مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایلن ٹیورنگ جیسا ماہر تا حال پیدا نہیں ہوا۔ کمپیوٹر کی تاریخ کے اس مشہور سائنسدان اور موجد نے اپنی 41 سالہ مختصر زندگی میں اتنا کچھ کر لیا کہ جتنا کئی تحقیقی ٹیمیں اپنی پوری مدت کے دوران بھی نہیں کر پاتیں۔
ذہین کمپیوٹر
دنیا کی نظروں نے مئی 1997ء میں رونما ہونے والا وہ ناقابل یقین منظر پھٹی پھٹی اور استعجاب بھری نظروں سے دیکھا۔ جب IBM کے ایک شطرنجی کمپیوٹر Deep Blue نے چھ بازیوں پر مشتمل شطرنجی مقابلے میں دنیا کے سب سے ماہر شاطر Gary Kasporov کو شکست دے دی۔
شطرنج جیسے نہایت مشکل دماغی کھیل میں مشین کے ہاتھوں انسان کی شکست ایک ایسا واقعہ تھا جس نے یہ ثابت ضرور کر دیا کہ ایک بے جان ، بے روح اور نا سمجھ مشین نے مشینی مجبوریوں کی سرحد کو عبور کر کے انسان اور اس کی ذہانت کی مملکت میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ گویا اب انسان کو اپنی انسانیت اور حساسیت کی حدوں کا نئے سرے سے تعین کرنا پڑے گا۔
آئی بی ایم کے تیار کردہ اس سپر کمپیوٹر ڈیپ بلیو (Deep Blue) کے مقابل شطر نج کے عالمی چمپین، گیری کیسیاروف کی شکست کے ساتھ ہی ساری دنیا میں مصنوعی ذہانت کے ڈنکے بجنے لگے۔ کمپیوٹر سائنس کے ماہرین یہ امید ظاہر کرنے لگے کہ وہ دن دور نہیں جب کمپیوٹر میں” پروگرام کی گئی ذہانت (جسے مصنوعی ذہانت” بھی کہتے ہیں۔)، انسانی ذہانت کے ہم پلہ ہو جائے گی۔
ایلن ٹیورنگ Alan Turing
دوسری جانب سماجیات اور فلسفے والوں نے متصورہ قدرتی ذہانت کے مدمقابل مصنوعی ذہانت کو بنیاد بناتے ہوئے انسانی مستقبل کے بارے میں خدشات پیش کرنا شروع کر دیئے۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں ساری توقعات اور سارے خدشات اپنی جگہ۔ لیکن یہ قصہ ایک شہرہ آفاق برطانوی ریاضی داں، ایلن ٹیورنگ ( Alan Turing) کے بغیر کبھی مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہیں بلاشبہ مصنوعی ذہانت کا بانی کہا جا سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایلن ٹیورنگ جیسا ماہر تا حال پیدا نہیں ہوا۔ ٹیورنگ ٹیسٹ اور ٹیورنگ مشین کے علاوہ برقیاتی کمپیوٹر کی ایجاد میں بھی ایلن ٹیورنگ کا بہت سا عمل دخل ہے۔ کمپیوٹر کی تاریخ کے اس مشہور سائنسدان اور موجد نے اپنی 41 سالہ مختصر زندگی میں اتنا کچھ کر لیا۔ کہ جتنا کئی تحقیقی ٹیمیں اپنی پوری مدت کے دوران بھی نہیں کر پاتیں۔
ایلن ٹیورنگ کا مختصر تعارف
ٹیورنگ (پورا نام ایلن میتھی سن ٹیورنگ ) 23 جون 1912ء کے روز لندن شہر میں پیدا ہوئے۔ ایلن ٹیورنگ کے والد، جولیس میتھی سن ٹیورنگ، برطانیہ کے ایک قدیم نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ہندوستانی سول سروس میں افسر تھے۔ ایلن کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کے والدین نے ایلن ٹیورنگ اور اُن کے بھائی جان ٹیورنگ کی پرورش ایک فوجی خاندان کے سپرد کردی۔ اور خود اپنی نوکری کے سلسلے میں واپس ہندوستان روانہ ہو گئے۔ ان کی خواہش تھی کہ برطانیہ کے نواب خاندان کے بچوں کی تربیت، ہندوستان جیسے جاہل اور پسماندہ ملک سے دور ہو۔
چھوٹی عمر ہی سے ایلن نے غیر معمولی ذہانت کے آثار دکھانے شروع کر دیئے۔ ایلن کے والدین نے چھ سال کی عمر میں انہیں اسکول داخل کروایا۔ جہاں ہیڈ مسٹریس اور دیگر اساتذہ نے بھی اس بچے میں انتہائی قابلیت بھانپ لی۔ 13 سال کی عمر میں انہیں ہائی اسکول داخل کروایا گیا، جو اُن کی رہائش گاہ سے بہت دور تھا۔ نئے اسکول میں ایلن کے پہلے دن ، پورے برطانیہ میں پہیہ جام ہڑتال تھی۔ لیکن وہ اپنے اسکول جانے کیلئے اس قدر سنجیدہ تھے۔ کہ اس عمر میں کسی ساتھی کے بغیر 97 کلو میٹر سے کچھ زائد کا سفر اپنی سائیکل پر طے کر کے اگلے روز اسکول پہنچ گئے۔
ایلن ٹیورنگ کی تعلیم
اسکول میں ایلن کی دلچسپی کا مرکز ریاضی اور سائنس کے مضامین تھے۔ جبکہ اسکول کے اساتذہ کا زور تدریس گرامر، ادب اور تاریخ جیسے مضامین پر زیادہ ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے ان کے والد کو خط میں لکھا کہ ایلن کی توجہ نا مناسب حد تک ریاضی اور سائنس کی جانب رہتی ہے۔ جبکہ پبلک اسکول کا طالب علم ہونے کے ناتے اسے دیگر مضامین پر زیادہ وقت صرف کرنا چاہئے۔ اس تنبیہ کے باوجود، ایلن کی دلچپسی ریاضی میں بدستور قائم رہی۔
14 سالہ عمر میں ایلن ، کیلکیولس کی تعلیم حاصل کئے بغیر ہی اپنے دور کی ریاضی کے پیچیدہ مسائل حل کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔ اسی اسکول میں ایلن کی دوستی کرسٹوفر میلکم سے ہوئی۔ کرسٹوفر چند سال بعد ہی ٹی بی کے مرض سے وفات پا گیا۔ اس کی موت نے ایلن پر اتنا گہرا اثر چھوڑا کہ وہ مذہب سے کنارہ کش ہو کر لامذہب ہو گئے۔
ٹیورنگ مشین
اسکول کے بعد ایلن نے کچھ عرصہ کنگز کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اور ریاضی میں نمایاں کامیابی کے ساتھ کالج سے رخصت ہوئے۔ 22 سال کی کم عمر ہی میں انہیں ریاضی میں خدمات کی وجہ سے کالج کا فیلو منتخب کر لیا گیا۔ 1931ء میں ایلن نے مشہور ریاضی داں اور فلسفی، کرٹ گوڈیل کے ریاضیاتی کام کو توسیع دیتے ہوئے ایک ایسی مشین کو نظری طور پر ثابت کیا جو ریاضی سے متعلق کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی قابلیت رکھتی ہو۔
اسے ٹیورنگ مشین” کا نام دیا گیا۔ کمپیوٹر سائنس میں آج بھی ٹیورنگ مشینوں کے پس پشت کار فرما فلسفے اور طریقہ ہائے کار کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کیونکہ برقیاتی کمپیوٹر در حقیقت ٹیورنگ مشین ہی کی جدید عملی شکل ہے۔
رمز نگاری (cryptography)
1936ء سے 1938ء کا درمیانی عرصہ ٹیورنگ نے پرنسٹن یونیورسٹی میں گزارا۔ جہاں سے انہوں نے ریاضی کے علاوہ رمزنگاری (cryptography) کی تعلیم بھی حاصل کی۔ (یاد رہے کہ رمزنگاری ان اصولوں کی سائنس کا نام ہے۔ جن کے ذریعے معلومات کو سادہ شکل سے ایک ایسی شکل میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ جس میں انہیں پڑھنا، ان اصولوں سے ناواقف افراد کیلئے ناممکن ہوتا ہے۔)۔ 1938ء میں ایلن نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کر کے تعلیم کو خیر باد کہا۔
جنگ عظیم دوم
ایلن کی تعلیم مکمل ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی جنگ عظیم دوم چھڑ گئی۔ جنگ کے دوران جرمنی کی افواج کے رمزیہ پیغاموں کا (coded messages) مطلب سمجھنے کیلئے برطانیہ نے اپنا "ضد رمزیاتی مرکز ” بلیچلی پارک میں قائم کیا۔ جہاں جرمن افواج کے خفیہ پیغاموں کا حقیقی مفہوم سمجھنے کیلئے رمز نگاری کے ماہرین اکٹھے کئے گئے۔ ان ماہرین میں ایلن بھی شامل تھے۔ یہ کام غیر معمولی مہارت اور ذہانت کا تھا اور ایلن میں یہ خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں۔
1939ء کی وارسا ملاقات میں پولینڈ کے رمز نگاروں نے برطانوی ماہرین کو جرمن افواج کے زیر استعمال رمز نگاری کیلئے استعمال ہونے والی مشین کا نقشہ پیش کیا۔ اور ان کے پیغاموں کو سمجھنے کا طریقہ سکھایا۔ لیکن یہ طریقہ بہت پیچیدہ اور طویل تھا۔ اس میں غلطی کے امکانات بھی بہت زیادہ تھے۔ ایلن نے اپنے ساتھی، ناکس کے ساتھ ایک ایسی مشین بنانے کی کوششیں شروع کر دیں جس کے ذریعے ان پیغامات کے رموز کو خود کار طریقے سے توڑ کر سمجھا جاسکتا تھا۔
کوڈ بریکنگ مشین "بومب”
اس مشین کو "بومب کا نام دیا گیا۔ ایلن نے رموز توڑنے (code breaking)کے طریقوں کے تفصیلی جائزے پر مشتمل دو مقالے لکھے جنہیں رپورٹ ” کا نام دیا گیا۔ یہ مقالے اس قدر حساس نوعیت کے اور اپنے دور سے اتنے آگے کے تھے کہ برطانوی حکومت نے انہیں خفیہ ترین دستاویزات (ٹاپ سیکرٹ ڈاکیومنٹس) میں شامل کر لیا۔ 70 سال بعد، 2012ء میں اب حکومت برطانیہ نے رپورٹ کی معلومات تک عوامی رسائی ممکن بنائی ہے۔
بومب کے بعد ایلن نے جنگ عظیم کے دوران ہی جرمن بحری افواج کے خفیہ پیغاموں کو سمجھنے کے لئے ایک اور مشین کے ماڈل کا نظری فریم ورک تشکیل دیا۔ جس کی بنیاد پر بننے والی مشین کے ذریعے جرمن بحری افواج کے خفیہ پیغامات کو سمجھنا ممکن ہو گیا۔
جنگ عظیم کے خاتمے سے کچھ عرصہ قبل ایلن نے اپنے اصولوں کی بنیاد پر کام کرنے والا رمزیہ پیغام تشکیل دینے کی مشین کا نظری ماڈل بھی پیش کیا۔ اسے استعمال کرتے ہوئے بننے والی مشین انہوں نے حکومتی نمائندوں کے سامنے پیش کی اور اس کی کارکردگی کا نمونہ پیش کیا۔ لیکن حکومت کی اس منصوبے میں دلچسپی نہیں تھی۔ اس لئے یہ منصوبہ حکومتی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ یہ مشین انہوں نے بیل لیبارٹری (امریکہ) کے تعاون سے تیار کی تھی۔ اور اس منصوبے کو ڈی لائیلا کا نام دیا گیا تھا۔
اولین برقیاتی کمپیوٹر
1947ء میں اولین برقیاتی کمپیوٹر تیار ہو چکا تھا۔ اگر چہ اس کی تشکیل میں ایلن ٹیورنگ کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ لیکن بعد میں ٹیورنگ نے اولین نمونوں کے کمپیوٹروں کے لئے متعدد سافٹ ویئر لکھے۔ ابتدائی کمپیوٹروں میں کوئی ہارڈ ڈسک وغیر ہ نہیں ہوتی تھی۔ اور انہیں بیچ کارڈ کے ذریعے ہدایات دی جاتی تھیں جو مختصر برقیاتی سرکٹ کی صورت میں ہوتے تھے۔
ٹیورنگ ٹیسٹ
1950ء میں ٹیورنگ نے پہلی مرتبہ اپنے مقالے” Computing Machinery And Intelligence” میں مصنوعی ذہانت کے امکان پر روشنی ڈالی۔ اسی مقالے میں ٹیورنگ نے کسی مشین کے ذہین ہونے یا نہ ہونے کا ایک معیار پیش کیا جسے بعد میں "ٹیورنگ ٹیسٹ” کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔
آج بھی، جبکہ مصنوعی ذہانت کے متعدد معیارات متعارف ہوچکے ہیں۔ ٹیورنگ ٹیسٹ کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ قائم ہے۔ اس مقالے میں ٹیورنگ نے تجویز پیش کی کہ بجائے کسی سافٹ ویئر کمپیوٹر کو کسی بالغ انسانی ذہن کی طرز پر بنانے کے۔ اسے کسی بچے کے ذہن کے نمونے پر تشکیل دیا جائے۔ جس میں رفتہ رفتہ بہتری لاتے ہوئے اسے مزید پیچیدہ معاملات میں ذہین طرز عمل ظاہر کرنے کے قابل بنایا جائے۔
مصنوعی ذہانت کا یہ ارتقائی ماڈل ، دور جدید میں کثرت سے استعمال ہو رہا ہے۔ جہاں ذہین سافٹ ویئر تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے طرز عمل کو رفتہ رفتہ ذہین تر بناتے جاتے ہیں۔
سافٹ ویئر
1948ء میں ٹیورنگ نے اپنے ایک سابقہ ساتھی کے ساتھ شطرنج کا ایک سافٹ ویئر، ایک ایسے کمپیوٹر کے لئے بنانا شروع کیا جو اب تک ایجاد ہی نہ ہوا تھا۔ جب 1952 ء تک ایسا کمپیوٹر ایجاد نہ ہو سکا جو اتنے پیچیدہ سافٹ ویئر کی ہدایات پر عمل کر سکے، تو ٹیورنگ نے بذات خود کمپیوٹر کا کردار ادا کر کے اس سافٹ ویئر کے اصولوں کی بنیاد پر شطرنج کی بازی کھیلی۔ اس کھیل کی تمام چالوں کو ریکارڈ کیا جاتا رہا۔
اس سافٹ ویئر کا طرز عمل اتنا پیچیدہ تھا کہ ہر چال سے پہلے ٹورنگ کو بطور کمپیوٹر آدھا گھنٹا سوچنا پڑتا تھا۔ اگر چہ اس کھیل میں جیت انسان (ٹیورنگ کے دوست) کی ہوئی۔ مگر کہا جاتا ہے کہ اسی سافٹ ویئر کے اصولوں کی بنیاد پر ٹیورنگ ایک بازی، ایک اور مقابل سے جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ 1948ء ہی میں ٹیورنگ نے کمپیوٹر پر قالبوں (matrices) کے پیچیدہ مسائل حل کرنے کیلئے ایک طریقہ پیش کیا۔ جو آج بھی اس کام کیلئے مستعمل ہے۔
1954-1952ء ایلن نے جانداروں کی نشوونما کا ریاضیاتی اصولوں کی روشنی میں جائزہ لیا۔ ٹیورنگ در حقیقت یہ جانا چاہتے تھے۔ کہ کیسے ایک سادہ جاندار ایک پیچیدہ جسم میں بتدریج تبدیل ہو جاتا ہے۔ شاید ایلن اسی کی بنیاد پر بتدریج پیچیدگی اور ذہانت میں ترقی کرنے والا ایک سافٹ ویئر بنانا چاہتے تھے۔ شومئی قسمت، ٹیورنگ کی یہ تحقیق مکمل نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ ٹیورنگ کے بعض ذاتی عادات و خصائل تھے۔
ہم جنس پرستی
ایلن شروع سے ہی ہم جنس پرستی کی جانب راغب تھے۔ 1952ء کے اوائل میں ٹیورنگ کی ملاقات ایک اُنیس سالہ لڑکے، آرٹلہ مرے سے ہوئی۔ ان کے تعلقات جلد ہی گہرے ہوتے گئے۔ لیکن بعد ازاں اسی لڑکے نے اپنے ایک دوست کو ایلن کے گھر نقب زنی میں مدد دی۔
ایلن نے پولیس رپورٹ میں اپنے اور مرے کے تعلقات کا اقرار کیا۔ جب تک برطانیہ میں ہم جنس پرستی کو قانونی سر پرستی حاصل نہ تھی۔ عدالتی کارروائی کے دوران ایلن کو قید اور مردانہ ہارمون کے خاتمے میں سے ایک کےانتخاب کا موقع دیا گیا۔ ایلن نے قید کی بجائے دوسرے راستے کو ترجیح دی۔
ایک سال تک انہیں مردانہ ہارمون ختم کرنے والے کیمیائی مرکبات کے ٹیکے لگائے جاتے رہے۔ جن کی وجہ سے ان کے کردار اور جسمانی ساخت میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، عدالت سے سزا یافتہ مجرم ہونے کی وجہ سے، ایلن کے حساس حکومتی عمارتوں میں داخلے پر بھی پابندی لگ گئی۔ جس کے باعث ان کا تحقیقی کام رک گیا۔
ایلن ٹیورنگ کی موت
8 جون 1954ء کی صبح، ایلن کے گھر کی صفائی پر مامور خادمہ نے انہیں مردہ پایا۔ ان کے قریب ہی ایک آدھا کھایا ہوا سیب بھی پڑا تھا۔ پوسٹ مارٹم نتیجے کے مطابق ایلن کی موت سائنائیڈ زہر کھانے سے واقع ہوئی تھی۔ اگر چہ سیب کا کیمیائی تجزیہ نہیں کیا گیا لیکن یہ مفروضہ پیش کیا گیا کہ ایلن نے خود کشی کر لی تھی۔
ٹیورنگ کی وصیت کے مطابق ان کی لاش کو جلا کر اس کی راکھ زمین پر بکھیر دی گئی تھی۔ اگر چہ ان کی یاد میں ایک قبر تعمیر کی گئی ہے لیکن اس میں ایلن کا جسم موجود نہیں۔
2009ء کے دوران برطانیہ میں ایلن کے حق میں ایک تحریک چلائی گئی۔ اس تحریک کے تحت برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایلن پر چلائے گئے مقدمے پر سزا دینے کیلئے اُن سے معافی مانگے۔
ہزاروں لوگوں کے دستخطوں کے ساتھ پیش کی گئی قرارداد کے نتیجے میں آخر کار ان دنوں کے برطانوی وزیر اعظم ، گورڈن براؤن نے سرکاری بیان جاری کیا جس میں ایلن ٹیورنگ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے خلاف عدالتی فیصلے پر پچپن سال بعد معافی مانگی گئی تھی۔