مرشد (عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر24

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی 

Urdu Novel murshid by sahir, social romantic
Murshid Urdu Novel

 چوہدری پھر کچھ بھونک رہا تھا۔ جعفر اسے جھنجھوڑتے ہوئے دوبارہ بولا۔

 ” آخری بار کہہ رہا ہوں…. اس چار دیواری سے باہر نکل جاو�¿ ورنہ تمہارا چوہدری مارا جاوے گا۔ "اس بار سامنے والے کمرے سے جواباً ایک آواز بلند ہوئی۔

 "ٹھیک ہے میری جان کے ٹوٹے! جیسے تیرا جی چاہے لیکن…. گولی شولی کسی ایسی جگہ مارنا کہ چوہدری جی کو پیڑ ذرا کم ہو۔“وہی مطمئن اور ٹھنڈا لب و لہجہ…. مرشد کی چھٹی حِس نے بالکل درست راہنمائی کی تھی۔ اس طرح کے اعصاب شکن حالات میں بھی پوری طرح حاضر دماغ اور پ�±ر اعتماد رہنے والا بندہ اس کے دشمنوں میں صرف ایک ملنگی ہی تھا۔ 

قریب ایک ماہ پہلے مرشد کے ہاتھوں چلی گولی سے ہلاک ہونے والے فوجی کا بھائی بند یار…. مرشد کا خطرناک ترین حریف جو اپنے یار فوجی کے قتل کے بعد پہلے سے زیادہ زہریلا، زیادہ گہرا دشمن بن چکا تھا۔مرشد کے جسم میں چیونٹیاں سی رینگ ا�±ٹھیں۔ دشمن کی جنونی جارخیت کا عقدہ فوراً ہی ک�±ھل آیا تھا۔ انتہائی نازک حالات میں ایک اور خطرناک اور بد ترین دشمن ان کے سامنے پہنچ چکا تھا۔ فوجی کی موت کے بعد سے اس کا یہ پورا گروپ مرشد کے خون کا پیاسا ہوا پھر رہا تھا اور اب…. وہ سب آمنے سامنے تھے۔

 "ملنگی…..” جعفر کے ہونٹوں سے سرسراتی سی بڑبڑاہٹ خارج ہوئی۔وہ بھی آواز پہچان چکا تھا۔

 "آئی لو یو مرشد جانی! ” ملنگی پھر پکارا۔ "قسم قلندر پاک کی ،تجھے زندہ پا کے ملنگی پھر سے جی ا�±ٹھا…. رب سوہنے کی مجھ کوجھے پر مہر ہے جو اس

نے تیری حیاتی رکھی…. کاش اسی طرح ہوتا رہے کہ میں تجھے بار بار ماروں، قتل کروں اور وہ تجھے بار بار حیاتی دیتا رہے…. پھر زندہ کرتا رہے۔ "

اس کی سرد کاٹ دار آواز میں نفرت ہی نفرت پھنکار رہی تھی۔ چوہدری نے کچھ بھونکنا چاہا لیکن جعفر نے اسے آواز نہیں نکالنے دی۔دوپٹا اس نے دوبارہ چوہدری کے خون آلود منہ پر لپیٹ دیا تھا۔ زریون، حجاب ،فیروزہ تینوں اپنی اپنی جگہ بے حس و حرکت موجود تھے۔ خنجر میگزین لوڈ کر چکنے کے بعد دائیں کونے میں بیٹھا تھا کہ ایک ضرب اور پتھر ٹوٹنے کی آواز کے ساتھ ہی دیوار میں آدھی اینٹ کے برابر کا شگاف ک�±ھل گیا۔ خنجر نے للکارتے ہوئے اس شگاف میں سنگل شاٹ فائر کیا۔ دوسری طرف سے دو، تین ہڑبڑائی ہوئی آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں۔باقی سب کے ساتھ ساتھ مرشد اور جعفر بھی ب�±ری طرح چونکے۔ یہ ایک اور خطرے کا منہ ک�±ھل گیا تھا۔

خنجر دوبارہ فائر کرنا چاہ رہا تھا لیکن فائر کرنے سے پہلے ہی ٹھٹھک کر ر�±ک گیا۔ دوسری طرف سے کوئی بندہ پکار پکار کر کچھ کہہ رہا تھا۔ مرشد کا دھیان بھی اسی طرف تھا۔اسے محسوس ہوا کہ دیوار کی دوسری طرف چوہدری کے بندے نہیں ہیں…. یہ کوئی اور لوگ تھے۔مرشد کے رگ و پے میں اضطراب ناچ ا�±ٹھا۔ ادھر ملنگی اپنی منحوس آواز میں کہہ رہا تھا۔

 "وقت ویلا تو تیرا ہو چکا ختم…. تیرے مردے میں ڈھیر سارے سوراخ ہوں گے۔ اس سے پہلے اگر مچھلیاں لڑانے کا دل ہے تو بول…. انجام تھوڑا یادگار ہو جائے گا یار جی!” وہ مرشد کو دعوتِ مبارزت دے رہا تھا.۔اس بار شاید مرشد اسے کوئی جواب دیتا لیکن اس سے پہلے ہی ایک آواز اسے ب�±ری طرح چونکا گئی…. یہ آواز بغلی دیوار میں ک�±ھلنے والے سوراخ کی دوسری طرف سے آئی تھی۔ آواز مدھم تھی لیکن واضح اور شناسا تھی…. اس حد تک شناسا کہ مرشد مارے حیرت و بے یقینی کے بے اختیار ہی اس طرف کھنچتا چلا گیا!

 "مرشد…..” خنجر نے بھی متعجب سے انداز میں پکارا تھا۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں وہ مرشد ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر خوشگوار حیرت کے ساتھ دبا دبا جوش بھی جھلک دکھا رہا تھا۔

 "یہ تو کمال ہو گیا جگر! آپاں سمجھ رہے تھے ادھر بھی چوہدری ٹولہ ہو گا مگر یہ تو اپنے سجن ہیں۔ ” فرطِ مسرت اور وفورِ جوش کے تحت اس کی آواز میں خفیف

سی لرزش شامل ہو آئی تھی۔ اس سے پہلے کہ خنجر مزید کچھ کہتا یا مرشد نیچے بیٹھ کر اس سوراخ کی دوسری سمت جھانک کر دیکھتا…. عقب میں اچانک بلند ہونے والی جعفر کی حواس باختہ سی گالی اور دھڑام کی آواز پر ان دونوں نے ایک ساتھ تڑپ کر اس طرف دیکھا اور پھر دونوں ایک ساتھ ادھر کو دوڑے…. ہوا یہ تھا کہ چوہدری نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اچانک اڑنگا لگا کر جعفر کو گرا دیا تھا۔ خود چوہدری عین دروازے والے خلا کے سامنے موجود تھا۔ مرشد نے چوہدری کو للکارتے ہوئے رائفل بھی سیدھی کی مگر وہ ٹریگر نہیں دبا سکا۔ اندیشہ تھا کہ گولی جعفر کو نہ لگ جائے۔

اس کونے سے خلا تک کا فاصلہ محض چند قدم کا تھا لیکن ان کے یہ چند قدم کا فاصلہ پاٹنے اور جعفر کے تڑپ کر جھپٹنے تک چوہدری قلا بازی کھا چکا تھا اور اگلے ہی ثانیے وہ خلا سے باہر ڈیوڑھی میں تھا۔ جعفر اور مرشد تقریباً ایک ساتھ خلا کی طرف جھپٹے تھے.۔مرشد نے فائر بھی کیا۔ ا�±سی پل اوپر چھت 

کی طرف سے فائرنگ کرتے ہوئے دو افراد ڈیوڑھی میں کودے۔ مرشد کی چلائی گولیاں ان میں سے ایک کی ٹانگوں میں لگیں.۔دوبارہ اوٹ لیتے ہوئے اس نے ایک جھلک کی صورت دیکھا کہ چوہدری ہذیانی انداز میں اپنے بندوں کو مرنے مارنے کا کہتا، لڑھکتا ہوا کونے والی کوٹھری میں جا گ�±ھسا تھا۔

 ڈیوڑھی میں کودنے والوں میں سے ایک کی کراہیں تھیں اور دوسرا فائرنگ کرتا ہوا الٹے قدموں چوہدری والی کوٹھڑی میں سمٹ گیا تھا۔اس کی طرف سے چلائی گئی گولیوں سے بچنے کے لیے وہ تینوں پوری طرح دیوار کے ساتھ چپک کر کھڑے ہو گئے ۔ مرشد نے رائفل کو مضبوطی سے دبوچ رکھا تھا اور ہونٹ سختی سے بھینچ رکھے تھے۔ چوہدری کے یوں ایسے موقع پر مچھلی کی طرح پھسل کر ہاتھ سے نکل جانے پر اس کا رواں رواں سلگ اٹھا تھا۔ دماغ میں جھنجھلاہٹ بھر آئی.۔جعفر پر بھی اسے شدید غصہ آیا جو اس سوّر کو قابو نہیں رکھ سکا تھا مگر وہ ضبط کر گیا۔ شاید اسی کی طرح جعفر کو بھی بغلی دیوار کے پار سے سنائی دینے والی آواز نے اس درجہ حیران و پریشان کر دیا تھا کہ وہ ایک ذرا چوہدری سے غافل ہو گیا اور چوہدری کو موقع مل گیا۔ 

چھت پر مختلف پوزیشنوں سے پہلے ہی فائرنگ جاری تھی اب پھر سے گنبد والے خلا سے ان پر بھی فائرنگ شروع ہو چکی تھی۔ چوہدری اور اس کے ایک وفادار رائفل بردار کے علاوہ ملنگی بھی ان سے محض چند فٹ کے فاصلے پر تھا۔

خنجر نے سیون ایم ایم سے اوپر کی طرف جوابی برسٹ فائر کیا۔ چوہدری پوری وحشت سے چیخ چیخ کر اپنے بندوں کو لڑنے مرنے کا کہہ رہا تھا۔اس کی یہ آوازیں پوری عمارت میں گونج اٹھی تھیں اور یقیناً باہر تک اور اوپر چھت تک بھی با خوبی جا رہی تھیں۔

 "اس نے اچانک ہی ٹانگ اڑائی تھی…. میرے سے سنبھلا ہی نہیں گیا۔ "جعفر نے غصے، جھنجھلاہٹ اور خجالت ملے انداز میں کہا.۔اسے بھی اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا۔

خنجر بولا۔ "ایک تو کتا پہلے سے پاگل تھا اوپر سے زخمی کر کے چھوڑ دیا…. بہت غلط ہوا.۔”

 "میرا دھیان ادھر کونے کی طرف چلا گیا تھا۔ "

 ” کون ہے اس طرف؟ ” مرشد نے بھی چونک کر خنجر کی طرف دیکھا۔ ایک ذرا تو اس کے ذہن سے چوہدری اور ملنگی کے علاوہ باقی سب ہی کچھ محو ہو کر رہ گیا تھا۔

 ” جاو�¿…. خود جا کر دیکھ لوادھر میں سنبھالتا ہوں۔“اس نے دوبارہ ایک برسٹ فائر کیا۔ مرشد ایک بار پھر با عجلت کونے کی طرف پلٹ گیا۔ اعصاب ب�±ری طرح تناو�¿ اور اضطراب کا شکار تھے۔ دیوار کی دوسری طرف موجود افراد کے خیال سے دل شدت سے دھڑکا.۔کچھ ہی دیر پہلے اسے جس آواز کا ش�±بہ گزرا تھا اسے لاہور میں ہونا چاہیے تھا…. یہاں ہرگز نہیں!

اتنی دیر میں دیوار کی دوسری جانب موجود افراد دو اینٹیں نکال چکے تھے۔ وہاں نیچے کونے میں اب ڈھائی اینٹوں کے برابر سوراخ تھا اور تیز روشنی۔ یقیناً اس طرف بجلی موجود تھی اور کمرے میں ٹیوب لائٹ روشن تھی۔

 "اس طرح نہیں…. ادھر سامنے والے حصے پر۔ ” 

 "صرف ہتھوڑے سے۔ ” 

 "ہاں…. شاباشے۔ ” 

 "جلدی…. جلدی کرو۔” اس طرف تین، چار مضطرب آوازیں تھیں۔ وہ لوگ اینٹوں پر ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ ان آوازوں کے سماعت کو چھوتے ہی مرشد کے تن بدن میں نئے حوصلے، نئی توانائیاں امنڈتی چلی آئیں۔ اسے بالکل ٹھیک ش�±بہ گزرا تھا۔ وہ اس کے پرانے ساتھیوں کی آوازیں تھیں۔ ان میں سے تین آوازیں اکو، جمشید اور دلشاد کی تھیں اور چوتھی سب سے زیادہ جوشیلی اور تیز آواز اس کے بچپن کے دوست، ساتھی…. بچپن کے جگری یار "ساون” کی تھی.۔وہ خود اینٹوں پر ضربیں لگا رہا تھا۔

 "ساون…. اکو….“ قطعی غیر متوقع طور پر انہیں، ان غیر یقینی حالات میں یہاں دیکھ کر مرشد دنگ رہ گیا تھا۔ اس کی پکار پر فوراً دو سنسنائے ہوئے حِدت ذدہ چہرے سوراخ کی اس جانب ظاہر ہوئے.۔دونوں نے سر آپس میں جوڑ رکھے تھے۔ ان میں ایک کرخت چہرہ اکو کا تھا اور دوسرا ساون کا۔ گورا چٹا صحت مند چہرہ…. گہرے گھنگریالے بال اور تنی کھنچی سی گھنی بھنویں۔ سفید، شیشے کی سی چمک والی موٹی موٹی آنکھیں اور ان آنکھوں میں اپنے یار…. اپنے سجن کے لیے ہلکورے لیتا فکرو پریشانی کا ایک مہیب سمندر!

مرشد کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ان دونوں کی آنکھیں اور چہرے جگمگا ا�±ٹھے

 "مرشد! میری جان، میرے یار! ". انہوں نے بے اختیار تڑپ کر ایک دوسرے کی طرف ہاتھ بھڑائے لیکن آپس میں مصافحہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا بازو تھام لیا…. ایک دوسرے کے کندھے کے قریب سے۔ ان کے ہاتھوں کی پ�±رجوش گرفت ان کی ا�±نگلیوں سے سنسناتی ہوئی ان کے بازو�¿ں میں سرایت کرتی جا رہی تھی۔ ایک طاقت…. ایک عزم، ایک نئے اور غیر متزلزل حوصلے کی صورت۔ ان چند وقتی لمحات کے دوران میں وہ ہاتھ، ہاتھ نہیں رہے تھے اور وہ بازو محض بازو نہیں رہے تھے۔ وہ دو بچپن کے سنگی ساتھی، بچپن کے یار بن کر آپس میں لپٹ گئے تھے۔

 "ساون! اماں….“ ساون کے چہرے پر نظر پڑتے ہی مرشد کے ذہن میں پہلا خیال اماں ہی کا آیا تھا۔ اماں کے حوالے سے اس کی اب تک کی بے فکری اور گہرے اطمینان کی واحد وجہ یہ رہی تھی کہ ساون وہاں اماں کے پاس موجود تھا لیکن اب اسے لاہور ہیرا منڈی سے سینکڑوں میل دور یہاں دیکھ کر اماں کے حوالے سے ایک فوری اور شدید فکر مندی از خود ہی اس کی زبان سے سوال انداز ہو گئی تھی۔

 "خالہ بالکل خیریت سے ہے.۔یہیں ہے…. لالا رستم بھی یہیں ہے اور بھی کہنے، سننے اور بتانے کو بہت کچھ ہے۔ کسی بات کی فکر نہیں کرنی، یار آ گئے ہیں مرشد! ” ساون نے ہیجان خیز جوش کے ساتھ اتنا کہا اور جھٹکے سے ا�±ٹھ کر دوبارہ دیوار پر ہتھوڑے برسانے لگ گیا۔ پہلے سے دگنے جوش اور تیزی کے ساتھ۔

 ” ہاں! شاباشے۔ "

 ” اور زور سے…. توڑ دو۔ "

مرشد پہلو پر ہاتھ رکھتے ہوئے سیدھا ہو بیٹھا.۔ساون کے لفظوں کی بازگشت اس کی سماعت میں گونجتی رہ گئی۔ "خالہ بالکل خیریت سے ہے.۔یہیں ہے…. یہیں ہے…. یہیں…..” یہیں کا بھلا کیا مطلب ہو سکتا تھا؟ یہیں، اس طرف کی عمارت میں یا یہیں…. اسی شہر میں کسی جگہ؟ 

اماں یہاں…. لاہور سے…. اپنے کمرے سے سینکڑوں میل دور یہاں…. اس شہر میں موجود ہے…. یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہوا ہے تو ایسا کیسے ہو گیا؟ ایک متحیر سی بے یقینی اس کے اندر سوال بن کھڑی ہوئی!

 "کون لوگ ہیں یہ؟ تمہارے ساتھی ہیں نا؟” زریون اس کے قریب کھسک آیا تھا۔ حجاب اور فیروزہ بھی کھڑی سنسنائے چہروں اور ا�±مید طلب منتظر سی نظروں سے اسی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ مرشد نے باری باری ان کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور قدرے غائب دماغی سے بولا۔

 ” ہاں جی! یہ اپنے لوگ ہیں…. تسلی رکھیں۔ "

جعفر اور خنجر خلا کے دائیں، بائیں دبکے وقفے وقفے سے فائرنگ کا جواب دے رہے تھے۔

 "سرکار! ادھر آجائیں…. جیسے ہی رستہ بنے آپ لوگ نکلیں ادھر سے۔” مرشد اتنا کہتا ہوا خود خنجر، جعفر کی طرف بڑھ گیا۔ حجاب کے ذہن میں پتا نہیں کیوں اس کے وہ الفاظ گونج ا�±ٹھے جو اس نے زریون سے بات کرتے ہوئے دو بار دہرائے تھے۔

 "آپ دونوں کو کچھ نہیں ہو گا شاہ جی! آپ دونوں کو…. "حجاب کے دل میں آئی کہ وہ اسے بھی چلنے کا بولے لیکن…. وہ بول نہیں پائی۔جعفر کی رائفل سے گولیاں ختم ہو گئی تھیں ،اسے مرشد نے پیچھے ہٹا کر اس کی جگہ خود سنبھال لی۔

ساون لوگوں نے دس، پندرہ منٹ کے اندر اندر دیوار کی اینٹیں توڑ اکھاڑ کر اتنی جگہ بنا لی کہ کوئی بھی بیٹھ کر باآسانی اس میں سے گزر جاتا لیکن کسی دوسرے کے گزرنے سے پہلے وہ چاروں خود اس طرف نکل آئے۔ سب سے آگے آگے ساون تھا پھر اکو تھا اور پھر جمشید اور دلشاد۔مرشد اور ساون جپھا ڈال کر بھر پور انداز میں بغل گیر ہوئے تھے.۔باقی سب ان دونوں سے لپٹ گئے.۔ان لوگوں کو پہچانتے ہی حجاب نے ایک گو ناگوں اطمینان محسوس کیا۔ مرشد کے لیے جعفر اور خنجر کی محبت اور وفاداری تو وہ دیکھتی ہی آ رہی تھی۔ ساون کے متعلق بھی وہ اچھے سے جانتی تھی کہ وہ مرشد کا سب سے پرانا اور جاں نثار ساتھی ہے۔ ابھی وہ پانچوں خلا کے اس طرف جعفر کی پیٹھ پیچھے آپس میں یوں مضبوطی سے لپٹے کھڑے تھے کہ پانچوں کے پانچوں ایک جسم بن کر رہ گئے تھے۔وہ کم از کم بھی ڈیڑھ، دو ماہ بعد مل رہے تھے اور ان ڈیڑھ، دو ماہ میں بہت کچھ ہو گزرا تھا…. سب کچھ بدل چکا تھا۔ حالات…. زندگیاں…. مقاصد اور سمتیں…. کئی ساتھیوں کے دیگر نقصان کے ساتھ شبیرے اور مراد کا بے رحم اور سفاک قتل بھی اسی دوران میں ہوا تھا۔ مراد…. ان تینوں کی دوستانہ تکون کا تیسرا کونا…. چرب زبان، شرارتی ذہن اور رج کے خلوص سے بھرا ہوا بندہ…. اس کے قتل کے بعد آج پہلی بار مرشد اور ساون کا سامنا ہوا تھا…. ان کی چوڑی اور مضبوط چھاتیاں آپس میں جڑی ہوئی تھیں اور دھڑکنیں یاروں کے قتل پر نوحہ کناں۔ 

 دونوں کے سینوں میں مراد اور شبیرے کا غم ٹھاٹھیں مار کر ابھرا تھا۔

 "اب کوئی پرواہ نہیں…. ایک ایک کتے سے حساب لیں گے اب اور سود سمیت لیں گے۔”ساون نے الگ ہوتے ہوئے اٹل لہجے میں کہا۔

 "اماں اس وقت کہاں ہے ساون؟” مرشد نے بے قراری سے پوچھا۔ ساون کے جواب نے اسے مزید چونکا دیا۔

 "یہیں…. اسی شہر میں۔ ملک منصب کی حویلی میں۔ لالا رستم، استاد کرامت اور استاد افضل ملتانی بھی یہیں موجود ہیں۔ سب ٹھیک ٹھاک اور سب خیر خیریت ہے۔ باقی تفصیل بعد میں سہی فی الحال تم اس منحوس عمارت سے نکلو،آو�¿! "ساون نے اس کی کلائی تھام لی۔

” پہلے باقی ساتھیوں کو نکالو۔” وہ آہستگی سے کلائی چھڑاتے ہوئے بولا۔” سرکار! شاہ جی! آپ لوگ نکلیں ادھر سے….جعفر, خنجر! آجاو�¿ ،جلدی کرو۔”وہ ایک بار پھر سامنے کے رخ متوجہ ہوا۔ وقفے وقفے سے فائر جھونکے جارہے تھے جب کہ اوپرچھت پر اسی طرح دو طرفہ فائرنگ جاری تھی، بلکہ اب فائرنگ کی آوازیں تین سمتوں سے بلند ہورہی تھیں۔ اس فائرنگ میں مختلف کیلی بر کے ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جارہا تھا۔لہومیں ہراس انگیز سنسنی جگادینے والا فائرنگ کا یہ بھیانک اور سفاک شور اس ابرآلود رات کی تاریکی میں میلوں دور تک گونج رہا تھا۔

 جس بستی میں یہ سب وقوع پذیر ہورہا تھا۔ اس کی گلیوں میں رات گئے تک رونق رہا کرتی تھی لیکن آج پوری بستی کو جیسے کوئی دیو سونگھ گیا تھا۔ بستی والوں نے پہلے ایک دو گاڑیوں کو بستی میں گھستے دیکھا تھا۔ کچھ دیر بعد بستی کے عین وسط سے گولیاں چلنے کی آواز بلند ہوئی اور پھر بستی کے چاروں طرف سے ایک کے بعد ایک کوئی آٹھ دس گاڑیاں بستی کے اندر گھستی چلی آئیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ شور بلندہوا کے الایمان…. گلیاں چوراہے سنسان ہوتے گئے۔ گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں مضبوطی سے بند کردی گئیں۔ قریب قریب پوری بستی ہی کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبک گئے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا…. مرشد ساون لوگ نہ بستی سے کوئی، حتی کہ مندر کی عمارت کے اردگرد لڑنے مڑنے پر تلے ہوئے لوگوں میں سے بھی کسی کواس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ محض چند کلومیٹر کی گنجائش رکھ کرمزید کئی گاڑیاں، فائرنگ کے اس شور کی سیدھ پکڑے بستی کی طرف دوڑی آرہی ہیں!!

٭ ٭ ٭

وقت تھا رات قریب نو بجے کا…. سمت تھی اس آفت زدہ بستی کی شمال مغربی اور فاصلہ رہا ہوگا یہی کوئی بارہ پندرہ کلومیٹرخان پور نامی قصبے کی مغربی سمت پھیلے صحرائے تھل کے ریتلے ٹیلوں کے بیچوں بیچ ایک تنگ سی نیم پختہ سڑک تھی جو ان ٹیلوں میں بکھری چند ایک چھوٹی چھوٹی بستیوں ، فارموں اور چند ایک اینٹوں کے بھٹوں کو چھوتی ہوئی پینتیس کلومیٹر دور ایک اور سڑک پر اختتام پزیر ہوجاتی تھی۔ اسی سڑک پر دو گاڑیاں مڑی تھیں۔ رات ابرآلود ہونے کے باعث گہری تاریک تھی۔ ہوا میں گھلی ٹھنڈک نے موسم کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا۔ دونوں گاڑیاں خان پور کی آبادی کے برابر سے اس تنگ سڑک پر مڑنے کے بعد مناسب رفتار سے آگے برھتی گئیں۔ان میں سے پیچھے والی گاڑی، جو ایک پوٹھوہاری جیپ تھی اس میں ڈرائیور کے علاوہ پانچ مسلح افراد سوار تھے۔ جب کہ آگے والی پجارو میں ڈرائیور اور مزید دو افراد کے ساتھ چوہدری اکبر علی موجود تھا۔

 ڈھائی تین کلومیٹر کے بعد ایک نیم پختہ راستہ دائیں جانب کو ریت کے ان اونچے نیچے ٹیلوں کے اوپر کی طرف جاتا تھا اور نصف فرلانگ آ گے جا کر سیدھا "نواب اسفند یار” کی حویلی کے گیٹ سے ٹکر کھاتا تھا۔ یہ مقام زمین سے کئی فٹ بلند تھا اور یہاں سفیدے اور لاچی کے درختوں کی اس قدر بہتات تھی کہ اردگرد کی ساری فضا اس کی خوشبو سے مہکی پڑ رہی تھی۔

نواب اسفند یار کی یہ قلعہ نما حویلی سولہ ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔ حویلی کے اطراف کے علاوہ حویلی کے اندر بھی درختوں کی کثرت تھی، البتہ اندر ان کے علاوہ بھی طرح طرح کے درخت اور پودے موجود تھے۔ حویلی کی بلند و بالا اور مضبوط دیواروں کے چاروں کونوں کے اوپر برجیاں تعمیر تھیں جن میں چوبیس گھنٹے ایک ایک مسلح اور چوکس گارڈ موجود رہتا تھا۔ تین چار گارڈ ہمہ وقت گیٹ پر موجود رہتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی اس چار دیواری کے اندر مسلح محافظوں اور نوکروں چاکروں کی ایک پوری فوج رہتی تھی۔ مردان خانے کی بلند و بالا عمارت کے سامنے چوہدری اکبر علی کو اتارنے کے بعد دونوں گاڑیاں پارکنگ کی طرف چلی گئیں۔

 اکبرعلی کے ساتھ چار بندے مزید اترے تھے۔ دو مسلح افراد جیپ سے اوردو پجارو سے۔ جیپ سے اترنے والے تو وہیں ٹھہر گئے۔ جب کہ باقی دونوں اکبر علی کے ساتھ ہی آگے بڑھے۔ ان میں ایک تو منشی نما بندہ تھا اوردوسرا لمبوترے منہ اور چھریرے جسم والا چوہدری اکبر کا ذاتی محافظ انورا تھا۔چوہدری کے استقبال کےلیے سامنے برآمدے میں لہراسب خان موجود تھا۔ وہ فورا آگے بڑھا۔ اس کے پیچھے گرانڈیل چوہان بھی تھا۔

 "نواب صاحب آپ کے منتظر ہیں۔” چند رسمی کلمات کے بعد لہراسب خان اس کے برابر چلتے ہوئے بولا۔ 

” طبیعت صحت کیسی ہے ان کی ؟ ” اکبرعلی نے پوچھا۔

 لہراسب مسکرایا۔ ” پھر سے جوان ہو تے جارہے ہیں۔ جی کھول کر بد پرہیزیاں کر رہے ہیں۔”

"نیا کشتہ ششتہ ہاتھ لگا ہے کیا؟”

” شاید خود ہی پوچھ لینا آپ۔”چند زینے طے کر کے وہ کشادہ برآمدے میں پہنچے اور وہاں سے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئے۔

” ان حرام زادوں کے بارے میں کوئی نئی اطلاع یا خبر؟ اکبرعلی کی سنجیدہ صورت اورگھمبیر لب و لہجے نے لہراسب اور چوہان کو محتاط کر دیا۔

"ابھی تک تو نہیں نواب صاحب کے پاس ہو تو پتا نہیں۔” لہراسب بخوبی سمجھ گیا تھا کہ اکبر علی کا سوال کن لوگوں کے متعلق ہے۔

” اور وہ شاہ پ�±ریے ؟”

” وہ کھنچا تانی تو چل رہا ہے وہ چلتا ہی رہنا ہے۔ ابھی وہ حرافہ اوروہ بھڑوا ہیں توان کے بعد کوئی اور لوگ ہوں گے۔یہ سب یوں ہی چلتا رہے گا۔ ” اکبر علی ہنکارا سا بھر کر خاموش ہورہا۔ وہ ذہنی طور پر کسی گہری سوچ بچار میں الجھا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ایک اندرونی کمرے تک وہ چاروں چوہدری اکبرعلی کے ساتھ رہے لیکن کمرے کے اندر اکیلا اکبرعلی ہی داخل ہوا۔

دبیز قالین، بیش قیمت فرنیچر، نفیس پردوں سے ڈھکی دیواریں۔ پہلی ہی نظر گواہی دیتی تھی کہ ہاں یہ کسی نواب، کسی رئیس ابن رئیس کا کمرہ ہے۔ نواب خود بھی وہاں موجود تھا۔ سامنے ہی ایک صوفے پر تقریبا نیم دراز…. اس کے ہاتھوں میں ایک انگلش میگزین تھا جس کے ٹائٹل پر ایک غیر ملکی ماڈل کی قریب قریب برہنہ تصویر پرنٹ تھی۔صوفے کے قریب دو تپائیاں دھری تھیں۔ ایک پر ریڈ لیبل شراب کی بوتل اور دو کانچ کے نازک و نفیس پیمانے، جن میں سے ایک کے اندر دو گھونٹ شراب کے باقی بچے ہوئے تھے۔ دوسری تپائی پر پانچ چھ انگریزی رسالے رکھے تھے اور سب کے ٹائٹل ایک سے بڑھ کر ایک واہیاتی کا نمونہ پیش کر رہے تھے۔سترسال عمر کے ساتھ نواب اس رسالے کے اندر کسی تصویر پر یوں نظریں گاڑے بیٹھا تھا کہ اسے چوہدری اکبر علی کے اندر چلے آنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ چوہدری اکبر علی کی آواز ہی نے اس کا انہماک توڑا تھا۔ 

"سچ کہا ہے کہنے والے نے کہ مرد کی حرص کبھی ختم نہیں ہوتی۔ عورت ہو چاہے کسی فوٹو میں ہی کیوں نا ہو، مجال ہے بندے کو پھر اور کسی بات کا ہوش رہ جائے۔” نواب اسفند خان نے کسی قدر چونک کر چوپدری اکبرعلی کی طرف دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

” آو�¿! آو�¿ مولوی اکبرعلیبالکل ٹھیک کہا تم نے۔ اپنا تو بالکل یہ ہی حال ہے۔ چاچا غالب نے ہمارے لیے ہی تو بولا تھا۔

  گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

   رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے۔ 

 اس نے آگے بڑھ کر خوش دلی سے اکبرعلی کے ساتھ مصافحہ کیا۔ وہ اچھے صحت مند جسم کا مالک تھا۔ عمر ستر سہی مگر ساٹھ کا دکھتا تھا۔ سامنے سے آدھا سر چھلے ہوئے آلو کی طرح صاف تھا اور گدی کی طرف پیاز کی دمچیوں جیسی سفید زلفیں۔ بھاری پ�±ر گوشت ہاتھ میں سونے کی تین تین انگوٹھیاں جن میں تین مختلف نگینے جگمگا رہے تھے۔ گھنی سفید بھنویں ، سفید مونچھیں ، داڑھی ندارد اور موٹی موٹی ابھری ہوئی آنکھیں جن میں ایک عجیب شیطانی اور مکروہ سا تاثر چمکتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔اس نے کھلے پائنچوں کی شلوار پہن رکھی تھی اور ضرورت سے زیادہ کھلی آستینوں کی ڈھیلی ڈھالی سفید لمبی قمیض۔

"دنیا میں اور بھی بہت کچھ باقی ہے نواب صاحب! یہ مینا اور مینا کماری وغیرہ سے زیادہ ضروری اور اہم رپھڑ اور بکھیڑے۔”

نواب واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا اور اکبرعلی نے اس کے برابر والا صوفہ سنبھال لیا۔

نواب بولا۔

”موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں 

زندگی ہے تو یہ رپھڑ بکھیڑے بھی رہیں گے اکبر علی! سانس لیتے ہوئے ہوا سے کیا ڈرنا گھبرانا منڑاں !”

نواب اسفند یار خان قومیت کے لحاظ سے پختون خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا لہجہ پختون تھا لیکن اردو بہت رواں اور صاف تھی۔

” کوئی نئی اطلاع ؟ اکبر علی اسی سنجیدگی سے بولا۔ نواب تپائی پر رکھی شراب کی بوتل کی طرف متوجہ ہوا۔

” آخری اطلاع وہی باغ والا تھا۔ وہاں ہونے والے خون خرابے کے بعد وہ لوگ کس طرف نکلا ہے یہ ابھی پتا نہیں چلا جلدی چل جائے گا اطمینان رکھو” نواب کے انداز میں بے فکری تھی۔ اکبر علی کسمسا کر رہ گیا۔ اس کی سنجیدگی کے پردے میں صرف پریشانی ہی نہیں کسمسا رہی تھی وہ 

بری طرح مضطرب بھی تھا۔ کوئی بات کوئی سوچ یا خیال ایسا تھا جو مسلسل کسی کانٹے ، کسی سنگ ریزے کی صورت اس کے ذہن میں "رڑک” رہا تھا اور آج آج اس وقت نواب کے پاس اس کے آنے کی وجہ بھی شاید وہی تھی۔ 

"یہ سارا علاقہ اپنا ہے اکبر علی ! ہم نے تمہیں کہا تھا کہ وہ لوگ علاقے کی حدود سے باہر نہیں نکلا اور نا ہی نکل پائے گا دیکھ لو، ہمارا کہا درست ثابت ہوا اب وہ اپنے بل سے باہر نکل آیا ہے تو صبح کا سورج ان سب کا ٹھنڈا لاشیں دیکھے گا،ان شااللہ۔ یہ لو ہماری طرف سے دشمن کی موت کا پیشگی جام ۔”نواب نے دونوں جام تیار کرنے کے بعد ایک پیمانہ اٹھا کر اکبر علی کی طرف بڑھایا، جو اس نے غائب دماغی کی سی کیفیت میں تھام لیا۔ 

” پچھلے اک مہینے سے وہ سب اپنے اس علاقے میں موجود ہیں اور ہم سب ان کا شکار کرنے کے چکر میں باو�¿نترے (حواس باختہ) پھر رہے ہیں۔”

” پہلے ایک مہینے سے وہ کسی بل میں دبکا بیٹھا تھا ہر چاردیواری یا ہر ایک سوراخ میں تو جھانک کر نہیں دیکھا جا سکتا نا ؟ اب شاید تمہارے اس کا طبیعت بہتر ہو آیا ہے۔ وہ کیا نام تھا اس کا جو زخمی ہو گیا تھا ہاں ! تمہارا وہ بدمعاش دشمن ، مرشد !”

” ہو سکتا اب تک وہ پھر کسی موری میں گھس بیٹھے ہوں اور ہم پھر اک مہینے تک انہیں ڈھونڈتے ہی رہ جائیں۔” اکبر علی کے اس پریشان کن انداز پر نواب کے چہرے پر ایک ذرا بد مزگی کا تاثر ابھرا لیکن وہ اسی ہم وار لہجے میں بولا۔ ” تمہاری عمر ہم سے بارہ پندرہ سال کم ہے تمہارا صحت بھی ماشاللہ ہم سے اچھا ہے مگر لگتا ہے اندر سے دل گردہ ختم ہو چکا ہے۔ مانو نہ مانو اکبر علی ! اندر سے تم بوڑھے ہوچکے ہو تمہیں اعصابی طاقت کے ٹانک استعمال کرنے چاہیے۔ چھوڑو یہ فکر و پریشانی۔ یہ دیکھو“ نواب نے برابر میں رکھا میگزین کھول کر اس کی طرف بڑھایا۔

” سارہ ذیدان نام ہے اس کا۔ دیکھو ذرا…. افریقن حسن کا کیسا شاہ کار اور کامل نمونہ ہے نشیلے زہر سے بھری جواںسال ناگن نظر آتا ہے کہ نہیں ؟ ” دیکھو ایک نظر دیکھو تو سہی منڑاں!”نواب نے رال ٹپکاتے لہجے میں کہا۔اکبر علی نے میگزین پکڑ کر تپائی پر ڈالا اور ہاتھ میں پکڑا جام ایک ہی گھونٹ میں گھٹک گیا۔

"نواب صاحب! مجھے ان دونوں کی لاشیں دیکھنی ہیں اور کج نئیں۔ جب تک ان کے مردے نہیں دیکھ لیتا تب تک سکون نئیں ملنا مجھے۔” اس بار نواب کی پیشانی پر مدہم سی شکنیں نمودار ہوئیں لیکن وہ بولا کچھ نہیں۔ پہلے اس نے ہاتھ میں موجود جام خالی کیا پھردوبارا بوتل کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے گویا ہوا۔ انداز خود کلامی کا سا تھا۔

"نواب اسفند یار نے وقت کا یہ انقلاب بھی دیکھنا تھا ایک بالشت بھر کا چھوکری اور گندگی کے ڈھیر سے اٹھنے والے معمولی چپڑ کناتیے 

نے جاگیردار اکبر علی کا سکھ چین غارت کر کے رکھ دیا شاید خواب میں پھانسی کا پھندا نظر آتا ہو یا پھر گولیاں چلاتا ہوا وہ ولد الحرام فٹ پاتھیا بدمعاشمرشد“

” آپ جانتے ہیں وہ چھوکری کون ہے…. معاملہ بھی کوئی معمولی نئیں ہے، آپ سارا کج اچھی طرح جانتے ہو۔”

” یہ پہلے سوچنا تھا اکبر علی ! تم نے چھوکری کو زندہ چھوڑ کر غلطی کیا اور پھر ہم کو سناتا ہے کہ عورت لڑکی کے معاملہ میں مرد کو ہوش نہیں رہتااس لڑکی کے ساتھ اس کی ماں اور بھائی کو بھی چھوڑ دیا۔ سب کو سب کو ایک ساتھ ختم کر کے ایک ہی گڑھے میں دبا دیا ہوتا تو آج اس بھونچال ، اس طوفان کاسامنا نہیں کرنا پڑتا تمہیں۔ بلکہ یہ سب بہت پہلے کر دینا چاہیے تھا تمہیں آج سے برسوں پہلے۔” 

 نواب نے جام اٹھا کراکبرعلی کو تھما دیا۔ بات کرتے کرتے ہی اس کے لہجے میں ایک سفاکی اور آنکھوں میں درندوں جیسی چمک ابھر آئی تھی۔

ان لمحوں میں دونوں کے ذہن ہی ماضی کی طرف چلے گئے۔ نواب مزید بول رہا تھا۔ 

” شاید یہ سب اسی طرح ہونا تھا ان سب حالات کا ہمیں آج سے پینتیس چالیس سال پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا۔ تب ہم نے تمہارے باپ حاکم علی سے بار بار کہا بھی تھا بہت سمجھایا تھا اسے کہ آج ہی سانپ کے ساتھ سنپولوں کو بھی کچل دے ورنہ آنے والے کل میں یہ ہی سنپولے ناگ بن کر راہ میں آ بیٹھیں گے مگر نہیں حاکم علی نے ہمارے کہے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا وہ ہم سے بارہ پندرہ سال بڑا تھا۔ ہم اس کا عزت کرتا تھا۔ اس لیے صرف مشورہ ہی دے سکتا تھا۔ اس نے تب ہمارے مشورے پر کان نہیں دھرا اور آج وہ سب ،اس کی اولاد کے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔” 

” آپ کی جان کاری میں ابھی صرف ادھی بات آئی ہے…. اک سانپ اور اسی کے سنپولے…. فوٹو کی اک سیڈ اور بھی ہے یہ صرف حاکم علی کی اولاد کا پھڈا نہیں ہے۔ کج اور لوگ اور سانپ بھی تھے!” 

نواب ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتے ہوئے ڈھیلے ڈھالے انداز میں صوفے سے پشت ٹکا کر بیٹھ گیا تھا۔ اکبرعلی کی بات پر اس نے جام میں سے چسکی لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ اکبر علی کے چہرے پر گھمبیرتا پھیلی تھی اور آنکھوں میں ایک اضطراب ، ایک بے سکونی ہلکورے لے رہی تھی۔

” کہنا کیا چاہتے ہو؟ ” نواب متفسر ہوا۔

 "آپ اس چھوکری کے متعلق تو جانتے ہیں کہ وہ کون ہے…. اس کے باپ دادا کون تھے چالیس سال پہلے جو کج بھی ہوا اس میں حاکم علی اور نواب اسفند صاب برابر کے حصہ دار تھے اور جسے آپ گندگی کے ڈھیر سے اٹھنے والا ولدالحرام کہہ رہے ہیں وہ وہ ولدالحرام کون ہے اور اس کے باپ دادا کون تھے ؟یہ آپ نہیں جانتے ابھی ،مگر میں جانتا ہوں۔ اس لیے بے سکون ہوں اور جب تک ان دونوں کے اکڑے ہوئے مردے اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں لیتا تب تک کسی صورت سکون میں آبھی نہیں سکتا میں۔”

"مرشد ہی کی بات کر رہے ہو نا ؟”

” ہاں ! اسی کی بات کر رہا ہوں۔”

” ہماری معلومات کے مطابق وہ شاہی محلے کی کسی طوائف کا بیٹا ہے۔ اس بارے میں تمارے پاس شاید کوئی چونکانے والا خبر ہے۔” نواب نے اپنی گھنی بھنویں سکیڑتے ہوئے اکبرعلی کو دیکھا۔ اسے جیسے اچانک احساس ہوا تھا کہ اکبرعلی کی اس بے سکونی اور پریشانی کے پیچھے ضرور کوئی غیر معمولی وجہ موجود ہے!

” شاہی محلے کی اس طوائف کا نام حسن آرا ہے اوراس ولدالحرام مرشد کے والد کا نام ارشد اللہ ہے میر ارشد اللہ !” چوہدری اکبر علی کی بات نواب کی سماعت پر کسی دھماکے کی طرح پھٹی۔ وہ جھٹکے سے سیدھا ہو بیٹھا۔

” یہ کیا ، کیا کہ رہے ہو تم! ” آنکھیں جیسے فرطِ حیرت و بے یقینی کے پیالا ہوگئی تھیں۔ چوہدری اکبرعلی کے چہرے پر ایک ذرا کرب کا سایہ سا لہرایا۔ شاید پرانے زخم یاد آ گئے تھے

 "وہی جو آپ نے سنا ہے۔ وہ فٹ پاتھیا بدمعاش ، ارشداللہ کا پتر ہے اور میر ظفراللہ کا پوتا۔”

” اکبرعلی ! تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔ تم تم کو پتا بھی ہے کہ تم کیا بول رہے ہو ؟ حسن آرا مر گئی تھی اور اس کی موت کے بعد ارشداللہ کبھی لاہور گیا ہی نہیں۔ پھر پھر مرشد ان دونوں کی اولاد کیسے ہوسکتا ہے؟” نواب کی آواز میں لرزش در آئی۔ اس کے چہرے پر زلزلے کے تاثرات تھے۔

"اس مرشد نے حسن آرا کی موت سے پہلے ہی بنیاد پکڑلی تھی موت اسے بعد میں پڑی تھی میں نے بھی ادر آنا جانا چھوڑ دیا تھا۔ مجھے اس بات کا کئی سال بعد پتا چلا، اس وقت تک میرے سر سے اس کنجری کا جنون اتر چکا تھا۔ میں نے اس بات پر دھیان ہی نئیں دیا۔ اندازہ نہیں تھا کہ حالات کبھی اس طرح کے بن جائیں گے! ” 

نواب کو چند لمحوں کے لیے چپ لگ گئی۔ اس کے چہرے اور آنکھوں میں کئی طرح کے تاثرات لہرائے پھر وہ اچانک غصے سے پھٹ پڑا۔

"اتنا بڑا بات اور تم ہم کو یہ آج بتا رہے ہو؟” ہاتھ میں پکڑا جام اس نے لرزیدہ انداز میں واپس تپائی پر رکھ دیا۔ ” اتنے سالوں بعد آج یہ دوستی نبھایا ہے تم نے ہمارے ساتھاتنا بڑا راز چھپائے رکھا ہم سے۔ ” 

"اب یہ بات غلط ہے نواب صاحب ! میں نے چھپایا چھپویا ک�±ج نئیں، ہاں…. یہ ہے کہ آپ کو اس بارے بتانا ذہن میں نئیں رہا۔ کہا ہے نا کہ میں نے اس بات پر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ "

” دھیان کیسے نہیں دیا تم نے…. کیا تم نہیں جانتے ،ہمارے اور ظفر اللہ کے درمیان دشمنی تھا۔ اس کے پورے گھرانے ، پورے خاندان کے 

ساتھ اور صرف ہمارا ہی کیا بات تمہارے باپ کا بھی دشمنی تھا اور تمہارا اپنا بھی۔ وہ سب بھول گیا کیا ؟”

” کج بھولا نئیں ہے مجھے۔” اکبر علی بدمزگی سے بولا۔ ” ظفراللہ مر گیا تھا۔ ارشداللہ بھی غائب ہو گیا تھا اور مجھے اس کنجری میں دل چسپی نئیں رہی تھی۔ ضد تو پوری ہو ہی گئی تھی میری ارشد اللہ بھی کامیاب نہ ہو سکا اور وہ کنجری حسن آرا بھی سہکتی ہی رہ گئی۔ سارا قصہ ہی ختم ہوگیا تھا۔” 

” کچھ ختم نہیں ہوا تھا اکبر علی! صرف ایک ظفراللہ مرا تھا۔ پیچھے اس کا پورا خاندان باقی تھا۔ بڑا اونچا اور شان والا خاندان اور اس خاندان کا ایک ناجائزوارث ایک حرامی بچہ اور وہ بھی بازار حسن کی ایک طوائف کے پیٹ سے۔ ا�±ف….”نواب نے اپنی پیشانی پر ہتھیلی سے دھپ لگائی اور حد درجہ متاسف انداز میں بولا۔ ” تم نے ہمارا ساتھ زیادتی کیا ہے اکبر علی! بہت ہی بڑا زیادتی یہ بات جب تمہیں معلوم ہوا تھا تب ہی ہم کو بتا دیتے یہیہ بہت غلط کیا تم نے۔ بہت ہی غلط کیا!”

اکبرعلی بولا۔ ” آپ کو اس غلطی کا پتا چل گیا نا! اب آپ یہ غلطی ٹھیک کرلو۔ وہ حرامی بچہ اس وقت یہیں موجود ہے۔ اپنے علاقے میںاور مجھے پکی مخبری ملی ہے کہ اس کی ماں ، وہ کنجری حسن آرا بھی اس وقت ادھر ہی ہے شاہ پور والی حویلی میں!“

نواب نے چونک کر اکبرعلی کی طرف دیکھا۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور یہ بیک وقت دونوں کے ذہنوں میں ایک سے خیالات ابھرے۔

شاہ پور کی حویلی ظفراللہ اور شہاب الدین وسیع رقبہ ، بلوچ مہاجر ، میر ارشد اللہ ، حسن آرا اور مرشد…. اور وہ سید چھوکری ماضی کسی فلمی ریل کی طرح چند لمحوں میں ان کے ذہنوں سے ہوگزرا۔ دونوں ایک دووسرے کی آنکھوں میں جھانکتے رہے۔ دونوں کے چہروں پر ایک سنسنی خیز ، خباثت بھری خیال انگیزی پھیل گئی تھی۔ 

نواب کے لب ہلے۔ ” یعنی چالیس سال بعد دو سانپوں کے سنپولے سانپ بن کر لوٹ آئے ہیں!”

"شاہ پوریے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کیا وہ بھی یہ سب جانتے ہوں گے ؟ "

 نواب کو ایک لمحے کےلیے چپ لگ گئی۔ پھر وہ از حد سنجیدگی سے بولا۔

"سوچنے کا بات تو یہ ہے کہ اس سب کے بارے میں ارشداللہ کو کس حد تک پتا ہے؟ "

"اسے شاید ک�±ج خبرنئیں َ؟ ” اکبرعلی پرسوچ انداز میں بولا۔”میرا خیال ہے کہابھی تک تو نئیںہے۔”

ایک ذرا توقف کے بعد نواب پھر متاسف سے انداز میں بولا۔ "ہمیں فرزندعلی نے بھی اس سب کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔”

” اس نے کیا بتانا تھا اسے تو ان باتوں کا پتا ہی نئیں ہے! "

"آدھا صدی گزرنے کو ہوا اور اب پھر گڑے مردے اکھڑنے کا ماحول بن آیا ہے نواب کا دھیان کہیں بہت دور تھا۔ ” تم نے ہمیں پہلے بتا دیا ہوتا تو ہم حالات کو یہاں تک آنے ہی نا دیتاہم دوسرے طریقے سے اس سب کا بندوبست کرتا۔”

"اب سمجھ گئے ہوں گے میری بے سکونی کی وجہ شاہ پریے اگر اصل حقیقت سے واقف نہیں بھی ہوئے تو جلد ہوجائیں گے یہاں سے اطلاع بلوچستان جائے گی۔ وہاں سے لاہور،یہ سارے کے سارے حرامی ، کتے شاہ پور میں اکھٹے ہوجائیں گےملک منصب کی حویلی میں۔ ارشداللہ بھی اور وہاں حسن آرا زندہ سلامت بیٹھی ہے سارے بلوچ پہلے ہی آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں۔ اگر اج راتوں رات وہ چھوکری اور وہ حرامی مرشد مرتے نئیں ہیں تو حالات اور نازک ہوجائیں گے۔ بارہ سال پہلے والی صورت حال بن سکتی ہے۔یا شاید…. اس سے بھی زیادہ خراب اور ب�±ری۔ "

"ب�±ری اور خراب تو پھر شاہ پور والوں کے لیے ہوگی نا ! ” نواب حقارت سے بولا۔

” اج حالات ک�±ج اور طرح کے ہیں۔ بارہ سال پہلے ملک منصب کے ساتھ جو ک�±ج کیا تھا اسے شاہ پور کے بچے بچے نے دل سے لگا رکھا ہے۔ آپ کے پولس والوں کا جھکاو�¿بھی ان ہی کی طرف نظر آتا ہے۔ "

 "ایسا کچھ نہیں۔” 

"تو پھر اب تک ہمارے بندوں کے قاتل کیوں نہیں پکڑے گئے۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس حرامی مرشد کے بدمعاش ساتھی ہیں اور وہ بھی ابھی تک یہیں کہیں موجود ہیں۔”

” ہمیں پتا چلا ہے کہ باغ میں مرنے والوں میں ملک سجاول کے بندے بھی ہیں۔”

 ” ملک سجاول! ” اکبرعلی چونکا۔ "اس کا اس سب سے کیا لینا دینا؟” 

 ” یہی تو بات ہے دو لاشیں ریلوے یارڈ سے بھی ملا تھا۔ ان کا شناخت ہی نہیں ہو سکا۔ ایسے میں کسی کے بارے میں کیا بولا جائے؟”

اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی نے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔نواب نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے رسیور اٹھا کر کان سے لگایا اور دوسری طرف کی آواز سنتے ہی چونک پڑا۔

” اوہ ، اچھاکب؟” اس نے اکبرعلی کی طرف دیکھا ، وہ اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے نواب ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ نواب تقریباً ڈھائی تین منٹ کال پر مصروف رہا لیکن اس دوران میں اس نے چند ایک اس قدر مختصر سوال کیے کہ چوہدری اکبر کو کچھ بھی اندازا نہیں ہو پایا۔ البتہ نواب اسفند یار کے چہرے کے اتار چڑھاو�¿ اور بدلتے ہوئے رنگ غمازی کر رہے تھے کہ دوسری طرف سے انتہائی اہم اور خاص نوعیت کی بات کہی جا رہی ہے۔

” کون تھا؟ کیا خبر آئی ہے؟ ” اس کے رسیور رکھتے ہی چوہدری اکبر متفسر ہوا مگر نواب اسے جواب دینے کی بجائے خاموشی سے دیکھے گیا۔ اس کی سنجیدگی کچھ مزید گھمبیر ہو چکی تھی اور آنکھوں میں الجھن و پریشانی کے سائے لہرانے لگے تھے۔ 

”کیا بات ہے نواب صاحب ! سب ٹھیک تو ہے نا ؟” اس بار چوہدری کے لہجے میں مشکوک سی سرسراہٹ تھی۔

” ایک خبر آیا ہے اکبرعلی! خبر کا دو پہلو ہے ایک اطمینان بخش اور دوسرا تھوڑا سنگین اور تشویش ناک۔“

” کیا ہوا؟” 

” مرشد لوگوں کا پتا چل گیا ہے۔ اس وقت وہ اپنے لوگوں کے گھیرے میں ہیں۔” 

” گھیرے میں ہیں، کیا مطلب ؟ وہ ابھی تک زندہ کیوں ہیں؟ ان کو مارا کیوں نہیں گیا؟ ” چوہدری جیسے تڑپ ہی اٹھا تھا۔ نواب اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مزید بولا۔

” وہ ابھی تک زندہ اس لیے ہیں کہ وہ سب لوگ دو بندوں کو یرغمال بنا کر ایک بند عمارت میں گھس بیٹھے ہیں۔ یرغمالیوں میں سے ایک بندے کو قتل کر چکے ہیں۔ قتل ہونے والا اے ایس پی رشید خان تھا۔ دوسرا بندا ابھی ان کے قبضے میں ہے اور وہ کوئی اور نہیںاپنا فرزند علی ہے۔” 

چوہدری اکبرعلی یوں اچھل پڑا جیسے نیچے سے کسی بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ 

” فرزندعلی” اس کے ہونٹ تھرتھرائے۔ اسے خود اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ اضطراری انداز میں اٹھ کر کھڑا ہوچکا ہے۔

” فرزندعلی مرشد لوگوں کے قبضے میں ہے یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کہاں کہاں، کس جگہ پر ہیں وہ لوگ؟ ” 

” دوآبہ کی اس طرفبستی چاہ جام والا کے مندر میں گھسے ہوئے ہیں۔ اپنے لوگوں کے علاوہ پولیس والوں نے بھی مندر کا گھیراو�¿ کر رکھا ہے۔ وائرلیس پر پیغام نشر ہوچکا۔ "نواب اپنی جگہ سے اٹھ کر مضطرب و پریشان کھڑے چوہدری کے سامنے آکھڑا ہوا۔ "فی الحال ابھی اس وقت ادھر کوئی ذمہ دار شخص موجود نہیں ہے۔ دونوں طرف سے فائرنگ کیا جارہا ہے مرشد کے ساتھیوں کی کوئی ایک چھوٹی سی ٹولی اور بھی ہے۔ وہ سب بھی مارا جائے گا۔ ظاہر ہے اب وہ کسی طرف بھی فرار نہیں ہو سکتاذمہ دار افراد بھی کچھ ہی دیر میں پہنچ جائے گا اور ابھی تھوڑا دیر میں ہم لوگ خود بھی ادھر سے روانہ ہوتا ہے۔ اپنے سامنے سب کی لاشیں چھلنی کرائیں گے لیکن فی الوقت تم اپنے اعصاب پہ تھوڑا قابو رکھو بیٹھ جاو�¿ ادھر بیٹھ جاو�¿ اکبرعلی!” نواب نے باقاعدہ اسے دونوں کندھوں سے تھامتے ہوئے واپس بیٹھا دیا۔

 ” فرزند کو کیسے یرغمال کر لیا انہوں نے۔ فرزند فرزند تو ہر وقت ہتھیار رکھتا ہے۔ آٹھ دس مسلح کارندے ساتھ ہوتے ہیں اس کے پھر پھر کیسے؟

چوہدری بری طرح پریشان ہو چکا تھا۔

” پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اکبرعلی !” 

کیسی بات کر رہے ہو آپ! فرزند میرا پتر ہے بڑا بڑا پتر ! میری گدی کا وارث خود بتا رہے ہیں کہ ان ماںنے اے ایس پی کو قتل کر دیا ہے اور پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ پریشان ہونے کی ضرورت نئیں ہے؟”

” ہمارا مطلب ہے ہم یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ پریشان ہونے سے مسائل حل نہیں ہوتے تم جانتے سمجھتے بھی ہو یہ بات۔ "

"آپ اس حرام کے نطفے مرشد کو نہیں جانتے۔ وہ بندہ نہیں قصائی ہے نواب صاحب ! قصائی جو ک�±ج وی کر سکتے ہیں فوری طور پر کریں۔ اکبر علی نے بے قراری سے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے حکم داد کی عبرت ناک لاش آ پڑی تھی اور ان لمحوں اس کا اپنا پتر اسی قصائی کی گرفت میں تھا جس نے حکم داد کو عبرت ناک اور دل دہلا دینے والے انجام تک پہنچایا تھا۔ چوہدری کو اپنے جگر میں برف سی جمتی محسوس ہوئی۔

نواب اسفند یار ٹیلی فون کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔

” چاہ جام والا سے شاہ پور صرف ڈیڑھ میل دور ہے۔ ادھر سے ضرور ٹانگ اڑائی جانی ہے اور مرشد کی بدمعاش برادری سے بھی ک�±ج بندے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس مرشد تک نا پہنچ پائے، یا ان کے پہنچنے سے پہلے پہلے اس(گالی)کو اس کڑی اور اس کے(ناقابلِ اشاعت) ساتھیوں کے ساتھ ہی چھلنی کروا دیں اس مندر سے کوئی بھی زندہ باہر نہیں آنا چاہیے۔” چوہدری نے تیز لہجے میں ممکنہ اور متوقع مشکلات کینشاندہی کی۔ نواب ڈی آئی جی کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے بولا۔

” بستی کو جانے والے چاروں راستوں پر سے بستی میں اگر کوئی داخل ہوگا تو وہ صرف مرشد اور اس کے ساتھیوں کا موت ہو گا۔ صبح انشااللہ پولیس کا لوگ ادھر سے ان کا لاشیں اٹھائے گا۔”اس کی بوڑھے حریص گدھ جیسی آنکھوں میں گہری سوچ کے تاثرات تھے۔ ڈی آئی جی کے بعد ابھی اس نے چار جگہ مزید کال کرنی تھی۔

     

٭ ٭ ٭

 وقت تھا رات قریب نو بجے کا سمت تھی بستی جام والا کی جنوبی اور فاصلہ رہا ہوگا یہی کوئی تین کلومیٹر کے لگ بھگ۔آموں کے باغ کے بیچ سے گزرنے والی ایک نیم پختہ ویران سڑک کے کنارے ایک پولیس جیپ کھڑی تھی۔ جیپ کی ہیڈ لائٹس آن تھیں۔ اس کے پہلو کی طرف چار باوردی مسلح سپاہی موجود تھے۔ان میں سے دو روشن ٹارچیں پکڑے کھڑے تھے اور دو نیچے بیٹھے بہ عجلت عقبی طرف کا ٹائر تبدیل کرنےکی کوششوں میں مصروف تھے جو کچھ ہی دیرپہلے دغا دے گیا تھا۔

جس طرف جیپ کا رخ تھا ادھر آگے کہیں دور سے فائرنگ کی مدھم آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ آوازیں بہت ہی دھیمی تھیں لیکن یہ اندازہ بخوبی ہوتا تھا کہ یہ دو طرفہ فائرنگ کی آوازیں ہیں

” اوئے تنویرے ! تو گھر بتا آیا ہے نا ؟ ” ان میں سے ایک دھیمے لہجے میں بولا۔ 

"نہیں بتا کے آیا۔ بتاتا تو لوگائی آنے دیتی کیا۔” دوسرا بولا۔ پھر تیسرے نے پریشان کن انداز میں کہا۔

 "کرتے رہو بکواس بیٹا ! لیکن میری بات یاد رکھنا۔ وہاں پہنچ کر ہیرو بننے کی کوشش کوئی نہ کرے۔ "

 چوتھے نے فوراً حصہ لیا۔

�©�©”ان حرامیوں نے ہمارے کتنے پیٹی بھائیوں کو مارا ہے اب یہیں سے ان کے جنازے نکلیں گے۔“

”میرابس چلے تو میں ان میں سے ایک ایک کو قیمے والی مشین میں سے گزروا دوں۔“

”مرنے والے پیٹی بھائی بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہوں گے خیالات ہی لے مرے انہیں۔“

” یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ یہ پورے کا پورا گروہ تربیت یافتہ لوگوں کا ہے۔ انتہائی تیز ، ظالم اور بے رحم لوگ ہیں سارے۔” 

"کتے بلے کتنے بھی بڑے اور خطرناک کیوں نہ ہوجائیں مارے ہی جاتے ہیں بیٹا جی ! وردی پہننے کا حق ایسے ہی موقعوں پر ادا کیا جاتا ہے۔”

” خودکشی کی موت مرنا کدھر کا حق ادا کرنا ہے۔ کیا حاصل ہوجائے گا ؟۔ سارا کریڈٹ تو ان صاحب لوگوں نے لے جانا ہے۔ ” بولنے والے نے جلے کٹے لہجے میں کہا اور ساتھ ہی محتاط سی نظروب سے جیپ کی عقبی طرف پھیلے اندھیرے کی طرف دیکھا پچیس تیس قدم دور اندھیرے میں دو سگریٹوں کے شعلے جگنوو�¿ں کی طرح جھلملا رہے تھے۔ وہاں ان کے دو افسر کھڑے سگریٹ پھونک رہے تھے۔ ان میں سے ایک کی بیلٹ کے ساتھ وائرلیس سیٹ لٹک رہا تھا جس میں سے وقفے وقفے سے شور اور آوازیں ابھر رہی تھیں۔

” چاہ جام والا کی طرف دو پولیس پارٹیاں روانہ ہوچکی ہیں

” "1280 بارہ اسّی ،میرے ساتھ تین بندے ہیں ہم بھی شمالی طرف سے جام والا کی طرف جا رہے ہیں۔“

” جام والا بستی کے مشرقی کونے کی طرف سے بھی گولیاں چلنے لگی ہیں۔ مجرموں کی کوئی ایک ٹولی ادھر سے بستی میں داخل ہونے کی کوشش کررہی ہے” 

” جام والا کے مشرق میں تو شاہ پور ہے نا؟ ” ان دونوں میں سے ایک الجھن زدہ سی پریشانی سے بولا اور یہ بولنے والا تھا ڈپٹی اصغر علی اعوان اس کے برابر کھڑے شخص کا نام سعد اللہ خان تھا۔ یہ شخص ڈپٹی اعوان کا دوست سجن بھی تھا اور محکمے میں اس کا ہم منصب بھی۔ اس نے مٹھی میں دبے سگریٹ کا کش کھینچا اور سر اثبات میں ہلاتے ہوئے بولا۔

 ” ہاں ہو سکتا ہے منصب اور ارباب کے ٹٹو شٹو ہوں۔ آج کل خون بڑا ابالے کھا رہا ہے ان لوگوں کا۔ “

” اوئے! جلدی کرو اوئے ! ” ڈپٹی اعوان نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں سپاہیوں کو جیسے مہمیز لگائی۔ ” ٹائر کے ساتھ ہی چمٹ کر رہ گئے ہو جلدی بدلو اپنے اس پیو کو۔ ” انہیں جھاڑ پلا کر وہ پھر سعد اللہ خان کی طرف متوجہ ہوا۔

” یاد رکھنا خان! ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں بچنا چاہیے۔ یہ کام اب تمہاری ذمہ داری ہے۔”

"تم یہ بات کوئی ستر بار دوہرا چکے ہو مجھے تمہاری مصیبت مشکل کا اندازہ ہے لیکن اس طرح پکاو�¿ تو نہیں یار ! ” 

” وہ جب تک زندہ ہیں تب تک میرے سر پر تلوار لٹکتی رہنی ہے خان! اس(گالی) مرشد کے معاملے میں بڑی غلطی ہو گئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ حرامی اتنا سخت چنا ثابت ہو گا۔ "

” اس رانڈ کے جنے کی قسمت بڑی تیز ہے۔ اب بھی جو آرڈر ملے ہیں، تمہارے سامنے ہی ہیں۔ ” 

"اسی لیے تو بار بار دوہرا رہا ہوں کہ ان سب کو ہر صورت مرنا چاہیے تمہیں سارا کچھ بتا چکا اگر وہ لوگ زندہ رہے تو میری زندگی خطرے میں پڑ جانی ہے۔ سب کچھ میرا سب ہی کچھ داو�¿ پر لگا ہوا ہے اس وقت پتا ہے نا تمہیں ؟ ڈپٹی اعوان سٹپٹائے ہوئے انداز میں بولا۔ اس کے روئیں روئیں سے ایک پریشانی ، ایک اضطراب چھلک رہا تھا۔

ڈی ایس پی سعداللہ خان کو اس کے سامنے ہی احکامات ملے تھے کہ وہ فوری طور پر بستی جام والا پہنچے اور جب تک ایس پی یا خود ڈی سی صاحب موقع پر نہیں پہنچ آتے تب تک وہاں کے معاملات اور صورت حال کو سنبھالے۔ مرشد اور اس کے ساتھیوں کی زندہ یا مردہ گرفتاری کے احکامات تو پہلے ہی سے جاری ہو چکے تھے۔ لیکن ابھی ڈی ایس پی سعداللہ خان کو خصوصاً تاکید کی گئی تھی کہ مجرموں کا کوئی نقصان ہو یا نہ ہو چوہدری فرزند علی صاحب کو ہرگز بھی کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ معمولی سے معمولی رسک لینے سے بھی صاف لفظوں منع کیا گیا تھا۔

” تم نے بھی تو چھپکلی والا کام کیا ہے اوقات سے بڑے شہتیر کو جپھا ڈال بیٹھے اور تھوڑے موقع ہوتے ہیں بنانے ، جوڑنے کےاوپر سے پنگا بھی الٹی کھوپڑی کے لوگوں سے ڈال لیا ہے۔” سعد خان کے لہجے میں قدرے بیزاری اور جھنجھلاہٹ تھی۔

 ڈپٹی اعوان کو اپنی پڑی تھی اور سعدخان کو اپنی جو ذمہ داری اسے سونپی گئی تھی وہ معمولی نوعیت کی نہیں تھی۔ اسے حالات کی سنگینی اور نزاکت کا اتنی اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ اس ہنگامے کی بھی چاپ سن رہا تھا جو ابھی وقت کے پردے میں تھا ! 

دور سے سنائی دینے والی فائرنگ کی آوازیں یہ تشویش بھی جگا رہی تھیں کہ کہیں ان لوگوں کے پہنچنے تک چوہدری مارا ہی نہ جائے وہ جانتا تھا کہ قریب تین کلومیٹر آگے جاری اس دو طرفہ فائرنگ میں کوئی پولیس والا حصہ دار نہیں ہے۔ یہ چوہدری ہی کے کارندے تھے یا پھر نواب اسفند یار کے پولیس والوں کی تعداد وہاں کم تھی اس لیے وہ فائرنگ کرنے والوں کو روک پانے میں ناکام رہے تھے۔ اب تین مختلف پولیس اسٹیشنوںسے کئی پولیس پارٹیاں جاری وقوعے کے مقام کی طرف روانہ تھیں۔ اگر جیپ کا ٹائر پنکچر نہ ہو گیا ہوتا تو شاید یہ لوگ موقع پر پہنچ ہی چکے ہوتے اب سعد خان دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اگر چوہدری فرزند علی کی موت آئی ہوئی ہے تو وہ اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی مارا جائے تو اچھا رہے گا۔

دونوں اپنی اپنی جگہ پریشانی اور اعصابی کشیدگی کا شکار تھے۔

 ڈپٹی اعوان کہہ رہا تھا۔” اپنے ہی کتوں کے پاگل پن نے سارا راتب بکھیر مارا ورنہ میں نے سب کچھ پوری طرح ناپ تول کر ترتیب دے رکھا تھا۔ چاروں خانے عین برابر بیٹھتے۔ بہرحال…. ہوگیا جو ہونا تھا۔ تم ابھی کی دیکھو۔ ایک وقت تم پر پڑا تھا تین بےگناہ گردنیں تھیں تمہارے آج بچے جوان ہیں۔ سب اچھے کی رپورٹ ہے۔ اب مجھ پر مشکل وقت آپڑا ہے تو تم متھا دو اللہ توکلی سارا معاملہ ہی تمارے ہاتھ آ گیا ہے۔ زندگی اور نوکری رہی تو آگے پھر عمر پڑی ہے خان ! کبھی کسی مشکل میں ، کسی قدم پر خود کو اکیلا نہیں پاو�¿ گے اور واسطہ تو پڑتا ہی رہتا ہے نا ! "

” ہمارے اور مرشد لوگوں کے درمیان وہ فرزند علی بھی تو آپڑا ہے۔ اس چوہدری کے بچے کا کیا کریں گے ؟ ” سعدخان نے کہا۔

"اسے بھی جانے دو۔ ” 

” ہیں ! کیاکیا کہہ رہے ہو ؟” سعدخان بری طرح چونکا۔

 ” مرنے دو اسے بھی۔ اسے بچانے کا سوچنے لگے تو تمہارے بڑے آ پہنچیں گے۔ تب معاملہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ مرشد لوگوں کے لیے کوئی راہ پیدا ہوگئی تو تمہارا دوست گیا پھر…. چوہدری کو بھی ان کے ساتھ ہی اڑا مارو۔ ” ڈپٹی اعوان کے لہجے میں سفاک بے حسی تھی۔

"تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ میرے لیے جواب دہی مشکل ہوجائے گی بلکہ جواب دہی کیا ، چوہدری طبقہ مجھے ہی زندہ نہیں چھوڑے گا۔ "

"کچھ نہیں ہوگا۔” ڈپٹی اعوان نے سنجیدہ اور پرزور لہجے میں کہا۔ ” پہنچتے ہی کاروائی کا حکم دینا۔ ان سب حرامیوں کے ساتھ ہی فرزند علی کو بھی مرنے دو۔ میرے لیے وہ بھی کم خطرناک نہیں۔ اس پاگل سور کو بھی جب موقع ملا اس نے مجھ پر جان لیوا وار ہی کرنا ہے اب قصہ پاک ہونے دو اس کا بھی۔ جب وہ وحشی مجرم اے ایس پی کو قتل کرسکتے ہیں تو فرزندعلی کو بھی قتل ہی کرچکے ہیں وہ اورتمہیں اچھی طرح پتا ہے تم جانتے ہو کہ یہ سب کس طرح ہونا ہے؟ "اس کا لہجہ معنی خیز ہوگیا۔ وہ مزید بولا۔ ” کارنامہ انجام دو خان! پانچ لاکھ کیش انعام میری طرف سے پکا تمہارا محکمہ بھی تمہاری اس کارکردگی کو نظر انداز تو ہرگز نہیں کرے گا”

سعدخان کو چپ لگ گئی۔ اسی وقت عقبی طرف سے آتی کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی دکھائی دی۔ یہ پولیس جیپ تھی اور سعدخان کے وائرلیس پر چھوڑے ہوئے پیغام کے نتیجے میں اس طرف آئی تھی۔

"ٹھیک ہے اعوان ! ” سعدخان نے ڈپٹی اعوان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ "معاملہ تو سارے کا سارا ہی رسکی ہے لیکن تمہاری دوستی کی خاطر یہ رسک اٹھالیتے ہیںکرتے ہیں پھر سب ہی کا ان کاو�¿نٹر…. ” 

پولیس جیپ ان کے قریب آرکی۔

 

٭ ٭ ٭

وقت تھا رات قریب نو بجے کا….سمت تھی بستی چاہ جام والا کی جنوب مغربی اور فاصلہ رہا ہوگا یہی کوئیپانچ چھ کلومیٹر کے لگ بھگ۔ 

یہ ایک طرح سے مظفرگڑھ شہر کا مضافاتی علاقہ تھا اور یہاں قدرتی طور پر کجھور کے درختوں کی کثرت تھی۔ یہ طویل قامت درخت یہاں کے کئی ایکڑ رقبے تک پھیلے ہوئے تھے اور یہ سارا رقبہ ملک آفتاب احمد پنوار کی ملکیت تھا، جس کا شمار علاقے کے بااثر اور طاقت ور افراد میں ہوتا تھا۔

ملک آفتاب کا ایک بھائی صوبائی وزیر کی کرسی پر تھا اور دوسرا فوج میں میجر کے عہدے پر حاضر سروس آفیسرکھجوروں کے اسی بے ترتیب باغ میں پنواروں کا ڈیرہ تھا۔ قدیم وضع کی قلعہ نما وسیع و عریض کوٹھی جس میں آج قدرے غیر معمولی نوعیت کی رونق اور ہلچل سی تھی۔

دو گاڑیاں کوٹھی کے گیٹ سے باہر کھڑی تھیں اور آٹھ دس کوٹھی کے اندر۔ پانچ سات بندے چھت پر تھے۔ تقریباً پندرہ کے قریب عقب میں اور اتنے ہی سامنے کے وسیع اور کشادہ لان میں ادھر ادھر دو دو چار چار کی ٹولیوں کی صورت میں بکھرے ہوئے تھے…. ان سب کے علاوہ چند افراد گاڑیوں کے قریب بھی موجود تھے اور یہ سب کے سب ہی پوری طرح مسلح تھے!

 کوٹھی کے زیادہ تر حصوں میں تاریکی تھی جو گہرے بادلوں کی بدولت کچھ زیادہ ہی گاڑھی محسوس ہورہی تھی۔ خنک ہوا میں دھول کا غبار سا گھلا ہوا تھا۔ اتنے افراد کی موجودگی کے باوجود کوٹھی میں ایک سنسنی خیز اور پراسرار سی خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ایسی خاموشی جو دھڑکنوں میں خوف انگیز سنسناہٹ جگاتی ہے ہر لمحہ ، ہر آن کسی مہیب ہنگامے ، مہیب طوفان کی آمد کا چیخ چیخ کر احساس دلاتی ہوئی پرسکون خاموشیوہاں موجود تقریباً ہر سینے میں ایک ہی احساس دھڑک رہا تھا۔ آج کچھ ہوگا آج رات ضرور کچھ ہو کر رہے گا۔

عمارت کے اندرونی حصے کے ایک ہال کمرے سے مختلف آوازیں ابھر رہی تھیں۔ اس ہال کمرے میں ملک آفتاب احمد پنوار کے علاوہ اس وقت دس افراد مزید موجود تھے۔ ان دس میں سے ایک پولیس کا سب انسپکٹر تھا۔ چھ افراد علاقے کے متعبر اور بااثر زمینداروں میں سے تھے اور باقی تین تھے استاد کرامت ، استاد افضل ملتانی ، اور رستم لہوری ! 

سب انسپکٹر بول رہا تھا "‘یہ ہے ملک صاحب سیدھی اور صاف صاف صورت حال اب باقی آپ دیکھ لیں۔ "

"بات وہی ہے کرامت بھائی ! سب کچھ غیر یقینی ہے۔ ان”

استاد کرامت بولنے والے کی بات کاٹتے ہوئے بول پڑا۔ ” نہیں اس طرح تو پھر خرابا ہی ہونا ہے جی! اور آپ پروا نہیں کرو۔ ہم تو آئے ہی اس لیے ہیں۔

 ” ایک اور زمیندار بولا۔ "یہ فساد بہت بڑھ جانا ہے چاروں طرف کے بہت سارے لوگ جانیں گنوا بیٹھیں گے۔”

"اگر ہمارے جوان یا اس کے کسی ساتھی کی جان گئی تو ادھر پھر جو مرضی مرتا پھرے۔ ” رستم لہوری نے بھاری اور اٹل لہجے میں کہا۔ اس کے حدت انگیز چہرے پر موجود سفید ڈاڑھی مونچھیں اس کی بارعب شخصیت کو مزید دبنگ اور بھاری بھر کم تاثر دیتی تھیں۔ "یہ بات ہم لوگوں نے کل ڈی سی بہادر کو بھی بتا دی تھی۔ وہ کتا ڈپٹی اعوان بھی اس وقت وہیں موجود تھا۔ بہت تکلیف میں تھا وہ خنزیر خور!”

” یہ سارا تماشا ایک طرح سے اسی کی وجہ سے بنا ہے۔”

” ایس پی اور ڈی سی صاحب بھی دامن بچا رہے ہیں۔ مجھے تو ایسے ہی لگتا ہے” یہ استاد افضل تھا۔

ملک آفتاب بولا۔ ” ہم ٹھیک پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ مرشد اور اس کے ساتھی شہر سے تو نکل نہیں سکیں گے۔ چوہدری اور نواب کے بندوں کے علاوہ پولیس والے بھی ہیں کسی بھی وقت ان کے متعلق اطلاع آجانی ہے کہ وہ کہاں موجود ہیں۔ فوراً دھاوا بول دیں گے۔ایس پی اور ڈی سی صاحب کو بھی موقع پر پہنچنا پڑے گا۔ ہم سب ہوں گے علاقے کے اور معزز اور بااثر بندے موجود ہوں گے۔ تب مرشد کو ہتھیار ڈال کر گرفتاری دینے کا کہیں گے۔ تب تو پولیس والے جعلی پولیس مقابلہ نہیں بنا سکیں گے نا! "

"ایس پی اور ڈی سی صاحب خود تو شاید ایسا چاہتے بھی نہیں ہیں جی ! یہ تو ملازمین کے اپنے اندر کی کوڑ اور غصے کا بتایا ہے میں نے ” سب انسپکٹر بولا تھا۔ ” اپنے پیٹی بھائیوں کے قتل کا روایتی غم و غصہ پالے پھر رہے ہیں سب ہی خصوصاً یہ ڈپٹی اعوان صاحب کے آنے کے بعد محکمے کے اندرونی اشتعال میں زیادہ ہی اضافہ ہوا ہے۔“

 استاد کرامت بولا۔ سو حرامیوں کا ایک حرامی ہے وہ۔ "

"سنا ہے بھٹہ پور کی طرف باغ میں شام کے وقت جو جھڑپ ہوئی ہے اس میں چوہدریوں کے علاوہ ملک سجاول کے بھی چار پانچ بندے مرے ہیں۔”

” ہاں ٹھیک سنا ہے تم نے۔ "

” بات ہوئی کوئی سجاول سے؟ "

"وہ تو غائب ہوچکا یہ پتا چلا ہے کہ مرنے والے مرشد کے ساتھ نہیں تھے بلکہ اس کی تلاش میں وہاں گئے تھے اور انہیں لے کے جانے والا تھا شاہ ٹکسٹائل والے شاہ جی کا بیٹازریون شاہ۔ "

"وہ غالبا ان سید بی بی کے خاندان ہی میں سے ہے اور شاہ پور والے بلوچ بھی شاید اسی لیے چوہدریوں اور نوابوں کے خلاف مرشد لوگوں کے دفاع کی ، ان کے بچاو�¿ کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔”

پنوار بولا ” یہ ایک طرح سے اچھا ہی ہے۔ ہمارے اور مرشد کے حق میں جاتی ہے یہ بات چوہدری اور نواب لوگ تو ہر صورت اور ہر قیمت پر مرشد اور ان…. بی بی کو ختم کرنا چاہتے ہی تھے، اب پولیس والے بھی اسے اور اس کے ساتھیوں کو پولیس مقابلے میں مار ڈالنے کا تہیہ کرچکے ہیں تو ایسے میں مرشد کے دفاع کے حوالے سے پولیس والوں پر جتنا زیادہ دباو�¿ بنے گا مرشد لوگوں کے حق میں اتنا بہتر رہے گا۔ "

"ملک صاحب ! ایک بات تو طے ہے۔” رستم لہوری نے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے کہا۔ "نواب ، چوہدری اور پولیس سب تک ہم یہ بات پہنچا چکے کہ ہمارے شہزادے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ چوہدریوں اور نوابوں کی طرف سے پہنچا تو ان کی ساری عورتیں بیوہ ہو جائیں گی اور اگر پولیس والوں نے اب کوئی گھناو�¿نا کھیل کھیلا تو پھر اس شہر میں کوئی تھانہ سلامت نہیں رہے گا۔ ” اس کے لب و لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ ایک بار تو سب ہی کو چپ لگ گئی۔ آفتاب پنوار نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ کہنا چاہا تھا کہ اسی وقت کمرے کے دروازے سے دو مسلح افراد بہ عجلت اندر داخل ہوئے ، دونوں کی صورتیں سنسنائی ہوئی تھیں۔ ان کے یوں آنے پر وہاں بیٹھے سب ہی افراد چونک پڑے۔ 

"مرشد باوا کا پتا چل گیا۔ وہوہ یہاں سے چناب کی طرف بستی جام والا میں ہے۔ بستی میں مسلسل فائرنگ جاری ہے۔ ” ان میں سے ایک نے تیز لہجے میں کہا۔ اس کا جملہ مکمل ہوا ہی تھا کہ رستم لہوری ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔

افضل ! کرامت ! آجاو�¿ اوئے ! ” وہ ولولہ خیز لہجے میں کہتا ہوا کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔ اس کی پھرتی اور تاثرات دیکھ کر وہاں بیٹھے زمینداروں کے ذہنوں کو ایک بوڑھے مگر غضب ناک شیر کا خیال چھو گیا تھا۔

استاد کرامت ، افضل ملتانی اور آفتاب پنوار اٹھ کر فوراً اس کے پیچھے بیرونی طرف کو لپکے جہاں مشترکہ طور پر ان سب کے چالیس پچاس مسلح بندے محض اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ کب انہیں اشارہ ملے اور کب وہ اپنے ہتھیار سونت کر مرنے مارنے کی نیت سے نکل کھڑے ہوں۔مزید کچھ ہی دیر بعد وہاں اطراف میں بکھرے کجھور کے درختوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی نیم پختہ سڑک پر دس گاڑیوں کا قافلہ تیز رفتاری سے جام والا کی طرف دوڑا جارہا تھا۔ 

سب سے آگے والی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر مرشد کا لالا، رستم لہوری خود موجود تھا جس کے چہرے پر چٹانوں کی سی سختی چھائی ہوئی تھی!

٭ ٭ ٭

رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔ گھنٹہ بھر پہلے شروع ہونے والی ہلکی ہلکی رم جھم اور دھیمی ہوا نے موسم کا مزاج یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ بلندیوں سے گویا ایک خوشگوار سی ٹھنڈک زمین پر اتری آرہی تھی۔اس پل پل بھیگی رات کی خنک تاریکی میں ڈوبی کھڑی بستی چاہ جام والا کی فضا میں ایک دہشت خیز خاموشی سرسراہتی پھر رہی تھی۔ پوری بستی ایک گہری چپ کی لپیٹ میں تھی۔ سب گلیوں ، گھروں اور گھروں کی چھتوں صحنوں میں جیسے ایک خون آشام ویرانی آ براجی تھی۔بستی کے سب ہی لوگ اپنے اپنے گھروں کی کھڑکیاں دروازے بند کئے کمروں میں سہمے بیٹھے دعائیں مانگ رہے تھے کہ کسی بھی طرح یہ بھیانک رات خیر خیریت سے گزر جائے اور بستی پر ٹوٹ پڑنے والی یہ آفت ٹل جائے۔

آج شام کا اندھیرا پھیلتے ہی بستی میں گویا موت کے اندھے فرشتے اتر آئے تھے۔ پھر جیسے جیسے رات گہری ہو تی گئی ویسے ویسے ایک اجل خیز ہنگامہ پھیلاو�¿ اور شدت اختیار کرتا گیا اب سے قریب ایک گھنٹہ پہلے تک تو وہ کہرام برپا رہا تھا کہ الامان یوں لگتا رہا تھا جیسے ساری بستی ہی میدان جنگ بن کر رہ گئی ہو۔ بستی کے ہر فرد کو یقین تھا کہ صبح بستی سے ایک ساتھ کئی لاشیں اٹھائی جائیں گی۔ ساتھ ہی سب کو اپنی اپنی فکر تھی۔ دہشت ناک آوازوں میں چیختے ، دھاڑتے بستی میں دندناتے پھرتے موت کے یہ اندھے اور جنونی فرشتے کسی کے بھی گھر میں گھس سکتے تھے۔ جان لیوا اندیشوں نے بستی کے ہر مکین کے سانس خشک کر رکھے تھے۔

 بستی کے عین وسط میں موجود مندر وہ مقام تھا جہاں سے اس ہول ناک کہرام کی شروعات ہوئی تھی۔ اس مندر میں مرشد اور اس کے ساتھیوں نے پناہ لی تھی لیکن اب وہ اس مندر میں نہیں تھے۔ چوہدری فرزند کے بچ نکلنے کے بعد انہیں مجبوراً وہاں سے پسپا ہونا پڑا تھا اور درست بات تو یہ ہے کہ انہوں نے پسپا ہونا ہی مناسب خیال کیا تھا کیوں کہ اس صورت میں وہ مزید بہتر اور محفوظ پوزیشن پر آجاتے سو انہوں نے پسپائی اختیار کر لی تھی۔

جس طرف سے ساون لوگوں نے مندر کی دیوار میں نقب لگائی تھی اس طرف ایک خستہ حال دو منزلہ مکان واقع تھا۔ سیندھ لگا کر سرنگ کے دھانے جیسا راستہ جہاں بنایا گیا تھا یہ اس مکان کا ایک اسٹور نما کمرا تھا جس میں کاٹھ کباڑ بھرا ہوا تھا۔ سیمنٹ کی جالیوں سے کور برآمدے میں دو کمرے اور دائیں بائیں ایک طرف کچن اور دوسری طرف باتھ روم تھا۔ صحن خاصا کشادہ تھا جس کا سامنے کا آخری حصہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور عین وسط میں ایک چھتناور درخت موجود تھا۔ اس وسیع صحن کے ایک طرف خالی ٹرالی کھڑی تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر لوہے کے بہت سارے ڈرم اوپر تلے دھرے تھے اور شاید اس طرف کچھ جانور مویشی وغیرہ بھی موجود تھے۔ باقی صحن کے دو طرف کی دیواریں کافی چھوٹی تھیں۔ با مشکل ساڑھے چار پانچ فٹ اونچائی رہی ہو گی۔

برآمدے ہی کے ایک کونے میں سے تنگ و تاریک پختہ زینے اوپری منزل پر جاتے تھے جہاں لالا رستم کے چند کارندے چھت کی چار دیواری کی اوٹ اور ایک کمرے میں پوزیشنیں سنبھالے چوکس بیٹھے تھے۔دلشاد اور جمشید نے اسٹور میں مورچہ سنبھال لیا تھا۔ گھر کے مکینوں کو وہ لوگ پہلے ہی اکھٹا کر کے ایک کمرے میں بند کر چکے تھے۔

مرشد لوگوں کے اس مکان میں منتقل ہوتے ہی ایک بار تو فائرنگ نے خوب شدت اختیار کی تھی لیکن جلد ہی ان کے دشمنوں کو اندازہ ہو گیا کہ وہفضول میں گولیاں ضائع کر رہے ہیں۔ ان کے آقاو�¿ں کے معتوب پوری طرح محفوظ پوزیشنوں پر تھے۔ کچھ ہی دیر بعد چار پانچ گاڑیاں پولیس کی بھی پہنچ آئی تھیں۔ مرشد اس وقت ساون اور اکو کے ساتھ چھت پر ہی موجود تھا۔ پولیس کی اس نفری کے پہنچتے ہی فائرنگ مکمل طور پر رک گئی۔ 

مرشد نے اپنے ارد گرد کا ، صورت حال اور اپنی موجودہ پوزیشن کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کی اچھی طرح تسلی حاصل کی کہ دشمن کے لیے فوری طور پر اور آسانی سے انہیں کوئی نقصان پہنچا پانا ممکن نہیں ہے۔ ان جان نثار ساتھیوں کی صورت خدا نے اس کی بروقت مدد کرتے ہوئے افرادی قوت سے بھی نواز دیا تھا اور ایک نئے حوصلے ، نئی طاقت سے بھی ساون لوگوں کے پاس ایمونیشن بھی تسلی بخش تھا۔ پیش قدمی پر وہ بجا طور پر دشمن کے دانت کھٹے کر دینے کی پوزیشن میں آگئے تھے۔ 

پولیس کی ان گاڑیوں کو پہنچے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ بستی کے مشرقی کونے کی طرف وقفے وقفے سے دو تین گولیاں چلنے کی آواز بلند ہوئی اور پھر یکایک ہی جیسے دو طرفہ فائرنگ شروع ہوگئی۔ واضح طور پر اندازہ ہوتا تھا کہ مشرق کی طرف بستی کے پہلے مکانوں کے آس پاس کوئی دو مسلح پارٹیاں پوری شدت کے ساتھ ایک دوسرے سے بھڑ گئی ہیں۔ ساون اور اکو نے قیاس ظاہر کیا کہ اس طرف شاہ پور والے بلوچ ہوسکتے ہیں۔ بہرحال جو بھی تھا ان کے لیے تو یہ صورت حال امید افزا ہی تھی۔ ساون کی زبانی مرشد کو اماں کی خیر خیریت بھی معلوم ہوگئی۔ 

بقول ساون قریب ایک ماہ پہلے جب مرشد ، ملنگی کی چلائی ہوئی گولی کا نشانہ بنا تو وہ خبر کسی طرح اس کی اماں ، یعنی حسن آرا کے بھی علم میں آگئی اور اس کے بعد وہ اس قدر مضطرب و بے قرار ہوئی کہ محض چند روز کے بعد وہ یہاں مظفرگڑھ پہنچ چکی تھی۔لالا رستم پہلے سے یہاں موجود تھا اور اسی کے توسط سے ساون لوگ حسن آرا کو لے کر شاہ پور ،ملک منصب کی حویلی تک پہنچے تھے۔ساون نے بتایا کہ ایک جملہ خالہ باربار بڑبڑاتی تھی۔

"اگر مرشد زندہ ہے تو پھر بی بی بھی خیریت سے ہیں!”

مرشد یہ سن کر محض مسکرا دیا تھا۔اگلے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں وقفے وقفے سے میگا فون کے ذریعے مرشد کو تین بار پکارا گیا۔ یقینی طور پر بولنے والا کوئی پولیس آفیسر ہی تھا۔مرشد اور اس کے ساتھیوں کو وارننگ دی گئی دھمکایا گیا ۔ایک ہی بات مختلف جملوں اور لہجوں میں بار بار دہرائی گئی گرفتاری دے دو۔

اس بار زریون کی ہدایت پر مرشد نے تین چار شخصیات کے نام گنوائے کہ انہیں یہاں بلایا تو ان کی موجودگی میں ہم ہتھیار ڈال کر خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردیں گے۔اس کی پولیس افسر سے بس مختصر سی بات چیت ہوئی اور یہ ساری بات چیت من و عن زریون کی منشا کے مطابق ہوئی۔ اس نے جو چند جملے زریون نے بولنے کے لیے کہا ،وہ مرشد نے آگے پہنچا دیئے۔ یہ الگ بات کہ اس کے اپنے ذہن میں کچھ اور ہی تھا ان کے درمیان یہ بات چیت ابھی ختم ہی ہوئی تھی کہ بستی کے جنوب مغربی سمت بھی گولی چل گئی ایک کے بعد ایک اور پھر تڑتڑا تڑ دو طرفہ فائرنگ چھڑ گئی۔ اس فائرنگ کے شروع ہوتے ہی بستی کی مشرقی سمت جاری فائرنگ بھی یکایک ہی زور پکڑ گئی تھی۔ نیچے اسٹور روم سے بھی اچانک چند فائر کیے گئے اور لمحوں میں ایک بار پھر بستی کی فضا میں اندھی دہشت ناچ اٹھی۔ چوہدریوں اور نوابوں کے نمک خوار ایک بار پھر ہذیانی للکاریں مارتے ہوئے اندھا دھند گولیاں برسانے لگے تھے۔

چھت پر موجود لالا رستم کے کارندوں کے ساتھ مل کر مرشد لوگوں نے بھی جوابی کاروائی شروع کر دی۔ ہتھیاروں کی گھن گرج کے بیچ وقفے وقفے سے کچھ آوازیں بھی بلند ہوتی تھیں۔ غالباً پولیس والے فائرنگ رکنے کا کہہ رہے تھے لیکن اس اجل خیز شور میں ان کی یہ آوازیں صدا بصحرا کے مصداق تھیں۔

 ایک بار اڑتی اڑتی سی ملنگی کی آواز بھی مرشد کی سماعت سے رگڑ کھا کر گزری۔ وہ غالباً اپنے ساتھیوں کو جوش دلا رہا تھا۔مرشد نے اسے دیکھنے کی بڑیکوششیں کی لیکن اسے کامیابی نہ ہوسکی۔ بستی کے تین مختلف مقامات پر ایک ساتھ فائرنگ شروع تھی۔ فائرنگ کی بھیانک شدت اس بات کی گواہ تھی کہ تینوں طرف جتنے لوگ بھی اس اندھی فائرنگ میں شریک ہیں وہ سب وحشت و غضب سے پوری طرح بپھرے ہوئے ہیں۔ ایک سفاک جنوں تھا جس نے سب ہی دماغوں کو پتھرا دیا تھا۔

تقریباً ایک گھنٹے تک تینوں مقامات پر فائرنگ اسی شدت سے جاری رہی پھر اچانک جنوبی طرف سے فائرنگ رک گئی۔ مشرق کی طرف جاری لڑائی اپنے مقام سے آگے بڑھ آئی تھی۔ غالباً مشرق کی طرف سے آنے والی مسلح پارٹی اپنے حریفوں کو دھکیلتی ہوئی بستی کے اندر گھس آئی تھی۔ اس طرف اب گلیوں کے اندر گولیاں چل رہی تھیں۔

کچھ ہی دیر مزید گزری ہوگی کہ مرشد لوگوں پر کی جانے والی فائرنگ کی شدت یکایک کمزور پڑ گئی۔ آسمان پر مسلسل جمع ہوتے آنے والے بادلوں نے اپنی موجودگی سے آگاہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ ہلکی بوندا باندی شروع ہورہی تھی۔ دس پندرہ منٹ بعد فائرنگ مکمل طور پر رک گئی ان پر کی جانے والی بھی اور مشرقی گلیوں میں ہونے والی بھی یکایک ہی پوری بستی میں ایک گہری خامشی چھا گئی تھی اور اب…. گزشتہ ایک گھنٹے سے یہ خاموشی اسی طرح برقرار تھی۔

بوندا باندی رم جھم کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ اس رم جھم کے ساتھ چلنے والی ہلکی ہلکی ہوا نے ماحول میں خنکی کا احساس جگا دیا تھا۔ موسم کا مزاج یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔

"یہ خاموشی کچھ زیادہ ہی لمبی نہیں ہوگئی۔” خنجر بولا تھا۔ وہ, مرشد ،ساون ،اکو اور لالارستم کے کارندے ولی خان اور تاجی اس وقت اوپری منزل کے ایک کمرے کی دیوار کے ساتھ فرش پر بیٹھے تھے۔ لالا کے تین کارندے پلاسٹک کی بوریاں اوڑھے کمرے سے باہر چھت کی شمالی دیوار کے ساتھ اپنی پوزیشنوں پر موجود تھے۔ 

اکو بولا۔ "ہو نا ہو بات وہی ہے ان کتوں کے مامے تائے پہنچ چکے ہیں۔” 

"یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بڑے حملے کی تیاری کی جارہی ہو۔” یہ مرشد تھا۔ "وہ اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ہمارے مورچے پوری طرح محفوظ ہیں اور فی الحال اسلحے کی بھی ہمارے پاس کوئی کمی نہیں۔” 

"میرا خیال ہے کہ صورت حال بدل گئی ہے۔” ساون بولا۔ ” ہمارے لوگ پہنچ چکے ہیں۔ ملک منصب اور ارباب قیصرانی کی طرف سے بھی اور لالا رستم بھی میں نے بتایا ہے نا لالا نے یہاں کے بااثر زمینداروں کے ساتھ مل کر تیاری کر رکھی تھی۔ ہر طرح کے حالات سنبھالنے کے لیے۔ ہو سکتا ہے ملک منصب یا ارباب خود بھی اردگرد کہیں پہنچے کھڑے ہوں اور یقینی طور پر کچھ اعلا افسران بھی اب تک پہنچ چکے ہوں گے ورنہ اب ہمارے قبضے میں چوہدری ہے نا اے ایس پی یہ فائرنگ رکنی نہیں چاہیے تھی۔ رک گئی ہے تو پھر ضرور بستی کی صورت حال بدل چکی ہے ۔یہ جو دو طرف فائرنگ ہو رہی تھی یہ یقینی طور پر شاہ پور والے اور لالا رستم لوگ ہی ہیں۔ "

مرشد نے سر عقب میں دیوار سے ٹکا دیا۔ وہ خود اسی انتظار میں تھا کہ کب کچھ سرکردہ ذمہ دار افراد پہنچتے ہیں۔ تاجی نے ایک ذرا اٹھتے ہوئے کھڑکی میں سے جھانک کر باہر کی بھیگی تاریکی میں دیکھا۔ کمرے کے سامنے کی دیوار اور چھت کا کچھ حصہ جگہ جگہ سے زخمی تھا اور کمرے میں کچرا بکھرا ہوا تھا۔ یہ دشمن کی اندھی فائرنگ کی کارستانی تھی۔

مرشد کے زخمی ہاتھ پر پٹی لپٹی ہوئی تھی اور پسلیوں کی چوٹ پر بھی بنڈیج موجود تھی بنڈیج بھی کیا تھی ہلدی کا تیل ملا پیسٹ اور گرم روئی کا ملاپ تھا۔ یہاں ان حالات میں یہی ممکن تھا اور اس کی یہ ٹریٹمنٹ بھی خنجر اور ساون نے ایک طرح سے زبرستی ہی کی تھی ورنہ مرشد کا اضطراب تو لمحے بھر کاآرام یا غفلت برتنے کو تیار نہ تھا۔ چوہدری فرزند کے پھسل جانے کا رنج تو تھا ہی ،ملنگی کی موجودگی نے بھی اسے خاصا پریشان کر کے رکھ دیا تھا۔

خنجر بولا۔ "یہ تو بہت ہی بڑا بکھیڑا بن گیا ہے۔بری طرح گھیرے جا چکے۔ گرفتاریاں دینی پڑیں گی کیا؟”وہ مرشد سے مخاطب ہوا تھا لیکن جواب اکو نے دیا۔

” نہیں۔ پولیس والے ہر صورت تم لوگوں کا ان کاو�¿نٹر کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت کئی تھانوں کی پولیس یہاں اور اردگرد کے علاقے میں موجود ہو گی۔ بچ کے نکلنا بہت ہی مشکل ہے لیکن کوئی سکیم لگانی پڑے گی۔ تم لوگوں کی جگہ کچھ اور بندے لے لیں گے اسی طرح کا کوئی ڈاج کھیلنا پڑے گا۔”

” یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ” ساون نے کہا۔ "فی الحال ہمیں صرف انتظار کرنا ہے دیکھتے ہیں لالا رستم اور ملک منصب لوگ کیا کرتے ہیں۔ "

"ہماری گرفتاری سے نیچے کچھ طے پانے کا تو سوال ہی نہیں ہے تو کیا ہم ہتھیار ڈال کر خود کو ان حرامی بھڑووں کے حوالے کردیں گے ؟” 

خنجر نے ایک بار پھر متفسرانہ نظروں سے مرشد کی طرف دیکھا۔ اس بار ولی خان بول پڑا۔

"گرپھتاری دیا تو یہ پولیسا لوگ پھوراً ہم سب کو مار ڈالے گا۔ ام کو رستم استاذ بولا تھا کہ اگر ایسا کوئی صورت بن جائے تو گرپھتاری نہیں دینا …. کم از کم اس وقت تک نہیں جب تک رستم استاذ خود سامنے آکر ایسا کرنے کو نہ بولے۔”

"ہم لالا کے ایسا بولنے پر بھی گرفتاری نہیں دیں گے۔” مرشد کا لہجہ دھیما مگر ٹھوس تھا۔ "ہم لڑیں گے۔ مقابلہ کریں گے ہتھیار نہیں ڈالیں گے ہم۔”

 "کب تک پورا ضلع کا پولیس کے ساتھ کب تک لڑے گا ام ام کو ہتھیار ڈالنا پڑے گا یا پھر بچ کر بھاگنے کا کوشش کرنا ہوگا۔” 

ولی خان مزید بولا تھا۔ باقی ساتھی بھی مرشد کی طرف متوجہ ہوگئے۔

” ہم یہ دونوں کام نہیں کریں گے۔”

"پھر تو پکا مرے گا۔ ام سب کا سب۔”

"ڈر لگ رہا ہے؟” مرشد نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تو ولی خان نے گڑبڑا کر یوں سب کی طرف دیکھا، جیسے یہ اندازہ کرنا چاہ رہا ہو کہ اس نے کچھ غلط تو نہیں بول دیا۔ یا اس کی بات کسی کو بری تو نہیں لگی۔

"نہیں استاذ ! ایسا بات نہیں ہے یار ! ام ادھر مرنے مارنے کے واسطے ای تو آیا ہے…. مرنا پڑے تو خدا قسم مرے گا مگر ڈھیر سارے کتوں کو مار کر مرے گا۔ ہاں !” 

"ہم اکیلے نہیں ہیں جگر ! حجاب بی بی اور نکے شاہ جی بھی ساتھ ہیں۔” 

"اسی لیے تو کہا ہے کہ ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔”ایک لمحے کے لیے سب کو چپ لگ گئی۔ پھر ساون نے سوال کیا۔

"اور اس طریقے کی لڑائی کا انجام کیا ہوگا؟” 

"ہم نے ایک شرط منوانی ہے۔ مانی گئی تو ٹھیک…. ورنہ میں تو اپنی آخری سانس تک لڑوں گا۔” 

خنجر فوراً بولا۔ "اے ایس پی ضائع ہوگیا اور وہ حرامی فرزند علی بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ ہم شرطیں منوانے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔” 

"ہیں ہم پوری طرح شرطیں منوانے کی پوزیشن میں ہیں ان دونوں سے زیادہ اہم اور قیمتی جانیں اب بھی ہمارے قبضے میں ہیں۔” 

"کیا مطلب؟” خنجر چونکا تھا۔ مرشد پوری سنجیدگی سے ساون کی طرف متوجہ ہوا۔

"ساون ! میں نے بتایا ہے نا کہ یہ زریون شاہ جی کون ہیں ؟” 

"ہاں ! تو ؟” ساون بھی پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھا۔

”زریون شاہ جی کے والد سید نظام الدین بہت بڑی اور بااثر شخصیت ہیں۔ سنی سنائی باتوں سے تو یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ بڑے شاہ جی طاقت و رسوخ میں ان چوہدریوں اور نوابوں کے باپ لگتے ہیں اعلا افسران کو ابھی ٹھیک سے معلومات نہیں ہیں۔ انہیں یہ بات اب ہم بتائیں گے کہ شاہ ٹیکسٹائل والے شاہ صاحب کا بیٹا اور بہو یہاں ہمارے پاس موجود ہیں۔ شاہ صاحب تک فوراً یہ خبر پہنچائی جائے۔ وہ یہاں آئیں گے میں ان کے ساتھ ملاقات کروں گا اور اس کے بعد اس مدعے پر بات ہوگی کہ ہم کن شرائط پر گرفتاری دیں گے۔” 

”کیا شاہ صاحب ابھی تک اس سب سے لاعلم ہوںگے؟” ساون نے سوال کیا۔ 

"یہ کوئی عجیب اور انہونی بات نہیں ہے۔ بہت سے لوگ اصل حقائق سے واقف نہیں ہیں۔ تم اپنی ہی دیکھ کتنی باتیں اور افوائیں سنائی ہیں تم نے اور سچ کیا ہے۔ حقیقت کیا ہے وہ بھی میں تمہیں بتاچکا !”سبھی کے چہروں پر گہری سنجیدگی اور سوچ بچار کے تاثرات اتر آئے۔

مرشد مزید بول رہا تھا۔ "سیدھی سی بات ہے۔ ملک منصب کی مداخلت اثر دکھائے یا لالا رستم کا زور یا چاہے جس صورت بھی ہوا ہم نے بڑے شاہ جی کو یہاں بلانا ہے ۔میں” ایک لمحے کے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوا۔ "میں سرکار کے حوالے سے ہرگز بھی کوئی سمجھوتا نہیں کروں گا اور بڑے شاہ جی کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسہ بھی نہیں کروں گا…. سرکار کو میں خود ان کے پھوپھا ، یعنی بڑے شاہ جی کے سپرد کروں گا اور پھر جب بڑے شاہ جی خود مجھے بری الذمہ قرار دیں گے ،تب کوئی دوسری بات ، دوسرا معاملہ ہوگا ورنہ نہیں !”

اس کا لب و لہجہ اس قدر حتمی اور اٹل تھا کہ وہ سب خاموشی سے ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر رہ گئے۔ ساون کی نظریں مرشد کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ لنگوٹیا یار تھے اس طرح کہ بچپن میں مراد سمیت وہ تینوں باری باری شرارتاً ایک ہی لنگوٹ پہن کر گلی کی نکڑ والے نلکے پر نہایا کرتے تھے۔ جس طرح دائی سے پیٹ نہیں چھپتا اسی طرح لنگوٹیا یاروں سے نیتیں اور ارادے چھپے ہوئے نہیں رہتے۔ ساون بھی دیکھ سن اور سمجھ رہا تھا۔ حجاب کے حوالے سے مرشد کے جذبات سے وہ پہلے ہی واقف تھا۔ اس کے عشق کے جھوٹے ہی سہی، کچھ قصے بھی اس کے کانوں میں پڑے تھے لیکن اب حجاب کے لیے اس کی فکر مندی اور جذباتیت کی بے پناہ شدت کو محسوس کرتے ہوئے اسے لگ رہا تھا کہ اب تک جو کچھ بھی وہ جانتا سمجھتا تھا وہ داستان کا محض ایک معمولی سا اقتباس ہے اور بساصل عشق کتھا ، اصل قصہ بہت گھمبیر تھا توقع سے کہیں بڑھ کر طویل اور شدید تھا ! 

ساون بولا۔ "اور اگر صورت حال توقع کے خلاف رہی تو ؟”

"تو …. ہم مقابلہ کریں گے۔ لڑیں گے۔”

"ٹھیک ہے۔ ہم لڑیں گےماریں گے اور مرجائیں گے پھر اس کے بعد؟ تمہاری سرکار کا بعد میں کیا بنے گا ؟”

ساون کے تمہاری سرکار کہنے پر خنجر نے چونک کر مرشد کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر بدمزگی کا خفیف سا تاثر لہرایا تھا۔

"کچھ نہیں اتنی دور تک جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں جانتا ہوں کہ کیا ہونا ہے اور کیسے ہونا ہے تم بس یہ یاد رکھنا ساون کہ اگر میرے ساتھ زندگی دغا کر جائے تو سرکار کے حوالے سے بوجھ رہ جانا ہے میرے سر پہ انہیں ان کے پھوپھا کے سپرد کرنا پھر تم لوگوں کے ذمے ہوگا۔ کیسے یہ میں بتا ہی چکا ہوں۔”

"ایسی بات نہ کرو باو�¿ جی !”

"اللہ نے چاہا تو ہم سب صحیح سلامت نکلیں گے یہاں سے ۔” 

جگر ! یہ دغا وغا وئی وئی جیسی باتیں نہیں کرو اب ۔”

"چھوڑو بھی یار ! "

مرشد کی بات مکمل ہوتے ہی وہ سب بول اٹھے تھے۔ اسی پل تڑتڑاہٹ کی بھیانک آواز بلند ہوئی اور ان سب کو بری طرح چونکا گئی۔ رائفل کا شارٹ برسٹ فائر کیا گیا تھا اور آواز نچلے حصے سے آئی تھی۔ نیچے والے کمرے میں حجاب ، زریون اور فیروزہ تھے اور کمرے کے دروازے کے سامنے ہی برآمدے میں جعفر ڈیوٹی پر مامور تھا۔ اس کے پاس رائفل تھی اور یقیناً یہ برسٹ اسی نے فائر کیا تھا۔مرشد فورا تڑپ کر اٹھا اور پھر وہ، ساون، اکو اور خنجر چاروں ایک ساتھ اٹھ کر اس کمرے کے اندر ہی کونے میں موجود تنگ زینوں سے آگے پیچھے ہی نیچے اترتے چلے گئے۔ ولی خان اور تاجی فوراً کھڑکی کی طرف متوجہ ہوئے۔جعفر برآمدے کی جالیوں سے صحن کی طرف جھانک رہا تھا۔ 

"کیا ہوا؟ کیا تھا؟” مرشد نے نیچے پہنچتے ہی دھیمے مگر تیز لہجے میں پوچھا۔

"ادھر ان ڈرموں کے پاس شاید کوئی ہے۔” جعفر نے سرسراتی ہوئی آواز میں کہا۔ باقی ساتھی بھی پہنچ آئے تھے۔ صحن کا زیادہ حصہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ گزشتہ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی مسلسل رم جھم نے ہر دکھائی دیتی چیز کو دھو بھگو ڈالا تھا۔ باریک باریک سی نمی کی پھوار برآمدے کی سنگی جالیوں سے اندر آکر ان کے چہروں کو چھو رہی تھی۔

"کوئی آہٹ یا حرکت تو نہیں ہے۔” مرشد نے دھیمے لہجے میں کہا۔ سب ہی کے اعصاب خود بخود ایک تناو�¿ کا شکار ہو چکے تھے۔ 

"مجھے یوں لگا جیسے ادھر سامنے کی طرف سے کوئی بھاگ کر ڈرموں کی طرف آیا ہو "

 کچھ دیر مزید وہ سب دبک کر صحن کی طرف سے کسی بھی قسم کی آہٹ وغیرہ سننے کی کوشش کرتے رہے لیکن بارش کی مدہم سی چھنکار کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں تھی۔ 

"تجھے شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ ” جعفر متذبذب سے انداز میں خاموش ہی رہا۔ 

"اکو ! تم بھی یہیں رکو اور دونوں پوری طرح چوکنے رہو ۔” 

"ٹھیک ہے۔” مرشد کی ہدایت پر اکو مستعدی سے بولا۔

"کیا گڑبڑ ہے؟” کمرے کے دروازے سے زریون پریشان صورت نکالے پوچھ رہا تھا۔

"کچھ نہیں۔ آپ اندر ہی رہیں” ساون نے سنجیدگی سے کہا۔ زریون اندر جانے کی بجائے باہر نکل کر ان کے قریب چلا آیا۔

"کوئی آیا نہیں ؟” وہ مرشد سے مخاطب ہوا تھا۔ 

"ابھی تک تو نہیں۔”

"تمہاری بات کو وہ اہمیت نہیں دے رہے۔ آئی تھنک مجھے خود بات کرنی چاہیے۔” زریون نے پریشانی سے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا تو ساون فوراً بولا۔

"ابھی کچھ دیر انتظار کرتے ہیں۔ باہر بارش ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے وہ جن لوگوں کے نام آپ نے گنوائے تھے ،وہ پہنچ آئے ہوں اور رابطے کے لیے بارش تھم جانے کا انتظار کر رہے ہوں۔”

"یہ بھی ہو تو سکتا ہے ویسے ہے نا؟” زریون نے باری باری تائید طلب انداز میں ان دونوں کی طرف دیکھا۔

مرشد بولا۔ "بالکل ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہ ہی بات ہو گی ورنہ اتنی دیر سے فائرنگ رکی ہوئی نا ہوتی۔” اس کی بات مکمل ہوتے ہی اکو نے حوصلہ بندھایا۔

آپ بالکل بے فکر ہو کراندر کمرے میں بیٹھ جائیں شاہ جی ! ہم نے ساری منصوبہ بندی کر لی ہے۔ آپ کے والد صاحب کو پیغام بھجوا رہے ہیں ہم۔ کل دن میں کسی بھی وقت وہ یہاں پہنچ آئیں گے۔”اکو کو مرشد کی گھورتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر احساس ہوا کہ اسے شاید زریون کو یہ بات نہیں بتانا چاہیے تھی۔ مرشد شاید اس حوالے سے اسے بے خبر رکھنا چاہتا تھا لیکن اب تو وہ بک چکا تھا۔

"میرے والد! کیوں وہ کیوں پہنچنے لگے؟ کون پیغام بھجوا رہا ہے ؟ ” اس نے باری باری سب کی صورتیں دیکھیں ۔صاف پتا چل رہا تھا کہ اسے یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس کے تاثرات بھی بگڑ گئے تھے۔

"کوئی بھی نہیں, ایسے فضول ہانک رہا ہے۔ تھوڑا اونچا سنائی دیتا ہے اسےوالد صاحب نہیں ، خالد صاحب کا ذکر ہو رہا تھا۔ ملتان ہائیکورٹ کے وکیل ہیں بڑے اثر و رسوخ والے بندے ہیں۔”مرشد کی وضاحت پر زریون نے عجیب مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھا پھر انتہائی ناگوار اور تلخ لہجے میں بولا۔

"اچھی بات ہے لیکن میں بتا دوں کہ اگر تم لوگوں نے سچ میں میرے باپ تک کوئی پیغام یا اطلاع پہنچانے کا پروگرام بنایا ہے تو اس پر عمل مت کرنا…. اس شخص کو کوئی فرق پڑے گا نہ وہ یہاں آئے گا۔ ویسے بھی…. میں یہ بات ہرگز پسند نہیں کروں گا کہ وہ شخص یہاں آئے۔ سمجھ لگی ؟ ایسی کوئی فصول حرکت نہیں کرنا۔”وہ تحکمانہ انداز میں مرشد سے کہتا ہوا ایک جھٹکے سے پلٹ کر واپس کمرے میں چلا گیا اور وہ پانچوں برآمدے میں اسی جگہ س�±ن سے کھڑے رہ گئے۔

زریون کا یہ رد عمل ان کے نزدیک قطعی غیر متوقع اور حیرت انگیز تھا۔ اپنے والد بزرگوار کے حوالے سے اس کے لب و لہجے سے جھلکتی یہ تلخی اور ناگواری بہت کچھ کہہ سمجھا گئی تھی ان سب کو عوامل بھلے سے جو کچھ بھی رہے ہوں یہ بات شیشے کی طرح صاف تھی کہ وہ اپنے والد سے بری طرح برگشتہ و بدظن ہے۔ بلکہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ اس کے لب و لہجے میں باپ کے لیے نفرت پھنکار رہی تھی ! 

"توبہ کا مقام ہے۔ سید سرکار لوگ ہیں۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ بس توبہمعافی ! ” خنجر نے ترچھی نظروں سے مرشد کی طرف دیکھتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ چند لمحوں کے لیے مرشد خود بھی اپنی ذات کی تاریک بھول بھلیوں میں کھو گیا تھا۔ ذہن اماں اور اپنے ان دیکھے باپ کی طرف چلا گیا تھا وہ بھی تو اپنے باپ کے خیال سے ایسی ہی تلخی اور ناگواری کو اپنے رگ و پے میں کھولتے ابلتے ہوئے محسوس کرتا تھا ! 

"میں ایک بات بتانا بھول ہی گیا۔” ساون کے اچانک بولنے پر مرشد جو پہلو پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ساون کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے اچانک کچھ یاد آگیا ہو۔

"کون سی بات ؟” مرشد کے استفسار پر ساون اسے بازو سے پکڑتے ہوئے کمرے کے دروازے سے پیچھے ہٹ کر بالکل برآمدے کے کونے میں موجود زینوں کے پاس جا کھڑا ہوا۔ اس کے تاثرات غماز تھے کہ وہ کوئی خاص بات کہنے والا ہے۔ 

"یاد ہے تم نے ایک کام ذمے لگایا تھا۔”مرشد کی سوالیہ نظریں دیکھتے ہوئے وہ مزید بولا۔”حجاب بی بی کی والدہ اور چھوٹے بھائی کا کھوج کھرا نکالنے والا۔”

"ہاں ! یاد ہے پھر ؟” مرشد چونکا۔ دل نجانے کیوں زور سے دھڑکا تھا۔ 

 "دھوپ سڑی والے جیدے اور پینو سے کام شروع کیا تھا میں نے گگو، راجو لوگوں کے پورے گینگ کو اسی کام پر لگا دیا تھا۔ ڈیڑھ دو ماہ پہلے اسرار شاہ جی کا کھرا کھوجتے کھوجتے گوجرانوالہ میں ایک مکان کا پتا چلا۔ میں خود گگو گینگ کے ساتھ وہاں گیا تھا۔ اس رات تک نکے شاہ جی وہاں موجود رہے تھے لیکن پتا نہیں ہمارے پہچنے سے پہلے کیسے اور کیوں غائب ہوگئے اور واپس اس مکان میں آئے بھی نہیں پتا یہ چلا کہ وہ مکان کالج کے چارپانچ نوجوانوں نے کرائے پر لے رکھا تھا۔ سب ہی بگڑی ہوئی نسلیں تھیں۔ کسی تنظیم شنظیم سے بھی تعلق تھا اور وہ سب ہی نکے شاہ جی کے ساتھ کالج میں پڑھتے تھے۔ 

اس بات کو ہفتہ دس دن گزرے تھے کہ ایک دھماکے دار خبر ملی پانچ چھ بندوں کے ایک گروپ نے رات کے آخری پہر نندی پور میں چوہدری اکبر علی کی حویلی پر حملہ کیا۔ دونوں طرف سے دھڑا دھڑ گولیاں چلائی گئیں اور پانچ سات منٹ ہی میں حملہ آور فرار بھی ہوگئے۔ان پانچ سات منٹ میں چوہدریوں کے دو بندے ہلاک اور تین چار زخمی ہوئے۔ جب کہ حملہ آوروں کا بھی ایک ساتھی چوہدریوں کی فائرنگ کا نشانہ بنا تھا۔ اس کی نوچی کھسوٹی لاش کے متعلق چوہدریوں نے بتایا کہ جب وہ زخمی ہو کر گرا تو رکھوالی کے کتوں نے اس پر حملہ کردیا۔ بعد میں جب اس لاش کی شناخت ہوئی تو پتا چلا کہ وہ نکے شاہ کے ان ہی کالج کے ساتھیوں میں سے ایک تھا…. اس کے بچ نکلنے والے باقی ساتھی اور نکے شاہ جی اس دن کے بعد سے کہیں روپوش ہیں!”ساون کا لہجہ بھی سنسنی خیز تھا اور یہ ساری خبر بھی۔ مرشد کا سارا دھیان خوبخود حجاب کی طرف چلا گیا۔

 خنجر بولا۔ "یہ کیا ہے نا نکے شاہ جی نے پھر غیرت مند جوانوں والا کام …. اور اگر وہ لوگ نندی پور سے نکل گئے تھے تو پھر اب آسانی سے ہاتھ نہیں آئیں گے۔ اس صوبے میں تو ٹکے ہی نہیں ہوں گے۔ کراچی یا پشاور کی طرف نکل گئے ہوں گے سب۔ ” 

"ففٹی ففٹی ہے۔ یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ گگو گینگ کام پر لگا ہوا تھا۔ ادھر آنے کے بعد اب دس پندرہ دن سے میرا رابطہ نہیں ہوا ورنہ شاید کوئی نئی خیر خبر پتا چل ہی جاتی۔ یہ سارے جیب کترے بڑے ہشیار اور تیز پرزے ہیں !

مرشد فکر آمیز سنجیدگی سے بولا۔ "نکے شاہ جی نے بڑے غلط راستے پر پاو�¿ں رکھ دیئے ہیں۔ خدا ان کی مدد فرمائے لیکن چلو یہ تو صاف ہوگیا کہ کم از کم سرکار کی والدہ اور چھوٹے بھائی ابھی تک زندہ سلامت ہیں۔ اب اللہ نے چاہا تو وہ آگے بھی زندہ سلامت ہی رہیں گے۔ "

"والدہ ان کا کیسے پتا چلا اور کہاں ہیں وہ ؟” ساون متفسر ہو

” یہ تو پتا نہیں, ہاں البتہ جہاں بھی ہیں محفوظ ہیں۔” مرشد ہونٹ بھینچتے ہوئے ایک زینے پر ٹک گیا۔ پسلیوں میں رہ رہ کر ایک بھنور کروٹ بدلتا تھا۔ "میرا خیال ہے کہ میں نے ذکر کیا ہے تھانے ٹبی سے مجھے جس ڈیرے پر لے جایا گیا تھا ، وہاں سے کسی نامعلوم عورت کی مہربانی اور مدد سے نکل پایا تھا میں۔ اس عورت نے جو مختصر سا رقعہ لکھا تھا اس میں سرکار کی والدہ کا ذکر تھا کہ وہ زندہ سلامت اور محفوظ ہیں۔”

"تمہاری تکلیف کو افاقہ نہیں ہوا۔ تمہیں کچھ دیر اندر لیٹ جانا چاہیے۔ ” ساون نے بغور اس کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

"نہیں پہلے سے کافی بہتر ہوں اب۔”

ویسے جگر ! اس ڈیرے پر یہ بھی عجیب ہی واقع ہوا ہے تمہارے ساتھ۔ اسے ایک طرح سے غیبی مدد ہی کہا جائے گا نا ! یا پھر کچھ یاد آیا کہ وہ مہربان 

عورت یا لڑکی کون ہو سکتی ہے؟”

"مجھے کیسے کچھ یاد آسکتا ہے میرے لیے تو وہ سب ہی لوگ اجنبی تھے اور وہ علاقہ بھی میری سمجھ میں ہی نہیں آسکا کہ وہاں میرا کون خیر خواہ ہوسکتا تھا ؟ ” 

"تمہارا خیر خواہ نہیں تو ہوسکتا ہے تمہارے دشمنوں کا یا دشمنوں کی کوئی بدخواہ ہو ؟ کون سا علاقہ تھا وہ ؟“

"ڈوکے والی” مرشد کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ساون کی قیاس آرائی نے اسے قدرے چونکا دیا تھا۔ رقعے کے کچھ الفاظ یکایک ہی اس کے ذہن میں روشن ہو آئے۔

"میرا اندازہ ہے کہ تم ہی وہ شخص ہو جو چوہدریوں کی فرعونیت کو لگام ڈالنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ حجاب بی بی کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔

اس کی کسی کو خبر نہیں کہ فی الوقت وہ کہاں ہے اس کے بھائی اسرار احمد کا بھی کچھ اتا پتا نہیں۔ البتہ حجاب بی بی کی والدہ سردار بی بی زندہ سلامت ہیں اور محفوظ ہیں۔ اگر تم یہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تو میں کسی نہ کسی طرح تم تک ان کا ایڈریس پہنچا دوں گی۔”

ان الفاظ سے دو باتوں کا اندازہ ہوتا تھا۔ مرشد کی مدد کرنے والی اسے رقعہ لکھنے والی وہ نامعلوم اور پراسرار عورت یا تو سادات کی خیر خواہ اورمعتقد تھی یا پھر چوہدریوں کی بدخواہ اور دشمن ان ہی میں سے کسی ایک بات کی وجہ سے اس نے بدترین لمحات میں مرشد کی مدد کی تھی۔ زنجیروں سے خلاصی کے لیے اس تک ہتھکڑی کی چابی پہنچائی تھی اور ہتھیار کے طور پر ایک لوڈڈ پسٹل۔اسی بروقت اور قطعی غیرمتوقع مدد کی بدولت مرشد ملنگی جیسے دشمن کی قید سے بچ کر نکل پانے میں کامیاب ہوسکا تھا وگرنہ تو شاید اس کی داستان حیات ڈوکے وال کے اسی ڈیرے پر ان ہی دنوں اختتام پذیر ہوچکی ہوتی۔

"ڈوکے وال” ساون قدرے متعجب ہوا۔ "کبھی سنا نہیں! کدھر ہے یہ ؟”

خنجر بولا۔ "ادھر ہی ہے اپنے علاقے میں۔ چھوٹی سی بستی ہے۔ ایک طرف ڈسکہ شہر لگتا ہے، دوسری طرف نندی پور۔” 

"نندی پور…. تو کیا وہ رقعہ لکھنے والی نندی پور کی رہائشی ہوگی ؟”تینوں نے ایک دوسرے کی صورت دیکھی۔ خنجر خیال انگیز انداز میں بولا۔

 "ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ نندی پور سے ڈوکے وال کا فاصلہ بمشکل ساڑھے تین چار کلومیٹر ہو گا۔”

"اگر تو وہ نندی پور کی رہنے والی کوئی عورت ہے تو کون ہوسکتی ہے، کوئی اندازہ؟” ساون کی پرسوچ سوالیہ نظروں پر مرشد نے کندھے اچکا دیئے۔ 

"کچھ اندازہ نہیں بقول تمہارے چوہدریوں کی بدخواہ یا دشمن کوئی بھی ہوسکتی ہے اور صرف نندی پور ہی نہیں چوہدریوں کی ستائی ہوئی اردگرد کے کسی بھی گاو�¿ں کی کوئی بھی عورت ہوسکتی ہے۔” 

"وہ ڈیرہ کس کا تھا؟”

"حاجی فضل دین کا علاقے کا شرف ترین بندہ ہے۔ ان دنوں وہ خود ملنگی فوجی کے زیر عتاب تھا۔ ملنگی نے ایک ٹانگ بھی توڑ دی تھی اس بھلے مانس کی۔ اس کا کسی رپھڑ میں کوئی ہاتھ نہیں۔ میں نے اچھی طرح تسلی کر لی تھی۔” خنجر نے کہا۔ 

” تو پھر اس طرح کیسے پتا چلے گا کہ حجاب بی بی کی والدہ کہاں موجود ہیں؟” ساون نے الجھن زدہ سے انداز میں ان کی طرف دیکھا۔ مرشد بولا۔”رقعے کے آخر میں اس عورت نے لکھا تھا کہ اگر میں بچ نکلا تو وہ مجھ تک ان کا ایڈریس پہنچا دے گی۔”

"کب؟ اور کہاں پر ؟ "مرشد نے ایک بار پھر کندھے اچکائے۔

"عجیب کہانی ہے! اسے بھلا اب کیسے پتا چلے گا کہ تم اس وقت کہاں ہو ؟ یا دو چار دن بعد کہاں پائے جاو�¿ گے؟”

"یہ تو وہی جانے میں نے سوچا تھا کہ پہلے سرکار کو ان کی منزل تک پہنچا آو�¿ں پھر تسلی سے اس خط والی کو ڈھونڈنا شروع کروں گا تو کسی نہ کسی طرح سراغ مل ہی جائے گا۔”ایک ذرا توقف سے ساون نے نیا سوال اٹھایا۔

"حجاب بی بی کو علم ہے ؟”

"نہیں۔” مرشد نے فوراً سر کو نفی میں ہلایا۔ "میں نے سوچا تھا کہ بتا دیتا ہوں لیکن پھر مجھے مناسب نہیں لگا۔ بات صرف ایک نامعلوم ہستی کے لکھے رقعے تک ہے۔ کیا پتا کتنی صداقت ہے اور پھر خدا جانے آگے آنے والے دنوں میں کیا سامنے آئے تم لوگ بھی خیال کرنا۔ نکے شاہ جی یا ان کی والدہ کے حوالے سے سرکار کے سامنے کوئی بات نہیں کرنی۔ یہ آدھی ادھوری اور سنی سنائی خبریں ان کے لیے مزید دکھ اور پریشانی کا باعث بنیں گی۔”

مرشد کے تاکیدی انداز پر ان دونوں نے سر اثبات میں ہلا دیئے۔ان کے درمیان اس طرح کی بات چیت ہو رہی تھی کہ ایک آواز نے ان سب ہی کوچونکا دیا۔ آواز میگافون پر بلند ہوئی تھی اور بولنے والے نے مرشد کو مخاطب کیا تھا۔

"مرشد ! تمہاری مانگ پوری کر دی گئی ہے اپنے ساتھیوں سے کہو کوئی گولی نہ چلائے ہماری طرف سے بھی تم لوگوں پر کوئی گولی نہیں چلائے گا۔”یہ تین جملے ٹھہر ٹھہر کر تین بار دہرائے گئے۔ رات کی پرہول خاموشی میں یقیناً یہ آواز بستی کے ہر گھر میں سنائی دی ہوگی۔ اس آواز کے پیچھے کئی دیگرآوازوں کا ایک دھیما سا شور بھی تھا شاید کچھ لوگوں میں گرما گرم بحث اور تلخ کلامی ہو رہی تھی۔برآمدے میں موجود سب ہی افراد مرشد کی طرف دیکھنے لگے۔ کمرے سے زریون بھی نکل آیا تھا۔

"وہ کہہ رہے ہیں کہ مانگ پوری کردی گئی ہے۔ اگر ڈوگر صاحب اور ثاقب صاحب آگئے ہیں تو تو پھر مجھے خود ان سے بات کرنی چاہئے۔” 

وہ مضطربانہ سے انداز میں بولتا ہوا ایک ذرا مرشد کے قریب ٹھٹھک، پھر فوراً زینوں پر چڑھتا چلا گیا۔ ساون اور مرشد نے اسے رکنے کا کہا بھی مگر اسے جیسے سنائی ہی نہیں دیا۔

"اکو ، جعفر ! پوری طرح ہشیار رہو ذرا غفلت نہیں کرنی۔” مرشد نے تیز لہجے میں کہا اور بہ عجلت زینوں پر چڑھ گیا۔ ساون اور خنجر اس کے پیچھے تھے۔ میگافون پر پھر آواز بلند ہورہی تھی۔ 

"ایس پی صاحب اس وقت یہاں موجود ہیں….تم ان سے جو بات کہنا چاہتے ہو, کہہ سکتے ہو۔”آواز بغلی طرف موجود مندر کے بڑے گنبد نما حصے کی دوسری طرف والے مکانوں میں سے کسی مکان کی چھت سے بلند ہورہی تھی۔ ان دونوں چھتوں کے درمیان مندر کی عمارت کا ایک حصہ یوں حائل تھا کہ یہاں سے ایک دوسرے کو نشانہ بنانا ممکن نہیں تھا۔بولنے والے کے عقب میں جاری بہت سی آوازوں کا شور پہلے سے واضح ہوچکا تھا۔ کئی افراد کے درمیان تو تکار جاری تھی۔ مدہم سا شور براہ راست بھی ان تک پہنچ رہا تھا۔دوسری طرف سے گلی میں اور چھت پر غالباً کئی ایک مشتعل افراد موجود تھے۔ آوازوں کے اس نافہم دھیمے شور میں ایک مکروہ ترین آواز بھی مرشد کو سنائی دی تھی چوہدری فرزند کی آوازوحشت و غضب کے مارے لرزتی ہوئی دنیا کی مکروہ ترین اور منحوس ترین آواز۔

وہ سب آگے پیچھے ہی اوپری کمرے میں پہنچے۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ غالباً ولی خان یا تاجی نے پھر ٹیوب لائٹ آف کردی تھی۔ عقبی دیوار میں کھڑکی تھی ، اس کھڑکی سے باہر کہیں جلتی کسی لائٹ کی معمولی سی رمق اندر آتی تھی اور کمرے کے اندھیرے کو مجروح کرتی تھی۔ ولی خان اور تاجی کے ہیولے دونوں کھڑکیوں کے پاس موجود تھے۔ اگلے ہی لمحے میگافون سے ایک اور بھاری آواز ابھری۔

"مرشد ! میں صادق علی ڈوگر سپرنٹنڈنٹ پولیس۔ تم نے فرمائش کی تھی مجھ سے بات کرنے کی۔ دیکھوحالات کا یقیناً تمہیں اچھی طرح اندازہ ہے۔ تم لوگ مقابلہ کرکے جیت نہیں سکتے۔ مجھے امید ہے کہ ایسے میں تم اور تمہارے ساتھی سمجھداری سے کام لیں گے۔ اگر تم لوگ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردو تو تمہارے ساتھ کوئی زیادتی یا دھوکہ نہیں کیا جائے گا۔ تم لوگ جس طرح چاہو تمہیں اس بات کی ویسے ہی تسلی اور ضمانت دی جاسکتی ہے۔”زریون کھڑکی کے قریب ہی تھا۔ مرشد نے جھپٹ کر اس کا بازو دبوچ لیا۔

"شاہ جی ! آپ ابھی چپ رہنا۔” 

"کیوں چپ رہنا؟” اس نے جھٹکے سے بازو چھڑایا۔ "شام سے ان ہی کا تو انتظار کر رہا تھا میں دعائیں مانگ رہا تھا کہ کسی طرح رابطہ ہوسکے…. ان سے میری ذاتی جان پہچان ہے۔ بہت اچھے سے جانتے ہیں مجھے۔”

"وہ سب ٹھیک ہے لیکن ابھی رکیں۔ چند منٹ چند منٹ انتظار کریں۔ پہلے میں بات کرتا ہوں۔” مرشد نے تیز لہجے میں کہا اور پھر خنجر کو ہدایت دینے لگا۔باآواز بلند زور سے بولنا اس کی پسلیوں کے لیے تکلیف کا باعث تھا اس لیے اس کی جگہ خنجر پکار کر بولا۔

"میں نے چار نام بتائے تھےباقی تین افراد کدھر ہیں؟”

زریون کسمسا کر رہ گیا۔ اصل میں یہ چار نام اسی کے بتائے ہوئے تھے۔ اپنے تئیں وہ مرشد کو اس بات پر آمادہ و قائل کر چکا تھا کہ مذکورہ چار افراد جن میں ایس پی صاحب کے علاوہ ضلع کے ڈی سی ثاقب علیم ، ایڈیشنل مجسٹریٹ غلام عباس سومرو اور ایک روزنامہ اخبار کے ایڈیٹر فاروق صدیقی صاحب شامل تھے، کے سامنے وہ اپنے ساتھیوں سمیت خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردے گا اور زریون ان کی قانونی مدد کرتے ہوئے ان کے ساتھ کوئی زیادتی یا ظلم نہیں ہونے دے گا۔ یہ الگ بات کہ اس کے دل میں کچھ اور تھا!

 وہ صرف حجاب کے ساتھ خود خیر خیریت سے نکل جانے کی فکر میں تھا باقی سب بشمول فیروزہ بے شک یہیں مارے جاتے اسے کوئی پرواہ نہ تھی۔ دوسری طرف مرشد تھا تو اس نے اپنے طور پر ایک لائحہ عمل ترتیب دے رکھا تھا۔ کسی قسم کا ڈر خوف یا گھبراہٹ تو اس کے حوصلوں کوچھو کر بھی نہ گزرے تھے البتہ ایک لہو سوکھا دینی والی فکر و پریشانی ضرور لاحق تھی اسے اور اس ساری کی ساری فکر و پریشانی کا تعلق حجاب کی ذات سے تھا جو اس وقت نچلے کمرے میں سہمی گھبرائی بیٹھی تھی۔ 

اسے فکر تھی، پریشانی تھی تو حجاب کے تحفظ اور سلامتی کی اور اسی کی نسبت سے زریون کی جان اور زندگی کی بھی۔بظاہر وہ ٹھیک ٹھاک تھا لیکن خود اسے اپنی حالت کا پورا پورا اندازہ تھا۔ بایاں پہلو اندر سے پتھراتا جارہا تھا اور سینے کے عین وسط میں ایک بوجھ نما درد مسلسل زور پکڑتا جارہا تھا۔ اٹل ارادے اور غیر متزلزل حوصلے کے باوجود وہ اپنی جسمانی سکت اور برداشت کے حوالے سے قدرے غیر یقینی کا شکار تھا۔ صبح ہونے میں ابھی قریب چار گھنٹے باقی تھے اور اسے بس ایک اس بات کی فکر تھی کہ کسی طرح خدا تعالی کوئی ایسا سبب بنادے کہ سرکار اور زریون شاہ جی یہاں سے زندہ سلامت نکل جائیں اور آگے محفوظ ہاتھوں میں یا…. بلوچستان اپنے گھر جا پہنچیں اس کے بعد پھر خود ان کے اپنے ساتھ جو مرضی ہے ہوتا پھرے…. ہوا کرے !

ڈوگر صاحب کی گھمبیر آواز دوبارا سنائی دی۔ "ڈی سی صاحب آ رہے ہیں۔ سومرو صاحب اور صدیقی صاحب تک بھی معاملہ پہنچا دیا ہے ہم نے لیکن ظاہر ہے کہ وہ دونوں اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ ان کا آنا نہ آنا ان کی اپنی صوابدید پر ہے۔ تم بتاو�¿ کہ تم ان دونوں سے کیا چاہتے ہو؟ یا کس شرط پر گرفتاری دو گے؟”

"یہ ایس پی ہے یا کوئی دھوبی تیلی ” مرشد جھنجھلایا۔ 

خنجر دوبارا پکارا۔” میں نے پہلے ہی بکواس کی تھی کہ یہ چاروں یہاں موجود ہوں گے تو ہم گرفتاری دیں گے اور تم ہو کہ پھر اسی سوال سے دماغ پکا رہے ہو اپنے کسی پڑھے لکھے ایس پی صاحب کو کہو بات کرے۔ ” دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔

"یہ ایس پی صاحب کی کنپٹی پر لگا ہو گا۔” ولی خان ہنسا۔

 خنجر بولا۔ ” پیچھے کچھ اور آوازیں بھی ہیں۔ حالات مشکوک لگتے ہیں مجھے۔”

"میرا بھی یہی انداہ ہے۔” مرشد نے فورا تائید کی۔ ” اردگرد کی صورت حال ابھی پوری طرح پولیس کے قابو میں نہیں ہے یاپھرقابو کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔”

زریون سٹپٹائے ہوئے سے انداز میں بولا۔ "انہیں میرا بتاو�¿ یا خود مجھے بات کرنے دو۔ وہ ایس پی ہیں پورے ضلع کی پولیس ان کی ماتحت ہے۔ وہ چاہیں تو جیسے مرضی ہو اس سارے مسئلے معاملے کو ویسے ہی ہنڈل کرلیں گے۔”

”آپ کی بات درست ہے شاہ جی ! لیکن اس وقت بستی کے اندر اور اطراف میں اور بھی بہت سے لوگ موجود ہیں۔ آپ ایس پی صاحب کے لب و لہجے پر ذرا دھیان دیںصاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شہر کے ایس پی صاحب ہونے کے باوجود اس وقت اچھے خاصے دباو�¿ کا کسی پریشر کا شکار ہیں۔”

اندھیرا تھا زریون سخت ناگواری سے مرشد کی طرف گھور کر رہ گیا۔”پتا نہیں یہ م�±چھل کیا ہانک رہا ہے کیا کچھڑی پک رہی ہے اس کے دماغ میں۔” اس نے شدید بیزاری سے سوچاتھا۔

"تم لوگوں کو شاید اپنی جانیں عزیز نہیں ہیں۔” آواز دوبارا بلند ہوئی۔ اس بار لہجہ تھوڑا سخت تھا۔ "تم لوگ نہ تو سماجی کارکن ہو اور نہ ہی ہمارے قومی ہیرو ہم چاہیں تو پندرہ منٹ کے اندر اندر تم سب لاشوں میں بدل جاو�¿ گے۔ تمہیں زندہ رہنے کا ایک موقع دیا جارہا ہے تو شکر مناو�¿ میرا ذاتی طور پر بھی تم لوگوں کو یہی مشورہ ہے کہ ہتھیار ڈال کر خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردو۔ خواہ مخواہ ” ڈوگر صاحب ابھی بول رہے تھے کہ زریون کا ضبط یکایک جواب دے گیا۔ وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑکی کے قریب پہنچا اور باآواز بلند پکار کر بولا۔

"ڈوگر صاحب ! ڈوگر صاحب یہ میں ہوں۔ میں زریون علی شاہ۔ شاہ ٹیکسٹائلمیں اور میری کزن ، میری منگیتر بھی یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ کچھ کیجیے پلیز ، پلیز ڈوگر صاحب”

ساون اور خنجر نے آوازیں دے کر زریون کو روکنا بھی چاہا لیکن اس نے سنی ان سنی کردی۔ مرشد نے ساون کے کندھے پر ہاتھ کا دباو�¿ ڈالتے ہوئے اسے خاموش اور پرسکون رہنے کا اشارہ کیا۔ وہ خود بھی بالکل مطمئن اور پرسکون تھا اس کے ذاتی حساب کے مطابق بالکل درست وقت پر زریون نے بالکل درست رد عمل ظاہر کیا تھا۔ اندھیرا نہ ہوتا تو ساون اور خنجر لوگ دیکھتے کہ مرشد کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی تھی۔

زریون خاموش ہو کر اپنے کہے کے رد عمل کا انتظار کرنے لگا۔ دوسری طرف بھی خاموشی چھا گئی تھی۔ صرف گلی کی طرف تند و ترش آوازوں کا شور سا تھا۔ چند لمحے بعد زریون پھر پکارا۔ ” ڈوگر صاحبآپ میری آواز سن رہے ہیں نا؟ میں زریون علی شاہ۔” جواب میں اس بار بھی خاموشی رہی۔

"آپ کا آواز سن کر تو ایس پی صیب کو سانپ ہی سونگھ گیا ہے۔” ولی خان نے زریون سے کہا۔ واقعی دوسری طرف طاری ہوجانے والی چپ سے ایسے ہی لگتا تھا جیسے یکایک ایس پی اور اس کے ساتھ موجود دیگر سب ہی لوگوں کو کوئی سانپ سونگھ گیا ہوجیسے ادھر موجود سب ہی لوگ سکتہ زدہ رہ گئے ہوں۔ 

"یہ تو عجیب بات ہے یہ چپ کیوں کر گئے ؟ ” زریون خودکلامی کے انداز میں بڑبڑایا۔ اسی لمحے تندوترش آوازوں کا شور اچانک شدت اختیار کر گیا۔ چوہدری فرزند کی پر غضب آواز ان سب ہی کو بری طرح چونکا گئی۔ وہ غالباً مندر کے اس طرف والی چھت کے اوپر پہنچ آیا تھا۔ جہاں ایس پی صاحب بھی موجود تھے۔ آوازوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ چوہدری اور اس کے ڈشکروں اور پولیس والوں کے درمیان سخت قسم کی توتکار چل رہی ہے۔ چوہدری فرزند کچھ زیادہ ہی پاگل ہوا جارہا تھا۔

"یہ کیا ڈرامہ ہے بھئی ! ” تاجی متعجب ہوا۔

خنجر بولا۔ "سارے پاگل کتے تو ویسے ہی بھونکتے پھر رہے ہیں۔ ان حالات میں ایس پی صاحب ہمارے ساتھ تسلی اور ضمانت کی بات کیسے کر رہے تھےیہ خود اتنے چغد ہیں یا ہمیں (ناقابل اشاعت)سمجھ رکھا ہے ان ماں کے ٹیٹنوں نے۔ "

اسی وقت ایک پٹاخے کی آواز بلند ہوئی۔ یہ پسٹل کا فائر تھا۔ چند ایک حواس باختہ سی پکاریں ، للکاریں بلند ہوئیں ساتھ ہی دو تین فائر مزید ہوئے اورپھر باقائدہ فائرنگ شروع ہوگئی۔ اس فائرنگ کی شروعات مندر کے اس طرف والی چھت سے ہوئی تھی لیکن فوراً ہی ایک دو اور چھتوں کے علاوہ باہر گلی میں بھی گولیاں چلنا شروع ہوگئیں۔ 

٭ ٭ ٭                                                            

اس دل چسپ اور سنسنی خیز داستان کے بقیہ واقعات پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے