع کر دی تھی۔ سسرال اور شوہر کا ذکر کرتے ہوئے حجاب کو بولے گئے جھوٹ پر قائم رہنے کے لیے پکا کر رہی تھی۔ ازدواجی رشتے کی نزاکتیں سمجھانے لگی تھی۔قریب پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ ارباب قیصرانی اور ٹیپو اندر آئے۔ ارباب نے بتایا کہ ملک منصب نے سارے معاملات طے کر لیے ہے اور اب مرشد اور حجاب کو یہاں سے بستی شاہ پور ، ملک منصب کی حویلی لے جایا جائے گا۔
بقول ارباب اعلا افسران نے بھی یہ ہی بہتر خیال کیا تھا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر وہ دونوں ہسپتال کی نسبت ملک منصب کی حویلی میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔ وہاں انہیں بہتر طریقے سے حفاظت میں رکھا جا سکے گا۔
اس موقع پر مرشد کو اپنے یاروں کی فکر مندی نے آ لیا۔ جو نہیں رہے تھے وہ اللہ کی مرضی جو یہاں زخمی حالت میں پڑے تھے ان سے مرشد الگ اور دور نہیں ہونا چاہتا تھا صبح سے ابھی تک تو اس نے کسی کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ارباب اور رستم نے اسے بتایا سمجھایا کہ وہ سب یہاں پوری طرح محفوظ ہیں۔ حویلی والا فیصلہ فقط حجاب بی بی کی عزت اور پردے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ لیکن بی بی تمہارے بغیر حویلی جانے کو تیار نہیں اس لیے ان کے ساتھ ہی تمہاری منتقلی کو ممکن بنایا گیا ہے اور ایسا بہت مشکل، بہت دشواری کے ساتھ ہو سکا ہے۔
حجاب اور اس کی عزت، پردا مرشد کی زبان کو وہیں چپ لگ گئی البتہ وہ یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے اپنے سجن ساتھیوں سے ملنا چاہتا تھا۔ اسے بتایا گیا کہ کچھ ساتھی تاحال بے ہوش ہیں اور کچھ نیند آور ادویات کے زیر اثر سو رہے ہیں۔ کوشش کر کے بعد میں انہیں بھی حویلی منتقل کرا لیا جائے گا لیکن فی الوقت بس تم چل پڑو۔زریون اور خنجر سو رہے تھے۔ فیروزہ ابھی تک بے ہوشی کا شکار تھی۔ اس کے سر پر شدید چوٹ ائی تھی۔ رستم لہوری کے دو بندوں کے علاوہ ساون بھی جاگ رہا تھا اور تقریباً ٹھیک ٹھاک تھا۔ روانہ ہونے سے پہلے مرشد کی دو منٹ کے لیے بس اسی کے ساتھ بات چیت ہوسکی۔اسے چند معمولی چوٹوں کے علاوہ ران پر شدید چوٹ آئی تھی اور اس چوٹ نے اسے بستر نشین ہونے پر مجبور کردیا تھا۔اس کی بائیں ران کا اندر سے گوشت پھٹا تھا اور ہڈی میں ہئیر لائن فریکچر آیا تھا۔ یہ کوئی خطرے کی بات نہیں تھی البتہ فی الحال اس چوٹ نے اسے بستر کا پابند ضرور ٹھہرا دیا تھا۔ استاد افضل ملتانی اور لالا دلاور بھی یہیں اس کے پاس ہی بیٹھے تھے۔
ہسپتال سے شاہ پور کے لئے روانہ ہوتے وقت ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود مرشد بادقت تمام اپنے پیروں پر اٹھ کھڑا ہوا دائیں بائیں سے رستم لہوری اور دلاور اسے سہارا دیئے ہوئے تھے۔ اور دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھا کہ چند گھنٹے پہلے جس شخص کو نیم مردہ حالت میں یہاں لایا گیا تھا اور جس کے زخموں کے پیش نظر سب کو یقین تھا کہ اب چند ہفتے تک یہ بستر سے ہرگز بھی اٹھ نہیں سکے گا وہ اب محض چند گھنٹے بعد ہی اپنے پیروں پر چلتا ہوا ہسپتال کی عمارت سے باہر نکل رہا تھا۔یہ مختصر سا فاصلہ مرشد کے لیے کسی پل صراط جیسا تھا۔ پورے بدن میں درد کی بے شمار لہریں تڑپی۔ زخموں میں شرارے بیدار ہو آئے اور کئی زخموں سے پھر خون رسنا شروع ہوگیا۔ پہلو میں تو گویا درد کا بھنور آ پڑا تھا۔ ہر قدم پر بائیں آنکھ میں نوک دار سلاخ جیسی ٹیس اٹھتی اور کھوپڑی کے عقبی حصے میں جا ٹھوکر مارتی۔
یہ ایک ضبط آزما مرحلہ تھا اور مرشد نے اس مرحلے سے گزرنا ضروری خیال کیا تھا۔دشمنوں کے ساتھ ساتھ وہ باقی سب کو بھی بتا دینا چاہتا تھا کہ مرشد زندہ سلامت ہے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔ اس طرح اسے بلوچوں کے نعروں کی بھی لاج رکھنی تھی اور ان سب کی نظروں میں اپنی شان بھی۔ ان کے علاوہ وہ اماں اور حجاب سرکار کی آنکھوں میں اپنے حوالے سے خوف اور اندیشوں کی پرچھائیاں دیکھ چکا تھا۔ اسے اپنے حوصلے اور برداشت سے ان دونوں کو بھی احساس دلانا تھا کہ ان کے سب ہی اندیشے باطل ہیں۔
عمارت کے بیرونی راستے کے بالکل سامنے ہی ایک ایمبولینس مرشد کے لیے تیار کھڑی تھی۔ اس کے وہاں پہنچتے ہی چاروں طرف ایک لہر سی دوڑ گئی۔ یہاں ارد گرد ایک ہجوم موجود تھا۔ کئی بھاری بھرکم قسم کی شخصیات کے علاوہ پولیس والے بھی تھے لیکن سب سے زیادہ تعداد بلوچوں کی تھی۔ چاروں طرف کالی پگڑیوں اور قمیضوں کی بھرمار تھی۔مرشد کو رستم اور دلاور کے ساتھ چل کر باہر آتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے ایک بار پھر نعرہ زنی شروع کردی۔
رستم اور دلاور نے پہلے اسے ایمبولینس میں سوار کر کے اسٹریچر پر لٹایا۔ پھر حجاب اور حسن آرا کے بعد ایک ڈاکٹر سوار ہوا اور دروازہ بند کر دیا گیا۔ رستم نے مرشد کو بتا دیا تھا کہ ایمبولینس کے پیچھے والی پجارو میں وہ بھی ارباب قیصرانی کے ساتھ آرہا ہے۔ایک بار پھر مختلف گاڑیوں کا قافلہ حرکت میں آرہا تھا ۔یہ قافلہ صبح کی نسبت کئی گنا بڑا ہوچکا تھا۔ اس بار پولیس جیپوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ اور بلوچوں کی تعداد میں بھی چار گنا اضافہ ہو چکا تھا !
بیس پچیس گاڑیاں حرکت میں آکر آگے پیچھے ہسپتال کے کمپاو�¿نڈ سے نکل کر سڑک پر پہنچیں اور مشرق کی سمت چل پڑیں۔
گاڑیوں کے اس قافلے میں آٹھ دس گھڑ سوار ، کچھ موٹر بائیکس، سائیکلیں، چار پانچ تانگے اور دو تین ٹرالیاں بھی شامل تھیں۔ ان پر شاہ پور کی سیاہ قمیضوں والی بلوچنیں سوار تھیں۔ وہ بھی بالکل مردوں ہی کی طرح نعرے لگا رہی تھیں۔ "مرشد زندہ باد ، بی بی زندہ باد جئے مرشد ، جئے بی بی۔ ”
حجاب صبح ہی کی طرح مرشد کے برابر بیٹھی تھی۔ باہر کی فضا میں نعروں کی گونج تھی اس گونج میں دو لوگوں کا ذکر تھا۔ اس کا اپنا اور مرشد کا ان دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا جا رہا تھا۔ ہوائیں ، فضائیں گواہ تھیں۔ آسمان خاموشی سے دیکھ رہا تھا ،سن رہا تھا۔ ”جئے مرشد ، جئے بی بی مرشد بی بی
یہ سفر زیادہ طویل ثابت نہیں ہوا۔ محض پندرہ سے بیس منٹ لگے ہوں گے کہ وہ لوگ بلوچوں کی بستی شاہ پور تک پہنچ گئے۔ مرشد نے گردن اٹھاتے ہوئے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی۔ کچے پکے مکانوں پر مشتمل یہ ایک عام سی بستی تھی۔ بستی عام سی تھی لیکن اس بستی میں بسنے والے لوگ یہاں کے لوگ عام لوگ ہوتے ہوئے بھی عام نہیں تھے!
مرشد گزشتہ کئی روز سے اس بستی اور اس بستی کے لوگوں کے متعلق سنتا آرہا تھا۔ ان کی اکثریت صبح سے اس کے اردگرد موجود تھی۔ چند ایک سے وہ اچھی طرح واقف بھی ہو چکا تھا۔ اب توقع تھی کہ آج کل ہی میں چند مزید اہم اور غیر معمولی شخصیات سے واقفیت حاصل ہونے والی ہے۔ اب تک کی سنی ہوئی باتیں اور چند نام اس کے ذہن میں گردش کرنے لگے۔سادات اور چوہدریوں کی دشمنی نواب اسفند یار چوہدری حاکم علی، سید نظام الدین اور چوہدری اکبر ملک منصب اور اس کے بزرگ شناب اور گجناب اور اور سب سے بڑھ کر وہ سید بادشاہ جو آج سے چالیس سال پہلے سینکڑوں ایکڑ رقبہ یونہی چھوڑ کر چلے گئے تھے، روپوش ہوگئے تھے۔ وہ
اسی زمینی رقبے کے لیے چوہدریوں، نوابوں اور بلوچوں کے درمیان 1947 میں تنازعہ پیدا ہوا تھا۔ یہیں حجاب سرکار کے پھوپھا بھی پہنچنے والے تھے اور مرشد کو یقین تھا کہ اب بہت جلد اس کا سامنا اس بستی کے سردار ملک منصب سے بھی ہونے والا ہے۔ ملک منصب شناب اور گجناب کا وارث۔ 1947 سے شروع ہونے والی دشمنی کا موجودہ امینوہ، جس کے دکھ اور غم سے اظہار یکجہتی میں شاہ پور کے مرد و زن گزشتہ بارہ سال سے سیاہ ماتمی لباس پہنتے آ رہے تھے۔
مرشد کو بخوبی اندازہ تھا کہ اب یہاں مزید نئی باتیں سامنے آئیں گی۔کئی انکشافات متوقع تھے۔ برسوں پرانی اس زہر ناک دشمنی کے اب تک پوشیدہ رہنے والے حصے آشکار ہونے جارہے تھے گمشدہ کڑیاں ملنے والی تھیں!
ملک منصب کی حویلی بستی کے بالکل آخری کنارے پر واقع تھی۔ حویلی سے آگے اور بستی کے اطراف میں سر سبز کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ دور تک حویلی کی عقبی طرف بکھرے کھیتوں سے آگے دریا تھا۔ دریائے چناب جسے قریب ڈیڑھ ماہ پہلے ایک سیاہ رات کے اندھیرے میں انہوں نے پار کیا تھا۔ حویلی سے اس کی دوری کوئی چار پانچ فرلانگ کے لگ بھگ رہی ہوگی۔
ایمبولینس جیسے ہی حویلی کے دروازے سے اندر داخل ہوئی مرشد قدرے چونک پڑا۔ حویلی کی اصل عمارت سامنے کے رخ تھی جب کہ ایمبولینس حویلی کے احاطے میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ کو مڑی تھی۔ مرشد کے چونکنے کی وجہ حویلی کی اصل عمارت تھی۔ عمارت کے اوپری حصے کی ایک نامکمل ادھوری سی جھلک !
اس نے بے اختیار بازو�¿ں پر زور ڈالتے ہوئے گردن موڑ کر با طور خاص کھڑکی سے اس طرف دیکھا۔ چند گھڑ سوار ، چند گاڑیاں ، کچھ مضطرب سے افراد اور ان سب سے آگے۔پرے حویلی کی تین منزلہ رہائشی عمارت۔ پہلے اسے تیسری منزل کا صرف ایک برجی نما حصہ دکھائی دیا تھا۔ اب ایمبولینس کی کھڑکی سے پوری عمارت پر نظر پڑی اور اس پہلی ہی نظر میں ایک ماتمی سی پراسراریت اس کے ذہن میں سرائیت کرتی چلی گئی !
سکھ طرز تعمیرکی حامل وہ تین منزلہ عمارت کسی پراسرار نوحے کا تصویری بیان معلوم ہوتی تھی۔ ایسا خاموش بیان جو خود بخود ذہن میں کسی گزرے ہوئے الم ناک سانحے کا احساس جگاتا ہو جسے دیکھ کرکسی جانکاہ واقعے یا حادثے کا خیال آتا ہو
قریب پانچ ایکڑ کے رقبے پر موجود یہ حویلی اور اس کی رہائشی عمارت یقیناً کسی دور میں انتہائی پرشکوہ رہی ہوگی لیکن اس وقت اس کی حالت انتہائی افسوس ناک دکھائی دیتی تھی۔ صاف پتا چلتا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں سے اس عمارت کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی جارہی ہے۔ رنگ و روغن یا چونا سفیدی تو دور، دیواروں پر سے بیش تر سیمنٹ اتر چکا تھا۔ اینٹوں کے بیچ دراڑیں نمودار ہوچکی تھیں۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ کھڑکیوں دروازوں کی حالت بھی انتہائی خستہ تھی۔ اس خستہ حالی کے باوجود یہ عمارت اپنی جگہ پورے غرورسے کھڑی تھی اور اب بھی خاصی مضبوط دکھائی دیتی تھی البتہ اس عمارت کی شمالی طرف کا بغلی حصہ بہت بری حالت میں تھا۔
یہ حصہ مکمل طور پر منہدم ہوچکا تھااوراس کا ملبہ شاید برسوں سے جوں کا توں پڑا تھا۔ اس کے علاوہ اسی طرف سے عمارت کا ایک بڑا اور پیش تر حصہ ایسا تھا جو کالک زدہ دکھائی دیتا تھا۔ یہ کالک نیچے سے اوپر تیسری منزل تک پھیلی ہوئی تھی۔ کسی تاریک آسیبی سائے کی طرحکھڑکیوںکے خالی سیاہ روزنوں میں سے عمارت کی اندرونی نحوست زدہ سی ویرانی جھانکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔یقیناً ماضی میں عمارت کا یہ بغلی حصہ شدید قسم کی آتش زدگی کا شکار ہوا تھا۔ ایسی شدید آتش زدگی کا جس نے تینوں منزلوں کو اپنی فنا خیز لپیٹ میں لیا اور سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا۔ اس طرف کی عمارت کے کسی جھروکے، کھڑکی یا روشن دان میں لکڑی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ برسوں گزر چکنے کے باوجود در و دیوار پر اس بھیانک سانحے کی تاریک پرچھائیاں اب بھی موجود تھیں۔ حویلی کا یہ حصہ مکمل طور پر خالی اجاڑ اور ویران معلوم ہوتا تھا۔
احاطے کی بغلی دیوار کے ساتھ چند کمروں پر مشتمل چھوٹا سا ہسپتال تھا جو شاید کچھ ہی عرصہ پہلے بنایا گیا تھا۔ اس کی عمارت حالیہ طرز تعمیر کی حامل تھی۔ ایمبولینس ٹھیک ہسپتال کے دروازے کے سامنے پہنچ کر رک گئی۔ لالا رستم اور دلاور کے سہارے ایمبولینس سے اترتے وقت بھی مرشد نے حویلی کے اس کالک زدہ حصے کی طرف بغور دیکھا۔ اس کے ذہن میں اب تک کی سنی ہوئی باتیں گردش کرنے لگیں۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے ملک منصب سے اظہار یکجہتی میں صرف یہاں کے مرد و زن ہی سیاہ پوش نہیں ہوئے، ملک کی حویلی بھی یہ سیاہ پوشی اختیار کیے ہوئے تھی!!!
٭ ٭ ٭
مرشد کے زخموں کی نئے سرے سے ڈریسنگ کی گئی۔ اسی دوران میں ملک منصب کی طرف سے ارباب، دو پختہ عمر تجربہ کار وکیلوں کو لے کر پہنچ آیا۔ ان کے پاس ایک فائل میں چند کاغذات تھے جو مرشد کے سامنے رکھ دیئے گئے۔ یہ ان ایف آئی آروں کی کاپیاں تھیں جو مختلف شہروں کے پولیس اسٹیشنوں میں اس کے خلاف درج ہوئی تھیں۔
”ابتدائی اطلاعی رپورٹ نسبت جرم قابل دست درازی پولیس فیصل آباد بجرم 302/384
عنوان درخواست برائے اندراج مقدمہ برخلاف ملزم مرشد ولد نامعلوم قوم نامعلوم سکنہ ہیرا منڈی لاہور“
مرشد نے ایک نظر دیکھتے ہی ناگواری سے فائل ایک طرف رکھ دی۔ان وکیلوں نے حجاب اور مرشد دونوں کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ گھنٹا مغز خوری کی اہم اہم واقعات سنے۔ مختلف سوالات کیے اور ساتھ یہ سمجھایا کہ انہیں کس طرح اور کیا بیان دینا ہے۔
ڈپٹی کا اغوا، لاہور تھانہ ٹبی، ڈسکہ میں ایم پی اے کے سالے بیوی کا قتل، فیصل آباد بس اڈے پر پولیس سے مڈبھیڑ، چناب کے بند پر پولیس مقابلہ، چوہدری فرزند کے خاص کارندے حکم داد کا پر تشدد قتل، بھٹہ پور کا باغ اور بستی چاہ جام والا سب ہی واقعات اور وقوعوں کے متعلق، سننے کے بعد ان وکیلوں نے مرشد کو کئی ایک نکتہ رس مشوروں سے نوازا جو آگے چل کر قانونی جنگ میں اس کے بچاو�¿، اس کے دفاع کے حوالے سے بہت کام آنے والے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد سب کے بیان قلم بند ہونا شروع ہوئے ۔اس وقت وہاں ارباب، رستم اور بذات خود ڈی سی صاحب کے علاوہ ایک مجسٹریٹ اور چند دیگر افراد بھی موجود تھے۔ مرشد کو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب خصوصی برتاو�¿ بڑے شاہ صاحب کی ہدایات پر کیا جا رہا ہے۔
مرشد سے ولدیت پوچھی گئی تو اس کی نظروں کے سامنے کچھ ہی دیر پہلے دیکھی گئی ایف آئی آر کی کاپی گزر گئی۔
"آپ بھی نامعلوم ہی لکھ لیجئے” اس نے سپاٹ انداز میں کہا تھا۔
"کیا تمہیں اپنے والد کا نام نہیں معلوم؟” یہ مجسٹریٹ صاحب تھے۔
مرشد بولا۔ ” یہ خانہ خالی ہی رہنے دیں اور اگر لکھنا ہی ہے تو پھر باپ کی جگہ میری ماں کا نام لکھ لیں حسن آرا بی بی! قوم کا خانہ خالی چھوڑ دیں یا پھر جو دل چاہے لکھ لیں۔
کسی نے کوئی اعتراض اٹھایا نہ اس کے ساتھ بحث کی۔ اس نے جو بیان دیا وہ عین وکیلوں کی مشاورت کے مطابق تھا۔ یہ الگ بات کہ وہ خود اس سب سے متفق نہیں تھا۔ اس کے دل و دماغ میں کچھ اور چل رہا تھا اور ارادے بھی کچھ اور ہی تھے۔حجاب کا بیان مرشد کے بیان کی تائید و توثیق کرتا تھا۔ حجاب کے تفصیلی بیان کے بعد اب تک کی ساری کہانی ہی تبدیل ہو گئی تھی۔ اس کے بیان کی روشنی میں چوہدری فرزند، ملنگی، اور ڈی ایس پی اصغر علی اعوان بدترین مجرم ثابت ہوتے تھے، جب کہ مرشد اور اس کے ساتھی خدا ترس، ہمدرد اور معاشرے کے بہترین انسان !
یہ سارے معاملات تقریباً ڈھائی تین گھنٹے تک جاری رہے۔ حسن آرا اس دوران میں وہاں سے غائب رہی وہ ساتھ والے ایک دوسرے کمرے میں تنہا بیٹھی اپنے گھٹنے اور پنڈلیاں دبا رہی تھی۔
اسے یہاں آئے ہوئے کم و بیش پورا مہینہ ہو گیا تھا اور اس سارے مہینے وہ حویلی کے زنان خانے میں گوشہ نشین رہی تھی۔ ایک کمرے تک محدود اپنی اس گوشہ نشینی کی وجہ اس نے ملک منصب اور ارباب قیصرانی کو بتائی تھی اپنی سماجی حیثیت خاندانی پس منظر وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اسے یہاں دیکھےاس کے متعلق جانے۔
آج پھر اس نے ان دونوں کے سامنے یہ درخواست گزاری تھی اور باقاعدہ ہاتھ جوڑتے ہوئے خصوصی انداز میں کہا تھا کہ اس کے اس کی حیثیت کے متعلق یہاں کسی کو کچھ معلوم نا ہو۔ خاص کر حجاب سرکار سے تعلق رکھنی والی کسی ہستی کو تو ہرگز بھی نہیں اس حوالے سے وہ از حد پریشان اور فکر مند تھی۔ ملک منصب نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر اس کی اس فکر مندی کو سراہا، تسلیم کیا اور یقین دلایا کہ اس بات کا خیال رکھا جائے گا پھر بھی پھر بھی ایک گھبراہٹ آمیز پریشانی مسلسل اس کے ذہن میں سرلا رہی تھی۔ اس پریشانی کے علاوہ ایک پریشانی اور تھی اسے ایک پریشانی ایک گہری بے چینی و بے قراری جو گزشتہ ایک ماہ سے اسے مسلسل لاحق تھی۔
یہ شدید بے قراری اس وقت سے اس کے لہو میں شامل تھی جس لمحے اس نے بازار حسن کے اس کوٹھے سے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اپنی ستائیس سالہ ریاضت گاہ سے دور ہونے کا سوچا تھا۔ ایک ماں کی ممتا عمر بھر کی عبادت کو فراموش کرتے ہوئے سینکڑوں میل دور یہاں تک بے اختیار کھنچی چلی آئی تھی۔ ممتا کے ساتھ اس کی ریاضتوں کا بھی ایک حصہ تھا یہ سفریہ ممتا اور خود مرشد بھی۔
اس کا دھیان ہمیشہ کے لیے جس ہستی کا اسیر تھا۔ سانسوں کی آمدورفت جس کے نام کی تسبیح ہو چکی تھی۔ مرشد اسی کی نشانی، اسی کی امانت تھا اور اس نے پورے خلوص و دیانت کے ساتھ اس ہستی کو زبان دی تھی کہ میں آپ کی محبت کو ہمیشہ کسی مقدس امانت کی طرح سنبھال کر رکھوں گی۔ مرشد اسی لازوال محبت کی نشانی تھا۔ اس کے پاس ایک غیر معمولی ہستی کی امانت تھا اور وہ پچھلے ستائیس سال سے یہ امانت، اس کے اصل وارث کو سونپ دینے کے لیے انتظار جیسی جاں خور ذمہ داری نبھاتی آرہی تھی۔
وہ بیٹے کی تڑپ میں بے اختیار ہو کر چلی تو آئی تھی لیکن آدھی وہیں اپنے کمرے میں ہی رہ گئی تھی۔ دھیا ہر وقت ادھر ہی لگا رہتا تھا۔ یہ خیال بار بار کسی طوفانی شدت سے اٹھتا کہ وہ جو ستائیس سال سے نہیں پلٹا تھا وہ ان ہی دنوں پہنچے گا اسے ان نہی دنوں پہنچنا تھا۔ اس کی ریاضتیں یوں ہی ضائع جانی تھیں!
اس کا یہ ذہنی و جذباتی خلل زیادہ ہی بڑھنے لگتا تو وہ خود شعوری طور پر ایک اور پہلو کو سوچنے لگتی ایک بہت پرانی خبر کو اور اس خبر کے پس منظر کو آج وہ جس شہر میں بیٹھی تھی ،آج سے قریباً ستائیس سال پہلے اسی شہر کی ایک افسوس ناک خبر اس کی نظروں سے گزری اخبار کا وہ ٹکڑا جس پر حادثے کی خبر شائع ہوئی تھی۔ اقبال بانو کہیں سے اٹھا کر لائی تھی۔ خبر میں نواب اسفندیار اور اس تھی۔ وہ خبر میر ظفر اللہ کی حادثاتی موت کے متعلق تھی۔ اس خبر سے میر ظفراللہ اور میر ارشد اللہ کا اس شہر سے تعلق ثابت ہوتا تھا۔
کی میر ظفراللہ کے ساتھ دیرینہ رنجشں کا تذکرہ موجود تھا۔ تب اقبال بانو نے اس سے بہتیرا کہا تھا کہ کسی کو مظفر گڑھ روانہ کرتے ہیں میر ارشد اللہ کے متعلق، ان کی خیر و عافیت کے متعلق پتا کرواتے ہیں۔ اقبال بانو بذات خود بھی یہاں تک آنے پر آمادہ تھی مگر حسن آرا نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا !
میر ارشد اللہ کوئی معمولی شخصیت نہ تھے وہ، ان کے والد میر ظفراللہ اور ان کا گھرانا ، ان کا خاندان اگر ان کے متعلق جاننے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تو کوئی ایک نہیں بلکہ کئی ایک رستے اور ذریعے دستیاب ہوسکتے تھے۔محض تھوڑی سی تگ و دو کرنے کی ضرورت تھی اور اسی تگ و دو کو حسن آرا نے حرام خیال کیا تھا ایسی کسی بھی کوشش کو اس نے حد سے تجاوز جانا تھا۔ بے ادبی اور گستاخی سمجھا تھا۔ ساتھ ہی کچھ ایسے جان کاہ اندیشے تھے جنہوں نے اس کے دل و دماغ کو یوں جکڑا تھا کہ اس نے میر صاحب کی کھوج خبر نکالنے، تلاشنے کے خیال یا خواہش کو دل و دماغ میں جگہ ہی نہیں بنانے دی تھی گویا اعصاب کسی انہونے انکشاف سے ہراساں تھے۔ اسے تو بس انتظار کرنا تھا۔اپنے مقام اور اپنی حد حدود میں رہتے ہوئے ادب و آداب کے تقاضوں کی پاس داری کرتے ہوئے اور وہ یہ پاس داری پچھلے ستائیس سال سے کرتی آرہی تھی۔
اب ایک ماہ سے وہ اس شہر میں موجود تھی دریائے چناب بھی اس نے دیکھا تھا ستائیس سال پہلے جب مرشد اس کی کوکھ میں تھا میر صاحب اس کے پہلو میں نشست انداز تھے،تب تب اسی دریا کے پل پر میر صاحب کے والد کی کار کو حادثہ پیش آیا تھا۔ ان کی کار پل پر سے اس دریا میں گری تھی اور موقع پر ہی ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔
خبر کے مطابق وہ یہاں موجود اپنے کسی فارم ہاو�¿س سے واپس لاہور جارہے تھے جب یہ ناگہانی حادثہ پیش آیا۔ یعنی یہاںاس شہر میں ان کی اچھی خاصی زمین جائداد موجود تھی۔ یقینی طور پر میر ارشد اللہ بھی اس شہر میں رہے تھے اور اور یہ بھی عین ممکنات میں سے تھا کہ وہ اب بھی یہیں رہتے ہوں۔ اب ان دنوں بھی یہیں موجود ہوں۔ یہیں اس شہر میں۔ اس کے ارد گرد، آس پاس ہی کہیں !
اس ایک ماہ میں کئی بار انتہائی شدت سے اس کے دل میں آئی تھی کہ وہ میر صاحب کے متعلق جان کاری حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ کسی سے یوں ہی سرسری سے انداز میں ان کے متعلق پوچھ کر دیکھے۔ کسی ملازم ملازمہ سے یا ارباب قیصرانی سے یا یا براہ راست ملک منصب سے بہت بار دل چاہا تھا مگر وہ حوصلہ نہیں کر پائی تھی۔ ایسے میں بھلا وہ ملک کوکیا بتاتی کہ وہ ان کے متعلق کیوں پوچھ رہی ہے اور انہیں کیسے جانتی ہے ؟
ملک کیا ،کوئی بھی ہوتا وہ جس سے بھی پوچھتی ، جس کے سامنے بھی ذکر کرتی، اس کے ذہنی منکر و نکیروں کو کیا جواز فراہم کرتی نہیں یہ درست نہیں تھا۔ اس کی ایسی کوئی بھی حرکت یا بات میر صاحب کی رسوائی کا بہانہ بن سکتی تھی۔ یہ تو ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے والی حرکت ہو جاتی اور حسن آرا ایسا کچھ کیسے گوارا کرسکتی تھی بھلا؟
اس کا تو خمیر ہی شاید ادب و احترام اور صبر و رضا جیسی کیفیات سے ترکیب پایا تھا۔ اس کے سینے میں دھڑکتے جذبے اور رگوں میں بہتا عشق اسے ایسی کسی بھی بات کی اجازت ہی نہیں دیتا تھا۔ یہ تو اس کی عمر بھر کی ریاضتوں کی نفی تھی۔ اس کے یقین و اعتقاد کی موت تھی۔ نہیںاسے ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی تھی کسی سے کچھ نہیں کہنا تھا، کچھ نہیں پوچھنا تھا بلکہ اب اسے یہاں سے واپس اپنی دنیا میں لوٹ جانا چاہیے تھا۔ مرشد کو دیکھ لیا ، مل لیا تھا۔ لڑائی انجام کو پہنچ چکی تھی۔ ارباب، منصب کے علاوہ رستم لہوری بھی اب مرشد کے پاس موجود تھا۔ خطرے کی کوئی بات نہیں رہی تھی۔ اس طرف سے تو دل کو تسلی ہو چکی تھی۔
اب یہاں حجاب سرکار کے عزیز رشتے دار اکھٹے ہونے والے تھے۔ ان کے پھوپھا بھی کسی وقت میں بس پہنچنے والے تھے۔ شریک حیات پہلے سے موجود تھے۔ ایسے میں اسے جلد از جلد اپنی نحوست سمیٹ کر یہاں سے چلے ہی جانا چاہیے تھا۔ اس سے پہلے کہ حجاب سرکار کا اس کی ذات سے کوئی تعلق واسطہ ثابت ہوتا۔ کوئی جان پہچان ظاہر ہوتی اور پھر اس کی ذات سے اس کے ماضی اور اس کی سماجی حیثیت کی طرف سفر کرتی اور حجاب سرکار کے لیے نئے مسائل ، نئی اذیتوں کا باعث بنتی، اسے چپ چاپ دامن سمیٹ کر یہاں سے واپس جانا تھا ۔جلد از جلد !
٭ ٭٭
بیان ریکارڈ کرانے کے دوران میں ہی مرشد کے آدھے سر اور بائیں آنکھ میں شدید تکلیف شروع ہو گئی۔دو ڈاکٹرز نے فوراََ اسے دیکھا۔ آنکھوں میں کوئی ڈراپس ڈالنے کے علاوہ دو انجیکشن بھی لگائے گئے۔ شاید ان میں سے کسی انجیکشن ہی کا کمال تھا کہ مرشد کو ٹھیک سے سمجھ بھی نہیں آئی اور دس منٹ کے اندر اندر وہ سو بھی گیا۔
دوبارہ اس کی آنکھ مغرب کے بعد کھلی۔ اس کے قریب اس وقت لالا دلاور اور لالا رستم موجود تھے۔رستم ہی نے اسے بتایا کہ حسن آرا ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے اٹھ کر نماز پڑھنے گئی ہے۔حجاب کے پھوپھا سید نظام الدین کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ ابھی تک نہیں پہنچ سکے اور شاید آج پہنچ بھی نا پائیں۔ وجہ یہ پتا چلی کہ راستے میں کہیں پہاڑوں سے لڑھکنے گرنے والی چٹانوں کے باعث بلوچستان اورپنجاب کا درمیانی راستا مسدود ہو چکا ہے۔ توقع تھی کہ صبح سے پہلے راستہ ہیں کھلے گااور اسی باعث بڑے شاہ صاحب بھی کل دوپہر سے پہلے نہیں پہنچ سکیں گے، البتہ لاہور سے شاہ صاحب کے بڑے بھائی ڈھائی تین گھنٹے پہلے یہاں پہنچے تھے اور اس وقت حویلی ہی میں موجود تھے۔ حجاب بی بی بھی ان کے ساتھ حویلی ہی میں تھی۔رستم نے بتایا کہ کچھ دیر پہلے وہ مرشد سے ملنے کے لیے بھی آئے تھے مگر وہ اس وقت سو رہا تھا۔
دلاور کی زبانی یہ پتا چلا کہ ساون اور خنجر وغیرہ کے بھی طے شدہ بیانات قلم بند ہو چکے ہیں۔وہ دونوں ٹھیک ٹھاک اور اپنے ہوش و حواس میں تھے۔ ان کے علاوہ فیروزہ اور زریون کے بیان بھی ریکارڈ ہوئے تھے۔ فیروزہ کی چوٹیں سنگین تھیں۔ زریون کو چند دیگر چوٹوں کے علاوہ بائیں بازومیں فریکچر آیا تھا اور اس وقت وہ بھی یہیں حویلی ہی میں موجود تھا۔
چوہدری فرزند اور ملنگی روپوش ہو چکے تھے۔ڈپٹی اعوان کے خلاف انکوائری کے احکامات نکل چکے تھے اور چوہدری اکبر کو فی الوقت اسی شہر میں موجود رہنے کا پابند ٹھہرا دیا گیا تھا۔ اب وہ نواب اسفند کی حویلی میں بیٹھا تھا۔ ان ہی باتوں کے دوران میںرستم کی زبانی مرشد کو ایک یہ اچھی خبر سننے کو ملی کہ چناب والے پولیس مقابلے میں سجا بلوچ ہلاک نہیں ہوا۔دونوں طرف سے سترہ ہلاکتیں ہوئی تھیں، جن میں سجے کے پانچ ساتھی ضرور شامل تھے البتہ خود سجا بلوچ اپنے سابقہ ریکارڈ کے مطابق پراسرار طور پر غائب ہوگیا تھا!
اس خبر نے مرشد کے دل کو تھوڑا قرار پہنچایا۔اس کی آنکھوں کے سامنے سجے کا مسکراتا چہرہ آ ٹھہرا اور کانوں میں اس کا ٹھوس لہجہ گونج گیا۔
”مرشد استاد! تم ابھی سجے کو ٹھیک سے جانتے نہیں تمہیں لگتا ہے کہ میرے ساتھ یہاں صرف پانچ بندے ہیںاور بس ایسا نہیں ہے میری جان! کچھ فرشتے ابھی پردے میں ہیں“
جس وقت سجا یہ سب بول رہا تھا، اس وقت جعفر بھی اس کے قریب ہی کھڑا تھا۔ جعفر کا خیال آتے ہی مرشد کے دل پر گھونسہ سا پڑا ڈھائی تین ماہ پہلے تھانہ ٹبی میں جب ملنگی نے شبیر اور مراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا تھا، جعفر وہاں سے کسی نا کسی طرح زندہ بچ نکلا تھا۔ وہاں سے زندہ نکل آنے والا یہاں پہنچ کر مارا گیا تھا۔ چوہدری فرزند نے اس کے اور اکو کے نیم مردہ جسموں پر پورا برسٹ خرچ کیا تھا۔ سینے میں کرب کی لہر بل کھاکر رہ گئی۔
حسن آرا نماز پڑھ کر واپس آئی تو رستم اور دلاور اٹھ کر باہر نکل گئے۔ لاہور اور لاہور والوں کے حال احوال کے بعد حسن آرا نے اپنی واپسی کے فیصلے کا بتایا۔
”حجاب سرکار کے پھوپھا اب چوہدریوں کو خود ہی لگام ڈال لیں گے۔ منصب اور نظام الدین سرکار تم لوگوںکی بھی پوری پوری مدد کر رہے ہیں اللہ نے چاہا تو بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا میرے دل کو تسلی ہے اب، اس لیے میں نے سوچا ہے کہ میں صبح واپس چلی جاﺅں۔“
”واپس کدھر؟“ مرشد کے ورم زدہ ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔
”لاہوراپنے گھر اور کدھر!“
”ابھی حالات مناسب نہیں ہیں اماں! دوچار دن آرام کریں ابھی“
”ایک مہینے سے آرام ہی تو کر رہی ہوں۔ اب حجاب سرکار کے خاندان والے یہاں جمع ہو رہے ہیں۔ مجھے اب یہاں نہیں رکنا چاہیےتم بھی خیال رکھنا پتر! اپنا بیان یاد رکھنا، کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہونی چاہیے جو حجاب سرکار کی اگلی زندگی میں کسی گرہ، کسی مشکل کی وجہ بنے اور تمہاری اب تک کی ساری تکلیفیں، ساری قربانیاں ضائع ہو جائیں۔ تم تم سمجھ رہے ہو نا میری بات؟“
”سمجھ رہا ہوں اماں!“ مرشد نے نظر اس کے چہرے سے ہٹا کر چھت پر ٹکا دی۔ ” آپ بالکل بے فکر رہیں کل نہیں تو پرسوں، سرکار نے ویسے ہی یہاں سے روانہ ہو جانا ہے وہ یہاں بس آج کل کی مہمان ہیں۔ ان کے ساتھ ہی ان کے سارے خاندان والے بھی چلے جائیں گے، پھر وہ کہاں اور ہم کہاںیہ ایک دو دن آپ بھی یہیں ، ایک طرف رہ کر گزار لیںبعد میں پھر تسلی سے دیکھ سوچ لینا واپسی کا۔“ ورم کے باعث اس کی ایک آنکھ بند تھی اور دوسری آنکھ کے سامنے حجاب کی صورت ٹھہری ہوئی تھی۔ سماعت میں اس کی آواز گونجی۔
”وہ روگ ، روگ نہیں اللہ کی مہربانی ہے خالہ کی ضد پوری کر دیں اپنے بابا سائیں کوڈھونڈ کر ان کے سامنے لے جا کھڑا کریں!“ لاشعوری طور پر اس کی نظر دوبارہ حسن آرا کے چہرے پر اتر آئی۔
”میں نے دیکھ سوچ لیاہے۔“ وہ بول رہی تھی۔” تمہاری فکر نے رہنے نا دیا تو چلی آئی تھی۔ مہینے سے زیادہ ہو چلا یہاں بیٹھے۔ میری منصب سے بات ہوئی ہے۔ چوہدری اور ان کے سارے کتے دم دبا کر بھاگ چکے۔ جلد ہی تمہاری ضمانت بھی ہو جائے گی منصب نے یقین دلایا ہے مجھے۔بعد میں“
”اماں! کس بات کی اتنی بے چینی ہے آپ کو؟“ مرشد کے اس اچانک سوال پر وہ اپنی بات درمیان ہی میں بھو گئی۔ ”کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہیں کیوں نہیں سمجھ جاتیں آپ! کیوں نہیں مان لیتیں کہ آپ کا یہ انتظار لا حاصل ہے۔ پاگل پن ہے۔ ستائیس سال ستائیس سال گزر چکے اماں! بس کریں اب جاگ جائیں۔ اس اس آسیبی خواب سے باہر آجائیں کہ وہ شخص لوٹے گا واپس آئے گا۔“ نا چاہتے ہوئے بھی بلا ارادا ہی اس کے لہجے میں تلخی آمیز جھنجھلاہٹ در آئی۔ حسن آرا کے چہرے پر فوراََ ایک پرچھائیں سی لہرا گئی۔
وہ بڑبڑائی۔”انہوں نے خود کہا تھا۔“
”جھوٹ کہا تھا۔ اپنی آدھی زندگی آپ اس جھوٹ کو کھلا چکیں۔ مزید کتنے سال خرچ ہوں گے جھوٹ کے جھوٹ ثابت ہونے میں؟“
”وہ جھوٹے نہیں تھے۔“ حسن آرا کی آنکھیں جھلملا اٹھیں۔ چہرے پر یکایک صدیوں کا اضمحلال اتر آیا۔”انہوں نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔میں جانتی ہوںمجھے پتا ہے مگر میں کسی دوسرے کو نہیں سمجھا سکتی۔ اپنے اپنے بیٹے کو بھی نہیں شاید میرے علاوہ اور کوئی سمجھ بھی نہیں سکتا یہ بات۔“ اس کی آواز بھرا گئی۔ مرشد ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ اس نے بات شروع کسی اور نیت سے کی تھی مگربرس ہا برس سے اندر ہی اندر پلتی آئی تلخی نے اپنا اظہار اسی گزشتہ رنگ میں کیا تھا۔ حسن آرا بول رہی تھی۔
”اور اور اگر کسی کو لگتا ہے کہ یہ صرف میرا پاگل پن ہے۔ کوئی آسیبی خواب ہے تو خواب ہی سہیپاگل پن ہی سہی۔ ہاں! میں پاگل ہوںآسیب زدہ ہوں۔ساری زندگی گزر چکی، جو بچے کھچے دن ہیں وہ بھی میں اسی پاگل پن کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں۔“ اس کی آواز بھرا گئی۔ مرشد کا دل جیسے مٹھی میں آگیا۔ اس کا جی چاہا فوراََ وضاحت کرے کہ میرامقصد دراصل کچھ اور تھا میں تو کچھ اور کہنا چاہ رہا تھامیں آپ کے میر صاحب کے متعلق بات کرنا چاہتا تھا کچھ پوچھنا چاہتا تھا ان کے خاندان اور گھر بار کے متعلقتمام معلومہ تفصیل تا کہ اس کی روشنی میں وہ حجاب سرکار کے فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے میر ارشداللہ کو تلاش کر سکے۔ اس تک پہنچ سکے لیکن وہ بس چاہ کر رہ گیا۔ اندر سے جیسے کسی نے اس کا گلا دبوچ لیا تھا۔ وہی ازلی تلخی اور چڑچڑاہٹاس کی زبان ہی جیسے پتھرا کر رہ گئی تھی! دوسرا شاید اسے فوراََ یہ خیال آگیا تھا کہ موجودہ حالات میں یہ سب قبل از وقت کا بکھیڑا ہے۔ اس نے زبان سے تو کچھ نہیں کہا البتہ اپنا ہاتھ حسن آرا کے ہاتھ پر رکھ دیا۔تسلی اور ڈھارس دینے والے انداز میں۔
کچھ ہی دیر میں حسن آرا کا موڈ بحال ہو گیا۔وہ نزہت بیگم، عشرت اور سندس کی باتیں کرنے لگی۔ان کے بعد مرشد کی شادی کا ذکر لے بیٹھی۔اس کا خیال تھا کہ چار چھ ماہ ہی میںیہ سارے قانونی جھگڑے بھی ختم ہوجائیں گے اور وہ مرشد کی شادی کر دے گی۔اس سلسلے میں شازیہ اور فیروزہ کے علاوہ اور بھی کتنے سارے نام گنے تھے اس نے۔ وہ بولتی رہی اور مرشد مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ بس ہوں ،ہاں کرتا رہا۔
آدھ پون گھنٹے بعد رستم اور دلاور واپس آئے تو ایک بار پھر بات حالات حاضرہ پر آگئی۔ دو گھنٹے بعد مرشد کو سوپ پلایا گیا۔ ڈاکٹرز نے دوبارہ اسے چیک کیا۔ نئی ڈرپ اور انجیکشنز دیے گئے اور کچھ ہی دیر بعد وہ ایک بار پھر نیند کی آغوش میں جا گرا۔ خود مرشد کے اندازے کچھ بھی رہے ہوں ڈاکٹرز کے مطابق اس کے لیے مکمل سکون اور بھرپور نیند حددرجہ ضروری تھی۔
خواب آور دوا کے زیرِ اثر نصیب ہونے والے گہری نیند کے یہ وقفے اسے جسمانی تکلیفوں سے تو غافل کرتے ہی تھے ساتھ ہی ذہن زخماتی سوچوں اور خیالوں سے بھی بہت دور لے جاتے تھےساری جذباتی اذیتیں بھی کہیں سرد تاریکیوں میں جا سوتی تھیں۔ صبح سے اب تک کا یہ تیسرا یا چوتھا وقفہ تھا جو اس کے حواسوں پر اترا تھا۔داکٹرز کا کہنا تھا کہ وہ اب صبح ہی جاگے گا لیکن اس کی نیند اذانوں سے تھوڑا پہلے ہی ٹوٹ گئی۔ نیند ٹوٹنے کی وجہ دھماکے کی وہ آواز تھی جو ایک بار تو در و دیوار کو لرزا گئی تھی۔ دھماکا کہیں قریب ہی ہوا تھا۔ برابر والے بیڈ پر سویا ہوا رستم لہوری بھی ہڑبڑا کر اٹھا تھا۔ مرشد کو ایک ہراساں صورت ڈاکٹر بھی اپنے قریب ہی دکھائی دیا۔ وہ خوف بھری نظروں سے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دروازے کے باہر کچھ افراتفری اور شور شرابا تھا۔ ایک فائر ہوا اوپر تلے دو تین برسٹ چلائے گئے اور ایک سیاہ پوش بلوچ داخلی دروازے سے ٹکراتا ہوا اندر آ گرا۔کم از کم چھ گولیاں اس کے سینے سے آر پار ہو گزری تھیں۔ایک دو گولیاں دیوار پر لگیںاور ایک دو درمیانی کمرے کی کھڑکیوں کے شیشے چکنا چورکر گئیں۔
مرشد نے بے اختیار اٹھنا چاہا مگر سینے پر آجمنے والے بھاری ہاتھ نے اسے حرکت نہیں کرنے دی۔
” نئیں شہزادے! بے فکر پڑا رہ۔ تیرا لالا کھڑا ہے یہاں۔“مرشد نے دیکھا ، رستم کے ہاتھ میں ماﺅزر تھا۔ اس کے سفید بال بے ترتیب تھے اور موٹی سرخ آنکھیں دروازے کی طرف مرتکز۔
”تم ! یہاں سے ہلنا نئیں۔“وہ اس کا سینا تھپتھپاتے ہوئے تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔مرشد نے بولنے کی کوشش کی تو اسے پتا چلا کہ اس کا حلق اور زبان بالکل خشک ہے۔اس نے گردن گھما کر دیکھا، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ چکے تھے۔جلے ہوئے بارود کی وہ ہی مخصوص سفاک بوکمرے کی فضا میں رینگتی آ رہی تھی۔فائرنگ کی آوازیں اور ہاہا کار تیزی سے دور ہوتی چلی گئی۔ غالباََ اب فائرنگ حویلی سے باہر نکل چکی تھی البتہ چار دیواری کے اندراس ہسپتال کے ارد گرد اور سامنے کے رخ کچھ ہلچل اور شور شرابا موجود تھا۔دروازے پر دو تین بلوچ دکھائی دیے، وہ فرش پر پڑے اپنے ساتھی کی طرف لپکے تھے۔ ڈاکٹر کے علاوہ بھی کسی کو آوازیں دے رہے تھے وہ، رستم لہوری باہر نکل چکا تھا!
اگلے چند ہی منٹ میں ہسپتال کے اندر رونق لگ گئی۔ تین چار زخمیوں کو لایا گیا تھا۔ بلوچوں کے علاوہ ان میں ایک با وردی کانسٹیبل بھی تھا۔ گھڑی بھر کو ارباب کی سوئی جاگی شکل بھی دکھائی دی۔وہ ایک نظر زخمیوں اور خصوصاََ مرشد کو دیکھنے آیا تھا۔اس کے جانے کے بعد رستم اور نصیر نے مرشد کو بتایا کہ دشمن کی طرف سے یہ ہسپتال پر حملے کی کوشش تھی جسے جری بلوچوں نے ناکام بنا دیا ہے۔ دشمن ہسپتال کو بم سے اڑا دینا چاہتے تھے، یعنی یہ حملہ مرشد پرکیا گیا تھا!
فائرنگ اب بھی جاری تھی مگر اب یہ حویلی سے دور، بستی کی مغربی سمت ہو رہی تھی۔ بقول رستم ، حملہ آوروں میں سے تین کی لاشیںہسپتال کے باہر پڑی تھیںاور باقی فرار ہونے کی کوشش کرنے والوں کی بھی موت یقینی تھی کیوں کہ ان دنوں پوری بستی ہی مسلح تھی اور سب چوہدریوں نوابوں کے لیے بھرے بپھرے ہوئے تھے۔حسن آرا کے متعلق مرشد کے استفسار پرلالا نصیر بولا۔
”وہ تو واپس پہنچ چکیلاہور۔“
”ہیں“مرشد کو یقین نہیں آیا۔ ”کب، کس وقت؟“
”رات دس بجے کے قریب روانہ ہوئی تھی ادھر سے۔“
”یہ کیا کہہ رہے ہو؟ ایسے کیسے!“ مرشد نے حیرت و بے یقینی سے رستم کی طرف دیکھا۔ ”لالا! یہ لالا نصیر کیا کہہ رہا ہے؟ اماں واپس چلی گئی ہیںایسے کیسے جانے دیا تم نے۔یہ یہ حالات اور اور تم نے اماںکو روانہ کر دیا!“
”وہ جانے کی ٹھان چکی تھی، کون روکتا پھر؟ “ رستم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ”زیادہ پریشان اور بے چین ہونے کی ضرورت نئیں ہے۔دلاور خود اپنی پلٹون لے کر ساتھ گیا ہے۔“
نصیر فوراََ لقمہ انداز ہوا۔ ”اور وہ لوگ تو خیر خیریت سے پہنچ بھی چکے۔ میں نے بتایا ہے رستم کو، آدھا گھنٹا پہلے ہی بات ہوئی ہے دلاور سے۔ سب ٹھیک ٹھاک ہے، مکمل امن امان۔“اماں کے چلے جانے کا سن کر مرشد کا دماغ ہی گھوم گیا تھا لیکن ساتھ ہی اس یقین کی ڈھارس مل گئی تھی کہ وہ خیر خیریت سے واپس پہنچ چکی ہے اور وہاں اس کی حفاظت کا بالکل معقول بندوبست بھی ہے۔ ابھی گزشتہ شام ہی وہ آیندہ صبح روانہ ہونے کاارادہ ظاہر کر رہی تھی اور پھر رات گزرنے کا انتظار بھی نہیں کر سکی تھی۔مرشد کو اندازا تھا کہ روانہ ہوتے وقت، واپسی کی سوچ کو لے کر حسن آرا کا رویہ کیسا جنونی اور آسیبی رہا ہو گا۔ وہ بے اختیار ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔
پندرہ بیس منٹ بعد ارباب چندنوجوانوں کے ہمراہ وہاں پہنچ آیا۔سب ہی کے چہرے اندرونی جوش سے تمتمائے ہوئے تھے۔مرشد ان غیور لوگوں کی حفاظت میں، ان کی پناہ میں تھااور دشمن کمال دیدہ دلیری سے یہاں حملہ آور ہو آیا تھا ویسے تو موجودہ حالات میں کسی اجنبی اور مشکوک فرد کا بستی کی حدود میںداخل ہونا مشکل تھا اس کے باوجودحویلی کے ہسپتال پرحملہ ہوگیا تھا، ایسا دوبارہ بھی ہو سکتا تھا۔ ہسپتال کی یہ مختصر سی عمارت حویلی کی اصل عمارت سے بالکل الگ تھلگ احاطے کے ایک کونے میں واقع تھی۔ مرشد کے تحفظ کو مزید یقینی بنانے کی غرض سے فیصلہ کیا گیا کہ مرشد کو حویلی کے اندر شفٹ کر دیا جائے۔ اس فوری فیصلے پر فوراََ ہی عمل درآمد بھی کر دیا گیا۔
صبح کی اذانیں ہو رہی تھیں جس وقت مرشد کو اس کالک زدہ حویلی کی بالائی منزل کے ایک ہال کمرے میں پہنچا دیا گیا۔اس کمرے کی چوڑائی بیس پچیس فٹ تھی تو لمبائی کم از کم بھی چالیس فٹ رہی ہو گی۔درمیان میں وقفے وقفے سے دو ستون تھے اور چاروں دیواروں میںسیاہ لکڑی کی بڑی بڑی کھڑکیاں تھیںجن کے آگے باریک ، سیاہ ریشمی پردے لہرا رہے تھے۔پورے کمرے میں ہوا کا فراواں گزر تھا۔ فرنیچر نا ہونے کے برابر تھا۔ایک صوفہ سیٹ، دو تین کرسیاں، ایک میز اور دو پلنگ جن میں سے ایک جہازی سائز کا پلنگ ، حویلی کے سامنے کے رخ موجود کشادہ کھڑکی کے برابر میں بچھا تھا ۔یہ مرشد کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔رستم، نصیر اور محمود الحسن نامی ڈاکٹر کے علاوہ باقی لوگ فوراََ ہی واپس چلے گئے۔
صبح کی سفیدی پھیلتے ہی انہیں چند مزید سنسنی خیز خبریںسننے کو ملیں۔اس حملے میں ایک بلوچ کے علاوہ دو پولیس والے بھی ہلاک ہوئے تھے۔حملہ آور ٹوٹل سات بندے تھے اور ساتوں پولیس کی وردیوں میں تھے، اسی لیے وہ با آسانی حویلی تک پہنچ آئے تھے۔ ان میں سے چار مارے جا چکے تھے اور باقی تینوں کو پکڑ لیا گیا تھا۔ان تینوں میںبھی ایک شدید زخمی تھا۔ یہ ساتوں ملنگی گروپ کے لوگ تھے اور سب سے زیادہ چونکانے والی خبر یہ تھی کہ اس گروپ کو ملنگی خود لیڈ کر رہا تھا۔ پکڑے جانے والے تین حملہ آوروں میں وہ خود بھی شامل تھا اور مبینہ طور پر وہ ہی شدید زخمی بھی تھا!
فی الوقت ان تینوں کو منظر سے غائب کردیا گیا تھا کیوں کہ نیچے مزید پولیس پ�±ہنچ چ�±کی تھی۔ مرشد کے کندھوں اور گردن کے پیچھے تکیے رکھے تھے۔ اِس کے دائیں ہاتھ پلنگ کے بلکل ساتھ چار فٹ اونچی اور چھ فٹ لمبی کھڑکی موجود تھی اور وہ با آسانی اس کھڑکی سے باہر سامنے کا سارا منظر دیکھ سکتا تھا۔ سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا البتہ ا�±جالا پوری طرح پھیل چکا تھا۔ حویلی کے احاطے کی سامنے والی طویل اور مضبوط دیوار کسی قلعے کی فصیل معلوم ہوتی تھی۔ بڑا بیرونی گیٹ چوپٹ کھلا تھا۔ دو پولیس جیپوں کے علاوہ ایک ایمبولنس بھی حویلی کے اندر گیٹ کے سامنے کھڑی تھی جس میں مرنے والوں کی لاشیں رکھی جارہی تھیں۔ بائیں کونے میں ہسپتال کی عمارت اور عمارت کی چھت دکھائی دی رہی تھی۔
اس عمارت کے سامنے ایک کار کا جلا ہوا ڈھانچہ پڑا تھا اور اِس کے قریب ہی اتنے فاصلے اور بلندی کے باوجود، مرشد کو خون کے بڑے بڑے دھبے بھی دکھائی دے گئے یقینی بات تھی کہ گھنٹہ پہلے ہونے والا بم دھماکا اسی کار میں ہوا تھا۔
ایسی بے خوفی پاگل پن تھا یہ ایک جنونی کارروائی تھی اور ایسے پاگل پن،ایسے جنون کی ملنگی ہی سے توقع کی جاسکتی تھی۔ مرشد نے اسکی موجودگی میںاس کے سامنے،اس کے جوڑی وال فوجی کو جہنم رسید کیا تھا۔ اس کی چلائی ہوئی ایک ہی گولی حتمی فیصلہ کر گئی تھی۔ فوجی کی شہہ رگ سے اس گولی کے بعد ایک سانس بھی نہیں اتر سکا تھا۔ فوجی کی موت نے اس پورے گروہ ہی کو پاگل کررکھا تھا اور اسی پاگل پن نے آج اس پورے گروہ کو خاتمے تک لاپہنچا یا تھا۔ پورے گروہ میں سے ملنگی کے علاوہ صرف دو بندے مزید زندہ تھے اور اطلاعات کے مطابق یقینی طور پر آج شام کا سورج دیکھنا ان کے نصیب میں نہیں تھا،یعنی ان کی موت کا فیصلہ بھی کیا جاچکا تھا۔
اس سارے منظر سے آگے حویلی کی طویل اور بلند دیوار کے ا�±س پار ایک وسیع منظر تھا۔ نظر دور ا�±فق تک جاتی تھی۔ اس حدِنظر تک پھیلے منظر میں مختلف نظارے بکھرے ہوئے تھے۔سب سے پہلے نظر کی زد میں بستی شاہ پور آتی تھی۔ کچے پکے،اونچے نیچے بے ترتیب گھروں پر مشتمل یہ بستی حویلی کے سامنے اور حویلی کے بائیں پہلو آباد تھی۔ تین چار سو گھر تو رہے ہوںگے ۔بہت سے صحنوں میں سے سفید نیلگوں دھواں ا�±ٹھ رہا تھا۔ چولہے مصروف تھے۔ بستی میں زندگی بیدار ہوچکی تھی۔ مرشد کو کئی چھتوں پر خالی چارپائیاں دکھائی دیں۔ کچھ چھتوں پر، الگ الگ جگہ کچھ افراد بھی دکھائی دیئے جو یقینی طور پر م�±سلح بھی تھے۔ بائیں طرف، بستی کے پار ایک مختصر سا قبرستان تھا۔ اسی قبرستان کے برابر سے وہ سولنگ لگی سڑک گزر رہی تھی جو بستی کے درمیان سے ہوتی ہوئی حویلی کے دروازے تک آتی تھی اور دوسری طرف تقریباً ڈیڑھ دو کلومیٹر بائیں ہاتھ آگے جا کر ملتان روڈ سے مل جاتی تھی۔اس کے علاوہ ایک کچی سڑک بھی تھی۔ یہ حویلی کے سامنے سے قدرے دائیں طرف کو نکلتی تھی اور سیدھی ہی کہیں گم ہوتی تھی۔
حویلی اور بستی کے اطراف میں دور دور تک ہریالی ہی ہریالی دکھائی دیتی تھی۔آبادی سے ہٹ کر باقی چاروں طرف کی زمین پر جیسے ہری رنگ کی چادر بچھا دی گئی تھی۔ یہ غالباً ساری کی ساری چاول کی فصل تھی جو آنکھوں کو ٹھنڈک آمیز ترواٹ پہنچا رہی تھی۔ دائیں طرف تقریباً ایک کلومیٹر دور آموں کے باغات دکھائی دیتے تھے اور اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اچھے خاصے رقبے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کھیتوں میں اکا دکا مکانوں کے علاوہ، اسے چند ایک مقامی لوگ اور کچھ جانور مویشی بھی دکھائی دیئے۔ یہ سارا منظر اور ماحول بلاشبہ خوب صورت اور سکون آور تھا لیکن مرشد پر یہ اثرانداز نہیں ہوسکا اِس کا اندر ب�±جھا ب�±جھا سا تھا اور دماغ جیسے سن تھا،منجمد تھا۔نصیر کو رستم نے کہیں بھیجا، ڈاکٹر غالباً واشروم گیا تھا۔ کمرے میں صرف رستم اور مرشد رہ گئے تو مرشد اس سے مخاطب ہوا۔
"لالا! حجاب سرکار کی کیا خبر ہے؟”
رستم اس کے برابر ہی پلنگ پر بیٹھا تھا۔
"ظاہر ہے کہ یہیں ہیں حویلی ہی میں..”
"وہ تو میں بھی جانتا ہوں اس کے علاوہ اس سے زیادہ کچھ؟”
"زنان خانے میں ہوں گی اور بلکل ٹھیک ٹھاک ہوں گی۔۔ دو تین معمولی نوعیت کی چوٹیں آئی تھیں ان کو تمہارے سامنے ہی تھیں۔”
"نہیں لالا! چوٹیں معمولی سہی، ٹھیک تو نہیں ہونگی وہ!”
"مقدر کی سختیاں تو سہنا ہی پڑتی ہیں۔ سب ہی کو ان کی تو اب ٹل چکیں۔۔ اللہ نے چاہا تو اب آگے ان کی زندگی میں سکھ ہی سکھ ہونا ہے۔ ان کے پھوپھا لوگ بڑے ا�±ونچے اور تگڑے لوگ ہیں۔ تمہیں بھی اندازہ تو ہو ہی چکا ہوگا۔”مرشد خاموش رہا۔ اس کی نظریں بستی کی ایک گلی میں ا�±تری ٹھہریں تھیں۔ چند بچے تھے دو تین بکریوں کے اور دو تین انسانوں کے۔ وہ کھیل رہے تھے۔ دو لڑکے تھے اور ایک لڑکی۔ تینوں کی قمیصوں کا رنگ ایک ہی تھا کالا سیاہ!
” چوہدریوں کا ب�±را وقت شروع ہوچکا.” رستم کہہ رہا تھا۔”تمہیں تھوڑی مشکل کاٹنی پڑےگی۔ کج عرصہ تو جیل میں گزارنا ہی پڑنا ہے اب لیکن سزا اللہ نے چاہا تو کسی ایک کیس میں بھی نہیں ہوگی، انشاءاللہ۔ ضمانت بھی ب�±ہت جلد ہوجائیگی۔ زیادہ سے زیادہ”
"لالا!” م�±رشد نے اسکی بات کاٹی۔”جا کے ملنگی کو مرنے سے بچا ایسی موت ا�±س کے شایانِ شان نہیں بنتی اور چوہدری فرزند کا بھی خیال رکھنے کا کہا ہے میں نے تم سے اور کوئی ہو نہ ہو ان دو حرامیوں کا سارا حساب کتاب میں خود کرونگا ان دونوں کے ساتھ ب�±ہت ذاتی معاملہ ہوگیا ہے م�±رشد کا۔۔ جا، جا کے ملنگی کی خبر لے۔”اس کا انداز بِلک�±ل پ�±رسکون تھا۔ نظریں بدستورگلی میں بچوں پر تھیں۔
رستم بولا : "صبر رکھ ملنگی کی گردن پر کوئی ٹوکا نہیں رکھے کھڑا۔ فی الحال نیچے پولیس موجود ہے۔ ویسے بھی مجھے اندازہ ہے کہ ملنگی کو اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے مارنا پسند نہیں کرینگے یہ۔”
"جلدی کیا اور آسانی کیا، اسے مرنا ہی نہیں چاہیئے۔ یہ میں تمہیں بتا چکا کہ ان دونوں کا انجام میرا ذاتی مسئلہ ہے۔ ذاتی یعنی م�±رشد کی ذات نہیں رہیگی ورنہ”اس کے لہجے کی گھمبیرتا بڑھ گئی۔۔ نظریں بستی کی گلی میں ٹھہریں تھیں لیکن آنکھوں کا خالی پن غماز تھا کہ وہ دیکھ کچھ اور رہا ہے ۔اس کی نظر کسی اندرونی منظر پر تھی!
"اور میں بھی بتاچکا کہ جیسا تو چاہے گا، ویسا ہی ہوگا۔ بس تھوڑا حوصلہ اور صبر رکھ۔ سب کج ایک ترتیب، طریقے سے ہوا کرتا ہے اور وہ ساری ترتیب دی جارہی ہے، طریقہ کار بھی طے سمجھو۔ بس بے صبرے اور جذباتی نا ہونا۔”
” ٹھیک ہے لیکن تم جا کر ملنگی کے حوالے سے تسلی کرو اور ایک اور کام بھی!” آخر میں اسکا لہجہ دھیما ہوگیا۔ ایک ذرا توقف کے بعد وہ مزید بولا۔
"سرکار کی خیر خبر معلوم کرو ارباب ہی سے پوچھ لو۔”
” میں کرتا ہوں پتا۔” رستم ا�±س کا بازو تھپتھپا کر ا�±ٹھ کھڑا ہوا وہ سمجھ گیا تھا کہ ملنگی سے بھی زیادہ بے چینی اسے فی الوقت حجاب سرکار کی خیر خبر کے حوالے سے ہے۔
٭ ٭ ٭