مریخ پر انسان کو بھیجنے کے حوالے سے زیادہ شور و غوغا مت مچائیے۔ مریخ کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا۔ جبکہ سمندروں کی طرف توجہ سے پہلو تہی کر کے ہم آنے والے چند ہی سالوں میں بڑی مشکلات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
خلائی سفر اور سمندر
ایک طرف خلائی سفر کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ لیکن دوسری طرف اسی قسم کی ایک اور مہم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی اور وہ ہے سمندر کی سطح کی سب سے گہری جگہ جانا جو تقریبا 7 میل گہری ہے۔ اور یہ سفر مشہور فلم ساز جیمز کیمرون نے نیشنل جیو گرا فک کی جانب سے کیا تھا۔
ایک طرف معروف جریدے فارن افئیرز نے "کیس فارا پیس“ کے نام سے کور اسٹوری شائع کی تو "سکسٹی منٹ“ نامی مشہور پروگرام میں خلائی پروگرام میں کٹوتی کی وجہ سے فلوریڈا کی خلائی صنعت پر پڑنے والے برے اثرات کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا۔ ری پبلکن صدارتی امیدوار نیوٹ گرینچ نے تو صدر بننے کی صورت میں چاند پر ایک بستی بسانے کا وعدہ بھی کر لیا ہے۔ جبکہ صدر براک اوبامہ نے بھی امریکی خلابازوں کو مریخ پر بھیجنے کی بات کی تھی۔ لیکن کسی نے بھی سمندر کی جانب توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
دیکھا جائے تو انسانوں کو مریخ پر بھیجنے کے پروگراموں پر اربوں ڈالر برباد کرنے کے بجائے ایسے منصوبوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو کم قیمت ہونے کے ساتھ زیادہ محفوظ بھی ہوں۔ یعنی انسانوں کو مریخ یا خلا میں بھیجنے کے بجائے سائنس اور انجینئرنگ سمیت سمندر کی سیاحت اور تحقیق کے بڑے منصوبوں پر زیادہ توجہ دی جائے۔
بہتر خلائی مسافر- انسان یا روبوٹس؟
خلائی منصوبوں کے اتنے زیادہ مہنگے ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے۔ کہ انسانوں کو محض خلا میں بھیجنا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ انہیں زندہ واپس لانے کیلئے آکسیجن، غذا اور پانی سمیت بے شمار چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جبکہ روبوٹ مسلسل سفر کرتے ہوئے نت نئی کہکشاؤں کی تلاش جاری رکھ سکتے ہیں۔ انسانوں کو خلا میں لے جانے والی گاڑیوں کو بہت محفوظ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ چند روبوٹس کے نقصان پر پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔
روبوٹس کی خوراک بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ روبوٹس کو زیادہ عرصے تک خلا میں رکھنے سے بے وزنی کی حالت میں انسانوں کو لاحق ہونے والی بیماریوں کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ روبوٹس کو تابکار شعاعوں سے محفوظ کرنا انسانوں کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ جبکہ روبوٹس وہ تمام افعال سرانجام دے سکتے ہیں جو انسان خلا میں جا کر کرتے ہیں۔
برطانوی خلا نورد مارٹن ریز
برطانوی خلا نورد مارٹن ریز نے لکھا ہے کہ میرے خیال میں انسانوں کو خلا میں بھیجنے کی وجوہات دن بدن جدید اقسام کے روبوٹس وغیرہ کے متعارف ہونے کی وجہ سے کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ اب انسانوں کو چاند، مریخ یا خلا میں بھیجنے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہا ہے۔
نوبیل انعام یافتہ اسٹیون وائن برگ
نوبیل انعام یافتہ اسٹیون وائن برگ خلا میں انسان کو بھیجنے کے عمل کو ایک بہت بڑی رقم کا زیاں قرار دیتے ہیں۔ اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ” جتنی رقم سے مریخ کے مخصوص حصوں پر چند انسانوں کو بھیجا جائے گا۔ اتنی ہی رقم کے ذریعے درجنوں ربورٹس کو کئی مقامات پر بھیجا جا سکتا ہے۔ انسانوں کو خلا میں بھیجنے کی سب سے بڑی وجہ عوام کو خلائی پروگرام کے اخراجات پر مطمئن کرنا ہے۔
نیل ڈی گراس ٹائی سن
نیل ڈی گراس ٹائی سن اس حوالے سے فارن افیئرز میں لکھتے ہیں۔ کہ چین کے تازہ ترین خلائی دعوے امریکہ کیلئے ایک اور سپتک لمحہ پیدا کر سکتے ہیں۔ جس سے امریکہ کئی دہائیوں بعد ایک بار پھر اپنے خلائی پروگرام کو 1960ء کی دہائی کی رفتار تک پہنچا سکتا ہے۔“
اس کے علاوہ خلا باز نوجوان نسل کو سائنسدان بننے اور خلائی سیاحت کی جانب راغب کرتے ہیں۔ لیکن اس بات کا کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں کہ اگر انسانی خلابازی نہ کی جائے تو مستقبل کے سائنسدان حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ کیونکہ کچھ ہی دہائیاں قبل جب خلائی پروگراموں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اسوقت بھی بچے سائنسدان بننے کی خواہش رکھتے تھے۔ جیسے ڈاکٹر عبدالسلام کے بچپن میں کوئی خلائی پروگرام نہیں تھا لیکن وہ پھر بھی سائنس دان بنے۔
بین الاقوامی سمندری اسٹیشن "سی آربر”
سمندروں کی مثال ہی لے لیجئے۔ جن کے بارے میں ہم چاند کے تاریک حصوں سے بھی کم معلومات رکھتے ہیں۔ سمندروں کی تہہ کے نوے فیصد حصے کی تو ابھی نقشہ کشی ہی نہیں کی گئی ہے۔ ایک طرف ہم کئی دہائیوں پہلے چاند کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب سمندروں کی تہہ تک جانے کیلئے ابھی ٹیکنا لوجی صرف تیار ہو رہی ہے۔
مثلا سمندر کی تہہ میں، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی طرح بین الاقوامی سمندری اسٹیشن، جسے ” سی آربر” کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بھی تیاری کے مراحل میں ہے۔ جبکہ سمندر ہمارے ماحول کا حصہ ہیں۔ جو چاند یا مریخ سے کہیں زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن ابھی ہم یہ ہی نہیں جان پائے کہ ہم کس طرح سمندروں کے ماحول کو گرم کرنے کے بجائے ٹھنڈا کر سکتے ہیں۔
سمندری حیات اور ادویات
سمندری حیات کے ذریعے بھی کئی طرح کی ادویہ تیار کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً سکیٹ” یا "اے فش” کی آنکھوں کا مطالعہ کرنے سے اندھے پن کے علاج میں بہت مدد ملی ہے۔ گھوڑا مچھلی کا مطالعہ بیکٹیریا ٹیسٹ کیلئے مفید ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح "سی یور چر“ کے مطالعے سے ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے بچے کے پیدائشی نظام کو سمجھنے اور وضع کرنے میں مدد ملی ہے۔
ٹوڈ مچھلی کے مرکزی اعصابی نظام کو دوبارہ سے پیدا کر لینے کی صلاحیت کے حوالے سے نیورو سائنٹسٹ بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ سمندری ساگ سے تیار کی گئی دوا” eribulin“ سینے ، چھوٹے پیشاب اور کولون کے کینسر کے علاج میں فائدہ مند ہے۔
عالمی سطح پر پانی کی کمی
عالمی سطح پر پانی کی کمی کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس وقت نمک رہائی کے سستے اور بہتر طریقوں کی اشد ضرورت ہے۔ 2025ء تک ایک ارب 80 کروڑ افراد پانی کی شدید کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جبکہ 2050ء تک 3 ارب 90 کروڑ افراد پانی کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ایک تہائی سے زائد آبادی اگلے 40 سال میں پانی کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہوگی۔ کیا یہ صورتحال انتہائی خوفناک اور پوری توجہ کی متقاضی نہیں؟
سمندروں سے ایندھن اور مفید بیکٹیریاز کی پیدائش
اگر اس کے باوجود بھی آپ کا دل سمندروں کے مطالعے کی جانب راغب نہیں ہوتا تو دوسرے پہلو پر غور کیجئے۔ ایک ایسا بیکٹیریا ایجاد کرنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ جو ہمارے ماحول کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کھا جائے تاکہ ہمارا ماحول پہلے جیسا متعدل ہو جائے۔ یا سمندری اجسام سے ایسا ایندھن حاصل کرنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ جس سے نہ صرف گاڑیوں اور طیاروں کو چلایا جا سکے۔ بلکہ موجودہ رکازی ایندھن استعمال کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔
انسانوں کو خلا میں بھیجنے کے حمایتی دعوا کرتے ہیں کہ خلا میں جانے سے کئی ایسی ایجادات سامنے آئی ہیں جن کی بدولت انسانوں کی زندگی میں بہت بہتری آئی ہے ۔ ٹائی سن، امریکی صدر براک اوبامہ کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔ کہ "اپالومشن کی وجہ سے ایسی ٹیکنا لوجی سامنے آئی جس نے ڈائیلسز مشینوں اور پانی کی صفائی کے نظاموں کو بہتر کرنے میں مدد دی ہے۔
ایسے حساسیے ایجاد ہوئے جن کی بدولت خطر ناک گیسوں کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ ایسے تعمیراتی سامان بنائے گئے جو توانائی کی بچت کرتے ہیں۔ آگ سے مزاحمت کرنے والا کپڑا ایجاد ہوا۔ جسے آج فوجی اور آگ بجھانے والا عملہ استعمال کرتا ہے۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ "ڈیجیٹل امچنگ، دل میں نصب ہونے والے پیس میکر، ہوائی جہازوں کیلئے تصادم سے بچانے والا نظام ایجاد ہوا۔ اس کے علاوہ انتہائی درستگی سے آنکھ کی جراحی کرنے والا لیسک نظام بھی تیار ہوا اور گلوبل پوزیشنگ نظام وضع کیا گیا۔”
خلائی ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری
یقیناً خلا کا ماحول، زمین کے ماحول سے بہت مختلف ہے جس کی وجہ سے یہ ایجادات ہوئیں۔ لیکن یہ تو سوچئے کہ یہ خلائی ٹیکنالوجی کا بہت ہی کم حصہ ہے جسے ہم زمینی ماحول میں استعمال کر کے اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکے ہیں۔ جبکہ بہت ساری ایسی ٹیکنالوجی، آلات اور مادے ہیں جو صرف خلا میں کشش ثقل سے آزادی کے ماحول ہی کیلئے بنائے گئے ہیں۔ اور جنہیں ہم یہاں زمین پر استعمال نہیں کر سکتے۔ ذرا سوچئے کہ اگر یہی توجہ اور محنت سمندروں پر کی جاتی تو اس سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں ایجادات، ادویہ اور ٹیکنا لوجی سامنے آچکی ہوتی۔ جسے ہم زمین پر استعمال کرنے کے قابل ہوتے۔
جامعہ جارج واشنگٹن کے سائنس، ٹیکنالوجی، ایجادات اور انٹر پرینیور شپ کے پروفیسر ایلائیس کرایا نیس کہتے ہیں۔ حکومتی اداروں (خصوصا خلا سے وابستہ ) کو ہر وقت اپنی موجودگی کی وجہ ثابت کرنا پڑتی ہے۔ انہیں ثابت کرنا پڑتا ہے کہ جن جگہوں پر وہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، ان کا خلا کے علاوہ دیگر جگہوں پر بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ اور اسی وجہ سے وہ بعض اوقات اپنی ایجادات اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ بہت سی مصنوعات مثلاً ٹینگ ، ویلکرو اور ٹیفلون جنہیں عام طور پر خلائی ٹیکنالوجی کی مرہون منت قرار دیا جاتا ہے۔ اصل میں خلائی پروگرام سے وجود میں نہیں آئیں، بلکہ ان کا خلائی منصوبوں میں استعمال ہوا ہے۔
دوسرے سیاروں پر زندگی
خلائی منصوبوں کی اہمیت بیان کرنے والے حضرات ہر چند ماہ بعد یہ خوش خبری سناتے رہتے ہیں کہ فلاں سیارے میں پانی یا اس کے اجزاء پائے گئے ہیں۔ جہاں پر اب زندگی پائے جانے کے امکانات ہیں۔ راقم کو اکثر حیرانی ہوتی ہے کہ جولوگ ان خبروں کو ذوق و شوق اور دلچسپی سے سنتے ہیں۔ کیا وہ واقعی ان سے کسی نئی تہذیب کی دریافت کی توقع رکھتے ہیں۔ جو کہ اگر چین جیسی ہو تو کیا تب بھی ہم اس کے ساتھ اتحاد بنا پائیں گے۔
(یادر ہے کہ اس مضمون کے مصنف ایک امریکی ہیں۔ مترجم)
سائنسدان دوسرے سیاروں پر جس زندگی کی تلاش کر رہے ہیں۔ وہ نباتاتی شکل میں کسی بھی مخلوط مادے میں ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی اتنی بڑی وجہ نہیں کہ جس پر عوام کے اربوں ڈالر لگا دیئے جائیں۔ جبکہ سمندروں کی شکل میں ہمارے پاس خلا سے کہیں زیادہ اور فائدہ مند ثابت ہونے والے مقامات موجود ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ مریخ پر انسان کو بھیجنے کے حوالے سے زیادہ شور و غوغامت مچائیے۔ مریخ کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا۔ جبکہ سمندروں کی طرف توجہ سے پہلو تہی کر کے ہم آنے والے چند ہی سالوں میں بڑی مشکلات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ ہم مریخ پر روبوٹک مشن بھیج کر، ایک بہت بڑی رقم یہیں زمین پر ایک ایسی تلاش و سیاحت کیلئے خرچ کر سکتے ہیں۔ جس کی شروعات آپ کے نزدیک ترین ساحل سمندر سے بھی ہو سکتی ہے۔
مترجم: دانش علی انجم ؛ ماخذ :- بی این این (گلوبل سائنس کی یادگار)