قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا
مرشد
شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
Murshid Urdu Novel |
مرشد خنجر کی اس چالاک شرارت کو سمجھ گیا تھا البتہ فیروزہ کا یوں آسانی سے ٹل جانا اسے تھوڑا عجیب لگا تھا… اسے
عجیب لگا تھا لیکن حجاب کو نہیں۔ اس کی خنجر اور فیروزہ دونوں کے ساتھ تفصیل سے بات چیت ہو چکی تھی۔ وہ مرشد کے متعلق ان کے جذبات و احساسات سے پوری طرح آگاہ و واقف تھی۔ وہ بخوبی سمجھ رہی تھی کہ وہ دونوں دانستہ انہیں موقع اور ماحول فراہم کر رہے ہیں۔ دونوں جانتے تھے کہ حجاب مرشد سے بات کرنا چاہتی ہے اور یہ بھی جانتے تھے کہ وہ بات کیا ہے؟ کتنی اہم، حساس اور ضروری ہے۔ دونوں ہی یہ بھی چاہتے تھے کہ حجاب پوری سنجیدگی سے مرشد کے ساتھ بات کرے۔ اسے سمجھائے اور کچھ خاص خاص باتوں کا پابند بھی ٹھہرائے، سو دونوں کھسک گئے تھے اور اپنے ساتھ ٹیپو کو بھی لپیٹ لے گئے تھے۔
"سرکار! آپ بیٹھ جائیے نا! ” مرشد نے جیسے التجا گزاری تھی۔ وہ محض چند قدم کے فاصلے پر اس کے سامنے کھڑی تھی لیکن اندھیرے کے باعث پوری وضاحت سے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
"آپ کیوں کھڑے ہیں؟”
"آپ جو کھڑی ہیں۔.” حجاب فوری طور پر کچھ بول نہیں سکی البتہ آہستہ سے ماچے کے کنارے بیٹھ گئی۔
” آپ کی پسلیوں والا درد کیسا ہے اب؟”
"وہ بھی ٹھیک ہے۔ دو، تین دن سے تو بالکل بھی نہیں ہوا.”
"اب آپ بھی بیٹھ جائیں اور… درد سچ میں نہیں ہے یا صرف میری تسلی کے لیے ایسا بول رہے ہیں۔.” حجاب نے ک�±ریدا، مرشد ایک ذرا ہچکچا کر پائنتی کی طرف یونہی…. ٹکنے والے انداز میں بیٹھ گیا۔
” اللہ اللہ سرکار! حق با حق کہہ رہا ہوں۔ آپ کے سامنے تو جھوٹ اور غلط بیانی کا تصور بھی نہیں کر سکتا میں۔ ” اس کے لہجے میں بیکراں خلوص کی شدت تھی ۔
"بہرحال ابھی چند روز مزید آپ کو مکمل احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ دواو�¿ں وغیرہ سے بالکل بھی لا پروائی نہ کیجیے گا۔ وقت، وقت پر ساری دوائیں لیتے رہیں۔ "
” جی سرکار! جو حکم , بندہ دل و جان سے تعمیل کرے گا۔.” اس کے انداز میں کچھ مزید خوش دلی شامل ہو آئی۔ ایک م�±سرت اس کے لب و لہجے سے چھلکی پڑ رہی تھی۔خود مرشد کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ اس کا موڈ مزاج بالکل ڈرامائی انداز میں اچانک ہی تبدیل ہو گیا ہے۔ اب سے کچھ ہی دیر پہلے تک وہ گہری ا�±داسی محسوس کر رہا تھا اور اب اچانک ہی اس کا اندر ایک سحر خیز خوشی سے بھر آیا تھا۔ چکی کی جو آواز تھوڑی دیر پہلے تک فضاو�¿ں میں ایک گہری یاسیت پھونک رہی تھی وہی آواز اب اچانک دل میں گد گداہٹیں جگا دینے والے کسی مدھر ساز میں بدل چکی تھی۔ اندھیرا جیسے زندہ ہو کر ایک ریشمی لمس میں تبدیل ہو گیا تھا اور ہوا میں ایک ایسی جاں فزا شناسا خوشبو آ گ�±ھلی تھی جو حواسوں پر ایک طلسم، ایک سحرطاری کرتی تھی۔
مرشد اس ہوش ربا خوشبو سے خوب واقف تھا… کچھ دیر پہلے بھی اسے اس خوشبو کی یاد آرہی تھی…. عودو عنبر کی سی یہ خوشبو حجاب کی ذات سے نسبت رکھتی تھی۔ یہ خوشبو اس کے بالوں، اس کی سانسوں، اس کے کپڑوں سے پھوٹ رہی تھی۔ یہ اس کی ذات کا حصّہ تھی۔ شاید…. شاید یہ اس کے وجود کی گہرائیوں میں، اس کی روح سے اٹھتی تھی اور اس کی پوری ذات کے ساتھ ساتھ اس کے ارد گرد کے ماحول کو بھی مہکا دیتی تھی، یوں مسحور کرتی تھی کہاپنا اسیر کر لیتی تھی اور مرشد…. مرشد تو کب کا اسیر چلا آ رہا تھا۔
دوسری طرف حجاب اپنی جگہ محجوب سی بیٹھی تھی۔ اب سے پہلے تک اس نے کتنا سوچا تھا۔ خود کا کتنا حوصلہ بندھایا تھا کہ اسے مرشد کے ساتھ ک�±ھل کر تفصیل سے بات کرنی ہے۔ سمجھانا ہے اسے کہ ایک انہونی اور لاحاصل خواہش کی پرورش کرنا ترک کر دے.. اپنے ان جذبوں کو کلیجے کا لہو پلانا چھوڑ دے جنہوں نے ہمیشہ نا مراد رہنا تھا۔
گزشتہ تین، چار دنوں میں اس نے سوچوں، خیالوں کے کئی پل صراط پار کیے تھے۔ دن رات سوچ بچار کی تھی۔ فیروزہ اور خنجر کے ساتھ بھی ان ہی دنوں تفصیلی بات ہوئی تھی۔ ایک مسلسل کشمکش اور بے چینی اسے چمٹی رہی تھی اور آخر کار اس نے خود کو اس بات پر آمادہ و تیار کر لیا تھا، مضبوط ارادہ باندھ لیا تھا کہ وہ مرشد سے خود ہی بات کرے گی۔ اسے سمجھائے گی، راہِ راست دکھائے گی اور ہو سکا تو اسے کسی دوسرے اور درست راستے پر چلنے کا پابند بھی ٹھہرائے گی مگر اب….اب ان لمحوں مرشد کے سامنے پہنچ کر اس کی اندرونی حالت عجیب ہونے لگی تھی۔
اس اچھے اور مہربان بد معاش کے لب و لہجے میں بولتے جذبوں کی شدتیں اور وارفتگیاں اسے اندر تک سے جھنجھوڑ گئی تھیں…. سارے فیصلے اور ارادے ڈگمگا کر رہ گئے تھے۔ وہ اندر ہی اندر ایک بوکھلاہٹ اور پریشانی کا شکار ہو رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مرشد جی کے لہجے میں یہ کیسی تاثیر، کیسا جادو ہے جو دل کے تاروں تک کو جھنجھوڑ جاتا ہے؟ دھڑکنیں تلپٹ کر دیتا ہے۔
اسے سمجھ نہیں آرہی تھی…. یا شاید وہ سمجھنا چاہتی ہی نہیں تھی…. بہرحال ان لمحوں اس کی ذہنی و جذباتی حالت نہایت دگرگوں اور عجیب ہو رہی تھی۔ چند لمحے کی خاموشی کے بعد مرشد ہی نے بولنے میں پہل کی۔
"ایک بات بتاو�¿ں سرکار! ". اس کا انداز مودب اور لہجہ شرارت آمیز شوخ تھا۔
"جی! کیا؟ "
"آپ روتی ہوئی بھی اچھی لگتی ہیں۔.” وہ کئی بار روئی تھی…. وقفے وقفے سے روتی ہی آ رہی تھی لیکن مرشد کی بات پر اس کا دھیان سیدھا ان لمحات کی طرف گیا جب مرشد خون میں لت پت اس کے سامنے جیپ کے فرش پر پڑا تھا اور جیپ برستی بارش اور تاریک رات میں چناب والے ریسٹ ہاو�¿س سے شہر کی طرف دوڑی جا رہی تھی تب مرشد کی لمحہ لمحہ بگڑتی حالت دیکھ کر خودبخود ہی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تھے۔ اس بات کو لگ بھگ مہینہ ہونے والا تھا اور ایک طرح سے ان لمحوں کے بعد یہ ان کی پہلی باقاعدہ ملاقات تھی۔ قریب قریب ایک ماہ بعد وہ یوں سکون سے اکٹھے بیٹھے تھے۔
"ہم نے اب آگے کیا کرنا ہے؟” وہ اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے سوال انداز ہوئی۔
"جو آپ حکم کریں۔”
"ہو سکتا ہے پھوپھا جی بھی یہاں پہنچ آئے ہوں۔ کسی طرح ان تک اطلاع پہنچانے کی کوشش کی جائے۔” مرشد کو جیسے کسی نے خواب میں سے جھنجھوڑ دیا۔ وہ قدرے سیدھا ہو بیٹھا۔
” ہاں جی! ہو تو سکتا ہے…. کوشش کر کے اطلاع پیغام بھی پہنچایا جا ہی سکتا ہے…مگر اطلاع پہنچانی کیا ہے؟. "
” میرے بارے میں کہ…. میں یہاں ہوں۔”
” یہاں! یعنی اس ڈیرے، اس باغ میں…. تو وہ یہاں پہنچ آئیں گے پھر…. “آخر میں اس کا انداز خود کلامی جیسا ہو گیا۔ ذہن جذبات کے سحر ساگر سے پوری طرح باہر آ کھڑا ہوا۔ اسے احساس ہوا کہ کچھ دیر کے لیے وہ تمام بے رحم حقیقتوں اور سنگینیوں کو فراموش کر بیٹھا تھا۔
"پھر کیا ؟” وہ الجھی ۔ ”پھر سارا کچھ وہ سنبھال لیں گے۔ آپ کے لیے بھی خطرات کم ہو جائیں گے۔ میں…. میں آپ کے بارے میں بتاو�¿ں گی انہیں۔ وہ آپ کی بھی مدد کریں گے۔”
"نہیں سرکار! میرے بارے میں آپ کچھ نہیں بتائیں گی۔ "
"مجھے آپ کی یہ بات پہلے بھی ٹھیک نہیں لگی تھی اور اب تو اسے راز رکھنے کا کوئی مطلب ہی نہیں بچتا…. زریون آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں نا؟ "
مرشد کو چ�±پ لگ گئی۔ یہ بات بھی اس کے ذہن ہی سے نکلی ہوئی تھی کہ اس کی بے ہوشی کے دوران کلینک میں زریون پہلے ہی سارے معاملے، سارے قصے سے واقف ہو چکا تھا۔
وہ بڑبڑایا۔.” یہ ٹھیک نہیں ہوا…. ایسا نہ ہوا ہوتا تو اچھا تھا۔ "
” جھوٹ کو نبھانا تو د�±ور میرے لیے جھوٹ بولنا بھی جان جوکھم کا کام ہے۔ اس لیے جو ہوا ٹھیک ہی ہو گیا۔.” حجاب نے رواں لہجے میں کہا۔ مرشد نے بے اختیار اس کی طرف دیکھا۔ وہ قدرے آرام سے بیٹھ چکی تھی۔ کچھ دیر پہلے والی گھبراہٹ اور جھجھک پر اس نے تقریباً قابو پا لیا تھا۔
” زریون ہو سکتا ہے خفا ہوں۔ مجھ سے بھی اور آپ لوگوں سے بھی… انہوں نے مجھے وہیں انتظار کرنے کو کہا تھا۔.” اندر کی پریشانی بے ارادہ ہی ہونٹوں تک چلی آئی۔ مرشد کو لگا کہ اندھیرا تھوڑا گھاڑا ہو گیا ہے اس نے یوں ا�±وپر کی طرف دیکھا جیسے آسمان پر بادلوں کی صورتحال کا جائزہ لینا چاہ رہا ہو۔ سر پر بھی گھور سیاہ چادر تنی تھی۔
وہ سنجیدگی سے بولا۔ ” خنجر اور جعفر کا فیصلہ مناسب نہ سہی لیکن تھا درست…. زریون سرکار جذباتی طبیعت کے مالک ہیں۔ مزاج کچھ اور طرح کا ہے ان کا، انہوں نے زمانے کے گرم سرد نہیں دیکھے… وہ آپ کے ساتھ خود کو بھی کسی بڑی مصیبت میں پھنسا لیتے۔“
"وہ بچپن ہی سے ایسے ہیں تھوڑے غصیلے اور جذباتی مگر دل کے ب�±رے نہیں ہیں۔. "
اس نے جیسے لاشعوری طور پر زریون کے دفاع کی کوشش کی تھی۔ مرشد خاموش رہا۔ وہ تھوڑا حیران تھا کہ یکایک اسے گھٹن سی کیوں ہونے لگی ہے؟
حجاب کو محسوس ہوا کہ شاید اس کی بات مرشد کو اچھی نہیں لگی… شاید اسے یہ جملہ نہیں بولنا چاہیے تھا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مرشد نے کہا۔
"میں باسط کے ذمے لگاتا ہوں کہ وہ کوئی اگ سگ نکالے آپ کے پھوپھا جی کی…. اگر وہ اسی شہر میں ہوئے تو ان تک پیغام بھی پہنچ جائے گا لیکن…. اگر وہ یہاں نہ آئے تو؟”
"تو…. تو کوشش کی جائے کہ بلوچستان فون پر انہیں پیغام دے دیا جائے۔”
"وہاں تو پھر ہم جا ہی رہے ہیں۔ دو، چار دن میں نکلتے ہیں ادھر سے۔ "
” آپ کو ابھی آرام کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی میں…. نہیں چاہتی کہ آپ کے لیے مزید مشکلات اور پریشانیوں کا باعث بنوں۔ آپ خود کو میری وجہ سے دوبارہ کسی خطرے میں ڈالیں۔ "
” مشکل اور پریشانی بھلا کیسی سرکار! میں تو اس سب سے خوب مزے اٹھا رہا ہوں۔ یہ…. تھوڑا زخمی ہونے کی وجہ سے ہمیں یہاں رکنا پڑ گیا اس کے لیے معذرت۔ آگے انشاءاللہ نان سٹاپ سفر جاری رکھیں گے اور…. جب آپ حکم کریں ،ادھر سے چل پڑتے ہیں۔ "
ایک ذرا توقف سے حجاب نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
” آپ پہلے ہی کافی فاصلہ طے کر آئے ہیں۔ اب آپ کو واپسی کا سوچنا چاہیے۔ ” موضوع کچھ اور تھا مگر وہ سوچ کسی اور تناظر میں رہی تھی اور بول بھی اسی تناظر میں رہی تھی۔ ” پیچھے خالہ کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہیں جنہیں آپ کی ضرورت ہے۔ جو آپ کی راہ تک رہے ہوں گے۔“
” ہاں جی! میں نے واپس ان ہی میں لوٹنا ہے لیکن اگر یوں بیچ راستے سے لوٹ گیا تو وہ سب ہی بھگوڑا بولیں گے مرشد کو…. بڑی بے عجتی خراب ہو جاوے گی اور وہ…. آپ کی خالہ صاحبہ! اس نے پتا ہے کیا کہنا ہے؟ اس نے کہنا ہے کہ ایسے راستے میں سے کیوں پلٹ آیا…. ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آتا۔“ مرشد نے خوشگوار انداز میں اماں کے لہجے کی نقل ا�±تاری۔ اسے جیسے کسی بات کی کوئی پرواہ، کوئی فکر ہی نہ تھی!
” کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ وہ سب لوگ جانتے ہیں آپ کو…. آپ کی ذات پر حرف نہیں آئے گا۔. "
” حرف تو میں کبھی آنے بھی نہیں دوں گا سرکار! چاہے گردن کا بوجھ کم کرانا پڑ جائے…. میں کبھی کسی کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دوں گا اس طرف سے تسلی رکھیں آپ….” وہی پر اعتماد اور ٹھوس انداز۔ دل پر رعب طاری کرتا ہوا۔
” پھر بھی…. اب آپ کو واپسی کا سوچنا چاہیے…. یہ آسان کام نہیں ہو گا لیکن…. اگر آپ نے اس راستے پر مزید سفر جاری رکھا تو واپسی کا سفر اور بھی مشکل اور طویل ہو جائے گا۔ آپ بس اب یہاں سے واپس پلٹ جائیں اور جب تک حالات بہتر نہیں ہو جاتے ،تب تک کے لیے کہیں روپوش ہو جائیں۔ "
تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
یہ جانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو
مرشد کی زبان سے بے ساختہ ہی شعر پھسلا تھا۔ اس کے لہجے میں کچھ ایسا غیر معمولی تاثر تھا کہ حجاب کی دھڑکنیں گڑبڑا گئیں۔ مرشد کو خود بھی شعر کہہ چکنے کے بعد شعر کی معنویت اور اپنے لہجے کا احساس ہوا۔ وہ فوراً ہلکے پھلکے انداز میں وضاحت انداز ہوا۔
"بس ایسے ہی یاد آ گیا۔ یونہی…. عمدہ شعر ہے۔ باقی…. میری طرف سے بالکل مطمئن رہیں آپ! میرے لیے اب سفر اور منزل ایک برابر ہے۔ مجھے کہیں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ آپ ذہنی طور پر خود کو تیار رکھیں۔ میں ٹیپو اور جعفر خنجر کے ساتھ صلاح مشورہ کر لوں پھر نکلتے ہیں ادھر سے۔ "
” آپ کہیں نہیں نکل رہے۔ آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ کم از کم دس پندرہ دن مزید آپ یہیں آرام کریں گے۔ "
” جی بہتر، جو حکم! "اس نے فوراً سعادت مندی کا اظہار کیا۔
” کسی طرح پھوپھا جی کا پتا کرائیں۔ وہ یہاں نہ ہوں تو پھر زریون تو یہیں ہیں میرے متعلق ان تک اطلاع پہنچا دیں۔ وہ آکر مجھے لے جائیں گے۔ "
” اور آپ ان کے ساتھ چلی جائیں گی؟ "
” ظاہر ہے …. مجھے جانا ہے۔ کلینک میں اگر آپ بے ہوش نہ ہوتے, آپ کی طرف سے تسلی ہوتی تو میں تب ہی ان کے ساتھ چلی گئی ہوتی۔ مجھے چلے ہی جانا چاہیے تھا۔ "آخری جملہ اس نے خود کلامی والے انداز میں کہا۔مرشد اس کے تاثرات دیکھ سکنے سے قاصر تھا مگر وہ سمجھ رہا تھا کہ اس کی سرکار الجھن و پریشانی کا شکار ہے۔وہ دونوں ماچے کے مخالف کونوں پر بیٹھے تھے۔ جیسے دو مخالف قطب…. دو د�±ور کے ستارے…. ان کے بیچ آٹھ دس فِٹ کا فاصلہ تھا اس کے باوجود مرشد حجاب کی اس موجودگی کو پوری شدت سے محسوس کر رہا تھا۔ وہاں…. باغ کے اس حصے میں…. اس ماچے پر گویاصرف وہی موجود تھی۔ باقی سارا ماحول، منظر اور موسم، سب کچھ جیسے اس کی موجودگی کے پس منظر میں دھندلا چکا تھا۔ بس وہ وہاں بیٹھی تھی اور عودو عنبر کی سی ایک بے مثل مہک تھی جو اس کے اطراف کے سارے ماحول کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے تھی۔ مسحور کیے ہوئے تھی۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا اسی ملائمت سے فضا میں بہہ رہی تھی۔
پھر اس سے پہلے کہ ان دونوں میں سے کوئی کچھ کہتا، بولتا، سلطان چائے لے کر پہنچ گیا۔ وہ بھاپ اڑاتی پیالیاں انہیں تھما کر چلا گیا تو مرشد بولا۔
"آپ کے پھوپھا کی بات الگ ہے۔ ان سے سامنا یا ملاقات ہو جائے تو پھر تو سوچا جا سکتا ہے کہ میں آپ کو ان کے سپرد کر دوں مگر زریون سرکار…. ا�±ن کی بات دوسری ہے۔ ا�±ن کی طرف سے میں مطمئن نہیں ہو سکتا۔” اس کے لہجے میں سنجیدگی در آئی۔
"مگر میں مطمئن ہوں۔” حجاب نے دل کڑا کرتے ہوئے تیز لہجے میں کہا. ” میری آگے کی ساری زندگی کی ذمہ داری ان ہی کے سر ہونی ہے تو پھر ابھی اور یہیں سے سہی ۔”اس نے اپنی دانست میں جیسے مرشد پر واضح کر دیا کہ وہ اس کی زندگی بھر کی زمہ داری نہیں ہے۔ اسے کہیں اور زندگی گزارنی ہے، کسی اور کے ساتھ، کسی اور کی رفاقت میں۔
ہونا تو نہیں چاہیے تھا پھر بھی مرشد کو اپنے کلیجے میں درد سا محسوس ہوا۔ دل میں س�±وئی سی چھبی تھی۔ حجاب جو کچھ کہنے آئی تھی، جو کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ وہ کھل کے کہہ نہیں پا رہی تھی۔ کچھ اس کا اپنا اندر اسے اجازت نہیں دے رہا تھا۔ مناسب الفاظ اور انداز سمجھ نہیں آ رہا تھا اور کچھ یہ خیال اس کے گلے کا پھندہ سا بن گیا تھا کہ کہیں اس کی کسی بات، کسی جملے سے مرشد کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ وہ اسے د�±کھ نہیں پہنچانا چاہتی تھی۔ د�±کھ پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ لیکن… اسی کی ذات کے حوالے سے مرشد آنے والے وقت میں دکھی ہو، اس کے کلیجے کو کوئی روگ لگے یہ بھی اسے ہر گز گوارا نہیں تھا۔
مرشد سمجھ رہا تھا…. وہ ک�±ھل کے کہہ نہیں پا رہی تھی پھر بھی…. وہ اس کی ذہنی و جذباتی حالت کو بھی سمجھ رہا تھا اور یہ بھی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے۔ کیا بات ہے جو وہ کرنا تو چاہتی ہے مگر کر نہیں پا رہی۔ مرشد نے اس کی مشکل آسان کر دینے کی نیت سے براہ راست سوال اٹھایا۔
"آپ کچھ کہنا چاہ رہی ہیں شاید۔“ وہ سر جھکائے خاموش بیٹھی اپنی انگلیاں مروڑتی رہی۔ مرشد چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر سر جھکاتے ہوئے گہری سنجیدگی سے بولا۔
"آپ پریشان نہ ہوں۔ میری ذات کبھی آپ کے لیے کسی مشکل یا پریشانی کا باعث نہیں بنے گی۔.”
"جانتی ہوں میں۔”
” تو پھر اور کیا پریشانی ہے؟”
"آپ کی ذات آپ کے اپنے لیے پریشانی کا باعث بنی تو وہ بھی میرے ہی لیے اذیت ہو گی…. میں خود کو آپ کا مجرم محسوس کرتی رہوں گی۔. "
” ایسا کچھ کیوں ہو گا اور آپ مجرم کس بات کی ہوں گی؟ "وہ متعجب ہوا۔ ” آپ نے میرا کیا بگاڑا ہے بھلا…. بلکہ آپ کا تو ا�±لٹا میں مقروض و ممنون ہوں، شکر گزار ہوں کیونکہ آپ کی بدولت مجھے زندگی کے کچھ نئے پہلوو�¿ں سے تعارف حاصل ہوا ہے۔ زندگی پہلے سے زیادہ اچھی اور خوبصورت لگنے لگی ہے مجھے۔ "
” اسی سب کی تو پریشانی ہے مجھے آنے والے دنوں میں اسی تعارف کو کہیں آپ اپنے لیے کوئی روگ نہ بنا لیں، یہی زندگی آپ کو ب�±ری اور بد صورت نہ لگنے لگے۔ میں کسی کو دکھ نہیں پہنچا سکتی، دکھ تکلیف میں دیکھ بھی نہیں سکتی۔ میرے ہاتھ بس میں کچھ بھی نہیں۔ میں کسی کے لیے کچھ کر بھی نہیں سکتی۔ مجھے اپنا، اپنی زندگی کا بھی کچھ پتا نہیں کیسے گزرنی ہے۔ میں…. میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں۔ میرے دل میں آپ کے لیے بے انتہا احترام ہے لیکن…. لیکن میرے…. میں…. لیکن…. "
” لیکن میرے دل میں آپ کے لیے محبت کے جذبات نہیں ہیں. ". مرشد کے دماغ نے اس کا ادھورا ج�±ملہ خود سے مکمل کر لیا۔حجاب کی آواز میں نمی آ گ�±ھلی تھی۔ وہ سختی کے ساتھ ہونٹ بھینچ کر خاموش ہو گئی۔ یہ چند ج�±ملے کہنے میں جیسے اس نے اپنی ساری ہمت جتا دی تھی۔
مرشد کی دھڑکنیں بے قابو ہونے لگیں۔ ایک طرف سینے میں اودھم شروع ہوا تھا تو دوسری طرف دماغ میں سائیں سائیں ہونے لگی تھی۔ رواں رواں جیسے سنسنا اٹھا تھا۔ وہ بہ یک وقت دو متضاد کیفیات کا شکار ہوا تھا، بہرحال وہ اعصاب پر قابو پاتے ہوئے بولا۔
"میں یہ سب جانتا ہوں سرکار! آپ کے مقام و مرتبے اور اپنی حیثیت کو بھی سمجھتا ہوں۔ آپ یقین کیجیے آپ کے حوالے سے میرے دل و دماغ میں کوئی ایسی ویسی بات یا خیال نہیں ہے.۔کوئی خواہش بھی نہیں ہے، سوائے اس کے کہ آپ ایک اچھی، خوشحال اور س�±کھ بھری زندگی گزاریں۔ د�±نیا کے جس حصے، جس کونے میں بھی رہیں، ہمیشہ خوش باش رہیں بس…. اس سے زیادہ کچھ چاہنے کی میری اوقات ہے نہ کچھ سوچنے کی جرات۔ ” حجاب کے لیے یہ بھی تکلیف دہ بات تھی کہ وہ اسے کسی آسمانی ہستی جیسی برتر چیز شمار کر رہا تھا اور اس کے مقابل خود کو انتہائی کمتر اور پست…. وہ جانتی تھی کہ سادات کے ادب و احترام کے حوالے سے کچھ لوگ ایسی نا مناسب ذہنیت رکھتے ہیں اور اس کے پاس اس ذہنی رویے کا کوئی حل، کوئی علاج نہیں تھا!
کچھ دیر تک ان دونوں کے درمیان ایک بے ڈھنگی سی خاموشی پھیلی رہی پھر حجاب ہی اس سے مخاطب ہوئی۔
"فیروزہ آپ سے محبت کرتی ہے.۔آپ کو اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔“
"وہ عادت سے مجبور ہے۔ روز کا کام ہے اس کا…. محبت کرنا۔.” مرشد نے سر جھٹک کر کہا۔
"آپ نے شاید کبھی توجہ نہیں دی۔ وہ واقعی آپ کے بارے میں سنجیدہ ہے۔.” میرے تو آج کل ساتھ رہ رہی ہے سو مجھے اندازہ ہو گیا ہے۔ آپ کی تو بچپن کی ساتھی ہے۔ آپ کو اب تک سمجھ کیوں نہ آ سکی!.”
"بچپن کی ساتھی….“
"ہاں! آپ اکٹھے کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں نا! بچپن میں اچھے دوست بھی رہے ہیں۔.”
"اور یقیناً یہ سب بکواس اسی نے کہی ہو گی آپ سے؟ "
” اس میں بکواس کی کیا بات ہے؟ "
” آپ بالکل بھولی اور معصوم ہیں سرکار! اس کی باتوں پر ہر گز بھی کان مت دھرئیے گا۔ اوّل نمبر کی کھوچری عورت ہے وہ…. پھونک مار کر کان کترنے والی۔ ” مرشد نے بدمزگی سے کہا۔
"وہ تو اتنی زیادہ تعریفیں کر رہی تھی آپ کی۔ "
” تو بکواس ہی کر رہی تھی نا پھر "
حجاب نے بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ چند تیز آوازیں سنائی دیں اور وہ دونوں چونک پڑے۔ آوازوں کی سمت ڈیرے کے سامنے کے ر�±خ کی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے آٹھ دس لوگ شدید غصیلے انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ ت�±و تکار کر رہے ہوں، ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہوں۔
"یہ آوازیں کیسی ہیں؟” حجاب نے سرسراتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ مرشد کا ماتھا ٹھنکا۔ ٹھیک اسی وقت سامنے کے ر�±خ سے گولی چلنے کی آواز بلند ہوئی۔
مرشد ایک جھٹکے سے ا�±ٹھا، اس کا ارادہ تھا کہ کمرے سے رائفل اٹھا کر سامنے کے ر�±خ کی خبر لے لیکن دائیں طرف سے سنائی دینے والی ایک کرختتحکمانہ آواز نے اسے ب�±ری طرح ٹھٹھکا دیا۔
"بس او�¿ے! کوئی پھرتی نہیں دکھانی ورنہ پورا برسٹ اتار دوں گا۔ ہاتھ ا�±وپر کرو دونوں۔” حجاب بھی ہڑبڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے دیکھا, دائیں ہاتھ تقریباً پندرہ قدم کے فاصلے پر احاطے کی کچی دیوار تھی اور تین بندے اچانک ہی وہ دیوار پھلانگ کر اندر ک�±ود آئے تھے۔ تینوں محض ہیولوں کی صورت دکھائی دے رہے تھے پھر بھی یہ اندازہ بخوبی ہو رہا تھا کہ وہ تینوں مسلح ہیں اور یقینی طور پر ان کے ہاتھوں میں موجود ہتھیاروں کا ر�±خ حجاب اور مرشد ہی کی طرف تھا۔مرشد کی رگوں میں ایک سنسناتی ہوئی برقی رو سی دوڑ گئی۔ اس صورتحال میں ایک شعر کسی بازگشت کی طرح اس کے ذہن میں گونجا تھا۔
"منجمد خون ہونے والا تھا
ایک للکار نے دلاسا دیا "
تینوں مسلح افراد انکو نشانے پے رکھے آگے بڑھ آئے۔”تمہیں کہا ہے ہاتھ اوپر کرو۔ کان میں فیر کھا کے سنائی دیوے گا کیا؟”
وہی پہلے والا شخص غصے سے بولا۔
کون لوگ ہو تم! کیا چاہئیے؟ ” مرشد نے پرسکون لہجے میں سوال کیا۔چائے کی پیالی جو جلدی میں اٹھتے ہوئے اس نے ماچے پے رکھی تھی الٹ چکی تھی۔
” دو چار چمیاں تے چار چھے ٹھمکے۔” سوال کا فوری جواب دیا گیا اور ساتھ ہی وہ تنوں ہنس پڑھے۔ "چل ہاتھ اوپر کر, کیا چاہیے کا ماما نا ہو تو .. "
درشتی سے دبکا گیا۔ اسی وقت سامنے کا شور اسی سمت آتا محسوس ہوا۔ وہ ایک ساتھ کئی آوازیں تھی۔ مرشد کے اعصاب میں کچھ مزید تناو�¿ اتر آیا۔ اندھیرے کے باعث وہ سامنے کھڑے افراد کے حلیے اور صورتیں دیکھنے سے قاصر تھا۔ ان میں سے بولنے والے کے لب و لہجے سے بھی کچھ اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ یہ کس گروپ، کس پارٹی کے بندے ہیں … حجاب الگ اپنی جگہ سہمی کھڑی تھی ۔مرشد ہی کی طرح اسکے زہن میں بھی دشمن کے حوالے سے کھچڑی سی بن گئی تھی۔ چوہدھری، ملنگی، پولیس یا چوہان لہراسب… نواب کے بندے .. کچھ اندازہ نا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو انکے سر پے آ کھڑے ہوئے ہیں ۔
مخص چند لمحے بعد ایک تیز غصیلی آواز سن کر مرشد اور حجاب دونوں چونک پڑے۔ بیس پچیس قدم دور کمرے کی بغلی طرف سے آٹھ دس افراد نمودار ہوئے تھے۔ ان میں سے تین چار افراد کے ہاتھ میں روشن ٹارچیں تھی۔ تیز غصیلی آواز زریون کی تھی اور آنے والے افراد کے آگے آگے وہی تھا۔
”تم ہوتے کون ہو؟ تمہاری جرات کیسے ہوئی؟ میں … میں ایک ایک کو دیکھ لونگا سمجھ کیا رکھا ہے تم نے۔ "
وہ سخت برافروختہ تھا۔ باسط اور خنجر غالباٰ اس کا غصہ ٹھنڈا کرتے آرہے تھے۔ جغفر ان میں نہیں تھا۔ زریون غصے میں واہی تباہی بولتا حجاب کے سامنے آرکا ۔
"اور تم! تمہیں کس پاگل کتے نے کاٹ کھایا تھا… یہ کیا حرکت کی تم نے؟ ” انتہائی کرخت اور تلخ لہجہ ، دونوں ہاتھ اس نے اپنے کولہوں پے جما لیے تھے اور کھولتی آنکھیں حجاب کے چہرے پر۔ اس کے اس انداز اور لہجے سے وہ بچاری ہل کر رہ گئی تھی۔ اس کے یہ سخت تیور مرشد کو بھی انتہائی نا مناسب لگے، وہ بس ہونٹ بھینچ کر رہ گیا ۔
"کک…. کیا , کیا ؟ ” وہ ڈھنگ سے بول ہی نہیں پائی۔
” میں نے تمہیں انتظار کرنے کا کہا تھا اور تم … تم منہ اٹھاکے ان کے ساتھ نکل آئی۔ کیوں…. کیوں؟ ” وہ دبے دبے لہجے میں جیسے چلایا۔
” یہ …. یہ لوگ وہاں سے نکل رہے تھے تو میں اکیلی وہاں کیسے رکتی۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ کچھ سمجھ ہی نہیں آئی۔”
"میں خودکشی کرنے نہیں گیا تھا۔ آدھے گھنٹے کا کہہ کر گیا تھا۔ وہاں کون سا ایسا عذب ٹوٹ پڑا تھا جو تم سے ٹھہرا نہیں گیا ایک مہینہ … ایک مہینہ ہونے کو آیا پاگلوں کی طرح تمہیں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔ ڈھنگ سے سو تک نہیں پایا ۔ خدانخواستہ اگر چودھریوں کے لوگ مجھ سے پہلے تم تک پہنچ جاتے تو کیا ہوتا ؟ آبیل مجھے مار… تم نے تو خود کو خود ہی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔”
دھڑکنوں کی تال ایک لمحے کو گڑبڑائی… یہ کیا کہہ رہا تھا وہ ؟پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا تھا .….. ڈھنگ سے سو تک نہیں پایا.….حجاب نے ایک نظر اسکے چہرے پر ڈالی ۔ ٹارچوں کی روشنی کافی کچھ واضح کر رہی تھی۔ زریون سر تاپا شدید پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے ساتھ آنے والے چھے افراد چار قدم پیچھے ہی رک گئے تھے۔ دوسری طرف بھی تین مسلح لوگ موجود تھے۔خنجر کھسک کر مرشد کے قریب پہنچا تو مرشد نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔
"جعفر؟”
"ادھر، برآمدے میں بیٹھا ہے۔ سب ٹھیک ہے۔”اسکی آواز بھی سرگوشی سے زیادہ نہ تھی۔ زریون نے انتہائی غضبناک نظروں سے خنجر کی طرف دیکھا پھر اسکی نظر مرشد کی طرف سرکی، ایکسرے لیتی نظروں سے سرتاپا بغوراس کا جائزہ لیا، ایک اچٹتی سی نظر اس نے ماحول پر ڈالی گویا یہ جاننا یا دیکھنا چاہ رہا ہو کہ ارد گرد انکا کوئی اور بندہ ساتھ موجود ہے یا نہیں .. یہ تو وہ دیکھ چکا تھا کہ یہاں اسکے تین بندوں کی رائفلوں کے سامنے حجاب کے ساتھ صرف ایک ہی بندہ کھڑ تھا اور اب وہ اسے مرشد کے طور پر پہچان بھی چکا تھا۔
” تم نے بتایا تھا کہ تمہارے کسی بندے کو گولی شولی لگی تھی۔ کون تھا وہ؟ ” عجیب شانِ بے نیازی تھی۔خنجر نے مرشد کی طرف اشارہ کیا۔ زریون نے دوبارہ سرتاپا اسے گھورتے ہوئے عجیب کاٹ دار لہجے میں کہا۔
” اسے دیکھ کر ایسا کچھ لگتا تو نہیں ہے۔.” اس بار مرشد فورا بولا۔
"سرکار کے خادموں کا ایک گولی بگاڑ بھی کیا سکتی ہے چھوٹے سرکار ! ” اس کے لہجے میں اطمینان اور ٹھہراو�¿ تھا۔
حجاب بولی۔ ” انکی حالت بڑی خراب رہی ہے۔ ابھی رات تک بخار تھا۔ ایک طرح سے اللہ نے نئی زندگی دی ہی انہیں۔”
"ان سب ہی کو اپنی زندگیوں سے کوئی چڑ ہے شاید۔” اس نے ناگواری سے ان دونوں کی طرف دیکھا۔ "ساتھ تمہاری زندگی کو بھی خطرے میں ڈالے پھر رہے ہیں۔ ان سیانے لوگوں کو یہ اندازہ نہیں کہ یوں وہاں… کلینک سے نکل کر کتنی بڑی بیوقوفی کی تھی۔ میں تو اس پر بھی حیران ہوں کہ چودھریوں کے بندے اور پولیس والے یہاں تک کیوں نہیں پہنچے ؟ قسمت ہی اچھی ہے انکی ورنہ سارے علاقے میں چپے چپے پر تم سب کو ڈھونڈا جا رہا ہے۔”
"آپ نے پھوپھا جی کو اطلاع دی۔ .” حجاب نے پوچھا
"کیا اطلاع دینی تھی۔ ” وہ چڑ کر بولا۔ ” یہ کہ تم مجھے نظرانداز کر کے چند بدمعاشوں کے ساتھ کہیں چلی گئی ہو…. ہم سب لوگ کس قدر پریشان تھے۔ امی نے تمہارے لیے رو رو کر کس طرح خود کو ہلکان کر رکھا ہے .. تمہیں کیا پتا۔“
” میں نے بتایا ہے کہ میں بہت پریشان اور خوف زدہ تھی …. یہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ مجھے لاہور سے لے کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ راستے میں اتنے جھگڑے پھڈے ہوئے، انہوں نے میری حفاظت کی۔ مرشد جی کو گولی بھی مجھے بچاتے ہوئے لگی۔ اس وقت آپ وہاں نہیں تھے تو مجھے انکے ساتھہی رہنا تھا نا! "اس نے مزید کچھ وضاحت سے اپنے کلینک سے چلے آ نے کا جواز پیش کیا۔
"میں آدھے گھنٹے میں سارا انتظام کر کے لوٹ آیا تھا۔ ہم وہاں سے فیکٹری چلتے اور فیکٹری سے قلعہ روانہ ہوجاتے۔ کب کی وہاں…. امی کے پاس بیٹھی ہوتی تم! مگر “اسکا پارہ نیچے آنے کو تیارہی نہیں تھا۔ مرشدنے مداخلت کی۔
"جو ہوتا ہے اچھے کے لیئے ہوتا ہے چھوٹے سرکار! خدا نے اسی طرح بہتر خیال کیا ہوگا۔ یہ پہلے وہاں تک نہیں پہنچ سکیں تو اب پہنچ جائینگی اللہ کے حکم سے۔ "
زریون بولا۔ ” ہاں ! پہنچ جائیگی…. ہم لوگ ابھی اسی وقت ادھر سے روانہ ہونگے۔ فیروزہ جی بھی میرے ساتھ جائینگی۔ تم اپنے اس بندر کو اپنی زبان میں سمجھا لو، اب اگراسے کوئی خارش ہوئی تو میں اسے شوٹ کر دونگا۔ "
بندر سے اسکی مراد جعفر تھا.. فیروزہ کے لیے اس کے منہ سے "فیروزہ جی” سن کر حجاب چونکی۔ اس کو ایک ناگوار سی حیرت کا احساس ہوا، ساتھ ہی اسنے بے اختیار مرشد کی طرف دیکھا۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے اسکے کہے الفاظ اس کی سماعتوں میں گھونج رہے تھے۔
"آپ کے پھوپھا جی کی بات الگ ہے۔ ان سے سامنا یا ملاقات ہوجائے تو پھر سوچا جا سکتا ہے کہ میں آپکو انکے سپرد کردوں مگر زریون شاہ جی……انکی بات دوسری ہے۔ انکی طرف سے میں مطمئن نہیں ہوسکتا۔
ابھی وہ دونوںزریون اور مرشد، آمنے سامنے کھڑے تھے اور معاملہ اسی نازک نکتے پر آپہنچا تھا۔
"آپ کوئی فکر ہی نہ کریں شاہ جی! جس طرح آپ چاہیں جو آپ حکم کریں گے اسی طرح ہوگا۔ ہم تو آپکے خادم ہیں حضور! ” مرشد تو جیسے تسلیم و رضا کا پیکر بن کے کھڑا تھا۔ اسکے لہجے میں احترام تھا ،حلیمی تھی، مٹھاس تھی۔ خنجر اور حجاب دونوں ہی کو اسکا یہ انداز عجیب لگا۔ایک ذرا خود زریون نے بھی غور کیا، ہیرامنڈی کے اس اتھرے بدمعاش کے لب و لہجے میں واضح صداقت و دیانت کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ اسکا جواب حجاب کی توقع کے یکسر خلاف تھا پھر بھی اس کے اس جواب سے اس نے اطمینان محسوس کیا ورنہ اسے اندیشہ تھا کہ اس بات پر مرشد اور زریون کے درمیاں بدمزگی نہ کھڑی ہوجائے۔زریون کے مزاج کا بھی اسے ابھی سے اندازہ ہوچکا تھا۔وہ کچھ زیادہ زود حس اور غصے کا تیز واقع ہواتھا۔ ان میں سے کوئی ابھی کچھ بولا نہیں تھا کہ فیروزہ پہنچ آئی…اسے دیکھتے ہی حجاب کے زہن کو جھٹکا سا لگا۔ اسکی نظریں بے ساختہ ہی زریون کی طرف سرک گئیں۔
” آجائیے فیروزہ جی! ہمارے خلوص اور قدر دانی کے ساتھ اچھا تو آپ نے بھی نہیں کیا بہرحال گلے شکوے ادھار رکھتے ہیں۔ فی الحال تو حجاب کے ساتھ آپ بھی جو سامان یہاں ہے سمیٹ لیں، ہم لوگ ادھر سے نکل رہے ہیں۔” اس نے بے دھڑک فیروزہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اور پھر حجاب کی طرف متوجہ ہوا۔ "اپنا سامان لے لو اور آجاو�¿۔”
"ہم لوگ کون ؟ مجھے کہیں نہیں جانا نا ہی میں کہیں جا رہی ہوں۔”فیروزہ نے کہا۔
” آپ کو اندازہ بھی ہے میں اتنے دنوں سے کس قدر پریشان رہا ہوں…. دن رات آپ لوگوں کی تلاش میں جتا رہا ہوں۔ ڈھنگ سے نہ کھایا پیا نہ ہی سو پایا۔ اب اگر آپ تک پہنچ ہی آیا ہوں تو ظاہر ہے آپ کا یہ مزاق سننے کو تو نہیں آیا نا !”
حجاب کے دل پر گھونسہ سا پڑا۔ یہ کیا کہہ رہا تھا وہ؟ ابھی کچھ ہی دیر پہلے بالکل یہی کچھ تو خود اس سے کہا تھا اس نے اور اب …. اب وہ بلا جھجک وہی بات فیروزہ سے کہہ رہا تھا۔ حجاب کی موجودگی میں…. اسکے سامنے ہی…. اس نے لاشعوری طور پر ایک سر سری نظرمرشد اور خنجر کی طرف دیکھا۔ مرشد تو نہیں البتہ خنجر کو اس نے بغور اپنی ہی طرف دیکھتے پایا۔ پتا نہیں کیوں مگران لمحوں مرشد اور خنجر دونوں ہی سے اسے شرمندگی سی محسوس ہوئی۔ زریون تو عجیب طبیعت مزاج کا مظاہرہ کر رہاتھا۔
"آپ آئے ہیں تو آپکی امانت آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ اسے لے جائیں اور جا کر سکون کی زندگی گزاریں۔ ایسے خامخواہ اپنے لیئے سردردی بنائیں نا کسی دوسرے کے لیے۔ ” فیروزہ نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ اس کے لہجے میں ہلکا سا تاثر نا گوری کا بھی تھا۔ زریون کو جیسے اچانک حجاب کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے رخ پھیر کر اسکی طرف دیکھا۔ چند لمحے عجیب سی نظروں سے دیکھتا رہا پھر شاہانا انداز میں فیروزہ سے مخاطب ہوا۔
” یہ ہماری امانت ہیں تو آپ اس علاقے میں ہماری مہمان، ہماری زمہ داری ہیں۔ آپکو خوار ہوکر مرنے کے لیے یہاں نہیں چھوڑ سکتے ہم! جائیں جا کر اپنا سامان لے آئیں۔”
"آپ میرے لئے پریشان نا ہوں۔ میرا خیال رکھنے کے لئیے میرے اپنے لوگ ہیں یہاں۔” اس نے ایک ترچھی نظر مرشد کی طرف دیکھا۔ حجاب نے بھی ایک نظر اس پر ڈالی تھی۔ وہ اپنی جگہ بالکل خموش کھڑا تھا۔ وہاں ارد گرد موجود باقی سب افراد بھی خاموش اور مودب سے کھڑے تھے۔ ٹارچوں کا رخ زمین کی طرف تھا پھر بھی چار ٹارچوں کی روشنی مل کر ایسا ماحول بنا رہی تھی کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ کچھ دھندلا سا تو کچھ وضاحت سے .. درختوں کی موجودگی دیو مالائی تاثر دینے لگی تھی اوروہاں موجود افراد کے ادھر ادھر بکھرے طویل جناتی سائے مزید پراسراریت کا باعث بنے ہوئے تھے۔ مرشد اس سب سے بے نیاز اور لاتعلق سا کھڑا اب آگے پیش آنے والی صورت حال کے متعلق سوچ رہا تھا۔
اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ زریون نے ہر صورت اپنی مرضی چلانی ہے۔ پہلے ہی وہ خاصا بھڑکا ہوا تھا۔ حجاب کے حوالے سے دیکھا جاتا تو وہ اسکا حق بھی رکھتا تھا۔ کسی اختلاف اور اعتراض کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ پہلے مرشد کے لیے وہ محض ایک سید زادہ رہا تھا مگر اب …. اب اس کی وقعت میں کچھ مزید اضافہ ہو آیا تھا۔حجاب کی نسبت سے احترام دوہری حیثیت اختیار کر گیا تھا۔
وہ دونوں ایک دوسرے سے منسوب تھے…. بچپن سے ہی…. یعنی کئی برسوں سے…. آنے والے وقت میں انہوں نے شادی کے بندھن میں بندھ کر زندگ بھر کے لیے ایک دوسرے کا ہوجانا تھا۔ حجاب نے اپنی باقی کی تمام عمر اسکی خدمتیں خاطریں کرتے ہوئے گزارنی تھی۔اس خیال کے ساتھ دل ودماغ میں بے چینی سی کسمسانے لگتی۔ ایک بے سکونی سی دھڑکنوں میں بیٹھنے لگتی …. سینے پر ایک بھاری سِل سی یوں آپڑتی کہ گھٹن ہونے لگتی۔ ایسا نہیں تھا کہ مرشد کسی رقابت کسی حسد کا شکار ہو رہا تھا۔ نہیں…. بات یہ تھی کہ زریون کی طبیعت مزاج، اس کا کردار مرشد کے معیار سے میل نہیں کھاتاتھا …. ٹھیک ہے وہ سید تھا۔ مرشد کے دل میں اس کے لیے موجود احترام میں بھی کوئی کمی یا کوئی فرق نہیں تھا۔ وہ دل و جان سے اسے بھی محترم ہی جانتا تھا لیکن حجاب کے حوالے سے اس کا اندر زریون کو ہضم نہیں کر پا رہا تھا ….اس کی نظر میں ان دونوں کی جوڑی قطعی نا مناسب تھی۔ حجاب بالکل معصوم تھی۔ اندر باہر سے موم کی گڑیا ایسی نازک اور زریون ….وہ خود سراور غصیلی طبیعت کا مالک تھا۔ دماغ ہر وقت انگارے کی طرح دہکا ہوا۔ پتھریلا مزاج اور پتھر لہجہ جبکہ حجاب موم کانچ اور پھولوں سے بنی لڑکی تھی۔ اس کے حوالے سے تو بلا شبہ زریون خوش قسمت انسان تھا لیکن زریون کے حوالے سے خود حجاب…. اس کا شائد قدرت کو زندگی بھر امتحان مقصود تھا۔ مرشد کی نظرمیں حجاب کے شوہر ، اسکے مجازی خدا کی حیثیت اور مرتبہ پانے کے حوالے سے زریون پوری طرح نااہل تھا۔ اس کے شہرِ احساس میں نفی و نا پسندیدگی کا ایک ایسا احساس موجود تھا مگر اس احساس کو زبان دینے کا تصور بھی اسکے زہن میں کہیں نہیں تھا۔ ایسی بے ادبی وگستاخی وہ کر بھی نہیں سکتا تھا۔یہ تو سید سرکاروں کے اپنے گھر خاندان کا معاملہ تھا پھر بھلا اس کی کیامجال تھی جو کسی حرف زنی کی جرات کر پاتا۔ اس پہلو سے زہن ہٹاتے ہوئے اس نے آگے کے لائحہ عمل کو توجہ دی تھی۔ وہ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ حجاب کو زریون کے سپرد کر دیتا کہ لو جدھر مرضی لے جاو�¿…. نا ہی اسکا کوئی سوال تھا کہ زریون کو انکار کر کے اسکا راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا۔ اس نے تیسرا راستہ چنا تھا۔ کھڑے کھڑے کھڑے ہی یہ طے کر لیا تھا کہ اب اسے کیا کردار نبھانا ہے…. اپنا فرض کس طرح ادا کرنا ہے!
اسے ان خیالات سے چونکایا تھا ایک آوازنے۔ اسی لمحے زریون نے رائفل بردار کو مخاطب کیا۔
"شاکرے ! فیروزہ بی بی خود سے چل پڑیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان کو گاڑی تک پہنچانا تمہاری زمہ داری ہے۔”
"ٹھیک ہے شاہ جی .. ” شاکر نے فورا حامی بھر لی۔
"یہ آواز….“ مرشد نے دوبارہ چونکتے ہوئے بے ساختہ کہا۔ باقی سب کے کان بھی کسمسا گئے۔آواز تھی…. کتے کی آواز …. اسی لمحے آواز دوبارہ سنائی دی۔ یہ ایک سے زیادہ کتے تھے اور ڈیرے کے سامنے کچھ فاصلے پرموجودتھے۔
"کتوں کی آوازیں ….”
” آوارہ کتوں والا انداز تو نہیں ہے۔”
"ساتھ کچھ اور آوازیں بھی ہیں۔ "
” شائد کچھ لوگ اس طرف آرہے ہیں۔ "باسط اور تین چار لوگ فوراً سامنے کی طرف چلے گئے ۔
"خنجر! یہ وہی لوگ لگتے ہیں۔ ہشیار……..”مرشد نے سنسنی خیز اندازمیں کہا اور کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ جہاں اسکی رائفل رکھی تھی۔ کتوں کی آوازیں اسکو یقین دلا رہی تھیں کہ یہ وہی آوزیں، وہی کتے ہیں جو چند روز پہلے ارد گرد کے علاقے میں چکراتے پھر رہے تھے۔ وہ رائفل اور گولیوں کا بیگ سمبھالتے ہوئے باہر نکلا تو زریون نے سوال کیا۔
"کن لوگوں کی بات کر رہے تھے تم ؟ کون لوگ ہیں یہ ؟”
"پتا نہیں۔ چند روز پہلے یہ کتوں والا گروہ یہاں سے گزرا تھا۔” اسی لمحے سامنے کے رخ سے ایک آواز بلند ہوئی…. اس طرف سے کوئی پکار کے بولا تھا۔
"کیہڑے او بھئی ؟”ایک ذرہ توقف سے پھر پکاراگیا۔ اس بارنسبتاً آواز بلند تھی۔
"اوے کیہڑے او بھئی؟ جواب ڈیوو اوئے! نئیں تاں اساں فیر مار ڈیسوں ……کیہڑے او؟”
"تیری بے بے دے یار!” اس بار درشت آوازمیں جواب بلند ہوا۔ لہجہ پنجابی تھا۔ "جتنے بندے ہو سب سر پہ ہتھ رکھ کے باہر نکل آو�¿ نئیں تو مارنے کے بعد لاشوں پے کتے چھوڑ دینگے۔ "دو تین بندے مزید سامنے کی طرف چلے گئے۔ جواب دینے والے کے لہجے اور انداز نے بخوبی سمجھادیاتھا کہ یہ کون لوگ ہیں اورکس ارادے ،کس نیت سے آئے ہیں۔
"جگر! پکی بات ہے کہ گڑبڑ ہے …. ” خنجر فورا مرشد کے قریب پہنچا۔ اس کے لہجے کی سرسراہٹ حجاب اور فیروزہ کے دل دھڑکا گئی تھی ..
"کون لوگ ہو سکتے ہیں یہ ؟” زریون کے انداز میں الجھن تھی۔
"یقینی طور پر ہمارے دشمن ہی ہیں۔ شائد آپ کے پیچھے لگ کر یہاں تک پہنچ آئے ہیں۔”
” تم بتا چکے ہو کہ یہ چند روز پہلے بھی یہاں موجود تھے۔” مرشد کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سامنے کے رخ سے ایک شخص بہ عجلت انکی طرف آیا اور پریشانی سے بولا۔
” شاہ جی! چودھریوں کے بندے ہیں۔ بیس پچیس تو ہونگے ….یہ کتے فارم پر پال رکھے ہیں چودھریوں نے۔ بڑے ہی ظالم کتے ہیں جی!”
چودھریوں کا ذکر ان سب کی سماعتوں میں جنگی نقاروں کی طرح گونجا تھا۔ بدترین دشمن، بدترین کتے …. سامنے کی طرف تندو ترش جملوں کا تبادلہجاری تھا۔ فضا میں بھرا سنگینی کا احساس یکا یک کئی گنا گاڑھا ہوگیا۔ اسی لمحے ڈیرے کے احاطے سے گالیوں کی بوجھاڑ کے ساتھ ہی کتوں والوں …. یعنی چودھری کے نمک خواروں پر پہلا فائر جھونکا گیا۔گولیوں کے دھماکے کی آواز نے پرسکون اور خاموش ماحول کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ سروں پر یکا یک بیشمار پروں کی پھڑپھڑاہٹ ہڑبڑا اٹھی۔ دور و نزدیک پرندوں کی افتادزدہ احتجاجی آوازوں سے گونج اٹھے لیکن اگلے ہی پل اندھی اور بے تحاشہ فائرنگ کے بھیانک شور میں وہ آوازیں دب کر رہ گئیں۔حجاب اور فیروزہ بے اختیار چیختی ہوئی نیچے بیٹھ گئیں۔
مرشد، خنجر ، زریون اور ایک ٹارچ بردار اور موجود تھا وہاں ۔وہ سب اضطراری طور پر ہی نیچے جھک گئے تھے۔ مرشد نے اسے ڈپٹ کر ٹارچ آف کرائی۔ ایک فائر کے جواب میں بیس پچیس رائفلیں گرج اٹھی تھیں۔ سامنے کی طرف سے بلند ہونے والی چیخوں کی مدھم آواز نے یہ بھی بتا دیا کہ زریون کے ساتھ آنے والوں میں سے دو تین اس وحشت ناک فائرنگ کا شکار ہوگئے ہیں۔ فائرنگ کا یہ جنونی انداز ایک گہری تشویش کے ساتھ ساتھ مرشد کے رگ و پے میں جوش آمیز سنسناہٹ بھی جگا گیا تھا۔چودھریوں کی وحشت اپنے عروج کو چھو رہی تھی۔
مرشد نے جھٹکے سے حجاب کی طرف دیکھا۔ اندھیرا تھا۔ اسکا ہیولا گھٹنوں کے بل زمین پے سمٹا بیٹھا تھا۔ مرشد کے دماغ میں جھماکے سے یہ خیال آیا کہ دشمن سامنے کے رخ سے سرکتے ہوئے ڈیرے کو چاروں طرف سے گھیر سکتے ہیں۔ انکی تعداد زیادہ تھی۔ سب پر پاگل پن سوار تھا۔
سب سے پہلے اسے حجاب کی حفاظت ہی کا خیال آیا تھا۔ اسی وقت سامنے کے رخ سے دو سائے زمیں پرلوٹتے ہوئے اس طرف آئے اور کمروں کی اوٹ میں پہنچتے ہی جھکے جھکے انداز میں آگے بڑھ آئے۔ وہ جعفر اور ٹیپو تھے۔ اچانک ایک کمرے کا دروازہ بری طرح دھڑدھڑایا گیا۔
” ارے مجھے نکالو ادھر سے ….کدھر ہو تم لوگ ، کدھر چلے گئے ہو سب ؟ ” یہ ڈاکٹرزمان کی آواز تھی جسے انہوں نے ایک کمرے میں بند کر رکھا تھا۔ اب سے پہلے شاید وہ سو رہا تھا جو اب یکا یک ہی شورمچانے لگ گیا تھا۔
"مرشد استاد! بندے زیادہ ہیں اور اسلحہ بھی تگڑا ہے انکے پاس۔” جعفر نے قریب پہنچتے ہی قدرے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہا۔
ٹیپو پریشانی سے بولا ۔ "اپنے تین بندے مارے گئے ہیں۔ ہماری پوزیشن بھی کمزور ہے۔ "
” ان پر گولی چلانے کی کیا ضرورت تھی؟ بات چیت کر کے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔” زریون نے غصیلے لہجے میں ٹیپوکو جیسے ڈانٹ پلائی۔
جعفر فورا بولا ۔ "یہ چودھریوں کے ڈشکرے ہیں۔ رائفلیں لے کر یہ مزاکرات کرنے نئیں آئے۔”
"تم اپنی بکواس بند رکھو۔”زریون نے اسے بھی جھڑکا۔ وہ بری طرح جھنجھلایا ہوا تھا۔
” ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے , فوراً۔” مرشد نے تیز لہجے میں مداخلت کی۔ "سرکار, فیروزہ !کمرے سے کچھ اٹھانا ہے تو اٹھائیں، چلیں یہاں سے۔” ڈیرے کی طرف سے برابر فائرنگ کا جواب دیا جا رہا تھا لیکن دونوں طرف کی شدت میں نمایا فرق تھا۔ اگلے چند ہی لمحے بعد وہ سب ڈیرے کی عقبی دیوار پھلانگ رہے تھے۔زریون کا غصہ گہری سنجیدگی میں بدل چکا تھا۔ مرشد کے کہنے کے مطابق وہ بھی چپ چاپ اٹھ کر چل پڑا تھا۔ یقیناً صورتحال کی اسے بخوبی سمجھ آرہی تھی۔ ڈاکٹر کے علاوہ زریون کے جان نثار بھی انکے ساتھ تھے۔ ماحول گہری تاریکی میں گم گیا تھا۔ قرب و جوار فائرنگ کی خوفناک آواز سے لرز رہے تھے۔ اس شور میں پرندوں کے ساتھ کتوں کی دہشت ناک آوزیں بھی شامل تھیں۔
دیوار پھلانگتے ہی وہ ناک کی سیدھ میں تیزی سے آگے بڑھے۔ یہ بالکل وہی جگہ، وہی راستہ تھا جہاں چند دن پہلے مرشد اور حجاب نے قدم رکھے تھے۔ تھوڑا آگے جوار کی فصل تھی جس میں وہ دبک کر بیٹھے رہے تھے۔ اس دوران چند لمحوں کے لیے اسے بہت قریب سے اس فسوں خیز صورت کا دیدار نصیب ہوا تھا…. محض دو فٹ کے فاصلے سے اور وہ مسمرائز ہوکر رہ گیا تھا…. اس بار وہ جوار میں رکے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے۔
مرشد کو اندازہ تھا کہ جلد ڈیرے کو چاروں طرف سے گھیر لیا جائیگا۔ اسی دوران دشمن انکے فرار سے بھی باخبر ہوسکتا تھا جو انکے حق میں انتہائی خطرناکثابت ہوتا .. اسی لیئے مرشد کی کوشش تھی کہ جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ دور نکل جائیں۔
ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے ہوا تھا کہ حجاب فیروزہ اور زریون کے ساتھ ساتھ خود مرشد کی سانس بھی پھول گئی، بلکہ اسکی حالت زیادہ خراب تھی۔ وہ ایک طرح سے ہانپنے لگا تھا۔ ایک ماہ کی مسلسل بستر نشینی اور ایک بڑی تکلیف سے جان توڑ مقابلے نے اسے نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔ جسمانی توانائیوں میں ابھی بہت کمی تھی۔ اس نقاہت زدہ حالت میں بھی اسکے قدم نہیں رکے۔ سب سے آگے وہ خود ہی تھا۔ اس کے ساتھ فیروزہ، چار قدم پیچھے زریون اور حجاب اور پھر دیگر ساتھی تھے۔ دوفرلانگ فاصلہ طے کرنے کے بعد ان باغوں کے سلسلے کا اختتام ٹرین کی ایک پٹری پر پہنچ کے ہوا۔ یہ پٹری سطح زمین سے بارہ پندرہ فٹ اونچے ایک مضبوط بند پے موجود تھی جو نجانے کدھر سے آتی تھی اور آگے کہاں تک جاتی تھی۔ بند کی بلندی پے پہنچتے ہی سب نے ہانپتے ہوئے پلٹ کے عقب میں دیکھا۔ گھور تاریکی کے سوا زمانے میں اور کچھ تو جیسے بچا ہی نہیں تھا۔ ہر طرف دل پر ہیبت سی تاری کرتا ہوا گہرا اندھیرا تھا اور بس …. فائرنگ مکمل طور پر رک چکی تھی۔ اوپر بلندیوں پر چند ایک پرندوں کی آوازیں ہنوز چکراتی پھر رہی تھیں یا پھر دور سے سنائی دیتی کتوں کی آوازیں تھیں…. آوازیں دور تھیں…. تقریبا دو فرلانگ کے فاصلے پر۔ ان کی بھاری گونجیلی آوزوں کی بازگشت دو اطراف سے ڈوبتی ابھرتی اور گونجتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور اس بات کے احساس نے مرشد کو چونکا دیا…. کتوں کے بھونکنے کی آوازیں متحرک تھیں اور آوازوں کی بازگشت کی گونج سے اندازہ ہوتا تھا کہ کتوں کا رخ اسی سمت ہے۔ یعنی وہ اسی طرف کو آگے بڑھتے آرہے تھے۔
” انہیں ہمارے فرار کا پتہ چل گیا ہے۔” یہ خنجر تھا۔ مرشد نے فورا تائید کی
” ہاں وہ پیچھے آرہے ہیں۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے ۔”
” ادھر ..شاہ پور کی طرف چلتے ہیں۔”
” نہیں …. ہمیں فارم ہاو�¿س کی طرف جانا ہے۔”ٹیپو کی بات سے زریون نے فوراً اختلاف کیا تھا۔
"ادھر آو�¿ سب…. میرے پیچھے۔ ” وہ حجاب کا ہاتھ تھامے دونوں پٹریوں کے درمیان ایک طرف کو چل پڑا ۔باقی سب نے معمولی سے تذبذب کے ساتھ اسکی پیروی کی۔ اس بار زریون اور حجاب آگے تھے۔ مرشد اور فیروزہ انکے پیچھے۔ انکے پیروں کے نیچے بجری اور پتھر تھے۔ لکڑی کے مضبوط تختے تھے جو ٹرین کی دونوں پٹریوں کو آپس میںمخصوص فاصلے پر جھکڑے رکھتے تھے۔ گہرے اندھیرے کے باعث اس راستے پر چلنے میں ان سب ہی کو دقت درپیش آرہی تھی پھر بھی وہ حتیٰ الامکان تیزی سے آگے بڑھتے گئے۔ ان سب کے پیروں تلے پتھرآپس میں رگڑ کھا رہے تھے۔ چر چرا رہے تھے۔ ہوا کے ہلکے جھونکوں میں خنکی کا لمس تھا پھر بھی وہ سب پسینے پسینے ہورہے تھے۔
ہوا کے ساتھ کتوں کی آوزیں کبھی نزدیک آتی محسوس ہوتیں اور کبھی دور جاتیں…. ایک دو جگہ فیروزہ گرتے گرتے بچی۔ وہ مسلسل کتوں اور کتوں والوں کی شان میں قصیدے پڑھتی آ رہی تھی۔ کوسنے اور بددعائیں دے رہی تھی۔ ایک جگہ حجاب پاو�¿ں رپٹنے سے گھٹنوں کے بل گری تو مرشد کو اپنے گھٹنوں میں نوکیلی ٹیس گھستی محسوس ہوئی۔ حجاب کے ہونٹوں سے خارج ہونے والی درد ناک کراہ اسکی دھڑکنوں سے ٹکرائی تھی۔ وہ اسے سمبھالنے کے لیے اضطراری طور پر تڑپ کر آگے بڑھا تھا کہ پہلے ہی قدم پر ٹھٹھک کر رک گیا۔
اسے فوراً احساس ہوا گیا تھا کہ اسے اپنی یہ بے قراری سنھبال کر رکھنی ہوگی۔ حجاب کو سنھبالنے والا اس کے ساتھ تھا۔وہ اسے سنبھال رہا تھا۔
"دھیان خیال سے سنبھل کر قدم اٹھاو�¿ ۔ "وہ گھٹنوں کے بل پتھروں پر گری تھی۔ اسے سنبھالنے والا اس سے اس کی چوٹ ، اس کی تکلیف کے متعلق پوچھنے کی بجائے خشک لہجے میں اسے چلنے کے آداب بتا رہا تھا۔ مرشد ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔
اس کی تڑپ اور پھر ٹھٹکنا اور کسی نے محسوس کیا ہو یا نہیں ،فیروزہ نے بخوبی محسوس کیا تھا۔ حجاب سنھبل کر اٹھنے کے بعد قدرے لنگڑاہٹ کے ساتھدوبارہ آگے بڑھنے لگی اور مرشد کا ذہن اس کی تکلیف کی طرف لگ گیا اس کی لنگڑاہٹ بتا رہی تھی کہ اس کے گھٹنوں پر کافی چوٹ آئی ہے ہو سکتا ہے کھال بھی چھل گئی ہواور کھال متاثر ہوئی تھی تو پھر خون بھی رس آیا ہوگا۔ درد ہو گارگڑ میں بڑی ہی تکلیف ہوا کرتی ہے درد کے ساتھ وہ جلن بھی ہوگی اور اور ہو سکتا ہے پاو�¿ں بھی زخمی ہوا ہو
کسی طوفانی بگولے جیسی شدید خواہش اس کے سینے میں اٹھی کہ حجاب سرکار کو روکے اور ٹارچ جلا کر کم ازکم ان کے پیروں کا زخم تو دیکھ ہی لے۔ کہیں پاو�¿ں زیادہ ہی زخمی نہ ہوگیا ہو۔ زخم ہو تو عارضی طور پر اس پہ کوئی پٹی شٹی ہی لپیٹ دی جائے۔ سینے میں خواہش ابھری تھی مگر وہ یہ سب سوچ کر ہی رہ گیا اگر زریون ساتھ نہ ہوتا تو اپنی یہ خواہش تو وہ بغیر سوچے پوری کرچکا ہوتا لیکن اب بات دوسری تھی۔
اب تک وہ حجاب کو قدم بہ قدم ساتھ ساتھ لے کر چلتا آیا تھا۔ ایسے کئی مواقع آئے تھے جب وہ اس کا ہاتھ تھامے چل رہا تھا اور حجاب لڑکھڑائی تھی لڑکھڑا کر گرنے لگی تھی لیکن مرشد نے محض ہاتھ ہی کی مدد سے اسے سہارا دیا تھا۔ اس کا بوجھ ہاتھ اور بازو سے یوں سنھبال لیا تھا کہ وہ اس کے بازو کے ساتھ جھول کر رہ گئی تھی۔ اس کے ذہن میں اس وقت بھی یہ خیال موجود تھا کہ اگر حجاب سرکار کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں اب بھی سنبھال لیتا…. انہیں گرنے نہیں دیتا۔ اگر ان کے گھٹنے پتھروں کو چھوتے بھی تو انہیں چوٹ یا خراش نہ آنے پاتی۔
وہ سوچ رہا تھا مگر اب حجاب سرکار کا ہاتھ کسی اور کے ہاتھ میں تھا۔ ان کے ہم قدم وہ نہیں کوئی اور تھا۔۔۔۔ وہ اس "اور ” کے ساتھ مرشد سے دو چار قدم آگے چل رہی تھیں۔ مرشد پیچھے رہ گیا تھا…. کسی ملازم، کسی خادم کی طرح گزے ہوئے ماضی کی طرح، گزرے ہوئے کل کی طرح۔
ان کے اس سفر میں زریون کی مداخلت، اس کی شمولیت نے صورتحال کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ حجاب اور مرشد کے درمیان ایک عظیم نادیدہ دیوار حائل ہو آئی تھی۔ دونوں کے بیچ چند قدم کا فیصلہ آکھڑا تھا اور یہ چند قدم ناقابل رسائی تھے یہ فاصلہ صدیوں کا فاصلہ تھا اور اس فاصلے نے ابھی مزید وسعت اور طوالت اختیار کرنی تھی۔
گاڑھی تاریکی کے اس سمندر میں تقریباً ایک فرلانگ فاصلہ طے کرنے کے بعد انہیں چند روشنیاں دکھائی دیں۔ ایک دو روشنیاں تو بلکل ان کی ناک کی سیدھ میں موجود تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے ریل کی اسی پٹری کے اوپر ایک دو روشن بلب لٹکا دیئے ہوں۔ بہرحال فاصلہ کافی زیادہ تھا واضح طور پر کچھ دکھائی دے رہا تھا نہ سمجھ آ رہا تھا۔ ان روشنیوں کے علاو�¿ہ ایک دو روشنیاں وہاں سے قدرے دائیں ہاتھ نشیب میں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ وہاں شاید کوئی مکان ، کوئی کوٹھا ڈھارا ٹائپ کی تعمیر موجود تھی۔
ایک فرلانگ فاصلہ مزید طے کرنے کے بعد صورتحال تقریباً واضح ہو آئی۔ آگے بڑھتے بڑھتے زریون کی آواز ہی نے سب کو چونکایا تھا۔
"یہ شاید کوئی عارضی پولیس ناکا ہے۔ ” وہ بغور سامنے کے رخ دیکھ رہا تھا۔ ایک موٹر بائیک تھی اور ایک یقینی طور پر پولیس جیپ۔ جیپ کی چھوٹی لائٹیں روشن تھیں۔ فاصلے کے باوجود ماحول کے متعلق اندازہ ہوتا تھا۔ یہ غالباً ریلوے کا چھوٹا پھاٹک تھا۔ جیپ پٹڑی کے بلکل اوپر کھڑی تھی۔ چند لوگوں کی موجودگی کا احساس ہوتا تھا۔ مرشد فوراً ٹھٹھک کر رک گیا۔
” چھوٹے سرکار رک جائیں۔ نیچے نیچے بیٹھ جائیں۔” مرشد نے تیز مگر دھیمی آواز میں کہا اور خود بھی بیٹھ گیا۔ سبھی کی سانسیں بے ترتیب تھیں۔ مرشد کی تقلید میں سبھی نیچے پتھروں اور پٹڑی پر بیٹھتے چلے گئے۔
زریون بولا۔” تم لوگ اپنا رستہ بدل لو میں حجاب کے ساتھ سیدھا نکلتا ہوں۔”
"پولیس ہم سبھی کو ڈھونڈ رہی ہے۔”
"ہاں۔ تم سبھی کو مجھے نہیں۔ تم سب کسی طرح ملک منصب کی حویلی پہنچنے کی کوشش کرو۔ میں پھر بعد میں دیکھوں گا کہ تم لوگوں کی مدد کیسے کی
جائے۔”
"نہیں چھوٹے سر….شاہ جی! ” زریون کو سرکار کہتے کہتے مرشدکی زبان لڑکھڑا گئی پتا نہیں کیوں؟ اس کے لہجے کی اس خفیف سی لڑکھڑاہٹ کو حجاب نے بھی باخوبی محسوس کیا۔
” ہم آپ کو ان حالات میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ سیدھے نکلنا ہے تو چلیںہم سب آپ کے ساتھ ہے۔.”
"بیوقوف انسان ! اس طرح تو تم اپنے ساتھ ہمیں بھی کسی مصیبت میں پھنسوا دو گے۔ کیوں خودکشی کی کوشش میں لگے ہوئے ہو؟”
مرشد کے ساتھ زریون کا یہ نخوت زدہ ہتک آمیز انداز تخاطب حجاب کو اچھا نہیں لگا۔ زریون بول رہا تھا۔
"تم لوگ اپنی گردنیں بچانے کی کوشش کرو۔ کسی طرح بچ بچا کر شاپور حویلی تک پہنچ جاو�¿ یا کسی دوسرے راستے میرے فارم ہاو�¿س تک پہنچنے کی کوشش کرو۔ ٹیپو دونوں جگہوں کے بارے میں جانتا ہے۔ یہ تمہاری مدد کرے گا۔ اس کے بعد میں دیکھ لوں گا۔”
"شاہ جی! جتنا خطرہ ہمیں ہے اس سے دگنا بی بی سرکار کو ہے۔ اگر ان کی کہیں شناخت ہو گئی تو ساتھ میں آپ کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔”
مرشد نے اسی پر سکون اور مو�¿دب لب و لہجے میں کہا۔
"پتا ہے… اس کی شناخت تمہارے ساتھ فوراً سے پہلے ہوجائے گی مگر میرے ساتھ نہیں۔ پوسٹرز تو کہیں لگے ہوئے ہیں نہیں میں تو الٹا ان پولیس والوں سے ہیلپ بھی لے سکتا ہوں عملے کے زیادہ تر بندے مجھے اچھے سے جانتے ہیں۔”
"شاہ جی! سیانے لوگ کہتے ہیں کہ کتے کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے بچو اور اگر سامنے کوئی پولیس والا آجاے تو چار کوہ دور سے کترا کے نکل جاو�¿۔ بہتر تو یہ ہے کہ ادھر دائیں طرف نشیب والے رستے کی طرف نکل چلیں اور اگر سیدھے چلنا ہے تو آپ کی مرضی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔“
”یعنی تم لوگ خود تو مروگے ہی ساتھ ہمیں بھی ضرور مرواو�¿ گے۔” زریون نے بھنا کر کہا۔
” خدا نہ کرے شاہ جی! ہمارے ہوتے ہوئے تو موت کے فرشتے کو بھی آپ تک پہنچے میں پسینے آجائیں گے بس خدا نہ کرے کہ ایسی کوئی صورت حال بنے۔ ” مرشد بے ساختہ بولا تھا۔ اس کے لہجے میں الوہی عزم کی گونج سنائی دی۔ اس لہجے کا اثر ایک لمحے کو زریون کے اعصاب پر بھی دستک انداز ہوا تھا۔ حجاب کو یوں محسوس ہوا کہ وہ مخاطب تو زریون سے ہے مگر کہہ اس سے رہا ہے۔
کتوں کی آوازنے سبھی کو بری طرح جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ بے اختیار سب ہی کی گردنیں عبقی طرف کو گھوم گئیں۔ تاریکی میں دکھائی تو کچھ دینا نہیں تھا۔ جعفر تیز لہجے میں بولا۔
"مرشد استاد! سینگ لڑانے پڑ گئے تو گھیرا پڑ جاوے گا۔ پھنس جاویں گے۔ پنچایت کا وقت نہیں ہے اپنے پاس۔ نکلنے والی کرو۔”
خنجر بولا۔ "ادھردائیں طرف اتر چلتے ہیں۔” زریون خاموش تھا۔ حجاب بولی۔
"آپ لوگوں کو جیسے بہتر لگتا ہے ویسے کریں۔ جدھر بھی چلنا ہے ، چل پڑیں۔” اسے یقین تھا کہ مرشد جو فیصلہ بھی کرے گا وہی درست ہوگا۔ مرشد زریون کی طرف متوجہ تھا۔ وہ شاید اس کا فیصلہ جاننا چاہتا تھا۔ عقب میں سنائی دیتی کتوں کی آوازیں بتا رہی تھیں کہ ان کے دشمن بھی باغ کی حدود سے نکل کر پٹڑی پر چڑھ آئے ہیں۔ زریون کی خاموشی گویا اس کے نیم رضامند یا غیر جانبدار ہونے کا اظہار تھی۔ اسی تناظر میں جعفر نے مرشد سے کہا۔
"استاد! گاڑی نیوٹرل گئیر میں کھڑی ہے۔ اب چل پڑو بس۔”زریون پہلے ہی جعفر کے لیے شدید غصہ رکھتا تھا اگر اسے سمجھ آجاتی کہ اس جملے میں "گاڑی” کا لفظ اس کے لیے بولا گیا ہے تو شاید وہ جعفر پر پل پڑتا لیکن خیریت گزری اور وہ سب پٹڑی سے ہٹتے ہوئے آگے پیچھے دائیں ہاتھ نشیب میں اترتے چلے گئے۔ اترتے وقت حجاب کی ایک دو دھیمی کراہیں مرشد کی سماعت سے ٹکرائیں اور اس کا دل جیسے کسی بے رحم سنگی شکنجے کی گرفت میں گھٹ کر رہ گیا۔ یقیناً حجاب کے گھٹنے یا پاو�¿ں میں تکلیف تھی۔ اسے کوئی شدید چوٹ آئی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ حجاب کے بارے میں پوچھے۔ پاو�¿ں کا زخم دیکھنے کی کوشش کرے لیکن زریون کا خیال گلے کا پھندا سا بن گیا۔ ان دونوں کے رشتے کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اندر ہی اندر بل کھا کر رہ گیا۔ ہونٹوں تک آئی زبان سے ادا نہ ہو پائی۔
زریون مزاجاً ایک عام سا آدمی تھا۔مرشد کو یقین تھا کہ وہ چاھے بھی تو ان جذبات یا اس مقام و مرتبے کو نہیں سمجھ سکتا جو اس کے دل میں حجاب سرکار کے لیے تھا۔ اس نے ایک عام آدمی کی طرح دیکھنا سوچنا تھا۔ حجاب کے لیے مرشد کی بے قراری اس کی پرخلوص فکرمندی کو وہ کسی منفی رنگ میں لیتا تو یہ مرشد کے لیے مرجانے کی حد تک شرم ناک اور تکلیف دہ بات بن جاتی۔ اس کی سرکار کی آئندہ کی ساری زندگی زہر آلود ہو جاتی۔ اور اس سب کے علاوہ اس سب سے پہلے وہ یہ بات ہی کیسے گوارا کرتا کہ زریون ایسا کچھ سوچے سمجھے حجاب سرکار کو ایسے کسی شرم ناک دکھ کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسی صورتحال میں حجاب سرکار کے ساتھ سفر جاری رکھنا تو دور ان کے سامنے یہاں کھڑے رہنے کی ہمت اور جرات بھی نہ رہتی اس میں ان کے لیے کسی رسوائی بدنامی کسی دکھ تکلیف کی وجہ یا حوالہ بننے کے بعد اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں رہنا تھا کہ وہ ان کا سامنا کرپائے ان کے سامنے ٹھہر سکے۔ یہ بہت بھاری اور جان گسل امتحان بن جاتا اس کے لیے۔ ایسی کسی صورت حال کا سامنا کرنے سے تو وہ یہ بہتر خیال کرتا تھا کہ اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو کر ہواو�¿ں کے ساتھ زمانے بھر میں بکھر جائے۔ وہ مکمل طور پر بے نام و نشان ہوجاے۔ اس لمحوں اس نے تہیہ کیا کہ وہ انتہا سے زیادہ محتاط رہے گا۔ اپنی ساری بے چینیوں، بے قراریوں اور فکرمندیوں کو اپنے سینے میں ہی دفن رکھے گا۔ حجاب سرکار کا احساس خیال رکھنے کا حق جسے حاصل تھا وہ ان کے ہم قدم تھا۔ اسے ان کی کسی چوٹ تکلیف کی فکر پرواہ تھی یا نہیں تھی حق حاصل تھا اور مرشد کے پاس ایسا کوئی حق نہیں تھا۔ حق کیا اس کی تو کوئی اوقات ہی نہ تھیوہ سمجھتا تھا کہ اسے اب خود پر ایک خول چڑھا کے ایک مخصوص کردار ادا کرنا ہے…. ایک زمہ داری نبھانی ہے…. اپنا فرض اپنے ہونے کا حق ادا کرنا ہے اور بس۔
بارہ پندرہ فٹ نشیب میں اترنے کے بعد وہ نسبتاً ہموار زمین پر پہنچ گئے۔ یہاں سے وہ قدرے دائیں ہاتھ کو آگے بڑھے۔ ڈھائی تین سو گز کی دوری پر سامنے دو تین کچھے کوٹھے موجود تھے اور وہاں ایک دو بلب بھی روشن تھے۔ جہاں وہ چل رہے تھے وہاں ان کے بائیں ہاتھ ریلوے کی خالی زمین تھی اور دائیں ہاتھ کھیت۔ کھیت میں کچھ اگا ہوا تھا لیکن اندھیرے کے باعث یہ سمجھ سے باہر تھا کہ یہ کونسی فصل ہے؟
ابھی وہ مکانوں سے ساٹھ ستر گز ادھر ہی تھے کہ بائیں ہاتھ سامنے بلندی پر موجود جیپ کی ہیڈ لائٹس آن ہوتی دکھائی دیں۔ موٹر سائیکل بھی سٹارٹ ہو چکی تھی اور اس پر غالباً دو افراد سوار تھے ان کے دیکھتے ہی دیکھتے موٹرسائیکل نے دائیں طرف کو رخ بدلا، انہوں نے دیکھا کہ وہ ریلوے کا ایک سب پھاٹک ہی تھا ۔ وہاں سے ایک نیم پختہ سولنگ نما راستہ بائیں ہاتھ دوسری طرف اترتا تھا اور ایک دائیں ہاتھ اسی طرف کو جو سامنے موجود کوٹھوں کمروں کی دوسری طرف سے گزرتا ہوا آگے کہیں جاتا تھا۔ موٹرسائیکل اسی راستے کی طرف پلٹی تھی اور جیپ بھی اس رخ حرکت کر رہی تھی۔ عقبی طرف فاصلے پر سہی مگر کتوں کی آوازیں مسلسل انہیں ہنکا رہی تھی۔
” یہ اس طرف کیوں آ رہے ہیں؟”
"تیز چلو…. جلدی”
” کہیں انہیں کوئی شک تو نہیں ہو گیا؟ "
"ہو سکتا ہے "
"ہاں ناں! کتنی فائرنگ ہوئی ہے اور ابھی یہ یہ جو کتوں کی آوازیں ہیں۔ "
"یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں کوئی مصری کا ناجائز بچہ ہو اور اسے ہماری اس موجودگی کا شبہ ہو گیا ہو۔ "
"قابو ہو جاو�¿ پھر۔”
"قابو ہیں۔”
سامنے نظر آنے والے کوٹھے تک پہنچتے ہی وہ فورا اس کے دائیں طرف سرک گئے۔ شاید اس اوٹ تک پہنچنے میں انہیں تھوڑی تاخیر ہوتی تو اس طرف آتی بائیک یا جیپ کی ہیڈ لائیٹس کی روشنیوں میں دکھائی دے جاتے۔
”یہیں رک جائیں سرکار!“ کوٹھے کی اوٹ میں پہنچتے ہی مرشد نے کہا اور سب ٹھٹھک کر رہے گئے۔
"سب یہیں ٹھہریں, میں آتا ہوں۔” وہ ان سب کو وہی روکتے ہوئے خود تاریکی میں سامنے کی طرف بڑھ گیا۔ یہاں بے ڈھنگے طریقے سے ایک قطار میں تین چار کچے کمرے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان کمروں کی دوسری سمت یقینی طور پر دو تین افراد موجود تھے جو کسی کام میں مصروف تھے۔ اس طرف بلب روشن تھا۔ انسانوں کی آوازوں کے ساتھ ایک اور عجیب سی آواز بھی آ رہی تھی۔ جیسی دو بھاری لکڑیوں کو اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے پر پٹخا جا رہا ہو۔ محض چند لمحوں بعد ہی مرشد کی بہ عجلت واپسی ہو گئی۔ دوسری سمت کوئی تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ جیپ اور بائیک کے رکنے کی آواز سنائی دی۔
پیچھے ہٹو سب۔ کوئی بھی آواز نکالے بغیر پیچھے "مرشد نے قریب پہنچتے ہی تیز سرگوشی میں سب سے کہا اور خود بھی ان کے ساتھ پیچھے ہٹتا چلا گیا ۔
پولیس والے سیدھے یہیں آر کے تھے۔ مرشد کے اندازے کے مطابق ان کی تعداد چھ یا سات تھی۔ اس نے فوری طور پر یہی مناسب خیال کیا کہ ٹکراو�¿ سے دامن بچا لیا جائے۔ سرکار کے لیے کوئی رسک گوارا نہیں تھا اور یہ کوشش بھی کرنی تھی کہ چھوٹے شاہ جی بھی پولیس یا باقی دشمنوں میں سے کسی کی نظر میں نہ آنے پائیں۔ ان کے حق میں بہتر بھی یہی تھا جسے کہ شاید ابھی تک وہ پوری طرح سے سمجھ نہیں رہے تھے۔
جس راستے سے وہ یہاں تک پہنچے تھے اس پر چند قدم پیچھے ہٹنے کے بعد وہ اپنا رخ قدرے بائیں ہاتھ کو رکھ کر ایک بار پھر تاریکی کے سمندر کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ سبھی کے اعصاب بری طرح تناو�¿ کا شکار تھے۔ دھڑکنیں بے ترتیب تھیں۔ پولیس والے محض چند قدم کے فاصلے پر تھے۔دوسری طرف بیس پچیس مسلح افراد کتوں کے ہمراہ ان کی طرف بڑھتے آ رہے تھے۔ کسی بھی وقت صورت حال سنگینی کی انتہا کو پہنچ سکتی تھی لیکن خیریت گزری اور وہ تیزی سے دور ہوتے چلے گئے۔ قریب نصف فرلانگ فاصلہ طے کرنے کے بعد زریون کی بڑبڑاہٹ سی سنائی دی۔
"ہمیں جانا دوسری طرف تھا، مر دوسری طرف رہے ہیں۔”
"رستہ یہی بچا تھا شاہ جی!”
"بکواس بچی تھی۔ ”
کوئی کچھ نہیں بولا۔آگے بڑھتے بڑھتے ایک بار کتوں کی آوازیں انہیں اپنی دائیں ہاتھ خاصے واضح انداز میں سنائی دیں لیکن جلد پھر فاصلے پر چلی گئیں۔ کچھ فاصلے کے بعد انہیں کہیں دور سے ٹریکٹر ٹرالی کے گزرنے کی آواز سنائی دی۔ ٹریکٹر پر مسعود رانا صاحب حلق کے بل لرز رہے تھے۔
یہ دنیا راہ گزر ہے اور ہم بھی مسافر تم بھی مسافر
کون کسی کا ہوئے …کاہے چھپ چھپ روئے
کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے
یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لے کہ ہم بھی مسافر تم بھی مسافر
کون کسی کا ہوئے……..
انہوں نے اس سمت بھی تیزی سے دو ڈھائی فرلانگ کا فاصلہ طے کیا ۔
"اب آگے چلنا کس طرف کو ہے؟ ” مرشد نے پوچھا۔
"جہنم کی طرف۔ ” زریون بڑبڑایا
خنجر بولا۔” واپس ڈیرے کی طرف چلیں وہاں شاہ جی کی گاڑیاں وغیرہ کھڑی تھیں۔ "
"دماغ چل گیا ہے تیرا۔”
"ڈشکرے تو وہاں کاروائی ڈال کر نکل آئے انہیں خیال بھی نہیں آئے گا کہ ہم ادھر واپس جا سکتے ہیں۔”
"وہ نکل آئے ہیں اور بہت سے پہنچ چکے ہوں گے۔ اتنی زوردار فائرنگ ہوئی ہے ایک آدھ پولیس پارٹی تو لازمی پہنچ چکی ہوگی۔”
خنجر کو چپ لگ گئی۔ اس موٹی سے بات کی طرف اس کا دھیان گیا ہی نہیں تھا ۔
ٹیپو بولا۔ ” شاہ جی کا فارم ہاو�¿س جدھر ہے ادھر سے ہم پلٹ آئے ہیں۔ یہ رستہ جس پر ہم جارہے ہیں ایک دو بستیوں کے بعد آگے پھر چناب کی طرف نکل جاتا ہے۔ یہیں سے دائیں طرف کو بستی شاہ پور پڑتی ہے۔ ادھر سامنے ایک کچا راستہ آئے گا۔ وہ ادھر سے گھوم کر سیدھا شاہ پور کی طرف جاتا ہے باقی جیسے شاہ جی کہیں یا باقی سب کو ٹھیک لگے۔”
تھوڑے سے صلاح مشورے اور معمولی ردوقدح کے بعد زریون بھی تقریباً آمادہ ہو ہو گیا کہ فی الوقت وہ لوگ شاہ پور کی طرف آگے بڑھیں گے۔ وہ ذہنی طور پر بری طرح الجھا ہوا تھا بلکہ یوں کہہ لیں کہ اچھا خاصا پریشان تھا۔ ذہن حساب کتاب میں مصروف تھا۔
دس بندے تھے دو اس وقت ساتھ تھے۔ ڈیرے پر موجود آٹھ میں سے تین تو بقول ٹیپو کے پہلے ہی ہلے میں مارے گئے تھے۔ باقی پانچ میں سے پتا نہیں کوئی بچا تھا یا نہیں بچا تھا تو کس حال میں تھا۔ وہ دس کے دس بندے اپنے زمیندار دوست ملک سجاول کے ڈیرے سے لے کر آیا تھا۔ دس بندوں کے پیچھے دس فیملیاں تھیں۔ دس خاندان تھے۔ وہ سب لوگ تقریباً ایک مہینے سے اس کے ساتھ تھے۔ وہ ان پر کھلا خرچا کر رہا تھا۔ ذہن پر جنون سوار تھا کہ حجاب کو ڈھونڈنا ہے۔ اس تک پہنچنا تھا اور اس کے بعد خاندان کے لوگوں کو مطلع کرنا ہے۔ امی کو بتانا ہے کہ میں نے آپ کی بھانجی کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ لیکن یہ سارے بندے چھ سات تو یقینی طور پر مارے ہی گئے تھے یہ ایک بڑا مسئلہ، بڑی پریشانی والا معاملہ بننے والا تھا۔ وہاں ڈیرے سے تھوڑے فاصلے پر دو گاڑیاں کھڑی تھیں اور وہ دونوں اس کے اپنے نام پر رجسٹرڈ تھیں۔بڑی بہت بڑی ٹینشن کھڑی ہونے والی تھی اس کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو گا یہ لوگ مارے جائیں گے اور یوں آنا فانا اتنی بے رحمی کے ساتھ مارے جائیں گے۔
پھر سے ایک ٹریکٹر ٹرالی کی آواز سنائی دی۔
"یہ آواز کس طرف سے آرہی ہے؟”
"ادھر بائیں طرف سے ادھر ہی آرہی ہے۔ سامنے ہی وہ کچا روڈ ہے۔ شاپور والا۔ "
"روکواسے خنجر! جعفر ! اس ٹریکٹر ٹرالی کو روکو، جاو�¿” مرشد نے تیز لہجے میں کہا اور خود پہلو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ درد تو نہیں تھا، بس اندرونی طرف سے ایک عجیب سا کھنچاو�¿ محسوس ہونے لگا تھا۔ خنجر جعفر تیزی سے آگے نکل گئے تھے۔ ٹیپو نے بھی ان کی تقلید کی تو باقی دونوں بندے بھی ان کے پیچھے نکل گئے۔ ڈاکٹر زمان سماجت والے لہجے میں فیروزہ کے ساتھ سرگوشیاں کر رہا تھا۔ زریون حجاب چار قدم پیچھے تھے۔
حجاب نے مرشد کی آواز سنی تھی۔ ہانپتی ہوئی تھکی ہوئی آواز وہ پہلو پر ہاتھ رکھ کر ٹھہر گیا تھا۔ شاید وہ تکلیف میں تھا۔ دل پر بوجھ سا آپڑا….
ابھی کچھ دیر پہلے ماچے پہ بیٹھے ہوئے وہ اسے تاکید کر رہی تھی کہ وہ ابھی کم ازکم دس پندرہ دن آرام کرے گا لیکن پھر زریون آگیا اسے مرشد کا اندازہ ٹھیک معلوم ہوا کہ چوہدری کے بندے زریون ہی کے پیچھے لگ کر ڈیرے تک پہنچے ہوں گے۔ آرام مکمل ہو گیا تھا۔ اس نے انتہائی کرب سے سوچا کہ کہیں مرشد کے پہلو کا یہ گھاو�¿ ناسور نہ بن جائے۔
وہ بس سوچ ہی سکتی تھی۔ کچھ کہہ تو پہلے بھی نہیں سکتی تھی۔ اب زریون کی وجہ سے کچھ پوچھ بھی نہیں سکتی تھی۔ نا اسکی طبیعت کا، نا اس کی تکلیف کا۔ پتا نہیں کیوں ؟ مگر زریون کے ساتھ ہونے سے ، اس کی موجودگی سے مسلسل اس کے دل کو ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا…. ایک گھبراہٹ سی تھی۔ توجہ تو دور دھیان سے سوچنے سمجھنے کا بھی ابھی وقت نہیں تھا کہ کیوں دل اس کی طرف سے سہما سہما سا ہے۔
اپنی ذات کے حوالے سے مرشد کے غیر معمولی رویے کا خیال اس کے دل کو ہولائے ہوئے تھا۔ یہ تو اسے یقین تھا کہ وہ دانستہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کرے گا لیکن نادانستہ پتا نہیں اس سے کب کوئی ایسی حرکت، ایسی بات سرزد ہو جاتی کہ جو اس کی نئی زندگی کے شروع ہونے سے پہلے ہی اس کی بربادی کا باعث بن جاتیمرشد کا تو اٹھنا بیٹھنا بولنا چلنا اور اس کی آنکھیں تک اس کے دل کا یہ راز بیان کرتی تھیں کہ وہ اسے دل و جان سے چاہتا ہے۔ بے پناہ محبت کرتا ہے۔ وہ تو ہر پل ہر لمحے جیسے اس پر قربان ہونے کو تیار رہتا تھا۔ بات کرتے ہوئے اس کا لہجہ تک صدقے واری ہو ہوجاتا تھا۔ ایسے ہی تو سب اس کے ان جذبات سے واقف نہیں ہوگئے تھے نا! پھر زریون کو آگاہ ہونے میں بھلا کیا دیر لگنی تھی؟
وہ اندر ہی اندر اس حوالے سے بری طرح گھبرائی ہوئی تھی۔ اس کے پاو�¿ں پر چوٹ آئی تھی۔ اچھا خاصا درد تھا لیکن وہ مسلسل ضبط سے کام لیتی چل رہی تھی۔ کئی کراہیں اس نے گلے ہی میں گھونٹ لی تھیں کہ کہیں مرشد اس کی تکلیف پر بے قرار نہ ہو اٹھے۔ وہ بے خود ہو کر فکر وپریشانی کا اظہار کر بیٹھتا تو یقیناً زریون کو اس کے جذبات کی سمجھ آجاتی۔ وہ حجاب کی طرف سے بھی مشکوک ہو جاتا۔ شیشے میں ہمیشہ کے لیے بال آ جانے والا مسئلہ بن جانا تھا ساتھ ہی ایک یہ دکھ ، یہ افسوس بھی دل پر بیٹھا جارہا تھا کہ زریون کو اس کی چوٹ کی فکر ہونی چاہیے تھی…. اسے بات کرنی چاہیے تھی۔ اس کی چوٹ اور تکلیف کے متعلق پوچھنا چاہیے تھا مگر…. اس نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔ جھوٹے منہ سے بھی نہیں پوچھا تھا۔ یعنی جسے احساس ہونا چاہیے تھا اسے نہیں تھا اور جیسے تھا، اسے اس قدر شدت سے تھا کہ وہ سوچ سوچ کے گھبراتی تھی
سامنے ستر اسی قدم پر ایک کچی سڑک تھی۔ مرشد وغیرہ کے پہنچنے تک خنجر لوگوں نے ٹریکٹر ٹرالی کو روک لیا تھا۔ وہ ستم رسیدہ شکلوں والے تین بندے تھے۔ خنجر وغیرہ کے ہاتھوں میں دکھائی دینے والی خوفناک رائفلوں نے ان کے سانس خشک کر دیئے تھے۔ تینوں کے چہروں پر یوں ہوائیاں اڑ رہی تھیں جیسے وہ بے دھیانی میں اچانک آدم خور بھوتوں کے جھنڈ میں آ پھنسے ہوں۔
سڑک پر پہنچنے کے بعد مرشد نے پلٹ کر دیکھا اور اس کے وجود میں چیونٹیاں سی کلبلا اٹھیں۔ پولیس کی وہ جیپ اور موٹر سائیکل کافی آگے سے فاصلہ طے کر کے اسی طرف چلی آ رہی تھیں۔ہیڈلائٹس کے ہچکولے اس بات کے غماز تھے کہ راستہ خاصا ناہموار ہے۔ دوسری طرف ان کچے کوٹھوں کے
قریب، جہاں سے وہ اس طرف کو پلٹے تھے، وہاں چند ٹارچیں گردش کررہی تھیں۔ یہ یقینی طور پر چوہدری کے کتے تھے۔ روشنیوں کے زاویوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ لوگ ان کے قدموں کے نشان دیکھ رہے ہیں۔ دونوں طرف کا فاصلہ تقریبا مساوی تھا۔ دو ڈھائی فرلانگ۔
ان میں سے ٹریکٹر کی ہیڈ لائیٹس کے سامنے کوئی نہیں آیا تھا۔ سب کے سب ہی عقبی طرف اندھیرے میں تھے لیکن پولیس والوں اور چودھریوں کے حرام خور کتوں کو اس کچے راستے پر کھڑے ٹریکٹر کی روشنیاں تو ظاہر ہے کہ نظر آ ہی رہی تھیں اور ان کے اپنے قدموں کے نشان بھی اسی سمت کے مخبر تھے !
زریون اور حجاب کے بعد باقی سب بھی ٹرالی میں سوار ہوگئے جبکہ مرشد اور خنجر رائفلیں سنبھالے ڈرائیور کے دائیں بائیں ٹریکٹر کے مڈ گارڈوں پر چڑھ بیٹھے اور ٹریکٹر حرکت میں آگیا۔جسمانی کمزوری رہی اپنی جگہ ، مرشد کے حواس پوری طرح چوکس تھے۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ اپنی کمین گاہ سے نکل کر کھلے میں آگئے ہیں۔ بقول ٹیپو کے ،شاپور کا فاصلہ یہاں سے محض تین کلو میٹر تھا لیکن یہ جو "محض” تھا اس میں کئی ہزار اندیشے تھے ڈھیروں ڈھیر خطرات تھے۔ اب تک کی معلومات کے تناظر میں دیکھا جاتا تو یہ خاموش اجاڑ اور ویران راستہ ،موت کا غار معلوم ہوتا تھا یہاں سے شاپور تک گویا کئی ایک جگہ بارودی سرنگیں سرنہوڑائے خاموشی سے ان کی راہ تک رہی تھیں سارا راستہ جیسے خون آشام بلاﺅں کے نرغے میں تھا۔
چودھریوں اور پولیس کے دو گروہ تو ان کے پیچھے آ ہی رہے تھے۔ آگے کہیں بھی ،کسی بھی قدم پر ،کسی تیسری پارٹی، تیسرے گروہ سے بھی مد بھڑ ہو سکتی تھی۔ یہ عین یقینی بات تھی۔ ٹریکٹر ٹرالی ہچکولے کھاتی ،بلند گھن گرج کے ساتھ سامنے کی سمت ڈور رہی تھی اس کچی سڑک کے دونوں طرف کھیت پھیلے ہوئے تھے اور کھیتوں کے کنارے سڑک کے ساتھ ساتھ دونوں طرف قطار در قطار کیکر کے درختوں کا ایک طویل سلسلہ موجود تھا۔ ٹریکٹر کی لائٹس میں سامنے دور تک یہ درخت کندھے سے کندھا ملائے کھڑے دکھائی دیتے تھے۔ کسی دیومالائی داستان کے خاموش اور پر اسرار پہرے داروں کی طرح۔
وہ شاہ پور کی طرف بڑھ رہے تھے اور مرشد کے ذہن میں بستی شاہ پور کے زمینی مالک کا ہیولا جھلملا رہا تھا ایک قلندر مزاج سید بادشاہحجاب سرکار کے پھوپھا نواب اور چوہدری۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ اس سید بادشاہ کے متعلق ارباب سے پوچھے گا ارباب اور ملک منصب کے توسط سے حجاب سرکار کے پھوپھا یہاں کے اس سارے سنگین جنجال سے واقف ہونے والے تھے اس کے بعد اس بات کے قوی امکانات تھے کہ آئندہ دو چار دنوں میں ہی ان سے ملاقات ہو جاتی انہیں تو یقینی طور پر ان سید بادشاہ کے متعلق جانکاری تھی ہی ان سے بھی پوچھا جا سکتا تھا کہ وہ سید بادشاہ اب کہاں ہیں؟ چودھری کے باپ نے، پنچایت میں جھوٹا قرآن کیوں اٹھایا تھا؟ وہ ایسی کیا بات تھی؟ اصل پر خاش کیا تھی اسے سید بادشاہ سے اور سید بادشاہ اتنی بڑی جائیداد سے دستبردار کیوں ہوگئے؟
انہیں ایسی کون سی مجبوری یا خوف دامن گیر ہو گیا تھا کہ وہ سو مربع زمین کو یوں ہی چھوڑ کر چلے گئے!ششناب گجناب کے متعلق بھی مزید جاننے کو ملتا ان میں سے ایک ملک منصب کا دادا تھا مرشد کے ذہن میں بستی کے لوگ آئے کالی قمیضیں، کالی پگڑیاں، کالے فراق، کالے دوپٹے!
بشارت نے انہیں بتایا تھا کہ ملک منصب نے پچھلے بارہ سال سے کالے رنگ کے علاوہ اور کوئی رنگ نہیں پہنا اور پوری بستی نے اس کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر کالا رنگ خود پر لازم کر لیا ہے۔
بارہ سال پہلے ملک کی زندگی میں کوئی حادثہ رونما ہوا تھا کوئی مہیب سانحہ گزرا تھا ایسا سانحہ جس کی چھاپ ابھی تک موجود تھی اور پوری بستی پرموجود تھی یقینی طور پر اس حادثے، اس سانحے کے پیچھے کوئی غیر معمولی کہانی موجود تھی اور ممکنہ طور پر یہ بھی اسی زہر ناک دشمنی کی کہانی ہی کا ایک حصہ…. ایک ٹکڑا تھا جو آج سے چالیس سال پہلے بستی شاہ پور کی آبادکاری کے وقت شروع ہوئی تھی۔ اسی دشمنی کا زہر حجاب تک پہنچا تھا۔ وہ بھی اسی کہانی کا ایک باب تھی۔اس کہانی کا ایک پرانا اور شروع کا باب حجاب کے پھوپھا سید نظام الدین بھی تھے اور مرشد کا خیال تھا کہ یہی باب زیادہ انکشاف انگیز اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر انی دشمنی کی اصل جڑیں اسی علاقے ، اسی شہر میں تھیں دشمنی کی اس ظالمانہ کہانی نے یہیں سے جنم لیا تھا اور اس ٹکڑے ٹکڑے ،بکھری بکھری کہانی کا مرکز تھا، بستی شاپور….کہانی کے چار بنیادی کردار تھے۔ نواب اسفندیار خان…. چوہدری حاکم علی خان…. حجاب سرکار کے دادا سسر اور چوتھا کردار تھا نامعلوم سید بادشاہ کا….
مرشد کا وجدان جیسے اسے آگاہ کر رہا تھا کہ شاپور پہنچنے کی صورت میں اس کہانی کے چاروں سمتوں میں بکھرے سبھی پنے یکجا ہو کر ایک واضح صورت اختیار کرنے والے ہیں …. سارے حصے بخیے آپس میں جڑنے والے تھے…. ایک ٹکڑے ٹکڑے زنجیر سی تھی جس کی ساری کڑیاں مکمل ہونے والی تھیں۔ شایدشاید ظلم کی اس داستان کا منطقی انجام قریب آپہنچا تھا یہ قدیم زہریلی دشمنی اب اپنے انجام کو پہنچنے والی تھی۔
ٹرالی پر ان کا یہ سفر تقریبا ایک ڈیڑھ کلو میٹر تک بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا۔ راستہ سارے کا سارا ویران تھا۔ ایک ڈیڑھ کلو میٹر بعد انہیں چند ایک کچے گھر دکھائی دیے۔ ایک دو میں روشنی کا گمان گزرتا تھا پھر ایک دو جگہ انہیں کچھ مویشی ، کچھ بھنسیں وغیرہ بندھی ہوئی دکھائی دیں۔ ایک دو لوگ …. پھر ایک ٹھیلہ جس پر لالٹین لٹک رہی تھی، تین بندے برابر ایک بینچ پر بیٹھے تھے۔ ان ہی کچے مکانوں کے قریب ڈرائیور نے رفتار کم کی، ایک زگ زیگ سا موڑ کاٹا اور پھر ٹریکٹر ایک مختصر سی چڑھائی طے کرتا ہوا ایک سیم نالے کے پل پر چڑھ آیا۔ پل پر پہنچتے ہی انہیں دوسری طرف سامنے ہی ایک بستی دکھائی دی۔ اچھے خاصے مکان تھے۔ ایک دو دوکانیں ، چند ٹھیلے اور سامنے سے بائیں ہاتھ کو پھیلی ہوئی مکانوں کی قطار …. ادھر ادھر کچھ لوگ بھی دکھائی پڑے تھے۔ وقت ابھی کچھ خاص نہیں ہوا تھا۔ساڑھے آٹھ نو ہی بجے ہوں گے۔ صاف پتاچل رہا تھا کہ ساری بستی جاگ رہی ہے گھروں میں روشنیاں تھیں۔ دکانیں کھلی تھیں دوکانوں اور گھروں کے سامنے موجود سڑک نما راستے پر ادھر ادھر لوگ موجود تھے۔ ایک دو جگہ چھوٹے چھوٹے بچے بھاگے دوڑے پھر رہے تھے۔
پل کی دوسری طرف بھی راستہ کسی سانپ کی طرح بل کھا کر نیچے اترتا تھا اور نصف دائرے کے بعد جہاں سے دوبارہ سیدھا رخ اختیار کرتا تھا
وہاں چند دکانیں تھیں۔ ٹریکٹر ان دکانوں کی بغلی سمت سے ہو کر سامنے کے رخ آیا اور ٹریکٹر ڈرائیور نے یکایک بریک پر پاو�¿ں رکھ دیا۔ ٹریکٹر ایک جھٹکے سے اس نیم پختہ سڑک کے بیچوں بیچ جم کر رہ گیا۔ مرشد ایک جھونک کے عالم میں آگے کو لڑھک کر مڈگارڈ سے نیچے سڑک پر جا پہنچا۔
یہاں سامنے ہی دائیں ہاتھ دو دکانیں کھلی نظر آ رہی تھیں۔ ان میں سے ایک دیسی حلوائی کی دکان تھی اور اس کے برابر میں چائے کی۔ دونوں دکانوں کے باہر مشترکہ طور پر ایک دھواں دھواں سا بلب لٹک رہا تھا، جس کی روشنی قطعی ناکافی تھی۔ اس زرد مدقوق روشنی میں یہاں کے مکمل ماحول کو واضح طور پر دیکھنا پانا ممکن نہیں تھا لیکن ٹریکٹر کی طاقت ور ہیڈ لائیٹس نے ان دکانوں کے سامنے اور مخالف سمت…. سڑک کی دوسری طرف کا منظر بھی پوری وضاحت سے ان کے سامنے کھول کے رکھ دیا تھا۔
ہیڈ لائٹس کی تیز روشنیوں کی بدولت اس حصے میں جیسے اچانک ہی دن طلوع ہو آیا تھا۔تقریبا سب ہی نے اس طرف مڑتے ہی ایک ساتھ سامنے موجود منظر دیکھا تھا اور اس منظر کی پہلی جھلک کے ساتھ ہی کچھ دل اچھل کر حلق میں آ دھڑکے تھے…. دو تین جسموں میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔ دو تین سینوں میں اسی پل جوش و جذبے کے نقارے سے گونج اٹھے۔
ان کے سامنے محض بیس پچیس قدم فاصلے پر وہ دونوں دکانیں تھیں۔ دوکانوں کے ساتھ ہی ایک سفید کار اور دو موٹر سائیکل کھڑے تھے۔ ساتھ دو تینبینچ پڑے تھے اور ان بینچوں پر سات آٹھ لوگ بیٹھے تھے۔ ان میں سے دو پولیس کی وردیوں میں تھے اور باقی سب بدمعاش صورتوں والے ہٹے کٹے بندے تھے۔ سبھی مسلح بھی تھے۔ ان کے علاوہ سڑک کے دوسری طرف زمین کا ایک کشادہ اور ہموار ٹکڑا تھا وہاں ایک ماچے کے برابر لکڑی کے دو بنچوں کے علاوہ تین چار موڑھے بھی دھرے تھے۔ دو تین پولیس والے ادھر بھی بیٹھے تھے ان کے علاوہ تین چار ڈشکرے موجود تھے اور ان سب کے پاس بھی رائفلیں تھیں۔ وہاں سے چند فٹ پرے دو گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ایک پوٹھوہار جیپ اور دوسری ایک لال سرخ رنگ کی پجارو…. نندی پور کے متکبر ترین چوہدری، فرزند علی اکبر کی مخصوص لہو رنگ گاڑی۔
چوہدری فرزند خود بھی بہ نفس ملیچھ اپنی پوری چودھراہٹ کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ ایک گاو�¿ تکیہ اپنی پشت کے پیچھے ٹکائے وہ اس ماچے پر بڑے ہی شاہانہ انداز میں پھیلا ہوا تھا۔ ایک رائفل بردار سرہاندی کی طرف کھڑا اسں کے کندھے دبا رہا تھا۔ وہاں گویا ضیافت کا ماحول تھا۔ سبھی جلیبیوں اور چائے سے شغل کرنے میں مگن تھے۔
سارے منظر کی پہلی اجتماعی جھلک پاتے ہی ان سب کے اعصاب جھنجھنا کر رہ گئے۔ ذہنوں میں شدید ترین خطرے کے ایک ساتھ کئی الارم چیخ اٹھے تھے۔ویسے تو شاید وہ لوگ اس ٹریکٹر ٹرالی پر کوئی خاص توجہ نہ دیتے لیکن اس کے اس طرح سڑک کے درمیان رک جانے پر وہ سبھی اس طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ پتا نہیں ٹریکٹر چلانے والے اس الو کے پٹھے نے یہ حرکت کیوں کی تھی باقی سب کے ساتھ ساتھ چوہدری فرزند نے بھی اپنی
مکروہ آنکھیں سکیڑتے ہوئے ان کی طرف دیکھا وہ سب روشنی کے پیچھے، اندھیرے میں تھے لیکن مرشد مڈگارڑ سے نیچے لڑھکنے کے بعد اپنی ہی جھونک میں سامنے کی طرف لڑکھڑاتا ہوا ہیڈ لائٹس کی روشنی میں جا پہنچا تھااس کے کندھے کے ساتھ گولیوں والا بیک جھول رہا تھا اور ہاتھوں میں سیون ایم ایم رائفل تھی۔ایک لمحے کیلئے جیسے سب ہی کی دھڑکنیں ساکن ہو گئیں…. سینوں میں سناٹے پھیل گئے تھے!
اگلے ہی پل مرشد کی بلند آہنگ للکار جیسے اس پورے علاقے کو جھنجوڑ کے رکھ گئی۔ اس للکار میں کلیجے دہلا دینے اور پتے پانی کر دینے والی غضب ناکی اور جوش تھا۔ خنجر نے اسے برق رفتاری سے سامنے کی طرف لپکتے ہوئے دیکھا تو اسے ایک جھماکے سے سمجھ آ گئی کہ ٹریکٹر کے جھٹکے سے رکنے کے بعد مرشد مڈگارڈ سے نہ تو لڑھکا ہے اور نہ ہی لڑکھڑانے کے باعث سامنے آیا ہے۔ اسی پل وہ رائفل کو کاک کرتا ہوا تڑپ کر مڈگارڈ سے نیچے کودا۔ پچھے ٹرالی میں کھڑے جعفر اور ٹیپو نے بھی بنا کسی ثانیے کی تاخیر کیے رائفلیں سونت لیں۔
فیروزہ حجاب اور زریون ٹرالی میں آگے آگے کھڑے تھے ۔ایک بار تو حجاب بھی یہی سمجھی تھی کہ مرشد جھٹکے کی وجہ سے نیچے لڑھک گیاہےلیکن ایسا تھا نہیں ٹریکٹر کے رکنے سے پہلے ہی سامنے موجود سارے کتے سور اور وہ آدم خور بھیڑیا جسے چوہدری فرزند کہا جاتا تھا، وہ سب دکھائی دے گئے تھے اسے وہ سارا منظر ایک لمحے میں آنکھوں کے رستے اس کے دل و دماغ میں چمک گیا تھا اور گویا کسی بارود کے ڈھیر کو چنگاری دکھانے کا کام کر گیا تھا۔مرشد کے رگ و پیماں میں انگارے دھک اٹھے تھے، اسی لمحے ٹریکٹر رکا تھا جھٹکا تو لگا تھا مگر آگے کی ساری کاروائی ایک خود کار طریقے سے وقوع پزیر ہو گزری تھی۔ پیروں کے سڑک چھونے سے پہلے ہی وہ رائفل کا سیفٹی کیچ ہٹا چکا تھا۔قدم آگے بڑھاتے وقت اس نے رائفل کو پورے درست طریقے سے گرفت میں کر لیا تھا اور پھر اسکی للکار یوں گرجی تھی، جیسے کوئی شیر دھاڑا ہو ،بادل پوری ہیبت ناکی سے گڑگڑائے ہوں۔ ٹریکٹر سے چوہدری فرزند بیس قدم دور تھا اور مرشد ٹریکٹر کی اوٹ سے نکل کر سیدھا اسی کی طرف بڑھا تھا۔ اس کی لپک جھپک دیدنی تھی۔ جیسے کوئی زخمی چیتا جھپٹا ہو۔ وجود میں ایک برقی رو سی تھی، جسے ٹریکٹر کی روشنی میں سب نے چوہدری فرزند کی طرف دوڑتے دیکھا ۔ساتھ ہی جسم و جاں میں سناٹے سے بھر دینے والی ایک وحشت خیز دھاڑ تھی اور اس دھاڑ کی پشت پر چند اور بے خوف للکار گونجے تھے۔
"بس اوئے! ہلنا نہیںخبردار! "
” کوئی حرکت نہیں اوئے!”
” بس بھئی "
"اوہ تمھاری ماں کا”
ساتھ ہی رائفلوں کی خوف ناک تڑتڑاہٹ سے پورا علاقہ گونج اٹھا۔ دو چھوٹے برسٹ فائر ہوئے تھے ایک سنگل شاٹ یہ سارا کچھ محض ڈیڑھ سیکنڈ میں ہو گزرا تھا۔ اس قطعی غیر متوقع اور حیرت ناک جھٹکے سے سمبھلنے میں چوہدری کو ڈیڑھ سیکنڈ لگا اور پھر وہ تڑپ کر ایک جھٹکے سے سیدھا ہوا لیکن اتنے میں مرشد اس کے عین سامنے جا پہنچا تھا۔ اس نے بائیں لات چوہدری کے سینے پر جمائی اور اٹھنے کی سعی کرتا ہوا چوہدری فرزند دوبارہ پشت کے بل ماچے پر گر پڑا۔
” نئیں چوہدری بس حرکت نہیںورنہ اس چھاتی کا چھتا بنا دوں گا میں۔” اس نے رائفل کی سرد نال انتہائی بےرحمی سے اس کی چھاتی میں گھسیڑتے ہوئے سفاکانہ غراہٹ سے کہا۔ اس کے چہرے پر ایسی وحشت، ایسا ہیجان تھا کہ ایک بار تو چوہدری فرزند پوری طرح مسمرائز ہو کر رہ گیادماغ کے پاتالوں میں کہیں موت کے فرشتے کے سرد پروں کی پھڑپھڑاہٹ بھی کسمائی تھی۔ اس ڈیڑھ سیکنڈ میں جو پہلے دو چھوٹے برسٹ فائر ہوئے تھے وہ مرشد نے چوہدری کی طرف دوڑتے ہوئے کئے تھے۔ پہلا برسٹ چوہدری کی سرہاندی کھڑے رائفل برادر کی چھاتی ادھیڑ گیا تھا اور دوسرا برسٹ ایک ڈشکڑے کے دونوں گھٹنوں کی ہڈیاں کرچی کرچی کر گیا تھا۔ اس کے حلق سے ابلنے والی چیخیں بڑی ہی دل خراش اور کرب ناک تھیں۔باقی دونوں رائفل برادر اور تینوں پولیس والے اجل خیز بوکھلاہٹ سے آپس میں ٹکراتے، دور ہٹنے کی کوشش میں بنچوں اور موڑھوں کے ساتھ الجھ الجھ کر گرے۔سنگل شاٹ عقب سے خنجر نے فائر کیا تھا۔
دوسری طرف دوکان کے سامنے بیٹھے بندوں میں سے ایک نے کندھے سے رائفل اتارنے کی اضطراری سی کوشش کی تھی اور جعفر نے اسکے کندھے میں گولی اتار دی۔باقی سب کے سب ہی اپنی جگہ پتھرا کر رہ گئے تھے۔
اچانک ہونے والے اس حملے کی برق رفتار، بے رحم کاروائی نے انہیں مبہوت کر کے رکھ دیا تھا۔ ان کے جیسے اعصاب ہی شل ہوکر رہ گئے تھے۔ڈیڑھ سیکنڈمحض ڈیڑھ سیکنڈ کے مختصر ترین دورانیے میں تو یہ سب ہو گزرا تھا۔علاقے بھر میں انکی ایک دھاک، ایک دبدبا تھا۔انکے خلاف ایسی حرکت کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔وہ سب تو انتہائی بے فکری سے بیٹھے چائے اور جلیبیوں سے شغل فرما رہے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یوں اچانک کوئی شب خون مارنے کے انداز میں ان پر کسی آسمانی قہر کی طرح ٹوٹ پڑے گاان کا ایک ساتھی چھلنی سینہ لیے چوہدری صاحب کی لال پجارو کی عقبی طرف پڑا جانکنی کی حالت میں تڑپ رہا تھا۔دو ساتھی گولیوں سے ناکارہ ہو کر گرے پڑے کراہ رہے تھے،چیخ رہے تھے۔ انکی درد میں لتھڑی کراہیں اور چیخیں جسموں میں سرد لہریں جگا رہیں تھیں۔سامنےسڑک کی دوسری طرف ان کا ٹیڑھی گردن والاچوہدری ماچے پر پشت کے بل پڑا تھا۔ اس کی ٹانگیں ماچے سے نیچے جھول رہیں تھیں اور مرشد کسی عفریت کی طرح اس پر چھایا ہوا تھا۔اس کا بایاں پاو�¿ں تو جیسے چوہدری کی چھاتی کے بائیں حصے کے ساتھ چپک کے رہ گیا تھا اور رائفل کی نال اس نے کسی نیزے کی طرح چوہدری کے سینے میں گھسیڑ رکھی تھی۔
جعفر اور ٹیپو بھی ٹرالی سے کود کر رائفلیں سونتے سامنے آ گئے تھے۔ان دونوں کے علاوہ خنجر کے پاس بھی ٹرپل ٹو رائفل تھی اور وہاں موجود سبھی افراد اس رائفل کی خوف ناک کارکردگی سے واقف تھے۔ سب سے پہلے پولیس آفیسر نے شدید گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ سے گڑگڑاتے ہوئے سڑک کےبیچوں بیچ ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوئے گھٹنے ٹیکے حالانکہ اس کی شخصیت خاصی رعب دار تھی۔ جسم پر یونیفارم کی بجائے سفید کاٹن کا سوٹ تھا پھر بھی صاف پتہ چلتا تھا کہ یہ پولیس کا کوئی آفیسر رینک کا بندہ ہے۔اس کے گھٹنوں پے آتے ہی اسکے پانچوں ماتحتوں نے بھی اس کی تقلید کی جب کہ چوہدری کے ذاتی کارندے شش و پنج میں تھے۔خنجر جعفر اور ٹیپو کے علاوہ اب زریون کے دونوں ساتھی بھی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں پہنچ چکے تھے اور وہ سبھی پوری طرح چوکنے تھے۔ پلک جھپکنے کی دیر میں فائر کھول دینے کو آمادہ و تیار۔
” ہتھیار نیچے ڈالو سب۔”
"آرام سے سبسب ادھر ایک طرف آ جاو ۔”
تمھاری”
"اوئے! ان کے”جعفر اور ٹیپو نے درشت لہجوں میں سب کو حکم دیا۔ ٹیپو نے ان کے پیروں کے پاس دو فائر بھی ٹھوک دئیے۔حجاب زریون اور ڈاکٹر زمان نے یہ ڈیڑھ دو سیکنڈ کی طوفانی کاروائی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ زریون بھی پسٹل نکال چکا تھا لیکن اس نے ٹرالی سے نیچے اترنا یا کچھ کہنا بولنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ حجاب کی سراسیما پتھرائی ہوئی سی آنکھیں مرشد پر جمی تھیں۔ یہی لگ رہا تھا کہ وہ اب رائفل کی لبلبی دبائے گا، اب دبائے گا۔ ایک لمحے کو تو مرشد کا بھی یہی جی چاہا تھا کہ ٹریگر دبائے اور رائفل کا پورا میگزین چوہدری کے سینے میں اتار دے لیکن ساتھ ہی ایک شدید مزاحمتی لہر اسکی اس خواہش کی راہ میں حائل ہو گئی کہ اگر اس نے ایسا کیا تو یہ بندہ ابھی چند سیکنڈ میں یہاں ٹھنڈا ہو جائے گا محض چند سیکنڈ میں، جب کہ اس کے گھناو�¿نے اور ظالمانا کرتوت تقاضا کرتے تھے کہ وہ انتہا درجہ تکلیف دہ اور عبرت اثر انجام سے دو چار ہواسے آسان موت نہیں مرنا چاہیے تھا۔
چند لمحوں کے لیے جیسے وقت تھم گیاان دونوں کے لیے سارا زمانہ، سارا جہان کہیں لا پتہ ہوچکا تھا۔ ان کے سامنے صرف ایک دوسرے کے چہرے تھے۔ان چہروں پر آنکھیں تھیں اور وہ آنکھیں ان لمحوں جیسے ایک دوسرے میں گڑ کر رہ گئی تھیںمرشد کی آنکھوں میں جنوں آمیز سرخی بھری ہوئی تھی اور چوہدری کی آنکھوں میں جان لیوا اندیشوں کی جھلملاہٹسرخ و سپید چہرے پر چند لمحے کے لیے ایک تاریک سایہ سا لہرا گیا تھا لیکن محض چند لمحے کے لیے….اس کے بعد خون میں دوڑتی انا پرور چوہدراہٹ نے غیرت پکڑیجوش میں ابال پیدا ہوا۔ اس کی مونچھیں تھرتھرائیں چہرے پر سرخی نمودار ہوئی، ایک زرا ناک کے نتھنے پھڑپھڑائے اور پھر اس نے رائفل کی پروا نہ کرتے ہوئے مرشد کی ٹانگ اور رائفل کو ایک جھٹکے سے دھکیلا اور غراتے ہوئے تڑپ کر سیدھا ہوا۔
مرشد نے رائفل کا بٹ اسکے منہ پر رسید کرنا چاہا تھا مگر چوہدری ہزیانی انداز میں چنگھارتے ہوئے اس سے لپٹ گیا۔ اس نے مرشد کو جپھا ڈالا تھا۔ مرشد کے دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھے کے اٹھے رہ گئے اور چوہدری اس کو دھکیلتا ہوا سڑک کے دوسرے کنارے تک لے گیا۔ مرشد نے اس کی کمر میں رائفل کا کندا رسید کیا لیکن وار اچٹتا ہوا سا پڑا۔ چوہدری کے بھاری جسم پر چربی کی موٹی تہہ تھی اور اسکے وجود میں حیوانی طاقت
اپنے چوہدری کو دیوانہ وار مرشد سے بھڑتے ہوئے دیکھ کر اس کے ایک کارندے کے دل میں وفاداری اور نمک حلالی کے مظاہرے کا خیال آیا تھا۔ اس نے ابھی جنبش کی ہی تھی کہ ٹیپو نے بلا جھجک اس کے سینے میں گولی اتار دی۔اس کی آنکھوں میں ان سب کے لیے نفرت اور قہر کے انگارے سے دھک رہے تھے۔ اس کے قبیلے بستی کا بھی تو ان لوگوں کے ساتھ پرانا جھگڑا، پرانا بیر چلا آرہا تھا۔
کچھ فاصلے پر دو تین جگہ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں اکٹھی ہو کر انتہا درجہ بے چینی اور سراسیمگی سے اسی طرف دیکھ رہی تھیں۔ سنسنی خیزی کی شدت سے انکی آوازوں میں غیر محسوس سی سرسراہٹ اور لرزش شامل ہو گئی تھی۔
"او ایک اور مار دیا۔”
"چار پانچ مارے گئے ہیں۔”
” یہ چودہریوں کے بندے ہی ہیں نا!”
"ہاں! ہاں میں نے خود دیکھا ہے فرید بھائی! وہ وہ رائفل والے سے بھڑنے والا خود چوہدری فرزند ہی تو ہے۔”
” یہ حملہ کرنے والے ملک منصب کے لوگ تو نہیں لگ رہے۔”
” نہیں، یہ کوئی اور ٹولا ہے۔ شاید شاید یہ وہی لوگ ہیں جن کو پورے علاقے میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔”
” بڑے دلیر اور ظالم لوگ ہیں یار ! توبہتوبہ۔”
"اوئے اوئے! کھوتے کے بچے ! تو ادھر کو ہو جا۔کوئی آوارہ گولی لگ جائے گی تجھے۔”
” ادھر چار پانچ کو تو فائر لگے ہیں۔”
ٹریکٹر کی ہیڈ لائٹس کی تیز روشنی میں وہاں کا سارا منظر پوری وضاحت سے دیکھائی دے رہا تھا۔پانچ رائفل برادروں نے چوہدری کے سارے ڈشکروں اور پولیس والوں کو بیچ سڑک گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ غالباً ان کا سارا اسلحہ بھی ایک جگہ ڈلوا لیا گیا تھا۔ ان کا چھٹا رائفل بردار ساتھی اور چوہدری آپس میں گتھم گتھا ہو کر سڑک کے دوسرے کنارے گر پڑے تھے۔ تبھی پانچ میں سے ایک رائفل بردار اپنے ساتھی کی مدد کے لیے لپکا اور اسی وقت ایک اور بندہ ٹرالی سے کود کر کچھ بولتا ہوا ان دونوں کی طرف بڑھا۔اسکے ہاتھ میں پسٹل موجود تھایہ بندہ تھا زریون جو حجاب کے بازو جھنجوڑنے پر زمانوں دور سے وہاں پہنچا تھا اور دوسرا تھا جعفر لیکن ان کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی مرشد کی پاٹ دار آواز نے انہیں ٹھٹھکا دیا۔
"نہیںکوئی پاس نہیں آئے گا شاہ جی! آپ پیچھے رہیں۔” ساتھ ہی اس نے خود پے حاوی ہوتے چوہدری کے جبڑے پر کہنی کی ایک سخت ضرب رسید کی اور اسے دھکا دیتے ہوئے لات کی مدد سے دور دھکیل دیا۔ چوہدری طاقت ور سپرنگ کی طرح فورً ہی اچھل کر دوبارہ اس پر جھپٹا تھا۔ اس بار رائفل کا بٹ اس کی تھوڑی پر پڑا اور اس کے حلق سے بے اختیار چوٹ کھائے درندے کی سی دردناک آواز خارج ہوئی، ساتھ ہی مرشد نے بایاں گھٹنا زمین پر ٹکاتے ہوئے دائیں ایڑی کی ضرب چوہدری کی موٹی گردن پر رسید کی۔ یہ ایسی مضبوط اور جھٹکے دار ضرب تھی کہ چوہدری اچھل کر تین فٹ دور پہلو کے بل گرا۔ ایک بار تو اسے محسوس ہوا تھا کہ گردن کا کوئی مہرا اپنی جگہ چھوڑ گیا ہے یا پھر کسی رگ میں سخت قسم کا کوئی بل پڑ گیا ہے۔ ایک دو لمحے کو تو اسے اپنا جسم مفلوج ہوتا محسوس ہوا،حواس شل ہو کر رہ گئے تھے۔ بحرحال وہ سمبھل گیا اور فورً ہی اٹھ بھی پڑا۔ مرشد اس سے پہلے ہی کھڑا ہو چکا تھا۔ رائفل اس نے برابر کھڑے ٹریکٹر کے اوپر رکھ دی تھی، اب گویا وہ روبرو لڑنے کو تیار تھا۔
چوہدری منہ سے ہذیان بکتا ہوا دوبارہ مرشد پر حملہ آور ہوا۔مزارعوں کمیوں پر حکمرانی کرنے والے اس چوہدری کا ارادہ مرشد کی گردن دبوچنے کا تھا شاید مرشد اس کی کلائی پر دایاں ہاتھ ڈالتے ہوئے بائیں پاو�¿ں کے پنجے پر تیزی سے گھوما، ساتھ ہی اس نے اپنے بائیں ہاتھ سے ایک بھرپور تھپڑ چوہدری کی گدی میں رسید کیا اور بائیں ٹانگ سے اڑنگا لگاتے ہوئے اسے یوں دھکا دیا کہ چوہدری الجھ کر اچھلا اور منہ کے بل اس نیم پختا سڑک پر گرا۔فرط غضب کے اس کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ وہ اٹھا اور اپنے بندوں اور پولیس والوں سمیت مرشد کو بھی گالیاں دیتا ہوا اس پر جھپٹا، مرشد کا بھی سانس پھولا ہوا تھا۔ جسم پسینے پسینے تھا۔ اس کی حالت ابھی اس طرح کے لڑائی جھگڑے والی نہیں تھی پھر بھی اس نے ازخود یہ لڑائی چن لی تھی۔اس کے ذہن میں کئی دیکھے ان دیکھے مناظر تڑپ رہے تھے۔اپنے حوالے سے حجاب کے ذاتی حوالے سے چوہدری کے کئی مکروہ جملےاس کی سماعت پر ٹھوکر انداز تھے….سینے میں غم و غصے کی آگ کے الاو�¿تھےاس آگ کی حدت انگیز سرخی اس کی آنکھوں اور چہرے پر اپنی شدتیں لٹا رہی تھی۔ اسے اپنے آپ پر اتنا بھروسہ تھا کہ وہ اپنی اس جسمانی حالت کے ساتھ بھی ایسے دو تین چوہدریوں کی تو ایک ساتھ مٹی خراب کر سکتا ہے۔
چوہدری نے پاگلوں کی طرح اندھادھند اس پر گھونسے اور لاتیں برسانا شروع کر دیں جن سے مرشد باآسانی اپنا بچاو�¿ کرتا رہا ۔درمیان درمیان میں اس نے چوہدری کو دو تین کراری کراری ضربیں بھی لگائیں۔ کچھ ہی دیر میں چوہدری کا اپنا سانس بھی بری طرح پھول گیا۔ اس دوران وہ اپنے بندوں اور پولیس والوں کو برابر گالیاں دیتے ہوئے ہتھیار اٹھا کر لڑ مر جانے کے مشورے اور حکم دیتا رہا۔وہ بھلا ایسی کسی حرکت کی جرات کیسے کرتے ان کے سامنے ان کے دو ساتھیوں کی خون اگلتی ہوئی لاشیں پڑی تھیں اور دو ساتھی زخمی پڑے کراہ رہے تھے،تڑپ رہے تھے۔ پانچ رائفلوں کی اجل خیز نالیں انکی طرف اٹھیں تھیں!
چوہدری ہانپنے لگا تو مرشد نے اس کو آڑے ہاتھوں رکھ لیا۔چند ہی لمحے بعد وہ سڑک پر پڑا خون تھوک رہا تھا۔اس کی تھوڑی کی کھال ادھڑ چکی تھی، منہ اور ناک سے بھی خون بہنے لگا تھا۔ مرشد کو چند ایک معمولی خراشوں کے علاوہ نچلے ہونٹ پر تھوڑی سی چوٹ آئی تھی ۔وہاں سے خون رس رہا تھا۔ دونوں کے کپڑے مٹی سے لتھڑ چکے تھے۔چوہدری کا قد کاٹھ مرشد سے واضح طور پر ذیادہ تھا۔ وہ کسی جنگلی درندے کی طرح ہٹا کٹا اور مظبوط دکھائی دیتا تھا لیکن ان لمحوں اس کی حالت مرشد سے ذیادہ پتلی دیکھائی دے رہی تھی۔
"کیوں پھر چوہدری کی شکل والے زنخے ! اپنی اوقات سمجھ آ گئی تجھے یا ابھی نہیں؟” مرشد نے نفرت اور حقارت سے پوچھا۔”چوہدری فرزندعلی خان صاحب کا سارا دم خم ہوا بن کے نکل گیا کیا….بچپن میں بے بے جی کا دودھ کم پیا تھا یا ابے کی طرف سے کوئی کمزوری،کوئی ملاوٹ شلاوٹ آ پڑی تھی خون میں؟” اس کا لب و لہجہ انتہا درجے زہریلا تھا۔ تن بدن میں آگ بھڑکا دینے والا۔ چوہدری کی بھی بھڑک اٹھی وہ اٹھا اور ایک بار پھر مغلظات بکتا، منہ سے خون کے جھاگ اڑاتا اس پر حملہ آور ہوگیا۔
وہاں کی سہمی ہوئی خاموشی فضا میں گونجنے والی چوہدری کی ہانپی ہوئی وحشت خیز لرزیدہ آوازیں اعصاب میں دہشت خیز سرد لہریں دوڑا رہی تھیں۔
حجاب محض چند قدم کے فاصلے پر ٹرالی میں ساکت کھڑی پھٹی پھٹی آنکھوں سے مرشد کے ہاتھوں چوہدری فرزند کی یہ درگت بنتے دیکھ رہی تھی۔ واضح نظر آ رہا تھا کہ چوہدری کی حالت ابترہے۔ مرشد پوری طرح اس پر حاوی تھا پھر بھی وہ چوہدری فرزند سے دہشت زدہ تھی وہ اس کے گبرو جوان ویروں کا قاتل تھا قہرو غضب ہر لمحہ اس کی ناک پے دھرا رہتا تھا۔ بات بات پے سامنے والے پر ہاتھ چھوڑ دیتا تھا۔ وہ خود اسکا ظلم و ستم، اسکی فرعونیت جھیل چکی تھی اور تب ہی سے اس کی دہشت،اس کا خوف جیسے اس کے خون میں گھل کر رہ گیا تھا۔ وہ ان لمحوں بھی اس کی طرف سے خوف زدہ تھی۔ ساتھ ہی مرشد کے لیے ایک شدید قسم کی فکر مندی بھی تھی جو مسلسل اسکے ذہن و دل میں سانس لے رہی تھی۔ ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ کہیں اس کی طبیعت اچانک بگڑ نہ جائے کوئی چوٹ نہ لگ جائےکہیں اس کے پہلو کا درد پھر سے بیدار نہ ہو جائے۔
اسی وقت چوہدری بازو پھیلا کر دھاڑتا ہوا اس پر جھپٹا۔ مرشد کا گھونسہ کھانے کے باوجود وہ اس کے ساتھ لپٹ گیا اور اپنا پورا زور صرف کرتے ہوئے اسے دھکیلتا چلا گیا۔ طاقت تو اسکے وجود میں کسی حیوان جیسی تھی عقب میں ٹریکٹر کھڑا تھا۔ چوہدری نے مرشد کو اسی سے جا ٹکرایا۔مرشد کا ٹریکٹر کے ساتھ پہلو کے بل تصادم ہوا اور یہ وہی پہلو تھا جسے گولی نے گھائل کیا تھا۔ چوٹ بھی ٹھیک اسی جگہ لگی اور مرشد کو یوں محسوس ہوا جیسے اندر کسی نے پسلیوں اور آنتوں کو اچانک مٹھی میں دبوچ کر بری طرح جھنجوڑ ڈالا ہو۔وہ توازن گنواتا سائیڈ پر لگی ایک ہیڈ لائٹ توڑتا ہوا ٹریکٹر کے ٹائر پر گرا ،اوپر سے چوہدری نے اسکی جھنجھنائی ہوئی پسلیوں میں وحشیانہ لات رسید کی اور مرشد بے ساختہ کراہتا ہوا، ٹائر سے لڑھک کر نیچے جا گرا۔ پسلیوں میں یکایک ہی شدید درد تڑپ کر بیدار ہو آیا۔
یہ منظر دیکھتے ہی حجاب کا کلیجہ دھک سے رہ گیا تھا۔ چوہدری نے آگے بڑھ کر مرشد کو ٹھوکروں پے رکھ لیا۔ زریون ٹریکٹر کی دوسری جانب شدید پریشانی کے عالم میں گم صم سا کھڑا تھا۔ مرشد کے باقی ساتھیوں کا رخ دوسری سمت تھایعنی یہ تبدیل شدہ صورتحال صرف ڈاکٹر زمان،فیروزہ اور حجاب کے سامنے ہی تھی۔
درد کی شدت اور اسے ضبط کرنے کی کوشش میں چند لمحے کے لیے مرشد کا سانس ہی رک گیا تھا۔ جسم کے دیگر حصوں پر لگنے والی بےرحم ٹھوکروں نے ہی اسے پھر سمبھالا دیا تھا۔ اسی وقت چوہدری کی نظر ٹریکٹر پر دھری سیون ایم ایم رائفل پر پڑی۔ وہ یکایک چونکا تھا، مرشد نے اسے چونکتے دیکھا اور فورً اسکے چونکنے کی وجہ بھی سمجھ گیا۔ جسم میں ایک تیز یخ سرد لہر دوڑ گئی چوہدری رائفل کی طرف جھپٹا اور مرشد اپنی تمام قوتیں جمع کرتے ہوئے اپنی جگہ سے تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ بائیں طرف کی پسلی جیسے ٹوٹ کر اندر گوشت میں جا دھنسی تھی۔ ایک ناقابل برداشت سی ٹیس پسلیوں میں سے آگے پورے وجود میں پھیلتی چلی گئی۔
رائفل چوہدری کے ہاتھوں میں آ چکی تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسے پوری طرح مرشد کی طرف سیدھا کرتے ہوئے فائر کرتا۔ مرشد کا ہاتھ رائفل کے بیرل پر جا پڑا۔ اسی لمحے چوہدری نے ٹریگر دبایا تھا ، فضا فائرنگ کی دل دہلا دینے والی آواز سے گونج اٹھی۔ فیروزہ اور حجاب کے حلق سے بے ساختہ ہی ایک خوف زدہ چیخ خارج ہو گئی تھی۔ایک برسٹ فائر ہوا تھا مگر گولیاں ایک طرف زمین میں جا دھنسی ۔ مرشد پہلو کے شدید درد کے باعث، رائفل کا بیرل مضبوطی سے تھامے تھامے لڑکھڑا کر عقب میں جا گرا۔ بیرل پر اسکی گرفت بے حد مضبوط تھی۔ چوہدری رائفل کے ساتھ ہی پورے زور کے ساتھ سامنے کی طرف جھکتا چلا گیا۔ ٹریکٹر کے جس مڈگارڈ نے مرشد کے سر کے بالوں کو محض بوسہ دیا ، چوہدری کا ماتھا پورے زور اور اندھی رفتار سے اسکے ساتھ ٹکرایا …. لوہے اور ہڈی کے ٹکراو�¿ کی یہ آواز بڑی دل خراش تھی۔ چوہدری کی کرب ناک کراہ اس کے حلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔ رائفل اسی پل اسکے ہاتھ سے نکل گئی اور وہ اپنا ماتھا تھامنے کی کوشش کرتا ہوا کسی بے جان تودے کی طرح دھڑام کی آواز سے مرشد کے برابر میں ڈھیر ہو گیا۔
رائفل کی تڑتڑاہٹ اور فیروزہ حجاب کی چیخ نے سبھی کو بری طرح چونکا دیا تھا۔ جعفر اور زریون فورً بھاگتے ہوئے مرشد کی طرف لپکے وہ رائفل کے سہارے اٹھ رہا تھا کہ جعفر نے اسے سہارا دیا۔
"جگر!تم ٹھیک تو ہو نا” اس کے لہجے میں گہری تشویش تھی۔
"ہاں ٹھیک ہوں پسلیوں پر تھوڑی چوٹ لگ گئی ہے بس ۔.” اس نے نفرت کی نگاہ چوہدری فرزند پر ڈالتے ہوئے دردیلے لہجے میں کہا۔ چوہدری ماتھا تھامے عجیب بے ڈھنگے طریقے سے سکڑا سمٹا پڑا تھا۔ اس کی انگلیوں کی درزوں سے رسنے والا خون اس بات کا غماز تھا کہ اس کے ماتھے پر شدید قسم کی گہری چوٹ آئی ہے۔ مدھم کراہیں بتا رہی تھیں کہ وہ بے ہوش نہیں ہے لیکن وہ ٹھیک سے اپنے حواسوں میں بھی نہیں تھا۔
مرشد رائفل دوبارہ ٹریکٹر پر رکھتے ہوئے پہلو پر ہاتھ جما کر قدرے سامنے کی طرف جھکا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اسے سنبھلنے میں تھوڑی دیر لگی ۔ درد کی شدت میں تھوڑی کمی محسوس ہوئی اس نے سیدھے کھڑے ہوتے ہوئے ٹریکٹر سے رائفل اٹھائی ہی تھی کہ عقبی طرف کچھ ہی فاصلے پر موجود سیم نالے کی اونچائی پر روشنیاں نمودار ہوتی محسوس ہوئیں اور انہیں بری طرح چونکا گئیں۔اگلے ہی لمحے پل پر ایک بائیک اور ایک جیپ نمودار ہوئی۔ بلاشبہ یہ وہی ریلوے ٹریک والی پولیس پارٹی تھی۔ یہ بھی صاف اور یقینی بات تھی کہ پل کی بلندی پر پہنچتے ہی یہاں کا سارا خونی اور سنسنی خیز منظر انہیں واضح دکھائی دے گیا ہوگا۔ بائیک اور جیپ دونوں ہی پل پر رک گئی تھیں۔
"خنجر! ان کتوں کو دور ہی روکنا ہوگا۔” مرشد نے زہر خند سے لہجے میں کہا اور حجاب کی طرف متوجہ ہوا۔
"سرکار! ادھر آ جائیں جلدی "
شاہ جی پیچھے ہٹیںادھر…. اس طرف چلے جائیں۔” فوراََہی وہ گردن موڑ کر جعفر سے مخاطب ہوا۔”جعفر! گاڑیوں کی چابیاں نکلوا ان سے جلدی۔” اس نے تیز تیز لہجے میں ہدایات جاری کیں پھر وہ حجاب اور ڈاکٹر زمان جو گھبرائے ہوئے انداز میں گردنیں موڑے پل کی طرف دیکھ رہے تھے فورً ٹرالی سے نیچے کود آئے۔ خنجر رائفل سنبھالتا ہوا چند قدم پرے دوکان کی اوٹ میں جا پہنچاوہ لوگ پل سے سیدھے آگے نہیں آسکتے تھے۔آگے آنے والا راستہ قدرے ان دکانوں کی عقبی طرف سے ہوتے ہوئے ان کے پہلو سے سامنے کے ر�±خ آتا تھا…. یہاں خنجر لوگ مکمل طور پر اوٹ میں تھے. لیکن پیش قدمی کی صورت یہ چھوٹی پولیس پارٹی باآسانی ان کی فائرنگ کی زد میں آ جاتی۔ اسے کوئی آڑ، کوئی اوٹ میسر نہیں آنی تھی۔جیپ سے دو، تین سپاہی نیچے اترے۔ مرشد نے رائفل کندھے سے لٹکائی، ایک ہاتھ پہلو پر جمایا، دوسرے سے جھک کر نیم غشی کی سی حالت میں پڑے چوہدری فرزند کا کالر دبوچا اور اس بھاری بھر کم لاش کو گھسیٹتے ہوئے فوراً پیچھے ہٹتا چلا گیا۔ فیروزہ، حجاب، زریون اور ڈاکٹر بھی بہ عجلت وہاں
سے ہٹے تھے۔ ٹریکٹر ٹرالی والے دونوں بندے نجانے کب اور کدھر ا�±ڑن چھو ہو گئے تھے…. ان کا کہیں نام و نشان تک نہیں تھا۔جعفر کے کہنے پر زریون کا ایک ساتھی جھجھکتا ہوا سا مرشد کی مدد کو اس کے قریب پہنچ آیا۔ مرشد نے چوہدری کو مکمل طور پر اس کے سپرد کر دیا۔
"اسے گھسیٹ کر لے جاو�¿ پجارو تک۔ ”
"آپ…. آپ کیا کرنے والے ہیں؟ ” حجاب نے چوہدری کی طرف دیکھتے ہوئے سراسیمہ لہجے میں پوچھا۔ چوہدری کا خون میں تر بہ تر چہرہ انتہائی بھیانک تاثر دے رہا تھا۔ وہ بے اختیار جھرجھری سی لے کر رہ گئی۔
"فی الحال تو کچھ نہیں سرکار! صرف یہاں سے نکلنے کی کوشش۔ "
ٹیپو نے ایک بندے کو رائفل کے کندے رسید کر کے زخمی کر دیا لیکن نتیجے میں تینوں گاڑیوں کی چابیاں بھی مل گئیں۔
"چلو ، کھڑے ہو جاو�¿ سب! ” مرشد نے سڑک پر گھٹنے ٹیکے بیٹھے ان سب افراد سے کہا اور کاٹن کے سوٹ والے بارعب شخص کو کالر سے پکڑ کر کھڑا کر لیا۔ ان سب کے ہتھیار جعفر اور ٹیپو وغیرہ پہلے ہی ایک طرف ڈھیر کروا چکے تھے۔
” چلو ماں کے دینو! س�±نا نہیں تم نے…. ا�±ٹھو کھڑے ہو جاو�¿…. کھڑے ہو جاو�¿ اور سیدھے پ�±ل کی طرف بھاگ جاو�¿۔کسی نے م�±ڑ کر دیکھا بھی تو پچھے سے ٹونگے پر فائر آئے گا۔.”
اس نے ر�±خ بدلا۔ "جعفر، ٹیپو! ان خارشی کتوں میں سے جو نہ بھاگے بھاگ کر رستے میں ر�±کے یا م�±ڑ کر دیکھے ٹھوک مارو اس حرامی کو۔. "
سب ہی حرامیوں کے چہروں پر زردی کھنڈی ہوئی تھی۔ وہ شدید تذبذب میں مبتلا تھے۔ انہیں یہی لگ رہا تھا کہ انہیں بھگایا جائے گا اور پھر پیٹھ میں برسٹ مارے جائیں گے۔ د�±شمن کو ذلت انگیز ناموشی کی موت مارنے کا یہی قاعدہ قانون تو ہوتا ہے….
” چلو اوئے ک�±تے کے تخموں! چلو بھاگو نہیں تو یہیں ٹھار کے رکھ دیں گے سب کو۔.” ٹیپو نے قہر بار لہجے میں کہا اور جیسے فائر کھولنے کو تیار ہو گیا۔ جعفر اور دوسرا بندہ بھی چوکس ہو گئے تھے۔چوہدری کے نمک حلال ان لمحوں بڑی ہی سعادت مندی سے نمک حرامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کے ساتھ آگے بڑھے۔ باوردی پولیس والوں نے بھی ان کی پیروی کی البتہ اس کاٹن پوش کے کالر پر مرشد نے گرفت کچھ مزید سخت کر دی۔ وہ گھبرایا ہوا تھا لیکن بظاہر کامیابی سے اپنی گھبراہٹ پر قابو پائے کھڑا تھا۔
چند قدم ہچکچاہٹ کے ساتھ آگے بڑھنے کے بعد ان کے قدموں میں ایک مضطرب سی تیزی آئی۔ ٹیپو نے ہوائی فائر کیا اور وہ سب یکایک سر پٹ دوڑکھڑے ہوئے۔ ان کی حالتیں اتنی دگرگوں رہی تھیں کہ وہ اپنے دو زخمی ساتھیوں کو سسکتا رہنے کے لیے وہیں چھوڑ بھاگے تھے۔ شاید اپنے چوہدری کو خون میں لت پت اس نیم پختہ سڑک پر گھسٹتے ہوئے دیکھ لینے کے بعد وہ بالکل ہی حوصلے ہار بیٹھے تھے۔
” اب فٹافٹ ادھر سے نکلنے والی کی جائے…. خنجر! نکلو۔. "
مرشد نے آخر میں خنجر کو آواز دی۔ زریون کا ساتھی چوہدری کو گھسیٹ کر پجارو تک لے گیا تھا۔ حجاب اور زریون بولائے بولائے سے تھے۔ سڑک پر خون پھیلا ہوا تھا۔ دو تین لاشیں پڑی تھیں اور دو تین شدید زخمی۔
"مم….. مجھے… مجھے بھی چھوڑ دو۔ ” کاٹن پوش ہکلایا۔ مرشد نے اسے چپ کرا دیا۔
"خنجر! ت�±و پجارو سنبھال۔ سرکار! شاہ جی! آپ بیٹھیں جلدی سے۔ فیروزہ! ت�±و آگے خنجر کے برابر بیٹھ جا۔.”
"جعفر! ت�±واس کتے کی شکل والے سور کو اندر ڈال۔.” اس کا اشارہ چوہدری فرزند کی طرف تھا۔ "باقی سب کار یا جیپ سنبھال لو. ۔”
مرشد نے کاٹن پوش کو پجارو کی طرف گھسیٹتے ہوئے تیز تیز لہجے میں کہا اور فوراً سب ہی عجلت آمیز تیزی سے حرکت میں آ گئے۔ کاٹن پوش کی حیل وحجت پر مرشد نے اس کی گدی میں دو زور دار جھانپڑ رسید کیے تھے۔
زریون کے دونوں ساتھی ذہنی مریض سا دکھائی دیتا ڈاکٹر اور ٹیپو، چاروں کار کی طرف دوڑے۔ دکان دار دکانیں چھوڑ کر موقع سے بھاگ چ�±کے تھے۔زریون اور حجاب پجارو کی عقبی سیٹوں پر جا بیٹھے.۔خنجر ڈرائیور سیٹ پر پہنچ گیا۔ جعفر نے کراہتے سسکتے چوہدری کو ا�±ٹھا کر اندر پٹخا، مرشد نے کاٹن پوش کو اندر دھکیلا۔ فیروزہ پہلے ہی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چکی تھی۔ مرشد کے سوار ہوتے ہی پجارو حرکت میں آ گئی۔. ریورس کے بعد جب وہ بستی کی طرف ر�±خ بدلتے ہوئے آگے بڑھی، مرشد نے سیم نالے کے پ�±ل کی طرف دیکھا۔ بائیک یا جیپ وغیرہ وہاں موجود نہیں تھی…. دکانوں کی پ�±ل والی سمت متحرک روشنیوں کا احساس موجود تھا یعنی…. یعنی اس کا مطلب تھا کہ وہ لوگ خطرے کو پسِ پ�±شت ڈالتے ہوئے آگے بڑھے آرہے تھے!
"پولیس پارٹی آرہی ہے پیچھے۔” اس نے خنجر کو اطلاع دی۔ خود وہ اس کی عقبی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ چوہدری فرزند فرش پر پڑا تھا۔ اس کی پیشانی پر قریب ڈھائی، تین انچ لمبا کٹ لگا تھا اور اس زخم سے بدستور خون رِس رہا تھا البتہ اس کے حواس کسی حد تک بہتر ہو چکے تھے.۔جعفر اپنی جگہ بدلتے ہوئے فوراً کھڑکی کے برابر ہو بیٹھا تاکہ باوقت ضرورت اس کھڑکی سے عقبی طرف فائر کر سکے۔پیچھے وہی تھے…. ٹیپو لوگوں کی کار پجارو سے کوئی دس گز آگے دوڑ رہی تھی۔
"یار! میں نے تم لوگوں کا….کچھ نہیں بگاڑا۔ میری…. میری تمھاری تو کوئی دشمنی ہی نہیں ہے۔.” کاٹن پوش گھبراہٹ زدہ ہچکچاہٹ کے ساتھ منمنایا.۔وہ بالکل کونے میں سمٹا بیٹھا تھا۔ ع�±مر رہی ہو گی پینتیس سے چالیس کے درمیان۔
"نام کیا ہے تیرا؟” مرشد نے پوچھا۔
"نن، نام….نام رشید…. رشید خان گورمانی۔”
” اور محکمے میں حیثیت، عہدہ؟ "
” جج، جی! اے…. اے ایس پی۔” اس نے بے اختیار تھوک نگل کر حلق گیلا کیا۔ مرشد رائفل گود میں رکھے ایک ہاتھ رائفل اور دوسرا پسلیوں پر جمائے بیٹھا تھا۔ رائفل والا ہاتھ لمبا کر کے اس نے رشید خان کا کندھا تھپکا۔
” شاباش! تم کام کے بندے ہو…. زندہ حالت میں رہو گے تو ہمیں اچھا لگتا رہے گا لیکن…. اگر اب تمہارے منہ سے کوئی آواز نکلی، یا تم نے کوئی اور فضول حرکت کی تو صبح سے تمہارے نام کے ساتھ مرحوم یا شہید کا اضافہ ہو جائے گا۔.” اس کے لہجے اور انداز پر بےساختہ ہی رشید خان نے سختی سےہونٹ بھینچ لیے۔
پچھلے ایک ماہ سے وہ اس بندے اور اس کے ساتھیوں کے قصے سن رہا تھا…. نیچے سے اوپر تک پورے محکمے میں تھرتھلی مچی ہوئی تھی…. ابھی ابھی وہ ان لوگوں کی وحشت خیزی اور سفاکی خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا…. چوہدری فرزند جیسی دبنگ اور با اثر شخصیت اس وقت ان کے پیروں میں پڑی تھی….زخمی اور اپنے ہی خون میں لت پت…. یہ سارا کچھ، یہ ساری صورتحال حوصلے سلب کر لینے کے لیے کافی تھی۔ اس سب نے رشید خان کے حوصلے اور اعصاب بھی س�±ن کر کے رکھ دیئے تھے۔
"تم! یہ سب ٹھیک نہیں کر رہے! ” گاڑی کے اندرونی اندھیرے میں زریون کی تیز آواز نے سب ہی کی سماعتوں کو چونکا دیا۔ "بالکل غلط ہے یہ سب۔ غیر…. غیر قانونی ہے یہ سب۔ تمہیں اس طرح قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں ہے.۔بالکل بھی نہیں ہے۔ تم…. تم ہمیں ا�±تار دو۔ہمیں تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانا! "
"شاہ جی…. یہ آپ کس سے کہہ رہے ہیں! ” مرشد متعجب ہوا۔
"تم سے…. تم سے کہہ رہا ہوں۔ یہ جو کچھ بھی کرتے پھر رہے ہو یہ سب غیر قانونی بھی ہے اور غیر انسانی بھی کس نے حق دیا ہے تمہیں اس سب کا؟ میں کہتا ہوں تم گاڑی روکو۔ "
” زریون…. "حجاب جیسے حیرت و بے یقینی سے معترض ہوئی۔ مرشد خاموش رہا۔
"میں نے کہا گاڑی روکو ہمیں ا�±ترنا ہے۔ ابھی اسی جگہ۔ "اس کی آواز کچھ مزید کرخت اور بلند ہو گئی۔
” کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ یہ پولیس والے…. "
” تم چ�±پ رہو۔ "زریون نے حجاب کو جھاڑ پلائی۔ ” ہمیں پولیس سے چھپنے یا بھاگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.۔ہم نے ایسا کیا ہی کیا ہے…. ہم کوئی م�±جرم تو نہیں ہیں…. ڈریں بھاگیں وہ جو قانون اور سماج کے دشمن ہیں۔.”
"آپ لوگ اپنے تحفظ کے لیے مجسڑیٹ کے سامنے بھی پیش ہو سکتے ہیں۔پولیس کی طرف سے آپ کی جانوں کو کوئی خط…. "بے ساختہ بول ا�±ٹھنے کے بعد اچانک جیسے رشید خان کو احساس ہوا کہ یہ جان لیوا غلطی ہے اس نے وہیں بات کو ہونٹوں میں بھینچ لیا۔
زریون بولا۔،” یہ بھی پولیس کے ذمہ دار آفیسر ہیں۔ انہیں ایک طرح سے تم نے کِڈنیپ کیا ہے۔ یہ بھی ایک سنگین ترین ج�±رم ہے۔ ہمیں تم جیسے کسی بھی م�±جرم کا ساتھ گوارا نہیں۔ ہمیں ا�±ترنا ہے.۔ا�±تارو ہمیں۔.”
مرشد کو اچانک احساس ہوا کہ زیادہ نہ سہی پھر بھی زریون اور اے ایس پی رشید خان کے درمیان کسی نہ کسی حد حوالے کی شناسائی موجود ہے۔ بھلے سے یہ شناسائی محض صورت آشنائی کی حد تک ہی رہی ہو لیکن موجود تھی اور شاید زریون کی ان باتوں کی وجہ بھی یہی شناسائی تھی. یا پھر پیچھے ہونے والی خونی جھڑپ اس کے اعصاب پر کچھ زیادہ ب�±ری طرح اثر انداز ہوئی تھی۔
"جیپ اور موٹر سائیکل ،دونوں آرہے ہیں۔” جعفر نے سنسنی خیز لہجے میں کہا. وہ کھڑکی سے عقبی طرف جھانک رہا تھا۔ فاصلہ ابھی انہوں نے با مشکل ڈیڑھ دو سو میڑ ہی طے کیا تھا ۔یہ راستہ بستی کے بغلی حصے کو چھوتا ہواسیدھا آگے بستی شاہ پور کی طرف نکلتا تھا.۔جعفر کی بات مکمل ہوئی ہی تھی کہ عقبی طرف سے پجارو پر فائرنگ کی گئی۔ دو، تین گولیاں عقبی طرف باڈی میں کہیں لگیں بھی۔ غالباً انہوں نے پجارو کو براہِ راست نشانہ بنانے کی بجائے اس کے ٹائر برسٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مرشد نے فوراً جعفر سے کہا۔
"وہ ٹائروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔.” جعفر پہلے ہی کھڑکی سے رائفل باہر نکال چکا تھا۔ "زریون سختی سے بولا۔” پاگل مت بنو.۔پولیس پر گولی مت چلاو�¿.۔ ” اس کی آواز تڑتڑاہٹ کی آواز میں دب کر رہ گئی۔ جعفر نے سیدھا برسٹ فائر کیا تھا۔ پجارو کی رفتار بھی اچھی خاصی تیز ہو چکی تھی۔
فائرنگ دوبارہ کی گئی لیکن صرف کوئی ایک گولی عقبی طرف جیپ کے کسی نچلے حصے سے ٹکرائی اور بس۔ رستہ نا ہموار تھا۔ سبھی ب�±ری طرح ہچکولے کھا رہے تھے.۔حجاب کے گھبراہٹ ذدہ سراسیماذہن میں مرشد کی پسلیوں کی تکلیف تھی…. ا�±سے ب�±ری طرح چوٹ…. بلکہ چوٹیں آئی تھیں۔ ٹریکٹر سے ٹکراو�¿ کے بعد چوہدری نے وحشیانہ انداز میں اس کی ان ہی پسلیوں میں ٹھوکریں ماری تھیں۔
مرشد واقعی تکلیف میں تھا…. ان ہچکولوں کے باعث اس کی پسلیاں جیسے جھنجھنا ا�±ٹھی تھیں۔ درد کانٹے دار دائروں کی صورت پورے پیٹ اور چھاتی کے اندر پھیلتا جا رہا تھا۔ تکلیف ضبط کرنے کے چکر میں اس نے جبڑے پوری شدت سے بھینچ رکھے تھے۔ پہلو پر ہاتھ کی گرفت سخت تر ہو گئی تھی تو دوسرا ہاتھ بھی گود میں پڑی رائفل پر پوری مضبوطی سے جما ہوا تھا۔ شاید اسی لیے جب نیچے پڑے چوہدری فرزند نے اچانک جھپٹ کر رائفل ا�±چکنے کی کوشش کی تو ا�±سے پوری طرح کامیابی نہ ہو پائی۔ ساتھ ہی وہ کسی درندے کی طرح غرا ا�±ٹھا تھا۔
مرشد کو سامنے کی طرف جھٹکا لگا۔ اس نے بے اختیار جھکتے ہوئے ممکنہ اختیار استعمال کیا اور اس کا وہ اختیار ا�±چٹتا ہوا سا ہی سہی فرش سے سر ا�±ٹھاتے چوہدری کی آنکھ پر گھونسے کی صورت” ٹھاہ“ ہوا۔ا�±سی لمحے عقب سے پھر فائرنگ کی گئی۔ تیز رفتار دہکے ہوئے سیسے اور لوہے کے اندھے ٹکراو�¿ کی آوازیں رگوں میں برفیلی لہریں دوڑا گئیںتھیں…. اس بار بھی گاڑی کو براہِ راست نشانہ بنانے سے احتراز کیا گیا تھا اور ایسا یقینی طور پر گاڑی میں چوہدری فرزند اور اے ایس پی رشید خان گورمانی صاحب کی موجودگی کی برکت کے باعث کیا جا رہا تھا۔
ایک چھوٹا برسٹ جعفر نے پھر فائر کیا اور ساتھ ہی اس کے حلق سے ایک پ�±رم�±سرت فتح مندانہ سی کلقاری خارج ہوئی۔
"ہت تیری…. یہ مارا ا�±ستاد! وہ…. وہ جیپ تو ٹھک گئی۔.” چوہدری مرشد سے چمٹ گیا تھا۔ اس کی غراہٹیں، دھمکیوں اور گالیوں سے لبریز تھیں۔ جعفر نے رائفل کے کندے سے اس کی ٹانگوں پر دو، تین بھر پور ضربیں رسید کیں تو مرشد کے گریبان سے اس کی گرفت ختم ہو گئی۔ مرشد نے سنبھلتے ہوئے یکے بعد دیگرے دو، تین گھونسے اس کے منہ پر جڑ دیئے۔ تب ہی اس کی ایک ا�±چٹتی سی نظر سامنے کے ر�±خ….. ونڈاسکرین سے پار اس کچی سڑک پر پڑی تھیہیڈلائٹس کی روشنی میں یہ کچا راستہ سامنے سے بائیں ہاتھ کو م�±ڑتا دکھائی دیا تھا۔ دائیں ہاتھ اِکا د�±کا مکانات تھے جب کہ بائیں ہاتھ بستی کی اصل آبادی تھی اور ادھر چند گز کے فاصلے سے مکانوں کی قطار کا ایک سلسلہ اس راستے کے ساتھ ساتھ آگے تک جاتا معلوم ہوتا تھا۔سامنے موڑ کی جگہ پر اچانک ہی دائیں طرف کے اندھیرے سے ایک سائیکل نمودار ہوئی تھی۔ ایک ہنستا ہوا نو عمر لڑکا سائیکل پر سوار تھا اور دو غالباً اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ سائیکل سوار کا سارا دھیان بھی پیچھے دوڑے آتے ان ہی لڑکوں کی طرف تھا…. اس سارے منظر کی بس ایک ا�±چٹتی سی جھلک مرشد کے پردئہ بصارت پر چمکی تھی….جیپ کی رفتار خطرناک حد تک تیز تھی…. سنگینی کا احساس یکایک جیسے کسی الہام، کسی کشف کی صورت اس کے سینے میں دھڑک کر رہ گیا۔ اگلے ہی لمحے خنجر کے ہاتھوں کی معمولی سی لرزش پر گاڑی کسی بد مست ہاتھی کی طرح یوں لہرائی کہ حجاب اور فیروزہ کی تو باقاعدہ چیخیں نکل گئیں.۔جعفر لڑھک کر ایک سیٹ پیچھے جا پڑا۔ مرشد سامنے والی سیٹ سے ٹکرایا، رشید خان بھی الٹ پلٹ کر رہ گیا تھا۔
خنجر نے سائیکل کو بچانے کی اپنی سی پوری کوشش کی لیکن سائیکل تو آگے سیدھی ہی بڑھتی آئی تھی…. ایک دھماکے اور چیخ کی آواز اس نو عمر لڑکے کے ساتھ ہی ا�±چھل کر برق رفتاری سے عقبی طرف کو پرواز کر گئی خنجر کے اوسان بالکل ہی خطا ہو گئے۔ گاڑی بے قابو ہوئی اور ب�±ری طرح لہراتی ہوئی بائیں ہاتھ کچے میں ا�±تر گئی۔محسوس یہی ہوا تھا کہ ابھی یہ پجارو دو پہیوں پر لہراتی ہوئی گرے گی اور پھر ب�±ری طرح قلابازیاں کھاتی ہوئی کسی مکان کیدیوار کے ساتھ جا ٹکرائے گی لیکن بچت ہو گئی…. خنجر نے جیسے تیسے گاڑی کو سنبھال لیا۔ تین بندے موت کو خود پر چڑھا آتا دیکھ کر دوڑے تھے، دو چارپائیاں زد میں آئی تھیں، ایک ا�±داس صورت، سست الوجود ک�±تیا آخری وقت تک اپنی جگہ بیٹھی رہی، شاید اس کی شدید ترین خواہش رہی تھی کہ یہ دوڑی آتی بلا اس سے دو فٹ دوری سے گزر جائے عین آخری لمحے اسے یک دم گڑ بڑ کا احساس ہوا…. اس نے ا�±ٹھ بھاگنا چاہا لیکن اس کی پچھلی دونوں ٹانگیں ٹائر کی زد میں آ گئیں…. اس کی کرب ناک چنگھاڑ جیسی چیخ نے تاریک فضا کے کلیجے میں سوراخ کر دیئے تھے بیس، تیس گز کے فاصلے کے بعد ایک چھوٹی سی د�±کان کے سامنے پہنچ کر گاڑی ایک جھٹکے سے ر�±ک گئی۔د�±کان کے سامنے دو، تین سنسنائی ہوئی سی صورتیں کھڑی تھیں۔
"آہ…. بچ گئے…. اوہ خدایا! ” فیروزہ کی ہانپی ہوئی لرزیدہ آواز ابھری۔ سبھی کے سینوں میں اٹکے ہوئے سانس یکا یک بحال ہو گئے۔ ساتھ ہی انہیں بے ساختہ کھانسنا پڑا۔ گاڑی کی اندرونی فضا دھول مٹی سے بھر چکی تھی۔
٭ ٭ ٭