قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز
اُس نے نزہت جہاں بیگم کے کوٹھے پر آنکھ کھولی، مسلے مرجھائے گجرے، باسی پھول اور گھنگرو اس کے کھلونے بنے، بدمعاشوں کی دنیا نے اسے مرشد مانا اور پھر…… وہ کسی کا مرید ہو گیا
مرشد
شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی
Murshid Urdu Novel |
”یہ زریون شاہ جی کو کیا ہوگے ہے؟یہ کس طرح بات کر رہے تھے؟“ رستم متعجب انداز میں بولا۔اسے شاید اس کی بالکل ہی توقع نہیں تھی۔
جواب ڈاکٹر وقاص نے دیا:” چھوٹے شاہ جی مزاج کے تھوڑے تیز ہیں….جلالی طبیعت رکھتے ہیں۔“
مرشد بولا:”باپ پر بھی جلال؟“
”کیا کہہ سکتے ہیں….یہ پیروں کا اپناذاتی معاملہ ہے۔“
”نظام شاہ جی کی سگی اولاد ہیں یہ؟“ رستم نے پوچھا۔
”ہاں جی!شاید بہت ہی زیادہ لاڈلے رہے ہیں،اس لیے….“
مرشد کا دھیان حجاب بی بی کی طرف چلا گےا ۔اس نے ساری زندگی اسی آتش مزاج لاڈلے کے ساتھ گزارنی تھی جسے باپ کا بھی ذرا بھر لحاظ نا تھا۔ پندرہ بیس منٹ بعد حویلی کے رہائشی حصے سے دو گاڑیاں نکلیں۔مرشد نے منصب کو اٹھ کر کھڑے ہوتے دیکھا۔گاڑیاں سیدھا حویلی کے بیرونی گیٹ کی طرف بڑھیں،آگے والی کار کی رفتار سے تو یوں لگتا تھاجیسے یہ سیدھا دروازے کو ٹکر جامارے گی۔ دربان نے با عجلت گیٹ کھولا اور دونوں گاڑیاں حویلی سے نکلتے ہی ملتان روڈ کی طرف دوڑ پڑیں۔گاڑیوں کے نکلتے ہی منصب رہائشی حصے کی طرف چل دی۔
”لگتا ہے چھوٹے شاہ جی اور ان کے تایا تائی چلے گئے ہیں۔“ ڈاکٹر نے کہا۔وہ پلنگ کے برابر ہی کرسی پر بیٹھا تھا۔
”کدھر گئے ہوں گے یہ؟“
”شاید لاہور۔“
”قلعہ سیف اللہ کیوں نہیں؟“
”ان کے تایا تائی تو لاہو ر ہی رہتے ہیں،اکٹھے نکلے ہیں تو شاید ….لاہور ہی جائیں۔“
رستم بولا :”لگتا ہے کچھ زیادہ ہی تلخی ہوگئی ہے۔“
”بس جی ! یہ لوگ کچھ اور مزاج رکھتے ہیںاور نظام شاہ جی کچھ اور طرح کا۔آپس میں بنتی نہیں ان کی۔“
” اگر یہ لوگ ناراض ہو کر جا رہے ہیں توپھر انہیں نہیں جاناچاہیے….موقع محل کا خیال کرنا چاہیے۔“
مرشد بولا:”ارباب صاحب نظر نہیں آرہے۔کدھر ہیں؟“
”انہیں نظام شاہ جی نے کہیں کام سے بھیجا ہے…. آجائیں گے۔“
وہ باتیں کر رہے تھے کہ احاطے میں بلوچوں کی تین جیپیں حرکت میں آئیں اور پہلی دو گاڑیوں کے پیچھے ملتان روڈ کی طرف روانہ ہوگئیں۔تینوں پر مسلح بلوچ سوار تھے۔آٹھ بجے ڈاکٹر کی ڈیوٹی بدل گئی۔ارباب رات کے قریب دس بجے آیا۔اس نے آتے ہی سب سے پہلے اطلاع دی کہ ابھی ابھی نظام شاہ جی لاہور کے لیے روانہ ہونے والے ہیں۔
”یعنی معاملہ کوئی زیادہ ہی پریشانی والا ہے!“رستم نے اظہارِ خیال کیا۔
”معاملہ….مطلب؟“ ارباب کو جیسے سمجھ نا آئی۔
”شاہ جی اور ان کے بھائی بھابھی کے درمیان جو بھی ہوا ہے۔“
”نہیں نہیں،وہ کوئی پریشانی والا معاملہ نہیں ہے۔“
”تو پھر شاہ صاحب اچانک ان کے پیچھے روانہ کیوں ہو رہے ہیں؟“
ارباب چونکا۔”نہیں….شاہ جی ان کے پیچھے روانہ نہیں ہورہے ہے،وہ الگ معاملہ ہے۔“
”کیا؟“
”وہ ان کے آپس….ذاتی معاملات ہیں۔یہ لاہور روانگی والا پروگرام تو پہلے سے طے تھا….اس سارے فساد کے سلسلے میں جو نندی پور سے یہاں تک آیا ہے۔شاہ جی کل دن میں وہاں چند لوگوں سے ملاقات کریں گے اور شام سے پہلے پہلے واپس….پرسوں صبح پھر چھوٹی بی بی کو لے کر واپس روانہ ہو جائیں گے….قلعہ سیف اللہ۔“
مرشد کے دل نے سینے میں غوطہ کھایا!
”پرسوں صبح….چھوٹی بی بی….قلعہ سیف اللہ“
”آپ اور ملک منصب تو کہہ رہے تھے شاہ پور اور شاہ پور والوں کو وارث مل گیا….“ مرشد نے یکایک خود کو روک لیا،جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔وہ کہنے لگا تھا ، ”ملے ہوئے کو پھر گم کرنے لگے ہیں….خود ہی….“ اسے ایسا کچھ نہیں کہنا تھا۔یہ توگویا انہیں سیدھا صاف اس بات پر اکسانے والی بات تھی کہ حجاب سرکار کو یہاں سے ناجانے دو….“ یہ تو با لکل ہی نا مناسب بات تھی۔
”ہاں!ایسا ہی ہے۔ تو….پھر….“ ارباب منتظر نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ اپنا جملہ مکمل کرے۔
”پھر یہ کہ….ان کے چھوٹے بھائی بھی ہیں….اسرار شاہ جی اور ان کی والدہ بھی…. وہ لوگ کہیں روپوش ہیں۔“ اس نے بات بنائی اوردل ہی دل میں خود کو جھاڑ پلائی کہ وہ کیسی بے تکی بات کہنے جا رہا تھا۔بس بلا ارادہ ہی زبان حرکت کر اٹھی تھی۔شاید اس کی وجہ کے طور پر اس کے لاشعور میں زریون کی ذات،زریون کا خیال موجود تھا!
”ہاں!“ ارباب نے سر کو اثبات میں حرکت دی۔” ہم لوگوں نے کچھ بندے روانہ کر رکھے ہیں،ان کی تلاش میں بھیخدا کرے کوئی کھوج کھرا ہاتھ لگ جائے اور جب تک ایسا نہیں ہوتاتب تک خدا انہیں اپنی حفاظت میں رکھے۔“
”آمین۔“ رستم اور مرشدیک زبان بولے۔ڈاکٹر پیچھے صوفے پر جا بیٹھا تھا۔
مرشد کا ذہن فوراً ہی اچھل کر ڈوکے وال کے ایک ڈیرے پر جا پہنچا۔اسے وہ خط یاد آیا جو کسی عورت نے اس کے نام لکھا تھا اور جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ حجاب سرکار کی والدہ زندہ سلامت اور محفوظ ہیں۔ پتا نہیں وہ عورت کون تھی اور کہاں تھی۔ کس گاو�¿ں میں بیٹھی تھی اورپتا نہیں اس تک رسائی کیسے حاصل کی جا سکتی تھی۔کیسے حجاب سرکار کی والدہ کے متعلق معلوم کیا جاسکتا تھا!
اسی وقت احاطے میں تھوڑی ہلچل محسوس ہوئی۔تین چار گاڑیا ں تھیں اور ان میں نظام شاہ جی والی سیاہ لینڈ کروزر بھی شامل تھی۔ارباب کے مطابق شاہ جی لاہور کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ان دو گاریوں میں مسلح سواروں کی رینگلر جیپیں بھی تھیں۔چاروں گاڑیاں حویلی سے نکلتے ہی ملتان روڈ کی طرف بڑھ گئیں۔
”شادی کے بعد چھوٹی بی بی قلعہ سیف اللہ میں رہیں گی یا یہاں،شاہ پور میں؟“ مرشد کی زبان دوبارہ پھسلی۔ارباب نے کسی قدر چونک کر اس کے طرف دیکھا۔
”ظاہر ہے وہیں رہیں گی۔“
”اور شادی….زریون شاہ جی کے ساتھ ہی ہونی ہے نا؟“
”ہاں!“
”مزاجوں میں بہت فرق ہے….زمین آسمان کا۔“
”وہ تو ہے۔“ارباب نے ایک گہری سانس لی۔”زریون شاہ جی غصے کے تیز ہیں۔جذباتی پن بہت ہے ان میں لیکن دل کے برے نہیں ہیں۔شادی کے بعد تھوڑا وقت لگے گادونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں۔“
مرشد کہنا چاہتا تھا:”وہ کبھی نہیں سمجھیں گے۔نا حجاب سرکار کو نا ہی کسی اور کو۔“ وہ کہنا چاہتا تھا مگر صرف چاہ کر رہ گیا۔بولا کچھ نہیں۔اس کی جگہ اگلا سوال ر ستم نے کیا۔ ”لگتا ہے تم زریون شاہ جی کو بھی اچھے سے جانتے ہو۔“
”ظاہر ہے۔ان کا تو یہاںاکثرآنا جانا رہتا ہے۔فیکٹریو ں کے سلسلے میں بھی اور زمینوں باغوں کے سلسلے میں بھی۔“
”ابھی یہ تینوں ناراض ہو کر ہی یہاں سے گئے ہیں نا؟“
”ہاں جی!آپس میں کچھ گرمی سردی،کچھ تلخ کلامی ہوئی ہے سب کی۔“
” یہ موقع محل تو نہیں تھا اس طرح کرنے کا۔“ رستم کے لہجے میں حقیقی افسوس اور اداسی تھی۔
” تھا تو نہیں لیکن….کیا کہہ سکتے ہیں؟ ہمارا اس سب پر کچھ کہنا بنتا نہیں۔سید سرکار لوگ ہیں۔ان کی آپس کی ،گھر کی باتیںہیں یہہم لوگ تو کہتے ہیں یہ ہی بڑی بات ہے کہ دونوں بھائی،تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی،اکٹھے تو ہوئے….کم از کم پچیس سال بعد ایسا ہوا ہوگا۔پچیس سال سے دونوں کی آپس میں قطع تعلقی تھی۔اب اتنے عرصے کے بعد ایک چھت کے نیچے اکٹھے ہوئے تھے تو اس قیامت کی وجہ سے جو چھوٹی بی بی جی پر،ان کے پورے گھرانے پر ٹوٹی ہے۔“
مرشد بولا:”اور اس قطع تعلقی کی وجہ باپ اور بھائی والا حادثہ رہا ہوگا۔“ڈاکٹر وقاص سے یہی تو سنا تھا اس نے البتہ اس کی منہ سے یہ بات سن کر ارباب چونک پڑا۔
”ہاں!تمہارا اندازہ با لکل درست ہے۔“
”کیا واقعی نظام شاہ جی کے ہاتھوں کچھ ایسا غلط ہوا تھا؟“
”اللہ بہتر جانتا ہے۔ہم میں سے کوئی موقع پر موجود نہیں تھا۔سنا یہ ہی ہے کہ وہ ایک حادثہ تھا، ہاں اس کاذمہ دار شاہ جی کو ٹھہرایا گیااور….خود نظام شاہ جی بھی خود کو قصوروار مانتے ہیں۔“
” ان شاہ جی کا نام کیا تھا ؟جن کا ذہنی توازن متاثر ہوا….جو آج تک لا پتا ہیں۔“ مرشد نے پوچھا۔
”ٹھیک سے یاد نہیں ۔راشد شاہ تھا یا شاید….ارشاد،اک زمانہ ہو گزرا کبھی کہیں سے ذکر تک نہیں سنا۔“
رستم بولا:”شاہ جی تو ماشاءاللہ لینڈ لارڈ لوگ ہیں۔ان شاہ جی کا علاج وغیرہ کرا کر دیکھا ہی ہوگا؟“
”علاج تو تب ہوتا جب وہ رہتے….وہ اس حادثے کے کچھ ہی دنوں بعد کسی طرف نکل گئے….بہت ڈھونڈاگیا، بہت تلاش کیا گیالیکن کوئی اتا پتا نا چل سکا!“ ارباب لا پتا شاہ جی کے متعلق بتا رہا تھااور….پتا نہیں کیوں….مرشد کو ایک بار پھر،ہیرا منڈی کی گلیوں میں بھٹکتا ہوا موالی ملنگ دکھائی دینے لگاتھااونچا لمبا قد،مضبوط کاٹھی،دبنگ انداز اور چائے کا شیدائی۔
”میں نے چائے پینی ہے۔جلدی سے منگا لے۔“
”چائے بھی آجاتی ہے تو اپنے بارے میں بتا کچھ“
”مجھے گھر کا دروازہ نہیں مل رہا۔“
”کس کے گھر کا؟“
”اپنے گھر کا….مجھے واپس جانا ہے مگر سب گھر ایک سے ہو گئے ہیں….سب دروازے بھی ایک سے ہو گئے ہیں۔اتنے دروازوں میں سے سالا میرا دروازہ پتا نہیں کونسا ہے، سمجھ ہی نہیں آوے ہے،اگر چائے مل جاوے تو شایددماغ بھی کچھ کام کرنے لگ جاوے!“ وہ ہتھیلی سے اپنی کنپٹی ٹھونکنے لگا تھا۔ ”منگا لے پھرچائے۔“
”تو گھر سے نکلا کیوں تھا؟“
موالی چڑ کر بولا:”تیل لینے نکلا تھا۔خوشیے کے کٹے(بچھڑے) کو قبض ہو گئی تھی۔اس کے پچھواڑے میں لگانا تھا اور کچھ؟ چائے آتی نہیں، سوال آئے جاوے ہیں۔“
اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔بعض اوقات وہ مہینوں غائب رہتا اور پھر کسی روزاچانک کسی دوکان کے تھڑے،کسی گلی کے نکڑ یا پھٹے پر بیٹھا دکھائی دیتا۔پتا نہیں کہاں کہاں مارا مارا پھرتا رہتا تھا اور پتا نہیں کب سے ان نے یہ چلن اپنا رکھا تھا….شاید پچھلے پچیس سال سے!
مرشد اپنی ذہنی رو پرچونک پڑا،اس نے سر جھٹکا اور دوبارہ ارباب کی طرف متوجہ ہوگےا۔وہ کہہ رہا تھا:
”بس پھر تھک ہار کر سب خاموش ہو رہے۔ہم لوگو ں کو زیادہ جان کاری بھی نہیں ہے۔ہمارے دور میں تو آہستہ آہستہ شاہ جی لوگ ادھر آنا با کل ہی چھوڑ گئے تھے۔کچھ بڑے بوڑھوں سے سنتے رہتے ہیں۔کچھ بچپن کی یا دیں ہیں۔“
”اب تک تین بڑے بکھیڑوں کا پتا چل رہا ہے۔“ مرشد گویا ہوا۔چالیس سال پہلے ایک کہانی شروع ہوئی جو تین حصوں پر پھیلی ہوئی ہے۔جیسے تین دور گزرے ہوں….چالیس سال پہلے نوابوں اور چوہدریو ں کی خباثت نے ایک تنازعے کو جنم دیا اور سید بادشاہ شہاب الدین وطن چھوڑ گئے….دوسرے حصے میں ان کے قریبی دوست،نظام شاہ جی کے والد اور بھائی والا حادثہ،ان میں سے مبینہ طور پر شاہ جی کے والد صاحب کی حادثاتی موت کا ذمہ دار بھی نواب اور چو ہدری ٹولا ہی ہیں،ان دونوں حصوں کی کافی ساری تفصیل بھی جان چکے،تیسرے دور،تیسرے حصے کے متعلق علاقے میں اڑتی اڑتی باتیں ہی سنی ہیں ہم نے….کوئی تفصیل،کوئی جان کاری ابھی تک نہیں مل سکی۔“
ارباب بھویں اچکاتے ہوئے مستفسرانا نظروں سے اس کی طرف دیکھتا رہا،ایک ذرا توقف سے مرشد بولا:
”تیسرا دور….تیسرا حصہ جاری ہے۔اس میں ہم سب بھی حصے دار بن چکے….آپ اور منصب پہلے سے حصے دار ہیں۔شاید بارہ سال پہلے سے….یا شاید آپ کو یہ حصے دارے وراثت میں ملی ہے لیکن بارہ سال پہلے یہ تیسرا دور شروع ہوا جب منصب بی بی ملک منصب کے مرتبے پر بیٹھی،اس نے مستقل بنےادوں پر سیاہ پوشی اختیار کر لی….میں نے کوشش تو کی تھی مگر یہ پتا نہیں چل سکا کہ بارہ سال پہلے ٹھیک طور پر کیا ہواتھا….وہ کیا حادثہ یا سانحہ تھا جس کے بعد ملک منصب نے اور اس کے ساتھ ساتھ، اس کی پوری بستی نے ہی یہ ماتمی رنگ خو د پر لازم کر لیا۔“
مرشد اور رستم دونوں ہی ارباب کی طرف متوجہ تھے۔وہ دونوں ہی اس اسرار کو جاننا چاہتے تھے۔انہوں نے دیکھا کہ مرشد کی بات کے ساتھ ساتھ ارباب کے تاثرات میں تغیر پید ا ہوا۔اس کے چہرے پر کئی ایک سائے لہرائے….کرخت چہرہ یکا یک مزید پتھرا گیا اور آنکھوں میں گہری سرد مہری سی آجمی۔ وہ دونوں سوالیہ نظروں سے اس کی شکل دیکھے گئے۔پیچھے صوفے پر بیٹھا ڈاکٹر وقاص بھی ان ہی کی طرف متوجہ تھا۔ارباب پتھرائے ہوئے چہرے کے ساتھ مرشد کی صورت تکے گیا۔غیر متوقع طور پر اس کی خاموشی کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی تو رستم بولا:
”ارباب خان! تم زیادہ ہی دور نکل گئے….واپس لوٹ آو�¿۔“ارباب نے ایک خاموش نظر اس پر ڈالی اور دوبارہ مرشد کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا:”اس پر بات کریں گے….پھر کسی وقت بتاو�¿ں گا،کیا ہوا تھا بارہ سال پہلے….یہ وقت اس بات کے لیے مناسب نہیں۔“
”ٹھیک ہے کوئی بات نہیں۔“ مرشد نے کندھے اچکا دئیے۔ارباب کا رویہ، اس کے تاثرات مزید تجسس جگا دینے والے تھے لیکن اس کے انداز اور لہجے نے سمجھادیا تھا کہ فی الحال اس موضوع پر بات نا ہی کی جائے۔
اس کے اور رستم کے درمیان آج صبح والی میٹنگ اور شاہ جی کے لاہور دورے کے حوالے سے بات چیت ہونے لگی اور مرشد کا دھیان نیچے جا گرا….نیچے، حویلی کے اندرونی حصے میں،جہاں کہیں حجاب سرکار موجود تھیں۔موجود تھیں ….لیکن بس ایک مہمان کے طور پر….آج اور پھر کل کی رات….پرسوں صبح انہوںنے آگے سفر کر جانا تھا….بلوچستان کی طرف…. قلعہ سیف اللہ۔ دو دن سے وہ دکھائی نہیں دے رہی تھیں….ان کی دید میسر نا ہوئی تھی اور اب شاید آنکھوں نے ہمیشہ یوں ہی نا مراد رہنا تھا….سماعتوں نے ان کی آواز،ان کی آہٹ کے انتظار میں سسکتے رہنا تھا۔ان کی سحرخیز رفاقت کا سفربیچ راستے ہی مکمل ہوچکا تھا۔مرشد کے لیے اب آگے کوئی سفر نہیں تھالیکن فاصلہ بہت تھا۔اس کے اور حجاب سرکار کے درمیان…. اور اس فاصلے نے اب روز بروز مسلسل بڑھنا تھا۔سالوں اور صدیوں کی دوری تک پھیل جانا تھا!
یکایک اسے حبس اور گھٹن کا احساس ہوا۔اس نے رخ بدل کر کھڑکی سے باہر جھانکا۔کل سے پوری حویلی میں اضافی لائٹیں روشن تھیں۔مسلح افراد کی چہل پہل میں بھی اضافہ دکھائی دے رہا تھا۔حویلی کے احاطے سے باہر بستی اور دنیا سو رہی تھی۔رات نصف سے کچھ زیادہ ہی گزر چکی تھی۔ہر سو گہری خاموشی اور گھپ اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔
ارباب جانے کے لیے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ابھی اس نے دروازے کی طرف قدم نہیں بڑھائے تھے کہ کچھ آہٹ پیدا ہوئی اور پھر دروازے پر ٹیپو کی شکل دکھائی دی۔اس نے وہیں رکتے ہوئے اشارہ کیا،ارباب چونک پڑا۔شاید کوئی نئی خبر ،کوئی نیا معاملہ تھا۔وہ فوراً آگے بڑھ کر اس کے قریب جا پہنچا۔ ٹیپو نے انتہائی دھیمی آواز میں کوئی سرگوشی کی تو ارباب ایک بار پھر چونکتا دکھائی دیا۔ایک نظر اس نے ڈاکٹر،رستم اور مرشد پر بھی ڈالی۔ٹیپو نے مزید کوئی سرگوشی کی تو ارباب پلٹتے ہوئے ڈاکٹر اور رستم سے مخاطب ہوا :
”رستم صاحب….ڈاکٹر!آپ دونوں ذرا ادھر آئیں۔“ وہ دونوں اٹھ کر اس کے قریب پہنچے اور وہ انہیں ساتھ آنے کا کہتا ہوا باہر نکل گیا۔ مرشد کمرے میں تنہا رہ گیا۔اسے تھوڑی سی حیرت اور الجھن ہوئی….پتا نہیں ٹیپو نے کیا اطلاع پہنچائی تھی اور ارباب رستم اور وقاص کو کدھر لے گیا تھا….کیوں لے گیا تھا!تقریباً پندرہ منٹ بعد سیڑھیوں کی طرف کچھ آہٹیں اور آوازیں پیدا ہوئیںتووہ چونک پڑا۔نسوانی آواز تھی۔شاید منصب آرہی تھی مگر اس کی آواز میں تو نسوانیت کہیں تھی ہی نہیں!
چند لمحے گزرے ہو ں گے کہ دروازے پر اس کی جھلک دکھائی دیچادر پوری” شرافت “سے اس کے وجود پر موجود تھی۔وہ اکیلی نہیں تھی…. اس کے عقب میں ایک خاتون اور بھی تھیں۔ایک خوش پوش،صاف ستھری اور ضعیف خاتون،جس نے دوپٹہ نما بڑی سی سفید چادر میںخود کو اچھی طرح چھپا رکھا تھا۔اس کے پیچھے بھی یوں ہی چادر میں لپٹی لپٹائی ایک اور خاتون تھیں۔ایک لڑکی ….ایسی لڑکی جس کی آدھی ادھوری جھلک دیکھتے ساتھ ہی مرشد کا رواں رواں دھڑک اٹھا اور دل ایک لمحے کے لیے دھڑکنا چھوڑ گیا!
بدن کا رواں رواں پکار اٹھا تھا کہ وہ حجاب سرکار ہی ہیں۔ان کے جسم پر نیا سوٹ تھا اور بڑی سی سفید چادرجو انہوں نے اس طرح اوڑھ رکھی تھی کہ ان کا آدھے سے زیادہ چہرہ اس چادر میں چھپ کر رہ گیا تھااور باقی تھوڑا سا جو دکھائی دے رہا تھاوہ چاند سے زیادہ روشن تھا،ان شفاف سفید آنکھوں کی چمک گویا پہلے سے زیادہ بڑھ چکی تھی!
مرشد نے دیکھا ان کی چال می�©ں تھوڑی سی لنگڑاہٹ تھی اور چادر کے نیچے،ان کے ماتھے اور سر کے گرد سفید پٹی بھی موجود تھی۔چند لمحوں کے لیے تو وہ اس رنگ و نور کی لہر کو دیکھ کر یوں مسمرائز ہوا کہ اپنی جگہ پر جم کر رہ گےا….اسے اپنا آپ ہی بھول گیا تھا!
”یہ حجاب بی بی کی پھو پھو جی ہیں۔تیری عیادت کرنے آئی ہیں۔“ منصب نے آگے بڑھ کر اس طلسم کا شیشہ توڑا۔مرشد چونکا اور بے اختیار تھوڑا اور سیدھا ہو بیٹھا۔ بائیںپہلو اور کندھے میںبھر پور ٹیس اٹھی جسے وہ ضبط کر گیا۔سلام کی دو آوازیں آگے پیچھے ہی اس کی سماعت میں اتریں۔ایک ممتا بھری پر شفقت آواز اور دوسری….دوسری آواز زمانے بھر کی آوازوں سے جدا اور منفرد تھی….اس آواز میں زندگی گنگناتی تھی۔اس لمحے بھی کمرے کی ساری فضا کھنک اٹھی۔
”لیٹے رہو بیٹا! بالکل تکلیف نہیں کرو۔“ مہربانی اور محبت سے بھری آواز،پھوپھو جی نے دونوں ہاتھوں سے اس کے سر پر پیار دیا۔ا ن کے اندر کی پر خلوص ممتا جیسے لمس سے ہوتی ہوئی مرشد کے بالوں کی جڑوں میں سرایت کر گئی ۔
”آمین۔“مرشد بس اتنا ہی کہہ سکا۔اس کی حالت بڑی عجیب ہورہی تھی۔دھڑکنیں اپنی رفتار بھول چکی تھیں۔رگ و پے میں ایک سنسناہٹ سی بھڑک اٹھی تھی۔حجاب سرکار اور ان کی پھوپھو کی یہ اچانک آمداس کے لیے اتنی ہی غیر متوقع اور غیر یقینی تھی۔اسے لگ رہا تھا وہ کوئی خواب دیکھنے لگا ہے۔چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ رندھی ہوئی آواز میں پھر کہنے لگیں:
”وقت کے یزیدوں نے میرے ویر کو مار ڈالا۔ اس کے پورے کنبے کو مار مکایا۔“ انہوں نے سسک اٹھنے والی حجاب کا سر اپنے کندھے سے لگایا۔”صرف اس کی یہ ایک نشانی باقی ہے….یہ بچی! جب مجھے اس قیامت کی خبر ملی تو می�©ں رو رو کر اللہ سے پوچھتی تھی کہ یہ سب سننے ،جاننے کے بعد بھی میں زندہ کیوں ہوں….میرا کلیجہ کیوں نہیں پھٹتا….تب مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ بچی زندہ ہوگی۔میں کبھی اسے دیکھ سکوںگی،اپنے کلیجے سے لگا سکوں گی لیکن آج یہ سچ ہوگےااور….اور یہ تمہاری بدولت ہوا ہے….یہ تمہاری ہمت اور قربانیوںکا صلہ ہے جو اس بچی کی زندگی کی شکل میںاللہ پاک نے میری جھولی میں ڈالا ہے اور میں یہ ہمیشہ یاد رکھوں گی۔یہ ماں ہمیشہ تمہاری احسان مند اور مقروض رہے گی بیٹا!“
مرشد جو سر جھکائے بیٹھاتھا اس نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا۔پھوپھی بھتیجی دونوں ہی سسک رہی تھیں۔نظام شاہ جی ہی کی طرح ان کا چہرہ بھی سرخ و سفید تھا۔جسم موٹاپے کی طرف مائل،آنکھوںکے گرد جھریاں،چادر کے نیچے سے جھانکتے لچھے جیسے سفید بال،سفید بھویں اور گالوں پر آنسوو�¿ںکی لکیریں…. چہرہ شفقت اور مہربانی کی تصویر۔ ان کی آواز میں بولنے والا در دو غم،پورے کمرے کی فضا کو سوز و گداز سے بھر گےا۔
مرشد بولا:”بیٹا بھی کہہ رہی ہیںساتھ احسان اور قرض بھی گن رہی ہیں….شرمندہ اور گناہ گار کر رہی ہیں مجھے۔“
”نہیں بیٹا!خدا جانتا ہے میں یہ سچے د ل سے کہہ رہی ہوں۔حجاب مجھے ساری تفصیل بتا چکی ہے،کس طرح قدم قدم پر تم نے اس کی حفاظت کی،خیال رکھا، خود چوٹیں کھائیں ،زخم کھائے،اپنا خون بہایا،دوستوں کی قربانیاں برداشت کیں اور….اور اس کے حصے کی گولی تک اپنے جسم پر لے لی!“
مرشد نے ایک اچٹتی نظر حجاب کی طرف دیکھا اور اس کا دل دھک سے رہ گےا….وہ پھوپھو کے کندھے کے ساتھ سر ٹکائے اپنی نم ناک آنکھوں سے یک ٹک اسے ہی تو تک رہی تھی۔بنا آنکھ جھپکے….عجیب حسرت ناک سا تاثر تھا ان آنکھوں میں،مرشد کو خوش گوار حیرت کا احساس ہوامگر وہ باوجود خواہش کے دوبارہ اس کی طرف نہیں دیکھ سکا۔اس کی پھوپھو موجود تھیں۔منصب سامنے جم کر کھڑی مسلسل اسے گھورے جا رہی تھی۔شرم ،غیرت اور ادب کے بوجھ نے اس کے سر کو جھکائے رکھا۔
وہ بول رہی تھیں:”دکھ درد کے اندھیروں میں تو اپنے سگے سائے بھی دور ہوجاتے ہیں،اس طرح….اتنا تو کوئی اپنوں کے لیے بھی نہیں کرتا جتنا تم ،ہم غیروں اور اجنبیوں کے لیے کر گزرے….بھلا میں کن لفظوں میں تمہارا شکریہ ادا کروں،کیسے ادا کروں؟“
مرشد بولا:”میں پہلے بھی سب سے کہہ چکا کہ میں نے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا….مجھے رتی بھر کسی سے کسی قسم کے صلے کی بھی کوئی خواہش اور تمنا نہیں ہے، باقی….رہی یہ بات کہ کوئی اپنوں کے لیے بھی اتنا نہیں کرتا تو یہاں بات اور معاملہ بھی تواس سے کہیں آگے کا ہے نا!“ اس نے سرسری انداز میں دونوں کی طرف دیکھا۔” حجاب سرکار میرے لیے اپنوں سے بڑھ کر ہیں….آپ سب ہی….آپ کا سارا خانوادہ….آپ سید سرکار لوگ ہیں۔یہ میری خوش بختی ہے کہ حجاب سرکار کی حفاظت اوران کی آپ تک پہنچنے کی ذمہ د اری کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھ حقیر اور جاہل کو چنا…. اس بات پر بھی اس رب سوہنے کا شکر گزار رہوں گا کہ سرکار صحیح سلامت،عزت آبرو کے ساتھ آپ کے حوالے ہوئیں۔“
حجاب اب بھی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ایک لمحے کے لیے دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں،مرشدکو لگا جیسے ان آنکھوں میں بہتی کوئی برقی رو ،اس کی اپنی آنکھوں میں سرایت کر کے پورے بدن میں دوڑ گئی ہے۔ایک عجیب سی سنسناہٹ پورے وجود میںرقص انداز ہوگئی تھی۔
”تم غیرت مند اور بہادر بھی ہو اور اعلا ظرف بھی۔یقینا کسی اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہو گئے۔“
مرشد کے اندر کہیں ایک ہلکا سا چھناکا ہوا۔ایک لمحے کے لیے اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیا غیرت اور بہادری صرف اچھے گھروں کی میراث ہے؟ حجاب نے بھی اس کے چہرے پرسایا سا لہراتے دیکھا۔
”قانونی معاملات شاہ جی بڑے اچھے سے سنبھال لیں گے۔“ وہ کہہ رہی تھیں۔ ”تم ان سب بکھیڑوں سے جان چھڑا کر ادھر ہمارے پاس ہی آ جاﺅ، قلعہ سیف اللہ۔ گھر والوں کو بھی لے آنا۔ ہماری ایک کوٹھی بالکل خالی پڑی ہے۔ تم لوگوں کے لیے بالکل ٹھیک رہے گی۔ یہ یزید زادے چوہدری اور پولیس والے تمہیں اب پنجاب میں سکون سے رہنے ،جینے نہیں دیں گے۔ تم چھوڑ دوپنجاب کو چھوڑ دو اور ہمارے پاس بلوچستان آجاﺅ۔ وہاں کسی کی مجال نہیں ہو گی کہ تمہاری طرف ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھ سکےہاں۔“
مرشد کو حجاب کی آنکھوں میں خفیف سی چمک مسکراتی دکھائی دی۔ اسے فوراَ اندازا ہو گیا کہ یہ زبان پھوپھو کی ہے لیکن مشورہ حجاب سرکار کا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اتر آئی۔
”آگے کی تو خدا جانے بی بی سرکار! جو اسے منظور ہوا….بندے کا کام تو بس لبیک کہنا ہے۔“
”بندے کی اپنی مرضی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔اللہ نے فیصلے اور ارادے کا اختیار دے رکھا ہے….تم فیصلہ اور ارادہ کرلو،باقی سارا کچھ ہوجائے گا۔میں ذمہ داری لیتی ہوں اور بولو؟“
”بولنا کیا بی بی سرکار!مجھے تو ساری زندگی آپ کی دہلیز کا پتھر بن کر گزارنے کا موقع ملے تو وہ بھی میرے لیے رب کی کرم نوازی ہوگی۔میں سو سال آپ کے درہی پر پڑا رہوں اور مردہ پتھر سے پارس ہوجاو�¿ں۔آپ….دعا کیجیے خدا مجھ پر بھی اسی انداز مہربان ہو….میری زنجیریں میرا ساتھ دے سکیں۔“ وہ اپنے تئیں حجاب سے مخاطب تھا۔
پھوپھو بولیں:”دعا بھی ہوگی اور انشاءاللہ دوا بھی….ساری زنجیریں ٹوٹ ،کٹ جائیں گی۔شاہ جی کے واپس آتے ہی میں ان سے بات کرتی ہوں۔“
”توڑنے کاٹنے والی تو کوئی ایک زنجیر بھی نہیں ہے بی بی سرکار!میں جس زنجیر کی بات کر رہا ہوں وہ مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے….بہت محترم اور پیاری ہے مجھے۔“
”کس بارے بات کر رہے ہو بیٹا! صاف صاف بتاو�¿؟“مرشد کو ان کی بات چیت اور لب و لہجے سے اندازہ ہورہا تھا کہ ا ن کی تعلےم زیادہ نہیں ہے اورطبیعت اور مزاج بالکل سادہ اور پر خلوص ہے۔حجاب ہی کی طرح۔ ایک ہی خون تھا وہ سید صلاح الدین کی اکلوتی بہن تھیں۔سید بادشاہ شہاب الدین سرکار کی اولاد۔
”میں اپنی والدہ کے بارے میں بات کر رہا ہوں….جس جگہ،جس گھر میں وہ رہتی ہیں،اس گھرکو کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا چاہتیں اور ….اور میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا….ان سے دور ہو کر نہیں رہ سکتا۔اسی حوالے سے زنجیر والی بات کہی ہے میں نے۔“
”ان کو مل کر منا لیں گے۔سارے حالات و واقعات کی نزاکت بتائیں،سمجھائیں گے تو وہ سمجھ جائیں گی….تم اس طرف سے بالکل بے فکر ہو جاو�¿۔میں اور شاہ جی خود چل کر ان تک جائیں گے۔“بات نازک رخ کی طرف آتی جا رہی تھی۔ا ن لمحو ں اس سنجیدگی کو صرف حجاب دیکھ رہی تھی جو اچانک مرشد کے چہرے پر اتر آئی تھی۔
”نہیں بی بی سرکار!“ وہ پوری سنجیدگی سے بولا:”آپ کو اتنی زحمت ،تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔میں بات کروں گاان سے….سمجھاو�¿ں گا ان کو، اگر انہوں نے کوئی ضد کی تو ان کی وہ ضد بھی پوری کرنے کی کوشش کروں گا….تھوڑا وقت لگ سکتا ہے لیکن ایسا ہو جائے گا….مان ہی جائیں گی وہ۔“ پھوپھو کے ساتھ، ان کے پس پردہ وہ حجاب سے بھی مخاطب تھا۔
”بالکل مان جائیں گی۔تم ذرا صحت مند ہو لو۔یہ سارا جھگڑا فساد بھی ٹھنڈا ہو لے….سب ہو جائے گا۔وہاں والی کوٹھی تو میں ابھی جاتے ہی صاف ستھری کراتی ہوں ….تمہارے اور بہن بھائی بھی تو ہوں گے ….وہ کیا کرتے ہیں؟“
”نہیں ….اپنی ماں کا میں اکیلا ہی ہوں۔“
”اوہ….اچھا! اور تمہارے والد؟“
”والد فی الحال نہیں ہیں!“جملہ بے ساختہ ہی ادا ہوگیا تھا۔
بی بی سرکار متعجب ہوئیں:”فی الحال نہیں ہیں….اس کا کیا مطلب؟یہ کیسی بات کر رہے ہو؟“
حجاب کے ساتھ منصب کی نظریں بھی مرشد پر ہی ٹکی تھیں۔اس کو بھی حقیقت معلوم تھی….مرشد کی ولدیت مشکوک تھی….وہ ایک پیشہ ور طوائف کا جنا تھا۔
وہ ایک ذرا توقف سے کام لیتے ہوئے بولا:”دراصل وہ گزشتہ کئی سالوں سے لاپتا ہیں….گھر کے کسی کام کے لیے گئے تھے پھرواپس نہیں آئے!“ بی بی سرکار کے چہرے پر سناٹے کا سا تاثر چھا گیا۔مرشد کے لیے ان کی آنکھوں میںکچھ مزید اپنائیت،مزید محبت بھر آئی۔
”یہ تو بہت ہی دکھ اور افسوس کی بات ہے….کتنے سال ہوگئے؟“
”قریب چھبیس ستائیس سال“
”چھبیس ستائیس سال….اس دوران ان کی کوئی خیر خبر نہیں ملی؟“
”نہیں….اب تو شاید وہ اس دنیا ہی میںنا ہوں مگر….اماں کوان کی واپسی کا انتظار ہے….اسے ےقین ہے کہ وہ ایک نا ایک دن ضرور لوٹ کر آئیں گے!“
بی بی سرکار فوری طور پر کچھ بول ہی نہیں پائیں….ان کادماغ جیسے با لکل خالی ہو کر رہ گیا تھا۔وہ تھوڑی دیر کھوئی کھوئی نظروں سے سر جھکائے بیٹھے مرشد کو دیکھتی رہیں پھر خیال انگیز انداز میں بولیں: ”والدہ تمہاری جنتی عورت ہیں….اللہ کے بہت قریب ہوں گی۔ اتنا صبر….اللہ اکبر!میں ضرور ملوں گی ان سے۔ انشاءاللہ۔“
حجاب اور منصب بالکل خاموش تھیں۔مرشد سر جھکائے بیٹھا تھا۔ایک عجب سی جھجھک تھی۔خوشی بھی تھی اور کچھ….ندامت اور دکھ بھی….جھجھک تو حجاب کی پھوپھو،ان کی نسبت اور منصب کی وجہ سے تھی ،جو اس کی پائینتی کی طرف کھڑی برابر اس کو گھورے جارہی تھی البتہ باقی جذبات باقی کیفیات صرف حجاب کی وجہ سے تھیں!
منصب مرشد سے مخاطب ہوئی: ”بی بی جی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔لہور کو ہمیشہ کے لیے اللہ حافج کہہ دے….شاہ جی کی پناہ میں قلعہ سیف اللہ چلا جا یا مڑ یہاں آجا….مجفرگڑھ۔“
”یہاں تو آیا پڑا ہوں میں۔“ وہ مسکرایا۔”سامنے ہی ہوں آپ سب کے۔کل کی اللہ جانے….جدھر لے جائے۔“
”تے بس ول ر واپس مڑنے کا کھیال دماغ سے نکال دے….اماں تیری کو بھی لے آتے ہیں۔“
”دیکھتے ہیں ۔اللہ کی منظوری ہوئی تو اماںکو میں خود ہی لے آو�¿ں گا۔“ وہ محض اس موضوع کو طول نا دینے کی غرض سے بولاورنہ اسے اماںکے حوالے سے کوئی غلط فہمی،یا خوش فہمی نا تھی اس کی تشنہ سماعتوں کی پیاس بڑھ چکی تھی۔من میں شدید خواہش بے دار ہو اٹھی کہ حجاب سرکار کچھ بولیں۔سرکار بولیں اور وہ ان کی دل نشین آواز کو روح کی گہرائیوں تک جذب کرلے کہ پھر انہوں نے چلے جانا تھاشاید یہ الوداعی ملاقات تھی۔اس کے بعد دوبارہ ان سے سامنے اور ملاقات کی کوئی توقع،کوئی امید نہیں تھی۔
اس کی آواز سننے ….اس کے ہونٹوں سے اپنا نام سننے کی شدید خواہش اس کے دل میں مچلتی رہی مگر پوری نا ہو سکی!حجاب بی بی کی پھوپھو کچھ دیر مزید اس کے ساتھ بات کرتی رہیں لیکن جتنی دیر بھی حجاب وہاں موجود رہی۔بالکل خاموش رہی۔ایک سلام کی آواز کے بعد اس کی زبان سے کوئی جملہ،کوئی لفظ ادا نہیں ہوا البتہ….اس کی آنکھیں کچھ بول رہی تھیں۔مرشد نے کتنی بار دیکھا،حجاب کی نظریں اس کے چہرے پر ٹکی تھیں۔دو تین بار ان کی آنکھیں آپس میں ملیں بھی،تب بھی وہ بنا جھجھکے ،گھبرائے دیکھے گئی۔اس کی آنکھوں اور چہرے پر ایسے تاثرات تھے جنہیں مرشد فوری طور پر کوئی معنی نہیں دے سکا….نہیں جان سمجھ سکااور پھر بی بی سرکار اٹھ کھڑی ہوئیں۔انہوں نے مٹھی میں نوٹوں کی ایک گڈی پکڑ رکھی تھی۔وہ انہوں نے اس کے سر پر صدقہ وارنے والے انداز میں گھمائی اور منصب کو تھمادی۔
”میرے اس بیٹے کے صدقے کی دیگیںلگواو�¿ اور غریبو ں میں خیرات کردو۔“ انہوں نے انتہائی پر شفقت انداز میںپھر دونوں ہاتھ اس کے سر پر پھیرے اور دوبارہ اسے لاہور چھوڑ کے آجانے اور ساتھ ہی لاہور اس کی اماں سے خود ملنے آنے کا کہتی ہوئیں دروازے کی طرف پلٹ گئیں۔
ان آخری لمحوں جیسے مرشد کے پورے وجود سے جان سمٹ کراس کی آنکھوں اور کانوں میں آ بیٹھی تھی۔اس نے یوں حجاب کی طرف دیکھا جیسے سزائے موت کا قیدی آخری بار زندگی کو دیکھ رہا ہو۔اس نے دیکھا اور دل جیسے اچھل کر کنپٹیوں میں آ دھڑکا….حجاب کی آنکھیں بدستور اس کے چہرے کی نگراں تھیںوہ ہی طلسم بھری شفاف اور معصوم آنکھیں جو ہلکی سی جنبش کے ساتھ ہی اس کے دل کی دنیا تہہ و تیغ کر دیتی تھیں…. رخصت کے ان آخری ،الوداعی لمحوں میںان آنکھوں سے جھلکنے والی حسرت ناکی کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ان شفاف کٹوروں میں گہری اداسی بھیگ رہی تھی۔
”خدا حافظ مرشد جی!میری باتیں نصیحتیں یا د رکھئیے گا….اپنا بہت سا دھیان ،خیال….ساتھ سفر اتنا ہی تھا،بس یہیں تک….الوداع….رب راکھا!“ اس کے ا نگوروں جیسے ہونٹ ویسے ہی ساکت اور خاموش تھے مگر اس کی آنکھیں بول رہی تھیں،باتیں کر رہی تھیں۔اطمینان،اداسی،شکریہ اور خدا حافظ….الوداع….کتنے لفظ،کتنے جملے تھے جو ان لمحوں ان آنکھوں میں خاموشی سے چمک کر بجھ گئے اور وہ بھی اپنی پھوپھو کے پیچھے ہی دروازے کی طرف پلٹ گئی۔مرشد کی سماعتیں چیختی رہ گئیں۔حجاب کو پکارتی رہ گئیں مگر اس نے کوئی ایک رسمی جملہ تک نا کہا….اور تو اور خداحافظ اور سلام تک نہیں کہا!
وہ تینوں آگے پیچھے دروازے سے نکل کر غائب ہو گئیں اور مرشد اپنی جگہ ساکت بیٹھا رہانظریں دروازے پر جمائے ،کسی پتھر کے مجسمے کی طرح۔کمرہ خالی ہو چکا تھا۔بالکل خالی….جیسے وہاں کبھی کوئی آیا ہی نا ہو!
٭ ٭ ٭
اگلے روز مرشدکو دو اہم خبریں ملیں۔ یہ خبریں دینے والا ارباب تھا۔پہلی خبر تو یہ تھی کہ مرشد کی عبوری ضمانت حاصل کر لی گئی ہے۔دوسری خبر اس سے زیادہ اہم اور چونکا دینے والی تھی۔ارباب کے مطابق کچھ ہی دیر پہلے ڈپٹی اعوان کو اور، نواب اسفند یار کی حویلی سے چوہدری اکبر علی کو گرفتار کر لیا گیا تھا!
”اور چوہدری فرزند….اس کے بارے میں کیا اطلاع ہے؟“
”وہ حرام زادہ فی الحال منظر سے بالکل غائب ہے۔پتا نہیں کس ماں کے …. میں جا چھپا ہے۔“
ارباب زیادہ دیر اس کے پاس ٹھہرا نہیں،وہ بس یہ خبریں پہنچانے ہی آیا تھا۔ڈپٹی اور چوہدری اکبر والی خبر مرشدکے لیے واقعی اہم اور خاص تھی۔ اکبر علی کی گرفتاری کوئی معمولی بات تھی بھی نہیں اور پھر وہ بھی نواب اسفند یار کی حویلی سے….یقینا ان دو غیر معمولی خبروں،دونوں واقعات کا تعلق نظام شاہ جی کے لاہور دورے کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ضرور یہ ڈوریاں وہیں کہیں سے ہلائی گئی تھیں!
صبح لالا نصیر اور استاد افضل ملتانی آئے بیٹھے رہے تھے اور دوپہر سے لالا رستم ان کے ساتھ ہسپتال گیا ہوا تھا۔اس کی واپسی رات عشاءکے بعدہوئی۔وہ ہسپتال میں پڑے ساتھیوں کے متعلق بتانے لگااور مرشد بس ہوں،ہاں میں جواب دیتا رہا۔رستم کے استفسار پر اس نے آنکھ اور سر درد کا بہانا بناےا۔ڈاکٹر نے آنکھ میں ڈراپس ڈالے میڈیسن دی مگر افاقہ نا ہوا اور وہ آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔ افاقہ تو تب ہوتا جب درد واقعی میں ہوتا….درد نہیں تھا….پہلو میں گولی والے زخم میںتھوڑا کھنچاو�¿ محسوس ہورہا تھا مگر کوئی پریشانی والی بات نہیں تھی۔اس کے ساتھ اصل مسئلہ کچھ اور تھا….گزشتہ رات سے تھا۔اس وقت سے ، جب سے حجاب سرکار روانہ ہوئی تھیں۔بغیر کچھ بولے!
رات ہی سے دل و دماغ ایک عجیب سی بے زاری اور بد مزگی کی لپیٹ میں تھے۔تب سے اب تک اس کا کسی کے ساتھ بولنے،بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔وہ آنکھیں بند کیے خاموش پڑا رہا۔دھیان باربار حجاب بی بی کی طرف،اس کی خاموش رخصتی کی طرف جاتا رہا اور وہ اسے پکڑ پکڑ کر دیگر سوچوں خیالوں کی طرف متوجہ کرتا رہا۔ دوستوں ساتھیوں کی طرف،دشمنوں کی طرف اور اپنے آئندہ لائحہ عمل کی طرف۔
رستم کافی دیر تک صوفے پر بیٹھا ڈاکٹر سے گپیں لگاتا رہا پھر اٹھ کر عقبی دیوار کے ساتھ بچھے پلنگ پر جا لیٹا۔کمرے میں خاموشی چھا گئی اور پھر دھیرے دھیرے یہ خاموشی گہری ہوتی چلی گئی۔اتنی گہری کہ کمرے کی کھڑکی سے چھلک چھلک کرنیچے….حویلی کے احاطے میں گرنے لگی،باہر کی تاریک فضا میں گھلنے لگی۔
جس وقت اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا،رستم غٹ پڑا سو رہا تھا اور ڈاکٹر بھی صوفے پر نیم دراز سا،اونگھ رہا تھا۔کمرے میں دو پنکھے چل رہے تھے اور ان کے شور کے علاوہ اور کوئی آواز نا تھی۔ اس نے دو تکیے سر کے پیچھے ٹکائے اور نیم دراز حالت میں آگیا۔گردن پھیر کر دیکھا۔حویلی کے گیٹ پرتین چار مسلح بلوچ بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔بستی کے بیش تر گھروں کی لائٹیں روشن تھیں ۔اس کے علاوہ چاروں طرف گہری تاریکی تھی۔فضا میںبس ایک دو جھینگروںکی آوازیں تھیں یا پھر بستی کی طرف سے کسی کسی وقت کتوں کی آوازیںسنائی دے جاتی تھیں۔رات اچھی خاصی گزر چکی تھی لیکن ابھی تک لاہور سے نظام شاہ جی واپس نہیں پہنچے تھے حالانکہ ارباب کے بتائے گئے پروگرام کے مطابق،دیکھا جاتا تو انہیں اب سے کافی دیرپہلے پہنچ آنا چاہیئے تھا۔ صبح ا نہوں نے یہاں سے آگے بھی تو روانہ ہونا تھا….قلعہ سیف اللہ کی طرف!
حجاب بی بی نے بھی ان کے ساتھ جانا تھا۔وہ اب یہاں صرف آج رات کی مہمان تھیں۔ان کی یہاں آج آخری رات تھی۔مرشد کل ہی سے جیسے گھڑیاں گن رہا تھا جو ہر گھڑی کم ہوئی جاتی تھیں۔کل سے اب تک کتنی بار خود باخود….اس کے ذہن میں یہ خیا ل آچکا تھاکہ حجاب سرکار کو روک لے۔انہیں یہاں سے آگے نا جانے دے کیوں کہ اگر وہ چلی گئیں تو پھر وہ کبھی ا نہیں دوبارہ نہیں دیکھ سکے گا۔کل سے سینکڑوں بار وہ اس سوچ،اس خیال کوجھٹک چکا تھامگر یہ پھرذہن پر آ دستک انداز ہوتا!
اب اسے رہ رہ کر یہ خیال متوجہ کرنے لگا تھا کہ نظام شاہ جی شاید آج نا پہنچ سکیں اور صبح قلعہ سیف اللہ والا پروگرام کینسل ہو جائے۔شاید حجاب سرکار کل کا دن اور رات بھی یہیں گزاریں لیکن اس صورت بھی ،جانا تو آخرانہیں تھا ہی! وہ کندھوں اور سر کے پیچھے تکیے ٹکائے لیٹا رہا اور اس کے دل و دماغ کے درمیان ایک رسہ کشی کا سا عمل جاری رہا۔رات کا آخری پہررہا ہوگا جب اسے ملتان روڈ سے چار گاڑیا ں بستی والی سولنگ پر آتی دکھائی دیں۔اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوچا شاید نظام شاہ جی واپس پہنچ آئے ہیں….اگلے چند منٹوں میں چاروں گاڑیاں حویلی کے گیٹ تک پہنچ آئیں۔ان میں شاہ جی والی سیاہ لینڈ کروزر بھی تھی۔گیٹ کھلا اور چاروں گاڑیا ںاحاطے میں داخل ہو آئیں ۔تین رک گئیں اور لینڈ کروزر سیدھی ہی آگے بڑھتی آئی۔نظام شاہ جی واپس پہنچ چکے تھے۔
صبح قریب تھی۔اس کا باقی وقت بھی جاگتے ہی گزرا۔دن چڑھے ،قریب آٹھ بجے رستم بھی جاگ اٹھا۔مرشد کا دھیان مسلسل نیچے ،احاطے میں لگا ہوا تھا۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ساری گاڑیاں بھی اپنی اپنی جگہ کھڑی تھیں۔مزید کوئی آدھا گھنٹہ گزرا ہوگا کہ دروازے کی طرف آہٹ ہوئی اور پھر ارباب اور نظام شاہ جی اندر داخل ہوآئے۔ وہ قلعہ سیف اللہ کے لیے روانہ ہونے لگے تھے اور مرشد سے الوداعی ملاقات کرنے کی غرض سے آئے تھے۔ کچھ رسمی باتیں،قانونی نکتے اور مشورے،چند یقین دہانیاں،حوصلہ، تسلی اور ڈھیر سارا تشکر….ان ساری باتوں کے بعد وہ اپنی پرسوں رات والی بات کی طرف آگئے۔
”آ پ کے پاکستان چھوڑ کر جانے کے بیچ کیا رکاوٹ ہے؟“ وہ پرسوں ہی کی طرح برابر پڑی کر سی پر بیٹھے تھے۔رستم اس کے پلنگ کی پائنتی اور ارباب،پائنتی کے قریب پڑی کرسی پر۔
”پہلی رکاوٹ تو میں خود ہی ہوں….یہ ملک،یہ مٹی میری ہے اور میں اس مٹی کا….مجھے لگتا ہے یہ چھوڑ کر کہیں اور گیا تومیرا دم گھٹ جائے گا۔سوکھ کر مر جاو�¿ں گا میں۔“
”اپنی سر زمین ،اپنے وطن کے ساتھ یہ جڑت،یہ لگاو�¿ قابل ِ قدر ہے۔اس کے علاوہ دوسری رکاوٹ کو ن سی ہے۔؟“
مرشدکو خیال آیا کہ شاید بی بی سرکار اپنی ملاقات اور گفتگو کے متعلق انہیں بتا چکی ہیں۔ وہ سنجیدگی سے بولا:
”اماں! وہ اپنا گھر،اپنی چار دیواری نہیں چھوڑے گی اور میں اسے….آپ،اب اسے رکاوٹ سمجھ لیں یا کوئی زنجیر….“
چند لمحے کی گہری خاموشی کے بعد شاہ جی ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے: ”موجودہ تمام قانونی بکھیڑوں سے آپ کو آزاد کرانا ہمارا فرض اور ذمہ داری بنتی ہے اور ہم آپ کو بہت جلد اس سب سے بری الذمہ قرار دلوائیں گے۔کچھ ایف آئی آر ز تو خارج بھی ہو چکیں۔ڈپٹی اعوان اور چوہدری اکبر پولیس حراست میں پہنچ چکے۔باقی لوگ بھی جلد قانون کے شکنجے میں ہوں گے اور آپ پوری طرح آزاد لیکن….اس عرصے کے دوران آپ کی یہ جو اتنے سارے لوگو ں کے ساتھ دشمنی پڑ چکی ہے، اس سے آپ بری الذمہ اور آزاد نہیں ہو سکیں گے۔ان دشمنوں کا کوئی ساتھی….کوئی بھائی یا بیٹاان کی جگہ سنبھال لے گا۔جیسے ملنگی کا ہم نے سنا ہے….وہ آپ کی جان کے دشمن ہیں….جیسے چوہدری فرزند کے بھائی ہیں یا جتنے بھی دیگر ایسے لوگ ہیں جو اس دوران میں آپ سے کسی بھی قسم کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ وہ آئندہ مسلسل گھات میں رہیں گے اور جس کو جب،جہاں موقع ملا وہ آپ کو چوٹ پہنچائے گا۔ہر ممکنہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ حتیٰ کہ جان سے مارنے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے….یہ عین ممکنات میں سے ہے اور ہم ساری تفصیل جان چکے ہیں۔لاہور سے لے کر یہاں تک۔آپ کے جانی دشمنوں کی ایک اچھی خاصی لمبی فہرست بنتی ہے۔اس فہرست میں پولیس ملازمین بھی شامل ہیں،یعنی….اب آئندہ کی زندگی آپ پہلے کی طرح اپنے گھر….اپنے علاقے میں ویسے سکون و اطمینان کے ساتھ نہیں گزار پائیں گے۔اس لیے سب سے بہتر تو یہی ہے کہ آپ پاکستان چھوڑ دیں۔الف سے یے تک سب کچھ….ساری ذمہ داری ہماری اور….اگر آپ ملک نہیں چھوڑنا چاہتے توکم از کم علاقہ چھوڑ دیں۔اس سلسلے میں بھی سب ہمارے ذمے….پنجاب کے ایک سے دوسرے کونے تک تو آپ کے دشمن پیدا ہوچکے ۔آپ بلوچستان ہمارے پاس شفٹ ہوجائیں۔اپنی والدہ سمیت۔وہ جو کہیں گی ،ان کی ہر شرط پوری کردی جائے گی۔“نظام شاہ جی کے آخری جملے پر مرشد کے ہونٹوں پر وہ ہی مخصوص،زخمی اور مضمحل سی مسکراہٹ تڑپ کر رہ گئی۔
”ان کی بس ایک ہی شرط ہوگی اور وہ یہ کہ انہیں آخری سانس تک اسی چار دیواری میں جینے دیا جائے….آپ سید سرکار ہیں۔ آپ دعا کر یں خدا اس کی آزمائش ختم کر دے۔اسے اس کی ریاضتوں کا ثمر دے دے یا اس کی زنجیریں کھول دےثمر نہیں تو اسے صبر عطا کردے۔“
”کیا مسئلہ پریشانی ہے ا ن کے ساتھ؟“
”دماغ کی طرف سے کچھ تھوڑاسا مسئلہ ہے۔ہے ویسے ٹھیک ٹھاک ….بالکل۔بس کچھ خود ساختہ اذیتیں اور پابندیاں پال رکھی ہیںاس نے۔ اس حوالے سے کوئی کچھ کہے سمجھائے،نہیںمانتی سمجھتی….شاید آپ کی دعا کے طفیل خدا اس کی ذہنی رو بدل دے۔“
”خدا سب ٹھیک کر دے گا۔ا نشاءاللہ۔آپ شفٹنگ کے لیے اپنا ذہن بنا لیں وہ بھی مان جائیں گی۔“
”خدا آپ کی زبان مبارک کرے۔“
”ہم ابھی قلعہ سیف اللہ روانہ ہو رہے ہیں۔یہاں آپ کو کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں ہوگی۔پولیس کے حوالے سے تو اپنادماغ بالکل خالی کر لیں۔ مزید…. منصب اور ارباب صاحب یہاں ہیں اور….آپ کے پاس ہمارا فون نمبر بھی ہے۔چوبیس گھنٹے میں جب،جس وقت جی چاہے بلا جھجھک کال کر سکتے ہیں۔ضرورت اور وقت پڑنے پر ہم بھی فوراً پہنچ آئیں گے۔“وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ہوئے تو ارباب اور رستم بھی فوراً ہی کھڑے ہوگئے۔مرشد کے دل میں تھی کہ وہ ان سے سید بادشاہ شہاب الدین سرکار کے متعلق پوچھے….ان کی ہجرت اور روپوشی کے متعلق۔چوہدریوں کی یہاں اور نندی پور میں موجودگی کے متعلق….ان کے اپنے گم شدہ بھائی کے متعلق ،جس کے خیال کے ساتھ ہی پتا نہیں کیوںاسے موالی ملنگ دکھائی دینے لگتا تھا!
مرشد کے دل میں تھی لیکن ان میں سے کوئی ایک بات بھی سوال بن کراس کی زبان تک نا آسکی۔نظام شاہ جی اب جلدی میں دکھائی دیتے تھے…. ان کا فون نمبر تھاایک بار پہلے وہ گم کر چکا تھاسو اس بار اس نے زبانی یاد کر لیاتھا۔شاہ جی نے نرم،گرم جوشی سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا،جلد دوبارہ ملاقات کی پھر سے یقین دہانی کرائی اور اللہ حافظ کہتے ہوئے دروازے کی طرف پلٹ گئے۔ارباب نے فوراً ان کی تقلید کی تھی۔محض بیس سے پچیس منٹ بعد احاطے میںہلچل سی محسوس ہوئی۔رینگلر جیپوں پر مسلح ڈشکرے سوار ہورہے تھے۔گاڑیاں حرکت میں آرہی تھیںپھرشاہ جی کی لینڈ کروزر سمیت تین گاڑیاں حویلی کے رہائشی حصے سے باہرآئیں تو مرشد کی ساری توجہ،سارا دھیان ان کی طرف لگ گیا۔لالا رستم پتا نہیں کیا بولے جا رہا تھا!
مرشد کی نظریں لینڈ کروزر پر جم کر رہ گئیں تھیں۔صد فیصد یقینی بات تھی کہ حجاب سرکار اسی میں سوار تھیں۔وہ بھی، ان کی پھوپھو سرکار بھی اور ان کے پھوپھا نظام الدین سرکار بھی….
مرشد کی آنکھ اور ہونٹوں کا ورم کافی حد تک کم ہوچکا تھا۔نظر کے سامنے جو مہین سا سرخ پردہ تنا ہوا محسوس ہوتا تھا،آج وہ بھی نہیں تھا۔ اسے سب کچھ بالکل صاف اور واضح دکھائی دے رہا تھا۔وہ ایک گرم اور چمک دار صبح تھی۔فضا بالکل ساکت اور ماحول حبس زدہ۔دور و نزدیک دکھائی دیتے تمام درخت جیسے اپنی اپنی جگہ شل اعصاب لیے، پتھرائے کھڑے تھے۔سارے کا سارا منظر ایک جمود، ایک گھٹن کا شکار تھا!
اس جمود زدہ منظر میں صرف ایک متحرک چیز تھی….حویلی کے بیرونی گیٹ کی طرف بڑھتی ہوئی سیاہ لینڈ کروزر….جس میں حجاب سرکار سوار تھیں۔ وہ رخصت ہو رہی تھیں۔جا رہی تھیں وہ ، ہمیشہ کے لیے….
مرشد کی نظریں،پاگلوں کی طرح اس گاڑی اور گاڑی کے شیشوں کو ٹٹولتی رہیں لیکن بلندی پر ہونے کی وجہ سے وہ گاڑی کے اندر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ان آخری لمحوں، شدید ترین خواہش کے باوجود ،وہ حجاب بی بی کی ایک معمولی سی جھلک بھی نہیں دیکھ پایا اور گاڑی گیٹ سے باہر نکل گئی۔ آٹھ گاڑیوں کا مختصر سا قافلہ تو ان کا اپنا تھا،ان کے علاوہ چار گاڑیاں مزید ساتھ ہولی تھیں۔ان میں دو پولیس کی تھیں اور دو جیپیں سیاہ پوش بلوچوں کی ۔بارہ گاڑیاں ایک قطار میں،ملتان روڈکی طرف روانہ ہوئی تھیں، مگر مرشد کو ان بارہ میں صرف ایک ہی ٹھیک سے دکھائی دے رہی تھی….لمحہ بہ لمحہ،سانس بہ سانس،حویلی سے دور جاتی ہوئی،سیاہ لینڈکروزر!
رستم ،اپنی طرف سے اس کی عدم توجہ کو محسوس کرتے ہوئے، اٹھ کر صوفے پر ڈاکٹر وقاص کے پاس جا بیٹھا۔مرشد دیکھتا رہا اور لینڈکروزر سولنگ سے ملتان روڈ پر چڑھ کر آخر کار نظروں سے اوجھل ہوگئی….رستہ خالی رہ گیا….بستی خالی ہوگئی۔خاموش فضا ….کھڑکی سے ایک ویرانی اندر پھونکنے لگی۔مرشد نے محسوس کیا کہ اس کے رگ و پے میں ایک سکوت اترتا آرہا ہے۔اس نے اپنے سرد پڑتے اعصاب کو سوچوں سے بہلانے کا ارادہ کیا….یہ اداسی کی نہیں،خوشی کی بات تھی کہ حجاب سرکار،بخیرو عافیت اپنے ورثا میں پہنچ گئی تھیں….ان کی مشکلیں،ان کی آزمائش ختم ہوگئی تھی…. اب وہ ہر لحاظ سے محفوظ ہاتھوں میں تھیں اور آگے ایک خوش حال زندگی ان کی منتظر تھی…. یہ مقامِ شکر تھا کہ خدا نے اسے سرفراز و سر خرو فرمایا تھا۔ وہ اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو چکا تھا…. اسی ذمہ داری کی حد درجہ حساس نوعیت نے اب تک اس کے ہاتھ پاو�¿ں باندھے رکھے تھے….زندگی میں پہلی بار ایسا ہو ا تھا کہ وہ اپنی عادت اور طبیعت و مزاج کے بالکل برعکس….اب تک صرف دفاعی انداز اختیار کیے ہوئے تھا۔مخالفین سے بچتا بچاتا،چھپتا چھپاتا،کترا کترا کر سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا تھا اور اپنے اس محتاط انداز کی وجہ سے ناقابلِ تلافی نقصان بھی اٹھا چکا تھالیکن یہ انداز،یہ طریقہ اس کی مجبوری رہا تھا۔اس کے ساتھ حجاب سرکار جو تھیں پھر کیسے ممکن تھا کہ وہ ذرا سا بھی کوئی خطرہ مول لیتا….البتہ اب وہ نہیں تھیں۔انہوں نے جہاں پہنچنا تھا،وہ پہنچ چکی تھیں۔اب وہ پوری طرح محفوظ تھیں اور مرشد پوری طرح آزاد۔اب اس کے سر کوئی ذمہ داری اور ارادوں کے سامنے کوئی رکاوٹ یا پابندی نہیں تھی۔اب وہ پوری طرح خم ٹھونک کر میدان میں اتر سکتا تھا۔وقت آپہنچا تھا کہ اب وہ اپنے سارے دشمنوں کی،ساری کی ساری غلط فہمیاں دور کردے….ان سب کو ان کی اوقاتیں بتائے اور انہیں ان کے عبرت ناک انجام تک پہنچائے۔ہاں! وقت آ پہنچا تھا…. اب آگے کی زندگی میںاسے کوئی مقصد نظر آرہا تھا تووہ واحد یہی ایک تھا اور بس!
یہ سب تو ٹھیک تھا لیکن….حجاب سرکار چلی گئیں تھیں! ذہن پھر گھوم کر حجاب بی بی کی طرف چلا گیا۔وہ چلی گئیں تھیں….پچھلے دو ماہ سے دن رات مسلسل ساتھ رہا تھا اور جانے سے پہلے ایک آخری دفعہ خدا حافظ بھی نہیں کہا تھا انہوں نے…. وہ جو کسی خوشبو کی طرح ،جسم و جان میں اتر کر اس کے اندر رچ بس چکی تھی یکا یک اس کی ایسی لا تعلقی،اتنی اجنبیت،اس کے دل و دماغ قبول نہیں کر پا رہے تھے۔ اس نے خود کو ٹوکا ،جھڑکا،اسے ایسا کچھ سوچنے ، چاہنے یا…. محسوس کرنے کا قطعاً کوئی حق نہیں تھا۔انہوں نے جانا تھا….جانا ہی تھا اور وہ چلی گئی تھیں،بس….بات ختم۔
اس نے اپنے تیئں بات تو ختم کردی لیکن اس کا موڈ ،مزاج ٹھکانے پر نہیں آسکا۔رستم معمول کے مطابق خنجر ، ساون لوگوں کی خیر خبر کو نکل گیا اور وہ خود آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔فی الوقت اس کا کسی سے بھی کچھ کہنے ،سننے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔
اسی شام رستم کا لاہور جانے کا پروگرام بن گےا۔ڈیڑھ ماہ سے زیادہ ہی ہو چکا تھا کہ وہ اپنے سارے کام دھندے،سارے معاملات چھوڑ کر یہیں
ڈیرے ڈالے بیٹھا تھا۔وہاں لاہور میں ،چند ایک معاملات صرف اس کی غیر موجودگی کی وجہ سے لٹکے ہوئے تھے۔ اس نے پروگرام بنایا تھا کہ یہاں تو اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے سو وہ جا کر ان معاملات کو دیکھتا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو کون سا کوئی زیادہ فاصلہ ہے….چار پانچ گھنٹے میں یہاں واپس پہنچ آئے گا۔مرشد کو آگا ہ کرنے کے بعد ،وہ قریب عشاءکے وقت، اپنے کچھ بندوں کے ساتھ لا ہور کی طرف روانہ ہوگیا۔
اس کے چلے جانے کے تین دن بعد،ارباب کی زبانی مرشد کو معلوم ہوا کہ تین دن پہلے،ساون، خنجر سمیت اس کے باقی زخمی ساتھیوں کو بھی پولیس گرفتار کر کے لے گئی تھی۔ان کا باقی علاج اب جیل کے ہسپتال میں ہونا تھا۔اس کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق،انہیں تین دن پہلے،عصر کے قریب پولیس نے حراست میں لیا تھا۔یعنی یہ گرفتاریاں ،لالارستم کی موجودگی میں ہوئیں تھیںلیکن اس نے مرشد کو اس بارے میں ذرا سی ہوا بھی نہیں دی تھی۔کوئی ذکر ہی نہیں کیا تھا!
”ان گرفتاریوں میں حیرت کی تو کوئی بات نہیں….“ ارباب اس کی حیرت محسوس کرتے ہوئے بولا تھا۔” یہ تو ہونا ہی تھا….پریشانی والی بھی کوئی بات نہیں۔تھانے یا جیل میں انہیں کوئی تنگی نہیں ہو گی۔ جلد ہی ضمانتیں بھی ہوجائیں گی….ہمارے بھی کافی بندے پولیس حراست میں ہیں۔قانونی رسمیں تو پوری کرنی پڑیں گی نا!“
”میں لالا رستم کی طرف سے حیران ہوں۔اس نے مجھ سے ذکر تک نہیں کیا….“
”نہیں چاہتے ہوں گے کہ تم خواہ مخواہ پریشان ہوتے رہو۔حا لاں کہ پریشانی والی کوئی بات ہے نہیں….“
”یعنی ابھی ہسپتال میں میرا کوئی ساتھی نہیں ہے،سب جیل میں ہیں؟“ ا س نے تصدیق چاہی۔
”سب نہیں….وہ، جو زخمی ہوئے تھے….ان کے علاوہ جو تھے، ان میں سے کچھ رستم صاحب کے ساتھ گئے ہیں اور….کچھ کو وہ ساتھ لے گئے ہیں!“ ارباب کے لہجے اور چہرے نے وضاحت کردی تھی پھر بھی وہ مزید وضاحت انداز ہوا۔
”رستم صاحب نے اس بارے بھی نہیں بتایا ہوگاتمہارے آٹھ ساتھی شہید ہوئے ہیں۔ رستم صاحب کی لاہور واپسی کی اصل وجہ ان کی میتیں ہی ہیں۔نام تو ان کے میں نہیں جانتا،بہر حال رستم صاحب ،ان شہیدوں کی میتیں لے کر ہی لاہور گئے ہیں۔“
مرشد کے سامنے فوراً ہی کئی ساتھیوں کے چہرے آٹھہرے،ان میں دو چہرے زیادہ واضع اور روشن تھے۔جعفر اور اکو کے چہرے…. چوہدری فرزند نے ان دونوں کو اس وقت گولیوں سے چھلنی کیا تھا جب و ہ پہلے ہی نیم مردہ حالت میں ،بے سدھ گرے پڑے تھے۔
ارباب کہہ رہا تھا۔”سات کو وہ واپس لے گئے ہیں،آٹھواں بندہ ،ادھر کا مقامی تھا۔جعفر نام سننے میں آیا ہے اس کا۔اس کی میّت اس کے وارثوں کے سپرد کردی گئی تھی۔“ان تفصیلات کے بعد ارباب،اس موضوع ،اس بات کی طرف آگیا جس کے لیے وہ اس وقت بطور خاص اس کے پاس آیا تھا۔اس کا پاسپورٹ اور دبئی کا سفر….
”اس بارے میںاسی روز میں نے،نظام شاہ جی کو اپنا جواب جمع کرادیا تھا۔“ مرشد نے سنجیدگی سے کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن تمہیں اس بارے میں آرام سکون سے سوچنا چاہیے۔یہ راستہ کھلا ہے اور آگے بھی کھلا رہے گا۔“
”میرا نہیں خیال کہ میرا ارادہ بدلے گا۔“
”تمہارا اس میں ہر لحاظ سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔باہر ملک بھی تمہارا اپنا ذاتی گھر بار ہوگا….تمہارے اپنے نام پر….جیسا کاروبار چاہو گے وہ بھی یا…. یا اور بھی جو چاہو گے مل جائے گا۔“
”یہ کس خدمت کام کے معاوضے کی پیش کش ہے؟“مرشد اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔لہجے میں خود بخود ایک سرد تاثر آگیا تھا۔
”نہیں ….ایسی با لکل بھی کوئی بات نہیں۔شاہ جی بس تمہیں محفوظ کرنا چاہتے ہیں،تمہارا بھلا چاہتے ہیں۔کوئی غلط مطلب مت لو۔“ ارباب نے فوراً صفائی پیش کی۔
”وہ شاہ جی ہیں….کچھ بھی کہہ ،بول سکتے ہیں مگر آپ تھوڑی مہربانی کرو….مجھے غیر محفوظ ہی رہنے دو۔ہر زندہ چیز اس وقت تک غیر محفوظ ہی رہتی ہے جب تک موت آکر اسے محفوظ نا کردے اور میں ابھی محفوظ ہونے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔ابھی ایک دو فرض ادا کرنے باقی ہیں۔“
”تمہاری عبوری ضمانت اسی سوچ کے تحت کروائی گئی تھی کہ گرفتاری کی نوبت آنے سے پہلے ،تمہیں علاج کے بہانے ملک سے باہر نکال دیا جائے گا۔اس سلسلے میں تمہاری میڈیکل فائل بھی تیار ہو چکی ہے۔تم ہاں کرو تو چند دن کے اندر اندر ،پاسپورٹ بھی بن کر یہیں آجائے گا۔“
”ضمانت کتنے دن کی ہے….پندرہ؟َ“
”نہیں،ایک ماہ …. اور ایک ماہ بہت ہے۔اس دوران میں تم وہاں پہنچ کر آرام فرما رہے ہوگے۔“
مرشد صوفے پر بیٹھے ڈاکٹر سے مخاطب ہوا:”ڈاکٹر!مجھے اپنے پیروں پر آنے میں کتنا وقت لگے گا؟“
”ابھی کم از کم بھی دس پندر ہ دن مزید تو آپ کو صرف بیڈ ریسٹ کرنا ہے….مکمل طور پر۔اس بیچ باقی سارے زخم تو تقریباً ٹھیک ہوجائیں گے البتہ یہ پہلو والا زخم جو ہے یہ….“
مرشد اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا:”مختصر سا سوال کیا ہے،مختصر جواب دے۔“
”کم از کم ڈیڑھ دو مہینے….“
وہ پرسوچ انداز میں سر ہلاتے ہوئے ارباب کی طرف متوجہ ہوا۔ ”ایک مہینہ بہت ہے….مہینے بعدا گر گرفتاری ہوتی ہے تو کوئی بات نہیں،میں گرفتاری دے دوں گا مگر جاو�¿ں گا کہیں نہیں۔“ارباب کو اندازہ ہوگےا کہ مرشد کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنافضول اور بے کار ہے۔اس کے لہجے اور جواب میں ذرا بھر لچک نا تھی۔ شام کے وقت منصب آئی تو اس نے بھی یہ ہی راگ الاپا۔قریب قریب اسی طرح کی بات چیت ،اس کے ساتھ بھی ہوئی۔مرشد کو اندازہ تھا کہ وہ دونوں نظام شاہ جی ہی کی ہدایت پر یہ سب کر رہے ہیں،اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔منصب جتنی دیر اس کے سامنے رہی،اس کے ذہن میں ایک عجیب سی سرسراہٹ ہوتی رہی۔یہ احساس بہت قوی تھا کہ وہ یہاں آنے سے پہلے بھی اسے کہیں دیکھ چکا ہے ،مگر کہاں؟ یہ باوجود کوشش کے یاد نا آسکا!شاہ جی کو گئے تین دن ہوگئے تھے اور ان کے جاتے ہی منصب کی چادر پھر لا پرواہ ہوگئی تھی۔
اس کے جانے کے بعد مرشد کے ذہن میں،شہید یاروں ،ساتھیوں کی باتیں،یادیں گردش کرنے لگیں….مراد،شبیر،اکو،جعفر اور ابھی کچھ کا تو اسے پتا ہی نہیں تھا۔کیسی بدنصیبی اور دکھ کی بات تھی کہ وہ جو اس کے لیے مر مٹے تھے،اس کے ساتھ یاری نبھاتے ہوئے قربان ہوگئے تھے،وہ ان میں سے کسی کی آخری وقت میں صورت تک نہیں دیکھ پایا تھااور وہ سب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زمین کی تاریک تہہ میں جا سوئے تھے۔کبھی نا جاگنے کے لیے،کبھی نا اٹھنے کے لیے….وہ کسی ایک کے بھی جنازے میں شریک نہیں ہو پایا تھا۔حالات و واقعات ہی ایسے تھے….اس کی اپنی حالت بھی اس قابل نہیں تھی۔فی الحال تو وہ بستر پر بھی ٹھیک سے حرکت کرسکنے کے قابل نہیں تھا۔دوستوں کے نا حق خون کا دکھ تھا…. حجاب سرکار کی دید،ا ن کی زیارت سے ہمیشہ کے لیے محرومی کی دل خور اداسی تھی یا پھر لہو میں لاوے جیسی حدت جگا دینے والے،انتقامی جذبات تھے۔سکون و اطمینان کا کوئی
پہلو، کوئی سوچ نا تھی۔آخر پک پک کر اس کا دماغ دکھنے لگا۔آنکھ اور آدھے سر میں شدید درد شروع ہوگیا۔اس نے خود ڈاکٹر سے کہا کہ وہ میڈیسن میں ،دو تین گولیاں نیند کی بھی شامل کردے۔گزشتہ تین چار دن سے دل و دماغ کی حالت عجیب ہی تھی۔وہ ڈھنگ سے سو تک نہیں پایا تھا۔اس لیے اس نے یہ ہی بہتر خیال کیا کہ آج رات اچھے سے….پوری طرح نیند لی جائے۔بھلے اسے نیند کی گولیوں کا ہی سہارالینا پڑے۔
گولیاں نگلنے کے چند منٹ بعد ہی، اس نے ذہن پر غنودگی کی دھند سی چھاتی ہوئی محسو س کی اور وہ اطمینان سے سوگیا۔یقینایہ گولیوں ہی کا کمال تھا کہ اسے انتہائی گہری نیند آئی البتہ تہجد کے وقت اس کی آنکھ کھل گئی….وجہ تھی فائرنگ کی آواز۔ اوپر تلے دو تین فائر ہوئے تھے اور شاید یہ فائر حویلی کے اندر ہی ہوئے تھے! آنکھ کھلتے ہی اس کی نظر ڈاکٹر محمود الحسن پر پڑی۔وہ پلنگ کی پائنتی کی طرف کھڑاکھڑکی سے نیچے،احاطے میں جھانک رہا تھا،جہاں کچھ افرا تفری سی محسوس ہوتی تھی۔چند ایک تیز اور جوشیلی آوازیں بھی کان پڑی تھیں۔
”یہ شور کیسا ہے ؟ فائرنگ کدھر ہورہی تھی؟“ اس نے ڈاکٹر کو مخاطب کیا۔
”حویلی کے پچھلے حصے میں گولی چلی ہے۔شاید کوئی حویلی میں گھس آیا ہے۔“
نظام شاہ جی کے جانے کے بعد سے ،اضافی اور تیز لائٹیں پھر سے بند رہنے لگی تھیں۔ان لمحوں ،ایک ایک کر کے وہ سب روشن ہونے لگیں۔مرشد نے دیکھا، چند مسلح جوان گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔اس کے سامنے ہی وہ گیٹ کے چھوٹے بغلی دروازے سے باہر نکل گئے۔اسی لمحے سیڑھیوں کی طرف آہٹ ہوئی اور دروازے پر ٹیپو اور موچھیل غضنفر کی شکلیں دکھائی دیں۔
”کیا ہوا؟ یہ فائرنگ کیسی تھی؟“ ٹیپو کے کمرے میں داخل ہوتے ہی مرشد اس سے مخاطب ہوا۔ٹیپو کا جواب اسے چونکا گےا۔
”ملنگی نکل بھاگا ہے۔یہ فائر اسی نے کیے ہیں۔دو بندے زخمی ہوئے ہیں۔“
”وہ تو خود بری طرح زخمی تھا!“
”ہاں! دو گولیاں لگی ہوئی ہیں حرامی کو،پھر بھی دروازہ توڑ کر نکل آیا۔ہم سب کا اندازہ ہے کہ ابھی وہ(نا قابلِ اشاعت) …. حویلی کے اندر ہی ہے۔اتنی جلدی باہر نہیں جا سکتا۔ایک بار ہاتھ لگ جائے،میں اس کی…. میں پورا برسٹ اتار دوں گا۔“ وہ دونوں ہی سخت غم و غصے میں تھے۔
مرشد فوراً بولا :”ارباب صاحب کدھر ہیں؟“
”وہ حویلی کے پچھلے حصے میں اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔ہمیں انہوں نے ہی ادھر بھیجا ہے۔“
”جا کر ان سے کہو کہ یہ تلاش فوراً بند کردیں۔وہ نکل بھاگا ہے توٹھیک ہے اور اگر ابھی حویلی کے اندر ہی ہے تو پھر اسے نکل بھاگنے کا موقع دیں…. جاو�¿!“
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں….“ ٹیپو نے متعجب ہونا چاہا تو مرشد اس کی بات کاٹتے ہوئے،تیز اور قدرے غصیلے لہجے میں بولا:
” جو کہا ہے وہ کرو ،ابھی….فوراً ان تک میرا یہ پیغام پہنچاو�¿۔جاو�¿ جلدی۔“
ٹیپو سمجھ تو نہیں سکا البتہ مرشد کا انداز اور تاثرات سے اسے اندازہ ہوگیا کہ اس پیغام میں کوئی اہم اور خاص بات ہے۔وہ حیران پریشان سا، باعجلت واپس چلا گیا البتہ غضنفر،رائفل سنبھالتا ہوا اس کے قریب ہی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مرشد کی اس کے ساتھ،ایک ملاقات پہلے،ملک منصب کی ملتان والی کوٹھی میں ہوچکی تھی۔وہ اپنی جناتی مونچھوں کے نیچے انگلی پھیرتے ہوئے بولا:”یہ ملنگی نامی بندہ کوئی مہان کتی اور اوتری شئے ہے۔ابھی کل
شامی(شام) اس کی حالت ایسی تھی جیسے اب مرا کہ تب اور اب دیکھ لو….“
مرشد کے ذہن میں وہ لمحات تازہ ہوآئے جب اس نے ملنگی کو چناب ریسٹ ہاو�¿س پر اپنے مخصوص داو�¿”ساہ شکنجی“ میں جکڑ کے بے دست و پا کردیا تھا۔کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس کا شکار اس داو�¿ میں آنے کے بعد اپنے ہوش و حواس میں رہ سکا ہو مگر….ملنگی پر اس کا یہ داو�¿کارگر ثابت نہیں ہوسکا تھا جس کے نتیجے میں وہ اسے ایک یادگار گھاو�¿دے گیا تھا۔
غضنفر کہہ رہا تھا:”چٹکیوںمیں کاروائی ڈال کر کیسے چھلابے(چھلاوے) کی طرح غیب ہوگیا ہے….جرور کوئی پلیت(پلید) ا ور بری روح گھسی ہوئی ہے اس میں۔“
مرشد نے کھڑ کی میں سے دیکھا،بستی میں کچھ ٹارچیں متحرک ہوچکی تھیں۔اسے اپنا سر کچھ بوجھل بوجھل محسوس ہوا۔شاید گولیوں کا اثر تھا۔آنکھ اور ہونٹو ں کا ورم ختم ہوچکا تھا۔اب اسے کھانے پینے یا بولنے میں کوئی دقت نہیں تھی۔دکھائی بھی بالکل صاف اور واضح دینے لگا تھا۔ٹارچوں کی متحرک روشنی سے اسے اندازہ ہوا کہ بستی سے چند لوگ حویلی کی طرف چلے آرہے ہیں۔دو مسلح بلوچ اسے احاطے میں دکھائی دئیے۔دونوں آپس میں باتیں کرتے ہوئے ،تیز قدموں سے گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ٹیپو کی واپسی بیس منٹ بعد ہوئی ۔اس نے پیغام پہنچا دیا تھا۔ملنگی واقعی چھلاوے کی طرح غائب ہوچکا تھا۔حویلی کے اندر اس کی تلاش مسلسل جار ی تھی۔وہ مزید بھی کسی کو نقصان پہنچا سکتا تھا،خصوصاً مرشد کواسی اندیشے کے پیشِ نظر ،ارباب نے چار بندوں کو مرشد کی طرف روانہ کردیا تھا۔ دو نیچے سیڑھیوں کے سامنے موجود تھے اور دو یہ،اوپر مرشد کے سامنے۔
مرشد ٹیپو سے مخاطب ہوا:”یہاں ایک بندہ کافی ہے اور وہ یہ ….غضنفر بیٹھاہے۔تم جا کر آرام کرو اور….ارباب صاحب سے کوئی”اوزار“ لے کر مجھ تک پہنچا دو۔“
”آپ یہاں ،اس حالت میں اوزار کا کیاکریں گے؟“وہ اوزار سے مرشد کی مراد جان گیا کہ وہ کسی پسٹل، ماﺅزر وغیرہ کے حوالے سے بات کر رہا ہے۔
”پڑے پڑے خارش بھی تو ہوتی ہے ۔بندہ کھجا ہی لیتا ہے….اللہ کے ولی!میں بھاگ دوڑ نہیں سکتا،گولی تو چلا ہی سکتا ہوں نا!اگر خدا نخواستہ کوئی پاگل کتا،کسی بھی طرح یہاں، مجھ تک پہنچ ہی آئے تو اسے خود پر چھلانگ لگانے سے پہلے گولی مار سکوںگا۔ اور اوزار یا پرزے کا کیا کام ہوتا ہے؟“
چند لمحے گومگو کی سی کیفیت میں رہنے کے بعد ٹیپو نے ڈب میں سے نائن ایم ایم نکال کے اس کی طرف بڑھا دیا۔ ایک رائفل اس کے دائیں ہاتھ میں موجود تھی۔
”یہ رکھ لیں پھر….میگزین میں سات ہیں۔صبح کہیں گے تو اور مل جائیں گی۔“
مرشد نے پسٹل اس کے ہاتھ سے لے لیا۔یہ اٹالین بریٹا تھا۔بالکل صاف ستھرا اور بے داغ۔
”ہاں ! یہ ٹھیک ہوگیا….بس اب تم آرام کرو۔“
”آرام ہی آرام ہے جی! کوئی بے آرامی نہیں۔“
”پھر بھی جا کر آرام کرو ….شاباش۔“
”میری ارباب صاحب نے ڈیوٹی لگائی ہے۔میں گیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔“
”نہیں ہوں گے۔انہوں نے ڈیوٹی لگائی ہے تو میں تمہیں اس ڈیوٹی سے چھٹی دیتاہوں،یہاں غضنفر کافی ہے۔“
ٹیپو نے عجیب مشکوک نظروں سے موچھیل غضنفر کی طرف یوں دیکھا جیسے اسے شبہ ہو رہا ہو کہ اس کے آنے سے پہلے وہ اس کے خلاف مرشد کے کان بھرتا رہا ہے۔بہر حال اس کے بعدوہ خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا۔
”بادشاہو!خیر تو ہے نا!“ غضنفر بولا۔”ٹیپو سے کوئی پریشانی ہے؟“
مرشد، پسٹل تکیے کے نیچے رکھتے ہوئے مسکرا کر بولا:”بالکل بھی نہیں….بس مجھے رش پسند نہیں اور اب تو یہ ہتھیار بھی آگیا ہے میرے پاس۔یہ ایک باڈی گارڈ ہی کافی ہے میرے لیے اور اس کے علاوہ تم بھی بیٹھے ہو….“وہ کہہ کچھ اور رہا تھا اور اس کے دماغ میں کچھ اور تھا۔غضنفر کو دیکھتے ہی اس کے ذہن میں ایک خیال آگیا تھا اوار ٹیپو کے ساتھ یا اس کی موجودگی میں غضنفر کے ساتھ اس پر بات ممکن نہیں تھی۔ٹیپو کا دماغ اور مزاج کچھ اور طرح کا تھا۔
غضنفر کے ساتھ، اس کی کچھ دیر،ملنگی اور اس کے دو ساتھیوں کے متعلق بات چیت ہوئی۔وہ دونوں بلوچوں کی گرفت میں تھے،صرف ملنگی پھسل نکلا تھا۔ملنگی کے بعد،چوہدریوں او ر نوابوں کا ذکر شروع ہوگیا۔غضنفر سادا سے انداز میں اپنے جذبات و خیالات کا ذکر کرتا رہااور مرشد پوری توجہ اور دلچسپی ظاہر کرتا رہا۔ساتھ ساتھ وہ اس سے چھوٹے چھوٹے سوال بھی پوچھ رہا تھا اور بلوچوں کی بہادری اور جواں مردی پر رشک و ستائش کا اظہار بھی کر رہا تھا۔
”آفرین ہے تم سب بلوچوں پر۔اتنے لمبے عرصے سے تم لوگوں نے نوابوں اور چوہدریوں جیسے فرعونوں کو متھا دے رکھا ہے۔ایسا صرف خوددار اور غیرت مند لوگ ہی کر سکتے ہیں۔سلام ہے تم لوگوں کے حوصلوں اور غیرت کو….یہ ساری باتیں ٹھیک اور اعلا ہیں لیکن….ایک معاملہ تم لوگوں کا مجھے بڑا عجیب لگا ہے۔ ٹھیک سے ہضم نہیںہوا مجھے۔“ اس نے کسی قدر حیرت اور الجھن کا اظہار کیا۔
”وہ کیا بادشاہو!“ غضنفر فوراً متفسر ہوا۔
”تمہارے قبیلے،بستی کی سردار ایک عورت ہے….ایک زنانی!“
”وہ عام عورت نئیں ہے نا! بلوچن ہے….بلوچ عورت۔“
”عام کہا جائے ،خاص یا بلوچ کہا تو عورت ہی جائے گا ،رہے گی تو وہ عورت ہی….سردار یا ملک توآدمی ہوا کرتے ہیں اور ایسے مقام ،مرتبے پراچھے بھی آدمی ہی لگتے ہیں۔“
”وہ ایسے ہی ملک کی گدی پر نئیں بیٹھ گئی جی! اس گدی پر بیٹھنے سے پہلے اس نے ثابت کیا تھا کہ و ہ کسی آدمی،کسی سردار،کسی ملک سے کم نئیں ہے۔اس نے ثابت کیا تھا کہ وہ اس گدی پر بیٹھنے کی اہل ہے۔“
”لیکن اسے ضرورت کیوں پڑی یہ سب ثابت کرنے کی؟ آدمیوں کو کیا ہوگیا تھا؟ اور یہ ارباب صاحب بھی تو ہیں،ملک کی گدی سنبھالنے کے لیے ہر لحاظ سے ٹھیک ٹھاک ہیں۔ آخر ایک عورت ہی کیوں؟“
”اک عورت ہی کیوں….“ اس نے جیسے خود کلامی کی،مرشد بغور اس کی طرف متوجہ تھا۔وہی مخصوص تاثرات،جو اب تک وہ کتنے بلوچ چہروں پر دیکھ چکا تھا۔موچھیل وہیں بیٹھے بیٹھے جیسے برسوں کی دوری پر جا کھڑا ہوا۔
وہ خوابیدہ سے انداز میں بڑبڑایا:” اک عورت ہی نئیں،صرف یہ ہی اک عورت….اور یہ ہی عورت اس لیے کہ جن دنوںسرداری کی گدی کا فیصلہ ہونا تھا،ان دنوں یہ عورت سب پر بھاری پڑی….پوری بلوچ بستی پر ،صرف اس اک بستی ہی پر نئیں….اس پورے علاکے(علاقے) پر،پورے
جلعے کی انتجامی(انتظامی) مشینری پر….“ اس کے خیال انگیز لب و لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ مرشد نے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد سرسراہٹ سی محسوس کی۔
”تم شاید بارہ سال پہلے والے فساد کے بارے میں بات کر رہے ہو۔کیا،ہوا کیا تھا؟ کس بات پر وہ فساد شروع ہوا تھا؟“اس نے سرسری سے انداز میں سوال کیا۔ اس نے دیکھا ، موچھیل غضنفر کے چہرے پر فوراًایک سایا سا لہرا گیا۔اس نے پلٹ کر ایک نظر ،ڈاکٹر کی طرف بھی دیکھا جو صوفے پر بیٹھا بیٹھا پھر اونگھنے لگا تھا۔
”وہ بہت بڑی بات تھی جی! بہت ہی بڑی….منصب کا سب کچھ کھتم ہوگیا تھا بلکہ یوں کہہ لیں کہ کھود منصب بھی کھتم ہوگئی تھی،مرگئی تھی اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا،اک نئی منصب کو….ملک منصب کو….جس نے وڈے وڈے دھنتروں اور پھنے خانوں کو نتھ ڈال کے رکھ دی….بڑے اچھے اچھے جوانوں کو میں نے کھود ملک منصب کے سامنے شلوار وں ،دھوتیوں میں موتتے دیکھا ہے۔“
”تو ملک منصب سے پہلے جس منصب کی موت ہوئی….اس کی موت کا اصل ذمہ دار کون ہے….چوہدری لوگ یا نواب؟“ مرشد نے فوراً اس کے سامنے ایک اور سوال” بچھایا“۔
”دونوں ہی….دونوں اس جلم میں برابر کے جمہ دار بھی ہیں اور حصہ دار بھی۔بارہ سال پہلے ان دونوں پارٹیوں نے مل کر یہاں حملہ کیا تھا۔ شاہ پور پر اس رات جو قیامت ٹوٹی ،وہ ان دونوں پارٹیوں نے مل کر توڑی تھی۔“ اس کے لب و لہجے میں، بات کرتے کرتے ہی ایک غم و غصہ سلگ اٹھا۔
”مرشد بولا:”ان پاگل کتوں نے اسی پرانی دشمنی کے،اس میں وہ حملہ کیا تھا یا اس کی کوئی اور وجہ تھی؟“
مرشد کے اس سوال پر موچھیل کو یکا یک ایک چپ لگ گئی۔اس نے یوں مرشد کی طرف دیکھا جیسے اچانک خواب سے بے دار ہوا ہو۔چند لمحے پر سوچ سی نظروں سے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر جیسے کسی فیصلے پر پہنچ گیا اور قدرے دھیمی آواز میں بولا:
”اصل دشمنی تو وہی،انیس سو سینتالیس(۷۴۹۱) والی ہے…. اس کا آپ کو پتا ہی ہوگا۔“اس کے تائید طلب انداز پر مرشد نے فوراًاثبات میں سر ہلایا۔ ”اسی وقت سے چھوٹی موٹی جھڑپیں چلتی آرہی تھیں مگر بارہ سال پہلے….وہ تو پوری بستی کے لیے اک قیامت تھی….اس قیامت کی اک اور وجہ بھی تھی…. اس پرانی دشمنی کے علاوہ!“ وہ ایک بار پھر خاموش ہوگیا۔اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی اور تناو�¿پھیل چکا تھا۔لٹکے ہوئے بھاری کلے کچھ مزید لٹکے لٹکے محسوس ہونے لگے تھے۔مرشد کی دھڑکنیں تیز ہو چکی تھیں۔ اس کا دل گواہی دے رہا تھا کہ وہ ایک پر اسرار راز سے واقف ہونے جا رہا ہے۔ایک ایسے الم ناک راز سے ،جو بستی شاہ پور کے تمام مکینوں کا مشترکہ درد،مشترکہ روگ تھا۔
موچھیل کہنے لگا:”بارہ سال پہلے والی منصب بڑی جندہ(زندہ)،ہنس مکھ اور ہم درد طبیعت کی مالک تھی۔سوہنی سونکھی بھی رج کے….سرداروں کی دھی تھی مگر مجاج(مزاج)،طبیعت کی درویشن….ملنگنی۔بستی کے ہر گھر میں بے دھڑک آتی جاتی تھی۔سب کی غمی خوشی میں سانجھے دار….اس اللہ لوکنی کی بد قسمتی….پوری بستی ہی کی بد قسمتی تھی جو ایک شیطان ابنِ شیطان کی اس پر کہیں نجر پڑ گئی….نصیب اللہ جوگیزئی….نواب اسفندےار کا چھوٹا چھوٹا بیٹا۔ منصب سے بھی دو تین سال چھوٹا ہی رہا ہوگا وہ حرامی انڈا….اس نے کہیں منصب کو دیکھا اور پاگل ہوگیا۔دماگ(دماغ) کو اشق کا بخار چڑھ گیا۔ایک دو باری، یہاں سے بستی والوں نے اسے سمجھا سمجھو کے بھیجا مگر اس کے دماگ کی تو ساری بھیتریاں کوم(گھوم) چکی تھیں۔ کوئی گل بات اس کے پلے ہی نا پڑی۔ شکیت(شکایت)نواب اسفندیار تک پہنچائی گئی تو اک نوا(نیا) ڈرامہ چالو ہوگیا…. نواب نے پہلے تو بیٹے کے لیے منصب کا رشتہ مانگا،بعد میں جب منصب کو کھود دیکھا تو اس شیطانی بڈھے نے کھود اپنا رشتہ پیش کر دیا….حرامیوں کے کام چیک کرو آپ! کیسے
غیرت مند لوک ہیں….بس یہاں سے بگاڑ بڑھتا گیا۔نواب نے جد(ضد) ڈال لی،چوہدری اکبر بھی اس کی طرف داری میں ،منصب کے گھر والوں پر دباو�¿ ڈالنے لگا۔نوبت تلکھی(تلخی) اور گرمی سردی تک پہنچ گئی۔
نواب اور چوہدری لوگ ہر لحاج(لحاظ) سے طاقت ور اور بااکھتیار لوک تھے۔بات جیادہ(زیادہ)کھراب ہوتی دیکھ کرمنصب کے بجرگوں نے فیصلہ کیا کہ اس کی فوراً شادی کردیں….بچپن ہی سے اس کے چچازاد شہروج(شہروز)کے ساتھ اس کا رشتہ طے تھا ۔بڑا سوہنا جوان تھا شہروج…. میرا بڑا چنگا سجن تھا۔گھر کی بات تھی ،فوراً ہی شادی کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔طے یہ ہی پایا تھا کہ رسمیں پوری کرتے ہوئے دو تین دن کے اندر شادی کر دی جائے۔ مہندی کی رات ،وہ سور کا پتر نصیب اللہ شراب پی کر بستی میں گھس آیا۔وہ حویلی میں داکھل(داخل) ہو کر منصب تک پہنچنا چاہتا تھا۔اونچی اونچی اس کا نام لے کر دھاڑیں مار رہا تھا۔ (ناقابل اشاعت)کا بچا…. لوکوں کی روک ٹوک پر اس نے کھنجر(خنجر) نکال کر ایک دو بندوں کو جکھمی(زخمی) کردیا، بس پھر….بستی کے جوانوں نے اسے چھاپ لیا۔وہ پھینٹا چاڑھا کہ سات کوس دور بھی لوکوں نے اس کی بانگیں سنی ہوں گی اس دن….تین کنٹے(گھنٹے)بعد آکر پولیس نے چھڑایا اسے اور ہسپتال پہنچایا۔اگلے روز عصر کے بعدمنصب اور شہرو ج کا نکاح ہوگیا۔
سب ہی خوش تھے….پوری بستی ہی۔رب نے بڑی پیاری جوڑی بنا دی تھی،کچھ لوک نوابوں کے ردِ عمل کا انتجار تو کر رہے تھے لیکن کسی کو بھی اس ردِ عمل کی چھدت(شدت) کا انداجا(اندازہ) نئیں تھا….نصیب اللہ کے پھینٹے کے چکر میں ،پولیس والوں نے بستی سے چار چھ بندوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس لیے سب کا کھیال تھا کہ اب نوابوں کی طرف سے کوئی بڑا جھگڑا نئیں چھڑے گا بلکہ وہ گرفتار ہونے والوں پر بس کرتے ہوئے تھانے میں ان ہی کی دب چھترول کروائیں گے….کسی کوا س قیامت کا انداجا تک نا تھا جو اس رات بستی اور حویلی پر ٹوٹنے والی تھی۔“
اس نے تاسف آمیز انداز میں توقف کیا۔اس کے چہرے پر افسوس بھی تھا،دکھ بھی اور دبادبا تیش بھی۔مرشدنے ایک سرسری سی نظر کھڑکی سے باہر ڈالی،بستی میں متحرک ہونے والی ٹارچیں پر سکون ہو کر غائب ہو چکی تھیں،البتہ حویلی کے اندر کچھ حرکت جاری تھی۔غالباً ملنگی کو ہنوز حویلی کے کونوں کھدروں میں تلاشا جا رہا تھا۔
” وہ منصب کی سہاگ رات تھی۔“ موچھیل پھر سے گویا ہوا۔”پوری حویلی کو چراغوں سے سجایا گیا تھا۔رات کوئی گیارہ بارہ بجے کا ٹیم(ٹائم) رہا ہوگا جب اچانک چاروں طرف سے بستی میں جیپیں اور گھڑ سوار گھس آئے۔ سب کے سب پوری طرح مسلح تھے۔کم از کم بھی سو ڈیڑھ سو بندہ رہا ہوگا۔انہوں نے بستی میں گھستے ہی،چار چھ بندوں کو کھا مکھا ہی گولیوں سے چھاننی کر کے رکھ دیا۔حویلی کے مسلح پہرے داروں کو سدھے برسٹ مارے اور حویلی کے اندر جا وڑے…. ان دنوں پوری بستی میں صرف دس پندرہ بلوچوں ہی کے پاس اسلحہ تھا،چند حملہ آور بندوں کو جکھمی اور دو کو قتل کرنے کے بعد و ہ سارے بھی مارے گئے۔دو تین عورتیں بھی قتل ہوئیں اور حویلی میں…. حویلی میں تو ان(نا قابلِ اشاعت)….نے درندگی اور جلم(ظلم) کا وہ کھیل کھیلا،وہ کہرام مچایا کہ اس رات ان سارے ….(نا قابلِ اشاعت) کتوں سے سارے درندے اور شیطان بھی شرما گئے ہوں گے۔“
بات کرتے کرتے وہ ہونٹ بھینچ کر خاموش ہوگیا۔اس کے جبڑوں کا گوشت یوں ابھر آیا جیسے اس نے دانتوں میں سختی سے کچھ دبوچ لیا ہو۔چہرے کی پکی ہوئی رنگت،اس کے اندر کی آگ سے دہک اٹھی۔یقینابارہ سال پہلے کے وہ سارے وحشت خیز لمحات اس وقت اس کے اند زندہ اور تازہ ہو آئے تھے۔
چند لمحے کی گھمبیر خاموشی کے بعد وہ پھر بولنے لگا:”یہ سارے حملہ آور نواب اور چوہدریوں کے پالتو کتے تھے۔نواب اسفند کھود ان کو ہانک کر لایا تھا۔وہ ایک بڑی جیپ میں سوارتھا اور اس کے ساتھ اس کے چار حرامی یار بھی تھے۔ان میں اکبر علی نئیں تھا۔ انہوں نے حویلی میں اندھی فائرنگ
کی….قتلِ عام….ملک گجناب تو کافی پہلے اللہ کو پیارے ہوگئے تھے،ان کے بیٹے ان دنوں سردار تھے۔ملک شمشیر علی۔منصب کے والد…. ان کے چہرے پر برسٹ مارا گیا۔ان کے بھائی،منصب کے سسر کو اوپر والی منجل(منزل) سے سر کے بل پھینکاگیا۔منصب کے دو بھائی اور دو بہنیں تھیں ان کو بھی چھاننی کردیا گیا۔اس کا ایک ہی ایک دیور تھا ،اسے بھی مار دیا گیا اور حویلی کو آگ لگا دی گئی،حویلی کا دایاں حصہ آپ نے دیکھا ہی ہوگا،اس کی یہ کالک بارہ سال پرانی ہے۔حویلی کو آگ لگانے کے بعد اس(ناقابلِ اشاعت)….بڈھے نواب نے اپنے باقی چار یاروں کے ساتھ مل کر منصب کی عجت پر حملہ کیا….اس کے محبوب شوہر کے سامنے….شہروج (شہروز) اس وقت نیم مردہ حالت میں فرش پر پڑا تھا اور ان پانچوں نے اس کی اکھوں (آنکھوں) کے سامنے اس کی محبوب بیوی کی عجت تار تار کردی۔حویلی جلتی رہی اور وہ پانچوں شیطان ،تین چار کنٹے تک منصب کے وجود کو روندتے رہے،نوچتے وڈتے(کاٹتے) رہے اور بعد میں اس کی اکھوں کے سامنے ان جالموں(ظالموں) نے کلہاڑے کے ساتھ ،اس کے شوہر شہروج کا سر بھی کاٹا۔“
بات کرتے کرتے اچانک اس کا گلا رندھ گیا۔اس نے خاموش ہوتے ہوئے نچلا ہونٹ سختی سے دانتوں میں دبا لیا۔یہ سب سنتے ہوئے خود مرشد کے اپنے روئیں روئیں میں ایک سنسناہٹ ناچ اٹھی تھی۔ظلم وبربریت کی ایک داستان وہ پہلے سنتا جیتا آرہا تھا اور ظلم و شر کی کالک اور خون سے،ان ہی ظالم درندوں کی لکھی یہ دوسری داستان وہ اب یہ غضنفر کی زبان سے سن رہا تھا۔ یہ داستان پہلے والی سے بھی زیادہ ہول ناک اور دل دوز تھی۔ منصب سراپا اس کے ذہن میں آبیٹھی،اس کی آنکھوں کے سامنے آٹھہری….اپنے وجود سے لاپرواہ،بے تاثر سا لہجہ،پتھرایا ہوا چہرہ اور یاس انگیز سکوت سے بھری نیلگوں آنکھیں…. ایک ہی پل میں اس کی ذات،اس کی شخصیت کا سارا عجیب پنا مرشد کے ذہن سے صاف ہو کر رہ گیا!
ادھر کچھ بھی عجیب نا تھا…. جو کچھ اور جتنا کچھ وہ دیکھ چکی تھی،بھگت چکی تھی،اس کے بعد بھی زندہ تھی،ہوش و حواس کے ساتھ زندگی جی گزار رہی تھی،وہ بھی ایک عورت ہوتے ہوئے تو یہ ہی بہت تھا….کافی سے زیادہ تھا۔
”اس رات ،اس طرح سے ہنس مکھ،ہم درد طبیعت منصب کا قتل ہوا۔“ چند لمحے بعد غضنفر دوبارہ بولا۔”اتنی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ….اس رات، اس وقت وہ منصب مر گئی،وہ مرگئی اور اس کے کھتم ہوتے ہی اس کے مردہ وجود میں اک نوی(نئی)منصب جی اٹھی….وہ منصب جسے اج آپ دیکھتے ہو….ملک منصب!جس ٹیم ان حرامی درندوں نے شہروج کا سر کاٹ کر اس کی گود میں پھینکا ،اس ویلے اس کے ہوش بالکل پھرگئے،دماگ جواب دے گیا۔ یہ اندھے پاگل پن کے ساتھ ان پانچوں سے بھڑ گئی….کسی نا کسی طرح وہ کلہاڑا سے نے ان سے چھین لیا اور بس پھردو بندوں کو تو اس شیر کی بچی نے وہیں ….اسی جگہ ٹھنڈا کر دیا۔ایک معمولی جکھمی ہوا اور تینوںجان بچاتے ہوئے کمرے سے نکل بھاگے۔وہ منجر(منظر) میں نے دیکھا تھا….اج بھی میری اکھوں میں ویسے ہی نقس(نقش) ہے….تینوں چیکھتے دھاڑتے ہوئے حویلی کے گیٹ سے باہر نکلے تھے۔منصب کلہاڑا اٹھائے ان کے پیچھے تھی۔“
اس نے بے ساختہ ایک جھر جھری سی لی۔”اس کے جسم پر کوئی کپڑا نا تھا….وہ مادر زاد(برننا)برہنہ حالت میں تھی۔بال کھلے بکھرے،دائیں ہاتھ میں کلہاڑا اور سارا جسم خون سے رنگین….اس کے حلق سے ایسی وحشت ناک چنگاڑیںخارج ہورہی تھیںجو اچھے کھاسے(خاصے) دل گردے والے بندے کا بھی پتہ پانی کردیں۔حویلی کے اندر اورباہر،بستی میں نواب کے سو ڈیڑھ سو کتے موجود تھے۔منصب ،کلہاڑا اٹھائے جیسے ہی حویلی سے نکلی،گولی چل گئی۔ اک گولی نہیں….اک ساتھ کئی گولیاں….دراصل عین اوسے(اسی) وقت اک کم اور ہوا تھا….یہ اپنے ارباب صاحب ،ان دنوں ملتان ہوتے تھے۔۔ان کو حویلی سے کسی نے فون پر صورتِ حال بتائی اور یہ اپنے کج دوستوں کے ساتھ پوری تیاری کر کے پہنچ آئے
تھے۔ اکو ٹیم دو طرفہ فائرنگ شروع ہوئی تھی۔سارے کتوں اور ان کے گھوڑوں میں افراتفری مچ گئی۔بڑا انت منجر(منظر) تھا وہ…. رائفلوں،بندوقوں کی دھائیں دھائیں،گھوڑوں کی ہنہناہٹیں، انسانوں کی چیکھم دھاڑ،بندے گھوڑے سب جکھمی ہورہے تھے،جس کا جدھر منہ تھا وہ دوڑ پڑا تھااور اس سب کے بیچ میں….اس سب سے بالکل لاتعلق اور لاپروا منصب، کلہاڑا اٹھائے ان بھاگتے دوڑتے مسلح کتوں پر جھپٹ رہی تھی،حملہ آور ہورہی تھی۔،نواب اور اس کے سجن تو پتا نیئں کدھر گئے تھے،منصب کو جو نظر آتا گیا وہ آگے بڑھ بڑھ کر ،کلہاڑے سے اس کی ایسی تیسی کرتی گئی اور اسی طرح،مسلح بندوں کو کلہاڑے سے شکار کرتی ،بستی کی اک گلی میں غیب ہوگئی۔
یہ فائرنگ کنٹا ڈیڑھ کنٹا جاری رہی اور اس دوران پچی(پچیس) کتے مرے….ان میں نو کتے چوہدریوں کے تھے اور سولہ نوابوں کے،ان مرنے والے پچی کتوں میں سے گیارہ کی موت کسی گولی کی وجہ سے نئیں ہوئی تھی۔ان کی جندگیاں منصب کے کلہاڑے نے چاٹی تھیںاور جو ا س کلہاڑے سے جکھمی اور ہمیشہ کے لیے لولے لنگڑے ہوئے وہ ان کے علاوہ….باقی سب بھاگ نکلے تھے۔نواب اسفندےار بھی اپنے اک یار کے ساتھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔وہ یار اس کا رشتہ دار بھی لگتا تھا….سکندر خان جوگیزئی….ان کا تیسرا ساتھی ،جو منصب کے ہاتھوں جکھمی ہوا تھا ،وہ کھیتوں میں سے نواب کے باگوں(باغوں) کی طرف دوڑا تھا مگر منصب کی اس پر نجر پڑ گئی….اس نے کھیتوں ہی میں جا بچھایا اس…. کو۔
صبح پو پھٹے کی سفیدی پھیل رہی تھی،جب بستی والوں نے دیکھا کہ منصب کھیتوں میں سے اس کی کٹی چھدی لاش کو ٹانگ سے پکڑے بستی کی طرف گھسیٹے لا رہی ہے….اس رات اٹھائی(اٹھائیس) کتے مارے گئے اور ان میں سے چودہ صرف منصب نے مارے تھے،تن تنہا….اک کلہاڑے سے…. لیکن یہ تو صرف اس فساد کی شروعات تھی !
اس وقت جس جس نے منصب کا حال و حلیہ دیکھا،اس کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔بستی کی چند عورتوں کے علاوہ ،ارباب صاب نے بھی اسے چادر اوڑانے(اوڑھانے) کی کوشش کی لیکن منصب نے سب کو ،ہاتھ میں موجود خون آلود کلہاڑے سے دھکیل کر پچھے ہٹا دیا۔خدا کی پناہ….اس وقت اس کاحال،اس کی حالت ایسی قابلِ رحم اور ایسی خوفناک تھی کہ اسے دیکھتے ہوئے دل لرجتا(لرزتا )تھا۔اس کے ناک اور منہ سے ،سانس کی عجیب غیر انسانی آواجیں آرہی تھیں۔اس کو اک نجر دیکھتے ہی یقین آتا تھاکہ وہ آسیب جدہ ہے۔اپنے حواسوں میں نئیں ہے۔یہ تو وہ منصب تھی ہی نئیں جسے سب جانتے تھے….یہ کوئی اور ہی تھی،نامعلوم،اجنبی….ایسی کھطرناک ذہنی مریضا سی،جس کی طرف دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔“
موچھیل غضنفر اپنی رو میں بولے جا رہا تھا اور اس کی بیان کردہ کہانی کسی فلم کی طرح مرشد کے ذہن میں چل رہی تھی۔اس کے پردہ�¿ تصویر پر ،بارہ سال پہلے کی قیامت کے مناظر،پوری جزیات سے ڈوب ابھر رہے تھے اور ایک سنسنی کی رو کے علاوہ،ایک سرد پھریری سی رہ رہ کر اس کے رگ و پے کو جھنجھوڑ رہی تھی۔
”اس رات بستی کے چھتیس لوگ قتل ہوئے اور تین چار لڑکیوں کو وہ لوک اٹھا کر لے گئے جن کی بعد میں بگڑی ہوئی لاشیں ملیں…. اس صبح بستی کے ہر جی،ہر بندے کے ججبات(جذبات)اک سے تھے۔غم و غصہ ،نموشی،اذیت،درد….سب مار دینا یا مر جانا چاہتے تھے اور سب سے پہلے منصب….
یہ ساری قیامت گجر(گذر)چکنے کے بعد،صبح صبح پولس کی دو گڈیاں پہنچ آئیں۔ایس ایچ او خود آیا تھا۔مجھے یاد ہے وہ اچھے تن و توش کا بندا تھا مگر منصب کی چند(تھپڑ) کھا کر دو قدم لڑکھڑا گیا تھا،چکر آگیا تھا اسے….ایس ایچ او کے بوتھے پر وہ پہلی چنڈ منصب نے ماری تھی،اس کے بعد پوری بستی شروع ہوگئی….گڈیاں اور سرکاری بندوقڑیاں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے سب۔
بستی میں پندرہ سولہ رائفلیں تھیں۔تیس بتیس مرنے اور بھاگنے والوں کی ہوگئیں۔منصب نے اسی وقت پینتالیس جوانوں میں رائفلیں بانٹی اور ان پینتالیس مسلح جوانوں نے،پٹری پار چوہدریوں کے ڈیرے پر ہلا بول دیا۔وہاں صرف چھ بندے تھے جو کتوں کی موت مارے گئے….ہاں اس ڈیرے سے بلوچوںکو کافی اسلحہ مل گیا۔بستی کے مجید(مزید) لوگ مسلح ہوگئے بس پھر….آپ کہہ لیںکہ علاکے (علاقے) میں گینگ مار(گینگ وار) شروع ہوگیا۔منصب کی عجت پر جن پانچ کتوں نے حملہ کیا تھا ان میں سے تین کو تو اس نے اسی رات مار مکایا تھا،چوتھا….سکندر جوگیزئی،دو دن بعد بلوچستان بھاگ رہا تھا۔ڈیرہ غازی خان کے رستے میں تھا کہ منصب نے جا گھیرا….اسی کلہاڑے سے اس کا سر دو ٹکڑے کیا اور لاش کسیٹ(گھسیٹ) لائی۔“
”لاش….وہ کس لیے؟“ مرشد نے بے ساختہ سوال کیا۔
”ادھر….حویلی کے بغلی حصے میںگڈنے(گاڑنے) کے لیے….پہلے تینوں کو بھی اس نے مارنے کے بعد وہیں گڈا(گاڑا) تھا۔پانچ میں سے چار گڈے جا چکے۔اک ر ہ گیا ہے۔سارے حرامیوں کا وڈا پیو….اسفندےار!“
”اچھا ….وہ بھی گڈا جائے گا ۔پھر….اس کے بعد؟“
”اس کے بعد پھر اس حصے کی صفائی کی جائے گی۔اسی ملبے کو شامل کرتے ہوئے وہ حصہ پھر سے تعمیر کیا جائے گا۔اس کو پھر سے بارہ سال پہلے والی شکل میں لایا جائے گا اور اس کے بعد پھر باقی ساری حویلی کی بھی صفائی ستھرائی اور مرمت کی جائے گی۔اسے سنوارا جائے گا!“
”یہ منصوبہ منصب ہی کا ہوگا؟“
”جاہر (ظاہر)ہے….آپ نے حویلی کا وہ کالک جدا (زدہ)حصہ دیکھا ہی ہوگا….ادھر وہ ملبہ اج بھی ویسے کا ویسا ہی پڑا ہے۔بارہ سال سے منصب نے کسی کو نا وہ ملبہ وہاں سے ہٹانے دیا ہے اور نا ادھر کی صفائی ستھرائی یا کوئی اور تبدیلی….بلکہ پوری حویلی بارہ سال سے ویسی کی ویسی ہی ہے۔آپ کے سامنے ہی تو ہے اس کی حالت….منصب نے عہد کر رکھا ہے کہ جب تک اس قیامت کے جمہ داروں کو،اپنے مجرموں کو ادھر کی جلی ہوئی دھرتی میں گڈ نئیں دیتی تب تک کہیں کوئی تبدیلی یا ردوبدل نہیں ہوگا۔“
مرشد چپ چاپ اس کی شکل دیکھتا رہ گیا۔دراصل وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔اس کی نظریں توموچھیل غضنفر کے چہرے پر تھیںمگر دھیان….توجہ، ذہن میں ابھر آنے والے ایک منظر کی طرف مرکوز ہو چکی تھیں۔ یہ منظر حویلی کے بغلی منہدم حصے کا تھا۔بیشتر حصہ کالک زدہ تھا۔یہ کالک نیچے سے اوپر….تیسری منزل تک پھیلی ہوئی تھی۔کسی تاریک آسیبی سائے کی طرح….کھڑکیوں کے، خالی سیاہ روزنوں میں سے،اندر کی نحوست زدہ ویرانی جھانکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی…. برسوں گزر چکنے کے باوجود،در و دیوار پراس سانحے کی تاریک پرچھائیاں اب بھی موجود تھیں۔حویلی کا یہ حصہ مکمل طور پر خالی،اجاڑ اورویران پڑا تھا۔
پہلے اس نے صرف یہ منظر دیکھا تھا،اب اس کا پس منظر بھی معلوم ہوگیا تھا۔ایک دل دوز اور لرزہ خیز پس منظر….ساتھ ہی اسے منصب کی ذہنی حالت پر ترس آیا۔اس کے لیے ہمدردی محسوس ہوئی۔وہ گزشتہ بارہ سال سے وہیں کی وہیں کھڑی تھی۔آگ اور خون سے نہائی ہوئی،اسی قیامت خیز رات میں….کرب و اذیت کے اسی بے رحم بھنورمیں۔گویا بارہ سال کا یہ عرصہ ا س پر گزرا ہی نہیں تھا،یا پھر یوں کہہ لیں کے اس نے وقت کے بہاو�¿کا حصہ بنتے ہوئے،اس حشر خیز رات سے گزر آنا،نکل آنا گوارا ہی نہیں کیا تھا۔وہ وہیں ٹھہری ہوئی تھی ….آج بھی!
”کسی کی جرات ہی نئیں ہوئی کہ اس سے کسی بات پر اکھتلاف(اختلاف) کرتا۔“غضنفر مزید بتا رہا تھا۔”سب کے کہنے کے باوجو د اس نے کپڑے بھی نئیں پہنے،کوئی چادر اوڑنا بھی گوارا نئیںکیا۔جن چند لوگو ں نے اسے جبردستی سمجھانے اور کپڑے پہنانے کی کوشش کی ،وہ اس کے ہاتھوں بری طرح جکھمی ہوئے….بستی کے ادھے لوکوں کا ماننا تھا کہ شدید صدمے کی وجہ سے اس کا دماگ چل گیا ہے….پاگل ہو چکی ہے وہ اور پاگل بھی حد سے جیادہ کھترناک قسم کی….باقی ادھوں کا ماننا تھا کہ اس میں کوئی جن گھس آیا ہے اور اس کی وجہ سے،اس کے اندر جناتی طاقتیں بھی آچکی ہیں۔اس کے جناتی کام تو سب دیکھ رہے تھے۔اسی صبح،پوری بستی پر اس کی دہشت بیٹھ گئی تھی۔منصب مرنا چاہتی تھی لیکن لڑتے ہوئے، دشمنوں کی بوٹیاں ادھیڑتے ہوئے۔ادھی سے جیادہ بستی اس کی ہم کھیال تھی،عورتوں سمیت ….سب لڑ مر جانا چاہتے تھے اور کیسے نا چاہتے….آپ انداجا تو کریں۔“ اس کا گلا ایک بار پھر رندھ گیا۔ موٹی موٹی آنکھوں میں پانی جھلملانے لگا،جس کے عقب میں کہیں آگ کی لپٹیں بھی تھیں۔
”کیسا قہر ڈایا(ڈھایا) گیا تھا ہماری بستی پر….ہمارے سردار گھرانے اور اس گھرانے،بلکہ گھرانے کیا پوری بستی کی سب سے اچھی اور درویش لڑکی پر…. کتنے گھروں میں لاشیں پڑی تھیں….اس رات ہماری جانوں کے ساتھ ہی نہیں،ہماری عجتوں کے ساتھ بھی دشمنی کی گئی تھی۔
حویلی کے احاطے میں بغیر کپڑوں کے منصب بیٹھی تھی لیکن ننگی پوری بستی ہو چکی تھی….نواب اور چوہدری ہماری پوری بستی کی عجت لوٹ گئے تھے ۔ساری بستی کی گیرت پامال کر گئے تھے وہ(ناقابلِ اشاعت)….یہ جتنا کچھ ہو گزرا تھا،ایسی قیامتوں کے بعد پھر لڑائی جھگڑے تو نئیں ہوتے نا جی!جنگیں ہو ا کرتی ہیں اور منصب نے اس جنگ کی شروعات اسی رات کردی تھی۔اگلے ستاراں(سترہ) دن یہ جنگ جاری رہی۔بلوچوں نے،نوابوں ، چوہدریوں کی وہ….بند کی کہ ان کی (ناقابلِ اشاعت)….ہوگئی۔ ان ستاراں دنوں میں بہت کج ہوا،بڑے بڑے پاٹے کھانوں کا نمبر لگایا منصب نے….اسفندیار اور چوہدری اکبر…. میں جا گھسے۔ ایک عرصہ ان کا دھرتی پر پتا ن ہی نئیں چلا….شہر کی ساری انتجامیاں اور پولیس کی ….کر کے رکھ دی تھی منصب نے۔وہ تو ستاراں دن بعد،بلوچستان سے پیر سرکار(نظام الدین) اٹھ کر یہاں پہنچ آئے اس لیے اس جنگ کو بریک لگ گئی ورنہ….ورنہ اکبر علی اور اسفند یار کو تو ہم نے قبروں کے اندر سے بھی ٹونڈھ(ڈھونڈ)نکال کر لے آنا تھا۔اس سے کم پر وہ جنگ رکنے والی نئیں تھی مگر….بیچ میں پیر سرکار آکھڑے ہوئے….ان ہی کی وجہ سے منصب کے اندر کا وحشی جن تھوڑا شانت ہوا….ان ہی کے کہنے سمجھانے پر،اس نے آکھر ستاراں دن بعد کپڑے پہن لیے۔ اک دھوتی اور اک چادریہ جس حلیے ،پہناوے میں آپ اسے دیکھتے ہو….کالی آفت،کالی آندھی….کالی دیوی اور پتھر کی مورت بھی کہتے ہیںعلاکے کے لوک اور….شید(شاید)ٹھیک ہی کہتے ہیں…. کلیجہ تو پتھر ہو چکا اس کا…. بارہ سا ل پہلے سے!“موچھیل کے لہجے میں تاسف آمیز اداسی اتر آئی۔مرشد کے اپنے محسوسات عجیب سے ہورہے تھے۔منصب کی کہانی اتنی ہی الم ناک اور اثر انگیز تھی کہ کچھ دیر کو تو وہ باقی سب ہی کچھ بھول گیاتھا۔کچھ یاد تھا،ذہن میں تھا تو منصب….ملک منصب!
اب سے پہلے تک اس کے متعلق مرشد کے محسوسات اور خیالات کچھ ایسے اچھے نا تھے لیکن اب اس کی درد بھری کہانی سن کر ،اس کی شخصیت کا سارا تاثر یکسر بدل گےا تھا،سارا مطلع صاف ہوگےا تھا۔اس کا ”منصب بی بی“ سے ”ملک منصب“ تک کا یہ سفر بہت جاںگسل،بہت جان کاہ رہاتھا۔اس سفر کے دوران میں اس کے اندر کی عورت مر گئی تھی،پتھر ہوگئی تھی۔اب ،وہ بس ایک چلتا پھرتا وجود تھی۔اس کے اندر اگر کچھ زندہ تھا تو شاید صرف انتقام….اپنی تباہی بربادی کا، اپنے ذلت آمیز سفاک قتل کا!
مرشد کو واقعی اندازا نہیں تھا کہ شروع دن سے سیاہ پوش بلوچ بلوچوں اور ان کے سردار….ملک منصب کے حوالے سے ،جو ماتمی سی پر اسراریت محسوس ہوتی آرہی تھی ،اس کے پیچھے غارت گری کی ایسی کرب ناک کہانی موجود ہوگی۔اب وہ بڑی سہولت سے ان سب کی اذیت اور مشترکہ غم کو سمجھ سکتا تھا!ان سب کی سیاہ پوشی اور ان سب کی رگوں میں،چوہدریوں اور نوابوں کے لیے،کھولتا،پکتا غم و غصہ،سب کچھ مرشد پر کھل آیا تھا….واضح ہوچکا تھا۔
صبح دن چڑھے ،اسے ارباب ہی کی زبانی معلوم ہوا کہ ملنگی شاید فرار ہونے میں کامیاب ہوچکا ہے،کم از کم حویلی کی حد تک تو اس بات کی اچھے سے تسلی کر لی گئی تھی کہ وہ حویلی کے اندر کہیں موجود نہیں ہے !
لاہور سے رستم نے اس کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا تھا،ارباب نے ایک ایکسٹینشن اوپر ، اس کے قریب ہی ایڈجسٹ کرا دی….اس نے رستم کے ساتھ بھی بات چیت کی اور بعد میں حسن آرا سے بھی۔اس نے تو نہیں بتایا البتہ مرشد کو خود سے اندازا ہوگیا کہ اس کے جوڑوں میں پھر سے درد شروع ہے….گلی محلے کے چند دیگر لوگوں کے حال احوال کے علاوہ،حسن آرا کی زبانی اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ پچھلے ایک ہفتے سے نزہت بیگم بستر پر پڑی ہیں۔اس کا سیڑھیوں کے زینے سے پاو�¿ں پھسلا تھا۔پاو�¿ں پر چوٹ آئی تھی جو فی الحال ٹھیک ہونے کو تیار نا تھی۔ مرشد نے اسے حجاب بی بی کے متعلق بتایا کہ وہ اپنے ورثا کے سپرد ہوچکی۔ اس نے نظام شاہ جی اور حجاب کی پھوپھو کے ساتھ ملاقات کا احوال بھی سنایا،جواب میں حسن آرا نے آسودہ قلبی اور ٹھنڈے دل سے اے ڈھیروںڈھیردعائیں دیں،محبت و شفقت کے پھول نچھاور کیے اور اطمینان و خوشی سے نہال ہو گئی۔مرشد اس دوران کچھ دیر کے لیے مکمل طور پر گم سم ہوا تو حسن آرا فکر مندی سے اسے کریدنے لگی۔
اس کی اس کرید پر مرشد سنجیدہ اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا:
”اماں….مجھے ایک قبر کھودنی ہے۔“
”قبر….کس کی؟کس لیے؟“ دوسری طرف وہ قدرے الجھی،متعجب ہوئی۔
”ایک ستائیس سال پرانی قبر اماں! کچھ گڑے مردے اکھاڑنے ہیں۔“
حسن آرا کا دل دھڑکا….ایک ستائیس سال پرانی قبر اماں….اماں….آواز اور لہجے میں چھپا کرب اور بے بسی…. وہ اس لہجے سے واقف تھی۔مزید وضاحت سے پہلے جان،سمجھ گئی کہ وہ کس قص�¿ہ پارینہ،موضوع ممنوعہ کے متعلق بات کر رہا ہے۔
”کیا کہہ رہے ہو مرشد! کس بارے میں بات کر رہے ہو؟“ وہ انجان بنی ،گویا تصدیق چاہتی تھی۔
”تمہارے روگ کے بارے میںبات کر رہا ہوں اماں!“چند لمحے بعد وہ مزید گھمبیر آواز میں بولا۔اس موضوع پر بات کرنے کے لیے اسے اپنے وجود کی تمام توانائیوں کو آواز دینی پڑی تھی۔ ”تمہارے اس مرض کے بارے میں،جو ستائیس سال سے تمہاری جان کوچمٹا ہو ا ہے ۔اور….اوراس پرچھائی کے بارے میں جو میرے وجود کی وجہ بنی…. میںتمہارے میر صاحب کے بارے میں بات کر رہا ہوں اماں!“
حسن آرا کچھ بھی بول نا سکی،البتہ اس کا دل دھڑکنے کی رفتار بھول چکا تھا۔مرشد نے آج پہلی دفعہ”میر صاحب “ کے متعلق اس انداز میں با ت کی تھی…. اتنے آرام و سکون اور تحمل کے ساتھ۔اس کے لہجے میں بھی کچھ تبدیلی تھی….کچھ عجیب اور نیا تھا! چند لمحے دونوں کے درمیان ایک گہری خاموشی کی لہر بنی رہی….مرشد کو یہ سب بولنا انتہائی کٹھن محسوس ہورہا تھا لیکن اس نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اسے اس موضوع پر بات کرنی ہے….یہ ٹیلی فون تھا….روبرو تو شاید نا چاہتے ہوئے بھی وہ غصے اور تلخی کے جذبا ت سے مغلوب ہوجاتا….کم از کم آج تک تو اسی طرح ہوتا آیا تھا!ان لمحوں حجاب سرکار کی صورت اس کے سامنے تھی۔وہ مسکراتی ہوئی منتظر نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔جیسے اس کے مزید بولنے کی منتظر ہوں،بولنے پر اکسا رہی ہوں،حوصلہ بندھا رہی ہوں۔
مرشد مزید بولا:”مجھے ادھر ڈیڑھ دو ماہ لگ جانے ہیں۔اس کے بعد واپس حاضر ہوتا ہوں۔تب….میں ستائیس سال پہلے دفن ہوجانے والے معاملات کھودوں گا۔تمہارے میر صاحب،اگر دھرتی پر کہیں باقی ہیں توانہیں ہر قیمت۔ہر صورت تمہارے سامنے لاکھڑا کروں گا اور اگر….خدا انہیں اپنے قرب میں جگہ دے چکا ہوا تو وہ پھر اللہ کی مرضی….دونوں میں سے جو بھی ہوا تمہیں قبول کرنا پڑے گا۔یہ جگہ،یہ چوبارہ اب چھوڑنا پڑے گا تمہیں….چاہے جس طرح بھی یہ ممکن ہو….تم سن رہی ہو نا؟“
”ہاں!پہلے تم پوری طرح ٹھیک ہو لو،یہ جھگڑے، پھڈے ختم ہولیں پھر بات کریں گے۔“ اس نے نارمل انداز میں کہا حالاں کہ وہ نارمل تھی نہیں۔ آنسو خود بخود اس کے رخساروں پر بہہ نکلے تھے۔
”یہ ختم ہو چکے ،بس ڈیڑھ دو ماہ کی بات ہے،یہ بھی مجبوری ہے۔“
” اور فیروزہ کی طبیعت کیسی ہے اب؟“ اس نے موضوع بدلا۔
”میں نے دیکھا نہیں۔شہر کے ہسپتال میں ہے۔“
”بانو او ر نگینہ لوگ الیاسے کے ساتھ آئی تھیں ا س کی طرف۔تم سے نہیں ملیں؟“
”میں جہاں ہوں تمہیں پتا ہی ہے اور….ادھر ابھی کوئی نہیں آیا۔“ کچھ دیر اس طرح کی باتوں کے بعد فون اس کے ہاتھ سے شازیہ نے لے لیا ۔مرشد نے اس کے ساتھ بس یوں ہی مختصر سی بات کی اور رسیور کریڈ ل پر رکھ دےا۔
اپنے غیر شرعی باپ کے متعلق اماں کے ساتھ اتنی سی بات کر کے بھی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اعصاب سے ایک بڑا بوجھ ہٹ گیا ہو۔جیسے آگے،مزید بات کرنا آسان ہوگیا ہو۔اجنبیت،جھجھک اور نا گواری کی ایک بلند دیوا ر تھی جو ان لمحوں، ایک طرح سے ڈھے گئی تھی۔ دن اچھا خاصا چڑھ آیا تھا۔دھوپ بھی آج کڑاکے کی پڑ رہی تھی۔رات تو نیند ویسے ہی پوری نا ہوسکی تھی۔دماغ بوجھل بوجھل سا تھا۔شاید یہ گولیوں کے اثرات تھے۔وہ یوں ہی ذہن کو سکون پہنچانے کی نیت سے آنکھیں بند کر کے لیٹا تو فوراً ہی نیند آگئی۔کچھ دیر تک وہ گہری نیند میں اتر چکا تھا۔
٭ ٭ ٭
اگلے دس پندرہ دن مکمل طور پر آرام و سکون سے گزرے۔مرشد کی چوٹوں کا ورم اور وجود کے چھوٹے چھوٹے زخم تقریباً ٹھیک ہی ہوچکے تھے۔سر اور دیگر زخموں کے ٹانکے بھی کھل چکے تھے،صرف ایک پہلوکا گھاو�¿ تھا جوفی الحال اسے بستر نشینی پر مجبور کیے ہوئے تھا ۔ہاں البتہ اب وہ بنا کسی کی مدد کے ،بستر پر خود سیدھا ہو کر بیٹھنے لیٹنے کے قابل ہو چکا تھا۔ بستی میں سے ہی ایک حجام آکر اس کے بال اور خط بنا گیا تھا۔حجامت کے بعد اس نے شیشہ دیکھا تو دل پر گھونسہ سا لگا….رخساروں کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں،رنگت یوں مسخ تھی کہ پورا چہرہ ہی مرجھایا ہوا لگ رہا تھا۔ہونٹ پر زخم کا نشان تھا۔دو نشان بائیں رخسار پر تھے جن میں سے ایک تقریباً اس کی چھوٹی چھوٹی گھنی داڑھی میں چھپ کر رہ گیا تھا۔یہ زخم چوہدری فرزند کی کھیڑی سے آیا تھا….ڈوکے وال کے ایک ڈیرے پر….
بائیں آنکھ پر لگنے والی چوٹ کی نشانی ایک سیاہ پرچھائیں کی صورت آنکھ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھی۔
اس کے علاوہ اس طرف کی بھنو کا کچھ حصہ بالکل درمیان سے غائب تھا اور یہاں سے صرف بال ہی غائب نہیں تھے….چوہدری فرزند کی چلائی ہوئی گولی بھنو کے اس حصے سے ماس ہی رگڑ گئی تھی،یعنی یہاں اب کبھی بال اگنے ہی نہیں تھے۔بھنو کے درمیانی حصے پر یہ چھوٹا سا کٹ،خط اب ہمیشہ یوں ہی رہنا تھا۔اس نے چہرے کا رخ بدل کر دیکھا،یہ چھوٹا سا کٹ برا ہر گز نہیں لگ رہا تھا۔بلکہ….یوں محسوس ہو تا تھا جیسے یہ فرمائشی طور پر،خود سے بنوایا گیا ہو….بطور فیشن۔اس خیال کے ساتھ ہی اس کے ہونٹوں پر ایک زخمی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔سر کے بال بھی چھوٹے چھوٹے ہوگئے تھے اور داڑھی بھی….جیسے مشین لگوائی گئی ہو۔ البتہ موچھیں ویسی کی ویسی ہی تھیں….گھنی،بھاری،بل کھائی ہوئی،بندمعاش تیوروں والیں۔
ان دنوں ،ارباب اور منصب دونوں،ایک بار پھر اسے ملک چھوڑ کر باہر چلے جانے کے ارادے پر مائل کرنے کی کوشش کر چکے تھے۔خود نظام شاہ جی نے بھی ، فون پر دوبارہ اس موضوع پر،اس کے ساتھ بات کی تھی۔بہت مختصر سی بات ہوئی تھی اور اس ساری بات کا لبِ لباب یہ ہی تھا کہ مرشد دبئی جانے کا ذہن بنا لے، یہ سب سے اچھا رہے گا۔ مرشد نے وہی پہلے والا مخصوص جواب دیا اور شکر گزاری کے ساتھ معذرت کر لی۔وہ سب اسے تحفظ فراہم کرنا چاہتے تھے۔ مستقبل میںاس کے لیے چھپے ہوئے خطرات سے اسے مکمل طور پر محفوظ کرنا،اس سب سے بہت دور بھیج دینا چاہتے تھے۔وہ نہیں جانتے تھے کہ مرشد کے ارادے تو اس سب سے بالکل الٹ ہیں….اس کا ارادہ محفوظ ہونے کا نہیں،بلکہ خود خطرات تک پہنچ کر ان کا قلع قمع کرنے کا تھا۔اب تک وہ محض مدافعانہ انداز اپنائے ہوئے تھا،اب پیروں پر آتے ہی اسے خود اپنے دشمنوں کے خلاف پیش قدمی کرنی تھی….پوری جارحیت کے ساتھ۔
اسے یہاں اپنے ایک دو ادھورے کام پورے کرنے تھے،جنہیں پورا کیے بغیر ملک تو کیا یہ دنیا چھوڑنا بھی اسے گوارا نہیں تھا۔اس کے علاوہ پھر حجاب سرکا ر یہاں تھیں۔انہیں اپنی ساری زندگی یہیں،اسی ملک میں گزارنی تھی….واقفیت نا ہوئی ہوتی تو پھر دوسری بات تھی۔اب تو وہ واقف ہو چکا تھا،جان چکا تھا۔ وہ یہاں تھیں تو مرشد یہاں کی مٹی،یہاں کی فضاو�¿ں سے دور ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔یہ ممکن ہی نہیں تھا۔
حجاب بی بی کو وہا ں سے روانہ ہوئے سترہ دن گزر چکے تھے۔ اس سے پہلے بھی دو دن میںبس ہلکی سی جھلک ہی دیکھی تھی اس نے۔وہ روانہ بھی چپ چاپ ہوئی تھی اور مستقل جدائی کے وقت تو معمولی سی جھلک بھی نصیب نا ہو پائی تھی۔یوں ایک طرح سے انیس دن ہوگئے تھے اس کی آنکھوں کو بینائی سے محروم ہوئے،کانوں کو سماعت سے محروم ہوئے۔ان انیس دنوں میں سینے کے اندر ایک ایسا خلا سا پیدا ہو آیا تھا۔جس کی گہرائی اور گیرائی میں روز بروز اضافہ ہوا جا رہا تھا۔کسی کسی وقت تو اسے یہ احساس ہونے لگتا کہ عن قریب یہ خلا اسے نگل جائے گا،اسے….اس کی ذات کو!
اس کی نظریں بار بار بے اختیار ہی کھڑکی سے باہر کو پھسلتیں اوردور….مغربی افق پر جا ٹکتیں….بلوچستان اسی طرف تھا،قلعہ سیف اللہ….حجاب بی بی کا موجودہ شہر….وہ سامنے،جہاں آسمان زمین کی طرف سجدہ ریز دکھائی دیتا تھا،وہیں کہیں ،کسی بڑے گھر یا کوٹھی،بنگلے کی چار دیواری میں وہ موجود تھی….اپنی پھوپھی کے ہاں۔پھوپھی ….جن کے بیٹے کے ساتھ حجاب بی بی کی شادی ہونی تھی۔متوقع طور پر ان ہی دو چار ماہ کے اندر اندر….زریون علی کے ساتھ۔
زریون کے خیال کے ساتھ ہی، اس نے اپنے اندر بے چینی سی پھیلتی ہوئی محسوس کی ۔اس کا مزاج،عادات،اس کی دلچسپیاں اور شوق….اب تو مرشد اس کے والد کے علاوہ والدہ سے بھی مل چکا تھا،انہیں دیکھ سن چکا تھا۔نظام شاہ جی ہی کی طرح،زریون کی والدہ بھی مہربان اور مشفق خاتون ثابت ہوئی تھیںمگرزریون….وہی با ت کہ وہ ان دونوں کا چشم و چراغ لگتا ہی نا تھا!
زریون کا خیال آتے ہی حجاب بی بی کے لیے اس کا دل دکھنے لگتا تھا۔رگ و پے میں اونگھتی بے چینیاں،فوراً بےدار ہو بیٹھتی تھیں۔ایک گھٹن کا احساس ہونے لگتا تھا۔اتنے دنوں سے یہ سب اس کے اندر مسلسل جاری تھااور وہ مسلسل اپنا دھیان ،اپنی توجہ اس طرف سے ہٹانے کی ناکام شعوری کوششیں کرتا آرہا تھا۔اس ناکامی کا فی الحال اس کے پاس جواز تھا۔ایک نہیں،دو دو جواز تھے۔پہلا یہ کہ حجاب بی بی کو روانہ ہوئے، دورہوئے ابھی تھوڑے د ن ہوئے تھے،کچھ دن مزید گزرنے کے ساتھ ساتھ،خود ہی دل و دماغ ،اپنے پہلے والے ٹھکانے پر آجاتے….دوسرا یہ کہ وہ مسلسل ایک ہی جگہ بستر پر پڑا تھا۔۔یہ مجبوری ختم ہوجاتی ، وہ دوبارہ اٹھ کرزندگی کے معمولات سے جڑ جاتا تو خود بخود دھیان اس طرف سے ہٹ جاتا….وہ بار بار خود کو سمجھا چکا تھاکہ ایک بار زندگی دوبارہ اپنے معمول پر آجائے،سارے جذبات و خیالات بھی معمول پر آجائیں گے۔اب حقیقتاً ایسا ہوپاتا تھا یا نہیں….یہ اس پر آنے والے دنوں میں ثابت ہونا تھا۔
شام کو اس کی ارباب سے ملاقات ہوئی تو ارباب نے اسے دو خبریں سنائی۔ایک تو یہ کہ نواب اسفندےار نے چوہدری اکبر علی کی ضمانت کرالی ہے۔دوسری یہ کہ شیخوپورہ کے ایم پی اے رانا سرفرازکو دو دن پہلے کسی نے اغوا کیا تھا اور آج ایک گٹر سے اس کی لاش ملی ہے۔پولیس کو ابھی کسی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا تھا۔اس بارے میں ارباب کی رائے تھی کہ اس اغوا اور قتل کے پیچھے چوہدری فرزند کا ہاتھ ہے۔اس نے اپنے کئی بندے فرزند کے پیچھے لگا رکھے تھے لیکن تاحال یہ ثابت نہیں ہو سکا تھا کہ وہ کہاں چھپا ہواہے۔اس کے متعلق یہ شبہ کیا جا رہا تھا کہ وہ نندی پور یا نندی پور کے آس پاس ہی کہیں روپوش ہے۔پولیس ہنوز اس کی تلاش میں تھی۔
مرشدنے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔مرشد کا اپنا خیال بھی یہ ہی تھا کہ اگر ایسا ہو گزرا ہے تو پھر یہ کام چوہدری فرزند ہی کا ہوگا ۔رانا سر فراز نے اسے ڈبل کراس کیا تھا۔دہرا کھیل کھیلا تھا۔ایک طرف وہ چوہدریوں کا حمایتی اورمددگار بنا رہا تھا تو دوسری طرف ان ہی کے خلاف ڈپٹی اعوان کا آلہ کار بھی۔اب یقینی طور پر ساری کہانی کھل چکی تھی تو یہ ممکن ہی نا تھا کہ چوہدری فرزند جیسا متکبر اور انا پرست انسان اسے نظر انداز کر دیتا،معاف کردیتا۔ضرور اس نے پہلے اسے اغوا کرایا ہوگا اور پھر اسے اپنی نفرت،اپنے انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے،اپنے کلیجے کی ڈھےر ساری بھڑاس اس پر نکالی ہوگی۔جب رانا کی جسمانی سکت جواب دے گئی،اس کی موت واقع ہوگئی تو پھر اس کی لاش اٹھوا کر کسی گٹر میں پھنکوا دی ہوگی۔۔بہرحال…. مرشد کے لیے دونوں خبریں ہی اطمینان ِ قلب کا باعث تھیں۔چوہدری اکبر ،قانون کی گرفت سے بچ بھی جاتا تو آئندہ دنوں،خود مرشد کے ہاتھوں اس کا بچناممکن نہیں تھا۔
اس کی عبوری ضمانت کی معیاد ایک ماہ کی تھی۔وہ اس سے چار چھ دن پہلے ہی اٹھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہوگےا۔ڈاکٹر نے اسے منع کیا مگر جب مرشد نے ا س کی باتوں پرکان نہیں دھرے تو اس نے ارباب کو بلا لیا اور ارباب نے آکر اسے دوبارہ بستر پر بٹھایا۔اسے سمجھایا کہ جلد بازی نا کرے۔جہاں اتنا وقت گزر چکا،وہاں چند دن اور سہی۔
مرشد کا ان چند منٹوں ہی میں سانس پھول گیا تھا۔ہاتھوں پیروں میں سرد لہریں سرسرانے لگی تھیں۔۔نقاہت بھی تو اچھی خاصی ہو چکی تھی اسے۔ارباب نے بیٹھ کر پھرو ہی ذکر چھیڑ دیا….دبئی یا پھر کسی اور ملک ہجرت….وہ اسی وقت فوٹو گرافر کو بلانے کو تیا ر تھا۔ساتھ اس نے نظام شاہ جی کی منشاءکا حوالا بھی دیا لیکن مرشد کا جواب وہی رہا۔رات کو کچھ دیر کے لیے منصب آئی….صرف اسی ایک مدعے پر بات کرنے کے لیے….اسے بھی مرشد نے انکار کیا۔
ضمانت کی مدت ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی تھا۔وہ خود کو ذہنی طور پر گرفتاری کے لیے تیار کر چکا تھاکہ اسی رات…. بالکل اچانک ہی نظام شاہ جی پہنچ آئے۔وہ تو جس وقت وہ ارباب کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے تو مرشد انہیں یوں روبرو پا کر حیران رہ گیا۔اسے نا ان کے آنے کا پتا چل سکا تھا اور نا ہی کسی نے اسے بتایا تھا کہ شاہ جی آگئے ہیں یا آرہے ہیں۔ وہ فوراًاحتراماً اٹھ کر پیروں پر کھڑا ہوگےا۔
”ارے ،ارے….یہ کیا کر رہے ہیں۔لیٹے رہیے،بیٹھ جایئے۔“ شاہ جی فوراً متفکر سے انداز میں آگے بڑھے۔
”میں اب بالکل ٹھیک ہوں حضور!پریشانی والی کوئی بات نہیں۔“ اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔حالا ں کہ” بالکل ٹھیک “والی بات ٹھیک نا تھی۔
ارباب بولا:”ڈاکٹر نے ابھی کم از کم مہینا پندرہ دن ریسٹ کرنے کا کہہ رکھا ہے مگر یہ جناب بستر پر ٹکنے کو تیا ر نہیں۔“
”بستر پر ہی ہوں البتہ ساری زندگی بستر پر رہنے کا ارادہ نہیں ہے۔دوسرا ٹانگیں وزن برداشت کر رہی ہیں تو کھڑا ہوسکا ہوں۔“
شاہ جی بغو ر اور رشک آمیز نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے پھر انہوں نے نرمی سے بازو پکڑتے ہوئے اسے واپس پلنگ پر بٹھا دیا۔
”ٹھیک ہے ۔آپ انشاءاللہ جلدبھاگتے دوڑتے پھرےںگے۔لیکن فی الحال آرام کیجئے….چند دن مزید تھوڑی احتیاط اور سکون سے گزار لینے میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔“ ان کے لبوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ تھی۔خود وہ اسی جگہ،اسی کرسی پر بیٹھ گئے۔
مرشد کو خود انہوں نے ہی بتایا کہ وہ اصل میں لاہور جا رہے ہیں،یہیں سے گزر کر آگے جانا تھا سو وہ خیرخبر کے لیے چکر لگانے آگئے۔انہوں نے اس سے بطور ِ خاص پوچھا کہ اگر لاہور میں کوئی کام ہو،کہیں کسی تک کوئی پیغام یا کوئی چیز پہنچانی ہو یا وہا ں سے کسی کو لے کر یہاں آنا ہو تو وہ بے جھجھک بتا دے مگر مرشد نے صرف مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔….اس کے بعد شاہ جی آگئے اصل مدعے کی طرف….مرشد کے نزدیک،ان کی اس آمد کا جو اصل مقصد تھا….مرشد کی ہجرت….دبئی یا پاکستان سے باہر جہاں بھی وہ چاہے۔
”نہیں سرکار حضور! یہ تو میرے لیے سزا جیسا ہوگا….میں اپنے ملک ،اپنے لوگوں سے دور نہیں جا سکتا۔“
ارباب مداخل ہوا:”پھر گرفتاری دینی پڑے گی۔کچھ وقت تو جیل میں کاٹنا پڑے گا۔“
”یہ ہی ٹھیک رہے گا۔اس کے لیے میں ذہن بنا چکا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اور یہ ہی ہم نہیں چاہتے۔یہ کسی طور بھی مناسب نہیں ہوگا۔“شاہ جی بولے تھے۔”تھانہ اور پھر جیل….پولیس نگری۔پولیس والو ں پر ہر گز بھی بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔وہ ہوسکتا ہے تھانے ہی میں آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔جیل تو پھر مکمل طور پر ان کی راجدھانی ہوتی ہے۔وہاں وہ کچھ بھی کر،کرا سکتے ہےں….کچھ بھی۔آپ کو شاید ان کے حربوں اور کمینگیوں کا ٹھیک سے اندازا نا ہو۔“
مرشد مسکرایا:”میری تو بچپن سے ان کے ساتھ رشتہ داری ہے۔کسی بھی پولیس والے کا پیٹ دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ یہ کیا کھانا پسند کرتا ہے۔“
”پھر تو آپ کو بخوبی اندازا ہونا چاہیے کہ یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں،کرا سکتے ہیں۔“
”بالکل اندازا ہے۔لاہور تھانہ ٹبی میں، میرے سامنے میرے دو ساتھیوں کوگولیاں مار کر قتل کیا گیا اور الٹا انسداد دہشت گردی کا پرچہ بھی میرے ہی خلاف درج ہوا….مجھے سارے اندازے ہیں،میں اس مخلوق کو اچھے سے جانتا،سمجھتاہوں۔“
”تو پھر ….سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی گرفتاری کو ترجیح دیں گے؟ جیل جائیں گے؟“شاہ جی متعجب ہوئے۔
”یہ ملک،یہ زمین چھوڑ کر جانے پر تو ترجیح دوں گا ہی۔“
”مگر کیوں….آپ کی ایسی کیا مجبوری،کیا ضد ہے؟“
ایک ذرا توقف کے بعد مرشد گہری سنجیدگی سے بولا:”میری ایک درخواست ہے آپ دونوں ہی سے….“اس نے ایک ایک نظر دونوں کے چہرے پر ڈالی۔ ”آپ لوگوں نے میرے لیے اب تک جو کچھ اور جتنا کچھ بھی کیا اس کے لیے میں ہمیشہ شکر گزا ر رہوں گا۔حجاب سرکار اپنی منزل پر پہنچ چکیں،میرا کام،میری ذمہ داری ختم ہوئی۔جس طرح وہ اپنی دنیا میں پہنچ چکی ہیں،اسی طرح اب مجھے اپنی دنیا میں واپس جانا ہے اور میری دنیا،آپ کی دنیا سے بہت الگ ہے،اتنی الگ کے دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔دونوں کا آپس میں کوئی واسطہ نہیں بنتا۔درخوست ،گزارش اتنی سی ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کو خدا حافظ کہیں اور اپنی اپنی دنیا میں مگن ہوجائیں تو یہ ہم سب کے لیے ٹھیک رہے گا۔“
اس کی آواز دھیمی مگر لہجہ فیصلہ کن تھا۔اس کے باوجود نظام شاہ جی نے اسے سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں اندازہ ہوگیا کہ مرشد اپنا فیصلہ نہیں بدلے گا۔وہ اسے اپنے فیصلے پر نظر ثانی اور دوبارہ سوچ بچار کا کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
ان کے چلے جانے کے بعد،مرشدنے فون پر لاہور،رستم لہوری کے ساتھ بات کی اور اسے نظام شاہ جی کے ساتھ اپنی اس ملاقات اور گفتگو کے متعلق بتایا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ ضمانت کا کل آخری دن ہے اور پرسوں صبح ،اس کی گرفتاری عمل میں آئے گی۔رستم سے بات کرنے کا اس کا ایک مقصد تھا۔ان کے درمیان پہلے سے طے تھا کہ گرفتاری کے بعد، انہوں نے اپنے طور پر کیا کرنا ہے اور مرشد اسی پروگرام کو ترجیح دے رہا تھا۔انہوں نے دوتین منصوبے بنائے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھاکہ ضرورت پڑنے پر پولیس والوں کی ملی بھگت سے مرشد کو تھانے یا پھر پہلی پیشی پر کچہری میں سے فرار کرایا جائے گا۔یہ ایک خطرناک کام تھا لیکن….رستم یا مرشد کی نظر میں نہیں!
اگلے روز شام میں اسے پھر رستم کو فون کرنا پڑا۔یہ بتانے کے لیے کہ نظام شاہ جی کی کوشش اور مہربانی سے مزید پندرہ دن کی ضمانت منظور ہو گئی ہے۔کم از کم اس کی جسمانی بحالی کے لیے تو یہ اچھاہی ہوا تھا۔اس نے ڈاکٹر کے اعتراض کے باوجود وہیں….کمرے ہی میں آہستہ آہستہ چہل قدمی شروع کردی….صبح دوپہر ،شام۔پہلے دو تین دن تو اس کی ٹانگوں اور اس کی سانس نے ٹھیک سے اس کا ساتھ نہیں دیا لیکن تین چار دن یہ معمول بر قرار رکھنے پر یہ دونوں مسئلے جاتے رہے۔دونوں ڈاکٹر ،اس کے متعلق جتنا حساس ہورہے تھے،مرشد کو خود میں اتنی کمزوری یا کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔سب سے زیادہ اندیشہ پہلو والے زخم کی طرف سے تھا۔ڈاکٹر بھی اسی کے حوالے سے احتیاط پر مصر تھے لیکن مرشدکو اس طرف سے بھی کوئی غیر معمولی پریشانی محسوس نہیں ہوئی،شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ اس زخم کی پہلے بھی مکمل ٹریٹمنٹ ہوچکی تھی او ر اس کے بعد وہ ڈیڑھ مہینا بستر نشینی کا بھی گزار چکا تھا۔
اگلے ایک ہفتے تک وہ بالکل نارمل انداز میں چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے لگ گےا ۔ارباب کے ساتھ ساتھ دونوں ڈاکٹر بھی اسے دیکھ کر تعجب کا اظہار کرتے تھے اور تھوڑا تھوڑا تشویش کا بھی۔انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں اس کے پہلووالازخم اندر سے پھر متاثر نا ہوجائے لیکن مرشد محسوس کر رہا تھا کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔
گرفتاری سے تین روز پہلے،جمعے کے روز ،اس نے اچھے سے نہا دھو کر سفید دھوتی اور سفید کرتا پہنا جو بطورِ خاص اس کے لیے سلوایا گیا تھا۔اس کے بعد اس نے ارباب اورٹیپو کے ساتھ جا کر بستی کی جامع مسجد میں جمعے کی نماز ادا کی اور نماز کے بعد کافی دیر اسی جگہ سر جھکائے بیٹھا رہا۔آج تقریباً ڈھائی تین ماہ بعد اس نے یوں اہتمام اور سکون و اطمینان سے نماز ادا کی تھی۔دل و دماغ کو انتہا درجہ سکون ملا۔اسے لگ رہا تھا کہ ایک طویل مدت کے بعد،آج وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ دنیا میںموجود ہے۔ایک طویل مدت کے بعد بستر سے اٹھا ہے۔ایک ایسے بستر سے جس پر پڑے پڑے شاید وہ پتھر ہوگیا تھا۔اس دنیا،اس زمانے سے کٹ کر کہیں بہت دور چلا گےا تھااور آج پھر اس کی زمین پر واپسی ہوئی ہے….آج پھر وہ اس دنیا کے ساتھ جڑ آیا ہے!
وہ اپنی کیفیت سے باہر آیا توٹیپو اور ارباب کو اس نے اپنے پیچھے والی صف پر بیٹھے دیکھا۔مسجد میں چند دیگر افراد بھی موجود تھے جن میں سے بیشتر کی نظریں اسی کی طرف متوجہ تھیں۔اس کا دل واپس حویلی کے اس کمرے میں جانے کو نہیں چاہا تو ارباب،اسے لے کر بستی اور حویلی کی عقبی طرف چل پڑا۔مرشد کی صحت گو متاثر ہوئی تھی لیکن اس کی شخصیت کے رعب داب میں کوئی فرق نا آیا تھا۔بستی میں سے گزرتے ہوئے کئی آنکھیں اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔کچھ لوگوں اور نوجوانوں نے خود آگے بڑھ بڑھ کر اسے اور ارباب کو سلام کیا….وہ اسے لے کر حویلی کی عقبی طرف کھیتوں میں آگئے۔یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک دو چھپر اور ڈھارے سے دکھائی دے رہے تھے۔وہ پانی والے کھال کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے ان کے قریب پہنچ گئے۔یہاں کھال کے اوپر ہی دو جہازی سائز ماچے بچھے ہوئے تھے۔ارد گرد سفیدے اور پیپل کے درختوں کی کثرت کے باعث یہاں گھنی اور ٹھنڈی چھاو�¿ں تھی۔دو تین مزارع قسم کے بلوچ جو،ان ماچو ں پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے وہ ان کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بائیں جانب موجود ایک دو کچی کوٹھریاں اور چھپر سے بتا رہے تھے کہ یہ ڈیرہ ٹائپ جگہ ہے۔
ارباب اسے ماچے پر بےٹھنے کا کہتے ہوئے ،ان مزارعوں کو ساتھ لیتے ہوئے ان کچی کوٹھریوں کی طرف چلا گےا اور مرشد اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے ماچے پر چڑھ بیٹھا….اچھا خاصا گرم دن تھا پھر بھی یہاں،اس چھاو�¿ں میں آتے ہی جیسے یک دم گرمی کا سارا اثر زائل ہوگیا تھا۔مرشد کے اعصاب پر ایک خو ش گوار اثر پڑا۔یہاں ارد گرد سفیدے اور پیپل کے درختوں کی کثرت دیکھ کر اندازا ہوتا تھا کہ انہیں باقاعدہ کاشت کیا گیا ہے۔ان کے علاوہ دور دور تک وہی…. چاول کی ہری فصل پھیلی تھی۔ادھر سے نصف فرلانگ پر حویلی کی پرانی عمارت اور بستی دکھائی دے رہی تھی تو مخالف سمت کوئی تین فرلانگ دور،دریائے چناب خاموشی سے بہہ رہا تھا۔وقفے وقفے سے آنے والے ہوا کے گرم جھونکے….درختوں کے اس جھنڈ میں گھستے ہی اپنی تیش کھو بیٹھتے تھے۔ مرشد کو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر،دو دو تین تین مسلح بلوچوں کی ٹولیاںنظر آئیں جو یوں ہی ادھر ادھر کھیتوں میں ،درختوں کے نیچے گپوں میں مصروف تھے۔اس کے ہونٹوں پر بے ساختہ ایک مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے وہیں پڑا ایک میلا سا تکیہ بغل میں دبوچا اور حقے کی نے سنبھالتے ہوئے بالکل مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔
یہ سارا ماحول،سارے منظر،یہ ساری دنیا ہی کچھ نئی اور تازہ تازہ سی لگ رہی تھی۔اسے خیال آیا کہ یہ سارا زمینی رقبہ شہاب الدین سرکار کا ہے۔حجاب سرکار کے دادا کا،جس کی بجا طور پر وہ وارث تھیں۔ لگ بھگ ڈیڑھ مہینا پہلے وہ یہیں موجود تھیں، وہ ….سامنے نظر آتی ملک منصب کی حویلی میں…. اور اب یہاںسے سینکڑوں میل آگے کہیں….بلند پہاڑوں کے اس پار بیٹھی تھیں۔پتا نہیں ان گزرتے لمحوں وہ کس حال میں ہوں گی؟ خوش یا اداس؟….پتا نہیں انہیں اس کا خیال،اس کی یاد آتی بھی ہوگی یا نہیں….آتی بھی ہوگی تو وہ اس پر دھےان نہیں دیتی ہوں گی….اور وہ بھلا دھیان دیتی بھی کیوں؟اب توآگے ان کی شادی ہونی تھی۔عین ممکن تھا کہ وہ اپنی شادی کی تیاریوں ہی میں مگن ہوں! اس نے سر جھٹکا….پھر وہی سب شروع ہورہا تھا۔اسے اب حجاب بی بی کے متعلق زیادہ نہیں سوچنا تھا مگر ذہن تھا کہ رہ رہ کر پٹری سے اتر جاتا تھا۔
٭ ٭ ٭
سر مرشد کی لیٹسٹ اپڈیٹ ادھے تو کیسے ملے گی یہاں تو صرف 28 تک شو ھورہی ھےاَلسَّلامُ عَلَيْكُم
گروپ کا نام عبارت گاہ IBARAT GAH
Murshid ki 81 sy agy wali episf
اوپر فیس بک کے گروپ کا ذکر کیا گیا ہے ، اس گروپ میں ملے گی