مرشد (اردو ناول) قسط نمبر5

قدم قدم ہنگاموں اور حادثوں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے عشق کی رودادِ دل گداز

مرشد

شاہی محلے کا نمازی بدمعاش جس نے سرکار سے عشق کیا اور عشق کی مریدی

عقب میں دیوار تھی۔ سامنے کمرے کا دروازہ، جو چوپٹ کھلا ہوا تھا مگر دروازے اور حجاب کے درمیان ہاشو حائل تھا۔

”چل میری مخمل کی گڈی! خود ہی ادھر پلنگ پر آ جا ورنہ زیادہ تکلیف اٹھانا پڑے گی تجھے… چل شاباش۔“

ہاشو نے حجاب کے سامنے رکتے ہوئے پلنگ کی طرف آنکھ کا اشارہ کر کے اوباشانہ انداز میں کہا۔

”دیکھو! تم لوگوں کوخدا رسول کاواسطہ ہے مجھے یہاں سے جانے دو۔ میں… میں کبھی بھی یہ سب نہیں کرسکتی اور… اور اگر تم لوگ نہیں مانے تومیں موقع ملتے ہی اپنی جان دے دوں گی… مار ڈالوں گی خود کو مگر ایسی زندگی نہیں گزاروں گی۔ خدا کے لیے مجھے جانے دو… جانے دو مجھے۔” بات کرتے کرتے حجاب کی آواز بھرا گئی۔ وہ عقب میں دیوار سے جا لگی تھی۔ دل و دماغ میں گھبراہٹ اور خوف نے ایک ہیجان برپا کر ڈالا تھا۔

”اوئے کچھ نہیں ہوتا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تو ادھر آ۔“

ہاشو نے آگے بڑھ کر اسے بازو سے دبوچ کر اپنی طرف کھینچا تو حجاب نے اس کی کلائی میں اپنے دانت گاڑ دیئے۔ ہاشو کے حلق سے سسکاری سی نکل گئی۔

حجاب کے بازو سے اس کی گرفت ختم ہوئی تو اس نے دوسرے ہاتھ سے حجاب کو چٹیا سے دبوچا اور کھینچ کر پلنگ پر دھکا دے دیا۔ حجاب کے حلق سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔ اس نے تڑپ کر پلنگ سے دروازے کی طرف بڑھنا چاہا مگر ہاشو نے دوبارہ اسے بالوں سے دبوچا اور ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کر دیا۔ وہ دوبارہ چیختی ہوئی پلنگ پر الٹ گئی۔ اگلے ہی پل وہ پھڑک کر سیدھی ہوئی تو منہ پر ایک اور زور دار ضرب پڑی۔ ہاشو پر پوری طرح جنون سوار ہو گیا تھا۔ وہ غصے میں بول رہا تھا۔ حجاب کو ننگی گندی گالیاں دے رہا تھا۔

”پیار کی زبان تجھے سمجھ نہیں آئی… اب تجھے سیدھے طریقے سے سمجھاتا ہوں۔“

حجاب کی دونوں ٹانگیں اپنے گھٹنوں کے درمیان جکڑتے ہوئے ہاشو نے ایک ہاتھ سے اس کی ایک کلائی دبوچ لی اور دوسرا ہاتھ اس کے گریبان پر ڈال دیا۔ غالباً وہ جھٹکا دے کر اس کا گریبان پھاڑنا چاہتاتھا۔ حجاب کے لیے وہ بڑے قیامت خیز لمحات تھے۔ اس نے اپنے آزاد ہاتھ سے فوراً ہاشو کی کلائی تھامی اور اپنے گریبان پر موجود اس کے ہاتھ کے انگوٹھے پر اپنے دانت جما دیئے۔

اس کے رگ و پے میں دوڑتی تمام وحشت اور ہیجان اس لمحے اس کے دانتوں میں سمٹ آیا تھا۔ لاکھ ضبط کے باوجود ہاشو کے حلق سے ایک درد ناک چیخ نکل گئی۔ انگوٹھے میں اترنے والی اذیت نے ایک ذرا تو اس کے حواس مختل کر کے رکھ دیئے۔ حجاب کے گریبان سے اس کی گرفت ازخود ختم ہو گئی۔

اس نے دوسرے ہاتھ سے حجاب کے چہرے پر مکا رسید کرنے کی کوشش کی۔ ٹھیک اسی وقت حجاب نے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش میں اپنی تمام قوت صرف کر ڈالی۔ ہاشو کا توازن کچھ گڑبڑایا، اس نے سنبھلنے کی کوشش کی مگر حجاب کے گھٹنوں کی اضطراری مگر شدید حرکت نے اسے دھکا سا دیا اور وہ سنبھلتے سنبھلتے پلنگ سے نیچے لڑھک گیا۔

حجاب بجلی کی سی تیزی سے تڑپ کر پلنگ کی پائنتی کی طرف کھسکی‘ آگے صرف تین چار قدم کے فاصلے پر دروازہ تھا مگر یہ گویا صدیوں کا فاصلہ تھا۔ لیکن صورت حال کی سنگینی نے اس کے وجود میں بھی برقی رو دوڑا دی تھی۔

اس نے پلنگ ہی سے دروازے کی سمت جست لگائی تھی۔

نزہت بیگم کی جھنجلائی ہوئی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی مگر الفاظ سمجھ نہیں آئے ۔ہاشو بھی سنبھل کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ پھر نزہت بیگم اور ہاشو ایک ساتھ عقب سے اس پر جھپٹے، ہاشو کا ہاتھ اس کے کندھے پر پڑا تو اس کے حلق سے بے ساختہ ایک دہشت زدہ چیخ نکل گئی۔ ایک تیز چررر… کی آواز ابھری اور اس کی قمیص کا بازو کندھے سے آستین تک ادھڑتا چلا گیا۔

نزہت بیگم اور ہاشو آپس میں الجھ کر گرے تھے۔ وہ خود ڈگمگا کر دروازے سے ٹکرائی تھی لیکن نہ تو اس نے پلٹ کر دیکھا اور نہ دروازے کی ٹکر سے چہرے پر لگنے والی چوٹ کو محسوس کیا۔ اگلے ہی پل وہ دروازے سے باہر تھی۔ وہ بغیر سوچے سمجھے دوڑی تھی۔ احساس اس وقت ہوا جب اس نے خود کو اس مختصر سے صحن سے آگے موجود طویل برآمدے میں پایا۔ تین چار دروازے تھے اور بائیں ہاتھ ایک راہداری۔

عقب میں قریب آتی ہاشو اور نزہت بیگم کی غیر انسانی آوازیں جو بالکل اس کے سر پر پہنچ آئی تھیں۔ کسی بھی لمحے ہاشو کا پنجہ اسے عقب سے دبوچ سکتا تھا۔ حجاب کے پاﺅں اسے راہداری کی طرف بھگا لے گئے۔ اس کی دہشت زدہ چیخیں اور نزہت و ہاشو کی آوازیں پورے گھر میں گونج اٹھی تھیں۔

حجاب نے دوڑتے ہوئے دیکھا کہ راہداری کے سامنے کی سمت سے شگفتہ بانو اور ایک پستہ قامت شخص نمودار ہوا جسے وہ پہلے بھی ایک دو بار دیکھ چکی تھی۔ وہ دونوں اسی سمت آ رہے تھے اور عقب سے ہاشو اور نزہت بیگم دوڑتے آرہے تھے۔

”اے شگفتہ، اچھو! پکڑنا ذرا اس کتیا کو۔“

نزہت بیگم کی تیز پکار اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ شگفتہ اور وہ اچھو نامی ٹڈا انسان فوراً چوکس ہوتے دکھائی دیئے۔ حجاب اس صورت حال پر کچھ مزید حواس باختہ ہوگئی۔ واحد یہی ایک راستہ اس کے سامنے تھا اور یہ بھی مسدود ہو چکا تھا۔ پچیس تیس قدم کی اس راہداری کو وہ آدھے سے زیادہ طے کر آئی تھی کہ اچانک راہداری میں بائیں ہاتھ موجود ایک کمرے کے دروازے سے ایک گھبرائی ہوئی سی عورت نکل کر اچانک اس کے سامنے آگئی۔

یہ بیمار صورت بھی اس کی نظر آشنا تھی کل جس وقت اس نے فرار ہونے کی کوشش کی تھی اس وقت یہ عورت برآمدے میں کھڑی دکھائی دی تھی اور غالباً اسی نے مرشد نامی غنڈے سے ہاشو کی جان چھڑائی تھی۔ اس کو اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا وہ بے اختیار اس عورت کے عقب میں سمٹ گئی۔

”خالہ جی! مجھے بچالیں ،آ… آپ کو آپ کے رب کا واسطہ ۔رسول کا واسطہ مجھے بچالیں۔“

”کک… کیا بات ہے ؟“

”بائی جی…ہٹ جاﺅ۔“

”اندرجا حسن آرا! حاشو تو پکڑ لے اس حرام کی جنی کو۔“ ہاشو اور نزہت بیگم سر پر پہنچ چکے تھے۔

”….خدا کے لیے مجھے بچا لیں… یا اللہ…“

حجاب کی حالت اور دلدوز آہ و بکا پر حسن آرا کا دل ہل کر رہ گیا۔

”رک جاﺅ ہاشو!“ حسن آرا نے حجاب کی طرف بڑھتا ہوا ہاشو کا ہاتھ درمیان ہی میں تھام لیا۔ حجاب بے اختیار دو قدم مزید پیچھے ہٹ کر کمرے کے اندر سرک گئی۔ دروازے کے بالکل سامنے حسن آرا موجود تھی۔
”بائی جی! تم ایک طرف ہو جاﺅ۔“

”میں نے کہا رک جاﺅ۔“

ہاشو نے پیش قدمی کی کوشش کی تو حسن آرا کچھ مزید دروازے کے سامنے جم کر کھڑی ہو گئی۔

”خبردار جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو!“

”بائی جی!“

”حسن آرا! تو ہٹ جا سامنے سے۔ ہاشو! چٹیا سے کھینچ کر لا اس …(ناقابل اشاعت) کو“‘ نزہت بیگم نے قریب پہنچتے ہی حسن آرا کو بازو سے پکڑ کر دروازے کے سامنے سے ایک طرف ہٹانا چاہا تو حسن آرا نے ایک جھٹکے سے بازو چھڑا لیا۔

”پیچھے ہٹو ہاشو!“

اس نے ہاشو کے برہنہ سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیچھے کی طرف دھکیلا تو وہ متذبذب سے انداز میں نزہت بیگم کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے زخمی انگوٹھے سے خون رس رہا تھا اور چہرے پرغیض و غضب رقصاں تھا۔

”حسن آرا! میں کہہ رہی ہوں تو ایک طرف ہو جا۔“ نزہت بیگم نے دوبارہ حسن آرا کا بازو تھامنا چاہا مگر حسن آرا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

”رک جاﺅ اماں! بات کیا ہے؟ کیوں اس لڑکی پر ظلم ڈھا رہی ہو تم۔“

حسن آرا کے لہجے میں سخت ناگواری تھی۔ پہلے حجاب کی حالتِ زار اور اب ہاشو کو دیکھتے ہوئے پوری صورت حال خود بخود اس پر واضح ہو چکی تھی۔

حجاب نے اضطراری انداز میں اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی دوسرا دروازہ نہیں تھا۔ واحد یہی ایک دروازہ تھا جس کے سامنے یہ بیمار صورت کمزور سی عورت کھڑی، آنے والی خون آشام بدروحوں کو باہر ہی روکے رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس عورت اور حجاب کے درمیان صرف دو قدم کافاصلہ تھا اور درمیان میں ایک باریک سفید ریشمی پردہ۔ کسی بھی لمحے ہاشو اور نزہت بیگم اس عورت کو ایک طرف دھکیل کر اندر آسکتے تھے۔

”تجھے اس سے کیا؟ تو اندر جا کے آرام کر‘ ہٹ سامنے سے۔“

”میں نہیں ہٹوں گی۔ تم مجھ سے بات کرو۔ پہلے مجھے بتاﺅ سمجھاﺅ‘ کیا ہے یہ سب‘ کیوں ایسا کر رہی ہو تم۔“

”دیکھ حسن آرا! تو اپنی گزار‘ اپنی بھوگ ۔ہمارے معاملات کے بیچ مت آ‘میں کیا کر رہی ہوں‘ کیوں کررہی ہوں‘اس کے لیے میں تجھے جواب دہ نہیں ہوں‘ نہ تو ایسی جواب طلبی کا حق رکھتی ہے۔ اس حرافہ کو باہر نکال اور جا کر اپنے بستر پر آرام کر‘ نکال اس کو…ہٹ۔“

پھر وہ ہاشو کی طرف متوجہ ہوئی۔

”منحوس صورت! تو یوں کھڑا کیا کر رہا ہے ؟ اندر سے کھینچ کر نکال لااس اتھری گھوڑی کو۔“

”خالہ تو اس کی حمایتی کیوں بن رہی ہے تو ایک طرف ہوجا۔“

شگفتہ نے آتے ہی اس کو بازو سے پکڑ کر ایک طرف کھینچا۔ دوسرے بازو سے فوراً نزہت بیگم نے اسے تھام لیا اور ہاشو چھپاک سے کمرے کے اندر داخل ہوگیا۔

”نہیں…خدا کے لیے نہیں … خدا کے لیے مجھے جانے دو… جانے دو مجھے۔“

ہاشو کے اندر آتے ہی حجاب بری طرح گھگھیائی تھی۔ حسن آرا نے خود کو چھڑانا چاہا تو عشرت جہاں آ کر اس کے اور دروازے کے درمیان حائل ہو گئی۔

”شگفتہ! چھوڑ مجھے۔“

”پاگل مت بن حسن آرا! تو اس معاملے سے الگ رہ۔“ نزہت بیگم نے دانت پیسے تھے۔

ہاشو کے اندر آتے ہی حجاب تڑپ کر کئی قدم پیچھے ہٹتی چلی گئی‘ مگر ہاشو نے لپک کر اسے بالوں سے دبوچ لیا۔

”خدا کے لیے کوئی تو میری مدد کرے۔“ حجاب حلق کے بل چیخ اٹھی۔ اس کی دل خراش چیخ پر حسن آرا کو اپنا دل کٹتا ہوا محسو س ہوا۔ اس کے دیمک زدہ اعصاب اور کمزور دل کے لیے یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ اس نے ایک زور کے جھٹکے سے اپنے بازو چھڑائے اور عشرت جہاں کو دھکیلتے ہوئے کمرے کے اندر داخل ہو آئی۔ وہ تینوں اسے پکڑتی پکارتی رہیں‘ مگر حسن آرا نے فوراً آگے بڑھ کر ہاشو کی کمر پر دوہتڑ رسید کیے۔

”چھوڑ دے اسے ہاشو! میں کہتی ہوں چھوڑ اسے ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔“ ہاشو حجاب کو بالوں سے پکڑے دروازے کی طرف گھسیٹنا چاہ رہا تھا حسن آرا نے جھپٹ کر اسے بالوں سے دبوچ لیا۔ ہاشو کی گرفت حجاب کے بالوں سے ختم ہوئی تو نزہت بیگم اور شگفتہ اس پرجھپٹ پڑیں۔ حسن آرا نے فوراً سے پیشتر ایک قدم آگے بڑھا کر شگفتہ کے منہ پر طمانچہ رسید کیا اور نزہت بیگم کو دھکا دے کر حجاب سے دور کر دیا۔ اور خود فوراً ہی بازو پھیلا کر حجاب کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہو گئی۔

”بس… بہت ہو گیا! اب کوئی ایک قدم بھی آگے بڑھا تو میں کسی کا لحاظ نہیں کروں گی، منہ نوچ لوں گی میں۔“

حسن آرا کے چہرے اور لب و لہجے میں ایسی تپش تھی جو ایک دفعہ تو ان چاروں کوٹھٹکا گئی۔ اس کا یہ روپ ‘ یہ تیور ان سبھی کے لیے بالکل نئے تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی اس سے اس درجہ سخت اور شدید ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ تینوں کینہ توز نظروں سے حسن آرا کو گھور رہے تھے۔ ان کابس چلتا تو حسن آرا کو بھی دھنک کر رکھ دیتے مگر ایک مشترکہ خیال ان تینوں کے لیے جیسے نادیدہ زنجیر بن گیا تھا اور وہ تھا مرشد کا خیال۔

”حسن آرا! تو پاگل ہو گئی ہے کیا؟“نزہت بیگم نے جھلاہٹ سے کہا۔

”پاگل تو تم لوگ ہو چکے ہو اماں! کیا بگاڑا ہے اس لڑکی نے تمہارا۔ کس بات کی دشمنی نکال رہے ہو تم سب؟“

”اس کلموہی نے کس کا کیابگاڑا ہے یہ تو نہیں جانتی۔ بہتریہی ہوگا کہ تو درمیان سے ہٹ جا… نہ اپنے لیے مصیبت کھڑی کر اور نہ ہمارے لیے۔“

”اماں! تو اس چھوکری کے بدلے اس حسنو کی بات طے کر لے آگے ‘اور اسی کو روانہ کر دے۔ سب کی جان چھوٹ جائے گی۔“

شگفتہ نے زہر ناک لہجے میں کہا تو عشرت جہاں نے فوراً اسے جھڑک دیا۔

”تو اپنا منہ بند رکھ۔ کوئی ضرورت نہیں تجھے درمیان میں بولنے کی۔“

شگفتہ نے ایک نظر ناگوار عشرت جہاں پر ڈالی اور غصے سے پاﺅں پٹختی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ اچھو دروازے میں کھڑا اپنی موٹی موٹی آنکھیں پٹپٹا پٹپٹا کر سب کچھ دیکھ سن رہا تھا۔ حجاب کسی کم سن بچی کی طرح حسن آرا کے عقب میں سہمی کھڑی تھی۔ اس کے پورے وجود پر ایک لرزہ طاری تھا۔

نزہت بیگم نے لہجے میں نرمی پیدا کر لی تھی۔

”تم نے ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی معاملہ طے ہی کیوں کیا تھا۔“

”تو کیسے لوگوں سے معاملات کروں میں؟ یہ کوئی دربار مزار یا مدرسہ نہیں ہے۔کیا ہو گیا ہے تیری عقل کو؟“

جو بھی ہو… میں یہ سب نہیں دیکھ سن سکتی… میرے دل و دماغ میں اتنی تاب نہیں ہے۔”“

”تو پھر تو ایسی جگہ‘ ایسے ماحول میں رہ کیوں رہی ہے ؟ کیوں مرشد کی بات مان کر کسی پر سکون اور پر امن جگہ پر نہیں چلی جاتی؟“

”میری مٹی جو یہیں کی ہے۔“ حسن آرا کے لہجے میں یکایک آزردگی گھل آئی۔ ”یہیں پیدا ہوئی ہوں… یہیں مروں گی۔“

”تو نہیں مرے گی حسن آرا! تو ہم سب کو مروائے گی ۔اپنے ساتھ ساتھ تو ہمارے ساتھ بھی دشمنی کر رہی ہے۔“

عشرت بولی۔”دیکھ حسن آرا! تو اپنی زندگی اپنے ڈھنگ سے جیتی آئی ہے ۔تجھے اماں یا کسی نے بھی کبھی کسی بات پرمجبور نہیں کیا۔ کسی نے تیری زندگی میں مداخلت نہیں کی پھر تو کیوں دوسروں کے معاملات میں دخل دے رہی ہے۔ کیوں دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے ؟“ اس نے بھی نرمی اختیار کرلی تھی۔

”میں کسی کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کر رہی۔ بس میرے لیے یہ شور شرابا یہ ظلم‘ مار پیٹ قابل برداشت نہیں‘ میں یہ سب نہیں دیکھ سن سکتی۔“

”ہم بھی یہ سب نہیں چاہتے‘ مگر یہ لڑکی ہماری مجبوری اور اپنی قسمت ،اپنی مصیبت کو ماننے‘سمجھنے کو تیار ہی نہیں تو پھر اور کیا طریقہ اختیار کریں ہم۔“

”بالکل … تو خود اس سے پوچھ کے دیکھ لے ،ہم سب نے باری باری کتنا سمجھایا ہے اسے کہ نہ تیرے پاس اور کوئی راستہ ہے نہ ہمارے پاس کوئی چارہ، لیکن اول نمبر کی ڈھیٹ اور ضدی ہے، اس حقیقت کو قبول کرنا چاہتی ہی نہیں یہ۔“ نزہت بیگم نے لہجے میں کچھ مزید نرمی سمو لی۔

”اسے سوچنے سمجھنے کا وقت تو دو اماں! زبردستی تو کوئی طریقہ نہیں ہے کچھ بھی سمجھانے کا۔“ حسن آرا کی بات پر نزہت بیگم اندر ہی اندر دانت پیس کر رہ گئی۔ اس نے یوں حسن آرا کی طرف دیکھا جیسے اس کی عقل پر ماتم کرنے کا سوچ رہی ہو۔

”جاﺅ ہاشو تم…“ حسن آرا کی بات پر ہاشو نے فوراً نزہت بیگم کی طرف دیکھا۔

”حسن آرا…“

”تم بھی جاﺅ اماں!“ حسن آرا نے نزہت بیگم کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

”یہ فی الوقت یہیں میرے پاس رہے گی۔ میں اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہوں۔ ابھی تم لوگ جاﺅ‘ میں کچھ دیر میں آتی ہوں‘ پھر بات کرتے ہیں اس موضوع پر۔“

عشرت جہاں‘ ہاشو اور نزہت بیگم نے باری باری ایک دوسرے کی صورت دیکھی پھر نزہت بیگم کی آنکھوں کا اشارہ سمجھ کر عشرت جہاں اور ہاشو وہاں سے چلے گئے ۔اچھو بھی ان کے پیچھے ہی کمرے سے باہر نکل گیا۔

”چل پھر میرے ساتھ ہی چل تو‘ دروازہ باہر سے بند کر دیتے ہیں۔“

”نہیں ،ابھی کچھ دیر میں آرام کرنا چاہتی ہوں۔ سر میں شدید درد شروع ہو چکا ہے میرے … تم بے فکر ہو کر جاﺅ‘ یہ یہیں ہے میرے پاس۔“

نزہت بیگم چند لمحے کھڑی رہی پھر جاتے ہوئے بولی۔

”ٹھیک ہے‘ میں جا کر انتظار کرتی ہوں۔“

وہ بھی کمرے سے نکل گئی تو حسن آرا حجاب کی طرف متوجہ ہوئی‘ جو اس کے عقب میں کھڑی سسک رہی تھی۔ اس کے نچلے ہونٹ کے گوشے سے خون رس رہا تھا۔ دائیں آنکھ کی ہڈی پر ہلکا نیلگوں ہلالی نشان بنا ہوا تھا اور اس سے نیچے اس کی خوبصورت اور نازک سے گال پر انگلیوں کے نشان چھپے ہوئے تھے۔ حسن آرا نے ہاتھ بڑھا کر حجاب کا سر اپنے کندھے پر رکھا تو حجاب کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

اتنے روز کی مسلسل عذاب ناکی کے بعد حسن آرا کی صورت ایک مہربان اور ہمدرد کے ہونے کا احساس یکایک ہی اس کے اندر جیسے ایک سیلاب لے آیا تھا۔ وہ حسن آرا کے کندھے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

”خا…لہ…مجھ پر…رحم کریں… مو…مو مجھے بچالیں۔یہ … یہ لوگ… “اس سے ٹھیک سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔

حسن آرا آہستہ آہستہ اس کی کمر تھپک تھپک کر اسے حوصلہ اور دلاسہ دیتے ہوئے اپنے پلنگ تک لے آئی۔

”بیٹھو یہاں… بالکل بے فکر ہو جاﺅ۔ میں ہوں نا۔“

حجاب کوپلنگ پر بٹھا کر اس نے ایک طرف الماری سے اپنا ایک شلوار سوٹ نکالا اورحجاب کو تھما دیا۔

”اس پردے کے پیچھے غسل خانے کادروازہ ہے۔ تم کپڑے بدل لو‘ میں اتنے میں نماز پڑھ لوں۔ پھر آرام سکون سے بیٹھتے ہیں۔ پریشان ہونے یا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے ہوتے ہوئے کوئی تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ سمجھ گئیں؟“

حجاب بس آہستہ سے اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی پھر اس نے کمرے کے کونے میں چھت تا فرش تک لٹکتے اس بھورے رنگ کے بھاری پردے کی طرف دیکھا اور آنسو پونچھتی ہوئی اٹھ کر اس طرف بڑھ گئی۔پردے کے پیچھے ایک چھوٹے سے اسٹور نما کمرے کا دروازہ تھا اور اس کے سامنے کی دیوار میں غسل خانے کا دروازہ تھا۔ حجاب وہ دروازہ کھول کر غسل خانے میں داخل ہوگئی۔

حسن آرا نامی یہ عورت فی الوقت تو اس کے لیے خدا کی طرف سے غیبی مدد بن کر ظاہر ہوئی تھی۔ اسے یہ بھی بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ کم از کم یہاں کے لوگوں پر وہ اثر و رسوخ بھی رکھتی ہے۔ اس نے دیکھا تھا کہ وہ خبیث عورتیں حتیٰ کہ وہ جنگلی سور نما انسان ہاشو بھی اس کے سامنے ایک جھجک، ایک ہچکچاہٹ کا شکار رہا تھا اور نزہت بیگم بھی اس کے ساتھ محتاط سے لب ولہجے کے ساتھ بات کرتی رہی تھی۔ اب ایسا کیوں تھا؟

اس حسن آرا کی یہاں کیا حیثیت ؟ کیا مرتبہ تھا؟ اس کا اسے کچھ اندازہ نہیں تھا!۔

حجاب کو یہ عورت ویسے بھی یہاں موجود باقی عورتوں سے خاصی مختلف سی دکھائی دی تھی۔ اس کے چہرے پر وہ خرانٹ پنا‘ وہ مکروہ تاثر نہیں تھا جو یہاں کی باقی عورتوں کے چہرے پر اسے دکھائی دیتا رہا تھا۔

اطمینان کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں تھا‘ پھر بھی غسل اس نے پوری تسلی سے کیا اور پھر جب کپڑے تبدیل کر کے واپس کمرے میں پہنچی تو حسن آرا پلنگ پر بیٹھی دکھائی دی۔ پلنگ کے سرہانے ہی مصلادھرا تھا۔ غالباً وہ نماز پڑھ چکی تھی۔

”آﺅ… ادھر آ جاﺅ۔“ حسن آرا نے فوراً اسے پکارا۔

”میں بھی نماز پڑھ لوں…؟“ حجاب نے دھیمے سے لہجے میں پوچھا۔ یوں جیسے کسی جرم کی اجازت مانگ رہی ہو۔

”کیوں نہیں۔ضرور‘ یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے کی بات ہے۔“

حسن آرا نے خوش گوار لہجے میں کہا اور فوراً سرہانے سے مصلا اٹھا کر حجاب کی طرف بڑھا دیا۔

”قبلہ اس طرف ہے۔“

حسن آرا نے اسے سمت سے آگاہ کیا۔ اور وہ مصلا بچھا کر کھڑی ہو گئی۔ آج کئی روز بعد اسے نماز پڑھنا نصیب ہو رہا تھا۔ اتنے روز کے وقفے سے پہلے کی آخری نماز اس نے عشاء کی پڑھی تھی۔ اپنے گھر‘ اپنے برآمدے میں اور اتنے دنوں کے بعد آج عصر کی نماز وہ ایک کوٹھے پر ادا کرنے کھڑی ہوئی تھی۔ حسن آرا کے کمرے میں۔

مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ نماز اور دعا کے بعد دل کو قدرے ٹھنڈک اور اطمینان کا احساس ہوا۔ اس نے مصلا واپس حسن آرا کے حوالے کیا اور اس کے قریب ہی پلنگ پر بیٹھ گئی۔

”تمہارا نام کیا ہے بیٹی؟“ حسن آرا نے مشفق لہجے میں سوال کیا اور ساتھ ہی نرمی سے حجاب کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

”جی! حجاب۔“ ً

☆ ☆ ☆

مغرب کا وقت ہونے کو تھا۔ نزہت بیگم کے کمرے میں اس کی دونوں بیٹیاں عشرت جہاں اور سندس جہاں کے علاوہ حسن آرا بھی موجود تھی۔ گزشتہ آدھ پون گھنٹے سے ان کے درمیان بات چیت جاری تھی۔ موضوع حجاب کی ذات تھی۔

حسن آرا، حجاب کی زبانی اس کی ساری بپتا تفصیل سے سن چکی تھی۔

یہ جان کر کہ وہ ایک نجیب الطرفین سید گھرانے سے تعلق رکھتی ہے حسن آرا کی تو روح ہی فنا ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ ایک طویل مدت سے اپنے دل میں سادات کی بے انتہا عزت و تکریم رکھتی تھی۔ سادات سے اسے غیر معمولی حد تک عقیدت سی تھی اوراس غیر معمولی عقیدت کی وجہ وہ غیر معمولی ہستی تھی جو اس کی زندگی کا محور و مرکز تھی۔

برسوں بیت چکنے کے باوجود آج بھی جو اس کے جسم و جاں میں رچی بسی ہوئی تھی۔ جسے ایک لحظے کے لیے بھی وہ کبھی فراموش نہیں کر پائی تھی اور آج بھی وہ ہستی حسن آرا کی پہلی اور آخری ترجیح تھی۔

”حسن آرا! جو تو کہہ رہی ہے وہ کبھی نہیں ہو گا۔ کسی صورت نہیں ہو گا۔“

نزہت بیگم بول رہی تھی۔

”میری عمر گزر چکی۔ میری ماں اور نانی بھی یہیں بھسم ہوئی مگر میں یہاں ختم نہیں ہونا چاہتی۔ مجھے جیتے جی یہاں سے جانا ہے۔ اپنا بڑھاپا رولنا نہیں چاہتی میں اور اس کی واحد صور ت یہی ایک ہے … یہ لڑکی … حالات اور قسمت کا پھیر ہے سب۔ یہ لڑکی ذمہ دار نہیں تو ہم بھی کب ذمہ دار ہیں۔ وہ اپنی جگہ مجبور ہے تو ہم بھی اپنی جگہ مجبور و لاچار ہیں۔“

”اماں ٹھیک کہہ رہی ہے حسنہ! یہ بازار اور یہاں کادھندا ٹھپ ہونے کو ہے۔ ایک موقع مل رہا ہے تو ہمیں یہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ جاگیردار نے زبان دی ہے تو وہ ضرور پوری کرے گا۔ بہتر ہے کہ ہم سب عقل مندی سے کام لیں۔ تو ذرا سوچ تو سہی… تین کنال کی عالی شان کوٹھی… ایسے موقعے روز روز تھوڑے ہی ملتے ہیں بھلا۔“ یہ سندس جہاں تھی۔

”میں نے کہا تو ہے کہ میں خود اسے سمجھاﺅں گی۔“ حسن آرا کالہجہ تھکا ہوا اور کمزور تھا۔

”اتنا وقت نہیں ہے حسن آرا! وہ سمجھائے سے سمجھنے والی چیز بھی نہیں ہے۔ میں مغز مار کے دیکھ چکی ہوں۔ وہ لاتوں کی بھوت ہے‘ باتوں سے نہیں سمجھے گی۔“

”میں باتوں ہی سے سمجھالوں گی تم دیکھ لینا۔ صرف دو دن صبر کر لو۔“

”تو کیوں بے وجہ سردردی پیدا کر رہی ہے۔ کیوں بحث کیے جا رہی ہے۔ تیری کوئی سگے والی تو وہ ہے نہیں جو تجھے اتنی تکلیف ہو رہی ہے۔ اپنے معاملے میں تو نے من مانی کر لی۔ ایک ٹکے کا فائدہ نہیں دے سکی۔ اب مزید تو جینا حرام مت کر ہمارا۔“ بے زاری اور تلخی تو جیسے نزہت بیگم کے حلق تک بھر آئی تھی۔

”بات بات پر طعنے مت دیا کرو اماں! کوئی ایک آدھ بار نہیں بیسیوں بار میں نے محفل میں رقص کیا ہے ۔تمہارے لیے ہی کیا کرتی تھی‘ اورکتنے سال گاتی رہی ہوں۔ کس کے لیے ؟ تمہارے لیے ‘ تمہاری ضرورت اور خوشی کے لیے۔ اب اگر میرا سانس ہی میرا ساتھ نہیں دیتا تو میں کیا کروں ؟ کہاں جا مروں۔“

”ہاں، دس بیس محفلیں کر کے بڑ اتیر مارا ہے تو نے، پتا نہیں وہ کیسی منحوس گھڑی تھی جب اس نحوست زدہ میر ارشد…“

”اماں…“

حسن آرا یک بہ یک اس زور سے چیخی کہ نزہت بیگم اپنی بات درمیان میں ہی بھول گئی۔ حسن آرا کے چہرے پر شدید رنج اور آنکھوں میں غصے کی آگ روشن تھی۔ اس کے بعد وہ وہاں رکی نہیں‘ اٹھی اور تیز قدموں سے کمرے سے نکل گئی جب کہ نزہت بیگم‘ عشرت اور سندس، حسن آرا اور مرشد سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پا لینے کے متعلق ،صلاح مشورہ کرنے لگیں ۔

 حسن آرا عقبی طرف صحن میں نکل آئی۔ اس کے دل میں ٹیسیں سی اٹھنے لگی تھیں۔ نزہت بیگم کاجملہ ادھورہ رہ گیا تھا مگر حسن آرا جانتی تھی کہ نزہت بیگم کیا کہنے والی تھی۔ وہ ادھورا جملہ بھی اس کے دل میں کسی تیز دھار خنجر کی طرح اتر کر رہ گیا تھا۔ دل و دماغ تو پہلے ہی بری طرح الجھے ہوئے تھے۔ حجاب پر گزر چکنے والے ظلم اور اس کو آگے پیش آنے والے حالات کے تصور نے اس کو بری طرح فکر و پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا۔

مغرب کی اذانیں ہو چکی تھیں۔ نماز کا وقت بھی گزرتا جا رہا تھا مگر حسن آرا کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے کمرے میں واپس جائے۔ وہ مظلوم و معصوم لڑکی تو پہلے ہی بری طرح ڈری سہمی ہوئی تھی اور حسن آرا اسے مسلسل حوصلے دلاسے دیتی رہی تھی۔ وہ چاہ رہی تھی کہ واپس کمرے میں اس کے سامنے جائے تو بالکل مطمئن اور پرسکون ہو۔

وہ وہیں صحن میں آہستہ قدموں سے ٹہلنے لگی۔

اس نے کہنے کو تو نزہت بیگم سے کہہ دیا تھا کہ دو دن صبر کر لو میں اس لڑکی کو سمجھالوں گی۔ یعنی اسے طوائفیت قبول کر لینے پر آمادہ کر لوں گی مگر درحقیقت اس کے دل و دماغ میں ایسا کوئی خیال تک نہیں تھا۔ وہ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اس کا اس بات سے مقصد صرف اتنا تھا کہ دو دن کی مہلت مل جائے ۔ وہ ایک طرح سے اس نے حاصل کر بھی لی تھی ،لیکن اب اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس دوران کیا کرے ؟ دو دن تو یونہی گزر جائیں گے اس کے بعد؟

ایک بار تو اس نے سوچا کہ مرشد کے ذریعے حجاب کو اس کے گھر‘ اس کے ورثا تک پہنچا دے مگر فوراً ہی اس نے اس خیال کو ذہن سے جھٹک پھینکا۔ حجاب نے بتایا تھا کہ وہ نندی پور گاﺅں کی رہنے والی ہے اور اس پر‘اس کے گھرانے پر قہر ڈھانے والے اور اسے اس کوٹھے پر لا پھینکنے والے وہاں کے جاگیردار ہیں… چوہدری فرزند علی اوراس کا باپ جاگیردار اکبر علی خان ۔ حجاب کے منہ سے نندی پور کے جاگیردار گھرانے کا ذکر سنتے ہی حسن آرا بری طرح چونک پڑی تھی اور اسی وقت سے اسے گہری فکر مندی اور پریشانی نے آ لیا تھا۔

جاگیردار اکبر علی سے وہ بہت اچھی طرح آشناتھی اور یہ آشنائی بہت پرانی تھی۔

اس خاندان کی قوت و اختیار اور کمینہ خصلتی کو وہ خوب جانتی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ یہ لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور کچھ بھی کرگزرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مرشد کو ایسے زہریلے اور با اختیار لوگوں کے مقابل تو کیا لانا اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اسے ویسے ہی اس معاملے سے بالکل بے خبر رکھے گی اور اس مسئلے کا کوئی دوسرا حل، کوئی دوسرا ذریعہ نکالے گی…

پھر ساتھ ہی یہ الجھن بھی تھی کہ حجاب کے اغوا کے بعد وہاں …نندی پور میں نجانے کیا ہوا… جتنا حجاب کی زبانی اسے معلوم ہوا تھا اور جوحالات حجاب کو درپیش تھے ان سے تو یہی اندازہ ہوتا تھا کہ اس کے بھائیوں اور باپ کو جاگیرداروں کے سامنے بری طرح ہزیمت اٹھانا پڑی ہو گی ۔جاگیرداروں کی فرعونیت کے پیش نظر بھی حسن آرا کی سمجھ میں یہی آ رہا تھا کہ جو سنگین صورت حال وہاں پیدا ہو گئی تھی، وہ یقینا خرابی کاباعث بنی ہو گی اور عین ممکن تھا کہ جاگیرداروں نے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑا ہو۔

وہ ٹہلتی رہی اور اس کا دماغ جمع نفی میں مصروف رہا۔

اگر وہاں کوئی زندہ باقی ہے بھی تو حجاب وہاں پہنچ کر بھی غیر محفوظ ہی رہے گی … جاگیرداروں کی دسترس میں۔ انہی کی سلطنت میں،‘انہی کے رحم و کرم پر۔ اور اگر اسے کہیں اور پہنچایا جائے تو کہاں… کیسے ؟ اور بالفرض اسے کسی طرح یہاں سے نکال کر کسی محفوظ جگہ پہنچا بھی دیا جائے تو ؟ اس کے بعد…؟

ایسے میں جاگیرداروں کی اندھی انا‘ ان کے انتقام کا رخ کس کی طرف ہوگا یہ بھی واضح اور روشن تھا۔ ایسے میں مرشد اور جاگیرداروں کا ٹکراﺅ لازمی تھا اور حسن آرا اچھی طرح جانتی تھی کہ مرشد لڑ کر مرجانا تو پسند کر لے گا مگر اپنی باجی امی کی توہین یا فرعونوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنا کبھی بھی اور کسی بھی صورت گوارا نہیں کرے گا۔

شدید الجھن کے باعث حسن آرا اپنی پیشانی مسلتی ہوئی صحن کی ایک دیوار سے ٹیک لگا کر فرش ہی پر بیٹھ گئی۔ کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ذہنی کشمکش کسی کنارے نہیں لگ رہی تھی۔ کیا کیا جانا چاہیے اور کیا نہیں… اس حوالے سے وہ فی الوقت کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر تھی۔

☆ ☆ ☆

چار قدم کے فاصلے پر بالکل سامنے ہی قالین پر مصلا بچھا ہوا تھا مگر توقع کے قطعی برخلاف، مصلے پر اماں نہیں کوئی اور ہی بیٹھا تھا۔ ایک لڑکی … اس کا بایاں رخ ہی سہی مگر وہ پوری طرح نظر نا آشنا تھا اور … اور وہ نماز پڑھ رہی تھی۔

مرشد نے ایک عجیب خوشگوار حیرت کو خود پر اترتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ متعجب سا دروازے کے بیچ میں کھڑا رہ گیا۔

اس لڑکی کے وجود پر موجود جامنی رنگ کے اس سوٹ کو مرشد کی آنکھوں نے فوراً پہچان لیا۔ وہ اس کی باجی امی کا تھا۔ جامنی دوپٹے کے ہالے میں جھلک دکھلاتا وہ آدھا چہرہ تو جیسے آدھے سچ کی صورت کمرے میں روشن تھا۔ ایک سنجیدہ سی سادگی جیسے اس چہرے کے خال و خد ہی کا حصہ تھی۔ آنکھ کے قریب ایک نیلگوں نشان تھا اور نچلے ہونٹ پربھی ہلکا سا ورم موجود تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ سر جھکائے قعدے کی حالت میں بیٹھی تھی۔

مرشد نے آج سے پہلے تک یہاں صرف اپنی باجی امی ہی کو نماز پڑھتے دیکھا تھا یا پھر وہ خود تھا۔ باقی سب تو یو نہی تھے … گیارہویں شریف، داتا صاحب کاعرس اور محرموں کی رسم نبھانے والے… مگر آج یہاں، اس کے سامنے ایک تیسری اجنبی شخصیت اپنے اطراف سے بالکل غافل، خدا کے حضور سر جھکائے بیٹھی تھی۔

پھر اس لڑکی نے آہستہ سے سلام پھیرا اور کچھ دیر تک ویسے ہی آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی۔ سر کچھ مزید جھک گیا تھا۔

پھر ایک آہ نما سانس لیتے ہوئے اس نے سر اٹھایا اور آنکھیں کھولتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ تبھی شاید اسے دروازے میں کسی اجنبی کی موجودگی کا احساس ہوا… اس نے چونک کر گردن موڑی اور مرشد کو یک ٹک اپنی طرف گھورتے پا کر بری طرح گھبراہٹ کاشکار ہوگئی۔

مرشد نے دیکھا کہ ایک ہی لمحے میں اس لڑکی کے چہرے اور آنکھوں میں کتنے ہی رنگ گڈمڈ ہو کر رہ گئے۔ سراسیمگی ‘اندیشے ‘ گھبراہٹ‘ پریشانی وہ گڑبڑا کر اٹھی اور اضطراری انداز میں چند قدم پرے ہٹ گئی۔ وہ اس غنڈے بدمعاش کوفوراً پہچان گئی تھی۔

مرشد سر تاپا بغور اس لڑکی کا جائزہ لیتا ہوا کمرے کے اندر داخل ہو آیا۔ لڑکی اچھی صحت اور اچھے قد کاٹھ کی مالک تھی۔ وجود انتہائی موزوں اور متناسب، چھوٹے چھوٹے سے نرم و نازک ہاتھ پیر، کشادہ پیشانی، شفاف اور چمک دار آنکھیں، جن میں اس وقت خوف اور وحشت چمک رہی تھی۔ چہرے کی بناوٹ انتہائی دلکش، اور صاف، گورا چٹا رنگ۔…

اس پہلی بھرپور نظر میں ہی مرشد کو اندازہ ہو گیا کہ یہ روح تو کسی اور ہی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لڑکی کے چہرے‘ اس کی آنکھوں ، اس کی شخصیت میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جس نے مرشد کے اندر کہیں گہرائی میں ایک عجیب سمجھ میں نہ آ سکنے والی ہلچل سی مچادی۔ ایک جھنجھنا ہٹ سی تھی جو برق رفتاری سے اس کے اندر بیدار ہوئی تھی۔ مرشد کو پہلے تو کچھ الجھن ہوئی اور پھر ایک عجیب سی گھبراہٹ اس کے دل میں آ دھڑکی۔

”کون ہے تو؟“

اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے بھویں اچکا کر کھردرے سے انداز میں سوال کیا۔

”جی میں … وہ… خالہ…“ وہ صرف ہکلا کر رہ گئی۔ مرشد کواندازہ ہو گیا کہ لڑکی کا حلق خشک ہے اور وہ اس سے خوف زدہ بھی ہے۔ مگر کیوں؟ مرشد کے لیے تو وہ قطعی اجنبی تھی۔ وہ تو اسے دیکھ ہی پہلی بار رہا تھا۔ پھر بھلا وہ اس سے کیوں اتنی دہشت زدہ تھی؟ نجانے کیوں یکایک ہی مرشد کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔

 دوسری طرف وہ لڑکی اپنی جگہ ڈری ہوئی ہرنی کی طرح کھڑی سراسیمہ نظروں سے مرشد نامی اس غنڈے کو دیکھ رہی تھی، جو نجانے کس نیت سے کمرے میں گھس آیا تھا….۔ وہ چند لمحے کھڑا اسے گھورتا رہا پھر دو قدم مزید آگے بڑھا تو لڑکی بے اختیار پیچھے ہٹ کر دیوار سے جا لگی۔

اپنے کسی پیارے کے ساتھ شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے