قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا
مرشد
شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
Murshid Urdu Novel |
” استاد ! یہ پلیسے اور چوہدری آپس میں بھڑ پڑے ہیں۔” تاجی کے سنسنی خیز لہجے میں حیرت آمیز خوشی کا تاثر تھا۔
خنجر زہرخند سے بولا۔ ” یہ کھوتے کا پتر چوہدری بڑا ڈھیٹ ہے۔ مرے بغیر سکون نہیں ملنا اس کی ہڈی کو۔”
"یہ پاگل لوگ پولیس والوں پر گولیاں چلا رہے ہیں!” زریون شدید حیرت سے بولا۔ "ادھر اس طرف تو ڈوگر صاحب بھی موجود تھے۔” گولی بھی پہلے وہیں چلی ہے۔ اوہ گاڈ ! مجھے لگتا ہے میں مسلسل کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہوں۔ ایسا تو ہالی ووڈ کی ایکشن موویز میں ہوتا ہے۔ پولیس پر حملہ ایس پی صاحب کی موجودگی میں!” وہ حیران و پریشان تھا۔
"زندگی سے بڑی فلم اور کوئی نہیں ہے شاہ جی ! ایک سے بڑھ کر ایک ولن اور مہان فنکار ملتا ہے اس فلم میں۔”
"اور وقفہ بھی کوئی نہیں آتا۔”
فائرنگ صرف پانچ سات منٹ تک جاری رہی پھر جیسے اچانک شروع ہوئی تھی ویسے ہی رک بھی گئی۔ زریون جو بے چین سا بیٹھا تھا اچانک اپنی جگہ سے اٹھا اور نیچے چلا گیا۔وہ سب لوگ اسی جگہ کان باہر کی طرف لگائے بیٹھے رہے لیکن اردگرد ایک بار پھر مکمل طور پر خاموشی چھا چکی تھی۔ آثار یہی تھے کہ چوہدریوں اور پولیس والوں کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں ان مذاکرات میں چوہدری کا مطالبہ یقینی طور پر یہی ہو گا کہ کسی قسم کی کوئی بھی بات چیت کیئے بغیر مرشد لوگوں کو چھلنی کر دیا جائے اور بسپولیس والوں کا ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا۔ یہ بات تو صاف تھی کہ موقع بن آنے پر پولیس والے بھی انہیں پار کر دینے میں تاخیر نہ کرتے۔ بس ایک لالارستم اور ملک منصب کی بدولت یہ خیال آتا تھا کہ شاید پولیس والوں کو کوئی ایک آدھ مضبوط لگام آپڑی ہو۔مرشد کی ساون، اکو کے ساتھ اب تک جو بات چیت ہوئی تھی اس کی روشنی میں تو یہ واضح نظر آتا تھا کہ پولیس والوں پر ان کے حق میں بھی دباو�¿موجود ہے۔ لالا رستم اور ملک منصب کی طرف سے بستی کے اردگرد اور بستی کے اندر بھی ان کے مسلح اور زور آور حامی آ پہنچے ہیں اور یقیناً چوہدری لوگوں کے ساتھ ساتھ پولیس والوں پر بھی یہ بات پوری طرح واضح اور روشن تھی۔یعنی اس وقت بستی کے اندر اور اردگرد پانچ چھ متحارب گروپوں کی صورت کم از کم بھی ڈیڑھ دو سو مسلح افراد موجود تھے اور پولیس والے ان کے علاوہ تھے۔
یہ سارے حالات و واقعات یہ ساری صورت حال، سب ہی کے لیے یکساں طور پر سنگین تھی۔ خود پولیس والوں کے اپنے لیے بھی، اس بات کا انہیں اندازہ و احساس تو پہلے ہی تھا ،اب چوہدری فرزند کے وحشت ناک پاگل پن نے گویا انہیں کچھ اور اچھی طرح یہ نازک نکتہ سمجھا دیا تھا۔جب سے چوہدری فرزند ہاتھ سے پھسل کر نکلا تھا تب سے مرشد کے دل کو ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا اے ایس پی کی موت اور چوہدری کا ہاتھ سے نکل جانا ، یہ دونوں نقصان ایک طرح سے انہیں از حد کمزور کر گئے تھے۔ پولیس اور اردگرد دشمنوں کی جارحیت سے دفاع کے لیے کوئی ڈھال نہیں رہی تھی ان کے پاس۔ ایسے میں سارے دشمن یا صرف پولیس والے ہی ان کے خلاف جارحانہ کاروائی پر اتر آتے تو یقینی طور پر انہیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا۔ وہ سب کے سب اس معرکے میں مارے بھی جاسکتے تھے۔ ایسے میں پھر حجاب سرکار کا کیا بنتا ، ان کے ساتھ بعد میں یہ سارے پاگل بھیڑیے کیا سلوک کرتے یہ خیال ہی مرشد کےلیے اس قدر جان لیو ااس قدر روح فرسا تھا کہ وہ جی جان سے لرز کر رہ جاتا تھا۔ اس نے آخری حد، آخری قدم کے طور پر یہاں تک سوچ لیا تھا کہ اگر یہیں اسی جگہ زندگی نے آخری ہچکی بھرنی ہے تو میں اس آخری ہچکی تک اپنی رائفل میں کم از کم ایک گولی تو ہر صورت بچا کر رکھوں گا اس آخری ہچکی تک سرکار کی حفاظت کروں گا اوروہ ہچکی لیتے وقت سرکار کو حفاظت کی اس احتیاج سے ہیہمیشہ کے لیے آزاد کر جاو�¿ں گا اس آخری گولی کو اس طرح استعمال کروں گا کہ سرکار کو ساری مشکلوں، مصیبتوں اور ساری آفتوں سے دائمی نجات مل جائے گی !”
ایک جان لیوا ہنگامہ اس کے خارج ، اس کے اطراف میں جاری تھا اور دوسرا اس کے داخل ، اس کے دل و دماغ کے اندر برپا رہا تھا ہزار کرب و اضطراب کے ساتھ اس نے آخری ارادہ یہ ہی قائم کیا تھا کی حجاب سرکار ذلت و عذاب کے طویل سلسلے سے گزرنے کے بعد موت تک پہنچیں اس سے بہتر ہوگا کہ وہ اپنی آخری سانسوں میں، اپنی رائفل کی آخری گولی حجاب بی بی پر فائر کر دے اس اطمینان کے ساتھ یہ جہان چھوڑے کہ اب سرکار کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کرنے اور تڑپا تڑپا کر قتل کرنے کےلئے سرکار یہاں نہیں ملیں گی صرف ان کا خالی وجود ہی ان یزید زادوں کے ہاتھ لگے گا اور بس۔
یہ بے بسی اور مایوسی کی انتہا سہی لیکن مرشد نے یہ سوچ لیا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا اور ایسا سوچ کر اس کی اپنی جان جیسے حلق میں اٹک کر رہ گئی تھی۔
پولیس اگر آپریشن پر ت�±ل جاتی تو شاید انجام کار ہوتا بھی کچھ ایسا ہی لیکن اب ایک ذرا امید بندھ چکی تھی۔ لالا رستم اور ملک منصب اور سب سے بڑھ کر اس وقت اہم پہلو مرشد کی نظر میں یہ تھا کہ شہر کا ایس پی باذات خود یہاں موجود تھا اور زریون نے براہ راست اسے اپنی یہاں موجودگی کے متعلق آگاہ کردیا تھا۔ اپنے اور اپنی منگیتر، یعنی بڑے شاہ جی کی بہو کے متعلق بھی۔
مرشد کا اندازہ یہ ہی تھا کہ اگر ایس پی صاحب زریون کے واقف کار ہیں یا اس کو کوئی اہمیت دیتے ہیں تو اس کی اصل وجہ یقیناً زریون صاحب کے والد ہی ہیں۔اب زریون کے متعلق جان کر یقینی طور پر ایس پی صاحب ششدرہ رہ گئے ہوں گے۔ کسی اور کو اندازہ ہو یا نہ ہو مرشد نے جو سوچ بچار اور جمع نفی کا حساب کتاب جوڑا تھا ،اس کے تناظر میں وہ باخوبی سمجھ سکتا تھا کہ بڑے شاہ جی کے بیٹے اور بہو کی یہاں موجودگی کا انکشاف ایس پی صاحب کے لیے کس قدر دھماکا خیز ثابت ہوا ہوگا صورت حال کے اس نئے رخ نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ہوگا !
مرشد کے نزدیک یہ تو قدرے اطمینان بخش بات تھی کہ ایس پی صاحب زریون اور حجاب کی یہاں موجودگی کے متعلق آگاہ ہوچکے ہیں لیکن اس کا یہ اطمینان ابھی ادھورا تھا۔ اس لیے ادھورا تھا کہ یہاں صرف ایک ایس پی صاحب ہی موجود تھے اور وہ خود بھی پتا نہیں اب خیر خیریت سے تھے یا نہیں ابھی کچھ دیر پہلے جو فائرنگ ہوئی تھی اس کے بعد سے اطراف میں پھر وہی سنسنی خیز اور سراسیمگی جگانے والی خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔
"یہ نکے شاہ جی کہیں حجاب بی بی کا ہاتھ پکڑ کر نکل نہ کھڑے ہوں۔”
زریون کے موڈ مزاج کا کوئی پتا نہیں تھا۔ وہ ایسا کر بھی سکتا تھا۔ خنجر کی یہ قیاس آرائی سچ ثابت ہو سکتی تھی۔ مرشد فوراً اٹھ کر نیچے چلا آیا۔ ویسے بھی وہ کافی دیر سے اوپر ہی تھا۔ حجاب نظروں سے اوجھل تھی۔ تھوڑا دور نچلے کمرے میں تھی تو دماغ میں تب ہی سے ایک اضافی بے سکونی نے سرلاہٹ مچا رکھی تھی۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کی پر فکر بےچینی تھی۔ حجاب نظروں کے سامنے ، آس پاس ہوتی تھی تو اس کے بخیروعافیت ہونے کی تسلی رہتی تھی۔ اچانک سے کوئی خطرہ پیدا ہوا بھی تو میں نبٹ لوں گا یہ اطمینان رہتا تھا۔
برآمدے میں جالیوں کے قریب جعفر ایک موڑھے پر بیٹھا تھا۔ رائفل اس کی گود میں دھری تھی۔ بائیں ہاتھ کی پلیٹ پر روٹی تھی جس کے اوپر کسی ملغوبہ قسم کے سالن کی ڈھیری اور اس کا منہ یوں ٹھنسا ہوا تھا جیسے پوری روٹی کا نوالہ کیے بیٹھا ہو۔
برآمدے کے مخالف کونے میں غالباً کچن تھا جہاں اس وقت روشنی تھی۔ کھڑکی کی جالی سے مرشد کو زنانہ کپڑوں کی جھلک بھی دکھائی دی۔ اکو وہیںکچن کے دروازے میں کھڑا اوباشانا انداز میں مسکرا رہا تھا۔ اس کی ساری توجہ کچن میں مصروف کار عورت ، لڑکی کی جانب مبذول تھی۔ مرشد کے نیچے پہنچتے ہی جعفر موڑھے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"بڑی بھوک لگی تھی استاد ! تازی روٹی بن رہی ہے ابھی۔ ” اس نے ٹھنسے منہ کے ساتھ بامشکل کہا۔ مرشد نے اس کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔ اس کا دھیان اکو کی طرف تھا۔ اسی لمحے اکو نے پلٹ کر دیکھا اور مرشد پر نظر پڑتے ہی قدرے گڑبڑا کر فوراً پیچھے ہٹ آیا۔ "سب لوگ بھوکے ہیں استاد ! کچن میں کھلا راشن پڑا تھا تو ہم نے سوچا کھانا پکوا لیتے ہیں۔” اس نے ایک نظر جعفر کی طرف دیکھتے ہوئے خجالت آمیز انداز میںکہا۔
"کون ہے ادھر ؟” مرشد کا سوال کچن کے متعلق تھا۔
"وہ وہ عورت ہے۔ اسی گھر والی۔ "
مرشد کے چہرے کی سنجیدگی کچھ اور گہری ہوگئی۔ وہ اکو کے مزاج سے واقف تھا۔ وہ ان ہی مردوں میں سے تھا جنہیں عورت کے حوالے سے رج کر بدنیت اور حریص کہا جاتا ہے۔ مرشد چند لمحے خاموش ساکت کھڑا رہا پھر اس نے فیروزہ کو آواز دی۔
"فیروزہ فیروزہ” اگلے ہی لمحے وہ متعجب و پریشان سی دروازے پر تھی۔
"ہاں کیا بات ہے؟” اس نے باری باری تینوں کی سنجیدہ صورتوں پر نظر ڈالی۔ مرشد اسے کوئی جواب دیئے بغیر چند قدم آگے دوسرے کمرے کے دروازے پر جا ٹھہرا جس کی باہر سے زنجیر چڑھی ہوئی تھی۔ اس نے ایک نظر فیروزہ اور اکو کی طرف دیکھا اور پھر زنجیر ہٹاتے ہوئے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ ان تینوں نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔
جعفر دھیمے لہجے میں بولا۔ "میں نے تیرے کو منع کیا تھا کہ انسان کا پتر بن جا! "
فیروزہ نے بھنویں اچکا کر استفسار کیا۔ اکو ہونٹ چبا کر رہ گیا۔ سمجھ تو گیا ہی تھا کہ اس کی نیت کا کمینا پن مرشد کو سخت ناگوار گزرا ہے۔ بہرحال وہ دونوں مرشد کے پیچھے دوسرے کمرے کے دروازے پر جا کھڑے ہوئے۔ زریون بھی باہر نکل آیا تھا اور حجاب بھی کمرے کے دروازے میں آکھڑی ہوئی۔دوسرے کمرے میں چار نفوس موجود تھے۔ ایک دبلا پتلا سانولا سا شخص جو ایک طرف بندھا پڑا تھا۔ اس کے ہاتھ اور منہ کپڑے سے باندھے گئے تھے البتہ بازوو�¿ں اور کمر کے گرد بھینس باندھنے والا سنگل لپیٹ کر برابر پڑے پلنگ کی مدد سے یوں تالا بند کیا گیا تھا کہ وہ پوری طرح بے بس ہو کر رہ گیا تھا۔
پلنگ کے برابر کاٹھ کا ایک رنگلا جھولا دھرا تھا اور اس میں ایک ڈھائی تین سال کا بچہ غٹ سو رہا تھا۔ ان کے علاوہ دوسری دیوار کے ساتھ بچھے پلنگ پر دو لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ بھرے بھرے وجود والی نوجوان لڑکیاں۔ شاید وہ جڑواں بہنیں تھیں۔ دونوں کے چہروں اور چہروں کے نقوش میں گہری مماثلت تھی۔ عمریں رہی ہوں گی یہی کوئی پندرہ سولہ سال کے لگ بھگ۔مرشد کے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتے ہی وہ دونوں بری طرح سہم گئیں۔ دونوں کی آنکھوں میں جیسے زمانے بھر کا خوف سمٹ آیا تھا۔
پلنگ کے ساتھ بندھے پڑے شخص کے منہ سے پھنکاریں سی خارج ہونے لگیں۔ مرشد نے ایک سرسری سی نظر اس پر ڈالی۔ آنکھوں میں فکر و پریشانی کے سائے اور چہرے پر بے بسی اور غصہ شاید وہ آزاد ہوتا تو ان لوگوں سے الجھ پڑتا۔ یقیناً وہ اس کی غیرت ہی تھیں جو غصے کے رنگ میں اس کے چہرے اور فکر و پریشانی کی صورت اس کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔
"کھولو اسے ” مرشد نے عقب میں دروازے کے بیچ کھڑے اکو سے کہا تو وہ جواباً بولا۔ "استاد ! اس کا خون زیادہ ہی گرم ہے۔ اسے بندھا رہنے
دو۔ "
"میں نے کہا ہے کھولو اسے ۔” مرشد کے لہجے میں درشتی آ گھلی۔ اکو فوراً کھیسے میں ہاتھ مارتا ہوا اس کے برابر سے گزر کر اس سانولے شخص کے قریبجا بیٹھا۔ چند لمحے پہلے اس شخص کے چہرے پر غصہ تھا اور اب قدرے تعجب اور الجھن۔ وہ بار بار مرشد کی طرف دیکھنے لگتا تھا۔ اسی وقت کچن میں مصروف کار عورت بھی وہیں کمرے میں پہنچ آئی۔ وہ بری طرح ہراساں اور گھبرائی ہوئی تھی۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ آنکھوں میں نجانے کیسے کیسے اندیشے ناچ رہے تھے۔اندر داخل ہوتے ہی وہ اعیال دار مرغی کی طرح لپک کر سیدھی پلنگ پر سہمی بیٹھیں لڑکیوں کے قریب جا کھڑی ہوئی۔
” میں میں سارا کج کریندی پئی ہاں۔ ہنڑے ٹکر پک ویسی۔ کیاکیا گالھ ہئے ؟” (میں سارا کچھ کر رہی ہوں۔ ابھی کھانا تیار ہوجائے گا کیا بات ہے؟)
گھبراہٹ زدہ انداز میں بولتے بولتے اس نے کمرے کے اندر کی صورت حال کا جائزہ لیا تو اسے فوراً اندازہ ہوگیا کہ معاملہ کچھ اور ہے اور اس کے اندیشے بے بنیاد ہیں۔ وہ ایک ان پڑھ سے لہجے کی پختہ عمر عورت تھی اور وجود بھی خاصا ان پڑھ اور پختہ پختہ سا رکھتی تھی۔ پکی عمر کی پکے کھچے وجود والی عورت۔
"بی بی ! حوصلہ ، تسلی رکھو۔” مرشد ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے سنجیدہ مگر نرم اور مہذب انداز میں بولا۔
"ہم لوگ بھی گھر خاندان اور ماو�¿ں بہنوں والے ہیں۔ بخت کا پھیر ہے کہ ان حالات میں اس طرح یہاں موجود ہیں لیکن تم لوگوں کو ہماری طرف سے ذرا برابر بھی کسی قسم کا کوئی نقصان یا تکلیف نہیں پہنچے گی تم لوگ ہماری طرف سے پوری طرح بے فکر رہو۔”
فیروزہ اور اکو خوب سمجھ رہے تھے کہ وہ کہہ کس سے رہا ہے اور سنا کس کو رہا ہے۔ فیروزہ کے عقب میں حجاب اور برابر میں زریون آکھڑا ہوا تھا۔
"بھراہ جی ! ہمیں معاف کر دو بخش دو۔ ہم بڑے سادہ اور شریف لوگ ہیں۔ تمہارے دشمن تمہارے ساتھ ہمیں اور ہمارے بچوں کو بھی مار مکائیں گے۔” عورت سرائیکی ہی میں بولی تھی۔ اس نے روہانسی آواز میں کہتے ہوئے باقاعدہ مرشد کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ۔اکو اس شخص کو بندشوں سے آزاد کرتے ہوئے اٹھ کر ایک طرف ہوگیا ،کمرے میں سنگل کی کھنکھناہٹ ابھری اور وہ شخص ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ بظاہر وہ اب بھی غصے میں تھا لیکن واضح پتا چل رہا تھا کہ یہ غصہ بس ہاتھی کا دانت ہے۔
مرشد اس پر توجہ دیئے بغیر عورت سے مخاطب ہوا۔ ہم مجبور اً یہاں موجود ہیں ہمیں افسوس اور شرمندگی ہے، ہماری وجہ سے تم لوگ اس وقت پریشانی میں ہو صبح تک نکل جائیں گے ہم۔ تم نے بھائی جی کہا ہے مجھے۔” اس نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنا پٹی بندھا ہاتھ اس عورت کے سر پر رکھا تو وہ بےچاری کانپ کر رہ گئی۔ "میں عمر میں تم سے چھوٹا سہی لیکن بڑے بھائی کی طرح زبان دیتا ہوں کہ ہماری طرف سے تم سب کو کوئی تکلیف، کوئی نقصان نہیں پہنچے گاتسلی رکھو۔تین چار گھنٹے میں صبح ہو جائے گی ،ہم کوشش کریں گے کہ صبح سویرے ہی تمہارا مکان چھوڑ کر چلے جائیں۔
"تمہارےتمہارے ساتھی بڑے بڑے بدتمیز ہیں۔” وہ سانولا سا شخص جو یقیناً اس عورت کا شوہر اور بچوں کا باپ تھا ، نتھنے پھیلاتے ہوئے ہکلایا۔ مرشد نے اس کی طرف پلٹتے ہوئے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دیئے۔ رائفل اس کے کندھے سے جھول رہی تھی۔
"ان کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں۔ یہ تم لوگوں کا گھر ہے۔ تم آزاد ہو مگرمیرا مشورہ ہے کہ صبح تک کمرے کے اندر ہی بند رہو صبح ہمارے چلے جانے کے بعد باہر نکلنا۔”
مرشد کا رویہ اور لب و لہجہ ان لوگوں کی توقع کے خلاف تھا۔ جڑواں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ان کے اماں ابا کی آنکھوں میں بھی حیرت کسمسا رہی تھی۔ ساتھ کچھ کچھ الجھن اور پریشانی بھی ان میاں بیوی دونوں کے نزدیک ہی اس بندے کا رویہ عجیب اور الجھانے والا تھا۔ وہ خود بھی کافی عجیب دکھائی دے رہا تھا۔
کپڑے اور منہ سر گرد آلود، قمیض پر دو چار خون کے دھبے ، ہاتھ پر پٹی ، کندھے کے ساتھ لٹکتی ہوئی یہ لمبی اور خوفناک رائفل ہونٹ زخمی اور ورم آلود ، شاید اسی باعث اسے بولنے میں دقت بھی تھی جو اس کے لب و لہجے سے محسوس ہوتی تھی۔ سر اور داڑھی کے گرد آلود بال ب�±ری طرح بکھرے ہوئے تھے البتہ اس کی گھنی بھاری مونچھیں بالکل ہموار طریقے سے بل کھاتی رخساروں کی طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ بڑی بڑی جاندار آنکھوں میں ایک پتھریلا تاثر اور سنجیدہ بارعب چہرہ اس بندے کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا جس نے ان دونوں میاں بیوی کو ایک ذرا مسمرائز کرکے رکھ دیا۔ وہ دونوں ایک مخمصے میں پڑ گئے تھے کہ ان کو کس رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے؟
یہ تو صاف نظر آرہا تھا کہ یہ مچھل گھر پر قابض دہشت گرد پلٹون کا سردار ہے۔ شاید اسی کا نام مرشد تھا جس کی چاروں طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ وہ دکھنے میں بھی خوف کی حد تک بارعب دکھائی دیتا تھا لیکن اس کا انداز، اس کا رویہ اس کی شخصیت اور حلیے سے بالکل مختلف تھا۔ انتہائی نرم اور سلجھا ہواعاجز عاجز سا۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ کہانی ان کی سمجھ سے باہر تھی ان ہی کی کیا بات، ان کے علاوہ بھی کسی کو ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ مرشد کے اندر کیا چل رہا ہے۔ اس کے اندر کی کیا حالت ہے۔
اس کے دل و دماغ میں ایک کرب بھرا تھا۔ اندر ایک بے کراں سا دکھ تھا جس نے اس کے سینے کو سوز و گداز سے بھر رکھا تھا۔ آخری ہچکی والا خیال آخری گولی والا تصور اس کے لیے کچھ ایسا ہی جان کاہ تھا۔ حالات تاحال غیر یقینی تھے اور اس کے ذہن کو مسلسل وہی خیال ،وہی تصور درپیش تھا۔
"فیروزہ ! آپا کے ساتھ کچن میں کھانا وغیرہ بنوانے میں مدد کروہاتھ بٹاو�¿ ساتھ۔” مرشد نے اکو کی طرف دیکھتے ہوئے فیروزہ کو مخاطب کیا اور واپس پلٹ پڑا۔ فیروزہ بھنویں سکیڑے سامنے ہی دروازے میں کھڑی تھی۔ ساتھ زریون اور ان کے عقب میں حجاب حجاب کے چہرے کی جھلک پاتے ہی دل پر ایک ضرب سی لگی۔
"سرکار ! شاہ جی ! آپ لوگ یہاں کیوں کھڑے ہیں چلیںاندر چلیں۔ آپ لوگوں کو کمرے کے اندر ہی رہنا چاہیے۔ وہ فوراً فکر مندی سے آگے بڑھا اور فیروزہ کی بیزار گھورتی ہوئی نظروں پر توجہ دیئے بغیر زریون اور حجاب کو دوسرے کمرے کی طرف لے گیا۔وہ مطمئن تھا۔ جو وہ سمجھانا چاہتا تھا وہ یقینی طور پر اچھی طرح اکو کی سمجھ میں آگیا تھا۔
"مجھے یہی سمجھ آئی ہے کہ وہاں ڈیرے پر میری گاڑی کھڑی ہونے کی وجہ سے پولیس والے میری طرف سے بھی مشکوک ہو گئے ہیں۔” زریون گہرے مفکرانہ انداز میں حجاب سے کہہ رہا تھا۔ ان کے درمیان شاید پہلے سے اس موضوع پر بات ہورہی تھی۔ "ہوسکتا ہے وہاں ہونے والے خون خرابے کے ذمہ داروں میں مجھے بھی شامل کر رکھا ہو انہوں نے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جو چوہدری فرزند ہے اس کی وجہ سے ڈوگر صاحب کو چپ ہونا پڑ گیا ہو فائرنگ بھی اچھی خاصی ہوئی ہے۔ تم بس دعا کرو ڈوگر صاحب خیریت سے ہوں۔میرا بڑا اچھا تعلق ہے ان سے وہ ضرور ہمارے لیے کوئی راہ نکالیں گے۔ مدد کریں گے ہماری۔ ہاں بالکل مجھے یقین ہے اس بات کا۔”اس کا لہجہ بے یقینی میں ڈوبا تھا اور شاید وہ خود ہی کو یقین دلانے کی کوششیں کر رہا تھا۔دائیں ہاتھ کی دیوار کے ساتھ سنگار میز کھڑی تھی۔ اس کے سامنے اسٹول اور ساتھ ہی آگے ایک مسہری جس پر صاف ستھرا کھیس بچھا تھا۔ حجاب اس مسہری پر جا بیٹھی اور زریون ، اسٹول مسہری کے قریب کھنچتے کر بیٹھتے ہوئے مرشد سے مخاطب ہوا۔
"کیا یہ چوہدری لوگ اتنے ہی طاقتور ہیں کھلم کھلا پولیس کے ساتھ مقابلہ بازی یہ تو اسٹیٹ کے ساتھ ٹکر لینے والی بات ہے۔ انہیں کسی کا کوئی ڈر خوف ہی نہیں!” کمرے میں مزید دو چارپائیاں،ایک شوکیش ،ایک ٹیبل چار کرسیاں اور ایک پیڈسٹس فین بھی تھا۔ مرشد آگے بڑھ کر ایک کرسی پر با آہستہ ڈھیر ہو گیا۔
"ڈر خوف تو ہے” اس نے وجود میں مچلتی کم زیادہ تکلیفوں کو ضبط کرتے ہوئے رائفل کندھے سے اتار کر گود میں رکھ لی۔ "اور ڈر خوف بھی ایساجان لیوا اور اعصاب شکن جو انسان سے اس کے حواس چھین لے۔ پاگل کرکے رکھ دے اسے اور دیکھ لیں چوہدری کی حالت، پاگل ہو چکا ہے یہ کتا۔” آخر میں مرشد کے لہجے میں نفرت سمت آئی۔ زریون نے بھی اس نفرت کو محسوس کیا۔
"یہ کیسا ڈر خوف ہے؟ اور کس بات کا ڈر ہے؟”
مرشد نے سر جھکائے بیٹھی حجاب کی سمت اشارہ کیا۔ ” ان کا ان کے زندہ سلامت آپ کے گھر ، آپ کے والدین تک پہنچ جانے کا ڈر خوف ہے جس نے چوہدریوں کو پاگل کر رکھا ہے اوراس پاگل پن میں کچھ حصہ ،خود پرستی اور تکبر جیسی جہالت کا بھی شامل ہے۔”زریون کو چپ لگ گئی۔ چہرے پر سناٹا سا پھیل گیا۔ اس کی آنکھیں پر سوچ سے انداز میں حجاب کی طرف سرک گئیں۔ شام سے اپنی زندگی، اپنے مستقبل کی ایسی شدید ٹینشن بنی ہوئی تھی کہ وہ حجاب کے اور اس کے ساتھ گزرے ہوئے سانحے کے بارے میںڈھنگ سے سوچ تک نہیں پایا تھا۔سوچا جا بھی کیسے سکتا تھا بھلا گزشتہ سات آٹھ گھنٹوں سے مسلسل سانس تو حلق میں اٹکی ہوئی تھی !
مرشد پہلو بدل کر اپنا بوجھ کرسی کی ہتھی پر منتقل کرتے ہوئے مزید بولا۔ "پورے گاو�¿ں میں سے کسی نے چوہدریوں کے خلاف زبان نہیں کھولی اور نہ کوئی کھولے گا مگر سرکار تو بڑے شاہ جی تک پہنچ کر ساری حقیقت خود پر ٹوٹا سارا ظلم بیان کریں گی نا ! ان کی زبان پر تو کوئی پابندی ،کوئی پہرہ نہیں ہوگا یہ بولیں گی اور ان کا بولا ہوا جب بڑے شاہ جی کے ذریعے اعلا ایوانوں اور قانون و انصاف کے بڑے محافظوں تک پہنچے گا تو اس کے بعد جو اٹھا پٹخ ہونی ہے ،جو بھونچال آنا ہے اس کا چوہدریوں کو اچھی طرح پتا ہےگاو�¿ں میں ان کی حویلی میں صرف عورتیں باقی بچیں گی اور چوہدریوں کے علاوہ بھی کئی لوگوں کے تخت اور کرسیاں الٹ جانی ہیں۔آپ کو اس سارے بکھیڑے کی پوری جانکاری نہیں ہے اندرون خانہ کئی گدھ، کئی کتے اور کئی سور آپس میں گٹھ جوڑ کئے بیٹھے ہیں اسی لیے اب ایک ساتھ سب کو وخت پڑا ہوا ہے۔”
مرشد کی اس بات کے دوران ساون اور خنجر آکر خاموشی سے مرشد کے سامنے والی چارپائی ٹک گئے تھے۔ مرشد چپ ہوا تو چند لمحوں کے لیے کمرے میں صرف ایک سنجیدہ اور بوجھل سی خاموشی پھیلی رہی پھر ساون دھیمے لہجے میں مرشد سے مخاطب ہوا۔
"مرشد! پسلیوں کے درد کی سناو�¿ ؟”
"بس ! ٹھیک ہی ہے۔ ابھی قدرے ٹھہرا ہوا ہے۔” اس نے زبردستی کی مسکراہٹ کے ساتھ جھوٹ بولا۔ درد تھا تب ہی تو وہ کرسی کے بازو پر سارا بوجھ ڈالے بیٹھا تھا۔ پسلیوں اور سینے کے علاوہ دائیں ہاتھ، ہونٹ، آنکھوں اور سر میں بھی درد تھا آنکھوں میں ایک دکھن دہک رہی تھی۔ ہونٹ اور ہاتھ کی پشت اور انگلیوں میں سخت اکڑن اور کھنچاو�¿ سا تھا۔
ساون بولا۔ "تم ادھر چارپائی پر آجاو�¿ کچھ دیر کمر ٹکا لو۔ شاید پسلیوں کو بھی لیٹنے سے سکون ملے۔”
حجاب نے ایک سرسری سی نظر اس پر ڈالی۔ وہ کچھ عجیب سے انداز میں کرسی پر بیٹھا تھا۔ وہ اس طرح تو نہیں بیٹھتا تھا!
"نہیںمیں ٹھیک ہوں ادھر۔”
"حجاب! مجھے بتاو�¿ کچھ آخر ایسا کیا ہوگیا تھا جو بات اتنی بڑھ گئی۔ اتنا بڑا جھگڑا بلکہ جنگ چھڑ گئی۔” زریون حجاب سے مخاطب ہوا تھا۔
"اپنے گھرانے میں تو کوئی اس مزاج کا تھا بھی نہیں نا ؟ پھرپھر نوبت قتل و غارت تک کیسے پہنچ گئی؟”
"لڑائی جو ہوگئی تھی۔” وہ جیسے منمنائی۔
"لڑائی کی وجہ کیا تھی؟”
"وہ وہ اسرار کا مسئلہ بن گیا تھا۔”
"کیا مسئلہ؟”
یہ موضوع حجاب کے لیے اذیت ناک تھا۔ اس کے زخم کریدنے والی بات تھی۔ ایک دفعہ تو مرشد کے ذہن میں آئی کہ وہ مداخلت کرے ،موضوع بدل دے لیکن پھر وہ ہونٹ بھینچ کر خاموش ہی رہا۔
"فیروزہ کو کیا کہا ہے تم نے؟” خنجر نے دھیمی سی آواز میں مرشد سے پوچھا۔
"کیوں؟” اس نے بھنویں اچکائی۔
"تمہارا نام لے لے کر انگارے چبا رہی تھی۔ کہہ رہی تھی تم اسے تنگ کرنے اور چھیڑنے سے باز نہیں آتے۔”
”وہ گھوڑی کی شکل والی گدھی جب تک ہانڈی روٹی میں لگی رہے گی تب تک بکتی ہی رہے گی اب۔”
"اکو کا منہ دیکھ کر بھی چوٹ کھائے منڈک کا خیال آرہا تھا۔ کوئی بات ہوئی ہے کیا؟”
"یہ نمونہ بھی اپنی واہیات ٹھرکی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہے۔“
ساون سنجیدگی سے بولا۔ "کیا خیال ہے خبر سفر کرے گی؟”
"ابھی تو باہر کی صورت حال ہی کا ٹھیک سے اندازہ نہیں۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ اگلے چار چھ گھنٹے میں سفر کر ضرور جائے گی۔”
خنجر بھی بخوبی سمجھ رہا تھا کہ وہ بڑے شاہ جی کے بیٹے اور بہو کی یہاں موجودگی کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔مرشد بات چیت ان کے ساتھ کررہا تھا لیکن اس کا دھیان حجاب اور زریون کے بیچ شروع ہونے والی بات چیت کی طرف تھا۔
حجاب اس کے سوالوں کے جواب میں اسے بتا رہی تھی۔ اسرار اور نازیہ کے متعلق۔ان کے دوستانہ تعلق اور محبت و پسندیدگی کے متعلق۔اسرار کی اس فاش غلطی اس لغزش کے متعلق۔ جو ایک ایسے وحشت ناک خونی فساد کی شروعات کا باعث بنی تھی جو راتوں رات کئی ایک انمول زندگیاں نگل گیا تھا اور یہ اجل خیز سلسلہ ہنوز جاری تھا۔
"پروگرام میں کوئی تبدیلی کرنی ہے؟” ساون نے پوچھا۔
"کیوں ؟” مرشد کے اس کیوں پر ساون نے سرسری سی نظر زریون کی طرف دیکھا پھر چارپائی سے اٹھ کر مرشد کے برابر کرسی پر بیٹھ گیا اور انتہائی آہستہ آواز میں بولا۔
"ذمہ دار اور سرکردہ لوگوں کے اکٹھے ہونے پر حجاب بی بی اور زریون شاہ کے متعلق ہم نے بتانا تھا۔ شرط رکھنی تھی کہ بڑے شاہ جی کوبلاو�¿ اب شاہ جی نے تو خود اپنے متعلق بتا دیا ایس پی صاحب کو کیا اب بھی ہمیں ڈیمانڈ کرنی پڑے گی ؟”
"دیکھتے ہیں کیا سامنے آتا ہے۔ ضرورت پڑی تو ہم یہ شرط رکھیں گے ۔”
ساون پر سوچ انداز میں بولا۔ "اگر بڑے شاہ جی بلوچستان میں ہیں تو کل دوپہر یا شام کے قریب قریب کی توقع رکھی جاسکتی ہے ان کے یہاں پہنچنے کی۔”
"وہ بھی اگر خبر ملتے ہی وہ ادھر سے چل پڑے تو۔” خنجر گود میں دھری رائفل پر کہنیاں ٹکائے ہوئے قدرے آگے کو جھک بیٹھا۔ ” یہ نکے سرکار کہہ رہے تھے نا کہ ا�±ن کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے ایسا کہہ رہا ہوں۔”
مرشد نے ایک ذرا زریون اور حجاب کی طرف دیکھا۔ زریون حجاب کے قریب ہی اسٹول پر بیٹھا تھا اور پوری طرح حجاب کی طرف متوجہ تھا۔ حجاب اپنی جگہ اسی طرح سر جھکائے بیٹھی آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔ اس کا گلا قدرے رندھ چکا تھا۔
مرشد بڑبڑانے والے انداز میں بولا۔ "یہ اپنے بارے میں بتا رہے تھے اس وقت انہیں فرق نہیں پڑتا۔ باپ بیٹے کے درمیان کشیدگی سہی، بڑے شاہ جی کی ہونے والی بہو بھی تو ہیں یہاںاس سے پہلے سرکار ان کی بھانجی بھی لگتی ہیں۔ وہ نندی پور تک پہنچے تھے۔ ان ہی کے اثر و رسوخ کی بدولت ایف آئی آر درج ہوئی اور ڈی ایس پی اصغر اعوان کی ڈیوٹی لگی کہ سرکار کو ڈھونڈے ان تک اطلاع پہنچنے کی دیر ہے ،وہ فوراً سے پہلے حرکت میں آجائیں گے۔” مرشد نے پر یقین لہجے میں کہا۔
اس کے چہرے کے تاثرات بدلتے جا رہے تھے۔ حجاب کی بھیگی ہوئی آواز ،اس آواز میں کرلاتا، سسکتا دکھ اور سماعت سے ٹکراتے اس کے الفاظ وہ اس ذلت بھرے دردناک سلوک کے متعلق بتا رہی تھی جو چوہدری فرزند نے اس کے ساتھ برتا تھا۔ گالیاں ، دھمکیاں ، مارپیٹ۔ وہ بتا زریون کو رہی تھی اور سنائی سب کو دے رہا تھا۔ مرشد کو باقی سب کی نسبت کچھ زیادہ ہی شدت کے ساتھ سنائی دے رہا تھا ایک ایک لفظ جیسے اس کی روح پر کوڑے کی طرح برس رہا تھا۔ غم و غصے کی شدت جیسے اس کے تن بدن میں انگارے سے سلگائے جا رہی تھی۔ چوہدری فرزند کا مکروہ اور خباثت بھرا سفاک چہرہ ان لمحوں ایک واضح تصویر کی طرح اس کی نگاہوں کے سامنے آ ٹھہرا۔
ساون اس کی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے خنجر سے مخاطب ہوا۔
"بڑے شاہ جی کل شام تک پہنچ آئیں گے انشاءاللہ اور اللہ کے حکم سے حجاب بی بی اور نکے شاہ جی کو باحفاظت یہاں سے نکال کے لے بھی جائیں گے۔ کل شام تک کا وقت کسی طرح نکالنا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ دو دو بندے، دو دو گھنٹے کی نیند کرلیں۔”
خنجر نے سوال اٹھایا۔ "اور کل شام کو جب بڑے شاہ جی، حجاب بی بی اور زریون صاحب کو لے جائیں گے تو اس کے بعد؟” اس نے باری باری ساون اور مرشد کی طرف دیکھ کر متفسرانہ انداز میں بھنوو�¿ں کو جنبش دی۔
"ہم لوگوں نے پھر کیا کرنا ہے؟ گرفتاریاں دینی ہیں یاجانیں ؟ ”
سوال تو تھا اور وہاں موجود سب ہی افراد کے ذہنوں میں اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود تھا سوائے ایک مرشد کے صرف وہ خود تھا جسے اپنے انجام سے زیادہ کسی اور بات کی فکر تھی اسے اپنا قول نبھانا تھا ، اماں کا بھرم رکھنا تھا۔ سرکار اور اماں دونوں کے حضور سرخ رو ہونا تھا۔ لیکن حالات حالات تاحال کچھ اور ہی تقاضا کررہے تھے اور یہ تقاضا بڑا جاں گسل تھا یہ آزمائش بڑی ہی سخت تھی حالات کہہ رہے تھے کہ اب تک جس کے تحفظ سلامتی کے لیے وہ مسلسل موت کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتا آرہا ہے اب آگے آنے والے وقت میں دم توڑنے سے پہلے اسی پر اسے گولی چلانی ہوگی محافظ سے موت کا فرشتہ بننا ہوگا۔” اس معصوم اور مظلوم روح کو اس کی منزل کی بجائے آخری منزل پر پہنچانا ہو گا !
اضطراب تھا کہ کلیجہ کھائے جا رہا تھا ذہن کی نسیں جیسے چٹخ جانا چاہتی تھیں۔ اندر یہی بے رحم اور سفاک کشمکش جاری تھی۔ اس کی خاموشی پر ساون نے خنجر سے کہا۔ "گرفتاری دینی ہے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہونا ہے یا کسی بھی طرح گھیرا توڑتے ہوئے یہاں سے نکلنے کی کوشش کرنی ہے جس طرح مرشد کہے گا ہم نے تو ویسے ہی کرنا ہے۔”
مرشد کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔”ہاں ہمہ یاراں دوزخ۔” اس نے باری باری ایک ایک نظر ان کی طرف دیکھا۔ "تم دونوں خود ہی بتاو�¿ہتھیار ڈالنے یا گرفتاری دینے یا نا دینے کا فیصلہ ابھی سے ان حالات میں کیسے کیا جاسکتا ہے؟ زیادہ امکان اسی بات کے ہیں کہ اگر ہم نے گرفتاری دی تو ہماری زندگیوں کو فل اسٹاپ لگ جانے ہیں لہذا اپنے ذہنوں میں رکھو کہ امکانات کے مطابق ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ویسےبھی پیو پتر دونوں چوہدری اور ملنگی یہ تین بھڑوے، تین سوّر زندہ اور آزاد ہیں۔ ان حرامیوں کا گھونٹ بھرنے سے پہلے کوئی فل اسٹاپ قبول نہیں اور بہت سے حساب وصولنے کے ساتھ ساتھ شبیرے اور مراد کے قتل کا حساب بھی چکانا ہے۔ ان کے خون کا قرض ہے میرے سر پہ۔ "
ساون نے مضبوطی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ٹھوس لہجے میں بولا۔ ” تو بس پھر فیصلہ ہوگیا۔” اس نے خنجر کی طرف دیکھا۔ "ہم نے مرنا نہیںمارنا ہے اور زندہ سلامت ادھر سے نکلنا ہے اور اپنے سارے ساتھیوں کو بھی نکالنا ہے۔” اس کے بعد پھر مل کر ملنگی اور چوہدریوں کی (ناقابل اشاعت)کریں گے۔ ہمیں رستہ تاڑ لینا چاہیے۔”
"پوری منصوبہ بندی کرنا پڑے گی۔ ویسے نکل پانا تو ناممکن ہوگا۔”
"ادھر آتے وقت کچھ سوچا تھا ؟”
"ہاں ! آئیڈیا سا تھا سارے دشمنوں اور پولیس والوں کا اصل ٹارگٹ تین لوگ ہیں خضری خنجر، مرشد اور حجاب بی بی۔ مرشد ظاہر ہے سب کی ہٹ لسٹ پر ہے لہذا تم لوگوں کو غائب کرنا ہوگا۔”
"غائب کرنا ہوگا؟” خنجر متعجب ہوا۔
"اگر تم لوگ موقع اور منظر سے غائب ہو جاتے ہو تو اس کشیدگی اور سنگینی میں یکایک کئی گنا کمی واقع ہوسکتی ہے تم لوگ نکل گئے تو یہاں موجود باقی لوگوں کی زندگیوں کا رسک کم ہوجائے گا۔”
"کیا مطلب ؟ یہاں کون موجود رہے گا ؟” خنجر نے پوچھا تھا۔
” وہ ہی تو کہا ہے کہ پوری منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔”ان دونوں نے مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ کھلی آنکھوں مراقبے میں تھا۔ اس کا چہرہ اور آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اس نے ان کی باتیں سنی ہی نہیں اس کا دھیان کہیں اور تھا۔ بائیں ہاتھ چند قدم کے فاصلے پر موجود حجاب اور زریون کی طرف اس کی سماعت ان کی گفتگو پر لگی تھی۔ بات پھر نازک مقام پر پہنچ آئی تھی۔ حجاب زریون کو بتا رہی تھی۔
” وہاںاس کوٹھی میں ایک بوڑھی ملازمہ تھی اسے مجھ پر ترس آگیا۔ ایک رات وہ مجھے کوٹھی سے لے کر نکلی اور ایک رکشے میں بٹھا کر کسی لالا رستم لہوری نام کے بندے کے گھر لے گئی۔ وہ وہ شہر سے باہر کہیں گئے ہوئے تھے۔ ان کی بہن اور بیوی بہت اچھی عورتیں تھیں انہوں نے مجھے کئی روز اپنے گھر پناہ دیئے رکھی پھر پھر وہ لالا رستم آئے تو انہوں نے مرشد جی سے کہا کہ مجھے حفاظت سے پھوپھو جی کے گھر تک چھوڑ آئیں لیکنلیکن رستے میں جگہ جگہ پولیس والے اور چوہدریوں کے بندے ہمارا راستہ روکتے رہے۔ یہ یہ جیسے اب وہ ہم سب کو بھی مار ڈالنا چاہتے ہیں۔”
اس کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔ کلیجے کے سارے گھاو�¿ ویسے بھی تو ابھی تازہ ہی تھے۔ یہ سارا بیان شام سے کئی بار وہ اپنے ذہن میں دوہرا چکی تھی۔ اس کا اپنا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ اس شخص کے ساتھ جھوٹ یا غلط بیانی سے کام لے جس کے ساتھ اس نے پوری زندگی گزارنی تھی لیکن خالہ حسن آرا اور مرشد جی کی بار بار کی تاکید کے باعث اس نے دل کی بے چینی اور کھدبد کو نظرانداز کردیا تھا۔ ان دونوں کی عقل سمجھ اور اپنی ذات کے حوالے سے ان کے خلوص پر کچھ ایسا ہی یقین و اعتماد ہو چکا تھا اسے!
"تو اس فرزند علی کے علاوہ بھی کسی نے کچھ کہا تمہیں؟”زریون نے سپاٹ انداز میں سوال کیا۔
"نہیں”
"اس کے چمچوں کڑچھوں یا ملازموں میں سے کسی نے؟”
"نہیں۔”
"فرزند علی صرف مارتا رہا یا کوئی اور بدتمیزی بھی کرتا رہا؟”
اس کا لہجہ اور آواز دھیمی تھی پھر بھی اس کا یہ سوال مرشد کی سماعت تک پہنچ گیا۔ رگ و پے میں ایک پھریری سی دوڑ گئی۔ زریون کے سوال اور لہجے کو سمجھتے ہوئے اس کی گردن کے رونگھٹے سنسنا کر رہ گئے وہ فوراً سے پیشتر اس کا مطلب و مقصد سمجھ گیا تھا لیکن بے چاری حجاب اسے زریون کے اس سوال کے پس پردہ کلبلاتی ہوئی حیاانگیز کرید کی سمجھ نہیں آئی۔ وہ اسی روانی سے بولی۔
"گندی گندی گالیاں دیتا تھا۔ بار بار شرم ناک دھمکیاں دیتا تھا۔”
"گالیوں دھمکیوں کے علاوہ؟”
"اورمارتا تھا اور ماں جی اور بابا سائیں کو بھی گالیاں دیتا تھا۔” کمرے میں اس کی سسکی ابھری۔ مرشد کے پہلو میں درد کی لہر کسمسا کر رہ گئی۔ دل نے ایک ذرا ڈبکی سی کھائی تھی۔
"اس سب کے علاوہ اور کسی قسم کی کوئی بدتمیزی کی ہو اس نے؟ کوئی کسی قسم کی کوئی غلط حرکت یا کوئی اور غلط قسم کی بدتمیزی ؟”
"غلط قسم کی بدتمیزی” پر اس نے قدرے زور دیا تھا۔ ساون اور خنجر ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر رہ گئے۔ ساون نے آہستہ سے مرشد کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ مرشد سختی سے ہونٹ بھینچے ساکت بیٹھا تھا۔ زریون کے لہجے اور انداز پر اس بار حجاب بھی اپنی جگہ کسمسا کر رہ گئی۔ وہ مسلسل ایک اعصابی کشیدگی میں مبتلا تھی۔
"نن ،نہیںبس مارتا تھا اور گالیاں دیتا تھا دھمکیاں دیتا تھا۔”
"بس؟” عجب تعجب اور بے یقینی تھی اس کی اس "بس” میں !
"جج ، جی ! ” حجاب کو الجھن اور گھبراہٹ ہونے لگی۔ اسے سمجھ آچکی تھی کہ اس کا شریک حیات درحقیقت کیا جاننا پوچھنا چاہتا ہے اس کے ذہن میں کون سی بے چین فکر پک رہی ہے اور وہ کس حوالے سے اطمینان حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔
"مار پیٹ اور گالیوں دھمکیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا اس نے تمہیں؟ اور کسی طرح کی دست درازی عزت پر کوئی حملہ؟” اس نے صاف اور کھلے لفظوں ہی پوچھ لیا۔ اس کے لہجے میں شوکتے، شکوک و شبہات کو محسوس کرتے ہوئے حجاب سن ہو کر رہ گئی وہ چاہ کر بھی بول نہیں پائی۔ یکایک ہی زبان لکڑی بن گئی تھی۔ حلق میں ایک نمکین گولا سا آپھنسا۔ اس کے سر نفی میں ہلانے پر زریون مزید بولا۔ "یہ چوہدری کوئی شیطان ، کوئی جانور نما چیز ہے۔ اتنے دن تم اس کی قیداس کے قبضے میں رہی ہو پھر ایسا کچھ کیوں نہیں کیا اس نے ؟”
عجیب سوال عجیب الجھن تھی اس کی یا شاید یہ سوال ، یہ سوچ بالکل فطری تھی لیکن اس کا انداز اور موقع محل اس حوالے سے قطعی نا مناسب تھا۔
اس کے اس بےہودہ سوال پر حجاب کے اندر چھناکے سے کچھ ٹوٹ کر بکھرا تھا مگر وہ سمجھ نہیں پائی ایک انتہا درجہ اذیت ناک اور ہتک آمیز احساس اس کے دل کو جیسے ادھیڑ گیا تھا زریون کو اس کے باپ بھائیوں کی موت گھر بار اور فیملی کی تباہی و بربادی سے کہیں زیادہ اس کے بدن میں دل چسپی تھی اس کے اندر کی کوئی فکر یا پریشانی اس کی زبان تک آئی تھی تو محض یہ کہ آیا حجاب کا جسم اس سارے میں دست برد سے محفوظ رہا ہے یا نہیں اس کی پاک دامنی اور دوشیزگی سلامت ہے یا لٹ چکی ؟
وہ خاموش رہی۔ زریون کو جواب اس کی سسکیوں نے دیا۔ ایک ہتک آمیز دکھ اس کے سینے میں گڑ کر رہ گیا تھا۔اس خیال کے ساتھ ہی اس کا زمینمیں اتر جانے کو دل چاہا کہ مرشد کے علاوہ ساون اور خنجر نے بھی زریون کے یہ سوالات سنے ہوں گے۔ یونہی بے اختیار ، اضطراری طور پر اس نے پلکیں اٹھاتے ہوئے ایک اچٹتی سی نظر مرشد کی طرف دیکھا اور ساتھ ہی اس کا دل دھک سے رہ گیا !
مرشد گردن موڑے زریون ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے کے عضلات پوری طرح تنے ہوئے تھے اور آنکھوں میں جیسے لاوا پک رہا تھا۔ ایک لمحے کو ان دونوں کی نظریں ملیں ،حجاب نے فوراً ہی گھبرا کر نظر جھکا لی۔ یہ اندیشہ اس کے دل کو سہما گیا تھا کہ کہیں مرشد ابھی اٹھ کر زریون کو گردن سے دبوچ نہ لے اس کی ذات کے حوالے سے وہ ایسا ہی اور اتنا ہی حساس اور جذباتی تھا۔
ان لمحوں مرشد کا دل چاہ بھی کچھ ایسا ہی رہا تھا۔ زریون بھلے سے حجاب کا منگیتر ہی ہوتا بس ایک سید نا ہوتا اسے سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نسبت نہ ہوتی وہ کسی اور ذات گوت سے ہوتا تو شاید اب تک مرشد اسے گھما کر دیوار کے ساتھ ٹکرا بھی چکا ہوتا لیکن وہ آل نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) اور اولاد علی(رضی اللہ تعالی عنہا) میں سے تھا۔ اس کا رتبہ اور مرتبہ بہت بلند تھا۔ وہ بہت اونچے مقامِ ادب پر تھا سو یہاں…. مرشد بے بس تھامجبور تھا البتہ اس نے زریون کو ٹوکتے ہوئے احساس دلانے کا ارادہ کیا تھا کہ تھوڑا حد میں رہو سوچ سمجھ کر پوچھو کیا پوچھ رہے ہو اگر وہ اپنے اس ارادے پر عمل کر گزرتا تو شاید زریون کو اس کی ایسی مداخلت زیادہ ہی ناگوار گزر جاتی۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ ہتھے سے ہی اکھڑ جاتا لیکن ایسی نوبت نہیں آئی۔
مرشد زریون کو مخاطب کرنے ہی لگا تھا کہ اسی پل حجاب نے اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی، ایک لمحے کو ان کی نظریں روبرو ہوئیں اوربس مرشد اسی حالت میں بیٹھے کا بیٹھا رہ گیا۔ یہ ارادہ ہونٹوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ڈھیر ہوگیا۔ لب بس تھرتھرا کر رہ گئے۔
نظروں کا یہ تصادم یوں تو لمحے بھر کا تھا لیکن یہی ایک لمحہ مرشد کو ٹھٹھکا گیا تھا۔ اس نے حجاب کے روشن چہرے پر ایک سایا سا لہراتے دیکھا۔ اس کی بھیگی ہوئی چمکدار آنکھوں میں بجلی کی سی تیزی سے ایک سراسیمگی ابھری اور اس سراسیمگی کے پار کہیں ایک گھبرائی ہوئی بے چاری سی درخواست گزاری، عرض گزارگی کی کیفیت بھی جھلملا کر رہ گئی تھی۔
ایک لمحہ محض ایک لمحے کی بات تھی اور اس ایک لمحے میں مرشد نے یہ سب رنگ دیکھ لیے تھے دیکھ لیے تھے اور ان کا پس منظر بھی خودکار انداز میں جیسے اس کے دل پر الہام انداز ہو آیا تھا۔ وہ اس کے چہرے پر لہرانے والے سائے اور آنکھوں میں جھلملانے والی سراسیمگی کی وجہ سمجھ گیا تھا کس اندیشے نے اسے یکایک ہولا دیا تھا یہ وہ جان گیا تھا۔اس نے سختی سے ہونٹ بھینچ لیے۔ یوں جیسے کبھی کچھ نہ بولنے کا ارادہ کرلیا ہو۔ کمرے میں موجود دیگر افراد میں سے کسی کو کوئی اندازہ تک نہیں ہوسکا تھا۔ حتی کہ خود حجاب تک کو اندازہ نہیں تھا کہ مرشد اس کے دل و دماغ کی کیفیت کو سمجھ گیا ہے۔ سمجھ گیا ہے اور سمجھتے ہوئے خاموش ہورہا ہے۔
"ساون ! تم ذرا جائزہ اٹھاو�¿جمشید اور د�±لّے (دلشاد) کی بھی خبر لے لو اور خنجر ! تم ذرا کچن میں جھانکو دیکھو تو کتنی دیر ہے۔” مرشد نے سنجیدہ اور سپاٹ لہجے میں کہا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔ ساون نے آنکھیں میچ کر اثبات میں اشارہ دیا اور پھر وہ دونوں اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔ان کے نکلتے ہی خود مرشد بھی اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ زریون بھلے سے حق رکھتا تھا لیکن اس کے سوالات سے مرشد کو عجیب بے بسی، جھجھک اور ندامت کا احساس ہو رہا تھا۔ حجاب کی جھلملاتی ہوئی نظریں اس ندامت کو اور بھی بڑھا گئیں۔ اس کے لیے وہاں بیٹھے رہنا گھٹن کا باعث بن رہا تھا۔
سیڑھیوں کے ساتھ، اسی کمرے کی بغلی طرف وہ اسٹور روم تھا جس کی دیوار میں نقب لگا کر مندر کے ہال کمرے میں راستہ کھولا گیا تھا۔ دلشاد اور جمشید اسی اسٹور کو مورچہ بنائے بیٹھے تھے۔ان دونوں کی خیر خبر لینے کے بعد مرشد نے چھت پر جا کر صورت حال کا جائزہ لیا۔ بارش پہلے کی نسبت تیز ہو چکیتھی۔ اس کے برسنے کی مخصوص آواز قدرت کے دھیمے ساز کی طرح وہاں سارے میں تھرکتی پھر رہی تھی۔ کسی کسی وقت پانی کی مہک سے لدا پھندا ہوا کا کوئی خنک جھونکا کھڑکی سے اندر داخل ہوتا اور پورے کمرے کو بارش کی مخصوص خوشبو سے لبالب بھر جاتاباہر کہیں روشن بلب کی روشنی کے باعث عقبی طرف والی کھڑکی کے پاس کسی کسی وقت چاندی کی لکیریں سی ٹوٹتی چمکتی محسوس ہوتیں اور بارش کی باریک پھوار چاندی کے لشکارے مارتے ذرات کی صورت کھڑکی سے پھوٹ پھوٹ کر اندر آتی دکھائی دیتی۔ اردگرد کہیں اور کوئی آواز تھی نا آہٹ !
ولی خان اور تاجی کے علاوہ ان کے باقی ساتھی بھی پوزیشنوں پر موجود تھے۔ انہوں نے چھت کی چاردیواری کے دوسرے کونے میں ایک عارضی چھپر سا کھڑا کر لیا تھا جس کے نیچے وہ بارش سے محفوظ تھے۔
رات کے تقریباً ڈھائی تین کا وقت ہوچکا تھا۔بظاہر وہ معمول ہی کی طرح ایک عام برستی ہوئی تاریک رات تھی۔ چاروں طرف ایک پرسکون خاموشی اونگھ رہی تھی۔ گویا انسان تو انسان بستی کے آوارہ کتے بھی غٹ پڑے سو رہے ہوں۔ کسی آہٹ، حرکت یا ہلچل کے کہیں کوئی آثار تک محسوس نہیں ہوتے تھے مگر وہ لوگ جانتے تھے کہ وہاں ان کے اردگرد اور بستی میں ایک اچھی خاصی تعداد میں ایسے لوگ موجود تھے جو سو سکتے ہی نہیں تھے انہیں یقین تھا کہ آج رات ان کے ساتھ جہاں ان کے اور بہت سے دوست اور دشمن پوری طرح بیدار اور چوکس ہیں۔ وہیں اس بستی کی بھی بیش تر آبادی جاگ رہی ہے۔ یہ الگ بات تھی کہ پوری بستی میں موت کی سی خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ ہر گھر، ہر چاردیواری کے اندر ایک غیر فطری سا سناٹا جما ہوا تھا اور مسلسل برستی بارش نے جیسے فضا میں دھیمے سروں کا ساز چھیڑ رکھا تھا
وہ سب آپس میں پھر سے صورت حال پر تبصرہ کرنے لگے۔ ایس پی صاحب کو چپ ہوئے گھنٹا پون گھنٹا تو گزر چکا تھا۔ تب سے اردگرد مسلسل خاموشی طاری تھی۔ چوہدری فرزند کے اوپر چھت پر پہنچنے اور گولی چلنے سے چند لمحے پہلے ہی زریون ایس پی صاحب کو اپنی یہاں موجودگی کے متعلق آگاہ کرچکا تھا۔
یہ خاموشی طویل کیوں ہوتی جا رہی تھی وجہ چوہدری لوگ تھے برستی ہوئی بارش تھی زریون کی موجودگی کا انکشاف تھا یا پھر کوئی اور وجہ تھی اس بارے میں ظاہر ہے کہ وہ کسی حتمی فیصلے یا نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ صرف قیاس آرائیاں اور تبادلہ خیال ہی کر سکتے تھے اور وہی وہ کر رہے تھے۔
کچھ ہی دیر بعد نیچے سے کھانا تیار ہونے کی آواز آگئی۔ وہ سب اس کشادہ مکان کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ انہیں ان کی پوزیشنوں ہی پر باری باری کھانا پہنچانے کی زمہ داری اکو، خنجر اور ساون نے مل کر نبھائی۔ خود انہوں نے کھانا نیچے والے کمرے میں کھایا۔ حجاب اور زریون اکھٹے کھا رہے تھے۔
اطراف میں چھائی خاموشی اور سکون سے وہ سب ہی حیرت و الجھن میں پڑ چکے تھے۔ خلاف توقع یہ چپ کچھ زیادہ ہی طوالت اختیار کر گئی تھی۔
کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ وہ اس کی وجوہات پر غور کرتے رہے۔ ساون کے اندازے صورت حال کے قریب قریب تھے۔جس خستہ حال دو منزلہ مکان میں وہ سب اس وقت موجود تھے اس کے اردگرد کی کئی چھتوں پر چوہدریوں کے ڈشکروں کے علاوہ پولیس کے جوان بھی مختلف جگہوں پر پوزیشنیں سنبھالے بیٹھے تھے۔ یہاں سے مشرق کی سمت تین چار سو گز دور بھی ایک پولیس پارٹی اسی طرح مورچہ بند تھی۔ ان کے مقابل دوسری طرف آگے شاہ پور کے غیور اور جری بلوچوں کا مسلح گروہ تھا اور فی الوقت یہ سب بھی ایک منتظر سے اضطراب ایک مضطرب سے انتظار کے عالم میں اپنی اپنی جگہ خاموش مگر چوکس بیٹھے تھے۔
بستی کے مغربی اور جنوبی حصے میں بھی مسلح افراد اور پولیس والے موجود تھے۔ بارش دھیمی رفتار سے مسلسل جاری تھی۔ اب تو سردی بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ ہر چیز شرابور تھی ۔پرنالے مسلسل بہہ رہے تھے ۔گلیاں اور مکانات پوری طرح دھل چکے تھے۔ اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی بادل برسیں گے اورخاصے کھل کر برسیں گے۔ بستی بھر میں بیٹھے ہوئے سب ہی مسلح افراد، پولیس والوں سمیت پچھلے ڈھائی تین گھنٹے سے اپنی اپنی جگہ یوں ہی دبکے بیٹھے تھے۔ ایک سنسنی سی تو پوری بستی کی فضا میں تیرتی پھر رہی تھی لیکن ان مسلح افراد کے اعصاب پر سنسنی کے ساتھ ساتھ ایک تناو�¿ بھی حاوی تھا۔ پولیس والے اس سنسنی اور تناو�¿ کے ساتھ ساتھ ایک اور اضافی پریشانی اور مخمصے کا بھی شکار تھے!
وہ سب یہاں تک چند اشتہاری مجرموں کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے آئے تھے جو ایک مندر میں گھسے بیٹھے تھے لیکن اب اب ان سب کو یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آیا انہیں اب مندر والے اشتہاریوں سے مقابلہ کرنا ہے یا بستی کے اندر اور اردگرد موجود دوسرے مسلح لوگوں سے
یہاں تو کئی مسلح پارٹیاں دوبدو تھیں! سب ہی مرنے مارنے کو پاگل ہوئے جارہے تھے ۔ان کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی سب ملا کر کم از کم بھی دو ڈھائی سو بندے تھے اور ان میں اکثریت کے پاس ایسی جدید اور شان دار رائفلیں تھیں، جنہیں دیکھ کر ہی پولیس والوں کی ہتھیلیوں میں پسینے آگئے تھے۔کچھ لوگ زخمی اور ہلاک ہوئے تھے لیکن اب پولیس کے جوان سوچ رہے تھے کہ اس وقت بستی میں جتنے ہتھیار، جتنا اسلحہ موجود ہے اگر یہ سارے ہتھیار ساری رائفلیں ایک ساتھ استعمال ہونے لگ جائیں ، موت اگلنا شروع کردیں تو کیا ہوگا صبح بستی میں سے کتنی لاشیں اٹھائی جائیں گی خود ان میں سے کون کون زندہ بچے گا اور کیسے بچے گا؟
رات لمحہ لمحہ بارش کے قطروں میں بہتی جا رہی تھی ہوا کے جھونکے رہ رہ کر لڑکھڑاتے ہوئے ادھر ادھر دیواروں، دروازوں اور کھڑکیوں سے تھپیڑوں کی صورت ٹکراتے پھر رہے تھے۔ ایک تناو�¿ بھرے اضطراب کی گہری لہر پوری بستی میں سرسرا رہی تھی۔پولیس سمیت سب مسلح پارٹیاں اپنی اپنی جگہ اس انتظار میں تھیں کہ دیکھیں ان کے بڑوں کے بیچ کیا طے پاتا ہے۔ آنے والے لمحات کیا لے کر آتے ہیں۔ فی الحال تو سب مذاکرات کےلئے اکٹھے ہوگئے تھے پنچایت لگی ہوئی تھیبستی کی جنوب مغربی سمت ، بستی کے بالکل شروع میں کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ دو تین پولیس کی جیپیں بھی تھیں۔ وہاں سے تھوڑے فاصلے پر اندر ایک کشادہ گلی میں بھی دو تین گاڑیاں موجود تھیں اور ان سب گاڑیوں کے اندر مسلح افراد بیٹھے تھے۔
ان کے علاوہ گلی کی نکڑ پر ایک وسیع احاطے والا لکڑی کا ٹال تھا۔ کافی آگے جا کر برآمدہ اور دو تین کمرے تھے۔ برآمدے کے سامنے دو ایمبولینس گاڑیاں کھڑی تھیں۔ برآمدے کے فرش پر ایک قطار میں پانچ لاشیں رکھی گئی تھیں۔ اندر چند زخمی تھے اور چند ایک پولیس والے بھی۔
اس احاطے کی مخالف سمت ، اس کشادہ گلی کی دوسری نکڑ پر نمبردار عمردراز خان دستی کی کوٹھی تھی۔ اس کوٹھی کے اندر شاندار گاڑیوں اور کاروں کے علاوہ چند ایک پولیس جیپیں بھی کھڑی تھیں۔ ان جیپوں میں اگر چند مسلح پولیس والے تھے تو دیگر گاڑیوں میں بھی اسلحہ بردار افراد موجود تھے۔ کچھ مسلح لوگ برآمدے میں بھی دکھائی دے رہے تھے۔ کوٹھی کے اردگرد اور تھوڑے فاصلے پر بستی کے باہر بھی کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں۔
ان سب گاڑیوں جیپوں کے اندر ،اردگرد اور عمردراز خان کی کوٹھی کے اندر اس وقت جتنے لوگ بھی موجود تھے ان سب کے اعصاب بری طرح تنے ہوئے تھے۔ سب ہی کے لہو میں مسلسل ایک سنسنی خیز لہر سی چل رہی تھی اور سب کے سب ہی اپنی اپنی جگہ یوں چوکس تھے کہ وقت اور ضرورت پڑنے پر وہ ایک لمحے کے اندر اپنے ہتھیاروں سے اردگرد موت برسانا شروع کر سکتے تھے۔
ان افراد میں پولیس والوں کے علاوہ نوابوں کے بندے تھے۔ چوہدریوں کے نمک خوار تھے۔ لالا رستم اور آفتاب پنوار کے علاوہ ایک پارٹی کالی قمیضوں اور کالی پگڑیوں والوں کی تھی۔ یہ ملک منصب کی بستی شاہ پور کے بلوچ تھے۔ ان کے علاوہ بھی کچھ مقامی مسلح افراد تھے جو علاقے کے چند دیگر بااثر اور معتبر لوگوں کے ہمراہ یہاں پہنچے تھے۔
آسمانی اور زمینی حالات نے مل کر ماحول کو ایک ہولناک اور اعصاب شکن رنگ دے دیا تھا۔ فی الوقت خاموشی تھی لیکن یہ بڑی خوفناک خاموشی تھی۔ سب سماعتیں گویا ہر گزرتے لمحے کی چاپ ٹٹولنے میں لگی تھیں کسی بھی پل کسی بھی لمحے کے دامن سے قیامت لڑھک کر وہاں حشر برپا کر سکتیتھی۔ سب ہی ایک دوسرے کو دشمن تصور کر رہے تھے سب ہی ایک دوسرے سے خطرہ محسوس کر رہے تھے اور وہ بھی جانی اپنی اپنی جگہ سب ہی کے سینوں میں یہ احساس دھڑک رہا تھا کہ اگر ہم نے اردگرد والوں کو نہ مارا تو یہ ہمیں مار ڈالیں گے !
کوٹھی کی عمارت کے اندرونی حصے میں پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ یہ سارے پولیس والے اسلحے سے پوری طرح لیس اور مستعد تھے۔
کوٹھی کے ایک بند ہال میں گزشتہ دو ڈھائی گھنٹے سے پنچایت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس پنچایت میں علاقے کے بڑے بڑے مگرمچھ انسان شامل تھے۔ شہر کے ڈی سی اور ایس پی صاحب کے علاوہ انتظامیہ کے کچھ دیگر اہلکار بھی بیٹھے تھے اور علاقے کے کئی ملک، چوہدری اور زمیندار بھی چوہدری اکبر اور نواب اسفند یار کے مقابل لالا رستم ، آفتاب پنوار اور ارباب خان قیصرانی موجود تھے۔ان کے علاوہ بھی کئی بااثر شخصیات بیٹھی تھیں۔ ہال تقریباً بھرا ہوا تھا۔ اب سے ایک گھنٹہ پہلے نزدیک نزدیک یہ معاملہ طے پا ہی گیا تھا کہ لالا رستم جا کر مرشد لوگوں سے ملے گا، ان سے بات کرے گا اور ان سب کو زندہ گرفتار کیا جائے گا لیکن پھر ڈپٹی اعوان اور چوہدری فرزند بھی اس پنچایت میں شامل ہو آئے اور بات پھر بگڑ گئی ابھی یہ مقام شکر تھا کہ کسی کو بھی اس ہال میں ہتھیار لے کے نہیں آنے دیا گیا تھااس بات کا با طور خاص خیال رکھتے ہوئے سب ہی کے ہتھیار باہر ہی رکھوا لیے گئے تھے وگرنہ تو شاید اب کی بار اس خونی ہنگامے کی شروعات اسی ہال میں سے ہوتی!
علاقے کے معززین اور پولیس و انتظامیہ کے تمام اہلکاروں کی پوری پوری کوشش تھی کہ کسی بھی طرح کسی بھی صورت یہ سارا فساد سمٹ جائے مسائل اور معاملات مکالمے کے ، بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو جائیں،طے کر لیے جائیں ۔ گولی نا چلے گولی چلنے کی نوبت نہ ہی آئے کیوں کہ وہاں موجود ہر دماغ کو اس بات کا اچھی طرح پوری طرح اندازہ تھا کہ اگر گولی چلتی ہے فیصلہ ہتھیاروں کا رخ اختیار کرتا ہے ،تو اس صورت میں یہاں کیسی تباہی ، کیسی قیامت برپا ہوسکتی ہے غصے ، وحشت اور نفرت جیسے حواس سلب کر لینے والے جذبات و احساس نے سب ہی کے دماغوں کو تو پتھرا رکھا تھا حریف پارٹیوں میں سے کوئی بھی کچھ سننے ماننے کو تیار ہی نہیں تھا سب اپنی اپنی الاپ رہے تھے۔
شاید ان کا بس چلتا تو وہ دانتوں ہی سے ایک دوسرے کی بوٹیاں ادھیڑ کر کھا جاتے۔ صورت حال سلجھنے کی بجائے لمحہ بہ لمحہ مزید الجھتی جا رہی تھی۔ سنگینی میں مزید اضافہ ہورہا تھا۔ کسی بھی پل کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
*********
"یہ لالا رستم لہوری کیا چیز ہے اور تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق واسطہ ہے؟ تمہارا اور تمہارے ان ساتھیوں کا ؟ تم سب نے اس شخص کے کہنے پر خود کو اتنے بڑے عذاب میں پھنسا لیا ہے ،کیوں ؟پیسے کے لیے یا کوئی اور ریزن اور وجہ تھی؟”زریون نے پیالی میں سے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے سنجیدہ اور سوالیہ نظروں سے باری باری ان تینوں کی طرف دیکھا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد اب وہ سب بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ فیروزہ بھی پیالی سنبھالے حجاب کے قریب ہی مسہری پر موجود تھی۔
"لالا رستم کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ ہم سب کا لالا ہے۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ لالا رستم میرا دوست بھی ہے اور بزرگ بھی ایک طرح سے باپ جیسا بزرگ دوست!” مرشد نے بھی گہری سنجیدگی سے جواب دیا۔ شروع سے اب تک زریون کے تیور اور گفتگو کا انداز اسے پسند نہیں آسکا تھا۔ عجیب نخوت اور تکبر سا جھلکتا تھا اس کے لب و لہجے سے۔ جیسے سامنے والے کی کوئی حیثیت اوقات ہی نا ہو ہر وقت ایک ہتک آمیز کاٹ سی بھری رہتی تھی اس کے لہجے میں۔ مرشد کہہ رہا تھا۔
"وہ ہمارے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور اس کے لیے ہم ! رہی بات عذاب والی تو یہاں تھوڑا مقام مرتبے اور جذبے و سوچ کا پھیر بیچ میں آپڑتا
ہے آپ کے نزدیک یہ سارے حالات و واقعات عذاب ہو سکتے ہیں جہاں ہم ہیں وہاں یہ اعزاز و سعادت کا معاملہ ہے۔ ہمارے لیے یہ سب عذاب جیسا نہیں ، جہاد جیسا ہے۔ سرفروشی اور ایمان افروزی کی اس راہ جیسا جس پر قدم رکھنے والے امر ہوجاتے ہیں انہیں موت بھی مار نہیں پاتی۔ بی بی سرکار اور آپ ! آپ دونوں کی حفاظت اور خدمت کرتے ہوئے مرنے کی سعادت نصیب ہوگئی تو یہ ہمارے لیے کائنات کے خزانوں سے بڑھ کر ہو گا شاہ جی !”مرشد متوجہ زریون کی طرف تھا اور مخاطب حجاب سے۔ بات کرتے کرتے ہی اس کے سینے میں گداز بھر آیا اور آواز میں ایک جذب کا سا تاثر۔
زریون قدرے ہونٹ بسور کر بولا۔ "پتا نہیں کیوں لیکن کسی کسی وقت تمہارا کریکٹر مجھے ہضم نہیں ہوتا وہ کیا ہے کہ تمہاری پرسنیلٹی کریکٹر اور تمہارے یہ یہ اس طرح کے "ڈایالوگز” آپس میں ٹھیک سے میچ نہیں کرتے۔”
مرشد لاپروائی سے بولا۔ "کوئی بات نہیں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”
"میں نے تمہارے متعلق تھوڑی سی انکوائری کرائی تھی…. ہیرا منڈی میں خاصا نام اور ٹہکا ہے تمہارا! بھتہ خوری، جوا، شراب ، مار دھاڑ اور بدمعاشی سننے میں آیا ہے کہ وہاں کی طوائفوں اور دلالوں کے جھگڑے پھڈے اور پنچائتیں وغیرہ بھی تم ہی سنبھالتے ہو یہ سب سچ ہے نا ؟”
حجاب کسمسا کر رہ گئی۔ ساون اور خنجر کو بھی اس کا انداز چبھا۔ حجاب اور فیروزہ نے ایک ساتھ مرشد کی طرف دیکھا۔ مرشد کے چہرے پر ایک بے ساختہ دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔
"ہاں جی ! بالکل سچ ہے۔ کبھی کبھی تو دلالوں ،کنجروں کے ساتھ ساتھ کسی نا کسی طوائف کی چھترول بھی کرنی پڑ جاتی ہے مجھے۔ حالاں کہ ان ساری طوائفوں، کنجریوں سے بھی منتھلی وصول کرتا ہوں۔”
"یعنی تمہارا ذریعہ معاش ، آمدنی کا رستہ یہ ہی ہے اور اس کمائی کا کھاتے ہو۔ ویسے آپس کی بات ہے کنجریوں سے پیسے لیتے ہوئے کوئی شرمندگی یا ندامت وغیرہ نہیں ہوتی تمہیں ؟” اس کا انداز ہتک آمیز تھا اور شاید مقصد بھی لیکن مرشد بے ساختہ ہنس پڑا۔ ساتھ ہی فوراً اس نے ہونٹ بھینچتے ہوئے ہاتھ بے ساختہ اپنی پسلیوں پر جما لیا۔ پھر تکلیف کو ضبط کرتے ہوئے مسکراتے ہوئے انداز میں بولا۔
"ندامت کیسی شاہ جی ! میں وصول نہیں کرو گا تو کوئی اور کرنے لگ جائے گا اور ساتھ وہاں گند بھی پھیلائے گا روپیہ پیسہ ہے تو یہ کنجر ہوتا ہے نا مولوی یہ تو روپیہ پیسہ ہی رہتا ہے۔ ہزاروں ، لاکھوں ہاتھوں سے گزرتا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے طریقے اور ضرورت کے مطابق اسے استعمال کرتا ہے اور یہ کسی کے بھی ہاتھ میں رکے بغیر سفر کرتا کرتا گھس پھٹ کر مر م�±ک جاتا ہے لیکن کسی بھی کنجر یا حاجی صاحب کے گھر میں کھونٹا گاڑ کر بیٹھتا نہیں ہے۔”
"ارے واہ جگر ! ” خنجر نے فوراً گردن زرافے کی طرح کھینچ کر ستائشی نظروں سے مرشد کی طرف دیکھا۔ "تم تو شاعری کرنے لگے۔”
زریون نے برا سا منہ بنا کر خنجر کی طرف گھورا۔ "شاعری نہیں ، فلاسفی جھاڑ رہے ہیں یہ مسٹر ! اب کیا لگتا ہے ہمارے مسٹر فلاسفر کو یہاں سے زندہ سلامت نکل پائیں گے یا یہیں جام شہادت نوش فرمائیں گے؟”اس کے لب و لہجے میں طنز ہی طنز تھا کاٹ ہی کاٹ تھی۔ پتا نہیں کیوں شاید یہ تلخی ،یہ نخوت اور غصہ اس کی طبیعت و مزاج کا حصہ تھا یا یا پھر اس بدترین صورت حال نے اس کا مزاج اس حد تک مسخ کر رکھا تھا۔ وجہ جو بھی تھی وہ سب ہی کے لیے ذہنی آزار کا باعث بن رہا تھا اور حجاب کے لیے تو ذہن کے ساتھ ساتھ دل کا بھی !
زریون کا رویہ ، مزاج دیکھ دیکھ، سوچ سوچ اسے پریشانی ہورہی تھی۔ جس طرح وہ مرشد کے ساتھ پیش آرہا تھا اور جس طرح کی باتیں کررہا تھا اس سے حجاب کو شرمندگی بھی ہو رہی تھی اور دکھ بھیشرمندگی تو اس خیال سے ہو رہی تھی کہ مرشد اور اس کے ساتھی کیا سوچتے ہوں گے کہ بی بی کا رشتہ کس طرح کے بندے کے ساتھ طے ہے…. یہ اس کا پھوپھی زاد ہے اور کیسی عجیب طبیعت اور ذہنیت کا مالک ہے۔ شاید وہ دل ہی دل میں اس پر ترس کھا رہے ہوں اوراور شاید وہ زریون کی باتوں اور انداز کو اس ہی کی وجہ سے برداشت اور نظرانداز کرتے آرہے تھے۔ اب یہ پتا نہیں کہ خود زریون کو کیوں سمجھ نہیں آرہی تھی کی اس کا رویہ اور بات چیت قطعی نامناسب ہے!
"جو بھی نصیب ہو گا ، بسم اللہ البتہ آپ دونوں ان شاءاللہ کل دن میں کسی بھی وقت باحفاظت یہاں سے نکل جائیں گے۔” یہ بھی اپنے تئیں اس نے حجاب ہی سے کہا تھا۔
"ہم دونوں کے حوالے سے اس یقین کی وجہ !”
”آپ اپنے متعلق ایس پی صاحب کو بتا چکے ہیں۔ وہ یقیناً آپ کے حوالے سے اس بات کا بندوبست کرلیں گے۔ "
زریون کے تاثرات فوراً ہی تبدیل ہوگئے۔ ” وہ تو دوبارہ بولے ہی نہیں کچھ تو رسپانس آنا چاہیے تھا۔ پتا نہیں کیا سانپ سونگھ گیا ہے سب کو؟”
ساون بولا۔ "بات وہی ہے مذاکرات چل رہے ہوں گے ایس پی صاحب کے ذریعے آپ کے متعلق کچھ اور ذمہ دار افراد تک بھی اطلاع پہنچ چکی ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ سب بیٹھے آپ دونوں ہی کے متعلق کوئی فیصلہ ، کوئی راستہ نکالنے کا منصوبہ بنا رہے ہوں اور یہ فائرنگ وغیرہ بھی اسی وجہ سے رکی ہوئی ہو کہ آپ دونوں یہاں موجود ہیں۔”
” بات پتے کی کہی ہے تم نے ۔” زریون نے ساون سے کہتے ہوئے پر سوچ سی نظروں سے حجاب کی طرف دیکھا۔ "میرا اندازہ بھی تو تقریباً یہی
ہے ڈوگر صاحب نے سو فیصدی میری آواز سنی ہے اور وہ سن کے ان سنی نہیں کر سکتے ضرور باہر کچھ خاص چل رہا ہے۔ ڈوگر صاحب ضرور میرے لئے کچھ نہ کچھ کریں گے۔ تم بالکل تسلی رکھو۔ ہم دونوں اکھٹے نکلیں گے ادھر سے اور صحیح سلامت نکلیں گےان شاءاللہ۔“
وہ حجاب کو تسلی دے رہا تھا لیکن حجاب کا دھیان ٹھیک سے اس کی بات پر نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں مرشد کے الفاظ گردش کر رہے تھے۔
"آپ دونوں کل دن میں کسی بھی وقت یہاں سے نکل جائیں گے۔” حالات کے پیش نظر یہ ایک انہونی ،ایک ناممکن سے بات لگتی تھی لیکن یہ بات مرشد کی زبان سے ادا ہوئی تھی یہ مرشد نے کہا تھا اور اگر مرشد نے کہا تھا تو پھر یہ بات ان ہونی یا ناممکن نہیں رہی تھیضرور مرشد نے کوئی نا کوئی رستہ ، طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ کوئی حل سوچ لیا تھا یا کوئی ایسی بات اسے سمجھ آگئی تھی جس کی بنا پر ایسا ہو سکتا ہوگا۔
یہ الگ بات کہ مرشد نے ایسا محض ایک امکان کے طور پر کہا تھا۔ وگرنہ تو اس کے ذہن میں بدترین خدشات موجود تھے۔ دل دکھا دکھا اور بھرا بھرا سا تھا۔ ساون اٹھ کر اوپری منزل کا چکر لگانے گیا تو زریون بھی اس کے پیچھے ہی نکل گیا۔ خنجر کو باتھ روم کی یاد آگئی۔زریون کے جاتے ہی حجاب مرشد سے مخاطب ہوئی۔
"مرشد جی ! اگر ہو سکے تو آپ کسی بھی طرح یہاں سے نکل جائیں۔” اس کے لب و لہجے میں محسوس کیے جانے والی بے چینی اور فکر مندی تھی۔ وہ مخاطب بھی براہ راست اسی سے ہوئی تھی اپنے اسی مخصوص انداز اور لب و لہجے میں ۔اس کا نام بھی پکارا تھا اس نے مرشد کے رگ و پے میں ایک گہرا سکون اور طمانیت اتر گئی۔ یوں لگا یہ سحر خیز آواز برسوں بعد زمانوں بعد اس سے مخاطب ہوئی ہو۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
"پہلے ایک بار آپ کو آپ کے پھوپھا جی کے سپرد کر لوں پھر اس کے بعد اس بارے میں دیکھوں سوچوں گا۔”
"کل ، پھوپھا جی !” اس نے حیران حیران آنکھوں سے مرشد کی طرف دیکھا۔
"ہاں جی ! کل بلکہ کل کیا آج ہی دوپہر کے بعد کسی بھی وقت ان کی آمد متوقع ہے” وہ ایک لمحے کو پرسوچ انداز میں رکا پھر سر اثبات میں ہلاتے ہوئے دوبارہ بولا۔ ” ایسا ہونا تو چاہیے حالات و واقعات پر غور کریں تو اس بات کے قوی امکان ہیں۔ باقی اس کی مرضی جس نے یہ سارا کھیل رچا ہے۔”
"اگر وہ پہنچ آئے تو پھر ان سے تو میں خود آپ کے بارے میں بات کروں گی۔ وہ سب سنبھال لیں گے۔ آپ لوگوں کے ساتھ پھر کوئی زیادتی نہیں کرسکے گا لیکن لیکن اگر وہ نہیں آتے تو پھر بھی آپ اپنے بچاو�¿ کے راستے کا سوچ رکھیں کسی طرح ممکن ہوسکتا ہے تو ابھی نکل جائیں۔ بارش بھی ہورہی ہے شاید موقع مل جائے۔”اس کے بھولپن اور سادگی پر مرشد کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
"مجھے ایسی کوئی جلدی نہیں سرکار! بارش رک جائے ، دن نکل آئے۔ اس کے بعد ناشتہ وغیرہ کرتے ہیں پھر دیکھتے ہیں، کیا موڈ بنتا ہے۔”
"آپ کو کوئی پریشانی نہیں؟” وہ حیران ہوئی تو فیروزہ مرشد کو گھورتے ہوئے بولی۔
"اول نمبر کا ڈھیٹ ہے یہ۔ آپ کیا سمجھتی ہیں اسے ۔” دم بہ دم مرشد کی گہری ہوتی مسکراہٹ اور آنکھوں میں ابھرتی چمک اسے خوب دکھائی دےرہی تھی۔ مرشد کھل کر مسکرا دیا۔ اسے فیروزہ کی بات ذرا بھی بری نہیں لگی تھی۔ اس کے دل و دماغ کی کیفیت یکایک ہی بدل گئی تھی۔ شاید یہ حجاب کے اس سے مخاطب ہونے کی اثر انگیزی تھی۔ فیروزہ کو مزید شہہ مل گئی۔
"دیکھیں ! آگے سے الٹا دانت نکال رہا ہے۔”
"تو بھی اپنا دیکھ سوچ لے۔ شاہ جی سے پوچھ کر ذہن بنا لے کہ تونے ان کے ساتھ جانا ہے یا یہیں گولی کھا کر مرنا ہے۔”مرشد نے اسے چھیڑا لیکن اس کی یہ بات حجاب کی کنپٹی پر لگی۔ فیروزہ ہنکارہ سا بھر کر بولی۔ "ان کے ساتھ جائیں گی حجاب بی بی۔ میں کیوں جانے لگی میں تو یہیں تمہارے سینے پر مونگ دلوں گی۔”
"اس شوق میں تو نے اپنے سینے پہ گولی کھا کر پھڑک جانا ہے۔”
"تم تو یہ ہی دعا مانگ رہے ہو گے۔ اپنے ہاتھوں سے ہی ایک گولی کیوں نہیں مار دیتے جان چھوٹ جائے گی تمہاری۔”
"میری کہی ہوئی باتیں یاد ہیں نا آپ کو ؟” حجاب کے بولنے پر وہ فوراً اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ وہ اپنی روئی روئی سی شفاف آنکھوں سے اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"جی سرکار ! یاد تو آپ کا کہا ہوا ہر جملہ ہے۔ آپ کن باتوں کا ذکر کر رہی ہیں؟”
"ملتان میں آپ سے کہی تھیں ارباب صاحب کی کوٹھی میں تھے۔ خالہ اور ان کی سزا کے حوالے سے”
مرشد کو فوراً سمجھ آگئی۔ حجاب نے اس سے اماں کی ضد پوری کردینے کا کہا تھا یعنی اپنے اجنبی باپ میر ارشداللہ کو ڈھونڈ کر اماں کے سامنے لے جا کھڑا کرنے کا کہا تھا۔
"جی ! یاد ہے مجھے۔” وہ قدرے سنجیدہ ہو گیا۔ "اگر زندگی کے ساتھ ساتھ حالات و واقعات نے ساتھ دیا تو میں سرکار کا کہا ضرور پورا کروں گا۔”
اس کے لہجے میں گہری اپنائیت بولی تھی۔
حجاب کی کہی ہوئی وہ تمام باتیں بعد میں بھی مرشد کے ذہن میں چکراتی رہی تھیں اسے الجھن اور کش مکش میں مبتلا کرتی رہی تھیں۔ اس وقت اس نے حجاب کے سامنے پورے خلوص اور دیانت داری سے اثبات میں حامی بھر لی تھی۔ بعد میں اسے اندازہ ہوا تھا کہ جو ، جووہ سمجھتا رہا ہے ان کے علاوہ بھی بہت ساری قباحتیں ہیں۔ حجاب کی خواہش کے مطابق وہ خود سے لڑتے ہوئے خود کو رد کر سکتا تھا اپنی نفی کر سکتا تھا لیکن بات یا رکاوٹ کوئی ایک یہ ہی تھوڑی تھی یہ معاملہ اتنا سیدھا اور آسان کہاں تھا کہ وہ کچھ وقت صرف کرتے ہوئے میر ارشداللہ کو ڈھونڈتا اور پھر بازو سے پکڑ کر اماں کے سامنے لے جا کھڑا کرتا نہیں یہ اتنا آسان ہرگز نہیں تھا ! یہ بہت پیچیدہ، بہت ٹیڑھا معاملہ تھا ،اس لیے مرشد نے زیادہ مغز خوری کرنے کی بجائے اسے مناسب وقت تک کے لیے پھر پر اٹھا رکھا تھا۔
چند منٹ گزرے ہوں گے کہ ساون، زریون اور خنجر واپس آگئے۔ اطراف کی صورت حال ہنوز ویسی ہی تھیخاموش اور جمود زدہ سی بارش رک چکی تھی۔ بادل وقفے وقفے سے وارننگ جاری کرتے پھر رہے تھے۔آدھ پون گھنٹا مزید گزرا ہوگا کہ کسی قریبی مسجد سے اذان فجر کی صدا بلند ہوئی اور حجاب بے ساختہ جھرجھری سی لے کر رہ گئی۔ ذہن پلک جھپکنے میں سینکڑوں میل دور نندی پور کی فضاو�¿ں میں جا معلق ہوا تھا۔ روز صبح اس کے بابا سائیں کی ایسی ہی صدا نندی پور کے کچے پکے گھروں میں بیداری کی لہر دوڑایا کرتی تھی ہر روز کی نرم ، نتھری اور اجلی صبح بابا سائیں کی ایسی ہی صدا کے ساتھ اس کے حواسوں پر لمس انداز ہوتی تھی۔
یہ خیال تو کبھی وہم و گمان سے نا گزرا تھا کہ یہ آواز مر جائے گی ہمیشہ کےلیے خاموش ہوجائے گی ، کھو جائے گی اور پھر تا حشر سماعتیں سسکتی بلکتی ہی رہجائیں گی لیکن اس آواز کا کوئی ایک جرعہ، ایک قطرہ تک پھر کبھی نصیب نہیں ہوگا !
ستم رسیدہ بیٹی کی روح میں کرلانے والا پدری شفقت سے محرومی کا جان کاہ کرب منہ زوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حجاب کے ہونٹوں پر سسکی بن کر تڑپا تو وہ وضو کرنے کا کہتی ہوئی اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ برآمدے میں سیڑھیوں کے ساتھ ہی دوسری طرف باتھ روم تھا۔
وہ کمرے سے نکل گئی مگر اس کی سسکی وہی ٹھہر گئی۔ کمرے کی فضا میںمرشد کی سماعتوں میں تب ہی مرشد نے اپنے تن بدن میں بے چینی کے خار سے اگتے ہوئے محسوس کیے کاش کہ کسی بھی طرح ممکن ہو پاتا تو وہ حجاب کی روح کو نیل و نیل کرنے والے یہ سارے دکھ ، سارے درد پل بھر میں سمیٹ لیتا۔ اس کے دماغ سے کھرچ کر نکال پھینکتا۔ کاش کہ اس کے بس میں ہوتا تو وہ اس کی روح میں اترے غم و اندوہ کے سارے زہریلے کانٹے اپنی پلکوں سے چن لیتا۔ کاش کاش کہ اس کے بس میں ایسا کچھ ہوتا مگر ایسا کچھ نہیں تھا، سوائے ایک ایسی بے طلب سی منہ زور اور بے انتہا طاقتور خواہش کےوہ تو اس سے تسلی و ہمدردی کے دو بول بولنے کا بھی حق نہیں رکھتا تھا !
حجاب وضو کرنے گئی تھی۔ زریون فیروزہ کو تسلیاں دینے لگا۔
"بے فکر رہو سب کے لیے کوشش کروںگا تمہارے لیے تو لازمی کروں گا حجاب کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی ہر صورت باحفاظت نکلواو�¿ں گا یہاں سے اور وغیرہ وغیرہ۔ساون اور خنجر چاہ رہے تھے کہ مرشد کچھ دیر کے لیے لیٹ جائے ، آرام کر لے اور اگر گھڑی دو گھڑی نیند کی جھپکی لے لے تو اور بھی اچھا۔ کیوں کہ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ آرام اور ٹھیک سے بیٹھنے میں دشواری محسوس کررہا ہے۔ساون نے اس کی کلائی تھامتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ تمہیں بخار بھی ہے مگر مرشد نے سر جھٹک کر اس کی بات کو نظر انداز کر دیا۔ وہ انہیں نہیں سمجھا سکتا تھا کہ اس کے لہو میں کس بلا کا اضطراب ناچ رہا ہے۔ دل و دماغ میں کیسی ہلچل مچی ہوئی ہے۔
اذان کی صدا ختم ہو چکی تھی۔ خاموشی کچھ زیادہ شدت سے محسوس ہونے لگی۔ مرشد سوچ رہا تھا کہ سرکار کے بعد میں بھی وضو کر کے نماز ادا کر لیتا ہوں۔ کیا پتا کہ اگلی نماز تک زندگی کو مہلت ہو نا ہو جم کے ٹھہرا ہوا پسلیوں اور سینے کا درد بھی تو عجیب سے اندیشے جگائے ہوئے تھا !
بستی پر مسلط گہری خاموشی صبح کے ان لمحوں اچانک ہی درہم برہم ہوئی تھی اور انتہائی لرزا دینے والے انداز میں ہوئی تھی۔ فائرنگ کی بھیانک آواز کے ساتھ ہی ملنگی کی مکروہ للکار بھی سنائی دی تھی اور فاصلہ بھی زیادہ نہیں تھا۔
ایک ساتھ دو تین رائفلیں گرج اٹھی تھیں۔ رائفلیں چلانے والے بشمول ملنگیاس گھر کے صحن میں موجود تھے۔ گولیوں کی یہ اندھی بوچھاڑیں خوف ناک آوازوں کے ساتھ برآمدے کی سنگی جالیوں اور اندر دیواروں سے آکر ٹکرائیں۔ جعفر اور اکو کی حواس باختہ چیختی ہوئی سی آوازیں بلند ہوئیں اور اندر کمرے میں بیٹھے ہوئے وہ سب ہڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
ساون نے کمال پھرتی سے کمرے کے دروازے میں پہنچتے ہوئے صحن کی طرف جوابی برسٹ فائر کیا۔ برآمدے کے وسط میں صرف چھ فٹ کا کھلا راستہ تھا۔ باقی برآمدہ سیمنٹ کی جالیوں سے بند تھا۔ ساون نے درمیان والے حصے ہی کی طرف فائر کیا تھا جو اس کمرے سے قدرے دائیں طرف واقع تھا۔
جعفر غالباً کچھ چیخ رہا تھا۔ مرشد اور خنجر کے دروازے تک پہنچتے ، ساون باہر برآمدے میں جا پہنچا تھا۔ بغلی طرف اسٹور اور مندر کے علاوہ اوپر چھت پر بھی اچانک ہی گولیاں چلنا شروع ہوگئیں۔ یوں محسوس ہوا جیسے اس گھر سے فائرنگ کی اعصاب شکن آواز بلند ہوئی ہو اور بلند ہوتے ہی پوری بستی کے طول و عرض میں پھیلتی چلی گئی ہو۔ یہاں سے مشرق تا مغرب پوری بستی ہی جیسے یکایک کسی میدان جنگ میں بدل گئی تھی۔ دور و نزدیک بس رائفلوں کی تڑتڑاہٹ اور اس تڑتڑاہٹ کے پس منظر میں وحشت ناک آوازوں اور للکاروں کی بازگشت تھی جو بھوتوں کی چنگھاڑوں کی طرح اطرافمیں ڈوب ابھر رہی تھی۔
برآمدے میں پہنچتے ہی مرشد کی سماعت سے حجاب کی چیخیں ٹکرائیں اور ایک منظر اس کی آنکھوں کے رستے اندر پہنچ کر اس کے دل کو جھنجوڑ گیا۔ جعفر فرش پر پڑا تھا۔ اس کی دائیں ران سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا۔ اکو برآمدے کی جالیوں کے ایک سوراخ میں رائفل رکھے فائرنگ کر رہا تھا۔ اس کے قریب ہی ساون موجود تھا۔ برآمدے میں بائیں طرف کونے میں سیڑھیوں کے قریب حجاب دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے دیوار کے ساتھ چمٹی کھڑی چیخ رہی تھی۔ اس نے آنکھیں میچ رکھی تھیں۔ سر جھکا رکھا تھا۔ یوں جیسے گولیاں اسی جگہ چل رہی ہوں۔ مرشد تڑپ کر اس کی طرف بڑھا۔
وہ بری طرح دہشت زدہ ہوگئی تھی۔ فائرنگ کا بھیانک شور تھا ہی اتنا شدید اور بلند کہ خود مرشد نے اپنے رگ و پے میں سنسناہٹ دوڑتی ہوئی محسوس کی۔
"سرکار ! ہم محفوظ ہیں سرکار ! میں یہیں موجود ہوں۔آپ کے پاس ہم محفوظ ہیں۔”مرشد نے قریب پہنچتے ہی تیز لہجے میں کہا۔ حجاب نے بے اختیار اضطراری انداز میں اس کی کلائی تھام لی۔
"پیچھے ہٹ جاو�¿۔”
"ادھراس طرف”
"جعفر”ساون اور اکو چیخے۔ مرشد نے جعفر کو پکارا تھا۔ زریون دہشت زدہ نظروں سے دروازے میں سے گردن نکالے جھانک رہا تھا۔
جعفر خود کو اور اپنی رائفل کو سمیٹتا ، گھسیٹتا بالکل اوٹ میں ہو گیا۔ برآمدے میں موجود دوسرے کمرے میں سے رونے چیخنے کی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ آوازوں میں دہشت کا عنصر غالب تھا۔
مرشد نے آگے بڑھ کر جعفر کے زخم کا جائزہ لیا تو ذہن میں تشویش کی گہری لہر سرایت کر گئی۔ اسے ران پر رائفل کی گولی لگی تھی اور ہڈی سے نچلی طرف کا گوشت پھاڑ کر نکل گئی تھی۔ ران میں آرپار سوراخ تھا۔ گولی غالباً ران کی اندرونی طرف سے گھسی تھی کیوں کہ ادھر سوراخ معمولی تھا جب کہ ران کی بیرونی طرف سے گوشت کا قریب ڈیڑھ انچ لوتھڑا ہی غائب تھا۔ اس سوراخ میں سے خون اچھل اچھل کر باہر آرہا تھا۔
اب تک خوش بختی سے وہ سب محفوظ رہے تھے۔ بس چھوٹی موٹی معمولی نوعیت کی خراشیں تھیں جو سب کے حصے میں آئی تھیں۔ مرشد کو کچھ زیادہ چوٹیں آئی تھیں اور اب جعفر تھا جو صحیح معنوں گھائل ہوا تھادشمن کی طرف سے پہلا گہرا گھاو�¿…. پہلا شد یدنقصان۔اس سے پہلے کہ مرشد کچھ مزید سوچتا یا کرتا فائرنگ کے اس بھیانک اور سماعت شکن شور میں اس کی سماعت تک کچھ دھیمی آوازیں پہنچیں اور وہ بری طرح چونک پڑا۔ ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر سی دوڑ گئی۔
آوازیں کتوں کی تھیں اور یہ دہشت ناک آوازیں وہ پہلے بھی سن چکا تھاباسط سیال کے ڈیرے پر ، اب یہ آوازیں یہاں سنائی دی تھیں۔ اس برآمدے سے باہر، صحن کی طرف سے۔ اس کا رواں رواں سنسنا اٹھا۔آوازیں بہت ساری تھیں اور صحن سے برآمدے کی طرف اڑی آرہی تھیں۔ "جعفر ! پیچھے ہٹو۔ ساون ! ہشیار ! کتے آرہے ہیں۔” مرشد نے تیز لہجے میں چیختے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی اس نے برق رفتاری سے رائفل سنبھالی۔ اتنے میں کتوں کی بھیانک اور پتہ پانی کردینے والی آوازیں اس قدر قریب پہنچ آئیں کہ جیسے وہ برآمدے کے اندر ہی پہنچ آئے ہوں۔ فائرنگ کے شور میں ایک کتے کی وحشت ناک چیخ بھی سنائی دی۔ غالبا وہ ساون کی رائفل کا نشانہ بنا تھا۔
"دروازے کی طرفدروازے کی۔” ساون فائرنگ کرتے ہوئے تیزی سے پیچھے ہٹا۔ دو کتوں کی جھلک ایک ساتھ برآمدے میں گھستی ہوئی دکھائی دی
” یہ بہت سارے ہیں۔ پیچھے ہٹو۔”
"سرکار! سیڑھیوں پر جائیں۔ اوپر اوپر جائیں جلدی۔” مرشد اور ساون ایک ساتھ فائرنگ کرتے ہوئے پیچھے ہٹے۔کتے گولیوں کا نشانہ بنتے ہوئے ایسی غضب ناک آوازوں میں چیخے کہ ان سب کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ رائفلوں کی گولیاں کھانے کے باوجود وہ اپنے زور میں آگے بڑھتے ہوئے اکو پر جھپٹے تھے۔ وہ بے اختیار چیختا ہوا پیچھے ہٹا۔ ان دو کے پیچھے مزید تین تھے۔
حجاب بے اختیار چیختی ہوئی سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔ جعفر بھی ٹانگ گھسیٹتا ہو اٹھ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ اکو کی قمیض برسٹ کھائے کتے کے دانتوں میں آگئی تھی۔ اکو پیچھے ہٹا، کتا درد و غضب سے غراتا ہوا منہ کے بل گرا اور اس کی قمیض پھٹ کر کتے کے منہ ہی میں رہ گئی۔ مرشد اور ساون برابر فائرنگ کرتے ہوئے عقب میں سیڑھیوں تک جا پہنچے تھے۔ اکو نے جعفر کو سہارا دیا اور دونوں اکھٹے سیڑھیوں پر چڑھ گئے۔
زریون اور فیروزہ آگے پیچھے ہی کمرے سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف دوڑے تھے۔ فیروزہ پیچھے تھی۔ پہلے دو کتے نشانہ بن کر بھی مرشد اور ساون کی طرف جھپٹے تھے۔ ان کے بعد آنے والے تین میں سے ایک کے تو سر اور گردن پر برسٹ لگا اور وہ منہ کے بل گرتا ہوا کمرے کی دیوار سے ٹکرایا۔ دوسرا پلک جھپکنے کی سی تیزی سے برآمدے میں موجود دوسرے کمرے کے اندر غائب ہو گیا ، ساتھ ہی اس کمرے سے ایک ساتھ کئی لرزہ خیز چیخیں بلند ہوئیں۔
تیسرے کتے کی پسلیوں میں دو گولیاں گھسی تھیں۔ وہ پھر بھی کربناک انداز میں غراتا ہوا زقند بھر کر فیروزہ پر حملہ آور ہوا۔ اس کا قد کم از کم بھی ڈھائی سے تین فٹ رہا ہوگا۔ سر تربوز کی طرح گول، خاکی رنگ اور جبڑا سیاہ رنگ کا۔ اس کی کمر پتلی تھی اور سینا کسی باڈی بلڈر کی طرح مضبوط اور ٹھوس۔
اس کے دھکے سے فیروزہ بری طرح چیختی ہوئی منہ کے بل گری۔ مرشد اچھی طرح جانتا تھا کہ کتے کی یہ نسل کیسی ظالم اور خطرناک ہے۔ اسے پتا تھا کہ بھلے سے کتے کو گولیاں لگی ہوئی تھیں پھر بھی اگر ایک بار فیروزہ کی گردن اس کے دانتوں اور جبڑے کی گرفت میں آگئی تو اسے موت کے منہ میں جانے سے کوئی نہیں بچا سکتا وہ گر چکی تھی کتا اس کی پیٹھ پر سوار تھا اور وہ عقب سے فیروزہ کی گردن میں دانت اتارنے جارہا تھا۔ یعنی فیروزہ کی دردناک اور حسرت آمیز موت یقینی ہو چکی تھی۔
اکو اور جعفر اوپری زینوں پر تھے۔ ساون بھی زینے پر پاو�¿ں رکھ چکا تھا۔ وہ سب چیخ رہے تھے لیکن سمجھ نہیں آرہی تھی۔ برآمدے کے خلا میں مزید بھی دو کتوں کی جھلک محسوس ہوئی تھی لیکن مرشد کی تمام حسیات ان لمحوں جیسے فیروزہ کی طرف تھیں۔ اس کے اعصاب سختی سے تنے ہوئے تھے۔ پورے وجود میں ایک لہر سی تڑپ رہی تھی۔ اس نے فیروزہ کی پرواہ کیے بغیر رائفل کا رخ ایک ذرا ترچھا کرتے ہوئے ٹریگر دبا دیا۔ گولیوں کی بوچھاڑ نکلی اور فیروزہ کی گردن پر دانت آزمانے والے کتے کی تھوتھنی اور آدھے سر کے پرخچے اڑ گئے۔ خون کا فوارہ سا چھوٹا تھا۔ سیڑھیوں پر سے ساون نے برسٹ فائر کیا۔
فیروزہ لرزتی کانپتی ہوئی سی اٹھ کر زینوں کی طرف لپکی۔ اس کی گردن اور کمر سے قمیض، کتے کے گرم گرم خون سے تر ہوگئی تھی۔ مرشد بھی الٹے قدموں زینوں پر چڑھا۔ چار کتے برآمدے میں پڑے تڑپ رہے تھے۔ بلند چیختی آوازوں میں درد سے کرلا رہے تھے۔دوسری طرف والے کمرے میں ایک کتا مزید گھس چکا تھا۔ ادھر سے کتوں کی خوفناک حیوانی اور دہشت و کرب میں ڈوبی انسانی چیخوں کی لرزا براندام کر دینے والی آوازیں بلند ہورہی تھیں۔دونوں لڑکیاں ، ان کی ماں ، جس کے ہاتھ کا پکا کچھ ہی دیر پہلے ان سب نے کھایا تھا اور باپ وہ سبھی چیخ رہے تھے ، چلا رہے تھے۔ ان کی درد ناک چیخوں سے وہ خستہ درودیوار لرز رہے تھے۔
مرشد کے جی میں آئی کہ وہ آگے بڑھ کر اس بے قصور اور مظلوم فیملی کی مدد کرے قریباً ڈیڑھ گھنٹے پہلے ہی اس نے عورت کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔اس سے تسلی تشفی کی باتیں کہی تھیں۔اس کے جی میں آئی تھی لیکن عملاً وہ ایسا نہیں کر سکا۔ دو کتے برآمدے میں تڑپتے اور خون اگلتے اپنے ہم جنسوں کو پھلانگتے ہوئے اس کی طرف جھپٹ رہے تھے۔ صحن کی طرف ملنگی اور اس کے ساتھیوں کی آوازیں آگے بڑھتے ہوئے بالکل برآمدے کے قریب پہنچ آئی تھیں اور اب کسی بھی لمحے وہ برآمدے کے دروازے یا جالیوں میں سے ان سیڑھیوں پر موجود بندے کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ مرشد نے تیزی سے الٹے قدموں زینے چڑھتے ہوئے ٹریگر دبایا۔ لیکن کتا اپنی جگہ چھوڑ چکا تھا۔ اس نے زقند بھری تھی اور توپ سے نکلے گولے کی سی رفتار سے مرشد کی طرف آیا تھا۔
ساون کے علاوہ باقی ساتھی اوپری کمرے میں پہنچ چکے تھے۔ ساون اوپر والے زینے پر گھٹنا ٹیکے بیٹھا تھا۔ اس نے بھی مرشد کےساتھ ہی کتوں پر برسٹ فائر کیا تھا۔ مرشد کا نشانہ تو چوک گیا البتہ ساون کے برسٹ نے ایک کتے کے کندھے میں شگاف ڈالے جب کہ مرشد پر جھپٹنے والے دوسرے کتے کے کولہے اور عقبی ٹانگوں کو بیکار کر ڈالا۔ کتا وحشت اور کرب سے چیختا ہوا مرشد پر جھپٹا تھا۔ چیتے جیسی زقند بھری تھی اس نےمرشد نے اس کے بھیانک جبڑے کو اپنے چہرے کی طرف لپکتے ہوئے دیکھا۔ سیاہ چہرے میں بے حس قاتل دانت اور اس کی آنکھیں خدا کی پناہ ان زرد زرد آنکھوں میں درندگی اور غضب ناکی کی ایسی خوفناک چمک تھی جو مرشد کے وجود میں برقی رو سی دوڑا گئی۔ اس نے بس اضطراری طور پر اپنی رائفل گھمائی تھی جو اس کتے کے جبڑے پر لگی اور ساتھ ہی وہ ایک زوردار دھچکے سے مرشد کے ساتھ آ ٹکرایا۔
مرشد نے اس کے ٹھوس اور بھاری لمس کو اپنے بازو، سینے اور پہلو سے ٹکراتے ہوئے محسوس کیا۔ کتے کے وجود کی مخصوص حیوانی سی بو اس کے نتھنوں میں گھستی چلی گئی۔کتے کے ٹکراو�¿ کا یہ دھچکا کچھ زیادہ ہی زور کا تھا۔ مرشد کا توازن بھی درست نہیں تھا لہذا وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ رائفل ہاتھ سے چھوٹ کر کتے کے ساتھ ہی نچلے زینوں کی طرف پھسلتی چلی گئی۔ خود مرشد دیوار سے ٹکرا کر سیڑھیوں پر گرا تھا۔ کمر اور دائیں کہنی پر اچھی خاصی چوٹ آئی لیکن ایسے موقعوں پر چوٹوں پہ دھیان ہی کب دیا جاتا ہے وہ بھی پروا کیے بغیر فوراً زینوں پر گھسٹ کر اوپر کی طرف پیچھا ہٹا کہ کتا اس کے پاو�¿ں پر دانت آزمانے جا رہا تھا۔
مرشد کے پاو�¿ں کھنچتے ہی کتا وحشت سے غراتا ہوا پھر سے جھپٹا ساتھ ہی اس کے منہ سے دردناک سی چنگاڑ خارج ہوئی۔ اس کا پچھلا دھڑ خون سے لت پت نچلے زینے پر پڑا تھا۔ غالباً رائفل کا برسٹ اس کے کولہے کی ہڈیاں چکنا چور کر گیا تھا لیکن وہ پھر بھی اپنے شکار کو دبوچ کر اس کی ہڈیاں بوٹیاں بھنبھوڑ ڈالنے کے لیے زور مار رہا تھا۔
مرشد اسی طرح دو تین زینے اوپر چلا گیا۔ ساون پتا نہیں مسلسل کیا چیخ رہا تھا۔ اس کی آوازیں، کتوں کی غراہٹیں اور کرلاہٹیں، کمرے کے اندر سے بلند ہوتی دردناک انسانی چیخیں ، رائفلوں کی تڑتڑاہٹ اور قریب آتے ہیجانی للکارےیہ سارا کچھ ، یہ ساری آوازیں ان لمحوں مرشد کی سماعت تک ایک مشترکہ شور کی صورت میں پہنچ رہی تھیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔اسی پل کتا ایک بار پھر دردیلی غراہٹ کے ساتھ مرشد پر جھپٹنے کے لیے اچھلا لیکن ساون کی رائفل سے نکلنے والی گولیاں اپنے سینے پر لیتا ہوا پلٹ کر گرا اور حلق سے آخری غرغراہٹیں خارج کرتا ہوا زینوں پر لڑھک گیا۔
ٹھیک اسی وقت مزید دو کتوں کے علاوہ برآمدے کے خلا میں دو تین سائے نمودار ہوئے۔ ساون نے فوراً سے پیشتر ان پر فائر جھونکا۔ مرشد بھی اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔دونوں کتے اپنی ہول ناک آوازوں میں انہیں للکارتے پلک جھپکنے کی دیر میں زینوں تک پہنچ آئے لیکن اس سے پہلے کہ وہ اوپر ان تک پہنچتے یا صحن کی طرف سے ملنگی لوگ ان پر فائر کرتے۔ وہ دونوں پلٹ کر اوپر والے کمرے میں داخل ہوگئے۔ ساون نے فوراً دروازہ بند کرتے ہوئے اندر سے کنڈی لگا دی۔ فی الوقت وہ ان بھیانک خون خوار کتوں سے تو محفوظ ہو ہی گئے تھے۔
خنجر اور اکو کمرے کی ٹیوب لائٹ روشن کر کے دائیں ہاتھ کے کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے جعفر کے زخم کے ساتھ مصروف تھے۔ دروازےکے قریب فیروزہ ،حجاب اور زریون موجود تھے۔ فیروزہ لرز رہی تھی۔ کمرے میں خون کی ثقیل بو پھیلی محسوس ہوتی تھی۔ محض دو لمحوں کی تاخیر سے کتوں کی بھاری بھیانک آوازیں سیڑھیوں کے دروازے سے آ ٹکرائیں۔ ساون نے فوراً نیچے بیٹھ کر چھوٹا برسٹ فائر کیا تو دروازے کی دوسری طرف سے کتوں کی بھونکار کریہہ چیخوں میں بدل کر زینوں پر نیچے کو لڑھک گئی۔
"لگتا ہے پولیس والوں سمیت سب مل کر ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں۔” تاجی نے تیز آواز میں کہا۔
"اب اب کیا ہوگیا؟ یہ تو الٹ کام شروع ہوگیا ہے۔” زریون اعصاب زدگی کا شکار تھا۔
مرشد سنجیدگی سے بولا۔ "کچھ نہیں ہوگا شاہ جی ! آپ ادھر دیوار کے ساتھ بیٹھ جائیں۔”
خنجر تشویش سے پکارا۔ "جعفر کا گھاو�¿ خطرناک ہے۔ خون نہیں رکے گا۔”مرشد فوراً اس کے قریب جا پہنچا۔ جعفر خاصی تکلیف میں تھا۔ گولی ٹانگ کی رگوں کو ادھیڑ گئی تھی۔ اکو مضبوطی سے اس کے زخم پر کپڑا دبائے بیٹھا تھا لیکن خون کا اخراج مسلسل جاری تھا۔
"انہوں نے اچانک ہلہ بولاجاجالی میں سے کوئی (ناقابل اشاعت) گولی آ کےوڑ گئی۔” جعفر کراہتے ہوئے بولا۔
مرشد اور اکو نے مل کر اس کے زخم پر کپڑا کس دیا لیکن ان سب کو بخوبی اندازہ تھا کہ یہ ایک قطعی ناکافی اور بے معنی سی حرکت ہے۔ جعفر کو فوری اور مکمل میڈیکل ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی جو ان کے لیے ممکن نا تھا۔
مرشد نے جعفر کی رائفل سنبھال لی۔ ساون سیڑھیوں والا دروازہ کھولے نیچےزینوں کی طرف فائرنگ کر رہا تھا۔ ملنگی اپنے ساتھیوں کے ساتھ برآمدے کے اندر پہنچ آیا تھا۔ تاجی اور ولی خان بھی وقفے وقفے کے ساتھ کھڑکیوں کی اوٹ میں سے فائرنگ کا جواب دے رہے تھے۔ ان کے پیروں میں فرش پر گولیوں کے بہت سارے خول بکھرے ہوئے تھے۔باہر سے آنے والی گولیوں نے چھت اور سامنے کی دیوار کا جو حصہ زخمی کر رکھا تھا وہاں اینٹوں کا کچرا بھی کمرے میں بکھرا ہوا تھا۔
"وہ تمہارے باقی ساتھی اور اور تمہارا لالا رستم کدھر ہیں۔” زریون بولا تھا۔ "یہ یہ سب تو پاگل ہوگئے ہیں۔ پولیس والے بھی نہیں روک رہے انہیں۔”
"لگتا ہے آپ کے ایس پی صاحب اور ان کی پولیس کا زور نہیں چلا ان پر۔”
"پولیس تو شاید خود بھی ان ہی کا ساتھ دے رہی ہے۔” ساون نے کہا۔ قریب دس منٹ تک فائرنگ اسی قیامت خیز شدت کے ساتھ جاری رہی پھر اس شدت میں قدرے کمی آگئی۔ ان کے اردگرد کسی ایک طرف سے فائرنگ رک گئی تھی۔ مغربی سمت بھی ایسی ہی صورت حال تھی البتہ مشرقی سمت اسی وحشیانہ انداز میں دو طرفہ فائرنگ جاری تھی اور آواز مزید قریب آگئی تھی۔ شاہ پور کے بلوچ اپنے حریفوں کو بستی کے اندر دھکیلتے ہوئے کافی آگے بڑھ آئے تھے۔ مرشد لوگوں کی کمین گاہ بنے اس مکان سے محض دو گلیاں پرے وہ اپنے غیر متزلزل حوصلوں کے ساتھ رائفلیں سنبھالے دشمنوں کے ساتھ برسرپیکار تھے۔
فیروزہ مسلسل پشت سے اپنی خون آلود قمیض پکڑے بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ بالکل سفید پڑا ہوا تھا۔ دروازے سے جعفر تک فرش پر خون کی لکیر سی کھنچی ہوئی تھی۔ جعفر کی شلوار کا پانچہ مکمل طور پر پھاڑ دیا گیا تھا۔اس کی بالوں بھری ٹانگ خون سے سرخ ہو رہی تھی۔ خون فرش پر بھی جمع ہورہا تھا۔ کمرے میں اس خون کی بو کے علاوہ بھی ایک جلی سڑی سی ناگوار مہک تھی جو ان کی رائفلوں سے پھوٹ رہی تھی۔ گرم تپے ہوئے لوہے اور سیسے کی رائفلوں کی دہکی ہوئی نالوں سے خارج ہوتی، بارود کے خفیف دھوئیں کی۔ شاید ان ہی دو باتوں کی وجہ سے حجاب کو قے ہوئی تھی۔ وہ وہیں دیوار کے ساتھ کلیجے پر ہاتھ جمائے سر جھکا کر بیٹھ گئی۔ مرشد اٹھ کر رائفل سنبھالے جھکے جھکے انداز میں کمرے سے باہر نکل گیا۔ جعفر کی حالت نے خدشات کےساتھ اس کی تشویش کو بھی مہمیز لگادی تھی۔
باہر کی فضا میں خنکی تھی۔ دھیمی دھیمی ہوا چل رہی تھی۔ اجالا ابھی پوری طرح نہیں پھیلا تھا لیکن رات کی تاریکی میں صبح کی آمیزش ہو چکی تھی۔ چھت اور اردگرد کا ماحول اور منظر دھندلا دھندلا دکھائی دینے لگا تھا۔ بارش رکی ہوئی تھی البتہ ہر چیز گیلی تھی ،دھلی دھلائی سی۔ اسی مکان کی عقبی اور شمالی سمت کی چھتوں پر دشمن موجود تھے۔ وہاں چار دیواری کے کونے میں موجود لالا کے تینوں حواری جوابی کاروائی میں مصروف تھے۔ ان سے محض چند فٹ کے فاصلے پر غالباً باتھ روم یا کچن نما کوٹھری سی تھی جس نے اس مکان کے سامنے کے رخ سے انہیں زبردست آڑ فراہم کر رکھی تھی وگرنہ اس طرف والے مکانوں کی چھتوں سے انہیں نشانہ بنانا جا سکتا تھا۔ اس کوٹھری سے چند قدم آگے، اس چوبارے کے صحن کی چار دیواری ختم ہو جاتی تھی۔
مرشد کونے میں جا پہنچا۔
"ادھر بغلی طرف کون ہے؟ پولیس یا چوہدریوں کے کتے۔ "
کچھ پتا نہیں باوا جی ! تعداد بھی خاصی ہے تھوڑا آگے آگئے ہیں وہ لوگ۔ ” مرشد کے سوال پر ان میں سے ایک نے جواب دیا۔
"پچھلی طرف کی فکر چھوڑ دو۔ ادھر بغلی طرف والی پارٹی پر دھیان دو۔ یہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔”
"ادھر کم از کم بھی اٹھ دس لوگ ہیں اور ہم صرف تین پتا نہیں کتنی دیر روک پاتے ہیں۔”
"جتنی دیر ہوسکے۔” مرشد اسے تھپکی دیتے ہوئے خود کوٹھری کی طرف کھسک گیا۔ کوٹھری کے آگے صحن کا کونا تھا۔ مرشد نے یہاں سے جھانک کر جائزہ لیا۔ بغلی طرف اسی مکان کے صحن کا ایک کونا تھا۔ ادھر تنور اور خشک لکڑیوں کا ڈھیر تھا۔ چند قدم آگے کمروں کے ادھورے چوکھٹے یعنی تین چار ادھورے کمرے تھے۔ کھلا صحن، صحن کے پار سیدھا مشرق کی سمت جاتی کشادہ گلی اور گلی کے ساتھ موجود مکان وہیں ایک مکان کی چھت کی چاردیواری پر نظر جاتے ہی مرشد چونک پڑا۔
وہ مکان بھی دو منزلہ تھا اور اس مکان کی چھت پر کوئی موجود تھا ایک سے زیادہ افراد۔ مرشد نے برساتی کے قریب واضح جھلک دیکھی تھی۔ دو بندے بھاگ کر اس کی اوٹ میں غائب ہوئے تھے۔ لالا کے حواری محفوظ جگہ پر تھے۔ لیکن وہ خود محفوظ نہیں تھا۔ وہ فوراً نیچے بیٹھ گیا۔دشمن اس طرف بھی موجود تھے۔ اب یہ پتا نہیں کہ ان کا رخ اس طرف کو تھا، مشرق کی طرف تھا یا دونوں سمت میں گھات رکھے ہوئے تھے دیوار میں کہیں کہیں ڈیزائن کاری کے طور پر چھوٹے چھوٹے روزن رکھے گئے تھے۔ مرشد نے محتاط انداز میں ان روزنوں سے جھانک جھانک کر اطراف میں دیکھا۔ ایک دو چھتوں پر مسلح افراد کی موجودگی کی تصدیق ہو گئی۔ البتہ وہ مخالف سمت متوجہ تھے۔ مشرق کی طرف سامنے کے رخ گلی میں بھی کچھ لوگوں کی موجودگی ثابت ہوئی تھی۔ دکھائی تو کوئی نہیں دیا تھا لیکن ہیجانی اور سرسراتی ہوئی رنگ برنگی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
مرشد کے ذہن میں چوہدری فرزند اور ملنگی کے چہرے چمک رہے تھے۔ چوہدری کے متعلق اندازہ نہیں تھا لیکن ملنگی اس وقت اس سے زیادہ دور نہیں تھا۔ یقیناً وہ اندر برآمدے میں موجود تھا۔ ایک دو کتوں کی بھاری اور غصیلی آوازیں ابھی تک نیچے برآمدے میں سے بلند ہورہی تھیں البتہ اضافی انسانی چیخوں کی آوازیں دم توڑ چکی تھیں اور شاید چیخنے والے وہ سب بے گناہ انسان بھی مرشد کا دل شدت سے چاہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے نیچے اتر جائے اور برآمدے میں جا کر ملنگی اور اس کے ساتھیوں پر پورا برسٹ خرچ کر دے لیکن ایک احساس اس کے اس خیال اور ارادے کے بیچ حائل رہا اس مکان کا صحن خاصا کشادہ تھا۔ صحن میں بہت سا الم غلم سامان تھا۔ ایک طرف کچھ مویشی بھی تھے اور صحن کا کچھ حصہ نظروں سے اوجھل بھی تھا۔ مرشد کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ صحن میں اور دشمن بھی موجود ہیں گو کہ دکھائی کوئی بھی نہیں دے رہا تھا پھر بھی اس کا دل کہہ رہا تھا کہ چند ایک دشمن صحن میں چھپے بیٹھے ہیں۔ زیادہ نہیں بھی تو ملنگی کے چند ایک ساتھی تو ضرور گھاتیں لگائے ہیں۔ ملنگی ایسے ہی اندر گھسنے والی روح نہ تھی !
چند لمحے کے شش و پنج کے بعد وہ پیچھے ہٹتے ہوئے واپس کمرے میں آگیا۔ جعفر کونے میں بے سدھ پڑا تھا۔ اس پر غشی سی کیفیت طاری تھی۔
رنگت بالکل زرد پڑ چکی تھی۔ اس کے ارد گرد کی جگہ خون کا چھوٹا سا تالاب بنا ہوا تھا۔
"استاد ! اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔” اکو کے بجھے بجھے انداز پر مرشد ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ اسی لمحے خوفناک تڑتڑاہٹ کی آواز کے ساتھ ہی تاجی اپنی جگہ سے تڑپ کر عقب میں گرا۔ گولیوں کی باڑ اس کی آدھی کھوپڑی ہی اڑا گئی تھی۔ اس کے حلق سے ذبح شدہ بکرے جیسی بے معنی آوازیں خارج ہونے لگیں۔ آدھے سر سے سفید بھیجا جھانک رہا تھا۔ خون موٹی اور بھاری پچکاریوں کی صورت فرش پر گل کاریاں کر رہا تھا اور اس کے وجود پر رقص بسمل کی کیفیت طاری تھی۔
یہ بڑا دل خراش اور لرزا دینے والا منظر تھا۔ حجاب اور فیروزہ نے تو بے اختیار چیختے ہوئے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔ فائرنگ دوبارہ شدت اختیار کر گئی تھی۔ مرشد تڑپ کر تاجی کی پوزیشن پر جا پہنچا۔ خنجر بھی اس کے برابر جا کھڑا ہوا۔
سب اپنی اپنی جگہ ، اپنی اپنی بساط کے مطابق دشمن کے خونی جنون کا جواب دینے لگے۔ شاید ان سب کے ستارے گردش میں آچکے تھے۔ اب تک ہم رکاب رہنے والی خوش بختی، خوش نصیبی رخصت ہوچکی تھی۔ ایک ساتھی مارا جاچکا تھا اور دوسرے کے زخموں میں سے لہو کی صورت پل پل زندگی نچڑتی جارہی تھی وہ لمحہ لمحہ موت کی طرف پھسلتا جارہا تھا اوراور شاید باری باری ان سب کا اپنا انجام بھی یہی ہونے والا تھا !
ایک بھیانک اور اعصاب شکن رات گزر چکی تھی اور شدید ہنگامہ خیز اور خوف ناک دن کی شروعات ہو رہی تھی۔ سرمئی اندھیرا صبح کی سفیدی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ آسمان پر سیاہ بادلوں کے جھنڈ گردش کرتے پھر رہے تھے۔ خنک ہوائیں سبک روی سے بہہ رہی تھیں۔ موسم روح پرور تھارومان پرور تھا لیکن بستی چاہ جام والا میں موجود لوگوںکے لیے ایسا نہیں تھا اس بستی میں ایک خونی معرکہ اپنے انجام کو پہنچنے والا تھا۔ کل شام سے جاری تہلکہ اپنی شدتوں کی انتہا کو چھو رہا تھا۔ دور و نزدیک پوری بستی میں جیسے ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ گھروں کی چھتوں پر بھی یہ خونی ہنگامہ ناچتا پھر رہا تھا اور بستی کی کئی گلیوں میں بھی فائرنگ جاری تھی۔ کچھ اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ کون کس طرف سے اور کس پر گولیاں برسا رہا ہے !
سب اپنی اپنی جگہ پتھرائے پتھرائے حواسوں کے ساتھ فائرنگ کرتے رہے۔ در و دیوار دھماکوں سے لرزتے رہے۔ لگتا تھا کہ بس آج سب کچھ ختم ہو جائے گا سب اپنے اپنے گرم خون سے غسل کر کے ٹھنڈے پڑ جائیں گےسب کے سبشاید یہ خونی معرکہ طول پکڑتا چند گھنٹے،سارا دن یا شاید مزید ایک دو دن۔ یہ امکانات بھی اپنی جگہ موجود تھے کہ شاید ان کے حق میں بہتری اور بچت کی صورت حال بن آئے، ان کے اور پولیس کے درمیان معاملات طے پا جائیں لیکن بالکل اچانک ہی وہ ہوگیا جو ان میں سے کسی کے وہم و گمان تک میں نا آیا تھا!!
وہ ایک ایسا زوردار دھماکا تھا جو ان سب ہی کو ب�±ری طرح چونکا گیا تھا۔ پورا کمرا ہی ایک بار تو لرز کر رہ گیا تھا۔
"یہ یہ کیا تھا؟” زریون ہکلایا۔
"شاید وہ خنزیر کا باچا مکان گرانے پر اتر آیا ہے۔ ادھر اس طرف ٹریکٹر کا آواز ہے۔” ولی خان چیختے ہوئے بولا۔ مرشد تڑپ کر عقبی کھڑکی تک پہنچا۔ ادھر کچھ درخت، چند چھتیں اور ایک دو منزلہ مکان تھا۔ دکھائی تو نہیں دیا البتہ ٹریکٹر کی آواز واضح سنائی دینے لگی۔ ولی خان نے ٹھیک کہا تھا۔ کمرے کے در و دیوار پر لرزا دینے والا وہ دھچکا یقیناً ٹریکٹر کی ٹکر ہی کا نتیجہ تھا۔ دشمن اس مکان ہی کو گرا دینے پر اتر آیا تھا جو اب تک ان کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا تھا۔ اتنے میں ٹریکٹر ایک بار پھر مکان کی عقبی دیوار کے ساتھ ٹکرایا۔ اس بار ٹکراو�¿ کی آواز بھی صاف سنائی دی اور دھچکا بھی اتنے زور کا رہا کہ فیروزہ اور حجاب تو بے اختیار چیخ پڑیں۔ فرش ان کے پیروں کے نیچے جھرجھری لے کر رہ گیا اور عقبی دیوار کی جڑ سے ایک باریک سی دراڑ کسی سانپکی طرح اوپر کو رینگتی دکھائی دی تومرشد بے اختیار پوری شدت سے چلایا۔
"باہر نکلو کمرے سے باہر نکلو سب۔ جلدی کرو۔”
ساون اور اکو بے سدھ پڑے جعفر کی طرف جھپٹے۔ زریون سب سے پہلے اٹھ کر دوڑا تھا اور اس کے پیچھے فیروزہ اور حجاب۔ حجاب دوسرے ہی قدم پر اوڑھنی میں الجھ کر منہ کے بل گری۔ مرشد دروازے کی طرف بڑھتے بڑھتے ٹھٹھک گیا۔
"نکلو جلدی کرو۔”
"مرشد”
"سرکار”
مرشد اپنی تکلیفوں کو ضبط کرتے ہوئے حجاب کی طرف جھپٹا۔ روئیں روئیں میں ایک اضطراب ناچ رہا تھا۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ یہ در و دیوار کسی بھی لمحے زمین بوس ہونے والے تھے۔ دشمنوں کا جنون سفاکی کی انتہاو�¿ں کو پہنچ چکا تھا۔ وہ ان سب کو اس مکان کے ملبے ہی میں دفن کر دینے پر تل گئے تھے۔سب آگے پیچھے ہی کمرے سے نکل کر چھت پر پہنچے۔ سب سے پیچھے ساون اور اکو تھے جنہوں نے خون میں لت پت جعفر کو اٹھا رکھا تھا۔
"ادھر اس طرف ”
"مکان گرنے والا ہے اس طرف نہیں۔”
"ادھر سے بچ کر "
"نیچے جھک جاو�¿ نیچے”
سب اپنی اپنی چیخ رہے تھے اور کوئی کسی کی نہیں سن رہا تھا۔ جس کو جدھر سمجھ آئی دوڑ پڑا۔ مرشد حجاب کا ہاتھ تھامے بغلی طرف کوٹھری کے ساتھ موجود کونے کی طرف دوڑا تھا لیکن ابھی وہ کونے سے چند قدم ادھر ہی تھے کہ ان کے عقب میں ایک زوردار کڑاکے کی آواز بلند ہوئی اور کمرہ ایک بھیانک آواز کے ساتھ نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ چھت کا فرش ان کے پیروں تلے ڈگمگایا اور اگلے ہی پل پیروں کے نیچے سے نکلتا چلا گیا۔ مرشد نے بھاگتے بھاگتے خود کو دھچکا لگتا محسوس کیا اور پھر جیسے اس کا وجود ہوا میں معلق ہو گیا۔ حجاب کی تیز چیخ کے علاوہ کچھ اور آوازیں ،چیخیں بھی برق رفتاری سے اس کی سماعتوں سے رگڑ کھا کر گزریں۔ رائفلوں کی تڑتڑاہٹ بھی تھی لیکن سب سے بلند اور خوفناک آواز تھی پختہ دیوار کے ٹوٹنے ٹکرانے اور گرنے کی وہ پورا مکان ہی زمین بوس ہو رہا تھا۔
حجاب کی چیخ کے ساتھ ہی لاشعوری طور پر اس کی کلائی پر مرشد کی گرفت مضبوط ہو گئی تھی۔ دونوں اپنی ہی جھونک میں منہ کے بل گرے اور سامنے کی طرف گرتے ہی چلے گئے۔ مرشد نے بے اختیار حجاب کو تھامنے سنبھالنے کی لایعنی سی کوشش کی ۔گرتی ہوئی چھت ، دائیں ہاتھ صحن میں موجود تنور سے آگے کھڑے ادھورے کمرے کی دیوار کے ساتھ ایک دھماکے سے ٹکرائی اس ٹکراو�¿ کے ساتھ ہی مرشد اور حجاب بھی چھت اور دیوار کے ساتھ ٹکرائے اور دیوار کے ساتھ ہی دوسری جانب گرتے چلے گئے۔ حجاب کے حلق سے دردناک چیخ خارج ہوئی تو مرشد کو خود اپنی کراہ بھی سنائی دی۔
پہلے سے دکھتی پسلیوں اور کمر پر جیسے کوئی پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ جھٹکا اعصاب شکن تھا اور ضرب ایسی جان لیوا کہ اس کا سانس سینے کے اندر ہی پھنس کر رہ گیا۔ اگلے ہی پل وہ چھت اور دیوار کے اس ملبے کے ساتھ ملبہ ہو کر دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔وجود کا رواں رواں جھنجھنا کر رہ گیا تھا۔ سانس سینے میں ہی اٹک کر رہ گئی۔ نیچے گرتے ہی اس نے تڑپ کر حجاب کو دیکھنا چاہا کہ ذہن میں واحد خیال اسی کے حوالے سے تھا لیکن وہ صرف چاہ کر رہ گیا۔ اس پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ اس کے اعصاب ، اس کا وجود اس کی سوچ اور ارادے کے منکر ہوچکے ہیں جسم نے اس کا ساتھدینے سے انکار کر دیا تھا!
دماغ پر گہرے اندھیرے سے اترے چلے آئے اس کے ذہن میں بس یہ احساس تھا کہ اس کی آنکھوں میں مٹی بھر گئی ہے۔ پسلیوں کی دو تین ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ اس کی ٹانگیں ملبے کے نیچے دبی ہوئی تھیں تو کچھ اینٹوں کی ضربیں اسے اپنے سینے اور گردن پر بھی محسوس ہوئی تھیں۔ سر اور کنپٹی پر بھی چوٹیں آئی تھیں۔ اس کے بعد کچھ دیر کےلیے تو اس کے حواس بالکل ہی ساتھ چھوڑ گئے۔ کھوپڑی کے اندر جیسے گھور تاریکیوں کا پورا سمندر اتر آیا تھا۔ اس گہری تاریکی میں بس ایک گونج کی آواز شوکتی رہ گئی تیز چکراتی ہوئی سیٹی جیسی گونج ذہن کی یہ حالت ، یہ کیفیت محض چند لمحے کے لیے رہی پھر دور کہیں ایک ساتھ کئی رائفلوں کی گھن گرج بلند ہوئی اور ساتھ ہی بہت سارے ہیجانی اور پر تپش للکارے اور نعرے گونجے تو اس کے ذہن میں بجلی کی سی تیزی سے حجاب کا خیال چمکا وہ بھی تو اس کے ساتھ ہی گری تھی!
ذہن پر مسلط اندھیرے سرعت سے سمٹتے چلے گئے۔ ساتھ ہی وجود میں ایک ساتھ تکلیف کی کئی لہریں اٹھیں۔ وہ ہیجانی اور وحشی للکارے کہیں دور سے بلند نہیں ہوئے تھے۔ وہ آوازیں اس سے زیادہ دور بھی نہیں تھیں۔ پتا نہیں وہ کس گروہ کے بندے تھے۔ کئی ایک آوازیں تھیں۔ وہ ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے صحن کے کسی حصے سے اسی طرف لپکتے آرہے تھے۔مرشد نے چکراتے سر کے ساتھ ملبے میں سے ٹانگیں کھینچی۔ اس کے اطراف میں گرد و غبار کا طوفان تھا اور سماعت میں مکان منہدم ہونے کے دھماکے کی بازگشت۔
"سرکار سرکار !“ ہونٹوں نے بے ساختہ حجاب کو پکارا۔ ساتھ ہی اسے کھانسی آگئی۔ دھول جا کے سیدھی حلق سے ٹکرائی تھی۔ کھانسی کے ساتھ ہی کمر اور پسلیوں میں درد کے بھنور تڑپ اٹھے۔ وہ ٹانگیں سمیٹتے ہوئے اٹھنے کی کوشش میں وہیں ڈھیر ہوگیا۔ دل و دماغ میں زلزلے برپا تھے۔ سینے میں دھماکے سے ہو رہے تھے۔چھت گرتے وقت بالکل آخری لمحوں میں ایک جھلک خنجر کی دکھائی دی تھی اسے۔ وہ بھی اس لمحے ہوا میں معلق تھا۔ اب یہ پتا نہیں کہ وہ گر رہا تھا یا اس نے خود چھلانگ لگائی تھی۔ باقی ساتھیوں کا پتا نہیں تھا۔ ساون اور اکو تو جعفر کو اٹھائے سب سے پیچھے تھے۔ پتا نہیں ان کا کیا بنا تھا۔ ابھی مسلح دشمن سر پر موجود تھے۔
مرشد نے بیقراری سے اپنے اردگرد ہاتھ چلائے۔ رائفل پتا نہیں کب ہاتھ سے نکل کر کہاں جا گری تھی۔ اسی پل حجاب کی کراہ اس کو تن من سے جھنجھوڑ گئی۔ وہ اس سے آگے دوسری دیوار کے ساتھ مٹی میں مٹی ہوئی پڑی تھی۔
"سرکار !” وہ اپنے پھوڑا بنے وجود کی تکلیفیں بھول کر تڑپتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔ اس کی کنپٹی سے خون بہہ رہا تھا۔ مرشد نے فوراً اس پر سے مٹی اور اینٹیں ہٹائیں۔ حجاب ہوش میں تھی البتہ چوٹیں اسے بھی آئی تھیں۔ کنپٹی سے خون بہہ رہا تھا۔
”سرکار سرکار ! آپ، آپ ٹھیک تو ہیں۔ زیادہ چوٹیں تو نہیں آئیں۔ ا“س کا اپنا سر چکرا رہا تھا۔ وجود کا رواں رواں چیخ رہا تھا لیکن حجاب کی خون آلود کنپٹی پر نظر پڑتے ہی باقی سب جیسے اسے بھول گیا تھا۔ دل میں یکایک کتنے ہی دل دوز خدشات دھڑک اٹھے تھے۔یہ سارا کچھ صرف چند لمحوں میں ہو گزرا تھا۔
ہیجانی آوازوں کا شور عین سر پر پہنچ آیا ۔ حجاب ٹھیک سے اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔ کچھ اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کی جسمانی حالت کیا ہے۔ خود مرشد کی اپنی حالت انتہائی دگرگوں تھی اس کے باوجود وہ اپنے زخم زخم وجود کی بچی کھچی توانائیاں سمیٹ کر ایک ادھ ٹوٹی اینٹ سنبھالتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
آنے والے آٹھ دس بندے تھے اور سب ہی کے ہاتھوں میں رائفلیں تھیں۔ چہرے جوش و جنوں سے تمتمائے ہوئے اور آنکھوں میں نفرت اور
درندگی کی سفاک چمک۔
وہ آٹھ دس تھے اور مرشد اکیلا اکیلا بھی اور جسمانی طور پر کمزور اور زخمی بھی۔ اس کے ہاتھ میں موجود اینٹ ان میں سے ایک کے ماتھے کی ہڈی چٹخاگئی لیکن باقی سب اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس نے مزاحمت کی اپنی سی کوشش کی مگر وجود میں سکت ہی کہاں تھی وہ سب ہی مغلظات بکتے ہوئے ایک ساتھ اس پر حملہ آور ہوگئے اور مرشد لڑکھڑا کر گر پڑا۔ گر کر دوبارہ اٹھا اور پھر سے گر پڑا۔اس کے وجود پر ٹھوکریں برس رہی تھیں۔ رائفلوں کے بٹ پڑ رہے تھے لیکن اسے تکلیف محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ حواس اور محسوسات جیسے پتھرا چکے تھے۔ اس پتھریلے پن میں کہیں کوئی نرم خیال یا فکر تھی تو بس اس معصوم جان کی جسے اب تک وہ مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچاتا آیا تھا۔ جس کی تکلیف اور دکھ کے خیال ہی سے اس کا دل بیٹھنے لگتا تھا۔ دم گھٹ سا جاتا تھا۔ اب اب ان سنگین ترین لمحات میں کوئی اس کے اندر چیخ چیخ کر یہ شور مچا رہا تھا کہ وہ نازک جان بری طرح زخمی ہے اور مزید کچھ ہی دیر تک اس کی اپنی موت کے بعد اس مظلوم اور بے چاری روح پر قیامت کے عذاب اترنے والے ہیں ان سارے بھیڑیوں نے مل کر اس کے وجود کا ریشہ ریشہ ادھیڑ ڈالنا تھا۔ اسے ایک درد بھری ذلت انگیز موت مارنا تھا!
مرشد نے بہت چاہا کہ اپنے وجود کی توانائیوں کو یکجا کر کے مزاحمت کا حق ادا کر دے۔ پورے جی جان سے اپنے ان حریفوں سے بھڑ جائے اور سب کو کھدیڑ کر رکھ دے۔ اس نے کوشش بھی کی لیکن یہ بہت کمزور ، بہت ناتواں کوشش تھی۔ دشمن زیادہ تھے اور پوری طرح بپھرے ہوئے تھے۔
ان ہی ٹھوکروں ، ضربوں اور کھینچاتانی کے درمیان اس نے ایک جھلک سی دیکھی کہ سرتاپا خاک آلود حجاب دیوار کا سہارا لیتی ہوئی اٹھ رہی ہے اور ایک اونچا لمبا رائفل بردار اس پر جھپٹ رہا ہے۔ حجاب کے خاک آلود چہرے کا دایاں حصہ لہو سے لال ہورہا تھا اور اس کے چہرے پر گہری تکلیف کے آثار کھنڈے ہوئے تھے۔ مرشد نے غضب ناک انداز میں ایک حملہ آور سے رائفل چھیننے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
وہ سب اسے گھسیٹ کر صحن کی طرف لے گئے۔ مرشد کو ایک جھلک ملنگی کی دکھائی دی اور ساتھ ہی خنجر بھی نظر آیا۔ وہ بھی زخمی تھا۔ ملنگی دو تین آدمیوں کے ساتھ مل کر اسے زود کوب کررہا تھا۔ مکان کی جگہ ملبے کا ڈھیر پڑا تھا اور ڈھیر کی دوسری طرف سے کئی مسلح افراد للکارے مارتے ہوئے اس ڈھیر پر چڑھتے آرہے تھے۔ ان میں چند پولیس والے بھی شامل تھے۔ سب سے آگے ان کا بدترین دشمن اور اس دنیا کا بدترین انسان تھا چوہدری فرزند علی !
یہ سارا کچھ بس لمحے بھر کی جھلک میں دکھائی دیا تھا اسے۔ اگلے ہی لمحے کمر میں پڑنے والی زور دار لات نے اسے دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔ اردگرد کہیں کتے بھی بھونک رہے تھے۔بستی کے دیگر مقامات پر بدستور ویسے ہی فائرنگ جاری تھی بلکہ اس میں کئی گنا شدت آچکی تھی۔ اس مکان، اس وسیع صحن کی چار دیواری کے اندر رنگ برنگی آوازیں، پکاریں اور وحشت خیز للکارے گونج رہے تھے۔ ملنگی اور چوہدری کے بندے ہوائی برسٹ بھی فائر کر رہے تھے۔ یہ ان کا فتح اور جیت کا اظہار تھا۔ انھوں نے اپنے حریفوں کو مار گرایا تھا۔ ان پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اور اب اس ملبے میں زندہ بچے اپنے باقی مجرموں کو بھی وہ عبرت ناک انجام سے دو چار کرنے والے تھے۔ چند افراد نے مل کر ملبے میں سے زخمی اکو اور جعفر کو بھی کھینچ نکالا تھا۔
"مرشد جی“ ایک دہشت زدہ لرزیدہ سی چیخ تھی پکار تھی یا فریاد تھی اس شور محشر میں مدہم سی صدا کی صورت حجاب کی یہ آواز مرشد کی سماعتوں تک پہنچی۔ اس نے خون سے چپچپائی آنکھوں کے ساتھ دیکھا۔ حجاب اس سے محض تین چار قدم کے فاصلے پر تھی۔ ایک گرانڈیل رائفل بردار اسے چ�±ٹیا سے دبوچے گھسیٹ رہا تھا اور اس کے چہرے پر بے حد و حساب تکلیف و بے بسی کے تاثرات جمے ہوئے تھے۔اس نے ایک ہاتھ سے اپنی چ�±ٹیا پر موجود رائفل بردار کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور دوسرا ہاتھ دوسرا ہاتھ مرشد کی طرف بڑھا ہوا تھا۔ بے ساختہ، اضطراری انداز میں۔
اس کی دہشت سے پھٹتی آنکھیں بھی ٹھوکریں کھاتے مرشد پر ہی جمی ہوئی تھیں اور وہ چیخ رہی تھی پکار رہی تھی۔
یہ نظر سوز نظارہ مرشد کی بصارتیں زخما گیا۔ حجاب کی چیختی آواز سماعتوں کے رستے وجود میں اتری اور وجود کے ذرے ذرے کو بری طرح جھنجھنا گئی، جھنجھوڑ گئی۔ ایک عجیب لہر سی تھی۔ مرشد نے اپنے وجود کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس کیے اور اگلے ہی پل اس کے حلق سے ایسی چنگھاڑ نمابلند آواز خارج ہوئی کہ اس سے چمٹے سب ہی افراد ایک بار تو ہل کر رہ گئے۔
ان کی ٹھوکروں میں دھول چاٹتا ہوا مرشد اچانک ہی دھاڑتا ہوا اٹھا تھا۔ پتا نہیں اس کے نیم مردہ وجود میں یکایک اتنی طاقت کہاں سے آگئی تھی۔ اس نے اٹھتے ہوئے ایک بندے کو ٹانگ سے کھینچ کر گرایا تھا اور دوسرے کو، ٹانگوں میں سر دے کر یوں اٹھا لیا تھا جیسے ب�±ل فائٹر کو بھڑکا ہوا سانڈ سینگوں پر اٹھا کر اچھال پھینکتا ہے۔ مرشد نے بھی اسی طرح اس رائفل بردار کو اس کے تیسرے ساتھی پر الٹ دیا۔اس لمحے تمام جسمانی تکلیفوں اور کمزوریوں کے احساس کو اس کے دماغ نے کہیں ایک طرف دھکیل دیا تھا اور اس کے پیش نظر صرف ایک منظر رکھ دیا تھا ایک درندہ بے رحمی سے حجاب کو گھسیٹ کر چوہدری کی طرف لے جا رہا تھا۔ چوہدری ملبے کے ڈھیر پرپڑے جعفر پر نظر پڑتے ہی ٹھٹھک کر اس کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
مرشد پوری شدت سے دھاڑتا ہوا آگے بڑھا لیکن دوسرے ہی قدم پر دو افراد پھر اس سے لپٹ گئے مگر یہ ان دونوں کےلیے بہت برا ثابت ہوا تینوں اک ساتھ لڑکھڑا کر گرے تھے۔ گرتے وقت مرشد کا ہاتھ ایک کے گلے پر پڑ گیا۔ پہلے وہ بندہ گرا اور اس کے چہرے کے عین اوپر مرشد کی پر غضب ٹکر اس ٹکر میں بے پناہ وحشت تھی۔ قیامت خیز اضطراب تھا۔ہڈی ٹوٹنے کی آواز کے ساتھ ہی اس کے حلق سے ایسی کرب ناک آواز نکلی کہ پتا پانی ہو جائے دوسرے کے منہ پر مرشد کی کہنی پڑی اور اس کا جبڑا بھی اپنی جگہ چھوڑ گیا۔مرشد تڑپ کر اٹھا ، رگ و پے میں عجیب وحشت ناک توانائیاں بھر آئی تھیں۔ شاید یہ چراغ کے بجھنے سے پہلے والی پھڑپھڑاہٹ تھی۔ پانچ چھ افراد ایک ساتھ گالیاں بکتے ہوئے اس پر جھپٹے لیکن مرشد میں تو اچانک جیسے کوئی آسیب گھس آیا تھا۔ اس کے زخم زخم خون آلود وجود میں جیسے بجلیاں تڑپ اٹھی تھیں۔اس کچے اور گیلے صحن میں یکایک یہ ہنگامہ ، یہ دوبدو لڑائی ایک نئی شدت ، نئی تیزی اختیار کر گئی۔مرشد اکیلا تھا اور اس پر حملہ آور افراد کی تعداد کم از کم بھی دس تھی۔ وہ سب ہی رائفلوں سے مسلح تھے۔ جبکہ مرشد کے ہاتھ میں ایک ادھ ٹوٹی اینٹ کا ٹکرا تھا۔
ملنگی، خنجر کو چار بندوں سے برسرپیکار چھوڑ کر رائفل سنبھالتا اور کچھ چیختا ہوا مرشد کی طرف لپکا۔ خنجر پٹ رہا تھا اور حلق کے بل پیٹنے والوں کو گالیاں دے رہا تھا۔ ملبے کے ڈھیرکے قریب چوہدری فرزند نیم مردہ جعفر کے چہرے پر جنونی انداز میں ٹھوکریں برسا رہا تھا۔ اس کے اپنے منہ سر پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اسے یہ سب زخم، یہ یادگار چوٹیں مرشد نے پہچائی تھیں اور کچھ حصہ جعفر نے بھی ڈالا تھا
مندر میں اس نے چوہدری کے منہ پر بہت سے تھپڑ مارے تھے اور خوب ٹکا کر پھینٹی بھی لگائی تھی۔ اب محض ایک رات کے وقفے سے ساری بساط ہی الٹ پلٹ گئی تھی۔ صورت حال ان کے خلاف بدترین حد سے آگے آکھڑی ہوئی تھی۔مرشد چوہدری کو للکار رہا تھا۔ ملنگی کو دھمکیاں دے رہا تھا اور ساتھ ساتھ سرکار، سرکار بھی پکار رہا تھا۔ ہاہاکار ایسی مچی ہوئی تھی کہ کسی کی کوئی آواز بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ بامشکل ایک منٹ یہ وحشت ناک ہنگامہ جاری رہا ہوگا پھر مرشد ہانپ گیا بری طرح اعصاب بالکل ہی شل ہوگئے اور وہ منہ کے بل گر پڑا۔ اس کی قمیض چیتھڑوں میں بدل چکی تھی۔ سر سے بہنے والے خون نے آنکھوں میں اتر کر نظر کے سامنے ایک سرخ چادر سی پھیلا دی۔
ملنگی اس کی پسلیوں اور کمر میں ٹھڈے ماررہا تھا لیکن مرشد کسی بے جان لاش کی طرح پڑا تھا۔ یہ ٹھوکریں گویا اس کے نہیں ، کسی اور کے وجود پر پڑ رہی تھیں۔ یہ ٹھوکریں ، یہ ضربیں محض ایک لمس ، ایک بے ضرر جھنجھناہٹ کی صورت اس کے حواسوں تک پہنچ رہی تھیں اور بس درد و تکلیف کا کہیں کوئی احساس نہیں تھا ہاں البتہ ایک بے کراں دکھ کا مہیب احساس ضرور تھا۔ حواسوں کو سن اور دل کو برف کر دینے والا دکھ بے بسی اور لاچاری کا شدید احساس تھا جس نے سانس تک گھونٹ ڈالی تھیں۔ اس کی لہو سے نچڑتی آنکھیں مکان کے ملبے کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔
سرخی میں ڈوبا دھندلا دھندلا منظر تھا۔ رائفل بردار نے حجاب کو ملبے کے قریب جا پھینکا تھا۔ جعفر کو ٹھڈے ٹھوکریں مارتا چوہدری غضب ناکی سے اس کی طرف جھپٹا، ٹھٹھکا پھر اس نے جعفر کی طرف دیکھا۔ مرشد سینے میں بچی کچھی قوت سمیٹ کر چلا رہا تھا۔ چوہدری اور ملنگی کو اپنے ساتھیوں پر رحم کرنے کا کہہ رہا تھا۔ حجاب کو چھوڑ دینے کا کہہ رہا تھا۔ اس کے حوصلے بالکل ٹوٹ بکھر چکے تھے۔ اسے شاید خود ہی احساس نہیں تھا کہ وہ کیا بولے جا رہا ہے۔ اس کے ذہن میں تاریک بگولے چکرا رہے تھے اور پورے وجود میں دھماکے سے ہوئے جارہے تھے۔
پھر اس کی آنکھوں نے اسے زندگی کا ایک اور بھیانک اور بدترین منظر دکھایا۔ ایسا منظر جس نے آئندہ ہمیشہ اس کے حافظے میں گڑے رہنا تھا۔
چوہدری فرزند نے یکایک رائفل سیدھی کی اور جعفر، اکو پر فائر کھول دیا۔ رائفل کی بھیانک تڑتڑاہٹ کے ساتھ ہی مرشد نے ان دونوں کے زخم زخم نیم مردہ جسموں کو بری طرح تڑپتے پھڑکتے ہوئے دیکھا۔ اس نے بے اختیار اٹھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن لڑکھڑا کر گر پڑا۔ وہ اپنے حلق کی پوری وقوت سے چیخ بھی رہا تھا لیکن اس کے حلق سے نکلنے والی آواز خود اسے بھی بامشکل سنائی دے رہی تھی۔ مغربی سمت فائرنگ رکی ہوئی تھی اور میگافون پر کچھ کہا جا رہا تھا۔ آواز سے یوں لگتا تھا کہ بولنے والا کسی گاڑی پر سوار ہے اور گاڑی اسی سمت بڑھی آرہی ہے۔
چوہدری فرزند نے جعفر اور اکو کے جسموں میں پورا پورا برسٹ اتارتے ہی نفرت و حقارت سے ان کے پھڑکتے لرزتے جسموں پر تھوکا ،دو چار ٹھوکریں رسید کی اور پھر فوراً ہی حجاب پر ٹوٹ پڑا۔ وہ جو چہرہ چھپائے ہذیانی انداز میں چیخے جارہی تھی۔ کمر میں لات کھا کر گیلی زمین پر قلابازی ہی کھا گئی۔
مرشد پھر اٹھا اور رائفل کا بٹ کھا کر گر پڑا ، پھر اٹھنے کی کوشش میں لات کھا کر لڑھک گیا۔ اس کی نظریں چند فٹ آگے جانوروں کو چارا ڈالنے والی لکڑی کی کھرلی پر جمی ہوئی تھیں۔ کھرلی کے چار پہیے تھے اور وہیں ایک پہیے کی اوٹ سے ایک کلہاڑی کا پھل جھلک دکھا رہا تھا۔
چوہدری کی دوسری لات کھا کر حجاب بھی کھرلی کی سمت گری اور مرشد بھی وہاں سے قریب ہی تھا۔ وہیں سے دائیں ہاتھ خنجر سے چار بندے چمٹے ہوئے تھے۔ ملنگی کی مزید ایک ٹھوکر نے مرشد کو کھرلی تک پہنچا دیا۔ دو قدم آگے حجاب چوہدری کی ٹھوکروں میں لوٹ پوٹ ہورہی تھی۔ اس کی چیخیں جیسے زمین و آسمان کی وسعتوں میں گونج رہی تھیں۔ مرشد کی سماعت سے باقی تمام آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔ گالیاں للکارےبڑکیں ہوائی فائرنگسب آوازیں بس حجاب کی دل دوز چیخیں تھیں جو اس کے جسم و جاں کو جھنجھوڑے جا رہی تھیں۔
وہ کھرلی کے بالکل قریب گرا تھا۔ اس کا جسم کپڑے اور ہاتھ پاو�¿ں کیچڑ نما مٹی میں نہا چکے تھے۔ اس نے جسم کی اوٹ سے ہاتھ کلہاڑی کی طرف بڑھایا اور جیسے ہی ہاتھ کلہاڑی کے پھل کو چھوتا ہوا اس کے دستے تک پہنچا، ہاتھ کی انگلیوں سے ایک حوصلہ افزا ولولہ خیز سنسنی کی تیز لہر اس کے بازو اور بازو سے سارے وجود میں دوڑتی چلی گئی۔
سامنے موجود چوہدری کے ہاتھوں میں رائفل تھی اور عقب میں ملنگی کے ہاتھوں میں بھی۔ ان کے علاوہ کم از کم ڈیڑھ دو درجن مسلح افراد ارد گرد موجود تھے۔ خود اس کی اپنی جسمانی حالت یہ تھی کہ وہ ٹھیک سے خود کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں پا رہا تھا۔ سانس اکھڑ رہی تھی۔ سر چکرا رہا تھا۔ اس سب کے باوجود کلہاڑی کے دستے تک ہاتھ پہنچتے ہی اسے لگا کہ ابھی وقت ہے موقع ہے ابھی بھی کچھ نہ کچھ کیا جاسکتا ہے!
کم از کم سرکار کے بدترین دشمن اور اپنے یاروں کے قاتل کو جہنم رسید کرنے کی ایک بھرپور اور بہترین کوشش کا موقع میسر آگیا تھا کلہاڑی کے دستے کی صورت اس کے ہاتھ، اس کی مٹھی میں آگیا تھا۔
ہاں ! مرنے سے پہلے ان آخری لمحوں میں چوہدری فرزند جیسے درندے کا کام تمام کر دینے کی ایک آخری کوشش کی جاسکتی تھی !
اس نے کلہاڑی کے دستے پر گرفت مضبوط کی۔ ایک لمبی سانس سینے میں کھنچتے ہوئے اپنی نیم جان جسمانی توانائیوں کو آواز دی اور پھر اچانک اپنے بازو کو برق رفتاری سے نیم دائرے کی شکل میں حرکت دی۔ کلہاڑی کے پھل نے دو رائفل برداروں کی ٹانگوں کو زخمی کیا۔ ملنگی بروقت بلا کی پھرتی سے اچھل کر ایک طرف ہٹ گیا۔ مرشد کھرلی کے اوپر سے لڑھک کر دوسری طرف پہنچا عین اسی وقت چوہدری اور حجاب کی نظر بیک وقت اس پرپڑی۔چوہدری نے تڑپ کر رائفل سیدھی کی اور مرشد نے دھاڑتے ہوئے اس کے کندھے پر وار کلہاڑی کے پھل اور رائفل کے لوہے کے ٹکراو�¿ کی تیز آواز بلند ہوئی اور رائفل چوہدری کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ ایک ساتھ بہت سی تیز چیختی ہوئی آوازیں بلند ہوئیں۔
مرشد نے اسی رفتار سے بازو واپس گھماتے ہوئے دوسرا وار کیا لیکن چوہدری بھاگنے والے انداز میں کئی قدم پیچھے ہٹ گیا تھا۔ قریب کھڑا ایک ڈشکرا حجاب کی طرف جھپٹا تو وہ بے اختیار چیختی ہوئی مرشد کی طرف لپکی اور مرشد نے کلہاڑی گھماتے ہوئے اسے اپنے بائیں بازو کے حصار میں لپیٹ لیا۔
چاروں طرف پھیلے افراد فوراً پاگل بھیڑیوں کی طرح آگے بڑھے اور مرشد چاروں طرف کلہاڑی گھماتا، خنجر کی طرف سرک گیا۔ اس پر حملہ آور افراد اچھل کر دور ہٹے تھے۔ کئی ایک نے رائفلیں سونتیں لیکن ملنگی کچھ چیختا ہوا ان کے سامنے ہو گیا۔ دوسری طرف چوہدری اپنے ایک کارندے سے رائفل جھپٹ رہا تھا۔ یقیناً وہ رائفل ہاتھ میں آتے ہی مرشد اور حجاب پر پورا میگزین خالی کر دیتا لیکن ٹھیک اسی وقت ایک اور کام ہوگیا
اس وسیع صحن کی مشرقی سمت اچانک ایک شور و ہنگامہ سا بلند ہوا اور اگلے ہی پل مشرقی سمت کی دیوار ایک بھاری دھڑام کی آواز سے صحن کے اندر آگری۔ صحن میں موجود سب ہی افراد بری طرح چونکے۔ سب کی گردنیں خود بخود اس طرف کو گھوم گئیں۔ ابھی کچھ سمجھ ہی نہ آئی تھی کہ ایک ساتھ کئی رائفلیں گرج اٹھیں۔ یہ شور بہت شدید تھا۔
وہ دھول مٹی میں اٹی سبز رنگ کی تین لینڈ رورر جیپیں تھیں جو غالباً ایک ساتھ مشرقی دیوار کے ساتھ آ ٹکرائی تھیں۔ ان میں سوار مسلح افراد چھلاووں کی طرف چھلانگیں مارتے ہوئے پوزیشنیں بھی سنبھال چکے تھے اور ان سب کی رائفلوں کا رخ صحن ہی کی طرف تھا۔ ان کے علاوہ ان ہی کے کچھ ساتھی سامنے والے اور دائیں طرف والے مکانوں کی چھتوں پر بھی نشت انداز دکھائی دے رہے تھے اور ان کی رائفلوں نے اس صحن میں بکھرے سب ہی افراد کو نشانے پہ لے رکھا تھا۔
"اپنی اپنی جگہ پتھر ہو جاو�¿ سب ۔”
"خبر دار اوئے ! کوئی گولی نہ چلائے۔ "
"اک سیکنڈ میں سب چھاننی ہوجاو�¿ گے۔ "
"بس کوئی حرکت نہیں۔”
"رک جاو�¿ اوئے !”
دائیں طرف اور سامنے کے رخ سے ایک ساتھ کئی کرخت اور پاٹ دار آوازیں بلند ہوئیں۔مرشد نے دھندلائی آنکھوں کے ساتھ دیکھا۔ ان سب ہی لوگوں کے جسموں پر کالی قمیضیں تھیں۔ ان جیپوں کے عقب میں ایک کشادہ گلی تھی جو، دیوار زمین بوس ہو جانے کے باعث مزید واضح اور مزید دور تک دکھائی دینے لگی تھی۔
اس گلی میں سامنے تھوڑے ہی فاصلے پر سے چار پانچ گھڑ سوار بلند آہنگ آوازیں نکالتے اسی طرف اڑے آتے دکھائی دیے منظر ایسا تھا کہ مرشد نے بے اختیار سر جھٹک کر آنکھوں میں بھری سرخ دھندلاہٹ جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ ان سیاہ پوش گھڑ سواروں کی تعداد پانچ تھیں۔ ان پانچ میں سے چار آدمی تھے اور ایک عورت سب سے آگے دوڑی آتی سفید صحت مند گھوڑی پر وہ عورت ہی سوار تھی۔ مردوں ہی کی طرح اس کے ہاتھوں میں بھی رائفل موجود تھی۔ محض تین یا چار سانسوں کی گزرن میں وہ گھوڑے جیپوں کے پاس سے دیوار کے ملبے کو پھلانگتے، اچھلتے اور ہنہناتے ہوئے صحن کے اندر پہنچ آئے۔کئی متنبہ کرتے ہوئے للکارے پھر ایک ساتھ گرجے۔ ان میں سب سے تیز اور بلند آواز اسی عورت کی تھی۔ وہ ہوائی فائرنگ کرتی ہوئی بھاگتے گھوڑے سے چھلانگ لگا کر اتری اور گھوڑے کے ساتھ ہی آگے کو دوڑتی آئی۔
اس کی آواز میں کڑکتی لپکتی بجلی کی سی تیزی تھی چہرے پر وحشت انگیز غصہ، بڑی بڑی سفید آنکھیں اور ماتھے پر تلک کا نشانمرشد کو اس پر ہندو�¿ں کی کالی دیوی کا گمان گزرا۔
اس کے انداز میں متحیر کردینے والی پھرتی اور بے باکی تھی۔ بے باکی دو حوالوں سے تھی۔ ایک تو اس کی مردانہ وار اور یہ دلیرانہ جارحیت اور دوسرا اس کا پہناوا !
اس کے زیریں جسم پر سیاہ دھوتی تھی اور ایک طرح سے ان لمحوں بس وہ دھوتی ہی تھی اوپری جسم پر اس نے سرے سے کوئی کپڑا پہنا ہی نہیں تھا ،بس ایک بڑی سی سیاہ چادر تھی جس کے دونوں پلو اس لمحے اس کی بغلوں سے نکل کر اس کے عقب میں جناتی پروں کی طرح پھڑپھڑا رہے تھے۔ اس کے گھنے اور لمبے بال بھی چادر کے ساتھ ہی لہرا رہے تھے۔ اچھے قد کاٹھ کے ساتھ وہ ایک بھرپور اور منہ زور نسوانی جسم رکھتی تھی اور اس لمحے اس جسم کا اوپری نصف حصہ قریباً سارے کا سارا عریاں ہو رہا تھا لیکن اسے جیسے ذرا بھر بھی اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی !
٭ ٭ ٭