مرشد (عشق جس کو وراثت میں ملا تھا) قسط نمبر23

 قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی

Murshid-urdu-novel, best urdu novel
Murshid Urdu Novel

رشید خان منہ کے بل چوہدری فرزند کے اوپر گرا ہوا تھا اور مرشد نے اسے اوپر سے دبائے رکھنے کی کوشش کیے رکھی تھی۔ گاڑی کے رکتے ہی مرشد بھی رائفل سنبھالتے ہوئے سیدھا ہو بیٹھا۔ اس کے اوپری دھڑ کو درد نے جیسے کسی ازدھے کی صورت اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا.۔دونوں طرف کی پسلیوں، پیٹ اور سینے کے علاوہ اب کمر تک میں ایک سخت کھنچاو محسوس ہونے لگا تھا جب کہ بائیں پسلیوں میں درد کی شدت کچھ زیادہ ہی تھی۔

 "یہ سب لوگ پاگل ہیں۔ دماغ خراب ہیں ان سب کے۔ ہمیں ان کے ساتھ ایک قدم بھی اور آگے نہیں جانا۔ اترو….اترو نیچے۔ ” عقبی طرف سے اچانک زریون کی بھنائی ہوئی سی آواز بلند ہوئی۔ وہ حجاب کو نیچے اترنے کا کہتے ہوئے غالباً اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ مرشد نے دبی دبی آواز میں خنجر کو مخاطب کیا۔

 ” آگے بڑھو، نکلو ادھر سے۔ "خنجر جو اپنے حواس سنبھال رہا تھا فوراً سیدھا ہو بیٹھا۔ کتیا کی کرب ناک اور دل خراش چیخیں عقب میں موجود تھیں۔

رشید خان کے خود پر سے ہٹتے ہی چوہدری نے اٹھنے کی کوشش کی تو پہلے سے ذہنی طور پر تیار مرشد نے رائفل کے کندے سے اس کی زخمی پیشانی پر ضرب لگائی۔ چوہدری غضب ناکی سے کراہتے ہوئے جی جان سے تڑپ اٹھا۔ مرشد نے اوپر سے دو، تین مزید ستھری ستھری ضربیں ٹکائیں اور پھر پاوں اس کی گردن پر ٹکا دیا۔ جعفر دوبارہ اپنی پہلی جگہ پر پہنچ گیا اور پجارو بھی ایک جھٹکے سے پھر حرکت میں آ گئی۔

 "روکو میں کہتا ہوں گاڑی روکو۔.” زریون یک دم چیخا اور گردو غبار کی زیادتی کے باعث اسے کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ مٹی آنکھوں تک میں "رڑکنے” لگی تھی۔

مرشد بولا: ” تسلی رکھیں شاہ جی! سب سے پہلے ہم آپ ہی کو کسی محفوظ جگہ پر پہنچائیں گے۔ باقی سب پھر بعد میں دیکھ لیں گے۔ ” زریون کھانسں رہا تھا۔خنجر نے گاڑی سیدھی ہی آگے بڑھائی تھی۔ اس کا ارادہ تھا کہ آگے سے دوبارہ اس کچی سڑک پر گاڑی چڑھائے گا۔ اسی وقت اس سڑک پر عقبی طرف سے دو تیز رفتار کاریں نمودار ہوئیں۔ پجارو کی رفتار ابھی کم تھی۔ دونوں کاریں تیزی سے آگے بڑھیں اور ساتھ ہی پجارو پر فائر کیا گیا۔

وہ پولیس والے تھے، نواب یا چوہدری ہی کے بندے تھے یا جو بھی تھے، تھے بہرحال دشمن ہی…. جعفر نے اپنی جگہ سے کھسکتے ہوئے رائفل کھڑکی سے آگے والی کار کی طرف سیدھی کی، اسی وقت اچانک خنجر نے اسٹیرنگ بائیں ہاتھ دکھائی دینے والی کشادہ گلی کی طرف گھما دیا. عقب سے ایک بار پھر دو، تین فائر کیے گئے۔ گاڑی گلی کی نکڑ پر موجود ایک چھپر کٹ کا بانس توڑتی ہوئی گلی میں گھسی اور سیدھا دوڑتی چلی گئی۔

یہ سولنگ لگی ایک طویل گلی تھی۔ چھوٹے مکانوں کے علاوہ دکانیں، چوبارے اور بڑے بڑے پختہ مکان بھی یہاں موجود تھے۔ بستی میں بجلی بھی تھی۔ گھروں کے علاوہ گلی میں بھی فاصلے فاصلے پر کھمبوں پہ اور گھروں کے باہر بلب روشن تھے۔ محلے میں واقع دکانوں پر رونق تھی۔ ایک، دو جگہ ٹی ویاور بنچوں پر بیٹھے لوگ بھی دکھائی دئیے…. کچھ لڑکوں بالوں اور عورتوں پر بھی ان کی نظر پڑی۔ سب ہی ان کی تیز رفتار پجارو کی طرف دیکھ دیکھ کر چونکتے گئے ۔ پوری گلی میں یہاں سے وہاں…. دوسرے کونے تک پجارو کے ساتھ ساتھ ایک سنگین سنسنی کی لہر سی دوڑتی چلی گئی…. یقیناً گلی والے کچھ ہی دیر پہلے تک فائرنگ کی آوازیں بھی سنتے رہے تھے اور شاید ان میں سے چند ایک اس لہو رنگ پجارو کو بھی باخوبی پہچانتے تھے۔

تقریباً تین سو گز آگے سے وہ دائیں طرف ایک گلی میں مڑ رہے تھے جب انہیں ایک کار اسی گلی میں داخل ہوتی دکھائی دی۔ دوسری غالباً سیدھی آگے نکل گئی تھی۔

دو، تین گلیوں سے گزرنے کے بعد وہ بستی کے عین درمیان سے گزرنے والی مرکزی گلی میں پہنچ آئے۔ یہ پختہ گلی سڑک کی طرح کشادہ تھی۔ گلی کے دونوں طرف گھروں کے ساتھ ساتھ دکانیں بھی تھیں. یہاں سے وہاں تک پوری گلی میں رونق تھی۔ جگہ جگہ گھروں کے باہر پڑی چارپائیوں پر چار چار، چھ چھ لوگ بیٹھے گپوں میں مصروف دکھائی دئیے۔ ایک، دو چائے کی دکانوں کے علاوہ پان سگریٹ اور کریانے کی دکانیں تھیں۔ ایک ڈھابا تنور ہوٹل، دو تین پھٹے کھوکے، کھڑے ریڑھے اور کھلے کھوتے (گدھے) بڑھے بوڑھوں کے علاوہ یہاں وہاں گلیوں کی نکڑوں تھڑوں پر لڑکوں کی ٹولیاں بھی موجود تھیں۔ 

خنجر کو راستے کا تو سِرے سے کچھ پتا نہیں تھا۔ اس نے بس اندازے ہی سے پجارو اس طرف موڑ دی تھی کہ شاید اس گلی سے آگے وہ دوبارہ شاہ پور والی کچی سڑک پر جا نکلیں…. پچھلی گلی میں سے ایک کار بھی ان کے پیچھے اسی گلی کی طرف آرہی تھی۔ اس لیے خنجر نے رفتار ممکنہ حد تک تیز رکھی اور ہارن مسلسل دبائے رکھا۔گاڑی کے ساتھ ہی ہنگامی صورتحال اور افراتفری کا احساس پوری گلی میں بھر آیا۔ ہر ایک آنکھ پجارو کی طرف اٹھی تھی۔

وہ گلی کے وسط میں پہنچے تھے کہ دائیں ہاتھ موجود گلی سے اچانک ایک نیلے رنگ کی کار نکلی، رفتار اس کی بھی اچھی خاصی تیز تھی۔ محض چند فٹ کا فاصلہ تھا. خنجر کے لیے یہ صورتِ حال قطعی غیر متوقع تھی۔ دونوں گاڑیوں کے بریکوں کا دل خراش شور دور تک لوگوں کو بری طرح چونکا ٹھٹھکا گیا۔ اس شور کے ساتھ ہی گاڑیوں کے تصادم کی زوردار آواز کے ساتھ ہی آس پاس موجود لوگوں کی سماعتوں تک دو عورتوں یا لڑکیوں کی چیخوں کی آوازیں بھی پہنچی تھیں۔

ٹکراو کے ساتھ ہی اسٹیرنگ خنجر کے قابو سے باہر ہو گیا۔ زور دار دھچکے کے ساتھ ہی اسٹیرنگ جیسے خودبخود بائیں طرف کو گھوم گیا۔ خنجر نے بریک بھی دبا رکھے تھے پھر بھی گاڑی چند قدم آگے، بائیں ہاتھ واقع ایک تنگ سی گلی کی نکڑ پر موجود ایک برف والے پھٹے سے جا ٹکرائی اور اس پھٹے کو توڑتی ہوئی دیوار سے ٹکر کھا کر رک گئی۔ برف کے بلاک پختہ گلی میں گِرے اور ٹوٹ کر اِدھر ادھر بکھر گئے۔ برف والا اور دو، تین گاہک بے ساختہ چیختے ہوئے دور ہٹے تھے۔

پجارو کی زور دار ٹکر نے کار کا رخ گلی کی دائیں طرف کو موڑ دیا تھا۔ کار کی ڈکی گھوم کر پجارو کے عقبی حصے سے ٹکرائی تھی۔ ایسا برا دھچکا لگا تھا کہ دماغ چکرا کر رہ گئے۔ سب آپس میں اور سیٹوں سے ٹکرائے۔ مرشد کی پسلیوں اور سینے میں درد کے کئی دائرے گردش کر اٹھے لیکن اس نے پورے ضبط سے کام لیا، یہ لمحے غفلت یا کسی بے عملی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے…. وہ دیکھ چکا تھا کہ گلی میں ڈیڑھ دو سو گز پیچھے دوسری کار بھی کسی خون آشام چمگادڑ کی طرح اسی طرف کو اڑی آ رہی تھی، محض چند لمحوں بعد وہ بھی یہیں ،ان کے سروں پر پہنچنے والی تھی۔ یقیناً چار، پانچ بندے اس میں بھی سوار ہوں گے اور یہ سبھی لوگ اسلحے سے لیس تھے۔اب یہاں سے دامن بچاتے ہوئے کترا کر نکل جانا ممکن نہیں رہا تھا…. اتنا وقت ہی کہاں تھا…. اب تو ان کے پاس محض چند لمحوں کی مہلت تھی اور بس!

حجاب سے متعلق وہی محرم جاں سی مخصوص تشویش اور جاں فزا سی فکرمندی ان لمحوں بھی ایک بے پناہ شدت کے ساتھ اسکے دل میں دھڑک کر رہ گئیتھی۔

دیوار سے ٹکر کھانے کے بعد گاڑی ابھی ٹھیک سے رک رہی تھی کہ جعفر کمال پھرتی اور دلیری کا مظاہر کرتے ہوئے دروازہ کھول کر ایک جھٹکے سے باہر نکل گیا۔ اس کے حلق سے نکلنے والی بلند آہنگ گالی دور تک گونج گئی۔ مرشد نے بھی اسی پھرتی سے باہر نکلنا چاہا تھا لیکن اسی لمحے چوہدری فرزند نے ایک بار پھر سنبھلتے ہوئے اسکی رائفل پر ہاتھ ڈال دیا۔ صورتحال کی اس اچانک کایا پلٹ نے اے ایس پی صاحب کے کلیجے میں بھی حوصلے پھونک دئیے تھےوہ بھی مرشد پر جھپٹ پڑا۔مرشد کو ایک جھلک خنجر کی دیکھائی دی وہ رائفل سنبھالتا ہوا ڈرائیور ڈور سے باہر نکل رہا تھا۔ساتھ ہی اس کی متنبہ کرتی ہوئی للکار سنائی دی۔ 

اے ایس پی رشید خان جس تیزی سے مرشد پر جھپٹا تھا اس سے دگنی تیزی کے ساتھ وہ کھڑکی کی طرف گھوما۔ ماتھا اس شدت کے ساتھ کھڑکی کے شیشے سے ٹکرایا کہ شیشہ تڑخ گیا…. اس ٹکراو کے بعد اس کا ماتھا، سر ابھی ایک انچ ہی پیچھے ہٹا تھا کہ گدی پر جیسے کوئی قیامت ٹوٹ پڑی بہت بھاری سخت اور زوردار ضرب تھی۔ سر اور کھڑکی کا چھناکے دار ٹکراو�¿ ہوا اور رشید خان کا سر، شیشہ چکنا چور کرتا ہوا کھڑکی سے باہر نکل گیا۔

کار سے للکارتے، چنگاڑتے افراتفری میں اترنے والے مسلح افراد کو اس چھناکے دار منظر نے بری طرح چونکایا تھا۔ وہ پانچ لوگ تھے۔ ان میں دو پولیس والے تھے۔

 دراصل کتے کی طرح جھپٹنے والے رشید خان کی کنپٹی پر مرشد نے بائیں کہنی سے ضرب رسید کی تھی۔ چوہدری فرزند اس کی رائفل دبوچے اٹھ رہا تھا۔ مرشد نے اسے موقع دیتے ہوئے فورً ہی پرانی دائیوں کی سی تکنیک سے رشید کی گدی میں پاو�¿ں والی لات ماری اور اس لات کے نتیجے میں اس کا سر شیشہ توڑ کر باہر نکل گیا تھا۔

رشید خان کو لات مارتے ہی مرشد نے وہی لات گاڑی کے فرش سے اٹھتے ہوئے چوہدری فرزند کے دائیں طرف سے گھماتے ہوئے اس کے بائیں کندھے پر رکھی، اگلے ہی پل چوہدری منہ کے بل تھا اور مرشد ران کے زور اس کی پیٹھ پررائفل بدستور اس کی گرفت میں تھی۔ مرشد نے دایاں ہاتھ پنڈلی پے موجود خنجر کی طرف بڑھایا۔ چوہدری فرزند نے غراتے ہوئے اٹھنے کے لیے زور مارا اور دونوں ایک ساتھ لڑھک کر گاڑی کے کھلے دروازے سے باہر گلی کے سولنگ پر جا گرے۔

حجاب نے لاشعوری طور پر زریون کا بازو اضطرابی انداز میں ہلاتے ہوئے اسے کچھ کرنے کا کہا مگر وہ اپنی جگہ جما رہا۔

مرشد کے ہاتھ میں آتے خنجر کی جھلک چوہدری کو بھی دکھائی دے گئی تھی۔ مرشد نے گرنے کے دوران رائفل چھوڑتے ہوئے بائیں ہاتھ سے جھپٹ کر چوہدری کی بائیں کلائی دبوچی اور دائیں ہاتھ میں موجود خنجر سے اس کے بائیں کندھے پر وار کیا تھا جس سے بچنے کے لیے چوہدری نے بے اختیار رائفل سے دائیں ہاتھ کی گرفت ختم کرتے ہوئے اس کی خنجر والی کلائی تھام لیاس طرح وہ خنجر کے ضرر سے تو بچ گیا لیکن مرشد کے داو�¿ میں آ گیااس نے نیچے گرتے ہی پسلیوں میں پھیلتی ٹیسوں کو جبڑوں میں سختی سے دبوچا ، تڑپ کر کروٹ بدلتے ہوئے گھٹنا اینٹوں پر ٹکایا اور پھر اگلے ہی پل اس کا بایاں بازو سرعت سے چوہدری کی گردن کے گرد اژدھے کی طرح جا لپٹا۔ ساتھ ہی اس نے اپنی خنجر والی مٹھی کو مخصوص انداز میں ایک تیز حرکت دی اور چوہدری کے حلق سے ایک وحشت ناک کراہ خارج ہو گئی۔

 خنجر کی تیز دھار نے اسکی کلائی پر گہرا کٹ چھوڑا تھا۔ مرشد کی کلائی سے اس کی گرفت فورً ختم ہو گئی۔ رائفل پہلے ہی گر چکی تھی۔ جس طرح بجلی چمکتی ہےکوئی مختصر سا جھماکا ہوتا ہے، با لکل اسی طرح مرشد کا خنجر والا ہاتھ لہراتا محسوس ہوا اور یکایک چوہدری کے حلق سے ایک تیز وحشت خیز اور درد ناک غراہٹ سی خارج ہو گئی۔خنجر کی قاتل دھار اسکی دائیں ران پر ایک گہرا اور لمبا چرکا چھوڑ گئی تھی۔ ران کے اندر جیسے دہکتے ہوئے انگارے سے اترگئے تھے۔ لمحے بھر کو اس کی ساری جدوجہد اور زور آزمائی گڑبڑائی اور مرشد نے ایک جھٹکے سے اسے کھینچ کر کھڑا کر لیا۔       چوہدری نے تڑپنے پھڑکنے کی کوشش کی تھی مگر مرشد نے عقبی طرف سے بے رحمی کے ساتھ خنجر کی نوک اس کی پیٹھ میں چبھوئی اور ساتھ ہی اس کے کان کے قریب پھنکارا۔

"بس بس کر جا چنگڑ چوہدری! بس کر جااور مجرا کرے گا تو ابھی یہ خنجر تیرے گردے کو خربوزہ سمجھ کے آرپار ہو جائے گا۔تیری(چند موٹی تگڑی گالیاں) ہلیو بھی نہ اب۔ سانس بھی ہولے لے۔ تیری زندگی موت اب تیرے اپنے ہتھ۔”

شدت غضب کہ اس نے ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔ آواز میں اعصاب شکن غیظ و غضب ہلکورے لے رہا تھا تو لب و لہجے میں جیسے زمانوں کی نفرت، صدیوں کا جلال گرجا تھا۔ چوہدری کے وحشت بھرے جنگلی وجود میں ایک سرد لہر سی دوڑ گئی۔ اسے یہی لگا کہ کمر کا گوشت چھیدتی خنجر کی نوک آئندہ لمحے کمر میں شگاف ڈالتی ہوئی اسکے گردے کو چیرنے والی ہے!

ہاں!یہ ہو سکتا تھا جو بندہ یہ بات کہہ رہا تھا وہ بلاجھجھک یہ کر سکتا تھا اور کئی حوالوں کے علاوہ اپنے خاص کارندے حکم داد کی عبرت اثر لاش تو چوہدری نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ گردن پر بازو کی گرفت بھی گھبراہٹ اور خوف طاری کر دینے کی حد تک مضبوط تھی۔چوہدری بے اختیار ہی اسکی گرفت میں ساکت ہوگیا۔یہ سارا کچھ ایک برق رفتار تیزی کے ساتھ محض بارہ پندرہ سیکنڈ کے اندر اندر ہو گزرا تھا۔ اتنے میں دوسری کار بھی عقب میں چند گز کے فاصلے پر ایک جھٹکے سے آ رکی۔ اس میں سے بھی چار پانچ مسلح افراد للکارتے ہوئے بہ عجلت اترے تھے۔ دونوں طرف سے رائفلیں سیدھی ہو چکی تھیں۔

جس جگہ مرشد کھڑا تھا۔ وہاں اس کے عقب میں ایک تنگ سی گلی تھی۔ گلی سے آگے پجارو دیوار کے ساتھ چپکی کھڑی تھی۔ پجارو کے دوسری طرف ڈرائیور ڈور کے سامنے خنجر رائفل سیدھی کیے کھڑا تھا۔ اس کے سامنے چھ سات قدم کے فاصلے پر کار کے ساتھ پانچ بندے کھڑے تھے اور انکے ہتھیاروں کا رخ اسکی طرف تھا۔مرشد سے تین قدم آگے پجارو کے عقبی حصے کے ساتھ جعفر کندھا ٹکاے کھڑا تھا۔ وہ رائفل کو کبھی عقبی طرف موڑ رہا تھا اور کبھی پہلو کی طرف، خنجر پر رائفلیں تانے کھڑے افراد کی جانب۔

پوری گلی جیسے ان سب کی پرغضب آوازوں اور دھمکیوں سے بھر گئی تھی۔ سبھی آپے سے باہر ہوئے جا رہے تھے۔ جوش اور غصے سے ابلی پڑتی آنکھیں، سرخ چہرے، گردنوں کی پھولی رگیں اور رائفلوں کی لبلبیوں پر شدت اضطراب سے تھرتھراتی ، لرزتی انگلیاںسب ہی کے اعصاب انتہادرجہ تناو کا شکار تھے۔ مرشد لوگوں کی پوزیشن اس درجے کمزور تھی کہ وہ تینوں ایک سیکنڈ میں چھلنی ہو جاتے لیکن آنے والوں کو پتہ تھا کہ ان کا چوہدری اور اے ایس پی انکی گرفت میں ہے اور اب چوہدری، مرشد کی مخصوص جکڑ میں پھنس کر اس کی چھاتی کے سامنے ڈھال بنا کھڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ دشمنوں میں سے کوئی اضطرار وحشت میں فائر کھولتا مرشد کی فلک شگاف دھاڑ سے پوری گلی بلکہ پورا محلہ گونج اٹھا۔ 

"خبردار اوئے ! پیچھے ہٹ جاو سب ورنہ اس چوہدری کو ایک جھٹکے سے چیر کر پھینک دونگا میں ہٹو پچھے تمھاری(گالی)جعفر ! تم ادھر ہو جاو۔ "

اس نے آخری جملہ جعفر سے مخاطب ہو کر کہا اور خنجر کی نوک سے چوہدری کو دھکیلتا ہوا تین چار قدم آگے جا کھڑا ہوا۔ چوہدری کے حلق سے پھر ایک دردیلی کراہ نکل گئی۔ گلی کی نکڑ پر کھمبا تھا اور کھمبے پر بلب اس بلب کے علاوہ دکانوں کے بلب اور روشنیاں تھیں اور گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس بھی آن حالت میں تھیں۔خون میں لت پت چوہدری کی پہلی جھلک ہی اسکے کارندوں اور پولیس والوں کو بری طرح سے چونکا گئی ۔

 چوہدری کا چہرہ اور سامنے سے قمیص خون سے رنگین ہو رہے تھے۔ دائیں طرف ران کے نیچے کی طرف دھوتی بھی سرخ ہو رہی تھی۔ باقی سب کے ساتھ خود چوہدری بھی دھول مٹی ، گردوغبار سے اٹا ہوا تھا اور اب اسے کمر پر تکلف دہ چبھن کے ساتھ خون کی نمی بھی نیچے کی طرف سرکتی ہوئی محسوسہونے لگی تھی۔ 

"تو مرے گابہت گندی موت مرے گا تو۔” چوہدری غرایا تھا۔

” اس سے پہلے میں تیری آندریں ( آنتیں) نکال کر نالی میں ڈال چکا ہوں گا۔”

"رک جاو! کوئی گولی نہیں چلائے گاچوہدری صاحب کو چھوڑ دے ووئے۔ ورنہ تم سب کی لاشیں گر جائیں گی۔”

"چلاو تمھاری بہن کی”

"اوئے اوئے”

"اوئے تمھاری ماں کی”

 "پچھے ہٹو ورنہ چوہدری مر جائے گا۔” مرشد پھر دھاڑا اور تیز لہجے میں جعفر سے مخاطب ہوا۔ 

"اس اے ایس پی کو قابو کر۔ سرکار کو لے اور ادھر گلی میں گھسو جلدی۔”

"گلشن….” چوہدری نے عقبی طرف کار کے برابر کھڑے اپنے ایک رائفل بردار کارندے کو گھٹی گھٹی غصیلی آواز میں پکارا۔

” گولی چلا ، چھلنی کر دے ان سب حرامیوں کو۔ ” گلشن اپنی جگہ مضطربانہ انداز میں تلملا کر رہ گیا۔ شاید اسے خیال آیا تھا کہ وہ حرامیوں پر فائر کھول دے لیکن اس کے ساتھ چوہدری خود بھی چھاننی(چھلنی) ہو جاتا۔

 "میں کہتا ہوں فیر کر، میری میری پرواہ نہ کر ان میں سے کسی ایک کتے کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا۔ "وہ بہ دقت اتنا کہہ پایا۔ گردن کے گرد لپٹے بازو کی گرفت اس قدر سخت تھی کہ گردن کی ہڈی شدید ترین دباو�¿ کی زد میں تھی۔ چوہدری کا وجود اس دباو اور تکلف کے باعث جیسے مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ 

مرشد نے اس کی گردن کو معمولی سا جھٹکا دیا اور خنجر اسکی پشت سے ہٹا کر پھرتی کے ساتھ اسکے کھلے منہ میں دونوں ہونٹوں کے درمیان جما دیا

چوہدری کا منہ وہیں ساکت ہو گیا۔ اس کی آنکھیں جھک کر خنجر پر آ ٹکیں۔ ایک نظر میں یوں لگتا تھا جیسے خنجر کی دھار اس نے دانتوں میں دبوچ لی ہو۔ منہ میں تازہ خون کا ذائقہ اور بو گھلتی چلی گئی۔ 

 ” بھونکنا بند کر،سمجھا؟” مرشد کی سفاک غراہٹ اور خنجر کی اس درجہ قربت پر ایک بار تو چوہدری کی سانس تک ساکن ہو گئی تھی۔

"رک جاو رک جاو سب دیکھو مرشد! تم اب مزید نہیں بھاگ سکتے۔ ہتھیار ڈال دو۔ چوہدری صاحب کو چھوڑ دو ورنہ بے موت مارے جاو گے۔،” ایک پولیس والا دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے قدرے سامنے آیا،اس کے ایک ہاتھ میں پسٹل تھا۔

” ہم شوق سے مرنے کو تیار ہیں تم لوگ گولی چلاو۔ ہمارے ساتھ تمھارا یہ (ناقابل اشاعت) چوہدری اور اے ایس پی بھی مرے گا۔ گولی چلاو تم۔!” مرشد نے ٹھوس اور بے خوف لہجے میں جواب دیا۔پوری گلی میں سنسنی اور دہشت کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔لوگ بری طرح گھبرا کر وہاں سے دور ہٹتے چلے گئے تھے اور دور والے دیواروں اور دکانوں کی طرف سمٹ گئے تھے ۔گولی کا بھلا کیا بھروسا گولی تو اندھی ہوتی ہے چلنے کے بعد کیا پتہ کسے چاٹ جائے!

"اپنے اور اپنے ساتھیوں کی جان کے ساتھ دشمنی نہ کرو۔ گرفتاری دے دو۔ تمھاری جان بچ جائے گی۔” پولیس والا پھر بولا، 

"اپنے محکمانہ باپ اور اس ناجائز باپ کی جان کی زرا بھی پرواہ ہے تو اپنے ساتھ والے ان سارے کتوں کو لے کر پیچھے ہٹ جا ورنہ ہم لوگ مرتے مرتے بھی تم میں سے آدھوں کو تو لے مرینگے۔” اس نے کھڑکی سے پجارو کے اندر جھانکا۔ 

"سرکار۔! نیچے آ جائیں۔” پھر وہ بلند آواز میں پکارا۔

"خنجر۔! ادھر آ جااس طرف۔”

جعفر مرشد کی رائفل اٹھانے کے بعد رشید خان کو دبوچ چکا تھا۔ مرشد کی دو ضربوں کی بدولت اس کے حواس ابھی تک اپنے ٹھکانے سے ہٹے ہوئے تھے۔مرشد، خنجر اور جعفر تینوں کے رگ و پے میں ایک برقی رو سی مسلسل سنسنا رہی تھی۔ رگوں میں دوڑتا خون اچھالے مار مار کر انکی کنپٹیوں میں ٹھوکر انداز تھا۔ اپنے اپنے طور پر تینوں نے تسلیم کر لیا تھا کہ لڑ مرنے کا موقع آن پہنچا ہے اور اب اس لمحے کے روبرو ، سرخرو ہونا ہے بہادری اور جواں مردی کی موت مرنا ہے۔ وہ ابھی یہیں مر مٹ جانے کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکے تھے۔ 

حجاب اور فیروزہ کا تو یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں انکی تو سانسوں کے ساتھ جیسے دھڑکنیں تک رکی ہوئی تھیں۔ ایک ساتھ اتنے سارے بے رحم قاتل انکے سر پر پہنچ آئے تھے۔ فائرنگ کا اجل خیز شور انکی رائفلوں کے دہانوں سے ابل پڑنے کے لیے مچل رہا تھا۔ ابھی یہاں کئی لوگ قتل ہونے والے تھے اور شاید وہ خود بھی

مرشد چوہدری کو اسی طرح دبوچے ایک زرا پیچھے ہٹا تو حریفوں میں کھلبلی سی مچ گئی۔ تین چار افراد بے چینی سے آگے بڑھے۔ مرشد نے انہیں ڈپٹا۔

 چوہدری کا ڈیل ڈول اس سے زیادہ تھا۔ وہ صحیح معنوں میں مرشد کی ڈھال بن گیا تھا۔ اس نے اپنا آدھا چہرہ بھی چوہدری کے سر کے پیچھے چھپا رکھا تھا۔ چوہدری کے رائفل بردار اور پولیس والے برابر انکی طرف ہتھیار تانے ہوئے تھے۔ سب کی درندوں جیسی آنکھیں مرشد پر یوں جمی ہوئی تھیں جیسے وہ اسکی سانسیں تک دیکھ اور گن رہے ہوںانگلیاں ہتھیاروں کی لبلبیوں پر چپک کر رہ گئی تھیں البتہ کوئی بھی گولی چلانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا حالانکہ عقبی طرف سے نہ سہی لیکن بغلی طرفپجارو کی دوسری جانب کھڑے رائفل بردار مرشد کو نشانہ بنا سکتے تھے لیکن یہ اندیشہ انکے ذہنوں میں بھی پتھر کی طرح آ پڑا تھا کہ گولی چوہدری صاحب کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے گولی کے علاو�¿ہ مرشد نے خنجر بھی اس طرح چوہدری کے منہ میں ڈال رکھا تھا کہ اگر چوہدری صاحب اپنے منہ یا چہرے کو ایک زرا بھی حرکت دیتے تو انکی باچھیں چر جاتیں اور اگر ایسی کوئی چرائی کسی کے گولی چلانے کے باعث پیش آتی تو بعد میں چوہدری صاحب گولی چلانے والے کو آرا مشین پر چروا بھی سکتے تھے!

دوسری طرف ایک رائفل کی نال اے ایس پی صاحب کی کھوپڑی پر بھی رکھی جا چکی تھی اور ان باتوں کے علاوہ ان ہی کے اپنے ایک دو ساتھی شدت سے سب کو گولی چلانے سے منع کر رہے تھے روک رہے تھے۔کوئی بھی فوری طور پر فائر کر سکنے کا فیصلہ نہیں کر پایاسب کی توجہ مرشد کی طرف مرکوز ہو چکی تھی۔ جس نے کسی وحشی عفریت کی طرح چوہدری فرزند کو جکڑ رکھا تھا۔حجاب اور زریون پجارو کے دروازے پر نمودار ہوئے، فیروزہ فرنٹ سیٹ سے اتر آئی۔ 

"تم۔! تم ہمارے ساتھ یہ سب ٹھیک نہیں کر رہے۔” زریون بولا۔ عجیب ٹون میں تھا وہ!

"شاہ جی! ادھر اندر آ جائیں”

” جعفرخنجر!”مرشد نے تنگ گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی جعفر اور خنجر کو آواز دی۔ خنجر پجارو کے بونٹ پر پھسلتا ہوا اس طرف آ پہنچا۔ مزید صرف دو قدموہ لوگ گلی میں تھے۔پہلے حجاب اور زریون گلی میں داخل ہوئے تھے۔ اور انکے بعد رشید خان کی گردن پر رائفل کی نال رکھے جعفر خنجر مرشد سے ایک قدم پیچھے تھا اور اس نے دشمنوں کی طرف رائفل سیدھی کر رکھی تھی۔ 

مرشد کے الٹے قدموں پیچھے ہٹتے ہی انہیں گھیرے کھڑے مسلح افراد بھوکے جنگلی کتوں کی طرح غراتے ہوئے چاروں طرف سے آگے بڑھے اور مرشد خنجر کی جنونی للکاروں نے انہیں ٹھٹھکایا۔ مرشد نے پیچھے ہٹتے ہوئے تنبیہی انداز میں چوہدری کی گردن کو دو تین جھٹکے دیئے۔ خنجر نے ہوائیفائرنگ کی ،جواباً سامنے سے بھی دو تین برسٹ فائر کئے گئے۔ کئی ایک آوازیں اور جنونی بھڑکیں بلند ہوئیں۔ گلی میں جگہ جگہ دکھائی دیتی بستی کی مخلوق دہشت اور سراسیمگی سے چیختی ہوئی بھاگ کھڑی ہوئی۔ لوگ گھروں اور دوکانوں کے اندر گھس گئے۔ ایک دو شٹر گرنے کی آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ اتنے میں مرشد اور خنجر بھی گلی میں پہنچ گئے۔ 

چوہدری سمیت الٹے قدموں گلی میں داخل ہوتے وقت مرشد کی نظر دورپیچھے گلی کی نکڑ کی طرف گئی تھی اور اس کی رگوں میں خون نے اچھالا مارا تھا۔ دو تین گاڑیاں تھیں جو ہنگامی انداز میں گلی میں داخل ہوئیں تھیں۔ ان کی ہیڈ لائٹس کا رخ اسی طرف تھا۔ خنجر چوں کہ اسکی پشت پر ، اس کے پیچھے تھا، اس لیے وہ ان گاڑیوں کو نہیں دیکھ سکا۔تمام مسلح افراد گلی کی طرف کھینچے چلے آئے۔ یہ تنگ گلی محض ڈھائی پونے تین فٹ چوڑی تھی۔ ایک وقت میں صرف ایک ہی بندہ گزر سکتا تھا۔ وہ سب بھی ایک قطار میں تھےگلی کے اندر سب سے آگے زریون تھا پھر حجاب، فیروزہ، جعفر، رشید،خنجر اور پھر مرشد اور چوہدری فرزندیک جسم ، یک جا ہوئےآپس میں پیوست ہوئے ایک ساتھ۔ 

اس گلی میں گھس آنے کی وجہ سے وہ فورً ہی تین اطراف سے محفوظ ہوگئے تھے۔ چوتھی طرف سے وہ مرشد کی اوٹ میں تھے۔ اور خود مرشد چوہدری کی اوٹ میں تھا۔ گلی بامشکل بیس پچیس فٹ طویل تھی اور بیس پچیس فٹ کے بعد ایک سپاٹ اور بلند دیوار پر ختم ہو جاتی تھی۔ وہیں کونے میں لکڑی کا ایک دروازہ موجود تھا جس کی دوسری جانب ایک تاریک سرنگ منہ کھولے کھڑی تھی۔

دراصل وہ ایک راہداری نما راستہ تھا جو تاریکی کے باعث سرنگ ہی کا تاثر دیتا تھا۔ وہ سب ایک دوسرے سے بغیر کچھ کہے پوچھے اس تاریکی میں داخل ہوتے گئے۔ دس پندرہ قدم آگے مدھم سی روشنی کا احساس موجود تھا۔ مرشد کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی خنجر نے جھپٹ کر اس پرانے بھاری دروازے کے پٹ بند کیے اور اندر سے زنجیر چڑھا دی۔ دہشت ناک آوازیں اور شور دروازے کے اس پار گلی میں ہی رہ گیا۔ 

وہ سب شدید عجلت کے عالم میں آگے بڑھ رہے تھے اور ان کے عقب میں دروازے پر جیسے پاگل درندوں نے ہلا بول دیا تھا۔ وہ چیخ چنگھاڑ رہے تھے۔ دروازہ دھڑ دھڑا رہے تھے۔ دھکے اور لاتیں مار رہے تھے مگر مرشد اور خنجر کو اندازہ تھا کہ اس بھاری دروازے کو آسانی سے توڑنا ممکن نہ ہوگا۔

دس پندرہ قدم بعد اس راہداری کا اختتام ایک ڈیوڑھی نما جگہ پر ہوا۔دائیں طرف ڈیوڑھی سے متصل ایک خستہ حال کنواں نما کمرہ تھا۔ کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ بلب روشن تھا۔ اس بلب کی ناکافی زرد روشنی اس اجڑے پجڑے کالک زدہ سے کمرے کی ویرانی اور وحشت میں مزید اضافہ کرتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔یوں لگتا تھا جیسے اس قدیم کھنڈر میںبرسوں سے کسی نے قدم نہ رکھا ہو لیکن وہاں کوئی موجود تھا…. کمرے میں دو چارپائیاں تھیں۔ کچھ کاٹھ کباڑ، کپڑے لتے، بستر اور ایک ناگوار سی تیز بو سیدھی جا کر دماغ میں چبھتی ہوئیایک طرف کونے میں چارپائی پر کوئی نحیف و نزار ہستی پڑی اپنی کمزور اور لرزیدہ آواز میں کسی طفیل اور جینا کو لڑائی اور شورشرابہ ختم کردینے کا کہہ رہی تھی۔ اس کی آواز اور لب و لہجہ گواہ تھا کہ اس کی حالت اس کمرے سے بھی ذیادہ خستہ اور مخدوش ہے۔ 

کمرہ بامشکل دس ضرب دس کا رہا ہوگا۔ کمرے کے بائیں کونے میں ایک چھوٹے سائز کے دروازے جتنا خلا موجود تھا۔ جس کی دوسری جانب روشنی تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی مرشد نے چوہدری کو دھکا دیا اور ساتھ ہی اس کی پیٹھ پر لات رسید کر دی۔ 

"ان دونوں کو ادھر کونے میں بٹھاو۔ زور سے سانس بھی لیں تو کھوپڑے میں گولی اتار دو۔ ” مرشد نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہا اور جعفر کے ہاتھ سے رائفل اچکتا ہوا کونے میں موجود خلا میں سے دوسری جانب نکل گیا۔

مرشد کی لات کھا کر چوہدری منہ کے بل خالی چارپائی پر گرا تھا۔ غصے سے بکتا ہوا سمبھلا ہی تھا کہ توپ کے گولے کی طرح آ کر ٹکرانے والے رشید خان کے ساتھ ہی دوبار ہ گر پڑا۔ جعفر اور خنجر نے دبنگ انداز میں انہیں تنبیہ کرتے ہوئے رائفلوں کے نشانے پر رکھ لیا تھا۔ خنجر دو قدم پیچھے ہٹ کردروازے کے قریب ڈیوڑھی میں جا کھڑا ہوا۔کمرے میں مسلسل کپکپانے والی نحیف سی آواز ہراساں انداز میں گھٹ کر بند ہو گئی ۔ 

مرشد جھک کر کونے والے خلا سے نکلا ہی تھا کہ حجاب بھی بے اختیار اس کے پیچھے دوسری طرف پہنچ گئی۔ وہ بری طرح ڈری اور گھبرائی ہوئی تھی۔ چوہدری فرزند کے تو خیال ہی سے اسکا خون خشک ہونے لگتا تھا اور مرشد اسے ساتھ ہی گھسیٹ لایا تھا۔ اس کے پیچھے زریون اور فیروز بھی اسی طرف نکل آئے۔

یہ بھی ایک مختصر سی ڈیوڑھی نما جگہ تھی۔ کرچی کرچی فرش، شکستہ گنبد نما ایک چھت اور زخم زخم دیواریں دس ضرب دس کی اس ڈیوڑھی کی چاروں دیواروں میں چار چار فٹ کے دروازہ نما خلا موجود تھے جن کی دوسری جانب گھپ اندھیرا اونگھ رہا تھا۔ دائیں دیوار پر تار اور کیل کی مدد سے ایک روشن بلب لٹکا ہوا تھااور یہاں بھی بلب کی زرد سی روشنی ایک عجیب نحوست زدہ سی اداسی کا تاثر پھیلا رہی تھی۔ دیواروں پر پیلاہٹ اور سیاہی پھیلی ہوئی تھی۔نانک چندی اینٹوں سے قدیم طرز پر تعمیر ہوئی یہ کسی مندر، کسی گردوارے کی عمارت معلوم ہو رہی تھی جو شاید برسوں پہلے پوجا پاٹ، عبادت و پرستش وغیرہ کے لیے مخصوص رہی ہوگی مگر اس وقت اسے کسی غریب و نادار فیملی نے اپنا مسکن بنا رکھا تھا۔ ابھی تک ایک بیمار بوڑھے وجود کے علاوہ یہاں کسی دوسرے کی موجودگی ثابت نہیں ہوئی تھی۔ 

"اب آگے کدھر جانا ہے؟ زریون نے جیسے ہنکارا بھرا۔ مرشد نے باری باری تینوں طرف کے خلاو�¿ں سے اندر جھانکا۔ دائیں بائیں اور سامنے تینوں طرف کمرے تھے۔ اندھیرے، سناٹے اور ایک ناگوار سی بو سے بھرے ہوئے اور سر پر گنبد نما خستہ چھت لیے!

"آخر کار تم نے اپنے ساتھ ہمیں بھی اس چوہے دان میں لا پھنسایا نا!”زریون نے خشک انداز میں کہا۔ پسٹل بدستور اس کے ہاتھ میں تھا۔ اسی پل دور بستی کے کونے کی طرف سے فائرنگ کی آوازیں بلند ہوئیں۔ پہلے وقفے وقفے سے دو تین فائر ہوئے پھر باقاعدہ دوطرفہ فائرنگ شروع ہو گئی۔ مرشد کا دھیان فورً ٹیپو لوگوں کی طرف چلا گیا۔ ٹیپو ،ڈاکٹر اور زریون کے دو بندے کار میں آگے نکل گئے تھے۔ شاید اب آگے کہیں انہیں بھی گھیرا جا چکا تھا۔ 

 ” آپ لوگ یہیں ٹھہریں۔” مرشد نے تیز لہجے میں کہا اور جلدی سے پہلے والے کمرے میں واپس آ گیا۔ جہاں جعفر اور خنجر چوہدری اور رشید خان کو رائفلوں کے نشانے پر رکھے کھڑے تھے۔ گلی والے دروازے کو برابر دھکے مارے جا رہے تھے۔ ،یوں لگ رہا تھا کہ کسی بھی پل دروازہ اکھڑ کر اندر راہداری میں آ گرے گا۔باہر گلی میں چوہدری کے کتوں نے ایک ہاہا کار سی مچا رکھی تھی۔

"ادھر سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے نہ چھت پر جانے کا…. پھنس گئے۔“ مرشد نے ڈیوڑھی کے قریب کھڑے خنجر کے پاس پہنچ کر دھیمی مگر پر تشویش آواز میں کہا اور ساتھ ہی ہونٹ بھینچ لیے۔ تکلیف کے باعث وہ پہلو پر ہاتھ رکھے ڈھیلے سے انداز میں کھڑا تھا۔ صورتحال کی سنگینی نے اس کے ذہن میں آندھیاں سی چلا دی تھیں۔ گلی میں داخل ہوتے وقت اس نے دو تین گاڑیاں آتی دیکھی تھیں۔ یعنی کم از کم بھی بارہ پندرہ افراد مزیدیہ بھی واضح اور صاف بات تھی کہ اگلے ایک دو گھنٹے تک مزید بیسیوں گاڑیاں اس بستی میں پہنچ آئیں گئی۔ درجنوں جانی دشمن اور درجنوں کے حساب سے پولیس والے جو یقینی طور پر ان لوگوں کو گرفتار کرنے سے زیادہ پار کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ 

تین افراد کا اتنے لوگوں کے ساتھ لڑ کر جیتنا کسی طور ممکن نہ تھا۔ جس مندر نما عمارت کے اندر وہ آ پھنسے تھے اس میں آمدورفت کا واحد ایک ہی راستہ، ایک ہی دروازہ تھا اور اس دروازے کے پار ان لمحوں ممکنہ طور پر بھی کم از کم بیس پچیس مسلح اور جنونی افراد موجود تھے۔ بالفرض محال وہ کسی طرح اس گھٹن اور سیلن زدہ بدبو دار چاردیواری سے باہر نکل بھی جاتے تو شاید بستی کی حدود سے نکل پانا اب انہیں نصیب نہ ہوتا۔ مرشد کی چھٹی حس اسے کہہ رہی تھی کہ وہ اب تک کی بدترین صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں اور اب شاید ان کے پاس ذیادہ دنزیادہ وقت نہیں بچا۔

"پھر اب کیا کرنا ہے۔ ؟” خنجر بھی فکر مندی سے متفسر ہوا۔ 

"توبہ! "

"کیا ؟ "

"اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لینی چاہیے۔” اس کا جملہ مکمل ہوا ہی تھا کہ دروازے کی طرف سے گولی چلنے اور لکڑی ٹوٹنے کی آواز آئی۔۔۔۔ دروازے پر فائرنگ کی جا رہی تھی۔ وہ دونوں احتیاطً مزید اوٹ میں ہوگئے۔ فائرنگ کی اس آواز پرایک لمحے کو ان کی توجہ ہٹی تھی کہ چوہدری فرزند چیختا ہوا جعفر پر جھپٹا اور جعفر نے ٹریگر دبا دیا رائفل کے دہانے سے خوف ناک تڑتڑاہٹ کے ساتھ گولیوں کی باڑ نکلی اور رشید خان بری طرح پھڑپھڑاتا ہوا چارپائی سے نیچے جا گرا۔ پورا برسٹ اس کی چھاتی پر لگا تھا اور چھاتی کے پرخچے اڑاتا ہوا عقب میں پڑے بستروں کے ڈھیر کو لرزا گیا تھا۔ خنجر اور مرشد بے اختیار اپنی اپنی جگہ سمٹ گئے کہ کوئی گولی اچٹ کر انہیں بھی نقصان پہنچا سکتی تھی مگر خیریت گزری۔

 چوہدری اور جعفر دیوار سے ٹکرا کر نیچے گرے۔ رائفل جعفر کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔ کونے میں چارپائی پر پڑی بڑھیا نے اچانک ہی واویلا شروع کر دیا۔ وہ بری طرح خوف زدہ ہو گئی تھی۔ خنجر لپک کر جعفر کی مدد کو آگے بڑھا اور پھر ان دونوں نے مل کر چوہدری کو تھپڑوں، گھونسوں اور گھٹنوں پر رکھ لیا۔ 

 مرشد نے رائفل کا سیفٹی کیچ ہٹاتے ہوئے ان کی طرف سے توجہ ہٹا کر راہداری کی طرف دھیان دیا۔ دروازے میں کنڈی کے پاس شگاف ہو چکا تھا۔ کسی بھی پل دروازہ کھلنے والا تھا اور پھر بھرا مار کر سارے پاگل کتے اندر چلے آتے۔ مرشد نے اچانک اوٹ سے رائفل نکالی اور دروازے پر ایک چھوٹا برسٹ فائر کر دیا۔ دوسری طرف سے فورً چیخوں، کراہوں اور بھگدڑ کی صورت نتیجہ ظاہر ہوا ساتھ ہی جواباً دو تین برسٹ فائر ہوئے گولیاں خوف ناک آوازوں کے ساتھ ڈیوڑھی کی دیوار کے ساتھ ٹکرائیں اور کئی جگہ سے اینٹوں کے ٹکڑے اور سنگریزے اڑاتی ہوئی ادھر ادھر بکھر گئیں۔ مرشد پہلے ہی وہ جگہ چھوڑ کر دوسری دیوار کے ساتھ سمٹ چکا تھا۔ 

رشید خان کا وجود چارپائی کی دوسری طرف دیوار کے ساتھ نیچے خستہ حال فرش پر پڑا تھا۔ اس پر جانکنی کا عالم طاری تھا۔ اور اس کے حلق سے بڑی بھیانک آوازیں خارج ہو رہی تھیں۔ کمرے کے بلکل وسط میں جعفر اور خنجر نے چوہدری کو لٹا رکھا تھا۔ کمرے کے اندر انکی دھما چوکڑی کے ساتھ بڑھیا کی لرزیدہ پوپلائی آوازیں گردش کر رہی تھیں۔ 

"تمھارا ستیاناس تمھیں خدا غارت کرے۔ وہ یہاں نہیں ہے کمینو ! چھوڑ دو اسے جا کر اس اندریاس کو پکڑو اس کے کام ہیں سب۔ اس نے ساری ہٹی برباد کری ہے۔ جینا کو بھی اسی نے خراب کرا ہے۔ ہمیں معاف کردو جان بخش دو دفعہ ہو جاﺅ رے ادھر سے "

اس سب کے باوجود اس اماں جی نے اپنی جگہ سے اٹھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ وہ اسی طرح آرام سے لیٹی نان اسٹاپ بولے جا رہی تھی۔ شاید وہ معذور تھی۔ ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ کوئی مسئلہ تھا اور اندھی بھی تھی۔ اس کے اردگرد کون؟ یا کون کون تھا ؟ وہ یہ دیکھ سکنے سے قاصر تھی۔ 

جعفر اور خنجر نے کچھ ہی دیر میں چوہدری کی ایسی درگت بنائی کے وہ بلکل بے دم سا ہو کر چاروں خانے چت ہو گیا۔

"اس حرامزادے ، حرامی، کتے کی شکل والے سور کی مشکیں کس دو نہیں تو تھوڑی دیر بعد اسے پھر کوئی کیڑا تنگ کرے گا۔” مرشد نے نفرت سے کہا۔ اس کی اپنی ساری توجہ بیرونی طرف تھی۔سب ہی کتے دروازے سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔ ان کی آوازیں گلی کی نکڑ پر سنائی دے رہی تھیں۔ غالباً وہ چھت پر چڑھنے کی تیاری کر رہے تھے۔ مرشد کے اندازے کے مطابق اس کمرے، ڈیوڑھی اور راہداری والے حصے کے اوپر ایک چوبارہ واقع 

تھا۔اس جگہ گھس آنے کی وجہ سے یہ فائدہ ہوا تھا کہ وہ پوری طرح محظوظ ہو گئے تھے۔ اور برا یہ ہوا تھا کہ وہ اس دڑبہ نما چاردیواری میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ یہ جگہ ان کے لیے چوہے کا بل ثابت ہوئی تھی۔ جو اب آگے متوقع طور پر ان کے لیے ان کی قتل گاہ بھی ثابت ہونے والی تھی۔      چوہدری فرزند کے ہاتھ پاو�¿ں باندھنے کے دوران چوہدری دھمکیاں اور گالیاں دیتا رہا اور جعفر اس کے منہ پر طمانچے رسید کرتا رہا۔ چوہدری اور بھڑکتا رہا۔ مزید زہر ، مزید آگ اگلتا رہا اورجعفر اسے مزید چڑاتا رہا۔ ساتھ ساتھ گالیاں دیتا رہا اور تھپڑ مارتا رہا۔ ہاتھوں پیروں کے بعد چوہدری کے منہ پر بھی ایک دوپٹہ کس کر لپیٹ دیاگیا۔ادھر سے فارغ ہونے کے بعد خنجر دوبارہ ڈیوڑھی کے قریب کھڑا ہو گیا۔ اور مرشدو بڑھیا کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے بڑھیا سے ٹارچ، لالٹین اور ماچس کے متعلق پوچھا تھا۔ 

"لے گئی سب کچھ وہ ڈائن چٹ کر گئی ہمارا تو کلیجہ چبا گئے وہ دونوںاس کیتھی کے میں گیا سب "بڑھیا نے یکایک ایسی گندی اور واہیات گالیاں اگلنی شروع کر دیں کہ مرشد کو سٹپٹا کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے چپ کرانا پڑا۔ بحرحال کچھ دیر کی تلاش کے بعد جعفر ایک لالٹین اور ماچس ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔ لالٹین روشن کرنے کے بعد مرشد اور جعفر عقبی طرف والی ڈیوڑھی میں پہنچے تو مرشد کے کان میں زریون کا ایک جملہ پڑا۔ وہ حجاب سے مخاطب تھا۔

” ان بدمعاشوں سے کیسے واسطہ پڑ گیا تمھارا۔کہاں ملاقات ہوئی تھی ان سے؟”

واضح طور پر یہ سوال ان ہی کے متعلق تھا۔ اس نے پوچھ گچھ کی شروعات ہی انتہائی نازک سوال سے کی تھی۔ اس سے پہلے کہ حجاب بولتی مرشد جلدی سے مداخل ہوا۔

"لالا رستم کے گھر جو عورت انہیں وہاں لے کر آئی تھی وہ لالا رستم کی فیملی کی جاننے والی تھی کون تھی یہ پتا نہیں۔ یہ سرکار کو ہی پتہ ہوگا لیکن یہ وقت ان باتوں کا نہیں۔ "مرشد کی اس بروقت مداخلت پر حجاب نے اطمینان کا سانس لیا۔ اسے سخت گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ پاوں کی تکلیف میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ مرشد کی بات سے سمجھ گئی تھی کہ وہ کیا چاہتا ہے۔مرشد نے ایک طرح سے اسے اشارہ دیا تھا کہ وہ زریون کو اس حوالے سے کیا بتائے اور کس طرح سے بتائے، اور وہ یہ اشارہ ٹھیک سے سمجھ گئی تھی۔ 

"تو کن باتوں کا ہے ؟ سب کی موت کا انتظام کر دیا تم نے” زریون چڑ کر بولا۔ 

"آپ دونوں کو کچھ نہیں ہوگا شاہ جی! اطمینان رکھیں۔ "

"اطمینان کیا گھنٹہ رکھیں یہ باہر جو شور شرابا مچا ہوا ہے۔ یہ پاگل لوگ اور پولیس والے ہم میں سے کسی کو زندہ چھوڑیں گے کیا؟”

"کتنے لوگ مارے جا چکے ہیںادھران اے ایس پی صاحب کو بھی قتل کر دیا تم لوگوں نے۔ اب ہم سب بھی مارے جائیں گے۔” وہ بری طرح پریشان دیکھائی دے رہا تھا۔ 

"میں نے کہا ہے نہ شاہ جی! اللہ کے حکم سے آپ دونوں کو کچھ نہیں ہوگا۔ آپ آئیں ذرا میرے ساتھ۔ ” حجاب نے چونک کر مرشد کی سنجیدہ صورت کی طرف دیکھا۔ اس نے دوسری بار یہ جملہ بولا تھا۔ 

آپ دونوں کو کچھ نہیں ہوگاآپ دونوں کومطلب خود اسے یا خنجر ، جعفر کو کچھ ہونے والا تھا خوف اور خطرے کا احساس یکایک ہی مزید شدت اختیار کر گیا۔ 

"کدھر؟ کونسی جادوئی غار ڈھونڈنی ہے اب…. تم لوگوں کو کلینک سے ہی نہیں نکلنا چاہئے تھا۔ اس روز میری واپسی تک تمھارے بندر ساتھی وہاں رکے رہتے تو آج ہم میں سے کسی کو بھی اس صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔” 

مرشد کے دائیں ہاتھ کھڑا جعفر خون کے گھونٹ بھر کر رہ گیا۔ زریون کا موڈ مزید بگڑتا جا رہا تھا۔ مرشد کا ارادہ ان کمروں کا جائزہ لینے کا تھا۔ وہ اور جعفر دونوں لالٹین کی مدد سے دائیں ہاتھ والے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ 

دائیں اور بائیں ہاتھ موجود دونوں کمرے بہت چھوٹے تھے۔ تقریباً چھ ضرب چھ کی دو کوٹھریاں …. دونوں کی چھتیں گنبد نما تھیں۔ کسی طرف کوئی کھڑکی نہ روشندانایک کوٹھری کو اسٹور کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا اور دوسری کو باتھ روم ،اور گڑھا کھدے ٹوئلٹ کے طور پر البتہ سامنے کے رخ موجود تیسرا کمرہ بلکل مختلف اور بڑے سائز کا تھا۔ماضی میں اس مندر کا بھگوان استھان یقیناً یہی کمرہ رہا ہو گا۔ یہ چوڑائی کے رخ پندرہ اور لمبائی کے رخ کم از کم بھی بیس فٹ تھا۔اور اس کی چھت پندرہ فٹ کی اونچائی سے شروع ہونے والی اس کی چھت تکونی انداز میں اوپر کو بلند ہوتی گہرے اندھیرے میں گم ہو جاتی تھی۔ 

اس کمرے میں سیلن زدو گھٹن کم تھی۔ تازہ ہوا کی آمدورفت کا احساس ہوتا تھا یہاں۔ شاید اسی باعث اس کمرے میں ذیادہ بدبو بھی نہیں تھی۔ مرشد نے بغور دیواروں کا جائزہ لیا۔ کوئی کھڑکی، کوئی روشن دان، کوئی رخنہ، کوئی درزاچھی طرح جائزہ لینے کے بعد اسے دکھ نما شدید مایوسی ہوئی کمرے میں تازہ ہوا موجود تھی لیکن دیواروں میں کہیں کوئی روزن یا سوراخ نہیں تھا۔ سامنے والی دیوار میں کبھی ایک بڑا مرکزی دروازہ رہا ہوگا۔ جس کے آثار اب بھی موجود تھے لیکن اب اس دروازے کی جگہ پختہ دیوار کھڑی انہیں منہ چڑا رہی تھی۔ دائیں بائیں کی دیواروں میں بھی ایسی ہی تیغا کاریوں کے آثار موجود تھے۔ 

"یہ تو ہم برے پھنسے استاد! اب ادھر سے نکلیں گے کیسے ؟” جعفر کے لہجے میں الجھن اور پریشانی تھی۔ 

”یہاں تازہ ہوا کا گزر ہے۔ کہاں سے آتی ہوگی۔؟” مرشد نے ایک دیوار کے ساتھ کھڑی سائیکل کے ڈھانچے پر کہنی ٹکاتے ہوئے ہونٹ چبا کر کہا۔ پورے کمرے میں الم غلم سامان اور کاٹھ کباڑ سا بکھرا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ 

"جعفر بولا۔”شاید اوپر چھت میں کہیں کوئی سوراخ وغیرہ ہووے گا استاد!”تمھاری طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟” مرشد پسلیوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے قدرے جھک گیا تھا۔ ایک تکلیف دہ کھیچ سی تھی جو مسلسل پڑ رہی تھی۔ 

"ہمیں کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا پڑے گا جعفر! اگر یہاں سے نکل نہ پائے تو سب مارے جائیں گے۔ یہاں زیادہ دیر تک مزاحمت نہیں کر پائیں گے ہم۔” وہ اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے گہری فکر مندی سے بولا۔ 

"راستہ نکالنا پڑے گا کیسے۔؟” جعفر متعجب ہوا۔ "استاد! یہ کراڑوں (ہندوں،سکھوں) کی بنائی ہوئی عمارت ہے۔ دیواریں کم از کم بھی دو دو فٹ موٹی ہوویں گی۔ راستہ کدھر سے نکلے گا اور کیسے نکلے گا؟ "

 "سرکار ہمارے ساتھ ہیں۔” مرشد متفکر انداز میں بڑبڑایا۔”کم از کم انہیں اور شاہ جی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے انہیں ہر صورت ادھر سے نکالنا ہوگا۔ ” وہ جعفر کی طرف متوجہ ہوا۔

” تم دیکھو۔ اگر یہاں سے کوئی کام کا اوزار مل سکے تو دیوار کے کسی کمزور حصے کو سیندھ لگانے کی کوشش کرتے ہیں پھر۔” 

"کمزور حصہ” وہ لاشعوری طور پر ادھر ا�±دھر دیکھتے ہوئے الجھا۔ 

"تم دیکھو! میں ادھر کی خبر لیتا ہوں۔” وہ اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر واپس پلٹ گیا۔کچھ دیر پہلے بستی کے کونے کی طرف سے بلند ہونے والا فائرنگ کا شور اب ختم ہو چکا تھا۔ واضع امکانات اسی بات کے تھے کہ ٹیپو لوگوں کو قابو کر لیا گیا ہے یا پھر وہ سب اب نہیں رہے تھے وہ جو مسلسل شاہ پور تک پہنچنے کے لیے مچلتا رہا تھا۔ اب شاہ پور کے بلکل قریب پہنچ کر بیچ راستے موت کا شکار ہوگیا تھا۔ قوی امکان اب اسی بات کے تھے کہ بستیکے کونے پر کار کے اندر یا اس کے دائیں بائیں کہیں باقی ساتھیوں کے ساتھ ٹیپو کی بھی خونچکاں لاش پڑی ہوگی۔ 

زریون کسی بات پر فیروزہ کے ساتھ بحث کر رہا تھا۔ مرشد نے اس درمیانی ڈیوڑھی میں قدم رکھا ہی تھا کہ سامنے کے رخ ایک ہلکے دھماکے کے ساتھ گلی والے دروازے کے قریب چند للکارے بلند ہوئے اور ساتھ ہی فائرنگ کا شور اٹھا۔ مرشد تڑپ کر، گھبرا جانے والے زریون اور حجاب کے درمیان سے گزر کر سامنے والے کمرے میں پہنچ آیا۔ بڑھیا بدستور فرشتوں سے ہم کلام تھی۔ چوہدری کی گھٹی گھٹی غراہٹیں تھیں۔ وہ دوسری چارپائی کے قریب بندھا پڑا تھا۔خنجر نے اوٹ سے دروازے کی طرف دو سنگل شاٹ فائر کئے۔ راہداری کی طرف سے روشنی کے بھبھکے اور دھواں اندر آ رہا تھا۔

"کیا ہے یہ؟ "

”اگنی ماتا موٹرسائیکل کے دو ٹائروں کو آگ لگا کر اندر پھینکا ہے حرامیوں نے…. شاید اپنی ماتا کے پھیرے کروانا چاہتے ہیں۔” خنجر نے غصے سے کہا۔ گلی میں بلند آہنگ دھمکیوں اور گالیوں کے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ کی آوازیں بھی گرج اٹھیں تھیں۔ 

مرشد بولا۔” میرا خیال ہے ٹیپو لوگ بھی رگڑے گئے ہیں۔” 

"کچھ دیر پہلے والی فائرنگ "

"ہاں اس کی طرف سے امید کی جا سکتی تھی کہ شاید وہ شاہ پور سے مدد لے آئے۔ کم از کم سرکار اور شاہ جی اس سارے فساد سے نکل جاتے۔ ایک طرف ہو جاتے…. یہ محفوظ ہاتھوں تک پہنچ جاتے تو پھر لڑ مرنے کی کوئی پرواہ ہی نہ رہتی۔ باہر نکل کر سامنے سے چھاتیاں پھاڑتا میں ان حرام کے جنوں کی۔ ” فکر مندی سے بات کرتے کرتے آخر میں اچانک ہی اس کے لب و لہجے میں شدید نفرت اور غصہ کھول اٹھا۔ 

"پھر تو اچھا ہی ہوا کہ سرکار اور شاہ جی ہمارے ساتھ ہیں۔” خنجر بے ساختہ بولا۔ پھر مزید وضاحت انداز ہوا۔ "جوش اور غصے میں ہمیشہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے جگر! احتیاط اور تحمل سے کام لیتے ہوئے کوئی حل نکالنا ہو گا۔ "

"حل شاید اب ممکن نہ ہو۔ جعفر کوئی اوزار ڈھونڈ رہا ہے، سیندھ لگانے کے لیے لیکن میں پرامید نہیں ہوں ایسا نہیں ہو سکے گا اور کسی طرح ہو بھی گیا تو اس بستی کے حالات، اس بستی کا ماحول شاید ہمارے اندازوں، خیالاوں سے ذیادہ خراب ہو۔” 

اس کے لہجے میں اندیشے ہی اندیشے تھے۔ خنجر نے خیال کیا کہ شاید مسلسل بیماری اور جسمانی کمزوری کے باعث مرشد کے اعصاب اور حوصلے تھوڑے متاثر ہوئے ہیں یا پھر اسے "اس کی” سرکار کی پریشانی اور فکرمندی کھائے جا رہی تھی۔ ہلکان کیے ہوئے تھی!

"کیا نقشہ ہے پیچھے کا ؟ تم ذرا یہاں ٹھہرو۔ میں جائزہ اٹھا کر آتا ہوں۔ "

خنجر عقبی طرف نکل گیا۔ چند ہی لمحے بعد بیرونی دروازے سے پھر کوئی جلتی ہوئی چیز اندر اچھالی گئی۔ چند اینٹیں اور کانچ کی بوتلیں پھینکی گئیں جو ڈیوڑھی کی سنگی دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر چھناکوں سے ٹوٹیں اور کانچ کے ٹکرے کمرے کے اندر تک آ بکھرے۔ مرشد اندرونی طرف دیوار کے ساتھ چپک کر کھڑا تھا۔ اس نے وہیں سے رائفل نکال کر ایک چھوٹا برسٹ فائر کیا۔ پتہ نہیں کوئی نشانہ بنا یا نہیں، باہر کے شور اور ہنکارے میں اچانک ہی اضافہ ہو آیا۔

 دروازے کے ہاہر والی چھوٹی گلی بھی غصیلی اور جنونی آوازوں سے چھلکی پڑ رہی تھی۔ واضح انداز ہوتا تھا کہ ان کی بوٹیاں ادھیڑ ڈالنے کے جنون میں مبتلا، باہر تلملانے والے انکے دشمنوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ سب اندر آ کر ان پر ٹوٹ پڑنے کے لیے مرے جا رہے تھے۔ انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنے آقاوں کے مجرموں، آقاوں کو دبوچنے والے ان گستاخوں کو پلک جھپکنے میں آ چھاپتے اور پھر ان سب کے چتھڑے اڑادیتے، ان کی بوٹیوں اور ہڈیوں پر کتے چھوڑ دیتے۔ 

ان کی تندگرجدار آوازوں نے پوری گلی، پورے محلے کو سر پر اٹھا لیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اندھے غضب کا سمندر ہے جو وہاں سے چند قدم کے فاصلے

پر گلی میں ہلکورے لے رہا ہے اور کسی بھی پل ایک وحشیانہ ہلکورے کے ساتھ ان کمزور درودیوار کے ساتھ خود ان سب کو بھی اپنی پوری وحشت کے ساتھ رگیدتا، روندتا ہوا اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ 

جعفر اور خنجر فورً وہاں پہنچ آئے۔ دیوار میں موجود خلا کے دوسری طرف زریون،حجاب اور فیروزہ بھی نیچے بیٹھے گھبرائی سہمی نظروں سے اسی طرف دیکھنے لگے تھے۔جعفر بیرونی طرف دھیان لگاتے ہوئے بولا۔

 "لگتا ہے کچھ اور کتے آ ملے ہیں ان کے ساتھ۔“

”ابھی کئی اور آئیں گے۔”

"تمھارے ہاتھ لگا کچھ؟ "

"نہیںایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کے ساتھ کوئی اینٹ توڑی یا اکھاڑی جاسکے۔” 

"اب پھر؟ ” زریون بولا۔ ” کیا کرنا ہے کیسے نکلنا ہے یہاں سے؟ "اعصاب پر تاری شدید تناو ، اس کی آواز میں حفیف سی لرزش کی صورت ظاہر ہو رہا تھا۔ جعفر کی زبان خودبخود ہی حرکت کر اٹھی۔ 

"کرنا کیا ہے کچھ دیر میں ادھر سے نکلتے ہیں، کوئی ٹیکسی یا تانگہ پکڑ کر آپ کے فارم ہاوس چلتے ہیں اور پھر وہاں سے سدھا قلعہ سیف اللہ۔ "

"تمھیں بھونکنے کے لیے کس نے کہا ہے؟ اچھا ہوگا کہ تم اپنی زبان کو دانتوں میں دبا کر رکھوکوئی ضرورت نہیں ہے بے وجہ بھونکنے کی۔” زریون اس پر بھڑک اٹھا۔ مرشد نے فورً اسے ٹوکا تھا۔ وہ اور جعفر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئے۔ 

اسی لمحے راہداری میں پھر کوئی جلتی ہوئی شے اچھالی گئی۔ کمرے میں آتے دھوئیں میں یکایک ہی اضافہ ہوگیا۔ مرشد زریون سے کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ حلق میں لگنے والے دھوئیں کے باعث اسے کھانسی آ گئی کھانسی کے ساتھ ہی اسے اچانک پسلیوں میں تکلیف کی ایسی شدید لہر تڑپی کہ وہ کھانسی کو حلق میں گھونٹ لینے کی کوشش میں پہلو پر ہاتھ رکھتا ہوا گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھتا چلا گیا۔درد کی شدید اور تیز لہریں نوک دار نیزوں کی طرح اس کی پسلیوں سے سے اٹھتی ہوئیں سینے اور پشت میں آ کبھی تھیں۔

خلا کی اس طرف سے حجاب نے اسے تکلیف کے مارے یوں بیٹھتے دیکھا تو جیسے اس کا اپنا دل بیٹھ گیا سینے میں گھبراہٹ بھر آئی۔ ایک شدید فکرمندی اور پریشانی اس کے پورے وجود میں پھیل گئی تھی۔

"جگر! تم ادھر پیچھے چلے جاو جعفر ! اسے لے جاو یہاں سے۔” خنجر مرشد کی کمر سھلاتے ہوئے تیز لہجے میں بولا۔ کونے میں پڑی بڑھیا کو بھی کھانسی چھڑ گئی۔ وہ کھانس رہی تھی ، رو رہی تھی اور ساتھ کسی کیتھی اور اندریاس کو گالیاں اور بد دعائیں دے رہی تھی۔

کھانسی کے جھٹکے کے ساتھ ہی پہلو میں جو درد اٹھا تھا وہ اتنا ہی شدید تھا کہ ایک بار تو جیسے مرشد کے وجود کی بنیادیں تک کپکپا گئی تھیں۔ اسے یہی محسوس ہوا تھا کہ بائیں طرف کی نیچے نیچے والی پسلی اندر اپنی جگہ پر سلامت حالت میں نہیں ہے ضرور اس میں کوئی فریکچر آ چکا تھا۔ تکلیف نے یکدم اس کی جان ہی تو نکال دی تھی۔اسے سنبھلنے میں چند لمحے لگے۔ پھر وہ دیوار کے ساتھ سرکتا ہوا عقبی ڈیوڑھی میں چلا آیا۔ بڑھیا کی چارپائی کے قریب ہی پانی کا گھڑا دھرا تھا۔ خنجر اور جعفر نے وہیں سے دو کپڑے اٹھا کر پانی میں بھگوئے اور انہیں منہ پر لپیٹ لیا۔

”مرشد ! تم تم ٹھیک ہو نا؟“ فیروزہ متفکر ہوئی۔ مرشد کے چہرے پر درج تھا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا چہرہ سرخ پڑ رہا تھا۔ جعفر نے مٹی کے ایک کٹورے میں اسے پانی لا کر دیا۔ جو وہ ایک ہی سانس میں چڑھا گیا۔

” اب کیا ہوگا؟” زریون مضطرب تھا۔

 ” تم ادھر بیٹھ جاو۔ ” فیروزہ نے پریشانی سے کہتے ہوئے اس کا بازو تھامنا چاہا تو اس نے غیر محسوس طریقے سے چھڑا لیا۔ ایک اچٹتی سی نظر اس نے سامنے کھڑی حجاب کی صورت پر ڈالی اور دل اچھل کر رہ گیا وہ سحر خیز آنکھیں اسی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ تشویش اور فکرمندی سے بھری ہوئی مضطرب آنکھیں۔کھوجتی ، ٹٹولتی ہوئیں سی جیسے اس کے چہرے سے اس کے اندر کی حالت جان لینا چاہتی ہوں۔ اس کے درد اور بچی کچھی برداشت کا اندازہ کرلینا چاہتی ہوں۔

ایک ہی لمحے کی وہ سرسری اور اچٹتی سی نظر مرشد کے اندر دور تک اتر گئی۔ حجاب کی سیاہ بھنویں اور پلکیں گردوغبار کی تہہ نے بھوری کر رکھی تھیں۔ سبھی کے منہ سر مٹی مٹی اور پسینے پسینے ہورہے تھے۔ چھوٹی موٹی چوٹیں خراشیں تو تقریباً سبھی کو آئی تھیں البتہ ان سب میں مرشد کی حالت زیادہ خستہ تھی۔ اس کے بائیں ہاتھ کی پشت کے علاوہ نچلا ہونٹ بھی خون آلود تھا۔ اور ہونٹ پر قدرے ورم بھی آچکا تھا۔ اس کا سر ڈاڑھی بھی سیاہ سے بھورے ہوچکے تھے۔

” استاد ! تم ادھر بیٹھ جاو�¿، ڈیوڑھی کے پاس۔ میں اور خنجر مورچہ سنبھال لیویں ہیں۔ دہلیز پر کسی کو پاو�¿ں تک نہیں دھرنے دیویں گے تم بے فکر ہو کر بیٹھو۔” جعفر نے کہا۔ مرشد دیوار سے پشت لگائے کھڑا تھا۔ سیدھا ہوتے ہوئے بولا۔

” میں ٹھیک ہوں ادھر صرف خنجر کافی ہے۔ تم تم اس بڑھیا کو اس طرف ا�±ٹھا لو کہیں اس کا دم نہ گ�±ھٹ جائے۔” 

ا�±س کا جملہ مکمل ہوا ہی تھا کہ ایک آواز نے ان سبھی کو ب�±ری طرح چونکا دیا۔ سب نے ہی ایک ساتھ بے اختیار اوپر کی طرف دیکھا تھا یہ والی چھت ان کے سروں سے بامشکل دو ڈھائی فٹ اونچی رہی ہوگی اور اس سے اوپر اتنی ہی مزید بلندی گنبد کی تھی۔ زوردار کھٹکے کی آواز اسی گنبد کے اوپر کہیں پیدا ہوئی تھی۔

” یہ یہ آواز کیسی تھی؟” حجاب پراندیش آواز میں بولی۔ آواز دوبارا پیدا ہوئی۔ اس بار وہ بہت واضح تھی۔ ٹھوس پتھریلی چھت پر کوئی چیز ماری گئی تھی۔ زور سے پھر دوبارا سےیہ دھماکے دار آوازیں ایسی تھیں جیسے چھت پر اچانک کسی نے ہتھوڑے برسانا شروع کردیا ہو۔

کچھ مدھم انسانی آوازیں بھی تھیں۔ اس قدر مدھم کہ کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ان سب ہی کی ڈھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ انہیں بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ چوہدری فرزند کے جنونی ڈشکرے چھت پر چڑھ چکے ہیں اور اب اوپر سے چھت توڑنے پھاڑنے کی غرض سے ہتھوڑے برسانے لگے ہیں۔ 

"وہ لوگ اوپر پہنچ چکے ہیں۔” 

"یہ یہ لوگ یہاں سے چھت توڑ کر نیچے آجائیں گے۔”

”نیچے نہ بھی آئے تو یہاں سے بھی جلتی ہوئی چیزیں پھنکیں گے۔ ہم سب دھوئیں میں دم گھٹنے سے مر جائیں گے۔”

مرشد اور جعفر کے لہو میں کچھ مزید سنسنی بیدار ہوئی تو زریون ، فیروزہ اور حجاب کے ذہن میں مزید پریشانی ، مزید سراسمیگی پھیل گئی۔

"سرکار ! ادھر اس طرف آجائیں۔” مرشد فوراً عقبی طرف کے خلا کی طرف بڑھا اور ٹھٹھک کر رک گیا۔

” جعفر ! اس حرام زادے چوہدری کو بھی ٹانگ سے گھسیٹ لا۔” جعفر دوسرے خلا کے قریب ایک ذرا ٹھٹھکا اور پھر تیزی سے دوسری طرف نکل گیا۔

” آپ چوہدری کا کیا کرنا چاہتے ہیں ۔اسے اسے کیوں ساتھ رکھا ہے آپ نے؟” حجاب جیسے متعرض ہوئی تھی۔ چوہدری سے اسے جتنی شدید نفرت تھی اس سے کہیں زیادہ وہ اس سے خوف زدہ تھی۔ اس کی بات پوری ہوتے ہی زریون دانت کچکچاتے ہوئے تیز لہجے میں بولا۔

” ہاں اس سارے ڈرامے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے سر میں بھی ایک برسٹ مار کر قصہ پاک کرو اس پاگل کتے کا یا پھر میں جا کر اس کے ماتھے میں ایک گولی ا�±تار دیتا ہوں۔” اس کے لہجے میں نفرت سلگ رہی تھی ۔مرشد نے قدرے تعجب سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جو اب تک قانون اور انسانیت کے نام پر اسے جھاڑ پلاتا آیا تھا۔ اب اس کے اپنے تیور بالکل الٹ کہانی سنا رہے تھے۔ وہ یکسر بدلی ہوئی ٹون میں دکھائی دے رہا تھا۔

مرشد بولا۔ "فی الحال اس حرام لاش سے ہم نے ڈھال کا کام لینا ہے۔ آپ آپ آئیں ادھر۔”۔ وہ خلا کے قریب کھڑا تھا۔ دو قدم کے فاصلے پر حجاب تھی اور اس کے برابر زریون اور فیروزہ۔ حجاب نے قدم آگے برھایا ہی تھا کہ اس کے م�±نہ سے بے ساختہ ایک دردناک کراہ خارج ہوگئی۔ دائیں پاو�¿ں پر وزن پڑتے ہی ٹخنے کے جوڑ میں درد کی ایسی لہر تڑپی تھی کہ اگروہ فوراً مرشد کے کندھے کا سہارا نہ لے لیتی تو شاید لڑکھڑا کر منہ کے بل گرتی یا دیوار سے ٹکرا جاتی مرشد نے بھی بے ساختہ ہی اضطراری انداز میں اسے تھام لیا۔ اس کا بایاں بازو حجاب کے پہلو سے ہوتا ہوا اس کی کمر پر آیا تھا۔ ایک لمحے کو حجاب کے پرگداز سینے کا بوجھ اس کے بازو اور کندھے سے ٹکرایا صرف ایک لمحے کو اور اسی لمحے ایک سحر خیز مخصوص خوشبو اور ایک الوہی سی توانائی کا سیلاب اس کے رگ و پے میں اترتا چلاگیا۔ اس کی روح تک بھر گئی۔ اگلے ہی پل حجاب نے خود کو سنبھال لیا۔ مرشد بھی یک بیک تڑپ کر پیچھے ہٹا اور دیوار کے ساتھ سمٹ گیا۔ حجاب کے چہرے پر شدید تکلیف کے تاثرات کے باوجود حیا آمیز سرخی کی لہر سی پھیلتی مرشد کو صاف دکھائی دی۔ وہ سرخی اس کے چہرے سے منعکس ہو کر گویا مرشد کے لہو میں آگھلی۔

فطری حیا کا یہ خوب صورت رنگ بھلا کہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہی فطری حیا اور فطری معصومیت تو تھی جو اس کی ذات ، اس کی شخصیت میں سے ایک پاکیزگی ، ایک اجالے ، ایک تقدس کی طرح پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔حجاب خود بھی ب�±ری طرح گڑبڑا گئی تھی۔ اس نے لڑکھڑا کر دیوار کا سہارا لے لیا۔ زریون فوراً آگے بڑھا۔

” کیا مسئلہ ہے؟ ٹانگ ٹوٹ گئی ہے کیا تمہاری؟” جذبات سے عاری سپاٹ اور خشک کھردرا سا لہجہ۔”

”مم میرے پاوں کو کچھ ہو گیا ہے۔ اس پر ذرا بھی وزن نہیں ڈالا جارہا۔” مرشد اپنے اندر کی زبردست اتھل پتھل کو محسوس کرتا ہوا ، سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس نے نظروں کا زاویہ بدل کر حجاب کے پیروں کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے پورے وجود کا بوجھ بائیں پیر پر سنبھالے کھڑی تھی۔ دایاں پاوں اس نے بس ویسے ہی نیچے ٹکا رکھا تھا۔ اس کے پیروں میں موجود براون رنگ نائیلون کی چپل اور اس کے کبوتروں سے نرم و نازک اور خوب صورت پاوں، دونوں ہی گرد و غبار اور مٹی میں اٹے ہوئے تھے۔

” آو�¿ دھیان سے۔” زریون نے اس کا ہاتھ تھام لیا تو مرشد نے سر کچھ مزید جھکا لیا۔

حجاب بدقت زریون کے پیچھے اس خلا میں سے گزری۔ اس کے بعد فیروزہ جعفر شور مچاتی ، کوسنے دیتی بڑھیا کو اٹھا لایا تھا۔ فیروزہ کے بعد وہ بھی عقبی کمرے میں پہنچ گیا۔ان کے اندر داخل ہوتے ہی مرشد نے پشت اور سر دیوار کے ساتھ ٹکایا۔ اور دھیرے سے ایک گہری طویل سانس چھوڑی۔ حجاب کا یہ جھماکے جیسا قرب اور سحرناک لمس اس کی ڈھڑکنیں تہہ بالا کر گیا تھا۔دل کی دھک دھک جیسے براہِ راست اس کے اپنے پردہ سماعت سے ابھرنے لگی تھی۔درونِ شہہ رگ صدیوں کی پیاس سا عجیب احساس آ بکھرا۔ اس احساس کے باوجود اس کا رواں رواں ، وجود کا ذرہ ذرہ ایک بے مثال اور خوش گوار احساس سے نہال ہوگیا تھا۔

 دوسری طرف سے خنجر گھٹنا ٹیکے بیٹھا جھانک کر دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ گنبد پر برابر ضربیں برسائی جارہی تھیں۔ ان ضربوں کی گونج دار پتھریلی آواز ڈیوڑھی میں ٹھک ٹھک گر رہی تھی۔

 جگر ! تم ٹھیک ہو نا؟” خنجر کی آنکھوں اور آواز میں تشویش تھی۔ مرشد نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور پھر چھت کی طرف دیکھا جہاں کسی بھی لمحے روزن کھلنے والا تھا۔ 

” کیا کرنا ہے اب؟” خنجر کی طرف سے یہ محض اعصابی تناو اور شدید اضطراب کا اظہار تھا ورنہ صورتِ حال تو ان سب ہی پر پوری طرح سے واضح تھی۔ یہ سوال ان سب ہی کے ذہنوں میں موجود تھا مگر اس کا کوئی معقول جواب ان میں کسی کے بھی پاس نہیں تھا۔

” تمہارے سر اب بس ایک ذمہ داری ہے۔” مرشد نے کندھے سے رائفل اتارتے ہوئے کہا۔ خنجر متفسر نظریں لیے خاموشی سے دیکھے گیا۔

”آخری ذمہ داری گلی والا دروازہ !”ایک دو لمحے کے لیے دونوں کے درمیان صرف ایک گہری چپ کی لہر بنی رہی۔ آنکھیں آنکھوں میں ا�±تری رہیں چپ دونوں کی آنکھوں میں بولی تھی۔

"کوئی رستہ ، کوئی راہ نہیں فیصلہ کن معرکہ آپہنچا لڑ مرنے کے علاوہ اب کوئی صورت باقی نہیں رہی”

”اور میری ذمہ داری کیا ہووے گی؟” مرشد کے برابر موجود خلا سے جعفر نمودار ہوا۔

"تو فی الحال چوہدری کے ہاتھوں پیروں کی بندشوں کی تسلی کر اور اسے بھی ادھر ہی گھسیٹ لا۔” جعفر فوراً آگے بڑھا اور پھر چند لمحے بعد وہ سچ میں چوہدری فرزند کو ٹانگوں سے پکڑ کر کسی بے جان چیز کی طرح گھسیٹ لایا۔ چوہدری ب�±ری طرح مچل رہا تھا سانپ کی طرح نتھنوں سے پھنکاریں خارج کر رہا تھا اور منہ سے غراہٹیں۔ خون میں لتھڑے ہونے کے باعث چہرہ کچھ زیادہ ہی وحشت خیز اور غضب ناک دکھائی دے رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے شرارے سے پھوٹے پڑ رہے تھے۔ منہ پر بندھے دوپٹے کے باعث اس کے اندر کی غلاظت اس کے اندر تک ہی محدود تھی۔

ایک ذرا اس کی اور مرشد کی آنکھیں چار ہوئیں اور جعفر اسے گھسیٹتا ہوا عقبی کمرے میں لے گیا مرشد کو اندازہ تھا کہ ہاتھ پاو�¿ں بندھے ہونے کے باوجود چوہدری کی موجودگی حجاب کے لیے دہشت کا باعث ہوگی لہذا وہ بھی فوراً ہی قدرے جھکتا ہوا خلا سے اندر کمرے میں پہنچ گیا۔

کمرے کا بیشتر حصہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ دائیں ہاتھ فرش پر لالٹین پڑی تھی جس کے قریب ہی زریون ، حجاب اور فیروزہ کھڑے تھے۔ لالٹین کی روشنی نیچے سے ان کے چہروں پر پڑ رہی تھی اور ان کے دیو قامت سائے سامنے دیواروں پر پھیلتے ہوئے اوپر اندھیرے میں کہیں تحلیل ہوتے محسوس ہورہے تھے۔ بڑھیا کو جعفر مخالف رخ کمرے کے دوسرے کونے میں لٹا آیا تھا۔ وہاں کی تاریکی میں اس کی نحیف آواز کپکپاتی پھر رہی تھی۔

"خدا ناس کرے جہنم کا عذاب پڑے تجھ پر یہ دن بھی دیکھنا باقی تھا میرے کو کتے ٹوٹ پڑے ہائے ہائے ۔”

چوہدری کو خلا سے بائیں ہاتھ دیوار کی اوٹ میں ڈال دیا گیا۔

” لالٹین اٹھا اور پھر سے اچھی طرح دیکھ کوئی اوزار ، کوئی کام کا پرزہ ، کسی دیوار کا کوئی کمزور حصہ۔” مرشد جعفر سے مخاطب ہوا۔

” استاد ! میں بھی دیکھ چکا ہوں اور تم خود بھی نہ کسی دیوار میں کوئی کمزور حصہ ہے اور نہ کوئی اوزار پ�±رزہ۔ ” 

ایک بار پھر تسلی کر۔ ادھردائیں طرف والی دیوار کے ساتھ ساتھ جو کاٹھ کباڑ بکھرا پڑا ہے اس میں پھر اچھی طرح دیکھ۔ شاید کوئی کام کی چیز مل ہی جائے۔” مرشد کے لب و لہجے میں اضطراب تھا تو آواز میں امید و بیم کی سی کیفیت۔ بظاہر وہ بڑی کامیابی سے خود کو سنبھالے ہوئے تھا لیکن اصل میں اس کی جسمانی اور ذہنی حالت خاصی ابتر تھی ذہنی حالت تو کچھ زیادہ ہی پریشان ک�±ن تھی۔

صورت حال کی پچیدگی اور سنگینی نے اس کے اندر انتہا درجہ اضطراب اور پریشانی جگا رکھی تھی۔ دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ ایک بے رحم سوال انتہائی سفاکانہ انداز میں اس کی کنپٹیوں میں مسلسل ٹھوکریں برسانے لگا تھا کہ آج اس کے یہاں لڑ مرنے کے بعد زریون اور حجاب کا کیا بنے گا؟ خصوصاً حجاب کی فکر اس کا کلیجہ چبائے جارہی تھی وہ خرگوش سی نازک و معصوم جان تھی اور اردگرد بھوکے اور پاگل کتوں کا پورا جتھے کا جتھا تھا جوان سب کو بھنبھوڑ ڈالنے کے لیے مرا جارہا تھا۔ ڈیوڑھی کے گنبد پر برابر ضربیں برس رہی تھیں۔ مرشد کا دماغ برق رفتاری سے مصروف تھا مگر کچھ سوجھائی نہیں دے رہا تھا۔ 

جعفر متذبذب سے انداز میں دائیں طرف بڑھ گیا۔وہاں کونے میں کچھ چادریں رلیاں پڑی تھیں اور چند ایک بورے جن میں شاید لنڈے کے کپڑے بھرے ہوئے تھے جو شاید سیزن آف ہونے کے بعد یہاں لا ڈالے گئے تھے۔ ان بوروں سے آگے زنگ آلود ترازو ، باٹ ، مویشی باندھنے والے سنگل ، سائیکل کا ڈھانچہ اور کچھ ناکارہ ٹائر رکھے تھے۔ اس سے آگے لکڑی کے بنے کچھ خستہ حال چھوٹے چھوٹے ڈبے ڈولوں کا ڈھیر سا بکھرا پڑا تھا پھر کچھ پلاسٹک کی بوتلیں ، ٹونٹیاں ، ٹوٹی پھوٹی کرسیاں ، کچھ لکڑی کے کریٹ ، کارٹن اور اسی طرح کا بہت سارا الم غلم یہاں سے وہاں تک بکھرا ہوا تھا، جس کا جائزہ وہ پہلے بھی لے چکے تھے اور اب جعفر پھر سے لالٹین اٹھا کر اس سارے کا معائنہ شروع کر چکا تھا۔ 

” مجھے یقین نہیں آرہا ! ” زریون پتا نہیں کس سے مخاطب تھا۔ حجاب سے کہ فیروزہ سے۔ ” کیا اندھیر مچا رکھا ہے ان لوگوں نے پولیس والے بھی نہیں روک رہے انہیں !” 

” پولیس والے تو کرائے کے غنڈے ہوتے ہیں۔ آپ کو اندازہ نہیں کیا؟ ” فیروزہ نے کہا۔

” اگر آفیسر رینک کے لوگ پہنچ آئیں تو شاید بچت کا چانس بن جائے۔ وہ ان جنونیوں کو لگام دے لیں ا�±ف خدایا ! فون بھی تو نہیں ہے یہاں ورنہ میں صرف ایک فون سے یہ سارا معاملہ سنبھال لیتا ابھی ابھی تو سمجھ نہیں آرہی کیا کیا جائے؟ ” 

حجاب ایک چھوٹے بورے پر بیٹھنے کے انداز میں ٹک گئی تھی۔ مرشد کو اس کی آنکھوں کا بے چین لمس اپنے چہرے پر سرسراتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کے ذہن میں اس کے گرد آلود پاو�¿ں تھے اور دائیں پاو�¿ں کی تکلیف تھی۔ مرشد کا اندازہ تھا کہ اس کے پاو�¿ں میں موچ آئی ہے۔

فیروزہ بولی۔ ” کہتے ہیں کہ اس طرح کی صورت حال میں اپنے اچھے اعمال یاد کر کے آسانی اور نجات کی دعا مانگنی چاہیے۔ آپ بھی اپنے اچھے اعمال یاد کریں۔“

 ” تم شاید طنز کر رہی ہو ؟” 

” شاید نہیں ” 

” تمہاری اپنی زندگی تو اچھے اعمال سے بھری پڑی ہے یاد کرتی جاو اور دعائیں مانگتی جاو ۔” 

”آگے زندگی نصیب ہوئی تو صرف اچھے اعمال والی ہی گزاروں گی۔ یہاں سے زندہ بچ نکلنے کے امکان نظر نہیں آتے آپ بھی آئندہ اچھے اعمال کی نیت کر لیں ایسی نیت بخشش کا نہ سہی، آسانی کا وسیلہ تو بن سکتی ہے۔ ” اس سے پہلے کہ زریون اسے کوئی کرخت جواب دیتا۔

اچانک ڈیوڑھی کے گنبد سے پہلی اینٹ ٹوٹ کر ایک زور کی آواز سے نیچے فرش پر آگری۔ زریون اور فیروزہ کو چپ لگ گئی۔ بائیں ہاتھ کے تاریک کونے میں چوہدری کی دہشت خیز پھنکاریں اور غراہٹیں کسمسا رہی تھیں۔ یقیناً وہ اپنی اس حالت اور بے بسی پر اندر ہی اندر لاوے کی طرح کھول پک رہا تھا۔

مرشد نے رائفل پر گرفت درست کرتے ہوئے خلا سے جھانک کر دیکھا، اسی لمحے گنبد پر ایک اور بھرپور ضرب پڑی اور ایک ساتھ دو تین اینٹیں اپنی جگہ سے ٹوٹ اکھڑ کر نیچے آرہیں۔ ساتھ ہی اوپر موجود افراد کی پرتپش اور جارحانہ آوازیں سنائی دیںوہ کئی لوگ تھے اور بری طرح مشتعل تھے۔ باہر گلی کی طرف بھی بدستور ایسی مشتعل آوازوں کی ہلچل محسوس ہوتی تھی۔

ڈیوڑھی میں سامنے کے رخ موجود خلا میں سے دوسرے کمرے کا ادھورا سا منظر دکھائی دیتا تھا۔ خنجر رائفل سنبھالے دیوار کی اوٹ میں کھڑا جھانک کربیرونی طرف دیکھ رہا تھا۔ مرشد کو اس حوالے سے اطمینان تھا کہ کم از کم گنبد چاہے پورے کا پورا نیچے آ گرے پھر بھی یہاں سے خنجر کو نشانہ بنانا ممکن نہ تھا۔ دوسرا کام اوپر سے وہ یہ کر سکتے تھے کہ بیرونی راہداری کی طرح یہاں بھی جلتی ہوئی چیزیں نیچے پھینکتے لیکن اس طرف سے بھی وہ خاصی حد تک مطمئن تھا اور اس کی وجہ تھی چوہدری فرزند کا وہاں ان کے قبضے میں موجود ہونا۔اے ایس پی تو افسوس ناک طریقے سے ضائع ہو چکا تھا۔اب وہ اپنے بچاﺅ اور دفاع میں صرف چوہدری ہی کو استعمال کرسکتے تھے۔ اس خونی بساط کا سب سے اہم اور فعال مہرہ بھی وہی تھا۔ یہ سارا خرابہ یہ ساری بربریت اس کی شروع کردہ تھی۔ نفرت و دشمنی اور انتقام و موت کے اس مجنونانہ کھیل کی شروعات کا اصل ذمہ دار وہ ہی تھا۔

یہ سب اس کی غلیظ رگوں میں دوڑنے والے حاکمیت اور خود پرستی کے زہر کا کیا دھرا تھا کہ پنجاب کے ایک کونے سے یہاں دوسرے کونے تک مرشد لوگوں کے لیے زمین اور زندگی تنگ ہوکر رہ گئی تھی۔ وہاں سے یہاں تک اس ساری ہاہاکار، ہلچل، اس ساری تباہی کے پیچھے اسی کا فرعونی اثر و رسوخ اور اندھی نفرت کارفرما تھی۔ اس کی ضد ، نفرت اور جنون نے حالات و واقعات کو اس درجہ سنگین نہج تک پہنچایا تھا اور اب وہ خود بھی ان حالات و واقعات کے الٹ پھیر کی لپیٹ میں آکر اپنی زندگی کی سنگین اور تلخ ترین صورت حال کا شکار ہوچکا تھا۔ ایسی صورتِ حال کا، جس کا اس نے کبھی اپنے خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا۔ 

مرشد کے متفکر و پریشان ذہن میں آخری امید کے طور پر چوہدری فرزند ہی کی ذات تھی اور کچھ بھی نہ ہوتا تو چوہدری کی زندگی کے بدلے وہ حجاب اور زریون کی زندگی کی ضمانت تو حاصل کر ہی سکتا تھا۔ یعنی شکاری کی جان کے بدلے شکار کی جان کے تحفظ کا سودا!

کسی حد تک اسے یہ یقین بھی حاصل تھا کہ جب تک چوہدری فرزند ان کے قبضے میں ہے تب تک لاکھ غیظ و غضب کے باوجود ان کے دشمن ان کے خلاف اندھی جارحیت کی ہمت یا حماقت نہیں کریں گے۔اس قدیم عمارت کے چاروں طرف جتنے درندے بھی دانت نکوسے غراتے پھر رہے تھے چوہدری فرزند کی شکل میں ایک طرح سے ان سب کی شہہ رگ فی الوقت مرشد لوگوں کی گرفت میں تھی۔

ڈیوڑھی کے گنبد کے اوپری حصے سے دو تین اینٹیں مزید ٹوٹ کرگریں تو مرشد نے اچانک رائفل سیدھی کرتے ہوئے ایک چھوٹا برسٹ فائر کیا۔ ایک آدھ ٹوٹی اینٹ اور کچھ گردوغبار مزید گرا اور ساتھ ہی ایک چیخ بھی سنائی دی۔یقینی طور پر کوئی ایک آدھ تو جان لیوا طور پر زخمی ہوا تھا۔ اوپر کے شور شرابے اور افراتفری میں یکایک ہی ایک شدت آگئی۔ مرشد دوبارا اوٹ میں ہوگیا۔

چند ہی لمحوں کی افراتفری کے بعد ایک بار پھر پوری شدت سے گنبد پر ہلا بولا گیا اور محض چند ہی لمحوں میں اوپر سے کئی اینٹیں مزید اندر آ گریں۔ گنبد کے اوپر باقاعدہ ڈیڑھ دو فٹ کا روشن دان کھل چکا تھا۔ مرشد نے ایک اور برسٹ۔ فائر کیا۔ اس بار اوپر سے جوابا صرف شورشرابہ ہی نہیں ہوا بلکہ فائرنگ بھی کی گئی۔ ایک ساتھ دو تین رائفلیں گرج اٹھی تھی۔ رائفلوں کی بھیانک تڑتڑاہٹ کے علاوہ ڈیوڑھی کی سنگی دیواروں سے ٹکرانے والے پگھلے ہوئے سیسے کی آوازیں بھی انتہائی خوفناک تھیں۔ جسم میں سرد لہریں دوڑا دینے والی آوازیں چند ایک گولیاں مرشد کے قریب دروازے کے خلا سے بھی ٹکرائیں۔ مرشد نے تیز لہجے میں سب کو دیوار کے ساتھ سمٹ جانے کا کہا۔ خود وہ پہلے ہی پوری طرح اوٹ میں تھا۔ جعفر بھی فورا ہی اس کے قریب چلا آیا۔ لالٹین اس کے ہاتھ میں تھی۔

”چھت توڑ دی ان بھڑووں نے۔“ 

“ تجھے ملا کچھ؟ ” 

"نہ استاد! کوئی اوزار یا کام کی چیز نہیں ہے ادھر۔ ” ایک ذرا توقف سے مرشد بولا۔ ” ایک کام کی چیز ہے ادھر۔“

” کیا؟” جعفر کی سوالیہ نظروں پر مرشد نے چوہدری فرزند کی طرف اشارہ کیا۔

یہ حرام کی سٹ! اس کے پالتو کتے زیادہ ہی پاگل ہوئے تو پہلے اس کو ان کے آگے ڈالیں گے جب تک یہ ہمارے قبضے میں ہے باہر والے سارے سرکاری و غیر سرکاری کتوں کو ایک لگام رہنی چاہیے۔”

فائرنگ اچانک رک گئی تھی۔ اوپر سے کچھ تند و ترش آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ چند لوگ فائرنگ کرنے والوں کو دھکے مارتے ہوئے گنبد سے دور لے گئے ہیں اور دو تین لوگ سب کو گولی چلانے سے منع کر رہے تھے۔ روک رہے تھے اور سب کو پیچھے ہٹنے کا کہہ رہے تھے۔ مرشد کو پہلو کے درد کی وجہ سے کھڑے ہونے میں دقت محسوس ہورہی تھی۔ سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی لہذا وہ دیوار سے پشت لگائے ہوئے اسی جگہ نیچے بیٹھ گیا۔ جعفر جگہ تبدیل کرتے ہوئے فورا اس کے بائیں ہاتھ خلا کی دوسری طرف دیوار کے ساتھ دبک گیا۔ وہاں سے دو قدم پر چوہدری فرزند بندھا پڑا تھا۔

"لگتا ہے ان حرامیوں میں کوئی دو چار سمجھ دار بندے بھی ہیں۔” جعفر بولا تھا۔

 ” یہ پولیس والے ہوسکتے ہیں انہیں ابھی اندازہ نہیں کہ ان کے اے ایس پی صاحب پرلوک سدھار چکے ہیں۔”اس کی بات ختم ہوتے ہی دوسری طرف سے خنجر کی آواز سنائی دی۔

 "جگر ! سب کچھ سلامت ہے نا؟ "

 "ہاں ! ایک پسلی کے علاوہ ۔” مرشد نے قدرے بلند آواز سے جواب دیا۔

"اس ایک کو کیا مسئلہ ہے؟” 

” اس کے سر میں درد ہے۔“

”ٹھیک ہو جائے گا۔ پریشانی والی کوئی بات نہیں۔” 

حجاب نے مرشد کی آواز پر غور کیا۔ معمولی سی کمی بیشی کے سوا اس کی آواز، اس کے لب و لہجے سے کسی کمزوری یا تکلیف کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا تھا لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ تکلیف میں ہے!

بظاہر وہ خود کو سنبھالے ہوئے تھا کہ سرکار اور اس کے ساتھیوں کے حوصلے پست نا ہوں۔ وہ پریشان نا ہوں ورنہ اس کی حالت کچھ خاص اچھی نہیں تھی۔ حجاب کو ان لمحوں میں اس سے ہمدردی بھی محسوس ہو رہی تھی اور اس پر ترس بھی آ رہا تھا۔جب سے وہ مرشد کی زندگی میں آئی تھی ، جب سے اس پر اس کا سایہ پڑا تھا، تب سے وہ بےچارہ مسلسل مشکلوں مصیبتوں ہی سے الجھتا لڑتا آرہا تھامسلسل تکلیفیں اٹھاتا آرہا تھا۔ یونہی بے لوث حاصل نہ وصول اور اب وہ بند گلی کے ایک ایسے بند مکان تک آپہنچے تھے جہاں سے آگے کوئی رستہ تھا نہ امیدشدید تر پریشانی ، فکر مندی اور جان لیوا اندیشوں نے ان کا دماغ سن کر رکھا تھا اور ان حالات میں بھی مرشد کا لب و لہجہ بالکل مطمئن تھا۔اسے جیسے کوئی پروا ہی نہیں تھی کہ وہ یہاں سے بچ کر نکل پائے گا بھی یا نہیں!

کسی بھی قسم کے حاصل اور صلے کی تمنا رکھے بغیر وہ اتنے سارے دشمنوں۔ اتنے سارے جان لیوا خطرات سے دیوانہ وار لڑتا ہوا ایک اندرونی زخم اور تکلیف کے ساتھ ان لمحوں سنگین ترین صورت حال اور موت کے قرب میں پہنچا بیٹھا تھا تو کیوں؟یہ حجاب کے قلب و ذہن پر درج تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اگر مرشد کے ساتھی مرشد کےلیے اس جان لیوا صورت حال تک آ پہنچے ہیں تو خود مرشد صرف اور صرف اس کی ذات کے لیے ان حالات اور اس حالت تک پہنچا ہے۔ مرشد کا اطمینان ، لاپروائی اور یہ سارا دیوانہ پن اس شدید محبت کا مرہونِ منت تھا جو وہ اس کے لیے اپنے سینے میں رکھتا تھا۔ بے پناہ طور پر طاقتور حیرت ناک حد تک پاکیزہ و پرخلوص اور ناقابلِ یقین حد تک بے غرض و بے لوث محبت!

دل کے اندر اک ٹیس اٹھی۔ سینے میں افسوسناک سے دکھ کا ایک دائرہ لہرایا اور پلک جھپکنے کی دیر میں جیسے اس کے دل دماغ ، اس کی پوری ذات پر محیط ہو گیا۔وہ بے دھیانی میں مرشد کی طرف دیکھے گئی۔لالٹین اس کے دائیں پہلو پڑی تھی۔ وہ اور جعفر کمرے کے داخلی خلا کے دائیں بائیں دیوار کے ساتھ پشت ٹکائے بیٹھے تھے۔ مرشد کے منہ سر کے علاوہ جسم پر موجود ہلکے رنگ کا شلوار سوٹ بھی مٹی مٹی ہورہا تھا۔بال بے ترتیب تھے۔ ڈاڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ عجیب بدحالی سی بد حالی تھی۔ ان لمحوں کسی قوالی میں سنا ہوا ایک شعر پتا نہیں کیوں باربار خود بہ خود اس کے دماغ میں چکرا رہا تھا۔

دیکھ للی تیرے مجنوں کا کلیجہ کیاہے

خاک میں بھی مِل کے بھی کہتا ہے کہ بگڑا کیا ہے؟

اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا پھر بھی وہ سب سے بڑھ کر اپنا لگنے لگا تھا۔دل اس کی طرف کھینچتا تھا ،د�±کھتا تھا اس کے لیے وہ باربار دھیان ہٹاتی تھی اور دل و دماغ بار بار بے اختیار ہو ہو جاتے تھے۔ وہ لاشعوری طور پر پھر اسی کے متعلق سوچنے لگتی تھی۔ کبھی دماغ خود بہ خود اس کا اور زریون کا تقابل کرنے لگتا تھا اور کبھی اسے جھڑکیاں پلانے لگتا تھا۔ سرزنش کرنے لگتا تھا کہ وہ اس انداز میں کیوں سوچنے لگتی ہے۔ کیوں رہ رہ کر ان دونوں کی عادات و مزاج اور ان کے رویے اور برتاو�¿ کا آپس میں موازنا کرنے لگتی ہے۔ کیوںکیوں؟

اس کیوں کا سامناکرنے سے ابھی تک تو وہ کتراتی ہی آرہی تھی۔ اس کیوں کو کوئی جواب نہیں دینا چاہتی تھی۔ اس کے بارے میں تو سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی نا وہ سوچ کی اس راہ پر کئی رکاوٹیں ، کئی قدغنیں جو تھیں شریعت ، تہذیب و تربیت ، مزاج و طبیعت ، سماجی حقائق اور ایسی ہی کئی اور نادیدہ زنجیریں اور دیواریں تھیں جن کے اس پار جھانک کر دیکھنے کا حوصلہ اور جرات فی الحال تو اس میں نہیں تھی۔

حالات مکمل طور پر غیر یقینی تھے۔ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ دل کو بری طرح ہول اٹھ رہے تھے اور اس کی اس ساری کی ساری گھبراہٹ و پریشانی اور تمام 

تر فکرمندی کا تعلق مرشد کی ذات سے تھا۔اس بات پر اس کے اندر ایمان جیسا یقین موجود تھا کہ مرشد کے جیتے جی کوئی بھی کسی برے ارادے یا نیت سے اس کے قریب نہیں آسکتا۔ وہ صحیح معنوں میں اس کا محافظ بنا ہوا تھا۔ ایسا محافظ جس کی سلامتی کے ساتھ قدرت نے اس کی سلامتی کو یوں مشروط کر دیا تھاکہ جیسے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ٹھہرا دیا ہو !

سب ہی دیوار کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر سمٹے بیٹھے تھے۔ زبانیں چپ تھیں اور دھڑکنیں شور مچا رہی تھیں۔ سب کے کان ڈیورھی کی طرف لگے تھے۔

ڈیوڑھی کے اوپر قدرے سکون محسوس ہو رہا تھا۔ غصیلی اور جوشیلی آوازیں کچھ دور ہو چکی تھیں۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مرشد کی توقع کے عین مطابق گنبد کے ٹوٹے ہوئے حصے کے قریب سے ایک مردانہ آواز سنائی دی۔

” مرشد ! اپنا دماغ ٹھنڈا کرلو۔ ہم تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔” بے اختیار سب کی نظریں مرشد کی طرف سرک گئیں جو سر اور پشت دیوار سے ٹکائے ، ٹانگیں پسارے ڈھیلا سا بیٹھا تھا۔ سیون ایم ایم رائفل اس کی گود میں دھری تھی۔

”یہ امید افزا رویہ ہے۔ وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔” زریون فوراً کھسک کر اس کے قریب ہوا۔ چند لمحے بعد آواز پھر سنائی دی۔

” اپنے ساتھیوں سے بھی کہہ دو کہ کوئی گولی نا چلائے۔ ہماری طرف سے بھی تم لوگوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ ہمارے ساتھ بات کرو۔”

” وہ بات کرنا چاہ رہے ہیں ۔جواب دو انہیں۔” زریون نے دبے دبے مگر تیز لہجے میں کہا۔ وہ خاصابے چین ہو رہا تھا۔ دوسری طرف بیٹھے جعفر نے ایک خشمگیں سی نظر اس پر ڈالتے ہوئے ر�±خ بدل لیا۔مرشد کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سامنے کے ر�±خ سے خنجر کی پکارتی ہوئی آواز بلند ہوئی اور ان سب کی توجہ اس طرف پھسل گئی۔

” مرشد کے ساتھ بات کرنے سے پہلے تمہیں میرے ساتھ بات کرنی پڑے گی۔”ایک ذرا خاموشی کے بعد اوپر سے بولنے والا خنجرسے مخاطب ہوا۔

"تم کون ہو اور کیا بات کرنا چاہتے ہو؟” 

” میں سیوک رام ! تمہارے اے ایس پی صاحب اور چوہدری کی سیوا میں نے ہی کرنی ہے ضرورت پڑ گئی تو۔”

”اپنے لیے مشکلات کا نہیں ،آسانیوں کا سوچنا چاہئے تمہیں۔”

”اور تم لوگوں کو صرف چوہدری اور گورمانی صاحب کی جانوں کی فکر کرنی چاہیے۔ تمہارے فضول کے مشورے ان دونوں کی ٹبری ٹائیٹ کروا دیں گے۔”

 ایک ذرا توقف کے بعد پوچھا گیا۔

” کیا چاہتے ہو ؟” 

” ایک ایمبیسی کی ڈبی اور ایک ماچس۔”

” کیاکیا کہا تم نے؟” خنجر کی ڈیمانڈ سنتے ہی حیرت و بے یقینی سے دوبارا پوچھا گیا۔ شاید بولنے والے کو اپنی سماعت پر شبہ گزرا تھا کہ ا�±سے سننے سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہے۔

” تم لوگوں کو چوہدری اور اپنا گورمانی واپس چاہئے۔ اس کے لیے تمہیں ہماری دو ڈیمانڈیں پوری کرنی پڑیں گی۔ پہلی ڈیمانڈ یہ ہے کہ ایک ماچس اور ایمبیسی سگریٹ کی ڈبی پیدا کر کے دو دس منٹ کے اندر اندر۔ دوسری ڈیمانڈ اس کے بعد بتائیں گے۔”

مرشد نے اوٹ سے جھانک کر دیکھا۔ خنجر اپنی جگہ دیوار کے ساتھ پنجوں کے بل بیٹھا تھا۔ مرشد کے متفسرانہ انداز میں بھنویں اچکانے پر اس نے اشارے سے اسے فی الوقت خاموش رہنے کا کہا۔ اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔ شاید یہ سگریٹ کی شدید طلب ، سگریٹ سے اسکی والہانہ محبت کے تاثرات تھے یا یا پھر شاید سگریٹ کے پردے میں یہ زندگی کی ایک لاشعوری سی طلب تھی زندگی کو تھوڑا سا زیادہ تھوڑا سا بھرپور طریقے سے محسوس کرلینے کی ایک غیر شعوری سی کوشش اور خواہش تھی۔

” دیکھو ! تم لوگ بری طرح پھنس چکے ہو۔ یہاں سے اب تم نکل نہیں سکتے۔ یہاں چاروں طرف پولیس موجود ہے۔ مقابلے کی سوچو گے تو بھی اپنی ہی جانوں پر ظلم کرو گے۔ زندہ رہنا چاہتے ہو تو چوہدری صاحب اور گورمانی صاحب کو لے کر باہر نکل آو۔ تم پر کوئی گولی نہیں چلائے گا۔”

” اور ہاں خنجر جواباً پکارا۔ ” سگریٹ ماچس کے ساتھ کچھ پھل فروٹ ، پیپسی کی شیشے والی بڑی بوتلیں اور درد دور کرنے والی کوئی اچھی نسل کی گولیاں بھی منگوا لینا میرے گردے کے ساتھ ساتھ گوڈے اور سر میں بھی بڑے زور کا درد مچا ہوا ہے۔” 

” بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ مرشد سے کہو ہم سے بات کرے۔” بولنے والے نے قدرے خشک لہجے میں کہا تو خنجر تپ گیا۔

” او کسی گندی مرغی کے گندے انڈے! میں نے تجھے بتایا ہے کہ میرے گردے کے ساتھ ساتھ گوڈے اور سر میں بھی درد ہے۔ اگر دس پندرہ منٹ کے اندر اندر درد والی گولیوں کے ساتھ سگریٹ اور باقی سامان مجھے نا ملا تو میں نے تم لوگوں کے صاحب اور چوہدری، دونوں کی "چھتریشن” شروع کر دینی ہے کھوتی کا بچہ نہ ہو تو” آخر میں اس نے دو چار رنگین و سنگین قسم کی گالیاں بکیں۔ اوپر یکایک خاموشی چھا گئی۔ مرشد کے ہونٹوں پر بے ساختہ ہی ایک مدھم سی مسکراہٹ اتر آئی تھی۔

خنجر کے ذہن میں جو کچھ بھی چل رہا تھا وہ اپنی جگہ ، اس کا یہ جوابی رویہ ، یہ انداز دشمن پر ان کی بے خوفی اور لاپروائی کی دھاک بٹھانے کے لیے کافیتھا۔ یعنی اتنے سنگین حالات اور اتنے سارے دشمنوں کی ان لوگوں کو جیسے سرے سے کوئی فکر و پریشانی تھی ہی نہیں وہ یوں آرام سے فرمائشیں کررہے تھے جیسے یہاں پکنک منانے آئے بیٹھے ہوں!

”یہ تمہارا ساتھی کیا بکواس کیے جا رہا ہے؟ اسے منع کرو اور تم خود بات کرواس بندے سے کہو کہ ثاقب علیم یا صادق ڈوگر صاحب کو یہاں بلائے۔ تم صرف ان ہی میں سے کسی کے ساتھ بات کرو گے۔” زریون نے مضطربانہ انداز میں ہدایت نامہ جاری کیا تو مرشد نے یونہی پوچھا ۔

” یہ دونوں کون ہیں؟” 

” ایک یہاں کا ڈی سی ہے اور دوسرا ایس پی میری ذاتی جان پہچان ہے دونوں سے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی یہاں پہنچ گیا تو سارا معاملہ کنٹرول میں آجائے گا۔ ہم میں سے کسی کو بھی جان کا خطرہ نہیں رہے گا۔” 

” چلیں دیکھتے ہیں۔ خنجر کے سگریٹ آ لینے دیں۔” 

” سگریٹ تم لوگوں کو اس صورت حال میں بھی سگریٹ کی پڑی ہوئی ہے؟ اف کہاں جانوروں میں پھنس گیا میں۔” اس نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں اِدھرادھر گردن گھمائی اور دوبارا مرشد کی طرف متوجہ ہوا۔

” دیکھو ! میں نے جو کہا ہے وہ اس بندے سے کہو یا پھر میں خود بات کرتا ہوں۔”

” تھوڑا صبر رکھیے شاہ جی ! جلد بازی اچھی نہیں۔ ذرا ان کے تیوروں اور رنگ ڈھنگ کا اندازہ کرلیں۔ ہو سکتا ہے کچھ دیر تک اپ کے ڈی سی اور ایس پی صاحب خود ہی یہاں پہنچ آئیں وہ بھی بن بلائے ہی۔” 

” ٹھیک ہے ہم نے بندہ بھیج دیا ہے تمہاری پہلی ڈیمانڈ کے لیےاپنی دوسری ڈیمانڈ بتاو؟” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد چھت سے پھر آواز سنائی دی تھی۔

خنجر بولا۔” ماں کے دینے ! جب پہلی پوری ہوجائے گی تب دوسری بتائیں گے۔ جو بندہ بھیجا ہے جب تک وہ واپس نہیں آجاتا تب تک تو بھی سکون کر جا کے تھوڑا ہگ موت آ یہاں سر پہ کھڑا ہو کر ہمارے بھیجے کی بہن بھجیا نہ کر جا ٹل جا !”

"مرشد! اپنے ساتھیوں سمیت خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر دو، جانیں بچ جائیں گی تمھارے پاس اب کوئی دوسرا راستہ نہیں۔”

 اس بار براہ راست مرشد کو مخاطب کیا گیا ۔ ساتھ ہی فورً ایک اور درشت اور اجڈ سی آواز سنائی دی۔

” اور یہ بات بھی اپنے دماگ( دماغ) میں رکھنا کہ چوہدری صاب کے پنڈے کی اک اک نہوندر (خراش) کا حساب دینا پڑے گا تجھے آہو۔ "

خنجر بھی درشتی سے بولا۔”نہوندر کے پتر! دفعہ ہو جا ادھر سے ورنہ ابھی تیرے "چوہدری سانپ” کے سر میں جوتے مارنا شروع کر دونگا اور ایسا صرف تجھ نحوستی کے ادھر کھڑے رہنے کی وجہ سے ہوگا۔ یہ لے میں نے چپل بھی اتار کے ہاتھوں میں پکڑ لی ہے۔ بہن خورخنزیرے”

اوپر پھر خاموشی چھا گئی۔ چند لمحے تک سب ہی کان اوپر لگائے بیٹھے رہے لیکن یوں محسوس ہوا جیسے وہ لوگ گنبد کے قریب سے پیچھے ہٹ گئے ہوں۔

انہوں نے اپنے پاس موجود اسلحے کا جائزہ لیا، دو ٹرپل ٹو رائفلیں، ایک سیون ایم ایم، دو پسٹل اور ایک خنجر جو اس وقت مرشد کی پنڈلی سے بندھا ہوا تھا۔ پسٹل ایک مرشد کی ڈب میں موجود تھا اور دوسرا زریون کے ہاتھ میں۔ تقریباً ڈھائی سو فاضل راونڈ ان کے پاس ٹرپل ٹو کے تھے اور سو کے قریب سیون ایم ایم کے۔ 

کچھ ہی دیر بعد اوپر گنبد کے قریب چند آہٹیں، سرسرائیں اور پھر ایک نئی آواز سنائی دی۔ کم و بیش وہی سب کچھ پھر سے دوہرایا گیا۔

چوہدری اور گورمانی صاحب کو لے کر باہر آجاو چاروں طرف سے گھیرے میں ہو پھنس چکے ہوبچ کے نکل نہیں سکتے اور وغیرہ وغیرہ۔اسے بھی خنجر نے”صلواتیں”ہی سنائیں۔ زریون کے مضطربانہ اصرار کے باوجود مرشد خاموش رہا۔

اوپر سے بولنے والوں نے اپنے تئیں بڑے ٹھوس اور بارعب طریقے سے بات چیت کی تھی لیکن انکی آوازوں اور لہجوں میں سرسراتے ہیجان نے مرشد کو سمجھا دیا تھا کہ وہ سبھی بری طرح پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ بے شک وہ ایک اجڑ، ایک گروہ کی صورت میں تھے لیکن ان میں شاید کوئی سرکردہکوئی ذمےدار شخص نہیں تھا۔ سرکردہ اور ذمےدار افراد میں سے ایک دوسرے کمرے میں چیتھڑے چیتھڑے سینا لیے مردہ پڑا تھا اور دوسرا بندھے ہاتھوں پیروں اور بندھے منہ کے ساتھ اس کمرے کے بائیں کونے میں بے بس پڑا تھا۔ اس کے ہاتھ اور پاو�¿ں دو میلی قمیضوں سے باندھے گئے تھے اور منہ پر ایک دوپٹہ۔ جعفر اسکی بندشوں کا جائزہ لے کر تسلی بھی کر چکا تھا پھر بھی پھر بھی پتہ نہیں کیسے چوہدری کے پاو�¿ں بھی بندش سے آزاد ہوگئے اور منہ بھی۔ وہ تو جب اچانک وہ با دقت اپنی جگہ سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے شعلہ باز آواز میں دھاڑا تو وہ سب بری طرح چونکے۔

منہ کھلتے ہی سب سے پہلے اس کے حلق سے ایک ننگی بے شرم گالی اچھل کر باہر آئی تھی۔

” تمھاری کاتمھاری نسلوں اور خاندانوں کا کوئی بچہ تک زندہ نئیں چھوڑوں گاتم لوگوں کا پورا پورا ٹبر جلا دونگا میں۔ تم لوگوں نے چوہدری فرزند پے نہیں، اپنی عبرت ناک موت پے ہاتھ ڈالا ہے۔سانگھا ، گلشن، پرویزے کہاں ہو رن کے پترو!جا کےمیں گھس مروکس بہن کے یار کا انتظار کر رہے ہو۔ مر جاو یا مار دو انکو۔ ان سبکی لاشوں کا قیمہ بنا کر شہر کی سڑکوں پر پھینکنا ہے”

مرشد لوگوں کی ماں بہن کرتے کرتے وہ مزید بلند آہنگ لہجے میں اپنے پالتو کتوں پر دھاڑا۔ اس کے منہ سے گویا آواز نہیں آگ کی لپٹیں خارج ہو رہی تھیں۔

"ان سب کی ماوں بہنوں کو اووغ اوئے”

"یہ اوغ اوئے” اس کے منہ سے بےساختہ نکلا تھا۔ جعفر نے اسکی طرف سرکتے ہوئے رائفل کے کندے کی "ہج” اس کے چہرے پر رسید کی تھی۔ اگلے ہی پل چوہدری جیسے بالکل ہی حواس کھو بیٹھا۔ اس نے ہذیانی انداز میں انتہائی گندی اور واہیات گالیاں بکنا شروع کر دیں۔ غصے اور وحشت کی انتہا درجہ شدت کے باعث اسکی آواز پھٹ رہی تھی۔ وہاں کے درودیوار اسکی جنونی اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی وحشت خیز چنگاڑوں سے لرز اٹھے۔

حجاب کے ساتھ ساتھ فیروزہ کے وجود میں بھی سرد لہریں کلبلا رہی تھیں۔ اوپر گنبد کے قریب سے ایک تیز چیختی ہوئی آواز بلند ہوئی اور اطراف میں پھیلتی چلی گئی۔

” وہ لوگ چوہدری صاب کو مار رہے ہیں۔”اس آواز کے بلند ہوتے ہی فضا میں ایک بے چینی ایک ہلچل سی سرائیت کرتی محسوس ہوئی ۔چھت کے ساتھ ساتھ باہر گلی کی طرف سے بھی کئی آوازیں بلند ہوئیں ۔چند ایک ہوائی فائر کئے گئے اور پھر یکایک چاروں طرف جیسے ایک قیامت خیز ہنگامہ اتر آیا۔غضب ناک آوازوں کا ایک سیلاب سا گنبد کے طرف لپکاگلی بھی وحشی للکاروں سے چھلک اٹھی، ساتھ ہی ایک ساتھ بیسیوں رائفلوں سے ہوائی فائرنگ کا بھیانک شور بلند ہوااور اس ابر آلود تاریک رات میں دور دور تک ایک دہشت انگیز سنسنی پھیلا گیا۔ 

حجاب اور فیروزہ نے بے اختیار گردنیں جھکاتے ہوئے کانوں پے ہاتھ رکھ لیے تھے۔ زریون کا چہرہ لالٹین سے بھی زیادہ زرد پڑ گیا۔ جعفر جو چوہدری کو دبوچے زدوکوب کر رہا تھا چونک کر پیچھے ہٹا۔ چوہدری نیچے گرا برابر مفلظات اگل رہا تھا۔ مرشد فورً اپنی جگہ چوکس ہو بیٹھا۔

خنجر نے دیوار کی اوٹ سے فائر کیاگلی کی طرف سے اچانک ایک بھرپور ہلا بولا گیا تھا۔ ایک ساتھ کئی لوگوں نے فائرنگ شروع کر دی تھی۔ گنبد کے اردگرد بھی قیامت صغری کا سا ہنگامہ سمٹ آیا تھا۔ ہوائی فائرنگ کا سفاک شور اور گرجتی دھاڑتی آوازیں اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔مرشد نے چیخ کر بیرونی طرف فائرنگ کرتے خنجر کو آواز دی۔

"خنجر! مرنا نہیں ہے۔پیچھے ہٹ آو۔ خنجر "پتہ نہیں آواز اس کے کانوں تک پہنچ پائی یا نہیں وہ اسی طرح اوٹ سے فائرنگ کرتا رہا اور جواب میں کئی رائفلیں گرجتی گئیں۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک تھی۔ اور کچھ نہ سہی اتنی شدید فائرنگ سے کوئی گولی دیوار سے اچٹ کر بھی اسے نقصان پہنچا سکتی تھی فائرنگ کا جواب دیتے ہوئے وہ سنگین اور جان لیوا خطرہ مول لے رہا تھا۔

"خنجر!پیچھے ہٹو پیچھے ہٹو” مرشد نے ایک گھٹنا زمین پر ٹکاتے ہوئے باقاعدہ پوزیشن لے لی۔ اس کی رائفل کا رخ خنجر ہی کی طرف تھا۔ خلا کے بائیں طرف جعفر نے پوزیشن لیتے ہوئے گنبد میں کھلے ہوئے روشن دان کی طرف برسٹ فائر کیا۔ یکایک ہی ایک شدید ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی۔

گلی کی طرف سے فائرنگ کی شدت میں شدید اضافہ ہوگیا تھا۔ اوپرگنبد پر جیسے ایک ساتھ بہت سی بلائیں ٹوٹ پڑیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے بیسیوں افراد ایک ساتھ اوپر ہتھوڑے برسانے لگے ہیں۔ راہداری کی طرف فائرنگ نے اتنی شدت اختیار کر لی تھی کہ خنجر سمٹ کر دیوار کے ساتھ چپک جانے پر مجبور ہوگیا تھا۔ فائرنگ کی آواز گلی سے راہداری میں داخل ہو آئی۔ وہ لوگ مسلسل فائرنگ کرتے ہوئے اندر گھس آئے تھے اور اب کسی بھی لمحے خنجر ان کی اس فائرنگ کا نشانہ بننے والا تھا۔ مرشد کا رواں رواں سنسنا اٹھا۔

اس کے برابر جعفر رائفل سنبھالے اوپر کی طرف متوجہ تھا لیکن مرشد کا دھیان اس کی طرف تھا نہ اوپر گنبد کی طرف اس کی ساری توجہ سمٹ کر خنجر کی طرف جا پڑی تھی۔ اس کے اعصاب تنے ہوئے تھے۔ اس کی رائفل کا نشانہ خنجر کے سر سے دو انچ اوپر کمرے کے اس خلا کی طرف تھا جو راہداری والی ڈیوڑھی اور کمرے کو متصل کرتا تھا۔ اسی لمحے خنجر نے گردن موڑ کر مرشد کی طرف دیکھا۔ چہرے پر حسرت و یاس میں ڈوبی ہوئی ایک مسکراہٹ چمکی اور آنکھوں میں ایک عجیب اداسی، عجیب ویرانی شاید اس نے چند فٹ کے فاصلے پر اپنی طرف بڑھی آتی موت کے قدموں کی چاپ سن لی تھی! 

مرشد نے چیخ کر اس سے کچھ کہا مگر اسے سمجھ نہیں آئی، البتہ مرشد کے رائفل کے اشارے پر نیچے بیٹھ جانے کا عمل اس سے خود بخود سرزد ہوگیا تھا اور یہی عمل اسکی جان بچا گیا۔راہداری میں گھس آنے والے افراد آٹومیٹک رائفلوں کی لبلبیوں پر انگلیاں دبائے ڈیوڑھی تک پہنچ آئے تھے۔ خنجر نیچے جھکا ہی تھا کہ ان میں سے ایک فائرنگ کرتا ہوا خنجر کے اس طرف برابر سے نمودار ہوا اور مرشد کی رائفل سے نکلنے والی گولیوں کا نشانہ بن کر دیوار سے ٹکراتے ہوئے ڈھیر ہوگیااس کی رائفل سے چلی ہوئی دو تین گولیاں خنجر کے اوپر سے ہوتی ہوئی زائیںسے مرشد اور جعفر کے درمیان سے گزر گئیں۔ دونوں کو ہوا سے رگڑ کھاتی وہ سنسناتی ہوئی قاتل آواز واضح سنائی دی تھی۔ ایک لمحے کو دونوں ٹھٹھکے بھی لیکن اگلے ہی پل انکی رائفلوں نے الگ الگ سمتوں میں پھر شعلے اگلے۔ مرشد نے پھر چیخ کر خنجر کو پکارا۔ اس بار خنجر نے اس کی بات سمجھ لی تھی یا پھر صورتحال نے اسے خود بخود سمجھا دیا تھا۔ وہ جھکے جھکے انداز میں بہ عجلت مرشد اور جعفر کی طرف بڑھا، ان دونوں نے مسلسل فائرنگ کرتے ہوئے اسے کور دیا۔ اور وہ اسی انداز میں لپک کر ان کے درمیان سے کمرے کے اندر آن گرا۔

ایک پلمحض ایک پل کی تاخیر گزری ہوگی کہ درمیانی ڈیوڑھی کا پورا گنبد ایک بھیانک آواز کے ساتھ اندرنیچے آ گرا۔ اوپر برپا شور میں یکایک کچھ مزید جوش و جذبہ شامل ہو آیا۔ غلیظ للکارے بلند ہوئےکئی رائفلوں نے قہقہے اگلےکمرے کے خلا سے گردوغبار کا بادل سا اندر گھستا آیا۔ کئی ایک اندھی گولیاں اس خلا کی قدیم اینٹوں کے ذرات کو چنگاریوں کی شکل دیتی ہوئی زائیں زائیں کی آوازوں سے کمرے میں سامنے کے رخ موجود تاریکی میں نکل گئیں۔مرشد اور جعفر اپنی اپنی جگہ دیوار کے ساتھ چپک گئے تھے۔ خنجر بھی اندر گرتے ہی مچھلی کی طرح تڑپ کر گولیوں کی براہ راست زد سے ایک طرف ہٹ چکا تھا۔ مرشد نے دوبارہ سامنے کے رخ ایک چھوٹا برسٹ فائر کیا۔ سامنے والی ڈیوڑھی اور راہداری پر دشمن قبضہ جما چکا تھا اس کے عزائم انتہائی جارحانہ تھے۔ اوپر جو چار پانچ فٹ کا خلا پیدا ہو چکا تھا۔ وہاں سے بھی فائرنگ شروع ہو گئی تھی۔ یہ ساری صورتحال انتہائی خطرناک اور مرشد کی توقعات کے قطعی خلاف تھی۔ وہ دشمن کے اس پاگل پن، اس جنونی پیش قدمی پر قدرے حیران تھا۔ یقیناً وہ سب چوہدری کے وفادار تھے۔ان کے ساتھ نواب اسفندیار کے لوگ بھی آ ملے ہونگے۔چوہدری کی منحوس دھاڑوں پر وہ سب آپے سے باہر ہو کر ٹوٹ پڑے تھے۔ اب تک شاید پولیس والوں نے انہیں روک رکھا تھا لیکن اب بپھرے ہوئے سارے ڈشکروں نے ان مٹھی بھر پولیس والوں کو دھکیل کر ایک طرف کر دیا تھا۔ وہ سب جیسے مرنے مارنے پر اتر آئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی پروا نہیں کی تھی کہ ان کی جنونی پیش قدمی اے ایس پی کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے چوہدری صاحب کی بھی جان لے سکتی ہے!

"گورمانی صاحب مر چکے ہیں گورمانی صاحب کو قتل کر دیا انہوں نے!”

فائرنگ کی شدت میں ایک زرا کمی ہوتے ہی سامنے کی ڈیوڑھی سے ایک آواز بلند ہوئی پھر سے کچھ گولیوں کا تبادلہ ہوا۔ مرشد کا ذہن بری طرح پریشان ہوچکا تھا۔ اے ایس پی اور خصوصاً چوہدری فرزند کے حوالے سے جو دفاعی نوعیت کا اطمینان حاصل تھا وہ رخصت ہو گیا تھا۔

"وہ چاردیواری کے اندر گھس آئے ہیں۔” خنجر مرشد کے پہلو میں پہنچ چکا تھا۔

” ہم ہم ذیادہ دیر نہیں لڑ سکتے۔” یہ زریون تھا۔

"ایمونیشن بہت تھوڑا ہے نہیں تو ان سب کی”

"ہمارے پاس جو ٹوٹل گولیاں ہیں ان سے بیس گناہ زیادہ تو وہ فائر کر چکے ہیں۔”

"جعفر! سامنے فائر کرتے رہو۔ جو ڈیوڑھی سے کمرے میں گھسنے کی کوشش کرے لٹا دوکو” مرشد نے کہا۔

"اس طرح کتنی دیر فائر کر کے روک سکیں گے انہیں۔؟”

"شدت یہی رہی تو صرف ایک آدھ گھنٹا۔”جعفر نے فائرنگ کی، تاریک کونے میں پڑا چوہدری تفاخرانہ و تکبرانہ انداز میں قہقہے لگا لگا کر انہیں گالیاں اور دھمکیاں دے رہا تھا۔ عبرت اثر انجام، یقینی انجام، زلت ،تباہی اور بربادی، موتموتحشر نشر

"صرف ایک آدھ گھنٹا” زریون نے گھبراہٹ سے کہا۔ "اس کے بعد کیا کرینگے ؟”اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ مرشد کی نگاہیں چوہدری فرزند کی طرف سرک گئیں۔

"اس کے بعداس کتے کی شکل والے سور کو قربانی چڑھا ئینگے۔”

"میں اپنے بچاو�¿ کے حوالے سے پوچھ رہا ہوں۔ ایک آدھ گھنٹے تک اگر کوئی راستہ نہ ملاکوئی مدد یا بچت کے امکانات نہ بنے تو کیا کریں گے؟”

مرشد کے بولنے سے پہلے ہی دائیں طرف سے حجاب اور فیروزہ کی ہراساں و لرزیدہ آوازیں انہیں اپنی طرف متوجہ کر گئیں۔

"یہ ادھر کوئی ہے۔”

"ادھر کچھ ہے۔” فیروزہ کے ساتھ حجاب بھی اپنی جگہ سے ہڑبڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

"یہاں کا سنبھالو تم !” مرشد خنجر کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا فورً ان دونوں کی طرف بڑھا گیا۔ دونوں کونے کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

 ان کے گھبرانے اور گڑبڑانے کی وجہ ایک آواز تھی کونے میں دھرے لنڈے کے کپڑوں والے بوروں کے پیچھے سے بلند ہونے والی یہ آواز مرشدکو بھی واضح طور پر سنائی دی اور ساتھ ہی اس کے دل و دماغ میں سنگین تشویش کی لہر سی دوڑ گئی۔ یہاں کی بغلی دیوار کے اس پار کوئی موجود تھا ایک سے ذیادہ لوگ کچھ آہٹوں، سرسراہٹوں کے علاوہ کچھ بھاری اور ٹھوس ضربوں کی آوازیں اور گونج سی تھی۔ مرشد نے بورا کھینچ کر ایک طرف گرایا اور دیوار کے قریب نیچے بیٹھ گیا۔ ضربوں کی آواز بالکل نچلے کونے سے اٹھ رہی تھی۔ دیوار میں کچھ ٹھونکا جارہا تھا کوئی راڈ، سلاخ یا فولادی چھینی۔

ڈیوڑھی کا گنبد گرا لینے کے بعد دشمن کو سمجھ آ گئی تھی کہ نقب لگانے کی درست اور مناسب جگہ کونسی ہے۔ ان کے معتوب اندر کس حصے میں موجود ہیں۔ سامنے کی ڈیوڑھی میں وہ مورچہ سنبھال چکے تھے۔ درمیانی ڈیوڑھی کے اوپر سے مسلسل گولیاں برسا رہے تھے پھر بھی مرشد لوگ پوری طرح محظوظ تھے۔ اب اس محفوظ حصے کے بھی ایک کونے میں دشمن نے نقب زنی شروع کر دی تھی۔ یعنی آیندہ کچھ ہی دیر تک ان کی یہ کمین گاہ بھی غیر محفوظ ہونے والی تھی۔

” یہیہ کیسی آوازیں ہیں؟” حجاب کی پراندیش آواز پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ دیوار کا سہارا لے کر کھڑی تھی، سارا بوجھ بدستور بائیں پاو�¿ں پر تھا۔

” ادھر سے بھی وہ دیوار توڑ رہے ہیں نا ؟”فیروزہ نے لرزیدہ آواز میں پوچھا۔ اسکا لہجہ اور انداز ایسا تھا جیسے حقیقت معلوم ہونے کے باوجود وہ اس کی نفی میں سننا چاہتی ہو۔سامنے کے رخ سے اچانک فائرنگ نے زور پکڑ لیا۔ جعفر اور خنجر داخلی دروازے کے دائیں بائیں پوزیشنیں سنبھالے بساط بھر جواب دے رہے تھے۔ زریون پسٹل ہاتھ میں لیے عجیب بولایا بولایا سا کھڑا تھا۔مرشد نے بورا کھینچ کر بغلی دیوار کے ساتھ تھوڑے فاصلے پر رکھا اور پھر حجاب سے مخاطب ہوا۔ 

"سرکار! آپ ادھر آ کر بیٹھیںآ جائیں۔” خود وہ چند قدم آگے پڑی لالٹین کی طرف بڑھ گیا۔ رائفل اس نے کندھے پر ڈال لی تھی۔ حجاب فیروزہ کا سہارا لیتے ہوئے بورے تک پہنچ گئی۔ دل و دماغ کی حالت بہت ابتر تھی۔ دل ہول ہول جا رہا تھا۔ پاوں الگ عذاب میں آیا ہوا تھا۔ ٹخنے میں ایسی تکلیف تھی کہ جس کی دردناک کھینچ پنڈلی تک سفر کر رہی تھی۔ وہ ابھی بورے پر ٹیک لگا کر بیٹھی ہی تھی کہ مرشد لالٹین اٹھائے اس کے سامنے آ بیٹھا اس کے پیروں میں حجاب کا دل دھک سے رہ گیا۔

"یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟” وہ بری طرح گڑبڑائی۔ 

"مجھے اپنا پاوں دیکھائیں سرکار!”اس نے جھکی نظروں کے ساتھ سنجیدگی سے کہا اور پھر اس کے ردعمل کا انتظار کئے بغیر ہاتھ بڑھا کر ٹخنے کے اوپر سے اس کی دائیں ٹانگ دبوچ لی۔ حجاب کی تو جیسے سانس ہی سینے میں اٹک کر رہ گئی تھی۔ مرشد کے ہاتھ کی گرفت مضبوط ضرور تھی مگر سخت نہیں۔

"مجھے پاوں دیکھنے دیں۔” اس نے نرمی سے پاوں اپنی طرف کھینچا۔ حجاب ذرا بھر بھی کوئی تعرض نہیں کر پائی۔ وہ تو باوجود کوشش کے بول بھی نہیں پائی تھی۔ مرشد کے توانا ہاتھ اور انگلیوں کے لمس نے اس کے وجود سے جیسے ساری توانائی ہی سلب کر لی تھی۔ رگ و پے میں عجیب سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔ 

مرشد نے لالٹین کی روشنی میں اس کے پاوں کا جائزہ لیا۔ دل پر ایک ضرب سی پڑی۔ وہ نرم و نازک گلابی گلابی سا پاوں اس وقت مٹی مٹی ہورہا تھا اور زخمی بھی تھاٹخنے کی طرف سے کھال چھلی ہوئی تھی اور ہلکی سی سوجن بھی دکھائی دے رہی تھی۔مرشد نے حوصلے کڑے کر کے یہ جرات کی تھی۔ وہ دیکھ چکا تھا کہ حجاب مسلسل تکلیف میں ہے اور زریون کو اس کی خبر گیری کرنے کی توفیق نہیں تھی۔ توفیق ہونی بھی کیا تھی وہ اس کی اس تکلیف کا کر بھی کیا سکتا تھا۔ مرشد نے چٹکی میں اسکے پیر کا انگوٹھا پکڑ کر ہلایا تو اس کے ہونٹوں سے بے اختیار کراہ نکل گئی۔ فیروزہ برابر خاموش کھڑی تھی۔ زریون بھی متذبذب سا قریب پہنچ آیا۔ 

فائرنگ بدستور جاری تھی۔ جعفر اور خنجر محتاط انداز میں برابر فائرنگ کا جواب دے رہے تھے۔ بغلی دیوار کے کونے میں اسی طرح ضربیں پڑ رہی تھیں لیکن یہ سارا ہنگامہ یہ ساری آوازیں ان لمحوں مرشد اور حجاب سے بہت دور چلی گئی تھیں ان دونوں کے اپنے اندرایک ہلچل ، ایک شور برپا ہو آیا تھا۔ اس ہلچل میں ایک لطیف سکون تھا اور اس شور میں ایک گہری خاموشیگہرا سناٹاایسا گہرا سناٹا جس میں اپنی دھڑکنوں کی دھک دھک بھی انسان کو سنائی دینے لگتی ہے۔ اندر سے وہ دونوں ہی ان لمحوں سحر زدہ سے بیٹھے تھے لیکن دونوں ہی نے اس سحر خیزی کو اپنے کلیجوں میں ہی گھونٹ لیا تھا۔مرشد نے دو تین بار اس کے انگوٹھے کو مخصوص انداز میں حرکت دیٹخنے کے آس پاس انگوٹھا رکھ کر کچھ محسوس کیا۔ کوئی سوال اس نے کیا اور نہ حجاب نے تکلیف کی بابت کچھ کہا۔ مرشد کے کان اس کی سسکیوں اور کراہوں پر تھے۔ انہی سے وہ اس کی تکلیف اور تکلیف کے سبب بارے جان گیا۔حجاب پتھر کی مورتی کی طرح ساکت بیٹھی تھی۔ نظریں مرشد پر تھیں۔ مرشد کا حال ایسا ہو رہا تھا جیسے وہ ابھی ابھی کسی عمارت کے ملبے میں سے نکل کر آیا ہو۔ 

اسکے نچلے ورم آلود ہونٹ اور ٹھوڑی پر خون جما ہوا تھا دائیں ہاتھ کی پشت سے کھال اس طرح ادھڑی ہوئی تھی کہ اس کے اس زخم پر نظر پڑتے ہی حجاب کے حلق سے بےساختہ سسکاری سی نکل گئی ،جسے دوسروں نے شاید اس کے پاوں کی تکلیف پرمحمول کیا ہو۔ 

اچانک مرشد نے انتہائی بے رحمانہ انداز میں اس کے پیر کو ایک جھٹکا، ایک مڑوڑا سا دیا اور حجاب کے حلق سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ ایک لمحے کو تو اسے یہ ہی محسوس ہوا تھا کہ مرشد نے اس کا پیر توڑ دیا ہے، البتہ چیخ کے اختتام تک اس کے ذہن میں خوش گوار حیرت کا احساس کسمسا اٹھا۔چیخ کے فورً بعد اس نے قدرے حیرت و بے یقینی سے پہلے مرشد کی طرف دیکھا اور پھر اپنے پاوں کی طرف ٹخنے میں وہ جو شکنجے جیسی سخت اور مسلسل تکلیف تھی وہ اب یکایک جیسے غائب ہی ہو گئی تھی۔تحلیل ہو گئی تھی۔ 

"اب آپ کا پاوں ٹھیک ہے۔” مرشد نے اسی طرح جھکی نظروں اور مودب لہجے میں کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ حجاب نے ڈرتے ڈرتے پاوں کو حرکت دی۔ حیرت انگیز طور پر درد و تکلیف کا احساس تقریباً ختم ہی ہو چکا تھا۔ 

"ارے! یہ تو سچ میں ٹھیک ہوگیا۔” وہ حیران تھی۔ 

"یہ کیا کِیا تم نے؟ کیسے کِیا؟” زریون مرشد سے مخاطب ہوا۔ 

"پاوں مڑنے کی وجہ سے ایک پٹھا ٹخنے کے جوڑ میں پھنس کر رہ گیا تھا۔ اب نکل گیا ہے میں جوڑوں پٹھوں اور ہڈیوں کو توڑنے جوڑنے کا کام تھوڑا تھوڑا جانتا ہوں۔”مرشد نے اسی لہجے میں جواب دیا۔ اس کے چہرے پر ایک گھمبیر خاموشی طاری تھی۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کا ذہن کس کرب کا شکار ہے۔ وہی روح فرسا خیال پھر اس کے دماغ کو کچوکے دینے لگا تھا کہ اس کے بعد حجاب سرکار کا کیا بنے گا۔وحشی جانوروں جیسے دشمن ان کے ساتھ کیا برتاو ، کیا سلوک کرینگے؟

اس سوال کا جواب جواب کا تصور ہی اتنا ہولناک، اتنا جان کاہ تھا کہ بس

"وہ لوگ ادھر کی دیوار بھی توڑنے والے ہیں۔” فیروزہ نے گہری پریشانی سے کہا۔ 

"سب غصے سے پاگل ہو رہے ہیں۔ ہمیں دیکھتے ہی چھلنی کر دینگے۔” 

"پولیس کے اعلی افسران کسی طرح پہنچ آتے تو بچت کے امکان بن جاتے۔ برے…. برے پھنسے…. مجھے اس سب کا، اس حد تک اندازہ نہیں تھا۔ ” زریون نے پہلی بار خلوصِ دل سے سچائی کو تسلیم کیا۔ اس ساری صورتحال نے اس کے اعصاب کو واقعی ب�±ری طرح متاثر کیا تھا۔ اس کا خیال تو یہ رہا تھا کہ اگر کہیں مرشد لوگوں کے ساتھ پھڈا پڑ بھی گیا تو دو چار ہوائی فائر ہوں گے یا پھر زیادہ سے زیادہ کسی کے ہاتھ پیر پر گولی مارنی پڑے گی اورقصہ ختم لیکن…. ادھر تو قیامت پر قیامت ٹوٹی پڑ رہی تھی۔ اس کے ساتھ آنے والے تو پہلے ہی ہلّے میں اپنی جانیں تک گنوا بیٹھے تھے۔

مرشد کو اچانک کسی تبدیلی کا احساس ہوا…. فائرنگ کی شدت میں کچھ ردوبدل ہوا تھا۔ وہ فوراً جعفر اور خنجر کے قریب جا پہنچا.۔اوپر موجود چوہدری کے پالتو کتے اب بھی فائرنگ کر رہے تھے لیکن اب یکایک ان کی فائرنگ کا رخ تبدیل ہو گیا تھا۔ لہجوں اور آوازوں کی ٹون بھی بدل چکی تھی۔

 "ادھر…. اس طرف….”

” گلشن….ادھر ممٹی کی طرف۔ "

 "چھوڑنا نئیں…. کو۔ "

 ” ان کی ماں کی…….. ” اوپر ایک بھگدڑ، ایک افراتفری سی مچ گئی تھی۔

 ” انہیں کیا ہو گیا ؟ ” مرشد متعجب ہوا۔ جعفر اور خنجر بھی کان اوپر کی طرف لگائے حیران حیران سے کھڑے تھے۔

 ” کوئی رولا ہے استاد! بغلی طرف کی چھتوں پر سے فائرنگ کی آواز آ رہی ہے…. غور سے سنو ذرا۔ ” جعفر کے لب و لہجے میں امید سنسنائی۔وہ درست کہہ رہا تھا…. اوپر دو طرفہ فائرنگ شروع ہو چکی تھی۔ دائیں طرف کی چھتوں پر سے پانچ، چھ رائفلیں بڑے موثر اور منظم انداز میں چوہدری کے کتوں کی فائرنگ کا جواب دے رہی تھیں۔

 ” کون لوگ ہو سکتے ہیں؟ "

 ” شاید ٹیپو….“

 "پھر تین رائفلیں ہونی چاہیے تھیں۔ ” مرشد نے فوراََ کہا۔

 "ادھر کونے میں کیا ہوا ہے؟ ” خنجر نے پوچھا۔

 "یہ حرام کے نطفے ادھر بھی ہتھوڑے برسا رہے ہیں۔ ادھر سے کونے میں نقب لگا رہے ہیں۔“جعفر نے سامنے کے رخ برسٹ فائر کیا۔مرشد خنجر کو ہٹاتے ہوئے خود آگے بڑھا۔

 ” ادھر کی کیا صورتحال ہے۔ کمرے میں گھسا کوئی؟”

 "ابھی تک تو نہیں استاد! ایک…. کا بیج اس کوشش میں گولی کھا کر گِرا بھی ہے۔ اسے پیچھے کھینچ لیا ماں کے چھنکنوں نے۔ "

 ” گولیاں کتنی ہیں؟ "

 "ستر، اسّی ٹرپل ٹو کی اور باقی جو…. اس بیگ میں ہیں۔ تمہاری رائفل کی۔ "

 ” خنجر! اس کا میگزین لوڈ کرو۔ ” مرشد نے اپنی رائفل اسے تھمائی اور اس کے ہاتھ سے ٹرپل ٹو لے لی۔ دیوار کے ساتھ دھرے کینوس کے شولڈر بیگ میں سیون ایم ایم کے ڈیڑھ سو راونڈ موجود تھے۔ سامنے کی ڈیوڑھی اور راہداری میں ہلچل تھی۔ وہاں کونے سے بار بار ان پر فائرنگ کی جا رہی تھی۔

سامنے کے رخ ،دائیں کونے کے اندھیرے میں کہیں پڑی بڑھیا روئے جا رہی تھی اور چوہدری بھونکے جا رہا تھا لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کر رکھا تھا۔

خنجر بولا۔ "ادھر کونے میں بھی روشن دان ک�±ھل گیا تو ہم ان پوزیشنوں پر نہیں ٹھہر سکیں گے۔“

 "تم ادھر نظر رکھو۔ جیسے ہی سوراخ بنے اس میں چوہدری کا سر پھنسا دینا۔ "

اچانک فائرنگ کے شور میں گنبد کے قریب ایک قلق انگیز طویل چیخ بھری اور دھڑام کی بھاری آواز کے ساتھ نیچے آ گری۔ وہ ایک ہٹا کٹا مچھندر تھا۔بائیں طرف کی پسلیوں میں پورا برسٹ لگا تھا۔ دو، تین پسلیاں ٹوٹنے کے بعد پہلو کا گوشت پھاڑ کر نیزوں کی انیوں کی صورت باہر نکل آئی تھیں۔

گنبد کے ملبے پر کمر کے بل دھڑام سے گرنے کے بعد وہ لڑھک کر جعفر اور مرشد کی نظروں کے عین سامنے آ پڑا تھا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ہی جان کنی کی آخری چند خرخراہٹیں اس کے خون آلود ہونٹوں پر سسکیں، تڑپیں اور پھر اس کے وحشت زدہ سفید سفید ڈھیلے پھیل کر ساکت ہو گئے۔اس کا حلیہ اور شکل و صورت صاف بتا رہی تھی کہ وہ چوہدری ہی کے کارندوں میں سے کوئی ایک ہے۔

اس کی زندگی چاٹ جانے والی گولیوں کی یہ اندھی باڑ نجانے کس مہربان رائفل کی نال سے نکلی تھی اور پتا نہیں وہ رائفل کس سجن ساتھی یا کس مہان ہستی کے ہاتھوں میں تھی…. یہ تو کنفرم ہو گیا تھا کہ ارد گرد چوہدریوں کے کچھ جانی دشمن موجود ہیں جو پوری بہادری سے خم ٹھونک کر ان کے 

خلاف صف آرا ہو چکے تھے۔ دھیان بار بار ٹیپو کی طرف جاتا تھا بہرحال وہ جو کوئی بھی تھے ان حالات میں مرشد اور اس کے ساتھیوں کے لیے تو دوستوں ہی کی جگہ تھے۔

مرشد اور جعفر کا دھیان ایک ذرا ہٹا تھا کہ سامنے سے فائرنگ کی گئی اور ساتھ ہی ایک سایہ سا ڈیوڑھی سے اڑتا ہوا کمرے میں اوجھل ہو گیا۔ مرشد نے اوٹ لیتے ہوئے فوراً جوابی برسٹ فائر کیا تھا۔گو کہ اسے ایک معمولی سی جھلک ہی دکھائی دی تھی لیکن یہ بات یقینی تھی کہ کوئی نہ کوئی ڈیوڑھی سے کمرے میں داخل ہو آیا تھا…. یعنی دشمن پیش قدمی میں ایک قدم مزید آگے بڑھ آیا تھا۔خنجر میگزین لوڈ کرتا ہوا دائیں کونے کی طرف کھسک گیا۔

 "ایک بندہ کمرے میں پہنچ آیا ہے۔ ” مرشد بولا۔

 "اگر ہم ڈٹے رہے تو شاید کوئی بہتری کی راہ نکل آوے…. یہ لاش بڑی امید دلا رہی ہے استاد! ” جعفر نے کہا۔

مرشد نے بھنو اچکا کر اس کی طرف دیکھا۔

 "خنجر کا اثر پڑ رہا ہے …. لاش سے امیدیں مل رہی ہیں تجھے۔.”

 "ہمارے سجن ساتھی نہ سہی ،چوہدری ٹولے کے دشمن ہی سہی.۔اوپر والوں کو تو اپنی پڑ چکی ہے نا!”

اوپر واقعی دو طرفہ فائرنگ ہنوز جاری تھی۔مرشد رائفل کی نال ،خلا کی دیوار سے ٹکائے نشانہ سادھے بیٹھا تھا۔ سامنے موجود ڈیوڑھی کے اس پار، کمرے کے خلا سے سیدھا اس کونے کا ،جہاں وہ کمرہ اور سامنے کی ڈیوڑھی آپس میں متصل ہوتے تھے۔ ہلکی سی جھلک پر بھی وہ ٹریگر دبا دیتا تھا۔ خود وہ پوری طرح دیوار کی اوٹ میں تھا۔ بس اس کی آدھی پیشانی اور ایک آنکھ اوٹ سے باہر تھی۔

 "بس اپنے پاس گولیاں کم ہیں…. پریشانی والی یہی ایک بات ہے۔ ” جعفر نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔ وہ دوسری طرف سے اوپر کی طرف نظر رکھے ہوئے تھا۔

مرشد نے کہا۔ "میرا خیال تھا کہ ان کا چوہدری ہمارے قبضے میں ہے تو یہ محتاط رہیں گے لیکن انہیں تو شاید اس بھڑوے کی زندگی موت سے کوئی سرو کار ہی نہیں ہے! "

 "نہیں ہے تو پھر اس کا بھونکنا کیوں سنے جاویں ہیں ہم؟ کھوپڑے میں گولی مار کر قصّہ پاک کرتے ہیں حرام زادے کا۔ "

ا�±سی وقت سامنے والے کمرے کے خلا میں حرکت ظاہر ہوئی تو مرشد کی رائفل نے قہقہ اگلا…. وہ ایک گلاس تھا…. پیتل کا گلاس جو کمرے کے اندر موجود شخص نے اچھالا تھا…. گلاس سیدھا ان دونوں کے پیروں میں آ کر گرا اور ٹن ٹنا ٹن ٹن…. آگے کو لڑھکتا چلا گیا۔راہداری کی طرف سے فائرنگ رکی ہوئی تھی البتہ اوپر چھتوں پر جاری تھی۔ باہر گلی میں بھی شور شرابہ اور آوازیں تھیں۔چند لمحے کے بعد سامنے والے خلا سے پھر کوئی چیز اچھال کر پھینکی گئی…. یہ سلور کا ایک کٹورا تھا۔ گلاس ہی کی طرح وہ بھی ان کے پیروں کے قریب ہی آ کر گرا تھا۔

جعفر درشتی سے پکارتے ہوئے بولا.

 "یہ اپنی بے بے کا جہیز کیوں پھینک رہے ہو…. گولیاں چلاو…. کچھ دیر اور گولیاں چلاو۔ ہم بھی تمہارے چوہدری کے کھوپڑے میں گولی ماریں گے پھر…. چلاو بہن کے چھلاوو….”

کونے سے چوہدری دھاڑا۔ "میری پروا نئیں کرنا اوئے…. ان…. میں سے کسی کو بچنا نئیں چاہیے۔ ڈکرے کرنے ہیں سب کے…. ڈکرے…. "اب کی بار خلا سے ایک زنانہ چپل اچھالی گئی جو دیوار سے ٹکرا کر ڈیوڑھی میں پڑی لاش کے چہرے کے قریب گری۔پہلے گلاس، پھر کٹورا اور اب یہ زنانہ چپل…. فائرنگ بھی ر�±کی ہوئی تھی۔ سامنے کی طرف یوں خاموشی چھا گئی تھی جیسے ادھر موجود سب ہی افراد نے یکایک دم سادھ لیا ہو…. مگر کیوں؟

مرشد کو فوراً کسی غیر معمولی تبدیلی کا احساس ہوا۔ پسلیوں کا درد جیسے اچانک دل بن دھڑکا۔چند لمحے گزرے ہوں گے کہ کمرے میں موجود شخص نے پھر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ اس بار تام چینی کی پیالی ان کے قدموں کے قریب آکر ایک چھناکے سے ٹوٹی تھی۔ اس کے پیچھے ہی ایک چمچ آیا اور پھر ایک سیرپ کی شیشی…. یہ تو بالکل عجیب اور غیر معمولی رویہ تھا…. مرشد کے حواس کچھ مزید چوکنا ہو گئے۔ایک ذرا جعفر نے بھی متعجب نظروں سے مرشد کی طرف دیکھا پھر بآوازِ بلند بولا۔

 "یہ ہمارے محلے کی کنجریوں والے لچھن نہ دکھاو…. تمہارے قریب ہی اے ایس پی کی لاش پڑی ہے۔ اگر اپنے چوہدری کو اس طرح لاش کی شکل میں نہیں دیکھنا چاہتے تو سب کے سب پیچھے ہٹ جاو�¿…. اس چار دیواری سے باہر دفعہ ہو جاو�¿۔ "

جواب میں ایک چمچ اڑتا ہوا آیا اور خلا کے کونے سے ٹکرا کر گر گیا۔

 ” چوہدری نفرت و حقارت سے چیخا۔ "چوہدری تمہاری لاشوں پر ناچے گا…. صبح تک تمہارا گوشت کتے کھا رہے ہوں گے…. پرویزے، گلشن، سانگھا…. مارو، چھلنی کر دو ان…. "

 ” جعفر! ” مرشد سرد لہجے میں بولا۔ ” گھسیٹ لا اس کتے کی شکل والے سوّر کو۔ “اس کا اشارہ پاتے ہی جعفر ایک جھٹکے سے چوہدری کی طرف پلٹ گیا۔ وہ تو کتنی دیر سے منتظر تھا۔ چوہدری نے مسلسل غلاظت اگل اگل کر اس کادماغ خراب کر رکھا تھا۔چوہدری نے گھائل ٹانگ اور پشت پر بندھے ہاتھوں کے باوجود اس کے ساتھ الجھنے کی کوشش کی تو اس نے پہلے چند بھرپور اور بے رحم ٹھوکروں سے چوہدری کی مزاج پرسی کی اور پھر گھسیٹ کر داخلی خلا کے قریب لے آیا۔

 "یہ لو…. یہ رہا تمہارا چوہدری! گولی چلاو اور مار مکاو اس کھوتے کے بچے کو۔“ جعفر نے چوہدری کو گھٹنوں کے بل بٹھا کر خلا کے سامنے دھکیلتے ہوئے گرج دار آواز میں کہا تو جواباً سامنے والے کمرے سے ہنسنے کی آواز بلند ہوئی…. ہنسنے والا یقیناً بلند آہنگ آواز میں ہنسا تھا لیکن ان کے کانوں تک بہت مدھم آواز پہنچی تھی…. آواز مدھم تھی لیکن اس میں سے چھلکتا ہوا زہریلا پن بہت واضح اور بلند تھا۔ شور کرتا ہوا…. چیختا ہوا۔

مرشد کے رگ وپے میں ایک لہر سی دوڑ گئی. اعصاب میں بے چینی کی شدت نے ایک اینٹھن سی جگا دی. دماغ میں ایک ساتھ جیسے کئی الارم چیخ اٹھے تھے۔ سامنے والے کمرے میں موجود شخص فولادی اعصاب کا مالک ہے…. موت سے بے خوف….. خطرے سے لطف اٹھانے والا۔ ٹھنڈے دل و دماغ اورمضبوط قوتِ ارادی کا حامل اور وہ ایسے صرف ایک ہی بندے کو جانتا تھا اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر کلبلا کر رہ گئی۔

*    *    *                                                                        

اس دل چسپ اور سنسنی خیز داستان کو آگے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے